شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105378
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105378 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فجات سلمی کو جلا کر جس سے نبی(ص) نے منع کیا تھا، سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی مؤلفہ القلوب کا حصہ نہ دے کر اور عمر کے قول کی تائید کر کے سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کی۔

عمر کو مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر مسلمانوں کا خلیفہ بناکر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تمام مخالفتوںسے اہل سنت کی صحاح اور تواریخ بھری پڑی ہیں۔

پس  جب سنتِ نبی(ص) کا یہ حال ہے، جیسا کہ علمانے بیان کیا ہے، کہ ابوبکر نے سنت یعنی قولِ رسول(ص) فعلِ رسول(ص) اور تقریر رسول(ص) کی مخالفت کی ہے۔

قول رسول(ص) کی مخالفت : نبی(ص) نے ارشاد فرمایا:" فاطمہ (ع) میرا ٹکڑا ہے جس نےاسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔"اور فاطمہ(س) نے دنیا سے اس حالت میں رحلت کی کہ ابوبکر پر غضبناک تھیں جیسا کہ بخاری نے تحریر کیا ہے۔

رسول(ص) کا قول ہے کہ:جیش اسامہ میں شرکت نہ کرنے والے پر خدا کی لعنت ہے اور یہ آپ(ص) نے اس وقت فرمایا تھا: جب  صحابہ نے اسامہ کو امیر بنانے کے سلسلہ میں اعتراض کیا تھا اور ان کے لشکر میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا ان تمام خلاف ورزیوں کے باوجود ابوبکر خلیفہ بن گئے تھے۔

فعلِ رسول(ص) کی مخالفت:

رسول(ص) نے مؤلفۃ القلوب کو حکم خد اسے حصہ دیا لیکن ابوبکر نے انھیں اس حق سے محروم کردیا جس پر قرآن کی نص موجود ہیں اور رسول(ص) نے اس پر عمل کیا ہے چونکہ عمر نے یہ کہدیا تھا کہ اب ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے ابوبکر نے بھی دست کش ہوگئے۔

تقریرِ رسول(ص) کی مخالفت :

نبی(ص) نے اپنی خاموشی سے اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ لوگ آپ(ص) کی احادیث لکھیں

۲۲۱

اور لوگوں کے درمیان نشر کریں لیکن ابوبکر نے ان حدیثوں کو جلا ڈالا اور ان کی نشر و اشاعت پر پابندی لگادی۔

ابوبکر قرآن کے بہت سے احکام سے ناواقف تھے ان سے کلالہ کے متعلق سوال کیا گیا کہ جس کا حکم قرآن میں موجود ہے، تو کہا میں اپنی رائے سے فیصلہ کرسکتا ہوں اگر وہ فیصلہ صحیح ہوگا تو خد اکی طرف سے اور غٖلط ہوگا تو شیطان کی طرف سے ہے۔ ( تفسیر طبری، تفسیر ابنِ کثیر،تفسیر خازن، تفسیر جلال الدین سیوطی، تمام مفسرین نے سورہ نساء کی اس آیت کے ذیل میں تحریر کیا ہے۔(ليستفتونک قل الله يفتيکم فی الکلالة)

مسلمانوں کے اس خلیفہ کے بارے میں کیونکر حیرت نہ ہو کہ جس سے کلالہ کا حکم پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں جبکہ خد انے قرآن میں او ر رسول(ص) نے اپنی احادیث میں کلالہ کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔ لیکن خلیفہ کو ان دونوں سے سروکار ہی نہیں تھا۔

پھر خود ہی اس بات کا بھی اعتراض کرتے ہیں کہ شیطان ان کی رائے پر مسلط رہتا ہے۔ اور یہ خلیفہ مسلمین ابوبکر کے لئے کو اتفاقی امر نہیں تھا بلکہ انھوں نے ایسی  باتیں بارہا کہی ہیں۔ میرا ایک شیطان ہے جوکہ بہکاتا رہتا ہے۔

واضح رہے علمائے اسلام کا صریح فیصلہ ہے کہ جو شخص کتابِ خدا کےبارے میں اپنی رائے سے کام لے وہ کافر ہے ، جیسا کہ نبی(ص) نے کبھی اپنی رائے اور قیاس سے کچھ نہیں فرمایا:

ابوبکر کہا کرتے تھے: مجھے اپنے نبی(ص) کی سنت پر زبردستی نہ چلاؤ کیونکہ مجھ میں اس کی طاقت نہیں ہے۔

پس جب ابوبکر میں سنتِ نبی(ص) پر گامزن ہونے کی طاقت نہیں ہے تو پھر ان کے انصار و مددگار یہ دعوی کیسے کرتے ہیں کہ ہم اہلِ سنت ہیں۔

شاید ابوبکر سنتِ رسول(ص) کا اس لئے اتباع نہیں کرسکتے تھے کہ سنت انھیں یہ بتاتی کہ ان کا عمل رسالتِ مآب(ص) کے عمل سے بالکل مختلف ہے جبکہ خدا نے فرمایا ہے کہ:

۲۲۲

" دین میں تمھارے لئے کوئی حرج نہیں ہے۔" ( حج۷۸)

" خدا تمھارے لئے آسانی کا ارادہ رکھتا ہے تنگی کا نہیں۔" ( بقرہ ۱۸۵)

" خدا کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔" (بقرہ۲۸۶)

" جو رسول(ص) تمھیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے بازرہو۔" ( حشر ۷)

ابوبکر کا یہ قول کہ مجھ میں سنتِ نبی(ص) کے اتباع کی طاقت نہیں ہے ان آیتوں کی تردید کررہا ہے اور جب نبی(ص) کے فورا بعد خلیفہ اوّل ابوبکر اس زمانہ میں سنتِ نبی(ص) پر عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے تو دورِ حاضر کے مسلمانوں سے کیونکر قرآن و سنتِ نبی(ص) پر گامزن  رہنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟

اور ہم تو ابوبکر کو ایسے آسان امور میں بھی سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جن پر ناتواں اور جاہل بھی عمل کرتا ہے۔

چنانچہ ابوبکر نے قربانی کو ترک کردیا جبکہ رسول (ص) خود بھی قربانی کرتے تھے اور اس کی تاکید فرماتے تھے۔ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ قربانی مستحب مؤکد ہے پھر خلیفہ مسلمین نےاسے کیونکر ترک کردیا؟

