حکم اذاں

حکم اذاں17%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61528 / ڈاؤنلوڈ: 6827
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تقابل پر ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ میں یہ ظاہر کردوں کہ امامت کے اصول کی فریقین کے نزدیک کیا نوعیت ہے تاکہ قارئین کویہ علم ہوسکے کہ فریقین کے نقطہ نظر کی بنیاد کیا ہے اور ضمنا یہ بھی معلوم ہوجائے کہ کس یقین اور اطمینان نے مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا ۔

شیعوں کے نزدیک امامت اپنی زبردست اہمیت کے باعث اصول دین میں شامل ہے ۔ امامت خیرالامم کو قیادت فراہم کرتی ہے ۔ اس قیادت کے متعدد فضائل ہیں اور اس کی خصوصیات میں سے قابل ذکر ہیں : علم ،حلم ،شجاعت ،نزاہت ،عفت ،زہد ،تقوی  وغیرہ وغیرہ ۔

شیعوں کا اعتقاد  ہے کہ امامت  ایک خدائی منصب ہے جو اللہ تعالی اپنے نیک بندوں میں سے جسے منتخب کرتا ہے ، اسے عطا کردیتا ہے تاکہ وہ اپنا اہم کردار ادا کرے اور یہ کردار نبی کے بعد دنیا کی قیادت ہے ۔ اسی اصول کی بنیاد پر امام علی بن ابی طالب ع مسلمانوں  کے امام تھے ،انھیں اللہ نے منتخب کیا تھااور اس سے بذریعہ وحی اپنے رسول  ص سےکہا تھا  کہ علی ع کا منصب امامت پر تقرر کردیں چنانچہ رسول اللہ نے ان کا تقرر کیا اور حجۃ الوداع کےبعد غدیر خم کے مقام پر امت کو اس تقرر کی اطلاع دی ، اس پر لوگوں نے امام علی ع کی بیعت کرلی ،" یہ شیعہ کہتے ہیں "

جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے وہ بھی امت کی قیادت کے لئے امامت ضروری ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق امت کو حق ہے کہ وہ جس کو چاہے اپنا امام اور قائد بنالے ۔چنانچہ مسلمانوں نے رسول اللہ کی وفات کے بعد ابو بکر بن ابی قحافہ کو امام منتخب کیا تھا ۔ خود رسول اللہ نے خلافت کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا تھا بلکہ اس کا فیصلہ شوری پر چھوڑ دیا تھا ۔ یہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں "۔

حقیقت کیا ہے ؟

تحقیق کرنے والا اگر غیر جانبداری کے ساتھ فریقین کے دلائل پر غور کرے تو یقینا وہ حقیقت تک رسائی حاصل کرلے گا ۔جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے چونکہ

۴۱

 یہ کتاب میرے ہدایت پانے اور مذہب بدلنے کا قصّہ بیان کرتی ہے اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ میں قارئین کرام کے سامنے اپنا نقطہ نظر اور اپنا عقیدہ واضح کردوں ۔ اب یہ قارئین پر ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا رد کریں کیونکہ آزادی فکر ہر دوسری چیز سے زیادہ اہم ہے قرآن کہتا ہے :

"ولا تزروازرةٌ وّزراُخرى"

کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔(سورہ فاطر ۔آیت ۱۸)

اور

"كلّ نفسٍ بما كسبت رهينةٌ"

ہر شخص کا دار ومدار اس کے اعمال پر ہے ۔(سورہ مدّثر ۔آیت ۳۸)

شروع کتاب سے ہی میں نے اپنے اوپر یہ پابندی عائد کی ہے کہ میں قرآن اور متفق بین الفریقین  احادیث سے تجاوز نہیں کروں گا اور اس سارے عمل میں کوئی خلاف عقل بات تسلیم نہیں کروں گا کیونکہ عقل سلیم متضاد اور متنا قض باتوں کو نہیں مانتی ۔حق تعالی کا ارشاد ہے :" وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفاً كَثِيراً "

اگر قرآن غیراللہ کے پاس سے آیا ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے ۔(سورہ نساء ۔آیت ۸۲)

امامت قرآن کی رو سے

اللہ تعالی فرماتا ہے :

" وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِي "

جب ابراہیم کو ان کے رب نے کچھ  باتوں سے جانچا اور

۴۲

ابراہیم  نے ان کو پورا کردیا تو اللہ نے کہا: میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہاہوں ۔ابراہیم  نے کہا : اور میری اولاد میں سے ؟ اللہ تعالی نے کہا : میرا عہدہ ظالموں تک نہیں پہنچتا ۔(سورہ بقرہ ۔آیت ۱۲۴)

یہ آیت کریمہ ہمیں بتلاتی ہے کہ امامت ایک خدائی منصب ہے اور خدا یہ منصب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے کیونکہ وہ خود کہتا ہے :"إنّي جاعلك للنّاس إماما" میں تمھیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ۔

اس آیت سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ امامت اللہ کی طرف سے ایک عہد ہے جو صرف اللہ کے ان نیک بندوں تک پہنچتا ہے جنھیں وہ خاص طور پر اس مقصد کے لیے چن لیتا ہے کیونکہ یہ صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ظالم اللہ کے اس عہد کے مستحق نہیں ۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے :" وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ "

ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے  تھے اور ہم نے ان کو وحی بھیجی کہ نیک کام کریں ، نماز قائم کریں اور زکات دیں ۔ اور وہ ہماری عبادت کرتے تھے ۔(سورہ انبیاء ۔آیت ۷۳)

ایک اور  آیت ہے :

" وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ "

ہم نے ان امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے کیونکہ وہ صابر  تھے اور ہماری نشانیوں پر یقین

۴۳

رکھتے تھے ۔ (سورہ سجدہ ۔آیت ۲۴)

ایک اور آیت ہے :" وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ "

ہم چاہتے ہیں کہ ان پر احسان کریں جنھیں دنیا میں کمزور سمجھ لیاگیا ہے ، ان کو امام بنائیں  اور انھیں (زمین کا )وارث بنائیں ۔(سورہ قصص ۔آیت ۵)

ممکن  ہے کسی کویہ خیال پیدا ہو کر مذکورہ بالا آیات قرآن سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہاں امامت سے مراد نبوت ہے  لیکن یہ صحیح نہیں  کیونکہ امامت کا مفہوم زیادہ عام ہے ،ہر رسول اور نبی امام ہوتا ہے لیکن ہر امام رسول یا نبی نہیں ہوتا۔

اسی وجہ  سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں واضح کردیا ہے کہ اس کے نیک  بندے اس منصب کے لیے اس سے دعا کرسکتے ہیں تاکہ وہ لوگوں  کی ہدایت کا شرف حاصل کرسکیں اور اس طرح اجر عظیم کے مستحق ہوسکیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً   وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً   وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً "

وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، جب انھیں بیہودہ چیزوں  کے پاس   سے گذرنے کا اتفاق  ہوتا ہے  تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں ۔ اور جب انھیں ان کے پروردگار کی باتین  سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر بہرے  ،اندھے  ہو کر نہیں گر تے (بلکہ غور سے سنتے ہیں ) اور وہ لوگ جو ہم سے دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا ۔(سورہ فرقان ۔آیات ۷۲-۷۴)

۴۴

اسی طرح قرآن کریم میں ائمہ کالفظ  ان ظالم سرداروں  اور حکمرانوں  کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جو اپنے پیروکاروں  اور اپنی قوموں  کو گمراہ کرتے ، فساد پھیلاتے میں ان کی رہنمائی کرتے اور دنیا وآخرت کے عذاب  کی انھیں دعوت دیتے ہیں ۔ فرعون اور اس کے لشکر یوں کے متعلق قرآن کریم میں ہے :

" فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِي وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ   وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُم مِّنَ الْمَقْبُوحِينَ"

ہم نے اسے اور اس کے لشکر یوں کو پکز کردریا میں پھینک دیا ۔ پھر دیکھو  ! طالموں کا کیا انجام ہوا ۔ ہم نے انھیں ایسے امام بنایا جو جہنم کی دعوت دیتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔ اس کے بعد ہم نے اس  دنیا میں ان پر لعنت بیھجی  اور قیامت میں وہ ان میں سے ہونگے  جن کا ہولناک انجام ہوگا ۔(سورہ قصص ۔آیت ۴۰-۴۲)

