شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105524
ڈاؤنلوڈ: 5935

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105524 / ڈاؤنلوڈ: 5935
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نیز اپنے رسول (ص) سے فرمایا:

ہم نے حق کے ساتھ تم پر کتاب نازل کی تاکہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے درماین فیصلہ کرو۔(نساء/۱۰۵)

ان آیتوں کے بعد نبی(ص) معاذ سے ایسی بات کیونکر کہہ سکتے تھے کہ اگر تمھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) میں کوئی حکم نہ ملے تو؟ کیا یہ اس بات کا اعتراف نہیں ہے کہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) ناقص ہے؟ اوردونوں ہمارے قضاوت کےمسائل کو حل نہیں کرتی ہیں!

کو ئی کہنے والا جیہ بات کہہ سکتا ہے ہ معاذ بن جبل سے یہ بات تبلیغِ رسالت کے ابتدائی زمانہ میں کہی گئی تھی کہ جس وقت قرآن کامل طور پر نازل نہیں ہوا تھا۔

ہم کہتے ہیں: یہ دعوی صحیح نہیں ہے: اوّل تو خود معاذ کا یہ قول کہ میں کتابِ خدا سے فیصلہ رونگا، اس بات پر دلالت کررہا ہےکہ کتابِ خدا ان کے پاس کامل طور پر موجود تھی۔

اور پرھر ان کے اس ول سے کہ مین سنتِ رسول(ص) سے فیصلہ کروں گا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث عرصہ دراز کے بعد اس وقت گھڑی گئی جب نص کے مقابل اجتہاد و رائے اقوال کی کثرت ہوگئی تھی کیونکہ نبی(ص) کےبعد کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی اصلاح ہمیشہ استعمال ہوتی ہے۔

ثابیا :یہ بات اس لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ یہ ہر ایک احکامِ خدا سے جاہل انسان کے لئے نص بن جائے گی اور وہ اپنی رائے سےاجتہاد کرے گا اور اپنے نفس کو نصوص خود تلاش کرنے کی تکلیف نہدے گا۔

ثالثا:  درجِ ذیل قولِ خدا کے لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔اور جو لوگ خدا کی نازل کردہ (کتاب) کےمطابق فیصلہ نہیں کرتے ہیں وہ کافر ہیں اور جو لوگ خداکی نازل کی ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ  ظالم ظالم ہیں اور جو لوگ خداکی نال کی ہوئی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔(مائدہ/۴۴، ۴۵، ۴۷)

رابعا : اس لئے صحیح نہیں کہ جو شخص احکامِ خدا سے جاہل ہو اسے قضاوت کرنے اور

۲۰۱

 فتوی دینے کا حق نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس سلسلہ میں حکمِ خدا اور رسول(ص) سے آگاہ ہوجائے۔

اور جب خدا نے اپنے نبی(ص) کو امت کے لئے حقِ تشریع عطا کردیا تھا۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔

اور کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کو خدا و رسول(ص) کےفیصلہ کے بعد اپنے امر کا اختیار نہیں ہے۔

لیکن اس کے باوجود آپ(ص) نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنی رائے و اجتہاد سےکوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ آپ ہمیشہ نصوصِ الہی کے پابند رہے، جس کو جبرئیل لےکر نازل ہوئے تھے، اور جو روایات اس حقیقت کی مخالفت کرتی ہیں وہ سب گھڑی ہوئی ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود ہم قارئین کے مزید اطمینان کے لئے اہلِ سنت سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں۔ بخاری اپنی صحیح  میں لکھتے ہیں:

 جب بھی نبی(ص) سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تھا کہ جس کے متعلق اس وقت تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی تو آپ(ص) صاف فرمادیتے تھے: مجھے معلوم نہیں ہے اس وقت تک جواب نہیں دیتے تھے جب تک وحی نازل نہیں ہوجاتی تھی، اپنی رائے اور اجتہاد سے کچھ نہیں کہتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

جیسی خدا نے تمھاری ہدایت کی ہے۔(نساء/۱۰۵) بخاری جلد۸ ص۱۴۸)

جی ہاں احکم الحاکمین ربّ العالمین اپنے رسول(ص) کے متعلق فرماتا ہے:

ہم نے آپ(ص) پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے جو دوسری (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس کی نگہبان ہے پس جو کچھ خدا نے تم پر نازل کیا ہے اسکے مطابق فیصلہ کرو۔(مائدہ/۴۸)

جی ہاں قرآنِ کریم محمد(ص) کی شان میں فرماتا ہے:

۲۰۲

ہم نے حق کے ساتھ آپ(ص) پر کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ(ص) خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوںکے درمیان فیصلہ کریں۔(نساء/۱۰۵)

