حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55347
ڈاؤنلوڈ: 5073

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55347 / ڈاؤنلوڈ: 5073
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عمر نے کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی تھی ۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ ص عرفہ کے دن وقوف فرمارہے تھے "۔

ابن جریر نے عیسی بن حارثہ انھاری  سےروایت کی ہے کہ ہم دیوان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عیسائی نے  ہم سے کہا :" تم پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن اور اس ساعت کو عید بنالیتے اور جب تک کوئی دوعیسائی بھی باقی رہتے ہمیشہ عید منایا کرتے ۔یہ آیت" الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " ہے ۔ ہم میں سے کسی نے اسے کوئی جواب نہیں دیا بعد میں  جب محمد بن کعب قرطنی سے ملا تو ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا انھوں نے کہا :" کیا تم نے عیسائیوں کی بات کوجواب نہیں دیا"؟ پھر اسی سلسلے میں کہا کہ عمر بن خطّاب کہتے تھے کہ جب یہ آیت رسول اللہ ص پر اتری وہ عرفہ کے دن جبل عرفات پر کھڑے ہوئے تھے ۔یہ دن مسلمانوں کی عید رہیگا ہی جب تک کوئی ایک مسلمان باقی ہے(1) ۔

راوی کہتا ہے کہ "ہم میں سے کسی نے اسے جواب نہیں دیا " اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ نہ کسی کو وہ تاریخ یاد تھی کہ جس تاریخ کو یہ آیت اتری اور نہ اس دن کی عظمت سے واقف تھے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو خود بھی اس پر حیرت ہوئی تھی کہ کیا بات ہے کہ مسلمان ایسے اہم دن کو نہیں مناتے ۔اسی لیے وہ جاکر محمد بن کعب قرطنی سے ملتا ہے اور ان سے دریافت کرتا ہے ۔محمد بن کعب قرطنی اسے بتلاتے ہیں کہ  عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ " یہ آیت اس وقت اتری جب عرفہ کے دن رسو ل الل ص جبل عرفات پر کھڑے تھے " تو اگر وہ دن بطور عید کے مسلمانوں میں معروف ہوتا تو راوی حضرات خواہ وہ صحابہ میں سے تھے یا تابعین میں سے اس سے ناواقف کیوں ہوتے ۔ ان کے نزدیک مسلّم اور مشہور بات یہی تھی کہ مسلمانوں کی عیدیں دو ہیں : ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  بخاری ومسلم جیسے علماء اور محدثین نے بھی اپنی کتابوں میں

--------------------

(1):- سیوطی ۔ درّ منثور جلد 3 صفحہ 18

۸۱

"کتاب العيدين  صلاة العيدين اورخطبة العيدين " وغیرہ  کے عنوان باندھے ہیں ۔ خاص وعام کے نزدیک مسلّمہ امر یہی ہے کہ تیسری عید کا وجود نہیں ۔اس لیے یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ یوم عرفہ ان کے نزدیک عید نہیں ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ان روایات سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اس کا علم نہیں تھا کہ یہ آیت کب نازل ہوئی اور وہ اس دن کو نہیں مناتے تھے اس لیے ایک دفعہ یہودیوں کو اور دوسری دفعہ عیسائیوں کویہ خیال آیا کہ وہ مسلمانوں سے کہیں کہ اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید قراردیتے ۔ اس پر عمر بن خطاب نے پوچھا کہ کونسی آیت ؟ جب ان کو بتایا گیا کہ  "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " والی آیت تو انھوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کہاں نازل ہوئی ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ص عرفہ کے دن میدان عرفات میں تھے ۔ہمیں اس روایت میں مغالطہ دینے کی بو آتی ہے ۔ کیونکہ جن لوگوں نے امام بخاری کے زمانے میں عمر بن خطاب کی زبانی یہ روایت وضع کی وہ یہودو نصاری کی اس رائے  کے درمیان کہ ایسے عظیم دن کو عید کی طرح منانا چاہیے اور اپنے اس عمل کے درمیان کہ انھیں اس آیت کے نزول کی  تاریخ بھی معلوم نہیں تھی ، ہم آہنگی پیدا  کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے یہاں دو ہی عیدیں تھی ۔: پہلی عید الفطر جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو ہوتی ہے اور دوسری عید الاضحی جو دہم ذوالحجہ کو ہوتی ہے ۔

یہاں یہ کہنا کافی ہے کہ حجاج  بیت اللہ الحرام  اس وقت تک احرام نہیں کھولتے جب تک جمرہ عقبہ کی رمی  ، قربانی ، اور سرمنڈانے کے بعد طواف افاضہ نہ کرلیں ۔ اور یہ سب کا م دس ذی الحجہ کو ہوتے ہیں ۔ دس تاریخ ہی کو وہ عید کی ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ حج میں احرام  ایسا ہی ہے جیسے رمضان ،جس میں روزہ دار پر متعدد چیزیں حرام ہوجاتی ہیں اور وہ چیزیں عید الفطر ہی سے حلال ہوتی ہیں ۔ اسی طرح حج میں محرم دس ذی الحجہ کو طواف افاضہ کے بعد ہی احرام کھولتا ہے اور اس سے پہلے اس کے لیے جماع ، خوشبو ،زینت سلے ہوئے کپڑے ،شکار اور ناخن اور بال کاٹنے میں سے کوئی حلال نہیں ہوتی ۔

اس سے معلوم ہوا کہ یوم عرفہ جو ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہے ، عید کادن نہیں ۔

۸۲

ہے ۔عید کا دن دسویں ذی الحجہ ہے اور اسی دن مسلمان ساری  دنیا میں عیدمناتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ قول کہ آیت اکمال عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی ناقابل فہم اورناقابل تسلیم ہے ۔ظن غالب یہ ہے کہ جو لوگ خلافت میں شوری کے اصول کے بانی اور اس نظریہ کے قائل تھے ، انھوں نے ہی اس آیت کے نزول کی تاریخ بھی بدل دی جو دراصل غدیر خم میں امام علی ع کی ولایت کے اعلان کے فورا بعد تھی ، اس تاریخ کو یوم عرفہ سے بدل  دینا آسان تھا ،کیونکہ غدیر کے دن بھی ایک لاکھ یا اس سے  کچھ اوپر حاجی ایک جگہ جمع ہوئے تھے ۔

