شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105337
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105337 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پھر وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم عہد نبی(ص) میں (فلاں) کو فضیلت دیتے تھے؟ مگر یہ کہ یہ گفتگو ابوبکر و عمر اور عثمان کی اولاد کے درمیان ہو، اس کے باوجود یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ نبی(ص)  یہ سنتے تھے اور اس سے منع نہیں کرتے تھے، اس کی واضح دلالت اس بات پر ہے کہ یہ واقعہ جھوٹا ہے اور ان کی نیت  غلط ہے۔

اس پر ایک بات کا میں اضافہ کرتا ہوں ۔ نبی(ص) نے عبداللہ ابن عمر  کو غزوہ خندق کے سوا کسی جگہ بھی اپنے ہمراہ جانے کی اجازت نہیں دی جب کہ خندق کے بعد بھی غزوات ہوئے ہیں اور وہ اس وقت پندرہ(۱۵) سال کے ہوچکے تھے۔( صحیح بخاری کتاب الشہادات باب بلوغ الصبیان ، ج۳ ص۱۵۸)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ غزوہ خیبر میں شریک تھے چونکہ غزوہ خیبر ہجرت کے ساتھویں  سال واقع ہوا تھا اور انہوں نے اپنی دونوں آنکھوں سے حضرت ابوبکر کی ہزیمت دیکھی تھی اور اسی طرح  اپنے باپ عمر کی شکست دیکھی تھی اور اس جنگ میں رسول(ص)  کا قول بھی یقینا سنا ہوگا کہ :

کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو  خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا و رسول(ص) اس کو دوست رکھتے ہوں گے ، بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے ، فرار نہیں ہے، خدا نے ایمان کے لئے اس کے قلب کا امتحان لے لیا ہے۔

اور جب صبح ہوئی تو آپ نے علم قاطع الذَات، مفرَق الجماعات، مفرَج الکبریات، صاحب کرامات، اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب(ع) کو علم دیا۔حدیث رایت حضرت علی(ع) کی فضیلت بیان کررہی ہے اور تمام صحابہ سے افضل قرار دے رہی ہے اور خدا  و نبی(ص) کے نزدیک جو آپ کی عظمت تھی اسے بیان کررہی ہے اور انھیں خدا  و رسول(ص) کی محبت میں کامیاب بتارہی ہے لیکن عبداللہ بن عمر نے بغض کی بناء پر علی(ع) کو عام لوگوں میں شامل کردیا ہے۔

گذشتہ بحث میں بھی ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ اہل سنت والجماعت  اپنے سید و سردار عبداللہ بن عمر کی بیان کی ہوئی اس حدیث پر عمل کرتے تھے وہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع)  ، خلفائے راشدین کی فہرست میں شمار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی انکی خلافت کے معترف تھے، ( ہاں) احمد بن حنبل

۳۰۱

 کے زمانہ میں آپ(ع) کو خلیفہ تسلیم کیا گیا۔ جیسا کہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ جب وہ ایک زمانہ میں جس میں حدیث اور محدثین کی کثرت ہوگئی تھی اور ان کی طرف  انگشتِ تہمت اٹھنے لگی تھی اور وہ اہل بیت نبوی(ص)  کے بغض و حسد کی وجہ سے خاموش تھے اور اس بات کو سارے مسلمان جانتے ہیں کہ علی(ع) سے بغض رکھنا نفاق کی سب سے بڑی شناخت ہے۔

اور جب وہ حضرت علی(ع) کو خلیفہ تسلیم کرنے پر اور انھیں خلفائے راشدین میں شامل کرنے پر  مجبور ہوگئے تو انھیں اہلِ بیت(ع) سے بھی اظہار محبَت کرنا پڑا۔

کیا کوئی سوال کرنے والا ابن عمر سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ نبی(ص) کی وفات کے بعد تمام مسلمانوں نے یا چند مسلمانوں  نے اس شخص کے بارے میں کیوں اختلاف کیا جو کہ خلافت کا مستحق تھا یا اس کے لئے اولیٰ تھا، انہوں نے علی(ع) اور ابوبکر کے بارے میں اختلاف کیا لیکن اپنے والد عمر اور عثمان کے بارے میں اختلاف نہ کیا کیونکہ انکی حکومت کے زمانہ میں ان کا بھاؤ تھا۔

اور کیا کوئی ابنِ عمر سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب آپ کورسول(ص) نے آپ کی رائے پر قائم رکھا ہے اور آپ ابوبکر کے برابر کسی کو نہ سمجھتے تھے اور ابوبکر کے بعد عمر کو اور پھر عثمان کو سب سے اٖفضل سمجھتے تھے تو رسول(ص) نے اپنی وفات سے دور روز قبل ایک ایسے نوجوان کو کہ جسکی میں بھی نہیں بھیگی تھیں اور  سن کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا ان سب کا  امیر و ولی کیوں مقرر کیا ، انھیں انکی قیادت میں جانے کا حکم کیوں دیا کیا آپ ( عبداللہ بن عمر) بھی اپنے والد کی طرح یہ کہیں گے کہ رسول(ص) نے ہذیان کہا ہے؟!

اور کیا ابن عمر سے کئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ مہاجرین و اںصار نے ابوبکر کی بیعت سے اگلے  روز فاطمہ زہرا(س) سے یہ کیوں  کہا تھا کہ : قسم خدا کی اگر آپ(س) کے شوہر ہمارے پاس ابوبکر سے پہلے آگئے ہوتے تو ہم ان علی(ع) پر کسی کو  فوقیت نہ دیتے ، یہ صحابہ کا واضح اعتراف ہےکہ وہ کسی کو بھی علی(ع) سے افضل نہیں سمجھتے تھے ، اگر ابوبکر کی بیعت میں جو کہ بے سوچے سمجھے ہوگئی تھی جلدی نہ کی گئی ہوتی تو عبداللہ بن عمر ایسے مغرور کے نظر یہ کی کیا قیمت ہوسکتی تھی جو کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے

۳۰۲

کے بارے اصحاب کبار کی کیا رائے ہے۔؟!

