شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے9%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109213 / ڈاؤنلوڈ: 6823
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

پھر وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم عہد نبی(ص) میں (فلاں) کو فضیلت دیتے تھے؟ مگر یہ کہ یہ گفتگو ابوبکر و عمر اور عثمان کی اولاد کے درمیان ہو، اس کے باوجود یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ نبی(ص)  یہ سنتے تھے اور اس سے منع نہیں کرتے تھے، اس کی واضح دلالت اس بات پر ہے کہ یہ واقعہ جھوٹا ہے اور ان کی نیت  غلط ہے۔

اس پر ایک بات کا میں اضافہ کرتا ہوں ۔ نبی(ص) نے عبداللہ ابن عمر  کو غزوہ خندق کے سوا کسی جگہ بھی اپنے ہمراہ جانے کی اجازت نہیں دی جب کہ خندق کے بعد بھی غزوات ہوئے ہیں اور وہ اس وقت پندرہ(۱۵) سال کے ہوچکے تھے۔( صحیح بخاری کتاب الشہادات باب بلوغ الصبیان ، ج۳ ص۱۵۸)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ غزوہ خیبر میں شریک تھے چونکہ غزوہ خیبر ہجرت کے ساتھویں  سال واقع ہوا تھا اور انہوں نے اپنی دونوں آنکھوں سے حضرت ابوبکر کی ہزیمت دیکھی تھی اور اسی طرح  اپنے باپ عمر کی شکست دیکھی تھی اور اس جنگ میں رسول(ص)  کا قول بھی یقینا سنا ہوگا کہ :

کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو  خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا و رسول(ص) اس کو دوست رکھتے ہوں گے ، بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے ، فرار نہیں ہے، خدا نے ایمان کے لئے اس کے قلب کا امتحان لے لیا ہے۔

اور جب صبح ہوئی تو آپ نے علم قاطع الذَات، مفرَق الجماعات، مفرَج الکبریات، صاحب کرامات، اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب(ع) کو علم دیا۔حدیث رایت حضرت علی(ع) کی فضیلت بیان کررہی ہے اور تمام صحابہ سے افضل قرار دے رہی ہے اور خدا  و نبی(ص) کے نزدیک جو آپ کی عظمت تھی اسے بیان کررہی ہے اور انھیں خدا  و رسول(ص) کی محبت میں کامیاب بتارہی ہے لیکن عبداللہ بن عمر نے بغض کی بناء پر علی(ع) کو عام لوگوں میں شامل کردیا ہے۔

گذشتہ بحث میں بھی ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ اہل سنت والجماعت  اپنے سید و سردار عبداللہ بن عمر کی بیان کی ہوئی اس حدیث پر عمل کرتے تھے وہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع)  ، خلفائے راشدین کی فہرست میں شمار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی انکی خلافت کے معترف تھے، ( ہاں) احمد بن حنبل

۳۰۱

 کے زمانہ میں آپ(ع) کو خلیفہ تسلیم کیا گیا۔ جیسا کہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ جب وہ ایک زمانہ میں جس میں حدیث اور محدثین کی کثرت ہوگئی تھی اور ان کی طرف  انگشتِ تہمت اٹھنے لگی تھی اور وہ اہل بیت نبوی(ص)  کے بغض و حسد کی وجہ سے خاموش تھے اور اس بات کو سارے مسلمان جانتے ہیں کہ علی(ع) سے بغض رکھنا نفاق کی سب سے بڑی شناخت ہے۔

اور جب وہ حضرت علی(ع) کو خلیفہ تسلیم کرنے پر اور انھیں خلفائے راشدین میں شامل کرنے پر  مجبور ہوگئے تو انھیں اہلِ بیت(ع) سے بھی اظہار محبَت کرنا پڑا۔

کیا کوئی سوال کرنے والا ابن عمر سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ نبی(ص) کی وفات کے بعد تمام مسلمانوں نے یا چند مسلمانوں  نے اس شخص کے بارے میں کیوں اختلاف کیا جو کہ خلافت کا مستحق تھا یا اس کے لئے اولیٰ تھا، انہوں نے علی(ع) اور ابوبکر کے بارے میں اختلاف کیا لیکن اپنے والد عمر اور عثمان کے بارے میں اختلاف نہ کیا کیونکہ انکی حکومت کے زمانہ میں ان کا بھاؤ تھا۔

اور کیا کوئی ابنِ عمر سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب آپ کورسول(ص) نے آپ کی رائے پر قائم رکھا ہے اور آپ ابوبکر کے برابر کسی کو نہ سمجھتے تھے اور ابوبکر کے بعد عمر کو اور پھر عثمان کو سب سے اٖفضل سمجھتے تھے تو رسول(ص) نے اپنی وفات سے دور روز قبل ایک ایسے نوجوان کو کہ جسکی میں بھی نہیں بھیگی تھیں اور  سن کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا ان سب کا  امیر و ولی کیوں مقرر کیا ، انھیں انکی قیادت میں جانے کا حکم کیوں دیا کیا آپ ( عبداللہ بن عمر) بھی اپنے والد کی طرح یہ کہیں گے کہ رسول(ص) نے ہذیان کہا ہے؟!

اور کیا ابن عمر سے کئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ مہاجرین و اںصار نے ابوبکر کی بیعت سے اگلے  روز فاطمہ زہرا(س) سے یہ کیوں  کہا تھا کہ : قسم خدا کی اگر آپ(س) کے شوہر ہمارے پاس ابوبکر سے پہلے آگئے ہوتے تو ہم ان علی(ع) پر کسی کو  فوقیت نہ دیتے ، یہ صحابہ کا واضح اعتراف ہےکہ وہ کسی کو بھی علی(ع) سے افضل نہیں سمجھتے تھے ، اگر ابوبکر کی بیعت میں جو کہ بے سوچے سمجھے ہوگئی تھی جلدی نہ کی گئی ہوتی تو عبداللہ بن عمر ایسے مغرور کے نظر یہ کی کیا قیمت ہوسکتی تھی جو کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے

۳۰۲

کے بارے اصحاب کبار کی کیا رائے ہے۔؟!

اور کیا کوئی پوچھنے والا عبداللہ بن عمر سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ بزرگ صحابہ نے عمر کے قتل کے بعد علی(ع) کو کیوں خلافت کے لئے منتخب کیا تھا اور عثمان پر کیوں فوقیت دی تھی، اگر علی(ع) ابنِ عوف کی سیرت سیرتِ شیخین والی شرط کو نہ ٹھکراتے (تو علی (ع) افضل ہوجاتے یا نہیں)؟! ( تاریخ طبری ج۵، ص۴۰، تاریخ الخلفاء سیوطی، ص۱۰۴، تاریخ ابنِ قتیبہ اور اسی طرح مسند احمد ابنِ حنبل ج۱ ص۱۲۱)

لیکن عبداللہ ابن عمر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے۔ انہوں نے ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں عمر گذاری تھی، وہ دیکھتے تھے کہ علی(ع) کو دور کردیا گیا ہے، جماعت میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت میں کوئی منصب ان کے لئے ہے اور ان کے ابنِ عم کے انتقال کے بعد لوگوں نے ان سے اور ان کی زوجہ سیدہ رخ موڑ لیا ہے اوران کے پاس کوئی ایسی چیز  نہیں ہے جس کے لالچ میں لوگ ان کے پاس جائیں۔

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے باپ سے سب سے زیادہ قریب تھے وہ انکی بات سنتے تھے، ان کے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے تھے چنانچہ وہ علی(ع) سے خصوصا اور اہل بیت(ع) سے عموما بغض اور عداوت کی فضا میں جوان ہوئے ، اسی لئے وہ دن ان کے لئے بہت ہی دشوار اور غم انگیز تھا جس دن انہوں نے دیکھا کہ قتل عثمان کے بعد مہاجرین و انصار نے علی(ع) کی بیعت کرلی ہے۔ چنانچہ وہ اس کو برداشت نہ کرسکے اور اپنی چھپی ہوئی دشمنی کا اظہار کردیا اور امام المتقین ولیَ المؤمنین کی بیعت کرنے سے انکار کردیا، دشمنی کی حد ہوگئی ، عمرہ کے بہانے مدینہ چھوڑ کر مکہ پہنچ گئے۔

اس کے بعد ہم عبداللہ  بن عمر ک ودیکھتے ہیںہ وہ اپن پوری طاقت کےساتھ لوگوں کو حق کی نصرت سے باز رکھنے اور باغی گروہ" کہ جس سے خدا نے جنگ کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ حکمِ خدا نافذ ہوجائے"۔ کی مدد کرنے پر ابھار رہے ہیں ۔ پس عبداللہ بن عمر اپنے زمانہ کے مفترض الطاعت امام کی مدد نہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ اور جب علی (ع) قتل کردیئے گئے اور معاویہ بظاہر امام حسن(ع) پر غالب آگیا اور آپ(ع) سے

۳۰۳

خلافت چھین لی تو معاویہ  نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو! یا روزہ رکھو اورحج  کرو، میں نے تو تم سے اس لئے جنگ کی تھی تاکہ تم پر میری حکومت قائم ہوجائے۔

اس وقت ہم عبداللہ ابن عمر کو بیعت معاویہ کے لئے  دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں لوگوں نے متفرق ہونے کے بعد ان پر اجماع کر لیا ہے!

میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ انہوں نے ہی اس سال کا نام عام الجماعہ رکھا تھا ۔ کیوں کہ وہ خود اور بنی امیہ میں سے ان کے پیروکار اسی وقت سے اہل سنت والجماعت کہلوانے لگے تھے اور روزِ قیامت تک ایسے ہی باقی رہیں گے۔

کیا کوئی ابنِ عمر اور اہل سنت والجماعت میں سے ان کے ہم خیال سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ تاریخ میں بھی خلیفہ پر اس طرح اجماع ہوا ہے جس طرح امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب(ع) پر ہوا تھا؟!

ابو بکر کی خلافت تو ایک اتفاقی امر تھا جس کی شر سے خدا ہی نے محفوظ رکھا اور اکثر صحابہ نے اس سے روگردانی کی تھی۔   

اور عمر کی خلافت بغیر مشورہ کےہوئی تھی بلکہ وہ ابوبکر کی رائے تھی صحابہ کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا نہ عملی لحاظ سے اور نہ قولی اعتبار سے۔

اور عثمان کی خلافت ان تین افراد کی رائے کا نتیجہہے جنہیں عمر نے منتخب کیا تھا بلکہ عمر نے اپنے استبداد سے فقط عبدالرحمن بن عوف کو مالک بنادیا تھا۔

لیکن علی(ع) کےہاتھوں پر مہاجرین و اںصار نے بغیر کسی زبردستی کے بیعت کی تھی اور آپ کی بیعت کے لئے آفاق میں خط لکھے گئے تو سوائے معاویہ کے  سب نے بیعت کرلی تھی۔ ( فتح الباری ابن حجر ج۷، ص۵۸۶)

اور مفروض یہہے کہ ابن عمر اور اہل سنت والجماعت  معاویہ بن ابی سفیان سے جنگ کرتے جس نے طاعت کو ٹھکرادیا اور خود خلافت کا خواہاںہوا جیسا کہ اہلِ سنت نے اپنی صحاح میں

۳۰۴

 روایات نقل کی ہیں کہ رسول(ص) نے فرمایا: جب دو خلفا کی ایک ہی وقت میں بیعت کی جائے تو ان میں سے ایک کو قتل کردو۔ ( صحیح مسلم ج۶ ص۲۳، مستدرک حاکم ج۲ ص۱۲۶، سنن بیہقی ج۱ ص۱۴۴۔)

رسول(ص) نے فرمایا : جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے : جو شخص کسی امام کی بیعت کرتا ہے اگر وہ استطاعت رکھتا ہے اپنےہاتھ کی کمائی اور ثمرہ قلب اسے دینا چایئے اور  اگر کوئی دوسرا خلیفہ سے جنگ کرے تو اس کی گردن مارنا چاہیئے۔

