شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 98757
ڈاؤنلوڈ: 4782

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98757 / ڈاؤنلوڈ: 4782
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا کہ جس سے خدا پر لوگوں کی حجت قائم ہوجائے یا وہ یہ کہنے لگیں کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔

یقینا قریش نے ابتداء بعثت ہی میں محمد(ص) کا قصہ تمام کرنے کی کوشش کی تھی اور جب قریش فضلِ خدا اور ابوطالب اور علی(ع)  کی حمایت کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے تو محمد(ص)  کو ابتر کہہ کے اپنے دلوں کو تسلی دی۔

لیکن خدا نے رسول(ص)  کو کوثر عطا کیا اور محمد (ص) حسنین(ع) کے نانا بن گئے اورلوگوں کو بشارت دی کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں امام ہیں خواہ یہ صلح کریں یا جنگ اور یہ تمام أئمہ امام حسین(ع) کی نسل سے ہونگے یہ تمام باتیں قریش کے لئے چیلنج تھیں۔

قریش اسے کبھی برداشت نہیں کرسکتے تھے چنانچہ نبی(ص)   کے بعد انھیں موقع مل گیا اور عترت طاہرہ(ع) کا خاتمہ کرنے کی انتھک کوشش میں لگ گئے یہاں تک فاطمہ(ع) کے گھر پر آگ اور لکڑی لے کر جمع ہوگئے اگر علی(ع) خاموشی اختیار نہ کرتے اور حق خلافت سے دست کش نہ ہوتے اور صلح و آشتی سے کام نہ لیتے تو عترت طاہری(ع)  کا خاتمہ بالخیر تھا اوراسی روز اسلام کا قصہ تمام ہوجاتا۔

پھر قریش حکومت چھین لینے کے بعد اس وقت تک خاموش رہے جب تک نسل محمدی(ص) سے کوئی ان کے منافع کے لئے چیلنج نہ بنا اور جیسے ہی خلافت علی(ع) کے ہاتھ میں آئی ویسے ہی قریش نے فتنہ وفساد کی آگ بھڑکادی اور اس وقت تک آرام سے نہ بیٹھے جب تک خلافت کو خبیث ترین شخص کو ہاتھوں میں نہ دے دیا، چنانچہ پھر خلافت قیصری بادشاہت ہوگئی جو باپوں سے بیٹوں کو میراث ملتی ہے اور جب امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو قریش کی آتش حمیت بھڑک اٹھی اور اس نے عترتِ طاہرہ(ع) کو قصہ ہی ختم کرنے کی ٹھان لی بلکہ ہر اس چیز  کو نابود کرنے کا ارادہ کر لیا جس پر نسل محمد بن عبداللہ (ص) کا اطلاق ہوتا تھا۔

۱۴۱

پس کربلا کی قتل گاہ میں نھوں نے ذریت نبی(ص) کو ذبح کر ڈالا یہاں تک کہ کمسن اور شیر خوار بچوں کو بھی تہہ تیغ کردیا ان کا ارادہ یہ تھا کہ شجر نبوَت(ص)  کی ہر  شاخ کو قلم کردیں۔

لیکن اللہ نے جو محمد(ص) سے وعدہ کیا تھا اے پورا کیا اور علی ابنِ ابی الحسین (ع)  کو بچالایا اور بقیہ ائمہ (ع) ان ہی کی نسل سے ہوئے اور زمین کو مشرق سے مغرب تک اولادِ  محمد(ص) سے بھر دیا یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے اپنے نبی(ص) کو عطا کیا تھا۔ اب ہر شہر و قریہ اور ہر خطہ زمین میں نسلِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم موجود ہے اور لوگوں کے درمیان وہ محبوب و محترم ہے۔

دشمنوں کی تمام بےنتیجہ کو ششوں کے بعد آج پوری دنیا میں شیعہ جعفری لوگوں کی تعداد ۲۵۰ مِلینَ ہے اور سب ائمہ اثناعشری کی تقلید کرتے ہیں اور ان کی مودت و محبت سے خدا کا تقر ب حاصل کرتے ہیں اور ان کے حد کی شفاعت کے امید وار ہیں۔

دیگر مذاہب میں سے کسی ایک کی بھی اتنی بڑی تعداد آپ کو ہرگز نہیں ملے گی۔اگرچہ ہر ایک مذہب کی حکومتِ وقت نے مدد کی ہے۔ وہ مکر کرتے ہیں ۔ خدا تدبیر کرتا ہے اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (انفال/۳۰)

کیا فرعون نے بنی اسرائیل کے ہر نومولود  لڑکے کو اس وقت قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا کہ جب اسے نجومیوں نے یہ بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تیری بادشاہت ختم کردے گا؟

لیکن بہترین تدبیر کرنے والے نے موسی(ع) کو فرعون کے مکر سے بچالیا اور اس کے گھر بھیجدیا اور خود فرعون کی آغوش میں پرورش کرائی اور اسی کے ذریعہ اس کی بادشاہت برباد کرائی اور فرعون کے گروہ کو ہلاک کردیا اور خدا کا حکم پورا ہوکر

