شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105343
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105343 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شیعہ

ہی

اہل سنٖت ہیں

مؤلف

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی

۱

بسمہ تعالیٰ

حرف مترجم

بحمد اللہ، عالمی شہرت کے مالک، محقق یگانہ، روشن فکر  و بے باک مناظر اور صاحبِ قلم، سابق اہل سنت والجماعت علامہ محمد تیجانی سماوی کی چوتھی گرانقدر کتاب " الشیعہ ھم اہل السنت" کے ترجمہ کا شرف بھی ناچیز ہی کو حاصل ہوا۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ" فاسئلوا اهل الذکر" کے بعد فاضل نبیل کہ کوئی نئی کتاب بھی آئے گی۔ اور اس کے ترجمہ کا شرف مجھ ہی ناچیز کو حاصل ہوگا۔ کیونکہ مؤلف نے" اهل الذکر " میں بظاہر تمام چیزیں سمودی تھیں لیکن چوتھی کتاب سے یہ معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کو حرفِ آخر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ میں بھی اچانک بننے والے پروگرام کے تحت وطن چلا گیا تھا اور لوٹنے کی کوئی امید بھی نہیں تھی۔ مایوسی کفر ہے۔ لیکن بازگشت کے متعلق میری آس بالکل ٹوٹ چکی تھی۔ حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے صبح و شام، یہاں کی پاک و پاکیزہ فضا، روحانیت کا پر کیف منظر۔ خاندان عصمت و طہارت کی ایک کڑی  حضرت معصومہ ع کا روضہ صحنِ حرم میں تسبیح و تہلیل کے ساتھ مؤمنین و طلباء کا مخلصانہ مصافحہ، علمی مباحثے یہ تمام چیزیں یاد ماضی بن کر ذہن میں گردش کرتی رہتی تھیں اور  ہمہ وقت امام مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ورد زبان رہتا تھا۔

ہاں دکھادے اے تصوٰر پھر وہ صبح و شام تو

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

غیبی تائید شامل حال ہوئی اور میں یک بیک قم کی مقدس و مبارک سرزمین پر پہنچ گیا۔ آئے ہوئے چند ہی روز گزرے تھے کہ محترم انصاریان کا پیغام ملا: جتنی جلد ہوسکے مجھ سے مل لیں ، کیونکہ موصوف صاحبِ فراش تھے۔ لہذا میں عیادت کے فریضہ اور ان کی مذہبی خدمات و اخلاقی اقدار کے تحت ان کے پاس گیا۔ موصوف کا آپریشن ہوچکا تھا۔ اُٹھ کر بیٹھ نہیں

۲

سکتے تھے۔ لیکن وہ نشر علوم آل محمدص اور دیگر تبلیغی امور کے تحت اپنی تکلیف و بیماری سے بے پرقاہ تھے۔ مجھ سے کہا: علامہ تیانی کہ یہ چوتھی کتاب آگئی ہے۔ آپ جلدی سے اس کا ترجمہ کردیں۔ میں قبول کرلیا اور اب بحمدہ و امتنانہ ترجمہ اپنے تمام مراحل سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے۔ اگر کتابت میں تاخیر نہ ہوتی تو دو ماہ قبل ہی کتاب شائع ہوگئی ہوتی اور    شائقین کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑتا۔

ترجمہ کے دوران کتاب کے متعلق میں نے جو رائے قائم کی ہے وہ یہ ہے کہ کتابِ ہذا کا ہر موضوع تحقیق کا بیش بہا خرانہ ہے اور اپنے اندر ذہنوں کو بدل دینے والی بے پناہ طاقت لئے ہوئے ہے جو مسلمان بھی مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے ہٹ کی اس کا مطالعہ کرے گا اسے یہ معلوم ہوجائے گا کہ شیعہ ہی اھل سنت ہیں۔ انھوں نے سنتِ نبی@کے خلاف کبھی کوئی عمل انجام نہیں دیا ہے چنانچہ سنت نبی@ان کا شعار بن گئی ہے۔ لہذا اہل سنت کا صحیح مصداق شیعہ ہی ہیں۔ اور ان اشخاص کی حقیقت بھی واضح ہوجائے گی کہ جنھیں جعلی حدیثوں اور ظالم و جابر نام نہاد مسلمان خلفاء و حکام نے جنتی بنارکھا ہے۔ اسی طرح اس قوم کی بھی حقانیت و مظلومیت آشکار ہوجائے گی کہ جس کو غلط پروپیگنڈے اور مسلسل تبلیغات نے منفور بنادیا ہے اور اس بات کاراز بھی فاش ہوجائے گا کہ اہل سنت والجماعت نے ائمہ اہل بیتع کو چھوڑ کر ان لوگوں کی اقتداء کیون کی جن کا عصمت و طہارت اور خانۃ وحی سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ اسی کتاب میں ڈاکٹر موسی موسوی کی کتاب ، اصلاح شیعہ،کا بھی جواب مل جائے گا۔