لیکن عبداللہ بن عمر نے آیات و حدیث نبی(ص) کے اس حکم کے بر خلاف ، کہ معاویہ سے جنگ کرو اور اسے قتل کردو، کیوں کہ اس نے مسلمانوں کے خلیفہ سے جنگ کی، فتنہ کی آگ بھڑکائی ہے، علی(ع) کی بیعت سےروگردانی کی ہے، جب کہ علی(ع) کی بیعت پر تمام مسلمان متفق تھے اور عبداللہ بن عمر طاعت سے روگردان ،امام زمانہ سے جنگ کرنے والے اورنیکوکاروں کو قتل کرنے والے معاویہ کی بیعت کی تھی جو کہ ایسے فتنہ کا سبب بنی جس  کے آثار آج تک باقی ہیں۔

میرا عقیدہ تو یہہے کہ عبداللہ بن عمر ہر اس گنا ہ و جرائم اور ہلاکت میں شریک ہیں جس کا معاویہ مرتکب ہوا ہے کیوں کہ عبداللہ بن عمر نے معاویہ کی حکومت مضبوط کی اور اس کی خلافت کو مستحکم کرنے میں مدد کی جو کہخدا ورسول(ص) نے طلقاابن طلقا اور لعین وابنِ لعین پر حرام قرار دی تھی۔

اور عبداللہ ابن عمر  اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ یزید (لع) بن معاویہ کی بیعت بھی دوڑ کر کرلی، کون یزید شراب خور، فاجر ، کافر ، فاسق، طلیق ابن طلیق ، لعین ابن لعین۔

جبکہ عمر ابن خطاب کا کہنا ہے، جیسا کہ ابنِسعد نے اپنی طبقات میں لکھا ہے کہ، خلافت طلیق اور ابن طلیق اور فتح مکہ کے روز ہونے والے مسلمان کے لئے زیب نہیں دیتی۔( طبقات ابنِ سعد ج۳ ص۲۴۸۔)

پس عبداللہ اس سلسلہ میں اپنے باپ کی مخالفت کس منہ سے کرتےہیں اور پھر جب امر خلافت میں عبداللہ بن عمر کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) کی مخالفت کرتےہیں تو یہ کوئی تعجب کی جا نہیں

۳۰۵

کہ وہ اپنے باپ کی مخالفت کریں۔

اور کیا ہم عبداللہ بن عمر سے یہ پوچھ سکتےہیں کہ: یزید (لع) بن معاویہ کی بیعت پر کون سا اجماع ہوا تھا؟ اس کے برخلاف امت کے سرآوردہ اور مہاجرین و انصار کے بقیہ السلف کہ جن میں سے جوانان جنت کے سردار حسین بن علی(ع) ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس اوران کے پیروکاروں نے یزید(لع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا۔

بلکہ مشہور یہہے کہ شروع میں خود عبداللہ بن عمر بھی یزید(لع) کی بیعت کے مخالف تھے لیکن معاویہ جانتا تھا کہ انھیں کس طرح  اپنی طرف کھینچا جاسکتا ہے چنانچہ اس نے ایک لاکھ درہم بھیجدیئے اور انھوں نے قبول کرلئے اور جب معاویہ نےاپنے بیٹے یزید (لع)  کی بیعت کا ذکر کیا تو ابن عمر  نے کہا:کیا مجھ سے یہی چاہتےہو؟ اس صورت میں تو میرا دین بہت ہی کم قیمت ہر بک جائے گا۔

جی ہاں ! عبداللہ بن عمر نے حقیر قیمت پر اپنا ایمان بیچ دیا جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے۔وہ امام المتقین کی بیعت سے بھاگے اور باغیوں کے سربراہ معاویہ اور فاسقین کے سردار یزید(لع)  کی بیعت کرلی اور معاویہ ایسے ظالم کے گناہوں میں شریک ہوئے اسی طرح یزید(لع) کے جرائم میں خصوصا حرمتِ رسول(ص) کی ہتک اور جوانان جنت کے سردار اور عترت نبی(ص) اور صالحین کے ساتھ جو کربلا اور  واقعہ حرہ میںہوا، اس میں وہ برابر کے شریک ہیں۔

عبداللہ بن عمر نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کی کہ یزید(لع) کی بیعت کرلی بلکہ انہوں نے لوگوں کو بھی یزید(لع) کی بیعت پر مجبور کیا اور زبردستی بیعت کرائی اور جو بھی خود  کو یزید(لع) کے خلاف خروج کرنے پر تیار کرتا اسے جناب خوف دلاتے اور ڈراتے تھے۔اور بخاری نے اپنی صحیح میں اور دیگر محدثین نے تحریر کیا ہے کہ: عبداللہ ابن عمر نےاپنے بیٹوں اور  اصحاب و موالی کو جمع کیا۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب اہل مدینہ نے یزید(لع) ابن معاویہ کی بیعت توڑ دی تھی اور کہا : ہم نے خدا و رسول(ص) کی بیعت پر اس شخص (یزید) کی بیعت کی ہے۔( کیا خدا و رسول(ص) نے فاسقوں  اور مجرموں کی بیعت کا حکم دیا ہے؟ یا  اس نے اپنے اولیاء و صالحین

۳۰۶

کی بیعت کے لئے فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہےؕ "إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ "(مائدہ /۵۵)

او ر میں نے رسول(ص) سےسنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: جوشخص کسی کے ساتھ بدعہدی کرے گا اس کے لئے قیامت کے دن ایک پرچم بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا : اس نے فلاں کے ساتھ  بدعہدی کی ہے اور خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے بعد سب سے بڑی بدعہدی یہ ہے کہ انسان خدا اور رسول(ص) کی بیعت پر کسی شخص بیعت کرے اور پھر توڑدے۔ ( اے کاش یہی بات عبداللہ بن عمر طلحہ اور زبیر سے بھی کہدیتے کہ جنہوں نے علی(ع)  کی بیعت توڑ دی تھی اور ان سے جنگ کی تھی، اے کاش اہل سنت والجماعت تقسیم رجال میں اس حدیث پر عمل کرتے اور جب  بیعت توڑ دینا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے تو طلحۃ و زبیر کے بارے میں کیا خیال ہے جنہون نے نہ صرف بیعت توڑ دی تھی، بلکہ ہتک عزت، بیکوکاروں کا قتل ، اموال کی غارت گری اور عہد شکنی کا بھی ارتکاب کیا تھا۔)

تم میں سے کوئی ہرگز یزید(لع) کی بیعت نہ توڑے اور کوئی اس امر میں تردد کا شکار نہ ہو ورنہ میرے اور تمہارے درمیان تلوار ہوگی۔ ( صحیح بخاری ج۱ ص۱۶۶، مسند احمد ج۲ ص۹۶، سنن بیہقی ج۸ ص۱۵۹)

یقینا عبداللہ بن عمر کی دوستی  سے یزید کی حکومت اور تسلط مضبوط ہوا اور ابن عمر نے لوگوں کو یزید(لع) کی بیعت پر اکسایا ۔ یزید(لع) نے ایک لشکر تیار کیا اور مسلم ابن عقبہ جیسے فاسق ترین انسان کو اس کا کمانڈر مقرر کیا اور مدینہ رسول(ص) پر حملے کا حکم دے دیا اور کہا جو تم چاہو مدینہ میں کرنا چنانچہ ابنِ عقبہ نے ہزاروں صحابہ کو تہ تیغ کیا، انکی عورتوں کو ساتھ بد سلوکی کی اور اموال لوٹ لئے، سات سو حافظ قرآن کو قتل کیا جیسا کہ بلاذری نے نقل کیا ہے اور مسلمان عورتوں سے زنا کیا ، نتیجہ میں ہزار سے زیادہ بچے پیدا ہوئے اور باقی بچ جانے والوں سے " اس بات پر بیعت لی کہ وہ اپنے سردار یزید(لع) کے غلام رہیں گے۔

۳۰۷

کیا ان تمام چیزوں  میں عبداللہ ابن عمر یزید(لع) کا شریک کار نہیں ہے، کیا انہوں نے اس کی حکومت کو مضبوط نہیں کیا ہے؟ اس سے نتیجہ نکالنے کا کام قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

عبداللہ بن عمر نے اسی پر اکتفا نہ کی اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور مروان بن حکم ، چھپکلی لعین، طلیق اور فاجر کی بیعت کی جس نے علی(ع) سے جنگ کی اور طلحہ کو قتل کیا اور بہت سے سیاہ کارنامے انجام دیئے۔ جیسے خانۃ خدا کو آگ لگانا اور منجنیق سے پتھر برسانا،یہاں تک کہ اس کا رکن منہدم ہوگیا، اور کعبہ کے اندر عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنا اور بہت سے اعمال ہیں جن کے ذکر سے بھی جبین (انسانی) پر پسینہ آتا ہے۔

پھر عبداللہ بن عمر بیعت کے سلسلہ میں بہت آگے نکل جاتے  ہیں اور حجاج بن یوسف ثقفی ایسے زندیق کی بیعت کرتے ہیں کہ جس  نے قرآن کا مذاق اڑایا اور کہا یہ اعراب کا  رجز ہے اور اپنے سردار عبدالملک بن مروان  کو رسول(ص)  پر فضیلت دی جس کے کرتوتوں  سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ مؤرخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ اس نے کل ارکان، اسلام کا پامال کردیا تھا۔

حافظ بن عساکر نے اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے کہ حجاج کے متعلق دو اشخاص کے درمیان اختلاف ہوگیا، ایک نے کہا: وہ کافر ہے، دوسرے نےکہا: وہ گمراہ مومن ہے جب بات زیادہ بڑھی تو دونوں نےشعبی سے پوچھا انہوں نے کہا: وہ طاغوت پر ایمان رکھتا تھا اور خدا کا منکر و کافر تھا ۔ ( تاریخ ابن عساکر ج۴ ص۸۱۔)

یہ ہے مجرم حجاج جو کہ خدا کی حرام کردہ چیزوں پر عمل کرتا ہے جس کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہےکہ وہ بے دردی سے قتل کرتا تھا، انسانیت سوزسزا دیتا تھا اور امت کے نیکوکار اور مخلص افراد کو خصوصا شیعیان آلِ محمد(ص) کو مثلہ کردیتا تھا۔ انھیں حجاج سے جو تکلیفیں پہنچی ہیں وہ کسی اور سے نہیں پہنچیں۔

ابن قتیبہ نےاپنی تاریخ میں تحریر کیاہے کہ حجاج نے ایک دن ستر ہزار سے بھی زیادہ

۳۰۸

لوگوں کو قتل کیاتھا یہاں تک کہ راستوں میں خون ہی خون تھا اور مسجد کے دروازہ تک خون بہہ کر پہنچ گیا تھا۔( تاریخ الخلفاء ، ابن قتیبہ ج۲ ص۲۶۔)

ترمذی اپنی صحیح میں تحریر فرماتے ہیں : جب ان مقتول قیدیوں کو شمار کیا گیا جن کو حجاج نے قتل کیا تھا تو ان کی تعداد اکیس ہزار تھی۔ ( صحیح ترمذی ج۹ ص۶۴۔)

اور ابن عساکر نےان لوگوں کے قتل کے بعد ، جو کہ حجاج کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے  تحریر کیا ہے ،حجاج کی موت کے بعد اس کے قید خانے میں اسی(۸۰) ہزار افراد پائے گئے جن میں تیس ہزار عورتیں تھیں۔ّتاریخ ابن عساکر ج۴ ص۸۰)

حجاج خود  کو خدائے عزوجل سے تشبیہ دیتا تھا چنانچہ جب وہ ایک مرتبہ قید خانہ کی طرف سے گذرا اور قیدیوں کی آہ و زاری اور استغاثہ سنا تو  کہا : اسی میں خست اٹھاؤ اور مجھ سے بات نہ کرو۔

یہی وہ حجاج ہے جس کے بارے میں رسول(ص) نے وفات سے قبل ہی خبردار کیا اور فرمایا تھا: بے شک بنی ثقیف میں ایک کذاب اور ظالم ہے اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس روایت کے راوی خود عبداللہ ابن عمر ہیں۔ ( صحیح ترمذی ج۹ ص۶۴، مسند احمد بن حنبل ج۲ ص۹۱۔)