اور جب اہلِ سنت ہی کے بقول نبی(ص) اپنی رائے اور قیاس سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے تو ان کے لئے اس پر عمل کرنا کیسے جائز ہوگیا؟ اورکس لحاظ سے احکامِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کرنے لگے اور پھر خود کو اہلِ سنت کہتے ہیں واقعا یہ عجیب بات ہے۔

۲۰۳

ضروری تنبیہہ

آنے والی فصلوں می جہاں ہم "اہلِ سنت" سے متعلق بحث کریں گے وہاں ہماری مراد دورِ حاضر کے مسلمان نہیں ہونگے کیونکہ یہ بے قصور ہیں اور جو کچھ سلف نے کہا ہے اس کا گناہ ان پر نہیں ہے بلکہ یہ فریب خوردہ  ہیں اور امویوں و عبّاسیوں کو دام فریب کا شکار ہیں جو کہ سنتِ بنوی(ص) کو  محو کر کے جاہلیت کی طرف پلٹ جانا چاہتے تھے۔

یقینا ہم بھی انہی کے راستہ پرتھے خدا نے ہم پر  احسان کیا اور سفینہ نجات کی طرف پوری امّت اسلامیہ کی رہنمائی فرمائے یہاں تک حق کا بول بالا ہوجائے۔

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ تو صحابہ پر تنقید ہے جس سے مسلمانوں کی اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیںکیونکہ وہ تمام صحابہ کو عادل سمجھتے  ہیں اور نبی(ص) کےبعد انھی۸ں سب افضل قرار دیتے ہیں، تو ہم ان کے جواب میں یہ کہتے ہیں: مسلمانوں سے صرف خدا و رسول(ص)

۲۰۴

پر اعتقاد رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ان چیزوں پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہے جن کو انھوں (خدا و رسول(ص)) نے فرض کیا ہے۔ اور ان کی معین کردہ خدود کی پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور اس میں صحابہ کے ساتھ تمام مسلمانوں کی بھی نجات ہے جو اس سے خارج ہوگا وہ جہنم  میں جائے گا خواہ وہ نبی کا چچا ہو یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

بے شک بعض صحابہ پر تنقید کرنے کو تاریخی حوادث نے فرض کیا ہے کیونکہ انھوں نے تاریخ کو متاثر کیا اور اختلاف کیا اور وہی امت کے اختلاف و مصیبت کا سبب بنے۔

۲۰۵

حقیقت کا انکشاف

جب محقق کے سامنے اہلِ سنت والجماعت کی حقیقت آئے گی تو وہ مبہوت رہ جائے گا اور اس کو تسلیم کرلے گا کہ اہل سنت عترت طاہر(ع)  کے دشمن ہیں کیونکہ اہلِ سنت ان لوگوں کا اتباع کرتے ہیں۔ جنھوں نے اہلِ بیت(ع) سے جنگ کی، ان پر منبروں سے لعنت کی اور انھیں تہہ تیغ کیا۔

اسی لئے آپ اہلِ سنت کو ان محدثین کی توثیق کرتے ہوئے پائیں گے جو خوارج اور عثمانی نواصب ہیں اور ان محدثین کو متہم کرتا ہوا پائیں گے جو اہلِ بیت(ع) کے چاہنے والے ہیں۔

یہ بات تو آپ ان کی کتابوں میں صراحت کےساتھ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ وہ تمام صحیح احادیث کو محو کردینے ک کوشسش کرتے ہیں جو علی بن ابی طالب(ع)  کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان احادیث کے راویوں کی یہ کہ کر توہین کرتے ہیں کہ اس کی سند فلاں شخص رافضی ہے۔( رافضی یعنی شیعیان علی(ع) اور خلفاء ثلاثہ کی خلافت کا مخالف۔)

اور ان جھوٹی احادیث کو صحیح ثابت کرنے کی (ناکام) کوشش کرتے ہیں جو کہ دوسرا

۲۰۶

 خلفا کے فضائل کے لئے گھڑی گئی ہیں، خواہ ان احادیث کے راوی ناصبی ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ اہلِ سنت کے نزدیک ناصبیت سنت میں سختی و صلابت سے عبارت ہے۔

چنانچہ ابن حجر عبداللہ بنادریس الازدی جس کی ناصبیت مشہورر ہے، کے متعلق لکھتے ہیں وہ اہلِ سنت والجماعت میں سے تھے، سنت کے معاملہ میں سخت گیر تھے وہ عثمانی تھے۔

اور ابن حجر ہی عبداللہ بن عون البصری کے متعلق رقم طراز ہیں۔ وہ موثق ہیں اور سنت میں بڑے سخت ہیں اور اہلِ بدعت کے لئے قہر ہیں۔ ابن سعد کہتے  ہیں عبداللہ بن عون البصری عثمانی تھے۔ ( عثمانی وہ نواصب جو علی(ع) کو کافر کہتے تھے اور قتل عثمان کا آپ(ع) پر الزام لگاتے تھے، ان کا سردار معاویہ بن ابی سفیان تھا۔