یوم عرفہ اور یوم غدیر  میں ایک خاص مناسبت ہے کیونکہ حجۃ الوداع کے زمانے میں ان ہی دو موقعوں پر اتنے حاجی ایک جگہ جمع ہوئے تھے ۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ ایام حج میں حاجی متفرق طور پر ادھر ادھر رہتے ہیں ، صرف عرفہ ہی کا دن ایسا ہوتا ہے کہ جب حاجی ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی  ہو کہتے  ہیں کہ یہ رسول اللہ ص کے اس مشہور خطبے  کے فورا بعد نازل ہوئی جسے محدثین نے خطبۃ الحجۃ الوداع کے عنوان سے نقل کیا ہے ۔ یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اس آیت کے نزول  کی تاریخ خود عمر ہی نے یوم عرفہ قراردی ہو کیونکہ خلافت علی ع کے سب سے بڑے مخالف وہی تھے اور انھوں نے ہی سقیفہ میں ابو بکر  کی بیعت کی بنیاد قائم  کی تھی ۔

اس خیال کی صحت کی تائید  اس روایت سے ہوتی  ہے جو ابن جریر نے قبیصہ بن ابی ذؤیب  سے روایت کی ہے ۔ قبیصہ کہتے ہیں کہ کعب نے کہا تھا کہ اگر یہ آیت کسی اور امت پر نازل ہوئی ہوتی تو وہ اس دن کو جب یہ نازل ہوئی تھی یادرکھتے اور عید قراردے لیتے اور اس دن سب جمع  ہوا کرتے ۔ عمر نے سنا تو کعب سے پوچھا : کون سی آیت ؟ کعب نے کہا :"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " عمر نے کہا: مجھے معلوم ہے ، یہ آیت کب نازل ہوئی تھی اور وہ جگہ بھی معلوم ہے جہاں یہ نازل ہوئی تھی ۔ یہ جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی اور اس دن عرفہ تھا ۔ یہ

۸۳

دونوں دن اللہ کے فضل سے ہمارے لیے عید ہیں ۔(1)

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ آیہ اکمال عرفہ کے دن نازل ہوئی  ، آیہ تبلیغ" يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ " کے منافی ہے ۔آیہ  تبلیغ میں رسول اللہ ص  کو ایک اہم پیغام پہنچانے  کا حکم دیا گیا جس کے بغیر کار رسالت مکمل نہیں ہوسکتا ۔اس آیت کے بارے میں بحث گزرچکی  اوربتایا جاچکا کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے بعد مکے اور مدینے کے درمیان راستے میں نازل  ہوئی تھی ۔ یہ روایت ایک سو بیس سے زیادہ  صحابہ اور تین سوساٹھ سے زیادہ علمائے اہل سنت نے بیان کی ہے ، پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی  نے دین کو مکمل اورنعمت کو تمام تو کردیا ہو بروز عرفہ اور پھر ایک ہفتے کے بعد اپنے نبی کو جب وہ مدینے جارہے تھے کسی ایسی اہم بات کو پہنچادینے کا حکم دیا ہو جس کے بغیر رسالت ناتمام رہتی ہو ۔اسے ارباب عقل ودانش ذرا سوچو یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے !؟

تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی جویائے تحقیق اس خطبے کو جو رسول اللہ ص نے عرفہ کے دن دیا ، غور سے دیکھے گا تو اسے اس خطبے میں کوئی نئی چیز نہیں ملے گی ، جس سے مسلمان  اس سے بیشتر  ناواقف تھے اور جس کے متعلق خیال کیا جاسکے  کہ اس سے اللہ نے دین کو کامل اور نعمت کو تمام کردیا ۔ اس خطبے میں وہی نصحیتیں ہیں جن کو قرآن  کریم یا رسول اللہ ص مختلف موقعوں پر پہلے بھی بیان کرچکے تھے اور عرفہ کے دن ان پر مزید زوردیاگیا تھا ۔ اس خطبے میں جو کچھ آیا ہے اور جسے راویوں نے محفوظ کیا ہے ، وہ حسب ذیل ہے :

۔ اللہ نے تمھاری جانوں  اور تمھارے اموال کو اسی طرح محترم قراردیا ہے جیسا کہ اس مہینے اور آج کے دن کو ۔

۔ اللہ سے ڈرو! لوگوں کو ان کے واجبات ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرو اور زمین  میں  ازراہ شرارت فساد نہ پھیلاؤ ۔ جس کے پاس امانت ہو ، وہ صاحب  امانت کو لوٹا دے ۔

--------------------

(1):- سیوطی ۔ تفسیر درمنثور آیت" الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " کی تفسیر میں ۔

۸۴

۔ اسلام میں سب برابر ہیں ۔ عربی کو عجمی پر بجز تقوی کے کوئی فضیلت نہیں ۔

۔ جاہلیت میں جو خون ہوا اب وہ میرے پاؤں تلے اور جاہلیت کا جو سود تھا وہ بھی میرے پاؤں تلے (یعنی زمانہ جاہلیت میں جو خون ہوا اس کا انتقام نہیں لیا جائے گا  اور جو قرض دیا گیا ہے اس پر سود کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا)۔

۔ لوگو! لوند(1) کا رواج کفر کو بڑھانا ہے ۔آج زمانہ پھر وہیں پہنچ گیا ہے جہاں سے چلا تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا ۔

۔ اللہ کے نزدیک ،اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن میں سے چار حرام ہیں ۔

۔ میں تمھیں نصیحت کرتاہوں  کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا ۔ تم نے  ان کو اللہ کی امانت کے پر لیا ہے ۔ اور تم نے کتاب اللہ کے حکم کے مطابق ان کی شرمگاہیں اپنے لیے حلال کی ہیں ۔

۔ میں تمھیں تمھارے مملوک غلام ، باندیوں کے بارے میں نصیحت کرتاہوں ، جو خود کھاؤ اسی میں سے ان کو کھلاؤ اور جو پہنو اسی میں سے ان کو پہناؤ ۔

۔ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ۔اسے دھوکانہ دے ، اس سے دغانہ کرے ، اس کی غیبت نہ کرے ۔ کسی مسلمان  کا خون اور اس کے مال میں سے کچھ بھی دوسرے مسلمان کے لیے حلال نہیں ۔

۔ آج کے بعد شیطان  اس سے ناامید ہوگیا ہے کہ اس کی پوجا کی جائے گی ، لیکن اپنے دوسرے معاملات میں جنھیں تم معمولی سمجھتے ہو اس کی بات

--------------------

(1):-خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ۔ ان میں سے چار مہینوں : ذی القعدہ ، ذی الحجہ ،محرم اور رجب کو خدا نے حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن جو قبیلے ان حرام مہینوں میں جنگ کرنا چاہتے تھے کعبہ کے متولی ان سے پیسے لےکرحرام مہینوں کو بدل دیتے تھے ۔ وہ ان مہینوں کی جگہ دوسرے مہینوں کو حرام قراردیتے تھے (ناشر)

