شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے13%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109154 / ڈاؤنلوڈ: 6818
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا کہ جس سے خدا پر لوگوں کی حجت قائم ہوجائے یا وہ یہ کہنے لگیں کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔

یقینا قریش نے ابتداء بعثت ہی میں محمد(ص) کا قصہ تمام کرنے کی کوشش کی تھی اور جب قریش فضلِ خدا اور ابوطالب اور علی(ع)  کی حمایت کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے تو محمد(ص)  کو ابتر کہہ کے اپنے دلوں کو تسلی دی۔

لیکن خدا نے رسول(ص)  کو کوثر عطا کیا اور محمد (ص) حسنین(ع) کے نانا بن گئے اورلوگوں کو بشارت دی کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں امام ہیں خواہ یہ صلح کریں یا جنگ اور یہ تمام أئمہ امام حسین(ع) کی نسل سے ہونگے یہ تمام باتیں قریش کے لئے چیلنج تھیں۔

قریش اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتے تھے چنانچہ نبی(ص)   کے بعد انھیں موقع مل گیا اور عترت طاہرہ(ع) کا خاتمہ کرنے کی انتھک کوشش میں لگ گئے یہاں تک فاطمہ(ع) کے گھر پر آگ اور لکڑی لے کر جمع ہوگئے اگر علی(ع) خاموشی اختیار نہ کرتے اور حق خلافت سے دست کش نہ ہوتے اور صلح و آشتی سے کام نہ لیتے تو عترت طاہری(ع)  کا خاتمہ بالخیر تھا اوراسی روز اسلام کا قصہ تمام ہوجاتا۔

پھر قریش حکومت چھین لینے کے بعد اس وقت تک خاموش رہے جب تک نسل محمدی(ص) سے کوئی ان کے منافع کے لئے چیلنج نہ بنا اور جیسے ہی خلافت علی(ع) کے ہاتھ میں آئی ویسے ہی قریش نے فتنہ وفساد کی آگ بھڑکادی اور اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھے جب تک خلافت کو خبیث ترین شخص کو ہاتھوں میں نہ دے دیا، چنانچہ پھر خلافت قیصری بادشاہت ہوگئی جو باپوں سے بیٹوں کو میراث ملتی ہے اور جب امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو قریش کی آتش حمیت بھڑک اٹھی اور اس نے عترتِ طاہرہ(ع) کو قصہ ہی ختم کرنے کی ٹھان لی بلکہ ہر اس چیز  کو نابود کرنے کا ارادہ کر لیا جس پر نسل محمد بن عبداللہ (ص) کا اطلاق ہوتا تھا۔

۱۴۱

پس کربلا کی قتل گاہ میں نھوں نے ذریت نبی(ص) کو ذبح کر ڈالا یہاں تک کہ کمسن اور شیر خوار بچوں کو بھی تہہ تیغ کردیا ان کا ارادہ یہ تھا کہ شجر نبوَت(ص)  کی ہر  شاخ کو قلم کردیں۔

لیکن اللہ نے جو محمد(ص) سے وعدہ کیا تھا اے پورا کیا اور علی ابنِ ابی الحسین (ع)  کو بچالایا اور بقیہ ائمہ (ع) ان ہی کی نسل سے ہوئے اور زمین کو مشرق سے مغرب تک اولادِ  محمد(ص) سے بھر دیا یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے اپنے نبی(ص) کو عطا کیا تھا۔ اب ہر شہر و قریہ اور ہر خطہ زمین میں نسلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم موجود ہے اور لوگوں کے درمیان وہ محبوب و محترم ہے۔

دشمنوں کی تمام بےنتیجہ کو ششوں کے بعد آج پوری دنیا میں شیعہ جعفری لوگوں کی تعداد ۲۵۰ مِلینَ ہے اور سب ائمہ اثناعشری کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی مودت و محبت سے خدا کا تقر ب حاصل کرتے ہیں اور ان کے حد کی شفاعت کے امید وار ہیں۔

دیگر مذاہب میں سے کسی ایک کی بھی اتنی بڑی تعداد آپ کو ہرگز نہیں ملے گی۔اگرچہ ہر ایک مذہب کی حکومتِ وقت نے مدد کی ہے۔ وہ مکر کرتے ہیں ۔ خدا تدبیر کرتا ہے اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (انفال/۳۰)

کیا فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر نومولود  لڑکے کو اس وقت قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا کہ جب اسے نجومیوں نے یہ بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری بادشاہت ختم کردے گا؟

لیکن بہترین تدبیر کرنے والے نے موسی(ع) کو فرعون کے مکر سے بچالیا اور اس کے گھر بھیجدیا اور خود فرعون کی آغوش میں پرورش کرائی اور اسی کے ذریعہ اس کی بادشاہت برباد کرائی اور فرعون کے گروہ کو ہلاک کردیا اور خدا کا حکم پورا ہوکر

۱۴۲

 رہتا ہے۔

کیا (فرعون زمانہ) معاویہ نے علی(ع) پر لعنت نہیں کی اور ان کو ، ان کی اولاد کو اور ان کے شیعوں کو قتل نہیں کیا؟

کیا علی(ع) کی کسی بھی فضیلت کے بیان کرنے کو حرام قرار نہیں دیا تھا؟ کیا  اس نے اپنی پوری کوشش سے نور خدا کو بجھادینے کی کوشش نہیں کی اور لوگوں کو جاہلیت کی طرف پلٹانا نہیں چاہا تھا؟ لیکن خیرالماکرین نے علی(ع) کے ذکر کو بلند کیا باوجودیکہ معاویہ اور اس کی پارٹی ناک رگڑ  کر مرگئی اور آج تمام شیعہ ، سنی مسلمانوں کی زبان پر نامِ علی(ع) ہے بلکہ یہود و نصارا کی زبان پر بھی علی(ع)  کا ورد  ہے آج قبرِ رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی قبر زیارت گاہ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ لاکھوں مسلمان قبر  کا طواف کرتے ہیں عقیدت کے آنسو بہاتے ہیں اور آپ

آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، آپ کا قبہ اور گلدستہ اذان سونے کا ہے جو کہ آنکھ کر خیرہ کرتا ہے۔

جب معاویہ جیسے بادشاہ کا نام مٹ گیا جس نے زمین پر بادشاہت کی اور اس میں فساد پھیلایا ، کیا آج کہیں اس کا نام و نشان ہے؟ کیا کہیں اس کا ایسا مزار ہے؟

ایک تاریک و متروک مقبرہ ہے بے شک باطل کے لئے قرار نہیں ہے اور حق کے لئے ثبات و قرار ہے۔

پس صاحبان عقل عبرت حاصل کریں۔

حمد ہے اس خدا کی جس نے ہماری ہدایت کی حمد  ہے اس خدا کی جس نے ہمیں اس بات کی شناخت کرائی کہ شیعہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرتے ہیں اور وہی اہلِ سنت ہیں کیونکہ وہ اہلِ بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں اور

۱۴۳

گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہلِ بیت(ع) ہی وہ ہیں جنھیں خدا نے منتخب کیا پھر انھیں علم کتاب کا وارث بنایا اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ " اہلِ سنت والجماعت" سلف وخلف میں حکام کا اتباع کرتے ہیں جس چیز کا وہ دعو ا کرتے ہیں اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

۱۴۴

حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں

جو  چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیعہ ہی نبی(ص) کی صحیح سنت کا اتباع کرتے ہیں وہ رسول(ص) کی حدیث ہے جس کو حدیث ثقلین کہتے  ہیں ارشاد رسول(ص) ہے:

" میں تمھارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑ نے والا ہوں ، کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع) عترت ، اگر تم ان سے متمسک رہوگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان سے الگ نہ ہوجانا ورنہ برباد ہوجاؤ گے اور (دیکھو) انھیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیوں کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔" ( صحیح ترمذی، صحیح مسلم، مستدرک حاکم، مسند احمد بن حنل، کنز العمال، خصائص نسائی ، طبقات ابن سعد طبرانی ، سیوطی ، ابن حجر ،ابن اثیر مزید تفصیل کے لئے المراجعات کا صفحہ ۸۲۰ سے مطالعہ فرمائیں)

بعض روایات میں ہے مجھے لطیف و خبیر نے اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک

۱۴۵

دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس وارد ہوں گے۔

حدیث ثقلین کو اہلِ سنت والجماعت نے اپنی بیسیوں صحاح و مسانید میں نقل کیا ہے جبکہ شیعوں نے اپنی ہر حدیث کی  کتاب میں نقل کیا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اہلِ سنت والجماعت گمراہ ہو گئے ہیں کیوں کہ انھوں نے دونوں (قرآن و عترت) سے ایک ساتھ تمسک اختیار نہیں کیا اور اس لئے ہلاک ہوگئے کہ انھوں اہلِ بیت(ع) پر ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی، حنبل، کو مقدم کیا ان کی تقلید کی اور عترتِ طاہرہ(ع)  کو چھوڑ دیا۔

ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ : ہم نے قرآن سے تمسک رکھا ہے ، تو اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن میں تمام چیزیں پر کلی طور پر بیان ہوئی ہیں اس میں احکام کی تفصیل کا تذکرہ نہیں ہے اس میں بہت سے احتمالات ہیں ۔ اس کے لئے مفسر  و بیان کرنے والے کا ہونا ضروری ہے اور بالکل یہی کیفیت سنتِ رسول(ص) کی بھی ہے اس کے لئے بھی ثقہ راویوں ، مفسرین اور عالموں کی ضرورت ہے۔

