شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے13%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109173 / ڈاؤنلوڈ: 6820
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

گئی ہے اس  سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ جائز امر ہو در حقیقت ہمیں چاہئیے تھا کہ خالد نے حکمِ رسول(ص) کی نافرمانی کی لیکن ہم نے اس کی بجائے یہ کہا کہ خالد نے نص کے مقابلہ میں اپنی رائے سے  اجتہاد کیا۔ جیسا کہ رسول(ص) نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

" و عصی آدم ربه فغویٰ" (طہ/ ۱۲۱)

آدم(ع) نے نافرمانی کی وہ نے راہ ہوگئے اس لئے کہ خدا نے اس  درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا  لیکن آدم(ع) نے اس کا پھل کھالیا ، پس ہم یہاں یہ نہیں کہہ سکتے کہ آدم(ع)  نے نص کے مقابلہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرلیا تھا۔

مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی حد میں رہے اور کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے یہ نہ کہے  کہ اس سلسلہ میں خدایا رسول(ص)  کی طرف سے امر  ہے یا نہی وارد ہوئی ہے کیونکہ یہ کھلا ہوا کفر ہے۔

خدا نے ملائکہ سے فرمایا تھا"اسجدوا الآدم" یہ امر ہے "فسجدوا" انھوں نےسجدہ کیا یہ طاعت و امتثال امر ہے۔

ابلیس (لع) نے اطاعت نہیں کی اس نے اپنی رائے سے اجتہاد کیااور  کہا: میں اس (آدم(ع))  سے بہتر و افضل ہوں ، کیسے اسےسجدہ کروں ؟ یہ عصیان و سرکشی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ افضل کون ہے، آدم (ع) یا ابلیس(لع) ؟ خداوندِ عالم نے یہ فیصلہ کیا۔

" اور نہ ہی کسی ایمان دار مرد کے لئے مناسب ہے اور نہ کسی ایمان عورت کے لئے  کہ جب اللہ و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو ان کو بھی اپنے کام کا اختیار ہو"۔(احزاب/۲۶)

اسی بات کی طرف امام  جعفر صادق(ع) نے ابو حنیفہ سے گفتگو کے دوران اشارہ فرمایا تھا کہ : قیاس نہ کیا کرو کیوں کہ جب شریعت میں قیاس کیا جاتا ہے  تو مٹ جاتی ہے اور پھر سب سے پہلے ابلیس(لع) نے قیاس کیا ، جبکہ اس نے کہا میں  اس (آدم(ع))  سے افضل ہوں کیونکہ مجھے تو نے

۲۸۱

 آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے  بنایا ہے۔

امام جعفر صادق(ع) کا ہی قول ہےکہ جب شریعت میں قیاس کیا جاتا ہے تو مٹ جاتی ہے، یہ قیاس کےباطل ہونے پر بہترین دلیل ہے  پس اگر نص کے مقابلہ میں لوگ مختلف راویوں پر  عمل کریں تو شریعت باقی نہیں رہے گی، اگر حق ان کی خواہشات کا اتباع کرتا تو زمین و آسمان تباہ ہوجاتے۔

اجتہاد کےسلسلہ میں اس مختصر بحث کے بعد ہم اپنے موضوع پر  خالد کے حالات کے تجزیہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ خالد نے ایک بار پھر حکمِ رسول خدا(ص)  کی نافرمانی کی جبکہ آپ(ص) نے اسے بنی حذیفہ کے پاس دعوتِ اسلام کے لئے بھیجا تھا اور قتال کا حکم نہیں دیا تھا۔

 خالد ان کے پاس گیا، ان کےدرمیان ٹھہرا اور جب وہ اسلام کا اعلان کرچکے تو انھیں دھوکہ سے قتل کردیا۔ یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف نے جوکہ خالد کے ساتھ اس حادثہ میں موجود تھے۔ خالد پر یہ تہمت لگائی کہ اس نے اپنے چچا کا انتقام  لینے کی وجہ سے قتل عام کیا ہے۔ ( عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں قسم خدا کی خالد نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ خالد نے کہا میں نے تمھارے باپ عوف بن عوف کے عوض انھیں قتل کیا ہے۔ عبدالرحمن نے کہا میرے باپ کو عوض تم نے انھیں قتل نہیں کیا  ہے ۔  تم نے  اپنے چچا کے قصاص میں انھیں قتل کیا ہے۔ خدا آپ کو سلامت رکھے ذرا غور فرمائیے کہ خالد کو اس بات کا اعتراف ہےکہ اس نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ لیکن اس اعتراف کے ساتھ میں نے عبدالرحمن کے والد عوف کے قصاص  میں انھیں قتل کیا ہے  کیا دینِ خدا میں اسے یہ ۔۔۔۔۔ کہ وہ ایک شخص کے عوض پوری قوم کو قتل کردے اور کیا یہ جائز ہے کہ ایک کافر کے بدلے ۔۔۔۔مسلمانوں کو قتل کیا جائے۔) جب رسول(ص) نےاس حادثہ کے بارے میں سنا تو خدا سے اس فعل کےمتعلق تین مرتبہ اظہار برائت فرمایا جس کا ارتکاب خالد نے کیا تھا۔

تاریخ کے صفحات کے سیاہ کارناموں  اور کتابِ خدا و سنتِ رسول(ص)  کی نافرمانی سے بھرے

۲۸۲

 پڑے ہیں ایک محقق کے لئے زمانۃ ابوبکر میں خالد کے یمامہ والا واقعہ کا مطالعہ کافی ہے۔

اس نے مالک نویرہ او ر ان کی قوم کو فریب دیا اور انھیں بے چارگی کی حالت میں قتل کردیا جب کہ وہ سب مسلمان  تھے اور  اسی حادثہ کے بعد فورا ہی مالک بن نویرہ کی زوجہ سے خالد نے نکاح کیا اور اس سلسلہ میں شریعتِ اسلام اورعرب کی مروَت کا قطعی پاس و لحاظ  نہ کیا۔یہاں تک احکام کو زیادہ اہمیت نہ دینے والے عمر بن خطاب نےبھی اس فعلِ قبیح پر  خالد کو شرزنش کی اور اسے دشمنِ خدا کہا اور سنگسار کردینے کی دھمکی دی۔

محققین غیر جانب دار ہوکر تنقیدی نظر اور بصیرت کی نگاہوں سے تاریخ کا مطالعہ فرمائیں اور مذہبی عصبیت کو ایک طرف رکھ دیں ۔ تو حقیقت تک پہونچ جائیں گے ۔ کیونکہ احادیثِ نبی(ص) کو بیان کرنے والے جھوٹے افراد بھی ملتے ہیں ۔ کیونکہ اہل سنت والجماعت یعنی بنی امیہ اپنی طرف سے حدیث گھڑا کرتے تھے اور تاریخی حادثات کو محو کردیتے تھے تاکہ تحقیق کرنے والے حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔

اور ان میں سے کوئی بھی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ : خالد کے لئے تو رسول خدا(ص)  نے فرمایا ہے۔" مرحب سیف اللہ" اس جھوٹی حدیث کو ان نیک سرشت اور سادہ لوح مسلمانوں نے نقل کردیا جو کہ حسنِ ظن رکھتے ہیں اور بنی امیہ کے مکرو فریب  سے واقف نہیں ہیں اور اس کے بعد خالد کے ہر ایک حقیقت جر مبنی فعل کی تاویل کرتے ہیں اور اس کے لئے عذر تراشی  کیا کرتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں : نبی(ص)  کے چچا ابوطالب(ع) کے بارے میں ایک ضعیف قول ہے کہ وہ ( معاذ اللہ) کافر مرے اور نبی(ص) نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ ابوطالب(ع) کی پنڈلیوں تک آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے اور اس طرح ان کےدماغ کو اذیت دی جائے گی۔

اس جھوٹی حدیث کی بنا پر اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ابوطالب(ع)  مشرک تھے اور وہ جہنم میں ہیں۔ اس حدیث  کے بعد وہ کسی بھی ایسی عقلی تحلیل کو قبول نہیں کرتے جو انھیں حقیقت تک پہنچا دے اور اسی حدیث کی وجہ سے وہ ابو طالب(ع) کی پوری زندگی اور دعوتِ اسلام کے سلسلہ

۲۸۳

 میں اپنے بھتیجے کی حمایت اور راہِ اسلام میں ان کے جہاد کا بالکل ختم کردیتے ہیں جب کہ ابوطالب(ع) نے اپنے بھتیجے کی اتنی حمایت کی کہ آپ  کی قوم  آپ کے دشمن ہوگئی اور آپ اپنے بھتیجے کے ساتھ مکہ کے غار میں تین سال تک قید رہنے پر راضی ہوگئے کہ جہاں درختوں کے پتے کھا کر زندگی گزاری۔ لیکن اہلِ سنت والجماعت ان کے دلیرانہ موقف  کو چاٹ  جاتے ہیں  اور نبی(ص) کو تبلیغ کی نصرت کےسلسلہ میں ان کےاعتقادی اشعار کو ہضم کرجاتے ہیں اور ہر اس فعل پر خاک ڈالدیتے ہیں جو نبی(ص) نے اپنے چچا کے لئے انجام دیا تھا۔ انھیں غسل دیا ، اپنے کرتے کا کفن دیا، ان کی قبر میں اترے اور جس سال ابوطالب(ع)  کا  اتنقال ہوا اس کا عام الحزن قرار دیا اور فرمایا : قسم خدا کی قریش کی جرت میرے چچا ابوطالب(ع) کے مرنے کے بعد بڑھی ہے  بے شک میرے خدا نے مجھے وحی کے ذریعہ بتایا  ہے کہ اب مکَہ سے نکل جاؤ تمھارا مددگار مرچکا ہے۔ پس اسی روز مکہ سے ہجرت کی۔

دوسری مثال ابوسفیان  ابنِ حرب معاویہ کے باپ کی لیجئے کہا جاتا ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اور نبی(ص) نےاس کے بارے میں فرمایا جو ابوسفیان کے  گھر میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔

اس حدیث کی بنا پر  کہ جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فضیلت ہے۔ اہلِ سنت والجماعت  کا عقیدہ ہے کہ ابوسفیان مسلمان ہوگیا تھا اور وہ جنت میں ہے اس لئے کہ اسلام ما قبل کے  کے گناہوں معاف کردیتا ہے۔

اسی حدیث کی وجہ سے وہ کوئی ایسی عقلی تحلیل و تجزیہ قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے جو انھیں حقیقت تک پہنچادے اور اسی حدیث کی وجہ سے وہ ابوسفیان کے تمام افعال سے چشم پوشی کرلیتے ہیں جو  کہ اس نے رسول(ص) اور تبلیغِ اسلام کے خلاف انجام دیئے تھے۔ اور اس کی بھڑکتی ہوئی تمام جنگوں کو فراموش کو دیتے ہیں اور محمد(ص) کے خلاف اس کی ساری سازشوں کو یکسرہ بھولا دیتے ہیں اور  نبی(ص) سے سارے بغض و حسد کو کالعدم تصور کرتے ہیں۔ جب کہ ابوسفیان اس وقت اسلام لایا جب لوگوں نے آکر اس سے کہا یا اسلام لے آؤ ورنہ تمھاری گردن ماردی جائے گی ۔ اس پر  ابوسفیان نے کہا:اشهد ان

۲۸۴

 ان لا اله الله ، لوگوں نے کہا:اشهد ان محمَد رسول الله بھی تو کہو تب اس نےکہا : میرے باطن میں ایک چیز ہے جو مجھے کلمہ پڑھنے سے روکتی ہے۔

اور جب مسلمان ہونے کے بعد نبی(ص) کے ساتھ بیٹھا تو اپنے دل میں کہا : انھوں نے کس چیز کے ذریعہ مجھ پر غلبہ حاصل کیا ہے؟ تو نبی(ص)  نے فرمایا : اے ابوسفیان میں نے اللہ کی مدد سے تم پر غلبہ پایا ہے۔

ہم نے اسلامی واقعات میں سے یہ دو مثالیں پیش کی ہیں تاکہ محققین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ لوگوں پر خواہشاتِ نفسانی کا کیا اثر ہوتا ہے اور کیسے ان سے حق کو  چھپا دیتا ہے اور اسی سے ہم یہ سمجھتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے صحابہ پر جعلی اور جھوٹی حدیثوں کا غلاف چڑھا دیا ہے جس سے وہ غافل لوگوں کی نظروں میں  مقدس  بن گئے۔ چنانچہ اہل سنت والجماعت صحابہ پر کسی ناقد  کی تنقید اور کسی ملامت گر کی ملامت سننے کو تیار نہیں ہیں۔

اور جب کسی مسلمان کا یہ اعتقاد ہو کہ رسول(ص) نےانھیں ( صحابہ کو ) جنت کی بشارت دی ہے تو اس کی بعد ان کے بارے میں کوئی بات  قبول ہی نہیں کرے گا۔ بلکہ ہر فعل کے لئے عذر تراشی کرے گا اور ان کے تمام افعال کو معمولی بنا کر پیش کرے گا اور تاویلات سے کام لے گا کیوں کہ پہلے دن سے اس کا دروازہ بند نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے لئے اہلِ سنت  نے اپنے ہر ایک بزرگ کے لئے ایک لقب وضع کرلیا ہے  اور اس لقب کو رسول(ص) کی طرف منسوب کردیا ہے، اس طرح کسی کو صدیق کسی کو فاروق، کسی کو ذوالنورین کسی کو عاشق رسول(ص) ، کسی کو حورائی رسول(ص) ، کسی کو رسول(ص) کی چہیتی،کسی کو امین الامت کسی کو راویۃ الاسلام ، کسی کو کاتبِ وحی، صاحبِ نعلین، حجامِ رسول(ص) ، سیف اللہ جیسے القاب سے نوازا ہے۔