۱۴۲

 رہتا ہے۔

کیا (فرعون زمانہ) معاویہ نے علی(ع) پر لعنت نہیں کی اور ان کو ، ان کی اولاد کو اور ان کے شیعوں کو قتل نہیں کیا؟

کیا علی(ع) کی کسی بھی فضیلت کے بیان کرنے کو حرام قرار نہیں دیا تھا؟ کیا  اس نے اپنی پوری کوشش سے نور خدا کو بجھادینے کی کوشش نہیں کی اور لوگوں کو جاہلیت کی طرف پلٹانا نہیں چاہا تھا؟ لیکن خیرالماکرین نے علی(ع) کے ذکر کو بلند کیا باوجودیکہ معاویہ اور اس کی پارٹی ناک رگڑ  کر مرگئی اور آج تمام شیعہ ، سنی مسلمانوں کی زبان پر نامِ علی(ع) ہے بلکہ یہود و نصارا کی زبان پر بھی علی(ع)  کا ورد  ہے آج قبرِ رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی قبر زیارت گاہ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ لاکھوں مسلمان قبر  کا طواف کرتے ہیں عقیدت کے آنسو بہاتے ہیں اور آپ

آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، آپ کا قبہ اور گلدستہ اذان سونے کا ہے جو کہ آنکھ کر خیرہ کرتا ہے۔

جب معاویہ جیسے بادشاہ کا نام مٹ گیا جس نے زمین پر بادشاہت کی اور اس میں فساد پھیلایا ، کیا آج کہیں اس کا نام و نشان ہے؟ کیا کہیں اس کا ایسا مزار ہے؟

ایک تاریک و متروک مقبرہ ہے بے شک باطل کے لئے قرار نہیں ہے اور حق کے لئے ثبات و قرار ہے۔

پس صاحبان عقل عبرت حاصل کریں۔

حمد ہے اس خدا کی جس نے ہماری ہدایت کی حمد  ہے اس خدا کی جس نے ہمیں اس بات کی شناخت کرائی کہ شیعہ ہی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل کرتے ہیں اور وہی اہلِ سنت ہیں کیونکہ وہ اہلِ بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں اور

۱۴۳

گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہلِ بیت(ع) ہی وہ ہیں جنھیں خدا نے منتخب کیا پھر انھیں علم کتاب کا وارث بنایا اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ " اہلِ سنت والجماعت" سلف وخلف میں حکام کا اتباع کرتے ہیں جس چیز کا وہ دعو ا کرتے ہیں اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

۱۴۴

حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں

جو  چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیعہ ہی نبی(ص) کی صحیح سنت کا اتباع کرتے ہیں وہ رسول(ص) کی حدیث ہے جس کو حدیث ثقلین کہتے  ہیں ارشاد رسول(ص) ہے:

" میں تمھارے درمیان دو گران قدر چیزیں چھوڑ نے والا ہوں ، کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع) عترت ، اگر تم ان سے متمسک رہوگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان سے الگ نہ ہوجانا ورنہ برباد ہوجاؤ گے اور (دیکھو) انھیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیوں کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔" ( صحیح ترمذی، صحیح مسلم، مستدرک حاکم، مسند احمد بن حنل، کنز العمال، خصائص نسائی ، طبقات ابن سعد طبرانی ، سیوطی ، ابن حجر ،ابن اثیر مزید تفصیل کے لئے المراجعات کا صفحہ ۸۲۰ سے مطالعہ فرمائیں)

بعض روایات میں ہے مجھے لطیف و خبیر نے اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک

۱۴۵

دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر میرے پاس وارد ہوں گے۔

حدیث ثقلین کو اہلِ سنت والجماعت نے اپنی بیسیوں صحاح و مسانید میں نقل کیا ہے جبکہ شیعوں نے اپنی ہر حدیث کی  کتاب میں نقل کیا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ اہلِ سنت والجماعت گمراہ ہو گئے ہیں کیوں کہ انھوں نے دونوں (قرآن و عترت) سے ایک ساتھ تمسک اختیار نہیں کیا اور اس لئے ہلاک ہوگئے کہ انھوں اہلِ بیت(ع) پر ابوحنیفہ ، مالک ، شافعی، حنبل، کو مقدم کیا ان کی تقلید کی اور عترتِ طاہرہ(ع)  کو چھوڑ دیا۔

ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ : ہم نے قرآن سے تمسک رکھا ہے ، تو اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن میں تمام چیزیں پر کلی طور پر بیان ہوئی ہیں اس میں احکام کی تفصیل کا تذکرہ نہیں ہے اس میں بہت سے احتمالات ہیں ۔ اس کے لئے مفسر  و بیان کرنے والے کا ہونا ضروری ہے اور بالکل یہی کیفیت سنتِ رسول(ص) کی بھی ہے اس کے لئے بھی ثقہ راویوں ، مفسرین اور عالموں کی ضرورت ہے۔

