شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105523
ڈاؤنلوڈ: 5935

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105523 / ڈاؤنلوڈ: 5935
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسی طرح ہر نبی کا کوئی وصی ہوتا ہے جو اس کی امت میں اس کا خلیفہ ہوتا ہے تاکہ وہ تفرقہ و پراکنگی کا شکار نہ ہوجائے۔

قسم اپنی جان کی یہ تو فطری  چیز ہےکہ جیسے علما اور ان پڑھ مومنین و کافرین سب جانتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہر قبیلہ ، گروہ اور حکومت کا ایک ہی رئیس و صدر ہوتا ہے جو اس کا  قائد اور زمام دار ہوتا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں دو سرداروں کے حکم کی پیروی کریں۔

ان ہی وجوہ کی بنا پر  خدا نے ایک رسول ملائکہ میں سے اور ایک انسانوں میں سے منتخب کیا اور اپنے بندوں کی قیادت کےشرف سے انھیں سرفراز کیا اور انھیں امام بنایا  جو اس کے حکم کے مطابق ہدایت کرتے۔

ارشاد خداوند ہے:

" بے شک خدا نے آدم و نوح اور آل ابرہیم و آل عمران کو عالمین میں سے منتخب کرلیا ہے۔ (آل عمران/۳۳)

اور محمد(ص) کی ختمِ رسالت پر خدا نے جن لوگوں کو منتخب کیا وہ ائمہ نبی(ص) کی عترت میں سے ہیں اور سب کےسب آل ابراہیم (ع) سے ہیں اوران میں سے بعض ، بعض کی ذریت سے ہیں۔ رسول(ص) خدا نےان کی طرف اس طرح اشارہ کیا ہے، میرے  بعد بارہ(۱۲) خلیفہ ہوں گے وہ سب قریش سے ہوں گے( بخاری ج۸،ص۱۲۷، مسلم ج۶، ص۳، بعض روایات میں ہے کہ وہ خلفا سب بنی ہاشم سے ہوں گے ۔ خواہ بنی ہاشم سے ہوں اور خواہ قریش سے بہر حال سب نسلِ ابراہیم(ع) سے ہوں گے۔)

ہر زمانہ کا امام معین و معلوم ہے پس جو اپنے زمانہ کے امام کی معرفت کے بغیر مرتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے اور خداوند عالم جس کی امامت کے لئے منتخب فرماتا ہےاس کو پاک و پاکیزہ رکھتا ہے ۔ اسے زبور عصمت سے آراستہ کرتا ہے، علم کے خزانہ سے

۱۸۱

مالا مال کرتا ہے اور حکمت اسی کودی  جاتی ہے جو اس کا مستحق اور اہل ہوتا ہے۔

اورجب  ہم اصل موضوع یعنی معرفت امام کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر وہ چیز جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے جیسے نصوص قرآن  و ںصوص سنت سے  احکام کا نکالنا اور قیامت میں جن چیزوں کی بشریت کو احتیاج ہوگی وہ سب ان کے پاس ہیں۔

ہم نے ائمہ اہلِ بیت(ع) کےعلاوہ ملت اسلامیہ میں سے کسی کو اس بات کا دعوی کرتے نہیں دیکھا جبکہ انھوں نے متعدد بار صریح طور پر یہ فرمایا : ہمارے پاس رسول(ص) کا املا کیا ہوا اور علی ابن ابی طالب(ع) کے ہاتھ کا لکھا ہوا، الجامعہ صحٰیفہ موجود ہے اور اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی لوگوں کو  قیامت تک ضرورت ہوگی۔ یہاں تک اس میں ارش الخدش بھی مرقوم ہے۔

ہم اس صحیفہ جامعہ کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ جس کو علی(ع) اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔نیز بخاری و مسلم نے مختصر لفظوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے اس لئے کوئی مسلمان اسےجٹھلانہیں سکتا۔

اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ ائمہ اہلِ بیت(ع) سے احکام لیتے ہیں کہ جو شریعت میں نصِ قرآن و نصِ سنت سے حکم لگاتے ہیں وہ ان ( کتاب و سنت) کے علاوہ کسی اور چیز کے محتاج نہیں ہیں اور ائمہ اثناعشر کا زمانہ کم از کم تین سو سال پر  محیط ہے۔لیکن اہل سنت والجماعت خلیفہ اوّل ہی کے زمانہ سے نصوص کے فقدان اور ان سے ان کی سربراہوں کے جاہل ہونے کی بنا پر قیاس و اجتہاد کے محتاج ہیں۔

اور پھر خلفا نے ںصوص نبوی(ص) کو نذر آتش کردیا اور اس پرعمل کرنے اورانھیں قلم بند کرنے سے منع کردیا تھا۔

