شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے9%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109143 / ڈاؤنلوڈ: 6817
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

فجات سلمی کو جلا کر جس سے نبی(ص) نے منع کیا تھا، سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی مؤلفہ القلوب کا حصہ نہ دے کر اور عمر کے قول کی تائید کر کے سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کی۔

عمر کو مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر مسلمانوں کا خلیفہ بناکر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تمام مخالفتوںسے اہل سنت کی صحاح اور تواریخ بھری پڑی ہیں۔

پس  جب سنتِ نبی(ص) کا یہ حال ہے، جیسا کہ علمانے بیان کیا ہے، کہ ابوبکر نے سنت یعنی قولِ رسول(ص) فعلِ رسول(ص) اور تقریر رسول(ص) کی مخالفت کی ہے۔

قول رسول(ص) کی مخالفت : نبی(ص) نے ارشاد فرمایا:" فاطمہ (ع) میرا ٹکڑا ہے جس نےاسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔"اور فاطمہ(س) نے دنیا سے اس حالت میں رحلت کی کہ ابوبکر پر غضبناک تھیں جیسا کہ بخاری نے تحریر کیا ہے۔

رسول(ص) کا قول ہے کہ:جیش اسامہ میں شرکت نہ کرنے والے پر خدا کی لعنت ہے اور یہ آپ(ص) نے اس وقت فرمایا تھا: جب  صحابہ نے اسامہ کو امیر بنانے کے سلسلہ میں اعتراض کیا تھا اور ان کے لشکر میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا ان تمام خلاف ورزیوں کے باوجود ابوبکر خلیفہ بن گئے تھے۔

فعلِ رسول(ص) کی مخالفت:

رسول(ص) نے مؤلفۃ القلوب کو حکم خد اسے حصہ دیا لیکن ابوبکر نے انھیں اس حق سے محروم کردیا جس پر قرآن کی نص موجود ہیں اور رسول(ص) نے اس پر عمل کیا ہے چونکہ عمر نے یہ کہدیا تھا کہ اب ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے ابوبکر نے بھی دست کش ہوگئے۔

تقریرِ رسول(ص) کی مخالفت :

نبی(ص) نے اپنی خاموشی سے اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ لوگ آپ(ص) کی احادیث لکھیں

۲۲۱

اور لوگوں کے درمیان نشر کریں لیکن ابوبکر نے ان حدیثوں کو جلا ڈالا اور ان کی نشر و اشاعت پر پابندی لگادی۔

ابوبکر قرآن کے بہت سے احکام سے ناواقف تھے ان سے کلالہ کے متعلق سوال کیا گیا کہ جس کا حکم قرآن میں موجود ہے، تو کہا میں اپنی رائے سے فیصلہ کرسکتا ہوں اگر وہ فیصلہ صحیح ہوگا تو خد اکی طرف سے اور غٖلط ہوگا تو شیطان کی طرف سے ہے۔ ( تفسیر طبری، تفسیر ابنِ کثیر،تفسیر خازن، تفسیر جلال الدین سیوطی، تمام مفسرین نے سورہ نساء کی اس آیت کے ذیل میں تحریر کیا ہے۔(ليستفتونک قل الله يفتيکم فی الکلالة)

مسلمانوں کے اس خلیفہ کے بارے میں کیونکر حیرت نہ ہو کہ جس سے کلالہ کا حکم پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں جبکہ خد انے قرآن میں او ر رسول(ص) نے اپنی احادیث میں کلالہ کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔ لیکن خلیفہ کو ان دونوں سے سروکار ہی نہیں تھا۔

پھر خود ہی اس بات کا بھی اعتراض کرتے ہیں کہ شیطان ان کی رائے پر مسلط رہتا ہے۔ اور یہ خلیفہ مسلمین ابوبکر کے لئے کو اتفاقی امر نہیں تھا بلکہ انھوں نے ایسی  باتیں بارہا کہی ہیں۔ میرا ایک شیطان ہے جوکہ بہکاتا رہتا ہے۔

واضح رہے علمائے اسلام کا صریح فیصلہ ہے کہ جو شخص کتابِ خدا کےبارے میں اپنی رائے سے کام لے وہ کافر ہے ، جیسا کہ نبی(ص) نے کبھی اپنی رائے اور قیاس سے کچھ نہیں فرمایا:

ابوبکر کہا کرتے تھے: مجھے اپنے نبی(ص) کی سنت پر زبردستی نہ چلاؤ کیونکہ مجھ میں اس کی طاقت نہیں ہے۔

پس جب ابوبکر میں سنتِ نبی(ص) پر گامزن ہونے کی طاقت نہیں ہے تو پھر ان کے انصار و مددگار یہ دعوی کیسے کرتے ہیں کہ ہم اہلِ سنت ہیں۔

شاید ابوبکر سنتِ رسول(ص) کا اس لئے اتباع نہیں کرسکتے تھے کہ سنت انھیں یہ بتاتی کہ ان کا عمل رسالتِ مآب(ص) کے عمل سے بالکل مختلف ہے جبکہ خدا نے فرمایا ہے کہ:

۲۲۲

" دین میں تمھارے لئے کوئی حرج نہیں ہے۔" ( حج۷۸)

" خدا تمھارے لئے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے تنگی کا نہیں۔" ( بقرہ ۱۸۵)

" خدا کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (بقرہ۲۸۶)

" جو رسول(ص) تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے بازرہو۔" ( حشر ۷)

ابوبکر کا یہ قول کہ مجھ میں سنتِ نبی(ص) کے اتباع کی طاقت نہیں ہے ان آیتوں کی تردید کررہا ہے اور جب نبی(ص) کے فورا بعد خلیفہ اوّل ابوبکر اس زمانہ میں سنتِ نبی(ص) پر عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے تو دورِ حاضر کے مسلمانوں سے کیونکر قرآن و سنتِ نبی(ص) پر گامزن  رہنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟

اور ہم تو ابوبکر کو ایسے آسان امور میں بھی سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جن پر ناتواں اور جاہل بھی عمل کرتا ہے۔

چنانچہ ابوبکر نے قربانی کو ترک کردیا جبکہ رسول (ص) خود بھی قربانی کرتے تھے اور اس کی تاکید فرماتے تھے۔ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ قربانی مستحب مؤکد ہے پھر خلیفہ مسلمین نےاسے کیونکر ترک کردیا؟

محدثین اور امام شافعی نے کتاب الام میں بیان کیا ہے کہ ( بیہقی نے سنن الکبریٰ کی ج۹ ص۳۶۵ اور سیوطی نے جمع الجوامع کی جلد۳ ص۴۵ پر نقل کیا ہے)

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں قربانی نہیں کرتے تھے اور وہ اس خیال کے تحت کہ کہیں دیگر افراد ہماری اقتدا میں اسے واجب نہ سمجھنے لگیں!یہ تعلیل باطل ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہےکیونکہ تمام صحابہ جانتے تھے کہ قربانی سنت ہے  واجب نہیں ہے۔اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ لوگ قربانی کو واجب سمجھنے لگتے تو بھی کیا حرج تھا جبکہ عمر نماز تراویح کی بدعت ایجاد  کردیتے ہیں جو کہ نہ سنت ہے  اور نہ واجب۔

بلکہ اس کے برخلاف نبی(ص) نے اس سے منع فرمایا تھا اور آج اکثرِ اہلِ سنت نمازِ تراویح کو واجب سمجھتے ہیں۔

۲۲۳

شاید ابوبکر و عمر قربانی نہ کرکے اور سنت نبی(ص) کا اتباع نہ کرکے لوگوں کو اس شک میں مبتلا کرنا چاہتے تھے کہ جو فعل بھی رسول(ص) نے انجام دیا ہے وہ واجب نہیں ہے۔ لہٰذا اسے ترک کیا جاسکتا ہے۔

اور اس سےان کےاس قول کی تقویت ہوتی ہے کہ "ہمارے لئے کتاب خدا ہی کافی ہے اور ابوبکر کےاس قول کو بھی سہارا ملتا ہے کہ نبی(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کیا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتابِ خدا موجود ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو!

اس بنیا د پر اگر کوئی شخص ابوبکر پر قربانی والی سنتِ نبی(ص) کے ذریعہ احتجاج کرتا ہے تو ابوبکر صاف کہدیتے تھے مجھ سے تم رسول(ص) کی حدیث بیان نہ کرو، مجھے تو کتاب  میں اس کا حکم دیکھاؤ کہاں ہے۔

اس کےبعد ایک محقق بخوبی اس بات کو سمجھ لے گا کہ اہلِ سنت کے یہاں سنتِ نبی(ص) کیونکر متروک و مجہول رہی اور انھوں نے اپنی رائے قیاس اور استحسان کے ذریعہ کیسے خدا و رسول(ص) کے احکام کو بدل ڈالا۔

یہ وہ مثالیں ہیں جن کو میں نے ابوبکر کے ان کارناموں سے نکالا ہے جو انھوں نے سنتِ نبی(ص) کے سلسلہ میں انجام دیئے ہیں۔ جیسے سنت کی اہانت ، احادیث کا جلانا اوران سے چشم پوشی کرنا ، اگر ہم چاہتے تو اس موضوع پر مستقل کتاب لکھدیتے۔

اتنے کم علم والے انسان سے ایک مسلمان کیسے مطمئن ہوسکتا ہے جس کا یہ مبلغِ علم ہے اور سنتِ نبوی(ص) سے جس کا یہ برتاؤ  ہے تو اس کی پیروی کرنے والے کیونکر اہلِ سنت کہلواتے ہیں؟

اہلِ سنت نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں اور نہ اسے نذر آتش کرسکتے ہیں۔

ہرگز ، بلکہ اہلِ سنت وہ ہیں جو اس کا اتباع کرتے ہیں اور اسے مقدس سمجھتے ہیں۔

("اے رسول (ص)) کہدیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو

۲۲۴

 میرا اتباع کرو( پھر) خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ غفور و رحیم ہے۔

( اے رسول(ص)) کہدیجئے کہ اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو اگر روگردانی کرو گے تو خدا  کافروں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ ( آل عمران ۳۱۔۳۲)

۲: عمر بن خطاب ۔ فاروق

ہم اپنی دیگر کتابوں میں تحریر  کرچکے ہیں کہ سنت نبوی(ص) سے ٹکرانے میں عمر بڑے جسور تھے۔یہ وہ جری ہے جس نے رسول(ص) سے بےڈھڑک کہدیا تھا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے اور اس رسول(ص) کے قول کوجو کہ اپنی خواہش نفس سے کچھ کہتا  ہی نہیں اسے اہمیت نہیں دی، اس لحاظ سے عمر اس امت کی گمراہی کا سبب بنے۔( اس کی دلیل قولِ رسول(ص) ہے ۔، اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ ابدا: میں تمھارے لئے نوشتہ لکھدوں کہ جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ابنِ عباس کہتے ہیں اگر وہ نوشتہ لکھا گیا ہوتا تو امت کے دو افراد کے درمیان کبھی اختلاف نہ ہوتا لیکن عمر نے رسول(ص) کو وہ نوشتہ نہ لکھنے دیا اور آپ(ص) پ رہذیان کی تہمت لگائی تاکہ رسول(ص) لکھنے پر اصرار نہ کریں۔ اس سے یہ  بات واضح ہوگئی کہ امت کی گمراہی کا سبب عمر ہیں جس نے امت کو ہدایت سے محروم کیا۔)

ہم یہ بھی جانتے ہیںکہ عمر نے فاطمہ زہرا(س) کی اہانت کی اور آپ(س)  کو اذیّتین دیں۔ آپ(س) کو اور آپ کے چھوٹے چھوٹے بچّوں کو اس وقت خوف زدہ کیا جب رسول(ص) کی لختِ جگر کے گھر پر یورش کی اور گھر کوآگ لگادینے کی دھمکی دی۔

ہم اس سے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ عمر ہی نے حدیث کی کتابیں جمع کرکے نذر آتش کردی تھیں۔ اور لوگوں کو احادیثِ رسول(ص) بیان کرنے سے منع کردیا تھا۔

عمر نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اور خود رسول(ص) کے سامنے آپ(ص) کی سنت کی مخالفت کی جیسا کہ جیش اسامہ میں شرکت نہ کر کے سنتِ بنی(ص) کی مخالفت کی اور ابوبکر کی خلافت کو مستحکم بنانے کی

۲۲۵

غرض سے جیشِ اسامہ کے ساتھ نہیں گئے تھے۔

مؤلفۃ القلوب کو ان کا حق نہ دیکر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اسی طرح متعہ حج و متعہ نساء  کو حرام قرار دیکر قرآ نو سنت کی مخالفت کی۔