اور کیا کوئی پوچھنے والا عبداللہ بن عمر سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ بزرگ صحابہ نے عمر کے قتل کے بعد علی(ع) کو کیوں خلافت کے لئے منتخب کیا تھا اور عثمان پر کیوں فوقیت دی تھی، اگر علی(ع) ابنِ عوف کی سیرت سیرتِ شیخین والی شرط کو نہ ٹھکراتے (تو علی (ع) افضل ہوجاتے یا نہیں)؟! ( تاریخ طبری ج۵، ص۴۰، تاریخ الخلفاء سیوطی، ص۱۰۴، تاریخ ابنِ قتیبہ اور اسی طرح مسند احمد ابنِ حنبل ج۱ ص۱۲۱)

لیکن عبداللہ ابن عمر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے۔ انہوں نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں عمر گذاری تھی، وہ دیکھتے تھے کہ علی(ع) کو دور کردیا گیا ہے، جماعت میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت میں کوئی منصب ان کے لئے ہے اور ان کے ابنِ عم کے انتقال کے بعد لوگوں نے ان سے اور ان کی زوجہ سیدہ رخ موڑ لیا ہے اوران کے پاس کوئی ایسی چیز  نہیں ہے جس کے لالچ میں لوگ ان کے پاس جائیں۔

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے باپ سے سب سے زیادہ قریب تھے وہ انکی بات سنتے تھے، ان کے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے تھے چنانچہ وہ علی(ع) سے خصوصا اور اہل بیت(ع) سے عموما بغض اور عداوت کی فضا میں جوان ہوئے ، اسی لئے وہ دن ان کے لئے بہت ہی دشوار اور غم انگیز تھا جس دن انہوں نے دیکھا کہ قتل عثمان کے بعد مہاجرین و انصار نے علی(ع) کی بیعت کرلی ہے۔ چنانچہ وہ اس کو برداشت نہ کرسکے اور اپنی چھپی ہوئی دشمنی کا اظہار کردیا اور امام المتقین ولیَ المؤمنین کی بیعت کرنے سے انکار کردیا، دشمنی کی حد ہوگئی ، عمرہ کے بہانے مدینہ چھوڑ کر مکہ پہنچ گئے۔

اس کے بعد ہم عبداللہ  بن عمر ک ودیکھتے ہیںہ وہ اپن پوری طاقت کےساتھ لوگوں کو حق کی نصرت سے باز رکھنے اور باغی گروہ" کہ جس سے خدا نے جنگ کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ حکمِ خدا نافذ ہوجائے"۔ کی مدد کرنے پر ابھار رہے ہیں ۔ پس عبداللہ بن عمر اپنے زمانہ کے مفترض الطاعت امام کی مدد نہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ اور جب علی (ع) قتل کردیئے گئے اور معاویہ بظاہر امام حسن(ع) پر غالب آگیا اور آپ(ع) سے

۳۰۳

خلافت چھین لی تو معاویہ  نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو! یا روزہ رکھو اورحج  کرو، میں نے تو تم سے اس لئے جنگ کی تھی تاکہ تم پر میری حکومت قائم ہوجائے۔

اس وقت ہم عبداللہ ابن عمر کو بیعت معاویہ کے لئے  دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں لوگوں نے متفرق ہونے کے بعد ان پر اجماع کر لیا ہے!

میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ انہوں نے ہی اس سال کا نام عام الجماعہ رکھا تھا ۔ کیوں کہ وہ خود اور بنی امیہ میں سے ان کے پیروکار اسی وقت سے اہل سنت والجماعت کہلوانے لگے تھے اور روزِ قیامت تک ایسے ہی باقی رہیں گے۔

کیا کوئی ابنِ عمر اور اہل سنت والجماعت میں سے ان کے ہم خیال سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ تاریخ میں بھی خلیفہ پر اس طرح اجماع ہوا ہے جس طرح امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب(ع) پر ہوا تھا؟!

ابو بکر کی خلافت تو ایک اتفاقی امر تھا جس کی شر سے خدا ہی نے محفوظ رکھا اور اکثر صحابہ نے اس سے روگردانی کی تھی۔   

اور عمر کی خلافت بغیر مشورہ کےہوئی تھی بلکہ وہ ابوبکر کی رائے تھی صحابہ کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا نہ عملی لحاظ سے اور نہ قولی اعتبار سے۔

اور عثمان کی خلافت ان تین افراد کی رائے کا نتیجہہے جنہیں عمر نے منتخب کیا تھا بلکہ عمر نے اپنے استبداد سے فقط عبدالرحمن بن عوف کو مالک بنادیا تھا۔

لیکن علی(ع) کےہاتھوں پر مہاجرین و اںصار نے بغیر کسی زبردستی کے بیعت کی تھی اور آپ کی بیعت کے لئے آفاق میں خط لکھے گئے تو سوائے معاویہ کے  سب نے بیعت کرلی تھی۔ ( فتح الباری ابن حجر ج۷، ص۵۸۶)

اور مفروض یہہے کہ ابن عمر اور اہل سنت والجماعت  معاویہ بن ابی سفیان سے جنگ کرتے جس نے طاعت کو ٹھکرادیا اور خود خلافت کا خواہاںہوا جیسا کہ اہلِ سنت نے اپنی صحاح میں

۳۰۴

 روایات نقل کی ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا: جب دو خلفا کی ایک ہی وقت میں بیعت کی جائے تو ان میں سے ایک کو قتل کردو۔ ( صحیح مسلم ج۶ ص۲۳، مستدرک حاکم ج۲ ص۱۲۶، سنن بیہقی ج۱ ص۱۴۴۔)

رسول(ص) نے فرمایا : جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے : جو شخص کسی امام کی بیعت کرتا ہے اگر وہ استطاعت رکھتا ہے اپنےہاتھ کی کمائی اور ثمرہ قلب اسے دینا چایئے اور  اگر کوئی دوسرا خلیفہ سے جنگ کرے تو اس کی گردن مارنا چاہیئے۔

لیکن عبداللہ بن عمر نے آیات و حدیث نبی(ص) کے اس حکم کے بر خلاف ، کہ معاویہ سے جنگ کرو اور اسے قتل کردو، کیوں کہ اس نے مسلمانوں کے خلیفہ سے جنگ کی، فتنہ کی آگ بھڑکائی ہے، علی(ع) کی بیعت سےروگردانی کی ہے، جب کہ علی(ع) کی بیعت پر تمام مسلمان متفق تھے اور عبداللہ بن عمر طاعت سے روگردان ،امام زمانہ سے جنگ کرنے والے اورنیکوکاروں کو قتل کرنے والے معاویہ کی بیعت کی تھی جو کہ ایسے فتنہ کا سبب بنی جس  کے آثار آج تک باقی ہیں۔

میرا عقیدہ تو یہہے کہ عبداللہ بن عمر ہر اس گنا ہ و جرائم اور ہلاکت میں شریک ہیں جس کا معاویہ مرتکب ہوا ہے کیوں کہ عبداللہ بن عمر نے معاویہ کی حکومت مضبوط کی اور اس کی خلافت کو مستحکم کرنے میں مدد کی جو کہخدا ورسول(ص) نے طلقاابن طلقا اور لعین وابنِ لعین پر حرام قرار دی تھی۔