در حقیقت اللہ کے میزانِ عدل میں ان القابات کی کوئی حقیقت  و اہمیت نہیں ہے ۔ یہ  وہی اسماء ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ داد نے رکھ دیئے تھے خدا  نے اس سلسلہ میں کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے خدا کے نزدیک نفع وضرر کا معیار اعمال ہیں۔

۲۸۵

اور ان کے اعمال کا بہترین شاہد تاریخ ہے ۔ ان ہی اعمال کے ذریعہ ہم انسان کی شخصیت کو پرکھتے ہیں اور  اس کی قدر و قیمت معین کرتے ہیں اور اس انسان کا کوئی معیار نہیں سمجھتے جس کے لئے جھوٹ و بہتان والی چیزیں بیان کی جاتی ہیں۔

اور یہ ٹھیک وہی بات جو امام علی(ع) کا مقولہ ہے: حق کو پہچان لو، تو اسکے ذریعہ اہلِ حق خود  پہچان لئے جائیں گے۔ ہم نے تاریخ کو چھان بین کی اور خالد بن ولید کے  کارناموں سے آگاہی حاصل کی اور حق کو باطل سے جدا کرلیا۔ پس ہم خالد کو کبھی سیف اللہ نہیں کہہ سکتے بلکہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اہلِ سنت سے  یہ سوال کریں کہ رسول(ص) نے کس وقت خالد کو سیف اللہ کے لقب سے نوازا تھا؟ آیا فتح مکہ کے روز جب اس نے اہل مکہ کو قتل کیا تھا، جبکہ رسول(ص) نے کسی کو بھی قتل کرنے سے منع کیا تھا؟ یا اس وقت سیف اللہ کہا تھا جب اسے زید بن حارثہ والے سریہ میں روانہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ زید کے قتل ہوجانے پر جعفر بن ابی طالب(ع) علم دار ہوں گے اور جعفر کے قتل ہونے پر عبداللہ بن رواحہ علم سنبھالیں گے چنانچہ چوتھے نمبر پر  خالد کو فوج کا سپہ سالار مقرر کیاتھا اور جب تین افراد کے قتل ہوجانے پر  خالد  نے کمانڈری سنبھالی تو  باقی فوج کو لیکر میدانِ کارزار سے فرار کر گیا؟!

کیا اس وقت سیف اللہ کہا تھا جب خالد آپ(ص) کے ساتھ غزوہ حنین میں بارہ(۱۲) ہزار کے لشکر کے ضمن شریک تھا اور رسول(ص) کو میدان کا رزار میں تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا اور آپ کے ساتھ صرف(۱۲) افراد رہ گئے تھے۔ جبکہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے :

جو شخص جبگ کے روز کفار کی طرف سے پیٹھ پھیرے گا وہ یقینا خدا کے غضب کا نشانہ بنے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔(انفال/۱۶)

یہ خصوصیت سیف اللہ (خالد) کو کیسے فرار کی اجازت دے سکتی ہے؟ یہ بات تو بہت ہی تعجب خیز ہے!

۲۸۶

میرا عقیدہ ہے کہ زمانہ رسول(ص) میں خود خالد بھی اس لقب سے نہیں واقف تھے اور نہ رسول(ص) نےانھیں اس لقب سے نوازا تھا ہاں ابوبکر نے  خالد کو یہ لقب اس وقت دیا تھا جب انھٰیں اپنے مخالفین کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا  اور انھوں نے ابوبکر کے حکم کو عمل جامہ پہنا دیا تھا ۔چنانچہ عمر نے اس حرکت پر خالد کو سرزنش کی اور ابوبکر سے کہا یقینا خالد نے ظلم کیا ہے اور یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا ورنہ خالد انھیں اچھی طرح جانتے تھے۔ اس پر ابوبکر نے کہا : خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک ہے۔ اس نے تاویل کی تھی خطا ہوگئی ( یہ ہے سیف اللہ کے لقب کا مبداء)

طبری نے ریاض النضرہ میں روایت کی ہے کہ بنی سلیم اسلام سے پھیر گئے تھے اس لئے ابوبکر نے خالد بن ولید کو ان کے پاس بھیجا۔ خالد نے انھیں جمع  کر کے جلادیا ، شدہ شدہ یہ خبر عمر ابن خطاب تک پہنچی وہ ابوبکر کے پاس آئے اور کہا اس شخص کو دور کرو  جو خدا  کا عذاب دیتا ہے۔

ابوبکر نے کہا: قسم خدا کی میں اس تلوار کو ہرگز نیام میں نہیں رکھوں گا ۔ جس کو خدا نے اپنے دشمنوں کے لئے کھینچ رکھی ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود نیام میں رکھ لے۔ اس کے بعد خالد کو مسیلمہ کی طرف جانے کا حکم دیا۔

یہیں سے اہل سنت والجماعت نےخالد کو اللہ کی شمشیر برہنہ کہنا شروع کیا یہ الگ بات ہے کہ خالد نے حکمِ رسول(ص) کو ٹھکرا کر اور سنت کو دیوار  پر مار کر لوگوں کو آگ میں جلادیا۔

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا : آگ کا عذاب خدا کے علاوہ کوئی کسی کو نہیں دے سکتا۔ آپ(ص) ہی کا قول ہے ۔ آگ کےذریعہ کو ئی عذاب نہیں دے سکتا ہاں اس کا  رب اس کے ذریعہ عذاب دے گا۔ ( صحیح بخاری جلد۴،ص۳۲۵)

یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ابوبکر نے اپنی موت سے پہلے کہا تھا اے کاش میں فجاۃ سلمی کو نہ جلاتا!

اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اے کاش ابوبکر عمربن خطاب سے یہ پوچھتے اور کہتے، جب تم جانتے تھے کہ آگ کا عذاب صرف خداہی دے سکتا ہے اور کسی کو آگ سے عذاب دینے کا حق نہیں ہے تو آپ

۲۸۷

نے رسول (ص) کی قفات کے بعد کل یہ قسم کیوں کھائی تھی کہ قسم خدا کی میں زہرا(س) کے مکان کو مع مکینوں کے جلادوں گا؟! اگر علی(ع) تسلیم نہ ہوئے ہوتے اور اپنی جماعت کو گھر سے نکلنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو تمہاری مراد پوری ہوجاتی۔

بعض اوقات مجھے شک کشمکش میں مبتلا کردیتا ہے اور میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ کہ عمر کا ابوبکر سے جھگڑنا بعید ہے اور میں ان کی اور ان کی نزاع کی طرف ملتفت نہیں ہو پاتا ہوں۔

حقیقت میں یہ عجیب بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ابوبکر عمر کا مقابلہ نہیفں کرتے تھے اور ان سے قیل و قال کی ان میں ہمت نہیں تھی اور یہ تو بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ ابوبکر عمر سے کہتے تھے آپ سے میں نے کہا تھا اس کام کے لئے ۔مجھ سے آپ قوی ہیں لیکن آپ نے مجھ پر  زبردستی  کی اور ایک بار جب مولفۃ القلوب سے ابوبکر کا سفارش نامہ لے کر عمر نے اس پر تھوکا او ر پھاڑ ڈالا تو وہ شکایت کے لئے ابوبکر کے پاس  گئے اور کہا: خلیفہ آپ ہیں یا عمر؟ تو ابوبکر نے کہا وہی ہیں۔

اسی لئے میں کہتا ہوں شاید خالد کے افعالِ قبیحہ کے متعلق جھگڑنے والے علی بن ابی طالب(ع) تھے لیکن اولین مؤرخین اور راویوں نے آپ(ع) کا نام ہٹا کر عمر کا نام رکھ دیا جیسا کہ بعض ایسی روایات وارد ہوئی ہیں کہ جن کی سند ابی زینب  یا کسی اور شخص کی طرف دی ہے اور راویوں کی مراد علی(ع) ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کی صراحت نہیں کی۔

یہ فقط احتمال ہی نہیں ہے یا ہم بعض مؤرخین کا قول قبول کرلیں کہ عمر بن خطاب خالد سے بر ہم تھے یہاں تک اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے  تھے کیوں کہ اس نے خون بہایا تھا لیکن خالد نے اپنی کامیابیوں سے لوگوں کے دلوں میں جگہ پیدا کرلی اور یہ کہاجانے لگا زمانہ جاہلیت میں خالد عمر سے لڑ گئے تھے اور انھیں مغلوب کردیا تھا اور ان کی ایک ٹانگ توڑ دی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ جب عمر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے خالد کو معزول کردیا لیکن ان پر سنگسار والی حد جاری کہ کی جیسا کہ پہلے دھمکی دی تھی۔

اگر چہ خالد بن ولید اور عمر بن خطاب  مغلوب الغضب اور سختی و شدت میں دونوں  برابر تھے ہر ایک بد مزاج تھا ہر ایک سنتِ نبی(ص) کے خلاف عمل کرتا تھا اور نبی(ص) کی حیات میں اورمرنے کے بعد بھی نبی(ص)

۲۸۸

کی نافرمانی کرتا تھا، اسی طرح دونوں کو نبی(ص) کے وصی سے عداوت تھی ہر ایک ان کو ( خلافت سے ) دور رکھنے کے لئے کوشاں تھا اور نبی(ص) کی وفات کے بعد خالد نے علی(ع) کے خلاف ابوبکر و عمر کا ساتھ دیا۔( ملاحظہ فرمائیں احتجاج طبرسی) لیکن خدا نے ان سے نجات دی اور اس کا امر پورا ہونے والا ہے۔

خالد بن ولید کی شخصیت کی مختصر تحقیق کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اہل سنت والجماعت جب کا نام گنگنایا کرتے ہیں ان میں سے اکثر سنتِ نبوی(ص) سے دور ہیں اور یہ ان ہی کی اقتدا کرتے ہیں جنھوں نے سنت کی مخالفت کی اور اسے پسِ پشت ڈال دیا اور حرام و حلال کے سلسلہ میں نہ کتابِ خدا کی پروا کی اور نہ سنتِ رسول(ص) کا خیال رکھا۔

۲۸۹

۱۰ :ابوہریرہ دوسی :

ابوہریرہ ان صحابہ میں سے ہیں جو بہت بعد میں مسلمان ہوئے تھے جیسا کہ ابن سعد نے اپنی طبقات میں ترتیب قائم کی ہے اور ابوہریرہ کو نویں یادسویں طبقہ میں رکھا ہے۔

یہ ہجرت کے ساتویں سال کے آخر میں رسول(ص) کی خدمت میں پہنچے تھے اسی لئے مؤرخین کہتے ہیں، ابوہریرہ تین سال سے زیادہ نبی(ص) کے ساتھ نہیں رہے۔ ( صحیح بخاری ج۴ ص۱۷۵۔) بعض مؤرخین کہتے ہیں ابوہریرہ کو صرف دو سال نبی(ص) کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا کیونکہ نبی(ص) نے انھیں ابن حضرمی کے ساتھ بحرین بھیج دیا تھا اور رسول(ص)  کے انتقال کے وقت وہ بحرین ہی میں تھے۔

ابوہریرہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنی شجاعت یا جہاد کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں اور نہ ہی زیرک و دور اندیش مفکرین سے ان کا تعلق ہے اور نہ ہی حافظ فقہاء میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ قرت اور لکھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ رسول(ص) کے پاس اپنا پیٹ بھرنے کے لئے آئے تھے جیسا کہ خود انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے اور نبی(ص)  نے بھی یہی سمجھا تھا چنانچہ انھیں اہل صفہ میں داخل کیا اور جب بھی نبی(ص) کے پاس صدقے میں کھانے والی چیزیں آتی تھیں تو آپ اہل صفہ کے پاس بھیجدیتے تھے اور  جیسا کہ ابوہریرہ خود بیان کرتے ہیں کہ انھیں بہت زیادہ بھوک لگتی تھی اس لئے وہ صحابہ کے راستہ میں کھڑے ہوجاتے تھے ، ان سے گفتگو کرتے ہوئے چلے جاتے تھے تاکہ وہ انھیں گھر لے جائیں اور کھانا کھلائیں۔

لیکن یہ شخص نبی(ص) سے احادیث نقل کرنے میں مشہور ہوگیا اور صرف انکی بیان کی ہوئی احادیث کی تعداد چھ ہزار تک پہونچ گئی ۔ میں محققین کی توجہ اس چیز کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ، ایک تو ابوہریرہ رسول(ص) کے ساتھ بہت کم رہے پھر ایسی احادیث اور واقعات بیان کئے  جن کے وقوع کے وقت وہ ہرگز موجود نہیں تھے۔

بعض محققین نے خلفائے راشدین ، عشرہ مبشرہ ، امہات المؤمنین اور اہل بیت طاہرین(ع)  کی بیان کردہ احادیث کو جمع کیا ہے لیکن ان سب کی بیان کی ہوئی احادیث ابوہریرہ کی بیان

۲۹۰

کی ہوئی احادیث کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہیں ۔ ( باوجودیکہ ان میں حضرت علی(ع)  شامل ہیں جوکہ تیس(۳۰) سال تک رسول اکرم(ص)  کے ساتھ رہے ہیں۔)

