شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے13%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 110401 / ڈاؤنلوڈ: 7089
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا کہ جس سے خدا پر لوگوں کی حجت قائم ہوجائے یا وہ یہ کہنے لگیں کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔

یقینا قریش نے ابتداء بعثت ہی میں محمد(ص) کا قصہ تمام کرنے کی کوشش کی تھی اور جب قریش فضلِ خدا اور ابوطالب اور علی(ع)  کی حمایت کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے تو محمد(ص)  کو ابتر کہہ کے اپنے دلوں کو تسلی دی۔

لیکن خدا نے رسول(ص)  کو کوثر عطا کیا اور محمد (ص) حسنین(ع) کے نانا بن گئے اورلوگوں کو بشارت دی کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں امام ہیں خواہ یہ صلح کریں یا جنگ اور یہ تمام أئمہ امام حسین(ع) کی نسل سے ہونگے یہ تمام باتیں قریش کے لئے چیلنج تھیں۔

قریش اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتے تھے چنانچہ نبی(ص)   کے بعد انھیں موقع مل گیا اور عترت طاہرہ(ع) کا خاتمہ کرنے کی انتھک کوشش میں لگ گئے یہاں تک فاطمہ(ع) کے گھر پر آگ اور لکڑی لے کر جمع ہوگئے اگر علی(ع) خاموشی اختیار نہ کرتے اور حق خلافت سے دست کش نہ ہوتے اور صلح و آشتی سے کام نہ لیتے تو عترت طاہری(ع)  کا خاتمہ بالخیر تھا اوراسی روز اسلام کا قصہ تمام ہوجاتا۔

پھر قریش حکومت چھین لینے کے بعد اس وقت تک خاموش رہے جب تک نسل محمدی(ص) سے کوئی ان کے منافع کے لئے چیلنج نہ بنا اور جیسے ہی خلافت علی(ع) کے ہاتھ میں آئی ویسے ہی قریش نے فتنہ وفساد کی آگ بھڑکادی اور اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھے جب تک خلافت کو خبیث ترین شخص کو ہاتھوں میں نہ دے دیا، چنانچہ پھر خلافت قیصری بادشاہت ہوگئی جو باپوں سے بیٹوں کو میراث ملتی ہے اور جب امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو قریش کی آتش حمیت بھڑک اٹھی اور اس نے عترتِ طاہرہ(ع) کو قصہ ہی ختم کرنے کی ٹھان لی بلکہ ہر اس چیز  کو نابود کرنے کا ارادہ کر لیا جس پر نسل محمد بن عبداللہ (ص) کا اطلاق ہوتا تھا۔

۱۴۱

پس کربلا کی قتل گاہ میں نھوں نے ذریت نبی(ص) کو ذبح کر ڈالا یہاں تک کہ کمسن اور شیر خوار بچوں کو بھی تہہ تیغ کردیا ان کا ارادہ یہ تھا کہ شجر نبوَت(ص)  کی ہر  شاخ کو قلم کردیں۔

لیکن اللہ نے جو محمد(ص) سے وعدہ کیا تھا اے پورا کیا اور علی ابنِ ابی الحسین (ع)  کو بچالایا اور بقیہ ائمہ (ع) ان ہی کی نسل سے ہوئے اور زمین کو مشرق سے مغرب تک اولادِ  محمد(ص) سے بھر دیا یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے اپنے نبی(ص) کو عطا کیا تھا۔ اب ہر شہر و قریہ اور ہر خطہ زمین میں نسلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم موجود ہے اور لوگوں کے درمیان وہ محبوب و محترم ہے۔

دشمنوں کی تمام بےنتیجہ کو ششوں کے بعد آج پوری دنیا میں شیعہ جعفری لوگوں کی تعداد ۲۵۰ مِلینَ ہے اور سب ائمہ اثناعشری کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی مودت و محبت سے خدا کا تقر ب حاصل کرتے ہیں اور ان کے حد کی شفاعت کے امید وار ہیں۔

دیگر مذاہب میں سے کسی ایک کی بھی اتنی بڑی تعداد آپ کو ہرگز نہیں ملے گی۔اگرچہ ہر ایک مذہب کی حکومتِ وقت نے مدد کی ہے۔ وہ مکر کرتے ہیں ۔ خدا تدبیر کرتا ہے اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (انفال/۳۰)

کیا فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر نومولود  لڑکے کو اس وقت قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا کہ جب اسے نجومیوں نے یہ بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری بادشاہت ختم کردے گا؟

لیکن بہترین تدبیر کرنے والے نے موسی(ع) کو فرعون کے مکر سے بچالیا اور اس کے گھر بھیجدیا اور خود فرعون کی آغوش میں پرورش کرائی اور اسی کے ذریعہ اس کی بادشاہت برباد کرائی اور فرعون کے گروہ کو ہلاک کردیا اور خدا کا حکم پورا ہوکر

۱۴۲

 رہتا ہے۔

کیا (فرعون زمانہ) معاویہ نے علی(ع) پر لعنت نہیں کی اور ان کو ، ان کی اولاد کو اور ان کے شیعوں کو قتل نہیں کیا؟

کیا علی(ع) کی کسی بھی فضیلت کے بیان کرنے کو حرام قرار نہیں دیا تھا؟ کیا  اس نے اپنی پوری کوشش سے نور خدا کو بجھادینے کی کوشش نہیں کی اور لوگوں کو جاہلیت کی طرف پلٹانا نہیں چاہا تھا؟ لیکن خیرالماکرین نے علی(ع) کے ذکر کو بلند کیا باوجودیکہ معاویہ اور اس کی پارٹی ناک رگڑ  کر مرگئی اور آج تمام شیعہ ، سنی مسلمانوں کی زبان پر نامِ علی(ع) ہے بلکہ یہود و نصارا کی زبان پر بھی علی(ع)  کا ورد  ہے آج قبرِ رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی قبر زیارت گاہ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ لاکھوں مسلمان قبر  کا طواف کرتے ہیں عقیدت کے آنسو بہاتے ہیں اور آپ

آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، آپ کا قبہ اور گلدستہ اذان سونے کا ہے جو کہ آنکھ کر خیرہ کرتا ہے۔

جب معاویہ جیسے بادشاہ کا نام مٹ گیا جس نے زمین پر بادشاہت کی اور اس میں فساد پھیلایا ، کیا آج کہیں اس کا نام و نشان ہے؟ کیا کہیں اس کا ایسا مزار ہے؟

ایک تاریک و متروک مقبرہ ہے بے شک باطل کے لئے قرار نہیں ہے اور حق کے لئے ثبات و قرار ہے۔

پس صاحبان عقل عبرت حاصل کریں۔

حمد ہے اس خدا کی جس نے ہماری ہدایت کی حمد  ہے اس خدا کی جس نے ہمیں اس بات کی شناخت کرائی کہ شیعہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرتے ہیں اور وہی اہلِ سنت ہیں کیونکہ وہ اہلِ بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں اور

۱۴۳

گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہلِ بیت(ع) ہی وہ ہیں جنھیں خدا نے منتخب کیا پھر انھیں علم کتاب کا وارث بنایا اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ " اہلِ سنت والجماعت" سلف وخلف میں حکام کا اتباع کرتے ہیں جس چیز کا وہ دعو ا کرتے ہیں اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

۱۴۴

حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں

جو  چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیعہ ہی نبی(ص) کی صحیح سنت کا اتباع کرتے ہیں وہ رسول(ص) کی حدیث ہے جس کو حدیث ثقلین کہتے  ہیں ارشاد رسول(ص) ہے:

" میں تمھارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑ نے والا ہوں ، کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع) عترت ، اگر تم ان سے متمسک رہوگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان سے الگ نہ ہوجانا ورنہ برباد ہوجاؤ گے اور (دیکھو) انھیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیوں کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔" ( صحیح ترمذی، صحیح مسلم، مستدرک حاکم، مسند احمد بن حنل، کنز العمال، خصائص نسائی ، طبقات ابن سعد طبرانی ، سیوطی ، ابن حجر ،ابن اثیر مزید تفصیل کے لئے المراجعات کا صفحہ ۸۲۰ سے مطالعہ فرمائیں)

بعض روایات میں ہے مجھے لطیف و خبیر نے اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک

۱۴۵

دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس وارد ہوں گے۔

حدیث ثقلین کو اہلِ سنت والجماعت نے اپنی بیسیوں صحاح و مسانید میں نقل کیا ہے جبکہ شیعوں نے اپنی ہر حدیث کی  کتاب میں نقل کیا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اہلِ سنت والجماعت گمراہ ہو گئے ہیں کیوں کہ انھوں نے دونوں (قرآن و عترت) سے ایک ساتھ تمسک اختیار نہیں کیا اور اس لئے ہلاک ہوگئے کہ انھوں اہلِ بیت(ع) پر ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی، حنبل، کو مقدم کیا ان کی تقلید کی اور عترتِ طاہرہ(ع)  کو چھوڑ دیا۔

ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ : ہم نے قرآن سے تمسک رکھا ہے ، تو اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن میں تمام چیزیں پر کلی طور پر بیان ہوئی ہیں اس میں احکام کی تفصیل کا تذکرہ نہیں ہے اس میں بہت سے احتمالات ہیں ۔ اس کے لئے مفسر  و بیان کرنے والے کا ہونا ضروری ہے اور بالکل یہی کیفیت سنتِ رسول(ص) کی بھی ہے اس کے لئے بھی ثقہ راویوں ، مفسرین اور عالموں کی ضرورت ہے۔

اس مشکل کو کوئی حل نہیں ہے مگر یہ کہ ائمہ اطہار(ع) کی طرف رجوع کیا جائے کہ جن کے بارے میں رسول(ص) نے وصیت فرمائی ہے۔

اور جب حدیثِ ثقلین کے ساتھ ان احادیث کا اضافہ کرتے ہیں کہ جن کا وہی مفہوم ہے جو حدیث ثقلین ، مثلا

" علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کےساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا یہ ہوں گے ۔ یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔" ( مستدرک حاکم جلد۳ ص۱۲۴)

نیز فرمایا :

علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کےساتھ ہے اور یہ ہرگز جدا

۱۴۶

نہ ہوں گے یہاں تک کہ روزِ قیامت حوض پر میرے پاس وارد ہوںگے"۔

( منتخب کنز العمال جلد۵ ص ۳۰ تاریخ ابنِ عساکر جلد۳ ص۱۱۹ تاریخ بغداد ج۱۴ ص۱۲۱ تاریخ الخلفا ابن قتیبہ جلد۱ ص۷۳)

ان تمام چیزوں سے ہماری اور تمام محققین  کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ جس نے علی(ع)  کو چھوڑ دیا اس نے قرآنِ کریم  کی حقیقی تفسیر کو چھوڑدیا اور جس نے علی(ع) سے بے اعتنائی کی اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور باطل کو اختیار کرلیا کیونکہ حق کے بعد صرف باطل ہی رہ جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ بات بھی ثابت ہے کہ اہلِ سنت والجماعت نے قرآن اور سنت نبوی(ص) دونوں کو چھوڑ دیا کیوں کہ انھوں نے حق یعنی علی ابن ابی طالب (ع) کو چھوڑ دیا۔