انکے سردار نے تو سنت نبوی(ص) کو دیوار پر دے مارا تھا اور صاف کہدیا تھا کہ ہمارے لئے کتابِ خدا کا فی ہے جب کہ وہ احکام قرآن کے سلسلہ میں واضح ںصوص کے محتاج تھے۔

اور اس بات کو تو سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن کےظاہری احکام بہت ہی مختصر ہیں اور

۱۸۲

 وہ اس کے عموم میں بھی نبی(ص) کے بیان کے محتاج ہیں لہذا ارشاد ہے:

ہم نے آپ(ص) پر  ذکر نازل کیا تاکہ لوگوں کو وہ چیز بتائیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔( نحل/۴۴)

اور جب قرآن اپنے احکام و مقاصد کے بیان کے سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کا محتاج ہے۔

اور جب اہل سنت والجماعت کے اقطاب نے قرآن کو بیان کرنے والی سنتِ نبی(ص) کو نذر آتش کردیا تھا  تو اس کے بعد ان کے پاس قرآن کو بیان کرنے والی ںصوص نہیں رہ گئی تھیں اور نہ ہی سنتِ نبوی(ص) کو بیان کرنے والی کوئی چیز باقی بچی تھی۔

اس لئے ناچار انھوں نے اجتہاد ، قیاس علما کے مشورے استحسان اور مصلحتِ وقت کے مطابق عمل کیا۔

بدیہی بات ہے کہ وہ نصوص کے  فقدان کی وجہ سے ان چیزوں کے محتاج قرار پائے اور ان  کے علاوہ کوئی چارہ کار نظر نہیں آیا تھا۔

۱۸۳

تقلید و مرجعیت ، شیعوں کی نظر میں

وہ بالغ و عاقل جو خود مجتہد نہ ہو۔ یعنی شریعت کے احکام کا قرآن وسنت سے استنباط کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو۔ اس کے لئے ضروری ہےکہ وہ علم و عدل اور تقوی و زہد کے پیکر جامع الشرئط مجتہد کی تقلید کرے چنانچہ اس سلسلہ میں خدا ندِ عالم کا ارشاد ہے:

اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان علم سے پوچھ لو۔(نحل/۴۲)

جب ہم اس موضوع پر بحث کریں گے تومعلوم ہوگا کہ شیعہ امامیہ حادثات سے با خبر تھے پس ان کے یہاں وفات نبی(ص) سے آج تک علمیت و مرجعیت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ہے۔

شیعوں کی تقلید کا سسلسلہ ائمہ اثںا عشر تک پہونچتا ہے اور ان ائمہ کا سلسلہ تین سو سال تک ایک ہی  نہج پر  جاری رہا ۔ ان میں سے کبھی ایک نے دوسرے کے قول کی مخالفت نہیں کی ۔ کیونکہ ان کےنزدیک نصوصِ قرآن و سنت ہی لائق اتباع تھیں۔ لہذا انھوں نے کبھی قیاس و اجتہاد پر عمل نہیں کیا اگر وہ ایسا کرتے تو ان کا اختلاف بھی مشہور ہوجاتا ، جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اور قائدوں کےدرمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

۱۸۴

ان باتوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مذہب " اہل سنت والجماعت " خواہ وہ حنفی ہو یا مالکی ، شافعی ہو یا حنبلی، اس شخص کی رائے پر مبنی ہے جو زمانہ رسالت سے کافی بعد میں پیدا ہوا اور جس کا نبی(ص) سے کوئی ربط نہیں ہے۔

لیکن مذہب شیعہ امامیہ ذریٰت نبی(ص) کے بارہ(۱۲) ائمہ سے تواتر سے ثابت ہے ان میں سے بیٹا باپ سے روایت کرتا ہے۔ چنانچہ ایک امام کی حدیث ہے کہ میری حدیث میرے پدر کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث امیرالمؤمنین علی(ع) کی حدیث ہے اور علی(ع) کی حدیث رسول(ص) کی حدیث ہے اور رسول(ص) کی حدیث جبرئیل کی حدیث ہے اور وہ کلامِ خدا ہے۔

اگر یہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام ہوتا تو تم اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے (نساء/۸۲)

معصوم امام کی غیبت کے بعد سے آج تک لوگ جامع الشرائط فقیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اور اس زمانہ سے آج تک مستقل طور پر فقہاء کا سلسلہ چلاآرہا ہے۔ ہر زمانہ میں امت میں سے ایک یا متعدد شیعہ مراجع ابھرتے ہیں اور شیعہ ان کے رسائل عملیہ کے مطابق عمل کرتے ہیں جو کہ انھوں نے کتاب و سنت سے استنباط کئے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ مجتہدین ان جدید مسائل کے لئے اجتہاد کرتے ہیں جو اس صدی میں علمی پیشرفت وار تقاء اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے سامنے آتے ہیں جیسے آپریشن کے ذریعہ دل نکال کر دوسرے انسان کا دل رکھنا یاجسم کے کسی بھی عضو کی جگہ دوسرے انسان کا عضو  رکھنا  یا انجکشن کے ذریعہ نطفہ منتقل کرنا یا بینک وغیرہ کے معاملات وغیرہ۔

