حکم اذاں

حکم اذاں17%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61525 / ڈاؤنلوڈ: 6827
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

جمع بین الصلاتین

جن باتوں پر شیعوں  پر اعتراض کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے  ہیں ۔ اہل سنت جب اس سلسلے میں شیعوں  پر اعتراض کرتے ہیں تو عموما اس طرح کی تصویر کھینچتے ہیں گویا ہو خود نماز کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " مومنین پر نماز وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے ۔

اہل سنت اکثر شیعوں کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ شیعہ نماز کی پروا نہیں کرتے اور اس طرح خدا ورسول ص کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ۔

اس سے پہلے کہ ہم شیعوں کے حق میں یا ان کے خلاف کوئی فیصلہ کریں ، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس موضوع کا ہر پہلو سے جائزہ لیں ،  طرفین  کے اقوال اور دلائل  سنیں اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ جلد بازی میں کسی کسی کے خلاف کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کربیٹھیں ۔

اہل سنت کا اس  پر تو اتفاق ہے کہ ۹ ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جائیں ، اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھی جائیں ،اسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ۔ یہاں تک تو شیعہ  سنی کیا تمام ہی فرقوں کا اتفاق ہے ۔

شیعہ سنی اختلاف اس میں ہے کہ کیا ظہر اور عصر کی نمازیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں پورے سال سفر کے عذر کے بغیر بھی جمع کرنی جائز ہیں ؟ حنفی حضرات صریح نصوص کے باوجود نمازیں جمع کرنے کی اجازت کے قائل  نہیں حتی کہ سفر کی حالت  میں بھی نمازیں اکٹھی پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اس طرح حنفیوں کاطرز عمل اس اجماع امت کے خلاف ہےجس پر شیعوں اور سنیوں

دونوں کا اتفاق ہے ۔

۲۸۱

لیکن مالکی ، شافعی اور حنبلی سفر کی حالت میں تو دو فرض نمازوں کے اکٹھا پڑھ لینے کے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن ان میں ان میں اس پر اختلاف ہے کہ کیا خوف ،بیماری بارش وغیرہ کے عذر  کی وجہ سے بھی دونماز وں کا اکٹھا پڑھ لینا جائز ہے ۔شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جمع بین الصلاتین  مصطلقا جائز ہے اور اس کے لیے سفر ، بیماری یا خوف وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ۔ وہ اس سلسلے میں ائمہ اہل بیت کی ان روایات پر عمل کرتے ہیں جو شیعہ کتابوں میں موجود ہیں ۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم شیعہ موقف کو شک کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ جب بھی اہل سنت ان کے طریقے کے خلاف کوئی دلیل پیش کرتے ہیں وہ اسے یہ کہہ کر  رد کردیتے ہیں کہ انھیں تو ائمہ اہل بیت نے خود تعلیم دی ہے اور ان کی تمام مشکلات  کو حل کیا ہے ۔ وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ان ائمہ معصومین کی پیروی کرتے ہیں جو قرآن وسنت کا پورا علم رکھے ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ  میں نے پہلی مرتبہ جو ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں وہ  شہید محمد باقر صدر کی امامت میں پڑھی تھیں ۔ ورنہ اس سے قبل میں نجف میں بھی ظہر اور عصر کی نمازیں الگ الگ ہی پڑھا کرتاتھا ۔ آخر وہ مبارک دن بھی آگیا جب میں آیت اللہ صدر کے ساتھ ان کے گھر سے اس مسجد میں گیا جہاں وہ اپنے مقلدین کو نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ ان کے مقلدین نے میرے لیے احتراما عین ان کے پیچھے جگہ چھوڑدی ۔ جب ظہر کی نماز ختم ہوگئی اور عصر کی جماعت کھڑی ہوئی تو میری جی نے کہا اب یہاں سے نکل چلو ۔ لیکن میں دووجہ سے ٹھہرارہا ۔ ایک تو سید صدر کی ہیبت تھی ۔جس خشوع سے وہ نماز پڑھا رہے تھے ،میرا دل چاہتا تھا کہ وہ نماز پڑھا تے ہی رہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جس جگہ میں تھا وہ جگہ اور سب نمازیوں کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھی ۔مجھے ایسا محسوس  ہورہاتھا جیسے کسی زبردست طاقت نے مجھے ان کے ساتھ باندھ دیا ہو ۔نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ ان سے سوالات  پوچھنے  کے لیے امنڈ پڑے  میں ان کے پیچھے بیٹھا ہوا لوگوں کےسوال اور ان کے جواب سنتا رہا ۔بعض سوال جواب

۲۸۲

بہت آہستہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آئے ۔لیکن مجھے شرم  آرہی تھی ۔میں ان  پر اور ۔زیادہ بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد وہ مجھے کھانا کھلانے کے لیے اپنے گھر لےگئے ۔ وہاں جاکر مجھے معلوم ہوا کہ اس دعوت کاخاص مہمان اور میر محفل میں ہی ہوں ۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے جمع بین الصلاتین کے بارے میں دریافت کیا ۔

آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے جواب دیا ۔ ہمارے یہاں ائمہ معصومین علیھم السلام سے بہت سی روایات ہیں کہ رسول اللہ ص نے یہ نماز پڑھی یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کیا اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا ۔ اوریہ نماز یں خوف یا سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ امت سے حرج دورکرنے کے لیے اکٹھی پڑھیں ۔

میں :- میں حرج کا مطلب نہیں سجمھا ۔قرآن شریف میں بھی ہے :

"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"