چنانچہ نبی(ص) کی حدیث ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ان میں سے صرف ایک فرقہ باجی ہوگا۔ اور یہ فرقہ وہی ہے جو امام علی(ع) کا اتباع کر کے حق و ہدایت پر گامزن ہوتا ہے۔ علی(ع) کے دشمن سے جنگ اور آپ(ص) کی صلح کے تحت صلح کرتا ہے آپ کے علم میں آپ(ص) کی اقتداء کرتا ہے اور آپ(ص) کی اولاد میں ائمہ میامین پر ایمان رکھتا ہے۔

یہی لوگ تمام مخلوقات سے بہترین ہیں ان کی جزاء ان کے پروردگار کے  پاس ہمیشہ رہنے کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے خدا ان سے راضٰ اور وہ اس سے خوش۔

۱۴۷

حدیث ثقلین اہلِ سنت کی نظر میں

ہم گذشتہ فصل میں اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں جسے بیس سے زیادہ اپنے مشہور مصادر  میں اہلِ سنت  والجماعت نے علی(ع) سے نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف ہے۔

جب انھوں نے اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعتراف کر لیا تو حتمی طور پر اپنے گمراہ ہونے کا بھی اقرار کرلیا انھوں نے ائمہ اہلِ بیت(ع) سے کو ئی واسطہ نہیں رکھا اور اپنے فضول مذاہب کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا کہ جن پر نہ خدا نے کوئی دلیل نازل کی ہے اور نہ حدیث نبوی(ص)  میں ان کا وجود ہے۔

تعجب تو آج  کے علمائے اہل سنت پر ہے وہ اس زمانہ میں بھی کہ جس میں علمی بحث و تحقیق کے بے پناہ وسائل موجود ہیں اور بنی امیہ کو ہلاک ہوئے بھی ایک عرصہ گذر گیا ہے لیکن وہ اب بھی تونہ نہیں کرتے ہیں۔ اور خدا کی طرف رجوع  نہیں کرتے ہیں تاکہ خدا بھی ان کے شامل حال ہوجائے۔

۱۴۸

" اور جو شخص تونہ کرے اور ایمان لائے نیک کام انجام دے اور ثابت قدم رہے تو میں اسے ضرور بخش دوں گا۔" ( طہ/۸۲)

اور آج جبکہ لوگ ایسے زمانہ میں زندگی گذار رہے ہیں کہ جس میں ایسی خلافت نہیں ہے جو زبردستی لوگوں سے بادشاہ کا اتباع کرائے تو پھر حق کو اپنانے کے لئے کونسی چیز  مانع ہے۔ اور کسی بھی ملک کا بادشاہ دینی امور میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتا تا جب تک اس کی کرسی محفوظ ہے وہ ڈیموکریسی اور ان کے حقوق کو بہتر سمجھتا ہے کہ جس میں ضمنی طور پر عقیدہ اور فکر کی آزادی بھی موجود ہے۔

۱۴۹

کتاب اللہ و عترتی یا کتاب اللہ و سنتی؟

اس موضوع پر ہم اپنی کتاب" معالصادقین" میں بحث کرچکے ہیں۔ اختصار کے ساتھ یہاں اتنا عرض کردینا چاہتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہیں کیوں کہ نبی(ص) کی صحیح سنت عترتِ طاہرہ(ع) کے پاس محفوظ ہے اور گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں پھر علی ابن ابی طالب(ع)  سنتِ نبوی(ص) کے باب ہیں۔ وہ راوی اسلام کہلوانے کے زیادہ حق دار ہیں نہ کہ ابو ہریرہ ، کعب الاخبار اور واہب بن منبہ۔

لیکن مزید وضاحت کے لئے چند باتیں قلم بن کرنا ضروری ہے اگر چہ اسکی تکرار  بھی ہوگی مگر اعادہ میں افادیت ہے اور ممکن ہے بعض حضرات نے " مع الصادقین" میں بحث نہ پڑھی ہو لہذا وہ اس کتاب کے ذریعہ اس سے بھی آگاہ ہوجائیں گے  کہ دوسری کتاب میں یہ بحث تفصیل کےساتھ موجود ہے۔

ممکن ہے قارئین محترم کو اس بحث میں وہ جوہر مل جائے جو انھیں اس بات سے مطمئن کردے کہ " کتابَ اللہ و عترتی" ہی اصل ہے۔ جسے خلفا نے جان بوجھ کر "کتابَ

۱۵۰

اللہ و سنتی " سے بدل دیا ہے تاکہ وہ اس طرح اہلِ بیت(ع) کو صحن سے دور کردیں۔

یہ بات ملحوظ خاطر  رہے کہ " حدیث کتاب اللہ و سنتی" اہلِ سنت والجماعت کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ ان کی صحاح میں یہ روایات موجود ہیں کہ نبی(ص) نے اپنی احادیث لکھنے منع فرمایا تھا۔

پس اگر حدیث لکھنے سے منع کرنے والی حدیث صحیح ہے تو نبی(ص) کو یہ حکم فرمانے کا حق نہیں ہے کہ میں نے تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑی ہے جبکہ وہ مکتوب شکل میں نہیں تھی!؟

اور اگر حدیث " کتاب اللہ وسنتی" صحیح تھی تو عمر بن خطاب کو رسول (ص) پر اعتراض کرنے اور یہ کہنے کا حق نہیں تھا کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے؟

اور جب رسول(ص) نے مکتوب صورت میں سنت چھوڑی ہے تو پھر ابوبکر و عمر کے لئے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ سنتِ رسول(ص) کو جلا ڈالیں !

اور جب حدیث " کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو وفاتِ نبی(ص) کے بعد ابوبکر یہ خطبہ کیوں دیتے ہیں: لوگو! رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور اگر تم سے کوئی پوچھے تو یہ کہہ دینا کہ ہمارے تمھارے پاس کتاب خدا موجود ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو! ( تذکرۃ الحفاظ ، ذہبی جلد۱ ص۳)

اور جب حدیث" کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو ابوبکر اور ان کے ہمنوا صحابہ کو جنابِ زہرا(ع) کی بے حرمتی کرنے کا جواز کہاں سے مل گیا تھا اور ان کے گھر پر آگ و لکڑی لیکر جمع ہونے اور یہ دھمکی دینے کا حق کہاں سے حاصل ہو ا تھا کہ ہم گھر کو مع رہنے والوں سمیت

۱۵۱

جلادیں گے ۔ کیا سیدہ(ع) کے متعلق انھوں نے رسول(ص) کی یہ حدیث نہیں سنی تھی۔

" فاطمہ(ع) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناکی کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی"؟

قسم خدا کی انھوں نے ضرور رسول(ص) کی حدیث سنی تھی اور انھیں یاد تھی کیا انھیں خدا کا یہ قول نہیں معلوم تھا۔

"قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى" (شوری/۲۳)

(اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو"۔

یہ آیت جنابِ فاطمہ(ع) ، ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کی شان میں نازل ہوئی ہے کیا یہی محبت اہلِ بیت(ع) ہے کہ انھیں جلانے کی دھمکی دی جائے؟ اور بطنِ فاطمہ(ع) پر دروازہ گرادیا جائے کہ جس سے انکا بچہ ساقط ہوجائے؟؟!

اور جب حدیث " کتاب اللہ و عترتی" صحیح ہے معاویہ اور اس کی بیعت کرنے والے صحابہ نے علی(ع) پر لعنت کرنے اور منبروں سے ان پر سب و شتم کرنے کو کیسے حلال قرار دیا، کیا انھوں نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا تھا کہ ان (علی (ع))  پر ایسے ہی صلوٰت بھیجو جس طرح رسول(ص) پر بھیجتے ہو؟ کیا انھوں نے رسول(ص) کی یہ حدیث  نہیں سنی تھی۔

" جس نے علی پر سب و شتم کیا اس نے مجھے پر سب و شتم  کیا اور  جس نے مجھے برا بھلا کہا اس نے خدا کو بر بھلا کہا"؟

( مستدرک  حاکم جلد۳ ص۱۲۱، شیخین کی شرط کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے لیکن انھوں نے اسے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ۔ تاریخ الخلفا ، سیوطی ص۷۳، خصائص نسائی ص۲۴ مناقب خوارزمی ص۸۲)

اور جب حدیث " کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو پھر اکثر صحابہ سے یہ سنت کیسے

۱۵۲

غائب رہی ، انھوں نے اسے کیوں نظر انداز کیا اور اپنی رائے سے کیوں فتوے دینے لگے اور پھر آزاد روش اختیار کی چنانچہ انھوں نے قیاس اجتہاد اجماع ، سدباب الذرائع ، مصالح المرسلہ، استصحاب ، صوافی الامر اور اخف الضررین ایسے خود ساختہ قواعد ایجا د کئے ( جامع بیانالعلم جلد۲ ص۱۷۴)

اور جب رسولٰ(ص) نے " کتابِ خدا اور اپنی سنت" چھوڑی ہے تاکہ یہ دونوں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں تو پھر ان قواعد کو ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جن کو اہلِ سنت نے تراش لیا ہے  یہ سب چیزیں بدعت ہیں اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا نتیجہ جہنم ہے۔ جیسا کہ حدیث میں منقول ہے۔

پھر عقل اور علم و معرفت رکھنے والے نبی(ص) پر لعن طعن کریں گے کہ جس نے سنت کو چھوڑی لیکن اس کی تدوین  کو اہمیت نہیں دی اور نہ اس کی تدوین و حفاظت کا کوئی بندوبست فرمایا کہ جس کے سبب وہ تحریف ، اختلاف ، جعلی حدیثوں سے محفوظ رہتی اس کے باوجود لوگوں سے فرماتے ہیں میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ۔ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے کتاب خدا اور میری سنت۔

لیکن جب ان عقلاء کو یہ بات بتائی جائے گی کہ نبی(ص) نے لوگوں کو اپنی سنت لکھنے سے منع فرمایا تھا تو اس وقت نبی(ص) کا مذاق بھی اڑائیں گے کیونکہ یہ فعل عاقلانہ نہیں ہے۔ کیونکہ لوگوں کو اپنی سنت لکھنے سے منع کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں میں تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں مزید برآں کتابِ خدا ہے کہ جس کو مسلمان صدیوں سے لکھتے چلے آرہے ہیں اس میں بھی ناسخ و منسوخ ، خاص و عام محکم و متشابہہ ہے۔ یہ قرآن کا خاصہ ہے۔ اگر چہ پورا قرآن صحیح ہے۔ کیونکہ خدا نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور پھر وہ مکتوب ہے۔ لیکن حدیثِ رسول(ص) میں صحیح سے زیادہ تو گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں لہٰذا حدیثِ رسول(ص)