اور عبداللہ ابن عمر  اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ یزید (لع) بن معاویہ کی بیعت بھی دوڑ کر کرلی، کون یزید شراب خور، فاجر ، کافر ، فاسق، طلیق ابن طلیق ، لعین ابن لعین۔

جبکہ عمر ابن خطاب کا کہنا ہے، جیسا کہ ابنِسعد نے اپنی طبقات میں لکھا ہے کہ، خلافت طلیق اور ابن طلیق اور فتح مکہ کے روز ہونے والے مسلمان کے لئے زیب نہیں دیتی۔( طبقات ابنِ سعد ج۳ ص۲۴۸۔)

پس عبداللہ اس سلسلہ میں اپنے باپ کی مخالفت کس منہ سے کرتےہیں اور پھر جب امر خلافت میں عبداللہ بن عمر کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) کی مخالفت کرتےہیں تو یہ کوئی تعجب کی جا نہیں

۳۰۵

کہ وہ اپنے باپ کی مخالفت کریں۔

اور کیا ہم عبداللہ بن عمر سے یہ پوچھ سکتےہیں کہ: یزید (لع) بن معاویہ کی بیعت پر کون سا اجماع ہوا تھا؟ اس کے برخلاف امت کے سرآوردہ اور مہاجرین و انصار کے بقیہ السلف کہ جن میں سے جوانان جنت کے سردار حسین بن علی(ع) ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس اوران کے پیروکاروں نے یزید(لع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا۔

بلکہ مشہور یہہے کہ شروع میں خود عبداللہ بن عمر بھی یزید(لع) کی بیعت کے مخالف تھے لیکن معاویہ جانتا تھا کہ انھیں کس طرح  اپنی طرف کھینچا جاسکتا ہے چنانچہ اس نے ایک لاکھ درہم بھیجدیئے اور انھوں نے قبول کرلئے اور جب معاویہ نےاپنے بیٹے یزید (لع)  کی بیعت کا ذکر کیا تو ابن عمر  نے کہا:کیا مجھ سے یہی چاہتےہو؟ اس صورت میں تو میرا دین بہت ہی کم قیمت ہر بک جائے گا۔

جی ہاں ! عبداللہ بن عمر نے حقیر قیمت پر اپنا ایمان بیچ دیا جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے۔وہ امام المتقین کی بیعت سے بھاگے اور باغیوں کے سربراہ معاویہ اور فاسقین کے سردار یزید(لع)  کی بیعت کرلی اور معاویہ ایسے ظالم کے گناہوں میں شریک ہوئے اسی طرح یزید(لع) کے جرائم میں خصوصا حرمتِ رسول(ص) کی ہتک اور جوانان جنت کے سردار اور عترت نبی(ص) اور صالحین کے ساتھ جو کربلا اور  واقعہ حرہ میںہوا، اس میں وہ برابر کے شریک ہیں۔

عبداللہ بن عمر نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کی کہ یزید(لع) کی بیعت کرلی بلکہ انہوں نے لوگوں کو بھی یزید(لع) کی بیعت پر مجبور کیا اور زبردستی بیعت کرائی اور جو بھی خود  کو یزید(لع) کے خلاف خروج کرنے پر تیار کرتا اسے جناب خوف دلاتے اور ڈراتے تھے۔اور بخاری نے اپنی صحیح میں اور دیگر محدثین نے تحریر کیا ہے کہ: عبداللہ ابن عمر نےاپنے بیٹوں اور  اصحاب و موالی کو جمع کیا۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب اہل مدینہ نے یزید(لع) ابن معاویہ کی بیعت توڑ دی تھی اور کہا : ہم نے خدا و رسول(ص) کی بیعت پر اس شخص (یزید) کی بیعت کی ہے۔( کیا خدا و رسول(ص) نے فاسقوں  اور مجرموں کی بیعت کا حکم دیا ہے؟ یا  اس نے اپنے اولیاء و صالحین

۳۰۶

کی بیعت کے لئے فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہےؕ "إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ "(مائدہ /۵۵)

او ر میں نے رسول(ص) سےسنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: جوشخص کسی کے ساتھ بدعہدی کرے گا اس کے لئے قیامت کے دن ایک پرچم بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا : اس نے فلاں کے ساتھ  بدعہدی کی ہے اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے بعد سب سے بڑی بدعہدی یہ ہے کہ انسان خدا اور رسول(ص) کی بیعت پر کسی شخص بیعت کرے اور پھر توڑدے۔ ( اے کاش یہی بات عبداللہ بن عمر طلحہ اور زبیر سے بھی کہدیتے کہ جنہوں نے علی(ع)  کی بیعت توڑ دی تھی اور ان سے جنگ کی تھی، اے کاش اہل سنت والجماعت تقسیم رجال میں اس حدیث پر عمل کرتے اور جب  بیعت توڑ دینا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے تو طلحۃ و زبیر کے بارے میں کیا خیال ہے جنہون نے نہ صرف بیعت توڑ دی تھی، بلکہ ہتک عزت، بیکوکاروں کا قتل ، اموال کی غارت گری اور عہد شکنی کا بھی ارتکاب کیا تھا۔)

تم میں سے کوئی ہرگز یزید(لع) کی بیعت نہ توڑے اور کوئی اس امر میں تردد کا شکار نہ ہو ورنہ میرے اور تمہارے درمیان تلوار ہوگی۔ ( صحیح بخاری ج۱ ص۱۶۶، مسند احمد ج۲ ص۹۶، سنن بیہقی ج۸ ص۱۵۹)

یقینا عبداللہ بن عمر کی دوستی  سے یزید کی حکومت اور تسلط مضبوط ہوا اور ابن عمر نے لوگوں کو یزید(لع) کی بیعت پر اکسایا ۔ یزید(لع) نے ایک لشکر تیار کیا اور مسلم ابن عقبہ جیسے فاسق ترین انسان کو اس کا کمانڈر مقرر کیا اور مدینہ رسول(ص) پر حملے کا حکم دے دیا اور کہا جو تم چاہو مدینہ میں کرنا چنانچہ ابنِ عقبہ نے ہزاروں صحابہ کو تہ تیغ کیا، انکی عورتوں کو ساتھ بد سلوکی کی اور اموال لوٹ لئے، سات سو حافظ قرآن کو قتل کیا جیسا کہ بلاذری نے نقل کیا ہے اور مسلمان عورتوں سے زنا کیا ، نتیجہ میں ہزار سے زیادہ بچے پیدا ہوئے اور باقی بچ جانے والوں سے " اس بات پر بیعت لی کہ وہ اپنے سردار یزید(لع) کے غلام رہیں گے۔

