شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے13%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109061 / ڈاؤنلوڈ: 6807
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰهِ الکَذِبَ'' 1 جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پیغمبر کا یہ ارشاد اس وجہ سے ہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔

حضرت پیغمبر اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ہیں :''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَده مِنَ النَّار'' 2 جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے

پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔

(1)بحار الانوار، ج36، ص 227 ۔

(2)عوالی اللعالی، ج 4، ص 104 ۔

۸۱

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی ـ کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:

''وَاتَّهِمُوا عَلَیهِ آرَائَکُم'' 1 جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175 ۔

۸۲

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔

''وَاسْتَغِشُّوا فِیهِ اَهوَائَکُمْ'' اپنے خواہشات او رہوا و ہوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔

اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

۸۳

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں:

۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ہے۔

۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواہشات کواصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ''ہیومن ازم'' ( Humanism ) کہا جاتا ہے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ہے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ہے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاہر ہو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ہو اور دوسری وہ فکر و فہم جو کہ نفسانی خواہشات سے متاثر ہو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرہیز کیا جائے اور قرآن جیسا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کی وصیت کی توضیح کرچکے ہیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرہیز کرنا اور نفسانی خواہشات سے ذہن کو خالی رکھنا لازم

(1)یہ ایسا نظریہ ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ہوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ہے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ہومانسٹ کہے جاتے ہیں جن میں سے اکثر مذہب پروٹسٹ کی طرف مائل ہوگئے۔

۸۴

ہے۔ اس نظریئے میں حضرت کے کلام کے مخاطب دونوں گروہوں کو ہم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ہونے سے پرہیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواہش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے تھے۔

جب ہم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ہوتے ہیں، ہمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کے کلام کا اعجاز معلوم ہوتا ہے اور دین و احکام الٰہی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ہیں کہ جن کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کر رہے ہیں:

ـ: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرتے ہیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواہشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ہیں۔

فطری بات ہے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ہیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۸۵

حضرت علی ـ اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''إنّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللّٰهِ عَبداً أَعَانَهُ اللّٰهُ عَلٰی نَفْسِهِ'' 1 بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ہے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ہیں: ''قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِهِ فَهُوَ قَائِدُهُ وَ اِمَامُهُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُهُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُهُ'' 2 یہ گروہ جو مومنین و متقین کا گروہ ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ہے لہٰذا وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے ۔ جہاں قرآن کا سامان اترتاہے وہیں وہ لوگ بھی وارد ہوجاتے ہیں اور جہاںاس کی منزل ہوتی ہے وہیں وہ بھی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ہے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ہے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ہیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہنے کا باعث سمجھتے ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

(2)نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

۸۶

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نہیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوںاور الٰہی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ہیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ہیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وہی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

ـ:پہلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن یا ہر دینی متن یا ہر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذہنیتوں کی تابع ہے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ہے، یعنی قرآن یا ہر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کچھ خاص ذہنیتوں کا حامل ہوتا ہے یہ ذہنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ہیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ہے تووہ اپنی ذہنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ہے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ یہ انسان کی فہم اور سمجھ ہے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔

واضح ہے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ہر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ہیں اور یہ انسان کی ذہنیتیں ہیں جو ان الفاظ کو معنی و مفہوم بخشتی ہیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص اپنی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاہری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں دین اور اہل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ہے۔

۸۷

دینی پلورال ازم1 یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار

معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ آج ہمارے معاشرے میں دین کی مختلف قرائتوں کے عنوان سے بتایا جارہا ہے اس کا سرچشمہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے۔ اگرچہ مذکورہ عنوان ان نام نہاد روشن فکر افراد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے جو ظاہری صورت میں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ''دین کے متعلق مختلف قرائتوں کے تفکر'' کی اصل کو انسان محوری اور ہیومن ازم میں تلاش کرنا چاہئے۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ نظریہ دینی تعلیمات اور آسمانی کتابوں کے احکام کو بے معنی سمجھتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن اور ہر دوسرا دینی متن ساکت ہے اور کسی معنی و مفہوم کا حامل نہیںہے، بلکہ ہم انسان ہی ہیں کہ اپنی اپنی ذہنیتوں کے ذریعہ اپنی اپنی قرائت، فہم اور سمجھ کو دین و قرآن کی طرف نسبت دیتے ہیں ورنہ خود قرآن نہ کسی پیغام کا حامل ہے اور نہ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

مذکورہ نظریہ کی حقیقت کو واضح کرنے اوراس کے طرفداروں کے اس قول کا

(1)یعنی اس بات کا اعتقاد کہ انسان کی فلاح و نجات کسی ایک دین و مذہب میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اس کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں لہٰذا اسے دوسرے ادیان و مذاہب کو بھی صحیح سمجھنا چاہئے۔

۸۸

مطلب سمجھنے کے لئے (کہ دین ساکت و خاموش ہے اور اس سے مختلف اور متفاوت مطالب و مفاہیم اخذ کرنا ممکن ہے) ایک مثال کا ذکر مفید ہوسکتا ہے۔

کم و بیش ہم سبھی لوگ حافظ جیسے عظیم شاعر، بلند مرتبہ عارف کے دیوان، ان کی غزلوں اور ان کے اشعار سے واقف ہیں۔ حافظ کے دیوان اور ان کے اشعار کی مختلف قرائتیں اس معنی میں ہیں کہ ان اشعار کا خالق اپنے اشعار میں استعمال شدہ الفاظ و کلمات میں کوئی معنی و مقصود مد نظر نہ رکھتا ہو، اور صرف الفاظ و کلمات کو بغیر اس کے کہ وہ کسی معنی کے حامل ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ موزوں صورت میں کھوکھلے قالب کے عنوان سے، البتہ نہایت انوکھے اوردلکش انداز میں نظم کردیاہے، یعنی ان اشعار کی تخلیق شاعر نے کسی طرح کا بھی معنی و مقصدمدنظر رکھے بغیر کی ہو۔

''مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کے مطابق کہا جاسکتاہے کہ حافظ کی غزلیں اور اشعار کوئی معنی نہیں رکھتے اور ہر شخص فال کی نیت سے اور ایک خاص قصد و ذہنیت کے ساتھ دیوان حافظ کو کھولتا ہے اور سب سے پہلے شعر سے یا ایک غزل کے مجموعے سے ایک مطلب اپنی ذہنیت کی بنیاد پر سمجھتا ہے، مثلاً کسی کے یہاں کوئی مریض ہے اوروہ اس کی شفا چاہتا ہے، فال نکالتاہے اور ایک غزل سے مریض کی شفا کو سمجھتا ہے، ایک دوسرا شخص مقروض ہے اور اسی غزل سے اپنے قرض کی ادائگی کو سمجھتاہے، تیسرا ایک مسافر کے آنے کی امید رکھتا ہے وہ اسی غزل سے اپنے مسافر کی آمد کی خوشخبری کو سمجھتا ہے۔

۸۹

کلی طور سے ہر شخص اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ سے ایک ایک مطلب نکالتا ہے اور حقیقت میں یہ افراد ہی ہیں جو دیوان حافظ کو نطق و گویائی دیتے ہیں او ر ہر شخص اپنی ذہنیت اور اپنی فکر کو حافظ کی زبان سے ادا کراتا ہے اور تمام توضیح و توجیہ اور مطالب و معنی صحیح سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ مطالب و معانی خود افراد کے ہیں اور الفاظ، کلمات، اشعار اور غزلیں اس فرض کے مطابق بے معنی ہیں۔

