شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105354
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105354 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

واضح رہے جس متوکل کو علی(ع) سے اتنی عداوت تھی اور یہی چیزیں اس کے نفاق و فسق کا موجب تھیں، وہ اہلِ حدیث کو بہت محبوب اور وہ اسے محی السنۃ کے لقب سے نواز تے ہیں۔ اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت والجماعت۔

یہ بات تو دلیل سے ثابت ہوچکی ہے کہ اہلِ سنت علی بن ابی طالب (ع) سے بغض و عداوت  اور برائت  کو سنت کہتے ہیں؛

اور خوارزمی کایہ قول تو اس کو اور واضح کردیتا ہے کہ ہارون بن خیزران  اور جعفر متوکل " علی الشیطان لا علی الرحمان" اسی کو پیسہ ، کوڑی یا کھانا روٹی دیتے تھے جو آلِ ابی طالب(ع) پر  لعنت کرتا تھا اور نواصب کے مذہب کی مدد کرتا تھا ۔ ( کتاب الخوازرمی،ص۱۳۵)

ابن حجر نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل  سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : جب نصر بن  علی بن صھبان نے یہ حدیث بیان کی کہ ، رسول اللہ (ص) نے حسن و حسین(ع)  کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :" جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان دونوں ( حسن و حسین علیہما السلام)  سےمحبت رکھتا ہے اور ان کے والد و  والدہ سے محبت رکھتاہے قیامت کے دن وہ اور میں ایک درجے میں ہوں گے۔"

اس پر متوکل نے نصر بن علی بن صھبان کو سو(۱۰۰)  کوڑے لگوائے  تھے ۔ جس سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تھے پھر جعفر بن عبد الواحد نے کہا : اے امیر المؤمنین یہ تو سنی ہے یہ سنکر متوکل نے اسے چھوڑدیا ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر حالات نصر بن علی بن صھبان)

متوکل سے جعفر عبدالواحد نے جو بات  کہی تھی اس سے ہر ایک عقلممند یہ نتیجہ نکال سکتا ہے نصر سنی تھا۔ اس لئے وہ قتل سے بچ گیا۔ نیز یہ دوسری دلیل ہے کہ اہلِ بیت (ع) کے دشمن ہی اہلِ سنت بن بیٹھے تھے۔ جبکہ متوکل کہ اہل بیت(ع)  سے سخت دشمنی تھی اور ہر اس غیر شیعہ  کو بھی قتل کردیتا تھ جو ان کی کسی فضیلت کو بیان کردیتا تھا۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸) مشہور ہے کہ عثمانی لوگ حضرت علی (ع) پر لعنت کرتے تھے اور ان پر قتل عثمان بن عفان کا الزام لگاتےتھے۔

۱۰۱

ابن حجر لکھتے ہیں کہ کہ عبد اللہ بن ادریس ازدی سنی المسک تھے وہ کٹر عثمانی سنی  عبداللہ بن عون بصری کہتے ہیں!  عبد اللہ بن ازدی موثق ہیں وہ سنت کے معاملہ میں بہت سخت تھے اور اہلِ بدعت کے لئے برہنہ شمشیر تھے۔ ابنِ سعد کہتے ہیں کہ وہ عثمانی تھے۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸)

ابراہیم بن یعقوب  جوزجاتی لکھتے ہیں کہ :

عبد اللہ بن ادریس ازدی " حریزی المذہب" یعنی حریز بن عثمان دمشقی کے پیروکار تھے اور ان کی ناصبیت مشہور تھی، ابن حیان لہتے ہیں کہ او سنت کے سلسلہ میں بڑے سخت تھے۔ ( تہذیب التہذیب ابنِ حجر ، ج۱، ص۸۲)

ان تمام باتوں سے تو  ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ علی(ع)  اور اولاد علی(ع)  سے بغض رکھنے والا اور ان پر لعنت  کرنے والا اہلِ سنت کے نزدیک سنت کے معاملہ میں بڑا کٹر آدمی ہو تا ہے  اور یہ بات بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ عثمانی اہلِ بیت(ع)  کے جانی دشمن تھے علی(ع) اور ان کے شیعوں کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اہلِ بدعت سے ان کی مراد شیعہ ہیں جو کہ علی(ع) کو امام مانتے ہیں ، کیونکہ علی(ع) کی امامت کے عقیدہ کو اہلِ سنت والجماعت بدعت سمجھتے ہیں اس لئے کہ اس  سے صحابہ اور خلفائے راشدین کی مخالفت ہوتی ہے اور پھر سلفِ صالح نے ان(علی ع)  کی امامت کو تسلیم بھی نہیں کیا  تھا اور نہ انھیں وصی رسول (ص)  مانا تھا۔ اس سلسلہ میں بے پناہ تاریخی شواہد  موجود ہیں ہم نے اتنے ہی بیان کئے ہیں جن کی ضرورت تھی اور پھر اپنی عادت کے مطابق اختصار کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ شائقین ( کتابوں سے ) مزید تلاش کرسکتے ہیں۔

جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم ضرور انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے بے شک خدا احسان کرنے والوں کےساتھ ہے۔( عنکبوت،آیت ۶۹)