اس بنیاد پر شیعہ جو کچھ کہتے ہیں وہی صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالی نے واضح کردیا  ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش  نہیں کہ امامت  ایک من جانب اللہ منصب ہے جو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے ،وہ اللہ کا عہد ہے جس کا اطلاق ظالموں پر نہیں ہوتا ۔چونکہ ابو بکر ، عمر، اور عثمان  کی عمروں  کا بڑا حصّہ  شرک  کی حالت میں گزرا  کیونکہ وہ بتوں  کوپوجتے رہے تھے اس لیے وہ اس کے مستحق  نہیں ۔اسی طرح شیعوں کا یہ قول درست ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امام علی بن ابی طالب  ہی امامت کے مستحق  ہیں اور امامت کے متعلق اللہ کے دعوے کا اطلاق صرف انھی پر ہوتا ہے کیونکہ وہ کبھی بتوں  کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام لانے کے بعد اس سے پہلے کے سب گناہ محو ہوجاتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ واقعی صحیح ہے ، لیکن پھر بھی بڑا فرق ہے اس شخص   جو پہلے  مشرک تھا  بعد میں  اس

۴۵

نے توبہ کرلی اور اس شخص میں جس کا دامن شروع سے شرک کی آلائش سے پاک صاف رہا اور جس نے بجز اللہ کے کبھی کسی کے سامنے جبیں نیاز خم نہیں کی ۔

امامت سنّت نبوی کی رو سے

امامت کے بارے میں رسول اللہ ص کے متعدد اقوال  ہیں جن کو شیعوں اورسنیوں  دونوں نے اپنی احادیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ رسول اللہ نے کہیں اسے امامت کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور کہیں خلافت کے لفظ سے ، کہیں ولایت کے لفظ سے اور کہیں امارت کے لفظ سے ۔

امامت کے بارے میں ایک حدیث نبوی ہے :

"خيارأئمتكم الّذين  تحبّونهم ويحبّونكم وتصلّون عليهم و يصلّون عليكم .وشرارأئمتكم الّذين تبغضونهم ويبغضونكم وتلعنونهم ويلعبونكم .قالوا يارسول الله أفلا ننا بذهم بالسّيف فقال لا ما أقاموا فيكم الصلاة."

تمھارے اماموں میں سب سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبّت کریں ، تم ان کے لیے دعا کرو ، وہ تمھارے لیے دعاکریں ۔اور بد ترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں ، جن پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت  بھیجیں ۔صحابہ نے پوچھا : تو کیا ہم تلوار سے ان کا مقابلہ نہ کریں رسول اللہ نے فرمایا : نہیں ، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں(۱) ۔

رسول اللہ ص نے یہ بھی فرمایا ہے :

"يكون بعدي أئمة لّا يهتدون بهداى ولا يستنّون بسنّتي وسيقوم فيهم رجالٌ قلوبُ الشياطين

--------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۲۴ باب خیار الائمۃ وشرارھم۔

۴۶

في جثمان إنس".

میرے بعد کچھ ایسے امام ہوں گے جو نہ میری روش پرچلیں گے اور نہ میری سنت کا اتباع کریں گے ۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم تو انسان کے سے ہونگے مگر دل شیطانوں کے سے(۱)

خلافت کے بارے میں حدیث نبوی ہے :

"لا يزال الدّين قآئماً حتىّ تقوم السّاعة أويكون عليكم اثناعشرخليفةً كلّهم من قريشٍ.

دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جو سب قریش میں سے ہوں گے ۔(۲)

جابر بن سمرہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو سنا کہ آپ فرماتے تھے :

"لايزال الإسلام عزيزًا إلى إثبى عشر خليفةٍ ثمّ قال كلمةً لم أفهمها فقلت لابي: ما قال؟ فقال : كلّهم من قريشٍ."

بارہ خلفاء تک اسلام کی عزت باقی رہے گی ۔ پھر کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا ۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا فرمایا تھا ؟ انھوں نے کہا کہ یہ فرمایا تھا کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے(۳)

امارت کےبارے میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

"ستكون اُمراءَ فتعرفون وتنكرون فمن عرف

--------------------

(۱):-صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۲۰ باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن

(۲):- صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۴ باب النّاس تبع لقریش والخلافۃ فی قریش

(۳):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۰۵ ۔اور صفحہ ۱۲۸۔صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۳۔

۴۷

بر‎‎ئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوا أفلانقاتلهم قال :لا ما صلّوا.

جلد ہی کچھ امراء ہوں گے جن کو تم میں سے کچھ پہچانیں گے ، کچھ نہیں ۔جس نے پہچانا بچ گیا ، جن نے نہیں پہچانا محفوظ رہا مگر جس نے خوشی ان کا اتباع کیا ۔۔۔۔۔ لوگوں  نے پوچھا  کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟ آپ نے فرمایا " جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں اس وقت تک نہیں(۱) ۔

امارت سے متعلق ایک حدیث میں آپ نے فرمایا :"يكون اثناعشر أميراً كلّّهم من قريشٍ."

میرے بعد بارہ امیر ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے(۲) ۔

آپ نے اپنے اصحاب کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :

"ستحرصون على الإمارة وستكون ندامةً يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة".

تمھیں جلد امارت حاصل کرنے کا لالچ ہوگا لیکن یہ امارت قیامت کے دن باعث ندامت ہوگی ۔ امارت دودھ پلانے والی تو اچھی ہے مگر دودھ چھڑانے والی اچھی نہیں(۳) ۔

ولایت کا لفظ  لفظ بھی حدیث میں آیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"ما من وّالٍ يّلي رعيّةً مّن المسلمين فيموت وهو غاشٌ لّهم إلّا حرّم الله عليه الجنّة.

--------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۲۳ باب وجوب الانکار علی الامراء۔

(۲):-صحیح بخاری جلد ۴ کتاب الاحکام ۔

(۳):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۲۷ باب الاستخلاف۔

۴۸

جس مسلمان  والی نے مسلمان رعایا پر حکومت کی لیکن وہ انھیں دھوکا دیتا رہا  تو مرنے کے بعد اس پر جنت حرام ہے(۱) ۔

ایک اور حدیث میں آپ نے فرماتے ہیں :

"لايزال أمرالنّاس ماضياً ما وليهم اثناعشررجلاً كلّهم مّن قريشٍ."

لوگوں  کا کام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ان کے والی بارہ اشخاص ہوں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے(۲) ۔

امامت  اور خلافت کے مفہوم کا یہ مختصر ساجائزہ میں نے قرآن وسنّت سے بغیر کسی تشریح اور توضیح کے پیش کیا ہے بلکہ میں نے سب احادیث اہل سنت  کی صحاح  پر اعتماد کیا ہے اور شیعہ کتابوں سے کوئی روایت نہیں لی ، کیونکہ شیعوں کے نزدیک تو یہ بات یعنی بارہ خلفاء کی خلافت جو سب قریش میں سے ہوں گے مسلّمات  میں سے ہے جس سے کسی کو اختلاف  نہیں  اور جس کے متعلق دورائیں نہیں ہوسکتیں ۔ بعض اہل سنت والجماعت علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

" يكون بعدي اثناعشرخليفةً كلّهم من بني هاشمٍ."

میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب بنی ہاشم میں سے ہوںگے ۔(ینابیع المودّۃ جلد ۳ صفحہ ۱۰۴)۔

--------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۰۶باب ما يکر ہمن الحرص علی الامار ۃ ۔

(۲):- صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ باب الخلافۃ فی قریش ۔

(۳):- امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

"إنّ الأئمّة من قريشٍ غرسوا في هذاالبطن من هاشمٍ لا تصلح على سواهم ولا تصلح الولاة من غيرهم"

بلاشبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے نہ امامت کسی  اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے ۔(ناشر)

۴۹

شعبی سے روایت ہے کہ مسروق نے کہا : ایک دن  ہم عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے ہوئے انھیں اپنے مصاحف دکھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان نے ان سے پوچھا : کیا آپ کے نبی نے آپ کو کچھ بتلایا ہے کہ ان کے بعد کتنے خلیفہ ہوں گے ابن مسعود نے اس شخص سے کہا :تم ہو تو نو عمر ،لیکن تم نے بات ایسی پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی ۔ہاں  ! ہمارے نبی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ بنی اسرائیل  کے نقیبوں  کی تعداد کے برابر ان کے بھی خلفاء ہوں گے(۱) ۔

اب ہم اس مسئلے سے متعلق فریقین کے اقوال پر غور کریں گے اور یہ دیکھیں گے  کہ جن صریح نصوص کو دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں ، وہ کس طرح ان کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں ، کیونکہ یہی وہ اہم مسئلہ ہے جو اس دن سے جس دن رسول اللہ ص نے وفات پائی آجتک مسلمانوں میں نزاع کا باعث بنا ہوا ہے ۔ اسی مسئلے سے مسلمانوں میں وہ اختلاف  پیدا ہوئے جن کی وجہ سے وہ مختلف فرقوں اور اعتقادی وفکری دبستانوں میں تقسیم ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک امّت تھے ۔ ہر اختلاف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا خواہ وہ فقہ کےبارے میں ہو ، قرآن کی تفسیر کے بارے  ہو یا سنّت نبوی کو سمجھنے کے بارے میں ہو ، اس  کا منشا اور اس کیا سبب مسئلہ خلافت ہی ہے ۔

آپ مسئلہ خلافت کو کیا سمجھتے ہیں ؟

سقیفہ(۲) کے بعد خلافت ایک "امر واقعہ" بن گئی اور اس کی وجہ سے بہت سی صحیح احادیث اور صریح آیات ردّ  کی جانے لگیں اور ایسی احادیث گھڑی جانے لگیں ، جن کی صحیح سنت نبوی میں کوئی بنیاد نہیں تھی ۔اس پر مجھے اسرائیل اور "امر وقعہ" کا قصہ یاد آگیا ۔عرب بادشاہوں اور سربراہوں کا اجلاس ہوا اور اس میں اتفاق رائۓ سے طے پایا اسرائیل  کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ،

------------------

(۱):- ینابیع المودہ جلد ۳ ص ۱۰۵

(۲):- سقیفہ بنی ساعدہ: یہ سعد بن عبادہ انصاری کی بیٹھک تھی جس میں اہل مدینہ اکثر اپنے معاشرتی مسائل حل کرنے کے لئے جمع ہوتے تھے ۔ (ناشر)

۵۰

اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیسے جائیں گے ، صلح نہیں ہوگی کیونکہ جس چیز پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا گیا ہے وہ طاقت استعمال کیے بغیر واپس نہیں مل سکتی ۔چند سال بعد ایک اور اجلاس ہوا ، اس میں فیصلہ ہوا کہ مصر سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں کیونکہ اس نے صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے ۔ چند سال اور گزر گئے ۔ عرب سربراہان مملکت پھر جمع ہوئے ۔ اس بار انھوں نے مصر سے پھر تعلقات قائم کرلیے  اور سب نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم  کرلیا ۔ حالانکہ اسرائیل نے فلسطینی قوم کے حق کو تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا کی تھی بلکہ اس کی ہٹ دھرمی بڑھ گئی تھی اور فلسطینی قوم  کو کچلنے  کی  کاروائیوں میں اضافہ ہوگیا تھا ۔ اس طرح ترایخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ امر واقعہ کو تسلیم کرلینا عربوں کی عادت ہے ۔

خلافت کے بارے میں اہل سنت کی رائے

اس بارے میں اہل سنت کی رائے سب کو معلوم ہے اوروہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں  کیا ۔ لیکن صحابہ میں سے اہل حلّ وعقد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور انھوں نے ابو بکر صدیق  کو اپنا خلیفہ چن لیا کیونکہ ایک تو ابو بکر رسول اللہ سے بہت نزدیک تھے ، دوسرے انھی کو رسول اللہ ص نے اپنے مرض الوفات میں نماز پڑھانے کے لیے اپنا جانشین مقررکیاتھا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ابو بکر کو ہمارے دین کے کام کے لیے پسند کیا تو ہم انھیں اپنے دنیا کے کام کے لیے کیوں پسند نہ کریں ۔اہل سنت  کے نقطہ نظر کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

۱:- رسول اللہ ص نےکسی کو نامزد نہیں کیا ۔ اس سلسلے میں کوئی نص نہیں ۔

۲:- خلیفہ کا تعیّن صرف شوری سے ہوتا ہے ۔۳:- ابوبکر کو کبار صحابہ نے خلیفہ منتخب کیا تھا ۔

یہی میری خود اپنی رائے تھی اس وقت جب کہ میں مالکی تھا ۔ اس رائے کا دفاع میں پوری طاقت سے کیا کرتا تھا اور جن آیات میں شوری کا ذکر ہے انھیں میں

۵۱

اپنی رائے کے ثبوت میں پیش کرتا ۔ میں جہاں تک ہوسکتا تھا ، فخریہ کہا کرتا تھا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو جمہوری نظام حکومت کا قائل ہے ۔ اسلام نے اس انسانی اصول کو جس پر دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب قومیں فخر کرتی ہیں اور وں سے پہلے اپنا لیا تھا ۔ مغرب میں جو جمہوری نظام انیسویں صدی میں متعارف ہوا اسلام اس سے چھٹی صدی ہی میں واقف ہوچکا تھا ۔

لیکن شیعہ علماء سے ملاقات کرنے ،ا ن کی کتابیں پڑھنے اور ان کے اطمینان بخش دلائل معلوم کرنے کے بعد میں نے اپنی رائے بدل دی ۔ اب حقیقت ظاہر ہوچکی تھی اور مجھے یقین ہوگیا تھا کہ یہ اللہ سبحانہ کی شان کے مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی امت کو بغیر امام کے چھوڑ دے ۔جب کہ وہ خود فرماتا ہے :

" إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ"

آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہدایت دینے والا ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت ۷)

اسی طرح کیار سول اللہ ص کی رحمت ورافت کا تقاضہ یہ تھاکہ آپ اپنی امت کو بغیر کسی سرپرست کے چھوڑ دیں خصوصا ایسی حالت میں جب کہ ہمیں یہ معلوم ہے  کہ آپ کو خود اپنی امت میں تفرقہ کا اندیشہ تھا(۱) ۔ اوریہ ڈر تھا کہ کہیں لوگ الٹے پاؤں نہ پھر جائیں(۲) ۔ دنیا کے حصول  میں ایک دوسرے پر بازی  لیجانے  کی کوشش نہ کرنے لگیں(۳) ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے لگیں(۴) ۔ اور یہودو نصاری کے طور طریقوں کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔(۵)

یہ بھی یاد رہے کہ جب عمر بن الخطاب زخمی ہوگئے تو ام المومنین عائشہ نے آدمی

-------------------

(۱):-جامع ترمذی۔سنن ابو داؤد ۔سنن ابن ماجہ ۔مسندامام احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۳۲۔

(۲):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۹۰۲ باب الحوض اور جلد ۵ صفحہ ۱۹۲

(۳):- صحیح بخاری جلد۴ صفحہ ۶۳۔

(۴):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۱۱۲

(۵):-

۵۲

بھیج کر انھیں کہلوایا تھا کہ : اپنے بعد امت محمّدیہ کا کوئی خلیفہ مقرر کردیجیئے اور اسے اپنے بعد بے یارو مددگار نہ چھوڑیے ۔ کیونکہ مجھے فتنے  کا اندیشہ ہے ۔(۱)

اسی طرح حضرت  عمر کے زخمی ہوجانے کے بعد عبداللہ بن عمر نے بھی اپنے والد سے کہا تھا کہ : لوگوں  کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کررہے ہیں لیکن اگر آپ کا کوئی اونٹ یا بھیڑ یں چرانے والا ہو اور وہ گلے کو چھوڑ کو آپ کے پاس چلا آئے تو کیا آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ اس نے گلے کو کھودیا ۔ انسانوں کی دیکھ بھال تو اور بھی زیادہ ضروری ہے ۔(۲)

حضرت ابو بکر نے جن کومسلمانوں نے  اجماع کے ذریعے خلیفہ بنایا تھا خود ہی اس اصول کو توڑدیا  تاکہ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف ،تفرقہ اور فتنہ کے امکان  کا سد باب کیا جاسکے ۔یہ توجیہ اس صورت میں ہوگی جب ہم حسن ظن سے کام لیں ورنہ امام علی ع نے جو اس قضیے میں تمام پہلوؤں سے سب سے زیادہ واقف تھے ، پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ ابو بکر کے بعد خلافت عمر بن الخطاب ہی کے پاس جائے گی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمر نے امام علی ع پر ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے زورڈالا تھا ۔ امام علی ع نے کہا تھا :

"إحلب حلباً لّك شطره واشدد له اليوم يردّده عليك غداً."