۱۵۳

کے لئے کسی معصوم کا ہونا ضروری ہے جو صحیح اور جعلی حدیثوں میں امتیاز کرسکے ظاہر ہے اس کو ٖغیر معصوم انجام نہیں دے سکتا اگر چہ وہ علامہ ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح قرآن اور حدیث دونوں ایک ایسے متبحر عالم کی محتاج ہیں جو ان کے احکام و امور سے آگاہ ہو تاکہ نبی(ص) کے بعد لوگوں کے اختلاف اور جہالت کو دور کرسکے۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ خداوندِ کریم نے قرآنِ مجید میں اس  بات کی طرف اشارہ فرمایا ہےکہ قرآن کسی بیان کرنے والے کا محتاج ہے چنانچہ ارشاد ہے۔

" ہم نے تم پر قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کو وہ چیزیں بتاؤ جو ان پر  نازل کی گئی تھیں" ( نحل/۴۴)

پس اگر نبی(ص) ان چیزوں کو بیان نہ فرماتے جو ان پر نازل کی گئی تھیں تو لوگ احکامِ خدا کو قطعی نہیں جان سکتے تھے اگر چہ قرآن انھیں کی زبان میںنازل ہوا تھا۔

تو یہ واضح ہے کہ قرآن میں نماز و زکوٰۃ ، روزہ حج واجب کیا گیا ہے۔ لیکن مسلمان ان کی وضاحت کے سلسلہ میں نبی(ص) کے محتاج ہیں وہی بتائیں گے نماز کیسے ادا کی جائے  زکوۃ کا نصاب کیا ہے، روزہ کے احکام کیا ہیں اور حج کے مناسک کیا ہیں ، اگر نبی(ص) نہ ہوتے تو لوگ قرآن مجید سے ان کو  نہیں سمجھ سکتے ۔

اور جب قرآن ایسی متفق علیہ کتاب، جس میں کسی بھی سمت سے باطل داخل نہیں ہوسکتا، کسی بیان کرنے والے کی محتاج ہے تو حدیثِ نبی(ص) کسی محافظ و بیان کرنے والے کی اس سے کہیں زیادہ محتاج ہے کیوں کہ حدیث میں بہت اختلاف  اور نراکھوٹ اور جھوٹ ہے: بات تو فطری ہے بلکہ ضرورت عقل میں سے ہے کہ ہر رسالت پر مبعوث ہونے والا نبی(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے اپنا وصی اور قائم مقام بناتا ہے۔

تاکہ رسالت ان کی موت کے بعد ہی ختم نہ ہو جائے ، چنانچہ ہر  ایک نبی کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور تھا۔

۱۵۴

ایسے ہی رسول(ص) نے بھی اپنی خلافت و جانشنی کے لئے علی(ع)  کی تربیت کی تھی اور بچپنے ہی سے انھیں اخلاقِ نبوی(ص) سے آراستہ کیا اور عالمِ جوانی میں اولین و آخرین کے علم سے مزین کیا اور ایسے رموز و اسرار بتائے جنھیں کوئی  نہیں جانتا امت کو بھی بارہا بتایا کہ تمھارے درمیان یہ میرے بھائی ،میرے وصی اور میرے خلیفہ ہیں نیز فرمایا:

" میں خیرالانبیاء ہوں اور علی (ع) خیر الاوصٰیاء ہیں میرے بعد سب سے بہتر و افضل ہیں ، اور فرمایا : علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے، علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے نیز فرمایا : میں نے نزول قرآن کے سلسلہ میں جنگ و جہاد کیا ہے اور علی(ع) اس کی تاویل پر  جہاد کریں گےیہی ہیں جو میرے بعد میری امت کے اختلافی مسائل حل کریں گے۔ علی(ع) کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی ہے تھی، علی(ع)  مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں ، وہ میرے علم کا باب ہیں ۔"

( اہل سنت کے نزدیک یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں، ان کے علما نے انھیں نقل کیا ہے اور صحٰیح بتایا ہے اس سے پہلی کتابوں میں ہم ان کا تذکرہ کرچکے ہیں، اگر قارئین مصادر دیکھنا چاہتےہیں تو المراجعات کا مطالعہ فرمائیں۔)

علمی دلیل اور تاریخ و سیرت سے یہ بات ثابت ہے کہ علی(ع) تمام صحابہ کے مرجع تھے آپ(ع) کے پاس عالم و جاہل تمام صحابہ آتے تھے ۔ اہل سنت کے لئے تو اتنا ہی کافی  ہے کہ عبداللہ ابن عباس جن کو اہل سنت خیر الامت کہتے ہیں وہ علی(ع) کے شاگرد ہیں اسی طرح یہ دلیل بھی مستحکم ہے کہ مسلمانوں کے تمام علوم کا سرچشمہ حضرت علی(ع) کی ذات سے پھوٹا ہے ۔

( ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ کا مقدمہ ملاحظہ فرمائیں ۔)

بہتر یہ ہے کہ حدیث " کتاب اللہ و عترتی" کو حدیث " کتاب اللہ و سنتی" پر مقدم کیا جائے تاکہ عاقل مسلمان کے لئے اہلِ بیت(ع) سے رجوع کرنا آسان ہوجائے اور وہ ( اہل بیت (ع)

۱۵۵

بھی اس کے سامنے قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کریں۔

لیکن اگر حدیث " کتاب اللہ وسنتی " کو صحیح مان لیا جائے تو قرآن و حدیث کے سلسلہ میں مسلمان حیرت و سر گشتہ رہیں گے اور انھیں کوئی ایسا موثق مرجع نہیں ملے گا جس سے وہ سمجھ میں نہ آنے والے احکام دریافت کرسکیں ، یا ان احکام کے بارے میں استفسار کرسکیں جن کے متعلق علما کے درمیان شدید اختلاف ہے اور ائمہ مذاہب نے ان احکام کے متعلق متعدد اقوال پیش کئے ہیں یا جن اقوال میں تناقض  پایا جاتا ہے۔

ایک مذہب کو قبول کرنا اور دوسرے کو چھوڑ دینا تعصب اور اندھی تقلید ہوگی اور اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

" ان میں سے اکثر ظن کا اتباع کرتے ہیں بے شک ظن حق کے سلسلہ میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہچاسکتا "( یونس/۳۶)

قارئین محترم کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہوجائے۔

اگر ہم قرآن اٹھا کر آیت وضو پڑھیں:

"وامسحوا برؤوسکم و ارجلکم الی الکعبين" ( مائدہ/۶)

"اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پیروں کا مسح کرو۔"

تو بادی النظر میں ہم یہی سمجھیں گے کہ جس طرح سر کا مسح ایسے ہی پیروں کا بھی مسح کرنا چاہئے اور جب مسلمانوں کےعمل کو دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس مسئؒلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ تمام اہلِ سنت والجماعت سر دھوتے ہیں اور سارے شیعہ سر کا مسح کرتے ہیں۔

یہاں ہم حیرت و شک میں مبتلا ہو کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کو ن سا فعل صحیح ہے۔

اور اہلِ سنت والجماعت کے علما و مفسرین  سے رجوع کرتے ہیں تو ان کے درمیان بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس آیت میں " ارجلکم " کو دو طرح زَبر اور زِیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔

۱۵۶

پھر اہلِ سنت دونوں قرآئتوں کو صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں جو شخص " ارجلکم " کو زَبر کے ساتھ پڑھے اس کے لئے سر دھونا واجب ہے اور جو شخص زِیر کے ساتھ پڑھے اس پر سر کا مسح کرنا واجب ہے۔

پھر ہماری ملاقات اہلِ سنت کے اس عظیم عالم سے ہوتی ہے جو عربی کا ماہر ہے وہ کہتے ہیں کہ: خواہ آیت کو زبر کے ساتھ پڑھیں یا زیر کے ساتھ دونوں صورتوں میں مسح واجب ہے۔ کیوں کہ ارجل یا محل کی بنا پر منصوب ہے یا جر جوار کی وجہ سے مجرور ہے ، پھر کہتے ہیں کہ قرآن میں مسح کا حکم ہے اور حدیث میں سر دھونے کا حکم ہے۔

قارئین محترم آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ علماے اہلِ سنت کے اقوال ہمارے شک و  اضطراب کو زائل نہیں کرسکتے بلکہ ان کے آخری قول نے تو ہمارے شک مٰیں اضافہ کردیا ہے۔ کیا سنت قرآن کی مخالفت ہے ہرگز نہیں نبی(ص)  قرآن کی مخالفت نہیں کرسکتے اور وضو میں پیر کے مسح کے بجائے پیر نہیں دھوسکتے ۔ اگر نبی(ص) وضو میں پیر دھوتے تھے تو پھر صحابہ کے لئے نبی(ص) کی مخالفت  کرنا جائز نہیں تھی خواہ وہ علم و معرفت کے کسی بھی مرتبہ پر فائز ہوتے اور نبی(ص) سے قریب ہوتے جیسے علی ابن ابی طالب(ع) ، ابن عباس، اور حسن(ع) و حسین(ع) حذیفہ بن یمان اور انس بن مالک اور دیگر تمام صحابہ نے ارجل کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور اکثر صحابہ نے مسح کو واجب جانا ہے اور ائمہ اطہار(ع) کی اقتداء کرنے والے تمام شیعہ مسح کے وجوب کے قائل ہیں۔

حل کیا ہے؟!

کیا آپ نے غورنہیں  کیا کہ اس  طرح ایک مسلمان اپنے شک ہی میں مبتلا رہے گا اور جب تک اپنے معتمد علیہ سے رجوع نہیں کرے گا اس وقت تک ارہِ صواب سے نا آشنا رہے گا اور یہ نہیں جان سکے گا صحیح حکمِ خدا کیا ہے اور غلط کیا ہے؟

یہ مثال میں آپ کے سامنے قرآن مجید سے پیش کروں گا تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ علمائے اہلِ سنت کے درمیان ان چیزوں میں کس قدر اختلاف ہے۔ جنھیں نبی(ص) ایک دن میں

۱۵۷

متعدد بار انجام دیتے تھے اور تیئس سال ان پر عمل پیرا رہے۔

فرض یہ ہے کہ اصحابِ نبی(ص) ( قرآن کے ) خاص و عام سے واقف تھے بلکہ علمائے اہلسنت جب مذکور ہ آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو کچھ زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور کچھ ، مجرور پڑھتے ہیں نتیجہ میں مختلف احکام مرتب کرتے ہیں۔

کتاب خدا  کی تفسیر اور متعدد آیتوں کے مطابق احکام مرتب کرنے کے سلسلہ مٰیں علما کے درمیان شدید اختلاف ہے جیسا کہ یہ بات تحقیق کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اور جب کتابِ خدا کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے تو سنتِ نبی(ص) میں بدرجہ اولیٰ اختلاف ہوگا۔ لیکن حل کیا ہے؟

اگر آپ یہ کتہے ہیں کہ ایسے شخص  کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جو قرآن و سنت سے صحیح احکام بیان کرے تو ہم آپ سے ایسے شخص کا مطالبہ کریں گے جو کہ عاقل متکلم ہو کیونکہ قرآن و سنت ضلالت سے نہیں بچا سکتے کیونکہ دونوں صامت ہیں کچھ نہیں بول سکتے اور پھر وہ متعدد وجوہ کے حامل ہیں جیسا کہ ہم آیت وضو میں بیان کرچکے ہیں، قارئین محترم یقینا ہمارا اس بات پر اتفاق ہےکہ قرآن وسنت کےحقائق سے واقف علما کی تقلید کرنا واجب ہے ۔ رہا ایسے علما کی معرفت کا مسئلہ کہ جو حقائقِ قرآن وسنت سے واقف ہیں۔

۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ سب ہی علمائے امت اور ان کے راس  و رئیس  صحابہ حقائق  قرآن و سنت سے واقف ہیں تو ان کے اختلاف کو ہم آیت وضو اور دیگر مسائل میں ملاحظہ کر چکے ہیں اس کے علاوہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ایک دوسرے کو کافر  کہتے ہیں لہذا ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں ان میں سے حق والوں پر اعتماد کرنا صحیح ہے۔ باطل پرستوں پر صحیح نہیں ہے۔ پھر بھی مشکل حل نہیں ہوتی۔

اگر ایسی صورت میں آپ ائمہ اربعہ کی طرف رجوع کرنا چاہیں تو ان کے درمیان کا اختلاف بھی آپ پر پوشیدہ نہیں ہے ان میں سے ایک کہتا ہے کہ نماز میں بسم اللہ پڑھنا

۱۵۸

مکروہ ہے ۔ دوسرا بغیر بسم اللہ کےنماز کو باطل قرار دیتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ مذاہب ظالم حکام کی ایجاد ہیں اور یہ کہ یہ مذاہب عہد رسالت(ص) سے بہت بعد میں وجود میں آئے ہیں۔ انھیں تو صحابہ بھی نہیں جانتے تھے چہ جائیکہ نبی(ص) ان سے واقف ہوتے۔

اب ہمارے سامنے ایک ہی حل رہ جاتا ہے اور وہ ہے ائمہ اطہار(ع) کی طر ف رجوع کرنا کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور کما حقہ پاک رکھا ، وہ عالم و عامل ہیں ان کے علم و  ورع اور تحفظ  و تقوی تک کوئی نہیں پہونچ سکتا  وہ ںصِ قرآنی( انما يريد اللهليذهب عنکم الرجس اهل البيت و يطهرکم تطهيرا) اور حدیث نبوی(ص) کی رو سے وہ معصوم عن الخطا والکذب ہیں (قول نبی(ص) ہے ۔کتاب الله و عترتی ان تمسکتم  بهما لن تضلوا بعدی ابدا ۔ پس جس طرح کتاب خدا معصوم عن الخطا ہے ۔ اسی طرح عترت طاہر(ع) بھی معصوم ہے ۔ کیونکہ غیر معصوم ہدایت نہیں کرسکتا ہے اس سے خطا سرزد ہوسکتی ہے وہ خود ہدایت کا محتاج ہے۔)

خدا نے انھیں منتخب فرماکر علم کتاب کا وارث بنایا ہے رسول(ص) سے انھیں ہر اس چیز کا علم دیا ہے جس کو لوگوں کو احتیاج ہوسکتی ہے اور ان کی طرف آن حضرت(ص) نے اسی طرح امت کی راہنمائی فرمائی۔

" میرے اہلِ بیت (ع) کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پہ سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا۔"

علمائے اہل سنت میں سے ابن حجر نے اس حدیث کی شرح لکھنے اور اس کو صحیح قرار دینے کے بعد تحریر کیا ہے۔

اہلِ بیت(ع)  کو کشتی سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان سے محبت کی اور ان کی عظمت کا قائل ہوگیا اور ان کی بڑائی کا شکریہ ادا کیا اورجس نےان کے بتائے ہوئے راستہ کے مطابق عمل کیا وہ گمراہیوں سے محفوظ رہا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ کفر و ضلالت کے سمندر میں ڈوب گیا اور

۱۵۹

 طغیانیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔

ایک بات کا میں یہاں اضافہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ کو عہد صحابہ سے لیکر آج تک ملّت اسلامیہ کے گذشتہ اور موجود ہ علما میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہو کہ میں عترت نبوی(ص) کے ائمہ (ع) سے افضل ہوں اسی طرح پوری امت میں آپ کو کوئی ایسا نہیں ملے گا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے ائمہ اہلِ بیت(ع) میں سے کسی کو  تعلیم دی ہے۔ یا کسی امر کی طرف ان کی راہنمائی کی ہے۔

قارئین محترم مزید تفصیل کے لئے المراجعات اور الغدیر کا مطالعہ فرمائیں ۔ انصاف پسند حضرات کے لئے اتنا کافی ہے جتنا میں نے پیش کیا ہے۔ پس حدیث" ترکت فيکم کتاب الله و عترتی" برحق ہے ۔ اسے عقل و وجدان بھی قبول کرتی ہے اور قرآن و سنت سے بھی یہی ثابت ہے۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر ہمارے لئے  واضح دلیلوں سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ حقیقی معنوں میں شیعہ ہی اہلِ سنت ہیں ، چونکہ اہلِ سنت والجماعت نے اپنے سرداروں اور  گور و گھنٹالوں کا اتباع کیا اور انھوں نے انھیں گمراہ کردیا اور تاریکی میں انھیں پریشان و بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا اور کفر کے دریا میں غرق کردیا اور طغیانیوں میں جھونک کر ہلاک کردیا جیسا کہ ابن حجر شافعی کا قول ہے۔

الحمدلله ربَ العالمين علیٰ هدايته لعباده المخلصين

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كے لحاظ سے ہر طرح كے سازو سامان سے ليس تھا وہ حضرت موسى كے خلاف ہر طرف سے حركت ميں آگيا تھا اس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كا ايك ہى نعرہ تھا اور وہ يہ كہ اے موسى تم تو ايك زبردست جادو گر ہو ، كيونكہ موسى كى بات كو رد كرنے كا ان كے پاس اس سے بہتر كوئي جواب نہ تھا جس كے ذريعے لوگوں كے دلوں ميں وہ گھربنانا چاہتے تھے _

ليكن چونكہ خدا كسى قوم پر اس وقت تك اپنا آخرى عذاب نازل نہيں كرتا جب تك كہ اس پر خوب اچھى طرح سے اتمام حجت نہ كرلے اس لئے بعد والى آيت ميں فرمايا گيا ہے كہ ہم نے پہلے طرح طرح كى بلائيں ان پر نازل كيں كہ شايد ان كو ہوش آجائے _(۱)

''پہلے ہم نے ان پر طوفان بھيجا''

اس كے بعد قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:

''اس كے بعد ہم نے ان كى زراعتوں اور درختوں پر ٹڈيوں كو مسلط كرديا_''

روايات ميں وارد ہوا ہے كہ كہ اللہ نے ان پر ٹڈياں اس كثرت سے بھيجيں كہ انھوں نے درختوں كے شاخ و برگ كا بالكل صفايا كرديا، حتى كہ ان كے بدنوں تك كو وہ اتنا آزار پہنچاتى تھيں كہ وہ تكليف سے چيختے چلاتے تھے_

جب بھى ان پر بلا نازل ہوتى تھى تو وہ حضرت موسى عليہ السلام سے فرياد كرتے تھے كہ وہ خدا سے كہہ كر اس بلا كو ہٹواديں طوفان اور ٹڈيوں كے موقع پر بھى انھوں نے جناب موسى عليہ السلام سے يہى خواہش كى ، جس كو موسى عليہ السلام نے قبول كرليا اور يہ دونوں بلائيں برطرف ہوگئيں ، ليكن اس كے بعد پھر وہ اپنى ضد پر اتر آئے جس كے نتيجے ميں تيسرى بلا ''قمّل '' كى ان پر نازل ہوئي_

''قمّل'' سے كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان گفتگو ہوئي ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ

____________________

(۱) سورہ اعراف كى ايت ۱۳۳ ميں ان بلاو ں كا نام ليا گيا ہے

۳۴۱

ايك قسم كى نباتى آفت تھى جو زراعت كو كھاجاتى تھي_

جب يہ آفت بھى ختم ہوئي اور وہ پھر بھى ايمان نہ لائے،تو اللہ نے مينڈك كى نسل كو اس قدر فروغ ديا كہ مينڈك ايك نئي بلا كى صورت ميں ان كى زندگى ميں اخل ہوگئے_

جدھر ديكھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مينڈك نظر آتے تھے يہاں تك كہ گھروں كے اندر، كمروں ميں ، بچھونوں ميں ، دسترخوان پر كھانے كے برتنوں ميں مينڈك ہى مينڈك تھے، جس كى وجہ سے ان كى زندگى حرام ہوگئي تھي، ليكن پھر بھى انھوں نے حق كے سامنے اپنا سرنہ جھكايا اور ايمان نہ لائے_

اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط كيا_

بعض مفسرين نے كہا كہ خون سے مراد ''مرض نكسير'' ہے جو ايك وبا كى صورت ميں ان ميں پھيل گيا، ليكن بہت سے مفسرين نے لكھا ہے كہ دريائے نيل لہو رنگ ہوگيا اتنا كہ اس كا پانى مصرف كے لائق نہ رہا_

آخر ميں قرآن فرماتا ہے: '' ان معجزوں اور كھلى نشانيوں كو جو موسى كى حقانيت پر دلالت كرتى تھيں ،ہم نے ان كو دكھلايا ليكن انھوں نے ان كے مقابلہ ميں تكبر سے كام ليا اور حق كو قبول كرنے سے انكار كرديا اور وہ ايك مجرم او رگناہگار قوم تھے_''(۱)

بعض روايات ميں ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بلا ايك ايك سال كے لئے آتى تھى يعنى ايك سال طوفان و سيلاب، دوسرے سال ٹڈيوں كے دَل، تيسرے سال نباتاتى آفت، اسى طرح آخر تك، ليكن ديگر روايات ميں ہے كہ ايك آفت سے دوسرى آفت تك ايك مہينہ سے زيادہ فاصلہ نہ تھا، بہر كيف اس ميں شك نہيں كہ ان آفتوں كے درميان فاصلہ موجود تھا( جيسا كہ قرآن نے لفظ ''مفصلات'' سے تعبير كيا ہے)تاكہ ان كو تفكر كے لئے كافى موقع مل جائے_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يہ بلائيں صرف فرعون اور فرعون والوں كے دامن گير ہوتى تھيں ، بني

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۱۳۳

۳۴۲

اسرائيل اس سے محفوظ تھے، بے شك يہ اعجاز ہى تھا ،ليكن اگر نكتہ ذيل پر نظر كى جائے تو ان ميں سے بعض كى علمى توجيہہ بھى كى جاسكتى ہے_

ہميں معلوم ہے كہ مصر جيسى سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دريائے نيل كے كناروں پر آباد تھى اس كے بہترين حصے وہ تھے جو درياسے قريب تھے وہاں پانى بھى فراوان تھا اور زراعت بھى خوب ہوتى تھى ،تجارتى كشتياں وغيرہ بھى دستياب تھيں ، يہ خطے فرعون والوں اور قبطيوں كے قبضے ميں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا ركھے تھے اس كے بر خلاف اسرائيلوں كو دور دراز كے خشك اور كم آب علاقے دئے گئے تھے جہاں وہ زندگى كے يہ سخت دن گذارتے تھے كيونكہ ان كى حيثيت غلاموں جيسى تھي_

