شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 98779
ڈاؤنلوڈ: 4782

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98779 / ڈاؤنلوڈ: 4782
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شیعوں کے نزدیک شریعت کے سرچشمے

شیعہ امامیہ کی فقہ کا مطالعہ اور تحقیق کرنے والا جانتا ہے کہ شیعہ تمام فقہی احکام میں " مسائل کو چھوڑ کر " ائمہ اثناعشر کے طریق سے نبی(ص) کی طر ف رجوع کرتے ہیں۔

شریعت کے سرچشمے شیعوں کے نزدیک صرف دو ہیں۔

کتابِ (خدا)  سنتِ (نبی (ص)) یعنی

مصدر  اوّل قرآن

مصدر دوّم سنتِ نبی(ص) ہے۔

یہ ہیں گذشتہ اور موجود شیعہ علما کے اقوال بلکہ یہ ان ائمہ اہلِ بیت(ع) کے اقوال ہیں کہ جن میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ میرا اجتہاد ہے۔

چنانچہ جب پہلے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے پاس لوگ خلافت لے کر آئے اور  یہ شرط پیش کی ، اگر آپ(ع) امت میں سنتِ ابوبکر و عمر کے لحاظ سے عمل کریں گے تو خلافت حاضر ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا، میں کتابِ خدا اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے

۱۶۱

مطابق عمل کروں گا۔ ( بعض روایات میں ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا : اس کے علاوہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا یہ مکتب اجتہاد کے طرف داروں کا اضافہ ہے ۔ کیونکہ امام علی(ع) نے ایک روز بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا بلکہ وہ تو ہمیشہ سے کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) سے مسائل کا استنباط کرتے تھے یا فرماتے تھے: ہمارے پاس الجامعہ ہے اس میں لوگوں کی ضرورت  کی تمام چیزیں موجود ہیں ۔ یہاں تک خدش الارش بھی تحریر ہے۔ الجامعہ وہ صحیفہ ہے جو رسول(ص) کا املا اور علی(ع) کی تحریر ہے۔ صحیفہ جامعہ کے بارے میں ہم تفصیلی بحث "اہل السنۃ سنت کو مٹانے والے"والی فصل میں کرچکے ہیں۔ آنے والی بحثوں میں ہم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ علی(ع) ہمیشہ سنتِ نبی(ص) کے پابند رہے اور اس سے کبھی چشم پوشی نہیں کی اور لوگوں کو سنتِ نبی(ص) پر پلٹانے کے لئے پوری کوشش کرتے رہے ۔ یہاں تک خلفا آپ(ع) سے ناراض ہوگئے اور خدا کے لئے آپ(ع) کو سختی اور سنتِ نبی(ص) کو نافذ کرنے کی پاداش میں لوگوں کی نفرت نصیب ہوئی۔

جیسا کہ امام محمد باقر(ع) ہمیشہ فرمایا کرتے تھے۔

" اگر ہم اپنی رائے سے تمھیں مسائل بتاتے تو ایسے ہی

گمراہ ہوجاتے جس طرح ہم سے پہلے لوگ گمراہ ہوگئے

تھے ہم جو کچھ تمھیں بتاتے ہیں اس پر ہمارے پروردگار

کی وہ واضح دلیل موجود ہے جو اس نے اپنےنبی(ص) ہے بیان

 کی تھی اور نبی(ص) نے ہم کو تعلیم دی ہے"۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں:

" اے جابر اگر ہم تمھیں اپنی رائے اور ہوا وہوس سے

کوئی بات بتاتے تو ہلاک ہوگئے ہوتے ہم تو تمھیں وہی بتاتے ہیں جو ہم نے نبی(ص) کی احادیثِ رسول(ص) جمع کی

۱۶۲

 ہیں اور ہم نے ایسے ہی ذخیرہ کیا ہے جیسے لوگ سونا

چاندی ذخیرہ کرتے ہیں"۔

اور امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:

" قسم خدا کی ہم اپنی رائے اور ہوائے نفس سے کوئی چیز

 بیان نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ قولِ خدا

ہوتا ہے جب بھی ہم تمھیں کوئی جواب دیتے ہیں وہ

 ہماری رائے سے نہیں ہوتا بلکہ وہ قول رسول(ص) ہوتا ہے "۔

ائمہ اہلِ بیت(ع) کی اس سیرت سے تمام اہلِ علم اور محققین واقف ہیں ۔ اسی لئے تو انھوں نے کسی ایک امام کے بارے میں بھی یہ نہیں تحریر کیا کہ وہ رائے کی قائل تھے یا قرآن و سنت کے علاوہ کسی قیاس و استحسان وغیرہ کے قائل تھے۔

اور جب ہم اپنے ہم عصر مرجع اکبر شہید آیت اللہ محمد باقر الصدر ( رضوان اللہ علیہ) کے رسالۃ عملیہ کو دیکھیں گے تو عبادات و معاملات کے واضح فتاوی میں ملاحظہ کریں گے ۔ وہ تحریر فرماتےہیں ۔