سید صدر :- اللہ سبحانہ کو ہر شے کا علم ہے ۔اسے معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں وہ چیزیں ہوںگی جنھیں ہمارے یہاں پبلک ڈیوٹیز کہا جاتا ہے پھر اس طرح کی سرکاری ملازمتیں : جیسے گارڈ ، پولیس ،  لویز ، فوج ،پبلک اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ،حتی کہ طلبہ اور اساتذہ بھی ۔ اگر دین ان سب کو پانچ متفرق اوقات میں نماز پڑھنے کا پابند کرے ، تویقینا ان کے لیے  تنگی اورپریشانی ہوگی ، اس لیے رسول اللہ ص کے پاس وحی آئی کہ وہ دو فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھا دیں  تاکہ نماز کے اوقات پانچ کے بجائے  تین ہوجائیں ،یہ صورت مسلمانوں کے لیے زیادہ سہل تھی اور اس میں کوئی حرج یعنی تنگی بھی نہیں ہے ۔ میں : لیکن سنت نبوی قرآن کو تو منسوخ نہیں کرسکتی ۔

سید صدر:- میں نے کب کہا کہ سنت نے قرآن کو منسوخ کردیا ۔لیکن اگر کسی چیز کو سمجھنے میں دقت ہو تو سنت قرآن کی تفسیر وتوضیح تو کرسکتی ہے ۔

میں :- اللہ سبحانہ کہتاہے کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

۲۸۳

كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اور مشسہور حدیث مین ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ کے پاس آئے اور آپ نے دن رات میں  پانچ وقت نماز پڑھی ۔ اسی پر ان نمازوں  کے نام ظہر ، عصر ، مغرب ،عشاء اور فجر رکھے گئے ۔

سید صدر :- :" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

کی تفسیر رسول اللہ نے دو طرح سے کی ہے ۔ الگ الگ نمازوں سے بھی اور جمع بین الصلاتین سے بھی ۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پانچ نمازیں پانچ مختلف  اوقات میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔اور تین  اوقات میں بھی جمع کی جاسکتی ہیں ۔ دونوں صورتوں میں وہ صحیح وقت پر ادا ہوںگی ۔

میں :- قبلہ ! میں سمجھا نہیں ۔ اللہ تعالی نے پھر" كِتَابًا مَّوْقُوتًا " کیوں کہا ہے ؟

سید صدر : (مسکراتے ہوئے ) آپ کا خیال ہے ، مسلمان حج میں وقت پرنماز نہیں پڑھتے ؟ کیا وہ اس وقت احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز کے لیے اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی نماز کے لیے رسول اللہ ص کی پیروی میں جمع ہوتے ہیں ۔

میں نے ذرا سوچ کر کہا : شاید عذر کی وجہ سے ہو حجاج تھا جاتے ہیں اس لیے اللہ نے اس موقع پر ان کے لیے کچھ سہولت کردی ۔

سید صدر:- یہاں بھی اللہ تعالی نے اس امت کے متاخرین  سے تنگی دورکردی اوردین کو آسان بنادیا ۔

میں :- آپ ابھی کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے  نبی کے پاس وحی بھیجی کہ دو وقت کی فرض نمازیں ایک وقت میں پڑھائیں تاکہ نمازوں کے وقت پانچ کے بجائے تین ہوجائیں ۔ تو یہ اللہ نے کس آیت میں کہا ہے ؟

سید صدر نے فورا جواب دیا : کون سی آیت میں اللہ تعالی نے اپنے رسول  کو حکم دیا ہے کہ وہ دونمازیں عرفات میں اور دومزدلفہ میں جمع کریں ، اور پانچ وقتوں کہ کس آیت میں ذکر ہے ؟

میں اس دفعہ خاموش ہوگیا ، کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ میں مطمئن ہوچکا تھا ۔

۲۸۴

سید صدر نے مزید کہا : اللہ تعالی اپنے نبی کو جووحی بھیجتا ہے ،ضروری نہیں کہ وہ قرآن میں ہی ہو اور وحی متلو ہی ہو :

" قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَداً "

آپ کہہ دیجیے کہ اگر سب سمندر میرے پروردگار کی باتون کے لکھنے کے لیے روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائیں گے مگر میرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی  اگر چہ ہم ایسا ہی سمندر اس کی مدد کے لیے آئیں ۔ (سورہ کہف ۔آیت ۱۰۹)

جسے ہم سنت نبوی کہتے ہیں ، وہ بھی وحی الہی ہی ہے ، اسی لیے اللہ سبحانہ نے کہا ہے :

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"

جس چیز کا رسول ص تمھیں حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ۔

باالفاظ دیگر ۔ جب رسول اللہ صحابہ کو کسی کام کا حکم دیتے تھے یا کسی کام سے منع کرتے تھے تو صحابہ کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ آپ  پر کوئی اعتراض  کرتے یا آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ کلام اللہ کی کوئی آیت پیش کریں ۔ وہ آپ کے حکم کی تعمیل  سمجھ کر کرتے تھے  کہ آپ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وحی الہی ہوتا ہے ۔

سید باقر صدرنے ایسی ایسی باتیں بتلائیں کہ میں حیران رہ گیا ۔اس سے پہلے میں ان حقائق سے ناواقف تھا ۔

میں نے جمع بین الصلاتین  کے موضوع سے متعلق ان سے مزیدپوچھا : قبلہ! کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان دونمازیں ضرورت کی صورت میں جمع کرلے ؟