یہیں سے ابوہریرہ پر انگلیاں اٹھنے لگیں اور انھیں حدیث گھڑنے والا، جھوٹا ، تدلیس کرنے والا کہا جانے لگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پہلے راوی ہیں جو اسلام میں متہم ہوئے۔

لیکن اہل سنت والجماعت انھین " راویۃ الاسلام " کے لقب سے نوازتے ہیں ، بے پناہ انکا احترام کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ احتجاج کرتے ہیں  ۔ شاید ان میں سے بعض کا عقیدہ ہےکہ ابوہریرہ  علی(ع) سے بڑے عالم تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں خود ابوہریرہ کی بیان کردہ ایک حدیث بھی ہے، کہتے ہیں :

میں نے  رسول(ص) سے عرض کی میں آپ(ص) سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں لیکن  میں بھول جاتا ہوں ۔ رسول(ص) نے فرمایا: اپنی ردابچھاؤ، میں نے بچھادی، پھر چلو کی طرح آپ(ص) نے اسے مس کیا اور مجھ سے فرمایا : اسے سمیٹ لو میں نے سمیٹ لی پھر اس کے بعد میں حدیث نہیں بھولا۔ ( صحیح بخاری ج۱ ص۳۸ ۔ کتاب العلم ، باب حفظ العلم، ایضا ج۳ ص۲۔)

ابوہریرہ رسول(ص) سے بہت حدیثیں نقل کرتے  تھے یہاں تک کہ ایک روز عمر ابن خطاب  نے انھیں درہ سے مارا اور کہا بہت حدیثیں بیان کرنے لگے ہو اور رسول(ص) پر جھوٹ باندھتے ہو۔ واقعہ یوں ہے کہ ابو ہریرہ نے یہ روایت نقل کی کہ: خدا نے زمین و آسمان کو سات روز میں خلق کیا ہے ۔ جب عمر کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے ابوہریرہ کو بلایا اورکہا : ذرا پھر وہ سات روز والی حدیث سناؤ، انہوں نے شروع کردی۔ بس پھر کیا تھا عمر کو درہ برسنے لگا اور کہا : خدا نے کہتا  ہے کہ میں نے چھ روز میں زمین و آسمان پیدا کئے ہیں اور تم نے کہتے ہو کہ سات روز میں پیدا کئے ہیں ۔ ابوہریرہ  نے کہا : حضور میں نے یہ حدیث کعب الاحبار سے سنی تھی۔ عمر نےکہا : جب تک تم حدیثِ نبوی(ص) اور کعب الاحبار کی حدیثوں میں تمیز نہیں کرسکتے اس وقت تک حدیث بیان نہ کرنا۔ ( ملاحظہ فرمائیں محمود ابوریہ المصر کی ابوہریرہ۔)

۲۹۱

اسی طرح روایت ہے کہ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ سب سے زیادہ ابوہریرہ نے رسول(ص) پر جھوٹ باندھا ہے ۔( شرحِ ابن ابی الحدید ج۲ ص۶۸۔)

ایسے ہی ام المؤمنین عائشہ نےمتعدد احادیث کے بارے میں ابوہریرہ کے  جھٹلایا جبکہ انکی نسبت رسول(ص) کے طرف دیتے تھے۔ایک مرتبہ عائشہ نے انکی بیان کردہ حدیث کی تردید کی اور کہا: تم نے رسول(ص) سے یہ حدیث کب سنی تھی؟ ابوہریرہ  نے کہا: آپ کو حدیث رسول(ص) سے کوئی مطلب نہیں تھا ، آپ تو اپنے سرمے ، آیئنہ اور خضاب کرنے میں مشغول رہتی تھیں،لیکن جب عائشہ کو تکذیب پر اصرار ہوا اور انہوں نے اس کو ہوادی تو مروان بن حکم نے اس میں مداخلت کی اور کہا اس حدیث کی صحت کو بیان کرو تب ابوہریرہ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ(ص)  سے نہیں سنی بلکہ فضل بن عباس سے سنی تھی۔ ( صحیح بخاری ج۲ ص۲۳۲ باب الصائم یصبح جنباء و موطاء مالک ج۱ ص۲۷۲۔)

خصوصا اس روایت میں تو انھیں ابن قتیبہ نے بھی متہم کیا ہے اور کہا ہے: ابوہریرہ نے فضل ابن عباس کی موت کے بعد اس حدیث کو انکی طرف منسوب کیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرادیں کہ انھوں نے مرحوم سے سنی ہوگی۔ ( سیر اعلام النبلاء ۔ ذھبی۔)

ابن قتیبہ اپنی کتاب " تاویل مختلف الحدیث " میں تحریر کرتے ہیں کہ : ابوہریرہ کہا کرتے تھے کہ رسول(ص) نے ایسے ایسے فرمایا: جبکہ وہ حدیث کسی اور سے سنی تھی۔

اسی طرح ذہبی نے اپنی کتاب " اعلام النبلاء " میں روایت کی ہے کہ : یزید ابن ابراہیم نے شعب بن حجاج سے سنا کہ وہ کتہا ہےکہ : ابوہریرہ حدیث میں تدلیس کرتے ہیں۔

اور ابنِ کثیر کی " البدایۃ والنہایۃ" میں منقول ہے کہ : یزیر ابن ہارون نے سنا کہ اس  سلسلہ میں شعبہ کہتے ہیں کہ : ابوہریرہ حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ وہ رسول(ص) اور کعب الاحبار  کی حدیثوں میں تمیز نہیں کرپاتے تھے۔

ابو جعفر اسکافی کا کہنا ہے : ابوہریرہ ہمارے علما کے نزدیک مشکوک ہیں اور اس کی بیان کردہ احادیث مقبول نہیں ہے۔( شرح ابنِ ابی الحدید ج۴ ص۶۸۔)

۲۹۲

اور ابو ہریرہ نے اپنی حیات ہی میں صحابہ کے درمیان یہ شہرت حاصل کرلی تھی کہ ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تدلیس کرتے ہیں اور اکثر گھڑی ہوئی احادیث بیان کرتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض صحابہ اس سلسلہ میں ان کا مذاق اڑاتے تھے اور جو چاہتا تھا ان سے احادیث گھڑ والیتا تھا۔

روایت ہےکہ قریش میں سے ایک شخص نے نیا جبہہ پہنا اور اس پر فخر کرتے ہوئے ابوہریرہ کے پاس سے گذرا اور ان سے کہا : اے ابوہریرہ تم نے رسول(ص) سے بے شمار احادیث سنی ہیں : کیا تم نے میرے اس  جبہ کے بارے میں بھی کوئی حدیث سنی ہےؕ

ابوہریرہ نے کہا میں نے ابوالقاسم (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے؟!