آج تم دودھ دھولو، کل تمہیں اس کا آدھا حصّہ مل جائے گا ۔آج تم اس کی حیثیت مضبوط کردو ، کل وہ تمھیں واپس لوٹا دیگا ۔(۳)

میں کہتا ہوں کہ جب ابوبکر ہی کو شوری کے اصول پر یقین نہیں تھا تو ہم کیسے مان لیں کہ رسول اللہ نے یہ معاملہ کسی کو خلیفہ نامزد کیے بغیر ایسے چھوڑ دیا ہوگا ۔کیا آپ کو اس مصلحت کا علم نہیں تھا جس کا علم ابو بکر ،عائشہ اور عبداللہ بن عمر کو

-------------------

(۱):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد ۱ صفحہ ۲۸

(۲):- ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ جلد ۱ صفحہ ۱۸ اورمابعد

(۳):- صحیح مسلم جلد ۶ صفحہ ۵ باب الاستخلاف وترکہ

۵۳

تھا اورجس سے سب لوگ صاف طور پر واقف تھے کہ اگر انتخاب کا اختیار عوام کو دیدیا جائے گا تو اس کا نتیجہ اختلاف کی شکل میں ظاہر ہوگا خاص کر جب معاملہ حکومت اور خلافت کا ہو ۔ خود حضرت ابو بکر کے انتخاب کے موقع پر سقیفہ میں ایسا ہوبھی چکا تھا ۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ ، ان کے بیٹے قیس بن سعد ، علی بن ابی طالب  ع، زبیر ابن العوّام(۱) ،عباس بن عبدالمطلب ، اور دوسرے بنی ہاشم اوربعض دوسرے صحابہ نے جو خلافت کو علی ع کا حق سمجھتے تھے(۲) ، مخالفت کی تھی اور وہ علی ع کے مکان پر جمع ہوگئے تھے جہاں ان کو جلادیے جانے کی دھمکی دی گئی تھی ۔(۳)

اس کے  علاوہ  ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ نے اپنی پوری عملی زندگی میں کبھی ایک دفعہ بھی کسی غزوہ یا سریہ کے کمانڈر کے تعین  کے وقت اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ہو ۔

اسی طرح مدینہ سے باہر جاتے وقت کسی سے مشورہ کیے بغیر جس کو مناسب سمجھے تھے اپنا جانشین مقرر کرجاتے تھے ۔ جب آپ کے پاس وفود آتے تھے اور اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اس وقت بھی ان سے مشورہ کیے بغیر ان میں سے جس کو چاہتے تھے ان کا سربراہ مقرر کردیتے تھے ۔

آپ نے اپنے اس طریق کار کو اس وقت مزید واضح کردیا جب آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسامہ بن زید کو لشکر کا امیر مقرر کیا حالانکہ ان کی نوعمری اور صغر سنی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا مگر آپ نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے ان لوگوں پر لعنت ک جو اس لشکر میں شامل ہونے سے گریز کریں(۴) ۔ اور واضح کردیا کہ امارت ،ولایت اور خلافت میں لوگوں کی مرضی داخل نہیں ، یہ معاملہ رسول ص کے حکم سے طے ہوتاہے اور رسول کا حکم اللہ کا حکم ہے ۔جب صورت یہ ہو تو ہم کیوں نہ دوسرے فریق کے دلائل پر بھی غور کریں ۔دوسرے

-------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۲۶ باب رجم الحبلی من الزنا

(۲) (۳):-ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد اول صفحہ ۱۸ اورمابعد ۔

(۴):- الملل والنحل ،شہرستانی۔

۵۴

فریق سےمیری مراد شیعہ ہیں جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے امام علی ع کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور مختلف موقعوں پر اس کی تصریح بھی کردی تھی جن میں سب سے مشہور " غدیر خم" کا جلسہ ہے ۔

انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اختلاف  کی صورت میں آپ نے اپنے مخالف کی رائے  اور دلیل کوسنیں ، خصوصا ایسی حالت میں جب کہ مخالف ایسے حقائق سے استدلال کررہا ہو جن کو آپ بھی تسلیم کرتے ہوں ۔(۱)

شیعوں کی دلیل میں کوئی واہی یا کمزور بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے ۔بلکہ معاملہ قرآنی آیات  کا ہے جو اس بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ جن کو خود رسول اللہ ص نے جو اہمیت دی وہ اس قدر مشہور ومعروف اور زبان زد خاص وعام ہے کہ حدیث اور تاریخ کی کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں اور راوی اسے نسلا بعد نسل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ۔

۱:- ولایت علی ع قرآن کریم میں

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون "

تمھارے ولی تو بس اللہ اور اس کا رسول اور وہ مومنین ہیں جو پابندی سے نماز پڑھتے ہیں ، رکوع کی حالت میں زکوات دیتے

--------------------

(۱):- قرآن کریم بھی ہمیں انصاف سے کام لینے کی تلقین کرتاہے اور کہتا ہے :

اے ایمان والو! ۔۔۔۔ لوگوں کی دشمنی تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو ۔(سورہ مائدہ ۔آیت ۸)

واضح رہے کہ شیعوں کی کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جس کی اصل اہل سنت کی کتابوں میں موجود نہ ہو ۔

۵۵

ہیں ۔جو کوئی اللہ ، اس کے رسول اور ان مومنین کی ولایت قبول  کرےگا (وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا )بے شک اللہ ہی کی جماعت غلبہ پانے والا ہے ۔(سورہ مائدہ ۔آیت ۵۵-۵۶)

ابو اسحاق ثعلبی(۱) نے اپنی تفسیر کبیر میں اپنی اسناد سے ابو ذر غفاری سے یہ روایت بیان کی ہے ۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان کانوں سے سنا ،نہ سنا ہو تو یہ کان نپٹ بہرے ہوجائیں اور اپنی ان آنکھوں سے دیکھا  ،نہ دیکھا ہو تو یہ آنکھیں پٹم اندھی ہوجائیں ۔آپ فرماتے تھے کہ "علی "نیکیوں کو رواج دینے والے اور کفر کو مٹانے والے ہیں ۔ کامیاب ہے وہ جوان  کی مدد کرے گا اور ناکام ہے وہ جو ان کی مدد چھوڑ دے گا ۔ایک دن میں رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک مانگنے والا مسجد میں آگیا ،اسے کسی نے کچھ نہیں دیا ۔ علی ع نماز پڑھ رہے تھے ، انھوں نے اپنی چھوٹی انگلی سے انگوٹھی  اتارلی ۔اس پر رسول اللہ ص نے عاجزی سے اللہ تعالی سے دعا کی کاور کہا : یا الہی میرے بھائی موسی  نے تجھ سے دعا کی تھی اور کہا تھا : "اے میرے پروردگار ! میرا سینہ کھول دے اور میرا کا آسان کردے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ، اور میرے اپنوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں تقویت حاصل کرسکوں اور انھیں میرا شریک کار بنادے تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور بکثرت تجھے یاد کیا کریں "۔تب تو نے انھیں وحی  بھیجی کہ اے موسی ! تمھاری دعا قبول ہوگئی ۔اے اللہ ! میں تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ میرا بھی سینہ کھول دے ،میرا کام بھی آسان کردے اور میرے اپنوں میں سے علی ع کو میرا مددگار بنادے تاکہ میں اس سے اپنی کمر مضبوط کرسکوں "۔ ابو ذر کہتے ہیں کہ ابھی رسول اللہ نے اپنی بات پوری کی ہی تھی جبریل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے :" إنما وليكم الله ورسوله " (۲) ۔

--------------------

(۱):-ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری  ،ثعلبی المتوفی سنہ ۴۳۷ھ ۔ابن خلکان کہتے ہیں کہ علم تفسیر میں یکتا ئے زمانہ تھے ، روایت میں ثقہ اور قابل اعتماد تھے ۔