او ر مجتہدین کے درمیان سے وہ شخص نمایان مقام پر فائذ ہوتا ہے جو ان میں اعلم ہوتا ہے اسی کو شیعوں کا  مرجع یا زعیم حوزات علمیہ کہا جاتا ہے۔

شیعہ ہر زمانہ میں اس زندہ فقیہہ کی تقلید کرتےرہے ہیں جو لوگوں کی مشکلات

۱۸۵

کو سمجھتا ہے۔ ان کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ لوگ اس سے سوال کرتے ہیں اور وہ انھیں جواب دیتا ہے۔

اس طرح شیعوں نے ہر زمانہ میں شریعتِ اسلامیہ کے دونوں اساسی مصادر یعنی کتاب و سنت کی حفاظت کی ہے اور ائمہ اثنا عشر سے منقول نصوص نے شیعہ علما کو قیاس وغیرہ سے مستغنی بنائے رکھا ہے اور پھر شیعوں نے حضرت علی بن ابی طالب (ع) ہی کے زمانہ سے تدوین حدیث کو اہمیت دی ہے خود حضرت علی(ع)  صحیفہ جامعہ کو محفوظ رکھے ہوئے تھے کہ جس میں وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی قیامت تک لوگوں کو ضرورت ہوگی اور وہ صحیفہ باپ سے بیٹے کو میراث میں ملتا رہا اور وہ ایسے ہی اس کی حفاظت کرتے رہے جیسے لوگ سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہم شہید ّآیت اللہ باقر الصدر کا قول نقل کرچکے ہیں کہ:

ہم صرف قرآن و سنت  پر اعتماد کرتے ہیں:

ہم نے شہید صدر کی مثال پیش کی ہے ورنہ تمام شیعہ مراجع کا یہی قول ہے۔

شرعی تقلید اور دینی مرجعیت کے سلسلہ میں مختصر بحث سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے حقیقت میں شیعہ ہی قرآن اور ان احادیث رسول(ص) کے اہل میں جو کہ باب العلم ، عالم ربانی نبی(ص) کے بعد امت کے مرشد ثانی ، جس کو قرآن میں نفس نبی(ص) کہا گیا ہے ، سے منقول ہیں۔ ( آیت" قل تعالوا ندع انفسنا و انفسکم" کی طرف اشارہ ہے کہ نفس کی جگہ رسول(ص) علی(ع) کو لے گئے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں مسلم باب فضائل علی علیہ السلام)

پس جو شہر میں آنا چاہتا ہے اور اس کے دروازہ سے داخل ہوتا ہے وہی شفا بخش چشم تک پہونچتا ہے، فائدہ اٹھاتا ہے اور شفا بخش علاج سے مستفید ہوتا ہے  اور اس رسی سے متمسک ہوتا ہے جس میں کوئی خدشہ نہیں ہے چنانچہ خداوندِ عالم کا  ارشاد ہے:

۱۸۶

گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ (بقرہ ۱۸۹)

جو دروازہ کو چھوڑ کر کسی اور راستہ سے گھر میں داخل ہوتا ہے  وہ چور کہلاتا ہے اور جو گھر میں داخل نہ ہوا اور سنت نبی(ص) کو نہ پہچان سکا۔ اس  پر خدا عقاب کرے گا۔

۱۸۷

تقلید اہل سنت والجماعت کی نظر میں

جب ہم اس موضوع ، تقلید و مرجعیت اہل سنت کی نظر میں سے بحث کرتے ہیں تو متحیر رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا سلسلہ رسول(ص) سے جوڑتے ہیں لیکن ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے ائمہ اربعہ ، ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل کی تقلید کرتے ہیں اور یہ چاروں رسول(ص) کو  نہیں پہچانتے تھے اور نہ ہی ان کی صحبت میں رہے تھے۔