تم سے پہلے ایک شخص تھا جو کہ اپنے لباس پر فخر کرتا تھا،خدا نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اسی حالت میں رہےگا۔ قسم خدا کی میں نہیں جانتا شاید وہ تمھارے خاندان یا جماعت سے تھا۔( البدایۃ والنہایۃ ج۸ ص۱۰۸)

اور ابوہریرہ کی روایات میں لوگ کیسے شک نہ کریں جب کہ ان میں تناقض پایا جاتا ہے۔ایک حدیث بیان کرتے ہیں پھر اس کی نقیض  بیان کرتے ہیں اور جب لوگ پہلی حدیث کے متعلق ان سے سوال و جواب کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لیتے ہیں یا حبشی زبان میں بڑبڑانے لگتے ہیں۔ ( صحیح بخاری ج۳۱ باباالاہانہ۔)

اور لوگ انھیںدروغ گوئی اور حدیث گھڑی والا کیسے نہ کہتے جب کہ انہوں نے خود کہا میں اپنے ترکش سے حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کردیتا ہوں۔

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ابوہریرہ  نے کہا: نبی(ص) نےفرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی دے اور دینے والا لینے والے سے بہتر ہے پہلے اپنے اہل و عیال کوشکم سیر کرو، عورت کہتی ہے یا مجھے شکم  سیر کردیا طلاق دے دو،  غلام کہتا ہے مجھے کھانا کھلاؤ کام لو اور بیٹا کہتا  ہے مجھے مرتے دم تک کھانا کھلاؤ ۔ لوگوں نے پوچھا : اے ابوہریرہ تم نے یہ حدیث رسول(ص) سے سنی ہے؟!ابوہریرہ نے کہا: نہیں یہ اپنی جیب سے بیان کی ہے۔ ( صحیح بخاری ج۶، ص۱۹۰ باب وجوب

۲۹۳

 النفقیہ علی الاہل والعبال ۔)

ملاحظہ فرمائیے ابوہریرہ  حدیث کی ابتداء کس طرح کرتے ہیں : نبی(ص) نے فرمایا: اور جب لوگوں نے استفسار کیا  تو مجبورا اعتراف کیا وہ ابوہریرہ کی جیب سے ہے!

یہ جھوٹ اور داستانوں سے لبریز ابوہریرہ کو مبارک ہو۔ واضح رہے ابوہریرہ کو معاویہ اور  بنی امیہ کے زمانے میں فروغ ملا، وہ حدیثوں سے عزت و اموال جاہ عظمت کمارہے تھے، اسی لئے معاویہ نے انھیں مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا تھا اوران کے  لئے  عقیق کا قصر بنایا تھا اور اس شریف عورت سے انکی شادی کرائی تھی جس کے ابوہریرہ غلام تھے۔

ابوہریرہ معاویہ کا مقرب وزیر تھا اس نبا پر نہیں کہ ان کا کوئی فضل و شرف تھا وہ عالم تھے بلکہ معاویہ کو ان کے پاس ایسی حدیثیں ملی تھیں جنکی اسے ضرورت تھی اور انکی نشر و اشاعت معاویہ کے لئے مفید تھی جبکہ صحابہ علی(ع) پر لعنت کرنے کے سلسلہ میں عذر کرتے تھے اور اسے برافعل سمجھتے تھے تو اس وقت ابوہریرہ گھر میں بیٹھ کر علی(ع) پر سب و شتم  کرتا تھا اور شیعوں کے درمیان بھی اس سے نہیں چوکتا  تھا۔

ابن ابی الحدید نے روایت کی ہے کہ ، جب ابوہریرہ عام الجماعت میں معاویہ کے ساتھ عراق آیا تو مسجد میں گیا جب اس نے اپنے استقبال کرنے والوں کی کثرت دیکھی تو دو زانوں بیٹھ کر پھر اپنے سر پر مار کر کہا اے عراق والو! کیا تم یہ سمجھتے  ہو کہ میں رسول(ص) پر جھوٹ باندھتا ہوں اور خود کو آگ میں جلاتا ہوں ، قسم خدا کی میں نے رسول(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: ہر نبی کا کوئی حرم ہوتا ہے اور میرا حرم عبر سےشور کے درمیان مدینہ ہے۔ پس جس نے بھی اس میں کوئی حادثہ کیا اس پر خدا اور اس کے ملائکہ اور  تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ اس میں علی(ع) نے حادثہ کیاہے۔

جب معاویہ کو یہ خبر ملی تو اس نے ابوہریرہ کو  انعام و اکرام سے نوازا اور مدینہ کا گورنر مقرر کیا ۔ ( شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۶۷۔)دلیل کے طور پر ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ وہ معاویہ کی طرف سے مدینہ کا گورنر تھا اور اس

۲۹۴

میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آزاد محققین ہر اس شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے جس کو خدا و رسول(ص) کو دشمن اور ولی خدا و رسول(ص) کا عدو گورنر بنائے گا۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ابوہریرہ اس بلند مقام پر ایسے ہی فائز نہیں ہوا اور اسے اسلام کے دارالحکومت مدینہ کی گورنری ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ اس  کے لئے معاویہ اور بنی امیہ  کے حکام کی خدمت کی تھی۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو حالات بدل دیتی ہے۔ جب ابوہریرہ مدینہ آیا تھا تو اس وقت اس کے پاس شرگاہوں کو چھپانے کے لئے فقط ایک اونی چادر تھی اور زندگی گذارنے کے لئے بھیک مانگتا تھا۔

جب ایسا شخص اچانک مدینہ منورہ کا گورنر بن جائے اور اسے ایک دم عقیق کے محل میں رہائش مل جائے اور اس کے پاس اموال و خدمت گار اور غلاموں کی بہتات ہوجائے اور کوئی اس سے بغیر اجازت بات نہ کرے۔

یہ سب کچھ ان کے کشکول کی برکت تھی، آپ کے لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ آپ آج بھی وہی حالت دیکھتے ہیں، تاریخ اپنے کو دہراتی ہے، آج بھی ایسے گمنام اور جاہل لوگ ہیں جنہوں نے حاکموں کا تقرب حاصل کیا، کسی پارٹی سے منسلک ہوئے تو وہ بارعب حاکم و سردار بن گئے۔ ۔۔۔ دنیا ان کے اشارہ پر ناچتی ہے اور ٹھہرتی ہے و سیر و سیاحت کرتے ہیں ، انکے قبضہ بے حساب مال رہتا ہے، ایک سے ایک کاران  کے استعمال میں رہتی ہے۔ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو بازاروں میں نہیں ملتیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حسنِ کلام  سے عاری ہوتے ہیں، بلاغت سے تو ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ وہ پیٹ  کے علاوہ زندگی کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے ، ابوہریرہ کی طرح  انکے پاس بھی جیب ہے، اگرچہ دونوں میں فرق ہے لیکن مقصد دونوں کا ایک ہی ہے یعنی حاکم کو خوش رکھنا اور اس کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیئے  اس کی ترویج کرنا اور  اس کے دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا۔