محدثین اور امام شافعی نے کتاب الام میں بیان کیا ہے کہ ( بیہقی نے سنن الکبریٰ کی ج۹ ص۳۶۵ اور سیوطی نے جمع الجوامع کی جلد۳ ص۴۵ پر نقل کیا ہے)

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں قربانی نہیں کرتے تھے اور وہ اس خیال کے تحت کہ کہیں دیگر افراد ہماری اقتدا میں اسے واجب نہ سمجھنے لگیں!یہ تعلیل باطل ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہےکیونکہ تمام صحابہ جانتے تھے کہ قربانی سنت ہے  واجب نہیں ہے۔اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ لوگ قربانی کو واجب سمجھنے لگتے تو بھی کیا حرج تھا جبکہ عمر نماز تراویح کی بدعت ایجاد  کردیتے ہیں جو کہ نہ سنت ہے  اور نہ واجب۔

بلکہ اس کے برخلاف نبی(ص) نے اس سے منع فرمایا تھا اور آج اکثرِ اہلِ سنت نمازِ تراویح کو واجب سمجھتے ہیں۔

۲۲۳

شاید ابوبکر و عمر قربانی نہ کرکے اور سنت نبی(ص) کا اتباع نہ کرکے لوگوں کو اس شک میں مبتلا کرنا چاہتے تھے کہ جو فعل بھی رسول(ص) نے انجام دیا ہے وہ واجب نہیں ہے۔ لہٰذا اسے ترک کیا جاسکتا ہے۔

اور اس سےان کےاس قول کی تقویت ہوتی ہے کہ "ہمارے لئے کتاب خدا ہی کافی ہے اور ابوبکر کےاس قول کو بھی سہارا ملتا ہے کہ نبی(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کیا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتابِ خدا موجود ہے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو!

اس بنیا د پر اگر کوئی شخص ابوبکر پر قربانی والی سنتِ نبی(ص) کے ذریعہ احتجاج کرتا ہے تو ابوبکر صاف کہدیتے تھے مجھ سے تم رسول(ص) کی حدیث بیان نہ کرو، مجھے تو کتاب  میں اس کا حکم دیکھاؤ کہاں ہے۔

اس کےبعد ایک محقق بخوبی اس بات کو سمجھ لے گا کہ اہلِ سنت کے یہاں سنتِ نبی(ص) کیونکر متروک و مجہول رہی اور انھوں نے اپنی رائے قیاس اور استحسان کے ذریعہ کیسے خدا و رسول(ص) کے احکام کو بدل ڈالا۔

یہ وہ مثالیں ہیں جن کو میں نے ابوبکر کے ان کارناموں سے نکالا ہے جو انھوں نے سنتِ نبی(ص) کے سلسلہ میں انجام دیئے ہیں۔ جیسے سنت کی اہانت ، احادیث کا جلانا اوران سے چشم پوشی کرنا ، اگر ہم چاہتے تو اس موضوع پر مستقل کتاب لکھدیتے۔

اتنے کم علم والے انسان سے ایک مسلمان کیسے مطمئن ہوسکتا ہے جس کا یہ مبلغِ علم ہے اور سنتِ نبوی(ص) سے جس کا یہ برتاؤ  ہے تو اس کی پیروی کرنے والے کیونکر اہلِ سنت کہلواتے ہیں؟

اہلِ سنت نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں اور نہ اسے نذر آتش کرسکتے ہیں۔

ہرگز ، بلکہ اہلِ سنت وہ ہیں جو اس کا اتباع کرتے ہیں اور اسے مقدس سمجھتے ہیں۔

("اے رسول (ص)) کہدیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو

۲۲۴

 میرا اتباع کرو( پھر) خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ غفور و رحیم ہے۔

( اے رسول(ص)) کہدیجئے کہ اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو اگر روگردانی کرو گے تو خدا  کافروں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ ( آل عمران ۳۱۔۳۲)

۲: عمر بن خطاب ۔ فاروق

ہم اپنی دیگر کتابوں میں تحریر  کرچکے ہیں کہ سنت نبوی(ص) سے ٹکرانے میں عمر بڑے جسور تھے۔یہ وہ جری ہے جس نے رسول(ص) سے بےڈھڑک کہدیا تھا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے اور اس رسول(ص) کے قول کوجو کہ اپنی خواہش نفس سے کچھ کہتا  ہی نہیں اسے اہمیت نہیں دی، اس لحاظ سے عمر اس امت کی گمراہی کا سبب بنے۔( اس کی دلیل قولِ رسول(ص) ہے ۔، اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ ابدا: میں تمھارے لئے نوشتہ لکھدوں کہ جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ابنِ عباس کہتے ہیں اگر وہ نوشتہ لکھا گیا ہوتا تو امت کے دو افراد کے درمیان کبھی اختلاف نہ ہوتا لیکن عمر نے رسول(ص) کو وہ نوشتہ نہ لکھنے دیا اور آپ(ص) پ رہذیان کی تہمت لگائی تاکہ رسول(ص) لکھنے پر اصرار نہ کریں۔ اس سے یہ  بات واضح ہوگئی کہ امت کی گمراہی کا سبب عمر ہیں جس نے امت کو ہدایت سے محروم کیا۔)

ہم یہ بھی جانتے ہیںکہ عمر نے فاطمہ زہرا(س) کی اہانت کی اور آپ(س)  کو اذیّتین دیں۔ آپ(س) کو اور آپ کے چھوٹے چھوٹے بچّوں کو اس وقت خوف زدہ کیا جب رسول(ص) کی لختِ جگر کے گھر پر یورش کی اور گھر کوآگ لگادینے کی دھمکی دی۔

ہم اس سے بھی بے خبر نہیں ہیں کہ عمر ہی نے حدیث کی کتابیں جمع کرکے نذر آتش کردی تھیں۔ اور لوگوں کو احادیثِ رسول(ص) بیان کرنے سے منع کردیا تھا۔

عمر نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اور خود رسول(ص) کے سامنے آپ(ص) کی سنت کی مخالفت کی جیسا کہ جیش اسامہ میں شرکت نہ کر کے سنتِ بنی(ص) کی مخالفت کی اور ابوبکر کی خلافت کو مستحکم بنانے کی

۲۲۵

غرض سے جیشِ اسامہ کے ساتھ نہیں گئے تھے۔

مؤلفۃ القلوب کو ان کا حق نہ دیکر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اسی طرح متعہ حج و متعہ نساء  کو حرام قرار دیکر قرآ نو سنت کی مخالفت کی۔

تین طلاقوں کو ختم کر کے ایک طلاق کو کافی بتا کر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اور  پانی نہ ہونے کی صورت جمیں فریضہ تیمم کو ختم کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

