شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 98803
ڈاؤنلوڈ: 4784

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98803 / ڈاؤنلوڈ: 4784
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

گئی ہے اس  سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ جائز امر ہو در حقیقت ہمیں چاہئیے تھا کہ خالد نے حکمِ رسول(ص) کی نافرمانی کی لیکن ہم نے اس کی بجائے یہ کہا کہ خالد نے نص کے مقابلہ میں اپنی رائے سے  اجتہاد کیا۔ جیسا کہ رسول(ص) نے ہمیں تعلیم دی ہے۔

" و عصی آدم ربه فغویٰ" (طہ/ ۱۲۱)

آدم(ع) نے نافرمانی کی وہ نے راہ ہوگئے اس لئے کہ خدا نے اس  درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا  لیکن آدم(ع) نے اس کا پھل کھالیا ، پس ہم یہاں یہ نہیں کہہ سکتے کہ آدم(ع)  نے نص کے مقابلہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کرلیا تھا۔

مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی حد میں رہے اور کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے یہ نہ کہے  کہ اس سلسلہ میں خدایا رسول(ص)  کی طرف سے امر  ہے یا نہی وارد ہوئی ہے کیونکہ یہ کھلا ہوا کفر ہے۔

خدا نے ملائکہ سے فرمایا تھا"اسجدوا الآدم" یہ امر ہے "فسجدوا" انھوں نےسجدہ کیا یہ طاعت و امتثال امر ہے۔

ابلیس (لع) نے اطاعت نہیں کی اس نے اپنی رائے سے اجتہاد کیااور  کہا: میں اس (آدم(ع))  سے بہتر و افضل ہوں ، کیسے اسےسجدہ کروں ؟ یہ عصیان و سرکشی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ افضل کون ہے، آدم (ع) یا ابلیس(لع) ؟ خداوندِ عالم نے یہ فیصلہ کیا۔

" اور نہ ہی کسی ایمان دار مرد کے لئے مناسب ہے اور نہ کسی ایمان عورت کے لئے  کہ جب اللہ و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو ان کو بھی اپنے کام کا اختیار ہو"۔(احزاب/۲۶)

اسی بات کی طرف امام  جعفر صادق(ع) نے ابو حنیفہ سے گفتگو کے دوران اشارہ فرمایا تھا کہ : قیاس نہ کیا کرو کیوں کہ جب شریعت میں قیاس کیا جاتا ہے  تو مٹ جاتی ہے اور پھر سب سے پہلے ابلیس(لع) نے قیاس کیا ، جبکہ اس نے کہا میں  اس (آدم(ع))  سے افضل ہوں کیونکہ مجھے تو نے

۲۸۱

 آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے  بنایا ہے۔

امام جعفر صادق(ع) کا ہی قول ہےکہ جب شریعت میں قیاس کیا جاتا ہے تو مٹ جاتی ہے، یہ قیاس کےباطل ہونے پر بہترین دلیل ہے  پس اگر نص کے مقابلہ میں لوگ مختلف راویوں پر  عمل کریں تو شریعت باقی نہیں رہے گی، اگر حق ان کی خواہشات کا اتباع کرتا تو زمین و آسمان تباہ ہوجاتے۔

اجتہاد کےسلسلہ میں اس مختصر بحث کے بعد ہم اپنے موضوع پر  خالد کے حالات کے تجزیہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ خالد نے ایک بار پھر حکمِ رسول خدا(ص)  کی نافرمانی کی جبکہ آپ(ص) نے اسے بنی حذیفہ کے پاس دعوتِ اسلام کے لئے بھیجا تھا اور قتال کا حکم نہیں دیا تھا۔

 خالد ان کے پاس گیا، ان کےدرمیان ٹھہرا اور جب وہ اسلام کا اعلان کرچکے تو انھیں دھوکہ سے قتل کردیا۔ یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف نے جوکہ خالد کے ساتھ اس حادثہ میں موجود تھے۔ خالد پر یہ تہمت لگائی کہ اس نے اپنے چچا کا انتقام  لینے کی وجہ سے قتل عام کیا ہے۔ ( عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں قسم خدا کی خالد نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ خالد نے کہا میں نے تمھارے باپ عوف بن عوف کے عوض انھیں قتل کیا ہے۔ عبدالرحمن نے کہا میرے باپ کو عوض تم نے انھیں قتل نہیں کیا  ہے ۔  تم نے  اپنے چچا کے قصاص میں انھیں قتل کیا ہے۔ خدا آپ کو سلامت رکھے ذرا غور فرمائیے کہ خالد کو اس بات کا اعتراف ہےکہ اس نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ لیکن اس اعتراف کے ساتھ میں نے عبدالرحمن کے والد عوف کے قصاص  میں انھیں قتل کیا ہے  کیا دینِ خدا میں اسے یہ ۔۔۔۔۔ کہ وہ ایک شخص کے عوض پوری قوم کو قتل کردے اور کیا یہ جائز ہے کہ ایک کافر کے بدلے ۔۔۔۔مسلمانوں کو قتل کیا جائے۔) جب رسول(ص) نےاس حادثہ کے بارے میں سنا تو خدا سے اس فعل کےمتعلق تین مرتبہ اظہار برائت فرمایا جس کا ارتکاب خالد نے کیا تھا۔

تاریخ کے صفحات کے سیاہ کارناموں  اور کتابِ خدا و سنتِ رسول(ص)  کی نافرمانی سے بھرے

۲۸۲

 پڑے ہیں ایک محقق کے لئے زمانۃ ابوبکر میں خالد کے یمامہ والا واقعہ کا مطالعہ کافی ہے۔

اس نے مالک نویرہ او ر ان کی قوم کو فریب دیا اور انھیں بے چارگی کی حالت میں قتل کردیا جب کہ وہ سب مسلمان  تھے اور  اسی حادثہ کے بعد فورا ہی مالک بن نویرہ کی زوجہ سے خالد نے نکاح کیا اور اس سلسلہ میں شریعتِ اسلام اورعرب کی مروَت کا قطعی پاس و لحاظ  نہ کیا۔یہاں تک احکام کو زیادہ اہمیت نہ دینے والے عمر بن خطاب نےبھی اس فعلِ قبیح پر  خالد کو شرزنش کی اور اسے دشمنِ خدا کہا اور سنگسار کردینے کی دھمکی دی۔

محققین غیر جانب دار ہوکر تنقیدی نظر اور بصیرت کی نگاہوں سے تاریخ کا مطالعہ فرمائیں اور مذہبی عصبیت کو ایک طرف رکھ دیں ۔ تو حقیقت تک پہونچ جائیں گے ۔ کیونکہ احادیثِ نبی(ص) کو بیان کرنے والے جھوٹے افراد بھی ملتے ہیں ۔ کیونکہ اہل سنت والجماعت یعنی بنی امیہ اپنی طرف سے حدیث گھڑا کرتے تھے اور تاریخی حادثات کو محو کردیتے تھے تاکہ تحقیق کرنے والے حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔

اور ان میں سے کوئی بھی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ : خالد کے لئے تو رسول خدا(ص)  نے فرمایا ہے۔" مرحب سیف اللہ" اس جھوٹی حدیث کو ان نیک سرشت اور سادہ لوح مسلمانوں نے نقل کردیا جو کہ حسنِ ظن رکھتے ہیں اور بنی امیہ کے مکرو فریب  سے واقف نہیں ہیں اور اس کے بعد خالد کے ہر ایک حقیقت جر مبنی فعل کی تاویل کرتے ہیں اور اس کے لئے عذر تراشی  کیا کرتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں : نبی(ص)  کے چچا ابوطالب(ع) کے بارے میں ایک ضعیف قول ہے کہ وہ ( معاذ اللہ) کافر مرے اور نبی(ص) نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ ابوطالب(ع) کی پنڈلیوں تک آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے اور اس طرح ان کےدماغ کو اذیت دی جائے گی۔

اس جھوٹی حدیث کی بنا پر اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ابوطالب(ع)  مشرک تھے اور وہ جہنم میں ہیں۔ اس حدیث  کے بعد وہ کسی بھی ایسی عقلی تحلیل کو قبول نہیں کرتے جو انھیں حقیقت تک پہنچا دے اور اسی حدیث کی وجہ سے وہ ابو طالب(ع) کی پوری زندگی اور دعوتِ اسلام کے سلسلہ

۲۸۳

 میں اپنے بھتیجے کی حمایت اور راہِ اسلام میں ان کے جہاد کا بالکل ختم کردیتے ہیں جب کہ ابوطالب(ع) نے اپنے بھتیجے کی اتنی حمایت کی کہ آپ  کی قوم  آپ کے دشمن ہوگئی اور آپ اپنے بھتیجے کے ساتھ مکہ کے غار میں تین سال تک قید رہنے پر راضی ہوگئے کہ جہاں درختوں کے پتے کھا کر زندگی گزاری۔ لیکن اہلِ سنت والجماعت ان کے دلیرانہ موقف  کو چاٹ  جاتے ہیں  اور نبی(ص) کو تبلیغ کی نصرت کےسلسلہ میں ان کےاعتقادی اشعار کو ہضم کرجاتے ہیں اور ہر اس فعل پر خاک ڈالدیتے ہیں جو نبی(ص) نے اپنے چچا کے لئے انجام دیا تھا۔ انھیں غسل دیا ، اپنے کرتے کا کفن دیا، ان کی قبر میں اترے اور جس سال ابوطالب(ع)  کا  اتنقال ہوا اس کا عام الحزن قرار دیا اور فرمایا : قسم خدا کی قریش کی جرت میرے چچا ابوطالب(ع) کے مرنے کے بعد بڑھی ہے  بے شک میرے خدا نے مجھے وحی کے ذریعہ بتایا  ہے کہ اب مکَہ سے نکل جاؤ تمھارا مددگار مرچکا ہے۔ پس اسی روز مکہ سے ہجرت کی۔

دوسری مثال ابوسفیان  ابنِ حرب معاویہ کے باپ کی لیجئے کہا جاتا ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا اور نبی(ص) نےاس کے بارے میں فرمایا جو ابوسفیان کے  گھر میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔

اس حدیث کی بنا پر  کہ جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فضیلت ہے۔ اہلِ سنت والجماعت  کا عقیدہ ہے کہ ابوسفیان مسلمان ہوگیا تھا اور وہ جنت میں ہے اس لئے کہ اسلام ما قبل کے  کے گناہوں معاف کردیتا ہے۔

اسی حدیث کی وجہ سے وہ کوئی ایسی عقلی تحلیل و تجزیہ قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہوتے جو انھیں حقیقت تک پہنچادے اور اسی حدیث کی وجہ سے وہ ابوسفیان کے تمام افعال سے چشم پوشی کرلیتے ہیں جو  کہ اس نے رسول(ص) اور تبلیغِ اسلام کے خلاف انجام دیئے تھے۔ اور اس کی بھڑکتی ہوئی تمام جنگوں کو فراموش کو دیتے ہیں اور محمد(ص) کے خلاف اس کی ساری سازشوں کو یکسرہ بھولا دیتے ہیں اور  نبی(ص) سے سارے بغض و حسد کو کالعدم تصور کرتے ہیں۔ جب کہ ابوسفیان اس وقت اسلام لایا جب لوگوں نے آکر اس سے کہا یا اسلام لے آؤ ورنہ تمھاری گردن ماردی جائے گی ۔ اس پر  ابوسفیان نے کہا:اشهد ان

۲۸۴

 ان لا اله الله ، لوگوں نے کہا:اشهد ان محمَد رسول الله بھی تو کہو تب اس نےکہا : میرے باطن میں ایک چیز ہے جو مجھے کلمہ پڑھنے سے روکتی ہے۔

اور جب مسلمان ہونے کے بعد نبی(ص) کے ساتھ بیٹھا تو اپنے دل میں کہا : انھوں نے کس چیز کے ذریعہ مجھ پر غلبہ حاصل کیا ہے؟ تو نبی(ص)  نے فرمایا : اے ابوسفیان میں نے اللہ کی مدد سے تم پر غلبہ پایا ہے۔

ہم نے اسلامی واقعات میں سے یہ دو مثالیں پیش کی ہیں تاکہ محققین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ لوگوں پر خواہشاتِ نفسانی کا کیا اثر ہوتا ہے اور کیسے ان سے حق کو  چھپا دیتا ہے اور اسی سے ہم یہ سمجھتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے صحابہ پر جعلی اور جھوٹی حدیثوں کا غلاف چڑھا دیا ہے جس سے وہ غافل لوگوں کی نظروں میں  مقدس  بن گئے۔ چنانچہ اہل سنت والجماعت صحابہ پر کسی ناقد  کی تنقید اور کسی ملامت گر کی ملامت سننے کو تیار نہیں ہیں۔

اور جب کسی مسلمان کا یہ اعتقاد ہو کہ رسول(ص) نےانھیں ( صحابہ کو ) جنت کی بشارت دی ہے تو اس کی بعد ان کے بارے میں کوئی بات  قبول ہی نہیں کرے گا۔ بلکہ ہر فعل کے لئے عذر تراشی کرے گا اور ان کے تمام افعال کو معمولی بنا کر پیش کرے گا اور تاویلات سے کام لے گا کیوں کہ پہلے دن سے اس کا دروازہ بند نہیں کیا گیا تھا۔