۱۰۲

شیوں کے ائمہ کو نبی(ص) معین کرتے ہیں

سیرت نبوی(ص) اور تاریخِ اسلامی کا محقق اس بات کو یقینی طور پر جانتا ہے کہ شیعوں کے بارہ ائمہ  کو نبی(ص) نے معین کیا ہے اور اپنے بعد ان کی امامت و خلافت پر نص کی ہے۔

اہلِ سنت کی صحاح ستہ میں بھی ان کی تعداد بارہ ہی بیان ہوئی ہے اور وہ سب قریش سے ہوں گے۔

اہلِسنت کی بعض معتبر کتابوں میں بھی مرقوم ہے کہ رسول(ص)  نے صاف طور پر ان ائمہ کے اسماء بھی اسی طرح بیان فرمائے ہیں کہ ان میں سے پہلے علی(ع) پھر ان کے بیٹے حسن اور پھر ان (حسن ع)  کے بھائی حسین(ع)  اور پھر حسین(ع) کی نسل سے یکے بعد دیگرے نو امام ہوں گے اور ان میں آخری مہدی (عج) ہوگا۔

صاحب یبابیع المودت تحریر فرماتے ہیں کہ " الاعتل " نامی یہودی  رسول(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا : اے محمد(ص) میں ان چند چیزوں کے بارے میں آپ سے سوال کرتا ہوں جنھوں نے

۱۰۳

ایک زمانہ سے میرے سینہ میں طوفان مچارکھا ہے۔ اگر آپ نے جواب دے دیا تو میں مسلمان ہوجاؤں گا نبی(ص) نے فرمایا: اے ابو عمارہ سوال کرو اس نے چند  چیزوں کے متعلق   سوال کرنے کے بعد کہا آپ نے بالکل صحیح جوابات دیئے لیکن اب یہ بتایئے  کہ آپ کو وصی کون ہے؟ کیونکہ ہر ایک نبی  کا کوئی وصی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی (موسی (ع))  کے وصی یوشع بن نون تھے۔

آپ نے فرمایا :" میرے وصی علی بن ابی طالب (ع) ہیں اور ان کے بعد میرے بیٹے  حسن(ع) اور حسین (ع) اور پھر حسین(ع)  کی نسل سے نو ائمہ ہوں گے "۔

یہودی نے کہا :ان کے اسماء بھی مجھے بتائیے۔

آپ نے فرمایا: حسین(ع) کی شہادت کے بعد ان کے فرزند علی(ع)  اور علی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) اور محمد(ع) کی شہادت کے بعد ان کے دلبند جعفر(ع) اور جعفر(ع) کی شہادت کے بعد انکے لخت جگر موسی(ع)  اور موسی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے نورِ عین علی(ع) اور علی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے میوہ دل حسن(ع) اور  حسن (ع) کی شہادت کے بعد ان کی یادگار مہدی(عج) ہوں گے۔ یہ اسماء سننے کے بعد یہودی مسلمان ہوگیا اور ہدایت  یافتہ ہونے پر خدا کی حمد بجالایا۔ ( ینابیع المؤددۃ ، ص۴۴۰، فرائد السمطین حموینی)

اگر اس سلسلہ میں ہم شیعوں کی کتابوں کی ورق گردانی کریں اور اس موضوع سے مخصوص حقائق  کو جمع کریں تو دفتر کے دفتر وجود میں آجائیں ۔

لیکن دلیل کے طور پر ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے علما ء بارہ ائمہ کے قائل ہی اور وہ ہیں علی(ع) اور ان کے پاک و پاکیزہ فرزند۔

اور جو چیز ہمارے اس یقین کو اور محکم بناتی ہے کہ اہلِ بیت(ع) میں سے بارہ ائمہ(ع)

۱۰۴

کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا ہے اور مورخین و محدثین اور سیرت نگاروں نےان کے متعلق یہ نہیں لکھا ہے کہ ائمہ اہلِ بیت(ع)  نے فلاں صحابی یا تابعین میں سے  کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے ۔ جب کہ امت کے دیگر علماء و ائمہ نے ایسا کیا ہے۔

مثلا ابو حبیفہ نے امام جعفر صادق(ع) سے تعلیم حاصل کی  اور مالک نے ابوحنیفہ سے درس پڑھا اور شافعی نے مالک سے علم حاصل کیا  اور مالک سے احمد بن حنبل نے کسبِ فیض کیا۔

لیکن اہلِ بیت(ع) کاعلم لدنی ہے جو انھیں ان کے عظیم باپ داد ا سے میراث میں ملتا ہے۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کے  بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے:

" پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص انھیں کتاب کا وارث بنایا جنھیں منتخب کیا تھا۔(فاطر ۲۲)

ایک مرتبہ امام صادق(ع) نےاس کی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا تھا۔

"تعجب ہے: لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے کل علم رسول(ص)  سے حاصل کیا ہے اور اس پر عمل کر کے ہدایت پاگئے اور کہتے ہیں کہ ہم اہلِ بیت(ع)  نے رسول(ص) سے علم نہیں لیا ہے اور نہ ہمیں ہدایت ملی ہے جبکہ ہم ان (رسول (ص))  کی ذریت ہیں۔ہمارے گھر میں وحی نازل ہوئی ہے اور ہمارے ہی در سے علم کا سوتا پھوٹا  ہے کہ جس سے لوگ سیراب ہوتے ہیں ۔ کیا تم انھیں ہدایت یافتہ اور علم میں سرشار اور ہمیں جہل و ضلالت  میں دیکھتے ہو؟