جو نظریہ آج ہمارے معاشرہ میں ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ایسا ہی نظریہ ہے، یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ نظریہ قرآن اوردوسرے دینی متن کو بے معنی اور ہر طرح کے پیغام سے کھوکھلا تصور کرتا ہے۔ اس نظریہ کے طرفدار ایسا خیال رکھتے ہیں کہ قرآن ہرگز نہیں بولتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ یا کس کام کے انجام سے پرہیز کرنا چاہئے؟کون سی چیز حق اور صحیح اور کون سی چیز باطل اور غلط ہے؟ بلکہ یہ افراد ہی ہیں جو کہ اپنی خاص ذہنیتوں کی بنیاد پر ایک خاص معنی مثلاً حق و باطل اور صحیح و غلط قرآن سے سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ امور افراد کی ذہنیتوں سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، اس بنا پر ان سب کو صحیح سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ کلی طور سے ان کے صحیح اور باطل ہونے کا فیصلہ ہی بے معنیٰ ہے، کیونکہ مثال کے طور پر ایک ہی آیت سے مختلف معانی و مطالب اگرچہ متناقض اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں پھر بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ حافظ کی ایک غزل سے فال نکال کر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مریض شفا پاتا ہے، تو دوسرا ا س سے اپنے مہمان کی آمد کی خوشخبری سمجھتا ہے اور تیسرا اسی غزل سے ناامید ہو جاتا ہے ا ور اپنے بیمار کی موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔

۹۰

''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ قرآن اور ہر ایک دوسرا دینی متن بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ معتقد ہیں ، افراد کو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قرآن کے سمجھنے میں غلط فہمی سے متہم کریں کیونکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی طرح کی کسی خصوصیت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور ہر دوسرا متن خود کوئی پیغام نہیں رکھتا کہ اس کا سمجھنا قابل ذکر ہو، جو کچھ قابل ذکر ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے۔ ہماری نظر میںاس نظریہ کو حقیقت میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے لیکن ظاہر میں ایک دین شناسی نظریہ کے عنوان سے، دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی جدید قرائت اور معرفت وغیرہ کے نام سے اس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دینی پلورال ازم کا نظریہ جو کہ دین کی مختلف قرائتوں کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے منطق و عقل سے اتنا دور ہے کہ ہر صاحب عقل جس وقت اس نظریہ کی جڑوں اور اس کے نتیجوں پر توجہ کرتا ہے تو فوراً اس کے کھوکھلے پن اور باطل ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔دوسری طرف دینی معاشرہ میں پلورال ازم نظریہ کے تباہ کن اور تخریبی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جاسکتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ان جالوں میں سے ایک جال جو کہ انسان کے قسم کھائے دشمن، شیطان نے از آدم تا ایندم دنیا کے موحدین اور خدا پرستوں کو فریب دینے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربہ کی مدد سے بچھایاہے، وہ دین کی مختلف قرائتوں کا نظریہ گڑھنا ہے۔ کچھ نام نہاد روشن فکر افراد بھی اس شیطانی فکر کے وسوسہ سے متأثر ہوکر تن من دھن سے شیطان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ہیں تاکہ اس کا اس سلسلہ میں ساتھ دیں۔

۹۱

یہ لوگ اپنی عقل، ذہن، بیان اور تقریر و تحریر کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو شیطان کے اختیار میں دے کر خود کو انسانوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا لئے ہیں۔

اس بنا پراگر ہم دین شناسی میں ''پلورال ازم'' نظریہ کا خلاصہ جو کہ دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی مختلف قرائتوں اور اقلیتی و اکثریتی دین وغیرہ کے عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ مذکورہ نظریہ سے مراد وہ نظریہ ہے جو کہ دین و قرآن اور ہر دوسرے دینی متن کو ثابت حقائق سے خالی تصور کرتا ہے اور حق و باطل اور صحیح و غلط کو اس سلسلہ میں منتفی سمجھتا ہے۔

دین، یہ نظریہ ماننے والوں کے نزدیک متفاوت و مختلف بلکہ کبھی کبھی متناقض (ایک دوسرے کی نقیض) اور آراء و افکار کے اس مجموعہ کا نام ہے کہ جو انسان دینی کتابوں کی طرف رجوع کے وقت ان سے سمجھتے ہیں بغیر اس کے کہ خود قرآن یا دینی کتاب کوئی چیز بتائے۔

یہ نظریہ رکھنے والے ایسا تصور کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) قرآن ایک ایسی رومانی کتاب ہے جوانسان کے اندر طرح طرح کے خیالات ابھارتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سوچی سمجھی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر ایک مطلب کا تصور کرتا ہے اور اسے دین و قرآن سے اپنی قرائت اور فکر بتا کر خدا کی طرف نسبت دیتا ہے۔

۹۲

اس جگہ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے معنی کی حقیقت اور ''بہت سے صراط مستقیم'' کی واقعیت کو سمجھیںاور اس الحادی نظریہ کے مہلک نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں تاکہ یہ شیطانی جال بچھانے والوں کے مقاصد کو جان سکیں اور ان کی حرکت کی گہرائی کو درک کرسکیں۔

بہرحال جس وقت ہم مذکورہ نظریہ کا پہلے گروہ کے نظریہ سے مقایسہ اور موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظریہ کی روح، خدا پرستی اور خداوند متعال کے سامنے تسلیم و بندگی کی روح ہے، اور دوسرے نظریہ کی روح، انسان پرستی کی روح اور خدا اور احکام خدا سے فرار کرنے والی روح ہے۔

کلی طور سے پہلے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خداوند متعال کی بندگی کو قبول کرے، جبکہ دوسرے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خدا کی بندگی سے جدا ہوجائے اور اپنے کو حیوانی شہوات و خواہشات میں چھوڑ دے، یہ نظریہ انسان کے میلانات اور خواہشات کو اصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دین اور قرآن کی تفسیر و توجیہ انہی کے اعتبار سے کرے۔

۹۳

قرآن مجید میں جو اس طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً:(تِلْکَ آیَاتُ الکِتَابِ وَ قُرآن مُبِین) 1 (بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِین) 2 (تِلْکَ آیَاتُ القُرآنِ وَ کِتَابٍ مُبِینٍ) 3 (قَد جَاء َکُم مِنَ اللّٰهِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) 4 کہ جن میں قرآن مجید کے روشن، واضح اور فصیح و بلیغ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان تعبیروں کا ایک راز شاید یہی ہو کہ ''مختلف قرائتوں'' جیسے گمراہ کن افکار کو روکا جائے اور قرآن کے مقصود و معنی کے مبہم اور نامفہوم ہونے کے اعتبار سے کوئی بھی بہانہ کسی شخص کے پاس نہ ہو۔

اس بنا پر قرآن، ہدایت کی کتاب ہے، خداوند متعال نے اس میں وہ تمام حقائق بیان کردیئے ہیں جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے لازم ہیں، اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر کے ذریعہ اپنے فردی و اجتماعی فرائض سے آشنا ہوں اور اس کی پیروی کے ذریعہ اپنے کو کامیاب بنائیں، لیکن یہ بات کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کی صلاحیت کس میں ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کی توضیح ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