بنا بر اين يہ ايك طبيعى امر ہے كہ جب سيلاب اور طوفان آيا تو اس كے نتيجے ميں وہ آبادياں زيادہ متاثر ہوئيں جو دريائے نيل كے دونوں كناروں پر آباد تھيں ، اسى طرح مينڈھك بھى پانى سے پيدا ہوتے ہيں جو قبطيوں كے گھروں كے آس پاس بڑى مقدار ميں موجود تھے، يہى حال خون كا ہے كيونكہ رود نيل كا پانى خون ہو گيا تھا، ٹڈياں اور زرعى آفتيں بھى باغات، كھيتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ كرتى ہيں ، لہذا ان عذابوں سے زيادہ تر نقصان قبطيوں ہى كا ہوتا تھا_

جو كچھ قرآن ميں ذكر ہوا ہے اس كا ذكر موجودہ توريت ميں بھى ملتا ہے، ليكن كسى حد تك فرق كے ساتھ_(۱)

بار بار كى عہد شكنياں

قرآن ميں فرعونيوں كے اس رد عمل كا ذكر كيا گيا ہے جو انہوں نے پروردگار عالم كى عبرت انگيزاور بيدار كنندہ بلائوں كے نزول كے بعد ظاہر كيا،ان تما م قرآنى گفتگو سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ جس وقت وہ بلا كے چنگل ميں گرفتار ہو جاتے تھے،جيسا كہ عام طور سے تباہ كاروں كا دستور ہے،وقتى طور پر خواب غفلت

____________________

(۱)ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دہم توريت

۳۴۳

سے بيدار ہوجاتے تھے اور فرياد وزارى كرنے لگتے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام سے درخواست كرتے تھے كہ خدا سے ان كى نجات كے لئے دعا كريں _ چونكہ حضرت موسى عليہ السلام ان كے لئے دعا كرتے تھے اور وہ بلا ان كے سروں سے ٹل جاتى تھي،مگر ان كى حالت يہ تھى كہ جونہى وہ بلا سر سے ٹلتى تھى تو وہ تمام چيزوں كو بھول جاتے تھے اور وہ اپنى پہلى نا فرمانى اور سركشى كى حالت پر پلٹ جاتے تھے_

جس وقت ان پر بلا مسلط ہوتى تھى تو كہتے تھے:'' اے موسى ہمارے لئے اپنے خدا سے دعا كرو كہ جو عہد اس نے تم سے كيا ہے اسے پورا كرے اور تمہارى دعا ہمارے حق ميں قبول كرے،اگر تم يہ بلا ہم سے دور كردو تو ہم يہ وعدہ كرتے ہيں كہ ہم خود بھى تم پر ضرور ايمان لائيں گے اور بنى اسرائيل كو بھى يقينا تمہارے ہمرا ہ روانہ كرديں گے''_(۱)

اس كے بعد ان كى پيمان شكنى كا ذكر كيا گيا ہے،ارشاد ہوتا ہے:''جس وقت ہم ان پر سے بلائوں كو تعين شدہ مدت كے بعد ہٹا ديتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے''_(۲)

نہ خود ہى ايمان لاتے تھے اور نہ ہى بنى اسرائيل كو اسيرى سے آزاد كرتے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام ان كايك مدت معين كرتے تھے كہ فلا ں وقت يہ بلا بر طرف ہوجائے گى تاكہ ان پر اچھى طرح كھل جائے كہ يہ بلا كوئي اتفاقى حادثہ نہ تھا بلكہ حضرت موسى عليہ السلام كى دعا كى وجہ سے تھا_

موسى عليہ السلام كے پاس سونے كے كنگن كيوں نہيں ؟

حضرت موسى عليہ السلام كى منطق ايك طرف ان كے مختلف معجزات دوسرى طرف مصر كے لوگوں پر نازل ہونيوالى بلائيں جو موسى عليہ السلا م كى دعا كى بركت سے ٹل جاتى تھيں تيسرى طرف،ان سب اسباب نے مجموعى طور پر اس ماحول پر گہرے اثرات ڈالے اور فرعون كے بارے ميں لوگوں كے افكار كو ڈانواں ڈول

____________________

()اعراف آيت ۱۳۴

(۲)سورہ اعراف ايت ۱۳۵

۳۴۴

كرديا اور انھيں پورے مذہبى اور معاشرتى نظام كے بارے ميں سوچنے پر مجبور كرديا_

اس موقع پر فرعون نے دھوكہ دھڑى كے ذريعہ موسى عليہ السلام كا اثر مصرى لوگوں كے ذہن سے ختم كرنے كى كوشش كى اور پست اقدار كا سہارا ليا جو اس ماحول پر حكم فرماتھا، انھيں اقدار كے ذريعہ اپنا اور موسى عليہ السلام كا موازنہ شروع كرديا تا كہ اس طرح لوگوں پر اپنى برترى كو پايہ ثبوت تك پہنچائے، جيسا كہ قرآن پاك فرماتا ہے:

''اور فرعون نے اپنے لوگوں كو پكار كر كہا:اے ميرى قوم آيا مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر ميرى حكومت نہيں ہے اور كيا يہ عظيم دريا ميرے حكم سے نہيں بہہ رہے ہيں اور ميرے محلوں ،كھيتوں اور باغوں سے نہيں گررہے ہيں ؟كيا تم ديكھتے نہيں ہو؟''(۱)

ليكن موسى عليہ السلام كے پاس كيا ہے،كچھ بھى نہيں ، ايك لاٹھى اور ايك اونى لباس اور بس ،تو كيا اس كى شخصيت بڑى ہوگى يا ميري؟ آيا وہ سچ بات كہتا ہے يا ميں ؟اپنى آنكھيں كھولوں اور بات اچھى طرح سمجھنے كى كوشش كرو_ اس طرح فرعون نے مصنوعى اقدار كو لوگوں كے سامنے پيش كيا،بالكل ويسے ہى جيسے عصر جاہليت كے بت پرستوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے مقابلے ميں مال و مقام كو صحيح انسانى اقدار سمجھ ركھا تھا_

لفظ''نادى ''(پكار كر كہا )سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے اپنى مملكت كے مشاہير كى ايك عظيم محفل جمائي اور بلند آواز كے ساتھ ان سب كو مخاطب كرتے ہوئے يہ جملے ادا كيے،يا حكم ديا كہ اس كى اس آواز كو ايك سركارى حكم نامے كے ذريعے پورے ملك ميں بيان كيا جائے_

قرآن آگے چل كر فرماتا ہے كہ فرعون نے كہا:''ميں اس شخص سے برتر ہوں جو ايك پست خاندان اور طبقے سے تعلق ركھتا ہے_اور صاف طور پر بات بھى نہيں كرسكتا''_(۲)

اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حكومت مصر اور نيل كى مملكت)اور موسى

____________________

(۱)سورہ زخرف آيت ۵۱

(۲)سورہ زخرف آيت ۵۲

۳۴۵

عليہ السلام كے دوكمزور پہلو(فقر اور لكنت زبان) بيان كرديئے_

حالانكہ اس وقت حضرت موسى عليہ السلام كى زبان ميں لكنت نہ تھي_كيونكہ خدا نے ان كى دعا كو قبول فرماليا تھا اور زبان كى لكنت كو دور كرديا تھا كيونكہ موسى عليہ السلام نے مبعوث ہوتے ہى خداسے يہ دعا مانگى تھى كہ _''خدا وندا ميرى زبان كى گرہيں كھول دے''_(۱) اور يقينا ان كى دعا قبول ہوئي اور قرآن بھى اس بات پر گواہ ہے_ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چكاچوند كرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم كے ذريعے حاصل ہوتے ہيں _ ان كا مالك نہ ہونا صرف عيب كى بات ہى نہيں بلكہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت كا سبب بھى ہے_

''مھين''(پست)كى تعبير سے ممكن ہے اس دور كے اجتماعى طبقات كى طرف اشارہ ہو، كيونكہ اس دور ميں بڑے بڑے سرمايہ داروں كا معاشرہ كے بلند طبقوں ميں شمار ہوتا تھا او رمحنت كشوں اور كم آمدنى والے لوگوں كا پست طبقے ميں ،يا پھر ممكن ہے موسى عليہ السلام كى قوم كى طرف اشارہ ہو كيونكہ ان كا تعلق بنى اسرائيل سے تھا اور فرعون كى قبطى قوم اپنے آپ كو سردار اور آقا سمجھتى تھي_ پھر فرعون دو اور بہانوں كا سہارا ليتے ہوئے كہتا ہے:''اسے سونے كے كنگن كيوں نہيں ديئے اور اس كے لئے مددگار كيوں نہيں مقرر كئے تاكہ وہ اس كى تصديق كريں ؟'' اگر خدا نے اسے رسول بنايا ہے تو دوسرے رسول كى طرح طلائي كنگن كيوں نہيں دئے گئے اور اس كے لئے مدد گار كيوں نہيں مقرر كئے گئے_

كہتے ہيں كہ فرعونى قوم كا عقيدہ تھا كہ روساء اور سر براہوں كو ہميشہ طلائي كنگنوں اور سونے كے ہاروں سے مزين ہونا چاہيئےور چونكہ موسى عليہ السلام كے پاس اس قسم كے زيورات نہيں تھے بلكہ ان زيورات كے بجائے وہ چرواہوں والا موٹا سا اونى كرتا زيب تن كئے ہوئے تھے،لہذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب كا اظہار كيا اور يہى حال ان لوگوں كا ہوتا ہے جو انسانى شخصيت كے پركھنے كا معيار سونا،چاندى اور دوسرے زيورات كو سمجھتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۲۷

۳۴۶

جناب موسى اورہارون عليہما السلام كے اونى لباس

اس بارے ميں ايك نہايت عمدہ بيان آيا ہے ،امام على بن ابى طالب عليہما السلام فرماتے ہيں :موسى عليہ السلام اپنے بھائي(ہارون) كے ساتھ فرعون كے دربار ميں پہنچے دونوں كے بدن پراونى لباس اور ہاتھوں ميں عصا تھا اس حالت ميں انھوں نے شرط پيش كى كہ اگر فرمان الہى كے سامنے جھك جائے تو اس كى حكومت اور ملك باقى اور اقتدار قائم و برقرار رہے گا،ليكن فرعون نے حاضرين سے كہا:تمہيں ان كى باتوں پر تعجب نہيں ہوتا كہ ميرے ساتھ شرط لگا رہے ہيں كہ ميرے ملك كى بقا اور ميرى عزت كا دوام ان كى مرضى كے ساتھ وابستہ ہے جبكہ ان كا اپنا حال يہ ہے كہ فقر و تنگدستى ان كى حالت اور صورت سے ٹپك رہى ہے(اگر يہ سچ كہتے ہيں تو)خود انھيں طلائي كنگن كيوں نہيں ديئے گئے_

دوسرا بہانہ وہى مشہور بہانہ ہے جو بہت سى گمراہ اور سركش امتيں انبياء كرام عليہم السلام كے سامنے پيش كيا كرتى تھيں ،كبھى تو كہتى تھيں كہ''وہ انسان كيوں ہے اور فرشتہ كيوں نہيں ؟اور كبھى كہتى تھى كہ اگر وہ انسان ہے تو پھر كم از كم اس كے ہمراہ كوئي فرشتہ كيوں نہيں آيا؟''