اور ان لوگوں پر امام جعفر صادق(ع) کو کیوں کر تعجب نہ ہوتا جو کہ یہ دعوی کررہے تھے کہ ہم نے رسول(ص) سے علم حاصل کیا  ہے جب کہ وہ رسول(ص) کے وارث اہل بیت(ع)  سے عداوت

۱۰۵

کررہے تھے۔

اور اہلِ سنت کہ جنھوں نے ناجائز طریقہ سے  خود کو سنت سے منسوب کرلیا" پر تعجب ہونا ہی چاہئے جبکہ وہ سنت  کی مخالفت کرتے ہیں؟

اور  جیسا کہ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ شیعوں  نے علی(ع) کا دامن تھام لیا تھا۔ لہذا و ہ علی(ع) کی مدد کرتے رہے اور آپ(ع)  کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور جس سے آپ کی صلح تھی اس سے صلح کرتے رہے اور  انھوں نے ہر ایک علم ان ہی سے حاصل کیا ہے۔

اہلِ سنت نے قطعی طور پر علی(ع) کی اطاعت نہیں کی اور نہ ہی ان کی مدد کی بلکہ اس کے برعکس آپ(ع) سے جنگ کی اور آپ(ع) کی حیات کا چراغ گل کردینے کے درپے رہے۔ چنانچہ آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کی اولاد کو چن چن کے قتل کیا، قیدی بنایا اور شہروں سے نکال دیا، اکثر حکام میں اہلِ سنت نے علی(ع) کی مخالفت کی اور ان لوگوں کا اتباع کیا جنھوں نے اپنی رائے اور اجتہاد سے احکامِ خدا کو بدل ڈالا تھا۔

اور آج ہمیں ان لوگوں پر کیونکہ تعجب نہ ہو کہ جو سنت نبی(ص) پر عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور خود ہی یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے سنتِ نبی(ص) کو چھوڑدیا ہے۔ اس لئے کہ سنت تو شیعوں کا شعار بن چکی ہے۔ ( قارئین اس سلسلہ میں " لاکون مع الصادقین" ہوجاؤ سچوں کے ساتھ مطالعہ فرمائیں، ابن تیمیہ  کہتے ہیں سنتِ نبی(ص) کو  چھوڑدو کیونکہ اب سنت شیعوں کی علامت بن چکی ہے لیکن اہلِ سنت  اس کے باوجود ابنِ تیمیہ کو مجدد السنہ کہتےہیں ۔ منہاج السنت لابن تیمیہ ج۲، ص۱۴۳ شرح المواہب للزرقانی ، ج۵، ص۱۲) کیا عجیب بات نہیں ہے؟

اور ہمیں ان لوگوں پر کیسے حیرت نہ ہو جو بزعم خود اپنے کو ، اہلِ سنت  والجماعت ، سمجھتے ہیں جبکہ وہ متعدد گروہوں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، میں بٹے ہوئے ہیں، فقہی  مسائل میں ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں اس طرح یہ کہ یہ اختلاف رحمت ہے ! چنانچہ دینِ خدا ان

۱۰۶

کی خواہشِ نفس اور راویوں کا مربَہ بن گیاہے۔

جی ہاں یہ متعدد  پارٹیاں ہیں جو کہ احکامِ خدا و رسول(ص) میں جدا جدا ہیں لیکن سقیفہ میں تشکیل پانے والی ظالم خلافت  کے صحیح ہونے میں سب ایک ہیں اسی طرح خلافت سے عترتِ طاہرہ کو دور رکھنے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کیونکر تعجب نہ ہو کہ جو خود کو اہلِ سنت  کہہ کر سرخ رو ہوتے ہیں اور   رسول(ص) کے اس حکم " کہ کتابِ خدا اور میرے اہلِ بیت(ع) عترت سے تمسک رکھنا" کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ہر چند کہ اہلِ سنت  نے اس  حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیاہے اور اسے صحیح تسلیم کیا ہے ، لیکن وہ نہ قرآن سے تمسک رکھتے ہیں نہ اہلِ بیت(ع)  سے انکا  کوئی تعلق ہے جبکہ اہلِ بیت(ع)  سے روگردانی کرنا قرآ ن سے رخ موڑنا ہے۔ جیسا کہ حدیث یہ کہتی ہے کہ قرآن و عترت کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جیسا کہ رسول(ص) نےاس کی خبر دی ہے۔

"مجھے لطیف و خبیر نے  خبر دی ہے کہ یہ دونوں (قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ میرے پاس خوض کوثر پر وارد ہوں گے۔"

( مسند امام احمد ابن حنبل ج۵، ص۱۸۹، مستدرک حاکم ج۲، ص۱۴۸،  حاکم کہتے ہیں شیخین کی شرط  کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ ذہبی نے بھی شیخین کی شرط پر اس حدیث کو صحیح مانا ہے۔)