اُمید ہے کی مسلمان کھلے ذہن سے اس کتاب کا مطالعہ کریں گے اور حق کے سامنے سپر انداختہ ہو کر شیعوں کے ہم خیال بن جائیں گے او ر بے بنیاد عقائد و فرسودہ خیالات کو ذہن سے نکال کر ائمہ اہل بیتع کی اقتداء کریں گے اور تمام مسلمان ایک مذہب کے پرچم کے نیچے جمع ہوکر خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کریں گے۔

نثار احمد زین پوری

۳

خطبہ الکتاب

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين، الرحمان الرحيم، قاهر الجبّارين والمتکبّرين ناصر المظلومين والمستضعفين، المتفضّل علی عباده اجمعين من المؤمنين والکافرين والمشرکين والملحدين، المنعم علی خلقه کلّهم بالهداية والرعاية والتکريم، فقال جلّ و علا:{ ولقد کرّمنا بنی آدم و حملناهم فی البرّ والبحر ورزقناهم من الطيّبات وفضّلناهم علی کثير ممّن خلقنا تفضيلا} (الاسرا، آیت ۷۰)

والحمد لله الذی اسجد لنا ملائکته المقربين و من أبی أصبح من الملاعين، الحمد لله الذي هدانا لهذا وما کنا لنهتدی لولا أن هدانا الله، والحمد لله الذی عبّد لنا الطريق و مهّد لنا السّبيل لنصل بعنايته و تحت عبادته إلی مراتب الکمال العليّة، و أنار لنا الظّلام و أوضح لنا الحقيقة بالحجج القويّة والبراهين الجليّة، و أرسل لنا رسلا منّا تتلو علينا آياته و تخرجنا من الظلمات إلی النّور و تنقذنا من الضلالة العميّةو جعل لنا العقل إماما قائما نهتدی به کلّما شکّت حواسنا فی أمر مبهم أو قضية.

والصلاة والسّلام، والبرکات والتحيات علی المبعوث رحمة للانسانية، سيّدنا و مولانا و قائدنا محمّد بن عبد الله خاتم الرّسل و سيد البشريّة، صاحب الفضيلة والوسيلة والدرجة الرفيعة، صاحب المقام المحمود واليوم الموعود والشفاعة المقبولة والخلق العظيم و علی آل بيته الطيّبين الطاهرين الذين أعلی الله مقامهم

۴

 و جعلهم أمان الأمّة من الهلکة و منقذی الملّة من الضلالة و نجاة المؤمنين من الغرق، المتمسّک بحبل ولائهم مؤمن طيّب الولادة، والناکب عن صراطهم منافق رديء الولادة محبهم ينتظر الرّحمة و مبغضهم ليس له إلاّ النّقمة، لا يصل العبد إلی ربّه إلا من طريقهم ولا يدخل إلا من بابهم.

ثمَالرّضوان علی شيعتهم و محبّيهم من الصاحابة الاولين الذين بايعوهم علی نصرة الدّين، و ثبتوا معهم علی العهد و کانوا من الشاکرين، و علی من تبعهم بإحسان إلی يوم الدّين.

اللّهم إنّا نرغب إليک فی دولة کريمة تعز بها الإسلام و أهله، و تذلّ بها النّفاق و أهله، وتجعلنا فيها من الدّعاة إلي طاعتک، والقادة إلي سبيلک، و ترزقنا بها کرامة الدّنيا والآخرة، برحمتک يا ارحم الرّاحمين.

