شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے13%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109158 / ڈاؤنلوڈ: 6818
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(۱)

بنی امیہ جو عثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اور مقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اور ان لوگوںکی جرأت اس حدتک بڑھ گئی کہ ابو سفیان قبرستان احد گیااور پیغمبر اسلام کے چچا جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمار کر کہا'' ابو یعلی ،اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔

خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افرادایک جگہ پر جمع ہوئے ابو سفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اور عدی ۔کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہونچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہر نہ جائے ،اور اسے ایک کے بعددوسرے تک پہونچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(۲)

ابوسفیان کی اس بات نے خلیفہ کی شخصیت کو سخت مجروح کیا، جو لوگ وہاں پر حاضر تھے انہوں نے

اس کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کر دیکھایا۔مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے سزاوار یہ تھاکہ وہ ابو سفیان کی خبر لیتے اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتے .لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ یہ کہ ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر ابو سفیان پر لطف ِ کرم کی بارش کی اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ بھیجا رہا۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۸۷۱

(۲)الاستیعاب ج۲ص۶۹۰

۳۰۱

بغاوت کی علت

خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے ۳ محرم ۲۴ھ کو عثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوگئے اور ۱۲سال حکومت کرنے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مصر اور عراق کے انقلابیوں اورمہاجروانصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوے ،اسلام کے معتبر مورخین نے عثمان کے قتل ہونے اور مسلمانوں کے بغاوت کی علت کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے، اگر چہ بعض مئورخین نے، مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیاہے، درج ذیل وجہوں کو بغاوت کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت کہا جا سکتا ہے ۔

۱۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۲۔بنی امیہ کے درمیان بیت ا لمال کا تقسیم ہونا۔

۳۔اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر۔

۴۔پیغمبر اسلام کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اور ان کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔

۵۔پیغمبر کے بعض صحابیوں کوشہربدر کرنا جو خلیفہ کی نظر میں ان کے لئے مضرتھے ۔

پہلی وجہ ۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۱۔خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنر معین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہوں پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیاہے۔(۱)

______________________

(۱)شرح ابن ابی الحدید ج۲قدیم ایڈیشن ص۱۰۳،

۳۰۲

آیت :( َاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا ) ( حجرات۶)وآیت( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) (سجدہ۱۸)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میںنازل ہوئی ہیں.اور دوسری آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔

انزل الله فی الکتاب العزیر

فی علی وفی الولید قرآنا

فتبینواالولید اذذاک فاسقاً

وعلی مبوء صدق ایمانا

فا سق کی نگاہ میں جو چیز قابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اور اعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کر نا ہے اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے، یہ نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میںنماز صبح کو چاررکعت پڑھا دیا ،اور محراب تک کو نجس کر دیا وہ نشے میں اتنا مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔

کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور اس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اور کہا : کیاتم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے ؟ ان لوگوںنے جواب دیا .ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن اسے مستی کے عالم میں دیکھاہے اور اس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتار لی مگر وہ متوجہ نہیں ہوااس واقعہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی اور عائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔ عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں ، انہوں نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کر دیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔

امیر المومنین نے عثمان سے ملاقات کی اور خلیفہ دوم کی وہ بات جوانہوں نے شوری کے دن ان کے بارے میں کہی تھی انہیں یاد دلایا اور کہا ،بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پر مسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کوگورنری کے منصب سے معزول کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو،

۳۰۳

طلحہ اور زبیرہ نے بھی ولید کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی باتوں سے مجبور ہو کر سعیدبن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرئہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا ،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامامہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوںکایہ کہنا تھا کہ خلیفہ کو چاہئیے کہ جو سزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ جاری کریں ،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے لہٰذا اسنہوںنے اُسے قیمتی لباس پہنایا اور اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پر حد الہی جاری کرے ،جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں ولید نے انھیں دھمکی دی تھی بالآخر امام علی نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بغیر تاخیر کے اس پر حد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی۔(۱)