۸۵

مانی جائے گی  ۔

۔ اللہ کا بدترین دشمن وہ ہے جو اس کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہ کیا ہو اور اسے مارے جس نے اسے مارانہ ہو ۔جس نے آقا کا کفران کیا اس نے گویا جو اللہ نے محمد ص پر اتارا ہے اس کو ماننے سے انکار کیا ۔جس نے اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی اور اسے اپنے آپ کو منسوب کی تو اس پر لعنت اللہ کی  فرشتوں کی اور سب انسانوں کی ۔

۔ مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ نہ تسلیم کریں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ یہ کہہ دیں  تو میری طرف سے ان کی جان  اور ان کا مال محفوظ ہوں گے سوائے اس کے کہ جو اللہ کے قانون  کے مطابق ہو ۔ اور ان کا فیصلہ اللہ پر ہے ۔

۔ میرے بعد دوبارہ کافر اور گمراہ نہ ہوجانا ۔ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

یہ ہے وہ سب کچھ جو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ عرفہ میں کہا گیا تھا ۔ میں نے اس کے مختلف ٹکڑے تمام قابل اعتماد مآخذ سے جمع کیے ہیں تاکہ کچھ چھوٹ نہ جائے میں نے رسول اللہ ص  کی وہ سب ہدایات جن کا محدثین نے ذکر کیا ہے جوں کی توں نقل  کردی ہیں ۔ اب دیکھئے ! کیا ان میں صحابہ کے لیے کوئی نئی بات ہے ؟ بالکل نہیں ۔ کیونکہ جو کچھ اس خطبے میں ہے ۔وہ قرآن وسنت میں پہلے ہی مذکور ہے ۔ رسول اللہ ص کی  پوری عمروحی کے مطابق ہر چھوٹی بڑی بات کی تعلیم لوگوں کودیتے گزری تھی ۔ ان ہدایات کے بعد جن کو مسلمان پہلے سے جانتے تھے ، آیہ اکمال الدین  کے نزول کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ ان ہدایات کا اعادہ تو محض تاکید کے لیے تھا  کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں رسول اللہ ص  کی خدمت میں جمع ہوئے تھے ۔ رسول اللہ ص نے حج کے لیے نکلنے  سے پہلے ان کو بتلا دیا تھا کہ یہ حجۃ الوداع ہے ۔ اس لیے آنحضرت کے لیے ضروری تھا کہ وہ یہ ہدایات سب مسلمانوں کو سنادیں ۔

لیکن اگر ہم دوسرے قول کو قبول  کرلیں جس کے مطابق یہ آیت  غدیر خم کے

۸۶

دن اس وقت نازل ہوئی جب امام علی ع کو خلیفہ رسول اور امیرا المومنین مقرر کردیا گیا تو اس صورت میں معنی بالکل صحیح ہوجاتے ہیں کیونکہ اس کا فیصلہ کہ رسول اللہ ص کے بعد ان کا خلیفہ  اور جانشین کون ہوگا ،  نہایت اہم معاملہ تھا اور یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو یوں ہی  چھوڑ دے ۔ اور نہ یہ رسول اللہ ص کی شان کے مناسب تھا کہ وہ کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کیے بغیر دنیا سے چلے جائیں  اور اپنی امت کو بغیر کسی نگران کے چھوڑ جائیں جب کہ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی آپ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے ، کسی صحابی کو اپنا جانشین مقرر کرکے جاتے تھے ۔پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ آپ رفیق اعلی سے جاملے اور آپ نے خلافت کے بارے میں کچھ سوچا ؟

جب کہ ہمارے زمانے میں بے دین بھی اس قاعدے  کو تسلیم کرتے ہیں اور سربراہ مملکت کاجانشین اس کی زندگی ہی میں مقررکردیتے ہیں تاکہ حکومت  کا انتقام  چلتا رہے اور لوگ ایک دن بھی سربراہ کے بغیر نہ رہیں ۔

پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام جو سب ادیان میں کامل ترین اور سب سے جامع ہے ۔جس  پر اللہ تعالی نے تمام شریعتوں  کوختم کیا ہے اور جس سے زیادہ ترقی یافتہ ، جس سے کا مل تر ، جس سے عظیم تر اور جس سے خوب تر کوئی دین نہیں ہے ، اتنے اہم معاملے کی  طرف توجہ نہ دے ،

ہم یہ پہلے دیکھ چکے ہیں کہ حضرت عائشہ ، ابن عمر اور ان سے پہلے خود ابوبکر اور عمر بھی یہ محسوس کرچکے تھے کہ فتنہ وفساد کو روکنے کے لیے خلیفہ کا تعین ضروری  ہے ۔ اسی مصلحت کی وجہ سے ان کے بعد آنے والے سب خلفاء بھی اپنا جانشین مقرر کرتے رہے ۔ پھر یہ مصلحت اللہ اور اس کے رسول  ص سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھی ؟؟؟

اسی کے مطابق یہ قول ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول  کو جب وہ حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے ، آیہ تبلیغ  کے ذریعے  وحی بھیجی تھی کہ علی ع کو اپنا خلیفہ مقرر کردیں  :" يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ " الخ

اس سے معلوم ہوا  ،دین کی تکمیل امامت یعنی ولایت پر موقوف ہے جو

۸۷

عقلاء کے نزدیک ایک ضروری چیز  ہے ۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علی وآلہ وسلم کو لوگوں  کی مخالفت یا تکذیب کا اندیشہ تھا ۔ چنانچہ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

" جبرئیل نے مجھے میرے پروردگار کا یہ حکم پہنچایا  ہے کہ میں اس مجمع میں کھڑے ہوکر گورے کالے کے سامنے یہ اعلان کردوں کہ علی بن ابی طالب ع میرے بھائی ، میرے وصی اور میرے خلیفہ ہیں اور وہی میرے بعد امت  کے امام ہوں گے چونکہ میں جانتا  تھا کہ متقی کم اور موذی زیادہ  ہیں اور لوگ مجھ پر نکتہ چینی بھی کرتے تھے کہ میں زیادہ  وقت علی ع کے ساتھ گزارتا ہوں اور ان ک و پسند کرتاہوں  اور اسی وجہ سے انھوں نے میرا نام " اذن" (کانوں کا  کچا) رکھ دیا  تھا ۔قرآن شریف  میں ہے ۔" وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيِقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ " (سورہ توبہ ۔ آیت 61) اگر چاہوں تو میں ان لوگوں کے نام بھی بتلاسکتا ہوں ۔ مگر میں نے اپنی فرخدلی سے ان کے ناموں پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ ان وجو ہ سے میں نے جبرئیل  سے کہا کہ میرے پروردگار سے کہہ دیں  کہ مجھے اس فرض کی بجاآوری سے معافی دیدے مگر اللہ نے میری معذرت قبول نہ  کی اور کہا کہ یہ پیغام  پہنچانا ضروری  ہے ۔ پس لوگو سنو! اللہ تعالی  نے تمھارا ایک ولی اور امام مقررکردیا  ہے اور اس کی اطاعت تم میں  سے ہر ایک پر فرض کردی ہے ۔۔۔۔۔۔(1)۔