اس مشکل کو کوئی حل نہیں ہے مگر یہ کہ ائمہ اطہار(ع) کی طرف رجوع کیا جائے کہ جن کے بارے میں رسول(ص) نے وصیت فرمائی ہے۔

اور جب حدیثِ ثقلین کے ساتھ ان احادیث کا اضافہ کرتے ہیں کہ جن کا وہی مفہوم ہے جو حدیث ثقلین ، مثلا

" علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کےساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا یہ ہوں گے ۔ یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔" ( مستدرک حاکم جلد۳ ص۱۲۴)

نیز فرمایا :

علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کےساتھ ہے اور یہ ہرگز جدا

۱۴۶

نہ ہوں گے یہاں تک کہ روزِ قیامت حوض پر میرے پاس وارد ہوںگے"۔

( منتخب کنز العمال جلد۵ ص ۳۰ تاریخ ابنِ عساکر جلد۳ ص۱۱۹ تاریخ بغداد ج۱۴ ص۱۲۱ تاریخ الخلفا ابن قتیبہ جلد۱ ص۷۳)

ان تمام چیزوں سے ہماری اور تمام محققین  کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ جس نے علی(ع)  کو چھوڑ دیا اس نے قرآنِ کریم  کی حقیقی تفسیر کو چھوڑدیا اور جس نے علی(ع) سے بے اعتنائی کی اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور باطل کو اختیار کرلیا کیونکہ حق کے بعد صرف باطل ہی رہ جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ بات بھی ثابت ہے کہ اہلِ سنت والجماعت نے قرآن اور سنت نبوی(ص) دونوں کو چھوڑ دیا کیوں کہ انھوں نے حق یعنی علی ابن ابی طالب (ع) کو چھوڑ دیا۔

چنانچہ نبی(ص) کی حدیث ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ان میں سے صرف ایک فرقہ باجی ہوگا۔ اور یہ فرقہ وہی ہے جو امام علی(ع) کا اتباع کر کے حق و ہدایت پر گامزن ہوتا ہے۔ علی(ع) کے دشمن سے جنگ اور آپ(ص) کی صلح کے تحت صلح کرتا ہے آپ کے علم میں آپ(ص) کی اقتداء کرتا ہے اور آپ(ص) کی اولاد میں ائمہ میامین پر ایمان رکھتا ہے۔

یہی لوگ تمام مخلوقات سے بہترین ہیں ان کی جزاء ان کے پروردگار کے  پاس ہمیشہ رہنے کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے خدا ان سے راضٰ اور وہ اس سے خوش۔

۱۴۷

حدیث ثقلین اہلِ سنت کی نظر میں

ہم گذشتہ فصل میں اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں جسے بیس سے زیادہ اپنے مشہور مصادر  میں اہلِ سنت  والجماعت نے علی(ع) سے نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف ہے۔

جب انھوں نے اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعتراف کر لیا تو حتمی طور پر اپنے گمراہ ہونے کا بھی اقرار کرلیا انھوں نے ائمہ اہلِ بیت(ع) سے کو ئی واسطہ نہیں رکھا اور اپنے فضول مذاہب کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا کہ جن پر نہ خدا نے کوئی دلیل نازل کی ہے اور نہ حدیث نبوی(ص)  میں ان کا وجود ہے۔

تعجب تو آج  کے علمائے اہل سنت پر ہے وہ اس زمانہ میں بھی کہ جس میں علمی بحث و تحقیق کے بے پناہ وسائل موجود ہیں اور بنی امیہ کو ہلاک ہوئے بھی ایک عرصہ گذر گیا ہے لیکن وہ اب بھی تونہ نہیں کرتے ہیں۔ اور خدا کی طرف رجوع  نہیں کرتے ہیں تاکہ خدا بھی ان کے شامل حال ہوجائے۔

۱۴۸

" اور جو شخص تونہ کرے اور ایمان لائے نیک کام انجام دے اور ثابت قدم رہے تو میں اسے ضرور بخش دوں گا۔" ( طہ/۸۲)

اور آج جبکہ لوگ ایسے زمانہ میں زندگی گذار رہے ہیں کہ جس میں ایسی خلافت نہیں ہے جو زبردستی لوگوں سے بادشاہ کا اتباع کرائے تو پھر حق کو اپنانے کے لئے کونسی چیز  مانع ہے۔ اور کسی بھی ملک کا بادشاہ دینی امور میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتا تا جب تک اس کی کرسی محفوظ ہے وہ ڈیموکریسی اور ان کے حقوق کو بہتر سمجھتا ہے کہ جس میں ضمنی طور پر عقیدہ اور فکر کی آزادی بھی موجود ہے۔

۱۴۹

کتاب اللہ و عترتی یا کتاب اللہ و سنتی؟

اس موضوع پر ہم اپنی کتاب" معالصادقین" میں بحث کرچکے ہیں۔ اختصار کے ساتھ یہاں اتنا عرض کردینا چاہتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہیں کیوں کہ نبی(ص) کی صحیح سنت عترتِ طاہرہ(ع) کے پاس محفوظ ہے اور گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں پھر علی ابن ابی طالب(ع)  سنتِ نبوی(ص) کے باب ہیں۔ وہ راوی اسلام کہلوانے کے زیادہ حق دار ہیں نہ کہ ابو ہریرہ ، کعب الاخبار اور واہب بن منبہ۔

لیکن مزید وضاحت کے لئے چند باتیں قلم بن کرنا ضروری ہے اگر چہ اسکی تکرار  بھی ہوگی مگر اعادہ میں افادیت ہے اور ممکن ہے بعض حضرات نے " مع الصادقین" میں بحث نہ پڑھی ہو لہذا وہ اس کتاب کے ذریعہ اس سے بھی آگاہ ہوجائیں گے  کہ دوسری کتاب میں یہ بحث تفصیل کےساتھ موجود ہے۔

ممکن ہے قارئین محترم کو اس بحث میں وہ جوہر مل جائے جو انھیں اس بات سے مطمئن کردے کہ " کتابَ اللہ و عترتی" ہی اصل ہے۔ جسے خلفا نے جان بوجھ کر "کتابَ

۱۵۰

اللہ و سنتی " سے بدل دیا ہے تاکہ وہ اس طرح اہلِ بیت(ع) کو صحن سے دور کردیں۔

یہ بات ملحوظ خاطر  رہے کہ " حدیث کتاب اللہ و سنتی" اہلِ سنت والجماعت کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ ان کی صحاح میں یہ روایات موجود ہیں کہ نبی(ص) نے اپنی احادیث لکھنے منع فرمایا تھا۔

پس اگر حدیث لکھنے سے منع کرنے والی حدیث صحیح ہے تو نبی(ص) کو یہ حکم فرمانے کا حق نہیں ہے کہ میں نے تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑی ہے جبکہ وہ مکتوب شکل میں نہیں تھی!؟

اور اگر حدیث " کتاب اللہ وسنتی" صحیح تھی تو عمر بن خطاب کو رسول (ص) پر اعتراض کرنے اور یہ کہنے کا حق نہیں تھا کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے؟

اور جب رسول(ص) نے مکتوب صورت میں سنت چھوڑی ہے تو پھر ابوبکر و عمر کے لئے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ سنتِ رسول(ص) کو جلا ڈالیں !

اور جب حدیث " کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو وفاتِ نبی(ص) کے بعد ابوبکر یہ خطبہ کیوں دیتے ہیں: لوگو! رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور اگر تم سے کوئی پوچھے تو یہ کہہ دینا کہ ہمارے تمھارے پاس کتاب خدا موجود ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو! ( تذکرۃ الحفاظ ، ذہبی جلد۱ ص۳)

اور جب حدیث" کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو ابوبکر اور ان کے ہمنوا صحابہ کو جنابِ زہرا(ع) کی بے حرمتی کرنے کا جواز کہاں سے مل گیا تھا اور ان کے گھر پر آگ و لکڑی لیکر جمع ہونے اور یہ دھمکی دینے کا حق کہاں سے حاصل ہو ا تھا کہ ہم گھر کو مع رہنے والوں سمیت

۱۵۱

جلادیں گے ۔ کیا سیدہ(ع) کے متعلق انھوں نے رسول(ص) کی یہ حدیث نہیں سنی تھی۔

" فاطمہ(ع) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناکی کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی"؟

قسم خدا کی انھوں نے ضرور رسول(ص) کی حدیث سنی تھی اور انھیں یاد تھی کیا انھیں خدا کا یہ قول نہیں معلوم تھا۔

"قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى" (شوری/۲۳)

(اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو"۔

یہ آیت جنابِ فاطمہ(ع) ، ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کی شان میں نازل ہوئی ہے کیا یہی محبت اہلِ بیت(ع) ہے کہ انھیں جلانے کی دھمکی دی جائے؟ اور بطنِ فاطمہ(ع) پر دروازہ گرادیا جائے کہ جس سے انکا بچہ ساقط ہوجائے؟؟!