جی ہاں ! عبداللہ ابن عمر  نے نبی(ص) کے بعد سب سے افضل انسان کی بیعت نہیں کی اور  نہ ان کی مدد کی اور نہ ہی ان کی اقتداء میں نماز ادا کی لہذا خدا نے انھیں ذلیل کیا چنانچہ جب وہ حجاج کے پاس گئے اور کہا : میں نے رسول(ص) سے سنا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا : جوشخص بغیر بیعت کے مرا وہ جاہلیت کی موت مرا، حجاج نے انھیں ذلیل کیا اور  ان کی طرف اپنا پیر بڑھادیا اور کہا اس وقت میرا ہاتھ خالی  نہیں ہے ( پیر سے بیعت کرلو) عبداللہ ابن عمر حجاج ایسے زندیق اور اس کے کارندے نجدہ بن عامر، خوارج کے سردار پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔( طبقات الکبری ابن سعد ج۴ ص۱۱۰، محلی ابن حزم ج۴ ص۲۱۳۔)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ان لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھنا

۳۰۹

مناسب سمجھا کیوں کہ وہ ہر نماز کے بعد علی(ع) پر لعنت کرنے میں مشہور تھے۔ لہذا ابن عمر  کے کینہ کی آگ اور حسد کی تپش کے لئے وہی ماحول مناسب تھا۔ وہ علی(ع)  پر لعنت ہوتے ہوئے سنتے تھے اور ان کا قلب و جگر ٹھنڈا ہوتا تھا۔

اور اسی لئے آج اہل سنت کو یہفتوی دیتےہوئے سنتے ہیں کہ ہر نیک و بد اور فاسق و فاجر اور مومن و فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اس سلسلہ میں ان کے پاس انکے سید و سردار اوران کے مذہب کے فقیہ عبداللہ ابن عمر کا فعل بطورِ سند موجود ہے کہ انہوں نے حجاج ایسے زندیق اور نجدہ بن عامر ایسے  خارجی کے پیچھے نماز پڑھی تھی۔

لیکن رسول(ص) نے فرمایا : اس شخص کو امام بناؤ جو کتابِ خدا کو بہترین قرائت سے پڑھتا ہو، پس اگر قرائت کے لحاظ سے برابر ہوں تو جو  احادیث رسول(ص) کوسب سے زیادہ جانتا ہو اسے پیش نماز بناؤ، اگر سنت کے سلسلہ میں بھی سب برابر ہوں تو  جو ان میں ہجرت کے لحاظ سے سابق ہے اسے پیش امام بناؤ اوراگر ہجرت کے اعتبار سے بھی سب برابر ہوں تو جو ان میں سابق الاسلام ہون ان کے پیچھے نماز پڑھو۔لیکن عبداللہ ابن عمر نے اس حدیث کو دیوار پر دے مارا۔

اور یہ چاروں صفات۔ حافظ قرآن ، حافظ سنت ، ہجرت کے لحاظ سے سابق یا اسلام کے اعتبار سے سابق ہونا ان میں سے  کسی میں یہ  صفات نہیں  پائی جاتی تھیں جن کی عبداللہ ابن عمر  نے بیعت کی اور جن کی  اقتداء میں نماز پڑھی ۔ نہ معاویہ میں ، نہ یزید میں ،  نہ مروان میں ، نہ حجاج میں اور نہ نجدہ بن عامر خارجی میں یہ صفتیں تھیں۔

اور عبداللہ بن عمر  نے اس سنتِ نبوی(ص) کے خلاف عمل کیا اور اسے دیوار پردے مارا  کیوں کہ انہوں نے عترت طاہرہ(ع) کے سردار علی(ع) کو چھوڑدیا تھا کہ جن میں یہ چاروں خصلتیں موجود تھیں اور ان کے علاوہ بہت سے صفات تھیں لیکن ابنِ عمر نے ان کی اقتداء میں نماز ادا نہیں کی بلکہ فساق، خوارج ، ملحدین اور دشمن خدا و  رسول(ص) کی اقتداء میں نماز پڑھی۔

۳۱۰

اور فقیہ اہل سنت والجماعت عبداللہ بن عمر نے بہت سی جگہوں پر کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی مخالفت کی ہے ۔ اگر ہم ان سب کو جمع کریں تو اس کے لئے الگ ایک کتاب درکار ہے۔ لیکن اہل سنت والجماعت کی صحاح اور دیگر کتابوں سے بعض مثالیں نقل کردینے کو مناسب سمجھتا ہوں تاکہ وہ حجت بالغہ ہوجائیں۔

قرآن اور حدیث سے ابنِ عمر کا اختلاف :

قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے:

پس زیادتی کرنے والے سےاس وقت تک جنگ کرو یہاں تک کہ وہ بھی حکمِ خدا کو تسلیم کرلے۔( حجرات/۹)

رسول(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) آپ میرے بعد ناکثین ، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کریں گے۔

پس عبداللہ ابن عمر نے نصوصِ قرآن اور سنت نبوی(ص) کی مخالفت کی اور اسی طرح مہاجرین و اںصار کے اجماع کی مخالفت کی جو کہ آپ کے ساتھ ہوکر دشمنوں سے جنگ کررہے تھے، لیکن ابنِ عمر  نے کہا : میں فتنہ میں جنگ نہیں کروں گا اور جس کو غلبہ ہوگا اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ ( طبقات الکبری ج۴ ،ص۱۱۰)

جیسا کہ ابن حجر نے تحریر کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے اپنی رائے سے جنگ میں شرکت نہ کی اور کہا یہ فتنہ ہے اگر چہ ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک جماعت حق پر ہے اور دوسری باطل پر۔ ( فتح الباری۔ ابن حجر ص۳۹)

قسم خدا کی عبداللہ ابن عمر کا عجیب قصّہ ہے جو کہ ایک طرف حق دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف باطل۔ لیکن پھر بھی باطل کے خلاف حق کی نصرت نہیں کرتے اور نہ ہی امر خدا کو  پورا کرنےکے لئے باطل سے دست بردار ہوتے ہیں اور غالب کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں خواہ باطل ہی کیوں نہ ہو۔

۳۱۱

معاویہ کو کامیابی مل گئی اور وہ امت پر مسلط ہوگیا اور ذلیل کر کے حاکم بن بیٹھا تو ابن عمر آئے اور معاویہ کی بیعت کی اور اس کے پیچھے نماز پڑھی جب کہ وہ جانتے تھے کہ معاویہ نے کیا کیا؟ اس نے وہم و گمان سے بالاتر جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

باطل پرست حکام کو کثرت کی بنا پر حق یعنی ائمہ اہل بیت(ع) پر کامیابی ملی اور طلقا و فساق، گمراہوں اور مجرمین نے طاقت اور قدرت سے امت پر حکومت قائم کریں۔

ابنِ عمر نے پورے طور سے حق کو چھوڑ دیا۔ تاریخ نےابنِ عمر کی اہل بیت(ع) سے محبت و مودت کو نہیں لکھا ہے جب کہ ان کی حیات میں پانچ ائمہ(ع) کا زمانہ گذرا ہے اور ابنِ عمر نے کسی ایک کی بھی اقتداء مین نماز نہیں پڑھی اور نہ کسی امام سے کوئی روایت نقل کی ہے اور نہ ان میں سے کسی فضیلت و فضل کا اعتراف کیا ہے۔

یہ بات ہم اس  کتاب کی فصل " ائمہ اثناعشر" میں بیان کرچکے ہیں ۔ خلفائے اثناعشر کے بارے میں ابنِ عمر کا نظریہ یہ تھا کہ ابوبکر، عمر ، عثمان، معاویہ، یزید، سفاح، سلام، منصور، اور جابر و مہدی، امین و امیر  العصیب ہی خلیفہ تھے، کہتے ہیں بنی کعب بنی لوی میں سے ہی بارہ خلیفہ ہیں ۔ سب صالح تھے اور کوئی ان کا مثل نہیں ہے۔ ( تاریخ سیوطی، کنز العمال، تاریخ ابنِ عساکر و ذہبی۔)

جو نام ابنِ عمر نے شمار کرائے ہیں ان میں سے کوئی نام آپ نے عترت نبی(ص) میں سے ائمہ ہدیٰ (ع) کا بھی دیکھا ہے؟ جن کے متعلق رسول(ص) کا ارشاد ہے: وہ سفینۃ  نجات اور قرآن کا ہم پلہ ہیں۔؟!

یہی وجہ ہےکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں ائمہ اطہار(ع) میں سے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ ائمہ اہل بیت(ع) میں سے کسی کی اقتداء کرتے ہیں۔

یہ تو تھا کتابِ خدا اور حدیثِ رسول(ص) کی مخالفت میں ابنِ عمر کا کردار اور اب کتابِ  خدا اور  حدیثِ نبی(ص) سے ابنِ عمر کی جہالت ملاحظہ فرمائیے۔

۳۱۲

کہا جاتا ہے کہ نبی(ص) نے حالت احرام میں عورتوں کو جوتے پہننے کی اجازت دی تھی لیکن ابنِ عمر اس سے بے خبر تھے لہٰذا انہوں نے جوتے پہننا حرام قرار دے دیا۔ ( سنن ابو داؤد ج۱ ص۲۸۹، سنن بیہقی ج۵ ص۲۵، مسند احمد ج۲ ص۲۹)

عہد رسول(ص) اور ابوبکر و عمر و عثمان کے زمانہ میں یہاں تک کہ معاویہ کے زمانہ میں عبداللہ ابن عمر  اپنے کھیتوں کو کرایہ پر دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ معاویہ کی حکومت کے آخری زمانہ میں کسی صحابی نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ اسے تو رسول(ص) نے حرام قرار دیا تھا۔( صحیح بخاری و مسلم ج۵ ص۲۱۔)

جی ہاں ! یہی ہیں اہل سنت والجماعت کے فقیہ جو یہ بھی نہیں جانتے کہ کھیتوں کو کرایہ ، پر دینا حرام ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عبداللہ ابنِ عمر  عہد نبی(ص)  سے لے کر معاویہ کے زمانہ یعنی پچاس سال تک اس کے حلال ہونے کے سلسلہ میں فتویٰ دیتے رہے ہوں گے۔

کچھ چیزوں میں عائشہ سے انکی مخالفت تھی،  مثلا انہوں نے فتویٰ دیا کہ بوسہ لینے سے وضو باطل ہوجاتا ہے یا ان  کا فتویٰ تھا اگر میت پر  زندہ لوگ گریہ کریں تو مرنے والے پر عذاب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان صبح کے بارے میں اختلاف یا ان کا  یہ کہنا کہ ۲۹ روز کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت چیزوں میں دونوں کے درمیان اختلاف تھا۔

ان میں سے کچھ چیزوں کو شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ عبداللہ ابن عمر سے کہا گیا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں : میں نے رسول(ص) سے سنا ہے : جو ایک جنازہ کی تشیع کرتا ہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے۔

عبداللہ ابن عمر نے کہا : ابوہریرہ اکثر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ پس عائشہ نے ابوہریرہ کی تصدیق کی اور کہا : میں نے بھی رسول(ص) سے یہ حدیث سنی تھی۔ اس پر ابنِ عمر نے کہا : ہم نے بہت سے اجر ضائع کردیئے۔ (  صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب اتباع الجنائز۔)

ہمارے لئے عبداللہ کے سلسلہ میں ان کے باپ ابنِ خطاب ہی کا قول کافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ بعض تملق پسند افراد نے بستر مرگ پر دراز عمر سے کہا: آپ اپنے

۳۱۳

 فرزند عبداللہ کو خلیفہ بنادیجئے تو  انہوں نے کہا: میں لوگوں پر اسے کیسے حاکم بنادوں جو اپنی بیوی کو طلاق دینا بھی نہیں جانتا۔

یہ ہیں ابنِ عمر ! اور پھر اپنے بیٹے کو باپ سے زیادہ کون پہچانے گا۔

لیکن جن جھوٹی حدیثوں کے ذریعہ اس نے اپنے آقا معاویہ کی خدمت کی ہے وہ بہت  زیادہ ہیں ۔ ہم مثال کے طور پر ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں۔