۳۰۷

کیا ان تمام چیزوں  میں عبداللہ ابن عمر یزید(لع) کا شریک کار نہیں ہے، کیا انہوں نے اس کی حکومت کو مضبوط نہیں کیا ہے؟ اس سے نتیجہ نکالنے کا کام قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

عبداللہ بن عمر نے اسی پر اکتفا نہ کی اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور مروان بن حکم ، چھپکلی لعین، طلیق اور فاجر کی بیعت کی جس نے علی(ع) سے جنگ کی اور طلحہ کو قتل کیا اور بہت سے سیاہ کارنامے انجام دیئے۔ جیسے خانۃ خدا کو آگ لگانا اور منجنیق سے پتھر برسانا،یہاں تک کہ اس کا رکن منہدم ہوگیا، اور کعبہ کے اندر عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنا اور بہت سے اعمال ہیں جن کے ذکر سے بھی جبین (انسانی) پر پسینہ آتا ہے۔

پھر عبداللہ بن عمر بیعت کے سلسلہ میں بہت آگے نکل جاتے  ہیں اور حجاج بن یوسف ثقفی ایسے زندیق کی بیعت کرتے ہیں کہ جس  نے قرآن کا مذاق اڑایا اور کہا یہ اعراب کا  رجز ہے اور اپنے سردار عبدالملک بن مروان  کو رسول(ص)  پر فضیلت دی جس کے کرتوتوں  سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ مؤرخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس نے کل ارکان، اسلام کا پامال کردیا تھا۔

حافظ بن عساکر نے اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے کہ حجاج کے متعلق دو اشخاص کے درمیان اختلاف ہوگیا، ایک نے کہا: وہ کافر ہے، دوسرے نےکہا: وہ گمراہ مومن ہے جب بات زیادہ بڑھی تو دونوں نےشعبی سے پوچھا انہوں نے کہا: وہ طاغوت پر ایمان رکھتا تھا اور خدا کا منکر و کافر تھا ۔ ( تاریخ ابن عساکر ج۴ ص۸۱۔)

یہ ہے مجرم حجاج جو کہ خدا کی حرام کردہ چیزوں پر عمل کرتا ہے جس کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہےکہ وہ بے دردی سے قتل کرتا تھا، انسانیت سوزسزا دیتا تھا اور امت کے نیکوکار اور مخلص افراد کو خصوصا شیعیان آلِ محمد(ص) کو مثلہ کردیتا تھا۔ انھیں حجاج سے جو تکلیفیں پہنچی ہیں وہ کسی اور سے نہیں پہنچیں۔

ابن قتیبہ نےاپنی تاریخ میں تحریر کیاہے کہ حجاج نے ایک دن ستر ہزار سے بھی زیادہ

۳۰۸

لوگوں کو قتل کیاتھا یہاں تک کہ راستوں میں خون ہی خون تھا اور مسجد کے دروازہ تک خون بہہ کر پہنچ گیا تھا۔( تاریخ الخلفاء ، ابن قتیبہ ج۲ ص۲۶۔)

ترمذی اپنی صحیح میں تحریر فرماتے ہیں : جب ان مقتول قیدیوں کو شمار کیا گیا جن کو حجاج نے قتل کیا تھا تو ان کی تعداد اکیس ہزار تھی۔ ( صحیح ترمذی ج۹ ص۶۴۔)

اور ابن عساکر نےان لوگوں کے قتل کے بعد ، جو کہ حجاج کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے  تحریر کیا ہے ،حجاج کی موت کے بعد اس کے قید خانے میں اسی(۸۰) ہزار افراد پائے گئے جن میں تیس ہزار عورتیں تھیں۔ّتاریخ ابن عساکر ج۴ ص۸۰)

حجاج خود  کو خدائے عزوجل سے تشبیہ دیتا تھا چنانچہ جب وہ ایک مرتبہ قید خانہ کی طرف سے گذرا اور قیدیوں کی آہ و زاری اور استغاثہ سنا تو  کہا : اسی میں خست اٹھاؤ اور مجھ سے بات نہ کرو۔

یہی وہ حجاج ہے جس کے بارے میں رسول(ص) نے وفات سے قبل ہی خبردار کیا اور فرمایا تھا: بے شک بنی ثقیف میں ایک کذاب اور ظالم ہے اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس روایت کے راوی خود عبداللہ ابن عمر ہیں۔ ( صحیح ترمذی ج۹ ص۶۴، مسند احمد بن حنبل ج۲ ص۹۱۔)

جی ہاں ! عبداللہ ابن عمر  نے نبی(ص) کے بعد سب سے افضل انسان کی بیعت نہیں کی اور  نہ ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کی اقتداء میں نماز ادا کی لہذا خدا نے انھیں ذلیل کیا چنانچہ جب وہ حجاج کے پاس گئے اور کہا : میں نے رسول(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا : جوشخص بغیر بیعت کے مرا وہ جاہلیت کی موت مرا، حجاج نے انھیں ذلیل کیا اور  ان کی طرف اپنا پیر بڑھادیا اور کہا اس وقت میرا ہاتھ خالی  نہیں ہے ( پیر سے بیعت کرلو) عبداللہ ابن عمر حجاج ایسے زندیق اور اس کے کارندے نجدہ بن عامر، خوارج کے سردار پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔( طبقات الکبری ابن سعد ج۴ ص۱۱۰، محلی ابن حزم ج۴ ص۲۱۳۔)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ان لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھنا

۳۰۹

مناسب سمجھا کیوں کہ وہ ہر نماز کے بعد علی(ع) پر لعنت کرنے میں مشہور تھے۔ لہذا ابن عمر  کے کینہ کی آگ اور حسد کی تپش کے لئے وہی ماحول مناسب تھا۔ وہ علی(ع)  پر لعنت ہوتے ہوئے سنتے تھے اور ان کا قلب و جگر ٹھنڈا ہوتا تھا۔

اور اسی لئے آج اہل سنت کو یہفتوی دیتےہوئے سنتے ہیں کہ ہر نیک و بد اور فاسق و فاجر اور مومن و فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اس سلسلہ میں ان کے پاس انکے سید و سردار اوران کے مذہب کے فقیہ عبداللہ ابن عمر کا فعل بطورِ سند موجود ہے کہ انہوں نے حجاج ایسے زندیق اور نجدہ بن عامر ایسے  خارجی کے پیچھے نماز پڑھی تھی۔