اور جب حدیث " کتاب اللہ و عترتی" صحیح ہے معاویہ اور اس کی بیعت کرنے والے صحابہ نے علی(ع) پر لعنت کرنے اور منبروں سے ان پر سب و شتم کرنے کو کیسے حلال قرار دیا، کیا انھوں نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا تھا کہ ان (علی (ع))  پر ایسے ہی صلوٰت بھیجو جس طرح رسول(ص) پر بھیجتے ہو؟ کیا انھوں نے رسول(ص) کی یہ حدیث  نہیں سنی تھی۔

" جس نے علی پر سب و شتم کیا اس نے مجھے پر سب و شتم  کیا اور  جس نے مجھے برا بھلا کہا اس نے خدا کو بر بھلا کہا"؟

( مستدرک  حاکم جلد۳ ص۱۲۱، شیخین کی شرط کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے لیکن انھوں نے اسے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ۔ تاریخ الخلفا ، سیوطی ص۷۳، خصائص نسائی ص۲۴ مناقب خوارزمی ص۸۲)

اور جب حدیث " کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو پھر اکثر صحابہ سے یہ سنت کیسے

۱۵۲

غائب رہی ، انھوں نے اسے کیوں نظر انداز کیا اور اپنی رائے سے کیوں فتوے دینے لگے اور پھر آزاد روش اختیار کی چنانچہ انھوں نے قیاس اجتہاد اجماع ، سدباب الذرائع ، مصالح المرسلہ، استصحاب ، صوافی الامر اور اخف الضررین ایسے خود ساختہ قواعد ایجا د کئے ( جامع بیانالعلم جلد۲ ص۱۷۴)

اور جب رسولٰ(ص) نے " کتابِ خدا اور اپنی سنت" چھوڑی ہے تاکہ یہ دونوں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں تو پھر ان قواعد کو ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جن کو اہلِ سنت نے تراش لیا ہے  یہ سب چیزیں بدعت ہیں اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا نتیجہ جہنم ہے۔ جیسا کہ حدیث میں منقول ہے۔

پھر عقل اور علم و معرفت رکھنے والے نبی(ص) پر لعن طعن کریں گے کہ جس نے سنت کو چھوڑی لیکن اس کی تدوین  کو اہمیت نہیں دی اور نہ اس کی تدوین و حفاظت کا کوئی بندوبست فرمایا کہ جس کے سبب وہ تحریف ، اختلاف ، جعلی حدیثوں سے محفوظ رہتی اس کے باوجود لوگوں سے فرماتے ہیں میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ۔ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے کتاب خدا اور میری سنت۔

لیکن جب ان عقلاء کو یہ بات بتائی جائے گی کہ نبی(ص) نے لوگوں کو اپنی سنت لکھنے سے منع فرمایا تھا تو اس وقت نبی(ص) کا مذاق بھی اڑائیں گے کیونکہ یہ فعل عاقلانہ نہیں ہے۔ کیونکہ لوگوں کو اپنی سنت لکھنے سے منع کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں میں تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں مزید برآں کتابِ خدا ہے کہ جس کو مسلمان صدیوں سے لکھتے چلے آرہے ہیں اس میں بھی ناسخ و منسوخ ، خاص و عام محکم و متشابہہ ہے۔ یہ قرآن کا خاصہ ہے۔ اگر چہ پورا قرآن صحیح ہے۔ کیونکہ خدا نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور پھر وہ مکتوب ہے۔ لیکن حدیثِ رسول(ص) میں صحیح سے زیادہ تو گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں لہٰذا حدیثِ رسول(ص)

۱۵۳

کے لئے کسی معصوم کا ہونا ضروری ہے جو صحیح اور جعلی حدیثوں میں امتیاز کرسکے ظاہر ہے اس کو ٖغیر معصوم انجام نہیں دے سکتا اگر چہ وہ علامہ ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح قرآن اور حدیث دونوں ایک ایسے متبحر عالم کی محتاج ہیں جو ان کے احکام و امور سے آگاہ ہو تاکہ نبی(ص) کے بعد لوگوں کے اختلاف اور جہالت کو دور کرسکے۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ خداوندِ کریم نے قرآنِ مجید میں اس  بات کی طرف اشارہ فرمایا ہےکہ قرآن کسی بیان کرنے والے کا محتاج ہے چنانچہ ارشاد ہے۔

" ہم نے تم پر قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کو وہ چیزیں بتاؤ جو ان پر  نازل کی گئی تھیں" ( نحل/۴۴)

پس اگر نبی(ص) ان چیزوں کو بیان نہ فرماتے جو ان پر نازل کی گئی تھیں تو لوگ احکامِ خدا کو قطعی نہیں جان سکتے تھے اگر چہ قرآن انھیں کی زبان میںنازل ہوا تھا۔

تو یہ واضح ہے کہ قرآن میں نماز و زکوٰۃ ، روزہ حج واجب کیا گیا ہے۔ لیکن مسلمان ان کی وضاحت کے سلسلہ میں نبی(ص) کے محتاج ہیں وہی بتائیں گے نماز کیسے ادا کی جائے  زکوۃ کا نصاب کیا ہے، روزہ کے احکام کیا ہیں اور حج کے مناسک کیا ہیں ، اگر نبی(ص) نہ ہوتے تو لوگ قرآن مجید سے ان کو  نہیں سمجھ سکتے ۔

اور جب قرآن ایسی متفق علیہ کتاب، جس میں کسی بھی سمت سے باطل داخل نہیں ہوسکتا، کسی بیان کرنے والے کی محتاج ہے تو حدیثِ نبی(ص) کسی محافظ و بیان کرنے والے کی اس سے کہیں زیادہ محتاج ہے کیوں کہ حدیث میں بہت اختلاف  اور نراکھوٹ اور جھوٹ ہے: بات تو فطری ہے بلکہ ضرورت عقل میں سے ہے کہ ہر رسالت پر مبعوث ہونے والا نبی(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے اپنا وصی اور قائم مقام بناتا ہے۔

تاکہ رسالت ان کی موت کے بعد ہی ختم نہ ہو جائے ، چنانچہ ہر  ایک نبی کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور تھا۔

۱۵۴

ایسے ہی رسول(ص) نے بھی اپنی خلافت و جانشنی کے لئے علی(ع)  کی تربیت کی تھی اور بچپنے ہی سے انھیں اخلاقِ نبوی(ص) سے آراستہ کیا اور عالمِ جوانی میں اولین و آخرین کے علم سے مزین کیا اور ایسے رموز و اسرار بتائے جنھیں کوئی  نہیں جانتا امت کو بھی بارہا بتایا کہ تمھارے درمیان یہ میرے بھائی ،میرے وصی اور میرے خلیفہ ہیں نیز فرمایا:

" میں خیرالانبیاء ہوں اور علی (ع) خیر الاوصٰیاء ہیں میرے بعد سب سے بہتر و افضل ہیں ، اور فرمایا : علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے، علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے نیز فرمایا : میں نے نزول قرآن کے سلسلہ میں جنگ و جہاد کیا ہے اور علی(ع) اس کی تاویل پر  جہاد کریں گےیہی ہیں جو میرے بعد میری امت کے اختلافی مسائل حل کریں گے۔ علی(ع) کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی ہے تھی، علی(ع)  مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں ، وہ میرے علم کا باب ہیں ۔"

( اہل سنت کے نزدیک یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں، ان کے علما نے انھیں نقل کیا ہے اور صحٰیح بتایا ہے اس سے پہلی کتابوں میں ہم ان کا تذکرہ کرچکے ہیں، اگر قارئین مصادر دیکھنا چاہتےہیں تو المراجعات کا مطالعہ فرمائیں۔)

علمی دلیل اور تاریخ و سیرت سے یہ بات ثابت ہے کہ علی(ع) تمام صحابہ کے مرجع تھے آپ(ع) کے پاس عالم و جاہل تمام صحابہ آتے تھے ۔ اہل سنت کے لئے تو اتنا ہی کافی  ہے کہ عبداللہ ابن عباس جن کو اہل سنت خیر الامت کہتے ہیں وہ علی(ع) کے شاگرد ہیں اسی طرح یہ دلیل بھی مستحکم ہے کہ مسلمانوں کے تمام علوم کا سرچشمہ حضرت علی(ع) کی ذات سے پھوٹا ہے ۔

( ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ کا مقدمہ ملاحظہ فرمائیں ۔)

بہتر یہ ہے کہ حدیث " کتاب اللہ و عترتی" کو حدیث " کتاب اللہ و سنتی" پر مقدم کیا جائے تاکہ عاقل مسلمان کے لئے اہلِ بیت(ع) سے رجوع کرنا آسان ہوجائے اور وہ ( اہل بیت (ع)

۱۵۵

بھی اس کے سامنے قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کریں۔

لیکن اگر حدیث " کتاب اللہ وسنتی " کو صحیح مان لیا جائے تو قرآن و حدیث کے سلسلہ میں مسلمان حیرت و سر گشتہ رہیں گے اور انھیں کوئی ایسا موثق مرجع نہیں ملے گا جس سے وہ سمجھ میں نہ آنے والے احکام دریافت کرسکیں ، یا ان احکام کے بارے میں استفسار کرسکیں جن کے متعلق علما کے درمیان شدید اختلاف ہے اور ائمہ مذاہب نے ان احکام کے متعلق متعدد اقوال پیش کئے ہیں یا جن اقوال میں تناقض  پایا جاتا ہے۔

ایک مذہب کو قبول کرنا اور دوسرے کو چھوڑ دینا تعصب اور اندھی تقلید ہوگی اور اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

" ان میں سے اکثر ظن کا اتباع کرتے ہیں بے شک ظن حق کے سلسلہ میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہچاسکتا "( یونس/۳۶)