"دو نمازوں کا جمع کرنا ہرحالت میں جائز ہے ، ضرورت ہو یانہ ہو "۔

۲۸۵

میں نے کہا : اس کے لیے آپکے پاس دلیل  کیا ہے؟

انھوں نےکہا : اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے مدینہ میں دو فرض نمازوں کو جمع کیا ہے اور اس وقت آپ سفر میں نہ تھے ۔ نہ کوئی خوف تھا نہ بارش ہورہی تھی اور نہ کوئی ضرورت تھی ، صرف ہم لوگوں سےتنگی رفع کرنے کے لیے آپ نے دونمازوں کو اکٹھا پڑھا ۔ اور یہ بات ہمارے یہاں ائمہ اطہار کے واسطے سے بھی ثابت ہے اورآپ کے یہاں ثابت ہے ۔

مجھے بہت تعجب ہوا : ہائیں ! ہمارے یہاں کیسے ثابت ہے ۔ میں نے آج تک نہیں سنا ! اورنہ میں نے اہل سنت والجماعت کو ایسا کرتے دیکھا ۔بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ اکر اذان  سے ایک منٹ پہلے بھی نماز پڑھ لی جائے تو نماز باطل ہے ،چہ جائیکہ  گھنٹوں پہلے عصر کی نماز ظہر کے ساتھ یا عشاء کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھ  لی جائے ۔ یہ بات بالکل  غلط معلوم ہوتی ہے ۔

آیت اللہ صدر  میری حیرت کو بھانپ گئے ۔ انھوں نے ایک طالب علم کو آہستہ سے کچھ کہا ۔ وہ اٹھ کر پلک جھپکتے میں دو کتابیں لےآیا ۔ معلوم ہوا کہ ایک صحیح بخاری ہے ،دوسری صحیح مسلم ۔آقائے صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ وہ مجھے جمع بین الفریضتین  سے متعلق  احادیث دکھائے ۔میں نے خود صحیح بخاری میں  پڑھا کہ رسول اللہ ص نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو اور اسی طرح مغرب اور عشاء  کی نمازوں کو جمع کیا ۔ صحیح مسلم میں تو بغیر خوف ، بغیر بارش اور بغیر سفر کے دونمازوں  کوجمع کرنے  کے بارے میں پوراایک باب ہے ۔

میں اپنے تعجب  اور حیرت  کو تو چھپا نہ سکا ۔مگر پھر بھی مجھے کچھ شک ہوا کہ شاید بخاری  اور مسلم جو ان کے پاس ہیں ان میں کچھ جعل سازی کی گئی ہے میں  نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ تیونس جاکر میں ان کتابوں کو پھر دیکھوں گا ۔

آیت اللہ سیدمحمد باقر صدر  رح  نے مجھ سے پوچھا : اب کہیے کیا خیال ہے ؟

میں نے کہا:آپ حق پر ہیں اورجو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں ۔ لیکن میں آپ سے ایک بات اور پوچھناچاہتاہوں ۔

۲۸۶

"فرمائیے " ، انھوں نے کہا ۔

میں نے کہا : کیا چاروں نمازوں کا جمع کرنا بھی جائز ہے ؟ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں ، جب رات کو کام پر سے گھر واپس آتے ہیں ، تو ظہر ،عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازین قضا پڑھ لیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا: یہ تو جائز نہیں ، البتہ مجبوری کی بات دوسری ہے کیونکہ مجبوری میں بہت سی باتیں جائز ہوجاتی ہیں ، ورنہ تو نماز کا وقت مقرر ہے" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا "

میں آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ رسول اللہ ص نے نمازیں الگ الگ  بھی پڑھی ہیں اور ملا کر بھی پڑھی ہیں اور اسی سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ نمازوں کے اوقات کون سے ہیں ۔

اس پر انھوں نےکہا : ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت مشترک ہے اور یہ وقت زوال آفتاب سے شروع ہوکر غروب آفتاب تک رہتا ہے ۔مغرب اور عشاء کا وقت بھی مشترک ہے جو غروب  آفتاب سے نصف شب تک رہتا ہے ۔ فجر کی نماز کا وقت الگ ہے جو طلوع فجر سے دن نکلنے تک ہے(۱) ۔ جو اس کے خلاف کرے گا ۔ وہ اس آیت کریمہ کی خلاف ورزی کرے گا کہ" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " اس لیے یہ ممکن  نہیں کہ ہم مثلا  صبح  کی نماز طلوع فجر نہیں ظہر اور عصر کی نماز زوال سے پہلے  یا غروب آفتاب کے بعد پڑھیں یا مغرب اورعشاء کی نمازیں غروب سےپہلے یا آدھی رات کے بعد پڑھیں ۔

میں نے آقائے صد ر کا شکرییہ ادا کیا ، گو مجھے ان کی باتوں سے پورا اطمینان ہوگیا تھا ، لیکن میں نے نمازوں کو جمع کرنا اس وقت شروع کیا جب میں تیونس  واپس آکر تحقیق اورمطالعہ میں پوری طرح مشغول ہوگیا اور میری آنکھیں

--------------------

(۱):-" أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ " (سورہ بنی اسرائیل ۔آیت ۷۸)۔(ناشر )

۲۸۷

کھل گئیں ۔

جمع بین الصلاتین کےبارے میں شہید صدر سے جو میری گفتگو رہی ، یہ اس کی داستان ہے اور یہ داستان میں نے دو وجہ سے بیان کی ہے :

ایک تویہ کہ میرے اہل سنت بھائیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ جو علما ء واقعی انبیاء کے وارث ہیں ان کا اخلاق کیسا  ہوتا ہے ۔

دوسرے یہ بھی احساس ہوجائے کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ ہماری حدیث کی معتبر  کتابوں میں کیا لکھا ہوا ہے ۔ ہم ایسی باتوں پر دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں جن کی صحت کے ہم خود قائل ہیں اور جن کو ہم  صحیح سنت نبوی تسلیم کرتےہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان باتوں کا  مذاق اڑاتے ہیں جن پر خود رسول اللہ ص نے عمل کیا تھا اور اس کے باوجود دعوی ہمارا یہ ہے کہ ہم اہل سنت ہیں :

میں پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتاہوں ۔ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں شیعوں کے اقوال کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوگا کیونکہ وہ اپنے  ہر عقیدے اور عمل کی سند ائمہ اہل بیت  ع سے لاتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ نسبت صحیح نہ ہو ۔ لیکن ہم اپنی صحاح میں تو شک نہیں کرسکتے  ، ان کی صحت تو ہمیں تسلیم ہے اوراگر ہم ان میں بھی شک کرنے لگے تو میں نہین کہہ سکتا کہ پھر ہمارے پاس دین میں سے کچھ باقی بچے گا بھی  کہ نہیں !