اس کے لئے اہلِ سنت  نے اپنے ہر ایک بزرگ کے لئے ایک لقب وضع کرلیا ہے  اور اس لقب کو رسول(ص) کی طرف منسوب کردیا ہے، اس طرح کسی کو صدیق کسی کو فاروق، کسی کو ذوالنورین کسی کو عاشق رسول(ص) ، کسی کو حورائی رسول(ص) ، کسی کو رسول(ص) کی چہیتی،کسی کو امین الامت کسی کو راویۃ الاسلام ، کسی کو کاتبِ وحی، صاحبِ نعلین، حجامِ رسول(ص) ، سیف اللہ جیسے القاب سے نوازا ہے۔

در حقیقت اللہ کے میزانِ عدل میں ان القابات کی کوئی حقیقت  و اہمیت نہیں ہے ۔ یہ  وہی اسماء ہیں جو تم نے اور تمھارے باپ داد نے رکھ دیئے تھے خدا  نے اس سلسلہ میں کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے خدا کے نزدیک نفع وضرر کا معیار اعمال ہیں۔

۲۸۵

اور ان کے اعمال کا بہترین شاہد تاریخ ہے ۔ ان ہی اعمال کے ذریعہ ہم انسان کی شخصیت کو پرکھتے ہیں اور  اس کی قدر و قیمت معین کرتے ہیں اور اس انسان کا کوئی معیار نہیں سمجھتے جس کے لئے جھوٹ و بہتان والی چیزیں بیان کی جاتی ہیں۔

اور یہ ٹھیک وہی بات جو امام علی(ع) کا مقولہ ہے: حق کو پہچان لو، تو اسکے ذریعہ اہلِ حق خود  پہچان لئے جائیں گے۔ ہم نے تاریخ کو چھان بین کی اور خالد بن ولید کے  کارناموں سے آگاہی حاصل کی اور حق کو باطل سے جدا کرلیا۔ پس ہم خالد کو کبھی سیف اللہ نہیں کہہ سکتے بلکہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اہلِ سنت سے  یہ سوال کریں کہ رسول(ص) نے کس وقت خالد کو سیف اللہ کے لقب سے نوازا تھا؟ آیا فتح مکہ کے روز جب اس نے اہل مکہ کو قتل کیا تھا، جبکہ رسول(ص) نے کسی کو بھی قتل کرنے سے منع کیا تھا؟ یا اس وقت سیف اللہ کہا تھا جب اسے زید بن حارثہ والے سریہ میں روانہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ زید کے قتل ہوجانے پر جعفر بن ابی طالب(ع) علم دار ہوں گے اور جعفر کے قتل ہونے پر عبداللہ بن رواحہ علم سنبھالیں گے چنانچہ چوتھے نمبر پر  خالد کو فوج کا سپہ سالار مقرر کیاتھا اور جب تین افراد کے قتل ہوجانے پر  خالد  نے کمانڈری سنبھالی تو  باقی فوج کو لیکر میدانِ کارزار سے فرار کر گیا؟!

کیا اس وقت سیف اللہ کہا تھا جب خالد آپ(ص) کے ساتھ غزوہ حنین میں بارہ(۱۲) ہزار کے لشکر کے ضمن شریک تھا اور رسول(ص) کو میدان کا رزار میں تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا اور آپ کے ساتھ صرف(۱۲) افراد رہ گئے تھے۔ جبکہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے :

جو شخص جبگ کے روز کفار کی طرف سے پیٹھ پھیرے گا وہ یقینا خدا کے غضب کا نشانہ بنے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔(انفال/۱۶)

یہ خصوصیت سیف اللہ (خالد) کو کیسے فرار کی اجازت دے سکتی ہے؟ یہ بات تو بہت ہی تعجب خیز ہے!

۲۸۶

میرا عقیدہ ہے کہ زمانہ رسول(ص) میں خود خالد بھی اس لقب سے نہیں واقف تھے اور نہ رسول(ص) نےانھیں اس لقب سے نوازا تھا ہاں ابوبکر نے  خالد کو یہ لقب اس وقت دیا تھا جب انھٰیں اپنے مخالفین کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا  اور انھوں نے ابوبکر کے حکم کو عمل جامہ پہنا دیا تھا ۔چنانچہ عمر نے اس حرکت پر خالد کو سرزنش کی اور ابوبکر سے کہا یقینا خالد نے ظلم کیا ہے اور یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا ورنہ خالد انھیں اچھی طرح جانتے تھے۔ اس پر ابوبکر نے کہا : خالد اللہ کی تلواروں میں سے ایک ہے۔ اس نے تاویل کی تھی خطا ہوگئی ( یہ ہے سیف اللہ کے لقب کا مبداء)

طبری نے ریاض النضرہ میں روایت کی ہے کہ بنی سلیم اسلام سے پھیر گئے تھے اس لئے ابوبکر نے خالد بن ولید کو ان کے پاس بھیجا۔ خالد نے انھیں جمع  کر کے جلادیا ، شدہ شدہ یہ خبر عمر ابن خطاب تک پہنچی وہ ابوبکر کے پاس آئے اور کہا اس شخص کو دور کرو  جو خدا  کا عذاب دیتا ہے۔

ابوبکر نے کہا: قسم خدا کی میں اس تلوار کو ہرگز نیام میں نہیں رکھوں گا ۔ جس کو خدا نے اپنے دشمنوں کے لئے کھینچ رکھی ہے۔ یہاں تک کہ وہ خود نیام میں رکھ لے۔ اس کے بعد خالد کو مسیلمہ کی طرف جانے کا حکم دیا۔

یہیں سے اہل سنت والجماعت نےخالد کو اللہ کی شمشیر برہنہ کہنا شروع کیا یہ الگ بات ہے کہ خالد نے حکمِ رسول(ص) کو ٹھکرا کر اور سنت کو دیوار  پر مار کر لوگوں کو آگ میں جلادیا۔

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا : آگ کا عذاب خدا کے علاوہ کوئی کسی کو نہیں دے سکتا۔ آپ(ص) ہی کا قول ہے ۔ آگ کےذریعہ کو ئی عذاب نہیں دے سکتا ہاں اس کا  رب اس کے ذریعہ عذاب دے گا۔ ( صحیح بخاری جلد۴،ص۳۲۵)

یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ابوبکر نے اپنی موت سے پہلے کہا تھا اے کاش میں فجاۃ سلمی کو نہ جلاتا!

اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اے کاش ابوبکر عمربن خطاب سے یہ پوچھتے اور کہتے، جب تم جانتے تھے کہ آگ کا عذاب صرف خداہی دے سکتا ہے اور کسی کو آگ سے عذاب دینے کا حق نہیں ہے تو آپ

۲۸۷

نے رسول (ص) کی قفات کے بعد کل یہ قسم کیوں کھائی تھی کہ قسم خدا کی میں زہرا(س) کے مکان کو مع مکینوں کے جلادوں گا؟! اگر علی(ع) تسلیم نہ ہوئے ہوتے اور اپنی جماعت کو گھر سے نکلنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو تمہاری مراد پوری ہوجاتی۔

بعض اوقات مجھے شک کشمکش میں مبتلا کردیتا ہے اور میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ کہ عمر کا ابوبکر سے جھگڑنا بعید ہے اور میں ان کی اور ان کی نزاع کی طرف ملتفت نہیں ہو پاتا ہوں۔

حقیقت میں یہ عجیب بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ابوبکر عمر کا مقابلہ نہیفں کرتے تھے اور ان سے قیل و قال کی ان میں ہمت نہیں تھی اور یہ تو بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ ابوبکر عمر سے کہتے تھے آپ سے میں نے کہا تھا اس کام کے لئے ۔مجھ سے آپ قوی ہیں لیکن آپ نے مجھ پر  زبردستی  کی اور ایک بار جب مولفۃ القلوب سے ابوبکر کا سفارش نامہ لے کر عمر نے اس پر تھوکا او ر پھاڑ ڈالا تو وہ شکایت کے لئے ابوبکر کے پاس  گئے اور کہا: خلیفہ آپ ہیں یا عمر؟ تو ابوبکر نے کہا وہی ہیں۔

اسی لئے میں کہتا ہوں شاید خالد کے افعالِ قبیحہ کے متعلق جھگڑنے والے علی بن ابی طالب(ع) تھے لیکن اولین مؤرخین اور راویوں نے آپ(ع) کا نام ہٹا کر عمر کا نام رکھ دیا جیسا کہ بعض ایسی روایات وارد ہوئی ہیں کہ جن کی سند ابی زینب  یا کسی اور شخص کی طرف دی ہے اور راویوں کی مراد علی(ع) ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کی صراحت نہیں کی۔

یہ فقط احتمال ہی نہیں ہے یا ہم بعض مؤرخین کا قول قبول کرلیں کہ عمر بن خطاب خالد سے بر ہم تھے یہاں تک اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے  تھے کیوں کہ اس نے خون بہایا تھا لیکن خالد نے اپنی کامیابیوں سے لوگوں کے دلوں میں جگہ پیدا کرلی اور یہ کہاجانے لگا زمانہ جاہلیت میں خالد عمر سے لڑ گئے تھے اور انھیں مغلوب کردیا تھا اور ان کی ایک ٹانگ توڑ دی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ جب عمر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے خالد کو معزول کردیا لیکن ان پر سنگسار والی حد جاری کہ کی جیسا کہ پہلے دھمکی دی تھی۔

اگر چہ خالد بن ولید اور عمر بن خطاب  مغلوب الغضب اور سختی و شدت میں دونوں  برابر تھے ہر ایک بد مزاج تھا ہر ایک سنتِ نبی(ص) کے خلاف عمل کرتا تھا اور نبی(ص) کی حیات میں اورمرنے کے بعد بھی نبی(ص)

۲۸۸

کی نافرمانی کرتا تھا، اسی طرح دونوں کو نبی(ص) کے وصی سے عداوت تھی ہر ایک ان کو ( خلافت سے ) دور رکھنے کے لئے کوشاں تھا اور نبی(ص) کی وفات کے بعد خالد نے علی(ع) کے خلاف ابوبکر و عمر کا ساتھ دیا۔( ملاحظہ فرمائیں احتجاج طبرسی) لیکن خدا نے ان سے نجات دی اور اس کا امر پورا ہونے والا ہے۔

خالد بن ولید کی شخصیت کی مختصر تحقیق کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اہل سنت والجماعت جب کا نام گنگنایا کرتے ہیں ان میں سے اکثر سنتِ نبوی(ص) سے دور ہیں اور یہ ان ہی کی اقتدا کرتے ہیں جنھوں نے سنت کی مخالفت کی اور اسے پسِ پشت ڈال دیا اور حرام و حلال کے سلسلہ میں نہ کتابِ خدا کی پروا کی اور نہ سنتِ رسول(ص) کا خیال رکھا۔

۲۸۹

۱۰ :ابوہریرہ دوسی :

ابوہریرہ ان صحابہ میں سے ہیں جو بہت بعد میں مسلمان ہوئے تھے جیسا کہ ابن سعد نے اپنی طبقات میں ترتیب قائم کی ہے اور ابوہریرہ کو نویں یادسویں طبقہ میں رکھا ہے۔

یہ ہجرت کے ساتویں سال کے آخر میں رسول(ص) کی خدمت میں پہنچے تھے اسی لئے مؤرخین کہتے ہیں، ابوہریرہ تین سال سے زیادہ نبی(ص) کے ساتھ نہیں رہے۔ ( صحیح بخاری ج۴ ص۱۷۵۔) بعض مؤرخین کہتے ہیں ابوہریرہ کو صرف دو سال نبی(ص) کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا کیونکہ نبی(ص) نے انھیں ابن حضرمی کے ساتھ بحرین بھیج دیا تھا اور رسول(ص)  کے انتقال کے وقت وہ بحرین ہی میں تھے۔

ابوہریرہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنی شجاعت یا جہاد کے ذریعہ پہچانے جاتے ہیں اور نہ ہی زیرک و دور اندیش مفکرین سے ان کا تعلق ہے اور نہ ہی حافظ فقہاء میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ قرت اور لکھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ رسول(ص) کے پاس اپنا پیٹ بھرنے کے لئے آئے تھے جیسا کہ خود انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے اور نبی(ص)  نے بھی یہی سمجھا تھا چنانچہ انھیں اہل صفہ میں داخل کیا اور جب بھی نبی(ص) کے پاس صدقے میں کھانے والی چیزیں آتی تھیں تو آپ اہل صفہ کے پاس بھیجدیتے تھے اور  جیسا کہ ابوہریرہ خود بیان کرتے ہیں کہ انھیں بہت زیادہ بھوک لگتی تھی اس لئے وہ صحابہ کے راستہ میں کھڑے ہوجاتے تھے ، ان سے گفتگو کرتے ہوئے چلے جاتے تھے تاکہ وہ انھیں گھر لے جائیں اور کھانا کھلائیں۔

لیکن یہ شخص نبی(ص) سے احادیث نقل کرنے میں مشہور ہوگیا اور صرف انکی بیان کی ہوئی احادیث کی تعداد چھ ہزار تک پہونچ گئی ۔ میں محققین کی توجہ اس چیز کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ، ایک تو ابوہریرہ رسول(ص) کے ساتھ بہت کم رہے پھر ایسی احادیث اور واقعات بیان کئے  جن کے وقوع کے وقت وہ ہرگز موجود نہیں تھے۔

بعض محققین نے خلفائے راشدین ، عشرہ مبشرہ ، امہات المؤمنین اور اہل بیت طاہرین(ع)  کی بیان کردہ احادیث کو جمع کیا ہے لیکن ان سب کی بیان کی ہوئی احادیث ابوہریرہ کی بیان

۲۹۰

کی ہوئی احادیث کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہیں ۔ ( باوجودیکہ ان میں حضرت علی(ع)  شامل ہیں جوکہ تیس(۳۰) سال تک رسول اکرم(ص)  کے ساتھ رہے ہیں۔)