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک رکن عادلانہ قانون کی حکومت ہے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں کی جان ومال وعزت و آبرو کی حفاظت ہو سکے،اور اس سے بھی زیا دہ اہم قانون کا جاری کرنا ہے اور قانون گزار ، قانون کو جاری کرتے وقت دوست ودشمن اور اپنے اورپرائے کو نہ دیکھے اس صورت میں قانون عملی جامہ پہنے گا اور پورے طور پر عدالت سامنے آئے گی۔

الہی نمائندوں نے خدا کے قوانین کو بغیر کسی ڈرا ورخوف کے جاری کیا اور کبھی بھی انسانی الفت ومحبت ، رشتہ داری ، مادی منفعت سے متأ ثر نہیں ہوئے ،پیغمبر اسلام نے خود اسلامی قانون کوسب سے پہلے جاری کیا،اور اس آیت کے واضح وروشن مصداق تھے( وَلَا یَخَافُوْنَ لَومَةلَائِمٍ ) (۲) فاطمہ مخزومی جس نے چوری کی تھی اسکے بارے میں آپ کا ایک چھوٹا جملہآپ کی اجتماع عدالت پر واضع و روشن دلیل ہے۔فاطمہ مخزومی ایک مشہور ومعروف عورت تھی جس کی چوری پیغمبر کے سامنے ثابت ہو گئی تھی اور یہ طے پایا کہ عدالت کا حکم اس پر جاری ہو ،ایک گروہ نے اس پر قانون نہ جاری کرنے کی کوشش کی اور اسامہ بن زید کو پیغمبر کے پاس بھیجا تا کہ اس مشہور ومعروف عورت کا ہاتھ کا ٹنے سے پیغمبر کو منع کرے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔

_____________________

(۱)۱۔مسنداحمدج۱ص۱۴۲،سنن بیہقی ج۸ص۳۱۸،اسدالغابہ ج۵ص۹۱،کامل ابن اثیرج۴۲۳۔ الغدیر ج۸ ص۱۷۲ منقول الانساب بلاذری ج۵ص۳۳ سے ماخوذ.

(۲)سورئہ مائدہ،۵۴

۳۰۴

خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرے تو میں حکم خدا کو جاری کروں گا اور حکم خدا کے مقا بلے میں فاطمہ مخدومی اور فاطمہ محمدی دونوں برابر ہیں۔(۱)

پچھلی امتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی بڑا شخص چوری کرتا تھا تو اسے معاف کردیتے تھے اور اس کی چوریوں کو نظر انداز کردیتے تھے ،لیکن اگر کوئی عام آدمی چوری کرتا تھا توفوراً اس پرحکم الہی جاری کرتے تھے ۔

پیغمبراسلام(ص) نے امت اسلامی کی اس طرح سے تربیت کی ،لیکن آپ کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی معاشرے میں قوانین کے جاری کرنے میں رخنہ پڑ گیا ،خصوصاًخلیفہ دوم کے زمانے میں عرب اور غیر عرب، حسب ونسب، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے مقابلے میں وجود میں آیا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ انقلاب اور شورش برپا ہو ، عثمان کی خلافت کے زمانے میں اسلامی قانون کے اجراء میں تبعیض شباب پر تھی ،اور یہی چیز لوگوں کی نارا ضگی کا سبب بنی اور لوگ خلیفہ اور ان کے اطرافیوں سے متنفر ہو گئے ۔