مسلمانوں کو جاسوسی کا حکم دیکر قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

اسی طرح اذان سے ایک جزو ختم کر کے اور اپنی طرف سے ایک جزو کا اضافہ کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی۔

خالد بن ولید پر حد جاری نہ کر کے قرآن وسنت نبی(ص) کی مخالفت کی جبکہ خود اسے خد کی اجراء سے خوف زدہ کرچکے تھے۔جیسا کہ تراویح کو جماعت سے پڑھنے کا حکم دیکر سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کی۔

بیت المال کی تقسیم کے سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کر کے طبقاتی نظام کی بدعت جاری کی اور اسلام میں طبقہ بندی کو جنم دیا۔مجلس شوریٰ بناکر اور ابنِ عوف کو اس کا رئیس مقرر کرکے سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کی۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود اہل سنت والجماعت انھیں معصوم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں عدل تو عمر کے مرتے ہی ختم ہوگیا تھا، اور جب انھیں قبر میں رکھا گیا اور منکرو  نکیر سوال کرنے آئے تو عمر ان پر برس پڑے اور پوچھا تمھارے پروردگار کون ہے؟ اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں کہ عمر فاروق ہیں کہ جس کے ذریعہ خدا نے حق و باطل میں فرق کر دیا۔

کیا یہ بنی امیہ نے اسلام اور ،مسلمانوں کا مذاق نہیں اڑایا ہے؟انھوں نے ایک سخت مزاج شخص کے لئے ایسے مناقب گھڑ دیئے جو کہ مستقل طور پر رسول(ص) سے لڑتا رہا۔ ( مسلم نے اپنی صحیح میں متعہ کے سلسلے میں ابن عباس اور ابن زبیر کا اختلاف درج کیا جہے ۔ جابر بن عبداللہ نے  کہا ہم رسول(ص) کے

۲۲۶

ز مانہ میں متعہ حج اور متعہ نساء دونوں پر عمل کرتے تھے حج جمیں عمر نے دونوں کو حرام قرار دیدیا۔) گویا انکی زبانِ حال مسلمانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ محمد(ص)  کا زمانہ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ ختم ہوگیا اب ہمارا زمانہ ہے۔ اب ہم جس طرح چاہیں گے دین میں ردّ و بدل کریں گے اور شریعت بنائیں گے ۔ اب تم ہمارے  غلام ہو تمھاری اور تمھارے نبی(ص) کی ناک رگڑی جا ئے گی۔ اور ردّ عمل کے طور پر انتقام لیا جائے گا تاکہ حکومت قریش ہی کی طرف لوٹا دی جائے جس کی زمام بنی امیہ کے ہاتھوں میں رہے گی جو کہ اسلام اور رسولِ اسلام سے مستقل طور پر لڑتے چلے آرہے ہیں۔

عمر بن خطاب سدا سنت نبوی(ص) کو مٹانے کی کوشش میں لگے رہے اور اس کا مذاق اڑاتے رہے اور ہیشہ اس کی مخالفت کرتے رہے یہاں  کہ نبی(ص) کے سامنے بھی مخالفت کی تو اب نہ تعجب خیز بات نہٰیں ہے کہ قریش حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں می دیدیں اور انھیں اپنا قائد اعظم  تسلیم کرلیں کیونکہ وہ ظہور اسلام کے بعد قریش کی بولتی ہوئی زبان تھے۔ اور ان کی طرف سے جھگڑنے والے تھے۔ اسی طرح وفاتِ نبی(ص)  کے بعد وہ قریش کی برہنہ  شمشیر اور ان کے خوابوں کی تعبیروں کو  وجود میں لانے کا مرکز اور حکومت تک ان کی رسائی کا ذریعہ اور ان کی جاہلیت والی عادتوں کی طرف پلٹانے کا سبب تھے۔

یہ کوئی اتفاقی امر نہیں جہے کہ ہم عمر کو ان کے زمانہ خلافت میں سنت نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور  انھیں  خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم (ع) سے الگ ایسے عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسے زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا۔

ابنِ سعد نے اپنی طبقات میں اور دیگر مورخین نے نقل کیاہے کہ:

جب نبی(ص) نے مکہ فتح کیا تو مقام ابراہیم(ع) کو اس طرح خانہ کعبہ سے ملادیا جس طرح عہد ابراہیم(ع) و اسماعیل(ع) میں تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عرب نے مقام ابراہیم(ع) کو اس جگہ کردیا تھا جہاں آج ہے۔ لیکن بعد میں عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسی  جگہ کردیا تھا جہاں آج ہے جبکہ عہد ِ رسول(ص) اور زمانہ ابوبکر میں خانہ کعبہ سے ملا ہوا تھا۔( طبقات ابن سعد جلد ۳ ص۲۰۴، تاریخ الخلفا حالاتِ خلافت

۲۲۷

عمر بن خطاب)

کیا آپ عمر بن خطاب کے لئے کوئی عذر پیش کرسکتے ہیںجب کہ وہجان بوجھ کر اس سنتِ رسول(ص) کو محو کرتے تھے جو کہ آپ(ص) نے ابراہیم و اسماعیل(ع) کے عمل کے مطابق کردی تھی اور عمر نے جاہلیت والی سنت کو زندہ کیا اور مقامِ ابراہیم(ع) وہیں کردیا جہاں زمانہ جاہلیت میں تھا۔

پس قریش عمر کو کیسے فوقیت نہ دیتے اور ان کے لئے ایسے فضائل کیونکر گھڑتے جو خیالات کی سرحدوں میں مقید ہیں یہاں تک کہ ان کے دوست ابوبکر کہ جن کو عمر نے خود خلافت میں مقدم کیا تھا وہ بھی اس مقام تک نہیں پہونچے اور پھر بخاری کی روایت کے مطابق ان کے (علم کے کنویں سے ڈول) کھینچنے میں ضعف تھا لیکن عمر نے ان سے لے لیا اور اسے آسانی سے کھینچ لیا۔اور یہ ان بدعتوں کا عشر عشیر  بھی نہیں ہے جو کہ عمر نے اسلام میں ایجاد کی ہیں۔ اور یہ بدعتیں سب کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالف ہیں۔اگر ہم ان کی بدعتوں کو جمع کریں اور ان احکام کو یکجا کردیا جائے جو کہ انھوں نے اپنی رائے سے صادر کئے ہیں اور ان پر لوگوں کو زبردستی عمل کرنے کے لئے کہا تو  دفتر کے دفتر  وجود میں آجائیں گے لیکن ہمارے پیشِ نظر اختصار ہے۔