(1)سورۂ حجر، آیت 1 ۔

(2)سورۂ شعراء ، آیت 195 ۔

(3)سورۂ نمل، آیت 1 ۔

(4) سورۂ مائدہ، آیت 15 ۔

۹۴

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیںاور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہواور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

۹۵

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے:(إنّا أَنزَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) 1 (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا(إنّا جَعَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) 2 (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اوراہلبیت (ع) کے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت (ع) سے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و

معارف کے بارے میں جدید قرائت کے عنوان سے بول سکے۔

(1) سورۂ یوسف، آیت 2 ۔

(2)سورۂ زخرف، آیت 3 ۔

۹۶

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے:(یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآئُ اِلٰی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ) 1 جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ''فقرائ'' سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

(1) سورۂ فاطر، آیت 15 ۔

۹۷

متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ''مرتبۂ ظاہر'' کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو او رمذکورہ آیۂ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیںاور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میںاس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ''ستون فقرات'' (ریڑھ کی ہڈیاں) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی امکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اورا س نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما ، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں او ربالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

۹۸

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیںہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید او ریاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمۂ معصومین (ع) ہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں:

۹۹

''عَن اَبِ جَعفَرٍ عَلَیهِ السَّلامُ قَال : یَا جَابِرُ! إنّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطن وَ لَهُ ظَهر وَ لِلظَّهرِ ظَهر یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیئ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ إنّ الآیَةَ یَکُونُ أَوَّلُهَا فِی شَیئٍ وَ آخِرُهَا فِی شَیئٍ وَ هُوَ کَلام مُتَّصِل یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوهٍ''1

حضرت امام محمد باقر ـ جابر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ''قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیںاس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہواور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے''۔

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ او رراسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(1) بحار الانوار، ج92،

۱۰۰

واضح رہے جس متوکل کو علی(ع) سے اتنی عداوت تھی اور یہی چیزیں اس کے نفاق و فسق کا موجب تھیں، وہ اہلِ حدیث کو بہت محبوب اور وہ اسے محی السنۃ کے لقب سے نواز تے ہیں۔ اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت والجماعت۔

یہ بات تو دلیل سے ثابت ہوچکی ہے کہ اہلِ سنت علی بن ابی طالب (ع) سے بغض و عداوت  اور برائت  کو سنت کہتے ہیں؛

اور خوارزمی کایہ قول تو اس کو اور واضح کردیتا ہے کہ ہارون بن خیزران  اور جعفر متوکل " علی الشیطان لا علی الرحمان" اسی کو پیسہ ، کوڑی یا کھانا روٹی دیتے تھے جو آلِ ابی طالب(ع) پر  لعنت کرتا تھا اور نواصب کے مذہب کی مدد کرتا تھا ۔ ( کتاب الخوازرمی،ص۱۳۵)

ابن حجر نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل  سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : جب نصر بن  علی بن صھبان نے یہ حدیث بیان کی کہ ، رسول اللہ (ص) نے حسن و حسین(ع)  کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :" جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان دونوں ( حسن و حسین علیہما السلام)  سےمحبت رکھتا ہے اور ان کے والد و  والدہ سے محبت رکھتاہے قیامت کے دن وہ اور میں ایک درجے میں ہوں گے۔"

اس پر متوکل نے نصر بن علی بن صھبان کو سو(۱۰۰)  کوڑے لگوائے  تھے ۔ جس سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تھے پھر جعفر بن عبد الواحد نے کہا : اے امیر المؤمنین یہ تو سنی ہے یہ سنکر متوکل نے اسے چھوڑدیا ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر حالات نصر بن علی بن صھبان)

متوکل سے جعفر عبدالواحد نے جو بات  کہی تھی اس سے ہر ایک عقلممند یہ نتیجہ نکال سکتا ہے نصر سنی تھا۔ اس لئے وہ قتل سے بچ گیا۔ نیز یہ دوسری دلیل ہے کہ اہلِ بیت (ع) کے دشمن ہی اہلِ سنت بن بیٹھے تھے۔ جبکہ متوکل کہ اہل بیت(ع)  سے سخت دشمنی تھی اور ہر اس غیر شیعہ  کو بھی قتل کردیتا تھ جو ان کی کسی فضیلت کو بیان کردیتا تھا۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸) مشہور ہے کہ عثمانی لوگ حضرت علی (ع) پر لعنت کرتے تھے اور ان پر قتل عثمان بن عفان کا الزام لگاتےتھے۔

۱۰۱

ابن حجر لکھتے ہیں کہ کہ عبد اللہ بن ادریس ازدی سنی المسک تھے وہ کٹر عثمانی سنی  عبداللہ بن عون بصری کہتے ہیں!  عبد اللہ بن ازدی موثق ہیں وہ سنت کے معاملہ میں بہت سخت تھے اور اہلِ بدعت کے لئے برہنہ شمشیر تھے۔ ابنِ سعد کہتے ہیں کہ وہ عثمانی تھے۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸)

ابراہیم بن یعقوب  جوزجاتی لکھتے ہیں کہ :

عبد اللہ بن ادریس ازدی " حریزی المذہب" یعنی حریز بن عثمان دمشقی کے پیروکار تھے اور ان کی ناصبیت مشہور تھی، ابن حیان لہتے ہیں کہ او سنت کے سلسلہ میں بڑے سخت تھے۔ ( تہذیب التہذیب ابنِ حجر ، ج۱، ص۸۲)

ان تمام باتوں سے تو  ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ علی(ع)  اور اولاد علی(ع)  سے بغض رکھنے والا اور ان پر لعنت  کرنے والا اہلِ سنت کے نزدیک سنت کے معاملہ میں بڑا کٹر آدمی ہو تا ہے  اور یہ بات بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ عثمانی اہلِ بیت(ع)  کے جانی دشمن تھے علی(ع) اور ان کے شیعوں کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اہلِ بدعت سے ان کی مراد شیعہ ہیں جو کہ علی(ع) کو امام مانتے ہیں ، کیونکہ علی(ع) کی امامت کے عقیدہ کو اہلِ سنت والجماعت بدعت سمجھتے ہیں اس لئے کہ اس  سے صحابہ اور خلفائے راشدین کی مخالفت ہوتی ہے اور پھر سلفِ صالح نے ان(علی ع)  کی امامت کو تسلیم بھی نہیں کیا  تھا اور نہ انھیں وصی رسول (ص)  مانا تھا۔ اس سلسلہ میں بے پناہ تاریخی شواہد  موجود ہیں ہم نے اتنے ہی بیان کئے ہیں جن کی ضرورت تھی اور پھر اپنی عادت کے مطابق اختصار کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ شائقین ( کتابوں سے ) مزید تلاش کرسکتے ہیں۔

جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم ضرور انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے بے شک خدا احسان کرنے والوں کےساتھ ہے۔( عنکبوت،آیت ۶۹)

۱۰۲

شیوں کے ائمہ کو نبی(ص) معین کرتے ہیں

سیرت نبوی(ص) اور تاریخِ اسلامی کا محقق اس بات کو یقینی طور پر جانتا ہے کہ شیعوں کے بارہ ائمہ  کو نبی(ص) نے معین کیا ہے اور اپنے بعد ان کی امامت و خلافت پر نص کی ہے۔