جب یہ آیت نازل ہوئی کہ" وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر کسی تاخیر کے اسی وقت اپنے پروردگار  کے حکم  کی تعمیل

--------------------

(1):- یہ مکمل خطبہ طبری نے کتاب الولایہ میں نقل کیا ہے ۔سیوطی نے بھی اسے تفسیر درمنثور جلد دوم میں ملتے جلتے الفاظ میں نقل کیا ہے ۔

۸۸

کی اور اپنے بعد علی ع کو خلیفہ مقرر کردیا ۔آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کو امیر المومنین  مقرر ہونے پر مبارک باد دیں ۔ چنانچہ سب نے انھیں تبریک پیش کی ۔اس کے بعدیہ آیت نازل ہوئی : " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " الخ ۔یہی نہیں ، بعض علمائے اہل سنت خود اعتراف کرتے  ہیں کہ آیہ تبلیغ امام علی ع کی امامت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔ چنانچہ انھوں نے ابن مردویہ سے روایت کی ہے ۔ ابن مردویہ کہتے ہیں کہ ابن مسعود کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ص کے زمانے میں اس آیت کو اس طرح پڑھا کرتے تھے ۔:

يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ " (1) ۔

اس کے ساتھ اگر ہم ان شیعہ روایات کا بھی اضافہ کردیں  جو ہو ائمہ اہلبیت ع سے روایت کرتے ہیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالی  نے اپنے دین  کو امامت سے مکمل کیا اور یہی وجہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک  امامت اصول دین میں شامل  ہے ۔ علی ابن ابی طالب ع کی امامت سے ہی اللہ نے اپنی نعمت مسلمانوں پر تمام کی تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہ ہو اور وہ خواہشات کی آماجگاہ بن جائیں ، فتنے ان میں تفرقہ ڈالدیں اور وہ بھیڑوں کا ایسا گلہ رہ جاتیں جن کا کوئی رکھوالا اور چرواہا نہ ہو ۔

اللہ نے اسلام  کو بطور دین کے پسند کرلیا ، کیونکہ اس نے ان کے لیے ایسے ائمہ کو منتخب  کیا جو ہر برائی اور گندگی سے پاک  تھے ۔ اس نے ان اماموں  کو حکمت ودانائی عطاکی اور انھیں کتاب اللہ کے علم کا وارث بنایا تاکہ وہ خاتم  المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی بن سکیں ۔ اس لیے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے حکم اور اس کے فیصلے پر راضی رہیں اور اس کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کردیں ۔ اس لیے کہ اسلام کا عام مفہوم ہی اللہ کے ہر حکم کو تسلیم کرنا

--------------------

(1):- شوکانی  ، تفسیر فتح الباری القدیر جلد 3 صفحہ 57 ۔سیوطی ، تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 298

۸۹

اور اس  کی مکمل اطاعت کرنا  ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

" وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ () وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ () وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ()"

تمھارا پروردگار  جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسند کرتا ہے ۔ لوگوں کو پسند کا کوئی حق نہیں  ۔ یہ لوگ جو شرک کرتے  ہیں اللہ سے پاک اور برتر ہے ۔اور ان کے دلوں میں جو کچھ پوشیدہ ہے اور جو کچھ یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں تمھارا پروردگار  اس کو جانتا ہے ۔اللہ وہی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے سب تعریف اسی کی ہے  دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔اور حکومت  بھی اسی کی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹا ئے جاؤگے ۔(سورہ قصص ۔آیات 68-70)

ان تمام باتوں  سے سمجھ میں یہی آتا ہے  کہ رسول اللہ ص نے یوم  غدیر کو عیدکا دن قراردیا تھا ۔ امام علی ع کو خلافت  کے لیے نامزد  کرنے کے بعد جب آپ پر یہ آیت نازل ہو ئی :" الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " تو آپ نے کہا : اللہ کا شکر ہے کہ دین مکمل ہوگیا اور نعمت  پوری ہوگئی ۔ اللہ نے میری رسالت اور میرے بعد علی بن ابی طالب  کی ولایت کو پسند کیا(1) ۔ پھر آپ نے  علی ع  کے لیے  تقریب  تبریک  منعقد  کی خود رسول اللہ ص ایک خیمہ  میں رونق افروز ہوئے اور علی کو اپنے برابر بٹھایا اور سب مسلمانوں  کو حکم دیا ۔ ان میں آپ کی ازواج ، امہات المومنین بھی شامل تھیں کہ گروہ درگروہ علی ع کے پاس جاکر انھیں امامت کی مبارکباد دیں اور امیر المومنین  کی حیثیت   سے انھیں سلام کریں ۔چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا ۔ اس موقع پر امیر المومنین  علی ابن ابی طالب ع

--------------------

(1):- حاکم حسکانی بروایت اوب سعید خدری اپنی تفسیر میں اورحافظ ابو نعیم اصفہانی  ما نزل من القرآن فی علی ع میں

۹۰

کو مبارک باد دینے والوں میں ابو بکر اور عمر بھی شامل تھے ، وہ یہ کہتے ہوئے آئے :

"بخٍ بخٍ لك ياابن أبي طالبٍ أصبحت وأمسيت مولانا ومولى كلّ مؤمنٍ ومؤمنةٍ.(1) "

جب شاعر رسول حسّان  بن ثابت نے دیکھا کہ رسول اللہ ص اس موقع پر بہت خوش اور شاداں وفرحاں ہیں تو انھوں نے آنحضرت ص سے عرض کیا  : یا رسول اللہ ! میں آپ  کی اجازت سے اس موقع پر چند اشعار عرض  کرناچاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : ضرور سناؤ ۔ حسان ! جب تک تم زبان سے ہماری مدد کرتے رہوگے تمھیں روح القدس  کی تائید حاصل رہے گی ۔

حسان سے شعر سنانے شروع کیے ۔

"يناديهم يوم الغدير نبيّهم

 بخمّ ٍفاسمع بالرّسول مناديا

(غدیر کے دن خم کےمقام پر مسلمانوں کے پیغمبر مسلمانوں کو پکاررہے ہیں ، سنو ! رسول ص کیا کہہ رہے ہیں )

