شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 98801
ڈاؤنلوڈ: 4784

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98801 / ڈاؤنلوڈ: 4784
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایک روز سعد ابن ابی وقاص معاویہ ابن ابی سفیان کے پاس گئے تو معاویہ نے ان سے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ علی(ع) سے جنگ نہیں کرتے؟

سعد نے کہا: میرے قریب  سے سیاہ آندھی گذری تو میں نے کہا : اخ اخ اور اپنی سواری کو بٹھادیا۔ جب ہوا گذر گئی تو پھر میں راست سمجھ گیا اورسفر شروع کردیا۔

معاویہ نے کہا: کتابِ خدا میں اخ اخ نہیں ہے  بلکہ خداوند عالم نے یہ فرمایا ہے اگر مؤمنین میں سے دوگروہ آپس میں جنگ کرنے لگیں تو دوںوں میں صلح کرادو ، پس اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ خدا کےحکم کی طرف رجوع کرے۔ حجرات/۹۔

قسم خدا کی تم عادل کے خلاف باغی کےساتھ نہیں تھے اور نہ ہی باغی کے خلاف  عادل کےساتھ تھے ۔

اب سعد نےکہا : میں اس شخص سے ہر گز جنگ نہیں کروں گا جس کے بارے میں رسول(ص) نے یہ فرمایا  ہے:

تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسی(ع) کے لئے  ہارون(ع)  تھے ۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

معاویہ نے کہا یہ حدیث تمھارے ساتھ اور کس نے سنی تھی؟

سعد: فلاں فلاں نے اور ام سلمہ نے  ، معاویہ اٹھا اور امّ سلمہ سے پوچھا تو امّ سلمہ نے وہی حدیث بیان کی جو سعد نے بیان کی تھی ، معاویہ نے کہا:

اگر  یہ  حدیث میں آج سے پہلے سن لیتا تو علی(ع) کا خدمت گذار بن جاتا یہاں تک کہ میں یا وہ موت سے ہمکنار ہوتے۔" تاریخ ابنِ کثیر ج۸ ص۷۷۔

مسعودی نے بھی اپنی تاریخ میں سعد اور معاویہ کی ایسی ہی گفتگو نقل کی ہے اور جب سعد نے معاویہ کو حدیثِ منزلت سنائی تو اس نے کہا : تم میرے ہرگز نہیں تھے اور نہ اب

۲۶۱

ہو اور نہ انکی بیعت سےمنحرف تھے؟ لیکن اگر میں یہ حدیث نبی(ص) سے سن لیتا جو کہ تم نے سنی تھی تو میں زندگی بھر علی(ع)  کا غلام رہتا۔ " مروج الذہب ، حالات سعد ابن ابی وقاص۔"

اور فضائل علی(ع) کےسلسلہ میں ابی وقاص نے جو حدیث معاویہ سے بیان کی تھی یہ ان سینکڑوں حدیثوں میں سے  ایک ہے جو کہ ایک ہی مقصد پر دلالت کرتی ہیں اور وہ یہ کہ علی بن ابی طالب(ع) تن تنہا وہ شخص ہیں جو رسول(ص) کےاور اسلام کے پیغام کو پہونچانے والے ہیں اور آپ(ع)ے علاوہ کسی اور میں اس کی طاقت نہیں ہے ۔ اور جب بات یہ ہے تو سزوار ہے کہ تمام صالح مومنین تا حیات علی(ع) کی خدمت کریں۔

اور معاویہ کا یہ کہنا کہ اگر آج سے پہلے میں یہ حدیث سن لیتا تو میں زندگی بھر علی(ع) کی خدمت کرتا حق ہے اور علی(ع) کی خدمت ہر مؤمن اور مؤمنہ فخر تصور کرتے ہیں۔

لیکن معاویہ نے  یہ بات سعد بن ابی وقاص کا مضحکہ اڑانے کے لئے کہی تھی تاکہ ان پر سب وشتم کریں اور تہین کریں اس  لئے کہ سعد نے علی(ع) پر لعنت کرنےسےانکار کردیا تھا اور وہ اس  سے راضی نہیں تھے۔

ورنہ معاویہ فضائل علی ابن ابی طالب(ع) کے سلسلہ میں حدیث منزلت سے  زیادہ حدیثیں جانتا تھا اور اس بات سے بے خبر نہیں تھا کہ رسول(ص) کےبعد علی(ع) سب سے افضل ہیں جیسا کہ اس نے اس بات کو صراحت کےساتھ اس خط میں لکھا ہے جو کہ محمد ابن ابی بکر کو  لکھا  تھا انشاء اللہ عنقریب ہم اسے بیان کریں گے۔

اور کیا  سعد سے یہ حدیث سن کر ، کہ جس کی ام سلمہ نےبھی تصدیق کی تھی ، معاویہ نے علی(ع) پر سب وشتم کا سلسلہ بند کردیا تھا۔

ہرگز نہیں ، اس کی گمراہی میں اور اضافہ ہوگیا تھا اور گناہوں کے ارتکاب سے عزت حاصل کرتا تھا پس علی(ع) اور اہلبیت علی(ع) پر لعنت کرنے لگا اور لوگوں سے زبردستی لعنت کراتا تھا اور یہ لعنت کا سلسلہ اسی(۸۰) سال تک جاری رہا کہ جس میں بچہ جوان اور جوان  بوڑھا ہوجاتا ہے۔

۲۶۲

پس جب تمہارے پاس علم آچکا ہے اگر اس کے بعد بھی کوئی تم سے حجت کرے  تو تم کہدو کہ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ،ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو لالؤ پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر خدا کی  لعنت کریں۔ " آل عمران آیۃ۶۱۔"

۲۶۳

۷: عبدالرحمن بن عوف

زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عمرو تھا ۔ نبی(ص) نے عبدالرحمن رکھ دی تھا، ان کا تعلق بنی زہرہ سے تھا اور سعد ابن ابی وقاص  کے چچا زاد بھائی تھے۔

آپ بھی بزرگ صحابہ اور اولین مہاجرین میں سے تھے اور ہر جگہ نبی(ص) کے ساتھ رہتے تھے اور اس چھ رکنی کمیٹی کے ممبر بھی تھے جو کہ عمر بن خطاب نے خلیفہ منتخب کرنے کے لئے بنائی تھی ممبر ہی نہیں بلکہ کمیٹی کے صدر تھے۔ اور ان سب پر مقدم تھے کیونکہ عمر نے کہا تھا کہ جب تمھارے درمیان خلافت کےسلسلہ میں اختلاف ہوجائے تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہوں گے اس کو  حق سمجھنا۔