قارئین محترم کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہوجائے۔

اگر ہم قرآن اٹھا کر آیت وضو پڑھیں:

"وامسحوا برؤوسکم و ارجلکم الی الکعبين" ( مائدہ/۶)

"اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پیروں کا مسح کرو۔"

تو بادی النظر میں ہم یہی سمجھیں گے کہ جس طرح سر کا مسح ایسے ہی پیروں کا بھی مسح کرنا چاہئے اور جب مسلمانوں کےعمل کو دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس مسئؒلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ تمام اہلِ سنت والجماعت سر دھوتے ہیں اور سارے شیعہ سر کا مسح کرتے ہیں۔

یہاں ہم حیرت و شک میں مبتلا ہو کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کو ن سا فعل صحیح ہے۔

اور اہلِ سنت والجماعت کے علما و مفسرین  سے رجوع کرتے ہیں تو ان کے درمیان بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس آیت میں " ارجلکم " کو دو طرح زَبر اور زِیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔

۱۵۶

پھر اہلِ سنت دونوں قرآئتوں کو صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں جو شخص " ارجلکم " کو زَبر کے ساتھ پڑھے اس کے لئے سر دھونا واجب ہے اور جو شخص زِیر کے ساتھ پڑھے اس پر سر کا مسح کرنا واجب ہے۔

پھر ہماری ملاقات اہلِ سنت کے اس عظیم عالم سے ہوتی ہے جو عربی کا ماہر ہے وہ کہتے ہیں کہ: خواہ آیت کو زبر کے ساتھ پڑھیں یا زیر کے ساتھ دونوں صورتوں میں مسح واجب ہے۔ کیوں کہ ارجل یا محل کی بنا پر منصوب ہے یا جر جوار کی وجہ سے مجرور ہے ، پھر کہتے ہیں کہ قرآن میں مسح کا حکم ہے اور حدیث میں سر دھونے کا حکم ہے۔

قارئین محترم آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ علماے اہلِ سنت کے اقوال ہمارے شک و  اضطراب کو زائل نہیں کرسکتے بلکہ ان کے آخری قول نے تو ہمارے شک مٰیں اضافہ کردیا ہے۔ کیا سنت قرآن کی مخالفت ہے ہرگز نہیں نبی(ص)  قرآن کی مخالفت نہیں کرسکتے اور وضو میں پیر کے مسح کے بجائے پیر نہیں دھوسکتے ۔ اگر نبی(ص) وضو میں پیر دھوتے تھے تو پھر صحابہ کے لئے نبی(ص) کی مخالفت  کرنا جائز نہیں تھی خواہ وہ علم و معرفت کے کسی بھی مرتبہ پر فائز ہوتے اور نبی(ص) سے قریب ہوتے جیسے علی ابن ابی طالب(ع) ، ابن عباس، اور حسن(ع) و حسین(ع) حذیفہ بن یمان اور انس بن مالک اور دیگر تمام صحابہ نے ارجل کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور اکثر صحابہ نے مسح کو واجب جانا ہے اور ائمہ اطہار(ع) کی اقتداء کرنے والے تمام شیعہ مسح کے وجوب کے قائل ہیں۔

حل کیا ہے؟!

کیا آپ نے غورنہیں  کیا کہ اس  طرح ایک مسلمان اپنے شک ہی میں مبتلا رہے گا اور جب تک اپنے معتمد علیہ سے رجوع نہیں کرے گا اس وقت تک ارہِ صواب سے نا آشنا رہے گا اور یہ نہیں جان سکے گا صحیح حکمِ خدا کیا ہے اور غلط کیا ہے؟

یہ مثال میں آپ کے سامنے قرآن مجید سے پیش کروں گا تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ علمائے اہلِ سنت کے درمیان ان چیزوں میں کس قدر اختلاف ہے۔ جنھیں نبی(ص) ایک دن میں

۱۵۷

متعدد بار انجام دیتے تھے اور تیئس سال ان پر عمل پیرا رہے۔

فرض یہ ہے کہ اصحابِ نبی(ص) ( قرآن کے ) خاص و عام سے واقف تھے بلکہ علمائے اہلسنت جب مذکور ہ آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو کچھ زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور کچھ ، مجرور پڑھتے ہیں نتیجہ میں مختلف احکام مرتب کرتے ہیں۔

کتاب خدا  کی تفسیر اور متعدد آیتوں کے مطابق احکام مرتب کرنے کے سلسلہ مٰیں علما کے درمیان شدید اختلاف ہے جیسا کہ یہ بات تحقیق کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اور جب کتابِ خدا کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے تو سنتِ نبی(ص) میں بدرجہ اولیٰ اختلاف ہوگا۔ لیکن حل کیا ہے؟

اگر آپ یہ کتہے ہیں کہ ایسے شخص  کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جو قرآن و سنت سے صحیح احکام بیان کرے تو ہم آپ سے ایسے شخص کا مطالبہ کریں گے جو کہ عاقل متکلم ہو کیونکہ قرآن و سنت ضلالت سے نہیں بچا سکتے کیونکہ دونوں صامت ہیں کچھ نہیں بول سکتے اور پھر وہ متعدد وجوہ کے حامل ہیں جیسا کہ ہم آیت وضو میں بیان کرچکے ہیں، قارئین محترم یقینا ہمارا اس بات پر اتفاق ہےکہ قرآن وسنت کےحقائق سے واقف علما کی تقلید کرنا واجب ہے ۔ رہا ایسے علما کی معرفت کا مسئلہ کہ جو حقائقِ قرآن وسنت سے واقف ہیں۔

۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ سب ہی علمائے امت اور ان کے راس  و رئیس  صحابہ حقائق  قرآن و سنت سے واقف ہیں تو ان کے اختلاف کو ہم آیت وضو اور دیگر مسائل میں ملاحظہ کر چکے ہیں اس کے علاوہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ایک دوسرے کو کافر  کہتے ہیں لہذا ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں ان میں سے حق والوں پر اعتماد کرنا صحیح ہے۔ باطل پرستوں پر صحیح نہیں ہے۔ پھر بھی مشکل حل نہیں ہوتی۔

اگر ایسی صورت میں آپ ائمہ اربعہ کی طرف رجوع کرنا چاہیں تو ان کے درمیان کا اختلاف بھی آپ پر پوشیدہ نہیں ہے ان میں سے ایک کہتا ہے کہ نماز میں بسم اللہ پڑھنا

۱۵۸

مکروہ ہے ۔ دوسرا بغیر بسم اللہ کےنماز کو باطل قرار دیتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ مذاہب ظالم حکام کی ایجاد ہیں اور یہ کہ یہ مذاہب عہد رسالت(ص) سے بہت بعد میں وجود میں آئے ہیں۔ انھیں تو صحابہ بھی نہیں جانتے تھے چہ جائیکہ نبی(ص) ان سے واقف ہوتے۔

اب ہمارے سامنے ایک ہی حل رہ جاتا ہے اور وہ ہے ائمہ اطہار(ع) کی طر ف رجوع کرنا کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور کما حقہ پاک رکھا ، وہ عالم و عامل ہیں ان کے علم و  ورع اور تحفظ  و تقوی تک کوئی نہیں پہونچ سکتا  وہ ںصِ قرآنی( انما يريد اللهليذهب عنکم الرجس اهل البيت و يطهرکم تطهيرا) اور حدیث نبوی(ص) کی رو سے وہ معصوم عن الخطا والکذب ہیں (قول نبی(ص) ہے ۔کتاب الله و عترتی ان تمسکتم  بهما لن تضلوا بعدی ابدا ۔ پس جس طرح کتاب خدا معصوم عن الخطا ہے ۔ اسی طرح عترت طاہر(ع) بھی معصوم ہے ۔ کیونکہ غیر معصوم ہدایت نہیں کرسکتا ہے اس سے خطا سرزد ہوسکتی ہے وہ خود ہدایت کا محتاج ہے۔)

خدا نے انھیں منتخب فرماکر علم کتاب کا وارث بنایا ہے رسول(ص) سے انھیں ہر اس چیز کا علم دیا ہے جس کو لوگوں کو احتیاج ہوسکتی ہے اور ان کی طرف آن حضرت(ص) نے اسی طرح امت کی راہنمائی فرمائی۔

" میرے اہلِ بیت (ع) کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پہ سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا۔"

علمائے اہل سنت میں سے ابن حجر نے اس حدیث کی شرح لکھنے اور اس کو صحیح قرار دینے کے بعد تحریر کیا ہے۔

اہلِ بیت(ع)  کو کشتی سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان سے محبت کی اور ان کی عظمت کا قائل ہوگیا اور ان کی بڑائی کا شکریہ ادا کیا اورجس نےان کے بتائے ہوئے راستہ کے مطابق عمل کیا وہ گمراہیوں سے محفوظ رہا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ کفر و ضلالت کے سمندر میں ڈوب گیا اور

۱۵۹

 طغیانیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔

ایک بات کا میں یہاں اضافہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ کو عہد صحابہ سے لیکر آج تک ملّت اسلامیہ کے گذشتہ اور موجود ہ علما میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہو کہ میں عترت نبوی(ص) کے ائمہ (ع) سے افضل ہوں اسی طرح پوری امت میں آپ کو کوئی ایسا نہیں ملے گا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے ائمہ اہلِ بیت(ع) میں سے کسی کو  تعلیم دی ہے۔ یا کسی امر کی طرف ان کی راہنمائی کی ہے۔