یہیں سے ابوہریرہ پر انگلیاں اٹھنے لگیں اور انھیں حدیث گھڑنے والا، جھوٹا ، تدلیس کرنے والا کہا جانے لگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پہلے راوی ہیں جو اسلام میں متہم ہوئے۔

لیکن اہل سنت والجماعت انھین " راویۃ الاسلام " کے لقب سے نوازتے ہیں ، بے پناہ انکا احترام کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ احتجاج کرتے ہیں  ۔ شاید ان میں سے بعض کا عقیدہ ہےکہ ابوہریرہ  علی(ع) سے بڑے عالم تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں خود ابوہریرہ کی بیان کردہ ایک حدیث بھی ہے، کہتے ہیں :

میں نے  رسول(ص) سے عرض کی میں آپ(ص) سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں لیکن  میں بھول جاتا ہوں ۔ رسول(ص) نے فرمایا: اپنی ردابچھاؤ، میں نے بچھادی، پھر چلو کی طرح آپ(ص) نے اسے مس کیا اور مجھ سے فرمایا : اسے سمیٹ لو میں نے سمیٹ لی پھر اس کے بعد میں حدیث نہیں بھولا۔ ( صحیح بخاری ج۱ ص۳۸ ۔ کتاب العلم ، باب حفظ العلم، ایضا ج۳ ص۲۔)

ابوہریرہ رسول(ص) سے بہت حدیثیں نقل کرتے  تھے یہاں تک کہ ایک روز عمر ابن خطاب  نے انھیں درہ سے مارا اور کہا بہت حدیثیں بیان کرنے لگے ہو اور رسول(ص) پر جھوٹ باندھتے ہو۔ واقعہ یوں ہے کہ ابو ہریرہ نے یہ روایت نقل کی کہ: خدا نے زمین و آسمان کو سات روز میں خلق کیا ہے ۔ جب عمر کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے ابوہریرہ کو بلایا اورکہا : ذرا پھر وہ سات روز والی حدیث سناؤ، انہوں نے شروع کردی۔ بس پھر کیا تھا عمر کو درہ برسنے لگا اور کہا : خدا نے کہتا  ہے کہ میں نے چھ روز میں زمین و آسمان پیدا کئے ہیں اور تم نے کہتے ہو کہ سات روز میں پیدا کئے ہیں ۔ ابوہریرہ  نے کہا : حضور میں نے یہ حدیث کعب الاحبار سے سنی تھی۔ عمر نےکہا : جب تک تم حدیثِ نبوی(ص) اور کعب الاحبار کی حدیثوں میں تمیز نہیں کرسکتے اس وقت تک حدیث بیان نہ کرنا۔ ( ملاحظہ فرمائیں محمود ابوریہ المصر کی ابوہریرہ۔)

۲۹۱

اسی طرح روایت ہے کہ علی بن ابی طالب(ع) نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ سب سے زیادہ ابوہریرہ نے رسول(ص) پر جھوٹ باندھا ہے ۔( شرحِ ابن ابی الحدید ج۲ ص۶۸۔)

ایسے ہی ام المؤمنین عائشہ نےمتعدد احادیث کے بارے میں ابوہریرہ کے  جھٹلایا جبکہ انکی نسبت رسول(ص) کے طرف دیتے تھے۔ایک مرتبہ عائشہ نے انکی بیان کردہ حدیث کی تردید کی اور کہا: تم نے رسول(ص) سے یہ حدیث کب سنی تھی؟ ابوہریرہ  نے کہا: آپ کو حدیث رسول(ص) سے کوئی مطلب نہیں تھا ، آپ تو اپنے سرمے ، آیئنہ اور خضاب کرنے میں مشغول رہتی تھیں،لیکن جب عائشہ کو تکذیب پر اصرار ہوا اور انہوں نے اس کو ہوادی تو مروان بن حکم نے اس میں مداخلت کی اور کہا اس حدیث کی صحت کو بیان کرو تب ابوہریرہ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ(ص)  سے نہیں سنی بلکہ فضل بن عباس سے سنی تھی۔ ( صحیح بخاری ج۲ ص۲۳۲ باب الصائم یصبح جنباء و موطاء مالک ج۱ ص۲۷۲۔)

خصوصا اس روایت میں تو انھیں ابن قتیبہ نے بھی متہم کیا ہے اور کہا ہے: ابوہریرہ نے فضل ابن عباس کی موت کے بعد اس حدیث کو انکی طرف منسوب کیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرادیں کہ انھوں نے مرحوم سے سنی ہوگی۔ ( سیر اعلام النبلاء ۔ ذھبی۔)

ابن قتیبہ اپنی کتاب " تاویل مختلف الحدیث " میں تحریر کرتے ہیں کہ : ابوہریرہ کہا کرتے تھے کہ رسول(ص) نے ایسے ایسے فرمایا: جبکہ وہ حدیث کسی اور سے سنی تھی۔

اسی طرح ذہبی نے اپنی کتاب " اعلام النبلاء " میں روایت کی ہے کہ : یزید ابن ابراہیم نے شعب بن حجاج سے سنا کہ وہ کتہا ہےکہ : ابوہریرہ حدیث میں تدلیس کرتے ہیں۔

اور ابنِ کثیر کی " البدایۃ والنہایۃ" میں منقول ہے کہ : یزیر ابن ہارون نے سنا کہ اس  سلسلہ میں شعبہ کہتے ہیں کہ : ابوہریرہ حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ وہ رسول(ص) اور کعب الاحبار  کی حدیثوں میں تمیز نہیں کرپاتے تھے۔

ابو جعفر اسکافی کا کہنا ہے : ابوہریرہ ہمارے علما کے نزدیک مشکوک ہیں اور اس کی بیان کردہ احادیث مقبول نہیں ہے۔( شرح ابنِ ابی الحدید ج۴ ص۶۸۔)

۲۹۲

اور ابو ہریرہ نے اپنی حیات ہی میں صحابہ کے درمیان یہ شہرت حاصل کرلی تھی کہ ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تدلیس کرتے ہیں اور اکثر گھڑی ہوئی احادیث بیان کرتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض صحابہ اس سلسلہ میں ان کا مذاق اڑاتے تھے اور جو چاہتا تھا ان سے احادیث گھڑ والیتا تھا۔

روایت ہےکہ قریش میں سے ایک شخص نے نیا جبہہ پہنا اور اس پر فخر کرتے ہوئے ابوہریرہ کے پاس سے گذرا اور ان سے کہا : اے ابوہریرہ تم نے رسول(ص) سے بے شمار احادیث سنی ہیں : کیا تم نے میرے اس  جبہ کے بارے میں بھی کوئی حدیث سنی ہےؕ

ابوہریرہ نے کہا میں نے ابوالقاسم (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے؟!