آپ ان دس افراد میں بھی شمار ہوتے ہیں جن کو اہلِ سنت والجماعت کے عقیدہ کے مطابق جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

اور یہ بھی مشہور  ہے کہ عبدالرحمن بن عوف قریش کے بڑے تاجروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے بھی مؤرخین کی تحریر کے مطابق خاصی ثروت اور بے مال چھوڑا تھا، ایک ہزار اونٹ سوگھوڑے ، دس ہزار بھیڑ بکریاں اور بہت سی ترائی کی زمنین تھیں۔ جب میں زراعت ہوتی تھی۔ اور ان کے ترکہ سے ان کی چار عورتیں میں سے ہر ایک کو چوراسی ہزار ملے تھے۔ ( طبری ، مروج الذہب ابن سعد اور طہ حسین وغیرہ)

عبدالرحمن بن عوف عثمان بن عفان کے بہنوئی تھے۔ کیونکہ انھوں نے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط سے  شادی کی تھی جو کہ عثمان کی مادری بہن تھی۔

تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت علی(ع) کو خلافت سے الگ رکھنے کے لئے سیرت شیخین کی شرط رکھ کر بہت بڑا کردار  ادا کیا تھا، ابن عوف جانتے تھے کہ علی(ع) اس شرط کو کبھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ ان کی سنت و سیرت کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے

۲۶۴

 خلاف تھی۔

ہمارے لئے یہی ایک چیز کافی ہے جو عبدالرحمن کے جاہلیت والے تعصب اور سنت محمدی(س) سے دور اور عترت طاہرہ(ع) کے خلاف کی جانے والی سازش میں شریک تھے۔ اور خلافت کو قریش میں قرار دینے والے تھے۔

بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الاحکام کے " کیف یبائع الناس" والے باب میں روایت کی ہے کہ مسعود نے کہا : رات کا کچھ حصہ گذر جانے کے بعد عبدالرحمن میرے پاس آئے  اتنا دروازہ کھٹکھٹایا کہ میں بیدار ہوگیا ۔ انھوں نے کہا میں تمھیں نیند میں محسوس کررہا ہوں۔ قسم خدا کی اس شب مجھے نیند نہیں آئی۔ جاؤ زبیر اور سعد کو بلا کے لاؤ میں نے ان سے کہا عبدالرحمن نے آپ لوگوں کو بلایا ہے( وہ آئے) انھوں نے ان سے مشورہ کیا پھر مجھے بلایا اور کہا جاؤ علی(ع) کو بلا کے لاؤ ۔ میں بلانے گیا۔ وہ آگئے تو ان سے بھی مشورہ کیا ۔ یہاں تک آدھی رات گذر گئی ۔ پھر علی(ع) ان کے پاس سے اٹھ  گئے ۔ جبکہ وہ خلافت کے خواہاں تھے اور عبدالرحمن علی(ع) کی طرف سے ڈر رہے تھے۔ پھر مجھ سے کہا جاؤ عثمان کو بلا کے لاؤ میں  بلا لایا پھر  ان سے مشورہ کیا اور ان دونوں میں صبح کی  اذان تک گفتگو ہوتی رہی۔

پس جب لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی اور منبر کے پاس جماعتیں جمع ہوگئیں تو مہاجرین و انصار میں سے جو وہاں موجود تھا اسے اس کے خاندان کے پاس بھیجا اور لشکر کے سرداروں کے پاس بھی آدمی بھیجا گیا۔ وہ اس  عہد کو پورا کررہے تھے جو عمر کے ساتھ کرچکے تھے۔

جب سب جمع ہوگئے تو عبدالرحمن نے کلمہ شہادتیں  پڑھا اور کہا۔ اما بعد اے علی(ع) میں نے لوگوں کے امر میں غور کیا  اور مشورہ کیا لیکن وہ عثمان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ وہ عثمان کو زیادہ دوست رکھتے ہیں پس آپ(ع) اپنے خلافت راستہ نہ بنائے ۔ اس کے بعد عثمان کو مخاطب کر کے کہا : میں سنت خدا و رسول(ص) پر اور سیرتِ شیخین پر تمہاری بیعت کرتا ہوں ۔ پس عبدالرحمن نے بیعت کی تو مہاجرین و انصار ، لشکر کے سرداروں اور دیگر مسلمانوں نے عثمان کی بیعت کی ۔

۲۶۵

 ( صحیح بخاری جلد۸،ص۱۲۳)

ایک محقق بخاری کی نقل کردہ روایت سے یہ بات اچھی طرح  سمجھ سکتا ہے کہ سازش رات ہی میں ہوچکی تھی اور اس چالبازی کو بھی سمجھ سکتا ہے جس سے عبدالرحمن ابن عوف فائدہ اٹھارہے تھے اور جس کام کے لئے عمر نےانھیں معین کیا تھا وہ اس  سے معاف نہیں کئے جاسکتے تھے۔

مسور ، راوی کے قول  میں تامل کیجئے ۔ میں علی(ع) کو بلا کے لایا پس دونوں نے مشورہ کیا پھر علی(ع) کے پاس کھڑے ہوگئے جبکہ وہ خلافت کے خواہاں تھے۔

اس سے یہ بھی معلوم  ہوتا ہے کہ عبدالرحمن ابن عوف وہ شخص ہے جس نے علی(ع) کو خلافت کا یقین دلایا تھا یہاں تک اس چاپلوس شوریٰ میں علی(ع) کو شامل کر لیا اور ایک بار پھر امت کے تفرقہ کا باعث بن گئے جیسا کہ اس سے قبل سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کے سلسلہ میں ہوچکا تھا۔ اور  اس احتمال کے صحیح ہونے کی تاکید مسور کا قول کررہا ہے ۔ عبدالرحمن علی(ع) کے متعلق کس چیز سے ڈر رہے تھے ۔ اسی لئے عبدالرحمن نے ایک دھوکا دینے والا کھیل کھیلا چنانچہ رات میں علی(ع) کو خلافت کے بارے میں اطمینان دلایا اور جب صبح کو ، لشکر کے سردار ، قبیلوں کے رئیس اور قریش کےسربرآوردہ افرد جمع ہوئے اس وقت عبدالرحمن بن عوف پھر  گیا اور ناگہاں علی(ع)  سے کہا۔لوگ عثمان کے برابر کسی کو تصور نہیں کررہے ہیں حضرت علی(ع) کو با دلِ نخواستہ یہ بات قبول کربا پڑی ورنہ اپنے خلاف ایک محاذ اور مشکلات ایجاد کر لیتے ( یعنی اگر ان کے بنائے ہوئے خلیفہ عثمان کی مخالفت کرتے تو قتل کردیئے جاتے)