اور اس قوم پر ہمیں کیسے تعجب نہ ہو جو یہ دعوی کرتی ہے کہ ہم اہلِ سنت ہیں اور اس چیز کی مخالفت کرتی ہے جو ان کی کتابوں میں نبی(ص) کی حدیث اور امر و نہی موجود ہے۔ ( بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے ماہ رمضان میں نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنے سے منع کیاتھا اور فرمایا تھا: لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو! کیونکہ سنت نمازیں گھروں میں پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اہلِ سنت نے اس چیز کو ٹھکرادیا ۔ جس سے رسول(ص) نے منع کیا تھا اور عمر ابن

۱۰۷

خطاب کی بدعت کو اختیار کرلیا۔)

اور ہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیں کہ " میں تمھارے درمیان کتاتِ خدا اور اپنی سنت چھوڑ کرجارہا ہوں  جب تک تم ان سے تمسک رکھو گے  کبھی گمراہ نہ ہوگے "۔ جیسا کہ آج بعض اہلِ سنت کا رویہ ہے، تو پھر فضیحت اور بڑھ جا ئے گی اور تعجب کی انتہا نہرہے گی۔

اور عمر ابن خطاب نے تو صاف لفظوں میں کہا تھا۔" ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔ جبکہ یہ صریح طور پر رسول(ص)  پر اعتراض  خدا پر اعتراض ہے۔

عمر کا یہ قول ہلِ سنت کی تمام صحاح میں بشمولیت بخاری و مسلم موجود ہے۔ پس جب نبی(ص) نے فرمایا تھا کہ میں تمھارے درمیان کتابِ خدا اور اپنی سنت چھوڑ کرجارہا ہوں تو اس وقت عمر نے کہا تھا  کہ ہمارے لئے کتابِ خدا  کافی ہے۔ ہمیں آپ(ص) کی سنت کی احتیاج نہیں ہے  اور جب عمر نبی(ص) کے سامنے یہ کہا کہ ہمارے لئے کتابِ خدا کافی  ہے تو ابوبکر  نے اپنے دوست کی بات کو نافذ کرنے پر زور دیا لہذا اپنی خلافت کے دوران کہا: رسول(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کرنا اور جو تم سے سوال کرے اس سے کہہ دینا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان کتابِ خدا ہے اس کے حلال کو حلال  اور  اس کے حرام کو حرام سمجھو! ( تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج۱، ص۳)

اس گروہ پر ہم کیسے تعجب نہ کریں کہ جس نے اپنے نبی(ص)  کی سنت کو پس پشت  ڈالدیا اور اس کی جگہ ان بدعتوں کو لاکر رکھدیا جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے اس پر فخر یہ کہ ہم سنی ہیں۔

لیکن تعجب اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں ابوبکر و عمر و عثمان کی معرفت ہوجاتی ہے کیونکہ وہ بھی اہلِ سنت کے بام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ابوبکر فرماتے ہیں: اگر تم مجھ سے سنتِ نبی(ص) پر عمل کرنے کے لئے کہتے ہو تو مجھ میں اس کی طاقت نہیں ۔" ( مسند امام احمد بن حنبل ج۱، ص۴، کنزالعمال ج۳، ص۱۲۶)

۱۰۸

ابوبکر میںسنتِ نبی (ص) کی طاقت کیوں نہیں تھی ؟ کیا نبی(ص) کی سنت کوئی امر محال تھا جو ابوبکر  کی طاقت سے باہر تھا؟

اور پھر اہلِ سنت یہ دعوی کیسے کرتے ہیں کہ ہم سنت نبی(ص) سے متمسک ہیں جبکہ ان مذہب کے مؤسس و موجد میں اس پر عمل پیرا ہونے کی طاقت نہیں تھی؟

کیا خدا وندِ عالم نے یہ نہیں فرمایا تھا، تمھارے لئے رسول خدا(ص) میں اسوہ حسنہ ہے۔(احزاب ۲۱)

نیز فرمایا :

خدا کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے۔ (طلاق ۷)

پھر فرمایا ہے:

ہم نے تمھارے لئے دین میں کوئی زحمت نہیں رکھی ہے۔(حج۷۸)

کیا ابوبکر اور ان کے دوست عمر یہ سمجھتے ہیں کہ رسول(ص) نے خدا کا دین نہیں پیش کیا بلکہ اس کی جگہ اپنی طرف سے کوئی یز پیش کردی ہے؟ اور پھر مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم  دیا جبکہ ان میں اس کی سکت نہیں ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔

بلکہ آپ(ص) اکثر فرمایا کرتے تھے: بشارت دو متنفر نہ کرو آسانیاں اختیار کرو زحمتوں سے بچو، بے شک خدا نے تمھیں چھوٹ دی ہے اب تم کسی چیز کو اپنے اوپر زبردستی نہ لادو، ابوبکر کو یہ اعتراف ہے کہ ان میں سنتِ نبی(ص) کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے اس لئے انھوں نے اپنی خواہش نفس سے ایسی بدعت  نکالی جو ان کی حکومت کی سیاست سے سازگار اور ان کی طاقت کے مطابق تھی۔

دوسرے نمبر پر شاید عمر نے بھی یہ محسوس کیا کہ مجھ میں بھی احکامِ قرآن و سنت پر

۱۰۹

عمل کرنے کی طاقت نہیں ہے لہذا انھوں نے جنب کی حالت میں پانی نہ ملنے پر نماز ترک کرنے کا  فیصلہ کیا اور اپنی خلافت کے زمانہ میں یہی فتوی دیا جیسا کہ محدثین نے عمر کا قول نقل کیا ہے۔