لیکن رسول(ص) نے فرمایا : اس شخص کو امام بناؤ جو کتابِ خدا کو بہترین قرائت سے پڑھتا ہو، پس اگر قرائت کے لحاظ سے برابر ہوں تو جو  احادیث رسول(ص) کوسب سے زیادہ جانتا ہو اسے پیش نماز بناؤ، اگر سنت کے سلسلہ میں بھی سب برابر ہوں تو  جو ان میں ہجرت کے لحاظ سے سابق ہے اسے پیش امام بناؤ اوراگر ہجرت کے اعتبار سے بھی سب برابر ہوں تو جو ان میں سابق الاسلام ہون ان کے پیچھے نماز پڑھو۔لیکن عبداللہ ابن عمر نے اس حدیث کو دیوار پر دے مارا۔

اور یہ چاروں صفات۔ حافظ قرآن ، حافظ سنت ، ہجرت کے لحاظ سے سابق یا اسلام کے اعتبار سے سابق ہونا ان میں سے  کسی میں یہ  صفات نہیں  پائی جاتی تھیں جن کی عبداللہ ابن عمر  نے بیعت کی اور جن کی  اقتداء میں نماز پڑھی ۔ نہ معاویہ میں ، نہ یزید میں ،  نہ مروان میں ، نہ حجاج میں اور نہ نجدہ بن عامر خارجی میں یہ صفتیں تھیں۔

اور عبداللہ بن عمر  نے اس سنتِ نبوی(ص) کے خلاف عمل کیا اور اسے دیوار پردے مارا  کیوں کہ انہوں نے عترت طاہرہ(ع) کے سردار علی(ع) کو چھوڑدیا تھا کہ جن میں یہ چاروں خصلتیں موجود تھیں اور ان کے علاوہ بہت سے صفات تھیں لیکن ابنِ عمر نے ان کی اقتداء میں نماز ادا نہیں کی بلکہ فساق، خوارج ، ملحدین اور دشمن خدا و  رسول(ص) کی اقتداء میں نماز پڑھی۔

۳۱۰

اور فقیہ اہل سنت والجماعت عبداللہ بن عمر نے بہت سی جگہوں پر کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کی ہے ۔ اگر ہم ان سب کو جمع کریں تو اس کے لئے الگ ایک کتاب درکار ہے۔ لیکن اہل سنت والجماعت کی صحاح اور دیگر کتابوں سے بعض مثالیں نقل کردینے کو مناسب سمجھتا ہوں تاکہ وہ حجت بالغہ ہوجائیں۔

قرآن اور حدیث سے ابنِ عمر کا اختلاف :

قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

پس زیادتی کرنے والے سےاس وقت تک جنگ کرو یہاں تک کہ وہ بھی حکمِ خدا کو تسلیم کرلے۔( حجرات/۹)

رسول(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) آپ میرے بعد ناکثین ، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کریں گے۔

پس عبداللہ ابن عمر نے نصوصِ قرآن اور سنت نبوی(ص) کی مخالفت کی اور اسی طرح مہاجرین و اںصار کے اجماع کی مخالفت کی جو کہ آپ کے ساتھ ہوکر دشمنوں سے جنگ کررہے تھے، لیکن ابنِ عمر  نے کہا : میں فتنہ میں جنگ نہیں کروں گا اور جس کو غلبہ ہوگا اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ ( طبقات الکبری ج۴ ،ص۱۱۰)

جیسا کہ ابن حجر نے تحریر کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے اپنی رائے سے جنگ میں شرکت نہ کی اور کہا یہ فتنہ ہے اگر چہ ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک جماعت حق پر ہے اور دوسری باطل پر۔ ( فتح الباری۔ ابن حجر ص۳۹)

قسم خدا کی عبداللہ ابن عمر کا عجیب قصّہ ہے جو کہ ایک طرف حق دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف باطل۔ لیکن پھر بھی باطل کے خلاف حق کی نصرت نہیں کرتے اور نہ ہی امر خدا کو  پورا کرنےکے لئے باطل سے دست بردار ہوتے ہیں اور غالب کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں خواہ باطل ہی کیوں نہ ہو۔

۳۱۱

معاویہ کو کامیابی مل گئی اور وہ امت پر مسلط ہوگیا اور ذلیل کر کے حاکم بن بیٹھا تو ابن عمر آئے اور معاویہ کی بیعت کی اور اس کے پیچھے نماز پڑھی جب کہ وہ جانتے تھے کہ معاویہ نے کیا کیا؟ اس نے وہم و گمان سے بالاتر جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

باطل پرست حکام کو کثرت کی بنا پر حق یعنی ائمہ اہل بیت(ع) پر کامیابی ملی اور طلقا و فساق، گمراہوں اور مجرمین نے طاقت اور قدرت سے امت پر حکومت قائم کریں۔

ابنِ عمر نے پورے طور سے حق کو چھوڑ دیا۔ تاریخ نےابنِ عمر کی اہل بیت(ع) سے محبت و مودت کو نہیں لکھا ہے جب کہ ان کی حیات میں پانچ ائمہ(ع) کا زمانہ گذرا ہے اور ابنِ عمر نے کسی ایک کی بھی اقتداء مین نماز نہیں پڑھی اور نہ کسی امام سے کوئی روایت نقل کی ہے اور نہ ان میں سے کسی فضیلت و فضل کا اعتراف کیا ہے۔

یہ بات ہم اس  کتاب کی فصل " ائمہ اثناعشر" میں بیان کرچکے ہیں ۔ خلفائے اثناعشر کے بارے میں ابنِ عمر کا نظریہ یہ تھا کہ ابوبکر، عمر ، عثمان، معاویہ، یزید، سفاح، سلام، منصور، اور جابر و مہدی، امین و امیر  العصیب ہی خلیفہ تھے، کہتے ہیں بنی کعب بنی لوی میں سے ہی بارہ خلیفہ ہیں ۔ سب صالح تھے اور کوئی ان کا مثل نہیں ہے۔ ( تاریخ سیوطی، کنز العمال، تاریخ ابنِ عساکر و ذہبی۔)

جو نام ابنِ عمر نے شمار کرائے ہیں ان میں سے کوئی نام آپ نے عترت نبی(ص) میں سے ائمہ ہدیٰ (ع) کا بھی دیکھا ہے؟ جن کے متعلق رسول(ص) کا ارشاد ہے: وہ سفینۃ  نجات اور قرآن کا ہم پلہ ہیں۔؟!