جبکہ علی ابن ابی طالب(ع) کی تقلید کرتے ہیں کہ جو ہمیشہ رسول(ص) کی خدمت میں رہے اور علی(ع) کے بعد جوانانِ جنت کے سردار امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) فرزندانِ نبی(ص) کی تقلید کرتے ہیں۔ پھر امام زین العابدین(ع) کی ان کے بعد ان کے فرزند باقر(ع) کی اور ان کے بعد ان کے لختِ جگر صادق(ص) کی تقلید کرتے ہیں، اس زمانہ میں اہل سنت والجماعت کا کہیں وجود بھی نہیں تھا اور نہ ہی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس وقت اہل سنت والجماعت کہاں تھے اور ان کا امام کون تھا کہ جس کی تقلید کرتے تھے اور شریعت کے حلال و حرام احکام کے سلسلہ میں نبی(ص) کی وفات سے لے کر ان مذاہب اربعہ کے وجود میں آنے تک وہ کس کی طرف رجوع کرتے تھے؟

۱۸۸

اس کے بعد مذاہبِ اربعہ ائمہ کی زندگی کا محور بھی واضح ہو جاتا ہے ۔ اگر چہ بنی عباس کے حکام کے حسبِ منشا ائمہ اربعہ کے زمانہ میں تفاوت ہے جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میں بیان کرچکے ہیں۔

اس کےبعد یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے چاروں مذاہب ایک بڑے ہی دلفریب نعرہ "اہلِ سنت والجماعت"  کے نیچے جمع ہوگئے۔ اور ہر دشمنِ علی(ع) آکر ان ہی میں شامل ہوگیا اور خلفاء ثلاثہ اور بنی امیہ و بنی عباس کے حکام کا شیدائی بھی ان میں مل گیا۔ پس لوگوں نے زبردستی بادلِ نخواستہ اس مذہب کی ترویج کررہے تھے۔ پھر لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر چلتے ہیں۔

پھر ہم اہلِ سنت والجماعت کو ائمہ اربعہ کی موت کے بعد اپنے علما پر دروازہ اجتہاد بند کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ پس وہ مردہ لوگوں ہی کی تقلید کرسکتے ہیں۔

شاید ان کے حکام و امراء ہی نے ان کے لئے دروازہ اجتہاد اس خوف سے بند کردیا تھا کہ کہیں لوگ فکری آزادی حاصل نہ کرلیں اور ہماری حکومت و نظام کے لئے چیلنج نہ بن جائیں لہذا انھوں نے نقد و تبصرہ کا حق بھی علما سے چھین لیا۔

لہذا اہلِ سنت والجماعت ایک ایسے مردہ شخص کے مقلد اور  کے پابند ہوکے رہ گئے کہ جس سے ان کی دید و شنید اور شناسائی تک نہیں ہے کہ جس سے اس کے عدل و ورع اور علم سے مطمئن ہوجاتے وہ صرف اسلاف کے سلسلہ میں حسنِ ظن رکھتے ہیں ان میں سے ہر فریق اپنے امام کے خیالی مناقب بیان کرتا ہے جبکہ ان کے ائمہ کے فضائل خواب و خیال یا ظن و وہم کی پیداوار ہیں ہر ایک گروہ اپنی ہی چیز پر خوش ہے۔

اگر آج اہلِ سنت والجماعت کے ذہین و روشن فکر ان نے ہودگیوں کو دیکھیں کہ جو ان کے بزرگوں نے بیان کی ہیں یا ان کے اقوال میں موجود اس تناقض کا جائزہ لیں کہ  جس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو کافر کہنے لگا اور جنگ و جدال کا سلسلہ شروع ہوگیا، تو وہ

۱۸۹

ضرور ان ائمہ کو چھوڑ دیں گے اور ہدایت پا جائیں گے۔

پھر ایک مسلمان دورِ حاضر میں اس شخص کی کیسے تقلید کرسکتا ہے کہ جو زمانہ کی جدتوں اور ایجاد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی کسی مسئلہ سے واقف ہے۔

طے شدہ بات ہےکہ مالک اور ابوحنیفہ اور اہلِ سنت سے قیامت کے روز اظہار برائت کریں گے اور کہیں گے۔ پروردگارا ان چیزوں کے بارے میں ہماری گرفت نہ فرما جن کے ہ مرتکب ہوئے ہین ہم تو انھیں جانتے بھی نہیں ہیں اور یہ بھی ہمیں نہیں جانتے اور ہم نے کبھی ان سے یہ نہیں کہا کہ ہماری تقلید واجب ہے۔

مجھے نہیں معلوم اہلِ سنت والجماعت اس روز کیا جواب دیں گے جب خداوندِ عالم ثقلین کے بارے میں سوال کرے گا؟ پھر اس کے لئے رسول(ص) کو گواہی میں پیش کرے گا اور اہلسنت رسول(ص) کی گواہی نہیں جھٹلا سکیں گے ۔ خواہ یہ  عذر ہی کیوں نہ پیش کریں کہ ہم نے اپنے سرداروں کی اطاعت میں ایسا کیا ہے۔