تین طلاقوں کو ختم کر کے ایک طلاق کو کافی بتا کر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اور  پانی نہ ہونے کی صورت جمیں فریضہ تیمم کو ختم کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

مسلمانوں کو جاسوسی کا حکم دیکر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اسی طرح اذان سے ایک جزو ختم کر کے اور اپنی طرف سے ایک جزو کا اضافہ کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

خالد بن ولید پر حد جاری نہ کر کے قرآن وسنت نبی(ص) کی مخالفت کی جبکہ خود اسے خد کی اجراء سے خوف زدہ کرچکے تھے۔جیسا کہ تراویح کو جماعت سے پڑھنے کا حکم دیکر سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی۔

بیت المال کی تقسیم کے سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کر کے طبقاتی نظام کی بدعت جاری کی اور اسلام میں طبقہ بندی کو جنم دیا۔مجلس شوریٰ بناکر اور ابنِ عوف کو اس کا رئیس مقرر کرکے سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کی۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود اہل سنت والجماعت انھیں معصوم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں عدل تو عمر کے مرتے ہی ختم ہوگیا تھا، اور جب انھیں قبر میں رکھا گیا اور منکرو  نکیر سوال کرنے آئے تو عمر ان پر برس پڑے اور پوچھا تمھارے پروردگار کون ہے؟ اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں کہ عمر فاروق ہیں کہ جس کے ذریعہ خدا نے حق و باطل میں فرق کر دیا۔

کیا یہ بنی امیہ نے اسلام اور ،مسلمانوں کا مذاق نہیں اڑایا ہے؟انھوں نے ایک سخت مزاج شخص کے لئے ایسے مناقب گھڑ دیئے جو کہ مستقل طور پر رسول(ص) سے لڑتا رہا۔ ( مسلم نے اپنی صحیح میں متعہ کے سلسلے میں ابن عباس اور ابن زبیر کا اختلاف درج کیا جہے ۔ جابر بن عبداللہ نے  کہا ہم رسول(ص) کے

۲۲۶

ز مانہ میں متعہ حج اور متعہ نساء دونوں پر عمل کرتے تھے حج جمیں عمر نے دونوں کو حرام قرار دیدیا۔) گویا انکی زبانِ حال مسلمانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ محمد(ص)  کا زمانہ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ ختم ہوگیا اب ہمارا زمانہ ہے۔ اب ہم جس طرح چاہیں گے دین میں ردّ و بدل کریں گے اور شریعت بنائیں گے ۔ اب تم ہمارے  غلام ہو تمھاری اور تمھارے نبی(ص) کی ناک رگڑی جا ئے گی۔ اور ردّ عمل کے طور پر انتقام لیا جائے گا تاکہ حکومت قریش ہی کی طرف لوٹا دی جائے جس کی زمام بنی امیہ کے ہاتھوں میں رہے گی جو کہ اسلام اور رسولِ اسلام سے مستقل طور پر لڑتے چلے آرہے ہیں۔

عمر بن خطاب سدا سنت نبوی(ص) کو مٹانے کی کوشش میں لگے رہے اور اس کا مذاق اڑاتے رہے اور ہیشہ اس کی مخالفت کرتے رہے یہاں  کہ نبی(ص) کے سامنے بھی مخالفت کی تو اب نہ تعجب خیز بات نہٰیں ہے کہ قریش حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں می دیدیں اور انھیں اپنا قائد اعظم  تسلیم کرلیں کیونکہ وہ ظہور اسلام کے بعد قریش کی بولتی ہوئی زبان تھے۔ اور ان کی طرف سے جھگڑنے والے تھے۔ اسی طرح وفاتِ نبی(ص)  کے بعد وہ قریش کی برہنہ  شمشیر اور ان کے خوابوں کی تعبیروں کو  وجود میں لانے کا مرکز اور حکومت تک ان کی رسائی کا ذریعہ اور ان کی جاہلیت والی عادتوں کی طرف پلٹانے کا سبب تھے۔

یہ کوئی اتفاقی امر نہیں جہے کہ ہم عمر کو ان کے زمانہ خلافت میں سنت نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور  انھیں  خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم (ع) سے الگ ایسے عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا۔

ابنِ سعد نے اپنی طبقات میں اور دیگر مورخین نے نقل کیاہے کہ:

جب نبی(ص) نے مکہ فتح کیا تو مقام ابراہیم(ع) کو اس طرح خانہ کعبہ سے ملادیا جس طرح عہد ابراہیم(ع) و اسماعیل(ع) میں تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عرب نے مقام ابراہیم(ع) کو اس جگہ کردیا تھا جہاں آج ہے۔ لیکن بعد میں عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسی  جگہ کردیا تھا جہاں آج ہے جبکہ عہد ِ رسول(ص) اور زمانہ ابوبکر میں خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا۔( طبقات ابن سعد جلد ۳ ص۲۰۴، تاریخ الخلفا حالاتِ خلافت

۲۲۷

عمر بن خطاب)

کیا آپ عمر بن خطاب کے لئے کوئی عذر پیش کرسکتے ہیںجب کہ وہجان بوجھ کر اس سنتِ رسول(ص) کو محو کرتے تھے جو کہ آپ(ص) نے ابراہیم و اسماعیل(ع) کے عمل کے مطابق کردی تھی اور عمر نے جاہلیت والی سنت کو زندہ کیا اور مقامِ ابراہیم(ع) وہیں کردیا جہاں زمانہ جاہلیت میں تھا۔

پس قریش عمر کو کیسے فوقیت نہ دیتے اور ان کے لئے ایسے فضائل کیونکر گھڑتے جو خیالات کی سرحدوں میں مقید ہیں یہاں تک کہ ان کے دوست ابوبکر کہ جن کو عمر نے خود خلافت میں مقدم کیا تھا وہ بھی اس مقام تک نہیں پہونچے اور پھر بخاری کی روایت کے مطابق ان کے (علم کے کنویں سے ڈول) کھینچنے میں ضعف تھا لیکن عمر نے ان سے لے لیا اور اسے آسانی سے کھینچ لیا۔اور یہ ان بدعتوں کا عشر عشیر  بھی نہیں ہے جو کہ عمر نے اسلام میں ایجاد کی ہیں۔ اور یہ بدعتیں سب کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالف ہیں۔اگر ہم ان کی بدعتوں کو جمع کریں اور ان احکام کو یکجا کردیا جائے جو کہ انھوں نے اپنی رائے سے صادر کئے ہیں اور ان پر لوگوں کو زبردستی عمل کرنے کے لئے کہا تو  دفتر کے دفتر  وجود میں آجائیں گے لیکن ہمارے پیشِ نظر اختصار ہے۔

اور کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے : عمر بن خطاب نے کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی کیسے مخالفت کی جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو خدا و رسول(ص) کے فیصلہ کے بعد کسی امر  کا اختیار نہیں ہے اور جو خدا اور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کرے گا وہ تو کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہے۔( احزاب/۳۶)

اس بات پر آج اکثر لوگ بحث کرتے ہیں اور ان باتو ں کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر نے ان چیزوں کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔

ایسے لوگوں سے ہماری گذارش ہے کہ: یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ اہلِ سنت میں سے عمر کے یارو انصار نے ثابت کی ہیں ۔ اور  اب   لاشعوری طور پر عمر کو نبی(ص) پر فضیلت دیتے ہیں۔

۲۲۸

اگر یہ باتیں جو عمر کے بارے میں کہی گئی ہیں سب جھوٹی ہیں تو اہلِ سنت کی صحاح ( ستہ) کا کوئی اعتبار نہیں رہے گا ۔اور پھر ان کے کسی عقیدہ پر کوئی دلیل باقی نہ بچے گی۔ کیونکہ تواریخ کے اکثر واقعات اہلِ سنت کی حکومت کے زمانہ میں لکھے گئے ہیں اور ان لوگوں کے نزدیک عمر بن خطاب کا جو احترام و محبت ہےوہ سب پر عیاں ہے۔

اور جب یہ بات صحیح ہے اور ناقابل ترید حقیقت ہے تو آج مسلمانوں کو اپنے موقف کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے عقائد کے بارے میں سوچنا چاہئے اگر وہ اہلِ سنت والجماعت ہیں۔

اسی لئے آج کے اکثر محققین کو آپ دیکھیں گے کہ وہ ایسی روایات اوران تاریخی واقعات کو جھٹلاتے ہیں جن پر علما و محدثین کا اجماع ہے۔ اگر چہ انھیں جھٹلانے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہے۔اسی لئے وہ تاویل کیا کرتے ہیں اور ایسے واہیات قسم کے عذر و بہانے کرتے ہیں۔

جن کی بنیاد علمی دلیل پر استوار نہیں ہوتی ہے بعض نے تو ان (عمر) کی بدعتیں جمع کر کے ان کے مناقب میں شامل کردی ہیں۔

شاید خدا و رسول(ص) دونوں ہی مسلمانوں کی مصلحت سے ناواقف تھے۔ اسی لئے تو وہ ان بدعتوں سے غافل رہے ( استغفر اللہ) چنانچہ عمر ابن خطاب نے ان مصلحتوں کا انکشاف کیا اور رسول(ص) کی وفات کے بعد انھیں مسلمانوں کے لئے سنت قرار دیدیا۔

ہم بہتان عظیم ، کھلے کفر ، رائے خطا اور فکری لغزشوں سے خد اکی پناہ چاہتے ہیں اور جب عمر جیسا اہلِ سنت والجماعت کا امام و قائد ہے ۔ تو میں ایسی سنت اور ایسی جماعت سے خدا کی بارگاہ میں برائت کا اظہار کرتا ہوں۔

خدا سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے سنتِ خاتم النبیین سید المرسلین ، سیدنا محمد (ص) و علی(ع) اور اہلِ بیت طاہرین(ع)  کے راستہ پر موت دے۔

۲۲۹

۳: عثمان بن عفان" ذوالنورین"

یہ تیسرے خلیفہ ہیں جو کہ عمر بن خطاب کی تدبیر سے اور عبدالرحمن بن عوف کی زیرکی سے خلافت پر متمکن ہوئے ، ابن عوف نے عثمان سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ ان کے درمیان کتابِ خدا ، سنتِ رسول(ص) اور سنت ابوبکر و عمر کے مطابق حکومت کے فیصلے کریں گے۔

مجھے خود دوسری شرط میں شک ہے کہ جس میں سنتِ نبی(ص) کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا گیا ہے۔

کیونکہ عبدالرحمن ابن عوف دوسروں سے زیادہ اس بات کو جانتے تھے کہ ابوبکر و عمر نے سنت نبوی(ص) کے مطابق نہ حکومت کی ہے  اور نہ کوئی فیصلہ کیا ہے بلکہ انھوں نے ہمیشہ اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لیا ہے۔ شیخین کے  زمانہ میں سنتِ رسول(ص) معدوم ہوگئی ہوتی اگر علی(ع) اس کو زندہ رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی نہ دیتے۔

ظن غالب یہ ہے کہ عبدالرحمن  بن عوف نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ آپ کتابِ خدا اور سیرت شیخین کے مطابق حکومت چلائیں گے۔ تو ہم آپ(ع) کو خلیفہ بناتے ہیں۔ علی(ع) نے اس پیش کش کو یہ کہکر ٹھکرادیا تھا کہ میں صرف کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق حکومت کروںگا۔ لہذا آپ(ع) کو خلافت نہ دی گئی کیونکہ وہ سنتِ نبی(ص) کو زندہ کرنا چاہتے تھے عثمان نے اس شرط کو قبول کر کے خلافت لے لی۔ پھر ابوبکر و عمر نے صریح طور پر متعدد بار یہ کہدیا تھا کہ ہمیں سنتِ نبی(ص) کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ اس کی حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو!

ہمارے مسلک کے صحیح ہونے کا اس بات سے اور زیادہ یقین ہوجاتا ہے کہ عثمان بن عفان اس شرط ( کہ سیرت شیخین کے مطابق عمل کرنا ہوگا)  سے یہ سمجھ گئے تھے کہ احکام کےسلسلہ میں اپنے دونوں دوستوں کی طرعح اپنی رائے سے اجتہاد کرلیا جائے گا اور یہ وہ سنت تھی جس کو

۲۳۰

 شیخین نے نبی(ص) کے بعد ایجاد کیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم عثمان کو رائے اور اجتہاد کے سلسلہ میں اپنےدوستوں سے بھی زیادہ مطلق العنان پاتے ہیں۔ اسی بناء پر اکثر صحابہ نے ان پر تنقید کی اور ملامت کرتے ہوئے عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور کہا یہ تمھارا کارنامہ ہے۔

اور جب تنقید و شور وغل عثمان کے خلاف بہت زیادہ ہوگیا تو ایک روز انھوں نےصحابہ کے درمیان خطبہ دیتےہوؕے کہا: تم لوگوں نے عمر بن خطاب کے اجتہاد پر کیوں تنقید نہیں کی تھی؟ اس لئے کہ وہ تمھیں اپنے درے سے صحیح رکھتے تھے!