پھر عمر جماع کے شوقین تھے، یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے۔

" اللہ جانتا ہے کہ تم ( آنکھ بچا کر عورتوں کے پاس جاتےہو) گناہ کرتے ہو۔ بس اس نے تمھاری توبہ قبول کی۔"( بقرہ۱۸۷)

اس لئے کہ عمر روزہ کی حالت میں بھی جماع سے باز نہیں رہتے تھے پھر اس زمانہ میں پانی بھی کم یاب تھا لہذا عمر کو آسان طریقہ یہی نظر آیا کہ نما چھوڑ دی جائے ۔ جب غسل کے لئے پانی مل جائے گا تو نماز پڑھ لی جائے گی۔

عثمان نے بھی سنتِ نبی(ص) کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، مشہور ہے کہ عائشہ نبی(ص) کی قمیص لے کر نکلیں اور کہا عثمان نے تو نبی(ص) کاکفن کہنہ ہونے سے قبل ہی ان کی سنت کو  بھولا دیا ہے۔ یہاں تک کہ صحابہ نے ان پر الزام لگایا کہ وہ سنتِ نبی(ص) اور سیرتِ شیخین کی مخالفت کرتے ہیں چنانچہ اسی جرم میں انھیں قتل کردیاگیا۔

اور معاویہ تو ان سے بھی بازی لے گیا اس نے تو کھلم کھلا قرآن و سنت کی مخالفت کی اور ان سے لوگوں کو رجوع کرنے سے منع کیا نبی(ص) فرماتے ہیں:

" علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع)  سے ہوں جس نے علی(ع) پر  سب و شتم کیا اس نے مجھ پر سب و شتم کیااور جس نے مجھے برا بھلا کہا اس نے خدا کو برا بھلا کہا۔"

( مسدرک حاکم ج۳، ص۱۲۱، مسند احمدبن حنبل ج۶، ص۲۲۳۔ خصائص نسائی ،ص۱۷)

جب کہ معاویہ کھلم کھلا حضرت علی(ع) پر لعنت کرتا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کرتا ہے ، بلکہ اپنے کارندوں کو حکمدیتا ہے کہ وہ علی(ع)  پر لعنت کیاکریں اور جس نے ایسا کرنے سے انکار

۱۱۰

کیا اسے معزول کردیتا ہے۔

اور حق کا اتباع کرنے والے شیعوں کے مقابلہ میں معاویہ خود کو اور اپنے چاہنے والوں کو اہلِ سنت والجماعت کہتا ہے۔

بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ صلح امام حسن(ع)  کے بعد جس سال معاویہ تخت نشین ہوا اس سال کو عام الجماعۃ کہا جانے لگا۔

یہ تعجب اس وقت زائل ہوجائےگا جب اس بات سے پردہ ہٹے گاکہ معاویہ اور اس کی پارٹی سے وہ لوگ مراد ہیں جو جمعہ اور عید کے دن اسلامی منبروں سے علی(ع) پر لعنت کرتے تھے۔

اور جب اہل سنت والجماعت معاویہ ابن ابی سفیان کی ایجاد ہیں تو ہماری خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بدعت پر موت دے جس کی موجد  و بانی علی بن ابیطالب(ع) اور تمام اہلِ بیت علیہم السلام ہیں!!

قارئین محترم متوجہ رہیں کہ اس لحاظ سے بدعت کار و گمراہ لوگ اہلِسنت  والجماعت بن گئے اور اہلِ بیت (ع)  میں سے ائمہ طاہرین(ع) کو بدعت گذار کہا جانے لگا۔

اہلِ سنت والجماعت کے مشہور عالم دین علامہ ابن خلدون جمہور کے مذاہب شمار کرانے کے بعد کہتے ہیں:

اور اہلِ بیت(ع) کے ایجاد کئے ہوئے مذاہب بہت کم ہیں وہ فقہ میں منفرد ہیں، ان کے مذاہب کی بنیاد تو بعض صحابہ کو برا بھلا  کہنا ہے۔( مقدمہ ابن خلدون، ص۴۹۴)

قارئین محترم!

میں نے  شروع ہی میں یہ عرض کیا تھا کہ اگر وہ تصویر کا دوسرا رخ

۱۱۱

 بھی دیکھتے تو ضرور حقیقت تک پہنچ جاتے۔ جب فاسق ترین لوگ اور بنی امیہ اہلِسنت بن سکتے ہیں اور اہلِ بیت(ع)  کو بدعت کار کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ابن خلدون نے لکھا ہے تو ایسے اسلام کو دور سے سلام اور دنیا پرخاک ۔

۱۱۲

اہلِ سنت کے ائمہ ظالم حکام معین کرتے ہیں

اہلِ سنت کے چاروں مذاہب  کے ائمہ بھی کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) کی مخالفت کرتے تھے، کیونکہ رسول(ص) نے عترت  طاہرہ کی اقتدارء کا حکم دیا تھا جبکہ ہمیں اہلِ سنت میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا  جس نے اپنے زمانہ کے امام کو پہچان لیا ہو اور ان کی کشتی پر سوار ہوگیا ہو اور ان کے سامنے گردن جھکادی ہو۔