ربّ اشرح لی صدری، و يسّر لي أمری، واحلل عقدة من لساني يتقهوا قولی، واجعل کلّ من يقرأ کتابي يميل إلی الحق بإذنک، ويترک التعصّب بمنّک و احسانک، فإنک أنت الوحيد القادر علی ذالک ولا يقدر عليه سواک.

فبعزّتک و جاللک و بقدرتک و کمالک، و بمحبّتک لعبادک افتح بصائر المؤمنين الموحّدين الذين آمنوا برسالة حبيبک محمّد علی الحقّ الذی لا شکّ فيه، حتّی يهتدوا إليه بفضلک و يعرفوا قيمة الأئمة من آل بيت نبيّک، و يتوحّدوا لإعلاء کلمة الدّين بالحکمة البالغة والموعظة الحسنة والأخوة الصّادقة، فلقد عمّ الفساد في البرّ والبحر.

ولو لا الصبر الذي خلقته و ألهمتنا إيّاه، لدبّ اليأس إلی قلوبنا ولأصبحنا من الخاسرين، لأنّه لا يبأس من روح الله إلا القوم الکافرون، فاجعلنا اللّهم من الصابرين و لا تجعلنا من اليائسين.

اللّهم، کن لوليّک الحجّة ابن الحسن، صلواتک عليه و علی آبائه في هذه

۵

 السّاعة و في کلّ ساعة، وليّا و حافظا و قائدا و ناصرا، و دليلا و عينا، حتّی تسکنه أرضک طوعا و تمتّعه فيها طويلا، واجعلنا من أنصاره و أعوانه والمستشهدين بين يديه في طاعتک و سبيلک، إنّک أنت السّميع العليم.

ربّنا لا تزع قلوبنا بعد اذ هديتنا، وهب لنا من لدنّک رحمة إنّک أنت الوهّاب.

ربّنا إنّک جامع النّاس ليوم لا ريب فيه، إنّ الله لا يخلف الميعاد.

وآخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين، اللّهم صلّ علی محمّد و آله الطيّبين الطاهرين.

۶

مقدمہ

الحمد لله ربّ العالمين والصلوة والسّلام علی اشرف الأنبياء والمرسلين سييّدنا و مولانا محمّد و علی آله الطيّبين الطاهرين وبعد

مداد العلماء افضل عند الله من دماء الشهداء.

علماء (کے قلم) کی سیاہی خدا کے نزدیک شہیدوں کے خون سے افضل ہے۔ ہر عالم اور ہر صاحب قلم کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ایسی چیز لکھے جو انکی ہدایت کی صلاحیت رکھتی ہو اور ان کی اصلاح کرسکتی ہو، انھیں تاریکیوں  سے نکال کر روشنی میں لاسکتی ہو اور متحد کرسکتی ہو۔ کیوں کہ راہ خدا میں شہید ہونے والے یعنی عدل کے قائم کرنے کی دعوت میں جان دینے والے کی قربانی و شہادت سے وہی متاثر ہوتا ہے جو اس وقت موجود تھا۔ لیکن لوگوں کو تعلیم دینے والے اور ان کے لئے لکھنے والے سے قوم کے نونہال اور بہت سے مطالعہ کرنے والے متاثر ہوتے ہیں اور آنے  والی نسلوں کے لیے اس کی کتاب منار ہدایت

۷

بن جاتی ہے۔ پھر ہر شئی خرچ کرنے سے کم ہوتی ہے۔ لیکن علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ خرچ کرکے اس میں اضافہ کرو۔

نیز رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے:

"لئن دی الل بک رجلا واحدا خرا لک مما طلعت الشمس و خر لک من الدنا لک من الدنا و فا"

" اگر تمھارے ذریعہ خدا ایک شخص کی ہدایت کردے تو وہ تمھارے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج نے روشنی ڈالی ہے یا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔"