اس کے علاوہ اور بھی اشعار تھے جن کو مورخین نے نقل کیا ہے(2) ۔ اس سب کے باوجود  قریش نے چاہا کہ خلافت ان کے پاس رہے اور بنی ہاشم کے یہاں خلافت اور نبوت دونوں جمع نہ ہونے پائیں تاکہ بنی ہاشم کو شیخی بگھارنے کا موقع نہ مل سکے ۔اس کی تصریح خود حضرت عمر نے عبداللہ بن عباس سے ایک دفعہ گفتگو کرتے ہوئے  کی(3) ۔

اس لیے پھر کیس کی مجال نہیں ہوئی کہ پہلی تقریب کے بعد جو رسول اللہ ص

--------------------

(1):-یہ قصہ امام ابو حامد غزّالی  نے اپنی کتاب  سرّ العالمین صفحہ 6 پر بیان کیا ہے ۔ اس کے علاوہ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد4 کے صفحہ 281 پر اور طبری نے اپنی تفسیر  کی جلد 3 کے صفحہ پر اس کا ذکر کیا ہے ۔ نیز بہیقی ، دارقطنی ، فخر رازی اور ابن کثیر وغیرہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔

(2):- جلال الدین سیوطی ،" الازهار فيما عقده الشعراء من الاشعار"

(2):-طبری ،تاریخ الامم والملوک جلد 5 صفحہ 3 ،ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد3 صفحہ 31 ۔شرح نہج البلاغہ

۹۱

نے خود منعقد کی تھی ،کوئی عید غدیر کا جشن منائے۔

جب لوگ نص خلافت ہی کو بھول گئے جسے ابھی دوہی مہینے ہوئے تھے تو غدیر کے واقعہ کی یاد مناتا جسے ایک سال ہوچکا تھا ۔ اسے کے علاوہ یہ عید تو نص خلافت سے منسلک  تھی ۔ جب وہ نص ہی باقی نہ رہی تو عید منانے کی وجہ  ہی ختم ہوگئی ۔اسی طرح سالہا سال گزر گئے ، یہاں تک کہ ربع صدی کے بعد امام علی ع نے اسے دوبارہ اس وقت زندہ کیا جب آپ نے اپنے عہد خلافت میں ان صحابہ سے جو غدیر خم میں موجود تھے  ،کہا کہ وہ کھڑے ہو کر سب کے سامنے بیعت  خلافت کی گواہی  دیں ،تیس صحا بیوں نے گواہی دی جن میں سے سولہ بدری صحابہ تھے(1) ۔ایک انس بن مالک نے کہا کہ "مجھے یاد نہیں " انھیں  وہیں برص کی بیماری ہوگئی ۔ وہ روتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے عبد صالح علی بن ابی طالب  کی بد دعا لگ گئی(2) ۔

اس طرح امام علی ع نے اس امت پر حجّت قائم کردی ۔ اس وقت سے آجتک شیعہ یوم غدیر کی یاد مناتے رہتے ہیں اور تاقیام قیامت مناتے رہیں گے ۔ یہ دن شیعوں کے نزدیک عید اکبر ہے اور کیوں نہ ہو ! جب اس دن اللہ نے دین کو ہمارے لیے کامل کیا اور اس دن نعمت تمام کی اور اسلام کو بطور ایک دین کے ہمارے پسند کیا ۔ یہ اللہ ، اس کے رسول  اور مومنین  کی نظر میں ایک عظیم  الشان دن ہے ۔بعض علمائے اہل سنت نے ابو ہریرہ سے روایت  کی ہے کہ جب رسول اللہ ص نے علی ع کا ہاتھ پکڑ کر کہا " من كنت مولاه فهذا علىٌّ مولاه" الخ تو اللہ نے یہ آیت نازل کی :"   الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ " الخ  ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ یہ  18 ذی الحجہ کا دن تھا اور جس نے اس دن روزہ رکھا  ،اس کے لیے ساٹھ مہینوں  کے روزوں  کاثواب لکھا جائے گا ۔(3)

--------------------

(1):-امام احمد بن حنبل ، مسند جلد 4 صفحہ ،370 ،ملا علاء الدین متقی ،کنزالعمال  جلد 397 ۔ابن کثیر ،البدایہ والنہایہ جلد5 صفحہ 211

(2):- ہیثمی ، مجمع الزواید جلد 9صفحہ 106 ۔ ابن کثیر ،البدایہ والنہایہ جلد 5 صفحہ 26 ،امام احمد بن حنبل ،مسند جلد اول ،

(3):- ابن کثیر ۔البدایہ والنہایہ جلد 5 صفحہ 214۔

۹۲

جہاں تک شیعہ روایات  کا تعلق ہے تو وہ ائمہ اہل بیت ع سے اس دن کے فضائل کے بارے میں اتنی ہیں کہ بس بیان کیے جائیے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت دی کہ ہم امیر المومنین ع کی ولایت  کو مانیں اور یوم غدیر کو عید منائیں ۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ  حدیث غدیر صحیح معنی میں ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ ہے جسے نقل کرنے پر امت محمدیہ نے اتفاق کیا ہے جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں تین سو ساٹھ سنّی  علماء نے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور شیعہ علماء کی تعداد تو اس سے بھی زیادہ ہے ۔

ان حالات میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ امت اسلامیہ دوفریقوں میں تقسیم ہوگئی ہے : ایک اہل سنت ، دوسرے اہل تشیع ۔ اہل سنت ،سقیفہ بنی ساعدہ کے شوری کے اصول پر جمے ہوئے ہیں ۔ وہ صریح نصوص کی تاویل  کرتے ہیں اور حدیث غدیر وغیرہ  جس پر سب راویوں کا اتفاق ہے ، اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔

دوسرا فریق  ان نصوص پر قائم ہے اور انھیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ۔ا س فریق نے ائمہ اہل بیت ع کی بیعت  کی ہے اور ان ہی  کو مانتا ہے ۔

حق تو یہ ہے کہ جب اہل سنت کے مذہب کو کریدتا ہوں تو مجھے اس میں کوئی اطمینان بخش چیز نظر نہیں آتی ۔خصوصا خلافت کے معاملے میں ۔ ان کے سب دلائل ظنی واجتہاد  پر مبنی ہیں۔ کیونکہ انتخاب کا قاعدہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ آج جس شخص کو ہم پسند کرتے ہیں وہ ضرور سب دوسروں سے افضل ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ کس کے دل میں کیا ہے ۔ خود ہمارے اندر ذاتی جذبات وتعصبات چھپے ہوئے ہیں اور جب بھی متعدد اشخاص میں سے ایک شخص کو پسند کرنے کا موقع ہوتا ہے ، یہ عوامل ہمارے فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔

یہ کوئی  خیال مفروضہ نہیں اور نہ اس معاملے میں کچھ مبالغہ ہے کہ جو شخص بھی اس طرز فکر یعنی خلیفہ کے انتخاب  کے تصور  ۔کا تاریخی نقطہ نظر سے مطالعہ کرےگا  اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ اصول جس کے اتنے ڈھول  پیٹے جاتے ہیں نہ کبھی کامیاب ہوا ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کبھی کامیاب ہو ۔

۹۳

ہم دیکھتے ہیں کہ شوری تحریک کے لیڈر ابو بکر نے جو شوری کے ذریعے منصب خلافت تک پہنچے تھے ،خود ہی دوسال بعد اس کو توڑ دیا تھا جب انھوں نے اپنے مرض الموت میں عمر بن خطاب کو خلیفہ نامزد کردیا ۔ کیونکہ انھیں اپنے زمانہ حکومت میں احساس ہوگیا تھا کہ خلافت کے امیدوار بہت ہیں اور لوگ خلافت کو للچائی ہوئی  نظروں سے دیکھتے ہیں ، اس لیے ایسے فتنے کا اندیشہ ہے جو امت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیگا ۔ یہ اس صورت میں ہے جب ہم ابو بکر کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں ۔ لیکن اگر انھیں خود معلوم تھا کہ دراصل خلافت کا فیصلہ نص سے ہوتا ہے ، تو پھر یہ ایک دوسرا معاملہ ہے ۔

ادھر عمربن خطاب جو سقیفہ کے موقع پر ابو بکر کی خلافت کے محرک اور معمار تھے اپنے دور خلافت میں علانیہ کہتے تھے کہ : ابو بکر کی بیعت بلامشورہ اور اچانک ہوگئی تھی ، لیکن اللہ نے مسلمانوں کو اس کےبرے نتائج سے محفوظ  رکھا(1) ۔

اس کے بعد جب عمر ابو لؤلؤ  فیروز کے وار سے زخمی ہوگئے اور انھیں اپنی موت کا یقین ہوگیا تو انھوں نے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تاکہ وہ خلافت کے لیے اپنے میں سے کسی ایک  کا انتخاب کرلے ۔ لیکن انھیں یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ چند لوگ بھی اس کے باوجود انھیں رسول اللہ ص کی صحبت کا شرف حاصل تھا ،  وہ سابقین  اولین میں سے تھے اور زہد وتقوی میں ممتاز تھے ، انسانی جذبات سے ضرور متاثر ہوں گے ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے اور اس سے صرف معصوم ہی مستثنی ہوسکتے ہیں ، اس لیے اختلاف  کی صورت میں اس فریق  کے حق میں فیصلہ  ہوگا جس کے ساتھ عبدالرحمان  بن عوف ہوں گے ۔اس کے بعد اس کمیٹی نے خلافت کے لیے امام علی ع کا انتخاب کردیا لیکن شرط یہ رکھی کہ وہ کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ اور سنت شییخین یعنی ابوبکر اور عمر کی سنت کے مطابق حکومت کریں گے ۔ علی نے کتاب اللہ

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26 باب رجم الحبلی من الزنا ۔

۹۴

اور سنت رسول اللہ ص کی بات تو تسلیم کرلی لیکن سنت شیخین کی پیروی کرنے سے انکار کردیا(1) ۔ عثمان نےیہ شرائط منظور کرلیں ،چنانچہ ان کی بیعت کرلی گئی ۔علی ع نے اس موقع پر کہاتھا :

"فيا لله وللشّورى ! متى اعترض الرّيب فيّ مع الأول منهم حتّى صرت أقرن إلى هذه النّظائر ! لكنّى أسففت إذا أسفوا وطرتُ إذ‘ طاروا فصغارجلٌ مّنهم لضغنه ومال الأخر لصهره مع هنٍ وّهنٍ."

قسم بخدا ! کہاں علی اور کہاں یہ نام نہاد شوری ۔ان لوگوں میں کے پہلے حضرت (ابو بکر )کی نسبت میری فضیلت میں شک ہی کب تھا جو اب ان لوگوں نے مجھے اپنے جیسا سمجھ لیا ہے ؟ (لیکن میں جی کڑاکر کے شوری میں حاضر ہوگیا ) اور نشیب وفراز میں ان کے ساتھ ساتھ چلا مگر ان میں سے ایک(2) نے بغض وحسد کے مارے میرا ساتھ نہ دیا اور دوسرا(3) دامادی اور ناگفتہ بہ باتوں کی کے باعث ادھر جھک گیا ۔(نھج البلاغہ ۔خطبہ شقشقیہ)

جب یہ ان لوگوں  کاحال تھا جو مسلمانوں میں منتخب اور اخصّ الخواص تھے کہ ہو بھی جذبات کی رو میں بہ جاتے تھے اور بغض وحسد اور عصبیت سے متاثر ہوتے تھے تو پھر عام دنیا داروں کا  تو ذکر ہی کیا ۔ بعد میں عبدالرحمان  اپنے اس انتخاب پرپچتا ئے بھی ۔ اور جب عثمان کے دور میں وہ واقعات پیش آئے جو معلوم ہیں تو وہ عثمان پر بگڑے بھی کہ انھوں نے اپنے عہد کا پاس نہیں کیا ۔اورجب کبار صحابہ نے ان سے آکر کہا عبدالرحمان یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے ،تو انھوں نے کہا مجھے عثمان سے یہ

--------------------

(1):- طبری ،تاریخ الامم والملوک ۔اب اثیر الکامل فی التاریخ ۔

(2):- سعد بن ابی وقاص کی طرف اشارہ ہے جنھوں نے حضرت عثمان کےبعد بھی حضرت علی ع کی بیعت نہیں کی ۔

(3):- عبدالرحمان بن عوف کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ حضرت عثمان کی سوتیلی بہن کے شوہر تھے ۔(ناشر)

۹۵

توقع نہیں تھی ، مگر اب میں نے قسم کھالی ہے کہ عثمان سے کبھی بات نہیں کروں گا ۔ کچھ دن بعد عبدالرحمان کا انتقال ہوگیا ۔ اس وقت تک بھی ان کی عثمان سے بو چال بند تھی ۔ بلکہ کہتے ہیں کہ ان کی بیماری میں عثمان  ان کی عیادت  کے لیے گئے تو عبدالرحمان  نے دیوار کی طرف منہ کرلیا ۔ بات نہیں  کی(1) ۔