(۲):-۔۔۔۔ ،سنن نسائی  ، مسند احمد بن حنبل ، صواعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔ شرح نہج البلاغہ ۔

۵۶

شیعوں  میں سے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت امام علی بن ابی طالب ع کی شان مین اتری ہے ۔ اس کی توثیق ائمہ اہل بیت ع کی روایت سے ہوتی ہے جو شیعوں کے نزدیک قطعا مسلم الثبوت روایت ہے اور ان کی متعدد معتبر کتابوں میں موجود ہے جیسے :۱:- اثبات الہداۃ ۔علامہ محمد بن حسن عاملی سنہ ۱۱۰۴ ھ۔۲:- بحار الانوار ۔علامہ محمد باقر مجلسی سنہ ۱۱۱۱ھ۔۳:- تفسیر المیزان ۔علامہ محمد حسین طباطبائی سنہ ۱۴۰۲ ھ۔۴:- تفسیر الکاشف ۔ علامہ محم جواد مغنیہ -۵:- الغدیر۔علامہ عبدالحسین احمد امینی سنہ ۱۳۹۰ھ علمائے اہل سنت کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس آیت کے علی بن ابی طالب علیہ الصلواۃ والسلام کےبارے میں نازل  ہونے کے متعلق روایت کی ہے ۔ میں ان میں سے فقط علمائے تفسیر کا ذکر کرتا ہوں :

۱:- تفسیر کشّاف عن حقائق التنزیل ۔جار اللہ محمود بن عمر زمخشری سنہ ۵۳۸ ھ جل ۱ صفحہ ۶۴۹

۲:-تفسیر الجامع البیان ۔(۱) حافظ محمد بن جریر طبری سنہ ۳۱۰ ھ جلد ۶ صفحہ ۲۸۸

۳:-تفسیر زاد المسیر فی علم التفسیر ۔سبط ابن جوزی سنہ ۶۵۴ھجلد ۲صفحہ ۲۱۹۔۴:- تفسیر الجامع الاحکام القرآن ۔محمد بن احمد قرطبی سنہ ۶۷۱ھ جلد ۶۳صفحہ ۲۱۹

۵:- تفسیر کبیر ۔امام فخر الدین رازی شافعی سنہ ۶۰۶ھ جلد۱۲ صفحہ ۲۶۔۶:- تفسیر القرآن العظیم ۔اسماعیل بن المعروف ابن کثیر سنہ ۷۷۴ھ جلد ۲ صفحہ ۷۱

۷:-تفسیر القرآن الکریم ۔ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی سنہ ۷۱۰ ھ جلد ۱صفحہ ۲۸۹۔۸:- تفسیر شواہد التنزیل لقواعد التفصیل والتاویل ۔حافظ حاکم حسکانی جلد ۱ صفحہ ۱۶۱۔۹:- تفسیر درّمنثور ۔حافظ جلال الدین سیوطی سنہ ۹۱۱ ھ جلد ۲ صفحہ ۲۹۳

--------------------

(۱):-اہل سنت میں راویان حدیث کے القاب کی درجہ بندی مندرجہ ذیل ہے :

۱:- محدّث : جسےدرایت حدیث پر عبور ہو            ۲:-حافظ:  جسے ایک لاکھ حدیثیں یاد ہوں

۳:- حجّت : جسے تین لاکھ حدیثیں یاد ہوں         ۴:- حاکم : جسے سب حدیثیں یاد ہوں (ناشر)

۵۷

۱۰:- اسباب النزول ۔ امام ابو الحسن واحدی نیشاپوری سنہ ۴۶۸ھ صفحہ ۱۴۸

۱۱:- احکام القرآن ۔ابو بکر احمد بن علی الجصاص حنفی سنہ ۳۷۰ھ جلد ۴ صفحہ ۱۰۳

۱۲:- التسہیل لعلوم التنزیل ۔حافظ کلبی غرناطوی سنہ ھ جلد ۱ صفحہ ۱۸۱

علمائے اہل سنت میں سے جن کے نام میں نے لیے ہیں ، ان سے زیادہ وہ ہیں جن کے نام میں نے نہیں لیے ۔لیکن وہ علمائے شیعہ سے اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت ولایت علی بن ابی طالب ع کی بابت نازل ہوئی ہے ۔

۲:- آیہ تبلیغ کا تعلق بھی ولایت علی ع سے ہے

اللہ تعالی کا فرما تا ہے :

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ "

اے رسول !جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس آیا ہے اسے پہونچادو ۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے اسے کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا ۔اور اللہ تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔(سورہ مائدہ ۔آیت ۶۷)

بعض اہل سنت مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ ص قتل اور ہلاکت کے خوف سے اپنے ساتھ محافظ  رکھتے تھے  جب آیت نازل ہوئی کہ " وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آپ نے اپنے محافظوں سے کہا : تم جاؤ ،اب اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔

ابن جریر اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن شقیق سے روایت بیان کی ہے کہ کچھ صحابہ رسول اللہ کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے ۔ جب آیت نازل ہوئی" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ" تو  آپ نے باہر نکل کر فرمایا : لوگو ! اپنے گھر والوں کے پاس  چلے جاؤ ،اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔(تفسیر درّ منثور ۔سیوطی جلد ۳ صفحہ ۱۱۹)

۵۸

ابن حبّان اور ابن مردویہ نے ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی سفر میں رسول اللہ کے ساتھ ہوتے تھے تو سب سے بڑا اور سایہ دار درخت ہم آپ کے لیے چھوڑ دیتے تھے ۔آپ اسی کے نیچے اترتے تھے ایک دن آپ ایک درخت کے نیچے اترے اور اس پر اپنی تلوار لٹکادی ۔ ایک شخص آیا اور اس نے تلوار اٹھالی ۔کہنے لگا : محمد ! بتاؤ اب تمھیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ " آپ نے فرمایا :" اللہ بچائے گا تو تلوار کھ دے :" اس نے تلوار رکھ دی ۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔ :" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " (۱)

ترمذی ،حاکم اور ابو نعیم  نے عائشہ سے روایت  کی ہے ۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ محافظ رہتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :" وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آپ نے قبّہ سے سر نکال کر  کہا : تم لوگ چلے جاؤ ، اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ۔

طبرانی ، ابو نعیم ، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عّباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ص کے ساتھ محافظ رہتے تھے ۔ آپ کے چچا ابو طالب ہر روز بنی ہاشم میں سے کسی شخص کو آپ کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۔پھر آپ نے ان سے کہہ دیا : چچا جان ! اللہ نے میری حفاظت کاذمہ لے لیا ہے اب کسی کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ۔

جب ہم ان احادیث پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مضمون آیت کریمہ کے ساتھ میل نہیں کھاتا اور نہ اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ٹھیک بیٹھتا ہے ۔ ان سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت بعثت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ۔ایک روایت میں تصریح ہے کہ یہ واقعہ ابو طالب کی زندگی کا ہے یعنی ہجرت سے کئی سال قبل کا ۔ خصوصا ابو ہریرہ تو یہ تک کہتے ہیں کہ جب ہم سفر میں رسول اللہ ص کے ہمراہ ہوتے تھے تو ان کے لیے سب سے بڑا درخت چھوڑ دیتے تھے ظاہر ہے یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ابو ہریرہ جیسا کہ وہ خود اعتراف کرتے ہیں

--------------------

(۱):- تفسیر در منثور ۔سیوطی

۵۹

سنہ ۷ ہجری سے قبل اسلام اور رسول اللہ کو جانتے بھی نہیں تھے ۔(۱) عائشہ اس وقت تک یا تو پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں یا ان کی عمر دوسال سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ یہ معلوم ہے کہ ان کا نکاح رسول اللہ سے ہجرت کے بعد ہوا اور اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ بااختلاف  روایت گیارہ سال تھی ۔ پھر یہ روایتیں کیسے صحیح ہوسکتی ہیں ؟ تمام سنی اور شیعہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورہ مائدہ مدنی سورت ہے ۔اور یہ قرآن کی سب سے آخری سورت ہے جو نازل ہوئی ۔