تم سے پہلے ایک شخص تھا جو کہ اپنے لباس پر فخر کرتا تھا،خدا نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اسی حالت میں رہےگا۔ قسم خدا کی میں نہیں جانتا شاید وہ تمھارے خاندان یا جماعت سے تھا۔( البدایۃ والنہایۃ ج۸ ص۱۰۸)

اور ابوہریرہ کی روایات میں لوگ کیسے شک نہ کریں جب کہ ان میں تناقض پایا جاتا ہے۔ایک حدیث بیان کرتے ہیں پھر اس کی نقیض  بیان کرتے ہیں اور جب لوگ پہلی حدیث کے متعلق ان سے سوال و جواب کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لیتے ہیں یا حبشی زبان میں بڑبڑانے لگتے ہیں۔ ( صحیح بخاری ج۳۱ باباالاہانہ۔)

اور لوگ انھیںدروغ گوئی اور حدیث گھڑی والا کیسے نہ کہتے جب کہ انہوں نے خود کہا میں اپنے ترکش سے حدیث بیان کرتا ہوں اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کردیتا ہوں۔

بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ابوہریرہ  نے کہا: نبی(ص) نےفرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی دے اور دینے والا لینے والے سے بہتر ہے پہلے اپنے اہل و عیال کوشکم سیر کرو، عورت کہتی ہے یا مجھے شکم  سیر کردیا طلاق دے دو،  غلام کہتا ہے مجھے کھانا کھلاؤ کام لو اور بیٹا کہتا  ہے مجھے مرتے دم تک کھانا کھلاؤ ۔ لوگوں نے پوچھا : اے ابوہریرہ تم نے یہ حدیث رسول(ص) سے سنی ہے؟!ابوہریرہ نے کہا: نہیں یہ اپنی جیب سے بیان کی ہے۔ ( صحیح بخاری ج۶، ص۱۹۰ باب وجوب

۲۹۳

 النفقیہ علی الاہل والعبال ۔)

ملاحظہ فرمائیے ابوہریرہ  حدیث کی ابتداء کس طرح کرتے ہیں : نبی(ص) نے فرمایا: اور جب لوگوں نے استفسار کیا  تو مجبورا اعتراف کیا وہ ابوہریرہ کی جیب سے ہے!

یہ جھوٹ اور داستانوں سے لبریز ابوہریرہ کو مبارک ہو۔ واضح رہے ابوہریرہ کو معاویہ اور  بنی امیہ کے زمانے میں فروغ ملا، وہ حدیثوں سے عزت و اموال جاہ عظمت کمارہے تھے، اسی لئے معاویہ نے انھیں مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کیا تھا اوران کے  لئے  عقیق کا قصر بنایا تھا اور اس شریف عورت سے انکی شادی کرائی تھی جس کے ابوہریرہ غلام تھے۔

ابوہریرہ معاویہ کا مقرب وزیر تھا اس نبا پر نہیں کہ ان کا کوئی فضل و شرف تھا وہ عالم تھے بلکہ معاویہ کو ان کے پاس ایسی حدیثیں ملی تھیں جنکی اسے ضرورت تھی اور انکی نشر و اشاعت معاویہ کے لئے مفید تھی جبکہ صحابہ علی(ع) پر لعنت کرنے کے سلسلہ میں عذر کرتے تھے اور اسے برافعل سمجھتے تھے تو اس وقت ابوہریرہ گھر میں بیٹھ کر علی(ع) پر سب و شتم  کرتا تھا اور شیعوں کے درمیان بھی اس سے نہیں چوکتا  تھا۔

ابن ابی الحدید نے روایت کی ہے کہ ، جب ابوہریرہ عام الجماعت میں معاویہ کے ساتھ عراق آیا تو مسجد میں گیا جب اس نے اپنے استقبال کرنے والوں کی کثرت دیکھی تو دو زانوں بیٹھ کر پھر اپنے سر پر مار کر کہا اے عراق والو! کیا تم یہ سمجھتے  ہو کہ میں رسول(ص) پر جھوٹ باندھتا ہوں اور خود کو آگ میں جلاتا ہوں ، قسم خدا کی میں نے رسول(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: ہر نبی کا کوئی حرم ہوتا ہے اور میرا حرم عبر سےشور کے درمیان مدینہ ہے۔ پس جس نے بھی اس میں کوئی حادثہ کیا اس پر خدا اور اس کے ملائکہ اور  تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ اس میں علی(ع) نے حادثہ کیاہے۔

جب معاویہ کو یہ خبر ملی تو اس نے ابوہریرہ کو  انعام و اکرام سے نوازا اور مدینہ کا گورنر مقرر کیا ۔ ( شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۶۷۔)دلیل کے طور پر ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ وہ معاویہ کی طرف سے مدینہ کا گورنر تھا اور اس

۲۹۴

میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آزاد محققین ہر اس شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے جس کو خدا و رسول(ص) کو دشمن اور ولی خدا و رسول(ص) کا عدو گورنر بنائے گا۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ابوہریرہ اس بلند مقام پر ایسے ہی فائز نہیں ہوا اور اسے اسلام کے دارالحکومت مدینہ کی گورنری ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ اس  کے لئے معاویہ اور بنی امیہ  کے حکام کی خدمت کی تھی۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو حالات بدل دیتی ہے۔ جب ابوہریرہ مدینہ آیا تھا تو اس وقت اس کے پاس شرگاہوں کو چھپانے کے لئے فقط ایک اونی چادر تھی اور زندگی گذارنے کے لئے بھیک مانگتا تھا۔

جب ایسا شخص اچانک مدینہ منورہ کا گورنر بن جائے اور اسے ایک دم عقیق کے محل میں رہائش مل جائے اور اس کے پاس اموال و خدمت گار اور غلاموں کی بہتات ہوجائے اور کوئی اس سے بغیر اجازت بات نہ کرے۔

یہ سب کچھ ان کے کشکول کی برکت تھی، آپ کے لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ آپ آج بھی وہی حالت دیکھتے ہیں، تاریخ اپنے کو دہراتی ہے، آج بھی ایسے گمنام اور جاہل لوگ ہیں جنہوں نے حاکموں کا تقرب حاصل کیا، کسی پارٹی سے منسلک ہوئے تو وہ بارعب حاکم و سردار بن گئے۔ ۔۔۔ دنیا ان کے اشارہ پر ناچتی ہے اور ٹھہرتی ہے و سیر و سیاحت کرتے ہیں ، انکے قبضہ بے حساب مال رہتا ہے، ایک سے ایک کاران  کے استعمال میں رہتی ہے۔ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو بازاروں میں نہیں ملتیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حسنِ کلام  سے عاری ہوتے ہیں، بلاغت سے تو ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ وہ پیٹ  کے علاوہ زندگی کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے ، ابوہریرہ کی طرح  انکے پاس بھی جیب ہے، اگرچہ دونوں میں فرق ہے لیکن مقصد دونوں کا ایک ہی ہے یعنی حاکم کو خوش رکھنا اور اس کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیئے  اس کی ترویج کرنا اور  اس کے دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا۔