ایسے ہی ابنِ سعد ابراہیم بن یعقوب الجوزی جانی کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بغض علی(ع) کے سلسلہ میں مشہور تھا اور حریزی المذہب تھا یعنی حریز بن عثمان دمشقی کے مذہب کا پیروکار تھا اس کی ناصیت مشہور تھی ۔ ( خوارج نواصب قاسطین اور ناکثین جو علی(ع) اور ان کے اہلِ بیت (ع) کے دشمن تھے انھوں نے آپ(ع) کے لئے علم دشمنی بلند کیا آپ(ع) سے جنگ اور شہادت کے بعد آپ پر لعنت کی۔)

یہاں اس بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب سمجھتا ہں کہ جس ناصبی کی وہ مدح سرائی کررہے ہیں اور سنت میں صلابت اور حافظ حدیث بتا رہے ہیں جس کے دروازہ پر محدثین کا اجتماع رہتا تھا وہ ایک روز اپنی کنیز کو مرغ دے کر بھیجتا جہے اور وہ پورے شہر کا چکر لگاتی ہے اور پھر اپنے آقا جوزجانی کے پاس پلٹ کر آتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے کوئی مرغ ذبح کرنے والا نہیں ملا، اس وقت جوزجانی نے چیخ کر کہا:

سبحان اللہ! کوئی مرغ ذبح کرنے والا نہیں ملتا، جبکہ صبح سے آفتاب بلند ہونے تک علی(ع) بیس ہزار سے زیادہ انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔دشمنان اہلِ بیت اور نواصب ایسی چال بازیوں اور مکر و فریب کے ذریعہ لوگوں کو حق سے

۲۰۷

منحرف کرتے تھے۔ اور جھوٹ کے پلندوں سے بہکاتے تھے یہاں تک کہ انھوں نے مسلمانوں کے دلوں کو خصوصا محدثین کے دلوں کو علی ابن ابی طالب(ع) کے بغض و حسند سے بھر دیا۔ چنانچہ انھوں نے علی(ع) پر سب و شتم اور لعنت  کو مباح قرار دیدیا۔

اس چیز کا مشاہدہ تو آپ  آج بھی کرسکتے ہیں باوجودیکہ ہمارے زمانہ کے اہلِ سنت  اس بات دعوی کرتے ہیں کہ ہم بھی اہلِ بیت(ع) سے محبت کرتے ہیں۔

اور سیدنا علی( کرم اللہ وجہہ) کو  بھی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ لیکن جب آپ حضرت علی(ع) کی فضیلت کے سلسلہ میں کوئی حدیث سنائیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ کس طرح آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور اتنی ہی بات پر آپ کو شیعہ قرار دیں گے اور کہیں گے یہ دین  میں بدعت و غلو  کررہا ہے۔

اور جب آپ شیخین ابوبکر و عمر کے یا کسی بھی صحابی کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ اور حسبِ دل خواہ ان کی فضیلت بیان کریں گے اور غلو سے کام لیں گے تو وہ آپ کی باتوں کو فراخ دلی سے سنیں گے اور مطمئن ہوجائیں گے۔

اور آپ کو علم کا دریا اور گہرے مطالعہ کا حامل قرار دیں گے۔

ی بالکل ان کے سلفِ صالح کا عقیدہ ہے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل اہلِ حدیث میں سے ہر اس شخص کو ضعیف قرار دیتے تھے جو ابوبکر وعمر یا عثمان کی تنقیص کرتا تھا، جیسا کہ ابراہیم جوزجانی ایسے ناصبی کا احترام کرتے ہیں، اس سے خط و کتابت رکھتے تھے چنانچہ منبر سے اس خط کو پڑھا اور اس کے ذریعہ احتجاج کیا ۔

جب احمد بن حنبل کا یہ حال ہے کہ جس نے اپنے ہمعصر لوگوں پر یہ بات ملسلط کی تھی کہ وہ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کریں، تو پھر ان لوگوں کا تو حال نہ پوچھئے کہ جو آپ(ع)  کی کسی ایک فضیلت کے بھی معترف نہیں تھے یا ان لوگوں کی کیا کیفیت جو جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں منبروں  حضرت علی(ع) پر لعنت کرتے تھے۔

۲۰۸

دار قطنی کہتے ہیں: ابنِ قتیبہ متکلم اہلِ سنت تشبیہ کی طرف مائل اور اہلِ بیت(ع) سے منحرف تھے۔( لسان المیزان جلد ۳ ص۳۵۷)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ سنت کی اکثریت عترتِ رسول(ع) سے منحرف ہے۔