یہی وجہ ہےکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں ائمہ اطہار(ع) میں سے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ ائمہ اہل بیت(ع) میں سے کسی کی اقتداء کرتے ہیں۔

یہ تو تھا کتابِ خدا اور حدیثِ رسول(ص) کی مخالفت میں ابنِ عمر کا کردار اور اب کتابِ  خدا اور  حدیثِ نبی(ص) سے ابنِ عمر کی جہالت ملاحظہ فرمائیے۔

۳۱۲

کہا جاتا ہے کہ نبی(ص) نے حالت احرام میں عورتوں کو جوتے پہننے کی اجازت دی تھی لیکن ابنِ عمر اس سے بے خبر تھے لہٰذا انہوں نے جوتے پہننا حرام قرار دے دیا۔ ( سنن ابو داؤد ج۱ ص۲۸۹، سنن بیہقی ج۵ ص۲۵، مسند احمد ج۲ ص۲۹)

عہد رسول(ص) اور ابوبکر و عمر و عثمان کے زمانہ میں یہاں تک کہ معاویہ کے زمانہ میں عبداللہ ابن عمر  اپنے کھیتوں کو کرایہ پر دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ معاویہ کی حکومت کے آخری زمانہ میں کسی صحابی نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ اسے تو رسول(ص) نے حرام قرار دیا تھا۔( صحیح بخاری و مسلم ج۵ ص۲۱۔)

جی ہاں ! یہی ہیں اہل سنت والجماعت کے فقیہ جو یہ بھی نہیں جانتے کہ کھیتوں کو کرایہ ، پر دینا حرام ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عبداللہ ابنِ عمر  عہد نبی(ص)  سے لے کر معاویہ کے زمانہ یعنی پچاس سال تک اس کے حلال ہونے کے سلسلہ میں فتویٰ دیتے رہے ہوں گے۔

کچھ چیزوں میں عائشہ سے انکی مخالفت تھی،  مثلا انہوں نے فتویٰ دیا کہ بوسہ لینے سے وضو باطل ہوجاتا ہے یا ان  کا فتویٰ تھا اگر میت پر  زندہ لوگ گریہ کریں تو مرنے والے پر عذاب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان صبح کے بارے میں اختلاف یا ان کا  یہ کہنا کہ ۲۹ روز کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت چیزوں میں دونوں کے درمیان اختلاف تھا۔

ان میں سے کچھ چیزوں کو شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ عبداللہ ابن عمر سے کہا گیا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں : میں نے رسول(ص) سے سنا ہے : جو ایک جنازہ کی تشیع کرتا ہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے۔

عبداللہ ابن عمر نے کہا : ابوہریرہ اکثر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ پس عائشہ نے ابوہریرہ کی تصدیق کی اور کہا : میں نے بھی رسول(ص) سے یہ حدیث سنی تھی۔ اس پر ابنِ عمر نے کہا : ہم نے بہت سے اجر ضائع کردیئے۔ (  صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب اتباع الجنائز۔)

ہمارے لئے عبداللہ کے سلسلہ میں ان کے باپ ابنِ خطاب ہی کا قول کافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ بعض تملق پسند افراد نے بستر مرگ پر دراز عمر سے کہا: آپ اپنے

۳۱۳

 فرزند عبداللہ کو خلیفہ بنادیجئے تو  انہوں نے کہا: میں لوگوں پر اسے کیسے حاکم بنادوں جو اپنی بیوی کو طلاق دینا بھی نہیں جانتا۔

یہ ہیں ابنِ عمر ! اور پھر اپنے بیٹے کو باپ سے زیادہ کون پہچانے گا۔

لیکن جن جھوٹی حدیثوں کے ذریعہ اس نے اپنے آقا معاویہ کی خدمت کی ہے وہ بہت  زیادہ ہیں ۔ ہم مثال کے طور پر ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں۔

ابنِ عمر کہتے ہیں: رسول(ص) نےفرمایا : تمہارے پاس اہل جنت میں سے ایک شخص آنے والا ہے، پس معاویہ نمودار ہوئے۔ پھر اگلے روز آپ نے فرمایا : تمہارے سامنے اہل جنت میں سے ایک شخص آنے والا ہے ، پس ہم نے دیکھا کہ معاویہ چلے آرہے ہیں۔ تیسرے دن پھر فرمایا: تمہارے سامنے اہل جنت میں سے ایک شخص آنے والا ہے ، پس معاویہ آئے۔

ابنِ عمر کا قول ہےکہ جب آیۃ الکرسی نازل ہوئی اس وقت رسول(ص) نے معاویہ سے فرمایا: اسے لکھ لو ، معاویہ نے کہا میں کیا لکھوں ، اس کے لکھنے سے مجھے کیا ملے گا۔ رسول(ص) نے فرمایا: جب بھی کوئی اس کو پڑھے گا تمہارے لئے ثواب لکھا جائے گا۔ نیز کہتے ہیں جب روز قیامت معاویہ کو اٹھایا جائے گا تو ان پر ایمان کی چادر پڑی ہوگی۔

لیکن میں اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ اہل سنت والجماعت نےا پنے سردار معاویہ کاتبِ وحی کو عشرہ مبشرہ میں کیوں شامل نہیں کیا،جب کہ ان کےسردار ابنِ عمر نے تین تین بار اس کی تاکید کی کہ معاویہ کو پے  درپے تین روز تک اہل جنت میں قرار دیا اور جب روز قیامت تما لوگ عریان ہوں گے اس روز معاویہ پر ایمان کی چادر پڑی ہوگی!!! پڑھئے اور تعجب کیجئے۔

یہ ہیں عبداللہ ابنِ عمر اور یہ ہے ان کا مبلغ علم اور یہ ہے انکی فقہ اور یہ ہے کتابِ (خدا) اور سنت نبی(ص) سے ان کا اختلاف ،اور یہ ہے امیرالمؤمنین اور ائمہ طاہرین(ع)  سے ان کی عداوت اور یہ ہے دشمن خدا اور دشمنِ انسانیت لوگوں سے ان کی محبت اور چاپلوسی۔

۳۱۴

کیا آج کوئی اہل سنت والجماعت میں سے ان حقائق کو قبول کرے گا کہ سنتِ محمدی(ص) صرف عترتِ طاہرہ(ع) کا اتباع کرنے والوں ہی کے پاس ہے۔ اور وہ ہے شیعہ؟

جہنمی اور جنتی دونوں برابر نہیں ہیں ( کیونکہ) جنت والے ہی کامیاب ہیں ۔( حشر/۲۰)

۳۱۵

۱۲ : عبداللہ بن زبیر

ان کے باپ زبیر بن العوام ہیں جو کہ جنگ جمل میں قتل کئے گئے تھے واضح رہے حدیثِ نبوی(ص)  میں اسے حزب الناکثین کہا گیا ہے ان کی مان بنت ابی بکر بن قحافہ ہیں ، ان کی خالہ ام المؤمنین زوجہ نبی(ص) عائشہ بنتِ ابی بکر ہیں یہ بھی امام علی(ع) کے سخت ترین دشمن اور بغض رکھنے والے تھے۔