ایک  محقق اس کھیلی جانے والی سازش سے اس وقت بخوبی یہ بات سمجھ لے گا کہ جب روایت کا یہ فقرہ پڑھے گا کہ" پس جب لوگ جمع ہوگئے تو عبدالرحمن نے کلمہ پڑھا اور پھر کہا: اے علی(ع) میں نے لوگوں کےسلسلہ میں بہت غور کیا لیکن وہ کسی کو بھی عثمان کے برابر نہیں سمجھتے لہذا تم اپنے خلاف محاذ نہ کھڑا کرو۔ اور پھر عبدالرحمن نے اس بھرے پرے مجمع میں علی(ع) ہی کو کیوں مخاطب کیا یہ کیوں نہ کہا: اے علی(ع) و اے طلحہ اور اے زبیر؟!

۲۶۶

اسی سے تو ہم یہ بات سمجھے کہ رات میں معامہ کچھ اور تھا اور پوری جماعت عثمان کو خلیفہ بنانے اور حضرت علی(ع) کو خلافت سے دور رکھنے کے سلسلہ میں متفق تھی۔

ہم یقین کےساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ یہ تمام لوگ علی(ع) سے خوفزدہ تھے اور سوچتے تھے کہ اگر علی(ع) خلیفہ بن جائیں گے تو انھیں عدل و مساوات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کریں گے ۔ اور ان کے درمیان سنت نبی(ص)  کو زندہ کریں گے اور  عمر بن خطاب کی اس بدعت کا جنازہ نکال دیںگے جس میں انھون نے عرب کو عجم پر فوقیت دیدی تھی اور خود عمر بن خطاب نے بھی مرنے سے قبل اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا اور انھیں علی(ع) کے خطرہ سے خبردار کیا تھا: اگر علی(ع) اس امت کے خلیفہ بن جائیں تو وہ اس کو ٹھیک راستہ پر  پھر لگادیں گے ۔ یعنی سنتِ نبوی(ص) پر چلائیں گے لیکن اس بات کو عمر دوست نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی قریش کو یہ بات پسند تھی۔ اگر انھیں ذرا بھی سنتِ نبی(ص) سے محبت ہوتی تو وہ ضرور  علی(ع) کو خلیفہ بناتے اور آپ(ع) بھی ان سے ضرور سنت پر عمل کراتے اور دوبارہ اس کی طرف لوٹا دیتے پھر آپ(ع) ہی رسول(ص) کے جانشین تھے اور  ان کی سنت پر ثابت و قائم  تھے۔اور جیسا کہ ہم طلحہ و زبیر اور سعد والی بحثوں میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے کانٹے بوئے اور شرمندگی اور خسارت کاٹی ہے۔

اب عبدالرحمن بن عوف اور اس کی تدبیر کا نتیجہ دیکھنا چاہئے ۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف اس وقت بہت پشیمان ہوئے جب انھوں نے عثمان کو سنتِ شیخین کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھا اور دیکھا کہ عثمان حکومت کے عہدے اور لمبی لمبی رقمیں اپنے اقارب میں تقسیم کررہے ہیں۔ چنانچہ ایک روز ان کے پاس گئے اور ان پر غضبناک ہوئے اور کہا: میں نے تمہیں صرف اس لئے مقدم کیا تھا کہ تم ہمارے درمیان سیرتِ ابوبکر و عمر پر  عمل کروگے اب تم ان کی مخالفت کررہے ہو بنی امیہ میں اموال تقسیم کررہے ہو اور انھیں مسلمانوں کی گردن پر مسلط کررہے ہو۔ ( اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے استبدادی طور پر عثمان کو خلیفہ بنایا تھا اس میں لوگوں کے مشورہ کا کوئی دخل نہیں تھا جیسا کہ اہل سنت کا گمان ہے۔)

۲۶۷

عثمان نے کہا: عمر نے اپنے وقرابتداروں  سے خدا کے لئے صلہ رحم نہیں کیا ۔ میں اپنے قرابتداروں سے خدا کے لئے صلہ رحم کرتا ہوں۔ عبدالرحمن نے کہا: قسم خد ا کی میں اب تم سے کبھی کلام نہیں کروں گا اور عبدالرحمن مرگئے۔لیکن عثمان سے کلام نہیں کیا اور قطع تعلقی رکھی ۔ ایک مرتبہ عیادت کےلئے عثمان انکے پاس گئے تو انھوں نے دیوار کی طرف رخ پھیر لیا اور ان سے بات تک نہ کی ۔ ( تاریخ ابوالفداء جلد۱،ص۱۶۶، انساب الاشراف ، بلاذری جلد۵، ص۵۷، العقد الفرید، ابنِ عبدربہ مالکی جلد۲، ص۲۶۱)

اور اس طرح خدا نے علی(ع) کی وہ بد دعا سن لی جو آپ(ع)  نے عبدالرحمن کے لئے فرمائی تھی جیسا کہ طلحہ و زبیر کے بارے میں بھی آپ(ع) کی دعا مستجاب ہوئی تھی اور وہ دونوں اسی روز قتل ہوگئے  تھے جس دن بد دعا کی تھی۔

ابن ابی الحدید معتزلی شرحِ نہج  البلاغہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ شوری کے روز علی(ع) غضبناک ہوگئے تھے اور عبدالرحمن کی سازش کو سمجھ گئے تھے اور اس سے فرمایا تھا:

" قسم  خدا کی تم نے عثمان کو خلافت اس لئے دی ہے کہ تمھیں ان سے امید ہے جیسا کہ تمھارے دوست (عمر) کو اپنے دوست ( ابوبکر) سے امید تھی خدا  تمھارے درمیان نفرت و عداوت پیدا کرے ۔" ( شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید جلد۱ ص۶۳)