اہلِ سنت کی صحاح ستہ میں بھی ان کی تعداد بارہ ہی بیان ہوئی ہے اور وہ سب قریش سے ہوں گے۔

اہلِسنت کی بعض معتبر کتابوں میں بھی مرقوم ہے کہ رسول(ص)  نے صاف طور پر ان ائمہ کے اسماء بھی اسی طرح بیان فرمائے ہیں کہ ان میں سے پہلے علی(ع) پھر ان کے بیٹے حسن اور پھر ان (حسن ع)  کے بھائی حسین(ع)  اور پھر حسین(ع) کی نسل سے یکے بعد دیگرے نو امام ہوں گے اور ان میں آخری مہدی (عج) ہوگا۔

صاحب یبابیع المودت تحریر فرماتے ہیں کہ " الاعتل " نامی یہودی  رسول(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا : اے محمد(ص) میں ان چند چیزوں کے بارے میں آپ سے سوال کرتا ہوں جنھوں نے

۱۰۳

ایک زمانہ سے میرے سینہ میں طوفان مچارکھا ہے۔ اگر آپ نے جواب دے دیا تو میں مسلمان ہوجاؤں گا نبی(ص) نے فرمایا: اے ابو عمارہ سوال کرو اس نے چند  چیزوں کے متعلق   سوال کرنے کے بعد کہا آپ نے بالکل صحیح جوابات دیئے لیکن اب یہ بتایئے  کہ آپ کو وصی کون ہے؟ کیونکہ ہر ایک نبی  کا کوئی وصی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی (موسی (ع))  کے وصی یوشع بن نون تھے۔

آپ نے فرمایا :" میرے وصی علی بن ابی طالب (ع) ہیں اور ان کے بعد میرے بیٹے  حسن(ع) اور حسین (ع) اور پھر حسین(ع)  کی نسل سے نو ائمہ ہوں گے "۔

یہودی نے کہا :ان کے اسماء بھی مجھے بتائیے۔

آپ نے فرمایا: حسین(ع) کی شہادت کے بعد ان کے فرزند علی(ع)  اور علی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) اور محمد(ع) کی شہادت کے بعد ان کے دلبند جعفر(ع) اور جعفر(ع) کی شہادت کے بعد انکے لخت جگر موسی(ع)  اور موسی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے نورِ عین علی(ع) اور علی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے میوہ دل حسن(ع) اور  حسن (ع) کی شہادت کے بعد ان کی یادگار مہدی(عج) ہوں گے۔ یہ اسماء سننے کے بعد یہودی مسلمان ہوگیا اور ہدایت  یافتہ ہونے پر خدا کی حمد بجالایا۔ ( ینابیع المؤددۃ ، ص۴۴۰، فرائد السمطین حموینی)

اگر اس سلسلہ میں ہم شیعوں کی کتابوں کی ورق گردانی کریں اور اس موضوع سے مخصوص حقائق  کو جمع کریں تو دفتر کے دفتر وجود میں آجائیں ۔

لیکن دلیل کے طور پر ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے علما ء بارہ ائمہ کے قائل ہی اور وہ ہیں علی(ع) اور ان کے پاک و پاکیزہ فرزند۔

اور جو چیز ہمارے اس یقین کو اور محکم بناتی ہے کہ اہلِ بیت(ع) میں سے بارہ ائمہ(ع)

۱۰۴

کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا ہے اور مورخین و محدثین اور سیرت نگاروں نےان کے متعلق یہ نہیں لکھا ہے کہ ائمہ اہلِ بیت(ع)  نے فلاں صحابی یا تابعین میں سے  کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے ۔ جب کہ امت کے دیگر علماء و ائمہ نے ایسا کیا ہے۔

مثلا ابو حبیفہ نے امام جعفر صادق(ع) سے تعلیم حاصل کی  اور مالک نے ابوحنیفہ سے درس پڑھا اور شافعی نے مالک سے علم حاصل کیا  اور مالک سے احمد بن حنبل نے کسبِ فیض کیا۔

لیکن اہلِ بیت(ع) کاعلم لدنی ہے جو انھیں ان کے عظیم باپ داد ا سے میراث میں ملتا ہے۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کے  بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے:

" پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص انھیں کتاب کا وارث بنایا جنھیں منتخب کیا تھا۔(فاطر ۲۲)

ایک مرتبہ امام صادق(ع) نےاس کی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا تھا۔

"تعجب ہے: لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے کل علم رسول(ص)  سے حاصل کیا ہے اور اس پر عمل کر کے ہدایت پاگئے اور کہتے ہیں کہ ہم اہلِ بیت(ع)  نے رسول(ص) سے علم نہیں لیا ہے اور نہ ہمیں ہدایت ملی ہے جبکہ ہم ان (رسول (ص))  کی ذریت ہیں۔ہمارے گھر میں وحی نازل ہوئی ہے اور ہمارے ہی در سے علم کا سوتا پھوٹا  ہے کہ جس سے لوگ سیراب ہوتے ہیں ۔ کیا تم انھیں ہدایت یافتہ اور علم میں سرشار اور ہمیں جہل و ضلالت  میں دیکھتے ہو؟

اور ان لوگوں پر امام جعفر صادق(ع) کو کیوں کر تعجب نہ ہوتا جو کہ یہ دعوی کررہے تھے کہ ہم نے رسول(ص) سے علم حاصل کیا  ہے جب کہ وہ رسول(ص) کے وارث اہل بیت(ع)  سے عداوت

۱۰۵

کررہے تھے۔

اور اہلِ سنت کہ جنھوں نے ناجائز طریقہ سے  خود کو سنت سے منسوب کرلیا" پر تعجب ہونا ہی چاہئے جبکہ وہ سنت  کی مخالفت کرتے ہیں؟

اور  جیسا کہ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ شیعوں  نے علی(ع) کا دامن تھام لیا تھا۔ لہذا و ہ علی(ع) کی مدد کرتے رہے اور آپ(ع)  کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور جس سے آپ کی صلح تھی اس سے صلح کرتے رہے اور  انھوں نے ہر ایک علم ان ہی سے حاصل کیا ہے۔

اہلِ سنت نے قطعی طور پر علی(ع) کی اطاعت نہیں کی اور نہ ہی ان کی مدد کی بلکہ اس کے برعکس آپ(ع) سے جنگ کی اور آپ(ع) کی حیات کا چراغ گل کردینے کے درپے رہے۔ چنانچہ آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کی اولاد کو چن چن کے قتل کیا، قیدی بنایا اور شہروں سے نکال دیا، اکثر حکام میں اہلِ سنت نے علی(ع) کی مخالفت کی اور ان لوگوں کا اتباع کیا جنھوں نے اپنی رائے اور اجتہاد سے احکامِ خدا کو بدل ڈالا تھا۔