اور کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے : عمر بن خطاب نے کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی کیسے مخالفت کی جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو خدا و رسول(ص) کے فیصلہ کے بعد کسی امر  کا اختیار نہیں ہے اور جو خدا اور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کرے گا وہ تو کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہے۔( احزاب/۳۶)

اس بات پر آج اکثر لوگ بحث کرتے ہیں اور ان باتو ں کو جھٹلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمر نے ان چیزوں کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔

ایسے لوگوں سے ہماری گذارش ہے کہ: یہ وہ چیزیں ہیں جو کہ اہلِ سنت میں سے عمر کے یارو انصار نے ثابت کی ہیں ۔ اور  اب   لاشعوری طور پر عمر کو نبی(ص) پر فضیلت دیتے ہیں۔

۲۲۸

اگر یہ باتیں جو عمر کے بارے میں کہی گئی ہیں سب جھوٹی ہیں تو اہلِ سنت کی صحاح ( ستہ) کا کوئی اعتبار نہیں رہے گا ۔اور پھر ان کے کسی عقیدہ پر کوئی دلیل باقی نہ بچے گی۔ کیونکہ تواریخ کے اکثر واقعات اہلِ سنت کی حکومت کے زمانہ میں لکھے گئے ہیں اور ان لوگوں کے نزدیک عمر بن خطاب کا جو احترام و محبت ہےوہ سب پر عیاں ہے۔

اور جب یہ بات صحیح ہے اور ناقابل ترید حقیقت ہے تو آج مسلمانوں کو اپنے موقف کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے عقائد کے بارے میں سوچنا چاہئے اگر وہ اہلِ سنت والجماعت ہیں۔

اسی لئے آج کے اکثر محققین کو آپ دیکھیں گے کہ وہ ایسی روایات اوران تاریخی واقعات کو جھٹلاتے ہیں جن پر علما و محدثین کا اجماع ہے۔ اگر چہ انھیں جھٹلانے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہے۔اسی لئے وہ تاویل کیا کرتے ہیں اور ایسے واہیات قسم کے عذر و بہانے کرتے ہیں۔

جن کی بنیاد علمی دلیل پر استوار نہیں ہوتی ہے بعض نے تو ان (عمر) کی بدعتیں جمع کر کے ان کے مناقب میں شامل کردی ہیں۔

شاید خدا و رسول(ص) دونوں ہی مسلمانوں کی مصلحت سے ناواقف تھے۔ اسی لئے تو وہ ان بدعتوں سے غافل رہے ( استغفر اللہ) چنانچہ عمر ابن خطاب نے ان مصلحتوں کا انکشاف کیا اور رسول(ص) کی وفات کے بعد انھیں مسلمانوں کے لئے سنت قرار دیدیا۔

ہم بہتان عظیم ، کھلے کفر ، رائے خطا اور فکری لغزشوں سے خد اکی پناہ چاہتے ہیں اور جب عمر جیسا اہلِ سنت والجماعت کا امام و قائد ہے ۔ تو میں ایسی سنت اور ایسی جماعت سے خدا کی بارگاہ میں برائت کا اظہار کرتا ہوں۔

خدا سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے سنتِ خاتم النبیین سید المرسلین ، سیدنا محمد (ص) و علی(ع) اور اہلِ بیت طاہرین(ع)  کے راستہ پر موت دے۔

۲۲۹

۳: عثمان بن عفان" ذوالنورین"

یہ تیسرے خلیفہ ہیں جو کہ عمر بن خطاب کی تدبیر سے اور عبدالرحمن بن عوف کی زیرکی سے خلافت پر متمکن ہوئے ، ابن عوف نے عثمان سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ ان کے درمیان کتابِ خدا ، سنتِ رسول(ص) اور سنت ابوبکر و عمر کے مطابق حکومت کے فیصلے کریں گے۔

مجھے خود دوسری شرط میں شک ہے کہ جس میں سنتِ نبی(ص) کے مطابق فیصلہ کرنے کو کہا گیا ہے۔

کیونکہ عبدالرحمن ابن عوف دوسروں سے زیادہ اس بات کو جانتے تھے کہ ابوبکر و عمر نے سنت نبوی(ص) کے مطابق نہ حکومت کی ہے  اور نہ کوئی فیصلہ کیا ہے بلکہ انھوں نے ہمیشہ اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لیا ہے۔ شیخین کے  زمانہ میں سنتِ رسول(ص) معدوم ہوگئی ہوتی اگر علی(ع) اس کو زندہ رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانی نہ دیتے۔

ظن غالب یہ ہے کہ عبدالرحمن  بن عوف نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ آپ کتابِ خدا اور سیرت شیخین کے مطابق حکومت چلائیں گے۔ تو ہم آپ(ع) کو خلیفہ بناتے ہیں۔ علی(ع) نے اس پیش کش کو یہ کہکر ٹھکرادیا تھا کہ میں صرف کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق حکومت کروںگا۔ لہذا آپ(ع) کو خلافت نہ دی گئی کیونکہ وہ سنتِ نبی(ص) کو زندہ کرنا چاہتے تھے عثمان نے اس شرط کو قبول کر کے خلافت لے لی۔ پھر ابوبکر و عمر نے صریح طور پر متعدد بار یہ کہدیا تھا کہ ہمیں سنتِ نبی(ص) کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ اس کی حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو!

ہمارے مسلک کے صحیح ہونے کا اس بات سے اور زیادہ یقین ہوجاتا ہے کہ عثمان بن عفان اس شرط ( کہ سیرت شیخین کے مطابق عمل کرنا ہوگا)  سے یہ سمجھ گئے تھے کہ احکام کےسلسلہ میں اپنے دونوں دوستوں کی طرعح اپنی رائے سے اجتہاد کرلیا جائے گا اور یہ وہ سنت تھی جس کو

۲۳۰

 شیخین نے نبی(ص) کے بعد ایجاد کیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم عثمان کو رائے اور اجتہاد کے سلسلہ میں اپنےدوستوں سے بھی زیادہ مطلق العنان پاتے ہیں۔ اسی بناء پر اکثر صحابہ نے ان پر تنقید کی اور ملامت کرتے ہوئے عبدالرحمن بن عوف کے پاس آئے اور کہا یہ تمھارا کارنامہ ہے۔

اور جب تنقید و شور وغل عثمان کے خلاف بہت زیادہ ہوگیا تو ایک روز انھوں نےصحابہ کے درمیان خطبہ دیتےہوؕے کہا: تم لوگوں نے عمر بن خطاب کے اجتہاد پر کیوں تنقید نہیں کی تھی؟ اس لئے کہ وہ تمھیں اپنے درے سے صحیح رکھتے تھے!