اس لیے تحقیق کرنے والے کے لیےضروری ہےکہ وہ انصاف سے کام لے اور تحقیق سے اس کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہو۔ اس طرح امید ہےک ہ اللہ تعالی ضرور صراط  مستقیم  کی طرف رہنمائی کرے گا ، اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اسے جنت النعیم میں داخل کرے گا ۔ اور یہ ہیں وہ روایات جو جمع بین الصلاتین کے بارے میں علمائے اہل سنت نے بیان کی ہیں ۔ ان کو پڑھ کر آپ کو یقین ہوجائے گا کہ جمع بین الصلاتین کوئی شیعہ بدعت نہیں ہے :

<> امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ

۲۸۸

رسول اللہ ص نےجب وہ مدینے میں مقیم تھے ،مسافر نہیں تھے  سات اورآٹھ  رکعتیں پڑھیں ۔(۱)

<>امام مالک نے موطاء میں ابن عباس  سے روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ :

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں  اکٹھی پڑھیں اور مغرب اور عشاء کی اکٹھی ۔(۲)

<>صحیح مسلم باب الجمع  بین الصلاۃ فی الحضر میں ابن عباس سے  روایت ہے کہ:

رسول اللہ ص نے بغیر خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور مغرب اورعشاء کی اکٹھی ۔

<>صحیح مسلم میں ابن عباس ہی سے  روایت ہے کہ  رسول اللہ ص نے مدینہ میں بغیر خوف اوربغیر بارش کے ظہر ،عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ رسول اللہ ص نے ایساکیوں کیا ؟ ابن عباس نے کہا : اپنی امت کو تنگی سے بچانے کے لیے ۔

<>اسی باب میں صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جمع بین الصلاتین کی سنت صحابہ میں مشہور تھی ۔ اور اس  پر صحابہ عمل بھی کرتے تھے ۔

<>صحیح مسلم کے اسی باب کی روایت ہے کہ :

ایک روز ابن عباس نے عصر کے بعد خطبہ دیا ۔ ابھی ان کا خطبہ جاری تھا کہ سورج ڈوب گیا ، ستارے نکل آئے ، لوگ بے چین ہو کر الصلاۃ ، الصلاۃ پکارنے لگے ۔ بنی تمیم میں سے

--------------------

(۱):- امام احمد بن حنبل مسند جلد ۱ صفحہ ۲۲۱

(۲):- امام مالک  موطاء ،شرح الحوالک جلد ۱ صفحہ ۱۶۰

۲۸۹

ایک گستاخ شخص الصلاۃ ،الصلاۃ کہتا ہوا ابن عباس تک پہنچ گیا ۔ ابن عباس نے کہا : تیری ماں مرے، تو مجھے سنت سکھاتا ہے ! میں نے رسول اللہ ص کو ظہر اور  عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھتے دیکھا ہے "۔

<>ایک اورروایت میں ہے کہ :

"ابن عباس نے اس شخص سے کہاں تیری ماں مرے ، تو ہمیں نماز سکھاتا ہے ۔ ہم رسول اللہ ص کے زمانے میں جمع الصلاتین کیا کرتے تھے "۔(۱)

<>باب وقت المغرب میں صحیح بخاری کی روایت ہے ،جابر بن زید کہتےہیں کہ ابن عباس کہتے تھے کہ

"رسول اللہ ص نے سات رکعتیں اکٹھی اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں "(۲)

<>اسی طرح بخاری نے باب وقت العصر میں روایت کی ہےکہ ابو امہ کہتے تھے :

"ہم نے عمر بن عبدالعزیز کےساتھ ظہر کی نماز پڑھی ،پھر ہم وہاں سے نکل کر انس بن مالک کے پاس پہنچے ۔دیکھا تو عصر  کی نماز پڑھ لی ؟ کہنے لگے عصر کی ، اور یہ رسول اللہ ص کی نماز ہے جو ہم رسول اللہ ص کے ساتھ پڑھا کرتے تھے "۔(۳)

اہل سنت کی صحاح کی احادیث کے اس مختصر  جائزے کے بعد ہم پوچھنا چاہیں گے کہ ان روایات کے ہوتے ہوئے اہل سنت آخر شیعوں کو برا بھلا کیوں

-----------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۱۵۱۔۱۵۲ باب الجمع بین الصلاتین

(۲):-صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۱۴۰ باب وقت المغرب

(۳):- صحیح بخاری جلد۱ صفحہ باب وقت العصر

۲۹۰

کہتے ہیں اور ان پرکیوں اعتراض کرتے ہیں ۔ہم پھر حسب عادت وہی بات کہیں گے کہ اہل سنت کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں اور ان باتوں پر اعتراض کرتے ہیں جن کی صحت کے خود قائل ہیں ۔ہمارے شہر قفصہ میں ایک دن امام صاحب نمازیوں کے درمیان کھڑے ہو کر ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہم پر لعن طعن کرتے ہوئے کہتے لگے : "تم نے دیکھا ان لوگوں نے کیا دین نکالا ہے ۔ ظہر کی نماز کے فورا بعد عصر کی نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ یہ دین محمدی نہیں ہے کوئی نیادین ہے ۔یہ قرآن کے خلاف کرتے ہیں ۔قرآن تو کہتا ہے :

" إِنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا " غرض امام صاحب نے کوئی ایسی گالی نہ چھوڑیں جو انھوں نے ان لوگوں کو نہ دی ہو جو نئے نئے شیعہ ہوئے تھے ۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جس نے شیعہ مذہب قبول کرلیا تھا ،ایک دن میرے پاس آیا اور بڑے رنج وافسوس کے ساتھ امام صاحب کی باتیں میرے سامنے دہرائیں ۔میں نے اسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم دیں اور اس سے کہا کہ امام صاحب کو جاکر بتاؤ کہ جمع بین الصلاتین درست ہے اور سنت نبوی ہے میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میں امام صاحب کے پاس جاؤں گا نہیں ، کیونکہ میں ان سےجھگڑنا نہیں چاہتا ، ایک دن  میں نے ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ سنجیدہ  بحث کرنی چاہی تھی مگر وہ گالیوں  پر اتر آئے اور غلط سلط الزامات لگانے لگے ۔ اس گفتگو میں اہم بات یہ تھی کہ میرے اس دوست نے ابھی تک ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی ترک  نہیں کی تھی ۔ جب نماز کے بعد امام صاحب حسب معمول درس کے لیے بیٹھے  ،میرے دوست نے بڑھ کر ان سے جمع بین الصلاتین کے متعلق سوال کیا ۔

امام صاحب نے کہا :یہ شیعوں کی نکالی ہوئی بدعت ہے !

میرے دوست نےکہا: لیکن یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ثابت ہے ۔

امام صاحب جھٹ سے بولے : بالکل غلط ۔میرے دوست نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم نکال کر انھیں دیں۔ انھوں نے باب الجمع بین الصلاتین پڑھا ۔ میرا دوست کہتا ہے کہ جب انھیں ان نمازیوں کے سامنے

۲۹۱

جو ان کا درس سنا کرتے تھے حقیقت معلوم ہوئی تو وہ چکرائے اور انھوں نے کتابیں بند کرکے مجھےواپس کردیں اورکہنے لگے کہ "یہ رسول اللہ ص کی خصوصیت تھی جب تم رسول اللہ ص کے درجے پر پہنچ جاؤگے  اس وقت اس طرح نماز پڑھنا " ۔میرا دوست سمجھ گیا یہ جاہل متعصب شخص ہے اور اس دن سے میرے دوست نے ان کے پیچھے نماز  پڑھنی چھوڑدی ۔

قارئین کرام! دیکھیے  تعصب کیسے آنکھوں کو اندھا کردیتا ہے اور دلوں پر غلاف چڑھا دیتا ہے ، پھر حق سجھائی نہیں دیتا۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ"عنز ۃولو طارت" تھی تو بکری ہی ،اڑگئی تو کیا ہوا ۔(۱)

میں نے اپنے دوست سے کہا کہ تم امام صاحب کے پاس ایک دفعہ پھر جاکر انھیں بتلاؤ کہ ابن عباس اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح انس مالک اور دوسرے صحابہ بھی پڑھتے تھے، تو پھر اس میں رسول اللہ ص کی کیا خصوصیت  ہوئی ؟

لیکن میرے دوست نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس کی ضرورت نہیں ، امام صاحب کبھی نہیں مانیں گے خواہ رسو ل اللہ ص خود ہی کیوں نہ آجائیں ۔

رسول اللہ ص کا آنا توخیر ناممکن بات ہے مگر اس سے اس تلخ حقیقت کا اظہار ہوتا ہے جس کو اللہ عزوجل  نے سورہ روم میں اس طرح بیان کیا ہے ۔

" فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ () وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ "

--------------------

(۱):-کہتے ہیں ،دوآدمی شکار کے لیے نکلے ۔دورسے کوئی سیاہ چیز دکھائی دی ۔ ایک نے کہا کہ یہ کوا ہے ۔ دوسرے نے کہا : نہیں بکری ہے ۔دونوں اپنی ضد پر اڑے رہے ۔ قریب پہنچے تو کوا پھڑا پھڑا کر اڑ گیا ۔ پہلے شخص  نےکہا : دیکھا میں نہیں کہتاتھا کہ کوا ہے ، اب مان گئے ؟ لیکن اس کا دوست پھر بھی نہ مانا ۔کہنے لگا :

"بھائی ! تھی تو بکری ہی ،مگر اڑنے والی بکری تھی ۔"

۲۹۲

آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلے جارہے ہوں ۔ اور آپ اندھوں کو گمراہی سے نہیں نکال سکتے ۔ آپ صرف ان کو سنا سکتے ہیں جوہماری نشانیوں پر ایمان لائے ہوں اور انھیں مانتے ہوں ۔(سورہ روم ۔آیت۵۲- ۵۳)

الحمد اللہ کہ بہت سے نوجوان جمع بین الصلاتین کی حقیقت سے واقف ہو کے بعد دوبارہ نماز  پڑھنے لگے ، نہیں تو وہ نماز ہی چھوڑ بیٹھے تھے کیونکہ وہ وقت پر تو نماز پڑھ نہیں سکتے تھے ۔ رات کو چار وقت کی اکٹھی  نماز پڑھتے بھی تھے تو دل کو اطمینان نہیں ہوتا تھا ۔ اب ان کی سمجھ میں آیا  کہ جمع بین الصلاتین  میں کیا حکمت ہے ۔جمع بین الصلاتین کی صورت میں سب ملازمت پیشہ ،طلبہ اور عوام نماز  وقت پر ادا کرسکتے ہیں اور ان کا دل مطمئن رہتا ہے ۔ رسول اللہ ص کے ارشاد کا مطلب کہ"کی لا اٌحرج اُمّتی " (میں اپنی امت کو ضیق میں نہ ڈالوں )ان کی سمجھ میں آگیا تھا ۔