یہ ہیں ابوحنیفہ  جنھوں نے امام صادق(ع) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور آپ کے بارے میں ان (ابوحنیفہ) کا یہ قول مشہور ہے اگر یہ دو سال " کہ جن میں امام صادق(ع) سے علم حاصل کیا ہے" نہ ہوتے تو نعمان ( ابوحنیفہ) ہلاک ہوجاتا۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنا ایک نیا مذہب بنا لیا کہ جس کی بنیاد ہی صریحِ نص کے مقابلہ میں اجتہاد تھا۔ مالک کو دیکھئے کہ جس نے امام صادق(ع)  سے علم حاصل کیا اور آپ (ع) کے بارے میں فرمایا: امام  جعفر صادق(ع)  جیسا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور کسی کے دل میں اس بات کا خطور ہوا کہ علم و

۱۱۳

 فقہ میں امام جعفر صادق(ع) سے افضل بھی کوئی ہوسکتا ہے ۔ انھوں نے بھی اپنے زمانے کے امام کو چھوڑ کر الگ  ڈیڑھ اینٹ  کی مسجد بنائی اور ایک مذہب ایجاد کر دیا، جبکہ مالک کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے زمانہ میں علم و فقہ کے لحاظ سے امام جعفر صادق(ع)  سے بلند کوئی نہیں تھا لیکن ان کو عباسیوں نے یہ باور کرایا کہ تم بہت بڑے عالم ہو اور  انھیں دارالہجرت کا امام کہنے لگے تو پھر مالک کی حیثیت ہی بدل گئی اور رعب  و دبدبہ بھی بڑھ گیا۔

شافعی کو ملاحظہ فرمائیے کہ جن پر شیعہ ہونے کا اتہام ہے اور اہلِ بیت(ع) کے متعلق ان کے اشعار بھی ہیں:

" اے رسول(ص) کے اہلِ بیت(ع) آپ کی محبت قرآن میں خدا  کی طرف

سےواجب ہے آپ کے لئے تو یہی کافی ہے کہ جو آپ(ع)  پر درود

نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز نہیں ہے۔"

اسی طرح مندرجہ ذیل اشعار بھی مدحِ اہلِ بیت(ع) میں شافعی کی طرف منسوب ہیں۔

" اورجب میں نے لوگوں کو  دیکھا کہ ان  کے مذاہب انھیں جہل و گمراہی کے دریا میں لے گئے  تو میں بھی اللہ کا نام لیکر نجات کے سفیبہ پر سور ہاگیا ، یعنی خاتم الرسل(ص) اہلِ بیت(ع) مصطفے (ص) کا دامن تھام لیا اور میں نے حبل اللہ سے تمسک کیا جو کہ اہلِ بیت(ع)  کی محبت  ہے جیسا کہ رسول(ص) نے ہمیں اس سے متمسک رہنے کا حکم دیاہے۔"

اسی طرح شافعی سے یہ شعر بھی منسوب ہے:

اگر آلِ محمد(ص)  کی محبت رفض ہے

تو ثقلین گواہ رہیں میں رافضی ہوں۔

۱۱۴

لیکن جب وپ اپنے رافضی ہونے پر ثقلین کو گواہ بنا رہے ہیں تو پھر ان مذہبوں کی مخالفت کیوں نہیں کرتے جو اہلِ بیت(ع)  کی ضد میں بنائے گئے تھے نہ صرف یہ کہ ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ خود بھی اپنا ایک نیا مذہب بنا لیا اور اپنے ہم عصر اہلِ بیت(ع) کو چھوڑ دیا۔

احمد ابن حنبل کو لیجئے  جنھوں نے حضرت علی(ع) کو چوتھا خلیفہ قرار دیا انھیں خلفائے  راشدین سے ملحق کیا اور اس سلسلہ میں کتاب الفضائل نامی کتاب لکھی اور ان کا یہ قول مشہور ہے کہ " صحیح اسناد کے ذریعہ تمام صحابہ سے زیادہ علی(ع) کے فضائل نقل ہوئے ہیں ۔ جناب نے بھی اپنے نام سے ایک مذہب کی بنیاد ڈالی کہ جس کو آج کل حنبلی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ ان کے زمانے کے علماء کہتے تھے کہ احمد بن حنبل فقیہ نہیں ہیں۔ شیخ ابو زہرہ کہتے ہیں کہ متقدمین میں سے اکثر علماء احمد بن حنبل کو فقیہ نہیں مانتے تھے۔ جیسے ابن قتیہ ابن جریر طبری جو کہ ان کے زمانہ سے قریب تھے۔ ( ملاحظہ فرمائیں ابوزہرہ کی کتاب احمد بن حنبل  ص۱۷۰)۔

ابن تیمیہ آتے ہیں اور مذہب حنبلی کو  جھںڈا اٹھاتے ہیں اور اس میں کچھ نئے نظریات داخل کردیتے ہیں۔ مثلا قبور کی زیارت کرنے اور ان پر عمارت بنانے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔

اور اہل بیت نبی(ص) سے تمسک کو شرک بتاتے ہیں۔

یہ ہے مذاہب اربعہ اور یہ ہیں ان کے ائمہ اور یہ ہیں ان کے وہ اقوال جو  اہلِ بیت(ع)  طاہرین سے متعلق ہیں۔