ابنِ عمر کہتے ہیں: رسول(ص) نےفرمایا : تمہارے پاس اہل جنت میں سے ایک شخص آنے والا ہے، پس معاویہ نمودار ہوئے۔ پھر اگلے روز آپ نے فرمایا : تمہارے سامنے اہل جنت میں سے ایک شخص آنے والا ہے ، پس ہم نے دیکھا کہ معاویہ چلے آرہے ہیں۔ تیسرے دن پھر فرمایا: تمہارے سامنے اہل جنت میں سے ایک شخص آنے والا ہے ، پس معاویہ آئے۔

ابنِ عمر کا قول ہےکہ جب آیۃ الکرسی نازل ہوئی اس وقت رسول(ص) نے معاویہ سے فرمایا: اسے لکھ لو ، معاویہ نے کہا میں کیا لکھوں ، اس کے لکھنے سے مجھے کیا ملے گا۔ رسول(ص) نے فرمایا: جب بھی کوئی اس کو پڑھے گا تمہارے لئے ثواب لکھا جائے گا۔ نیز کہتے ہیں جب روز قیامت معاویہ کو اٹھایا جائے گا تو ان پر ایمان کی چادر پڑی ہوگی۔

لیکن میں اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ اہل سنت والجماعت نےا پنے سردار معاویہ کاتبِ وحی کو عشرہ مبشرہ میں کیوں شامل نہیں کیا،جب کہ ان کےسردار ابنِ عمر نے تین تین بار اس کی تاکید کی کہ معاویہ کو پے  درپے تین روز تک اہل جنت میں قرار دیا اور جب روز قیامت تما لوگ عریان ہوں گے اس روز معاویہ پر ایمان کی چادر پڑی ہوگی!!! پڑھئے اور تعجب کیجئے۔

یہ ہیں عبداللہ ابنِ عمر اور یہ ہے ان کا مبلغ علم اور یہ ہے انکی فقہ اور یہ ہے کتابِ (خدا) اور سنت نبی(ص) سے ان کا اختلاف ،اور یہ ہے امیرالمؤمنین اور ائمہ طاہرین(ع)  سے ان کی عداوت اور یہ ہے دشمن خدا اور دشمنِ انسانیت لوگوں سے ان کی محبت اور چاپلوسی۔

۳۱۴

کیا آج کوئی اہل سنت والجماعت میں سے ان حقائق کو قبول کرے گا کہ سنتِ محمدی(ص) صرف عترتِ طاہرہ(ع) کا اتباع کرنے والوں ہی کے پاس ہے۔ اور وہ ہے شیعہ؟

جہنمی اور جنتی دونوں برابر نہیں ہیں ( کیونکہ) جنت والے ہی کامیاب ہیں ۔( حشر/۲۰)

۳۱۵

۱۲ : عبداللہ بن زبیر

ان کے باپ زبیر بن العوام ہیں جو کہ جنگ جمل میں قتل کئے گئے تھے واضح رہے حدیثِ نبوی(ص)  میں اسے حزب الناکثین کہا گیا ہے ان کی مان بنت ابی بکر بن قحافہ ہیں ، ان کی خالہ ام المؤمنین زوجہ نبی(ص) عائشہ بنتِ ابی بکر ہیں یہ بھی امام علی(ع) کے سخت ترین دشمن اور بغض رکھنے والے تھے۔

شاید وہ اپنے جد ابوبکر کی خلافت اور اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ پر فخر کرتے تھے اور حسد و عداوتِ علی(ع) انھیں سے ورثہ میں ملی تھی اور اسی ماحول میں پرورش پائی تھی امام علی(ع) نے زبیر سے فرمایا تھا کہ ہم تو تمہیں بنی عبدالمطلب میں سمجھتے تھے لیکن تمھارا بیٹا، برائیوں کا پلندہ ہے اس نے ہمارے اور تمھارے درمیان جدائی ڈال دی ہے۔

تاریخ میں مشہور ہے کہ جناب نے بھی جنگ جمل میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہاں تک کہ  ایک روز عائشہ نے انھیں نماز  میں امامت کے لئے بڑھادیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ طلحہ و زبیر  کے درمیان امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہوگیا دونوں ہی امام بننا چاہتے تھے لہذا عائشہ نے ان دونوں کو معزول کردیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی خالہ عائشہ کے پاس یہی پچاس افراد لائے تھے جنھوں نے جھوٹی گواہی دی تھی کہ یہ ( حوب) کا مقام نہیں ہے  لہذا عائشہ نے ان کےساتھ راستہ طے کیا۔

یہ وہی عبداللہ ہیں جنھوں نے اپنے باپ کو اس وقت بزدل کہا تھا اور ان پر خوف کھانے کی تہمت لگائی تھی کہ جب انھیں حضرت علی(ع) نے نبی(ص) کی یہ حدیث یاد دلائی تھی کہ تم علی(ع) سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ظالم ہوگے۔ وہ میدانِ جنگ  سے پلٹ جانے پر تیار ہوگئے تھے ۔ لیکن جب بیٹے نے زیادہ  پریشان کیا تو  کہا ، خدا تجھے رسوا کرے تجھے کیا ہوگیا ہے ۔ ( تاریخ اعثم و شرحِ ابن ابی الحدید ج۲ ،ص۱۷۰)

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے باپ کو اتنی غیرت دلائی کہ انھوں  نے علی(ع) کے لشکر پر حملہ

۳۱۶

 کردیا اور قتل ہوگئے اور اس طرح وہ اپنے باپ کے اس قول کا مصداق قرار پائے کہ  کتنا برا لڑکا ہے۔

ہم نے اسی روایت کو منتخب کیا ہے کیونکہ یہ واقعہ زبیر کے کینہ توز نفس سے اور ان کے فرزندوں سے بہت ہی قریب ہے اور اتنی آسانی سے زبیر میدا ن جنگ سے نہیں ہٹ سکتے تھے طلحہ اور ان کے اصحاب و موالی اور وہ غلام جو بصرہ تک ان کے ساتھ آئے تھے اور ام المؤمنین اپنی زوجہ کی بہن کو جوکہ ہلاکت سے قریب تھیں انھیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اوراگر ہم یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ انھوں نے لشکر والوں کو چھوڑ دیا تھا ۔ تو بھی  لشکر والوں نے انھیں نہیں چھوڑا تھا خصوصا ان کے بیٹے عبداللہ نے جس کے ارادہ سے ہم واقف ہوچکے ہیں۔

مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہےکہ عبداللہ بن زبیر علی(ع) پر لعنت کرتا تھا کبھی کہتا تھا تمھارے پاس کمینہ اور بدبخت آگیا ہے اور اس کی  مراد علی(ع) ہوتے تھے ۔ اہل بصرہ کے درمیان اس نےخطبہ دیا اور انھیں جنگ و جدال پر ابھارا ۔ کہا: اے لوگو! علی(ع) نے خلیفہ برحق عثمان مظلوم کو قتل کیا ہے۔ پھر لشکر تیار کیا تاکہ تم پر حکومت کرے اور تمھارے شہر کو تم سے چھین لے۔ پس تم اپنے خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اٹھو! اوراپنے حریم کی حفاظت کرو اور اپنی عورتوں بچوں اور اپنے حسب ونسب سے دفاع کرو، آگاہ ہوجاؤ کہ علی(ع)  اس سلسلہ میں تمھاری کوئی رعایت نہیں کریں گے ، قسم خدا کی اگر وہ تم پر فتحیاب ہوگئے تو تمھارے دین اور دنیا کو ضرور برباد کردیں گے ۔ ( شرح نہج البلاغہ ۔ ابن ابی الحدید ج۱ ص۳۵۸۔ تاریخ مسعودی جلد۵، ص۱۶۳)

عبداللہ بن زبیر کو بنی ہاشم سے بالعموم اور حضر ت علی(ع) سے بالخصوص شدید دشمنی تھی  چنانچہ اسی حسد و کینہ توزی کی بنا پر انھوں نے چالیس روز تک محمد(ص) پر بھی صلوات نہ بھیجی اور کہا مجھے صلوٰت بھیجنے سے کوئی چیز نہیں روکتی لیکن اس سے کچھ لوگوں کی ناک اونچی ہوجائے گی اس

۳۱۷

 لئے صلوات نہیں بھیجتا ہوں۔( تاریخ یعقوبی جلد۳ ص۷ شرح ابن ابی الحدید جلد۱ ص۳۸۵)

جب انکا بغض و حسد اتنا بڑھ گیا تھا کہ انھوں نے نبی(ص) پر صلوات بھیجنا بند کردی تھی تو ان سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ وہ لوگوں پر جھوٹ باندھیں  اور حضرت علی(ع)  پر تہمت لگائیں اور ہر بری چیز کو آپ(ع) سے منسوب کردیں چنانچہ اہل بصرہ  کے درمیان انھوں نے  جو خطبہ دیا تھا اس میں یہ بھی کہا تھا: قسم خدا کی اگر علی(ع) کو فتح ملی تو وہ ضرور تمھارے دین و دنیا کو برباد کریں گے۔

یہ عبداللہ  ابن زبیر کا کھلا جھوٹ اور عظیم بہتان ہے وہ قطعی حق کو اپنے دل میں راہ نہیں دیتے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع)  کو فتح ملی اور حزبِ مخالف کی اکثریت کو اسیر کیا گیا اور ان ہی قید ہونے والوں میں عبداللہ ابن زبیر بھی تھے۔ لیکن علی(ع) نےسب کو معاف کردیا اور آزاد چھوڑ دیا۔

اور عائشہ کو با عزت ان کے پردہ کے ساتھ مدینہ پہنچا دیا اور اسی طرح آپ(ع) نے اپنے اصحاب سے غنیمت کا مال لینے، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے سے منع کردیا اور زخمی کو قتل کرنے سے منع کیا یہاں تک کہ لشکر والوں میں سے بعض لوگوں نے آپ(ع) کو برا بھلا کہا اور آپ(ع) کے متعلق خیال آرائیاں کرنے لگے۔

پس علی(ع) محض سنتِ نبی(ص) ہیں اور آپ(ع) ہی کتابِ خدا کے عارف ہیں۔ آپ(ع) کےسوا کوئی اس سے واقف نہیں ہے۔ آپ کے لشکر میں سے بعض رذیل منافقین اکٹھا ہوکر آپ(ع) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے ان لوگوں سے جنگ کرنا ہمارے لئے کیسے مباح ہوگیا اور ان کی عورتوں کو بے پردہ کرنا کیونکر حرام ہوا؟

منافقین نے اس بات سے بہت سے فوجیوں کو بہکایا یہ الگ بات ہے علی(ع) نے کتابِ خدا سے ان پر حجت قائم کی اور ان سے فرمایا:

تم اپنی ماں عائشہ کے لئے قرعہ اندازی کرنے کو پسند کروگے اس وقت وہ

۳۱۸

لوگ سمجھے کہ آپ(ع) حق پر ہیں اور کہنے لگے استغفراللہ یقینا ہم غلطی پر تھے۔

پس عبداللہ بن زبیر کا قول جھوٹ اور کھلا بہتان تھا۔ انھیں بغض علی(ع) نےاندھا بنا دیا تھا اور ایمان سے خارج کردیا تھا ( واضح رہے) عبداللہ بن زبیر نے اس کے بعد توبہ نہیں کی اور  ان جنگوں سے انھوں نے درس ( عبرت) لیا اور نہ نصیحت حاصل کی۔

انھوں نے نیکیوں کا مقابلہ برائیوں سے کیا اور بنی ہاشم سے اور عترت طاہرہ(ع) کے سرداروں سے ان کا بغض و حسد بڑھتا چلاگیا ۔ یہاں تک کہ بنی ہاشم کا چراغ گل کرنے کے لئے انھوں نے حتیٰ القدور کوشش کی۔