کتنے صاحبان قلم کو موت کی آغوش میں سوئے ہوئے صدیاں گذر گئیں، ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوگئیں، لیکن ان کے افکار و علوم کتاب کی صورت میں موجود ہیں اور وہ کتاب نسلوں کے گذرنے کے ساتھ ساتھ سینکرڑوں مرتبہ زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے اور لوگ اس سے ہدایت حاصل کرتے ہیں، جس طرح شہید اپنے رب کے نزدیک زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں اسی طرح وہ عالم بھی خدا کے نزدیک اور لوگوں کے درمیان زندہ  ہیں جو لوگوں کی ہدایت کا سبب تھا لوگ اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور اس کا ذکر خیر کرتے ہیں۔

لیکن میں علماء میں سے نہیں ہوں اور نہ ہی اپنے لئے اس کا دعویدار ہوں، انانت سے میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں، میں تو علماء و محققین کا خادم ہوں ان کے نقش قدم پر ایسے ہی چلتا ہوں جس طرح غلام اپنے آقا کا اتباع کرتا ہے۔

خدا نے مجھے"ثم اهتديت " لکھنے کی توفیق عطا کی اور قارئین نے میری ہمت افزائی کی تو اس کے بعد دوسری کتاب "لاکون مع الصادقين " "ہوجاؤ سچوں کے ساتھ " تحریر کی اور اس نے بھی مقبولیت پائی اور اس نے مجھے مزید بحث و

تحقیق پر

۸

 ابھارا تو میں نے اسلام اور نبی اسلام سے دفاع، اور آپ پر لگائے جانے والے اتہام، حقیقت کے انکشاف اور آپ کے اہل بیت (ع)کے خلاف کھیلی جانے والی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے تیسری کتاب" فاسئلوا اهل الذکر" تحریر کی.

عربی اور اسلامی ممالک کے علاوہ دنیا بھر سے میرے پاس مشفقانہ اور محبت آمیز خط آئے۔ اسی طرح دنیا کے ہر گوشہ و کنار میں ہونے والی مختلف فکری کانفرنسوں میں مجھے دعوت دی گئی چنانہاس سلسلہ میں میں نے امریکہ کی متحدہ جمہوریاؤں ، اسلامی جمہوریہ( ایران )برطانیہ ، ہندوستان، پاکستان، کینیا، مغربی افریقہ اور سویڈن کا سفر کیا۔

ہر جگہ روشن فکر افراد اور ذہین و جدت پسند نوجوانوں سے میری ملاقات ہوئی میں نے ان میں مزید موقت تشنگی کا احساس کیا، وہ سوال کرتے تھے کیا اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے؟ کوئی نئی کتاب لکھی ہے؟

میں نے اس سعادت پر خدا کا شسکر ادا کیا اور مزید توفیق و عنایت کی دعا کی اور اس کتاب کو لکھنے کے سلسلے میں مدد چاہی جسکو میں مسلمان قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں حق کے متلاشی جن افراد سے پہلی تین کتانوں کا مطالعہ کیا ہے امید ہے کہ اگر وہ اس  کتاب کا مطالعہ کریں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ" شیعہ امامیہ ہی " فرقہ ناجیہ اور شیعہ ہی در حقیقت اہل سنت ہیں یہاں میری مراد سنت حقیقی اور سنتِ محمدیص ہے جو کہ نبی ص نے وحی رب العالمین کے مطابق پیش کی تھی۔

نبی تو ٖصرف وہی کہتے تھے جو ان پر وحی ہوتی تھی۔ قارئین کے سامنے عنقریب میں وہ اصطلاح پیش کروں گا جس پر شیعہ زعماء اور ان کے حریف اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے۔ حقیقت میں یہ ان کے زعم کے لحاظ سے سنت ہے جبکہ خدا نے اس سلسلہ میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے اور رسول ص بھی اس سے بری ہیں۔

کتنی ہی جھوٹی باتیں رسولصکی طرف منسوب کردی گئی ہیں اور آپ صکے کتنے ہی

۹

اقوال و افعال اور احایث کو مسلمانوں تک، اس دلیل سے نہیں پہنچنے دیا گیا ہے کہ کہیں کتاب خدا اور حدیثِ نبی( ص)مخلوط نہ ہوجائے۔ اگر چہ اس دلیل میں کوئی دم خم نہیں ہے بیت عنکبوت کی سی ہے۔ بہت سی احادیث کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا ہے۔اور  ان کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے اور کتنی ہی خیالی چیزیں نبی ص کے بعد احکام بن گئیں اور ان ہی سے منسوب ہوگئیں۔ ایسے کتنے ہی لوگ میاں مٹھو بن بیٹھے ہیں جن کی حقارت اور ذلت کی تاریخ گواہی دے رہی ہے۔