قارئین محترم مزید تفصیل کے لئے المراجعات اور الغدیر کا مطالعہ فرمائیں ۔ انصاف پسند حضرات کے لئے اتنا کافی ہے جتنا میں نے پیش کیا ہے۔ پس حدیث" ترکت فيکم کتاب الله و عترتی" برحق ہے ۔ اسے عقل و وجدان بھی قبول کرتی ہے اور قرآن و سنت سے بھی یہی ثابت ہے۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر ہمارے لئے  واضح دلیلوں سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ حقیقی معنوں میں شیعہ ہی اہلِ سنت ہیں ، چونکہ اہلِ سنت والجماعت نے اپنے سرداروں اور  گور و گھنٹالوں کا اتباع کیا اور انھوں نے انھیں گمراہ کردیا اور تاریکی میں انھیں پریشان و بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا اور کفر کے دریا میں غرق کردیا اور طغیانیوں میں جھونک کر ہلاک کردیا جیسا کہ ابن حجر شافعی کا قول ہے۔

الحمدلله ربَ العالمين علیٰ هدايته لعباده المخلصين

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(۱)

بنی امیہ جو عثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اور مقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اور ان لوگوںکی جرأت اس حدتک بڑھ گئی کہ ابو سفیان قبرستان احد گیااور پیغمبر اسلام کے چچا جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمار کر کہا'' ابو یعلی ،اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔

خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افرادایک جگہ پر جمع ہوئے ابو سفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اور عدی ۔کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہونچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہر نہ جائے ،اور اسے ایک کے بعددوسرے تک پہونچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(۲)

ابوسفیان کی اس بات نے خلیفہ کی شخصیت کو سخت مجروح کیا، جو لوگ وہاں پر حاضر تھے انہوں نے

اس کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کر دیکھایا۔مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے سزاوار یہ تھاکہ وہ ابو سفیان کی خبر لیتے اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتے .لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ یہ کہ ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر ابو سفیان پر لطف ِ کرم کی بارش کی اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ بھیجا رہا۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۸۷۱

(۲)الاستیعاب ج۲ص۶۹۰

۳۰۱

بغاوت کی علت

خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے ۳ محرم ۲۴ھ کو عثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوگئے اور ۱۲سال حکومت کرنے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مصر اور عراق کے انقلابیوں اورمہاجروانصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوے ،اسلام کے معتبر مورخین نے عثمان کے قتل ہونے اور مسلمانوں کے بغاوت کی علت کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے، اگر چہ بعض مئورخین نے، مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیاہے، درج ذیل وجہوں کو بغاوت کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت کہا جا سکتا ہے ۔

۱۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۲۔بنی امیہ کے درمیان بیت ا لمال کا تقسیم ہونا۔

۳۔اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر۔

۴۔پیغمبر اسلام کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اور ان کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔

۵۔پیغمبر کے بعض صحابیوں کوشہربدر کرنا جو خلیفہ کی نظر میں ان کے لئے مضرتھے ۔

پہلی وجہ ۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۱۔خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنر معین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہوں پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیاہے۔(۱)

______________________

(۱)شرح ابن ابی الحدید ج۲قدیم ایڈیشن ص۱۰۳،

۳۰۲

آیت :( َاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا ) ( حجرات۶)وآیت( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) (سجدہ۱۸)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میںنازل ہوئی ہیں.اور دوسری آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔

انزل الله فی الکتاب العزیر

فی علی وفی الولید قرآنا

فتبینواالولید اذذاک فاسقاً

وعلی مبوء صدق ایمانا

فا سق کی نگاہ میں جو چیز قابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اور اعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کر نا ہے اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے، یہ نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میںنماز صبح کو چاررکعت پڑھا دیا ،اور محراب تک کو نجس کر دیا وہ نشے میں اتنا مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔

کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور اس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اور کہا : کیاتم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے ؟ ان لوگوںنے جواب دیا .ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن اسے مستی کے عالم میں دیکھاہے اور اس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتار لی مگر وہ متوجہ نہیں ہوااس واقعہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی اور عائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔ عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں ، انہوں نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کر دیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔

امیر المومنین نے عثمان سے ملاقات کی اور خلیفہ دوم کی وہ بات جوانہوں نے شوری کے دن ان کے بارے میں کہی تھی انہیں یاد دلایا اور کہا ،بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پر مسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کوگورنری کے منصب سے معزول کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو،

۳۰۳

طلحہ اور زبیرہ نے بھی ولید کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی باتوں سے مجبور ہو کر سعیدبن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرئہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا ،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامامہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوںکایہ کہنا تھا کہ خلیفہ کو چاہئیے کہ جو سزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ جاری کریں ،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے لہٰذا اسنہوںنے اُسے قیمتی لباس پہنایا اور اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پر حد الہی جاری کرے ،جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں ولید نے انھیں دھمکی دی تھی بالآخر امام علی نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بغیر تاخیر کے اس پر حد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی۔(۱)

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک رکن عادلانہ قانون کی حکومت ہے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں کی جان ومال وعزت و آبرو کی حفاظت ہو سکے،اور اس سے بھی زیا دہ اہم قانون کا جاری کرنا ہے اور قانون گزار ، قانون کو جاری کرتے وقت دوست ودشمن اور اپنے اورپرائے کو نہ دیکھے اس صورت میں قانون عملی جامہ پہنے گا اور پورے طور پر عدالت سامنے آئے گی۔

الہی نمائندوں نے خدا کے قوانین کو بغیر کسی ڈرا ورخوف کے جاری کیا اور کبھی بھی انسانی الفت ومحبت ، رشتہ داری ، مادی منفعت سے متأ ثر نہیں ہوئے ،پیغمبر اسلام نے خود اسلامی قانون کوسب سے پہلے جاری کیا،اور اس آیت کے واضح وروشن مصداق تھے( وَلَا یَخَافُوْنَ لَومَةلَائِمٍ ) (۲) فاطمہ مخزومی جس نے چوری کی تھی اسکے بارے میں آپ کا ایک چھوٹا جملہآپ کی اجتماع عدالت پر واضع و روشن دلیل ہے۔فاطمہ مخزومی ایک مشہور ومعروف عورت تھی جس کی چوری پیغمبر کے سامنے ثابت ہو گئی تھی اور یہ طے پایا کہ عدالت کا حکم اس پر جاری ہو ،ایک گروہ نے اس پر قانون نہ جاری کرنے کی کوشش کی اور اسامہ بن زید کو پیغمبر کے پاس بھیجا تا کہ اس مشہور ومعروف عورت کا ہاتھ کا ٹنے سے پیغمبر کو منع کرے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔

_____________________

(۱)۱۔مسنداحمدج۱ص۱۴۲،سنن بیہقی ج۸ص۳۱۸،اسدالغابہ ج۵ص۹۱،کامل ابن اثیرج۴۲۳۔ الغدیر ج۸ ص۱۷۲ منقول الانساب بلاذری ج۵ص۳۳ سے ماخوذ.

(۲)سورئہ مائدہ،۵۴

۳۰۴

خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرے تو میں حکم خدا کو جاری کروں گا اور حکم خدا کے مقا بلے میں فاطمہ مخدومی اور فاطمہ محمدی دونوں برابر ہیں۔(۱)

پچھلی امتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی بڑا شخص چوری کرتا تھا تو اسے معاف کردیتے تھے اور اس کی چوریوں کو نظر انداز کردیتے تھے ،لیکن اگر کوئی عام آدمی چوری کرتا تھا توفوراً اس پرحکم الہی جاری کرتے تھے ۔

پیغمبراسلام(ص) نے امت اسلامی کی اس طرح سے تربیت کی ،لیکن آپ کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی معاشرے میں قوانین کے جاری کرنے میں رخنہ پڑ گیا ،خصوصاًخلیفہ دوم کے زمانے میں عرب اور غیر عرب، حسب ونسب، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے مقابلے میں وجود میں آیا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ انقلاب اور شورش برپا ہو ، عثمان کی خلافت کے زمانے میں اسلامی قانون کے اجراء میں تبعیض شباب پر تھی ،اور یہی چیز لوگوں کی نارا ضگی کا سبب بنی اور لوگ خلیفہ اور ان کے اطرافیوں سے متنفر ہو گئے ۔

مثلاً. خلیفہ دوم ایک ایرانی بنام ابو لولو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا کے ہاتھوں مارے گئے تھے قتل کرنے کی علت کیا تھی یہاںپر بیان کرنا مقصود نہیں ہے، ہم نے اس کا تذکرہ '' علی اور شوریٰ ''میں عمر کے قتل ہونے کی علت میںبیان کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ کے قتل کا مسلئہ اسلامی عدالت سے حل کرنا چاہیئے تھا اور اس کے قاتل اور محرک افراد (اگر محرک تھے) کو اسلامی قاعدہ اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں تھی کہ خلیفہ کے بیٹے یا اس کے رشتہ دار اس کے قاتل کو سزادیں یا اسے قتل کریں چہ جائیکہ کہ قا تل کے رشتہ دار وں اور دوستوں تک کو سزا دیں یا قتل کریں ، بغیر اس کے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل ہونا ثابت ہواور بغیر سزا کے انھیں قتل کردیں ،