خاک پر سجدہ

شیعوں کا اس پر اتفاق ہے کہ زمین پر سجدہ افضل ہے ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع سے ان کے جد رسول اللہ ص کا قول نقل کرتے ہیں کہ" أفضل السّجود على الأرض"

سجدہ زمین پر افضل ہے  ۔ایک اور روایت میں ہے کہ"لايجوزالسجود إلّا على الأرض أومآ أنبتت الأرض غيرماءكولٍ وّلاملبوس ٍ." سجدہ جائز نہیں ہے مگر زمین پر یا اس چیز پر جو زمین سے اگی ہو مگر نہ کھائی جاتی ہو اور نہ پہنی جاتی ہو ۔

۲۹۳

صاحب وسائل الشیعہ محدّث حر عاملی نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے کہ ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ امام جعفر الصادق  علیہ السلام نے فرمایا ہے :

"السجود على الأرض أفضل لانّه أبلغ في النّواضع والخضوع لله عزّوجلّ.

زمین پر سجدہ افضل ہے کیونکہ اس سے انتہائی تواضع اور خشوع وخضوع  کا اظہار ہوتاہے ۔ ایک اور روایت میں اسحاق بن فضل کہتے ہیں کہ : میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا چٹائیوں پر اور سرکنڈوں  سےبنے ہوئے بوریوں پن سجدہ جائز ہے ؟ آپ نےکہا : کوئی حرج نہیں ۔مگر میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ زمین پرسجدہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ ص کو یہ بات پسند تھی کہ آپ کی پیشانی زمین پر ہو ۔ اور میں تمھارے لیے وہی بات پسند کرتاہوں جو رسول اللہ ص کو پسند تھی ۔

مگر علمائے اہل سنت قالین یا دری وغیرہ بھی بھی سجدہ میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ اگر چہ ان کے نزدیک بھ افضل  یہ ہے کہ چٹائی پر سجدہ کیاجائے ۔ بخاری اور مسلم کی بعض روایات بتلاتی ہیں کہ رسول اللہ ص کے پاس کجھورکے

پتوں اور مٹی سے بنی ہوئی نہایت چھوٹی سی جانماز تھی جس پر آپ سجدہ کیا کرتے تھے ۔

صحیح مسلم کتاب الحیض میں عن قاسم بن محمد عن عائشہ کے حوالے سے روایت ہے  ۔ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ص نے مجھے  سے کہا کہ ذرا یہ خمرہ مجھے مسجد سے اٹھادینا ۔میں نے کہا : مجھے  توماہوری آرہی ہے  آپ نے فرمایا :تمھاری ماہواری تمھارے ہاتھ میں تھوڑا ہی ہے۔(۱) (مسلم کہتے ہیں کہ خمرہ کا مطلب ہے چھوٹی سی جانماز

--------------------

(۱):-صحیح مسلم جلد اول باب جواز غسل الحائض راس زوجہا ۔سنن ابی داؤد جلد ۱ باب الحائض تناول من المسجد

۲۹۴

اتنی چھوٹی کہ بس اس پر سجدہ کیا جاسکے ۔)

بخاری نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ص زمین پن سجدہ کرناپسند فرماتے تھے ۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف  کیا کرتے تھے  ۔ایک سال آپ نے اعتکاف  کیا ۔جب اکیسویں کی شب ہوئی  اوریہ وہ رات تھی جس کی صبح کوآپ  اعتکاف  سے نکلنے والے تھے ، اس رات آپ نے کہا :

"جس نے میرے  ساتھ اعتکاف  کیا ہو وہ رمضان  کے آخری دس دنوں کا بھی اعتکاف کرے ۔میں نے وہ رت (لیلۃ القدر) دیکھی  تھی  پھر مجھے بھلادی گئی۔ میں نے دیکھا تھا کہ میں اس رات کی  صبح  کو گیلی مٹی پر سجدہ کررہاہوں  ۔اس لیے  تم اسے آخری دس راتوں  میں اور طاق راتوں میں تلاش کرو "۔ اس کے بعد اس رات  بارش ہوئی ۔ مسجد کجھور  کی ٹہنیوں  اور پتوں کی تو تھی ہی ٹپکنے لگی۔ میری آنکھوں نے ۲۱ کی صبح کو رسول اللہ ص کی پیشانی  پر گیلی مٹی کا نشان دیکھا ۔(۱)

صحابہ بھی خود رسول اللہ ص  کی موجودگی میں زمین پرہی سجدہ کرنا پسند کرتے تھے ۔ امام نسائی نے اپنی سنن میں روایت بیان کی ہے کہ :

جابر بن عبداللہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ص کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے ۔ میں ایک مٹھی کنکریاں ٹھنڈی کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتا تھا پھر دوسرے ہاتھ میں لے لیتا تھا ۔جب سجدہ کرتا تو انھیں وہاں رکھ دیتا جہاں  پیشانی رکھنی ہوتی ۔(۲) اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :

-------------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۲ باب الاعتکاف فی العشر الاواخر۔

(۲):- سنن امام نسائی جلد ۲ باب تبرید الحصی للسجود علیہ ۔

۲۹۵

"جعلت لى الأرض مسجدًا وّطهورًا."