پس یہ تو لوگ وہ بات کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے اور یہ خدا کو  بہت ناپسند ہے انھوں نے یہ مذاہب نہیں بنائے تھے بلکہ اموی اور عباسیوں کے دم چھلوں نے ظالم حکام کی مدد سے ان مذاہب  کی بنیاد رکھی تھی اور ان ( ائمہ اربعہ) کی وفات کے بعد ان کی طرف منسوب کردیا تھا۔ اس حقیقت کو ہم انشاء اللہ آیندہ بحثوں میں واضح کریں گے۔

کیا آپ کو ان ائمہ پر تعجب  نہیں ہے جو کہ اہلِ بیت(ع) میں سے ائمہ ھدی کے کے ہمعصر تھے اور اس کو باوجود صراط مستقیم سے ہٹ گئے اور ان سے ہدایت

۱۱۵

حاصل نہیں کی اور نہ ان کے نور سے فیضیاب ہوئے ان سے ان کے جد رسول(ص) کی احادیث بھی نقل نہیں کیں بلکہ اس کی بر خلاف کعب الاخبار یہودی  اور ابو ہریرہ کی دوستی سے رسول(ص) کی احادیث لیں اسی ابوہریرہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی(ع) نے  فرمایا ہے۔

ابوہریرہ نے رسول(ص) پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھا ہے اور بالکل یہی بات عائشہ بنت ابوبکر نے بھی کہی ہے۔

اہلِ سنت نے اہلِ بیت نبی(ص)  پر  عبد اللہ بن عمر ایسے ناصبی دشمن علی(ع) کو مقد م کیا ہے جس نے علی(ع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف  ایسے گمراہ کی بیعت کر لی تھی۔

اور اسی طرح معاویہ کے وزیر عمرو بن العاص  ایسے دھوکہ باز کو اہلِبیت (ع) پر مقدم کرتے ہیں۔

کیا آپ کو ان ائمہ پر تعجب نہیں ہوتا  جنھوں نے دین خدا میں اپنے نفسوں کے لئے حق تشریع اور اجتہاد کو مباح کرلیا تھا یہاں تک کہ انھوں نے سنتِ نبوی(ص) کو چھوڑ دیا تھااور خود  قیاس  و استصحاب سدیاب الذرایع اور مصالح المرسلہ ایسے قواعد ایجاد کر لئے تھے۔

اس کے علاوہ اور نہ جانیں کتنی بدعتیں ہیں جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے۔ کیا خدا اور اس کو رسول(ص) اکمال دین سے غافل تھے  اور انکے لئے یہ مباح کردیا تھا کہ وہ اپنے اجتھادات کو کامل کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں جس کو چاہیں حلال قرار دیں ۔  کیا ان مسلمانوں پر توجب نہیں ہوتا جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم تو سنت کا اتباع کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے ائمہ کی تقلید کرتے ہیں کی جو نبی(ص) کی معرفت نہیں رکھتے تھے اور نہ نبی(ص) ہی انھیں جانتے تھے؟

یا اس سلسلے میں ان کے پاس کتابِ خدا سے کوئی دلیل موجود ہے  یا مذہب کے موجد ائمہ اربعہ کی تقلید کے اوپر سنت رسول(ص)  دلالت کررہی ہے؟!

میں انسانوں اور جنات دونوں کو چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں کتابِ خدا یا

۱۱۶

سنتِ رسول(ص) سے ایک ہی دلیل پیش کردو۔ قسم خدا کی ایسا ہرگز نہیں کرسکتے اور ہرگز دلیل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے لئے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔

قسم خدا کی کتاب اور سنت رسول(ص)  میں ایسی  کوئی دلیل نہیں ہے ہاں ائمہ طاہرین(ع) کی تقلید و اتباع پر بہت سی دلیلیں مضبوط حجتین اور روشن حقائق دلالت کررہے ہیں ۔ موجود ہیں۔

 آنکھیں رکھنے  والو، عبرت حاصل کرو۔ (حشر ۲)

کیوں کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ سینہ میں جو دل ہے وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔( سورہ حج/۴۶)

۱۱۷

سنَی مذاہب کی ترقی کا راز

تاریخی کتابوں اور اسلاف کی جمع کردہ چیزوں پر نظر رکھنے والا بغیر شک و تردید کے اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس زمانہمیں سینوں کے مذاہب اربعہ کی ترقی میں بر سر اقتدار پارٹی کا ہاتھ تھا لہذا اکثر لوگوں نے انھیں قبول کیا کیوں کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کو اختیار کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک محقق اس بات کو بھی جانتا ہے کہ اس زمانہ میں اور دسیوں مذاہب اس لئے فنا ہوگئے تھے کہ حاکمِ وقت ان سے راضی نہیں تھا مثلا مذہبِ اوزاعی اور مذہبِ حسن بصری، ابوغنیہ ، ابن ذویب، سفیان ثوری، ابن داؤد اور لیث  بن سعد وغیرہ۔

مثلا لیث بن سعد مالک ابن انس کا دوست تھا اور علم فقہ میں ان سے کہیں آگے تھا لیکن اس  کا مذہب اس لئے برباد ہوگیا کہ اس سے حکومت راضی نہیں تھی۔جیسا کہ شافعی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔(مناقب شافعی، ص۵۲۴)

احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ : ابن ابی ذویب مالک بن انس سے افضل تھے۔ لیکن مالک

۱۱۸

رجال میں ماہر تھے۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج۱، ص۱۷۶)

لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مالک کو صاحب مذہب دیکھتے ہیں کیونکہ  انھیں حکومت کا تقرب حاصل تھا حکام کے کہنے پر چلتے تھے لہذا یہ مشہور عالم بن گئے اور خوف طمع کے ذریعہ ان کے مذہب کی ترویج ہونے لگی خصوصا اندلس میں کہ جہاں مالک کے شاگرد یحیی نے اندلس کے حاکم سے رسم و راہ بڑھا کر تقرب حاصل کیا تو حاکم نے انھیں  قاضیوں کے سلکشن کا اختیار دے دیا۔ لہذا قضاوت کا منصب اسی کو دیا جاتا تھا جو  مالکی ہوتا تھا۔

اسی ابوحنیفہ کی وفات کے بعد ان کے مذہب کی ترقی کا باعث ابویوسف اور شیبان تھے یہ دونوں ابو حنیفہ کے پیروکار اور ان کے مخلص ترین شاگرد تھے اور عباسی خلیفہ ہارون رشید کے مقربین میں سے تھے اور ہارون کی حکومت کی پائیداری میں ان کا بڑاکردار تھا دوشیزاؤں کا رسیا اور لہو لعب کا شوقین ہارون ان کی موافقت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔

لہذا یہ دونوں اسی شخص کو قاضی بناتے تھے جو حنفی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں ابو حنیفہ اعظم العلماء اور ان کا مذہب اعظم المذاہب الفقہیہ بن گیا باوجود یکہ ان کے ہمعصر  علماء نے ان کے کافر ہونے اور زندیق بن جانے کا فتوی دیا تھا۔ فتوی دینے والوں میں سے امام احمد بن حنبل اور ابو الحسن اشعری ہیں۔

اور مذہب شافعی تو تقریبا مٹ جانے کے بعد زندہ ہوا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب ظالم و غاصب حکومت نے ان کی تائید  کی لہذا وہی مصر کہ جہاں شیعہ ہی شیعہ تھے شافعی بن گیا اور یہ صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں اس وقت ہواجب وہ شیعوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگا اور انھیں بے دردی کے ساتھ ذبح کرنے لگا۔

اسی طرح اگر معتصم عباسی حنبلی مذہب کی تائید نہ کرتا تو آج کوئی اس مذہب

۱۱۹

 کا نام لینے والا نہ ہوتا اور یہ اس وقت ہوا جب احمد بن حنبل نے خلق قرآن کے نظریہ سے برائت کا اظہار کیا ، اور متوکل کے زمانہ میں تو اس کا ستارہ اور اچھے طریقہ سے چمک گیا۔

ابھی ماضی قریب میں برطانیہ کے استعمار  کی مدد سے مذہب وہابیت نے فروغ پایا ہے۔ پھر برطانیہ نے آل سعود کو یہ ذمہ داری سونپی لہذا اس نے فورا شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مدد اور حجاز و جزیرہ العرب میں اس کے مذہب کی نشر و اشاعت میں بھر پور تعاون کیا۔

اس طرح مذہب حنبلی کو تین ائمہ ملے پہلے امام احمد بن حنبل جنھیں خود اپنے فقیہ ہونے کا اقرار نہیں تھا، بلکہ وہ اہلِ حدیث  سے تعلق رکھتے تھے، ان کے بعد ابنِ تیمیہ ہیں جن کو اہلِ سنت نے شیخ الاسلام اور مجدد السنۃ  کا لقب دیا ہے جب کہ ان زمانے میں علماء ان کو اس لئے کافر کہتے تھے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس لئے مشرک کہتے تھے کہ وہ نبی(ص) سے توسل رکھتے تھے اس کے بعد زمانہ ماضی میں محمد بن عبد الوہاب برطانوی استعمار کے  چیلے اٹھتے ہیں اور مذہب حنبلی کی تجدید کی کوشش کرتے ہیں، وہ ابنِ تیمیہ کے فتاوے پر عمل کرتے  ہیں اس طرح احمد حنبل کانَ کی خبر ہوگئے کیونکہ اب اس مذہب کو لوگ مذہب وہابی کہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے  کہ ان مذاہب کی ترقی ، شہرت اور سربلندی حکام کی مرہونِ منت ہے۔

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ تمام حکام ائمہ اہلِ بیت(ع) کے دشمن تھے۔ کیونکہ وہ اپنے نظام کے لئے  انھیں  (ائمہ اہلِ بیت(ع) ) چیلنج اور اپنی بادشاہت کا زوال تصوَر کرتے تھے لہذا وہ ہمیشہ ان کو الگ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور امت میں جھوٹا بنا کر پیش کرتے تھے اور ان کے شیعوں کو تہہ تیغ کرتے تھے۔

بدیہی تھا کہ وہ حکام بھی بعض چاپلوس  قسم کے علماء کے بڑے بڑے عہدوں اور مناصب سے نوازیں تاکہ ان علماء کے فتاوے حکام کے مطابق ڈھلتے رہیں اور فتاوے لوگوں کی

۱۲۰