حضرت علی(ع) کی مراد یہ ہے کہ عبدالرحمن یہ جانتے ہیں کہ عثمان اپنے بعد عبدالرحمن کو خلیفہ بنادیں گے جیسا کہ ابوبکر نے اپنے بعد عمر کو خلیفہ بنادیا تھا اور علی(ع) نےعمر سے  فرمایا تھا:

اچھی طرح دودھ لو اس میں تمھارا بھی حصہ ہے آج تم ان کی حکومت مضبوط کردو تاکہ وہ کل تم ہی کو لوٹا دیں۔

پس خدا نے آپ(ع) کی دعا سن لی اور چند ہی سال کے بعد عثمان اور عبدالرحمن کے درمیان خدا نے بغض و عداوت پیدا کردی اور ایسی دشمنی کہ عبدالرحمن نے اپنے سالے عثمان سے مرتے دم تک کلام

۲۶۸

 نہ کیا اور اپنے جنازہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی۔

اس مختصر بحث سے ہم پر یہ بات بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف قریش کے ان لوگوں کے راس و رئیس تھے جنھوں نے سنتِ رسول(ص) کو چھپایا اور اسے خلفا کی بدعت سے بدل دیا۔ جیسا کہ ہم  پر یہ بھی عیاں ہوچکی ہےکہ امام علی(ع) تنہا وہ ہیں جنھوں نے خلافت اور اس کے فوائد  کو سنتِ محمدی(ص) کی حفاظت پر قربان کردیا۔ جوکہ آپ(ع) کے ابن عم محمد بن عبداللہ صلوٰت اللہ و سلامہ علیہ  وعلی آلہ الطیبین الطاہرین لائے تھے۔

قارئین محترم نے شک آپ اہل سنت والجماعت کی حقیقت  سے واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل سنت کون ہیں۔ پس مؤمن دھوکا کھا سکتا ہے لیکن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا۔

۲۶۹

۸ : امّ المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر :

آپ زوجہ نبی(ص) اور ام المؤمنین ہیں ۔ آپ سے نبی(ص)نے ہجرت کے دوسرے یا یسرےت سال نکاح کیا تھا اور مشہور قول یہ ہے ۔ عائشہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو رسولِ خدا(ص) نے رحلت فرمائی۔

اس بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب ہے کہ ہر اس عورت کو ام المؤمنین کہا جاتا ہے جس سے رسول(ص) نے نکاح کیا تھا۔ جیسا کہ ام المؤمنین خدیجہ ، ام المؤمنین حفضہ، ام المؤمنین ماریہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔

میں نے بہت سے لوگوں سے گفتگو کے دوران یہ اندازہ لگایا کہ وہ لفظ ام المؤمنین کے معنی نہیں سمجھ پاتے اور یہ نہیں جانتے کہ ازواجِ نبی(ص) کو ام المؤمنین کیوں کہا جاتا ہے۔

اہل سنت اگر چہ نبی(ص) کی دیگر ازواج سے بھی حدیث نقل کرتے ہیں لیکن زیادہ تر عائشہ سے نقل کرتے ہیں۔ اورع نصف دین انھوں حمیراء عائشہ سے ہی لیا ہے۔

گویا لفظ ام المؤمنین کو  ایک عظیم فضیلت تصور کرتے ہیں جو کہ تمام ازواج کو چھوڑ کر عائشہ سے مخصوص ہے۔

حال یہ ہے کہ خدا نے نبی(ص) کی وفات کے بعد ازواجِ نبی(ص) کو مؤمنین پر حرام قرار دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

اور تمھارے لئے یہ جائز نہیں ہےکہ تم نبی(ص) کو اذیت دو اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ تم انکے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو! بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ " ہے ۔ نیز ارشاد ہے۔ نبی(ص) تو مؤمنین پر ان کی جانوں سے بڑھ  کر حق رکھتے ہیں اور ان کی ازواج مؤمنین کی مائیں ہیں ۔ ( الاحزاب۔ ۵۳ اور ۶)

گزشتہ بحث میں ہم اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ نبی(ص) کو طلحہ کے اس قول سے تکلیف پہونچی تھی  کہ " محمد(ص) کا انتقال  ہوجائے گا تو میں اپنی چچازاد عائشہ سے نکاح کرلوں گا۔

۲۷۰

پس خداوندِ متعال نے چاہا کہ نبی(ص) کی ازواج کو مؤمنین پر اسی طرح حرام کردے جس طرح ان پر ان کی مائیں حرام ہیں۔

جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ عائشہ بانجھ تھیں اور وہ کبھی حاملہ نہیں ہوئیں اور نہ ہی کو ئی اولاد چھوڑی ہے ۔، ہاں تاریخ مسلمین کی وہ بڑی شخصیتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے کسی کو تختِ  خلافت  پر بٹھانے اور کسی کو خلافت سے دور رکھنے میں بڑے کردار ادا کئے ہیں۔ انھوں نے ایک قوم کو فروغ دیا اور دوسری کو پراکندہ کردیا۔

جنگوں میں شرکت کی۔ کمانڈری کی، قبائل کے رئیسوں کے پاس خط بھیجے۔ حکمرانی کی، بہت سی چیزوں سےروکا، لشکروں کے سرداروں کو معزول کیا اور نئے سرداروں کا تقرر کیا اور جنگِ جمل میں تو ان کی حیثیت تو چکی میں  اس کیل کی سی تھی جس کے چاروں طرف پاٹ گھومتا ہے۔ چنانچہ طلحہ و زبیر نے جو کچھ کیا ان کی قیادت میں کیا۔

ہم ان کی زندگی کے ادوار کو  ترتیب وار شمار نہیں کرانا چاہتے ۔ ان کے حالات ہم اپنی کتاب " فاسئلوا اہل الذکر" میں تفصیلی طور پر بیان کر چکے ہیں۔ تفصیل کے خوہان مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

اس بحث می ہمارے لئے جو چیز اہم ہے وہ ان کا اجتہاد اور سنتِ بنی(ص) کو بدک دینا ہے۔ اس کے لئے بعض مثالوں کا بیان کردینا ضروری ہے تاکہ ہم ان عظیم لوگوں کے سلسلہ کو  سمجھ جائیں جو  کہ بڑے افتخار کے ساتھ خود کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور ان افراد کو جو ان کی اقتداء کرتے ہیں اور انھیں ئمہ طاہرین(ع) پر مقدم کرتے ہیں۔