شاید وہ اپنے جد ابوبکر کی خلافت اور اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ پر فخر کرتے تھے اور حسد و عداوتِ علی(ع) انھیں سے ورثہ میں ملی تھی اور اسی ماحول میں پرورش پائی تھی امام علی(ع) نے زبیر سے فرمایا تھا کہ ہم تو تمہیں بنی عبدالمطلب میں سمجھتے تھے لیکن تمھارا بیٹا، برائیوں کا پلندہ ہے اس نے ہمارے اور تمھارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔

تاریخ میں مشہور ہے کہ جناب نے بھی جنگ جمل میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہاں تک کہ  ایک روز عائشہ نے انھیں نماز  میں امامت کے لئے بڑھادیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ طلحہ و زبیر  کے درمیان امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہوگیا دونوں ہی امام بننا چاہتے تھے لہذا عائشہ نے ان دونوں کو معزول کردیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی خالہ عائشہ کے پاس یہی پچاس افراد لائے تھے جنھوں نے جھوٹی گواہی دی تھی کہ یہ ( حوب) کا مقام نہیں ہے  لہذا عائشہ نے ان کےساتھ راستہ طے کیا۔

یہ وہی عبداللہ ہیں جنھوں نے اپنے باپ کو اس وقت بزدل کہا تھا اور ان پر خوف کھانے کی تہمت لگائی تھی کہ جب انھیں حضرت علی(ع) نے نبی(ص) کی یہ حدیث یاد دلائی تھی کہ تم علی(ع) سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ظالم ہوگے۔ وہ میدانِ جنگ  سے پلٹ جانے پر تیار ہوگئے تھے ۔ لیکن جب بیٹے نے زیادہ  پریشان کیا تو  کہا ، خدا تجھے رسوا کرے تجھے کیا ہوگیا ہے ۔ ( تاریخ اعثم و شرحِ ابن ابی الحدید ج۲ ،ص۱۷۰)

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے باپ کو اتنی غیرت دلائی کہ انھوں  نے علی(ع) کے لشکر پر حملہ

۳۱۶

 کردیا اور قتل ہوگئے اور اس طرح وہ اپنے باپ کے اس قول کا مصداق قرار پائے کہ  کتنا برا لڑکا ہے۔

ہم نے اسی روایت کو منتخب کیا ہے کیونکہ یہ واقعہ زبیر کے کینہ توز نفس سے اور ان کے فرزندوں سے بہت ہی قریب ہے اور اتنی آسانی سے زبیر میدا ن جنگ سے نہیں ہٹ سکتے تھے طلحہ اور ان کے اصحاب و موالی اور وہ غلام جو بصرہ تک ان کے ساتھ آئے تھے اور ام المؤمنین اپنی زوجہ کی بہن کو جوکہ ہلاکت سے قریب تھیں انھیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اوراگر ہم یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ انھوں نے لشکر والوں کو چھوڑ دیا تھا ۔ تو بھی  لشکر والوں نے انھیں نہیں چھوڑا تھا خصوصا ان کے بیٹے عبداللہ نے جس کے ارادہ سے ہم واقف ہوچکے ہیں۔

مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہےکہ عبداللہ بن زبیر علی(ع) پر لعنت کرتا تھا کبھی کہتا تھا تمھارے پاس کمینہ اور بدبخت آگیا ہے اور اس کی  مراد علی(ع) ہوتے تھے ۔ اہل بصرہ کے درمیان اس نےخطبہ دیا اور انھیں جنگ و جدال پر ابھارا ۔ کہا: اے لوگو! علی(ع) نے خلیفہ برحق عثمان مظلوم کو قتل کیا ہے۔ پھر لشکر تیار کیا تاکہ تم پر حکومت کرے اور تمھارے شہر کو تم سے چھین لے۔ پس تم اپنے خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اٹھو! اوراپنے حریم کی حفاظت کرو اور اپنی عورتوں بچوں اور اپنے حسب ونسب سے دفاع کرو، آگاہ ہوجاؤ کہ علی(ع)  اس سلسلہ میں تمھاری کوئی رعایت نہیں کریں گے ، قسم خدا کی اگر وہ تم پر فتحیاب ہوگئے تو تمھارے دین اور دنیا کو ضرور برباد کردیں گے ۔ ( شرح نہج البلاغہ ۔ ابن ابی الحدید ج۱ ص۳۵۸۔ تاریخ مسعودی جلد۵، ص۱۶۳)

عبداللہ بن زبیر کو بنی ہاشم سے بالعموم اور حضر ت علی(ع) سے بالخصوص شدید دشمنی تھی  چنانچہ اسی حسد و کینہ توزی کی بنا پر انھوں نے چالیس روز تک محمد(ص) پر بھی صلوات نہ بھیجی اور کہا مجھے صلوٰت بھیجنے سے کوئی چیز نہیں روکتی لیکن اس سے کچھ لوگوں کی ناک اونچی ہوجائے گی اس

۳۱۷

 لئے صلوات نہیں بھیجتا ہوں۔( تاریخ یعقوبی جلد۳ ص۷ شرح ابن ابی الحدید جلد۱ ص۳۸۵)

جب انکا بغض و حسد اتنا بڑھ گیا تھا کہ انھوں نے نبی(ص) پر صلوات بھیجنا بند کردی تھی تو ان سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ لوگوں پر جھوٹ باندھیں  اور حضرت علی(ع)  پر تہمت لگائیں اور ہر بری چیز کو آپ(ع) سے منسوب کردیں چنانچہ اہل بصرہ  کے درمیان انھوں نے  جو خطبہ دیا تھا اس میں یہ بھی کہا تھا: قسم خدا کی اگر علی(ع) کو فتح ملی تو وہ ضرور تمھارے دین و دنیا کو برباد کریں گے۔

یہ عبداللہ  ابن زبیر کا کھلا جھوٹ اور عظیم بہتان ہے وہ قطعی حق کو اپنے دل میں راہ نہیں دیتے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع)  کو فتح ملی اور حزبِ مخالف کی اکثریت کو اسیر کیا گیا اور ان ہی قید ہونے والوں میں عبداللہ ابن زبیر بھی تھے۔ لیکن علی(ع) نےسب کو معاف کردیا اور آزاد چھوڑ دیا۔