مؤرخین نے روایت کی ہے کہ وہ حضرت علی(ع) کے شہید ہوجانے کے بعد لوگوں کو اپنے امیر و خلیفہ ہونے کی دعوت دینے کے لئے کھڑے ہوئے چنانچہ کچھ لوگ ان کے پاس جمع بھی ہوگئے اور ان کی شان و شوکت مستحکم ہوگئی تو انھوں نے علی(ع) کے فرزند محمد بن الحنفیہ کو اور اسی طرح  حسن بن علی(ع) اوران کےساتھ بنی ہاشم کے دیگر سترہ(۱۷) اشخاص  کو قید کر لیا اور انھیں جلانے کے لئے دروازہ پر بہت ہی لکڑیاں جمع کردی تھیں اور ان میں آگ لگادی تھی لیکن مختار کا لشکر عین اسی وقت وہاں پہنچ گیا اس نے آگ بجھائی اور انھیں آگ سے نکالا ورنہ ابنِ زبیر تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا۔( تاریخ مسعودی جلد ۵ ص۱۸۵) شرح ابن ابی الحدید جلد۴ ص۴۸۷)

مروان نے حجاج کی سرکردگی میں ابنِ زبیر سے مقابلہ کےلئے ایک لشکر بھیجا کہ جس نے  محاصرہ کر کے انھیں قتل کیا اور حرم میں سولی پر لٹکا دیا۔

اس طرح عبداللہ بن زبیر  کا قصہ تمام ہوا جیسا کہ اس سے قبل ان کے باپ کا قصہ تمام ہوا تھا دونوں ہی دنیا کے بندے اور حکومت و امارات کے حریص تھے۔ اور اپنی بیعت کرانا چاہتے تھے اسی لئے انھوں نے جنگ کی اور لوگوں کو ہلاک کیا خود بھی ہلاک ہوئے لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

۳۱۹

فقہ میں عبداللہ بن زبیر کا ایک مقام ہے اصل میں فقیہ اہل بیت(ع) سے بغض رکھنے والوں کا رد عمل ہے چنانچہ صیغۃ متعہ کی حرمت کے سلسلہ میں ان کا قول مشہور ہے۔

ایک مرتبہ انھوں نے عبداللہ بن عباس سے کہا ۔ اے اندھے اگر تم نے متعہ کیا تو میں تمھیں سنگسار کردوں گا۔

ابن عباس نے جواب دیا: میں تو آنکھ سے اندھا ہوں لیکن تم دل کے اندھے ہو اگر تم متعہ کی حلیت کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے بارے میں اپنی ماں سے پوچھ لو۔ ( آنکھ کا اندھا۔ اس لئے کہ بڑھاپے میں عبداللہ بن عباس کی بھویں آنکھوں پر آگئی تھیں لیکن ابنِ عباس کا یہ کہنا متعہ کےبارے میں اپنی ماں سے پوچھنا تو یہ اس لئے کہا کہ زبیر نے اسما سے متعہ کیا تھا۔عبداللہ متعہ ہی کی اولاد ہےیہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبداللہ اپنی ماں کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کیا میں نے تمھیں ابنِ عباس کے منہ لگنے سے منع نہیں کیا تھا وہ عرب کے عیوب کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔)

ہم اس موضوع کو وسعت نہیں دینا چاہتے۔اس پر بہت بحث ہوچکی ہے ہم تو صرف عبداللہ بن زبیر کی اہل بیت(ع) سے ہر چیز کے بارے میں مخالفت کی ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی مخالفت کی حد یہ تھی وہ فقہی امور میں بھی مخالفت کرتے تھے جبکہ ان میں انھیں مہارت نہیں تھی۔

افسوس ان میں ہر ایک اپنے خیرو شر کے ساتھ چلاگیا اور مظلوم امت کو خون کے دریا میں غوطہ زن اور بحر ضلالت میں غرق کر گیا امت والوں سے اکثر حق کی معرفت نہیں رکھتے  ہیں ۔ طلحہ و زبیر نے اس کی تصریح کی ہے اور اسی طرح سعد بن ابی وقاص نے بھی وضاحت کی ہے۔

لیکن تنہا وہ ذات اپنے رب کی طرف سے دلیل بنی ہوئی ہے، جس نے چشم زدن کے لئے بھی حق کے متعلق شک نہیں کیا ہے اور وہ ہیں علی ابن ابی طالب(ع) کہ جن کےساتھ ساتھ حق گردش کرتا ہے۔

۳۲۰

قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جو آپ(ع) کی اقتدا کرتے ہیں کیونکہ رسول(ص) کا ارشاد ہے۔

اے علی(ع) قیامت کے روز آپ(ع) اور آپ(ع) کے شیعہ ہی کامیاب ہونگے۔ ( در منثور جلال الدین سیوطی۔ سورہ بینہ)

اور جو حق  کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابلِ اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے ۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے اور کیسا فیصلہ کررہے ہو۔( یونس /۳۵)

۳۲۱

کیا حدیث قرآن کی مخالف ہے؟

شیعہ اور اہل سنت والجماعت میں سے طرفین کے عقیدہ کی بحث و تحقیق کے بعد ہم نے  یہ محسوس کیا ہے کہ ششیعہ اپنے تمام فقہی امور میں کتاب ِ خدا اور سنت نبوی(ص) کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کسی چیز سے سروکار نہیں رکھتے۔

وہ قرآن کو پہلا رتبہ دیتے ہیں اور حدیث کو دوسرا رتبہ دیتے ہیں اور اسے اچھی طرح پرکھتے ہیں اور کتابِ خدا سے مطابقت کرتے ہیں ۔ پس جو حدیث کتاب ِخدا کے موافق ہوتی ہے اسے  لے لیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور جو کتاب خدا کےخلاف ہوتی ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا کوئی وزن نہیں سمجھتے ۔ ( قسم اپنی جان کی یہ وہ بہترین منطق ہےجس نے ان پر محدثین کا راستہ بند کردیا ہے جنھوں نے تدلیس حدیث میں شہرت پائی تھی اور اسے رسول(ص) کی  طر ف منسوب کردیا تھا جب کہ آپ(ص)  اس سے بری ہیں۔

اصل میں شیعوں کے اس نظریہ  کا سرچشمہ وہ حدیث ہے جو ائمہ اہل بیت(ع) نے اپنے جد رسول (ص) سے نقل کی ہے۔ آپ (ص) کا ارشاد ہے: جب تمھارے پاس کوئی حدیث آئے تو تم ( پہلے)

۳۲۲

اسے کتاب خدا  پر رکھ لو۔ اگر وہ اس کے موافق ہے تو اس پر عمل کرو اور اگر مخالف ہے تو دیوار پر دے مارو۔

امام صادق (ع) نے متعدد بار فرمایا : جو حدیث قرآن کے موافق نہیں ہے وہ جھوٹی ہے۔

اصول کافی میں منقول ہے کہ رسول (ص) نے منیٰ میں لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو! میری طرف سے جوبات تم تک پہونچتی ہے۔ ( اگر) وہ کتاب خدا کےموافق ہے تو وہ واقعا میرا قول ہے۔ اور جو بات میری طرف سے نقل ہو اور وہ کتابِ خدا کے خلاف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے۔

شیعہ امامیہ نے اسی مضبوط اساس پر اپنے عقائد اور فقیہ کی تعمیر کی ہے۔ پس جب حدیث  اسناد کے لحاظ سے صحیح ہوتو اس وقت اسے اس میزان پر تولنا ضروری ہے اور اس کتاب پر پرکھنا ضروری ہے جس میں کسی بھی طرف سے باطل داخل نہیں ہوسکتا ۔

فرق اسلامیہ کے درمیان صرف شیعہ ہی ایک ایسا فرقہ ہے جس نے یہ شرط رکھی ہے خصوصا باب تعارض میں۔ یعنی جہاں دو (۲) روایات و اخبار ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔

شیخ مفید نے اپنی " تصحیح الاعتقاد " نامی کتاب میں تحریر کیا ہے، کتابِ خدا ،احادیث و روایات پر مقدم ہے اور اس کےذریعہ اخبار و احادیث کے ضعف و صحت کا علم حاصل کیا جا تا ہے پس جو اس (قرآن) پر پوری اتر ے وہ حق ہے اور اس کےخلاف باطل ہے۔

اور اس شرط کی بنا پر حدیث کو کتابِ خدا پر تولتے ہیں لہذا اہل سنت والجماعت سے شیعہ بہت سے فقہی احکام اور عقائد میں ممتاز ہیں۔

شیعوں کے عقائد اور احکام کو ہر ایک محقق کتاب خدا کے موافق پائے گا۔ اس کے برخلاف اہل سنت والجماعت کے عقائد اور احکام کو صریح  طور پر قرآن کے خلاف پائے گا۔ عنقریب ہم اس بحث کو تفصیلی طور پر بیاں کریں گے اور دلیل سے ثابت کریں گے۔

۳۲۳

تحقیق کرنے والا اس بات کو بھی اچھی طرح محسوس کرے گا کہ شیعہ اپنی کسی بھی حدیث کی کتاب کو مکمل طور پر صحیح نہیں کہتے ہیں۔ اور نہ ہی اسے قرآن کے برابر ٹھہراتے ہیں جیسا کہ اہل سنت والجماعت ان تمام حدیثوں کو جن کو بخاری و مسلم نےجمع کیا ہے صحیح کہتے ہیں باوجودیکہ ان میں سینکڑوں حدیثیں ایسی ہیں جو سراسر کتاب خدا کے خلاف ہیں۔

آپ کی اطلاع کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی کتاب کافی باوجود اپنے مؤلف محمد بن یعقوب کلینی کی قدر و منزلت کے اور علم احادیث میں انکے تبحر علمی کے باوجود شیعہ علما نے ایک روز بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ جو کچھ کلینی نے جمع کیا  ہے وہ سب صحیح ہے بلکہ اس کے برعکس بعض شیعہ علما نے اس کے نصف سے زیادہ حصہ کو غیر صحیح قرار دیا ہے ۔ خود  مؤلف نےیہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ جو کچھ میں اس کتاب میں جمع کیا ہے وہ سب صحیح ہے۔

شاید یہ سب کچھ سیرت خلفا کا نتیجہ ہے پس  اہل سنت والجماعت نےجن ائمہ کی اقتداء کی وہ احکام قرآن و سنت سے جاہل تھے یا جانتے  تھے لیکن بعض اسباب کی بنا پر اپنی رائے سے اجتہاد کر لیتے تھے ان میں سے بعض اجتہادات کا ہم گذشتہ بحثوں میں تذکرہ کر چکے ہیں۔

لیکن شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی قتدا کرتے  ہیں جو کہ قرآن کے ہم پلہ اور اس کے ترجمان ہیں وہ نہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف کرتے ہیں۔

                     جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی                                 ہے۔اور اس سے پہلے کتابِ موسیٰ گوہی دے رہی ہے جو کہ رحمت و پیشوا تھی۔

صاحبان ایمان اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ  اس کا انکار کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ خبردار تم قرآن

۳۲۴

کے بارے میں شک میں مبتلا نہ ہونا وہ تمھارے پر وردگار کی طرف سے برحق ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔( سورہ ہود : آیت۱۷)

۳۲۵

قرآن و حدیث اہل سنت کی نظر میں

ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ امامیہ قرآن کو سنت پر مقدم کرتے ہیں اور اسے سنت کا قاضی و حاکم قرار دیتے  ہیں لیکن اہل سنت والجماعت اس سلسلہ میں شیعوں کے خلاف ہیں وہ قرآن پر سنت کو مقدم کرتے ہیں اور اسے حاکم و قاضی قرار دیتے ہیں۔

اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ اسی لئے خود کو اہل سنت کہتے ہیں کہ انھوں نےسنت ہی کو  سب کچھ سمجھ لیا ہے ورنہ وہ اپنے کو اہل قرآن و سنت کیوں نہیں کہتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنی کتابوں میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ بنی(ص) نے فرمایا:

" میں تمھارے درمیان قرآن اور اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں۔"