متوکل کو دیکھئے جس کو اہلِ حدیث " محی السنہ " کہتے ہیں، جس کو احمد بن حنبل بڑی عظمت و عزت دیتے ہیں اور قضاوت (ججوں) کے انتخاب میں اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں۔ متوکل علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا سخت ترین دشمن تھا اس کی دشمنی کی انتہا یہ تھی کہ اس نے امام حسین(ع) کی قبر کو ویران کردیا تھا اور زیارت پر پاندی لگادی تھی جو شخص علی(ع) سے خود کو منسوب کرتا تھا اسے تہہ تیغ کردیتا تھا، خوارزمی نے اپنے رسائل میں اس کا تذکرہ کیا ہے ۔ کہتے ہیں: متوکل اسی کو مال و دولت دیتا تھا جو آل ابی طالب(ع) پر سبّ و شتم کرتا تھا وہ نواصب کے مذہب کی مدد کرتا تھا۔ (رسائل ، خوارزمی ص۱۳۵)

واضح رہے کہ نواصب کا مذہب وہی ہے جو اہلِ سنت والجماعت  کا مذہب ہے متوکل نے ان کے مذہب کی مددد کی تھی لہذا وہ محی السنہ " بن گیا! سوچئے۔

ابن کثیر البدایۃ والنہایہ میں لکھتے ہیں کہ جب اہلِ سنت والجماعت اعمش سے حدیث طیر، جس میں حضرت علی بن ابی طالب(ع) کی فضیلت ہے سنتے تھے تو اس کو مسجد سے نکال دیتے تھے اوراس جگہ کو پاک کرتے تھے جہاں وہ بیٹھتے تھے۔ ( البدایۃ والنہا یۃ جلد۱۱ ص۱۴۷)

اسی طرح انھوں نے امام محمد بن جریر طبری ، صاحبِ تفسیر کبیر اور عظیم مورّخ ، کو اس لئے دفن نہیں ہونے دیا تھا کہ انھوں نے حدیث غدیر " من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ" کو صحیح کہہ دیا تھا اور متعدد طریقوں سے اس کی ان روایات کو جمع کردیا تھا جو کہ حدّ  تواتر تک پہونچ چکی ہیں۔

ابنِ کثیر کہتے ہیں: میں نے ان کی وہ تالیف دیکھی ہے جس میں انہوں نے حدیث غدیر کو جمع کیا ہے۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ ایک اور کتاب ہے جس میں انھوں نے

۲۰۹

حدیث طیر مشوی کی روایات جمع کی ہیں۔ ( البدایۃ والنہایۃ جلد۱۱ ص۱۴۷)

اسی چیز کو ابن حجر نے بھی لسان المیزان میں تحریر کیا ہے۔ جریر طبری عظیم مفسر ، ثقہ، صادق تھے، ان میں شیعیت سرایت کر آئی تھی اور موالات میں کوئی ضرر نہیں ہے۔ ( لسان المیزان ، ابنِ حجر ترجمہ ابنِ جریر طبری)

امام نسائی جو کہ صحاح ستہ کے مؤلفوں میں سے ایک ہیں جب انھوں نے امیر المؤمنین علی(ع) کے فضائل میں ایک کتاب تحریر کی تو لوگوں نے ان سے فضائل معاویہ کے بارے میں پوچھا : تو انھوں نے جواب دیا: مجھے معاویہ کی صرف ایک فضیلت معلوم ہے اور وہ یہ کہ خدا اسے کبھی شکم سیر نہ کرے۔ یہ سنکر لوگوں نے ان کے عضو تناسل پروار کیا جس سے وہ بے ہوش ہوگئے اور ایک روایت کے مطابق اسی ضرب سے مرگئے۔

ابن کثیر اپنی تاریخ میں ۳۶۳ھ کے واقعات کے ذیل میں ان حوادث کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جو کہ بغداد میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان یومِ عاشورا کی مناسبت کے سلسلہ میں رونما ہوئے تھے۔

اہلِ سنت کی ایک جماعت نے عائشہ کی اقتدا کی ، بعض کہتے ہیں طلحہ کی اتباع کی۔ بعض کہتے ہیں زبیر کی پیروی کی اور کہا ہم اصحاب علی(ع) سے جنگ کریں گے۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں خلقِ کثیر موت کے گھاٹ اتر گئی۔ ( البدایۃ والنہایۃ ابنِ کثیر جلد۱۱ ص۲۷۵)

بالکل یہی سلوک آج ہندوستان میں اہلِ سنت والجماعت شیعوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں روزِ عاشورہ ان پر حملہ کرتے ہیں ، تاکہ انھیں تعزیہ داری سے باز رکھ سکیں، جس کی وجہ سے بہت سے بیک سرشت مسلمانوں کا خون بہہ جاتا ہے۔

ان واقعات کے  بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علی(ع) کے دشمن اور اہلِ بیت(ع) کے خون کے پیاسوں نے اپنا نام اہلِ سنت والجماعت رکھ لیا ہے اور یہ تو واضح ہے  کہ سنت سے ان کی مراد کیا ہے اور جماعت کے وہ کیا معنی مراد لیتے ہیں۔