ابوہریرہ عثمان بن عفان ہی کے زمانہ سے امویوں کو دوست رکھتے تھے اور وہ انھیں محبوب

۲۹۵

سمجھتے تھے پس عثمان کےبارے میں انکی رائے مہاجرین و اںصار میں سے تمام صحابہ کے خلاف تھی۔ وہ ان  صحابہ کو کافر کہتے تھے جو قتلِ عثمان میں شریک تھے اور انکی عداوت پر متفق تھے۔

بےشک انہوں نے علی بن ابی طالب(ع)  پر قتلِ عثمان  کی تہمت لگائی تھی اور مسجد کوفہ میں جو حدیث ابوہریرہ نے بیان کی تھی کہ علی(ع)  نے مدینہ میں حادثہ کیا  ہے اور ان پر نبی(ص) ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے جیسا کہ حدیث سے آشکار ہے۔

اس لئے ابن سعد اپنی طبقات میں تحریر کرتے ہیں کہ جب سنہ۹ھ میں ابوہریرہ کا انتقال ہوا تو عثمان کے بیٹے ان کا جنازہ لے کر بقیع تک پہنچے کیونکہ عثمان کے متعلق ابوہریرہ کے نظریہ کا بھرم رکھنا تھا۔ ( طبقات ابنِ سعد ج۲ ص۶۷۔)

بے شک خدا کی مخلوق کے مختلف حالات ہوتے ہیں ۔ قریش کے سردار عثمان بن عفان مسلمانوں کے خلیفہ  جب کو اہل سنت والجماعت ذوالنورین کہتے ہیں ، جن سے ملائکہ کو شرم آتی ہے وہ بھیڑ  کی طرح ذبح کئے جاتے ہیں ۔ قتل سے موت واقع ہوجاتی ہے، نہ غسل دیا جاتا ہے نہ کفن یہاں تک کہ تین روز تک دفن بھی نہیں ہونے دیا جاتا  اورپھر یہودیوں کے قبرستان میں دفن کئے جاتے ہیں۔

اور اوہریرہ عزت کی موت مرتے ہیں جب کہ وہ گمنام تھے کوئی ان کے قوم و قبیلہ سےبھی واقف نہیں تھا اور قریش سے انکی کوئی قربت  نہ تھی۔ ان کا جنازہ عہد معاویہ کے حکام خلیفہ سابق کی اولاد اٹھاتی ہے اور بقیعِ رسول(ص) میں دفن کرتے ہیں۔

ابھی آپ ہمارے ساتھ ابوہریرہ کا جائزہ لیں تاکہ سنتِ نبوی(ص) کےسلسلہ میں ان کے موقف سے آشنا ہوجائیں۔

بخاری نے صحجیح میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا : میں نے رسول(ص) کی دو حدیثیں یاد کی تھیں ایک تو میں نے نشر کردی لیکن اگر دوسری کو بیان کرتا تو میرے حلقوم پر تلوار چل جاتی۔ ( صحیح بخاری، ج۱ ص۳۸، باب حفظ العلم۔)

۲۹۶

گذشتہ صفحات میں ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے لکھی ہوئی سنتِ رسول(ص) کو ںذر آتش کردیا تھا اور محدثین کو نقل کرنے سے منع کردیا تھا۔ ابوہریرہ ایسی چیز  کو بیان کررہے ہیں جو مخفی تھی اور اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ یہ وہی بیان کررہے ہیں جس کی خلفاء اجازت دیتے ہیں۔اس بنیاد پر  یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابوہریرہ کے پاس دور کیسے تھے ایک انھیں بیان کرنے پر ابھارتا تھا چنانچہ ایک انھوں نے بیان کردی یعنی  ایک حدیث ہم سے بیان کردی اور جس میں حاکموں کی مصلحت تھی اسے مخفی رکھا ۔ لیکن جو دوسری حدیث ابوہریرہ نے مخفی رکھی اور اپنا گلاکٹ جانے کے خوف سے بیان نہیں کی وہ نبی(ص) کی صحیح حدیث تھی۔اگر ابوہریرہ ثقہ ہوتے  تو وہ نبی(ص) کی حقیقی حدیثوں کو نہ چھپاتے اور اوہام وجھوٹ کو ظالموں کی تائید میں بیان نہ کرتے جبکہ وہ جانتے تھے کہ بینات کو چھپانے والے پر خدا لعنت کرتا ہے۔بخاری نے خود ابوہریرہ ہی کا قول نقل کیا ہے : کہتے ہیں ،لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ  بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتاہے ۔ اگر قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک بھی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی۔

إِنَّ الَّذينَ يَكْتُمُونَ ما أَنْزَلْنا مِنَ الْبَيِّناتِ وَ الْهُدى‏ مِنْ بَعْدِ ما بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتابِ أُولئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللاَّعِنُون

" بے شک جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات " ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی" کو چھپاتے ہیں ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔"

اور ہمارے مہاجرین بھائی تو بازاروں میں خرید فروخت میں مشغول رہتے تھے اور انصار برادران اپنے مالی امور میں لگے رہتے تھے او ابوہریرہ نے اپنا پیٹ بھرنے کی وجہ سے نبی(ص) کے ساتھ رہنا اپنے لئے لازم کر لیا تھا۔چنانچہ وہ اس وقت حاضر رہتے تھے جب وہ ( مہاجرین و انصار) حاضر نہیں ہوتے تھے اور وہ اس چیز کو حفظ کرتے تھے جس کو دوسرے حفظ نہیں کرتےتھے ۔ ( صحیح بخاری، ج۱ ،ص۳۷، باب حفظ  العلم)پس ابوہریرہ کیسے کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک بھی حدیث بیان نہ کرتا

۲۹۷

جب کہ خود ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) سے دو چیزیں سنی تھیں ان میں سے ایک بیان کردی ہے اور دوسری کو مخفی رکھے ہوئے ہوں ، اگر اسے بیان کردوں تو  میرا  سرقلم کردیا جائے ۔ کیا اس سے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ابوہریرہ نے حق چھپایا  ہے جب کہ کتابِ خدا میں حق چھپانے والے کی مذمت میں دو آیتین موجود ہیں۔؟!

اور جب نبی(ص) نے اپنےاصحاب کے لئے یہ فرمایا تھا کہ: تم اپنے اہل کی طرف پلٹ جاؤ اور انھیں سکھاؤ ، تعلیم دو، ( صحیح بخاری ج۱ ص۳۰۔) نیز فرمایا : اکثر پہچانے والے سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھتے ہیں۔

بخاری نے ہدایت کی ہے کہ نبی(ص) نے عبدالقیس کے وفد کو ایمان اور علم کی حفاظت پر ابھارا اور ( کہا ) اپنے بعد والوں کو اس کی خبر دینا۔( صحیح بخاری، ج۳ص۳۰۔)

کیا ہمیں اور دیگر محققین کو یہ سوال کرنے کا  حق ہے کہ ایک صحابی کو حدیث نبی(ص) بیان کرنے کے سلسلہ میں قتل کیوں کیاجاتا ہے اور اس کے گلے پر تلوار کیوں رکھی جاتی ہے؟!