ابنِ قتیبہ کی روایت ہے کہ: جب لوگوں نے عثمان پر تنقید کی تو وہ  خطبہ دینے کے لئے منبر پ رکھڑے ہوئے اور کہا ! اے گروہ مہاجرین و انصار قسم خدا کی تم  نے مجھ پر بہت چیزیں تھوپی ہیں اور بہت سے امور کو دشوار بنادیا ہے۔ جبکہ عمر بن خطاب  کے لئے تم خاموش رہے۔کیونکہ انھوں نے تمھاری زبانیں بند کر رکھی تھیں اور تمھیں ذلیل و خوار بنا رکھا تھا، تم میں سے کسی میں یہجراؔت نہ تھی کہ انھیں آنکھ  پھر کر دیکھ لینا اور نہ ہی آنکھ سے اشارہ کرسکتا تھا۔ قسم خدا کی میرے پا س ابنِ خطاب سے زیادہ افراد  اور مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ( تاریخ الخلفا، ابنِ قتیبہ ص۳۱)

میر اذاتی عقیدہ یہ ہےکہ مہاجرین و انصار میں سے صحابہ نے  عثمان کے اجتہاد پر تنقید نہیں کی تھی ، کیونکہ وہ اجتہاد کے پہلے ہی روز سے عادی تھے اور اسے بابرکت سمجھتے تھے ۔ لیکن صحابہ نے اس لئے عثمان پر تنقید و اعتراض کی بوچھار کی تھی کہ عثمان نے انھیں معزول کرکے کرسیاں اور مناصب اپنے ان فاسق قرابت داروں کو دیئے تھےجو  کہ کل تک اسلام اور مسلمانوں سے جنگ کر رہے تھے۔

یقینا مہاجرین وانصار نے ابوبکر کے خلاف زبان نہیں کھولی تھی۔ کیونکہ ابوبکر و عمر نے انھیں حکومت میں شریک کا ربنا لیا تھا اور ایسے مناصب دیدئیے  تھے جن سے مال و عزت دونوں حاصل

۲۳۱

ہوتے تھے۔

لیکن عثمان نے اکثر مہاجرین و انصار کو معزول کردیا تھا اور بنی امیہ کے لئے بیت المال کا دروازہ کھول دیا تھا چنانچہ صحابہ سے یہ نہ دیکھا گیا اور انھوںنے اعتراضات و شبہات کا سلسلہ شروع کردیا یہاں تک کہ عثمان قتل کردئیے گئے۔

رسول(ص) نے اس حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا تھا:

" مجھے تمہاری طرف سے اپنے بعد یہ خوف  نہیں ہے کہ تم مشرک ہوجاؤ گے۔ لیکن یہ خوف ہے کہ تم مقابلہ بازی میں مبتلا ہوجاؤ گے۔"

حضرت علی(ع)  فرماتے ہیں :

" گویا انھوں نے خدا کا یہ قول  سنا ہی نہیں : ہم نے آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے مہیا کیا ہے جو  نہ زمین پر سربلندی کے خواہاں  اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور عاقبت متقین کے لئے ہے۔" (قصص/۸۳)

" قسم خداکی انھوں نے اس کو سنا اور محفوظ کیا لیکن دنیا ان کی آنکھ میں بن سنور گئی اور اس کی خوبصورتی نے انھیں لبھا لیا۔"

حقیقت تو یہی ہے، لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ صحابہ نے عثمان پر سنتِ نبی(ص) کو بدلنے کی وجہ سے تنقید و اعتراضات کئے تھا تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ اس لئے کہ انھوں ابوبکر و عمر پر اعتراضات نہیں کئے تھے ۔ تو پھر عثمان پر اعتراض کرنے کا حق کہاں سے پیدا ہوا۔ جبکہ ابوبکر و عمر سے کہیں زیادہ عثمان کے ناصر و مددگار تھے۔ جیسا کہ خود عثمان نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ پھر عثمان بنی امیہ کے سردار تھے جو کہ قبیلہ تمیم و عدی، ابوبکر و عمر کے قبیلہ ، کی

۲۳۲

بہ نسبت نبی(ص) سے قریب تھا اور طاقت و نفوذ میں زیادہ  اور حسب و نسب میں بلند تھا۔

لیکن صحابہ نہ صرف یہ کہ ابوبکر وعمر  پر اعتراضات نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سنت کی اقتدا بھی کرتے تھے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ یہی صحابہ ایسی بہت سی مجلسوں میں شریک رہتے تھے جن میں عثمان سنتِ نبی(ص) کو بدل دیتے تھے جیسے سفر میں پوری نماز پڑھنا ، تلبیہ سے منع کرنا ، نماز میں تکبیر نہ کہنا اور حجِ تمتع سے منع کرنا۔ ان موقعوں پر حضرت علی(ع) کے علاوہ کسی نے بھی عثمان پر اعتراض نہ کیا ۔ انشاء اللہ عنقریب ہم اسے بیان کریں گے۔

صحابہ سنتِ نبی(ص) سے واقف تھے اور خلیفہ عثمان کو راضی رکھنے کے لئے سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کو برداشت کرتے تھے۔

بیہقی نے اپنی سنن میں عبد الرحمن بن یزید سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: ہم عبداللہ بن مسعود کے ساتھ تھے۔ پس جب ہم مسجد منیٰ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : امیرالمؤمنین ( یعنی عثمان) نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے۔ لوگوں نے بتایا چار رکعت تو  انھوں نے بھی چار ، رکعت نماز ادا کی ، راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : کیا آپ نے ہم سے نبی(ص) کی یہ حدیث بیان نہیں کی تھی کہ نبی(ص) دو رکعت  پڑھتے تھے اور ابوبکر بھی دو رکعت پڑھتے تھے؟!

ابن مسعود نے کہا: جی ہاں اور اب بھی تم سے میں وہی حدیث بیان کرتا ہوں ۔ لیکن وہ امام  ہیں اس لئے میں ان کی مخالفت نہیں کرسکتا اور پھر اختلاف میں ہے۔( السنن الکبری جلد۳ ص۱۴۴)

پڑھئے اور عبداللہ بن مسعود ایسے عظیم صحابی پر تعجب کیجئے کہ جنھوں نے عثمان کی مخالفت کرنے کو شر سمجھا اور رسول(ص) کی مخالفت کو خیر تصوّر کیا۔

کیا  اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ نےسنتِ نبی(ص) ترک کردینے کی بناء پر

۲۳۳

 عثمان پر اعتراضات کئے تھے؟!

اور سفیان بن عینیہ نے جعفر بن محمد سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا : عثمان منیٰ میں مریض ہوگئے تھے، علی(ع) تشریف لائے تو لوگوں نےعرض کی آپ(ع) جماعت سے نماز پڑھا دیجئے ۔

علی(ع) نے فرمایا : اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں تیار ہوں لیکن وہی نماز پڑھاؤں گا جو رسول(ص) پڑھتے تھے۔ یعنی دو رکعت:

لوگوں نے کہا : نہیں صرف امیرالمؤمنین عثمان والی نماز چار رکعت ہونی چاہئے ۔ اس پر علی(ع) نے نماز پڑھانے سے انکار کر دیا۔( محلی، ابن حزم ، جلد۴،ص۲۷۰)

پڑھئے اور ان صحابہ پر افسوس کیجئے جن کی تعداد ہزاروں پر مشتمل تھی ۔ کیونکہ وہ حج کے زمانہ میں منیٰ  میں تھے ۔ وہ کیسے صریح طور پر سنتِ رسول(ص) کا انکار کررہے تھے اور صرف عثمان کی بدعت ہی پر راضی تھے۔ اور عبداللہ بن مسعود نے عثمان کی مخالفت کو شر تصور کیا تھا، اور چار ،رکعت نمازادا کی تھی باوجود یکہ انھوں نے دو رکعت والی حدیث بیان کی تھی، ممکن ہے عبد اللہ بن مسعود  ان ہزاروں افراد کے خوف سے، جو عثمان کے فعل ہی سے راضی تھے اور سنتِ رسول(ص) کو دیوار پر دے مارا تھا، تقیہ کیا ہو اور چار ، رکعت نماز ادا کی ہو۔

ان تمام باتوں کے بعد نبی(ص)  اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) پر درود و سلام بھیجنا نہ بھولئے کہ جنھوں نے عثمان کے چاہنے والوں کو رسول(ص) کی نماز کے علاوہ کسی بھی دوسری نماز پڑھانے  سے انکار کر دیا تھا۔ علی(ع) اپنے عمل سے سنتِ رسول(ص) کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور صحابہ آپ(ع) کی مخالفت کررہے تھے لیکن سنتِ رسول(ص) کے احیاء کے سلسلہ میں علی(ع) نے کسی مالمت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کی اور نہہی ان کی کثیر تعداد سے خائف ہوئے۔

عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ : سفر میں تو نماز دو رکعت ہے اور جس نے سنت کی مخالفت کی وہ کافر ہے۔( سنن بیہقی جلد۳ ص۱۴۰ اور ایسے ہی طبرانی نے معجم کبیر میں اور حصاص نے احکام القرآن کی جلد۲ ص۳۱۰ میں تحریر کیا ہے۔)

۲۳۴

اس طرح عبداللہ بن عمر نے خلیفہ عثمان کو اور ان تمام صحابہ کو کافر قرار دیدیا جو عثمان کا اتباع کرکے سفر میں پوری نماز پڑھتے تھے ۔ اب ہم پھر فقیہ ، عبداللہ بنعمر کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ اسے بھی اس دائرہ میں داخل کردیں جس میں اس نے دوسروں کو داخل کیا  ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے: ابنِ عمر  نے کہا : میں نے مکہ اور مدینہ کے درمیان عثمان و علی(ع) کی گفتگو سنی ، عثمان ، متعہ حج اور  متعہ نساء سے منع کررہے تھے جب کہ علی(ع) دونوں پر عمل کرنے کا حکم دے رہے تھے اور فرمارہے تھے۔لبيک عمرة ، حجة معا : عثمان نے کہا  : آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں لوگوں کو ایک چیز سے منع کررہا ہوں اور  آپ اس کا حکم دے رہے ہیں؟ علی(ع) نے  فرمایا : میں کسی کے کہنے سے سنتِ رسول(ص) کو ترک نہیں کرسکتا ہوں ۔ ( صحیح بخاری، جلد۲ ص۱۵۱ باب التمتع والاقران من کتاب الحج۔)

کیا آپ کو مسلمانوں کے اس خلیفہ پر تعجب نہیں ہوتا جو کہ صریح سنت کی مخالفت کرتے  ہیں اور لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں  لیکن کوئی شخص ان پر اعتراض نہیں کرتا ہاں علی بن ابی طالب(ع) سنتِ رسول(ص) پر عمل کرتے ہیں اور جان کی بازی لگا کر اسے زندہ رکھتے ہیں۔

سچ بتائیے کیا ابوالحسن علی(ع) کے علاوہ صحابہ میں کوئی تھا بھی حاکم کے ہم خیال تھے۔علی(ع) نے کبھی سنت رسول(ص) کو ترک نہ کیا ۔ہمارے اس مسلک پر اہل سنت  کی صحاح وغیرہ شاہد ہیں کہ علی(ع) نے ہمیشہ  سنت نبی (ص) کے احیاء کے لئے اور لوگوں کو س کی طرف پلٹانے کی پوری  کوشش کی۔ لیکن اس رائے کی حقیقت ہی کیا ہے جس پر عمل نہ کیا جاتا ہو۔ جیسا کہ خود حضرت علی(ع) نے فرمایا ہے۔اس زمانہ میں شیعوں کے علاوہ، جو کہ ان سے محبت رکھتے تھے ، ان کا اتباع کرتے تھے اور تمام احکام ان ہی سے لیتے  تھے، کوئی بھی آپ(ع) کی اطاعت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی آپ کے اقوال پر عمل کرتا تھا۔

اس سے ہمارے اوپر یہ بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ نے عثمان پر سنت

۲۳۵

میں تبدیلی کی بنا پر تنقید نہیں کی تھی جیسا کہ ہم ان کی صحاح میں یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کس طرح سنتِ نبی(ص)ٌ کی مخالفت کی۔ لیکن عثمان کی بدعت کی مخالفت نہیں کی لیکن دنیائے دنی کی وجہ سے اور مال و دولت حاصل کرنے کی بنا پر وہ آپے سے باہر ہوگئے۔