ابنِ قتیبہ کی روایت ہے کہ: جب لوگوں نے عثمان پر تنقید کی تو وہ  خطبہ دینے کے لئے منبر پ رکھڑے ہوئے اور کہا ! اے گروہ مہاجرین و انصار قسم خدا کی تم  نے مجھ پر بہت چیزیں تھوپی ہیں اور بہت سے امور کو دشوار بنادیا ہے۔ جبکہ عمر بن خطاب  کے لئے تم خاموش رہے۔کیونکہ انھوں نے تمھاری زبانیں بند کر رکھی تھیں اور تمھیں ذلیل و خوار بنا رکھا تھا، تم میں سے کسی میں یہجراؔت نہ تھی کہ انھیں آنکھ  پھر کر دیکھ لینا اور نہ ہی آنکھ سے اشارہ کرسکتا تھا۔ قسم خدا کی میرے پا س ابنِ خطاب سے زیادہ افراد  اور مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ( تاریخ الخلفا، ابنِ قتیبہ ص۳۱)

میر اذاتی عقیدہ یہ ہےکہ مہاجرین و انصار میں سے صحابہ نے  عثمان کے اجتہاد پر تنقید نہیں کی تھی ، کیونکہ وہ اجتہاد کے پہلے ہی روز سے عادی تھے اور اسے بابرکت سمجھتے تھے ۔ لیکن صحابہ نے اس لئے عثمان پر تنقید و اعتراض کی بوچھار کی تھی کہ عثمان نے انھیں معزول کرکے کرسیاں اور مناصب اپنے ان فاسق قرابت داروں کو دیئے تھےجو  کہ کل تک اسلام اور مسلمانوں سے جنگ کر رہے تھے۔

یقینا مہاجرین وانصار نے ابوبکر کے خلاف زبان نہیں کھولی تھی۔ کیونکہ ابوبکر و عمر نے انھیں حکومت میں شریک کا ربنا لیا تھا اور ایسے مناصب دیدئیے  تھے جن سے مال و عزت دونوں حاصل

۲۳۱

ہوتے تھے۔

لیکن عثمان نے اکثر مہاجرین و انصار کو معزول کردیا تھا اور بنی امیہ کے لئے بیت المال کا دروازہ کھول دیا تھا چنانچہ صحابہ سے یہ نہ دیکھا گیا اور انھوںنے اعتراضات و شبہات کا سلسلہ شروع کردیا یہاں تک کہ عثمان قتل کردئیے گئے۔

رسول(ص) نے اس حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا تھا:

" مجھے تمہاری طرف سے اپنے بعد یہ خوف  نہیں ہے کہ تم مشرک ہوجاؤ گے۔ لیکن یہ خوف ہے کہ تم مقابلہ بازی میں مبتلا ہوجاؤ گے۔"

حضرت علی(ع)  فرماتے ہیں :

" گویا انھوں نے خدا کا یہ قول  سنا ہی نہیں : ہم نے آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے مہیا کیا ہے جو  نہ زمین پر سربلندی کے خواہاں  اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور عاقبت متقین کے لئے ہے۔" (قصص/۸۳)

" قسم خداکی انھوں نے اس کو سنا اور محفوظ کیا لیکن دنیا ان کی آنکھ میں بن سنور گئی اور اس کی خوبصورتی نے انھیں لبھا لیا۔"

حقیقت تو یہی ہے، لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ صحابہ نے عثمان پر سنتِ نبی(ص) کو بدلنے کی وجہ سے تنقید و اعتراضات کئے تھا تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ اس لئے کہ انھوں ابوبکر و عمر پر اعتراضات نہیں کئے تھے ۔ تو پھر عثمان پر اعتراض کرنے کا حق کہاں سے پیدا ہوا۔ جبکہ ابوبکر و عمر سے کہیں زیادہ عثمان کے ناصر و مددگار تھے۔ جیسا کہ خود عثمان نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ پھر عثمان بنی امیہ کے سردار تھے جو کہ قبیلہ تمیم و عدی، ابوبکر و عمر کے قبیلہ ، کی

۲۳۲

بہ نسبت نبی(ص) سے قریب تھا اور طاقت و نفوذ میں زیادہ  اور حسب و نسب میں بلند تھا۔

لیکن صحابہ نہ صرف یہ کہ ابوبکر وعمر  پر اعتراضات نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی سنت کی اقتدا بھی کرتے تھے۔

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ یہی صحابہ ایسی بہت سی مجلسوں میں شریک رہتے تھے جن میں عثمان سنتِ نبی(ص) کو بدل دیتے تھے جیسے سفر میں پوری نماز پڑھنا ، تلبیہ سے منع کرنا ، نماز میں تکبیر نہ کہنا اور حجِ تمتع سے منع کرنا۔ ان موقعوں پر حضرت علی(ع) کے علاوہ کسی نے بھی عثمان پر اعتراض نہ کیا ۔ انشاء اللہ عنقریب ہم اسے بیان کریں گے۔

صحابہ سنتِ نبی(ص) سے واقف تھے اور خلیفہ عثمان کو راضی رکھنے کے لئے سنتِ نبی(ص) کی مخالفت کو برداشت کرتے تھے۔

بیہقی نے اپنی سنن میں عبد الرحمن بن یزید سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: ہم عبداللہ بن مسعود کے ساتھ تھے۔ پس جب ہم مسجد منیٰ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن مسعود نے کہا : امیرالمؤمنین ( یعنی عثمان) نے کتنی رکعت نماز پڑھی ہے۔ لوگوں نے بتایا چار رکعت تو  انھوں نے بھی چار ، رکعت نماز ادا کی ، راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : کیا آپ نے ہم سے نبی(ص) کی یہ حدیث بیان نہیں کی تھی کہ نبی(ص) دو رکعت  پڑھتے تھے اور ابوبکر بھی دو رکعت پڑھتے تھے؟!