حالانكہ انسانوں كى طرف بھيجے ہوئے رسولوں كوروح انسانى كا حامل ہونا چاہئے تا كہ وہ ان كى ضرورتوں ،مشكلوں اور مسائل كو محسوس كرسكيں اور انہيں ان كا جواب دے سكيں اور عملى لحاظ سے ان كے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسكيں _

چوتھا مرحلہ انقلاب كى تياري

حضرت موسى عليہ السلام ميدان مقابلہ ميں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز ہوكر ميدان سے باہر آئے اگر چہ فرعون اور اس كے تمام دربارى ان پر ايمان نہ لائے ليكن اس كے چند اہم نتائج ضرور برآمد ہوئے،جن ميں سے ہر ايك اہم كاميابى شمار ہوتا ہے_

۱_بنى اسرائيل كا اپنے رہبر اور پيشوا پر عقيدہ مزيد پختہ ہوگيا اور انھيں مزيد تقويت مل گئي چنانچہ ايك

۳۴۷

دل اور ايك جان ہو كر ان كے گرد جمع ہوگئے كيونكہ انھوں نے سالہا سال كى بدبختى اور دربدر كى ٹھوكريں كھانے كے بعد اب اپنے اندر كسى آسمانى پيغمبر كو ديكھا تھا جو كہ ان كى ہدايت كابھى ضامن تھا اور ان كے انقلاب،آزادى اور كاميابى كا بھى رہبر تھا_

۲_موسى عليہ السلام نے مصريوں اور قبطيوں تك كے درميان ايك اہم مقام حاصل كرليا_ كچھ لوگ ان كى طرف مائل ہوگئے اور جو مائل نہيں ہوئے تھے وہ كم ازكم كم ان كى مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسى عليہ السلام كى صدائے دعوت تمام مصر ميں گونجنے لگي_

۳_سب سے بڑھ كر يہ كہ فرعون عوامى افكار اور اپنى جان كو لاحق خطرے سے بچائو كے لئے اپنے اندر ايسے شخص كے ساتھ مقابلے كى طاقت كھوچكا تھا جس كے ہاتھ ميں اس قسم كا عصا اور منہ ميں اس طرح كى گويا زبان تھي_

مجموعى طور پر يہ امور موسى عليہ السلام كے لئے اس حد تك زمين ہموار كرنے ميں معاون ثابت ہوئے كہ مصريوں كے اندر ان كے پائوں جم گئے اور انھوں نے كھل كر اپنا تبليغى فريضہ انجام ديا اور اتمام حجت كي_

قرآن ميں فرعونيوں كے خلاف بنى اسرائيل كے قيام اور انقلاب كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے_پہلى بات يہ ہے كہ خدا فرماتا ہے:''ہم نے موسى اور اس كے بھائي كى طرف وحى كى كہ سرزمين مصر ميں اپنى قوم كے لئے گھروں كا انتخاب كرو''_(۱)

''اور خصوصيت كے ساتھ ان گھروں كو ايك دوسرے كے قريب اور آمنے سامنے بنائو''_(۲)

پھر روحانى طور پر اپنى خود سازى اور اصلاح كرو''اور نماز قائم كرو_''اس طرح سے اپنے نفس كو پاك اور قوى كرو_(۳)

____________________

(۱)سورہ يونس آيت۸۷

(۲)سورہ يونس آيت۸۷

(۳)سورہ يونس آيت۸۷

۳۴۸

اور اس لئے كہ خوف اور وحشت كے آثار ان كے دل سے نكل جائيں اور وہ روحانى و انقلابى قوت پاليں ''مومنين كوبشارت دو''كاميابى اور خدا كے لطف و رحمت كى بشارت_(۱)

زير بحث آيات كے مجموعى مطالعے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس زمانے ميں بنى اسرائيل منتشر،شكست خوردہ،وابستہ،طفيلي،آلودہ اور خوف زدہ گروہ كى شكل ميں تھے،نہ ان كے پاس گھر تھے نہ كوئي مركز تھا،نہ ان كے پاس معنوى اصلاح كا كوئي پروگرام تھا اور نہ ہى ان ميں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شكست دينے والے انقلاب كے لئے ضرورى ہوتا ہے_لہذا حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي حضرت ہارون عليہ السلام كو حكم ملاكہ وہ بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے خصوصاً روحانى حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع كريں _

۱_مكان تعمير كريں اور اپنے مكانات فرعونيوں سے الگ بنائيں _ اس ميں متعدد فائدے تھے_

ايك يہ كہ سرزمين مصر ميں ان كے مكانات ہوں گے تو وہ اس كا دفاع زيادہ لگائو سے كريں گے_

دوسرا يہ كہ قبطيوں كے گھروں ميں طفيلى زندگى گزارنے كے بجائے وہ اپنى ايك مستقل زندگى شروع كرسكيں گے_

تيسرا يہ كہ انكے معاملات اور تدابير كے راز دشمنوں كے ہاتھ نہيں لگيں گے_

۲_اپنے گھر ايك دوسرے كے آمنے سامنے اور قريب قريب بنائيں ،بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے يہ ايك موثر كام تھا اس طرح سے وہ اجتماعى مسائل پر مل كر غور فكر كرسكتے تھے اور مذہبيمراسم كے حوالے سے جمع ہوكر اپنى آزادى كے لئے ضرورى پروگرام بنا سكتے تھے_

۳_عبادت كى طرف متوجہ ہوں ،خصوصاً نماز كى طرف كہ جو انسان كو بندوں كى بندگى سے جدا كرتى ہے اور اس كا تعلق تمام قدرتوں كے خالق سے قائم كرديتى ہے_ اس كے دل اور روح كو گناہ كى آلودگى سے

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۸۷

۳۴۹

پاك كرتى ہے اپنے آپ پر بھروسہ كرنے كا احساس زندہ كرتى ہے اورقدرت پروردگار كا سہارا لے كر انسانى جسم ميں ايك تازہ روح پھونك ديتى ہے_

۴_ايك رہبر كے طور پر حضرت موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى روحوں ميں موجود طويل غلامى اور ذلت كے دور كا خوف ووحشت نكال باہر پھينكيں اور حتمى فتح ونصرت،كاميابى اور پروردگار كے لطف وكرم كى بشارت دے كر مومنين كے ارادے كو مضبوط كريں اور ان ميں شہامت و شجاعت كى پرورش كريں _

اس روش كو كئي سال گزر گئے اور اس دوران ميں موسى عليہ السلام نے اپنے منطقى دلائل كے ساتھ ساتھ انھيں كئي معجزے بھى دكھائے _

ہم نے انھيں باہر نكال ديا

جب موسى عليہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت كرچكے اور مومنين ومنكرين كى صفيں ايك دوسرے سے جدا ہوگئيں تو موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كے كوچ كرنے كا حكم دے ديا گيا، چنانچہ قرآن نے اس كى اسطرح منظر كشى كى _

سب سے پہلے فرمايا گياہے:''ہم نے موسى پر وحى كى كہ راتوں رات ميرے بندوں كو(مصر سے باہر)نكال كرلے جائو،كيونكہ وہ تمہارا پيچھا كرنے والے ہيں ''_(۱)

موسى عليہ السلام نے اس حكم كى تعميل كى اور دشمن كى نگاہوں سے بچ كر بنى اسرائيل كو ايك جگہ اكٹھا كرنے كے بعد كوچ كا حكم ديا اور حكم خدا كے مطابق رات كو خصوصى طور پر منتخب كيا تاكہ يہ منصوبہ صحيح صورت ميں تكميل كو پہنچے_

ليكن ظاہر ہے كہ اتنى بڑى تعداد كى روانگى ايسى چيز نہيں تھى جو زيادہ دير تك چھپى رہ جاتي_ جاسوسوں

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۵۲

۳۵۰

نے جلد ہى اس كى رپورٹ فرعون كو دے دى اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' فرعون نے اپنے كارندے مختلف شہروں ميں روانہ كرديئے تا كہ فوج جمع كريں ''_(۱)

البتہ اس زمانے كے حالات كے مطابق فرعون كا پيغام تمام شہروں ميں پہنچانے كے لئے كافى وقت كى ضرورت تھى ليكن نزديك كے شہروں ميں يہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئي اور پہلے سے تيار شدہ لشكر فوراً حركت ميں آگئے اور مقدمة الجيش اور حملہ آور لشكر كى تشكيل كى گئي اور دوسرے لشكر بھى آہستہ آہستہ ان سے آملتے رہے_

ساتھ ہى لوگوں كے حوصلے بلند ركھنے اور نفسياتى اثر قائم ركھنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ اس بات كا اعلان كرديا جائے كہ''وہ تو ايك چھوٹا سا گروہ ہے''_(۲) (تعداد كے لحاظ سے بھى كم اور طاقت كے لحاظ سے بھى كم)_

لہذا اس چھوٹے سے كمزور گروہ كے مقابلے ميں ہم كامياب ہوجائيں گے گھبرانے كى كوئي بات نہيں _كيونكہ طاقت اور قوت ہمارے پاس زيادہ ہے لہذا فتح بھى ہمارى ہى ہوگي_

فرعون نے يہ بھى كہا:'' آخر ہم كس حد تك برداشت كريں اور كب تك ان سركش غلاموں كے ساتھ نرمى كا برتائو كرتے رہيں ؟انھوں نے تو ہميں غصہ دلايا ہے''_(۳)

آخر كل مصر كے كھيتوں كى كون آبپاشى كرے گا؟ہمارے گھر كون بنائے گا؟اس وسيع و عريض مملكت كا كون لوگ بوجھ اٹھائيں گے؟اور ہمارى نوكرى كون كرے گا؟

اس كے علاوہ'' ہميں ان لوگوں كى سازشو ں سے خطرہ ہے(خواہ وہ يہاں رہيں يا كہيں اور چلے جائيں )اور ہم ان سے مقابلہ كے لئے مكمل طور پر آمادہ اور اچھى طرح ہوشيار ہيں ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۳

(۲)سورہ شعراء آيت ۵۴

(۳)سورہ شعراء آيت۵۵

(۴)سورہ شعراء آيت ۵۶

۳۵۱

پھر قرآن پاك فرعونيوں كے انجام كا ذكر كرتا ہے اور اجمالى طور پر ان كى حكومت كے زوال اور بنى اسرائيل كے اقتدار كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے:''ہم نے انھيں سر سبز باغات اور پانى سے لبريز چشموں سے باہر نكال ديا''_(۱) خزانوں ،خوبصورت محلات اور آرام و آسائش كے مقامات سے بھى نكال ديا_

ہاں ہاں ہم نے ايسا ہى كيا اور بنى اسرائيل كو بغير كسى مشقت كے يہ سب كچھ دےديا اور انھيں فرعون والوں كا وارث بناديا_(۲)(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۷تا۵۹