ہم آخر میں اختصار کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان واضح فتوؤں کے استنباط میں ہم نے جن عظیم مصادر پر اعتماد کیا ہے وہ قرآن مجید اور وہ حدیث شریف سے عبارت ہیں اور موثق لوگوں سے منقول ہے خواہ ان کا کوئٰی بھی مذہب رہاہو ۔ ( الفتاوی الواضحہ الشہید باقر الصدر ص۹۸)

لیکن قیاس و استحسان پر اعتماد کرنا ہم شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

ہاں دلیل عقلی میں مجتہدین اور محدثٰین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا اس پر عمل

۱۶۳

کرنا جائز ہے یا نہیں۔

اگر چہ ہم اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ اس پر عمل رنا جائز ہے لیکن ہمیں ایسا کوئی حکم  نہیں ملتا کہ جس کا اثبات ان معنوں میں دلیل عقلی پر موقوف ہو بلکہ جو حکم دلیلِ عقلی سے ثابت ہوتا ہے وہی کتاب وسنت سے ثابت ہوتا ہے۔

اجماع کتاب وحدیث کی طرح مصدر نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ، ہاں بعض حالات میں اجماع اثبات کا وسیلہ قرار پاتاہے ۔

اس  طرح کتابِ (خدا) اور سنتِ (نبی (ص)) ہی مصدر ہیں ، دعا ہے کہ خداوند عالم ہمیں ان کے متمسکین میں قرار دے بے شک جس نے ان کا دامن تھام لیا اس نے عروۃ الوثقی کو پکڑ لیا کہ جس میں کوئی خدشہ نہیں ہے اور خدا سننے اور جاننے والا ہے۔

جی ہاں ہمیں گذشتہ اور موجودہ شیعوں میں یہی صفت ملتی ہے وہ فقط کتاب و سنت پر عمل کرتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کا فتوی بھی آپ کو ایسے نہیں ملے گا جو قیاس و استحسان کا نتیجہ ہو۔

چنانچہ امام جعفر صادق(ع) اور ابوحنیفہ کا واقعہ مشہور ہے کہ امام صادق (ع) نے کس طرح ابوحنیفہ کو قیاس آرائی سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا:

دینِ خدا مٰیں قیاس سے کام نہ لو۔ کیونکہ جب شریعت میں قیاس آرائی ہوتی ہے تو مٹ جاتی ہے اور سب سے پہلے ابلیس نے یہ کہہ کر قیاس کیا تھا کہ میں اس (آدم (ع)) سے بہتر وافضل ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔

حضرت علی(ع) کے زمانہ سے لے کر آج تک یہی شیعوں کےنزدیک شریعت کےسرچشمے ہیں ۔ اہلِ سنت والجماعت  کے مصادرِ تشریع کیا ہیں؟

۱۶۴

اہلِ سنت والجماعت کے منابع تشریع

جب جہم اہلِ سنت والجماعت کے منابع تشریع کی تحقیق کریں گے تو معلوم ہوگا کہ بہت سی چیزیں قرآن وحدیث کی حدود سے نکل گئی ہیں۔

کتاب وسنت کے علاوہ ان  کے مصادر تشریع ، سنت خلفائے راشدین ، سنت صحانہ، سنت تابعین ، علما کی رائے ، سنت حکام کہ جس کو اہلِ سنت صوافی الامر کہتے ہیں، قیاس ، استحسان، اجماع اور سدباب الذرائع ہیں ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اہلِ سنت کے نزدیک مصادر تشریع دس ہیں۔

اور ہر ایک سے دینِ خدا میں حکم لگاتے ہیں۔ تاکہ ہماری بات دلیل کے بغیر نہ رہے کو ئی ہم پر  مبالٖغہ آرائی کا الزام نہ لگائے۔ اس لئے ہم ان ہی کی کتابوں اور اقوال سے دلیلیں پیش کریں گے تاکہ قارئین پر  حقیقت واضح ہو جائے۔

پہلے دو مصدروں ( کتاب و سنت) کے سلسلہ میں ہمارا اہلِ سنت والجماعت سے کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ متفق علیہ ہیں بلکہ یہ ایسا واجب ہے جس پر عقل و نقل اور اجماع

۱۶۵

دلالت کررہی ہیں اور خدا کے اس قول کے مصداق ہیں۔

جو رسول(ص) تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں اسے سے رک جاؤ ۔ (حشر/۷)

اور طاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول(ص) کی ۔ ( مائدہ/۹۲)

اور جب خدا اور اس کا رسول(ص) فیصلہ کردیں۔ ( احزاب/۳۶)

اور بہت سی واضح آیات اس بات پر دلالت کررہی ہیں کہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) سے احکام اخذ کرنا واجب ہے۔

لیکن اہل سنت سے ہمارا ان  مصادر کے بارے میں اختلاف ہے جو انھوں نے اپنی طرف سے ایجاد کر لیئے ہیں۔

اوّلا:۔ سنتِ خلفائے راشدین

سنتِ خلفائے راشدین پر اہلِ سنت حسب ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ:

عليکم بسنتی و سنه الخلفاء المهديين الراشدين تمسکوا بها وعضوا بالنواجذ (ترمذی ، ابن ماجه،بیهقی اوراحمدبنحنبل)