انھوں نے قرآن کو چھوڑ دیا اور اسے مرتبہ پر رکھا اور خیالی سنت سے تمسک کرلیا اور اسے  پہلے مرتبہ پر رکھا ۔ ہم ان کے قول کا اصلی مقصد سمجھتے ہیں کہ سنت قرآن پر حاکم و قاضی ہے یہ بات عجیب ہے۔ میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت یہ فیصلہ کرنےپر اس وقت مجبور ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ ہمارے اعمال قرآن خلاف ہیں اور جب ان کے مخدوم حکام نے ان پر یہ بات تھوپ دی کہ تم یہ لکھو کہ سنت  قرآن پر مقدم ہے تب انھوں نے لکھا اور ان کے اعمال کی برئت کے لئے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر نبی(ص)  کی طرف  منسوب کردیں ۔ جب وہ احادیث احکام قرآن کے خلاف ظاہر ہوئیں تو کہا : سنت قرآن پر حاکم وقاضی ہے یا وہ قرآ ن  کو منسوخ کرتی ہے۔

اس کے لئے میں ایک واضح مثال دیتا ہوں جس کو ایک مسلمان دن بھر میں چند مرتبہ انجام دیتا ہے اور وہ ہے ہر نماز سے قبل وضو قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

۳۲۶

' اے ایمان لانے والو: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو( اس وقت) اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولیا کرو اور اپنے سروں کے بعض حصّہ کا اور پیروں کا گٹوں تک مسح کیا کرو۔( مائدہ/۶)

نصب و جر کی قرت سے قطع نظر، جیسا کہ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ لغت عرب میں ماہر اہلسنت والجماعت کے مشہور عالم فخررازی دونوں قرت واجب جانتے ہیں۔( تفسیر کبیر  فخررازی جلد۱۱، ص۶۱)

ابن حزم نےبھی کہا ہے: خواہ لام کو کسرے کے ساتھ پڑھا جائے یا فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے بہر صورت وہ رؤس پر عطف ہوگا۔ خواہ لفظی اعتبار سے خواہ وضع کے لحاظ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔( المحلی۔ ابن حزم جلد۲ ص۵۴)

اگر ہم سورہ مائدہ میں نازل ہونے والی آیت وضو میں غور کرتے جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ جو سورہ مائدہ آخر میں نازل ہوا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی(ص) کی وفات  سے صرف دو ماہ قبل نازل ہوا ہے پس نبی(ص) نے کیسے اور کب حکم مسح کو منسوخ کیا ؟ اور نبی(ص) نے ۲۳ سال تک وضو مسح کیا اور ہر روز متعدد بار مسح کرتے تھے۔

کیا یہ بات عقل می آی ہے کہ وفاتِ نبی(ص) سے دو ماہ قبل آیت" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " نازل ہوئی اور رسول(ص) نے حکمِ قرآن کے خلاف مسح کے بجاے پیر دھوئے ؟!! اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔

پھر لوگ اس نبی(ص) کو کیسے تسلیم کریں گے جو کہ انھیں قرآن کی طرف بلایا ہے اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے بے شک یہ قرآن سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے اور پھر خود اس کے برعکس عمل کرتا ہے؟! کیا یہ معقول ہے کیا اسے دانشور افراد قبول کریں گے؟!

کیا نبی(ص) سے جھگڑالو، مشرک اور منافق یہ نہ کہیں گے جب آپ(ص) خود اس کے خلاف  عمل کرتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل کرنے کے لئے  کس منہ سے  کہتے ہیں؟ اس وقت نبی(ص) ہکا پکا رہ جائنگے

۳۲۷

اور ان کےاعتراض کو رد کرنے کے لئے کوئی جواب نہیں بن سکے گا۔ اسی لئے ہم اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے جس کو عقل اور نقل دونوں رد کرتی ہیں اور جو بھی قرآن و سنت سے تھوڑا سا واقف ہے وہ بھی  اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔

لیکن اہل سنت والجماعت جو کہ در حقیقت بنی امیہ کے حکام اور ان کا اتباع کرنے والے ہیں جیسا کہ گذشتہ صفحات میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے گمراہ پیشواؤں کے اجتہاد ات اور  راویوں کو صحیح بنانے کی وجہ سے احادیث گھڑیں اور انھیں سے دین و شریعت کے احکام نکالے اور نص کے مقابلہ میں اجہادات کے لئے ایک علت بھی ڈھونڈ نکالی اور وہ یہ کہ نبی(ص) خود بھیایسا ہی کیا کرتے تھے، آپ(ص) بھی تو قرآن کی نص کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے تھے اور قرآن کی جس آیت کو  چاہتے تھے منسوخ کردیتے تھے، اس طرح بدعتی لوگ جھوٹ اور  بہتان کی وجہ سے نصوص کی مخالف کرنے میں رسول(ص) کے پیرو کاربن گئے۔( کیونکہ آپ بھی ںصوص کی  مخالفت کرتے تھے۔ اور  آج  اہل سنت بھی مخالفت کرتے ہیں۔)

گذشتہ بحثوں میں ہم قوی حجتوں اور ٹھوس دلیلوں سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ بنی(ص) نے ایک روز بھی اپنے رائے سے کوئی بات نہیں کہی بلکہ آپ وحی کا انتظار  کرتے تھے اور خدا کے حکم  ایک روز بھی اپنی رائے سے کوئی بات نہیں کہی بلکہ آپ وحی کا انتظار کرتے تھے اور خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

آپ حکم خدا کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ  کریں : ( نساء ۱۰۵،۔ صحیح بخاری ج۸ ، ص۱۴۸۔)

کیا اس بات کا کہنے والا اپنے پروردگار کا مبلغ نہیں ہے:

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو جن لوگوں کو  ہماری ملاقات کی امید نہیں ہے وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کیجئے یا اس کو بدل دیجئے ۔ آپ کہہ دیجئے میں اسے اپنے اختیار سے نہیں بدل  سکتا میں صرف اس  حکم پر عمل کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی کی جاتی ہے میں

۳۲۸

 اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب کا خوف ہے۔( یونس۔۱۵)

کیا خدا نے نبی(ص) کو اپنی طرف ایک جھوٹی نسبت دینے کے سلسلے میں سخت تہدید نہیں کی تھی؟ جیسا کہ ارشاد ہے:

اگر پیغمبر  ہماری طرف سے کوئی بات گھڑ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کاٹ لیتے اور پھر یقینا ہم اس کی گردن اڑا دیتے اور تم میں سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔(الحاقہ۴۳تا ۴۷۔)

یہ ہے قرآن اور یہ ہیں بنی(ص) جہنوں نے قرآن پیش کیا۔ لیکن اہل سنت والجماعت ، علی ابنِ ابی طالب(ع) اور اہلبیت" علیہم السلام" سے شدید عداوت کی بنا پر ہر چیز میں ان کی مخالفت کرتے ہیں یہاں تک کہ علی(ع) اور ان کے شیعوں کی مخالفت ان کا شعار بن چکی ہے  خواہ ان  کے نزدیک سنتَ نبی(ص) ثابت بھی ہو۔( ہماری مراد اوائل کے وہ افراد جنہوں نے علی(ع) اور آپ(ص) کے بعد آپکی اولاد سے دشمنی رکھی اور مذہب اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھی۔)

امام علی(ع) کے متعلق یہ مشہور تھا کہ آپ(ع) سنتِ رسول(ص) کو زندہ رکھنے کے لئے اخفاتی نمازوں میں بھی بسم اللہ۔۔۔ بآواز بلند پڑھے تھے۔بعض لوگوں نے کہا نماز  میں بسم اللہ۔۔۔۔ پڑھنا مکروہ  ہے اسی طرح ہاتھ باندھنا یا کھولنا اور دعائے قنوت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق نماز پنجگانہ سے ہے۔

اور اسی لئے انس بن مالک گریہ کررہے تھے اور  کہہ رہے تھے: قسم خدا کی آج میں ایک چیز بھی ایسی نہیں دیکھتا جس پر رسول(ص) عمل کرتے تھے۔ لوگوں نے کہا : اور یہ نماز ؟ مالک نے جواب دیا: اس میں بھیتم بہت سی رد و بدل کی ہے۔(بخاری۔ج۱ ص۷۴)

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ان اختلافات پر خاموش رہتے ہیں کیوں کہ  ان ہی سلسلہ میں مذاہت اربعہ کے درمیان اختلاف ہے لہذا اس میں اہل سنت کو کوئی

۳۲۹

 جرم  معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس اختلاف کو رحمت قرار دیتے ہیں۔

لیکن اگر شیعوں سے کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو پھر قیامت آجائے گی ، ان پر  طعن و تشینع کی بوچھار ہوجائے گی  اور رحمت ، زحمت میں بدل جائے گی۔ وہ صرف اپنے ہی ائمہ کی راویوں کو قبول کرتے ہیں اور عترتِ طاہرہ(ع) کے ائمہ کو علم و عمل اور فضل  وشرف میں ان کے برابر نہیں سمجھتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پیروں کے دھونے کے سلسلہ میں بیان کرچکے ہیں باوجودیکہ انکی کتابیں گواہی دے رہی ہیں کہ قرآن میں مسح واجب ہے اور یہی سنتِ بنی(ص) سے ثابت ہے۔ ( طبقات الکبری ابن سعد ج۶ ص ۱۹۱۔) لیکن اس سلسلہ مین شیعوں کی بات قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں تاویل کرنے والے اور دین سے خارج بتاتے ہیں۔

اور دوسری مثال کہ جس کا ذکر ضروری ہے وہ نکاح متعہ ہے جس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے اور نبی(ص) کے زمانہ میں اس پر عمل ہوا ہے لیکن اہل سنت متعہ کو حرام قرار دینے والے عمر ابن خطاب کے اجتہاد کی برت کے لئے جھوٹی حدیثیں گھٹ لیںاور انھیں نبی(ص) کی طرف منسوب کردیا ہے اور اس نکاح کو مباح سمجھنے والے شیعوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے، متعہ کی حلیت پر شیعوں کے پاس علی(ع) کا قول موجود ہے اور خود اہل سنت کی صحاح بھی گواہی دے رہی ہیں کہ صحابہ نے زمانہ نبی(ص) اور عہد ابوبکر میں نیز ایک مدت تک عمر کی خلافت کے دور میں متعہ کیاہے، اس  بات کو بھی بیان کررہی ہیں کہ متعہ کے حلال ہونے اور حرام ہونے کے سلسلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہے۔

ایسے موارد کے لئے کہ جہاں جھوٹی حدیثوں سے انھوں نے نصِ قرآنی کو منسوخ کیا ہے ، بہت سی ثالیں ہیں جس میں سے ہم نے صرف دو مثالیں مذہب اہل سنت سے پردہ ہٹانے اور قارئین کی اطلاع کے لئے پیش کی ہیں کہ وہ قرآن پر حدیث کو مقدم کرتے ہیں اور صریح طور پر کہتے ہیں کہ سنت قرآن پر حاکم و قاضی ہے۔

۳۳۰

اہل سنت والجماعت کے فقیہ اور محدث اما عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ متوفی ۲۷۶ہج کھلے لفظوں میں کہتے ہیں: سنت قرآن پر حاکم ہے جبکہ قرآن سنت پر حاکم و قاضی نہیں ہے۔

صاحب مقالات الاسلامیین ، امام اشعری جو کہ اصول میں اہل سنت والجماعت کے امام ہیں ان سے نقل کرتے ہیںکہ سنت قرآن (کے کسی بھی حکم) کو  منسوخ کرسکتی ہے اور اس کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے۔ جبکہ قرآن سنت کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے اور اس کےخلاف حکم لگا  سکتا ہے۔

عبداللہ تو یہ فرماتے ہیںکہ امام اوزاعی، ( یہ بھی اہل سنت والجماعت کے  بڑے امام ہیں ) کہتے ہیں: قرآن سنت کا زیادہ محتاج ہے جبکہ سنت قرآن کی محتاج نہیں ہے۔ ( جامع بیان العلم ج۲، ص۲۳۴۔)

اہل سنت کے اقوال ان کے عقیدہ کے غماز ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں کے اور اہل بیت(ع)  کے اس قول میں تناقض ہے کہ حدیث کو کتابِ خدا پر پرکھو! اور اس پر تو لو! کیونکہ قرآن سنت  حاکم و قاضی ہے اور یہ بھی طبیعی ہے کہ اہل سنت ان احادیث کی تردید کرتے ہیں اورانھیں قبول نہیں کرتے ہیں۔ اگر چہ ان کو ائمہ اہل بیت(ع) ہی نے بیان کیا ہو کیوں کہ ان سے ان کے مذہب کی دھجیاں اڑتی ہیں۔

بیہقی نے دالائل النبوت میں لکھا ہے: نبی(ص) کی یہ حدیث باطل ہے۔ " جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو تم اسے قرآن سے ملاؤ اگر قرآن کے موافق ہے تو میرا قول ہے اور اگر مخالف ہے تو میرا قول نہیں ہے" باطل ہے اور خود اپنے خلاف ہے  کیونکہ قرآن میں کوئی مفہوم ایسا نہیں ہے کہ جو حدیث کو  قرآن سے ملانے پر دلالت کررہا ہو!