ابن مسعود نے کہا: جی ہاں اور اب بھی تم سے میں وہی حدیث بیان کرتا ہوں ۔ لیکن وہ امام  ہیں اس لئے میں ان کی مخالفت نہیں کرسکتا اور پھر اختلاف میں ہے۔( السنن الکبری جلد۳ ص۱۴۴)

پڑھئے اور عبداللہ بن مسعود ایسے عظیم صحابی پر تعجب کیجئے کہ جنھوں نے عثمان کی مخالفت کرنے کو شر سمجھا اور رسول(ص) کی مخالفت کو خیر تصوّر کیا۔

کیا  اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ نےسنتِ نبی(ص) ترک کردینے کی بناء پر

۲۳۳

 عثمان پر اعتراضات کئے تھے؟!

اور سفیان بن عینیہ نے جعفر بن محمد سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا : عثمان منیٰ میں مریض ہوگئے تھے، علی(ع) تشریف لائے تو لوگوں نےعرض کی آپ(ع) جماعت سے نماز پڑھا دیجئے ۔

علی(ع) نے فرمایا : اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں تیار ہوں لیکن وہی نماز پڑھاؤں گا جو رسول(ص) پڑھتے تھے۔ یعنی دو رکعت:

لوگوں نے کہا : نہیں صرف امیرالمؤمنین عثمان والی نماز چار رکعت ہونی چاہئے ۔ اس پر علی(ع) نے نماز پڑھانے سے انکار کر دیا۔( محلی، ابن حزم ، جلد۴،ص۲۷۰)

پڑھئے اور ان صحابہ پر افسوس کیجئے جن کی تعداد ہزاروں پر مشتمل تھی ۔ کیونکہ وہ حج کے زمانہ میں منیٰ  میں تھے ۔ وہ کیسے صریح طور پر سنتِ رسول(ص) کا انکار کررہے تھے اور صرف عثمان کی بدعت ہی پر راضی تھے۔ اور عبداللہ بن مسعود نے عثمان کی مخالفت کو شر تصور کیا تھا، اور چار ،رکعت نمازادا کی تھی باوجود یکہ انھوں نے دو رکعت والی حدیث بیان کی تھی، ممکن ہے عبد اللہ بن مسعود  ان ہزاروں افراد کے خوف سے، جو عثمان کے فعل ہی سے راضی تھے اور سنتِ رسول(ص) کو دیوار پر دے مارا تھا، تقیہ کیا ہو اور چار ، رکعت نماز ادا کی ہو۔

ان تمام باتوں کے بعد نبی(ص)  اور امیر المؤمنین علی بن ابی طالب(ع) پر درود و سلام بھیجنا نہ بھولئے کہ جنھوں نے عثمان کے چاہنے والوں کو رسول(ص) کی نماز کے علاوہ کسی بھی دوسری نماز پڑھانے  سے انکار کر دیا تھا۔ علی(ع) اپنے عمل سے سنتِ رسول(ص) کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور صحابہ آپ(ع) کی مخالفت کررہے تھے لیکن سنتِ رسول(ص) کے احیاء کے سلسلہ میں علی(ع) نے کسی مالمت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کی اور نہہی ان کی کثیر تعداد سے خائف ہوئے۔

عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ : سفر میں تو نماز دو رکعت ہے اور جس نے سنت کی مخالفت کی وہ کافر ہے۔( سنن بیہقی جلد۳ ص۱۴۰ اور ایسے ہی طبرانی نے معجم کبیر میں اور حصاص نے احکام القرآن کی جلد۲ ص۳۱۰ میں تحریر کیا ہے۔)

۲۳۴

اس طرح عبداللہ بن عمر نے خلیفہ عثمان کو اور ان تمام صحابہ کو کافر قرار دیدیا جو عثمان کا اتباع کرکے سفر میں پوری نماز پڑھتے تھے ۔ اب ہم پھر فقیہ ، عبداللہ بنعمر کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ اسے بھی اس دائرہ میں داخل کردیں جس میں اس نے دوسروں کو داخل کیا  ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے: ابنِ عمر  نے کہا : میں نے مکہ اور مدینہ کے درمیان عثمان و علی(ع) کی گفتگو سنی ، عثمان ، متعہ حج اور  متعہ نساء سے منع کررہے تھے جب کہ علی(ع) دونوں پر عمل کرنے کا حکم دے رہے تھے اور فرمارہے تھے۔لبيک عمرة ، حجة معا : عثمان نے کہا  : آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں لوگوں کو ایک چیز سے منع کررہا ہوں اور  آپ اس کا حکم دے رہے ہیں؟ علی(ع) نے  فرمایا : میں کسی کے کہنے سے سنتِ رسول(ص) کو ترک نہیں کرسکتا ہوں ۔ ( صحیح بخاری، جلد۲ ص۱۵۱ باب التمتع والاقران من کتاب الحج۔)

کیا آپ کو مسلمانوں کے اس خلیفہ پر تعجب نہیں ہوتا جو کہ صریح سنت کی مخالفت کرتے  ہیں اور لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں  لیکن کوئی شخص ان پر اعتراض نہیں کرتا ہاں علی بن ابی طالب(ع) سنتِ رسول(ص) پر عمل کرتے ہیں اور جان کی بازی لگا کر اسے زندہ رکھتے ہیں۔

سچ بتائیے کیا ابوالحسن علی(ع) کے علاوہ صحابہ میں کوئی تھا بھی حاکم کے ہم خیال تھے۔علی(ع) نے کبھی سنت رسول(ص) کو ترک نہ کیا ۔ہمارے اس مسلک پر اہل سنت  کی صحاح وغیرہ شاہد ہیں کہ علی(ع) نے ہمیشہ  سنت نبی (ص) کے احیاء کے لئے اور لوگوں کو س کی طرف پلٹانے کی پوری  کوشش کی۔ لیکن اس رائے کی حقیقت ہی کیا ہے جس پر عمل نہ کیا جاتا ہو۔ جیسا کہ خود حضرت علی(ع) نے فرمایا ہے۔اس زمانہ میں شیعوں کے علاوہ، جو کہ ان سے محبت رکھتے تھے ، ان کا اتباع کرتے تھے اور تمام احکام ان ہی سے لیتے  تھے، کوئی بھی آپ(ع) کی اطاعت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی آپ کے اقوال پر عمل کرتا تھا۔

اس سے ہمارے اوپر یہ بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ نے عثمان پر سنت

۲۳۵

میں تبدیلی کی بنا پر تنقید نہیں کی تھی جیسا کہ ہم ان کی صحاح میں یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کس طرح سنتِ نبی(ص)ٌ کی مخالفت کی۔ لیکن عثمان کی بدعت کی مخالفت نہیں کی لیکن دنیائے دنی کی وجہ سے اور مال و دولت حاصل کرنے کی بنا پر وہ آپے سے باہر ہوگئے۔