اور جب ان سے خدا یہ سوال کرےگا کیا تم نے میری کتاب یا میرے رسول(ص) کی سنت میں مذاہبِ اربعہ کے اتباع میں کوئی عہد وپیمان یا محبت دیکھی ہے؟

اس کا جواب معروف ہے اس کے لئے مزید علم کی ضرورت نہیں ہے۔ کتابِ خدا  اور سنت رسول(ص) میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) میں صاف طور پر عترتِ طاہرہ(ع) سے تمسک کا حکم ہے اور ان سے روگردانی ۔ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ شاید وہ کہیں گے۔

پروردگارا ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں ایک مرتبہ پھر لوٹا دے تاکہ ہم نیک کام کریں اب تو ہم کو پورا یقین آگیا ہے۔(سجدہ ۱۲)

لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ تو تم پہلے بھی کہا کرتے تھے ۔ اور رسول(ص) فرمائیں گے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑدیا۔ میں نے انھیں اپنی عترت کے

۱۹۰

بارے میں وصیت کی اور اپنے قرابتداروں کے متعلق ان تک تیرا حکم پہنچادیا ، لیکن انھوں نے میری بیعت توڑ ڈالی اور مجھ سے قطع رحم کیا میرے بیٹوں کو ذبح کر ڈالا اور میری حرمت کو مباح سمجھا۔ انھیں میری شفاعت نصیب نہ ہو۔

ایک مرتبہ پھر ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ " اہل سنت والجماعت نے نہ رسول(ص) کے ساتھ صلہ رحم کیا اور نہ ان کی آل سے محبت کی اور جس نے عترت کو چھوڑدیا اس نے قرآن کو  چھوڑدیا اور جس نے قرآن کو چھوڑدیا  اللہ اس کا سرپرست و مددگار نہیں ہے۔

اور جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹنے لگیگا اور کہے گا اے کاش میں

 بھی رسول(ص) کے ساتھ ہوگیا ہوتا ہائے افسوس ! کاش میں فلاں

 کو دوست نہ بناتا یقینا اس نے میرے پاس نصیحت آنے کے بعد

مجھے بہکایا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے۔(الفرقان ۲۷/۲۹)

۱۹۱

خلفائے راشدین شیعوں کی نظر میں

یعنی نبی(ص) کی عترتِ طاہرہ(ع) میں سے بارہ ائمہ۔

۱: امیرالمؤمنین، امام المتقین، سفید پیشانی والوں کے پیشوا، مسلمانوں کےسردار، بادشاہ دین و شریعت، اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب(ع) ہیں، شہر علم کے وہ باب ہیں جنھوں نے عقلوں کو متحیر نفوس کو ہکابکا، دلوں کو ضیاء بار کردیا، اگر رسول(ص) کے بعد وہ نہ ہوتے تو دین قائم نہ رہتا۔

۲: امام ابو محّمد حسن بن علی(ع)، جوانانِ جنت کے سردار  ہیں جو کہ اس امّت میں نبی(ص) کا پھول ، عابد، زاہد اور سچے ناصح تھے۔

۳: امام ابو عبداللہ الحسین بن علی(ع) جوانان جنت کےسردار ہیں جو کہ اس امت میں نبی(ص) کا پھول، سید  الشہداء اور کشتۃ کربلا ہیں جس نے امت کی اصلاح کے لئے جامِ شہادت نوش کیا۔

۴: امام علی بن الحسین زین العابدین(ع) سید الساجدین ہیں۔

۱۹۲

۵: امام محمد بن علی(ع) ہیں جو کہ اوّلین و آخرین کے علوم کی تہوں میں اترے ہوئے تھے۔

۶: امام جعفرِ صادق بن محمد(ع) ہیں کہ ان جیسا نہ کسی آنکھ نےدیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دلِ میں نہ خطور ہوا کہ علم و عمل اور فقہ میں کوئی ان سے بڑا بھی ہوگا۔

۷: امام موسیٰ کاظم بن جعفر(ع) ہیں جو کہ سلیل النبوّت اور معدن علم ہیں۔

۸: امام علی بن موسیٰ رضا(ع) ہیں  جنھیں بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی تھی۔

۹: امام محمّد بن علی الجواد(ع) ہیں جو کہ امام الجود والکرم اور اخلاق کے بلند پایہ پر فائز ہیں۔