عبدالبر نے عبدالرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ حدیث جو رسول(ص) سے نقل کی جاتی ہے " تمہارے سامنے جب میری کوئی حدیث نقل کی جائے تو

۳۳۱

 تم اسے کتابِ خدا سے ملاؤ اگر کتابِ خدا کے موافق ہے تو وہ میرا قول ہے اور اگر کتابِ خدا کے خلاف ہے تو وہ میرا قول نہیں ہے۔ ایسی حدیث کی نسبت رسول(ص)  کی طرف دینا اہل علم کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔یہ حدیث خوارج اور زنادقہ کی  گھڑی ہوئی ہے۔

اس اندھے تعصب کو ملاحظہ فرمائیے کہ جس نے ان کے لئے علمی تحقیق او حق کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اہل سنت والجماعت اس حدیث کے راوی ائمہ معصومین(ع) کو خوارج اور زنادقہ کہتے ہیں اور ان پر حدیث گھڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔

کیا ہم ان سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ حدیث کو گھڑنے سےکہ جس میں قرآن کو ہر چیز کا مرجع بتایا گیا ہے خوارج اور زنادقہ کا کیا مقصد تھا؟؟

عقلمند او منصف مزاج انسان تو انہی زنادقہ اور خوارج کی طرف جھکے گا جو کہ کتابخداکو معظم اور محترم سمجھتے ہیں اور تشریع میں اسے پہلا مصدر  قرار دیتے ہیں۔ کیا اہل سنت واجماعت کی طرف مائل ہونا صحیح ہے جوکہ جھوٹی حدیث کے ذریعہ کتاب خداکے خلاف فیصلؒہ کرتے ہیں اور اپنی من گھڑت سے قرآن کے احکام کو منسوخ کرتے  ہیں۔

اس سلسلہ میں انھیں کوئی علم نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا یہ تو بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے وہ جھوٹ کے علاوہ کچھ کہتے ہی نہیں ہیں۔(کہف۔۵۰)

اہل سنت والجماعت ائمہ ہدیٰ ، مصابیح الدجیٰ کہ جن کو رسول(ص) نےامت کے لئے اختلاف سےامن کا باعث بتایا تھیا اور فرمایا تھا: قبائل عرب میں سے  جو قبیلہ انکی مخالفت کرے گا وہ پراکندہ ہوکر گروہ ابلیس بن جائے گا۔ زنادقہ اور خوارج کہتے ہیں ائمہ معصومین(ع) کا صرف یہ گناہ ہے کہ وہ اپنے جد کیسنت سے تمسک کئے ہوئے ہیں اور اس کے سوا ابوبکر ، عمر ، عظمان ، معاویہ ، یزیدلع اور مروان و امویوں کی بدعتوں کو ٹھکرا دیا ہے، ار چہ حکومت کی باگ دوڑ انہی مذکورہ افراد کے ہاتھوں میں تھی لہذا وہ اپنے مخالفوں  پر خوارج اور زنادقہ کہہ کر سب وشتم

۳۳۲

 کرتے تھے ، ان سے جنگ کرتے اور پراگندہ کردیتے تھے ۔ کیا علی(ع) اور اہلبیت(ع)  پر ان کے منبروں سے اسی(۸۰) سال تک لعنت نہیں ہوئی؟؟ کیا انہوں نے امام حسن(ع) کو زہر اور حسین (ع) اور آپ(ع)کی ذریت کو تلواروں سے شہید نہیں کیا؟

اہلبیت (ع)  جن پر غم والم کے پہاڑ توڑے گئے اور بعد میں بھی ظلم وستم کا سلسلہ جاری رہا انھیں چھوڑتے  ہیں اور ان لوگوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ جو کہ اپنے کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور قرآن پر تولنے والی حدیث کا انکار کرتے ہیں اور ابوبکر صدیق ، اور ام المؤمنین عائشہ کہ جس سے نصف دین لیا ہے کو زندیق اور خوارج نہیں کہتے۔۔ مذکورہ خدیث کو انہوں نے شہرت دی ہے اور پھر جب کوئی ایسی حدیث ان کے پاس پہنچتی تھی کہ جس کو عائشہ نہیں جانتی تھیں تو  وہ اس حدیث کو قرآن پر تولتی تھیں اگر وہ قرآن کے خلاف ہوتی تھی اسے ٹھکرا دیتی تھیں چنانچہ عمر ابن خطاب کی بیان کردہ اس حدیث کو جھٹلادیا تھا کہ میت پر اس وقت عذاب ہوتا ہے جب اس کے خاندان میں سے کوئی اس پر گریہ  کرتا ہے: عائشہ نے کہا : تمہارے لئے قرآن کافی ہے  وہ کہتا ہے: کوئی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( صحیح بخاری، کتاب الجنائز باب قول النبی(ص) لعذاب المیت ببعض بکاء اہلہ علیہ( کذالک مسلم کتاب الجنائز باب المیت ، یعذب ببکاء اہلہ علیہ)

ایسے ہی عائشہ نے عبداللہ ابن عمر کی بیان کی ہوئی اس حدیث کو رد کردیا تھا کہ ، نبی(ص) اس گڑھے پر کھڑے ہوئے  جس میں جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کو ڈالدیا گیا تھا۔ پھر ان س کچھ فرمایا: اور اس کے بعد اپنے اصحاب کی طرف ملتفت ہوئے اوور فرمایا: وہ یقینا میری باتوں کو سنتے ہیں۔

عائشہ نے کہا : کیا مردے بھی سنتے ہیں؟ نیز کہا: رسول(ص) نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اس بات کو ضرور جان لیں گے جو  میں نے  ان سے کہی تھی پھر اس حدیث کی تکذیب کے ثبوت میںوہی حدیث پیش کی جس میں حدیث  کو قرآن کے ذریعہ پرکھنے کا حکم ہے اور پھر یہ آیت پڑھی۔

۳۳۳

اور حق ان کے تابع ہے؟

ذوالنورین بھی آپ ہی ہیں ۔ ( اہل سنت والجماعت عثمان کو ذوالنورین کہتے ہیں اور اسکی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی(ص) کی دو بیٹیوں " رقیہ اور ام کلثوم سے شادی کی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ دونوں رسول(ص) کی ربیبہ تھیں اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ بیٹی تھیں تو بھی ان کا نورین ہونا ثابت نہیںہے ۔ نبی(ص) سے  تو ان دونوں کے سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں فرمائی ۔ یہ نور فاطمہ(س)  کیوں نہ ہوں کہ جن کے متعلق یہ فرمایا ہے: وہ عالمین کی عورتوں  کی سردار ہیں ، پس وہ نور ہیں اور اس بنیاد پر علی(ع) کو  ذوالنورین کیوں نہیں کہتے۔) آپ حسن اور حسین ( علیہماالسلام) جوانانِ جنت کے سردار اور نور نبوت کے باپ ہیں، آپ ہی سیف اللہ ہیں چنانچہ جنگ احد میں جبریل نے آپ کی شان میں فرمایا تھا

             "لافتی الاّ علی لاسیف الاّ ذوالفقار"

حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی شمشیر خدا ہیں جس کو خدا نے مشرکین کے لئے نیام سے نکالا تھا، چنانچہ آپ نے مشکوں کے سو ماؤں کو اور ان کے جری و شجاع لشکر کو موت کے گھات اتارا اور انکی ناک رگڑدی یہاں تک کہ انہوں نے مجبورا حق کا اورار کرلیا۔ آپ(علی) اس لئے بھی شمشیر خدا  ہیں کہ آپ نے کبھی میدان جنگ سے فرار نہیں کیا اور نہ کبھی جنگ سے گھبرائے، آپ(ع) ہی نے خیبر  فتح کیا جبکہ بڑے بڑے صحابہ اسے فتح نہ کرسکے اور شکست کھا کر لوٹ آئے تھے۔

لیکن پہلی ی خلافت سے یہ سیاست چلی گئی کہ آپ کی تمام فضیلتوں کو مٹایا جائے اور ہر ایک منصب سے الگ رکھا جائے اور جب معاویہ کے ہاتھ حکومت آئی تو وہ آگے نکل گیا یہاں تک کہ علی(ع) پر لعنت اور تنقیص کا سلسلہ شروع کردیا اور اپنے ہم خیال افراد کی شان بڑھانے اور علی(ع) کے تمام القاب اور فضائل کو زبردستی دیگر صحابہ پر منطبق کرنے لگا اور اس زمانہ میں معاویہ کی تکذیب کون کرسکتاتھا اور اس سے کون ٹکر لے سکتا تھا؟ اور پھر علی(ع) پر سب و شتم اور لعنت کرنے نیز  آپ(ع) سے برت اور بیزاری کے سلسلہ میں معاویہ کی بہت سے لوگوں نے موافقت کی اور " اہل سنت والجماعت" میں سے معاویہ کا اتباع کرنے والے نے حقائق کو الٹ کر رکھدیا چنانچہ نیکی ان کے

۳۳۴

 نزدیک برائی اور برائی ان کے نزدیک اچھائی بن گئی اور علی(ع) اور انکے شیعہ زندیق و خوارج اور رافضی بن گئے، لہذا انہوں نے ان کا خون بہانا اور ان پر لعنت کرنا مباح سمجھ لیا اور دشمن خدا و دشمن رسول خدا(ص) اور عدوئے اہل بیت(ع) " اہل سنت والجماعت " بن گئے ، پڑھئے اور تعجب کیجئے اور اگر اس سلسلہ میں آپ کو کوئی شک ہے تو تحقیق اور چھان بین کر لیجئے۔

"ان دونوں کی مثال اندھے ، بہرے ، دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں، کیا غور نہیں کرتے؟( ہود آیت ۲۴)

۳۳۵

نبی(ص) کی احادیث میں تناقض

محقق کو بہت سی ایسی احادیث ملیں گی جو نبی(ص) کی طرف منسوب کی جاتی ہیں در حقیقت انھیں آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے گھڑلیا تھا اور لوگوں کو ان کا پابند بنادیا تھا اور زبردستی ان پر عمل کرواتے تھے یہاں تک کہ ان بے چاروں کا یہ اعتقاد بن گیا تھا کہ یہ نبی(ص) افعال اور ان کے اقوال ہیں۔

اسی وجہ سے ان گھڑی ہوئی حدیثوں میں تناقض ہے اور قرآن کے خلاف ہیں ، اس لئے اہلِ سنت کے علماء تاویل پر مجبور ہوئے اور کہا ایک مرتبہ رسول(ص) نے یہ فعل انجام دیا اور دوسری مرتبہ وہ فعل انجام دیا ۔ مثلا علمائے اہل سنت کہتے ہیں :ایک مرتبہ رسول(ص) نے نماز میں بسم اللہ ۔۔۔پڑھی اور ایک مرتبہ بغیر بسم اللہ ۔۔۔ کے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ وضو میں پیروں کا مسح کیا اور ایک مرتبہ دوںوں پیروں کو دھویا ۔ اک مرتبہ نماز میں دونوں ہاتھ باندھے ، ایک مرتبہ دوںوں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی۔ یہاں تک کہ بعض علمائے اہل سنت نے تو یہ بھی کہدیا کہ رسول(ص) نے ایسا امّت کی آسانی کے لئے کیا تھا کہ وہ جس کو چاہئے انجام دے۔