یہی لوگ صؒح کے بجائے حضرت علی(ع) سے جنگ کرتے رہے کیوںکہ آپ انھیں عہدوں پر فائز نہیں کرتے تھے اس کے برعکس ان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ جو ناحق مال جمع کرلیا ہے اسے مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کردو تاس کہ ناداروں کی کفالت ہوسکے۔

لائق  تبریک و تحسین ہیں آپ(ع)  اے ابوالحسن (ع) کہ جس نے اپنے پروردگار کی کتاب اور رسول(ص) کی سنت کی محافظت کی۔ آپ(ع) ہی امام المتقین اور مستضعفین کے ناصر ہیں، آپ کے شیعہ ہی کامیاب ہیں۔

کیونکہ وہ کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) سے متمسک رہے اور آپ(ع) کی خدمت میں شرفیاب رہے۔ اور آپ(ع) سے احکام لیتے رہے۔

قارئین محترم کیا ان تمام باتوں کے بعد بھی عثمان بن عفان کا اتباع کرنے والے اہلِ سنت ہیں اور علی(ع) کا اتباع کرنے والے رافضی و بدعت گذار؟

اگر آپ منصف مزاج ہیں تو فیصلہ کیجئے۔" بے شک خدا تمھیں امانت والوں کی امانت لوٹانے کا حکم دیتا ہے، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا تو عدل و  انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا۔( نساء/۵۸)

۴ : طلحہ بن عبید اللہ :

آپ مشہور اور بڑے صحابہ میں سے ایک ہیں اور عمر بن خطاب نے جو خلیفہ کے انتخاب کے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اس کے ایک رکن بھی تھے۔ اور عمر نے ان ہی کے متعلق فرمایا تھا:  اگر یہ خوش ہوں تو مؤمن،غضبناک ہوں تو کافر، ایک روز انسان دوسرے روز شیطان

۲۳۶

ہیں۔ بزعم اہل سنت والجماعت عشرہ مبشرہ میں آپ بھی شامل ہیں۔

جب ہم اس شخص کے متعلق تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے بندے تھے، ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے دنیا کے حصول کے لئے دین بیچ دیا اور گھاٹے سے دو چار ہوئے ۔ ان کی اس تجارت نے انھیں کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ قیامت کے دن پشیمان ہوں گے۔

یہ وہی طلحہ ہے جس نے رسول(ص) کو یہ کہہ کر تکلیف پہنچائی تھی، اگر رسول(ص) مرجائیں گے تو میں عائشہ سے  نکاح کرلوں گا، وہ میری چچازاد ہیں۔ شدہ شدہ رسول(ص) تک بھی یہ بات پہونچ گئی۔ چنانچہ آپ (ص) کو بہت قلق ہوا۔

اور جب آیہ حجاب ( پردے والی آیت) نازل ہوئی اور نبی(ص) کی ازواج پردہ کرنا شروع کردیا تو طلحہ نے کہا : کیا محمد(ص) ہماری چچازاد بیٹیوں کو ہم سے پردہ کرائیں گے ؟ ہماری عورتوں سے نکاح کریں ؟ اگر کوئی حادثہ رونما ہو گیا تو ہم ان (نبی(ص))  کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کریں گے۔ ( تفسیر ابنِ کثیر ، تفسیر قرطبی، تفسیر آلوسی وغیرہ سب میں خداوندِ عالم کے اس قول کی تفسیر میں یہ واقعہ درج ہے۔ماکان ان توذوا رسول الل ه ولا ان تنکحوا ازواجه بعده)

جب رسولِ خدا(ص) کو اس بات سے تکلیف ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی ۔

اور تمھیں رسول(ص) کو تکلیف پہنچانے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بعد کبھی ان کی ازواج سے نکاح کرنے کا حق ہے بے شک خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔( احزاب/۵۳)

یہ وہی طلحہ ہیں جو ابوبکر کے انتقال سے قبل اس وقت ان کے پاس گئے تھے۔ جب انھوں نے عمر کو خلافت کا پروانہ لکھ دیا تھا اور کہا آپ اپنے خدا کو کیا جواب دیںگے جبکہ آپ نے ہمارے اوپر ایک سخت مزاج  کو مسلط کردیا ہے؟ ابوبکر نے سخت کلام میں ان پر سب و شتم کیا۔ ( الامامت  والسیاست ابنِ قتیبہ فی باب وفات ابی بکر و استخلافہ عمر)

۲۳۷

لیکن بعد میں ہم ان کو خاموش اور نئے خلیفہ سے راضی دیکھتے ہیں اور ان کے انصار میں نظر آتے ہیں اور اموال جمع کرنا اپنے ذمہ لے لیا ہے۔  خصوصا اس وقت تو اور  خیر خواہ بن گئے جب عمر نے انھیں خلیفہ ساز چھ رکنی کمیٹی کا رکن بنادیا اور جناب کو بھی اس کی طمع ہونے لگی۔یہ وہی طلحہ ہے جس نے علی(ع) کو حقیر تصوّر کیا اور عثمان کے طرف داروں میں ہوگئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خلافت عثمان ہی کو ملے گی اور پھر اگر علی(ع) کو خلافت مل بھی جاتی تو ان کی طمع پوری نہیں ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت علی(ص) نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: ان میں سے ایک تو بغض اور کینہ کی وجہ سے ادھر جھک گیا اور دوسرا دامادی اور دیگر ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر چلاگیا۔۔۔۔۔

شیخ محمد بن عبدہ اپنی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔ طلحہ عثمان کی طرف زیادہ مائل تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے درمیان قرابت تھی  جیسا کہ بعض راویوں نے نقل کیا ہے اور عثمان کی طرف ان کے میلان اور علی(ع) سے منحرف ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ تیمی ہیں اور جب سے ابوبکر خلیفہ بنے تھے اس وقت سے بنی ہاشم اور بنی تیم کے درمیان رسہ کشی چلی آرہی تھی۔ ( شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ جلد۱، ص۸۸، خطبہ شقشقیہ۔)