احمد اور ابو عبید اپنی کتاب فضائل میں ، نحاس اپنی کتاب ناسخ میں ۔ نسائی ، ابن منذر ،حاکم ابن مردویہ اور بیہقی اپنی سنن میں جبیر بن نفیر سے روایت کرتے ہیں کہ جبیر نے کہا : میں حج کرنے گیا تو حضرت عائشہ سے بھی ملنے گیا ۔انھوں نے کہا : جبیر! تم نے سورہ مائدہ پڑھی ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔کہنے لگیں یہ آخری سورت ہے جو نازل ہوئی ۔اس میں تم جس چیز کو حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جسے حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔(۲)

احمد اور ترمذی نے روایت کی ہے کہ اور حاکم نے اسے صحیح اور حسن کہا ہے ابن مردویہ اور بیہقی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے نزول کے اعتبار سے سورہ مائدہ کو آخری سورت بتایا ہے(۳) ۔

ابو عبیدہ نے محمد بن کعب قرطنی کے حوالے سے روایت بیان کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ سورہ مائدہ رسول اللہ ص پر حجّۃ الوداع میں اتری ۔اس وقت آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک اونٹنی پر سوار تھے ،وحی کے بوجھ سے اونٹنی کا کندھا ٹوٹ گیا تو آپ اترگئے(۴) ۔

ابن جریر نے ربیع بن انس سے روایت کی ہے کہ جب سورہ مائدہ رسول اللہ پرنازل ہوئی اس وقت آپ اپنی سواری پرسوار تھے ۔ وحی کے بوجھ سے اونٹنی بیٹھ گئی

------------------

(۱):- فتح الباری جلد ۶ صفحہ ۳۱ ۔البدایۃ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۱۰۲ ۔ سیر اعلام النبلاء ذہبی جلد ۲ صفحہ ۔۔ الاصابہ ، ابن حجر جلد ۳ صفحہ ۲۸۷

(۲)(۳)(۴):- تفسیر در منثور ،سیوطی جلد ۳ صفحہ ۳

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قدر چستى و دليرى تھى اور ايسا جوش و خروش پايا جاتا تھا كہ اس سے جوانوں كو تقويت ہوتى تھي_

عمار جس وقت ميدان كارزار كى جانب روانہ ہوئے تھے اس وقت وہ دست بدعا تھے اور خداوند تعالى سے فرياد كر رہے تھے اے پروردگار اے خدايا تو ناظر و شاہد ہے اگر ميں يہ جان لوں كہ تيرى رضا اسى ميں تھے كہ ميں خود كو سمندر ميں گرادوں تو ميں ايسا ہى كرونگا اگر مجھے يہ معلوم ہوجائے كہ تيرى خوشنودى اس ميں ہے كہ ميں اپنے سينہ و دل كو نوك شمشير پر اس طرح ركھ دوں كہ وہ ميرى كمر سے نكل آئے تو يقينا ميں ايسا ہى كروں گا ليكن اس علم كے مطابق جو تو نے مجھے ديا ہے كہ ميں يہ جانتا ہوں كہ تجھے آج كوئي عمل اس سے زيادہ راضى و خوشنود نہيں كر سكتا كہ تباہ كاروں كے خلاف جہاد كروں _(۱۹)

عمار وہ مخلص دلاور اور ايسے جنگجو سپاہى تھے جو ميدان كارزار ميں تھكنا نہيں جانتے وہ عاشق جانبازى كى مانند جنگ كرتے حق كے دشمنوں كے لئے انكى تلوار موت كا پيغام تھى اور جس كے سرپر پڑجاتى اسے واصل جہنم كرتى مگر حاميان حق كے دلوں كو اس سے تقويت ملتى در حقيقت وہ ميزان حق تھے چنانچہ نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہى كى شان ميں تو فرمايا تھا كہ : عمار حق كے ساتھ زندہ ہے اور حق عمار كے ساتھ ہے(۲۰) جو شخص بھى ان كے محاذ پر جنگ كرتا اسے يہ يقين ہوتا كہ وہ حق كى مدافعت كريں گے اور اسى راہ ميں اگر انھيں قتل بھى كرديا گيا تو انھيں بہشت بريں ميں جگہ ملے گي_

مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى كہ عمار ميزان حق ہيں چنانچہ جب كبھى حق و باطل كے درميان تشخيص كرنا مقصود ہوتا تو عمار كے عمل اور موجودگى كو بطور سند پيش كيا جاتا اس كى ايك مثال يہ ہے كہ : ان كے چچازاد بھائي'' ذى الكلاع حميرى '' شامى سپاہ عراق ميں شامل تھا عمار نے اسے بلايااور كہا ميں نے اس لئے بلايا ہے كہ تمہيں وہ حديث سناؤں جو عمروعاص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل كى ہے اس كى بعد انہوں نے وہ حديث بيان كى جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : شام اور عراق كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل ہوں گے ان ميں سے ايك حق و ہدايت كا پيشوا ہوگا اور عمار اسى كے ساتھ ہوں گے(۲۱) اس پر ابونوح نے كہا تھا كہ : خدا كى قسم عمار ہمارے ساتھ ہيں

۲۲۱

اور ہم سب سے زيادہ انھيں تم سے جنگ كرنے پر اصرار ہے كتنا اچھا ہوتا كہ تم سب ايك تن ہوتے اور ميں اسے ذبح كرتا اور سب سے پہلے تجھ چچازاد بھائي كو ہى قتل كرتا كيونكہ ہم حق پر ہيں اور تم باطل پر ہو_

اس كے بعد ذوالكلاع كى درخواست پر وہ عمروعاص كے پاس گئے تا كہ اس تك بھى يہ اطلاع پہنچائي جاسكے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں عمار بھى موجود ہيں اور شاميوں سے جہاد كرنے كيلئے واقعى وہ سنجيدہ ہيں تا كہ ان كے ضمير كو بيدار كيا جاسكے_

عمروعاص نے بھى گفتگو كے درميان اس حقيقت كا اعتراف كيا كہ : اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن ركھا ہے كہ عمار كو جفاكار اور باغى قتل كريں گے اس كے بعد عمروعاص كى تجويز پر اس كے اور عمار كے درميان ملاقات كا پروگرام مرتب كيا گيا گفتگو عمروعاص كى جانب سے شروع ہوئي اس نے عمار كو پند و نصيحت كرتے ہوئے كہا كہ : وہ جنگ و خونريزى سے باز رہيں اس ضمن ميں يہ بھى كہا كہ : ہمارے اور تمہارے درميان خدا كا فيصلہ قرآن اور رسول مشترك ہيں عمار نے كہا كہ : خدا كا شكر جس نے يہ توفيق دى كہ تم نے وہ سب باتيں اپنى زبان سے كہيں جو مجھے اور ميرے دوستوں كو كہنى چاہيے تھيں نہ كہ تمہيں _ اب ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ميں تم سے كيوں جنگ كر رہاہوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : ميں ''ناكثين'' سے جنگ كروں چنانچہ ميں نے ايساہى كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہى يہ حكم ديا تھا كہ ميں '' قاسطين'' سے جنگ كروں اور تم وہى ہو اسى لئے تم سے بر سر پيكار ہوں(۲۲)

بالاخر گفتگو كسى فيصلہ كن نتيجے تك نہيں پہنچى اور اب عمار دشمن كى اس فوج كے مقابلے ميں گئے جس كى فرماندارى عمروعاص كے ہاتھ ميں تھى جس وقت ان كى نگاہ عمروعاص كے پرچم پر گئي تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم اس پرچم كے خلاف تو ميں تين مرتبہ جنگ كرچكا ہوں اس راہ پر چل كر آدمى كہيں نہيں پہنچے گا اور دوسرے راستوں سے يہ كسى طرح بھى بہتر نہيں _(۲۳)

عمار نے اپنے ساتھيوں كے درميان بآواز بلند كہا كہ : كہاں ہيں وہ لوگ جو رضا خدا كے متمنى ہيں اور جنہيں مال و اولاد سے علاقہ نہيں(۲۴) اس كے بعد انہوں نے ان لوگوں سے خطاب

۲۲۲

كرتے ہوئے جنہوں نے راہ خدا ميں پيشقدمى كى تھى كہا كہ اے لوگو ہمارے ہمراہ ان لوگوں سے جنگ وجدل كيلئے جلد جلد آگئے آؤ جو اپنى دانست ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتے ہيں _(۲۵)