اس مشکل کو کوئی حل نہیں ہے مگر یہ کہ ائمہ اطہار(ع) کی طرف رجوع کیا جائے کہ جن کے بارے میں رسول(ص) نے وصیت فرمائی ہے۔

اور جب حدیثِ ثقلین کے ساتھ ان احادیث کا اضافہ کرتے ہیں کہ جن کا وہی مفہوم ہے جو حدیث ثقلین ، مثلا

" علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کےساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا یہ ہوں گے ۔ یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔" ( مستدرک حاکم جلد۳ ص۱۲۴)

نیز فرمایا :

علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کےساتھ ہے اور یہ ہرگز جدا

۱۴۶

نہ ہوں گے یہاں تک کہ روزِ قیامت حوض پر میرے پاس وارد ہوںگے"۔

( منتخب کنز العمال جلد۵ ص ۳۰ تاریخ ابنِ عساکر جلد۳ ص۱۱۹ تاریخ بغداد ج۱۴ ص۱۲۱ تاریخ الخلفا ابن قتیبہ جلد۱ ص۷۳)

ان تمام چیزوں سے ہماری اور تمام محققین  کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ جس نے علی(ع)  کو چھوڑ دیا اس نے قرآنِ کریم  کی حقیقی تفسیر کو چھوڑدیا اور جس نے علی(ع) سے بے اعتنائی کی اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور باطل کو اختیار کرلیا کیونکہ حق کے بعد صرف باطل ہی رہ جاتا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ بات بھی ثابت ہے کہ اہلِ سنت والجماعت نے قرآن اور سنت نبوی(ص) دونوں کو چھوڑ دیا کیوں کہ انھوں نے حق یعنی علی ابن ابی طالب (ع) کو چھوڑ دیا۔

چنانچہ نبی(ص) کی حدیث ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ان میں سے صرف ایک فرقہ باجی ہوگا۔ اور یہ فرقہ وہی ہے جو امام علی(ع) کا اتباع کر کے حق و ہدایت پر گامزن ہوتا ہے۔ علی(ع) کے دشمن سے جنگ اور آپ(ص) کی صلح کے تحت صلح کرتا ہے آپ کے علم میں آپ(ص) کی اقتداء کرتا ہے اور آپ(ص) کی اولاد میں ائمہ میامین پر ایمان رکھتا ہے۔

یہی لوگ تمام مخلوقات سے بہترین ہیں ان کی جزاء ان کے پروردگار کے  پاس ہمیشہ رہنے کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے خدا ان سے راضٰ اور وہ اس سے خوش۔

۱۴۷

حدیث ثقلین اہلِ سنت کی نظر میں

ہم گذشتہ فصل میں اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں جسے بیس سے زیادہ اپنے مشہور مصادر  میں اہلِ سنت  والجماعت نے علی(ع) سے نقل کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف ہے۔

جب انھوں نے اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعتراف کر لیا تو حتمی طور پر اپنے گمراہ ہونے کا بھی اقرار کرلیا انھوں نے ائمہ اہلِ بیت(ع) سے کو ئی واسطہ نہیں رکھا اور اپنے فضول مذاہب کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا کہ جن پر نہ خدا نے کوئی دلیل نازل کی ہے اور نہ حدیث نبوی(ص)  میں ان کا وجود ہے۔

تعجب تو آج  کے علمائے اہل سنت پر ہے وہ اس زمانہ میں بھی کہ جس میں علمی بحث و تحقیق کے بے پناہ وسائل موجود ہیں اور بنی امیہ کو ہلاک ہوئے بھی ایک عرصہ گذر گیا ہے لیکن وہ اب بھی تونہ نہیں کرتے ہیں۔ اور خدا کی طرف رجوع  نہیں کرتے ہیں تاکہ خدا بھی ان کے شامل حال ہوجائے۔

۱۴۸

" اور جو شخص تونہ کرے اور ایمان لائے نیک کام انجام دے اور ثابت قدم رہے تو میں اسے ضرور بخش دوں گا۔" ( طہ/۸۲)

اور آج جبکہ لوگ ایسے زمانہ میں زندگی گذار رہے ہیں کہ جس میں ایسی خلافت نہیں ہے جو زبردستی لوگوں سے بادشاہ کا اتباع کرائے تو پھر حق کو اپنانے کے لئے کونسی چیز  مانع ہے۔ اور کسی بھی ملک کا بادشاہ دینی امور میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتا تا جب تک اس کی کرسی محفوظ ہے وہ ڈیموکریسی اور ان کے حقوق کو بہتر سمجھتا ہے کہ جس میں ضمنی طور پر عقیدہ اور فکر کی آزادی بھی موجود ہے۔