در حقیقت یہ پہلی تحریک ہےجس میں سنتِ نبی(ص) کو محو  کرنے اور اس کے نشانات کو مٹانے اور  اس کے نور جو بجھانے  کےلئے مستقل طور  پر جاری رہی اور اگر علی(ع) اور ان کی ذریت سے ہونے والے ئمہ نہ ہوتے تو  آج ہمیں سنت کا نشان بھی نہ ملتا۔

یہ  تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ عائشہ سنتِ رسول(ص) پر عمل نہیں کرتی تھیں اور نہ ہی اس کی اہمیت سمجتھی  تھیں جب کہ انھوں نے اپنے شوہر سے حضرت علی(ع)  کے متعلق بہت سی حدیثیں سنی تھیں۔ لیکن سب کو  ٹھکرا دیا تھا اور سراسر ان کے خلاف عمل کیا اور حکمِ خدا  و حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی ۔ گھر سے

۲۷۱

 نکل کر جنگِ جمل میں ایسی گھناونی جنگ کی  قیادت فرمائی کہ جس میں حرمت ضائع ہوئی۔ نیکوکار قتل ہوئے اور عثمان بن حنیف کو لکھے گئے  عہد نامہ کے سلسلہمیں  خیانت ہوئی اور جب ان کے سامنے قیدی لائے گئے تو ان کی گردن مارنے کا حکم دیا گیا۔ گویا انھوں نے نبی(ص) کا یہ قول سنا ہی نہیں تھا کہ مسلمانوں پر سب وشتم کرنا فسق ہے اور انھیں قتل کرنا کفر ہے۔( بخاری ج۸ ص۹۲)

ان جنگوں اور فتنوں کو چھوڑئیے جن کی آگ ام المؤمنین عائشہ نے بھڑکائی تھی اور جن سے نسلیں اور کھیتیاں اجڑ گئیں تھیں ، آپ ہمارے ساتھ آئیے اور دینِ خدا  میں ان کی تاویل ملاحظہ فرمائیے اور جب صرف صحابی صاحب رائے ہے اور اس کو قول حجت ہے تو پھر اس ذات کا کیا حال ہوگا جس سے ںصف دین لیا کیا ہے؟!

بخاری نے اپنی صحیح کے ابواب التقصیر میں زہری سے اور انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ عائشہ نے کہا : پہلے نماز دو ہی رکعت فرض کی گئی تھی اس کے بعد وہ سفر کے لئے معین ہوئی اور حضر میں پوری نماز فرض ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ میں نے  عروہ سے کہا پھر عائشہ کو کیا ہوگیا کہ وہ  سفر میں بھی پوری نماز پڑھتی ہیں؟ عروہ نے کہا کہ عثمان کی طرح تاویل کر لی ہوگی۔ ( صحیح بخاری ج۲، ص۳۶)

کیا یہ بات قابل تعجب نہیں ہے کہ ام المؤمنین ، زوجہ رسول(ص) اس سنتِ نبی(ص) کو ترک کررہی ہیں جس کی خود راوی ہیں اور پھر عثمان بن عفان کی بدعت کا اتباع کررہی ہیں کہ جس کے قتل پر لوگوں یہ کہہ کر ابھارتی تھیں کہ اس (عثمان) نےسنتِ نبی(ص) کو بدل ڈالا اور رسول(ص) کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی سنت کو بھلادیا ہے۔

یہ ہیں عائشہ کے وہ کارنامے جو انھوں نے عہد عثمان میں انجام دیئے ۔ لیکن معاویہ بن ابی سفیان کے زمانے میں ان کی رائے بدل گئی اور کتنی جلد ام المؤمنین کی رائے بدل گئی۔ ابھی کل ہی کی بات ت ہے جب کوگوں کو قتل عثمان پر اکسارہی تھیں اور جب یہ خبر ملی کہ عثمان کو لوگوں نے قتل کردیا اور علی(ع) کی بیعت کرلی تو ان کی رائے بدل گئی اور عثمان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور ان کے خون کا

۲۷۲

 انتقام لینے کے لئے نکل کھڑی ہوئیں۔

روایت کا مفہوم یہ  ہے کہ عائشہ نے معاویہ کے زمانہ میں نمازِ سفر دو کے بجائے چار رکعت پڑھی کیونکہ معاویہ اپنے چچازاد بھائی اور ولی نعمت عثمان بن عفان کی بدعت کو رائج دیکھ  کر خوش ہوتا تھا۔

لوگعوذں کا وی دین ہوتا ہے جو ان کے بادشاہوں کا ہوتا ہے اور پھر عائشہ ان لوگوں میں سے تھیں جنھوں نے دشمنی اور عداوت کے بعد معاویہ سے صلح کرلی تھی ورنہ معاویہ نے عائشہ کے بھائی محمد بن ابی بکر کو قتل کیا تھا اور بری طرح مثلہ کیا تھا۔

پھر دنیا کے مشترک مصالح دشمنوں میں اتحاد پیدا کردیتے ہیں اور اضداد کو ملادیتے ہیں، اسی لئےمعاویہ عائشہ سے اور عائشہ معاویہ سے قریب ہوگئیں اور معاویہ ان کے پاس تحائف و ہدئیے اور اموال و عطیہ بھیجنے لگا۔

مؤرخین کا کہنا ہے  کہ جب معاویہ مدینہ آیا تو  عائشہ کی زیارت کے لئے بھی گیا ۔جب بیٹھ گیا تو عائشہ نے کہا: اے معاویہ تم نے اسے چھپارکھا ہے اور امان  دے رکھی ہے جس نے میرے بھائی محمد  ابی بکر کو قتل کیا ؟

معاویہ نے کہا: میں امان کے گھر میں داخل ہوگیا ہوں ۔

عائشہ نے کہا: تم حجرابن عدی اور ان کے دوستوں کے قتل کرنے میں خدا سے نہیں ڈرے؟

معاویہ نے کہا: انھیں تو اس شخص نے قتل کیا ہے جس نےان کے خلاف گواہی دی ہے۔( تاریخ ابن کثیر  و استیعاب حالات حجر ابن عدی")