عمار جس لشكر ميں شامل تھے اس كے پرچمدار ہاشم مرقال تھے وہ اپنے پرچمدار كى حوصلہ افزائي كرتے رہتے كہ دشمن پر حملہ آور ہوں ہاشم مرقال بھى اپنى بے مثال دلاورى كے باعث جنگجو سپاہى كيلئے راستہ ہموار كرتے رہتے جب كبھى ان كا نيزہ ٹوٹ جاتا تو حضرت عمار انھيں دوسرا نيزہ دے ديتے ان دو جانبازوں كى بے پناہ و دليرانہ نبرد آزمائي نے عمروعاص كو ايسا مرعوب كيا اور اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس نے بآواز بلند كہا كہ جس شخص نے يہ سياہ پرچم اپنے ہاتھ ميں سنبھال ركھا ہے اگر اسى طرح آگے بڑھتا رہا تو آج يہ تمام عربوں ك ہلاك كر ڈالے گا_(۲۶)

جب يہ پيشوائے حريت يعنى عمار بہت سے شاميوں كو ہلاك كرچكے تو ان پر معاويہ كى فوج كے دو دلاور حملہ آور ہوئے اور ان ميں سے ايك نے اپنے نيزے سے ايسى كارى ضرب لگائي كہ وہ زمين پر آرہے اور دوسرے نے ان كے سرمبارك كو تن سے جدا كرديا(۲۷) اور اس طرح اس جرى و دلير سپاہى نے اپنے اس سركو جس سے وہ اپنے معبود حقيقى كے سامنے جبين سائي كيا كرتا تھا ميدان جہاد ميں اسى كى خاطر قربان كرديا_

اس جنگ كے دوسرے دلير و جانباز ہاشم بن عتبہ تھے جو دو زرہ پہنے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جس وقت پرچم ان كے سپرد كيا تو بطور مزاح ان سے كہا كہ : اس كا لے بزدل كا تو ڈر كہيں تمہارے دل ميں نہيں ؟(۲۸) اس پر انہوں نے عرض كيا كہ : يہ تو اميرالمومنينعليه‌السلام كو جلد ہى معلوم ہوجائے گا قسم خدا كى ميں ان كے سروں كو اس طرح اڑاوں گا كہ جس طرح كوئي اس دنيا سے دوسرى دنيا ميں جانے كا قصد ركھتا ہو_ اس كے بعد انہوں نے نيزہ اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اس زور سے اسے جھٹكا ديا كہ وہ ٹوٹ گيا دوسرا نيزہ لايا گيا وہ چونكہ سوكھ چكا تھا اسى لئے انہوں

۲۲۳

نے اسے دور پھينك ديا بآلاخر انھيں ايك نرم نيزہ ديا گيا جس پر انہوں نے پرچم كا پھريرا باندھا اور اپنے حملے كو اس خيمے پر مركوز كرديا جس ميں عمروعاص ، معاويہ اور ان كے دوست و احباب جمع تھے اس روز كشت كشتار كا ايسا بازار گرم ہوا كہ كسى نے اس سے پہلے ايسى قتل و غارتگرى نہ ديكھى تھى اور نہ ہى كسى كو موت كى ايسى گرم بازارى ياد تھي_ (۲۹)

آخرى مرتبہ جب سياہ پرچم امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم كو ديا تو چاہا كہ اب يہ جنگ ايك طرف ہو چنانچہ آپ نے فرمايا كہ : ہاشم معلوم نہيں اب تمہارا آب و دانہ كب تك كا باقى ہے؟ اس پر انہوں نے عرض كيا كہ اس مرتبہ راہ جہاد ميں ايسا نكلوں گا كہ پھر كبھى واپس نہ آؤں گا آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے مقابل ذى الكلاع ہے اور اس كے گرد موت منڈھلا رہى ، سرخ موت''

ہاشم ميدان كارزار كى طرف روانہ ہوئے جب وہ معاويہ كے نزديك پہنچے تو اس نے پوچھا كہ كون شخص ہے جو آگے بڑھا چلا آرہا ہے اسے بتايا گيا كہ ہاشم مرقال ہيں(۳۰) يہ سن كر اس نے كہا كہ وہى بنى زہرہ كا كانا، خدا اسے غارت كرے(۳۱) ہاشم نے اپنے ان ساتھيوں كے ہمراہ جو قارى قرآن اور خدا كے عاشق تھا كتنى مرتبہ دشمن كى صف كو درہم برہم كيا چنانچہ جس وقت وہ طائفہ '' تنوح'' كے پرچم تك پہنچے تقريبا دشمن كے دس دلاوروں(۳۲) كو ہلاك كرچكے تھے انہوں نے معاويہ كے پرچمدار كو جو طائفہ '' عذرہ'' كا فرد تھا قتل كرديا اس كے بعد ذوالكلاع ان سے جنگ كرنے كيلئے ميدان ميں آيا ان كے درميان ايسى زبردست جنگ ہوئي اور ايسى كارى ضربيں ايك دوسرے كو لگائي كہ دونوں ہى قتل ہوگئے(۳۳) اس كے بعد ان كے فرزند عبداللہ نے فورا ہى اپنے والد كا پرچم اٹھاليا اور جہاد كيلئے آمادہ ہوگئے_(۳۴)

حضرت عمار كى شہادت كارد عمل

عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كو بہت زيادہ غمگين و رنجيدہ خاطر كيا چنانچہ ان كى جدائي كا ايسا قلق و صدمہ ہوا كہ آپ نے ان كے سوگ

۲۲۴

ميں گريہ و زارى كرتے ہوئے چند اشعار بھى كہے جن كا مفہوم يہ ہے كہ : اے موت مجھے تجھ سے رہائي تو نصيب نہ ہوگى اور مجھے بھى اس زندگى سے نجات دے كيونكہ تونے تمام دوستوں كو مجھ سے چھين ليا ہے مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ تو ميرے دوستوں كو خوب پہچانتى ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تو كسى راہنما كى مدد سے ان كى تلاش ميں نكلتى ہے_ (۳۵) ليكن اس كے ساتھ ہى اس شہادت نے باطل كے چہرے كو بے نقاب كرديا اور لشكر شام كے بہت سے سپاہيوں كا رادہ متزلزل ہوگيا چنانچہ ان ميں سے بعض افراد كو جن ميں عبداللہ بن سويد بھى شامل تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں فرمائي تھى اور ان پر يہ ظاہر ہوگيا كہ معاويہ ناحق اور باطل پر ہے اور اس كى يہ جنگ در اصل بغاوت تھى چنانچہ انہوں نے معاويہ كا ساتھ چھوڑ كر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ہمراہى اختيار كرلي_

عمار كى شہادت نے سپاہ دشمن كو بھى اتنا متاثر كيا كہ اس كا حوصلہ بھى متزلزل ہوگيا چنانچہ عمروعاص نے اس كے اثر كو زائل كرنے كے خيا ل سے ايك بہانہ نكل ہى ليا اور يہ اعلان كرديا كہ '' عمار كے قاتل ہم نہيں بلكہ علىعليه‌السلام ہيں كيونك انہوںعليه‌السلام نے انھيں محاذ جنگ پر بھيجا تھا_(۳۶)

معاويہ نے بھى اس جرم كى پاداش ميں كہ عمروعاص نے وہ حديث نقل كى تھى جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں بيان كى تھى اس كى بہت زيادہ سرزنش كى اور كہا كہ تم نے شام كے لوگوں كو ميرے خلاف شورش پر آمادہ كيا ہے كيا ضرورى تھا كہ تم نے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا اسے يہاں بيان كرتے انہوں نے جواب ديا كہ مجھے كيا معلوم تھا كہ وہ وقت بھى آئے گا جب جنگ صفين بپا ہوگى جس روز ميں نے يہ حديث بيان كى تھى اس وقت عمار ہمارے اور تمہارے ہم خيال تھے اس كے علاوہ جو كچھ ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن كر بيان كيا تھا تم نے بھى اسے نقل كيا ہے اور اگر اس بات سے تمہيں انكار ہے تو خود ہى شام كے لوگوں سے دريافت كرلو معاويہ كو پہلے سے بھى زيادہ طيش آيا اور اس نے عمروعاص كو بہت زيادہ سخت و سست كہا_(۳۷)

۲۲۵

سوالات

۱_ جب بعض سپاہى محاذ جنگ سے فرار كر گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدام كيا اور انہيںعليه‌السلام كس حد تك اپنے مقصد ميں كاميابى ہوئي؟