(۲)سورہ شعراء ايت ۵۹

(۳)آيا بنى اسرائيل نے مصر ميں حكومت كى ہے؟

خدا وند عالم قران مجيد ميں فرماتا ہے كہ ہم نے بنى اسرائيل كو فرعون والوں كا وارث بنايا_ اسى تعبير كى بناء پر بعض مفسرين كى يہ رائے ہے كہ بنى اسرائيل كے افراد مصر كى طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حكومت و اقتدار اپنے قبضے ميں لے كر مدتوں وہاں حكومت كرتے رہے_

آيات بالا كا ظاہرى مفہوم بھى اسى تفسير سے مناسبت ركھتا ہے_

جبكہ بعض مفسرين كى رائے يہ ہے كہ وہ لوگ فرعونيوں كى ہلاكت كے بعد مقدس سرزمينوں كى طرف چلے گئے البتہ كچھ عرصے كے بعد مصر واپس آگئے اور وہاں پر اپنى حكومت تشكيل دي_ تفسير كے اسى حصے كے ساتھ موجودہ توريت كى فصول بھى مطابقت ركھتى ہيں _

بعض دوسرے مفسرين كا خيال ہے كہ بنى اسرائيل دوحصوں ميں بٹ گئے_ايك گروہ مصر ميں رہ گيا اور وہيں پر حكومت كى اور ايك گروہ موسى عليہ السلام كے ساتھ سر زمين مقدس كى طرف روانہ ہو گيا_ يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ بنى اسرائيل كے وارث ہونے سے مراد يہ ہے كہ انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كے بعد اور جناب حضرت سليمان عليہ السلام كے زمانے ميں مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر حكومت كي_ ليكن اگر اس بات پر غور كيا جائے كہ حضرت موسى عليہ السلام چونكہ انقلابى پيغمبر تھے لہذا يہ بات بالكل بعيد نظر آتى ہے كہ وہ ايسى سر زمين كو كلى طور پر خير باد كہہ كر چلے جائيں جس كى حكومت مكمل طور پر انھيں كے قبضہ اور اختيارميں آچكى ہو اور وہ وہاں كے بارے ميں كسى قسم كا فيصلہ كئے بغير بيابانوں كى طرف چل ديں خصوصاً جب كہ لاكھوں بنى اسرائيلى عرصہ دراز سے وہاں پر مقيم بھى تھے اور وہاں كے ماحول سے اچھى طرح واقف بھى تھے_ بنابريں يہ كيفيت دوحال سے خالى نہيں يا تو تمام بنى اسرائيلى مصر ميں واپس لوٹ آئے اور حكومت تشكيل دي،يا كچھ لوگ جناب موسى عليہ السلام كے حكم كے مطابق وہيں رہ گئے تھے اور حكومت چلاتے رہے اس كے علاوہ فرعون او رفرعون والوں كے باہر نكال دينے او ربنى اسرائيل كو ان كا وارث بنادينے كا اور كوئي واضح مفہوم نہيں ہوگا_

۳۵۲

فرعونيوں كا درناك انجام

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام اور فرعون كى داستان كا آخرى حصہ پيش كيا گيا ہے كہ فرعون اور فرعون والے كيونكر غرق ہوئے اور بنى اسرائيل نے كس طرح نجات پائي؟ جيسا كہ ہم گزشتہ ميں پڑھ چكے ہيں كہ فرعون نے اپنے كارندوں كو مصر كے مختلف شہروں ميں بھيج ديا تاكہ وہ بڑى تعداد ميں لشكر اور افرادى قوت جمع كرسكيں چنانچہ انھوں نے ايسا ہى كيا اور مفسرين كى تصريح كے مطابق فرعون نے چھ لاكھ كا لشكر مقدمہ الجيش كى صورت ميں بھيج ديا اور خود دس لاكھ كے لشكر كے ساتھ ان كے پيچھے پيچھے چل ديا _

سارى رات بڑى تيزى كے ساتھ چلتے رہے اورطلوع آفتاب كے ساتھ ہى انھوں نے موسى عليہ السلام كے لشكر كو پاليا، چنانچہ اس سلسلے كى پہلى آيت ميں فرمايا گيا ہے : فرعونيووں نے ان كا تعاقب كيا اور طلوع آفتاب كے وقت انھيں پاليا_

''جب دونوں گروہوں كا آمناسامنا ہوا تو موسى عليہ السلام كے ساتھى كہنے لگے اب تو ہم فرعون والوں كے نرغے ميں آگئے ہيں اور بچ نكلنے كى كوئي راہ نظر نہيں آتى ''_(۱)

ہمارے سامنے دريا اور اس كى ٹھاٹھيں مارتى موجيں ہيں ، ہمارے پيچھے خونخوارمسلح لشكر كا ٹھاٹھيں مارتا سمندر ہے لشكر بھى ايسے لوگوں كا ہے جو ہم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ہيں ، جنھوں نے اپنى خونخوارى كا ثبوت ايك طويل عرصے تك ہمارے معصوم بچوں كو قتل كركے ديا ہے اور خود فرعون بھى بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ہے لہذا وہ فوراً ہمارا محاصرہ كركے ہميں موت كے گھاٹ اتارديں گے ياقيدى بنا كر تشدد كے ذريعے ہميں واپس لے جائيں گے قرائن سے بھى ايسا ہى معلوم ہورہا تھا _

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت۶۱

۳۵۳

اپنے عصا كو دريا پر ماردو

اس مقام پر بنى اسرائيل پر كرب و بے چينى كى حالت طارى ہوگئي اور ان كا ايك ايك لمحہ كرب واضطراب ميں گزر نے لگا يہ لمحات ان كے لئے زبردست تلخ تھے شايد بہت سے لوگوں كا ايما ن بھى متزلزل ہوچكا تھا اور بڑى حدتك ان كے حوصلے پست ہوچكے تھے _

ليكن جناب موسى عليہ السلام حسب سابق نہايت ہى مطمئن اور پر سكون تھے انھيں يقين تھا كہ بنى اسرائيل كى نجات اورسركش فرعونيوں كى تباہى كے بارے ميں خدا كا فيصلہ اٹل ہے اور وعدہ يقينى ہے _

لہذا انھوں نے مكمل اطمينان اور بھرپور اعتمادكے ساتھ بنى اسرائيل كى وحشت زدہ قوم كى طرف منہ كركے كہا: ''ايسى كوئي بات نہيں وہ ہم پر كبھى غالب نہيں آسكيں گے كيونكہ ميرا خدا ميرے ساتھ ہے اور وہ بہت جلدى مجھے ہدايت كرے گا ''_(۱)

اسى موقع پر شايد بعض لوگوں نے موسى كى باتو ں كو سن تو ليا ليكن انھيں پھر بھى يقين نہيں آرہا تھا اور وہ اسى طرح زندگى كے آخرى لمحات كے انتظار ميں تھے كہ خدا كا آخرى حكم صادر ہوا، قرآن كہتا ہے :'' ہم نے فوراً موسى كى طرف وحى بھيجى كہ اپنے عصا كودريا پرمارو''_(۲)

وہى عصاجو ايك دن تو ڈرانے كى علامت تھا اور آج رحمت اور نجات كى نشانى _

موسى عليہ السلام نے تعميل حكم كى اور عصا فوراًدرياپر دے مارا تو اچانك ايك عجيب وغريب منظر ديكھنے ميں آيا جس سے بنى اسرائيل كى آنكھيں چمك اٹھيں اور ان كے دلو ں ميں مسرت كى ايك لہردوڑگئي، ناگہانى طور پر دريا پھٹ گيا، پانى كے كئي ٹكڑے بن گئے اور ہر ٹكڑا ايك عظيم پہاڑ كى مانند بن گيا اور ان كے درميان ميں راستے بن گئے_(۳)

بہرحال جس كا فرمان ہر چيز پر جارى اور نافذ ہے اگر پانى ميں طغيانى آتى ہے تو اس كے حكم سے اور

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۶۲

(۲)سورہ شعراء آيت۶۳

(۳)سورہ شعراء آيت ۶۳

۳۵۴

اگر طوفانوں ميں حركت آتى ہے تو اس كے امر سے ، وہ خدا كہ :

نقش ہستى نقشى ازايوان

اوست آب وبادوخاك سرگردان اوست

اسى نے دريا كى موجوں كو حكم ديا امواج دريا نے اس حكم كو فورا ًقبول كياايك دوسرے پر جمع پرہوگئيں اور ان كے درميان كئي راستے بن گئے اور بنى اسرائيل كے ہر گروہ نے ايك ايك راستہ اختيار كرليا _

فرعون اور اس كے ساتھى يہ منظر ديكھ كر حيران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشكار معجزہ ديكھنے كے باوجود تكبر اور غرور كى سوارى سے نہيں اترے، انھوں نے موسى عليہ السلام اور بنى اسرائيل كا تعاقب جارى ركھا اور اپنے آخرى انجام كى طرف آگے بڑھتے رہے جيسا كہ قرآن فرماتاہے :''اور وہاں پر دوسرے لوگوں كو بھى ہم نے نزديك كرديا''_

اس طرح فرعونى لشكر دريائي راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں كے پيچھے دوڑتے رہے جنھوں نے اب اس غلامى كى زنجيريں توڑدى تھيں ليكن انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ يہ ان كى زندگى كے آخرى لمحات ہيں اور ابھى عذاب كا حكم جارى ہونے والا ہے _

قرآن كہتا ہے :''ہم نے موسى اور ان تمام لوگوں كو نجات دى جوان كے ساتھ تھے _''(۱)

ٹھيك اس وقت جبكہ بنى اسرائيل كا آخرى فرددريا سے نكل رہا تھا اور فرعونى لشكر كا آخرى فرد اس ميں داخل ہورہاتھا ہم نے پانى كو حكم ديا كہ اپنى پہلى حالت پر لوٹ ا،اچانك موجيں ٹھاٹھيں مارنے لگيں اور فرغون اور اس كے لشكر كو گھاس پھونس اور تنكوں كى طرح بہاكرلے گئيں اور صفحہ ہستى سے ان كانام ونشان تك مٹاديا _

قرآن نے ايك مختصرسى عبارت كے ساتھ يہ ماجرايوں بيان كيا ہے : پھر ہم نے دوسروں كو غرق كرديا_''(۲)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۶۵

(۲)سورہ شعراء آيت ۶۶

۳۵۵

اے فرعون تيرا بدن لوگوں كے لئے عبرتناك ہوگا

بہر كيف يہ معاملہ چل رہا تھا '' يہاں تك كہ فرعون غرقاب ہونے لگا اور وہ عظيم دريائے نيل كى موجوں ميں تنكے كى طرح غوطے كھانے لگا تو اس وقت غرور وتكبر اور جہالت وبے خبرى كے پردے اس كى آنكھوں سے ہٹ گئے اور فطرى نور توحيد چمكنے لگا وہ پكاراٹھا :'' ميں ايمان لے آيا كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں كہ جس پر بنى اسرائيل ايمان لائے ہيں ''_(۱)

كہنے لگا كہ نہ صرف ميں اپنے دل سے ايمان لايا ہوں '' بلكہ عملى طور پر بھى ايسے توانا پروردگار كے سامنے سرتسليم خم كرتا ہوں ''_(۲)