" تم پر میری اور سنتِ خلفائے راشدین کا اتباع واجب ہے سنتِ خلفاء سے تمسک اختیار کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔

ہم اپنی کتاب " مع الصادقین " ہوجاؤ سچوں  کے ساتھ " میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اس حدیث میں خلفائے راشدین سے مراد ائمہ اہلِ بیت(ع) ہیں یہاں میں ان لوگوں کے لئے چند دلیلین اور پیش کرتا ہوں جو اس بحث کو نہیں دیکھ سکے ہیں۔

بخاری و مسلم بلکہ تمام محدثین نے نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے اپنے خلفا کی تعداد بارہ (۱۲)  بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

۱۶۶

الخلافاء من بعدی اثناء عشر کلهم من قريش

میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے وہ سب قریش سے ہوں گے اس حدیث کی دلالت اس  بات پر ہے کہ نبی(ص) کی مراد ائمہ اہلِ بیت(ع) ہیں وہ حکام مراد نہیں ہیں جنھوں نے خلافت  غصب کرلی تھی۔

کوئی بھی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث سے مراد خواہ ائمہ اہلِ بیت(ع) ہوں ۔ جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں یا چار خلفائے راشدین ہوں جیسا کہ اہل سنت کہتے ہیں۔ مصادر تشریع تین ہیں۔ قرآن ، سنت ، اور سنتِ خلفاء۔

اہلِ سنت کے نقطہ نظر سے یہ بات صحیح ہے جبکہ شیعوں کے نقطہ نظر سے غلط ہے۔ کیونکہ ائمہ اہلِ بیت(ع) اپنی رائے  واجتہاد سے شریعت بناتے جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں بلکہ وہ اپنے جد رسول(ص) کے اقوال کو دھراتے ہیں جو کہ انھوں نے وقت ضرورت کے لئے محفوظ کر رکھے ہیں۔

لیکن اہلِ سنت والجماعت کی کتابیں ابوبکر و عمر کی سنت کے استدلال سے بھری پڑی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے اسلامی مصدر ، خواہ وہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔

اور جو چیز  ہمارے اس یقین کو مزید مستحکم بناتی ہے کہ حدیثِ نبی(ص) سے ابوبکر و عمر مراد نہیں ہیں، وہ یہ ہے کہ حضرت علی(ع) نے ان کی سنت پر عمل کرنے سے اس وقت منع کردیا تھا جب صحابہ نے خلافت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ شیخین کی سنت پر عمل کرنے کا وعدہ کریں تو ہم خلافت آپ کو دیتے ہیں۔

اگر خلفائے راشدین سے رسول (ص) کی مراد ابوبکر وعمر ہوتے تو علی(ع)  رسول(ص) کی بات کو رد نہیں کرسکتے تھے اور سنت ابوبکر عمر پر عمل کرنے سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔ پس حدیث کی دلالت اس بات پر ہے کہ ابوبکر وعمر خلفائے راشدین میں شامل نہیں ہیں۔

۱۶۷

جب کہ اہلِ سنت والجماعت ابوبکر و عمر اور عثمان ہی کو خلفائے راشدین کہتے ہیں کیوں کہ وہ پہلے علی(ع) کو خؒیفہ ہی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ہاں بعد میں زمرہ خلفا میں شامل کرلیا تھا۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اور منبروں سے علی(ع) پر لعنت کی جاتی تھی وہ سنت علی(ع) کا کیونکر  اتباع  کرسکتے تھے۔؟؟!

اور جب ہم جلال الدین سیوطی کی تاریخ الخلفا والی عبارت کا مطالعہ کریں گے ۔ تو یہ بات واضح ہوجائےگی کہ ہمارے مسلک صحیح ہے۔

سیوطی حاجب بن خلیفہ سے نقل کرتے ہیں میں نے عمر بن عبدالعزیز کو ان کی خلافت کے زمانہ میں خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ۔انھوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا : آگاہ ہوجاؤ جو رسول(ص) اور ان کے دو دوستوں کی سنت ہے وہ دین ہے ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور اس کی حد میں رہتے ہیں اور ان دونوں کی سنت کے علاوہ کسی کی بات نہیں مانتے۔( تاریخ الخلفا ص۱۶۰)

حقیقت تو یہ ہے کہ چوٹی کے صحابہ اور اموی و عباسی حکام نے اسی بات کو رواج دیا کہ ابوبکر و عمر اور عثمان کی سنت دین ہے۔ اسی پر عمل کیا اور اسی کے دائرہ میں محدود رہے۔ اور جب خلفائے ثلاثہ نے سنت رسول(ص) پر پابندی لگادی جیسا کہ گذشتہ صفحات میں ہم  عرض کر چکے ہیں تو پھر ان ہی لوگوں کی بنائی ہوئی سنت تھی ۔جس پر عمل ہوتا تھا وہی احکام لائق اتباع ہوتے تھے جن کا وہ حکم دیتے تھے۔

ثانیا عام صحابہ کی سنت

اس بات پر بہت سی دلیلیں موجود ہیں کہ اہلِ سنت والجماعت عام صحابہ کی سنت کی اقتداء کرتے ہیں۔