یہی لوگ صؒح کے بجائے حضرت علی(ع) سے جنگ کرتے رہے کیوںکہ آپ انھیں عہدوں پر فائز نہیں کرتے تھے اس کے برعکس ان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ جو ناحق مال جمع کرلیا ہے اسے مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کردو تاس کہ ناداروں کی کفالت ہوسکے۔

لائق  تبریک و تحسین ہیں آپ(ع)  اے ابوالحسن (ع) کہ جس نے اپنے پروردگار کی کتاب اور رسول(ص) کی سنت کی محافظت کی۔ آپ(ع) ہی امام المتقین اور مستضعفین کے ناصر ہیں، آپ کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔

کیونکہ وہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) سے متمسک رہے اور آپ(ع) کی خدمت میں شرفیاب رہے۔ اور آپ(ع) سے احکام لیتے رہے۔

قارئین محترم کیا ان تمام باتوں کے بعد بھی عثمان بن عفان کا اتباع کرنے والے اہلِ سنت ہیں اور علی(ع) کا اتباع کرنے والے رافضی و بدعت گذار؟

اگر آپ منصف مزاج ہیں تو فیصلہ کیجئے۔" بے شک خدا تمھیں امانت والوں کی امانت لوٹانے کا حکم دیتا ہے، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا تو عدل و  انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا۔( نساء/۵۸)

۴ : طلحہ بن عبید اللہ :

آپ مشہور اور بڑے صحابہ میں سے ایک ہیں اور عمر بن خطاب نے جو خلیفہ کے انتخاب کے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے ایک رکن بھی تھے۔ اور عمر نے ان ہی کے متعلق فرمایا تھا:  اگر یہ خوش ہوں تو مؤمن،غضبناک ہوں تو کافر، ایک روز انسان دوسرے روز شیطان

۲۳۶

ہیں۔ بزعم اہل سنت والجماعت عشرہ مبشرہ میں آپ بھی شامل ہیں۔

جب ہم اس شخص کے متعلق تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے بندے تھے، ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے دنیا کے حصول کے لئے دین بیچ دیا اور گھاٹے سے دو چار ہوئے ۔ ان کی اس تجارت نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ قیامت کے دن پشیمان ہوں گے۔

یہ وہی طلحہ ہے جس نے رسول(ص) کو یہ کہہ کر تکلیف پہنچائی تھی، اگر رسول(ص) مرجائیں گے تو میں عائشہ سے  نکاح کرلوں گا، وہ میری چچازاد ہیں۔ شدہ شدہ رسول(ص) تک بھی یہ بات پہونچ گئی۔ چنانچہ آپ (ص) کو بہت قلق ہوا۔

اور جب آیہ حجاب ( پردے والی آیت) نازل ہوئی اور نبی(ص) کی ازواج پردہ کرنا شروع کردیا تو طلحہ نے کہا : کیا محمد(ص) ہماری چچازاد بیٹیوں کو ہم سے پردہ کرائیں گے ؟ ہماری عورتوں سے نکاح کریں ؟ اگر کوئی حادثہ رونما ہو گیا تو ہم ان (نبی(ص))  کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کریں گے۔ ( تفسیر ابنِ کثیر ، تفسیر قرطبی، تفسیر آلوسی وغیرہ سب میں خداوندِ عالم کے اس قول کی تفسیر میں یہ واقعہ درج ہے۔ماکان ان توذوا رسول الل ه ولا ان تنکحوا ازواجه بعده)

جب رسولِ خدا(ص) کو اس بات سے تکلیف ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی ۔

اور تمھیں رسول(ص) کو تکلیف پہنچانے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بعد کبھی ان کی ازواج سے نکاح کرنے کا حق ہے بے شک خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔( احزاب/۵۳)

یہ وہی طلحہ ہیں جو ابوبکر کے انتقال سے قبل اس وقت ان کے پاس گئے تھے۔ جب انھوں نے عمر کو خلافت کا پروانہ لکھ دیا تھا اور کہا آپ اپنے خدا کو کیا جواب دیںگے جبکہ آپ نے ہمارے اوپر ایک سخت مزاج  کو مسلط کردیا ہے؟ ابوبکر نے سخت کلام میں ان پر سب و شتم کیا۔ ( الامامت  والسیاست ابنِ قتیبہ فی باب وفات ابی بکر و استخلافہ عمر)

۲۳۷

لیکن بعد میں ہم ان کو خاموش اور نئے خلیفہ سے راضی دیکھتے ہیں اور ان کے انصار میں نظر آتے ہیں اور اموال جمع کرنا اپنے ذمہ لے لیا ہے۔  خصوصا اس وقت تو اور  خیر خواہ بن گئے جب عمر نے انھیں خلیفہ ساز چھ رکنی کمیٹی کا رکن بنادیا اور جناب کو بھی اس کی طمع ہونے لگی۔یہ وہی طلحہ ہے جس نے علی(ع) کو حقیر تصوّر کیا اور عثمان کے طرف داروں میں ہوگئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خلافت عثمان ہی کو ملے گی اور پھر اگر علی(ع) کو خلافت مل بھی جاتی تو ان کی طمع پوری نہیں ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت علی(ص) نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: ان میں سے ایک تو بغض اور کینہ کی وجہ سے ادھر جھک گیا اور دوسرا دامادی اور دیگر ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر چلاگیا۔۔۔۔۔

شیخ محمد بن عبدہ اپنی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔ طلحہ عثمان کی طرف زیادہ مائل تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے درمیان قرابت تھی  جیسا کہ بعض راویوں نے نقل کیا ہے اور عثمان کی طرف ان کے میلان اور علی(ع) سے منحرف ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ تیمی ہیں اور جب سے ابوبکر خلیفہ بنے تھے اس وقت سے بنی ہاشم اور بنی تیم کے درمیان رسہ کشی چلی آرہی تھی۔ ( شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ جلد۱، ص۸۸، خطبہ شقشقیہ۔)

اس میں کوئی شک نہیں ہے غدیر میں بیعت کرنے والے صحابہ میں یہ بھی شامل تھے۔ اور انھوں نے بھی رسول(ص) کی زبان سے ، من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ سنا تھا۔بے شک انھوں نے رسول(ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا ۔ علی(ع) کے ساتھ  ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے۔ خیبر میں بھی آپ اس وقت موجود تھے جب رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو علم دیا تھا اور فرمایا تھا: علی(ع) خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں اور خدا و رسول(ص) انھیں دوست رکھتے ہیں۔ طلحہ یہ بھی جانتے تھے کہ علی(ع)  نبی(ص) کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے اور اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں جانتے تھے۔

لیکن طلحہ کے سینے میں بغض کی آگ دبی ہوئی تھی، حسد سے دل لبریز تھا وہ جو بھی دیکھتے خاندانی تعصب کی نظر سے دیکھتے تھے پھر اپنی چچازاد بہن عائشہ کی طرف مائل تھے جس سے نبی(ص)

۲۳۸

کے بعد شادی رچانا چاہتے تھے لیکن قرآن نے ان کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا۔

جی ہاں طلحہ عثمان سے مل گئے ، ان کی بیعت کر لی کیونکہ وہ انھیں انعام واکرام سے نوازتے تھے۔ اور جب عثمانتختِ خلافت پر متمکن ہوگئے تو طلحہ کو بے حساب مسلمانوں کا مال دے دیا۔ ( طبری ، ابنِ ابی الحدید اور طہ حسین نے فتنۃ الکبری میں اس کا ذکر کیا ہے طلحہ عثمان کاپچاس ہزار کا مقروض تھا ایک روز طلحہ نے عثمان سے کہا کہ مٰیں نے تمہارا قرض چکانے کے لئے پیسہ جمع کر لیا ہے ایک روز ویہ پیسہ جو عثمان سے ملتا تھا۔ بھیج دیا تو عثمان نے کہا کہ یہ تمھاری مروت کا انعام ہے۔ کہا گیا کہ عثمان نے مزید دو لاکھ طلحہ کو دیئے۔

پس ان کے پاس اموال غلاموں اور چوپایوں کی کثرت ہوگئی یہاں تک ہر روز عراق سے ایک ہزار دینار آتے تھے۔

ابنِ سعد طبقات میں تحریر فرماتے ہیں۔ جب طلحہ کا انتقال ہوا اس وقت ان کا ترکہ تین ملین درہم تھا اور دو ملین دو  لاکھ دینار نقد موجود تھے۔

اسی لئے طلحہ سرکش ہوگئے اور جرت بڑھ گئی اور اپنے جگری دوست عثمان کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے تاکہ خود خلیفہ بن جائیں ۔

شادی ام المؤمنین عائشہ نے بھی انھیں خلافت کی طمع دلائی تھی۔ کیوں کہ عائشہ نے بھی پوری طاقت سے عثمان کو خلافت سے ہٹانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ عائشہ کو یقین تھا کہ  خلافت ان کے چچازاد طلحہ کو ملے گی۔ اور جب انھیں عثمان کے قتل کی اطلاع ملی اور یہ خبر پہنچی کہ لوگوں نے طلحہ کی بیعت کر لی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا: نعثل کی ہلاکت کے بعد خدا سے غارت کرے اور خوش ہو کر کہا کہ مجھے جلد میرے ابنِ عم کے پاس پہنچا دو لوگوں کو  خلافت کے سلسلہ میں کو ئی طلحہ جیسا کہ نہ ملا۔

جی ہاں طلحہ نے یہ عثمان کو  احسان کا بدلہ دیا ہے۔ جب عثمان نے انھیں مالدار بنا دیا تو طلحہ نے خلافت حاصل کرنے کی غرض سے انھیں چھوڑ دیا اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے لگے اور ان

۲۳۹

 کے سخت مخالف بن گئے۔ یہاں تک محاصرہ کے زمانہ میں خلیفہ کے پاس  پانی بھیجنے کو منع  کردیا تھا۔

ابنِ ابی الحدید کہتے ہیں کہ عثمان نے محاصرہ  کے زمانہ میں کہا تھا:

خدا طلحہ کو غارت کرے میں نے اسے اتنا سونا چاندی دی اور وہ میرے خون کا پیاسا ہے  اور لوگوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے، پروردگارا وہ اس (  مال) سے فائدہ نہ اٹھانے پائے اور اسے اس کی بغاوت کا مزہ چکھادے۔

جی ہاں یہ وہی طلحہ ہے جو عثمان کی طرف جھک گیا تھا اور اس لئے انھیں خلیفہ بنا دیا تھا تاکہ علی(ع)  خلیفہ نہ بن سکیں۔ چنانچہ عثمان نے بھی انھیں سونے چاندی سے مالا مال کیا آج وہی لوگوں کو عثمان سے بدظن کررہے ہیں  اور ان کے قتل پر اکسا رہے ہیں۔ اور ان کے پاس جانے سے منع کررہے ہیں  اور جب دفن کے لئے ان کا جنازہ لایا گیا تو انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے منع کیا۔ پس  حشِ کو کب " یہودیوں کے قبرستان " میں دفن کیا گیا۔( تاریخ طبری، مدائنی ، واقدی نے مقتلِ عثمان میں لکھا ہے۔)

قتلِ عثمان کے بعد ہم طلحہ  کو سب سے پہلے علی(ع) کی بیعت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر وہ بیعت توڑ دیتے ہیںاور مکہ میں مقیم اپنی چچازاد  بہن عائشہ سے جاملتے ہیں اور اچانک عثمان کے خون کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، سبحان اللہ، کیا اس  سے بڑھ کر بھی کوئی بہتان ہے؟!