۱۰: امام علی بن محمّد ہادی(ع) صاحبِ فضل و ہدایت ہیں۔

۱۱: امام حسن العسکری(ع) جوکہ زاہد و تقوی کے مرقع ہیں۔

۱۲: امام محمّد بن الحسن المہدی(عج) ہیں جوکہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کردیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اور ابنِ مریم ان کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔ خدا ان کے ذریعہ اپنے نور کو کامل کرے گا اور مؤمنوں کو فرحت بخشے گا۔یہ ہیں شیعوں کے بارہ ائمہ پس جب کہیں شیعہ اثناعشری، جعفری کا نام آتا ہے ۔ وہاں شیعہ مراد ہوتے ہیں۔ کوئی اور نہیں! کیونکہ شیعوں کے علاوہ اسلامی فرقوں میں کوئی بھی بارہ ائمہ کی امامت کا قائل نہیں ہے۔اور جب ہم ان کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کی چھان بین کرتے ہیں جوکہ ان کے فضل و شرف ، عظمت اور طینت کی پاکیزگی اور ان کے نفوس کی طہارت اور شان و شوکت  کو بیان کرتی ہیں ، جیسے آیت مودّت، آیت تطہیر ، آیت مباہلہ، آیت ابرار و صلوٰۃ وغیرہ۔

اور جب ہم ان کی شان میں نقل ہونے والی احادیث نبوی(ص) کی تحقیق کرتے ہیں جوکہ امت پر ان کی فضیلت و تقدم اور ان کے اعلم و معصوم ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ تو اس وقت ہم قطعی طور پر ان کی امامت کے قائل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہی امت کے لئے باعث امان اور راہِ ہدایت ہیں۔

اور عنقریب یہ بھی آشکار ہوجائے گا کہ شیعہ ہی کامیاب ہیں کیونکہ انھوں نے اللہ کی رسی کو

۱۹۳

 مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ یعنی ولایتِ اہلِ بیت(ع) کے معتقد ہیں اور اس مستحکم سلسلہ سے تمسک کر رکھا ہے جس میں کہیں خدشہ نہیں ہے۔ یعنی مودّت و محبّت اہلِ بیت(ع) کو دل میں سما رکھا ہے۔ چنانچہ وہ نجات کی کشتی پر سوار ہوکر ڈوبنے اور ہلاک ہونے سے بچ گئے ہیں۔

لہذا ہم پورے یقین ومعرفت اور اعتماد کےساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ شیعہ امامیہ ہی اہلِ سنت ہیں۔

ارشاد خداوند ہے:

" یقینا تم غفلت میں پڑے تھے پس ہم نے تمھارے سامنے سے پردہ ہٹا دیا تو آج تمھاری آنکھیں چار ہوگئیں ۔"(ق/۲۲)

۱۹۴

خلفائے راشدین اہلِ سنت کی نظر میں

وہ چار خلیفہ جو وفاتِ رسول(ص) کے بعد تختِ خلافت پر متمکن ہوئے خلافت کی ترتیب کے لحاظ سے اہلہِ سنت والجماعت انھیں نبی(ص) کے تمام صحابہ سے افضل سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ آج اہلِ سنت کی زبان سے ہمسنتے ہیں۔ پہلے بھی ہم اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع) کو اہلِ سنت دیگر خلفا میں بھی شمار نہیں کرتے تھے چہ جائے کہ خلفائے راشدین میں انھیں گنتے ہوں۔ عرصہ دراز کے بعد امام احمدبن حنبل نے علی(ع) کو زمرہ خلفا میں شامل کیا جچکہ اس سے قبل تمام اسلامی شہروں کے منبروں سے اور اموی بادشاہوں کی طرف سے آپ(ع) پر لعنت کی جاتی تھی۔

مزید تحقیق اور قارئین کو اس افسوس ناک حقیقت سے مطمئن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آنے والی عبارت کو مدِّ نظر  رکھا جائے۔

ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہی کہ عبداللہ بن عمر اہلِ سنت والجماعت کے بڑے فقہا میں سے ایک ہیں۔ موطا میں مالک نے اور بخاری و مسلم نے صحاح میں ان پر بہت اعتماد کیا ہے

۱۹۵

اور دیگر محدثین نے بھی بڑے باپ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے انھیں اہمیت دی ہے۔

جب کہ عبداللہ بن عمر پکا ناصبی ہے۔ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) سے جس کا بغض آشکار ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اس نے خدا، امیر المؤمنین (ع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا۔ جبکہ دشمن خدا و رسول(ص) حجاج ملعون کی بیعت کے لئے دوڑ پڑا تھا۔ ( حجاج بن یوسف ثقفی اپنے فسق و کفر اور  جرائم میں مشہور تھا اور دوسروں کی نظروں میں دین کو حقیر بنارکھا تھا۔ حاکم نے مستدرک  ج۳ ص ۵۵۶، ابن عساکر نے ج۴ ص۶۹ پر تحریر کیا ہے کہ حجاج کہتا تھا کہ ابنِ مسعود یہ گمان کرتے ہیں کہ انھوں نے خدا کا قرآن پڑھا ہے! قسم خدا کی وہ قرآن نہیں ہے بکلہ عربوں کا ایک رجز ہے۔ وہ کہتا تھا کہ جہاں تک تم سے ہوسکے اس سے ڈرتے رہو! اس کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ امیرالمؤمنین عبدالملک بن مروان کی بات سنو اور اطالعت کرو۔ کیوں کہ یہی کارِ ثواب ہے ابنِ عقیل نے کتاب النصائح الکافیہ کے ص۸۱ پر تحریر کیا ہے کہ حجاج نے کوفہ میں خطبہ دیا اور نبی(ص) کی زیارت کرنے والوں کے بارے میں کہا ہلاکت ان لوگوں کے لئے ہے جو لکڑی اور گیلی مٹی کا طواف کرتے ہیں ۔ امیرالمؤمنین عبدالملک کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ لوگوں کا خلیفہ وہ شخص ہے جو ان کے رسول(ص) سے بہتر ہے۔)