۱۴۹

کتاب اللہ و عترتی یا کتاب اللہ و سنتی؟

اس موضوع پر ہم اپنی کتاب" معالصادقین" میں بحث کرچکے ہیں۔ اختصار کے ساتھ یہاں اتنا عرض کردینا چاہتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہیں کیوں کہ نبی(ص) کی صحیح سنت عترتِ طاہرہ(ع) کے پاس محفوظ ہے اور گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں پھر علی ابن ابی طالب(ع)  سنتِ نبوی(ص) کے باب ہیں۔ وہ راوی اسلام کہلوانے کے زیادہ حق دار ہیں نہ کہ ابو ہریرہ ، کعب الاخبار اور واہب بن منبہ۔

لیکن مزید وضاحت کے لئے چند باتیں قلم بن کرنا ضروری ہے اگر چہ اسکی تکرار  بھی ہوگی مگر اعادہ میں افادیت ہے اور ممکن ہے بعض حضرات نے " مع الصادقین" میں بحث نہ پڑھی ہو لہذا وہ اس کتاب کے ذریعہ اس سے بھی آگاہ ہوجائیں گے  کہ دوسری کتاب میں یہ بحث تفصیل کےساتھ موجود ہے۔

ممکن ہے قارئین محترم کو اس بحث میں وہ جوہر مل جائے جو انھیں اس بات سے مطمئن کردے کہ " کتابَ اللہ و عترتی" ہی اصل ہے۔ جسے خلفا نے جان بوجھ کر "کتابَ

۱۵۰

اللہ و سنتی " سے بدل دیا ہے تاکہ وہ اس طرح اہلِ بیت(ع) کو صحن سے دور کردیں۔

یہ بات ملحوظ خاطر  رہے کہ " حدیث کتاب اللہ و سنتی" اہلِ سنت والجماعت کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ ان کی صحاح میں یہ روایات موجود ہیں کہ نبی(ص) نے اپنی احادیث لکھنے منع فرمایا تھا۔

پس اگر حدیث لکھنے سے منع کرنے والی حدیث صحیح ہے تو نبی(ص) کو یہ حکم فرمانے کا حق نہیں ہے کہ میں نے تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑی ہے جبکہ وہ مکتوب شکل میں نہیں تھی!؟

اور اگر حدیث " کتاب اللہ وسنتی" صحیح تھی تو عمر بن خطاب کو رسول (ص) پر اعتراض کرنے اور یہ کہنے کا حق نہیں تھا کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے؟

اور جب رسول(ص) نے مکتوب صورت میں سنت چھوڑی ہے تو پھر ابوبکر و عمر کے لئے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ سنتِ رسول(ص) کو جلا ڈالیں !

اور جب حدیث " کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو وفاتِ نبی(ص) کے بعد ابوبکر یہ خطبہ کیوں دیتے ہیں: لوگو! رسول(ص) کی کوئی حدیث بیان نہ کرنا اور اگر تم سے کوئی پوچھے تو یہ کہہ دینا کہ ہمارے تمھارے پاس کتاب خدا موجود ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو! ( تذکرۃ الحفاظ ، ذہبی جلد۱ ص۳)

اور جب حدیث" کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو ابوبکر اور ان کے ہمنوا صحابہ کو جنابِ زہرا(ع) کی بے حرمتی کرنے کا جواز کہاں سے مل گیا تھا اور ان کے گھر پر آگ و لکڑی لیکر جمع ہونے اور یہ دھمکی دینے کا حق کہاں سے حاصل ہو ا تھا کہ ہم گھر کو مع رہنے والوں سمیت

۱۵۱

جلادیں گے ۔ کیا سیدہ(ع) کے متعلق انھوں نے رسول(ص) کی یہ حدیث نہیں سنی تھی۔

" فاطمہ(ع) میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناکی کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی"؟

قسم خدا کی انھوں نے ضرور رسول(ص) کی حدیث سنی تھی اور انھیں یاد تھی کیا انھیں خدا کا یہ قول نہیں معلوم تھا۔

"قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى" (شوری/23)

(اے رسول(ص)) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو"۔

یہ آیت جنابِ فاطمہ(ع) ، ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کی شان میں نازل ہوئی ہے کیا یہی محبت اہلِ بیت(ع) ہے کہ انھیں جلانے کی دھمکی دی جائے؟ اور بطنِ فاطمہ(ع) پر دروازہ گرادیا جائے کہ جس سے انکا بچہ ساقط ہوجائے؟؟!

اور جب حدیث " کتاب اللہ و عترتی" صحیح ہے معاویہ اور اس کی بیعت کرنے والے صحابہ نے علی(ع) پر لعنت کرنے اور منبروں سے ان پر سب و شتم کرنے کو کیسے حلال قرار دیا، کیا انھوں نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا تھا کہ ان (علی (ع))  پر ایسے ہی صلوٰت بھیجو جس طرح رسول(ص) پر بھیجتے ہو؟ کیا انھوں نے رسول(ص) کی یہ حدیث  نہیں سنی تھی۔

" جس نے علی پر سب و شتم کیا اس نے مجھے پر سب و شتم  کیا اور  جس نے مجھے برا بھلا کہا اس نے خدا کو بر بھلا کہا"؟