بعض مؤرخین نے اسکی یہ علت  بیان کی ہے کہ علی(ع) نے انھیں کوفہ کا گورنر بنانے سے انکار کردیا  تھا اس لئے انھوں نے بیعت توڑی تھی اور اس امام سے جنگ کیلئے  نکل  پڑے تھے جس کی کل بیعت کرچکے تھے۔

یہ اس شخص کی حالت ہے جو کہ سر سے پیروں تک دنیوی خواہشات میں غرق ہوچکا ہے اور آخرت کو بیچ چکا ہے اور اس کی تمام کوششیں جاہ و منصب کے لئے ہوتی تھیں ۔ طہ حسین کہتے ہیں۔ طلحہ کی جنگ خاص نوعیت کی حامل ہے۔ جب تک ان کو ان کی مرضی کے مطابق دولت و عہدہ ملتا رہا خوش رہے جب اور طمع بڑھ گئی تو جنگ کے لئے تیار ہوگئے ۔ یہاں تک کہ خود بھی

۲۴۰

ہلاک کرتے اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈال دیا۔ ( الفتنۃ الکبری، طہ حسین جلد۱ ص۱۵۰)

یہی وہ طلحہ ہیں جنھوں نے کل علی(ع) کی بیعت کی تھی اور چند روز کے بعد بیعت توڑ کر رسول(ص) کی زوجہ عائشہ کو بصرہ لے گئے کہ جس سے نیکو کاروں کا قتل، اموال کی تباہی اور لوگوں میں خوف پھیل گیا یہاں  تک کہ علی(ع)  کے اطاعت گذاروں میں تفرقہ پڑ گیا۔ اور نہایت ہی بے حیائی کے ساتھ اپنے زمانہ کے اس امام سے جنگ کرنے لگے کہ جس  کی اطاعت کا قلادہ  بیعت کے ذریعہ اپنی گردن میں ڈال چکے تھے۔

جنگ شروع ہونے سے قبل  امام علی(ع) نے کسی کو اس کے پاسبھیجا تو محاذ پر فوج کی صف میں ان سے ملاقات ہوئی۔آپ(ع) نے پوچھا : کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ اے طلحہ تمھیں کس چیز نے خروج پر مجبور کیا ؟

طلحہ : خونِ عثمان کے انتقام نے۔

علی(ع) : ہم میں سے جو قتلِ عثمان میں ملوث ہے  خدا اسے قتل کرے۔

ابنِ عساکر کی روایت ہے کہ علی(ع) نے ان سے کہا۔

"اے  طلحہ میں تمھیں  خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نے رسول(ص) کو یہ فرماتے نہیں سنا تھا۔"

من کنت مولا فعلی مولا، اللم وال من والا و عاد من عادا؟

جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں خدا یا ان کے دوست کو  دوست اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؟

طلحہ نے کہا : ہاں آپ(ع) فرمایا پھر تم مجھ سے کیوں جنگ کررہے ہو؟ طلحہ نے جواب دیا خون  کا انتقام ، جس کو علی(ع)  نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ خدا ہم  میں سے پہلے اسے قتل کرے جس نے عثمان کو قتل کیا ہے ۔ خدا  نے علی(ع) کی دعا قبول فرمائی اور طلحہ اسی روز قتل ہوگئے ، طلحہ کو قتل کرنے

۲۴۱

والا مروان بن حکم تھا۔ جو کہ طلحہ کے ساتھ  علی(ع) سے جنگ کرنے آیا تھا۔

طلحہ فتننہ و بہتان کو برنگیختہ کرتا تھا اور حقائق کو الٹ پلٹ کرتا تھا اس سلسلہ میں قطعی احتیاط نہیں کرتا تھا، عہد کو پورا نہیں کرتا تھا، ندائے حق پر  کان نہیں دھرتا تھا علی(ع) نے اسے ( نبی(ص) کی حدیث)  یاد دلائی گمراہ ہوئے دوسروں کو گمراہ کیا اپنے فتنہ کی وجہ سے ایسے نیکو کاروں کو قتل کردیا۔ جن کا قتلِ  عثمان سے  کوئی سروکار نہیں تھا اور نہ ان کی عمر کی مدت کوجانتے تھے اور نہ بصرہ سے باہر نکلے تھے۔ابنِ ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ جب طلحہ  بصرہ  پہنچے تو عبداللہ بن الحکیم تمیمی وہ خط لے کر طلحہ کے پاس آئے جو کہ انھوں نے انھیں لکھے تھے اور طلحہ سے کہا ۔

اے ابو محمد یہ آپ کے خط ہیں؟ کہا : جی ہاں۔

عبداللہ نے کہا کل تم نے یہ لکھا تھا کہ خلافت سے عثمان کو  اتار دو اور انھیں قتل کردو۔ یہاں تک کہ انھیں قتل کر ڈالا اب ان کے خان کا مطالبہ کرتے ہو، یہ  تمہارا کونسا مسلک ہے؟ تم صرف دنیا کے بندے لگتے ہو اگر تمھارا یہی نظریہ تھا تو تم  نے علی(ع) کی بیعت کیوں کی تھی اور اب کیوں توڑ ڈالی اب ہمیں اپنے فتنہ میں پھنسانے آئے ہو۔ ( شرح ابن ابی الحدید ج۲ ص۵۰۰)

جی ہاں یہ طلحہ بن عبیداللہ کی واضح حقیقت ہے  جیسا کہ اہلِ سنت والجماعت کے اہلِ سنن و تواریخ نے بیان کیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ طلحہ کو ان دس افراد میں شمار کرتے ہیں جن کو جبت کی بشارت دی گئی جہے۔

وہ جنت کو ہلٹن کی سرئے سمجھتے ہیں کہ جن میں ملینوں دلال ہیں جہاں قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم ، مومن و فاسق نیک و بد سے مل جائیں گے۔ کیا ان میں سے ہر شخص اسکا متمنی ہے کہ وہ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوگا۔ ( معارج ۳۸) کیا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے اور نیک اعمال انجام دیئے ہیں ان کو ہم ان لوگوں کے برابر قرار دیں جو روئے زمین پر فساد پھیلایا کرتے ہیں یا ہم پرہیز گاروں کو بدکارو ں کے مثل بنادیں۔ ( ص۴۲۸)

کیا مومن فاسق کے برابر ہے یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔( سجدہ/۱۸)

۲۴۲

لیکن جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجالائے ہیں ان کے لیئے باغات ( جنت) ہیں اور یہ ضیافت کے سامان ان نیکیوں  کا بدلہ ہے جو انھوں نے کی تھیں۔ اور جن لوگوں نے برے کام کئے ان کا ٹھکانہ جہنم  ہے جب بھی وہ اس میں سے نکلنے کا ارادہ کریں گے ( اسی وقت) اس میں ڈھکیل دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائےگا ۔ جہنم کے جس عذاب کو تم جھٹلاتے تھے اس کا مزہ چکھو! ( سجدہ/۱۹۔۲۰)

۲۴۳

۵: زبیر بن العوام:

آپ بھی بزرگ صحابہ اور اوّلین مہاجرین میں سے ہیں اور رسول(ص) سے ان کی قریب کی عزیزداری ہے۔ آپ صفیہ بنتِ عبد المطلب رسول(ص) کی پھوپھی کے بیٹے ہیں۔

" اور اسماء بنت ابوبکر عائشہ کی بہن بھی ان سے منسوب تھی اور خلیفہ کے انتخاب کے لئے عمر بن خطاب کی تشکیل دی ہوئی چھ رکنی کمیٹی کے بھی رکن ہیں" ( یقینا عمر بن خطاب اس فکر کے مؤجد ہیں اور  یہ فکر اپنی جگہ زیرکی ہے، یہ کمیٹی دی تھی تاکہ وہ حضرت علی(ع) سے موابلہ کرے کیونکہ تمام صحابہ اس بات کو  بخوبی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی(ع) کا حق ہے جس کو قرش  نے غصب کر لیا تھا اور جب فاطمہ(س) نے احتجاج  کیا تو انھوں نے کہا اگر آپ(س) کے شوہر ہمارے پاس پہلے آجاتے تو ہم ان پر کسی کو ترجیح نہ دیتے ۔ عمر بن خطاب اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ خلافت اپنے شرعی حقدار  تک پہنچے اس لئےانھوں نے مقابلہ کے لئے ایک کمیٹی بنادی، جس سے  ہر فرد کے دل میں خلافت کی طمع پیدا ہوگئی ان کے دلوں میں رئیس بننے کی امیدیں کروٹ لینے لگیں اس طرح انھوں نے اپنے دین کو دنیا کے عوض بیچ دیا اور اس تجارت نے انھیں کو ئی فائدہ نہ دیا۔)

اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ بھی ان دس افراد میں شامل ہیں جنھیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

اس میں کوئی تعجب  نہیں ہے کہ وہ طلحہ کی صحبت میں رہتے تھے۔ جب طلحہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو زبیر کا ذکر بھی اس کے ساتھ لازمی ہوجاتا ہے اور جب زبیر کا ذکر ہوتا ہے تو طلحہ بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔

یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے دنیا حاصل کرنے کے لئے مقابلہ آرائی کی اور اس سے اپنے پیٹ بھی لئے ، طبری کی روایت کے مطابق زبیر بن العوام کا ترکہ ، پچاس ہزار دینار ، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار غلام تھے اور بصرہ و کوفہ میں بہت ساری جائیداد تھی۔

۲۴۴

اس سلسلہ میں طہ حسین کہتے ہیں:

زبیر کے اس ترکہ میں اختلاف ہے جو وارثوں میں تقسیم ہو ا جو لوگ ترکہ کم بتاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وارثوں کے درمیان تقسیم ہونے والا ترکہ ۳۵ ملین تھا۔ اور زیادہ کے قائل کہتے ہیں کہ ورثاء نے ۵۲ ملین تقیسم کیا معتدل حضرات کا کنہا ہے کہ چالیس لاکھ تقسیم ہوا۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ فسطاط میں ، اسکندریہ میں ، بصرہ میں اور کوفہ میں بھی زبیر کی زمینیں تھیں اور صرف مدینہ میں ان کے بارہ مکان تھے اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں چھوڑی تھیں۔( الفتنۃ الکبری،جلد۱، ص۱۴۷)

لیکن بخاری کی روایت یہ ہے کہ زبیر نے دو لاکھ پچاس ملین ترکہ چھوڑا تھا۔ ( صحیح بخاری جلد۴ ص۵۳ باب فرض الخمس باب برکۃ الغازی فی مالہ حیا و میتا۔)

اس سے ہمارا مقصد صحابہ کا محاسبہ ہرگز نہیں ہے جو انھوںنے جانفشانی سے جائیداد حاصل کی اور اموال جمع کئے وہ ان کا ہے دارا مالِ حلال ہے۔ لیکن ہمیں یہ دو اشخاص طلحہ و زبیر دنیا کے حریص نظر آتے ہیں۔ ہم جانتے  ہیں  ان دونوں نےامیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کی بیعت توڑدی تھی کیونکہ آپ(ع۹) نے ان اموال کو واپس لینے کا عزم کر لیا تھا جو کہ عثمان نے مسلمانوں کے بیت المال سے ( اپنے چاہنے والوں کو) دے دیئے تھے، ایسے موقع پر مذکورہ دو اشخاص کی بیعت شکنی ہمیں اور شک میں ڈالدیتی ہے۔

جب حضرت علی(ع) مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ(ع) نے لوگوں سنتِ نبوی(ص) کی طرف لوٹانے میں تعجیل کی اور سب سے پہلے بیت المال کو تقسیم کیا اور ہر ایک مسلمان کو تین دینار دیئے خواہ وہ مسلمان عرب کا باشندہ ہو یا عجم کا، اور اسی طرح نبی(ص) اپنی پوری حیات  میں تقسیم کرتے رہے۔اس طرح علی(ع) نے عمر بن خطاب کی وہ بدعت ختم کردی جو کہ انھوں نے عربی کو عجی پر فضیلت دی اور عربی کو اعجمی کے دو برابر دیا جاتا تھا۔

علی بن ابی طالب(ع) سنتِ نبوی(ص) کی طرف لوگوں کو لوٹانے کی کوشش کرتے رہے ۔ یہاں تک

۲۴۵

کہ وہ صحابہ آپ کے خلاف ہوگئے ، جو کہ عمر کی بدعتوں کو دوست رکھتے تھے۔

یہ ہے عمر سے قریش کی محبت و عقیدت کا راز کہ جس سے ہم غافل تھے۔ عمر نے تمام مسلمانوں پر قریش کو فضیلتدے کر ان میں قومی ، قبائلی او طبقاتی تکبر و غرور کی روح پھونک دی۔

پس علی(ع) پچیس سال کے بعد قریش کو اس جگہ کیسے پلٹا سکتے تھے جس پر رسول(ص) کے زمانہ میں تھے کہ جس میں مساوی طور پر بیت المال کی تقسیم ہوتی تھی۔ چنانچہ بلالِ حبشی کو نبی(ص) کے چچا عباس کے برابر حصہ ملتا تھا اور قریش اس مساوات کے سلسلہ میں رسول(ص) پر اعتراض کرتے تھے ہم سیرت کی  کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ اکثر نبی(ص) سے اس تقسیم کے بارے میں جھگڑتے تھے۔

اس لئے بھی طلحہ و زبیر نے امیر المؤمنین علی(ع) کے خلافف علم بغاوت بلند کیا کیونکہ آپ(ع) نے مساوات سے کام لے کر سب کو برابر دیا اور ان کا امارت والا مطالبہ ٹھکرا دیا اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کوگوں سے ان اموال کا محاسبہ کر لیا جو انھوں نے جمع کیا تھا تاکہ اس مسروقہ  اموال کو واپس لے کر ناداروں میں تقسیم کردیں۔