اور اس پر ایک جھوٹی حدیث سے حجت قائم کرتے ہیں اس موضوع پر ہم " مع الصادقین میں سیر حاصل بحث کرچکے ہیں۔ وہ حدیث یہ ہے:

۱۶۸

اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم﹒

میرے صحابہ کی مثال ستاروں کی سی ہے جس کی بھی تم اقتداء کرو  گے ہدایت پاجاؤ گے۔

ابن قیم جوزیہ نے اس حدیث سے صحابی کی رائے کی حجیت قائم کی ہے ( اعلام المرقعین ج۴ ص۱۲۲)

شیخ ابوہریرہ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے  چنانچہ وہ کہتے ہیں۔

یقینا ہم نے تمام فقہائے اہلِ سنت کو صحابہ کے فتوؤں پر عمل پیرا پایا ہے پھر دوسرے پیرگراف میں تحریر فرماتے ہیں۔

جمہور کا مسلک یہ ہے کہ وہ صحابہ کے اقوال اور فتوؤں کو حجت سمجھتے ہیں جب کہ شیعوں کا مسلک اس کے بر خلاف ہے۔ ابنِ قیم جوزیہ چھیالیس وجوہ سے جمہور تائید کرتا ہے اور وہ سب قوی ہیں۔ ( یہ شیخ ابو زہرہ کا دوسرا اعتراف ہے جو ہمارے اس قول کی تاکید کرتا ہے شیعہ شریعتِ الہی میں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے سوا کسی اور کو داخل نہیں کرتے)

شیخ ابوہریرہ سے ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ چیز کیسے قوی حجت بن سکتی ہے جو کتاب  خدا  اور سنتِ رسول(ص) کے مخالف ہوتی ہے؟!

ابنِ قیم نے جتنی بھی دلیلیں پیش کی ہیں وہ بیت عنکبوت کی طرح کمزور اور رکیک ہیں اور پھر  موصوف نے تو خود ہی انھیں یہ کہہ کر باطل کردیا ہے۔

لیکن شوکانی کتہے ہیں : صحابہ کا قول حجت نہیں ہے کیوں کہ خدا نے اس امت میں ہمارے نبی محمد (ص) کے علاوہ کسی کو مبعوث نہیں کیا ہے۔ اور صحابہ اور ان کے بعد والے اس نبی کی شریعت کے اتباع  کے سلسلہ میں مساوی طور پر مکلف ہیں یعنی کتاب و سنت میں جو کچھ ہے اس کا اتباع اور اس پر عمل کرنا سب کے لئے واجب ہے۔ پس  جو  شخص دینِ خدا میں کتاب خدا اور سنتِ رسول(ص) کےعلاوہ کسی اور چیز کو حجت تسلیم کرتا ہے تو وہ دینِ خدا کے بارے

۱۶۹

میں ایسی بات کتہا ہے جو کہ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ شرعی طور پر ثابت ہے کہ خدا نے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا ہے۔( کتاب شیخ ابوہریرہ ص۱۰۲)

قابلِ سلام ہیں شوکانی کہ جنھوں نے حق کہا اور  صداقت سے کام لیا اور اپنے مذہب سے متاثر نہیں ہوئے ان کا قول ائمہ اطہار(ع) کے قول کے موافق ہے اگر ان کے اعمال ان کے اقوال کے مطابق  ہو ں گے تو خدا  ان سے راضی ہوگا اور انھوں نے خدا کو راضی کر لیا ہوگا۔

ثالثا : سنت تابعین ، علماء الاثر

اسی طرح اہلِ سنت والجماعت تابعین کی رایوں پر عمل کرتے ہیں اور تابعین کو علما ء الاثر کے نام سے یاد کرتے ہیں جیسے اوزاعی، سفیان ثوری، حسن بصری، اور ابنِ عینیہ وغیرہ اہلِ سنت ائمہ اربعہ کے اجتہادات کو بھی بسر و چشم قبول کرتے ہیں ان ہی کے مقلد ہیں باوجودیکہ یہ ائمہ اربعہ تبع تابعین میں شمار ہوتے ہٰیں ۔ اور پھر خود صحابہ نے متعدد  بار اپنی خطاؤوں کا اعتراف کیا ہے اور وہ ایسی بات کہی ہے جنہیں وہ نہیں جانتے تھے۔

ابوبکر نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : میں عنقریب اپنی رائے سے جواب دوںگا اگر جواب صحیح ہوگا تو وہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہوگا تو وہ میری یا شیطان کی طرف سے ہوگا ۔ عمر کہتے ہیں:

شاید میں تمھیں ایسی چیزوں کا حکم دوں کہ جن میں صلاح وفلاح نہ ہو اور ممکن ہے ایسی چیزوں سے منع کروں جن مجیں تمھاری صلاح ہو۔ ( تاریخ بغداد جلد ۱۴ ص۸۱، ایسے لوگوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اتنے کم علم والوں کو تم اس ذات والا صفات پر کیوں ترجیح دیتے ہو جس کے پاس اوّلین و آخرین کا علم ہے  اور امت کو اس کی رہبری سے کیوں محروم کردیا اور اسے فتنہ و جہالت اور گمراہی میں کیوں چھوڑدیا ۔)جب صحابہ کے مَبلغ علم کی یہ کیفیت ہےکہ وہ ظن کا اتباع کرتے ہیں جو کہ حق کے سلسلہ