پھر  جو ہونا تھ وہ  ہوا ۔ عثمان کے خلاف شورش بھڑک اٹھی اور آخر وہ قتل ہوگئے ۔ امت  ایک بار پھر انتخاب کے مرحلے سے گزری ۔ خلافت کے امیدواروں میں : طلیق بن طلیق(2) ، معاویہ بن ابو سفیان ،عمرو بن عاص ، مغیرہ بن شعبہ ،مروان بن حکم وغیرہ شامل تھے ، مگر اس بار علمی کا چنا گیا ، مگر افسوس صد افسوس کہ اسلامی مملکت میں انتشار پھیل گیا ۔ اور وہ منافقوں ، مملکت کے دشمنوں ،متکبر وں اور ان لالچیوں  کی جو لانگاہ بن گئی جو ہر قیمت پر مسند خلافت پر متمکن ہونے کے خواہاں تھے ۔چاہے  اس کے لیے کوئی طریقہ بھی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے اور کتنے ہی بیگناہوں کا خون کیوں نہ بہانا پڑے ۔اوریہ کہ اس 25 سالہ مدت میں خدا اور رسول ص کے احکام میں تحریف بھی کی گئی ، پس امام علی ع ایک ایسے بحران میں پھنس گئے جس کے ہر طرف بپھری ہوئی موجیں تھیں ، ماحول تیرہ وتاریک تھا ، منہ زور خواہشات کا زور تھا ۔ امام علی ع کا  عہد خلافت ایسی خوں ریز جنگوں میں گزرا جو باغیوں ،ظالموں  اور ملحدوں  نے ان پر مسلط کردی  تھیں ۔ وہ اس بحران  سے جام شہادت نوش کرکے ہی نکل سکے ۔اور امت محمدیہ  کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے  گئے ۔ فسلام اللہ علیہ ۔ یہ سب شوری اور انتخاب کے تصور کا شاخسانہ تھا۔

اس کے بعد امت محمدیہ خون کے سمندر میں ڈوب گئی ۔ اس کی قسمت کے فیصلے احمقوں اور رذیلوں  کے ہاتھ میں آگئے  ۔پھر شوری کٹ کھنی بادشاہت میں بدل گئی اور اس نے قیصری اور کسروی کی شکل اختیار کرلی ۔معاویہ کے عہد سے خلافت

--------------------

(1):- طبری ، تاریخ الامم والملوک ۔ابن اثیر الکامل فی التاریخ سنہ 36 کے واقعات ۔شیخ محمد عبدہ شرح نہج البلاغہ جلد 1۔

(2):- اس شخص کو رسول اللہ ص نے فتح مکہ کے دن واجب القتل قراردیا تھا ۔

۹۶

موروثی ہوگئی اور بیٹا باپ کا جانشین ہونےلگا ۔

وہ دور ختم ہوگیا جسے خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اور جس دور کے چار خلفاء  خلفائے راشدین کہلاتے ہیں ۔ واقعہ تویہ  ہے کہ ان چار میں سے بھی صرف ابو بکر اور علی ع انتخاب اور شوری  کےذریعہ سے خلیفہ ہوئے تھے ۔ ان میں سے اگر ہم ابو بگر  کو چھوڑ دیں کیونکہ ان کی بیعت اچانک ہوئی تھی ۔ اور اس میں آجکل  کی اصطلاح میں حزب اختلاف  نے شرکت نہیں کی تھی جو علی ع ، ان کے حامی صحابہ(1) اور بنی ہاشم پر مشتمل تھی ، تو صرف علی بن ابی طالب ع ہی رہ جاتے ہیں جن کی بیعت واقعی شوری اور آزادی رائے کے اصول کے تحت منعقد ہوئی ۔ اور علی ع کے انکار کے باوجود مسلمانوں نے ان سے بیعت کی۔ اگر چہ بعض صحابہ ن ےبیعت سے پہلو تہی ضرور کی لیکن ان پر زبر دستی نہیں کی گئی  اور نہ انھیں  کوئی دھمکی  دی گئی ۔

اللہ تعالی  کی مشیت یہ تھی کہ علی ابن ابی طالب ع نص قطعی کے ذریعے سے بھی خلیفہ ہوں اور مسلمان ان کا انتخاب بھی کریں ۔ اب علی ع کی خلافت پر کیا سنّی ،کیا شیعہ پوری امّت مسلمہ کا اجماع ہے اور جیسا کہ سب کو معلوم ہے ، دوسرے خلفاء کےبارے میں اختلاف ہے ۔

یہ دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ مسلمانوں نے اس نعمت خداوندی  کی قدر نہیں  کی ۔ اگر قدر کرتے تو ان پر آسمانی برکتوں کے دروازے کھل جاتے ۔روزی کی ہرگز تنگی نہ ہوئی آج مسلمان ساری دنیا کے قائد اورسردار ہوتے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :" وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين " تم ہی سب سے سربلند ہوگے بشرطیکہ تم سچے مومن ہو ۔

لیکن ابلیس لعین تو ہمارا کھلا دشمن ہے ، اس نے اللہ ربّ العزت سے کہہ دیا تھا کہ :

-------------------

(1):- مثلا اسامہ بن زید، زبیر بن العوام ،سلمان فارسی  ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ،عمّار بن یاسر ،حذیفہ بن یمان ، خزیمہ بن ثابت ، ابو بریدہ اسلمی ، براء بن عازب ، فضل بن عباس ، ابی بن کعت ،سہل بن حنیف ،سعد بن عبادہ ، قیس بن سعد ،خاد بن سعید ،ابو ایوب انصاری  ،جابر بن عبداللہ انصاری  وغیرہ ۔(ناشر)

۹۷

"قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ () ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ" چونکہ تونے مجھے گمراہ  کردیا ہے ، میں بھی اس سیدھی راہ پر بیٹھ کر رہوں  گا جو تونے ان کے لیے تجویز کی ہے ، پھرآؤں گا ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے ، ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ۔ اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر  گزار نہیں پائے گا ۔(سورہ اعراف ۔آیت 16-17)

آج اہل نظر دنیا میں مسلمانوں کی حالت  دیکھیں  خصوصا تیسری دنیا میں ، جہاں کے مسلمان پسماندہ ہیں ،جاہل ہیں ، جاہل ہیں ،ان کی قسمت کافیصلہ اغیار کے ہاتھ میں ہے ،وہ ذلیل  ہیں ، کچھ نہیں کرسکتے ،۔ان ممالک کے پیچھے دوڑتے ہیں جو اسرائیل  کو تسلیم کرتے ہیں حالانکہ اسرائیل مسلمان حکومتوں کو تسلیم نہیں کرتا ۔ وہ مسلمانوں کو یروشلم میں گھسنے تک نہیں دیتا جسے اس نے اپنا دارالسلطنت بنا لیا ہے ۔آج مسلمان ممالک  امریکہ اور روس کے رحم وکرم پر ہیں ۔ مسلمان قومیں جہالت ،بھوک اور بیماری کے عفریت کے چنگل بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ یورپ کے تو کتّے  بھی انواع واقسام  کے گوشت اور مچھلیاں کھاتے ہیں ، جب کہ مسلمانوں کے بچے بھوک سے دم توڑ دیتے ہیں ۔ بعض اسلامی ملکوں میں تو انھیں روٹی کا ایک ٹکڑا بھ نصیب نہیں ہوتا اور وہ کوڑے کے ڈھیر سے اپنی غذا تلاش کرتے نظر آتے ہیں"فلا حول ولا قو ۃالا بالله علی العظيم"