جب زبیر کو یہ یقین ہوگیا کہ علی(ع) مجھے بصرہ کا گورنر نہیں بنائیں گے اور نہ ہی دوسروں پر  مجھے فوقیت دی گے بلکہ اس کے بر خلاف مجھ سے ان اموال  کے متعلق بازپرس ہوگی جو کہ بلازحمت جمع کر لیا تھا ۔ تو اپنے دوست طلحہ کے ساتھ حضرت علی(ع) کی خدمت میں آئے اور عمرہ ( بجالانے) لے لئے ( مکہ) جانے ک اجازت طلب کی ، حضرت علی(ع) بھی ان  کے ارادے کو تاڑ گئے اور فرمایا:

" قسم خدا کی تمھارا عمرہ کا ارادہ نہیں ہے بلکہ تمھارا عذر کا ارادہ ہے'

عائشہ بنت ابوبکر سے ملحق ہونے والے دوسرے زبیر ہیں اور کیوں نہ ہو وہ زبیر کی زوجہ کی بہن تھیں۔چنانچہ طلحہ و زبیر انھیں بصرہ لے آئے اور جب عائشہ پر چشمہ حوب کے کتے بھونکنے لگے اور انھوں نے پلٹ جانے کا ارادہ کیا تو انھوں نے پچاس افراد سے جھوٹی گواہی دلوادی تاکہ عائشہ اپنے خدا اور شوہر کی نافرمانی کی مرتکب ہوجائیں اور ان کے ساتھ بصرہ چلی جائیں کیونکہ وہ

۲۴۶

 اپنی زیرکی سے یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ لوگوں میں عائشہ کا ہم سے زیادہ اثر ہے اور پھر پچیس سال تک زحمتیں اٹھا کر لوگوں کو یہ بات باور کرائی تھی کہ عائشہ رسول خدا(ص) کی چہیتی بیوی ہیں اور حمیراء ابوبکر صدیق کی بیٹی ہیں کہ جن کے پاس نصف دین ہے اور زبیر کے قصہ  میں عجیب بات یہ ہے کہ یہ بھی خون عثمان کا انتقام لینے کے لئے نکلے جبکہ صحابہ نے ان پر یہ تہمت لگائی تھی کہ یہی عثمان کے قتل کا سبب ہیں۔

چنانچہ میدانِ جنگ میں جب ان سے حضرت علی(ع) کی ملاقات ہوئی تو آپ(ع) نے فرمایا :

کیا تم مجھ سے خون عثمان کا بدلہ لوگے جبکہ تم نے خود انھیں قتل کیا ہے۔ ( تاریخ طبری جلد۵،ص۲۰۴، تاریخ کامل جلد۳ ص۱۰۲)

مسعودی کی عبارت یہ ہے کہ : آپ(ع) نے زبیر سے فرمایا: اے زبیر تجھے خد اغارت کرے تجھے کس چیز نے خروج  پر مجبور کیا ہے؟ زبیر نے کہا: خون عثمان کے انتقام نے : علی(ع) نے فرمایا : خدا ہم میں سے اسے پہلے قتل کرے جس نے عثمان کو قتل کیا ہے۔

جیسا کہ حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے کہ ، طلحہ و زبیر بصرہ پہونچے تو لوگوں نے ان سے پوچھا تم کس وجہ سے یہاں آئے ہو؟ انھوں نے کہا : ہم خونِ عثمان کا انتقام لینا چاہتے ہیں ۔ حسین نے ان سے کہا ۔ سبحان اللہ، کیا لوگوں کے پاس عقل نہیں ہے وہ تو کہتے ہیں کہ تم نے انھیں قتل کیا ہے۔

یقینا زبیر نے بھی اپنے دوست طلحہ کی طرح عثمان کو دھوکہ دیا تھا اور لوگوں کو ان کے قتل پر ابھارا تھا اور پھر حضرعلی(ع) کی برضا و رغبت بیعت کی تھی اور پھر توڑدی اور پھر خونِ عثمان کے انتقام کے بہانے بصرہ پہونچ گئے۔

اور بصرہ پہنچ کر ان ہی جرائم میں خود شریک ہوگئے اور ستر سے زیادہ بیت المال کے محافظ کو قتل کر دیا اور بیت المال کو برباد کردیا مؤرخین کا بیان ہے کہ انھوں نے بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کو فریب آمیز خط لکھا اور یہ عہد کیا کہ ہم بصرہ میں علی(ع) کی آمد تک ہر طرح حفاظت  کریںگے۔

۲۴۷

پھر اس عمہد کو توڑدیا اورعثمان بن حنیف پر اس وقت حملہ آور ہوئے جب وہ نماز عشا پڑھ رہے تھے ، پس ان کے ساتھیوں میں سے بعض کو قتل کردیا اور بعض کو قیدی بنالیا اور عثمان بن حنیف کو بھی قتل کردینا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے بھائی سہیل بن حنیف  مدینہ کےگورنر سے ڈر گئے اور سوچا کہ اگر انھیں یہ اطلاع ملے گی تو وہ ہمارے خاندان سے انتقام  لے لیںگے۔ اس لئے انھیں بہت مارااور ان  کی مونچھ داڑھی نچوادی اور بیت المال پر  حملہ کر کے چالیس بگہبانوں کو  تہہ تیغ کردیا۔

طہ حسین طلحہ و زبیر کی خیانت اور ان کے منصوبوں کے متعلق لکھتے ہیں۔

ان  لوگوں نے بیعت شکنی ہی پر اکتفا نہ کی بلکہ اس معاہدہ کی بھی خلاف ورزی کی جس  کے ذریعہ عثمان بن حنیف سے صلح کرلی تھی اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور اہل بصرہ میں سے جن افراد نےاس فریب کارانہ خط کی مخالفت کی جو کہ عثمان بن حنیف کو لکھا گیا تھا اور بیت المال کے غصب کرنے سے روکا انھیں بھی قتل کردیا۔( الفتنۃ  الکبری)

اس کے باوجود جب علی(ع) بصرہ پہنچے تو ان ( سرکشوں) سے جنگ نہ کی بلکہ انھیں کتابِ خدا کی طرف  بلایا پس ان لوگوں نے انکار کردیا اور قرآن کی طرف بلانے والوں کو قتل کرنے لگے ۔ پھر  بھی امام (ع) نے زبیر کو آواز دی  اور طلحہ کی طرح ان سے کہا:

اے زبیر!میں تمھیں وہ دن یاد دلاتا ہوں جب میں رسول(ص) کے ہمراہ بنی غنم کے درمیان سے گذر رہا تھا۔انھوں نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے میں بھی مسکرا دیا تم نے کہا۔ اے ابنِ ابی طالب(ع) غرور نہ کرو۔ اس پر رسول (ص) نے تم سے کہا تھا خاموش ہوجاؤ یہ غرور نہیں کرتے اور تم ان (علی (ع))  سے ضرور جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ظالم قرار پاؤگے۔ ( تاریخ طبری واقعہ جمل کے ذیل میں ، تاریخ مسعود و تاریخ اعشم کوفی وغیرہ)

ابنِ ابی الحدید نے حضرت علی بن ابی طالب(ع) کا ایک خطبہ نقل کیا ہے۔ اس میں آپ(ع) نے فرمایا ہے:

خدا یا ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز  کیا ہے اور مجھ پر

۲۴۸

 ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت توڑدی ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے لہذا جو مشکلات انھوں نے کھڑی کیں انھیں حل فرمادے اور جو انھوں نے منصوبے بنائے ہیں انھیں  کامیاب نہ ہونے  دے ۔ اور انھیں ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھادے میں نے تو انھیں جنگ چھڑنے سے  قبل باز رکھنا چاہا اور جنگ سے پہلے انھیں بیدار کرتا رہا۔ لیکن انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔

( شرح ابن ابی الحدید  جلد۱ ص۱۰۱۔) اور ان کے نام بھیجے جانے والے خط میں تحریر فرمایا:

بزرگوارو! اپنے اس رویہ سے باز آجاؤ کیوں کہ ابھی تمہارے سامنے ننگ و عار ہی کا بڑا مرحلہ ہے اس کے بعد تو ننگ و عار کے ساتھ آگ بھی جمع ہوجائےگی۔ والسلام، ( نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ ص۳۰۶)

یہہے تلخ حقیقت اور زبیر کی انتہا جب کہ بعض مؤرخین ہمیں اس بات سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب علی(ع) نے زبیر حدیث رسول(ص) یاد دلائی اور انھیں یدا آگئی تو زبیر نے توبہ کرلی تھی اور جبگ سے پلٹ کر واپس جارہے تھے۔ لیکن واد السباع میں ابنِ جرموز نے انھیں قتل کردیا ۔ لیکن مؤرخین کا یہ قول نبی(ص) کی خبر کے موافق نہیں ہے ۔ کیونکہ آپ(ص) نے یہ فرمایا تھا عنقریب تم علی(ع) سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ظالم قرار پاؤ گے۔

بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ جب علی(ع)  نے زبیر کو رسول(ص) کی حدیث یاد دلائی تو انھوں نے جنگ سے پلٹ جانے کا ارادہ کر لیا لیکن ان کے بیٹے عبداللہ نے ان کے اس ارادہ کو بزدلی کہا۔ پس ان پر حمیت طاری ہوگئی اور وہ واپس آکر جنگ کرتے ہوئے قتل ہوگئے۔

یہ قول واقع کے مطابق اور اس حدیث شریف سے قریب ہے جس میں غیب کی خبر دی گئی ہے اور یہ اس کا کلام ہے جو کہ اپنی خواہشِ نفس سے کچھ کہتا ہی نہیں۔

۲۴۹

اور پھر اگر زبیر نے توبہ کرلی تھی اور اپنے کئے پر پشیمان ہوگئے تھے اور گمراہی و تاریکی سے نکل آئے تھے تو انھوں نے رسول(ص) کے اس قول پر کیوں عمل نہیں کیا۔"

" من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله"

حضرت علی(ع) کی مدد کیوں نہ کی اور ان سے کیوں خوش نہ ہوئے؟ فرض کیجئے کہ ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا، تو ان لوگوں کے درمیان جو کہان کی رکاب میں جنگ کرنے آئے تھے، خطبہ دے کر انھیں یہ خبر  کیوں نہ دی کہ میں حق سے قریب ہوگیا ہوں اور وہ حدیث کیوں یاد نہ دلائی جس کو بھول گئے تھے۔ اور انھیںجنگ سے کیوعں نہ روکا کہ جس کی وجہ سے نیکو کار مسلمانوں کا خون بہہ گیا؟

لیکن انھوں نے ایسا کوئی اقدام نہ کیا تو ہم سمجھ گئے توبہ اور میدانِ جنگ سے ہٹ جا نے والی داستان ان لوگوں کی گھڑی ہوئی ہے۔ جنھوں نے حق کو اور زبیر کے باطل کو چھپانے میں کسر اٹھا نہ رکھی، باوجودیکہ زبیر کے دوست طلحہ کو مروان  بن حکم نے قتل کیا تھا۔ لیکن انھوں نے طلحہ و زبیر کی حرکتوں کی پردہ پوشی کرنے کے لئے کہا کہ انھیںابن جرموز نے دھوکہ سے قتل کردیا تھا وہ ان کے جنت میں داخل ہونے کو حرام نہیں سمجھتے ظاہر ہے جب تک وہ جنت کو اپنی ملکیت سمجھتے رہیںگے جس کو چاہیں گے داخل کریں گے اور جس کو  چاہیں داخل نہ ہونے دیں گے۔

اس روایت کی تکذیب کے لئے امام علی(ع) کا خط کافی ہے جس میں آپ(ع) نے طلحہ و زبیر کو جنگ سے واپس پلٹ جانے کی دعوت دی ہے۔ آپ(ع) کا قول ہے۔فان الان اعظم امر کما العار من قبل ان ي جمع العار والنار

بے شک تمھارے سامنے ابھی ننگ و عار کا بڑا مرحلہ ہے اور اس کے بعد ننگ و عار کے ساتھ آگ بھی جمع ہوجائے گی۔

کسی ایک شخص نے بھی یہ نہیں بیان کیا کہ طلحہ و زبیر نے علی(ع) کی آواز پر لبیک کہا اور آپ(ع)

۲۵۰

 کے حکم کی اطاعت کی اور آپ(ع) کے خط کا جواب دیا ہو۔

یہاں میں ایک چیز کا  اضافہ کرتا ہوں اور وہ یہ کہ امام(ع) نے معرکہ سے قبل انھیں کتاب خدا کی طرف بلایا ۔ لیکن انھوں نے آپ(ع) کی دعوت کو قبول نہ کیا اور اس جوان کو قتل کردیا جوکہ ان کے لئے قرآن لے گیا تھا۔ اس پر حضرت علی(ع) نے ان سے جنگ کرنے کا مباح قرار دے دیا۔

آپ مؤرخین کی بعض رکیک باتوں کا مطالعہ فرمائیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے  بعض حق کی معرفت رکھتے تھے اور نہ ہی اس کی تقدیر کو جانتے تھے، ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ جب زبیر کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب(ع) کے لشکر میں عمار یاسر بھی شریک ہیں تو ان کے بدن میں رعشہ پڑگیا اور انھوں نے اسلحہ ایک دوسرے شخص کو دیدیا تو ایک ساتھی نے کہا:

میری ماں میرے غم میں بیٹھے یہ وہی زبیر ہے جس کے ساتھ میں نے زندہ رہنے اور مرنے کا ارادہ کیا  تھا؟ قسم اس  ذات کی جس قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یہ راہ زبیر نے ایسے ہی اختیار نہیں کی ہے بلکہ اس سلسلہ میں یا رسول(ص) سے کچھ سنا ہے یا دیکھا ہے۔( تاریخ طبری جلد۵ ص۲۰۵)

اصل میں ان روایات کے گھڑنے سے ان کا مطلب یہ ہے کہ زبیر کو نبی(ص) کی یہ حدیث یادآگئی تھی۔

خدا عمار پر رحم کرے کہ انھیں باغی گروہ قتل کرے گا۔

اس کے بعد ان پر ہراس طاری ہوگیا، بدن کانپنے لگا اوراس خوف سے بدن کے جوڑ مضمحل ہوگئے ہم باغی گروہ میں سے ہیں!