۲۱۰

یہ بات دلیل کی محتاج نہیں ہے کہ جو عترتِ نبی(ع)  کا دشمن ہے وہ ان کے جد رسول(ص) کا بھی دشمن ہے اور جو دشمن رسول(ص) ہے وہ دشمن خدا ہے۔

اور یہ بھی عیاں ہے کہ خدا و رسول کا دشمن اور عدوے اہلِ بیت رحمن کا بندہ نہیں ہے اور اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ سنتِ ابلیس کا سالک ہے۔

کیونکہ سنتِ رحمن، رسول(ص) اور اس کے اہلِ بیت(ع) سے محبت و مؤدت رکھنا اور ان کے راستہ پر چلنا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔

قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏ (شوری /۲۳)

کہدیجئے میں تم سے اپنے قرابت داروں کی محبت کے سوا کوئی اجر نہیں چاہتا ۔

اور پھر معاویہ کو علی(ع) سے کیا نسبت اور ائمہ ضلال کو ائمہ ہدی(ع) سے کیا نسبت اور اہل سنت والجماعت کو شیعوں سے کیا نسبت ؟!

یہ لوگوں کے لئے واضح بیان اور متقین کے لئے ہدایت و وعظ ہے۔"

( آل عمران /۱۳۸)

۲۱۱

اہلِ سنّت کی صلوٰت میں تحریف

خدا آپ کو سلامت رکھے اس فصل میں غور فرمائیں تا کہ اہلِ سنت کی خفیہ سازشوں سے آگاہ ہوجائیں اور اس بات کا انکشاف ہو جائے کہ ان کو عترتِ نبی(ص)  سے کتنی دشمنی تھی انھوں نے ہر ایک فضیلت میں تحریف کرڈالی۔

ان ہی تحریف شدہ امور میں سے ایک محمد وآل محمد پر صلوٰت بھیجنا ہے خدا نے قرآن میں محمد و آل محمد پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اہلِ سنت کے تمام محدثین نے خصوصا بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ جب آیۃ : انّ اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی الخ، نازل ہوئی تو صحابہ نبی(ص) کے پا س آئے اور عرضکی یا رسول اللہ(ص) ہم آپ پر کس طرح صلوٰت بھیجیں؟ ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا طریقہ معلوم نہیں؟

نبی(ص) نے فرمایا:الل ه م صلی علیٰ محمد و آل محمد کما صليت علی ابراهيم و علیٰ آل ابراهيم انک حميد مجيد ۔( صحیح بخاری جلد ۴ ص۱۱۸)

اور بعض لوگوں نے رسول(ص) کے اس قول کا بھی اضافہ کیا لہے کہ تم مجھ پر ناقص صلوٰت نہ بھیجا کرو۔ اصحاب نے دریافت کیا یا رسول اللہ(ص) ناقص صلوٰت کونسی ہے؟ فرمایا: تم اللہم صلی علی محمد کہکر خاموش ہو جاتے ہو، خدا  کامل ہے اور وہ کامل ہی چیز کو قبول کرتا ہے۔

امام شافعی نے اس کی وضاحت کی ہے کہ جو محمد(ص) اور ان کے اہلِ بیت(ع) پر درود نہیں بھیجتا خدا اس کی نماز قبول نہیں کرتا ہے۔

۲۱۲

سنن دار قطنی میں ابی مسعود انصاری کی سند سے منقول ہے کہ : رسول (ص) نے فرمایا: جو شخص نماز میں مجھ پر اور میرے اہلِ بیت(ع) پر درود نہ بھیجتا خدا اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔( سنن دار قطنی ص۱۳۶)

ابنِ حجر صواعق میں لکھتے ہیں کہ دیلمی نے روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے فرمایا: جب تک مجھ پر اور میرے اہلِ بیت(ع) پر درود نہیں بھیجی جائے گی اس وقت تک دعا محجوب رہے گی۔ ( صواعق المحرقہ ص۸۸)

طبرانی نے اوسط میں حضرت علی(ع) سے روایت کی  ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: ہر ایک دعا محجوب ہے جب تک محمد وآلِ محمد پر درود نہ بھیجی جائے۔( فیض القدیر جلد۵ ص۱۹ کنز العمال جلد۱ ص۱۷۲)

اور جب ہم اہلِ سنت والجماعت کی صحاح سے درود کی کیفیت کو سمجھ گئے تو یہ بھی سمجھ گئے کہ خدا اس بندہ کی نماز قبول نہیں فرماتا جو اپنی نماز میں محمد وآل محمد پر درود نہیں بھیجتا اور اسی طرح اس مسلمان بندہ کی دعا بھی محجوب رہتی ہے جو محمد وآل محمد پر درود نہیں بھیجتا ۔