یہ بھی روایت ہے کہ معاویہ عائشہ کے پاس ہدئیے اور خلعت بھیجتا تھا اور انھیں اس زمانہ کے بڑے لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ان کے لئے ایک لاکھ درہم بھیجے۔ ( تاریخ ابن کثیر ج۷ ص۱۲۶، مستدرک حاکم ج۴،ص۱۳)

اور دوسری بار جب عائشہ مکہ  میں تھیں ایک ہار بھیجا جس کی قیمت ایک لاکھ تھی اسی طرح معاویہ

۲۷۳

 نےعائشہ کا اٹھارہ ہزار دینار قرض ادا کیا اور جو کچھ وہ لوگوں کو دیدیتی تھی وہ بھی معاویہ ہی کی طرف سے آتا تھا ۔ (تاریخ ابن  کثیر ج۷ ص۱۳۷)

ہم اپنی کتاب" فاسئلوا اہل الذکر " میں لکھ چکے ہیں کہ  عائشہ نے ایک قسم کے کفارہ میں چالیس غلام آزاد کئے تھے۔ ( صحیح  بخاری جلد۷ ص۹۰، اور کتاب الادب، باب الہجرت)

اسی طرح بنی امیہ کے حکام اور امراء بھی عائشہ کے پاس اموال و ہدایا بھیجتے تھے۔ ( مسند امام احمد بن حنبل ج۶ ص۷۷)

جب ہم عائشہ اور معاویہ کی اس باہمی قربت کے بارے میں تحقیق کرتے  ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان کبھی دوری اور عداوت تھی ہی نہیں چہ جائیکہ کہا جائے کہ ان میں پھر  قربت پیدا ہوگئی تھی۔ کیوں کہ معاویہ کو شام کا حاکم مقرر کرنے میں ابوبکر شریک تھے اور معاویہ کو ابوبکر کا وہ احسان ہمیشہ یاد رہا۔ پس  اگر ابوبکر یہ احسان نہ کرتے تو معاویہ کبھی بھی خلافت تک پہنچنے کا خواب نہیں دیکھ سکتا تھا۔

پھر معاویہ اس جماعت کی سازش میں شریک ہوگیا جو سنت نبی(ص) کو محو کرنے اور عترتِ طاہر(ع) کے خلاف ہورہی تھی ۔ پس مہم کو آپس میں تقسیم کرلیا جس طرح افراد نے احادیث کو جلا ڈالا اور عترت کا نام ونشان مٹانے کا کام معاویہ پر چھوڑ دیا لہذا معاویہ نے بھی اپنی ذمہ داری پوری کی یہاں تک کہ لوگوں کو عترتِ طاہرہ پر لعنت کرنے پر مجبور کیا۔ اسی کی سازش سے علی(ع) کے خلاف جوارج وجود میں آئے۔ اسی کی ریشہ دوانی سے علی(ع) شہید ہوئے اور اسی کے ایماء پر امام حسن(ع) کو زہر سے شہید کیا گیا اور معاویہ کے بیٹے یزید (لع) نے بقیہ عترتِ طاہرہ(ع) کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے زمین اور آسمان لرز اٹھے۔

پس  معاویہ اور عائشہ کے درمیان کبھی عداوت نہیں تھی اور یہ جو عائشہ نےمعاویہ سے کہا تھا کہ اس بات سے مطمئن ہو کہ تمھارے دامن میں میرے بھائی محمد ابن ابی بکر کا قاتل

۲۷۴

چھپارہے؟ تو اس کی حیثیت ایک مذاق سے زیادہ کی نہیں ہے۔ کیوں  کہ عائشہ کو ابنِ الخشعمیہ بن ابی بکر سے قطعی محبت نہیں تھی اس لئے کہ یہ وہی محمد ابن ابی بکر ہیں جو علی(ع) کے شانہ بہ شانہ عائشہ سے جنگ کررہے تھے اور ان کے قتل کو مباح سمجھتے تھے۔

پھر عائشہ بغض ابوتراب کےسلسلہ میں معاویہ سے مل گئیں ۔ ایسا بغض جس کی حد ہے نہ انتہا  اور ایسی دشمنی جو تصور کی حدود سے بھی باہر ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ ابوتراب کی دشمنی میں کون فوقیت رکھتا تھا ، آیا وہ شخص آگے تھا جس نے آپ(ع) سے جنگ کی، لعنت کی اور آپ(ع) کے نور کو خاموش کرنے کی کوشش میں لگا رہا۔

یا عائشہ آگے تھیں کہ جس نے آپ کو خلافت سے دور رکھا، آپ(ع) سےجنگ کی اور آپ(ع) کا نام مٹانے کی کوشش کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ علی(ع) کا نام بھی نہیں لیتی تھیں اور جب انھیں ابوتراب کے قتل کی خبر ملی تو فورا سجدہ شکر ادا کیا۔

اور آپ(ع) کی اولاد  سے بھی ہمیشہ بغض رہا۔ یہاں تک کہ امام حسن (ع) کو ان کے جد رسول(ص)  کے پہلو میں دفن کرنے سے منع کرنے کے لئے آشکارا طور   خچر پر سوار ہوکر آئیں اور اس سلسلہ میں بنی ہاشم  کے خلاف بنی امیہ سے مدد مانگی اور کہا کہ جس کو  میں دوست نہیں رکھتی  اسے میرے گھر میں داخل نہ کرو۔ اب دوبارہ جنگ کی آگ بھڑکا نا چاہتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے بعض قریبی عزیزوں نے کہا  کیا ہمارے لئے جمل والا دن کافی نہیں تھا کہ اب خچر والی بات بھی سننا پڑے گی ۔بے شک وہ بنی امیہ کے حکم سے اپنے راستہ پر قائم رہیں اور فرازِ منبر سے علی(ع) و اہلبیت(ع) پر لعنت سنتی  رہیں لیکن کبھی اس فعل بد سے انھیں منع نہ کیا۔ ممکن ہے خفیہ طور پر انھیں جرءت دلا رہی ہوں۔

احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں روایت کی  ہے : ایک شخص عائشہ کے پاس آیا وہ علی(ع) اور عمار کے بارے میں گفتگو کرنے لگا۔ عائشہ نے کہا : میں علی(ع) کے بارے میں تم سے کچھ نہ کہوں گی۔لیکن عمار کے بارے میں، میں نے نبی(ص) سے سنا ہے کہ عمار دو امروں میں سے اسی کو اختیار کرتے ہیں