( مستدرک  حاکم جلد۳ ص۱۲۱، شیخین کی شرط کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے لیکن انھوں نے اسے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ۔ تاریخ الخلفا ، سیوطی ص۷۳، خصائص نسائی ص۲۴ مناقب خوارزمی ص۸۲)

اور جب حدیث " کتاب اللہ و سنتی" صحیح ہے تو پھر اکثر صحابہ سے یہ سنت کیسے

۱۵۲

غائب رہی ، انھوں نے اسے کیوں نظر انداز کیا اور اپنی رائے سے کیوں فتوے دینے لگے اور پھر آزاد روش اختیار کی چنانچہ انھوں نے قیاس اجتہاد اجماع ، سدباب الذرائع ، مصالح المرسلہ، استصحاب ، صوافی الامر اور اخف الضررین ایسے خود ساختہ قواعد ایجا د کئے ( جامع بیانالعلم جلد۲ ص۱۷۴)

اور جب رسولٰ(ص) نے " کتابِ خدا اور اپنی سنت" چھوڑی ہے تاکہ یہ دونوں لوگوں کو گمراہی سے بچائیں تو پھر ان قواعد کو ایجاد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جن کو اہلِ سنت نے تراش لیا ہے  یہ سب چیزیں بدعت ہیں اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر ضلالت کا نتیجہ جہنم ہے۔ جیسا کہ حدیث میں منقول ہے۔

پھر عقل اور علم و معرفت رکھنے والے نبی(ص) پر لعن طعن کریں گے کہ جس نے سنت کو چھوڑی لیکن اس کی تدوین  کو اہمیت نہیں دی اور نہ اس کی تدوین و حفاظت کا کوئی بندوبست فرمایا کہ جس کے سبب وہ تحریف ، اختلاف ، جعلی حدیثوں سے محفوظ رہتی اس کے باوجود لوگوں سے فرماتے ہیں میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ۔ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے کتاب خدا اور میری سنت۔

لیکن جب ان عقلاء کو یہ بات بتائی جائے گی کہ نبی(ص) نے لوگوں کو اپنی سنت لکھنے سے منع فرمایا تھا تو اس وقت نبی(ص) کا مذاق بھی اڑائیں گے کیونکہ یہ فعل عاقلانہ نہیں ہے۔ کیونکہ لوگوں کو اپنی سنت لکھنے سے منع کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں میں تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں مزید برآں کتابِ خدا ہے کہ جس کو مسلمان صدیوں سے لکھتے چلے آرہے ہیں اس میں بھی ناسخ و منسوخ ، خاص و عام محکم و متشابہہ ہے۔ یہ قرآن کا خاصہ ہے۔ اگر چہ پورا قرآن صحیح ہے۔ کیونکہ خدا نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور پھر وہ مکتوب ہے۔ لیکن حدیثِ رسول(ص) میں صحیح سے زیادہ تو گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں لہٰذا حدیثِ رسول(ص)

۱۵۳

کے لئے کسی معصوم کا ہونا ضروری ہے جو صحیح اور جعلی حدیثوں میں امتیاز کرسکے ظاہر ہے اس کو ٖغیر معصوم انجام نہیں دے سکتا اگر چہ وہ علامہ ہی کیوں نہ ہو۔

اسی طرح قرآن اور حدیث دونوں ایک ایسے متبحر عالم کی محتاج ہیں جو ان کے احکام و امور سے آگاہ ہو تاکہ نبی(ص) کے بعد لوگوں کے اختلاف اور جہالت کو دور کرسکے۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ خداوندِ کریم نے قرآنِ مجید میں اس  بات کی طرف اشارہ فرمایا ہےکہ قرآن کسی بیان کرنے والے کا محتاج ہے چنانچہ ارشاد ہے۔

" ہم نے تم پر قرآن نازل کیا تاکہ لوگوں کو وہ چیزیں بتاؤ جو ان پر  نازل کی گئی تھیں" ( نحل/۴۴)

پس اگر نبی(ص) ان چیزوں کو بیان نہ فرماتے جو ان پر نازل کی گئی تھیں تو لوگ احکامِ خدا کو قطعی نہیں جان سکتے تھے اگر چہ قرآن انھیں کی زبان میںنازل ہوا تھا۔

تو یہ واضح ہے کہ قرآن میں نماز و زکوٰۃ ، روزہ حج واجب کیا گیا ہے۔ لیکن مسلمان ان کی وضاحت کے سلسلہ میں نبی(ص) کے محتاج ہیں وہی بتائیں گے نماز کیسے ادا کی جائے  زکوۃ کا نصاب کیا ہے، روزہ کے احکام کیا ہیں اور حج کے مناسک کیا ہیں ، اگر نبی(ص) نہ ہوتے تو لوگ قرآن مجید سے ان کو  نہیں سمجھ سکتے ۔