میرے لیے تمام زمین سجدہ کرنے اور پاک کرنے کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔(۱)

" جعلت لنا الأرض كلّهامسجدًا وّجعلت تربتها لنا طهورًا."

ہمارے لیے تمام زمین سجدہ گاہ اور اس کی خاک پاکی کا ذریعہ بنادی گئی ہے ۔(۲)

پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان شیعوں کے خلاف اس لیے ضد رکھتے ہیں کہ شیعہ قالینوں کے بجائے مٹی پر سجدہ کرتے ہیں ۔؟

یہاں تک  کیسے نوبت پہنچی  کہ شیعوں  کی تکفیر کی گئی ،انھیں برابھلا کہا گیا اور ان پر بہتان باندھا گیا کہ کہ ہو بت پرست ہیں ۔

اگر شیعوں کی جیب  یا سوٹ  کیس میں سے خاک کربلا کی ٹکیہ(۳) نکل آئے تو اتنی  سی بات پر شیعوں  کو سعودی عرب میں زدوکوب کیاجاتا ہے ؟

---------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۱ کتاب التیمم ۔

(۲):-صحیح مسلم جلد ۴ کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ۔

(۳):-آیت اللہ العظمی  آقائے خوئی البیان فی تفسیر القرآن  میں فرماتے ہیں :

"شیعہ عقیدے  کی رو سے امام حسین  علیہ السلام  کی قبر کی خاک بھی اللہ کی اسی وسیع  وعریض زمین کا ایک حصہ ہے جسے اس نے اپنے پیغمبر کے لیے ظاہر  مطہر اورجائے  سجود قراردیا ہے ۔ تاہم کیسی طاہر اور مقدس ہے وہ خاک جو جگر گوشہ رسول ص کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور جس میں جوانان بہشت کے سردار آرام فرمارہے  ہیں ! اس خاک کے پہلو میں وہ عظیم ہستی محوخواب ہےجس نے اپنے فرزندوں ،عزیزوں اور وفادارساتھیوں  کو راہ خدا میں قربان کردیا ۔ یہ خاک ! خاک کربلا انسانوں  کو راہ خدا میں جاں  بازی اور فداکاری کا سبق سکھاتی ہے ،انھیں شرافت وفضیلت کا درس دیتی ہے اور ایک عدیم النظیر جگر دوز

۲۹۶

کیا یہی  وہ اسلام ہےجو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں اور کسی کلمہ گو موحد مسلمان کی جو نماز پڑھتا  ہو ، زکواۃ دیتا ہو ، رمضان  کے روزے رکھتا ہو اور بیت اللہ کاحج کرتا ہو ۔ توہین نہ کریں ۔ کیا کوئی شخص بقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ اگر بعض لوگوں کا یہ الزام درست ہوتا کہ شیعہ پتھروں کی پوجا کرتے ہیں تو کوئی شیعہ اتنی تکلیف اٹھاکر اور اتنا مالی بوجھ برداشت کرکے حج بیت اللہ اور زیارت قبر رسول ص کے لیے آتا ؟

کیا اہل سنت آیت اللہ سید محمد باقر صدر شہید کے اس قول سےمطمئن نہیں ہوسکتے ،جو میں نے اپنی پہلی کتاب "ثم اھتدیت " (تجلّی ) میں نقل کیا ہے کہ جب میں نے ان سے خاک کربلا پر سجدے کرے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ : "ہم مٹی پر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔ مٹی پر سجدہ کرنے میں اور مٹی کو سجدہ کرنے میں فرق ہے "

اگر شیعہ احتیاط کرتے ہیں کہ ان کا سجدہ  پاک جگہ پر ہو اور عنداللہ مقبول ہو تو وہ رسول اللہ اور ائمہ اطہار کے حکم  کی تعمیل کرتے ہیں ۔ خصوصا ہمارے زمانے میں جب سب مساجد میں موٹے موٹے روئیں دار قالینوں کے فرش بچھ گئے ہیں ، ان

-------------------

تاریخی واقعے  کی یاد ذہن انسانی میں تازہ کرتی ہے ۔ انھی وجوہ کی بنا پر اس خاک کی ایک خاص اہمیت اور عظمت ہے اور اس پر سجدہ کرنا شرعا صحیح ہے ۔ اس سب کے علاوہ خاک کربلا کی فضیلت میں متعدد روایات  رسول اکرم ص سے منقول  ہیں جو شیعہ اور سنی دونوں ذرائع سے آتی ہیں "۔

استاد شہید مرتضی مطہّری اپنی کتاب شہید میں فرماتے ہیں :

"جب رسول اللہ ص نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا س کو مشہور تسبیحات (۳۴ بار اللہ اکبر ۳۳بار الحمدللہ اور ۳۳بار سبحان اللہ )پڑھنے کو کہا تو وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی  قبر پر گئیں  اور تسبیح تیار کرنے کے لیے وہاں سے کچھ مٹی حاصل کی ۔ان کے اس فعل کی کیا اہمیت ہے ؟ اس کی اہمیت یہ ہے کہ شہید  کی قبر متبرک ہے اور اس کے ارد گرد کی مٹی بھی متبرک ہے ۔انسان کو تسبیحات  پڑھنے  کے لیے ایک تسبیح  کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد  کے لیے پتھر ، لکڑی اور مٹی کی بنی ہوئی تسبیح استعمال  کی جاسکتی ہے لیکن ہم شہید کی قبر کے پاس کی مٹی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس سے ہمارا مقصد شہید کی تعظیم  بجالاتا ہوتا ہے "۔(ناشر)