حقیقت یہ ہےکہ ایسی روایات گھڑنے والے ہماری عقل کا مضحکہ اڑانا چاہتے ہیں اور ہم سے تمسخر کرتے ہیں ۔ لیکن خدا کا شکر ہے ہماری عقلیں کامل و سالم ہیں ہم ان کی باتوں کو قبول نہیں کرسکتے ۔ زبیر پر اس سے خوف طاری ہوگیا اور وہ نبی(ص) کی اس حدیث سے کانپنے لگے کہ عمار کا باغی گروہ قتل کرے گا، لیکن نبی(ص) کی ان  بے شمار حدیثوں سے نہیں ڈرے جو آپ(ص) نے حضرت علی ابن ابی

۲۵۱

طالب(ع) کے متعلق فرمائی تھیں؟ کیا زبیر کے نزدیک عمار علی(ع) سے افضل و اشرف تھے؟ کیا زبیر نےرسول(ص) کا یہ قول نہیں سنا تھا۔ اے علی(ع) تمھیں وہی دوست رکھے گا جو مومن ہوگا اوروہی دشمن سمجھے گا جو منافق ہوگا؟ کیا زبیر نے رسول(ص) کا یہ قول نہیں سنا تھا ،علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے اور وہ جہاں بھی ہوں حق ان کا تابع جہے۔ آپ(ص)  ہی نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے  علی(ع) مولا ہیں۔ بارِ الہا : ان کے محب کو دوست رکھ اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ جو ان کی مدد کرے اس کی مدد فرما اور جو انھیں رسوا کرے اسے ذلیل فرما: نیز آپ(ص) نے فرمایا: اے علی(ع)  جس ے آپ(ع)  کی جنگ ہے اس سے میری جنگ ہے اور جس سے آپ کی صلح ہے اس سے میری صلح ہے۔ آپ ہی کا ارشاد ہے۔ میں ضرور اپنا علم اس شخص کو دونگا جو خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔ آپ(ص) ہی کا فرمان ہے: میں نے ان سے تنزیل قرآن پر جنگ کی  اور علی(ع) تم قرآن کی تاویل پر ان سے جنگ کروگے۔ نیز فرمایا: اے علی(ع) تم سے میری وصیت ہے ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے  جنگ کرنا۔اور بہت سی حدیثیں ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک وہ ہے جو خود زبیر سے بیان کی تھی کہ عنقریب تم علی(ع) سے جنگ کروگے اور ان کے حق میں ظالم قرار پاؤگے۔ زبیر ان حقائق سے کیسے بے خبر رہے جن سے دور و  دراز  کےلوگ بھی واقف تھے انھیں کیا ہوگیا تھا وہ تو نبی(ص) اور علی(ع) کے پھوپھی زاد بھائی تھے؟

وہ عقلیں جمود وبے حسی کا شکار ہیں جو تاریخی واقعات اور اس کے حقائق میں امتیا ز نہیں کر پاتیں۔ وہ عبث اس بات  میں اپنی کوشش صرف کرتےہیں کہ انھیں عذر مل جائے تاکہ لوگوں کو دھوکہ دیا جاسکے اورلوگوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ طلحہ و زبیر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

" یہ ان کی امیدیں ہیں آپ(ص) کہدیجئے اگر تم سچے ہو کہ ہم ہی جنت میں جائیں گے تو اپنی دلیل پیش کرو۔( بقرہ/۱۱۱) جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے منہ موڑا ان کے لئے آسمان کےدروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہونگے یہاں تک اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزادیتے ہیں۔

۲۵۲

۶: سعد بن ابی وقاص :

آپ بھی سابق الاسلام اور عظیم صحابہمیںسےہیںاوراناولینمہاجرینمیںسےہیںجوجنگبدر میں شریک تھے او عمر کی بنائی ہو ئی اس چھ رکنی کمیٹی کے بھی ممبر ہیں جس کو خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار دیا تھا اور ان دس افراد میں بھی شامل ہیں جن کوبزعم اہلسنت والجماعت جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

اور عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران ، قادسیہ کی جنگ کے ہیرو بھی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ بعض صحابہ کو ان کے نسب میں شک تھا اس سلسلہ  میں طعنہ دیتے تھے اور اس طرح انھیں تکلیف پہونچاتے تھے ، یہ روایت بھی کی گئی ہے کہ نبی(ص) نے ان کے نسب کوثابت کیا  تھا اور ان کا تعلق بنی زہرہ سے ہے۔

ابن قتیبہ اپنی کتاب الامامۃ والسیاسۃ میں رقمطراز ہیں : وفات نبی(ص) کے بعد بنی زہرہ ، سعد ابن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف کے پاس مسجد میں جمع ہوئے ۔ پس جب  ان کے پاس ابوبکر اور ابوعبیدہ آئے تو عمر   نے کہا: مجھے کیا ہوگیا ہے کہ تمہیں مختلف گروہوں میں تقسیم دیکھتا ہوں؟ اٹھو! اور ابوبکر کی بیعت  کرو، میں نے تو ان کی بیعت کر لی ہے اور انصار  نے بھی ان کی  بیعت کر لی ہے۔ الامامۃ والسیاسہ ج۱ ، ص۱۸۔

روایت کی گئی ہے کہ عمر نے سعد کو گونری سے معزول کردیا تھا لیکن خلیفہ نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد اگر سعد بن ابی وقاص  خلیفہ نہ بن سکے تو انھیں گورنر لازمی بنایاجائے ۔ کیوں کہ انھیں کسی خیانت کی بناء پر معزول نہیں کیا گیا تھا۔ چنانچہ عثمان نے اپنے دوست کی وصیت کو  پورا کیا اور سعد کو کوفہ کا گورنر  مقرر کردیا۔

واضح رہے کہ سعد ابن ابی وقاص  نے اپنے دوستوں کی طرح ترکہ میں بہت زیادہ مال

۲۵۳

نہیں چھوڑا تھا۔ روایت کی روسے ان کا ترکہ تین لاکھ  تھا۔ اسی طرح وہ قتل عثمان میں بھی ملوث نہیں تھے اور طلحہ و زبیر کی مانند لوگوں کو اکسایا بھی نہیں تھا۔

ابن قتیبہ نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ : عمر ابن العاص نے سعد بن ابی وقاص کو خط لکھ کر دریافت کیا : عثمان کو کس نے قتل کیا ہے؟

سعد نے جواب لکھا: تم نے مجھ سے قتل عثمان کے متعلق سوال کیا ہے: سو میں تمھیں خبردار کئے دیتا ہوں وہ عاشئہ کی خفیہ تلوار سے قتل ہوئے ہیں کہ جس پر طلحہ نے  صیقل کی  تھی ۔ ابنِ ابی طالب نے اس کو زہر آلود کیا ۔ زبیر ساکت رہے اور اپنی طرف اشارہ کر کے کہا اپنی جگہ ٹھہرے رہے ، اگر چاہتے تو ان سے دفاع کرسکتے تھے لیکن عثمان زوو بدل کی اور خود بھی بدل گئے اچھا اور برا کیا۔پس اگر ہم نے نیک کام کئے ہیں تو اپنے لئے اور اگر برے کئے ہیں تو  خدا سے بخشش کے طلبگار ہیں۔

میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ زبیر پر خواہشات اور خاندان والوں کا غلبہ ہے اور طلحہ کو اگر اس شرط پر کرسی ملے کہ ان کا پیٹ چاک کیا جائے تو وہ اسپر  بھی تیار ہیں۔ الامامۃ والسیاسۃ ج۱ ص۴۸۔

لیکن تعجب ہے سعدبن ابی وقاص نے امیر المؤمنین حضرت علی(ع) کی بیعت نہیں کی اور  نہ ہی آپ (ع) کی مدد کی جبکہ آپکی  برحق امامت اور فضیلت سے واقف تھے ۔ انہون نے خود حضرت علی(ع) کے متعلق حدیثیں نقل کی ہیں جنہیں امام نسائی اور امام مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔

سعد کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) سے علی(ع)  کی ایسی تین خصلتیں سنی ہیں کہ اگر  ان میں سے میرے لئے ایک بھی ہوتی تو وہ میرے لئے تمام نعمتوں سے افضل تھی۔ میں نے رسول(ص) سے سنا :علی (ع) میرے لئے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔ بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

میں نے نبی(ص) سے سنا : کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو خدا و رسول(ص)  کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔

۲۵۴

میں نے رسول(ص) سے سنا: لوگو! تمہارا ولی کون ہے؟ کہا ! خدا اور اس کا رسول(ص) پھر آپ نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑا  کر بلند کیا اور فرمایا : جس کے ولی خدا اور رسول(ص) ہیں یہ علی(ع) بھی اس کے ولی ہیں۔ پروردگارا ! علی(ع) کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ۔ خصائص امام نسائی ص۱۸ ۔ ۳۵۔

صحیح مسلم میں سعد ابن ابی وقاص سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول(ص) کو علی(ع) کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے سنا : کیا تم اس بات پر راضی  نہیں ہو کہ میرے لئے ایسے ہی ہو جسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔ بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

نیز میں نے خیبر کے روز آپ(ص) سے سنا : میں اس شخص کو علم دوں گا جو خدا و رسول(ص)کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔ یہ سنکر ہمارے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ علم ہمیں مل جائے لیکن آپ نے فرمایا : علی(ع) کو بلاؤ!

اور جب آیہ"فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم " نازل ہوئی تو رسول(ص) نے علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) کو بلایا اور فرمایا : بارالہا یہی میرے اہلبیت ہیں۔

سعد بن ابی وقاص نے ان تمام حقائق سے واقفیت کے بعد امیرالمؤمنین(ع) کی بیعت  سے کیسے انکار کردیا؟ سعد نے کیا خاک  رسول(ص) کا یہ قول سنا تھا کہ جس کے ولی خدا و رسول(ص) ہیں علی(ع) بھی اس کے ولی ہیں۔ بارالہا ! ان کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ! یہ روایت خود انہی کی نقل ہوئی ہے پھر بھی علی(ع) کو ولی نہ مانا اور نہ آپ کی مدد کی۔!اور سعد ابن ابی وقاص سے رسول(ص) کی یہ حدیث کیوں  کر مخفی رہی کہ جو شخص بغیر امامِ وقت کی بیعت کے مرگیا وہ جاہل کی موت مرا! اس حدیث کے ناقل عبداللہ بن عمر ہیں۔ پس سعد جاہلیت کی موت مرے انہوں نے امیر المؤمنین، سید الوصیین اور قائد الغرا المحجلین  کی بیعت سے روگردانی کی تھی؟!