اور جب قرآن ایسی متفق علیہ کتاب، جس میں کسی بھی سمت سے باطل داخل نہیں ہوسکتا، کسی بیان کرنے والے کی محتاج ہے تو حدیثِ نبی(ص) کسی محافظ و بیان کرنے والے کی اس سے کہیں زیادہ محتاج ہے کیوں کہ حدیث میں بہت اختلاف  اور نراکھوٹ اور جھوٹ ہے: بات تو فطری ہے بلکہ ضرورت عقل میں سے ہے کہ ہر رسالت پر مبعوث ہونے والا نبی(ص) اپنے پروردگار کے حکم سے اپنا وصی اور قائم مقام بناتا ہے۔

تاکہ رسالت ان کی موت کے بعد ہی ختم نہ ہو جائے ، چنانچہ ہر  ایک نبی کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور تھا۔

۱۵۴

ایسے ہی رسول(ص) نے بھی اپنی خلافت و جانشنی کے لئے علی(ع)  کی تربیت کی تھی اور بچپنے ہی سے انھیں اخلاقِ نبوی(ص) سے آراستہ کیا اور عالمِ جوانی میں اولین و آخرین کے علم سے مزین کیا اور ایسے رموز و اسرار بتائے جنھیں کوئی  نہیں جانتا امت کو بھی بارہا بتایا کہ تمھارے درمیان یہ میرے بھائی ،میرے وصی اور میرے خلیفہ ہیں نیز فرمایا:

" میں خیرالانبیاء ہوں اور علی (ع) خیر الاوصٰیاء ہیں میرے بعد سب سے بہتر و افضل ہیں ، اور فرمایا : علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے، علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے نیز فرمایا : میں نے نزول قرآن کے سلسلہ میں جنگ و جہاد کیا ہے اور علی(ع) اس کی تاویل پر  جہاد کریں گےیہی ہیں جو میرے بعد میری امت کے اختلافی مسائل حل کریں گے۔ علی(ع) کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی ہے تھی، علی(ع)  مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں ، وہ میرے علم کا باب ہیں ۔"

( اہل سنت کے نزدیک یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں، ان کے علما نے انھیں نقل کیا ہے اور صحٰیح بتایا ہے اس سے پہلی کتابوں میں ہم ان کا تذکرہ کرچکے ہیں، اگر قارئین مصادر دیکھنا چاہتےہیں تو المراجعات کا مطالعہ فرمائیں۔)

علمی دلیل اور تاریخ و سیرت سے یہ بات ثابت ہے کہ علی(ع) تمام صحابہ کے مرجع تھے آپ(ع) کے پاس عالم و جاہل تمام صحابہ آتے تھے ۔ اہل سنت کے لئے تو اتنا ہی کافی  ہے کہ عبداللہ ابن عباس جن کو اہل سنت خیر الامت کہتے ہیں وہ علی(ع) کے شاگرد ہیں اسی طرح یہ دلیل بھی مستحکم ہے کہ مسلمانوں کے تمام علوم کا سرچشمہ حضرت علی(ع) کی ذات سے پھوٹا ہے ۔

( ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ کا مقدمہ ملاحظہ فرمائیں ۔)

بہتر یہ ہے کہ حدیث " کتاب اللہ و عترتی" کو حدیث " کتاب اللہ و سنتی" پر مقدم کیا جائے تاکہ عاقل مسلمان کے لئے اہلِ بیت(ع) سے رجوع کرنا آسان ہوجائے اور وہ ( اہل بیت (ع)

۱۵۵

بھی اس کے سامنے قرآن و سنت کے مفاہیم بیان کریں۔

لیکن اگر حدیث " کتاب اللہ وسنتی " کو صحیح مان لیا جائے تو قرآن و حدیث کے سلسلہ میں مسلمان حیرت و سر گشتہ رہیں گے اور انھیں کوئی ایسا موثق مرجع نہیں ملے گا جس سے وہ سمجھ میں نہ آنے والے احکام دریافت کرسکیں ، یا ان احکام کے بارے میں استفسار کرسکیں جن کے متعلق علما کے درمیان شدید اختلاف ہے اور ائمہ مذاہب نے ان احکام کے متعلق متعدد اقوال پیش کئے ہیں یا جن اقوال میں تناقض  پایا جاتا ہے۔

ایک مذہب کو قبول کرنا اور دوسرے کو چھوڑ دینا تعصب اور اندھی تقلید ہوگی اور اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

" ان میں سے اکثر ظن کا اتباع کرتے ہیں بے شک ظن حق کے سلسلہ میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہچاسکتا "( یونس/۳۶)

قارئین محترم کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہوجائے۔

اگر ہم قرآن اٹھا کر آیت وضو پڑھیں:

"وامسحوا برؤوسکم و ارجلکم الی الکعبين" ( مائدہ/۶)

"اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پیروں کا مسح کرو۔"

تو بادی النظر میں ہم یہی سمجھیں گے کہ جس طرح سر کا مسح ایسے ہی پیروں کا بھی مسح کرنا چاہئے اور جب مسلمانوں کےعمل کو دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس مسئؒلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ تمام اہلِ سنت والجماعت سر دھوتے ہیں اور سارے شیعہ سر کا مسح کرتے ہیں۔

یہاں ہم حیرت و شک میں مبتلا ہو کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کو ن سا فعل صحیح ہے۔