۲۹۷

قالینوں میں سے بعض کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاجاتا ہے جس سے عام مسلمان ناواقف ہیں ۔ یہ قالین مسلمان  ملکوں کے بنے ہوئے بھی نہیں ہوتے ، اس لیے ممکن ہے کہ ان میں سے بعض  کی بناوٹ میں ایسا مواد استعمال کیاگیا  ہو جو جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ ہم اس شیعہ  کو جو نماز  کی صحت کا اہتمام  کرتا ہوں ، دھتکاریں اور محض بے بنیادشبہ کی وجہ سے اس پر کفر وشرک کا الزام لگائیں ؟

 شیعہ جو دینی امور میں خیال رکھتا ہے خصوصا نماز کا جو دین کاستون ہے اور اس کا اتنا اہتمام کرتا ہے کہ نماز کے وقت اپن پیٹی اتاردیتا ہے ،گھڑی بھی اتاردیتا ہے کیونکہ اس کا تسمہ چمڑے  کا ہے جس کی اصل معلوم نہیں ۔ بعض اوقات پتلون اتار کر ڈھیلا ڈھالا پاجامہ پہن لیتا ہے اور یہ سب احتیاط اور اہتمام اس لیے کرتا ہے کہ اسے نماز میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ اپنے رب کے سامنے اس حال میں جائے کہ اس کے رب کو اس کی کوئی بات ناپسند ہو ۔

کیا ایسا شیعہ اس بات کامستحق ہے کہ اس کا مذاق اڑایا جائے ، اس سے نفرت کی جائے ؟ وہ تو اس قابل ہے کہ اس کا احترام کیا جائے ، اس کی تعظیم کی جائے کیونکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے جو تقوی کی بنیاد ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کہو !

اگر تم پر اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا دنیا  میں بھی اور آخرت میں بھی ، تو جس مشغلے  میں تم پڑے تھے اس میں تم پرسخت  عذاب نازل ہوتا ۔ اس وقت جب تم اس کو اپنی زبانوں سے دہرارہے تھے اور اپنے منہ سے  وہ کچھ  کہہ رہے تھے جس کا تمھیں علم نہیں تھا اور تم اس کو معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی ۔(سورہ نور ۔آیت ۱۵)

۲۹۸

رجعت

رجعت ان مسائل میں سے ہے جن کے صرف شیعہ قائل ہیں ۔

میں نے حدیث کی کتابوں میں ڈھونڈا مگر مجھے اس کا کہیں ذکر نہیں ملا ۔ بعض صوفی عقائد میں البتہ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق مغیبات سے ہے ۔ جو ان باتوں کو نہ مانے وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ ایمان نہ ان امور کے ماننے پر موقوف ہے نہ ان پر اعتقاد سے ایمان  کی تکمیل ہوتی ہے ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے سے نہ کوئی نفع ہوتا ہے نہ نقصان ۔ یہ صرف روایات ہیں جن کو شیعہ ائمہ اطہار  ع سے روایت کرتے ہیں کہ

"اللہ سبحانہ ،بعض مومنین اور بعض مجرمین مفسدین کو زندہ کرے گا تاکہ مومنین آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اپنے دشمنوں سے انتقام لیں ۔"

اگر یہ روایتیں صحیح ہیں ۔ اورشیعوں کے نزدیک تو یہ صحیح اور متواتر ہیں ۔جب بھی یہ اہل سنت کو پابند نہیں بناتیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ان پر اعتقاد رکھنا اس لیے واجب ہے کہ اہل بیت ع نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔ہر کز نہیں ۔کیونکہ ہم نے بحث میں انصاف اور بے تعصبی کا عہد کیا ہوا ہے ۔

اس لیے ہم اہل سنت کو انھی روایات کا پابند سمجھتے ہیں جو ان کی اپنی حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ چونکہ رجعت کی احادیث ان کی اپنی کتابوں میں نہیں آئی ہیں اس لیے وہ ان کو قبول نہ کرنے میں آزاد ہیں اور یہ بھی جب ہے ، جب کوئی شیعہ ان روایات کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرے ۔

لیکن شیعہ کسی کو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہیں کرتے اورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جو رجعت کا قائل ہونے  پر مجبور نہیں کرتے اور نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ رجعت کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ اس لیے  کوئی وجہ نہیں کہ شیعہ ، جو

۲۹۹

رجعت کے قائل ہیں ان کو اس قدر برابھلا کہا جائے اور ان کے خلاف اس قدر شوروغوغا برپا کیا جائے !

شیعہ  مسئلہ رجعت کا ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثابت ہیں اور جن کی تائید بعض آیات سے بھی ہوتی ہے ،جیسے "

" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ "

اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان کی صف بندی کی جائے گی۔(سورہ نمل ۔آیت ۸۳)

تفسیر قمی میں ہے کہ "

امام جعفر صادق ع نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ" وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً " ؟ حمّاد کہتے ہیں کہ میں نے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق روزقیامت سے ہے ۔ امام نے کہا : یہ بات نہیں ،یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے ، قیامت میں کیا اللہ تعالی ہر امت میں سے صرف  ایک ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا اور باقی کو چھوڑ دے گا ؟

قیامت کے بارے میں دوسری آیت ہے :

" وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً "

اور ہم ان سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ۔(سورہ کہف ۔آیت ۴۷)

شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ میں ہے : اہل بیت علیھم السلام سے جو روایات آئی ہیں ان کی بنا پر شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مردوں میں سے کچھ کو اسی دنیا میں زندہ کرے گا، ان کی شکلیں وہی ہوں گی جو ان کی زندگی میں تھیں ۔پھر ان میں سے ایک گروہ کو عزت دے گا اور ایک گروہ

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328