۱۷۰

میں ذرہ برابر فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے تو پھر اسلام سے آشنا کوئی مسلمان ان کے افعال و اقوال کو اپنے لائحہ عمل کیسے بنا سکتا ہے اور ان ( اقوال و افعال) کو مصدر شریعت کیسے تسلیم کرسکتا ہے کیا اس کے بعد اصحاب کالنجوم والی حدیث کی کوئی اہمیت باقی بچتی ہے۔

اور جب رسول(ص) کی مجلس میں حاضر ہونے والے اور ان سے علم حاصل کرنے والے صحابہ کی یہ کیفیت ہے تو صحابہ کے بعد آنے والے افراد کا کیا حال ہوگا ظاہر ہے وہ بھی فتنہ میں ان کے شریک ہوجائیں گے۔

اور جب ائمہ اربعہ دین خدا میں اپنی رائے سے کام لیتےہیں اور صریح طور پر خطا کے امکان کا اظہار کرتے ہیں، ان میںسے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میرے عقیدہ کے لحاظ سے یہ صحیح ہے اور کبھی میرے غیر کی رائے صحیح ہوتی ہے۔اس صورت میں مسلمانوں کے لئے یہ کیسے جائز ہوگیا کہ وہ ان کی تقلید کو اپنے اوپر لازم کرلیں ؟!

رابعا: سنتِ حکام

سنت حکام کو اہل سنت والجماعت صوافی الامر کہتے ہیں اور اس پر خداوندِ عالم اس قول سے استدلال کرتے ہیں:

أَطيعُوااللَّهوَأَطيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْکمْ(نساء /۵۹)

( اس موضوع کو ہم اپنی کتاب " مع الصادقین " میں دلیلوں سے واضح کرچکے ہیں کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اطہار(ع) ہیں ، غاصب حکام مراد نہیں ہیں کیوں کہ یہ محال ہےکہ خدا ظالموں ، فاسقوں اور کافروں کی اطاعت کا حکم دے۔)

اہلِ سنت تما حکام کو اولی الامر تسلیم کرتے ہیں خواہ وہ حکام زبردستی ان پر مسلط ہوگئے ہو ں ان کا عقیدہ ہے کہ ان حکام کو خدا نے اپنے بندوں کا امیر قرار دیا ہے لہذا ان کی اطاعت کرنا اور ان کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے۔

۱۷۱

ابنِ حزمظاہری نے سختی سے اہل سنت کےاس نظریہ کی تردید کی ہے وہ کہتے ہیں تمھارے نظریہ کے مطابق امراء کو یہ حق ہےکہ وہ شریعت سے جس حکم خدا و رسول(ص) کو چاہیں باطل کردیں ۔ اسی طرح حکام کو شریعت میں اضافہ کا حق حاصل ہے۔ کیوں کہ کمی بیشی میں کوئی فرق نہیں ہے اور جس کو یہ نظریہ ہے وہ اجماع کے لحاظ سے کافر ہے۔( ابن حزم ملخص ابطال القیاس ص۳۷)

یہتقیر بلاکل غلط ہے اور فحش غلطی ہے: کیوں کہ داؤد بن علی اور ان کے پیروکاروں کو چھوڑ کر امت کا اس بات پر اجماع ہےکہ امت کے اولی الامر ( یعنی حاکموں ) کو  یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان امور میں اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کریں جن کے بارے میں نص نازل نہیں ہوئی ہے۔

ہاں اگر انھیں نص کو علم ہے تو پھر وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے حکم نہیں لگاسکتے ۔پس یہ ظاہر ہوگیا کہ ان کو شریعت میں اضافہ کرنے کا حق ہے لیکن صرف جائز چیز کا اضافہ کرسکتے  ہیں مگر شریعت کی کسی بھی چیز کو باطل نہیں قرار دے سکتے۔

ذہبی سے ہماری بھی ایک گذارش ہے اور وہ یہ ہے کہ جناب ذہبی نے اجماع امت کا دعوا کیا ہے اور خود آپ ہی نے داؤد بن علی اور ان کے پیروکاروں کو مستثنی قرار دیا ہے۔ لیکن داؤد بن علی کے پیروکارں کا نام آپ نے تحریر نہیں کیا ہے؟ اور پھر اس سے آپ نے شیعیان ائمہ کیوں مستثنی نہیں کیا ؟ کیا وہ آپ کے نزدیک ملت اسلامیہ میں شامل نہیں ہیں؟! یا اس چیز کے اظہار سے تمھیں ان حکام کی چاپلوسی روکے ہوئے تھی کہ جن کے لئے تم نے شریعت میں اضافہ کو بھی مباح قرار دیدیا تھا۔ تاکہ وہ آپ کی شہرت و عطایا میں اضافہ کردیں؟!