ضروری ہے کہ اس حدیث میں کوئی ایسا راز پوشیدہ ہے جس کے فاش ہونے کو صحابہ دوست نہیں رکھتے ہوں گے اور ہم اپنی کتاب" فاسئلوا اہل الذکر" میں اس راز کی طرف اشارہ کرچکے ہیں اور وہ راز حضرت علی(ع) کی  خلافت کے لئے نص ہے۔

اور پھر ابوہریرہ پر ملامت کیوں نہیں کی جاسکتی جب کہ انکی قدر قیمت معلوم ہوچکی ہے اور وہ خود اپنے متعلق کہہ چکے ہیں کہ جو حدیث نبی(ص) کو چھپائے گا اس  پر خدا  اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔

لیکن ملامت کے مستحق اہل سنت والجماعت ہیں جو ابوہریرہ کو راوی سنت کہتے ہیں جب کہ ابوہریرہ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ انھوں نے حدیث نبی(ص) کو چھپایا، وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے حدیث میں تدلیس کی ہے اور جھوٹی حدیث بیان کی ۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نبی(ص) اور دیگر لوگوں کی حدیثوں میں تمیز نہیں کرپاتے۔

یہ سب حدیثیں اور اعترافات صحیح ہیں جو کہ صحیح بخاری اور دیگر صحاحِ اہلِ سنت میں منقول

۲۹۸

ہیں۔

اہلِ سنت اس شخص سے کیسے مطمئن ہوگئے جس کی عدالت کو حضرت علی ابن ابی طالب(ع) نے مخدوش قرار دیا اور اسے جھوٹا بتایا اور فرمایا وہ( ابوہریرہ) رسول(ص) پر جھوٹ باندھتا ہے اس طرح عمر بن خطاب نے بھی اس پر تہمت لگائی اور مارا اور شہر بدر کرنے کی دھمکی دی ، اسے عائشہ نے بھی مطعون کیا اور متعدد بار جھٹلایا : متعدد بار صحابہ نے اسکی تکذیب کی اور اسکی متناقض حدیثوں کو رد کیا ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ابوہریرہ نے اس کا اعتراف کیا اور دوسری مرتبہ  حبشی زبان میں بڑبڑانے لگے، بہت سے علمائے اسلام نے بھی اس کو مطعون کیا ہے اور اس پر جھوٹ اور تدلیس اور معاویہ  کے دسترخوان اور چاندی سونے کا حریص بتایا ہے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود  ابوہریرہ  کیسے راوی اسلام بن گئے اور مسلمان ان سے دینی احکام کیسے لیتے ہیں۔؟!

بعض علماء محققین نے تاکید کی ہے کہ ابوہریرہ ہی نے اسلام میں یہودیوں کے عقائد داخل کئے ہیں اور اسرائیلیات کو اسلام میں شامل کردیا ہے جن سے حدیث کی کتابیں بھری پڑی  ہیں ، کعب الاحبار یہودی نے ابوہریرہ کے ذریعہ ایسا کیا ہے ،اسی لئے ایسی روایات ( مسلمانوں کی) کتابوں میں آگئی ہیں جن سے خد اکا مجسم ہونا اور حلول کرنا معلوم ہوتا ہے اور انبیاء کے بارے میں جتنے بھی منکر اقوال ہیں وہ سب ابوہریرہ کے بیان کئے ہوئے ہیں۔

کیا اہل سنت والجماعت اپنے راستہ ہٹ سکتے ہیں تاکہ وہ اس شخص سے واقف ہوسکیں جن سے انہوں نے سنت لی ہے اور جب وہ ہم سے سوال کریں گے تو ہم کہیں گے ، باب مدینۃ العلم اور ان کے ذریت سے ہونے والے ائمہ (ع) کے دروازہ پر آؤ ،وہی سنت کی حفاظت کرنے والے ، امت کے لئے باعثِ امان ، سفینۃ النجات ، ائمہ ہدیٰ، مصابیح الدجیٰ ، عروۃ الوثقیٰ اور حبل اللہ ہیں۔

۲۹۹

۱۱ : عبداللہ بن عمر :

آپ کا تعلق ان مشہور صحابہ سے ہے جن کا ان حوادث میں بڑا کردار رہا ہے جو  زمانہ معاویہ اور عہد بنی امیہ مین رونما ہوئے تھے اور اہل سنت والجماعت میں ان کے محبوب ہونے کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ عمر بن خطاب ان کے باپ ہیں ، اس لئے اہلِ سنت انھیں بڑا فقیہ اور حفاظ احادیث میں سے ایک سمجھتے ہیں ۔ امام مالک نے تو اپنے اکثر احکام میں انہی پر اعتماد کیا ہے چنانچہ اپنی کتاب" موطا" میں انہی کی احادیث بھری ہیں۔

اہل سنت والجماعت کی کتابوں کی ورق گردانی کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ عبداللہ بن عمر کی تعریف سے بھری پڑی ہیں۔

اس کے علاوہ جب ہمایک محقق کی نگاہ سے ان کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ صدق و عدالت سے ، سنتِ نبوی(ص) سے ، فقہ سے اور شرعی علوم سے بہت دور تھے۔

وہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (ع)  کے شدید ترین دشمن تھے اس سلسلہ میں وہ غیبت کی حد تک پہونچ گئے تھے اور لوگوں کو آپ(ع) کی دشمنی کی طرف کھینچ رہے تھے۔

گذشتہ بحثوں میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ انہوں نے جھوٹی حدیثوں کو رواج دیا جن کا لب لباب یہ ہے کہ وہ عہد نبی(ص) میں اور آپ(ص) کے سامنے ابوبکر کو سب سے افضل قرار دیتے تھے اوران کے بعد پھر عمر کی نوبت تھی پھر عثمان کا نمبر تھا ان کے بعد سب لوگ برابر تھے ۔ ان کی یہ بات نبی(ص) سنتے تھےلیکن اس کی تردید نہین کرتے تھے۔ ( بخاری و مسلم وغیرہ)

جیسا کہ آپ جانتے ہین یہ سفید جھوٹ  ہے اس سے عقلاء کو ( بے ساختہ) ہنسی آجاتی ہے ہم حیاتِ نبی(ص) میں عبداللہ ابن عمر کو دیکھتے ہیں تو ایک نابالغ نوجوان ہیں اہل حل و عقد میں ان کا شمار نہیں ہے اور نہ ہی ان کی رائے سننے کے قابل ہے اور جب رسول اللہ(ص) نے وفات پائی تو اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ ۱۹ سال تھی۔

۳۰۰