اور اہلِ سنت والجماعت کے علما و مفسرین  سے رجوع کرتے ہیں تو ان کے درمیان بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس آیت میں " ارجلکم " کو دو طرح زَبر اور زِیر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔

۱۵۶

پھر اہلِ سنت دونوں قرآئتوں کو صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں جو شخص " ارجلکم " کو زَبر کے ساتھ پڑھے اس کے لئے سر دھونا واجب ہے اور جو شخص زِیر کے ساتھ پڑھے اس پر سر کا مسح کرنا واجب ہے۔

پھر ہماری ملاقات اہلِ سنت کے اس عظیم عالم سے ہوتی ہے جو عربی کا ماہر ہے وہ کہتے ہیں کہ: خواہ آیت کو زبر کے ساتھ پڑھیں یا زیر کے ساتھ دونوں صورتوں میں مسح واجب ہے۔ کیوں کہ ارجل یا محل کی بنا پر منصوب ہے یا جر جوار کی وجہ سے مجرور ہے ، پھر کہتے ہیں کہ قرآن میں مسح کا حکم ہے اور حدیث میں سر دھونے کا حکم ہے۔

قارئین محترم آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ علماے اہلِ سنت کے اقوال ہمارے شک و  اضطراب کو زائل نہیں کرسکتے بلکہ ان کے آخری قول نے تو ہمارے شک مٰیں اضافہ کردیا ہے۔ کیا سنت قرآن کی مخالفت ہے ہرگز نہیں نبی(ص)  قرآن کی مخالفت نہیں کرسکتے اور وضو میں پیر کے مسح کے بجائے پیر نہیں دھوسکتے ۔ اگر نبی(ص) وضو میں پیر دھوتے تھے تو پھر صحابہ کے لئے نبی(ص) کی مخالفت  کرنا جائز نہیں تھی خواہ وہ علم و معرفت کے کسی بھی مرتبہ پر فائز ہوتے اور نبی(ص) سے قریب ہوتے جیسے علی ابن ابی طالب(ع) ، ابن عباس، اور حسن(ع) و حسین(ع) حذیفہ بن یمان اور انس بن مالک اور دیگر تمام صحابہ نے ارجل کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے اور اکثر صحابہ نے مسح کو واجب جانا ہے اور ائمہ اطہار(ع) کی اقتداء کرنے والے تمام شیعہ مسح کے وجوب کے قائل ہیں۔

حل کیا ہے؟!

کیا آپ نے غورنہیں  کیا کہ اس  طرح ایک مسلمان اپنے شک ہی میں مبتلا رہے گا اور جب تک اپنے معتمد علیہ سے رجوع نہیں کرے گا اس وقت تک ارہِ صواب سے نا آشنا رہے گا اور یہ نہیں جان سکے گا صحیح حکمِ خدا کیا ہے اور غلط کیا ہے؟

یہ مثال میں آپ کے سامنے قرآن مجید سے پیش کروں گا تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ علمائے اہلِ سنت کے درمیان ان چیزوں میں کس قدر اختلاف ہے۔ جنھیں نبی(ص) ایک دن میں

۱۵۷

متعدد بار انجام دیتے تھے اور تیئس سال ان پر عمل پیرا رہے۔

فرض یہ ہے کہ اصحابِ نبی(ص) ( قرآن کے ) خاص و عام سے واقف تھے بلکہ علمائے اہلسنت جب مذکور ہ آیت کی تلاوت کرتے ہیں تو کچھ زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور کچھ ، مجرور پڑھتے ہیں نتیجہ میں مختلف احکام مرتب کرتے ہیں۔

کتاب خدا  کی تفسیر اور متعدد آیتوں کے مطابق احکام مرتب کرنے کے سلسلہ مٰیں علما کے درمیان شدید اختلاف ہے جیسا کہ یہ بات تحقیق کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اور جب کتابِ خدا کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہے تو سنتِ نبی(ص) میں بدرجہ اولیٰ اختلاف ہوگا۔ لیکن حل کیا ہے؟

اگر آپ یہ کتہے ہیں کہ ایسے شخص  کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جو قرآن و سنت سے صحیح احکام بیان کرے تو ہم آپ سے ایسے شخص کا مطالبہ کریں گے جو کہ عاقل متکلم ہو کیونکہ قرآن و سنت ضلالت سے نہیں بچا سکتے کیونکہ دونوں صامت ہیں کچھ نہیں بول سکتے اور پھر وہ متعدد وجوہ کے حامل ہیں جیسا کہ ہم آیت وضو میں بیان کرچکے ہیں، قارئین محترم یقینا ہمارا اس بات پر اتفاق ہےکہ قرآن وسنت کےحقائق سے واقف علما کی تقلید کرنا واجب ہے ۔ رہا ایسے علما کی معرفت کا مسئلہ کہ جو حقائقِ قرآن وسنت سے واقف ہیں۔

۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ سب ہی علمائے امت اور ان کے راس  و رئیس  صحابہ حقائق  قرآن و سنت سے واقف ہیں تو ان کے اختلاف کو ہم آیت وضو اور دیگر مسائل میں ملاحظہ کر چکے ہیں اس کے علاوہ ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں ایک دوسرے کو کافر  کہتے ہیں لہذا ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں ان میں سے حق والوں پر اعتماد کرنا صحیح ہے۔ باطل پرستوں پر صحیح نہیں ہے۔ پھر بھی مشکل حل نہیں ہوتی۔

اگر ایسی صورت میں آپ ائمہ اربعہ کی طرف رجوع کرنا چاہیں تو ان کے درمیان کا اختلاف بھی آپ پر پوشیدہ نہیں ہے ان میں سے ایک کہتا ہے کہ نماز میں بسم اللہ پڑھنا

۱۵۸

مکروہ ہے ۔ دوسرا بغیر بسم اللہ کےنماز کو باطل قرار دیتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ مذاہب ظالم حکام کی ایجاد ہیں اور یہ کہ یہ مذاہب عہد رسالت(ص) سے بہت بعد میں وجود میں آئے ہیں۔ انھیں تو صحابہ بھی نہیں جانتے تھے چہ جائیکہ نبی(ص) ان سے واقف ہوتے۔

اب ہمارے سامنے ایک ہی حل رہ جاتا ہے اور وہ ہے ائمہ اطہار(ع) کی طر ف رجوع کرنا کہ جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور کما حقہ پاک رکھا ، وہ عالم و عامل ہیں ان کے علم و  ورع اور تحفظ  و تقوی تک کوئی نہیں پہونچ سکتا  وہ ںصِ قرآنی( انما يريد اللهليذهب عنکم الرجس اهل البيت و يطهرکم تطهيرا) اور حدیث نبوی(ص) کی رو سے وہ معصوم عن الخطا والکذب ہیں (قول نبی(ص) ہے ۔کتاب الله و عترتی ان تمسکتم  بهما لن تضلوا بعدی ابدا ۔ پس جس طرح کتاب خدا معصوم عن الخطا ہے ۔ اسی طرح عترت طاہر(ع) بھی معصوم ہے ۔ کیونکہ غیر معصوم ہدایت نہیں کرسکتا ہے اس سے خطا سرزد ہوسکتی ہے وہ خود ہدایت کا محتاج ہے۔)

خدا نے انھیں منتخب فرماکر علم کتاب کا وارث بنایا ہے رسول(ص) سے انھیں ہر اس چیز کا علم دیا ہے جس کو لوگوں کو احتیاج ہوسکتی ہے اور ان کی طرف آن حضرت(ص) نے اسی طرح امت کی راہنمائی فرمائی۔

" میرے اہلِ بیت (ع) کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پہ سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا۔"

علمائے اہل سنت میں سے ابن حجر نے اس حدیث کی شرح لکھنے اور اس کو صحیح قرار دینے کے بعد تحریر کیا ہے۔

اہلِ بیت(ع)  کو کشتی سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان سے محبت کی اور ان کی عظمت کا قائل ہوگیا اور ان کی بڑائی کا شکریہ ادا کیا اورجس نےان کے بتائے ہوئے راستہ کے مطابق عمل کیا وہ گمراہیوں سے محفوظ رہا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ کفر و ضلالت کے سمندر میں ڈوب گیا اور

۱۵۹

 طغیانیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔

ایک بات کا میں یہاں اضافہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ کو عہد صحابہ سے لیکر آج تک ملّت اسلامیہ کے گذشتہ اور موجود ہ علما میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہو کہ میں عترت نبوی(ص) کے ائمہ (ع) سے افضل ہوں اسی طرح پوری امت میں آپ کو کوئی ایسا نہیں ملے گا جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے ائمہ اہلِ بیت(ع) میں سے کسی کو  تعلیم دی ہے۔ یا کسی امر کی طرف ان کی راہنمائی کی ہے۔

قارئین محترم مزید تفصیل کے لئے المراجعات اور الغدیر کا مطالعہ فرمائیں ۔ انصاف پسند حضرات کے لئے اتنا کافی ہے جتنا میں نے پیش کیا ہے۔ پس حدیث" ترکت فيکم کتاب الله و عترتی" برحق ہے ۔ اسے عقل و وجدان بھی قبول کرتی ہے اور قرآن و سنت سے بھی یہی ثابت ہے۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر ہمارے لئے  واضح دلیلوں سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ حقیقی معنوں میں شیعہ ہی اہلِ سنت ہیں ، چونکہ اہلِ سنت والجماعت نے اپنے سرداروں اور  گور و گھنٹالوں کا اتباع کیا اور انھوں نے انھیں گمراہ کردیا اور تاریکی میں انھیں پریشان و بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا اور کفر کے دریا میں غرق کردیا اور طغیانیوں میں جھونک کر ہلاک کردیا جیسا کہ ابن حجر شافعی کا قول ہے۔

الحمدلله ربَ العالمين علیٰ هدايته لعباده المخلصين

۱۶۰