وہی نبی ص کے بعد امت کے قائد و رہبر بن گئے اور(آج) ان کی غلطیوں کی تاویل کی جاتی ہے۔

اور کتنی ہی قدآور شخصیتیں، کہ جن کی شرافت و عالی منزلت کی تاریخ شاہد ہے، گوشہ نشین ہوگئیں کوئی ان کی طرف مڑ کر دیکھنے والا نہیں ہے۔ بلکہ ان کے عظیم موقف کی بنا پر لوگ ان پر لعنت کرتے ہیں اور انہیں کافر کہتےہیں، اور بہیتر ے پرکشش اور چمکیلے نام ہیں جن کے پیچھے کفر و ضلالت چھپی ہوتی ہے کتنی ایسی ہی قبروں کی زیارت ہورہی ہے جن کے مردے جہنمی ہیں۔

خداوند عالم نے اس کو بہترین تعبیر میں پیش کیا ہے۔

" اے رسول ص لوگوں میں سے وہ بھی ہے جس کی باتیں دنیا میں تمھیں بہت بھاتی ہیں اور وہ اپنی دلی محبت پر خدا کو گواہ مقرر کرتاہے۔ حالانکہ وہ دشمنوں میں سے سے زیادہ جھگڑالو  ہے اور جب تم سے الگ ہوا تو ملک میں فساد پھیلانے کے لئے اِدھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے لگاتا کہ زراعت و مویشی کا ستیاناس کرے اور خدا فساد کو اچھا نہیں سمجھتا اور جب کہا جاتا ہے کہ خدا سے ڈرو تو اسے غرور، گناہ پر ابھارتا ہے پس ایسے کے لئے تو جہنم کافی ہے اور بہت براٹھکانہ ہے"

۱۰

شاید میں نے اس حکمت کے اوپر عمل کر کے مبالغہ نہیں کیا ہے کہ اس کے بر عکس بھی دیکھاہے۔" لوعکست لاصبت" اور محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کو کافی اور مسلمات میں سے نہ سمجھے جو  اس کے پاس ہیں۔ بلکہ اس کے مقابل والی چیزوں کو بھی دیکھے اور غور کرے تاکہ وہ مٹی ہوتی حقیقت اور اس کے دھندلے نقوش سے آگاہ ہوجائے کیونکہ وہ ہر زمانہ میں سیاسی کھلواڑ کا نشانہ بنی رہی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی چیز کے ظاہر سے فریب نہ کھائے اور نہ ہی کثرت سے متاثر ہو اس سلسلہ میں خداوند عالم  کا ارشاد ہے:

"اگر تم زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی اطاعت کروگے تو وہ تمہیں راہِ خدا سے بھٹکا دیں گے کیونکہ وہ ظن کا اتباع کرتے ہیں اور بالکل بے تکی باتیں کیاکرتے ہیں۔ (سورۃانعامآیت116 )

لوگوں کو گمراہ کرنے اور دھوکہ دینے کے لئے باطل حق کی نقاب ڈال لیتا ہے۔

اور اکثر  کم عقل لوگوں میں کامیابی بھی حاصل کر لیتا ہے، کبھی حق کے خلاف باطل کی مدد کی جاتی ہے اور حق والوں کے پاس خدا کے اس وعدہ کے انتظار " باطل مٹ جائے گا اور وہ تو مٹنے ہی والا ہے اور صبر کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہتا ہے۔

اس کے لئے بہترین مثال وہ ہے جو جناب یعقوب ع اور ان کی اولاد کے بارے میں بیان کی ہے:

"وہ رات کو روتے ہوئے اپنے والد کے پاس آئے اور کہنے لگے بابا ہم شکار کے لئے چلے گئے تھے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس  چھوڑ دیا تھا پس انھیں بھیڑیا کھا گیا اور آپ ہماری بات کو تسلیم کرنے والے نہیں ہیں خواہ ہم سچے ہی کیوں نہ ہوں" سورۃیوسفآیت 16،17

اگر وہ( برادران یوسف) سچٌے ہوتے تو انھیں یہ کہنا چاہئے تھا : آپ ہماری بات

۱۱

۱۲

۱۳

۱۴

"بلکہ ان کے پاس حق آیا جب کہ ان میں سے اکثر حق کو پسند نہیں کرتے۔( سورہ بقرہ آیت 249) 

ان ہی اسباب کی بناء پر حق کے پرستار حسین(ع) کے خلاف باطل پرست یزید کی مدد کی گئی اور اسی طرح دیگر  ئمہ معصومین (ع) کے حق کے سلسلے میں امیٌہ بنی عباس کے حکام کی مدد کی گئی اور ائمہ نے اسلام و مسلمین کی مصلحت کے پیش نظر شہادت قبول کی۔

چنانچہ باطل کے خوف سے بارہویں امام(عج)  نے غیبت اختیار کی مدد کرنے والے  پائے جائیں گے۔ اس وقت خدا انھیں ظہور کا حکم دے گا تاکہ عالمی پیمانے پر حق باطل کے خلاف علم بلند کرے۔ امام مہدی(عج) زمین کو ایسے ہی عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے زمین کو ایسے ہی حق سے لبریز کردیں گے جس طرح وہ باطل سے چھلک رہی ہوگی۔

باوجودیکہ اکثر لوگ حق سے کراہیت کرتے ہوں گے وہ باطل کے طرف دار ہوں گے اور حق کو دوست رکھنے والوں کی تعداد قلیل ہوگی لیکن وہ قلیل ہی خدا کی معجزاتی مدد سے باطل پر فتحیاب ہوں گے اور یہ تو ان تمام معرکوں اور جنگوں میں واضح ہے جن میں حق والوں نے باطل کے خلاف محاذ قائم کیا تھا، کتنی ہی چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آگئی ہے اور خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ۔

جو لوگ حق کے لئے صبر کرتے ہیں اگر چہ کہ ان کی تعداد مختصر ہوتی ہے۔ تب بھی خدا معجزات  کے ذریعہ ان کی مدد کرتا ہے اور ملائکہ کو بھیجتا ہے جو ان کے شانہ بشانہ جنگ کرتے ہیں اور اگر ساتھ کے ساتھ خدا مداخلت کرتا تو باطل پر حق کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔

اس تلخ حقیقت کو تو ہم آج اپنی زندگی میں بھی دیکھ رہے ہیں، سچَے مؤمن، حق کے طرف دار مغلوب ہیں جبکہ خدا کے منکر باطل کے طرف دار حاکم بنے بیٹھے ہیں، کافروں اور

۱۵

مستکبرین کے مقابلے میں مستضعف و مؤمنین خدا کی نصرت ہی سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

ہمارے مدعا کے ثبوت میں وہ روایات موجود ہیں کہ جو ظہور امام مہدی(عج) کے ساتھ معجزات کے ظاہر  ہونے پر دلالت کررہی ہیں۔

لیکن واضح رہے یہ چیزیں جمود اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنے کی دعوت نہیں ہیں اور اب کیوں کر ہوسکتا ہے جببکہ میں نے ابھی یہ بیان کیا تھا کہ آپ(ص) اسی وقت ظہور فرمائیں گے جب اعوان و انصار موجود ہوں گے، سچٌے مومنین کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان میں اسلام کی صحیح فکر اور روح بس جائے اور وہ ولایتِ اہل بیت(ع) کے قائل ہوجائیں۔ یعنی ثقلین، کتابِ خدا اور عترت نبی (ص) سے متمسک ہوجائیں تاکہ وہ امام مہدی(عج) منتظر کے اعوان و انصار قرار پائیں۔