مؤرخٰین کا بیان ہے کہ سعد عذر خواہی کے لئے حضرت علی(ع) کے پاس آئے اور کہا:

۲۵۵

اے امیرالمؤمنین(ع) قسم خدا کی مجھے اس بات میں قطعی شک نہیں ہے کہ آپ سب سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور دین و دنیا میں امین ہیں یہ الگ بات ہے کہ لوگ اس سلسلہ میں آپ سے جنگ کریں گے لیکن اگر آپ مجھ سے بیعت لینا چاہتے ہیں تو مجھے ایک ایسی تلوار دیجئے  جو یہ بتائے کہ اسے لےلو اور اسے چھوڑ دو۔

حضرت علی(ع) نے ان سے فرمایا: کیا تم نے کسی کو قول و عمل میں قرآن کے مخالف پایا ہے؟ یقینا مہاجرین و اںصار نے میری اس شرط پر بیعت کی ہے کہ میں ان کے درمیان کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق حکومت کروں گا ۔ اگر تم مائل ہو تو بیعت کرو ورنہ اپنے گھر بیٹھو! میں تم سے زبردستی بیعت  نہیں لوںگا۔ تاریخ اعثم ۔ ص۱۶۳۔

سعد بن ابی وقاص کا موقف عجیب !!! علی(ع) کے بارے میں خود کہتے ہیں کہ مجھے اس  بات مٰں قطعی شک نہیں ہے کہ آپ سب سے زیادہ خلافت کے حقدار ہییں اور یہ کہ دنیا و آخرت میں امین ہیں لیکن اس کے بعد بھی تلوار کا مطالبہ کرتے ہیں جو بولتی ہے اور اس کو بیعت کی شرط قرار  دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ وہ حق و باطل کو پہچان لیں؟!

کیا یہ تناقض نہیں ہے جسکو صاحبان عقل رد کرتےلیں ؟ کیا وہ چیز نہیں طلب کررہے ہیں جو کہ محال ہے ۔ جبکہ صاحب رسالت اکثر حدیثوں میں حق کو پہنچوا چکے تھے جن میں سے پانچ حدیثیں خود سعد نے نقل کی ہیں ۔

کیا سعد ابوبکر و عمر و عثمان کی بیعت کے وقت موجود نہیں تھے ۔ کہ جس کے بارے میں ہر ایک نے یہ حکم دیا تھا کی جو بیعت سے انکار کرے اسے قتل کرو کیونکہ اس  سے فتنہ کا خوف ہے؟

جبکہ انہی سعد نے بغیر کسی شرط کے عثمان کی بیعت کی اور دل و جان سے ان کی طرف جھگ گئے در آنحالیکہ عبدالرحمن بن عوف حضرت علی(ع) کے سر اقدس  پر ننگی تلوار لے کر تہدید کررہے تھے اپنے  خلاف راستہ نہ کھولو۔ یہ تلوار ہے کچھ اور نہیں ہے۔ الامامۃ والسیاسۃ ج۱،ص۳۱۔

۲۵۶

سعد اس وقت بھی موجود تھے جب حضرت علی(ع)  نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا اور عمر بن خطاب نے آپ  کو  تہدید  کرتے ہوئے کہا تھا بیعت کرلو ورنہ قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہم تمہاری گردن مار دیں گے ۔ الامامۃ والسیاسۃ ج۱، ص۲۰۔

کیا عبد اللہ ابن  عمر، اسامہ ابن زید اور محمد ابن مسلمہ کو حضرت علی(ع) کی بیعت سے منحرف کرنے اور انھیں برا بھلا کہنے کا سبب سعد بن ابی وقاص ہی نہیں تھے۔؟

آپ نے ان پانچ اشخاص کے حالات ملاحظہ فرمائے کہ جنہیں عمر ابن خطاب نے خلافت کے سلسلہ میں حضرت علی(ع)  سے مقابلہ کےلئے معین کیا تھا، انھوں نے ٹھیک وہی کردار ادا کیا جس کا عمر ابن خطاب نے نقشہ کھینچا تھا اور وہ یہ تھا کہ علی(ع)  خلافت تک نہ پہونچے ۔ چنانچہ عبدالرحمن نے اپنے بہنوئی عثمان کو خلیفہ بنادیا اور علی(ع) سے کہا : اگر تم نہیں کروگے تو قتل کردئیے جاؤگے کیوں کہ عمر نے اس جماعت کو بات ماننے کے لئے کہا تھا جسمیں عبدالرحمن شامل ہو۔

اور عبدالرحمن بن عوف کی موت کے بعد اور عثمان کے قتل ہونے کے بعد خلافت کے سلسلہ میں علی(ع) سے کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں تھا۔ بس یہی تین اشخاص ، یعنی طلحہ و زبیر اور سعد تھے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عثمان نے مرنے سے پہلے ہی علی(ع) کے مقابلہ میں ایسے نئے شخص کو کھڑا کردیا تھا جو ان سب سے زیادہ خطرناک اور مکرو دغا بازی میں کہیں آگے تھا اوران سے زیادہ اس کے افراد تھے عثمان نے پہونچنے کے لئے راستہ ہموار کیا اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کو بھی اس کی حکومت میں ضم کردیا جن پر وہ بیس سال تک حکومت کرتا رہا۔ ( واضح رہے، ان علاقہ جات کا ٹیکس پوری اسلامی حکومت کو دو تہائی ہوتا تھا۔

اور وہ ہے معاویہ  کہ جس کے پاس نہ دین تھا نہ اخلاق غرض یہ کہ اس کے پاس خلافت تک پہونچنے کے سوا کوئی کام  نہیں تھا۔ وہ تختِ خلافت پر متمکن ہونے کے لئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتا تھا۔

۲۵۷

اس کے باوجود امیر المؤمنین علی(ع) نے طاقت کے زور سے لوگوں سے بیعت نہیں لی اگرچہ گذشتہ خلفاء  زبردستی بیعت لیتے تھے۔ ہاں انہوں نے احکام کو قرآن و سنت میں مقید کردیا تھا اور ان میں کوئی رد  وبدل نہیں کی تھی ۔ کیا آپ نےعلی(ع) کا وہ قول نہیں پڑھا جو کہ سعد سے فرمایا تھا: کہ مہاجرین و انصار نےمیری بیعت اس شرط پر کی ہے کہ میں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق عمل کروں گا۔ اگر تم رغبت  رکھتے ہو تو بیعت کرلو ورنہ اپنے گھر بیٹھو ، میں تم سے زبردستی بیعت نہیں لوں گا۔

مبارک ہو آپ کو اے ابنِ ابی طالب، آپ نے قرآن و سنت کو اس وقت زندہ کیا جب انھیں دوسروں نے مردہ بنادیا تھا ۔ کتاب خدا آواز دے رہی ہے۔

جو لوگ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کررہے ہیں وہ ( در حقیقت ) خدا کے  ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ان  کے ہاتھوں پر خدا کا ہاتھ ہے پس جو بیعت توڑے گا تو وہ اپنے ہی نقصان کے لئے توڑتا ہے  ۔ اور جس نے اس عہد کو پورا کیا  جو  اس نے خدا سے کیا ہے تو اس کو عنقریب اجر عظیم فرمائے گا۔ ( سورہ فتح/۱۰)

کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ سب کےسب مطیع و فرمانبردار  ہوجائیں۔ یونس/۹۹۔

دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور نہ ہی اسلام میں بالجبر بیعت لینا صحیح ہے کہ نہ خدا نےاپنے بنی(ص) کو یہ حکم دیا کہ تم  لوگوں سے بیعت کے لئے جنگ کرو۔

سنت و سیرتِ نبی(ص) تو یہ نہیں بتاتی ہے کہ آپ کبھی کسی پر بیعت کے لئے زبردستی نہیں کی۔ لیکن خلفاء اور صحابہ نے یہ بدعت ایجاد کی اور لوگوں سے کہا اگر ہماری بیعت نہیں کرو گے تو قتل کردیئے جاؤگے۔

خود فاطمہ(س) کو گھر جلا دینے کی دھمکی دی گئی ۔ اگر بیعت سے منحرف لوگ آپ کے گھر سے نہ نکلے تو گھر جلادیا جائے گا ۔ علی(ع) کہ جن کو رسول(ص) نے خلیفہ منصوب کیا تھا ان پر تلوار کھینچ لی جاتی ہے۔

۲۵۸

 اور خدا کی قسم کھا کر کہا جاتا ہے کہ اگر تم (علی) بیعت نہیں کروگے تو ضرور ہم  تمہیں قتل کردیںگے جب ایسی معزز شخصیتوں  سے اس قسم کا سلوک روا رکھا جاتا تھا تو عمار و سلمان اور بلال نادار جیسے صحابہ کے ساتھ تو نہ پوچھیئے کہ کیا سلوک روا رکھا ہوگا۔

اہم بات یہ  ہے کہ سعد بن ابی وقاص نےعلی(ع) کی بیعت  سے انکار کردیا اور اسی طرح ان پر سب و شتم کرنے سے بھی اس وقت  انکار کردیا تھا جب معاویہ نے انھیں سب و شتم کرنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم میں منقول ہے ۔ لیکن سعد کہتے ہیں اتنا کافی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے لئے جنت کی ضمانت ہے ۔کیونکہ ان کے غیر جانب دار مذہب کی بنیاد اس نعرہ پر تھی ، میں نہ تمہارے ساتھ ہوں اور نہ تمھارے دشمنوں کے ساتھ ہوں۔ اس بات کو اسلام نہیں مانتا ۔ اسلام کا صرف ایک ہی قول ہے اور وہ یہ کہ حق کے بعد ضلالت ہی ضلالت ہے۔

اور پھر یہ کہ کتاب خدا اور سنتِ رسول(ص) نے فتنہ کی نشاندہی کردی ہے ، اس سے خبردار  کردیا ہے اوراس کی حدیں معین کردی  ہیں تاکہ جو ہلاک ہو وہ بھی دلیل کے بعد اورجو ہدایت پائے وہ بھی دلیل کے بعد۔

رسول(ص) نےعلی(ع) کے متعلق درج ذیل حدیث بیان فرما کر تمام چیزیں بیان کردیں۔

پروردگارا! علی(ع) کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن رکھ اور جو انکی مدد کرے اس کی مدد فرما اور جو انھیں رسوا کرے اسے ذلیل فرما اور حق کو ان کا تابع کردے۔

خود حضرت علی(ع) نےسعد کے بیعت نہ کرنے کے اسباب بیان فرمائے ہیں ۔ چنانچہ خطبہ شقشقیہ میں ارشاد ہے، ایک شخص ان میں سے دامادی کی وجہ سے ادھر چلاگیا۔

اس جملہ کی تشریح میں شیخ محمد عبدہ فرماتے ہیں۔

سعد ابن ابی وقاص  کو ذاتی طور سے علی( کرم اللہ وجہہ) سے اپنے ماموؤں کےسلسلہ میں پرخاش تھی کیونکہ انکی ماں، حمنۃ بنتِ سفیان بن امیہ بن عبدالشمس تھی اور علی(ع) نے انکے بڑوں

۲۵۹

 بڑوں کو تہ تیغ کیا تھا جیسا کہ مشہور ہے ۔ شرح نہج البلاغہ ، شیخ محمد عبدہ مصری ج۱ ص۸۸۔

پس دلی دشمنی اور اندھے حسد کی وجہ سے سعد نے  ایسا  ہی سمجھا جیسا علی(ع) کے دشمن نے ان ہی سے نقل کیا گیا ہےکہ جب عثمان نے انھیں کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو انھوں نے خطبہ دیتے ہوئے کہا:

سب سے بہترین انسان امیرالمؤمنین عثمان کی اطاعت کرو۔

پس سعد بن ابی وقاص حیات عثمان ہی میں ان کی طرف مائل تھے چنانچہ قتل کے بعد بھی ان سے متاثر رہے اور اسی وجہ سے انہوں نے حضرت علی(ع)  پر یہ اتہام لگایا کہ عثمان کو قتل کرنے والوں میں سے علی ابن ابی طالب(ع) بھی شریک  ہیں ۔ جیسا کہ عمرو ابن العاص کے خط کے جواب میں لکھا تھا، عثمان عائشہ کی خفیہ تلوار سے قتل کئے گئے ہیں اور علی(ع) بھی اس میں ملوّث ہیں۔

یہ اتہام ہے جس کو تاریخ کی شہادت جھٹلا رہی ہے ۔ کیوں کہ عثمان کے لئے علی(ع) سے زیادہ مخلص ناصح کو ئی نہ تھا۔ اگر آپ(ع)  کی بات کو عثمان قبول کرتے اور اس پر عمل کرتے۔ جس کو ہم نے سعد کے مدد نہ کرنے والے موقف سے خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے وہ ٹھیک وہی چیز ہےجس سے حضرت علی(ع) نے انھیں متصف کیا ہے کہ وہ دشمنی کی وجہ سے  ادھر جھک گیا۔

پس باوجود اس کے کہ وہ حق کی معرفت رکھتے تھے لیکن ناروا باتیں اور دشمنی ان کے اور حق کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ زجر توبیخ  کرنے والے ضمیر کے درمیان حیران و متحیر کھڑے دیکھا گئے۔ ان کے نفس نے انھیں جاہلیت والی عادتوں کی طرف پلٹا دیا اور سعد پر نفس امارہ غالب آگیا اور انھیں حق کی نصرت سے باز رکھا۔

اس بات پر دلیل وہ چیز ہے جس کو ان کے متحیر موقف کے سلسلہ میں مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے کہ:

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431