اور آج ہمیں ان لوگوں پر کیونکہ تعجب نہ ہو کہ جو سنت نبی(ص) پر عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور خود ہی یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے سنتِ نبی(ص) کو چھوڑدیا ہے۔ اس لئے کہ سنت تو شیعوں کا شعار بن چکی ہے۔ ( قارئین اس سلسلہ میں " لاکون مع الصادقین" ہوجاؤ سچوں کے ساتھ مطالعہ فرمائیں، ابن تیمیہ  کہتے ہیں سنتِ نبی(ص) کو  چھوڑدو کیونکہ اب سنت شیعوں کی علامت بن چکی ہے لیکن اہلِ سنت  اس کے باوجود ابنِ تیمیہ کو مجدد السنہ کہتےہیں ۔ منہاج السنت لابن تیمیہ ج۲، ص۱۴۳ شرح المواہب للزرقانی ، ج۵، ص۱۲) کیا عجیب بات نہیں ہے؟

اور ہمیں ان لوگوں پر کیسے حیرت نہ ہو جو بزعم خود اپنے کو ، اہلِ سنت  والجماعت ، سمجھتے ہیں جبکہ وہ متعدد گروہوں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، میں بٹے ہوئے ہیں، فقہی  مسائل میں ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں اس طرح یہ کہ یہ اختلاف رحمت ہے ! چنانچہ دینِ خدا ان

۱۰۶

کی خواہشِ نفس اور راویوں کا مربَہ بن گیاہے۔

جی ہاں یہ متعدد  پارٹیاں ہیں جو کہ احکامِ خدا و رسول(ص) میں جدا جدا ہیں لیکن سقیفہ میں تشکیل پانے والی ظالم خلافت  کے صحیح ہونے میں سب ایک ہیں اسی طرح خلافت سے عترتِ طاہرہ کو دور رکھنے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کیونکر تعجب نہ ہو کہ جو خود کو اہلِ سنت  کہہ کر سرخ رو ہوتے ہیں اور   رسول(ص) کے اس حکم " کہ کتابِ خدا اور میرے اہلِ بیت(ع) عترت سے تمسک رکھنا" کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ہر چند کہ اہلِ سنت  نے اس  حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیاہے اور اسے صحیح تسلیم کیا ہے ، لیکن وہ نہ قرآن سے تمسک رکھتے ہیں نہ اہلِ بیت(ع)  سے انکا  کوئی تعلق ہے جبکہ اہلِ بیت(ع)  سے روگردانی کرنا قرآ ن سے رخ موڑنا ہے۔ جیسا کہ حدیث یہ کہتی ہے کہ قرآن و عترت کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جیسا کہ رسول(ص) نےاس کی خبر دی ہے۔

"مجھے لطیف و خبیر نے  خبر دی ہے کہ یہ دونوں (قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ میرے پاس خوض کوثر پر وارد ہوں گے۔"

( مسند امام احمد ابن حنبل ج۵، ص۱۸۹، مستدرک حاکم ج۲، ص۱۴۸،  حاکم کہتے ہیں شیخین کی شرط  کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ ذہبی نے بھی شیخین کی شرط پر اس حدیث کو صحیح مانا ہے۔)

اور اس قوم پر ہمیں کیسے تعجب نہ ہو جو یہ دعوی کرتی ہے کہ ہم اہلِ سنت ہیں اور اس چیز کی مخالفت کرتی ہے جو ان کی کتابوں میں نبی(ص) کی حدیث اور امر و نہی موجود ہے۔ ( بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے ماہ رمضان میں نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنے سے منع کیاتھا اور فرمایا تھا: لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو! کیونکہ سنت نمازیں گھروں میں پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اہلِ سنت نے اس چیز کو ٹھکرادیا ۔ جس سے رسول(ص) نے منع کیا تھا اور عمر ابن

۱۰۷

خطاب کی بدعت کو اختیار کرلیا۔)

اور ہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیں کہ " میں تمھارے درمیان کتاتِ خدا اور اپنی سنت چھوڑ کرجارہا ہوں  جب تک تم ان سے تمسک رکھو گے  کبھی گمراہ نہ ہوگے "۔ جیسا کہ آج بعض اہلِ سنت کا رویہ ہے، تو پھر فضیحت اور بڑھ جا ئے گی اور تعجب کی انتہا نہرہے گی۔

اور عمر ابن خطاب نے تو صاف لفظوں میں کہا تھا۔" ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔ جبکہ یہ صریح طور پر رسول(ص)  پر اعتراض  خدا پر اعتراض ہے۔

عمر کا یہ قول ہلِ سنت کی تمام صحاح میں بشمولیت بخاری و مسلم موجود ہے۔ پس جب نبی(ص) نے فرمایا تھا کہ میں تمھارے درمیان کتابِ خدا اور اپنی سنت چھوڑ کرجارہا ہوں تو اس وقت عمر نے کہا تھا  کہ ہمارے لئے کتابِ خدا  کافی ہے۔ ہمیں آپ(ص) کی سنت کی احتیاج نہیں ہے  اور جب عمر نبی(ص) کے سامنے یہ کہا کہ ہمارے لئے کتابِ خدا کافی  ہے تو ابوبکر  نے اپنے دوست کی بات کو نافذ کرنے پر زور دیا لہذا اپنی خلافت کے دوران کہا: رسول(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کرنا اور جو تم سے سوال کرے اس سے کہہ دینا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان کتابِ خدا ہے اس کے حلال کو حلال  اور  اس کے حرام کو حرام سمجھو! ( تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج۱، ص۳)

اس گروہ پر ہم کیسے تعجب نہ کریں کہ جس نے اپنے نبی(ص)  کی سنت کو پس پشت  ڈالدیا اور اس کی جگہ ان بدعتوں کو لاکر رکھدیا جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے اس پر فخر یہ کہ ہم سنی ہیں۔

لیکن تعجب اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں ابوبکر و عمر و عثمان کی معرفت ہوجاتی ہے کیونکہ وہ بھی اہلِ سنت کے بام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ابوبکر فرماتے ہیں: اگر تم مجھ سے سنتِ نبی(ص) پر عمل کرنے کے لئے کہتے ہو تو مجھ میں اس کی طاقت نہیں ۔" ( مسند امام احمد بن حنبل ج۱، ص۴، کنزالعمال ج۳، ص۱۲۶)

۱۰۸

ابوبکر میںسنتِ نبی (ص) کی طاقت کیوں نہیں تھی ؟ کیا نبی(ص) کی سنت کوئی امر محال تھا جو ابوبکر  کی طاقت سے باہر تھا؟

اور پھر اہلِ سنت یہ دعوی کیسے کرتے ہیں کہ ہم سنت نبی(ص) سے متمسک ہیں جبکہ ان مذہب کے مؤسس و موجد میں اس پر عمل پیرا ہونے کی طاقت نہیں تھی؟

کیا خدا وندِ عالم نے یہ نہیں فرمایا تھا، تمھارے لئے رسول خدا(ص) میں اسوہ حسنہ ہے۔(احزاب ۲۱)

نیز فرمایا :

خدا کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے۔ (طلاق ۷)

پھر فرمایا ہے:

ہم نے تمھارے لئے دین میں کوئی زحمت نہیں رکھی ہے۔(حج۷۸)

کیا ابوبکر اور ان کے دوست عمر یہ سمجھتے ہیں کہ رسول(ص) نے خدا کا دین نہیں پیش کیا بلکہ اس کی جگہ اپنی طرف سے کوئی یز پیش کردی ہے؟ اور پھر مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم  دیا جبکہ ان میں اس کی سکت نہیں ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔

بلکہ آپ(ص) اکثر فرمایا کرتے تھے: بشارت دو متنفر نہ کرو آسانیاں اختیار کرو زحمتوں سے بچو، بے شک خدا نے تمھیں چھوٹ دی ہے اب تم کسی چیز کو اپنے اوپر زبردستی نہ لادو، ابوبکر کو یہ اعتراف ہے کہ ان میں سنتِ نبی(ص) کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے اس لئے انھوں نے اپنی خواہش نفس سے ایسی بدعت  نکالی جو ان کی حکومت کی سیاست سے سازگار اور ان کی طاقت کے مطابق تھی۔

دوسرے نمبر پر شاید عمر نے بھی یہ محسوس کیا کہ مجھ میں بھی احکامِ قرآن و سنت پر

۱۰۹

عمل کرنے کی طاقت نہیں ہے لہذا انھوں نے جنب کی حالت میں پانی نہ ملنے پر نماز ترک کرنے کا  فیصلہ کیا اور اپنی خلافت کے زمانہ میں یہی فتوی دیا جیسا کہ محدثین نے عمر کا قول نقل کیا ہے۔

پھر عمر جماع کے شوقین تھے، یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے۔

" اللہ جانتا ہے کہ تم ( آنکھ بچا کر عورتوں کے پاس جاتےہو) گناہ کرتے ہو۔ بس اس نے تمھاری توبہ قبول کی۔"( بقرہ۱۸۷)

اس لئے کہ عمر روزہ کی حالت میں بھی جماع سے باز نہیں رہتے تھے پھر اس زمانہ میں پانی بھی کم یاب تھا لہذا عمر کو آسان طریقہ یہی نظر آیا کہ نما چھوڑ دی جائے ۔ جب غسل کے لئے پانی مل جائے گا تو نماز پڑھ لی جائے گی۔

عثمان نے بھی سنتِ نبی(ص) کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، مشہور ہے کہ عائشہ نبی(ص) کی قمیص لے کر نکلیں اور کہا عثمان نے تو نبی(ص) کاکفن کہنہ ہونے سے قبل ہی ان کی سنت کو  بھولا دیا ہے۔ یہاں تک کہ صحابہ نے ان پر الزام لگایا کہ وہ سنتِ نبی(ص) اور سیرتِ شیخین کی مخالفت کرتے ہیں چنانچہ اسی جرم میں انھیں قتل کردیاگیا۔

اور معاویہ تو ان سے بھی بازی لے گیا اس نے تو کھلم کھلا قرآن و سنت کی مخالفت کی اور ان سے لوگوں کو رجوع کرنے سے منع کیا نبی(ص) فرماتے ہیں:

" علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع)  سے ہوں جس نے علی(ع) پر  سب و شتم کیا اس نے مجھ پر سب و شتم کیااور جس نے مجھے برا بھلا کہا اس نے خدا کو برا بھلا کہا۔"

( مسدرک حاکم ج۳، ص۱۲۱، مسند احمدبن حنبل ج۶، ص۲۲۳۔ خصائص نسائی ،ص۱۷)

جب کہ معاویہ کھلم کھلا حضرت علی(ع) پر لعنت کرتا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کرتا ہے ، بلکہ اپنے کارندوں کو حکمدیتا ہے کہ وہ علی(ع)  پر لعنت کیاکریں اور جس نے ایسا کرنے سے انکار

۱۱۰

کیا اسے معزول کردیتا ہے۔

اور حق کا اتباع کرنے والے شیعوں کے مقابلہ میں معاویہ خود کو اور اپنے چاہنے والوں کو اہلِ سنت والجماعت کہتا ہے۔

بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ صلح امام حسن(ع)  کے بعد جس سال معاویہ تخت نشین ہوا اس سال کو عام الجماعۃ کہا جانے لگا۔

یہ تعجب اس وقت زائل ہوجائےگا جب اس بات سے پردہ ہٹے گاکہ معاویہ اور اس کی پارٹی سے وہ لوگ مراد ہیں جو جمعہ اور عید کے دن اسلامی منبروں سے علی(ع) پر لعنت کرتے تھے۔

اور جب اہل سنت والجماعت معاویہ ابن ابی سفیان کی ایجاد ہیں تو ہماری خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بدعت پر موت دے جس کی موجد  و بانی علی بن ابیطالب(ع) اور تمام اہلِ بیت علیہم السلام ہیں!!

قارئین محترم متوجہ رہیں کہ اس لحاظ سے بدعت کار و گمراہ لوگ اہلِسنت  والجماعت بن گئے اور اہلِ بیت (ع)  میں سے ائمہ طاہرین(ع) کو بدعت گذار کہا جانے لگا۔

اہلِ سنت والجماعت کے مشہور عالم دین علامہ ابن خلدون جمہور کے مذاہب شمار کرانے کے بعد کہتے ہیں:

اور اہلِ بیت(ع) کے ایجاد کئے ہوئے مذاہب بہت کم ہیں وہ فقہ میں منفرد ہیں، ان کے مذاہب کی بنیاد تو بعض صحابہ کو برا بھلا  کہنا ہے۔( مقدمہ ابن خلدون، ص۴۹۴)

قارئین محترم!

میں نے  شروع ہی میں یہ عرض کیا تھا کہ اگر وہ تصویر کا دوسرا رخ

۱۱۱

 بھی دیکھتے تو ضرور حقیقت تک پہنچ جاتے۔ جب فاسق ترین لوگ اور بنی امیہ اہلِسنت بن سکتے ہیں اور اہلِ بیت(ع)  کو بدعت کار کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ابن خلدون نے لکھا ہے تو ایسے اسلام کو دور سے سلام اور دنیا پرخاک ۔

۱۱۲

اہلِ سنت کے ائمہ ظالم حکام معین کرتے ہیں

اہلِ سنت کے چاروں مذاہب  کے ائمہ بھی کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) کی مخالفت کرتے تھے، کیونکہ رسول(ص) نے عترت  طاہرہ کی اقتدارء کا حکم دیا تھا جبکہ ہمیں اہلِ سنت میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا  جس نے اپنے زمانہ کے امام کو پہچان لیا ہو اور ان کی کشتی پر سوار ہوگیا ہو اور ان کے سامنے گردن جھکادی ہو۔

یہ ہیں ابوحنیفہ  جنھوں نے امام صادق(ع) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور آپ کے بارے میں ان (ابوحنیفہ) کا یہ قول مشہور ہے اگر یہ دو سال " کہ جن میں امام صادق(ع) سے علم حاصل کیا ہے" نہ ہوتے تو نعمان ( ابوحنیفہ) ہلاک ہوجاتا۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنا ایک نیا مذہب بنا لیا کہ جس کی بنیاد ہی صریحِ نص کے مقابلہ میں اجتہاد تھا۔ مالک کو دیکھئے کہ جس نے امام صادق(ع)  سے علم حاصل کیا اور آپ (ع) کے بارے میں فرمایا: امام  جعفر صادق(ع)  جیسا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور کسی کے دل میں اس بات کا خطور ہوا کہ علم و