۲_ مالك اشتر كا جنگ صفين ميں كيا كردار رہا مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_ معاويہ كا غلام حريث كس طرح فريفتہ ہوا اور وہ كس كے ہاتھوں ماراگيا؟

۴_ جنگ ختم كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كے سامنے كونسى تجويز ركھي؟

۵_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تزلزل پيدا كرنے كيلئے محاذ جنگ پر حضرت امام حسنعليه‌السلام كے سامنے كيا تجويز پيش كى اس پر حضرت حسنعليه‌السلام كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۶_ سپاہ اسلام كے فرمانداروں پر عمار كو كيا خصوصيت و برترى حاصل تھي؟

۷_ شام كى سپاہ پر عمار كى شہادت كا كيا اثر ہوا اس كے بارے ميں ايك تاريخى مثال پيش كيجئے؟

۸_ عمار كى شہادت كا اثر زائل كرنے كے لئے عمروعاص نے كيا تركيب نكالي؟

۲۲۶

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ص ۲۵۳و ۲۵۰

۲_ شايد اس آيت كى جانب اشارہ ہے) يا ايها الذى آمنوا اذا لقيتم الذين كفرو ازحفا فلا تولوا هم الادبار و من يولهم يومئذ دبره الا متحرفا لقتال او منحيزا الى فئة فَقَد باء بغضب من الله و ماواه جهنم و بئس المصير ( (الے لوگو جو ايمان لائے ہو، جب تم ايك لشكر كى صورت ميں كفار سے دوچار ہو تو ان كے مقابلے ميں پيٹھ نہ پھيرو جس نے ايسے موقعے پر پيٹھ پھيرى مگر يہ كہ جنگى چال كے طور پر ايسا كرے يا كسى دوسرے فوجى دستہ سے جا ملنے كے لئے تو وہ اللہ كے غضب ميں گھر جائے گا اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے سورہ انفال آيہ ۱۴_ ۱۵

۳_ وقعہ صفين ص ۲۵۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۵ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۰۴

۴ و ۵_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۶_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۷_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۲ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۴

۸_ وقعہ صفين ص ۲۵۴ _ ۲۵۳ '' الا ليستحيى الرجل ان ينصرف لم يقتل و لم يقتل؟

۹_ وقعہ صفين ۲۴۳ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۵(۱۰) وقعہ صفين ص ۲۷۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۵

۱۱_و الله ما بارز ابن ابى طالب رجلا قط الا سقى الارض من دمه

۱۲_ وقعہ صفين ص ۲۷۴_ ۲۷۵_۳۱۶ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۸_ ۲۱۷ ، يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ تاريخ كے اس حصے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كا اپنى سپاہ كے ساتھ جو رويہ رہا اسے مورخين نے مختلف طوار سے بيان كيا ہے انہوں نے لكھا ہے حضرت علىعليه‌السلام كتنى ہى مرتبہ محاذ جنگ پر تشريف لے گئے اور آپعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كى مدد بھى كى مگر اس كے برعكس معاويہ كى يہ پورى توجہ اپنى جان كى حفاظت كى جانب رہى اس واقعے كے ضمن ميں جو اوپر گذرا ہے معاويہ نے عمروعاص سے كہا تھا كہ : كيسى نادانى كى باتيں كرتے ہو قبائل عَكّ اشعريان اور جذام كے ہوتے ہوئے ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں ، وقعہ صفين ۲۷۵

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۳۱۴_۳۱۳ ، وقعہ صفين ۴۲۴_۴۲۳ ، وقعہ صفين ميں نقل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے

۲۲۷

جب عمروعاص پر ضرب كارى لگائي اور وہ اس كى تاب نہ لاسكا تو اس نے يہ بدترين راہ اختيار كي_

۱۴_ وقعہ صفين ۴۱۸_ ۴۱۷

۱۵_ وقعہ صفين ص ۲۹۷

۱۶_ وقعہ صفين ۴۷۸_۴۷۷

۱۷_ وقعہ صفين ص ۴۷۵ ، ليكن اسى كتاب كے صفحہ ۳۹۲ پر اور شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۴۹ ميں درج ہے كہ اس وقت اكثر سپاہ نے نماز اشاروں سے پڑھي_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۹۸ ، (فيض)

۱۹_ لغت ميں ہرير كے معنى اس آواز كے ہيں جو سردى پڑنے كى وجہ سے كتے سے نكلتى ہے چونكہ اس شب شديد جنگ جارى تھى اور فريقين كے گھڑ سوار ايك دوسرے كے سرپر چيختے تھے اس لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں (معجم البلدان ج ۵ ص ۴۰۳ ، مجمع البحرين ج ۳ ص ۵۱۸ مادہ ہرر

۲۰_ نصر بن مزاحم نے وقعہ صفين ص ۴۷۵ ميں اس دن اور رات كے دوران قتل ہونے والوں كى تعداد ستر ہزار افراد بيان كى ہے_

۲۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۰ ، شرح ابن ابى الحديدج ۵ ص ۲۵۳

۲۲_ حضرت عمار سے متعلق احاديث نبوى كے بارے ميں مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ ہوں معجم رجال الحديث ج ۱۲ ص ۲۶۷ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۸۷، استيعاب ج ۲ ص ۴۳۶ ،اور وقعہ صفين ص ۳۴۳_۳۴۲

۲۳_ ''يلتقى اهل الشام و اهل العراق و فى احد الكتيبيتين الحق و امام لهدى و معه عمار بن ياسر

۲۴_ وقعہ صفين ص ۳۴۰_۳۳۳

۲۵_و الله ان هذه الراية قاتلها ثلاث عركات و ما هذه بار شدهَّن (وقعہ صفين ص ۳۴۰)

۲۶_ اين من يبتغى رضوان ربہ و لا يؤب الى مال و لا ولد

۲۷_ وقعہ صفين ص ۳۲۶

۲۸_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۲۲۸

۲۹_ وقعہ صفين ص ۳۴۱_۳۴۰

۳۰_ يہاں حضرت اميرالمومنينعليه‌السلام كا اشارہ حضرت مرقال كى جانب تھا كيونكہ وہ ايك آنكھ سے محروم تھے_

۳۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۳۲_ انھيں مرقال اس بنا پر كہا جاتا تھا كہ وہ بہت چست و چالاك اور تيز رفتار تھے چونكہ ان كى آنكھ جاتى رہى تھى اسے لئے انھيں اعور بھى كہا جاتا تھا_

۳۳_ وقعہ صفين ۳۴۷_ ۳۴۶

۳۴_ وقعہ صفين ۳۵۵

۳۵_الا ايها الموت الذى لست تاركى ارحنى فقد افنيت كل خليل

اراك بصيرا بالذين احبهمكانك تنحو محوه بدليل

۳۶_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۱

۳۷_ وقعہ صفين ۳۴۵

۲۲۹

بارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۴

نجات كيلئے كوشش

آخرى فريب

سپاہ عراق كا رد عمل

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

مالك كا واپس آنا

سركشوں كى سرزنش

نفاق و حماقت كے خلاف جد و جہد

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ كى جانب

حكمين كا انتخاب

سوالات

حوالہ جات

۲۳۰

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ علىعليه‌السلام كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں _ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں _

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيں كہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

۲۳۱

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_ (۱)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں _ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپعليه‌السلام كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوں پر قطعى پانى پھيرديا_(۲)

۲۳۲

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ علىعليه‌السلام كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت علىعليه‌السلام كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(۳)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے(۴) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

۲۳۳

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(۵)

بروز جمعہ (يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ (اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے(۶) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپعليه‌السلام نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(۷)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات(۸) (خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

۲۳۴

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ(۱۹) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(۱۰)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا (بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں ''(۱۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

۲۳۵

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(۱۲)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں(۱۳) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت علىعليه‌السلام كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(۱۴)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

۲۳۶

كريں _ (۱۵)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(۱۶)

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(۱۷) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں _

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

۲۳۷

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(۱۸) _

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

۲۳۸

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_ (۱۹)

انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں _(۲۰)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں _ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت علىعليه‌السلام كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

۲۳۹

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على عليه‌السلام نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنينعليه‌السلام كو دشمن كے حوالے كرديں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(۲۱)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328