اور جو لوگ اسلام کے نام پر مسلمانوں کے حاکم بنے بیٹھے تھے کیا وہ نصِ قرآن و نصِ سنت سے واقف تھے کہ جو وہ اس کے حدود میں رہتے؟

اور  جب شیخین ابوبکر و عمر نے جان بوجھ کر نص قرآن و ںصِ سنت کی مخالفت کی تھی۔

۱۷۲

جیسا کہ ہم گذشتہ بحثوں میں بیان کرچکے ہیں۔ تو ان کے بعد آنے والا اس فعل سے محفوظ کیسے رہ سکتا تھا؟

اور جب اہل سنت والجماعت کے فقہاء امراء  و حکام کے بارے میں یہ فتوی دیتے ہیں کہ وہ جو چاہیں دینِ خدا  میں رد و بدل کریں پھر ذہبی کا ان کی تقلید کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔

طبقات فقہا میں سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے عبداللہ ابن عمر سے ایلا کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا ، تم یہ چاہتے ہو کہ یہ کہتے پھرو کہ ابنِ عمر نے کہا ہے: میں نے کہا ہاں ہم آپ کے قول سے راضی اور مطمئن ہو جائیں گے۔ ابن عمر نے کہا : اس سلسلہ میں امراء ہی نہیں بلکہ رسول(ص) کہتے ہیں :

سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ رجاء بن حیواۃ شام کے بڑے فقہا میں شمار  ہوتے تھے۔ لیکن جب میں نے اسے ازمایا تو میں نے انھیں شامی پایا کیونکہ اس نے کہا: اس سلسلہ میں عبدالملک بن مروان نے ایسے ، ایسے فیصلہ کیا ہے۔ ( طبقات الفقہہاء ترجمہ ،سعید بن جبیر)

طبقات ابن سعید میں مسیب بن رافع کے بارے میں مرقوم ہے کہ اس نے کہا۔ جب کوئی فیصلہ آئے اور اس کا قرآن و سنت میں ذکر نہ ہو تو اسے" صوافی الامراء" کی طرف لوٹا دینا چاہئیے۔ پس جس چیز پر ان صاحبان علم کا اتفاق ہوجائے گا۔ وہ  حق ہے( طبقات ابن سعید، جلد۶، ص۱۷۹)

ہم کہتے ہیں کہ اگر حق ان کی خواہشِ نفس کا اتباع کرتا تو  آسمان و زمین تباہ ہوجاتے بلکہ ان کے پاس حق آیا لیکن ان میں سے اکثر حق سے بیزار ہیں۔

خامسا: اہل سنت کےدیگر مصادر تشریع

ان میں سے ہم قیاس ، استحسان ، استصحاب ، سد الذرائع اور اجماع کو بیان کریں گے اجماع تو ویسے بھی ان کے یہاں کافی شہرت یافتہ ہے۔

۱۷۳

امام ابو حنیفہ نے احادیث رد کر کے قیاس پر عمل کرنے میں شہرت پائی جبکہ مالک نے اہل مدینہ کے رجوع اور سد باب الذرائع سے مشہور ہوئے شافعی نے صحابہ کے فتؤوں کی طرف رجوع کرنے میں نام پایا، ان فتؤوں میں شافعی نے درجات قائم کئے اولیت عشرہ مبشرہ کے فتوؤں کو دی پھر ان کے بعد مہاجرت میں سبقت کرنے والوں کو رکھا، پھر انصار کو اور آخر  میں طلقا یعنی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے کی نوبت رکھی گئی۔( مناقب امام شافعی جلد۱ ص۴۴۳)

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے اجتہاد سے چشم پوشی اور فتوؤں سے علیحدگی اور صحابہ کی رائے پر عمل نہ کرنے میں شہرت پائی۔

خطیب بغدادی نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے ان ( احمد بن حنبل) سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا: خدا تمھیں عافیت عطا کرے کسی اور سے پوچھ لو، اس شخص نے کہا: ہم تو صرف آپ سے جواب چاہتے تھے۔ پھر احمد نے کہا خدا تمھیں عافیت عطا کرے کسی اور  سے دریافت کرلو۔ فقہا سے پوچھ لو، ابو ثور سے معلوم کرلو۔ ( تاریخ بغداد جلد۲، ص۶۶)

ایسے ہی مروزی نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے:

علم حدیث سے تو ہم مطمئن نہیں ہیں لیکن شرعی مسائل کے بارے میں ، میں نے یہ طے کیا ہے کہ جو بھی مجھ سے کوئی مسئلہ معلوم کرے گا میں اس کا جواب نہیں دوں گا۔( مناقب امام احمد بن حنبل ص۵۷)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احمد بن حنبل ہی نے صحابہ کے عادل ہونے کی فکر  پیش کی تھی اسی لئے اہل سنت والجماعت میں ان کا مذہب زیادہ مقبول ہے ۔ خطیب بغدادی اپنی تاریخ کی جلد۲ میں محمد بن عبدالرحمن الصٰیر فی سے نقل کیا ہے کہ انھوں

۱۷۴

نے کہا :

میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا:

جب اصحابِ رسول(ص) کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف نظر آئے تو کیا اس وقت ہم ان کے اقوال کا جائزہ لے سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ حق پر کون ہے اور اسی کا اتباع کیا جائے؟