لیکن افسوس کہ خلیفہ کے قتل کے بعد یا ان کے حالت احتضار ہی میں خلیفہ کے بیٹے عبیداللہ نے دو بے گناہوں (ہرمزان اور ابولولو کی بیٹی جفینہ)کو اس الزام میں کہ اس کے باپ کے قتل کرنے میں شامل تھے قتل کر ڈالا اور اگر صحابیوں سے ایک صحابی نے اس کے ہاتھ سے تلوار نہ لی ہوتی اور اسے نہ روکا

______________________

(۱)۔الاستیعاب ج۴ ۳۷۴

۳۰۵

ہوتا تو مدینہ میں جتنے بھی قیدی تھے انھیں قتل کر ڈالتا۔عبید اللہ کے اس جرم نے مدینہ میں تلا طم برپا کردیا ،اور مہاجرین وانصارنے عثمان سے بے حداصرار کیا کہ اسے سزا دیں .اور ابولٔولوکی بیٹی اور بہو کو انکے خون کا بدلہ اس سے لیں۔(۱)

خودحضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اصرار کیا کہ عبیدا للہ کو سزادو ، اور خلیفہ سے کہا :بے گناہوں کو قتل کرنے کا انتقام عبیداللہ سے لو ،کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے ،لیکن جب عثمان کی طرف سے مایوس ہو گئے اس وقت آپ نے عبیداللہ کو مخاطب کرکے کہا :اگر کسی دن تو میرے ہاتھو ں میں آگیا تومیں تجھے ہرمزان کے بدلے میں قتل کردوںگا۔(۲)

عبید اللہ کو سزادلانے اور عثمان کی بے توجہی کی وجہ سے اعتراض روز بروز بڑھتا رہا اوراب بھی ابولولو کی بیٹی اور ہرمزان کے ناحق خون بہالوگوں کے درمیان جوش وخروش تھا ،خلیفہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو عبیداللہ کو حکم دیا کہ مدینہ سے کوفہ کی طرف چلا جائے اور بہت وسیع زمین اس کے حوالے کر دی اور اس جگہ کا ،کویفة ابن عمر(عمر کے بیٹے کا چھوٹا کوفہ)نام رکھا۔

______________________

(۱)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷(طبع بیروت)۔

(۲)انساب بلاذ ر:ی ج ۵ ص ۲۴۔

۳۰۶

بے جاعذر

مسلمان تاریخ لکھنے والوں نے خلیفہ سوم اور ان کے ہم فکروں کے دفاع میں معذوری کوپیش کیا ہے جو بچگانہ معذوری کے مانند ہے ہم یہا ں پر ان میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔جب عثمان نے عبیداللہ کے بارے میں عمروعاص سے مشورہ کیا تو عمر و عاص نے کہا کہ ، ہرمزان کاقتل اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا حاکم کوئی اور شخص تھا اور مسلمانوں کی ذمہ داری تمہارے ہا تھوں میں نہ تھی اور اس طرح تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ،اس عذرکا جواب واضح ہے:

الف:۔مسلمانوں کے ہر حاکم وسرپرست پر لازم ہے کہ مظلوم کا حق ظالم سے دلوائے ،چاہے وہ ظالم اس کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے یا دوسرے شخص کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے ،کیونکہ حق ثابت اور پائیدار ہوتا ہے اورزمانہ کاگزرنا اور حاکم کا بدلنا ہر گز فریضہ کو نہیں بدلنا۔

ب:۔وہ حاکم کہ جن کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا خود انہوں نے اس واقعہ کی تفتیش کا حکم دیا تھا،جب خلیفہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی کہ آپ کے بیٹے عبیداللہ نے ہرمزان کو قتل کر ڈالاہے تو انہوں نے اس قتل کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا یہ بات مشہور ہے کہ ہرمزان نے ابو لولو کو حکم دیا تھا کہ تمہیں قتل کردے خلیفہ نے کہا :

میرے بیٹے سے پوچھو ،اگر اس کے پاس کوئی گواہ ہے تو میرا خون ہرمزان کے خون کے برابر ہے لیکن اگر اس کے بر عکس ہے

۳۰۷

تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۱)

کیا بعد میں آنے والے خلیفہ پر واجب نہیں تھا کہ اپنے پہلے کے خلیفہ کے حکم کو جاری کرے؟کیونکہ عمرکے بیٹے کے پاس نہ کوئی گواہ تھا کہ ہرمزان اس کے باپ کے قتل میں شریک، اور نہ ہی ہرمزان نے ابو لولو کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا ۔

۲۔یہ بات صحیح ہے کہ ہرمزان اور ابولولوکی چھوٹی بیٹی کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کے خون کا ولی مسلمانوں کاخلیفہ اور امام ہے، اسی وجہ سے عثمان نے اس مقام ومنصب سے خوب استفادہ کیا اور قاتل کو آزاد چھوڑ دیا اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا۔(۲)

اس عذر کی بھی پچھلے عذر کی طرح کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے کہ ہرمزان ،قارچ(ککر متاّ) کی طرح نہ تھا جو زمین سے اگاتھااور اس کا کوئی وارث ورشتہ دار نہ تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک زمانے تک شوشتر کا حاکم تھا۔(۳)

اور ایسی شخصیت بغیر وارث کے نہیں ہوسکتی اس بنا پر خلیفہ کا فریضہ یہ تھا کہ اس کے وارث کو تلاش کرتے اور تمام کاموں کی ذرمہ داریاں اس کے سپرد کرتے۔

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس کا کو ئی وارث نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کا تمام حق، مال مسلمانوں کا حق تھا اور جب تمام مسلمان اس کے قتل بخش دیتے اس وقت خلیفہ اس کے قصاص کو نظر انداز کردیتے ،لیکن افسوس کہ واقعہ اس کے بر خلاف تھا اورمولف طبقات کے نقل کرنے کے مطابق چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان عبیداللہ سے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے ۔(۴)

______________________

(۱)۔سنن بیہقی (چاپ آفیست )ج۸ص۶۱۔

(۲)۔سنن بیہقی (چاپ آفست)ج۸ص۶۱۔

(۳) قاموس الرجال ج۹ص۳۰۵۔

(۴)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷۔

۳۰۸

امیر المومنین نے بہت سختی سے عثمان سے کہا ،اقد الفاسق فانّه' أتیٰ عظیماًًقتل مسلما ًبل اذنب ۔(۱)

اور جس وقت خلیفہ نے عبیداللہ کو آزادکرنا چاہاتوامام علی نے فوراً اعتراض کیا اور کہا :خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو مسلمان کا حق ہے اسے نظرانداز کردے۔(۲) اس کے علاوہ ، اہل سنت کی فقہ کے مطابق ، امام اور اسی طرح دوسرے اولیاء (مثل باپ اورماں) کویہ حق حاصل ہے کہ قاتل کو قتل کریں یا اس سے دیت لیں ،لیکن ہرگز اسے معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔(۳)

۳۔ اگر عبیداللہ قتل ہو جاتا تو مسلمانوں کے دشمن خوشحال ہو تے کہ کل ان کاخلیفہ ماراگیا اور آج اس کے بیٹے کو مارڈالاگیا۔(۴)

یہ عذر بھی قرآن و سنت کی نظر میں بے وقعت ہے کیونکہ ایسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کا قصاص مسلمانوں کے افتخار کا باعث تھا اور عملی طور پر یہ ثابت کردیتا کہ ان کاملک ،قانون وعدالت کا ملک ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے چاہے جس مقام ومنصب پر ہوں قانون کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور ان کامقام و منصب عدالت جاری کر تے وقت مانع نہیں ہوتا۔

دشمن اس وقت خوشحال ہوتا جب وہ دیکھتا ہے کہ حاکم ورہبر قوانین الہی کا مذق اڑارہے ہیں ، اور اپنی خواہشات کو حکم الہی پرمقدم کر رہے ہیں ۔

۴۔کہتے ہیں کہ ہر مزان، خلیفہ کو قتل کر نے میں شامل تھا کیونکہ عبدالرحمن بن ابو بکر نے گواہی دی کہ ابو لولو اور ہرمزان اور جفین کو ہم نے آپس میں آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک خنجر زمین پر گر ا جس میں دو نوک تھے ،اور اس کا دستہ بیچ میں تھا ،اور خلیفہ بھی اسی خنجر سے قتل ہوا۔(۵)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵ص۲۴۔

(۲)قاموس الرجال ج۹ ص۳۰۵منقول از شیخ مفید

(۳)الغدیر ج۸(طبع نجف)(بدائع الصنایع ملک العلماء حنفی سے گفتگو)

(۴)تاریخ طبری ج۵ص۴۱

(۵)تاریخ طبری ج۲ص۴۲

۳۰۹

اسلامی عدالت میں اس عذر کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ گواہی دینے والا ایک شخص ہے ایسے لوگوں کاایک جگہ ہونا جو مدتوں سے دوست رہے ہوں اور ان میں سے ایک لڑکی ہو ،خلیفہ کے قتل کرنے پر گواہ نہیں بن سکتا شاید ہرمزان نے اس وقت خلیفہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہو کیا صرف وہم وگمان کے ذریعے دوسروں کا خون بہایا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اس طرح کی گواہی اور ثبوت کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ؟جی ہاں تمام بے جا عذر سبب بنے کہ ہرمزان کا قاتل لمبے عر صے تک آزادانہ زندگی گزارے،لیکن امام علی نے اس سے کہا تھا کہ اگر کسی دن تم میرے قبضے میں آگئے تو تم سے ہرمزان کا قصاص ضرور لیں گے۔(۱) جس وقت امام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،عبیداللہ کوفہ سے شام بھاگ گیا، امام نے فرمایا ،اگر آج بھاگ گیا ہے تو ایک نہ ایک دن ضرور ہاتھ آئے گا ،زیا دہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہاتھوں یا مالک اشتر یا عماریاسر (بہ اختلاف تاریخ ) کے ہاتھوں قتل ہوا۔