اور عائشہ کو با عزت ان کے پردہ کے ساتھ مدینہ پہنچا دیا اور اسی طرح آپ(ع) نے اپنے اصحاب سے غنیمت کا مال لینے، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے سے منع کردیا اور زخمی کو قتل کرنے سے منع کیا یہاں تک کہ لشکر والوں میں سے بعض لوگوں نے آپ(ع) کو برا بھلا کہا اور آپ(ع) کے متعلق خیال آرائیاں کرنے لگے۔

پس علی(ع) محض سنتِ نبی(ص) ہیں اور آپ(ع) ہی کتابِ خدا کے عارف ہیں۔ آپ(ع) کےسوا کوئی اس سے واقف نہیں ہے۔ آپ کے لشکر میں سے بعض رذیل منافقین اکٹھا ہوکر آپ(ع) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے ان لوگوں سے جنگ کرنا ہمارے لئے کیسے مباح ہوگیا اور ان کی عورتوں کو بے پردہ کرنا کیونکر حرام ہوا؟

منافقین نے اس بات سے بہت سے فوجیوں کو بہکایا یہ الگ بات ہے علی(ع) نے کتابِ خدا سے ان پر حجت قائم کی اور ان سے فرمایا:

تم اپنی ماں عائشہ کے لئے قرعہ اندازی کرنے کو پسند کروگے اس وقت وہ

۳۱۸

لوگ سمجھے کہ آپ(ع) حق پر ہیں اور کہنے لگے استغفراللہ یقینا ہم غلطی پر تھے۔

پس عبداللہ بن زبیر کا قول جھوٹ اور کھلا بہتان تھا۔ انھیں بغض علی(ع) نےاندھا بنا دیا تھا اور ایمان سے خارج کردیا تھا ( واضح رہے) عبداللہ بن زبیر نے اس کے بعد توبہ نہیں کی اور  ان جنگوں سے انھوں نے درس ( عبرت) لیا اور نہ نصیحت حاصل کی۔

انھوں نے نیکیوں کا مقابلہ برائیوں سے کیا اور بنی ہاشم سے اور عترت طاہرہ(ع) کے سرداروں سے ان کا بغض و حسد بڑھتا چلاگیا ۔ یہاں تک کہ بنی ہاشم کا چراغ گل کرنے کے لئے انھوں نے حتیٰ القدور کوشش کی۔

مؤرخین نے روایت کی ہے کہ وہ حضرت علی(ع) کے شہید ہوجانے کے بعد لوگوں کو اپنے امیر و خلیفہ ہونے کی دعوت دینے کے لئے کھڑے ہوئے چنانچہ کچھ لوگ ان کے پاس جمع بھی ہوگئے اور ان کی شان و شوکت مستحکم ہوگئی تو انھوں نے علی(ع) کے فرزند محمد بن الحنفیہ کو اور اسی طرح  حسن بن علی(ع) اوران کےساتھ بنی ہاشم کے دیگر سترہ(۱۷) اشخاص  کو قید کر لیا اور انھیں جلانے کے لئے دروازہ پر بہت ہی لکڑیاں جمع کردی تھیں اور ان میں آگ لگادی تھی لیکن مختار کا لشکر عین اسی وقت وہاں پہنچ گیا اس نے آگ بجھائی اور انھیں آگ سے نکالا ورنہ ابنِ زبیر تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا۔( تاریخ مسعودی جلد ۵ ص۱۸۵) شرح ابن ابی الحدید جلد۴ ص۴۸۷)

مروان نے حجاج کی سرکردگی میں ابنِ زبیر سے مقابلہ کےلئے ایک لشکر بھیجا کہ جس نے  محاصرہ کر کے انھیں قتل کیا اور حرم میں سولی پر لٹکا دیا۔

اس طرح عبداللہ بن زبیر  کا قصہ تمام ہوا جیسا کہ اس سے قبل ان کے باپ کا قصہ تمام ہوا تھا دونوں ہی دنیا کے بندے اور حکومت و امارات کے حریص تھے۔ اور اپنی بیعت کرانا چاہتے تھے اسی لئے انھوں نے جنگ کی اور لوگوں کو ہلاک کیا خود بھی ہلاک ہوئے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

۳۱۹

فقہ میں عبداللہ بن زبیر کا ایک مقام ہے اصل میں فقیہ اہل بیت(ع) سے بغض رکھنے والوں کا رد عمل ہے چنانچہ صیغۃ متعہ کی حرمت کے سلسلہ میں ان کا قول مشہور ہے۔

ایک مرتبہ انھوں نے عبداللہ بن عباس سے کہا ۔ اے اندھے اگر تم نے متعہ کیا تو میں تمھیں سنگسار کردوں گا۔

ابن عباس نے جواب دیا: میں تو آنکھ سے اندھا ہوں لیکن تم دل کے اندھے ہو اگر تم متعہ کی حلیت کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے بارے میں اپنی ماں سے پوچھ لو۔ ( آنکھ کا اندھا۔ اس لئے کہ بڑھاپے میں عبداللہ بن عباس کی بھویں آنکھوں پر آگئی تھیں لیکن ابنِ عباس کا یہ کہنا متعہ کےبارے میں اپنی ماں سے پوچھنا تو یہ اس لئے کہا کہ زبیر نے اسما سے متعہ کیا تھا۔عبداللہ متعہ ہی کی اولاد ہےیہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبداللہ اپنی ماں کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کیا میں نے تمھیں ابنِ عباس کے منہ لگنے سے منع نہیں کیا تھا وہ عرب کے عیوب کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔)

ہم اس موضوع کو وسعت نہیں دینا چاہتے۔اس پر بہت بحث ہوچکی ہے ہم تو صرف عبداللہ بن زبیر کی اہل بیت(ع) سے ہر چیز کے بارے میں مخالفت کی ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی مخالفت کی حد یہ تھی وہ فقہی امور میں بھی مخالفت کرتے تھے جبکہ ان میں انھیں مہارت نہیں تھی۔

افسوس ان میں ہر ایک اپنے خیرو شر کے ساتھ چلاگیا اور مظلوم امت کو خون کے دریا میں غوطہ زن اور بحر ضلالت میں غرق کر گیا امت والوں سے اکثر حق کی معرفت نہیں رکھتے  ہیں ۔ طلحہ و زبیر نے اس کی تصریح کی ہے اور اسی طرح سعد بن ابی وقاص نے بھی وضاحت کی ہے۔

لیکن تنہا وہ ذات اپنے رب کی طرف سے دلیل بنی ہوئی ہے، جس نے چشم زدن کے لئے بھی حق کے متعلق شک نہیں کیا ہے اور وہ ہیں علی ابن ابی طالب(ع) کہ جن کےساتھ ساتھ حق گردش کرتا ہے۔

۳۲۰