یہ سفید جھوٹ ہے اور اسلام اس کی تردید کرتا ہے جس کے عقائد کی اساس کلمہ توحید اور عبادی توحید پر استوار ہے۔ یہاں تک کہ ظاہری چیزوں اور لباس میں بھی توحید و اتحاد ہے  چننچہ حج کے زمانہ میں محرِم (احرام باندھنے والے) کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ جیسا چاہئے مخصوص شکل رنگ کا لباس پہنے اسی طرح ماموم کو بھی الگ سے کوئی فعل انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے حرکات و سکنات ، قیام ورکوع اور سجود وجلوس میں اپنے امام  کا اتباع کرتا ہے۔

اس لئے بھی یہ بات جھوٹی ہے کہ اہل سنت میں سے ائمہ طاہرین(ع) نے ان روایات کا انکار  کیا ہے اور وہ عبادات می شکل و  مضمون کے اختلاف کو قبول نہیں  کرتے تھے۔

۳۳۶

جب ہم اہل سنت والجماعت  کی متناقض احادیث کی تحقیق کریں گے تو بہت ملیں گی ۔ انشاء اللہ ہم عبقریب انھیں ایک کتاب  کی صورت  میں پیش کریں گے۔

اور جیسا کہ ہماری عادت ہے یہاں بھی ہم ختصار کے ساتھ بعض حدیثوں کو مثال طور پر پیش کررہے ہیں تاکہ قاری و  محقق کو  یہ معلوم ہوجائے کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور مذہب کی بنیاد کس چیز پر ہے۔

صحیح مسلم  اور جلال الدیں سیوطی کی شرح موطا میں انس بن مالک سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ۔ ابوبکر ، عمر اور عثمان کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے لیکن میں نے  ان میں سے کسی کو نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیں دیکھا۔

ایک روایت  میںہے کہ رسول اللہ بلند آواز سے بسم اللہ ۔۔۔۔نہیں پڑھتے تھے اور یہ حدیث انس قتادہ اور ثابت السنبانی وغیرہ سے مروی ہے اورہر ایک نے اس کی نسبت رسول (ص) کی طرف دی ہے مگر یہ کہ آپ(ص) کے لفظ کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حیرانی اور دفاع کی صورت میں ان میںسے کوئی کہتا ہے کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہی نہیں تھے ،کوئی کہتا ہے  بلند آواز  سے نہیں پڑھتے تھے ، کوئی کہتا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور بلند آواز سے پڑھتے تھے، کوئی کہتا ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کبھی ترک نہیں کرتے تھے ، کوئی کہتا ہے وہ قرائت کی ابتداء الحمد للہ ربَ العالمین سے کرتے تھے۔

کہتے ہیں : ان  پراکندہ اقوال کے ہوتے ہوئے کوئی فقیہ کسی چیز پر حجت قائم نہیں کرسکتا ہے ۔ ( تنویر الحوالک ، شرح علی موطاء مالک ج۱، ص۱۰۳، ہم کہتے ہیں شکر خدا کہ انہی میں سے ایک نے گواہی دے دی کہا انکی احادیث میں اضطراب اور تناقض ہے اور اسی طرح یہ اعتراف بھی کیا کہ اس اضطراب کے ہوتے ہوئے کسی فقیہہ  کے لئے حجت قائم نہیں ہوسکتی ۔ حجت تو صرف ائمہ اطہار(ع) کے پاس ہے  کہ جنہوں نے کسی چیز میں اختلاف نہیں کیا۔)

لیکن جب آپ اسی کے راوی یعنی انس بن مالک جو کہ رسول(ص) کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ

۳۳۷

 آپ کے حجب تھے کی احادیث میں تناقض و اضطراب کی معرفت کا راز حاصل کرنا چاہیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ۔۔۔۔ رسول اللہ اور خلفائے ثلاثہ ۔۔۔ بسم اللہ الرّحمن الرّحیم نہیں پڑھتے تھے اور ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اسے چھوڑا نہیں ۔

جیہاں ! یہ ایکغم انگریز حقیقت ہے کہ نقل حدیث میں اکثر صحابہ نے ان ہی کا اتباع کیا اور ہر ایک نے سیاسی مصلحت کے اقتضا ےکے مطابق اورا مراء کی مرضی کے موافق حدیثیں بیان کی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انس جنے بسم اللہ الرّحمن الرحیم نہ پڑھنے والی روایت اس وقت بیا ن کی جب بنی امیہ اور ان کے حکام و کارندے  ہر اس سنت کو محو کررہے تھے جس پر علی(ع) گامزن  تھے اور اسے زندہ رکھے ہوئے تھے۔

بنی امیہ کی سیاست کی بنیاد ہی علی(ع) کی مخالفت اور ان کے برخلاف عمل کرنے پر قائم تھی۔حضرت علی(ع)  کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ(ع)  نمازوں میں یہاں تک اخفاتی نمازوں  می باآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھتے تھے۔

یہ ہمارا  یا شیعوں  کا دعوی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہم نے اہل سنت والجماعت کی کتابوں نے تصریحات سے لکھا ہے۔

امام نیشابوری نے انس بن مالک کی متناقض روایات بیان کر نے کے بعد، غرائب القرآن میں لکھا ہے کہ ان ( روایات)  پر ایک دوسری بھی تہمت ہے اور وہ یہ کہ علی( رضی اللہ عنہ) بآواز بلند بسم اللہ۔۔۔ پرھتے تھے جب بنی امیہ کا دور آیا تو انھوں علی ابن ابی طالب(ع) کے آثار کو مٹانے میں ایڑی چوٹیکا زور لگا دیا، شاید انس بن ملک ان سے ڈر گئے اور اس لئے ان ے اقوال پراگندہ ہوگئے ۔ ( تفسیر غرائب القرآن ، نیشاپوری، جو کہ تفسیر طبری کی ج۱، ص۷۷، کے حاشیہ پر  مرقوم ہے۔)

اسی سے ملتی جلتی بات شیخ ابوزہرہ نے کہی ہے: کہتے ہیں اموی حکومت نے علی(ع) کے

۳۳۸

آثار میں سے قضاوت اور فتوؤں کو ضرور چھپایا ہے لیکن یہ ات معقول نہیں ہے کہ وہ منبروں سے علی پر لعنت کرتے اور یہ بھی معقول نہیں ہے کہ علماء کو آزاد چھوڑدیتے  کہ وہ لوگوں میں آپ(ع) کے علم اور اقوال و فتاوی نقل کریں خصوصا وہ چیزیں جو کہ اسلامی حکم کی اساس سے متصل ہوں۔

الحمد للہ کہ اس نے اہل سنت ہی کے بعض علما کی زبان سے حق کا اظہار کرادیا ہے اور انہون نے یہ اعترافکر لیا ہے کہ علی(ع) بآواز بلند بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی کوشش کرتے تھے ۔

اس چیز سے ہم یہ  نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس چیز نے علی(ع) کو بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے پر ابھارا وہ یہ ہے کہ خلفا نے عمدا یا سہوا اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سلسلہ میں لوگوں نے ان ( خلفا) کی اقتداء کر لی تھی اور یہ فعل ایک ایسی سنت بن گیا تھا جس کا اتباع ہورہا تھا۔ بے شک اخفاتی نماز میں بھی بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے کی کوشش کیوں کی۔

پھر ہمیں انس بن مالک کی روایات سے چاپلوسی اور بنی امیہ کو راضی کرنے کی بو محسوس ہوتی ہے کہ جنہوں نے انس کو اموال میں ڈوبا دیا تھا اوران کے لئے عظم الشان محل تعمیر کرا دیا تھا ۔ انھیں بھی علی(ع)  سے دشمنی بھی ۔ طیر مشوی کے واقعہ سے ان کا بغض  ظاہر ہوگیا تھا چنانچہ جب نبی(ص) نے فرمایا : پروردگارا میرے پاس اسے بھیجدے جو تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، تاکہ وہ اس پرندہ کو میرے ساتھ تناول کرے۔ علی(ع) تشریف لائے تو انس  نے آپ کو تین مرتبہ واپس کیا چوتھی بار رسول(ص)  کو معلوم ہوگیا تو انس سے فرمایا : تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ؟ اس نے کہا: میں چاہتا تھا کہ کوئی انصار میں سے آئے۔( حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور شیخیں کی شرط پر اسے صحیح  قرار دیا ہے ۔ ترمذی ج۲، ص۲۹۹، ریاض النفرہ ج۲، ص۱۶۰،  تاریخ بغداد ج۳، ص۱۷۱، کنز العمال ج۶، ص۴۰۶، خصائص نسائی ص۵، اسد الغابہ ج۴، ص۳۰)

اس صحابی کے لئے  تو اتنا ہی کافی ہے کہ نبی(ص) اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ میرے پاس اسے بھیجدے جو تجھے پوری مخلوق سے زیادہ محبوب ہے اور خدا اپنے رسول(ص) کی دعا قبول کرتا ہے اور علی(ع) کو

۳۳۹

 بھیجدیتا ہے لیکن انس کو جو آپ سے بغض تھا اس نے انس کو جھوٹ بولنے پر ابھارا اور انھوں نے علی(ع) کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ نبی(ص) اس وقت مشغول ہیں اور یہی پے درپے تین بار دھرایا کیونکہ انس نہیں چاہتے تھے کہ نبی(ص) کے بعد خدا کے نزدیک علی(ع) سب سے زیادہ محبوب قرار پائیں لیکن علی(ع) نے چوتھی بار بمشکل دروازہ کھولا اور داخل ہوگئے۔ نبی(ص) نے دریافت کیا اے علی(ع) تمہیں مجھ تک پہنچنے  سے کس نے روکا؟ عرض کی میں آپ کے پاس آنا چاہتا تھا لیکن انس نے مجھے تین بار واپس کیا : رسول(ص) نے فرمایا: اے انس اس کام پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا؟ انس کے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میں نے آپ کی دعا سن لی تھی اس لئے میں چاہتا تھا کہ وہ شخص میری قوم سے ہو۔

اس کے بعد بھی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہےکہ پوری زندگی انس کے دل میں علی(ع) کا بغض باقی رہا چنانچہ جب رحبہ کے دن علی(ع) نے ان سے فرمایا : حدیث غدیر بیان کرو تو انہوں نے اس سے پہلو تہی کی اور آپ نے انس کے لئے بد دعا کی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ بھی نہیں پائے تھے کہ برص کے مرض میں مبتلا ہوگئے پھر انس علی(ع)  کے دشمن کیوں نہ ہوتے جب کہ انھیں آپ کی ذات سے شدید نفرت تھی اور آپ کے دشمنوں کا تقرب ڈھونڈتے تھے اور آپ سے بیزاری کا اظہارکرتے تھے۔

ان ہی تما چیزوں کی وجہ سے ان کی روایت جو خصوصا بسم اللہ کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہے وہ انہوں نے معاویہ بن سفیان کی محبت میں بیان  کی تھی۔ کہتے ہیں : میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ یعنی اس طرح  وہ یہ قبول نہیں کرتے ہیں کہ میں نے علی(ع) کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور یہ بالکل وہی چیز ے جو معاویہ اور اس کے ہمنوا چاہتے تھے کہ خلفائے ثلاثہ کا ذکر بلند ہو  اور علی(ع) کا ذکر مٹ جائے اور ان کانام تک نہ لیا جائے۔

اورجو کچھ ائمہ اطہار(ع) اور ان کے شیعوں کے طریق سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ علی(ع) سورہ فاتحہ اور اس کے بعد والے سورہ کی بسم اللہ ۔۔۔ کو بآواز بلند پڑھتے تھے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے طریق سے بھی ثابت ہوچکا ہے کہ آپ(ص) بسم اللہ۔۔۔ کو بلند آواز سے  پڑھتے تھے ۔ یہاں تک کہ اخفاتی نمازوں میں بھی ۔ پس اس سے یہ ثابتہوگیا یہی نبی(ص) کی صحیح سنت ہے۔ جس نے بسم اللہ۔۔۔ ترک

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431