ابوہریرہ عثمان بن عفان ہی کے زمانہ سے امویوں کو دوست رکھتے تھے اور وہ انھیں محبوب

۲۹۵

سمجھتے تھے پس عثمان کےبارے میں انکی رائے مہاجرین و اںصار میں سے تمام صحابہ کے خلاف تھی۔ وہ ان  صحابہ کو کافر کہتے تھے جو قتلِ عثمان میں شریک تھے اور انکی عداوت پر متفق تھے۔

بےشک انہوں نے علی بن ابی طالب(ع)  پر قتلِ عثمان  کی تہمت لگائی تھی اور مسجد کوفہ میں جو حدیث ابوہریرہ نے بیان کی تھی کہ علی(ع)  نے مدینہ میں حادثہ کیا  ہے اور ان پر نبی(ص) ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے جیسا کہ حدیث سے آشکار ہے۔

اس لئے ابن سعد اپنی طبقات میں تحریر کرتے ہیں کہ جب سنہ۹ھ میں ابوہریرہ کا انتقال ہوا تو عثمان کے بیٹے ان کا جنازہ لے کر بقیع تک پہنچے کیونکہ عثمان کے متعلق ابوہریرہ کے نظریہ کا بھرم رکھنا تھا۔ ( طبقات ابنِ سعد ج۲ ص۶۷۔)

بے شک خدا کی مخلوق کے مختلف حالات ہوتے ہیں ۔ قریش کے سردار عثمان بن عفان مسلمانوں کے خلیفہ  جب کو اہل سنت والجماعت ذوالنورین کہتے ہیں ، جن سے ملائکہ کو شرم آتی ہے وہ بھیڑ  کی طرح ذبح کئے جاتے ہیں ۔ قتل سے موت واقع ہوجاتی ہے، نہ غسل دیا جاتا ہے نہ کفن یہاں تک کہ تین روز تک دفن بھی نہیں ہونے دیا جاتا  اورپھر یہودیوں کے قبرستان میں دفن کئے جاتے ہیں۔

اور اوہریرہ عزت کی موت مرتے ہیں جب کہ وہ گمنام تھے کوئی ان کے قوم و قبیلہ سےبھی واقف نہیں تھا اور قریش سے انکی کوئی قربت  نہ تھی۔ ان کا جنازہ عہد معاویہ کے حکام خلیفہ سابق کی اولاد اٹھاتی ہے اور بقیعِ رسول(ص) میں دفن کرتے ہیں۔

ابھی آپ ہمارے ساتھ ابوہریرہ کا جائزہ لیں تاکہ سنتِ نبوی(ص) کےسلسلہ میں ان کے موقف سے آشنا ہوجائیں۔

بخاری نے صحجیح میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا : میں نے رسول(ص) کی دو حدیثیں یاد کی تھیں ایک تو میں نے نشر کردی لیکن اگر دوسری کو بیان کرتا تو میرے حلقوم پر تلوار چل جاتی۔ ( صحیح بخاری، ج۱ ص۳۸، باب حفظ العلم۔)

۲۹۶

گذشتہ صفحات میں ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے لکھی ہوئی سنتِ رسول(ص) کو ںذر آتش کردیا تھا اور محدثین کو نقل کرنے سے منع کردیا تھا۔ ابوہریرہ ایسی چیز  کو بیان کررہے ہیں جو مخفی تھی اور اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ یہ وہی بیان کررہے ہیں جس کی خلفاء اجازت دیتے ہیں۔اس بنیاد پر  یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابوہریرہ کے پاس دور کیسے تھے ایک انھیں بیان کرنے پر ابھارتا تھا چنانچہ ایک انھوں نے بیان کردی یعنی  ایک حدیث ہم سے بیان کردی اور جس میں حاکموں کی مصلحت تھی اسے مخفی رکھا ۔ لیکن جو دوسری حدیث ابوہریرہ نے مخفی رکھی اور اپنا گلاکٹ جانے کے خوف سے بیان نہیں کی وہ نبی(ص) کی صحیح حدیث تھی۔اگر ابوہریرہ ثقہ ہوتے  تو وہ نبی(ص) کی حقیقی حدیثوں کو نہ چھپاتے اور اوہام وجھوٹ کو ظالموں کی تائید میں بیان نہ کرتے جبکہ وہ جانتے تھے کہ بینات کو چھپانے والے پر خدا لعنت کرتا ہے۔بخاری نے خود ابوہریرہ ہی کا قول نقل کیا ہے : کہتے ہیں ،لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ  بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتاہے ۔ اگر قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک بھی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی۔

إِنَّ الَّذينَ يَكْتُمُونَ ما أَنْزَلْنا مِنَ الْبَيِّناتِ وَ الْهُدى‏ مِنْ بَعْدِ ما بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتابِ أُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللاَّعِنُون

" بے شک جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات " ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی" کو چھپاتے ہیں ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔"

اور ہمارے مہاجرین بھائی تو بازاروں میں خرید فروخت میں مشغول رہتے تھے اور انصار برادران اپنے مالی امور میں لگے رہتے تھے او ابوہریرہ نے اپنا پیٹ بھرنے کی وجہ سے نبی(ص) کے ساتھ رہنا اپنے لئے لازم کر لیا تھا۔چنانچہ وہ اس وقت حاضر رہتے تھے جب وہ ( مہاجرین و انصار) حاضر نہیں ہوتے تھے اور وہ اس چیز کو حفظ کرتے تھے جس کو دوسرے حفظ نہیں کرتےتھے ۔ ( صحیح بخاری، ج۱ ،ص۳۷، باب حفظ  العلم)پس ابوہریرہ کیسے کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک بھی حدیث بیان نہ کرتا

۲۹۷

جب کہ خود ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) سے دو چیزیں سنی تھیں ان میں سے ایک بیان کردی ہے اور دوسری کو مخفی رکھے ہوئے ہوں ، اگر اسے بیان کردوں تو  میرا  سرقلم کردیا جائے ۔ کیا اس سے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ابوہریرہ نے حق چھپایا  ہے جب کہ کتابِ خدا میں حق چھپانے والے کی مذمت میں دو آیتین موجود ہیں۔؟!

اور جب نبی(ص) نے اپنےاصحاب کے لئے یہ فرمایا تھا کہ: تم اپنے اہل کی طرف پلٹ جاؤ اور انھیں سکھاؤ ، تعلیم دو، ( صحیح بخاری ج۱ ص۳۰۔) نیز فرمایا : اکثر پہچانے والے سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھتے ہیں۔

بخاری نے ہدایت کی ہے کہ نبی(ص) نے عبدالقیس کے وفد کو ایمان اور علم کی حفاظت پر ابھارا اور ( کہا ) اپنے بعد والوں کو اس کی خبر دینا۔( صحیح بخاری، ج۳ص۳۰۔)

کیا ہمیں اور دیگر محققین کو یہ سوال کرنے کا  حق ہے کہ ایک صحابی کو حدیث نبی(ص) بیان کرنے کے سلسلہ میں قتل کیوں کیاجاتا ہے اور اس کے گلے پر تلوار کیوں رکھی جاتی ہے؟!