اس میں کوئی شک نہیں ہے غدیر میں بیعت کرنے والے صحابہ میں یہ بھی شامل تھے۔ اور انھوں نے بھی رسول(ص) کی زبان سے ، من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ سنا تھا۔بے شک انھوں نے رسول(ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا ۔ علی(ع) کے ساتھ  ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے۔ خیبر میں بھی آپ اس وقت موجود تھے جب رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو علم دیا تھا اور فرمایا تھا: علی(ع) خدا اور اس کے رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں اور خدا و رسول(ص) انھیں دوست رکھتے ہیں۔ طلحہ یہ بھی جانتے تھے کہ علی(ع)  نبی(ص) کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے اور اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں جانتے تھے۔

لیکن طلحہ کے سینے میں بغض کی آگ دبی ہوئی تھی، حسد سے دل لبریز تھا وہ جو بھی دیکھتے خاندانی تعصب کی نظر سے دیکھتے تھے پھر اپنی چچازاد بہن عائشہ کی طرف مائل تھے جس سے نبی(ص)

۲۳۸

کے بعد شادی رچانا چاہتے تھے لیکن قرآن نے ان کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا۔

جی ہاں طلحہ عثمان سے مل گئے ، ان کی بیعت کر لی کیونکہ وہ انھیں انعام واکرام سے نوازتے تھے۔ اور جب عثمانتختِ خلافت پر متمکن ہوگئے تو طلحہ کو بے حساب مسلمانوں کا مال دے دیا۔ ( طبری ، ابنِ ابی الحدید اور طہ حسین نے فتنۃ الکبری میں اس کا ذکر کیا ہے طلحہ عثمان کاپچاس ہزار کا مقروض تھا ایک روز طلحہ نے عثمان سے کہا کہ مٰیں نے تمہارا قرض چکانے کے لئے پیسہ جمع کر لیا ہے ایک روز ویہ پیسہ جو عثمان سے ملتا تھا۔ بھیج دیا تو عثمان نے کہا کہ یہ تمھاری مروت کا انعام ہے۔ کہا گیا کہ عثمان نے مزید دو لاکھ طلحہ کو دیئے۔

پس ان کے پاس اموال غلاموں اور چوپایوں کی کثرت ہوگئی یہاں تک ہر روز عراق سے ایک ہزار دینار آتے تھے۔

ابنِ سعد طبقات میں تحریر فرماتے ہیں۔ جب طلحہ کا انتقال ہوا اس وقت ان کا ترکہ تین ملین درہم تھا اور دو ملین دو  لاکھ دینار نقد موجود تھے۔

اسی لئے طلحہ سرکش ہوگئے اور جرت بڑھ گئی اور اپنے جگری دوست عثمان کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے تاکہ خود خلیفہ بن جائیں ۔

شادی ام المؤمنین عائشہ نے بھی انھیں خلافت کی طمع دلائی تھی۔ کیوں کہ عائشہ نے بھی پوری طاقت سے عثمان کو خلافت سے ہٹانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ عائشہ کو یقین تھا کہ  خلافت ان کے چچازاد طلحہ کو ملے گی۔ اور جب انھیں عثمان کے قتل کی اطلاع ملی اور یہ خبر پہنچی کہ لوگوں نے طلحہ کی بیعت کر لی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا: نعثل کی ہلاکت کے بعد خدا سے غارت کرے اور خوش ہو کر کہا کہ مجھے جلد میرے ابنِ عم کے پاس پہنچا دو لوگوں کو  خلافت کے سلسلہ میں کو ئی طلحہ جیسا کہ نہ ملا۔

جی ہاں طلحہ نے یہ عثمان کو  احسان کا بدلہ دیا ہے۔ جب عثمان نے انھیں مالدار بنا دیا تو طلحہ نے خلافت حاصل کرنے کی غرض سے انھیں چھوڑ دیا اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے لگے اور ان

۲۳۹

 کے سخت مخالف بن گئے۔ یہاں تک محاصرہ کے زمانہ میں خلیفہ کے پاس  پانی بھیجنے کو منع  کردیا تھا۔

ابنِ ابی الحدید کہتے ہیں کہ عثمان نے محاصرہ  کے زمانہ میں کہا تھا:

خدا طلحہ کو غارت کرے میں نے اسے اتنا سونا چاندی دی اور وہ میرے خون کا پیاسا ہے  اور لوگوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے، پروردگارا وہ اس (  مال) سے فائدہ نہ اٹھانے پائے اور اسے اس کی بغاوت کا مزہ چکھادے۔

جی ہاں یہ وہی طلحہ ہے جو عثمان کی طرف جھک گیا تھا اور اس لئے انھیں خلیفہ بنا دیا تھا تاکہ علی(ع)  خلیفہ نہ بن سکیں۔ چنانچہ عثمان نے بھی انھیں سونے چاندی سے مالا مال کیا آج وہی لوگوں کو عثمان سے بدظن کررہے ہیں  اور ان کے قتل پر اکسا رہے ہیں۔ اور ان کے پاس جانے سے منع کررہے ہیں  اور جب دفن کے لئے ان کا جنازہ لایا گیا تو انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے منع کیا۔ پس  حشِ کو کب " یہودیوں کے قبرستان " میں دفن کیا گیا۔( تاریخ طبری، مدائنی ، واقدی نے مقتلِ عثمان میں لکھا ہے۔)

قتلِ عثمان کے بعد ہم طلحہ  کو سب سے پہلے علی(ع) کی بیعت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر وہ بیعت توڑ دیتے ہیںاور مکہ میں مقیم اپنی چچازاد  بہن عائشہ سے جاملتے ہیں اور اچانک عثمان کے خون کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، سبحان اللہ، کیا اس  سے بڑھ کر بھی کوئی بہتان ہے؟!

بعض مؤرخین نے اسکی یہ علت  بیان کی ہے کہ علی(ع) نے انھیں کوفہ کا گورنر بنانے سے انکار کردیا  تھا اس لئے انھوں نے بیعت توڑی تھی اور اس امام سے جنگ کیلئے  نکل  پڑے تھے جس کی کل بیعت کرچکے تھے۔

یہ اس شخص کی حالت ہے جو کہ سر سے پیروں تک دنیوی خواہشات میں غرق ہوچکا ہے اور آخرت کو بیچ چکا ہے اور اس کی تمام کوششیں جاہ و منصب کے لئے ہوتی تھیں ۔ طہ حسین کہتے ہیں۔ طلحہ کی جنگ خاص نوعیت کی حامل ہے۔ جب تک ان کو ان کی مرضی کے مطابق دولت و عہدہ ملتا رہا خوش رہے جب اور طمع بڑھ گئی تو جنگ کے لئے تیار ہوگئے ۔ یہاں تک کہ خود بھی

۲۴۰