امام احمد بن حنبل نے کہا:

اصحابِ رسول(ص) کا تجزیہ کرنا جائز نہیں ہے۔ میں نے کہا پھر ایسے موقع پر ہم کیا کریں؟

کہا ان ( صحابہ) میں سے جس کی  چاہو تقلید کرلو۔

قارئین فیصلہ کریں، کیا اس شخص کی تقلید کرنا جائز ہے جو حق و باطل میں تمیز نہ کرپاتا ہو؟ جناب شیخ کے نقش قدم یوں بھی اور یوں بھی احمد بن حنبل فتوی دینے کے مخالف بھی ہیں اور فتوی دیتے بھی ہیں اور کہتے ہیں:

جس صحابی کو تم دوست رکھتے ہو اسی کی تقلید کرلو لیکن راہ صواب کے لئے ان کے اقوال کا تجزیہ و تحلیل نہ کرو۔

اہلِ سنت والجماعت اور شیعوں کے نزدیک اسلامی تشریع کے مصادر کے مختصر  تذکر ہ کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سنت نبوی(ص) کی حدود میں مقید   رہنے والے فقط شیعہ ہیں۔ وہ آنِ واحد کے لئے بھی اس سے جدا نہیں ہوئے یہاں تک سنتِ نبی(ص) ان کی علامت و شناخت بن گئی جیسا کہ ان کے دشمن بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔

حالانکہ اہلِ سنت والجماعت ہر ایک صحابی ، تابعی اور حاکم کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔

۱۷۵

ان کی کتابوں اور اقوال خود ان کے خلاف گواہ ہیں آنے والی فصل میں انشاءاللہ ہم ان کے افعال کے سلسلہ میں بحث کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ ان کا کوئی عمل سنتِ نبی(ص) کے موافق نہیں ہے۔

اس بات کا فیصلہ ہم قارئین ہی پر چھوڑتے ہیں کہ کون اہل سنت ہے اور کون بدعت کار؟

۱۷۶

حاشیہ نا گزیر ہے

اس بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصادر تشریع میں سے شیعہ کتاب و سنت کے پابند ہیں اور کسی چیز  کو مصادر تشریع میں شامل نہیں کرتے کیوں کہ جن مسائل کی لوگوں کو ضرورت ہوسکتی ہے ان کے بارے میں ان کے ائمہ کے پاس کافی نصوص ہیں۔

اس بات سے بعض لوگوں کو تعجب ہوتا ہے وہ ائمہ اہلِ بیت(ع) کے پاس ایسے نصوص کے وجود کو بعید از عقل تصور کرتے ہیں کہ جو قیامت تک لوگوں کی ضرورتوں کو ہر زمانہ میں پورا کرتی رہیں گی۔

قارئین کے ذہن سے اپنی بات قریب کرنے کے لئے چند امور کی طرف اشارہ کررہا ہوں ۔ جب کسی مسلمان کا یہ اعتقاد ہو جائے کہ خداوندِ عالم نے محمد(ص) کو ایسی شریعت ہے ساتھ مبعوث کیا ہے جو کہ گذشتہ شریعتوں کو کامل کرنے والی اور ان کے اوپر حاکم ہے اور اس لئے بھیجا ہے تاکہ روئے زمین پر انسانیت کا راستہ مکمل ہوجائے اور اس کے بعد وہ حیات ابدی کی طرف پلٹ جائے۔

۱۷۷

وہ دہی جس نے اپنے رسول(ص) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ وہ تمام ادیان پر غالب آجائے۔(توبہ/۳۳)

اور جب کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کا ارادہ یہ ہے کہ انسان اپنےتمام اقوال و افعال میں خدا کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردے اوراپنے امور کی زمام اسی پر چھوڑدے ۔

بے شک دین خدا کے نزدیک اسلام ہی ہے۔( آل عمران/۱۹)

اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین لائے گا تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ ( آل عمران/۸۵)

اس لحاظ سے احکامِ خدا کا کامل ہونا اور اس کے دامن پر اس چیز کا ہوںا  ضروری ہے جس کی ضرورت  انسان کو اپنے دشوار راستہ میں پیش آسکتی ہے تاکہ وہ منزل مقصود تک پہونچانے پر اس چیز کا مقابلہ کرسکے جو رکاوٹ بنتی ہے۔

ان ہی تمام باتوں کی بنا پر خداوند عالم نے یہ تعبیر بیان کی ہے:

ہم نے اس کتاب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔(انعام/۳۸)

اس بنیاد پر یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ تمام چیزیں قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن انسان اپنی محدود عقل کی بنا پر ان تمام چیزوں کا ادراک نہیں کرپاتا ہے ۔ جن کو  خدا نے اپنی حکمت بالغہ سے بیان کردیا ہے جب کہ وہ اہلِ معرفت پر مخفی نہیں ہیں۔ اسی لئے ارشاد ہے:

تمام اشیاء خدا کی تسبیح کرتی ہیں لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔ ( اسراء/۴۴)