ضروری ہے کہ اس حدیث میں کوئی ایسا راز پوشیدہ ہے جس کے فاش ہونے کو صحابہ دوست نہیں رکھتے ہوں گے اور ہم اپنی کتاب" فاسئلوا اہل الذکر" میں اس راز کی طرف اشارہ کرچکے ہیں اور وہ راز حضرت علی(ع) کی  خلافت کے لئے نص ہے۔

اور پھر ابوہریرہ پر ملامت کیوں نہیں کی جاسکتی جب کہ انکی قدر قیمت معلوم ہوچکی ہے اور وہ خود اپنے متعلق کہہ چکے ہیں کہ جو حدیث نبی(ص) کو چھپائے گا اس  پر خدا  اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

لیکن ملامت کے مستحق اہل سنت والجماعت ہیں جو ابوہریرہ کو راوی سنت کہتے ہیں جب کہ ابوہریرہ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ انھوں نے حدیث نبی(ص) کو چھپایا، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے حدیث میں تدلیس کی ہے اور جھوٹی حدیث بیان کی ۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نبی(ص) اور دیگر لوگوں کی حدیثوں میں تمیز نہیں کرپاتے۔

یہ سب حدیثیں اور اعترافات صحیح ہیں جو کہ صحیح بخاری اور دیگر صحاحِ اہلِ سنت میں منقول

۲۹۸

ہیں۔

اہلِ سنت اس شخص سے کیسے مطمئن ہوگئے جس کی عدالت کو حضرت علی ابن ابی طالب(ع) نے مخدوش قرار دیا اور اسے جھوٹا بتایا اور فرمایا وہ( ابوہریرہ) رسول(ص) پر جھوٹ باندھتا ہے اس طرح عمر بن خطاب نے بھی اس پر تہمت لگائی اور مارا اور شہر بدر کرنے کی دھمکی دی ، اسے عائشہ نے بھی مطعون کیا اور متعدد بار جھٹلایا : متعدد بار صحابہ نے اسکی تکذیب کی اور اسکی متناقض حدیثوں کو رد کیا ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ابوہریرہ نے اس کا اعتراف کیا اور دوسری مرتبہ  حبشی زبان میں بڑبڑانے لگے، بہت سے علمائے اسلام نے بھی اس کو مطعون کیا ہے اور اس پر جھوٹ اور تدلیس اور معاویہ  کے دسترخوان اور چاندی سونے کا حریص بتایا ہے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود  ابوہریرہ  کیسے راوی اسلام بن گئے اور مسلمان ان سے دینی احکام کیسے لیتے ہیں۔؟!

بعض علماء محققین نے تاکید کی ہے کہ ابوہریرہ ہی نے اسلام میں یہودیوں کے عقائد داخل کئے ہیں اور اسرائیلیات کو اسلام میں شامل کردیا ہے جن سے حدیث کی کتابیں بھری پڑی  ہیں ، کعب الاحبار یہودی نے ابوہریرہ کے ذریعہ ایسا کیا ہے ،اسی لئے ایسی روایات ( مسلمانوں کی) کتابوں میں آگئی ہیں جن سے خد اکا مجسم ہونا اور حلول کرنا معلوم ہوتا ہے اور انبیاء کے بارے میں جتنے بھی منکر اقوال ہیں وہ سب ابوہریرہ کے بیان کئے ہوئے ہیں۔

کیا اہل سنت والجماعت اپنے راستہ ہٹ سکتے ہیں تاکہ وہ اس شخص سے واقف ہوسکیں جن سے انہوں نے سنت لی ہے اور جب وہ ہم سے سوال کریں گے تو ہم کہیں گے ، باب مدینۃ العلم اور ان کے ذریت سے ہونے والے ائمہ (ع) کے دروازہ پر آؤ ،وہی سنت کی حفاظت کرنے والے ، امت کے لئے باعثِ امان ، سفینۃ النجات ، ائمہ ہدیٰ، مصابیح الدجیٰ ، عروۃ الوثقیٰ اور حبل اللہ ہیں۔

۲۹۹

۱۱ : عبداللہ بن عمر :

آپ کا تعلق ان مشہور صحابہ سے ہے جن کا ان حوادث میں بڑا کردار رہا ہے جو  زمانہ معاویہ اور عہد بنی امیہ مین رونما ہوئے تھے اور اہل سنت والجماعت میں ان کے محبوب ہونے کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ عمر بن خطاب ان کے باپ ہیں ، اس لئے اہلِ سنت انھیں بڑا فقیہ اور حفاظ احادیث میں سے ایک سمجھتے ہیں ۔ امام مالک نے تو اپنے اکثر احکام میں انہی پر اعتماد کیا ہے چنانچہ اپنی کتاب" موطا" میں انہی کی احادیث بھری ہیں۔

اہل سنت والجماعت کی کتابوں کی ورق گردانی کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ عبداللہ بن عمر کی تعریف سے بھری پڑی ہیں۔

اس کے علاوہ جب ہمایک محقق کی نگاہ سے ان کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ صدق و عدالت سے ، سنتِ نبوی(ص) سے ، فقہ سے اور شرعی علوم سے بہت دور تھے۔

وہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (ع)  کے شدید ترین دشمن تھے اس سلسلہ میں وہ غیبت کی حد تک پہونچ گئے تھے اور لوگوں کو آپ(ع) کی دشمنی کی طرف کھینچ رہے تھے۔

گذشتہ بحثوں میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ انہوں نے جھوٹی حدیثوں کو رواج دیا جن کا لب لباب یہ ہے کہ وہ عہد نبی(ص) میں اور آپ(ص) کے سامنے ابوبکر کو سب سے افضل قرار دیتے تھے اوران کے بعد پھر عمر کی نوبت تھی پھر عثمان کا نمبر تھا ان کے بعد سب لوگ برابر تھے ۔ ان کی یہ بات نبی(ص) سنتے تھےلیکن اس کی تردید نہین کرتے تھے۔ ( بخاری و مسلم وغیرہ)

جیسا کہ آپ جانتے ہین یہ سفید جھوٹ  ہے اس سے عقلاء کو ( بے ساختہ) ہنسی آجاتی ہے ہم حیاتِ نبی(ص) میں عبداللہ ابن عمر کو دیکھتے ہیں تو ایک نابالغ نوجوان ہیں اہل حل و عقد میں ان کا شمار نہیں ہے اور نہ ہی ان کی رائے سننے کے قابل ہے اور جب رسول اللہ(ص) نے وفات پائی تو اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ ۱۹ سال تھی۔

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431