دوسری وجہ، بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا

پیغمبر اسلام(ص) کی خلافت وجانشینی ایک مقدس واعلیٰ مقام ہے جسے تمام مسلمان نبوت ورسالت کے منصب کے بعد سب سے اہم مقام سمجھتے ہیں ،اور ان لوگوں کا اختلاف صرف مسئلہ خلافت کے بارے میں ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے یا لوگ خود خلیفہ کا انتخاب کریں، ان لوگوں کے درمیان اختلاف یہ نہ تھا کہ مقام خلافت کا رتبہ بڑھ جائے اور اسلامی خلافت کی موقعیت کو اہم شمار کریں .اسی مقام خلافت کے احترام کی وجہ سے امیر المو منین ـ نے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیفہ سوم سے یہ کہا:

''وانی انشدک االلّه ان لا تکون امام هذه الامةالمقتول،فانه کان یقال یقتل فی هذه الامةامام یفتح علیها القتل والقتال الی یوم القیامة'' (۲)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵،ص۲۴۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۱۵۹۔

۳۱۰

میں تجھے خدا کی قسم دیتاہوں کہ اس امت کے مقتول پیشواکی طرح نہ ہونا،کیونکہ کہا جاتا تھاکہ اس امت کا پیشوا مارا جائے گا جس کے قتل کی وجہ سے قیامت تک کے لئے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،

مہاجرین و انصار اوردیگر مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت اور خلیفہ مسلمین کی عظمت ورفعت کے باوجود اسلام کی دوسری بزرگ شخصیتیں مختلف جگہوں سے مدینہ آگئیں ،اور مہاجرین و انصار کی مددسے خلیفہ سوم کو قتل کرکے پھر اپنے اپنے شہر واپس چلی گئیں۔

عثمان کے خلاف شورش وانقلاب کی ایک دو وجہیں نہیں تھیں، انقلاب لانے کی ایک وجہ حدود الہی کا جاری نہ ہوناتھا جس کا تذکرہ ہم مختصر اً کر چکے ہیں اور دوسری وجہ جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یعنی خلیفہ کا اپنے رشتہ داروں کو بے حساب بیت المال سے مددکرنا اور ان کا خرچ دینا تھا ،اگر چہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے ، میں اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کیئے تھے ،تحریر نہیں کیا ہے(۱) لیکن وہی چیز یں جنہیں تاریخ نے لکھا ہے ، بیت المال سے متعلق عثمان کے کردار کوبخوبی واضح وروشن کرتا ہے ۔مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اور دوسرے سامان جو انہوں نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے ،وہ بہت زیادہ تھے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت زہرا اور خلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اور یہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا کی اولاد وں کو واپس کردیا۔

پیغمبر اسلام کی بیٹی نے کہا تھاکہ میرے بابا نے فدک مجھے دیا تھا ،لیکن ابو بکر کا یہ دعوی تھا کہ یہ صدقہ ہے اور دیگر صدقوں کی طرح یہ بھی محفوظ رہے اور اس کی آمدنی مسلمانوں کے امور میں خرچ ہو بہر حال کسی بھی صورت سے عثمان کا مروان کوفدک دینا صحیح نہیں تھا ،بہت سے مورخین نے عثمان کی اس حرکت پر ان کو

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۵ص۱۰۸و۱۱۳ و۲۳۲۔

۳۱۱

آڑے ہاتھ لیا اور سب نے یہی لکھا کہ'' تمام لوگوں نے جو ان پر اعتراض ہوئے یہ ہے کہ انہوں نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ''(۱) اے کاش خلیفہ اسی پر اکتفاء کرتے اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس کے علاوہ کچھ اور نہ دیتے،لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگائو کی کوئی حدنہ تھی ،انہوں نے اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ۲۷ ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین (۲۵لاکھ ) دینار تھی اس کا پانچواں حصہ (۵لاکھ ) جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا، اور اس طرح سے انہوں نے سب سے مخالفت مول لی ،چنانچہ بعض شعراء نے بعنوان اعتراض یہ شعر کہا(۲)

وأعطیت مروان خمس العبا

د ظلماًلهم وحمیت الحمی(۳)

وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔

بیت المال کے بارے میں اسلام کا نظریہ

ہر عمل ایک ونظریہ کی حکایت کرتا ہے، خلیفہ کاعمل اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے کو صلئہ رحمی اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بیت المال چاہے مال غنیمت ہو یازکات کی طرح دوسرے اموال کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے یہاں ہم پیغمبر اسلام(ص) اورامیر المومنین کے چند اقوال کو پیش کررہے ہیں ۔

۱۔پیغمبر اسلام (ص)مال غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں

للّه خمسه واربعة اخماس للجیش (۴)

______________________

(۱)ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص۸۴۔---(۲)سورئہ انفال آیت ۴۱۔----(۳)سنن بیہقی ج۶ص۳۲۴۔

(۴)سنن بیہقی ج۶ ص۳۲۴۔

۳۱۲

اس میں سے پانچواں خدا کا حصہ اور باقی ۴۵لشکر اسلام کا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ خدا س سے بے نیاز ہے کہ وہ اپنے لئے حصہ معین کرے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس ۵/ ۱کو ایسے کاموں میں خرچ کیا جائے جن میں خدا کی مرضی شامل ہو ۔

۲۔جب پیغمبر اسلام نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کیا توانہیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہنا۔

''ان اللّه قدفرض علیکم صدقة اموالکم نوخذ من اغنیاء کم فتردّالی فقراء کم'' (۱)

خدا وند عالم نے تم پر زکواة واجب کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

۳۔ امیر المومنین نے اپنے مکہ کے حاکم کو لکھا :

جو کچھ خدا کا مال تمہارے پاس جمع ہوا ہے اس کا حساب وکتاب کرو اور اسے کثیر العیال اور بھوکوں کو دیدو ، اور اس بات کا خیال رہے کہ وہ یقینافقیروں اور محتاجوں کو ملے ۔

تاریخ میں ہے کہ دو عورتیں دو نژاد کی ایک عرب اور دوسری آزادکردہ ،مولائے کائنات کے پاس آئیں اور دونوں نے حاجت پیش کی ،امام نے ہر ایک کو ۴۰ درہم کے علاوہ کھانے پینے کا سامان دیا نژادوہ عورت جو عرب سے نہیں تھی اس نے اپنا حصہ لیا اور چلی گئی لیکن عرب عورت نے جاہلیت کی فکر رکھنے کے وجہ سے امام سے کہاکیا آپ مجھے اتنی ہی مقدار میں دیں گے جتنا غیر عرب کو دیا ہے ؟امام ـ نے جواب میں کہا ، میں خد ا کی کتاب قرآن میں اسماعیل کے بیٹوں کی اسحاق کے بیٹوں پر فضیلت وبرتر ی نہیں دیکھتا؟(۲)

ان حدیثوں اور صراحتوں کے ہوتے ہوئے اور یہ کہ خلیفہ اول ودوم کا طریقہ خلیفہ سوم سے علیحدہ تھا اس کے باوجود عثمان نے اپنی پوری خلافت کے درمیان بہت زیا دہ تحفے وہدیہ لوگوں کو دیئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اگر ان ہدیوں اورکو ان نیک لوگوںکو دیا جاتاجن کی گذشتہ زندگی اسلام کے لئے باعث افتخار تھی ،تو

______________________

(۱)الاموال ص۵۸۰۔

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۶۷۔

۳۱۳

اتنی ملامت نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ وہ گروہ لایق فضل وکرم قرار پایا جس کی اسلام میں کوئی فضیلت نہیں تھا۔

مروان بن حکم حضرت امیر المومنین کا سخت ترین دشمن تھا ، جس وقت اس نے حضرت علی سے اپنی بیعت توڑی اور جنگ جمل میں گرفتار ہوا اور امام حسین کی شفاعت کرنے سے آزاد ہوا ،تو امام کے بیٹوں نے امام سے کہا ، مروان دوسری مرتبہ پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا ، امام نے فرمایا ۔

مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیا عثمان کے قتل کے بعد اس نے میرے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا؟ اس کی بیعت یہودیوں کی بیعت کی طرح ہے جو مکروفریب اور بے وفائی میں بہت مشہور ہیں، اگر خود اپنے ہاتھوں پر بیعت کرے تودوسرے دن مکرو فریب کے ساتھ اسے توڑ دے گا اس کے لئے حکومت چھوٹی چیز ہے جیسے کتا خود اپنی ناک چاٹتاہے،وہ چاربچوں کاباپ ہے اور امت مسلمہ کواس سے اور اس کے بچوں سے ایک روز شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۱)