قسم اپنی جان کی یہ بہت بڑی فضیلت اور واضح منقبت ہے۔ جو محّمد و آلِ محمّد کو تمام انسانوں پر دی گئی ہے۔ پس انھیں کے ذریعہ مسلمان کو خدا کا تقرّب ڈھونڈھنا چاہئے۔

لیکن اہلِ سنت والجماعت نے اہلِ بیت(ع) کی اس فضیلت کو چھوڑدیا اوراس کے بھیانک نتائج کو محسوس کرلیا۔

کیونکہ ابوبکر، عمر وعثمان اور تمام صحابہ کے جھوٹے فضائل اور خیالی مناقب گھڑ دیئے جانے کے بعد بھی وہ اس منزل پر فائز نہ ہوسکے اور اس لند مقام پر نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ خدا ان کی اور ان کی جماعت کی نماز قبول نہیں فرماتا اس لئے کہ وہ محمّد(ص) کے بعد علی بن ابی طالب(ع) جو کہ عترت کے سردار ہیں، ان پر درود نہیں بھیجتے۔

۲۱۳

اس لئے اہلِ سنت نے صلوٰۃ میں تحریف کر کے اپنے محبوب خلفاء کے نام کا اضافہ کر دیا۔ تاکہ ان کی عظمت بڑھا سکیں۔

جبکہ رسول (ص) نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا۔ چنانطہ وہ پہلی صدی ہی سے ناقص صلوٰۃ پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ان کی کتابوں میں ناقص صلوٰۃ مرقوم ہوتی ہے۔

وہ صرف محمد یا نبی یا رسول (ص) لکھتے ہیں اور آل کے ذکر کے بغیر صلی اللہ علیہ و سلم تحریر کردیتے  ہیں۔

اور اس زمانہ میں اگر آپ ان میں سے کسی سے گفتگو کریں اور اس سے کہیں کہ محمد پر درود بھیجئے تو وہ جواب میں صلی اللہ علیہ وسلم کہے گا اورف آل کا ذکر نہیں کرے گا۔ اگر چہ ان میں سے بعض بڑی ہی پیچ دار صلوٰۃ پڑھتے ۔ چنانچہ آپ صل و سلم کے علاوہ کچھ نہیں سمجھ پائیں گے۔

لیکن جب آپ کسی بھی عربی یا عجمی شیعہ سے درود بھیجنے کے لئے کہیں گے ۔ تو وہ اللہم صلّ علٰی محمد و آل محمد پوری صلوٰۃ پڑھے گا۔

جبکہ اہل سنت والجماع کی کتابوں میں نبی(ص) کا یہ قول، قولو! اللہم صلی علیٰ محمد و آل محمد منقول ہے۔ جو کہ حاضر اور مستقبل کے صیغہ کی صورت میں ہے اور خداسے طلب دعا ہے۔

لیکن اہلِ سنت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر اکتفا کرتے ہیں جو کہ ماضی کا صیغہ ہے جو کہ خبر دے رہا ہے۔

اہل سنت والجماعت کے سردار معاویہ ابن ابی سفیان کی تو پوری یہ کوشش تھی کہ اذان سے بھی محمد (ص) کا نام صاف کردیا جائے۔ ( ملاحظہ فرمائیں اہلِ ذکر)

اس کے پیروکاروں کے لئے یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ صلوات میں تحریف کردیں اور یہی نہیں اگر ان میں صلوات کو حذف کرنے کی طاقت ہوتی تو ضرور حذف کردیتے لیکن اب تو ان کے لئے افسوس ہی افسوس ہے۔

۲۱۴

آج آپ ان کے ہر ایک منبر سے خصوصا وہابیوں کے منبروں سے تحریف شدہ صلوات سن سکتے ہیں۔ ان کی ناقص صلوات کی گونج رہتی ہے۔ لیکن اگر وہ مجبورا پوری صلوات پڑھتے ہیں تو اس میں " وعلی اصحابہ اجمعین" کا اضافہ کردیتے ہیں۔ یا اس سے بھی آگے بڑھ کر کہتے ہیں۔ وعلی اصحابہ الطیبین  الطاہرین، اور اس طرح وہ یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ آیت تطہیر صحابہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ لہذا صحابہ اور اہلِ بیت علیہم السلام برابر ہیں۔

اور اس فریب کاری اور تحریف کا علم انھوں نے اپنے فقیہ اوّل اور قائد اکبر عبداللہ بن عمر سے حاصل کیا ہے جو کہ اہلِ بیت(ع) کا کٹر دشمن تھا۔

مالک نے اپنی موطا میں تحریر کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر نبی(ص) کی قبرِ مبارک کے پاس آتے تھے اور آپ پر درود بھیجنے کے ساتھ ساتھ ابوبکر و عمر پر درود بھیجتے تھے۔( تنویر الحوالک فی شرح موطا مالک جلد۱ ص۱۸۰)