سیدۃ النساء  فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا کا بیعت ابو بکر کے بعد ، جب ابو بکر سے جھگڑا ہوا تھا تو انھوں نے مہاجرین وانصار کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا :

"۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں لوگوں کو علی کی کیا بات ناپسند ہے کہ انھوں نے ان کی حمایت چھوڑ دی ہے ؟ بخدا ! لوگ علی کی احکام الہی کے بارے میں سختی ،ان کی ثابت قدمی اور ان کی شمشیر خارا شگاف کو پسند نہیں کرتے مگر انھوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا ہے ۔علی ع

۹۸

کی حکومت میں انھیں ظلم وستم سے واسطہ نہ پڑتا ۔ وہ تو انھیں علم ودانش اورعدل وانصاف کے چشموں سے سیراب کرتے "۔

اس کے بعد انھوں نے پیشن گوئی کی تھی ۔ انھوں نے اپنی تقریر کے آخرمیں اس امت کے انجام  کی خبر دیتے ہوئے کہا تھا :

"جو کام ان لوگوں نے کیا ہے ہو گابھن اونٹنی  کی طرح ہے ۔ بچہ ہونے دو پھر تم پیالہ بھر کے دودھ کی بجائے خون اور زہر دوہوگے ۔ اس وقت باطل پرست خسارہ میں رہیں گے اور یہ کہ آئندہ  آنے والی نسلیں اپنے پچھلوں کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتیں گی اور یقین رکھو کہ تم فتنہ وفساد میں ڈوب جاؤ گے اور یقین رکھو کہ تلوار چلے گی ، ظلم وستم ہوگا ، افراتفری ہوگی ،ظالموں کی مطلق العنان حکومت ہوگی جو تمھیں پیس کےرکھ دےگی ۔ تم کس خیال میں ہو ؟ تمھیں کیوں سمجھ نہیں آتی ؟کیا ہم زبردستی وہ چیز تمھارے سرمنڈھ دیں جوتمھیں پسند ہی نہیں ؟"(1)

دختر رسول ص اور گوہر کان نبوت صدیقہ طاہرہ نے جو کچھ کہاوہ اس امت کی تاریخ میں حرف بحرف سچ ثابت ہوا اور کون جانے ابھی پردہ غیب میں کیا ہے ۔ شاید مستقبل میں جو کچھ پیش آئے وہ ماضی سے بھی زیادہ بھیانک ہو۔ کیوں کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے وہ انھیں ناپسند ہوئے ۔ پھر اللہ نے بھی ان کے اعمال غارت کردئیے ۔

اس بحث کا ایک اہم جزو

اس بحث کے سلسلے میں ایک خاص بات جو توجّہ اور تحقیق کی مستحق ہے اور یہ وہ واحد اعتراض ہے جو اس  وقت اٹھایا جاتا ہے جب مسکت دلائل کے سامنے مخالفین کے لیے فرارکا راستہ بند ہوجاتا ہے اورانھیں نصوص صریحہ کا اعتراف  کرناپڑتا

--------------------

(1):-طبری ،دلائل الامامۃ ۔ابن طیفور بلاغات النساء ۔ابن ابی الحدید  شرح نہج البلاغۃ ۔

۹۹

ہے تو وہ بالآخر انکار اور تعجب کے ساتھ کہتے ہیں کہ " یہ کیسے ممکن ہے کہ امام علی ع کے امامت پر تقرر کے وقت ایک لاکھ صحابہ موجود ہوں اور پھر وہ سب کے سب اس تقرر کی مخالفت کرنے اور اسے نظر انداز کرنے پر اتفاق کرلیں ، جب کہ ان  میں بہترین صحابہ اور امت کے افضل ترین اشخاص شامل تھے "۔یہ صورت خود میرے ساتھ اس وقت پیش آئی  جب میں نے اس موضوع پر تحقیق شروع کی ۔مجھے یقین نہیں آتا اور کسی کو بھی یقین نہیں آئیگا  اگر معاملے کو اس صورت میں پیش کیا جائے ۔ لیکن جب ہم اس معاملے کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں تو پھر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں رہتی ۔کیونکہ مسئلہ  اس طرح نہیں ہے جس طرح ہم سمجھتے ہیں یاجس طرح اہل سنت پیش کرتے ہیں ۔ بات ان کی بھی معقول ہے ۔حاشا وکلا ! یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک لاکھ صحابہ فرمان رسول ص کی مخالفت کریں ۔

پھر یہ واقعہ کسی طرح پیش آیا ؟

پہلی بات تویہ ہے کہ   جو لوگ بیعت غدیر کے موقع پر موجود تھے وہ سب مدینہ منورہ کے رہنے والے نہیں تھے ۔ان میں زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار مدینے کے باشندے ہوں گے پھر ان میں بہت سے آزاد شدہ غلام تھے ۔ غلام بھی تھے اور کمزور لوگ بھی تھے جو مختلف اطراف  واکناف سے آکر رسول اللہ ص کی خدمت میں جمع ہوگۓ تھے ، ان کامدینہ میں اپنا کوئی کٹم قبیلہ نہیں تھا جیسے :

"اصحاب صفّہ"۔ اگر ان سب کو نکال دیا جائے تو ہمارے پاس آدھی تعداد بچتی ہے یعنی زیادہ سے زیادہ دوہزار ۔یہ لوگ بھی قبائلی نظام کے تحت قبیلے کے سرداروں کے تابع تھے ۔ رسول اللہ ص نے اس نظام کو باقی رہنے دیا تھا ۔ جب رسول اللہ ص کے پاس کوئی وفد آتا تھا  تو آپ اس کے سردار کو اس کا انچارچ مقرر کردیتے تھے ۔ اسی لیے اسلام میں  ان زعماء اور سرداروں  کے لیے اہل حل وعقد کی اصطلاح راوج پاگئی ۔جب ہم سقیفہ کا کانفرنس پر نظرڈالتے  ہیں تو ہم دیکھتے  ہیں کہ اس کے شرکاء کی تعداد جنھوں نے حضرت ابو بکر کو منتخب  کیا تھا ایک سو سے ہرگز متجاوز نہیں تھی ،اس لیے انصار میں سے ۔جو مدینے کے اصل باشندے تھے ۔صرف سرداروں نے

۱۰۰