۱۱۳

 فقہ میں امام جعفر صادق(ع) سے افضل بھی کوئی ہوسکتا ہے ۔ انھوں نے بھی اپنے زمانے کے امام کو چھوڑ کر الگ  ڈیڑھ اینٹ  کی مسجد بنائی اور ایک مذہب ایجاد کر دیا، جبکہ مالک کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے زمانہ میں علم و فقہ کے لحاظ سے امام جعفر صادق(ع)  سے بلند کوئی نہیں تھا لیکن ان کو عباسیوں نے یہ باور کرایا کہ تم بہت بڑے عالم ہو اور  انھیں دارالہجرت کا امام کہنے لگے تو پھر مالک کی حیثیت ہی بدل گئی اور رعب  و دبدبہ بھی بڑھ گیا۔

شافعی کو ملاحظہ فرمائیے کہ جن پر شیعہ ہونے کا اتہام ہے اور اہلِ بیت(ع) کے متعلق ان کے اشعار بھی ہیں:

" اے رسول(ص) کے اہلِ بیت(ع) آپ کی محبت قرآن میں خدا  کی طرف

سےواجب ہے آپ کے لئے تو یہی کافی ہے کہ جو آپ(ع)  پر درود

نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز نہیں ہے۔"

اسی طرح مندرجہ ذیل اشعار بھی مدحِ اہلِ بیت(ع) میں شافعی کی طرف منسوب ہیں۔

" اورجب میں نے لوگوں کو  دیکھا کہ ان  کے مذاہب انھیں جہل و گمراہی کے دریا میں لے گئے  تو میں بھی اللہ کا نام لیکر نجات کے سفیبہ پر سور ہاگیا ، یعنی خاتم الرسل(ص) اہلِ بیت(ع) مصطفے (ص) کا دامن تھام لیا اور میں نے حبل اللہ سے تمسک کیا جو کہ اہلِ بیت(ع)  کی محبت  ہے جیسا کہ رسول(ص) نے ہمیں اس سے متمسک رہنے کا حکم دیاہے۔"

اسی طرح شافعی سے یہ شعر بھی منسوب ہے:

اگر آلِ محمد(ص)  کی محبت رفض ہے

تو ثقلین گواہ رہیں میں رافضی ہوں۔

۱۱۴

لیکن جب وپ اپنے رافضی ہونے پر ثقلین کو گواہ بنا رہے ہیں تو پھر ان مذہبوں کی مخالفت کیوں نہیں کرتے جو اہلِ بیت(ع)  کی ضد میں بنائے گئے تھے نہ صرف یہ کہ ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ خود بھی اپنا ایک نیا مذہب بنا لیا اور اپنے ہم عصر اہلِ بیت(ع) کو چھوڑ دیا۔

احمد ابن حنبل کو لیجئے  جنھوں نے حضرت علی(ع) کو چوتھا خلیفہ قرار دیا انھیں خلفائے  راشدین سے ملحق کیا اور اس سلسلہ میں کتاب الفضائل نامی کتاب لکھی اور ان کا یہ قول مشہور ہے کہ " صحیح اسناد کے ذریعہ تمام صحابہ سے زیادہ علی(ع) کے فضائل نقل ہوئے ہیں ۔ جناب نے بھی اپنے نام سے ایک مذہب کی بنیاد ڈالی کہ جس کو آج کل حنبلی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ ان کے زمانے کے علماء کہتے تھے کہ احمد بن حنبل فقیہ نہیں ہیں۔ شیخ ابو زہرہ کہتے ہیں کہ متقدمین میں سے اکثر علماء احمد بن حنبل کو فقیہ نہیں مانتے تھے۔ جیسے ابن قتیہ ابن جریر طبری جو کہ ان کے زمانہ سے قریب تھے۔ ( ملاحظہ فرمائیں ابوزہرہ کی کتاب احمد بن حنبل  ص۱۷۰)۔

ابن تیمیہ آتے ہیں اور مذہب حنبلی کو  جھںڈا اٹھاتے ہیں اور اس میں کچھ نئے نظریات داخل کردیتے ہیں۔ مثلا قبور کی زیارت کرنے اور ان پر عمارت بنانے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔

اور اہل بیت نبی(ص) سے تمسک کو شرک بتاتے ہیں۔

یہ ہے مذاہب اربعہ اور یہ ہیں ان کے ائمہ اور یہ ہیں ان کے وہ اقوال جو  اہلِ بیت(ع)  طاہرین سے متعلق ہیں۔

پس یہ تو لوگ وہ بات کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے اور یہ خدا کو  بہت ناپسند ہے انھوں نے یہ مذاہب نہیں بنائے تھے بلکہ اموی اور عباسیوں کے دم چھلوں نے ظالم حکام کی مدد سے ان مذاہب  کی بنیاد رکھی تھی اور ان ( ائمہ اربعہ) کی وفات کے بعد ان کی طرف منسوب کردیا تھا۔ اس حقیقت کو ہم انشاء اللہ آیندہ بحثوں میں واضح کریں گے۔

کیا آپ کو ان ائمہ پر تعجب  نہیں ہے جو کہ اہلِ بیت(ع) میں سے ائمہ ھدی کے کے ہمعصر تھے اور اس کو باوجود صراط مستقیم سے ہٹ گئے اور ان سے ہدایت

۱۱۵

حاصل نہیں کی اور نہ ان کے نور سے فیضیاب ہوئے ان سے ان کے جد رسول(ص) کی احادیث بھی نقل نہیں کیں بلکہ اس کی بر خلاف کعب الاخبار یہودی  اور ابو ہریرہ کی دوستی سے رسول(ص) کی احادیث لیں اسی ابوہریرہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی(ع) نے  فرمایا ہے۔

ابوہریرہ نے رسول(ص) پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھا ہے اور بالکل یہی بات عائشہ بنت ابوبکر نے بھی کہی ہے۔

اہلِ سنت نے اہلِ بیت نبی(ص)  پر  عبد اللہ بن عمر ایسے ناصبی دشمن علی(ع) کو مقد م کیا ہے جس نے علی(ع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف  ایسے گمراہ کی بیعت کر لی تھی۔

اور اسی طرح معاویہ کے وزیر عمرو بن العاص  ایسے دھوکہ باز کو اہلِبیت (ع) پر مقدم کرتے ہیں۔

کیا آپ کو ان ائمہ پر تعجب نہیں ہوتا  جنھوں نے دین خدا میں اپنے نفسوں کے لئے حق تشریع اور اجتہاد کو مباح کرلیا تھا یہاں تک کہ انھوں نے سنتِ نبوی(ص) کو چھوڑ دیا تھااور خود  قیاس  و استصحاب سدیاب الذرایع اور مصالح المرسلہ ایسے قواعد ایجاد کر لئے تھے۔

اس کے علاوہ اور نہ جانیں کتنی بدعتیں ہیں جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے۔ کیا خدا اور اس کو رسول(ص) اکمال دین سے غافل تھے  اور انکے لئے یہ مباح کردیا تھا کہ وہ اپنے اجتھادات کو کامل کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں جس کو چاہیں حلال قرار دیں ۔  کیا ان مسلمانوں پر توجب نہیں ہوتا جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم تو سنت کا اتباع کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے ائمہ کی تقلید کرتے ہیں کی جو نبی(ص) کی معرفت نہیں رکھتے تھے اور نہ نبی(ص) ہی انھیں جانتے تھے؟

یا اس سلسلے میں ان کے پاس کتابِ خدا سے کوئی دلیل موجود ہے  یا مذہب کے موجد ائمہ اربعہ کی تقلید کے اوپر سنت رسول(ص)  دلالت کررہی ہے؟!