قارئین محترم جب آپ سنجیدگی سے غور فرمائیں گے تو نہ قرآن میں لفظ صحابہ ملے گا اور نہ سنت میں نظر آئے گا۔

کیابِ خدا اور سنتِ نبی(ص) نے تو صرف محمد وآل محمد(ص) پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے اور یہ امر ( صلوات بھیجنا) تمام مکلفین سے پہلے صحابہ پر واجب ہے۔

اور صلوات میں یہ صحابہ کا اضافہ اہلِ سنت والجماعت ہی کے ہاں ملے گا اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے انھوں نے تو نہ جانے دین میں کتنی بدعتین ایجاد کر کے انھیں سنّت کا نام دیدیا ہے اس سے ان کا مقصد فضیلت کو چھپانا اور حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے۔

یہ لوگ اپنے منہ سے ( پھونک مار ) کر نورِ خدا کو بجھا دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ خدا اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ اگر چہ یہ بات کافرین کو ناگوار ہی کیوں نہیں لگے۔( الصف/۸)

" اور اس سے ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حقیقی اہلِ سنت کون ہیں"۔

۲۱۵

جھوٹ حقائق کا انکشاف کرتا ہے

اس فصل می ہم ہر عاقل ، آزاد تعصّب سے بری انسان کے لئے اس کی بصیرت و بصارت سے پردہ اٹھائیں گے تاکہ وہ حق و ہدایت تک پہنچ جائے۔

ایسے افراد سے ہماری گذارش ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے تمام اقطاب اوران کے کل ائمہ نے سنتِ نبوی(ص) کی صریح طور پر مخالفت کی ہے اور اسے پسِ پشت ڈالدیا اور جان بوجھ کر اسے چھوڑدیا ہے۔

کسی مسلمان کو ادھر ادھر ان کی مدح سرائی سے فریب نہیں کھانا چاہئے ۔ کیونکہ اس کی بنیاد کسی واضح دلیل اور روشن برہان پر نہیں ہے۔

ہم حقیقت کا انکشاف کررہے ہیں ان پر اتہام نہیں لگارہے ہیں اور وہی چیز بیان کررہے ہیں جو انھوں اپنی صحاح و مسانید  اور تواریخ میں بیان کی ہے۔ ان حقائق میں سے ہم بعض کو اپنی دیگر کتابوں میں بیان کرچکے ہیں اور ان سے شرفانہ انداز میں گذر آئے ہیں۔ یہاں ان کو تفصیلی طور  پر بیان کررہے ہیں تاکہ ہدایت کا سورج روشن ہوجائے اور ضلالت و گمراہی کا بادل چھنٹ

۲۱۶

جائے  اور تاریکی کی جگہ نور مستقر ہوجائے۔

یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے  ہیں کہ تکرار میں فائدہ ہے اورجب واقعات کو مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ہے تو قارئین اس سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔ کیونکہ اسلوب کے تحت لکھی جانے والی کتاب کو قارئین کسی تھکن کے پڑھ ڈالتے ہیں۔ اور یہ  چیز ہم نے قرآن کریم سے جانی ہے جیسا کہ جنابِ موسی(ع)  وعیسی(ع) کے واقعات کے متعدد سوروں میں بیان کیا ہے اور مختلف انداز میں پیش کیا ہے جو کہ ایک دوسرے کو مستحکم بناتے ہیں۔

ہم عنقریب ان اقطاب و ائمہ کے حالات قلم بند کریں گے جن پر اہلِ سنت والجماعت اعتما د کرتے ہیں اور انھیں علم و فقہ کا منارا تصور کرتے ہیں اور انھیں ائمہ اطہار(ع) پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان صحابہ سے قطع نظر جن کے فسق وفجور اور روحِ اسلام سے ان کی دوری کو ہر خاص و عام جانتا ہے اور علما و غیر علما سب ہی واقف ہیں۔ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید(لع) ، ابنِ عاص، ابنِ مروان اور ابن شعبہ وغیرہ کے سیاہ کارناموں سے واقف ہیں۔ ( عبداللہ بن حنظلہ عسیلۃ الملائکہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: قسم خدا کی ہم جب بھی یزید کے پاس جاتے تھے تو ہمیں اس بات کا ڈر رہتا تھا کہ کہیں ہم پر آسمان سے پتھر نہ برسنے لگیں وہ شخص اپنی مان ، بہنوں اور بیٹیوں سے نکاح کرتا تھا ، شراب پیتا تھا ، تارک الصلاۃ تھا قسم خدا کی میرے ساتھ نہ ہوتا تو قربۃ الی اللہ اس کا قصہ تمام کردیتا۔( طبقات ابن سعد ج۱ ص۴۷) جی ہاں اسی فاسق و فاجر یزید (لع) نے ریحانہ رسول(ص) اور ان کی عترت کو قتل کیا اور اپنے لشکر کے لئے مدینہ رسول(ص) کو مباح قرار دیا اس کے باوجود آپ آج نام نہاد اسلامی حکومت دیکھیں گے کہ وہ یزید کے سلسلہ میں اس عنوان سے حقائق عن امیر المؤمنین یزید بن معاویہ ، کتاب لکھ رہی ہے۔