اگر میرا یہ قول اکثر لوگوں کی رائے کے لحاظ سے غلط ہے اور اقلیت کے اعتبار سے صحیح ہے تو مجھے اکثریت کی ملامت کی پرواہ نہیں اور اقلیت کی مدح کی خواہش نہیں ہے مجھے تو خدا اور اس کے رسول(ص) اور ائمہ معصومین(ع) کی رضا عزیز ہے۔ وہ اپنی خواہشات نفس کے تابع ہیں پھر ان کی خواہشیں پراگندہ ہیں، اور اگر حق ان کی خواہشوں کا اتباع کرتا تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے برباد ہوجاتا۔(سورۃ مؤمنون آیت ۷۱) اور  ویسے بھی اکثر لوگ حق سے منحرف ہیں حد ہوگئی انوں نے حق کی عداوت میں کہ جس پر وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے ساتھ ساتھ گامزن نہیں ہوسکتے تھے۔ اپنے رسولوں کو قتل کردیا۔

"کیا تم اس قدر بددماغ ہوگئے کہ جب کوئی پیغمبرتمھارے پاس تمھاری خواہش نفسانی کے خلاف کوئی حکم لے کر آیا تو تم اکڑ بیٹھے۔ پس تم نے بعض پیغمبروں کی جھٹلایا اور بعض کو قتل کرڈالا۔"

پس اگر وہ بعض افراد جو حق کو تحمل نہیں کرتے ہیں جیساکہ پہلی کتابوں کے ذریعہ میں نے حق پیش کیا اور انہیں اس بات کا اختیار تھا کہ وہ علمی دلیل حجت سے میری بات

۱۶

کی تردید کرتے لیکن انھوں نے مجھ پر سب و شتم کیا جیسا کہ جاہلوں کی عادت ہے۔

اب مجھے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ مجھے کوئی دھمکی اور لالچ میں مبتلا کرسکتا ہے۔ میں اپنے قلم اور اپنی زبان کے ذریعہ محمد رسول اللہ(ص) اور ان کے اہل بیت صلوات اللہ علیہم اجمعین سے دفاع کرتا وہوں گا امید ہے کہ انکی بارگاہ میں میری یہ سعی مقبول ہوگی، اور میں کامیاب ہوجاؤں گا۔

وما توفقی الا بالل عل توکلت و ال انب.

محمد تیجانی سماوی تیونسی.

۱۷

شیعوں کا تعارف

جب ہم بغیر کسی تعصب وتکلف کے فرقہ شیعہ (شیعہ سے ہماری مراد یہاں امامیَہ اثناعشری ہیں) جنہیں امام جعفر صادق(ع)کی نسبت جعفری بھی کہا جاتاہے ہماری بحث کا تعلق دوسرے فرق اسماعیلیہ اور زیدیہ قغیرہ سے نہیں ہے ہمارے نزدیک وہ ایسے ہی ہیں جیسے وہ دیگر فرق جو حدیث ثقلین سے تمسک نہیں رکھتے ہیں اور انہیں رسول (ص) کے بعد حضرت علی(ع) کی امامت کاعقیدہ کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گا۔) کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ اسلامی فرقوں میں سے ایک ہے جو کہ اہل بیت مصطفیٗ (ص) میں سے علی(ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کا محب و معلد ہے اور تمام فقہی مسائل میں ان ہی کی طرف رجوع کرتا ہے ، اور رسولِ خدا (ص) کےسوا ان پر کسی اور کو فضیلت نہیں دیتا۔

اختصار کے ساتھ یہ ہے شیعہ کا "حقیقی" تعارف متعصب لوگوں کی ان باتوں کو چھوڑئیے کہ شیعہ دشمنِ اسلام ہیں یا وہ علی(ع) کی نبوت یا رسالت کے قائل ہیں یا اس مذہب کا موجد عبد اللہ بن سبا یہودی ہے۔

۱۸

میں نے چند ایسے مقالات و کتب کا مطالعہ کیا ہے کہ جن کے لکھنے والوں نے اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کی ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

لیکن ان کے اقوال محض افترا اور صریح جھوٹ ہیںانھوں نے دشمنِ اہل بیت(ع) اپنے آباؤ اجداد ہی کے اقوال کو دھرایا ہے اور نواصب کے ( تھوکے لقموں کو چبایا ہے) جو کہ امَت پر  مسلط ہوگئے تھے، اور انھیں دور افتادہ علاقوں میں رہنے پر مجبور کرتے تھے، برے القاب سے نوازتے تھے۔