میں انسانوں اور جنات دونوں کو چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں کتابِ خدا یا

۱۱۶

سنتِ رسول(ص) سے ایک ہی دلیل پیش کردو۔ قسم خدا کی ایسا ہرگز نہیں کرسکتے اور ہرگز دلیل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے لئے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔

قسم خدا کی کتاب اور سنت رسول(ص)  میں ایسی  کوئی دلیل نہیں ہے ہاں ائمہ طاہرین(ع) کی تقلید و اتباع پر بہت سی دلیلیں مضبوط حجتین اور روشن حقائق دلالت کررہے ہیں ۔ موجود ہیں۔

 آنکھیں رکھنے  والو، عبرت حاصل کرو۔ (حشر ۲)

کیوں کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ سینہ میں جو دل ہے وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔( سورہ حج/۴۶)

۱۱۷

سنَی مذاہب کی ترقی کا راز

تاریخی کتابوں اور اسلاف کی جمع کردہ چیزوں پر نظر رکھنے والا بغیر شک و تردید کے اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس زمانہمیں سینوں کے مذاہب اربعہ کی ترقی میں بر سر اقتدار پارٹی کا ہاتھ تھا لہذا اکثر لوگوں نے انھیں قبول کیا کیوں کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کو اختیار کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک محقق اس بات کو بھی جانتا ہے کہ اس زمانہ میں اور دسیوں مذاہب اس لئے فنا ہوگئے تھے کہ حاکمِ وقت ان سے راضی نہیں تھا مثلا مذہبِ اوزاعی اور مذہبِ حسن بصری، ابوغنیہ ، ابن ذویب، سفیان ثوری، ابن داؤد اور لیث  بن سعد وغیرہ۔

مثلا لیث بن سعد مالک ابن انس کا دوست تھا اور علم فقہ میں ان سے کہیں آگے تھا لیکن اس  کا مذہب اس لئے برباد ہوگیا کہ اس سے حکومت راضی نہیں تھی۔جیسا کہ شافعی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔(مناقب شافعی، ص۵۲۴)

احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ : ابن ابی ذویب مالک بن انس سے افضل تھے۔ لیکن مالک

۱۱۸

رجال میں ماہر تھے۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج۱، ص۱۷۶)

لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مالک کو صاحب مذہب دیکھتے ہیں کیونکہ  انھیں حکومت کا تقرب حاصل تھا حکام کے کہنے پر چلتے تھے لہذا یہ مشہور عالم بن گئے اور خوف طمع کے ذریعہ ان کے مذہب کی ترویج ہونے لگی خصوصا اندلس میں کہ جہاں مالک کے شاگرد یحیی نے اندلس کے حاکم سے رسم و راہ بڑھا کر تقرب حاصل کیا تو حاکم نے انھیں  قاضیوں کے سلکشن کا اختیار دے دیا۔ لہذا قضاوت کا منصب اسی کو دیا جاتا تھا جو  مالکی ہوتا تھا۔

اسی ابوحنیفہ کی وفات کے بعد ان کے مذہب کی ترقی کا باعث ابویوسف اور شیبان تھے یہ دونوں ابو حنیفہ کے پیروکار اور ان کے مخلص ترین شاگرد تھے اور عباسی خلیفہ ہارون رشید کے مقربین میں سے تھے اور ہارون کی حکومت کی پائیداری میں ان کا بڑاکردار تھا دوشیزاؤں کا رسیا اور لہو لعب کا شوقین ہارون ان کی موافقت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔

لہذا یہ دونوں اسی شخص کو قاضی بناتے تھے جو حنفی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں ابو حنیفہ اعظم العلماء اور ان کا مذہب اعظم المذاہب الفقہیہ بن گیا باوجود یکہ ان کے ہمعصر  علماء نے ان کے کافر ہونے اور زندیق بن جانے کا فتوی دیا تھا۔ فتوی دینے والوں میں سے امام احمد بن حنبل اور ابو الحسن اشعری ہیں۔

اور مذہب شافعی تو تقریبا مٹ جانے کے بعد زندہ ہوا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب ظالم و غاصب حکومت نے ان کی تائید  کی لہذا وہی مصر کہ جہاں شیعہ ہی شیعہ تھے شافعی بن گیا اور یہ صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں اس وقت ہواجب وہ شیعوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگا اور انھیں بے دردی کے ساتھ ذبح کرنے لگا۔

اسی طرح اگر معتصم عباسی حنبلی مذہب کی تائید نہ کرتا تو آج کوئی اس مذہب

۱۱۹

 کا نام لینے والا نہ ہوتا اور یہ اس وقت ہوا جب احمد بن حنبل نے خلق قرآن کے نظریہ سے برائت کا اظہار کیا ، اور متوکل کے زمانہ میں تو اس کا ستارہ اور اچھے طریقہ سے چمک گیا۔

ابھی ماضی قریب میں برطانیہ کے استعمار  کی مدد سے مذہب وہابیت نے فروغ پایا ہے۔ پھر برطانیہ نے آل سعود کو یہ ذمہ داری سونپی لہذا اس نے فورا شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مدد اور حجاز و جزیرہ العرب میں اس کے مذہب کی نشر و اشاعت میں بھر پور تعاون کیا۔

اس طرح مذہب حنبلی کو تین ائمہ ملے پہلے امام احمد بن حنبل جنھیں خود اپنے فقیہ ہونے کا اقرار نہیں تھا، بلکہ وہ اہلِ حدیث  سے تعلق رکھتے تھے، ان کے بعد ابنِ تیمیہ ہیں جن کو اہلِ سنت نے شیخ الاسلام اور مجدد السنۃ  کا لقب دیا ہے جب کہ ان زمانے میں علماء ان کو اس لئے کافر کہتے تھے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس لئے مشرک کہتے تھے کہ وہ نبی(ص) سے توسل رکھتے تھے اس کے بعد زمانہ ماضی میں محمد بن عبد الوہاب برطانوی استعمار کے  چیلے اٹھتے ہیں اور مذہب حنبلی کی تجدید کی کوشش کرتے ہیں، وہ ابنِ تیمیہ کے فتاوے پر عمل کرتے  ہیں اس طرح احمد حنبل کانَ کی خبر ہوگئے کیونکہ اب اس مذہب کو لوگ مذہب وہابی کہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے  کہ ان مذاہب کی ترقی ، شہرت اور سربلندی حکام کی مرہونِ منت ہے۔

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ تمام حکام ائمہ اہلِ بیت(ع) کے دشمن تھے۔ کیونکہ وہ اپنے نظام کے لئے  انھیں  (ائمہ اہلِ بیت(ع) ) چیلنج اور اپنی بادشاہت کا زوال تصوَر کرتے تھے لہذا وہ ہمیشہ ان کو الگ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور امت میں جھوٹا بنا کر پیش کرتے تھے اور ان کے شیعوں کو تہہ تیغ کرتے تھے۔

بدیہی تھا کہ وہ حکام بھی بعض چاپلوس  قسم کے علماء کے بڑے بڑے عہدوں اور مناصب سے نوازیں تاکہ ان علماء کے فتاوے حکام کے مطابق ڈھلتے رہیں اور فتاوے لوگوں کی

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431