مثلاً. خلیفہ دوم ایک ایرانی بنام ابو لولو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا کے ہاتھوں مارے گئے تھے قتل کرنے کی علت کیا تھی یہاںپر بیان کرنا مقصود نہیں ہے، ہم نے اس کا تذکرہ '' علی اور شوریٰ ''میں عمر کے قتل ہونے کی علت میںبیان کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ کے قتل کا مسلئہ اسلامی عدالت سے حل کرنا چاہیئے تھا اور اس کے قاتل اور محرک افراد (اگر محرک تھے) کو اسلامی قاعدہ اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں تھی کہ خلیفہ کے بیٹے یا اس کے رشتہ دار اس کے قاتل کو سزادیں یا اسے قتل کریں چہ جائیکہ کہ قا تل کے رشتہ دار وں اور دوستوں تک کو سزا دیں یا قتل کریں ، بغیر اس کے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل ہونا ثابت ہواور بغیر سزا کے انھیں قتل کردیں ،

لیکن افسوس کہ خلیفہ کے قتل کے بعد یا ان کے حالت احتضار ہی میں خلیفہ کے بیٹے عبیداللہ نے دو بے گناہوں (ہرمزان اور ابولولو کی بیٹی جفینہ)کو اس الزام میں کہ اس کے باپ کے قتل کرنے میں شامل تھے قتل کر ڈالا اور اگر صحابیوں سے ایک صحابی نے اس کے ہاتھ سے تلوار نہ لی ہوتی اور اسے نہ روکا

______________________

(۱)۔الاستیعاب ج۴ ۳۷۴

۳۰۵

ہوتا تو مدینہ میں جتنے بھی قیدی تھے انھیں قتل کر ڈالتا۔عبید اللہ کے اس جرم نے مدینہ میں تلا طم برپا کردیا ،اور مہاجرین وانصارنے عثمان سے بے حداصرار کیا کہ اسے سزا دیں .اور ابولٔولوکی بیٹی اور بہو کو انکے خون کا بدلہ اس سے لیں۔(۱)

خودحضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اصرار کیا کہ عبیدا للہ کو سزادو ، اور خلیفہ سے کہا :بے گناہوں کو قتل کرنے کا انتقام عبیداللہ سے لو ،کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے ،لیکن جب عثمان کی طرف سے مایوس ہو گئے اس وقت آپ نے عبیداللہ کو مخاطب کرکے کہا :اگر کسی دن تو میرے ہاتھو ں میں آگیا تومیں تجھے ہرمزان کے بدلے میں قتل کردوںگا۔(۲)

عبید اللہ کو سزادلانے اور عثمان کی بے توجہی کی وجہ سے اعتراض روز بروز بڑھتا رہا اوراب بھی ابولولو کی بیٹی اور ہرمزان کے ناحق خون بہالوگوں کے درمیان جوش وخروش تھا ،خلیفہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو عبیداللہ کو حکم دیا کہ مدینہ سے کوفہ کی طرف چلا جائے اور بہت وسیع زمین اس کے حوالے کر دی اور اس جگہ کا ،کویفة ابن عمر(عمر کے بیٹے کا چھوٹا کوفہ)نام رکھا۔

______________________

(۱)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷(طبع بیروت)۔

(۲)انساب بلاذ ر:ی ج ۵ ص ۲۴۔

۳۰۶

بے جاعذر

مسلمان تاریخ لکھنے والوں نے خلیفہ سوم اور ان کے ہم فکروں کے دفاع میں معذوری کوپیش کیا ہے جو بچگانہ معذوری کے مانند ہے ہم یہا ں پر ان میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔جب عثمان نے عبیداللہ کے بارے میں عمروعاص سے مشورہ کیا تو عمر و عاص نے کہا کہ ، ہرمزان کاقتل اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا حاکم کوئی اور شخص تھا اور مسلمانوں کی ذمہ داری تمہارے ہا تھوں میں نہ تھی اور اس طرح تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ،اس عذرکا جواب واضح ہے:

الف:۔مسلمانوں کے ہر حاکم وسرپرست پر لازم ہے کہ مظلوم کا حق ظالم سے دلوائے ،چاہے وہ ظالم اس کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے یا دوسرے شخص کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے ،کیونکہ حق ثابت اور پائیدار ہوتا ہے اورزمانہ کاگزرنا اور حاکم کا بدلنا ہر گز فریضہ کو نہیں بدلنا۔