شیعوں کے دشمن کی کتابوں میں رافضی یا روافض ایسے القاب مرقوم ہیں۔چنانچہ قاری بادی النظر میں یہ سوچتا  ہے کہ شیعہ رسالتِ نبی(ص) و قوانین اسلام کے منکر اور اس پر عمل پیرا نہیں ہوںگے۔

در حقیقت بنی امیہ و بنی عباس کے حکام اور ان کے چاپلوس علما نے شیعوں کو ان برے القاب سے یاد کیا  ہے کیونکہ شیعہ حضرت علی(ع) کے محب تھے اور ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت کے منکر تھے اور ای طرح بنی امیہ و عباس کے حکام کی خلافت کا بھی انکار کرتے تھے۔ شاید حکام بعض حدیث وضع کرنے والے صحابہ کی مدد سے امت پر مسلط ہوئے تھے۔ کیوں کہ صحابہ ان کی خلافت کو شرعی بتاتے تھے اور خداوندِ عالم کے اس قول کو بہت رواج دیتے تھے۔

 ا اّا الذن آمنوا اطعوا الل و اطعوا الرسول و اولی الامر منکم

" ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو  اور اس کے رسول(ص) اور جو تم میں سے صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔"

وہ اس آیت سے انہی حکام کو مراد لیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ آیت ان ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے وہ صاحبانِ امر ہیں مسلمان پر ان کی اطاعت واجب ہے،

۱۹

 کبھی حکام ان لوگوں کو کرایہ پر لیتے تھے جو نبی(ص) کی طرف سے جھوٹی حدیثیں گھڑت کرتے تھے۔

چنانچہ رسول(ص) سے یہ حدیث نقل کردی گئی تھی۔

لس احد خرج من السلطان شبرا فمات عل الا مات الجالة

"کسی کو حاکم کے خلاف ایک بالشت بھی جانے کا حق نہیں ہے اور جو اس حالت میں مر گیا تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا"

پس  کسی مسلمان کو بادشاہ کی اطاعت سے نکلنے کا حق نہیں ہے۔

اس سے ہماری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ شیعہ حکام کے مظٖالم کا نشانہ کیوں بنے رہے اس لئے کہ انھوں نے ان کی بیعت سے انکار کردیا تھا اور خلافت کو اہل بیت(ع) کا مغصوب حق تصور کرتے تھے لہذا حکام عوام فریبی کے لئے یہی کہتے رہے کہ شیعہ اسلام کے دشمن ہیں وہ اسے نابود کردینا چاہتے ہیں جیسا کہ یہی چیز ایسے بعض صاحبانِ قلم نے لکھی ہے کہ جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ سابقین و لاحقین کے عالم تھے۔

اور جب ہم اس کھیل کی طرف رجوع کریں گے جو حق کو باطل سے ملاتا ہے تو معلوم ہوگا کہ جو اسلام کو مٹادینا چاہتا ہے وہ اور ہے اور جو فاسق و ظالم حکام کے خلاف خروج کرتا ہے وہ اور ہے اور اس سے ان کا مقصد حق کو حقدار تک پہونچانا تھا، تاکہ عادل حاکم کے ذریعہ اسلام کے قوانین کانفاذ ہوسکے۔ بہر حال یہ بات تو ہم اپنی سابعہ کتابوں"ثم اہتدیت" لاکون مع الصادقین اور اہل ذکر کی بحثوں میں بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ ہر فرقہ ناجیہ ہے کیوں کہ وہ ثقلین " کتابِ خدا اور عترت رسول(ص) سے متمسک ہے۔

ہم نے بعض منصف مزاج علمائے اہل سنت کوبھی اس حقیقت کا معترف پایا ہے۔ چنانچہ ابنِ منظور اپنی کتاب "لسان العرب" میں شیعہ کے معنی بیان کرتے ہیں "شیعہ" وہ قوم ہے جو عترتِ نبی(ص) کی عاشق و محب ہے" اسی طرح ڈاکٹر عبد الفتاح عاشور نے مذکورہ

۲۰