عبداللہ بن عمر نے اپنی دلی کیفیت اور پوشیدہ راز کا اس وقت انکشاف کیا جب اس نے علی(ع) کی کسی ایک بھی فضیلت و شرافت و منقبت کا اعتراف نہ کیا یہاں تک کہ عثمان بن عفان کے بعد چوتھے درجے میں بھی آپ(ع) کو نہ رکھا۔

اس کی نظروں میں ابوبکر وعمر اور عثمان سب سے افضل ہیں جبکہ علی(ع) کو ایک عام انسان سمجھتا ہے آپ کے سامنے میں ایک اور حقیقت پیش کرتا ہوں جس کو محدثین و مورخین نے نقل کیا ہے اس سے عبداللہ بن عمر کی علی(ع)  اور تمام ائمہ اطہار(ع) سے دشمنی اور کینہ توزی واضح ہوجائے گی۔

نبی(ص) کی الائمہ اثناعشری بعدی حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے عبداللہ بن عمر کہتا ہے کہ رسول(ص) کی یہ حدیث

۱۹۶

کہ میرے بعد بارہ(۱۲) خلیفہ ہوں گے اور سب قریش سے وں گے  کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ ہیں۔

ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان ذوالںورین، معاویہ اور مقدس زمین کا بادشاہ وہ اس کا بیٹا، سفاح، سلام ، منصور ، جابر، مہدی، امین، اور میرے العصیب یہ سب بنی کعب بن لوی کی اولاد میں سے ہیں اور سب صالح ہیں ان کی مثال نہیں ہے۔ ( تاریخ الخلفا ، سیوطی ص۱۴۰، کنزالعمال جلد۶ ص۶۷ تاریخ ابن عساکر و ذہبی۔)

قارئین محترم اہلِ سنت والجماعت کے اس عظیم فقیہہ کے بارے میں پڑھئے اور تعجب کیجئے کہ وہ کس طرح حقائق کو بدل دیتا ہے اور معاویہ، اس اس کے بیٹے یزید اور سفاح کو تمام بندگان خدا سے افضل قرار دیتا ہے اور صریح طور پر کہتا ہے، وہ سب صالح تھے ان کی مثال نہیں ہے۔

بغض و عداوت نے اسے اندھا بنادیا تھا ۔اسی طرح حسد و بغض نے اس کی بصیرت چھین لی تھی چنانچہ امیرالمؤمنین علی(ع) کی اسے کوئی فضیلت ہی نظر نہیں آتی تھی اسی لئے تو اس نے آپ(ع) پر معاویہ اور اس کے بیٹے یزید زندیق اور مجرم سفاح کو مقدم کیا ۔ پڑھئے اور اس قولِ رسول(ص) کو فراموش نہ کیجئے کہ جس کو بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے کہ علی بن ابی طالب(ع) کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض نفاق ہے اور زمانہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں منافقین  بغضِ علی(ع) ہی سے پہچانے جاتے تھے۔)عبداللہ بن عمر یقینا اپنے باپ کا حقیقی بیٹا تھا۔ کیوںکہ برتن میں جو ہوتا ہے اس سے وہی ٹپکتا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے باپ نے علی(ع) کو خلافت سے الگ رکھنے اور لوگوں کی نظروں میں حقیر بنانے کی حتی المقدور کوشش کی تھی۔

یہ ان ہی کا کینہ توزی اور شقی بیٹا ہے۔ عثمان کے بعد علی(ع) کے خلیفہ ہونے اور انصار و مہاجرین کے بیعت کر لینے کے باوجود عبداللہ بن عمر نے علی(ع) کی بیعت  نہ کی اور آپ(ع) کی شمع حیات کو گل کرنے کے درپے رہا اور آپ(ع) کی حکومت کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتارہا۔ اسی لئے تو مسلمانوں سے