۲۷۵

جو زیادہ استوار اور ہدایت والا ہوتا ہے۔ ( مسند امام احمد بن حنبل ج۶ ص۱۱۳)

ہمیں اس بات پر قطعی تعجب نہیں ہے کہ انھوں نے سنتِ نبی(ص) کو ٹھکرا دیا اور عثمان کی بدعت کو زندہ رکھنے اور معاویہ اور بنی امیہ کےحکام کو خوش کرنے کے لئے سفر میں پوری نماز پڑھی کہ جو سفر  و حضر میں ان  کا اتباع کرتے تھے اور ان کو عظمت دیتے تھے اور دین ان ہی سے  لیتے تھے۔

جیسا کہ عائشہ نے انھیں رضاعتِ  کبیر کے سلسلہ میں فتوی دیا، وہ یہ سمجھتی تھیں کہ مرد عورتوں کا دودھ پی کر ان کے محرم بن سکتے ہیں۔ ( اس بے ہودہ فعل کو ہم اپنی کتاب " لاکون مع الصادقین" کے عائشہ و دیگر ازواج نبی(ص)  کے  اختلاف  والے باب میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔

اور جو کچھ مالک نے اپنی موطا میں تحریر کیا ہے اس سے تو ہر مومن اور مؤمنہ کا نپ اٹھے گا۔ مالک کہتے ہیں کہ وہ مردوں کو  اپنی بہن ام کلثوم اور اپنے بھائی کی بیٹیوں کے پاس بھیجتی تھیں مرد ان کا دودھ پی کر آتے تھے اور اس رضاعت کے بعد ام المؤمنین عائشہ ان کی محرم ہوجاتی تھیں اور ان کے سامنے بغیر پردے کے جاتی تھیں۔ ( موطا ، مالک ج۲، ص۱۱۶ باب رضاعۃ الکبیر) کیونکہ عائشہ کی نظر میں دودھ پینے  والے  عائشہ کے محرم ہوجاتے تھے۔

یہاں ایک مسلمان کو فض کیجئے  کہجس کی بیوی کے کسی اجنبی مرد سے تعلقات ہوں اور وہ اجنبی اس کی بیوی کے پستانوں سے کھیل رہا ہو اور جب مسلمان دیکھے تو  اس کی بیوی کہدے کہ میں اس کو دودھ پلا کر محرم بنارہی ہوں تاکہ یہ بغیر کسی روک ٹوک کے ہمارے گھر آسکے۔

مرد بے چارہ عائشہ  کی بدعت کو برداشت کرے اگر چہ اس میں وہ نقصان ہی محسوس کرتا ہو لیکن جو فیصلہ ہوگیا اسے تسلیم کرنا ہے۔

میں محققین اور تجربہ کرنے والوں کی توجہ اس عظیم مصیبت کی طرف مبذول کراتا ہوں کیونکہ انکشافِ حقیقت اور حق و باطل  میں امتیاز کے لئے رضاعت کبیر والا مسئلہ کافی ہے۔

۲۷۶

اس واقعہ سے ہم پر یہ بات بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ اہل سنت والجامعت ان نصوص کے ذریعہ خدا کی عبادت کرتے ہیں جب پر خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے اور نہ اس کی تحقیق کرتے ہیں ۔ نہ وہ ثابت ہوتی ہے ۔ اگر وہ اس بدعت کی تحقیق کریں تو یقینا وہ اس سے نفرت کرنے لگیں گے اوراس سے دستبردار ہوجائیں گے۔

یہ بات جب بھی میں نے بعض علماء اہل سنت کے سامنے پیش کی ہے اور وہ اس رضاعتِ کبیر  والی حدیث سے مطلع ہوئے ہیں تو انگشت بدندان رہ گئے ہیں اور حیرت سےکہنے لگے ہم نے  یہ حدیث کبھی نہیں سنی۔

اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے یہ تو اہل سنت والجماعت کےساتھ اکثر ہوتا ہے۔

چنانچہ بہت سی ایسی احادیث ان کی صحاح میں موجود ہیں کہ جن سے شیعہ ان پر حجت قائم کرتے ہیں جب کہ اہل سنت ان سے بے خبر ہیں۔ اور اس کے بیان کرنے والے کو کافر گردانتے ہیں۔

اور خدا نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کی تصرف میں تھیں ،دونوں نے اپنے شوہروں سے دغا کی تو ان کے شوہر خدا کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور ان کو حکم دیا گیا داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی جہنم میں داخل ہوجاؤ۔( تحریم ۱۰)

۲۷۷

۹:  خالد بن ولید :

خالد ابن ولید ابن مغیر مخزوم سے تعلق رکھتے ہیں اور اہل سنت والجماعت انھیں سیف اللہ کہتے ہیں۔

خالد کا باپ ان مالدار اور صاحب ثروت لوگوں میں سے ایک تھا جن کی ثروت کی تھاہ مہیں تھی، عبا محمود کہتا جہے کہ وہ اپنے زمان کے تمام مشہور مالدار میں سب سے غنی تھا، اس کے پاس سونا چاندی، باغات، تجارت،زمینیں خدمت گار، کنیزیں اور غلام تھے اسی لئے ان کو وحید کہتے تھے۔ ( عبقریہ خالد عباس عقاد ص۲۴)

خالد کا باپ  ولید بنمغیرہ ہے  جس کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی اور اسے جہنم کی آگ اور برے ٹھکانہ ڈرایا ہے۔

ارشاد ہے!