درحقيقت جب حضرت موسى كى پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے وقوع پذير ہوئيں اور فرعون اس عظيم پيغمبر كى گفتگو كى صداقت سے آگاہ ہوا اور اس كى قدر ت نمائي كامشاہدہ كيا تو اس نے مجبوراً اظہار ايمان كيا، اسے اميد تھى كہ جيسے ''بنى اسرائيل كے خدا'' نے انھيں كوہ پيكر موجوں سے سے نجات بخشى ہے اسے بھى نجات دے گا، لہذا وہ كہنے لگاميں اسى بنى اسرائيل كے خدا پر ايمان لايا ہوں ، ليكن ظاہر ہے كہ ايسا ايمان جو نزول بلا اور موت كے چنگل ميں گرفتار ہونے كے وقت ظاہر كيا جائے، در حقيقت ايك قسم كا اضطرارى ايمان ہے، جس كا اظہار سب مجرم اور گناہگار كرتے ہيں ، ايسے ايمان كى كوئي قدر و قيمت نہيں ہوتي، اور نہ يہ حسن نيت اور صدق گفتار كى دليل ہوسكتا ہے_

اسى بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:'' تو اب ايمان لايا ہے حالانكہ اس سے پہلے تو نافرمانى اورطغيان كرنے والوں ، مفسدين فى الارض اور تباہ كاروں كى صف ميں تھا''(۳)

''ليكن آج ہم تيرے بدن كو موجوں سے بچاليں گے تاكہ تو آنے والوں كے لئے درس عبرت ہو، برسراقتدار مستكبرين كے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں كےلئے اور مستضعف گروہوں كے لئے بھى ''

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۹۰

(۲)سورہ يونس آيت ۹۰

(۳)سورہ يونس آيت ۹۰

۳۵۶

يہ كہ''بدن سے مراد يہاں كيا ہے ،اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے ان ميں سے اكثر كا نظريہ ہے كہ اس سے مراد فرعون كا بے جان جسم ہے كيونكہ اس ماحول كے لوگوں كے ذہن ميں فرعون كى اس قدر عظمت تھى كہ اگر اس كے بدن كو پانى سے باہرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ يقين ہى نہ كرتے كہ اس كا غرق ہونا بھى ممكن ہے اور ہوسكتا تھا كہ اس ماجرے كے بعد فرعون كى زندگى كے بارے ميں افسانے تراش لئے جاتے _

يہ امر جاذب توجہ ہے كہ لغت ميں لفظ '' بدن'' جيسا كہ راغب نے مفردات ميں كہا ہے '' جسد عظيم'' كے معنى ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بہت سے خوشحال لوگوں كى طرح كہ جنكى بڑى زرق برق افسانوى زندگى تھى وہ بڑا سخت اور چاك وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے كہاہے كہ''بدن'' كا ايك معني'' زرہ'' بھى ہے يہ اس طرف اشارہ ہے كہ خدا نے فرعون كو اس زريں زرہ سميت پانى سے باہر نكالاكہ جو اس كے بدن پر تھى تاكہ اس كے ذريعے پہچاناجائے اور كسى قسم كا شك وشبہ باقى نہ رہے _

اب بھى مصر اور برطانيہ كے عجائب گھروں ميں فرعونيوں كے موميائي بد ن موجود ہيں كيا ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كے ہم عصر فرعون كا بدن بھى ہے كہ جسے بعد ميں حفاظت كے لئے مومياليا گيا ہويا نہيں ؟ اس سلسلے ميں كوئي صحيح دليل ہمارے پاس نہيں ہے _

بنى اسرائيل كى گذرگاہ

قرآن مجيد ميں بارہا اس بات كو دہرايا گيا ہے كہ موسى عليہ السلام نے خدا كے حكم سے بنى اسرائيل كو'' بحر'' عبور كروايا اورچند مقامات پر''يم'' كا لفظ بھى ايا ہے _

اب سوال يہ ہے كہ يہاں پر ''يم'''' بحر'' اور '' يم'' سے كيا مراد ہے آيايہ نيل ( NILE RIYER ) جيسے وسيع وعريض دريا كى طرف اشارہ ہے كہ سرزمين مصر كى تمام آبادى جس سے سيراب ہوتى تھى يا بحيرہ احمريعنى بحر قلزم ( RID SEA )كى طرف اشارہ ہے _

۳۵۷

موجودہ تو ريت اور بعض مفسرين كے انداز گفتگو سے معلوم ہوتاہے كہ بحيرہ احمر كى طرف اشارہ ہے ليكن ايسے قرائن موجود ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد نيل كا عظيم ووسيع دريا ہے _

حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كى فرمائش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى سرگزشت كے ايك اور اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ واقعہ فرعونيوں پر ان كى فتحيابى كے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستى كى جانب ان كى توجہ ظاہر ہوتى ہے _

واقعہ يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے جھگڑے سے نكل چكے تو ايك اور داخلى مصيبت شروع ہوگئي جو بنى اسرائيل كے جاہل ، سركش اور فرعون اور فرعونيوں كے ساتھ جنگ كرنے سے بدر جہا سخت اور سنگين تر تھى اور ہر داخلى كشمكش كا يہى حال ہواكرتا ہے _قرآن ميں فرماياگيا ہے:'' ہم نے بنى اسرائيل كو دريا (نيل) كے اس پار لگا ديا :''

ليكن '' انہوں نے راستے ميں ايك قوم كو ديكھا جو اپنے بتوں كے گرد خضوع اور انكسارى كے ساتھ اكٹھا تھے'' _(۱) امت موسى عليہ السلام كے جاہل افراد يہ منظر ديكھ كر اس قدر متاثر ہوئے كہ فوراً حضرت موسى كے پاس آئے اور '' وہ كہنے لگے اے موسى ہمارے واسطے بھى بالكل ويسا ہى معبود بنادو جيسا معبود ان لوگوں كا ہے''_(۲) حضرت موسى عليہ السلام ان كى اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے كہا: ''تم لوگ جاہل وبے خبر قوم ہو''_(۳)

بنى اسرائيل ميں ناشكر گزار افراد كى كثرت تھي،باوجود يكہ انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے اتنے معجزے ديكھے، قدرت كے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان كا دشمن فرعون نابود ہوا ابھى كچھ عرصہ بھى نہيں گذرا تھا، وہ غرق كرديا گيا اور وہ سلامتى كے ساتھ دريا كو عبور كرگئے ليكن انہوں نے ان تمام باتوں كو يكسر بھلاديا اور حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كا سوال كربيٹھے_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۳)سورہ اعراف ۱۳۸

۳۵۸

ايك يہودى كو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام كا جواب

نہج البلاغہ ميں ہے كہ ايك مرتبہ ايك يہودى نے حضرت اميرالمو منين عليہ السلام كے سامنے مسلمانوں پر اعتراض كيا:

''ابھى تمہارے نبى دفن بھى نہ ہونے پائے تھے كہ تم لوگوں نے اختلاف كرديا ''_

حضرت على عليہ السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا :

ہم نے ان فرامين واقوال كے بارے ميں اختلاف كيا ہے جو پيغمبر سے ہم تك پہنچے ہيں ، پيغمبريا ان كى نبوت سے متعلق ہم نے كوئي اختلاف نہيں كيا (چہ جائيكہ الوہيت كے متعلق ہم نے كوئي بات كہى ہو)ليكن تم (يہودي) ابھى تمہارے پير دريا كے پانى سے خشك نہيں ہونے پائے تھے كہ تم نے اپنے نبى (حضرت موسى عليہ السلام) سے يہ كہہ ديا كہ ہمارے لئے ايك ايسا ہى معبود بنادو جس طرح كہ ان كے متعدد معبود ہيں ، اور اس نبى نے تمہارے جواب ميں تم سے كہا تھا كہ تم ايك ايسا گروہ ہوجو جہل كے دريا ميں غوطہ زن ہے _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى بات كى تكميل كے لئے بنى اسرائيل سے كہا: ''اس بت پرست گروہ كو جو تم ديكھ رہے ہو ان كا انجام ہلاكت ہے اور ان كاہر كام باطل وبے بنيادہے ''_(۱)

اس كے بعد مزيد تاكيد كے لئے فرمايا گيا ہے : ''آيا خدائے برحق كے علاوہ تمہارے لئے كوئي دوسرا معبود بنالوں ، وہى خدا جس نے اہل جہان (ہمعصر لوگوں )پر تم كو فضيلت دى ''_(۲)

اس كے بعد خداوند كريم اپنى نعمتوں ميں سے ايك بڑى نعمت كا ذكر فرماتا ہے جو اس نے بنى اسرائيل كوعطا فرمائي تھى تاكہ اس عظيم نعمت كا تصور كركے ان ميں شكر گزارارى كا جذبہ بيدار ہواور انہيں يہ احساس ہوكہ پرستش اور سجدے كا مستحق صرف خدائے يكتا ويگانہ ہے، اور اس بت كى كوئي دليل نہيں پائي جاتى كہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ہيں ان كے سامنے سر تعظيم جھكايا جائے _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۹

(۲)سورہ اعراف۱۴۰

۳۵۹

پہلے ارشاد ہوتا ہے :'' ياد كرو اس وقت كو جب كہ ہم نے تمہيں فرعون كے گروہ كے شرسے نجات ديدي، وہ لوگ تم كو مسلسل عذاب ديتے چلے آرہے تھے ''_(۱)

اس كے بعد اس عذاب وايزارسانى كى تفصيل يوں بيان فرماتاہے:وہ تمہارے بيٹوں كو تو قتل كرديتے تھے اور تمہارى عورتوں لڑكيوں كو (خدمت اور كنيزى كے لئے ) زندہ چھوڑديتے تھے'' _(۲)

بنى اسرائيل سر زمين مقدس كى طرف

قران ميں اس كے بعد سرزمين مقدس ميں بنى اسرائيل كے ورود كے بارے ميں يوں بيان كيا گيا ہے:'' موسى عليہ السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ تم سرزمين مقدس ميں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر كيا ہے_داخل ہوجائو، اس سلسلے ميں مشكلات سے نہ ڈرو، فدا كارى سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حكم سے پيٹھ پھيرى تو خسارے ميں رہوگے ''_(۳)

ارض مقدسہ سے كيا مراد ہے اس، اس سلسلے ميں مفسرين نے بہت كچھ كہا ہے، بعض بيت المقدس كہتے ہيں كچھ اردن يا فلسطين كانام ليتے ہيں اور بعض سرزمين طور سمجھتے ہيں ، ليكن بعيد نہيں كہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس ميں تمام مذكورہ علاقے شامل ہيں _

كيونكہ تاريخ شاہد ہے كہ يہ سارا علاقہ انبياء الہى كا گہوراہ، عظيم اديان كے ظہور كى زمين اور طول تاريخ ميں توحيد، خدا پرستى اور تعليمات انبياء كى نشرواشاعت كا مركزرہاہے_

لہذا اسے سرزمين مقدس كہاگيا ہے اگرچہ بعض اوقات خاص بيت المقدس كو بھى ارض مقدس كہاجاتاہے_

بنى اسرائيل نے اس حكم پر حضرت موسى عليہ السلام كو وہى جواب ديا جو ايسے موقع پر كمزور، بزدل اور جاہل لوگ ديا كرتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۳)سورہ مائدہ آيت۲۱

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431