۱۹۷

کہتا تھا کہ علی(ع) کی حیثیت تھوڑی ہی ہے وہ تو ایسے ہی ہیں جیسے عام آدمی۔

لیکن عبداللہ بن عمر اموی حکومت کی بے لوث خدمت کرتا اور معاویہ و یزید(لع)  کو جھوٹی خلافت کا تاج پہناتا ہے اور نبی(ص) پر بہتان لگاتا ہے ۔ منصور و سفاح اور بنی امیہ کے تمام فاسق و فاجر کی خلافت کو تسلیم کرتا ہے اور انھیں مسلمانوں کے سردار ، نص قرآن و سنت سے مومنین کے ولی پر مقدم کرتا ہے اور علی(ع) کی خلافت کا اعتراف نہیں کرتا ہے یہ چیزیں یقینا تعجب  خیز ہیں۔

آنے والی بحثوں میں ہم عبداللہ بن عمر سے پھر ملاقات کریں گے تاکہ ان کی حقیقت کا انکشاف کرسکیں۔ اگر چہ ان کو غیر معتبر قرار دینے اور دائرہ عدالت سے خارج کرنے اور دائرہ نواصب میں رکھنے کے لئے ہمارا گذشتہ بیان کافی ہے۔ یہ ہیں مذہبِ اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھنے والے ابنِ عمر چنانچہ آج وہی ان کے بڑے فقیہہ اور عظیم محدث بھی ہیں۔

اگر آپ مغرب و مشرق کی خاک چھانیں اور اہلِ سنت والجماعت کی ساری مسجدوں میں نماز پڑھیں اور ان کے علما سے گفتگو کریں تو ان کے علما سے یہ" عن عبدالل ه بن عمر" سنتے سنتے آپ کے کان پک جائیں گے۔

۱۹۸

نبی(ص) کو اہل سنت والجماعت کی تشریع قبول نہیں

گذشتہ بحثوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شیعہ ائمہ اہل بیت(ع) کی اقتداء کرتے ہیں۔ اور رائے و قیاس پر عمل نہیں کرتے بلکہ ان دونوں کو حرام جانتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک رائے و قیاس نصِ نبوی(ص) سے حرام ہیں اور یہی فکر ان میں نسلا بعد چلی آرہی ہے۔ جیسا کہ اس صحیفہ جامعہ کا ذکر ہوچکا ہے کہ جس کا طول ستر (۷۰) گز ہے اور جس میں مسلمانوں کی قیامت تک کی مایحتاج  چیزیں مرقوم ہیں۔

یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اہل سنت والجماعت ہر عمل میں رائے اور قیاس کے محتاج ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نصوص نبوی(ص) نہیں ہیں۔ جبکہ یہ اس کے محتاج ہیں ۔ کیونکہ ان کے بڑے سرداروں نے نصوصِ نبوی(ص) کا انکار کیا اور انھیں نذرِ آتش کردیا اورلوگوں کو ان کی تدوین وجمع آوری سے منع کردیا تھا۔

اس کے بعد اجتہاد ورائے کےقائلوں نے اپنے مذہب کی تائید اور حق کو باچل سے مشتبہ کرنے کے لیے رسول(ص) ک طرف سے حدیثیں گھڑیں اور کہا کہ جب رسول(ص) نے معاذ بن جبل

۱۹۹

کو یمن بھیج اتوان سے پوچھا تم کیسے فیصلے کروگے؟ معاذ نے کہا: میں کتابِ خدا سے فیصلہ کرونگا نبی(ص) نےفرمایا:

کتابِ خدا میں اس کا حکم نہ ہو تو؟

معاذ نے کہا:

تو سنتِ رسول(ص) سے فیٓصلہ کروں گا۔

رسول(ص) نے فرمایا:

اگرسنت رسول(ص) میں بھی نہ ہو توؕ

معاذ نےکہا:

اس وقت میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔

اس وقت نبی(ص) نے فرمایا:

حمد و ستائش ہے خدا کی کہ جس نے رسول اللہ(ص) کے نمائندہ کو ایسی توفیق عطا کی جس سے اللہ اور اس کا رسول(ص) راضی ہے۔

یہ حدیث باطل ہے۔ رسول اللہ(ص) ایسی بات نہیں کہہ سکتے اورنبی(ص) معاذ سے کیونکر کہہ سکتے تھے اگر تمھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) میں اس چیز کا حکم نہ ملے؟ جب کہ خدا نے اپنے رسول(ص) سے فرمایا تھا:

اور  ہم نے تم پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ (نحل/۸۹)

ہم نے کتاب میں کوئی بات بھی بیان کئے بغیر نہیں چھوڑی ہے۔(انعام/۳۸)

جو کچھ رسول(ص) تمھارے پاس لائیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔(حشر/۷)

۲۰۰