______________________

(۱)سنن بیہقی ج۶ص۳۴۸۔

۳۱۴

تیسری وجہ، اموی حکومت کی تشکیل

عثمان کے خلاف شورش کی تیسری وجہ ،اسلام کے حساس مر کزوں پر امویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی ، اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ سوم کو بنی امیہ سے بہت ہی زیاوہ الفت ومحبت تھی اور رشتہ دارکی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری تھی ، اپنے رشتہ داروں کی اس درخواست کی تکمیل کے لئے کہ ایک اموی حکومت تشکیل دی جائے عقل وخرد ، مسلمانوں کی مصالح و مفاسداور اسلام کے قوانین کی عثمان کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں تھی اور بنی امیہ سے بیحد محبت کی وجہ سے بہت زیادہ غلط انجام پاتے تھے ۔

اس بات کی بھی یاددہانی ضروری ہے کہ ان کی محبت سارے مسلمانوں سے نہ تھی بلکہ ان کی محبت کا ربط صرف اپنے رشتہ داروں سے تھا ، اور دوسرے افراد ان کے غیظ وغضب سے امان میں نہیں تھے ،یعنی شجرئہ اموی سے بے شمار محبت کی وجہ سے ابوذر ،عمار ،عبداللہ بن مسعود وغیرہ پر بہت خشمگین رہتے تھے ، جس وقت ابو ذر کو ایسی سرزمین جہاں آب ودانہ نہ تھا یعنی ، ربذہ بھیجا اور اس عظیم مجاہد نے وہاں تڑپ تڑپ کر جان دیدی ،اس وقت ان کی محبت جوش میں نہ آئی جس وقت عمار خلافت کے بکے ہوئے کارمندوںکے لات گھونسوں سے زخمی ہوئے اوراور بے ہوش ہوگئے، خلیفہ پر ذرہ برابربھی اثر نہ ہوا ۔

۳۱۵

خلیفہ کا خاندان ،بنی ابی معیط ،کے ساتھ لگائو چھپنے والا نہیں تھا،یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے بھی اس بات کا احساس کرلیا تھاتبھی تو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا :

''لوولیها عثمان لحمل بنی ابی معیط علی رقاب الناس ولو فعلها لقتلوه'' (۱)

اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معیط ،کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔

جس و قت عمر نے شوری تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس میں عثمان کو بھی داخل کیا توان کی طرف رخ کرکے کہا ، اگر خلافت تمہارے ہاتھوں میں آجائے تو اس وقت خدا سے خوف کھانا اور ابی معیط کی آل کولوگوں پرمسلط نہ کرناجب عثمان نے ولید بن عتبہ کو کوفہ کاگورنر بنایا،توامیرالمومنین اور طلحہ وزبیرنے عمر کی بات یاد دلائی اور عثمان سے کہا :

''الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی محیط وبنی امیه علی رقاب الناس ؟'' (۲)

کیا عمر نے تم کو نصیحت نہیں کی تھی کہ آل بنی محیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟

لیکن ہوا وہی کے سارے معیار ان کی مکمل محبت و غالب ہو گئی ،اور اسلام کے تمام حساس واہم مرا کز امویوں کے ہاتھوں میں آگئے ،اور ایساہوا کہ ایک گروہ قدرت و حکو مت میں مست اور دوسرا گروہ مال جمع کرنے میں مشغول ہو گیا جب کہ نزدیک اور دورکے علاقے کے مسلمان خلیفہ کے رشتہ داروں کو غرامت دینے والے تھے ۔

حقیقت میں عثمان نے خاندان بنی امیہ کے بوڑھے شخص ،ابو سفیان کی پیروی کی جو عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے والے دن ان کے گھر آیا ورجب اس نے دیکھا کہ وہاں سب کے سب بنی امیہ سے ہیں تواس

______________________

(۱) انساب بلاذری ج۵،۱۶۔

(۲)انساب بلاذری ج۵ص۳۰۔

۳۱۶

نے کہا کہ خلافت کویکے بعد دیگرے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا۔(۱)

ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا، اور یہ چیز خلیفہ کے ساتھیوں کے لئے برداشت کے قابل نہیں تھاکہ ایک غیر اموی شخص اس عہدے پرفائز ہو ،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں سب کے سب اموی تھے کہا:کیوں اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو دیدیا ہے ؟،خلیفہ نے کہا :تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔(۲)

اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔

اگر حکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ نے کہا تھا ۔

''لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتهابنی امیه حتی ید خلوامن اخرهم'' (۳)

اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے بنی امیہ کو دیدیتا تاکہ بنی امیہ کی آخری فردبھی جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی بے جااور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنمائوں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جنہوں نے عثمان کی خلافت اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میںگورنروں کے سلسلے میں صرف کوفہ اور مصر میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سیاست یہ تھی کہ سارے امور امویوں کے ہاتھوں میں ہوں۔

______________________

(۱)استیعاب ج۲ص۶۹۰۔

(۲) تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر۔ انساب بلاذری ۔

(۳)مسند احمد بن جنل ج۱ص۶۲۔

۳۱۷

جس وقت خلیفہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،مغیرہ بن شعبہ کوکوفہ کی گورنری سے معزول کرکے سعد وقاص کو اس کی جگہ پر منصوب کردیا ،اس مورد میںبظاہر اچھا کام کیاکیونکہ سعد وقاص کا مقام ومر تبہ جو کہ فاتح عراق تھا .مغیرہ بن شعبہ سے جونا زیبا اور غلط کاموں میں مشہور تھابہت بلند تھا بلکہ اس کا ان سے مقابلہ نہیں تھا ،لیکن حقیقت میں سعدوقاص کو منصوب کرنے کا مقصد کچھ دوسرا تھا کیونکہ ایک سال کے بعد انہوں نے سعد وقاص کو ہٹا کر اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ بن ابی معیط کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ،۲۷ ہجری میں عمروعاص کو مصر سے جزیہ لینے کی ذمہ داری سے ہٹا کر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر میں جزیہ لینے کے لئے معین کردیا،۳۰ ہجری میں ابو موسی اشعری کو ،جو خلیفہ دوم کے زمانے سے بصرہ کا حاکم تھا ،معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر جو بالکل نوجوان (۱۶سال کا)تھا بصرہ کا حاکم بنا دیا ۔(۱)

یہ تمام موارد جوذ کر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے ۔

چوتھی وجہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ پر ظلم وستم

عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبر کے صحابہ کی بے حرمتی تھی ،جو خود عثمان کی طرف سے یا ان کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام ہوتی تھی ، اس سلسلے میں یہاںصرف دو نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم

عبداللہ بن مسعود پیغمبر اسلام (ص)کے بزرگ صحابی تھے، تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں انکے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوی ایمان والے اورقرآن کی تعلیم کے ذریعے معارف اسلامی کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔(۲)

______________________

(۱)تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر ،انساب بلاذری۔

(۲)استیعاب ج۱،ص۳۷۳،اصابہ ج۲،۳۶۹،اسد الغابہ۔

۳۱۸

وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مسجدالحرام میں اور قریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی ، تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچائیں ،جی ہاں دو پہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکر تبا دلہ خیال کررہے تھے ،کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز میں سورئہ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی ، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ابن ام عبد ، کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہواہے اسے ہی پڑھ رہا ہے، اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم اور ان کے چہرے پر طمانچہ مارکر ان کی آواز کو خاموش کردیا ، عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے، لوگوں نے ان سے کہا ،تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا ، عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے ،اور پھر کہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس کو جتنا انہوں نے سن لیا بس وہ ہی کافی ہے(۲) یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنمااوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اور توحید کا درس دینے میں صرف کیا تھااور وہ ا ن چھ افراد میں سے ہے جن کے بارے میں ذیل کی آیت نازل ہوئی ۔(۲)

( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) (انعام۵۲)

اور (اے رسول) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو، نہ ان کے (حساب و کتاب کی) جوابدہی تمہارے ذمہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمہ ہے تاکہ تم انھیں (اس خیال سے) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار) میں ہو جاؤ گے۔

______________________

(۱)سیرئہ ابن ہشام ج۱،ص۳۳۷۔

(۲)تفسیر ی طبری ج۷،ص۱۲۸،مستدرک حاکم نیشا پوری ج۳،ص۳۱۹۔

۳۱۹

عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اور خدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔

سعدو قاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ معین کردیا ، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اسکی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی ،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس کی خبر عثمان کو بھیجی ،عثمان نے عبداللہ بن مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پر ملامت کیا، عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کی طرف پھینک دی اور کہا:

کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا ،خدا کا کلام سچا ہے بہترین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہنمائی وہدا یت ہے، ان کے لئے بدترین امورانکی نئی باتیں ہیں جن کا اسلام نے حکم نہیں دیا ہے جو چیز بھی شرعی نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے ۔

عبداللہ نے یہ با تیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے کوفہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو ے اور مدد کر نے کا وعدہ کیا انہوں نے کہا خلیفہ کی اطاعت مچھ پر فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو فتنہ وفساد کا دروازہ کھولتا ہے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوے سیدھے مسجد گئے اوروہاں خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا ۔

بلاذری لکھتے ہیں : جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوے اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور آیا ہے وہ جاندار جو خود اپنی غذا پر چلتا ہے اور اس پر قے کر کے اسے خراب کردیتا ہے۔

عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا ،کہ میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں پیغمبر کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اور بیعت الرضوان ،میں بیعت کرنے والا ہوں ۔ اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریا د بلند کی ،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحا بی کی توہین کررہے ہو؟چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں شروآفت سے بچنے کیلئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431