اگر آپ عرب کے اہلِ سنت والجماعت " کے بعض اسلامی ممالک کا سفر کریں تو وہاں ان کا ذکر عظمت و بزرگی ، ان کے نام پر سڑکوں کے نام اور خلافت کی صحت اور حسنِ سیاست کے سلسلہ میںکتابوںکے انبار مل جائیںگے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم ان کے سلسلہ میں کتاب لکھنے اوران کی حقیقت کا انکشاف کرنے کے

۲۱۷

متعلق اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے۔ ہمارے لئے بعض آزاد مورخین و مفکرین کا لکھا ہوا ہی کافی ہے۔

لیکن ہم اس بحث میں ان لوگوں پر ضرور تبصرہ کریں گے جو صلاح و عدل ، زہد و تقوی میں شہرت پاگئے ہیں اور اہلِ سنت کے عمدہ افراد سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ قریب سے اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ انھوں نے سنت نبوی(ص) میں کس کس نہج سے تغیر و تحریف کی اور اس امت میں ایسی ایسی بدعتین ایجاد کردیں کہ جن سے تفرقہ و گمراہی پھیل گئی اور اس کی عظمت کی وہ بنیاد اکھڑ گئی جس کی رسول(ص) نے مضبوط بنادیا تھا اور آپ(ص) کی پوری عمر شریف اس کی حفاظت و ثبات کے سلسلے میں صرف ہوئی تھی۔

میں نے اہلِ سنت والجماعت کے اقطاب میں سے بارہ(۱۲) اشخاص کو چنا ہے جنھوں نے دین کے نشانات کو مٹانے اور امت میں تفرقہ پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔

۲۱۸

اہلِ سنت والجماعت کے ائمہ اور اقطاب

 ۱: خلیفہ اوّل ابوبکر بن ابی قحافہ

۲: خلیفہ ثانی عمر بن خطاب

۳: خلیفہ ثالث عثمان بن عفان

۴: طلحہ بن عبیداللہ

۵: زبیر بن العوام

۶:سعد بن ابی وقاص

۷: عبدالرحمن بن عوف

۸: ام المؤمنین عائشہ بنتِ ابی بکر

۹: خالد بن ولید

۱۰: ابوہریرہ دوسی

۱۱: عبداللہ بن عمر

۱۲: عبداللہ بن زبیر

۲۱۹

مذکورہ افراد کو میں نے اہل سنت والجماعت کے بے شمار اقطاب کے درمیان سے اس لئے منتخب کیا ہے کہ ان ہی کے زیادہ فضائل بیان ہوئے ہیں یا ان کی روایات زیادہ ہیں اور بزعم اہلسنت ان ہی کی ذات سے علم سوتا پھوٹتا ہے۔

ہم عنقریب ہر ایک کے متعلق ایک مختصر بحث پیش کریں گے اور بتائیں گے کہ ہر ایک نے عمدا یا جہالت کی بنا پر سنت نبوی(ص) کی مخالفت کی ہے اس سے محقق کو یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ اہلِ سنت والجماعت جس چیز کادعوا  کرتے ہیں وہ ان کے پاس نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ہوس کی پیروی کرتے ہوئے یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں ۔ باقی سب گمراہ ہیں۔

۱: ابو بکر صدّیق" ابنِ ابی قحافہ

ہم اپنی دیگر کتابوں میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں کہ ابوبکر نے نبی(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کرکے نذر آتش کردی تھی اور خطبہ کے دوران کہا تھا: رسول(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کرنا اوراگر کوئی تم سے سوال کرے تو  اس  سے کہدو ہمارے ، تمھارے درمیان قرآنِ مجید ہے اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو!

ہم یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ ابوبکر نے نوشتہ لکھنے کے سلسلہ میں نبی(ص) کی مخالفت کی  اور عمر کے اس قول کی تائید کہ رسول(ص) معاذ اللہ ہذیان بک رہے ہیں ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔

اسی طرح علی(ع) کی خلافت غصب کر کے آپ(ع) کی خلافت سے متعلق نصوص محمدی(ص) کی مخالفت کی۔

اسامہ کی امارت اور ان کے لشکر میں شریک نہ ہو کر سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی جگر گوشہ رسول(ص) فاطمہ زہرا(ع) کو اذیت پہنچا کر اور انھیں دھمکی دے کر سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی۔

مانعین زکوٰۃ مسلمانوں سے جنگ کرکے اور انھیں تہہ تیغ کر کے سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کی۔

۲۲۰