ان من شئی ،اس مفہوم پر دلالت کررہا ہے کہ انسان ، حیوان سب ہی تسبیح کرتے ہیں اور کبھی انسان حیوان و نبات کی تسبیح کو سمجھتا ہے۔ لیکن اس کی عقل پتھر وغیرہ کی تسبیح کو نہیں سمجھ پاتی ۔ مثلا ارشاد خدا ہے۔

۱۷۸

ہم  نے پہاڑوں کو ان کے تابع کردیا تھا پس وہ صبح و شام تسبیح کرتے ہیں۔ ( نحل/۱۸)

جب ہم ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں تو اس بات کو تسلیم کرنا بھی ناگزیر ہے کہ کتابِ  خدا میں وہ تمام احکام موجود ہیں جن کہ قیامت تک لوگوں کو ضرورت پیش آتی رہے گی لیکن ہم اس وقت تک اس کا ادراک اور اس کے معانی سے آگہی حاصل نہیں کرسکتے جب تک رسول(ص) سے رجوع نہ کریں گے جیسا کہ ارشاد ہے۔

اور ہم نے آپ(ص) پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کو بیان کرنے والی ہے۔ ( ںحل/ ۸۹)

اور جب ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خدانے اپنے رسول (ص) کو تمام چیزیں  بتادی تھیں تاکہ وہ لوگوںکو بتائیں کی ان کےمتعلق کیا نازل ہوا ہے تو ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ رسول(ص) نے وہ تمام چیزیں بیان کردی تھیں جب کی لوگوں کو قیامت تک ضرورت پیش آسکتی ہے۔

اگر وہ بیان ہم تک نہیں پہنچا ہے یا آج ہم اس سے واقف نہیں ہیں تو اس میں ہمارا ہی قصور ہے۔ یہ ہماری جہالت کا نتیجہ ہے۔ یا ان لوگوں کی خیانت کا نتیجہ ہے جو ہمارے اور رسول(ص) کےدرمیان واسطہ ہیں یا صحابہ کی جہالت کا نتیجہ ہےکہ انھوں نے رسول(ص) کی بیان کردہ چیزوں کو یاد نہیں کیا۔

لیکن خداوندِعالم ان احتمالات کے امکان یا ان کےواقع ہونے کو جانتا تھا۔ لہذا اس نے اپنی شریعت کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ پس اس نے اپنے مخصوص بندوں میں سے ائمہ منتخب کئے اور ان کو علم کتاب کا وارث بنایا تاکہ خدا لوگوں کی حجت باقی نہ رہے۔

چنانچہ ارشاد ہے:

پھر ہم نے اپنے مخصوص بندوں میں سے وارثِ کتاب انھیں بنایا جنھیں ہم منتخب کرچکے تھے۔(فاطر/۳۲)

۱۷۹

رسول(ص) نے لوگوں کی ضرورت کی ہر چیز کو بیان کیا اور آپ (ص) کے بعد جس چیز کی ان کو قیامت تک ضرورت پیش آسکتی تھی اس کے بیان کے لئے اپنے وصی علی(ع) کو مخصوص کیا یہ وہ  فضیلتیں تھیں جن سے تمام صحابہ کےدرمیان علی(ع) سرفراز تھے، ذہانت میں سب سے آگے، زد و فہم قوی حافظہ اور تمام چیزوں کو سننے کے بعد محفوظ رکھتے تھے لہذا نبی(ص) نے ان تمام چیزوں کی علی(ع) کو تعلیم دی جن کا آپ(ص) کو علم تھا اور امت سے بتادیا کہ علی(ع) وہ باب ہیں جن سے سب کچھ مل سکتا ہے اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے کہ خدا نے رسول(ص) کو تمام لوگوں کا نبی(ص) بناکر بھیجا ہے تو پھر رسول(ص) کو اس بات کا حق نہیں ہےکہ وہ بعض لوگوں کو اپنے علم سے سرفراز کریں اور بعض کو اس سے محروم رکھیں تو ہم کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں رسول(ص) کو کوئی اختیار  نہیں ہے بلکہ وہ حکم کے بندے ہیں وہ اسی حکم کا نافذ کرتے ہیں جن کی ان کو وحی کی جاتی ہے، خدا نے انھیں اس کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ اسلام ہی فقط دین توحید ہے اور ہر چیز کے اعتبار سے وحدت پر مبنی ہے۔ پس لوگوں کے اتحاد کے لئے ایک ہی قائد کا ہونا ضروری ہے اور یہ وہ بدیہی بات جس کو کتابِ خدا نے ثابت کیا ہے اور عقل جس کا حکم دیتی ہے۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

اگر زمین و آسمان میں دو خدا ہوتے تو دونوں برباد ہوجاتے۔ ( انبیاء/ ۲۲)

نیز فرمایا ہے:

اس کے ساتھ اور کوئی خدا نہیں ہے ورنہ ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے لئے پھرتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی  کرتا۔ ( المؤمنون/۹۰)

اور اسی طرح اگر خدا و رسولوں کو ایک ہی زمانہ میں مبعوث فرماتا تو لوگ ضرور دو امتوں میں تقسیم ہوجاتے اور وہ متحارب گروہوں میں بٹ جاتے۔

۱۸۰