اس شخص کو چھوڑدیجئے جس کو میں نے اکیلا  پیدا  کیا ہے اور اسے بہت سا مال دیا اور نظروں کے سامنے رہنے والے لڑکے دیئے اور اسے ہر طرح کے سامان میں وسعت دی پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں یہ ہر  گز نہ ہوگا۔ یہ تو میری آیتوں کا دشمن ہے ، میں عنقریب اسے سخت عذاب میں متلا کروں گا۔ اس نے غور کیا اور  تجویز کرلی تو جس طرح بھی ہو یہ مار ڈالا جائے اس نے کیونکر تجویز کی پھر سوچا سمجھا ، پھر تیوری چڑھائی اور ناک بھوں چڑھا لیا، پھر بیٹھ کر چالا گیا اور اکڑکر بیٹھا پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو  ہے ۔ جو کہ چلا آرہا ہے، یہ تو آدمی کا کلام ہے۔ تو میں اسے عنقریب جہنم میں جھونک دوں گا۔ ( مدثر ۱۱۔۲۶)

روایت ہے کہ ولید نبی(ص) کے پاس آیا اور کہا یہ نیا دین چھوڑدیجئے ہم آپ کو مال و دولت

۲۷۸

 دیدیںگے تو خدا نے یہ آیت نازل کی۔

اور تم اس کی باتوں میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھاتا  ہے، ذلیل ہے۔ عیب جو پرلے درجہ کا چغلخور، مال کا بخیل ، بہت بڑا گناہگار، تند مزاج اور اس کے علاوہ بد ذات بھی ہے  چونکہ مال اور بہت سے بیٹے رکھتا ہے ۔ جب اس کےسامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں، ہم عنقریب اس کی ناک پرداغ لگائیں گے۔ ( قلم ۱۰۔۱۶)

ولید کا عقیدہ تھا کہ وہ محمد(ص) سے زیادہ نبوت کا حقدار ہے چنانچہ ایک روز اس نے کہا : کیا محمد(ص) ایسے فقیر و یتیم پر قرآن نازل کردیا گیا اور مجھ جیسے قریش کے سردار نظر انداز کردیا گیا۔

اسی عقیدہ پر خالد بن ولید کی تربیت ہوئی ! اسے بھی اس اسلام اور رسول(ص) اسلام سے دشمنی تھی جس نے اس کے باپ کے خیال کو بے وقوفی کا خواب بتایا اور اس کی چولیں بلادیں۔ چنانچہ رسول اللہ(ص)  سے لڑی جانے والی جنگوں میں خالد شریک رہا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خالد کا بھی وہی عقیدہ تھا جو اس کے باپ کا تھا۔ وہ محمد(ص) ایسے فقیر و یتیم سسے زیادہ خود کو نبوت کا حقدار سمجھتا تھا کیونکہ خالد اپنے باپ کی طرح قریش کا سردار تھا۔ اگرچہ مطلق طور پر وہ سب سے عظیم نہیں تھا۔ پس اگر خالد کےباپ پر قرآن و نبوت نازل ہوگیا ہوتا  تو خالد کو ان دونوں ( نبوت و قرآؔن میں سے  وافر حصہ ملتا جیسے جناب سلیمان (ع) نے داؤد(ع) سے میراث پائی تھی ایسے ہی خالد بھی ادشاہت و نبوت کی میراث پاتا۔ قرآن نے ان کے اعتقاد کو اس طرح بیان کیا ہے۔

اور جب ان کے پاس حق آگیا تو کہنے لگے یہ تو  جادو ہے اور ہم تو ہرگز اس کے ماننے والے ہیں ہیں اور لہنے لگے یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔( زخرف/ ۳۰۔۳۱)

پس اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اگر وہ محمد(ص) اور ان کی دعوت کے خلاف اقدام

۲۷۹

 کرتاہے۔ چنانچہ ہم اسے غزوہ احد می پیسے کے زور پر بہت بڑا لشکر تیار کرتے ہوئے دیکھتے اور نبی(ص) کو ختم کرنے کے لئے کمین گاہ میں بیٹھتا ہے اور صلحِ حدیبیہ والے سال بھی اس نے کھیل ، کھیلنا چاہا تھا لیکن خداوندِ عالم نےاس کے منصوبہ کو ناکام بنادیا اور ہر جگہ اپنے نبی(ص) کی مدد کی۔

اور جب قریش  ے دیگر سرکردہ افراد کی طرح خالد بھی یہ سمجھ گیا کہ رسول اللہ(ص) شکست کھانے والے نہیں ہیں اور دیکھا کہ لوگ جوق در جوق  دینِ خدا میں داخل ہو رہے ہیں تب اس نے حسرت و یاس سے اسلام قبول کیا خالد نے فتح مکہ  سے چار ماہ قبل ہجرت کے آٹھویں سال اسلام قبول کیا، خالد کب مسلمان ہوا؟ وہ تو ہر موقع پر حکمِ رسول(ص)  کی مخالفت کرتا تھا فتح مکہ کےدن آپ(ص) نے قتل سے منع کیا تھا لیکن خالد تیس(۳۰)  افراد سے زیادہ کو قتل کر کے  مکہ میں داخل ہوا تھا، قتل ہونے والوں میں اکثر قریش تھے جبکہ نبی(ص) نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ کسی ایک کو بھی قتل نہ کرنا۔

اگر چہ عذر کرنے والے خالد کی طرف سےیہ عذر پیش کرتے ہیں کہ انھیں مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا اور مکہ والے اسلحہ لئے ہوئے تھے۔لیکن یہ چیز نبی(ص) کے منع کرنے کے بعد  خالد کے لئے  قتل مباح نہیں کرسکتی۔ پھر خالد کسی دوسرے دروازہ سے آسکتے تھے اور بغیر قتل کے داخل مکہ ہوسکتے تھے ۔ جیسا کہ دیگر افراد نےکیا تھا، یا نبی(ص)  کے پاس کسی کو بھیج کی ان لوگوں سے قتال کےبارے میں مشورہ کرتے جو کہ داخل نہیں ہونے دےرہے تھے۔

لیکن بات یہ نہیں تھی،  بلکہ خالد نے اس نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا تھا جس جو نبی(ص) سے سن چکا تھا۔

اور یہ جوہم  نے نص کے مقابلہ میں اجتہاد کہا ہے شائستہ کلامی کی بناء پر کہا کیونکہ بعد میں اس کے بہت یارو مددگار ہوگئے تھے یا یہ کہئے کہ اس کا ایک مدرسہ قائم ہوگیا تھا  کہ جس سے صحابہ اور شریعت والے فارغ التحصیل ہوتے تھے اور بعد میں اس مدرسہ کو مکتبِ خلفا کہا جانے لگا۔

اس بات کی طرف اشارہ کردینا بہت  ضروری ہے کہ معنی میں خالد کا اجتہاد خدا و رسول(ص) کی نافرمانی ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ خالد نے نص کے مقابلہ میں اجتہاد کیا ۔ یہ اصطلاح وضع کی

۲۸۰