ب:۔وہ حاکم کہ جن کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا خود انہوں نے اس واقعہ کی تفتیش کا حکم دیا تھا،جب خلیفہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی کہ آپ کے بیٹے عبیداللہ نے ہرمزان کو قتل کر ڈالاہے تو انہوں نے اس قتل کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا یہ بات مشہور ہے کہ ہرمزان نے ابو لولو کو حکم دیا تھا کہ تمہیں قتل کردے خلیفہ نے کہا :

میرے بیٹے سے پوچھو ،اگر اس کے پاس کوئی گواہ ہے تو میرا خون ہرمزان کے خون کے برابر ہے لیکن اگر اس کے بر عکس ہے

۳۰۷

تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۱)

کیا بعد میں آنے والے خلیفہ پر واجب نہیں تھا کہ اپنے پہلے کے خلیفہ کے حکم کو جاری کرے؟کیونکہ عمرکے بیٹے کے پاس نہ کوئی گواہ تھا کہ ہرمزان اس کے باپ کے قتل میں شریک، اور نہ ہی ہرمزان نے ابو لولو کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا ۔

۲۔یہ بات صحیح ہے کہ ہرمزان اور ابولولوکی چھوٹی بیٹی کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کے خون کا ولی مسلمانوں کاخلیفہ اور امام ہے، اسی وجہ سے عثمان نے اس مقام ومنصب سے خوب استفادہ کیا اور قاتل کو آزاد چھوڑ دیا اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا۔(۲)

اس عذر کی بھی پچھلے عذر کی طرح کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے کہ ہرمزان ،قارچ(ککر متاّ) کی طرح نہ تھا جو زمین سے اگاتھااور اس کا کوئی وارث ورشتہ دار نہ تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک زمانے تک شوشتر کا حاکم تھا۔(۳)

اور ایسی شخصیت بغیر وارث کے نہیں ہوسکتی اس بنا پر خلیفہ کا فریضہ یہ تھا کہ اس کے وارث کو تلاش کرتے اور تمام کاموں کی ذرمہ داریاں اس کے سپرد کرتے۔

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس کا کو ئی وارث نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کا تمام حق، مال مسلمانوں کا حق تھا اور جب تمام مسلمان اس کے قتل بخش دیتے اس وقت خلیفہ اس کے قصاص کو نظر انداز کردیتے ،لیکن افسوس کہ واقعہ اس کے بر خلاف تھا اورمولف طبقات کے نقل کرنے کے مطابق چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان عبیداللہ سے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے ۔(۴)

______________________

(۱)۔سنن بیہقی (چاپ آفیست )ج۸ص۶۱۔

(۲)۔سنن بیہقی (چاپ آفست)ج۸ص۶۱۔

(۳) قاموس الرجال ج۹ص۳۰۵۔

(۴)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷۔

۳۰۸

امیر المومنین نے بہت سختی سے عثمان سے کہا ،اقد الفاسق فانّه' أتیٰ عظیماًًقتل مسلما ًبل اذنب ۔(۱)

اور جس وقت خلیفہ نے عبیداللہ کو آزادکرنا چاہاتوامام علی نے فوراً اعتراض کیا اور کہا :خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو مسلمان کا حق ہے اسے نظرانداز کردے۔(۲) اس کے علاوہ ، اہل سنت کی فقہ کے مطابق ، امام اور اسی طرح دوسرے اولیاء (مثل باپ اورماں) کویہ حق حاصل ہے کہ قاتل کو قتل کریں یا اس سے دیت لیں ،لیکن ہرگز اسے معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔(۳)

۳۔ اگر عبیداللہ قتل ہو جاتا تو مسلمانوں کے دشمن خوشحال ہو تے کہ کل ان کاخلیفہ ماراگیا اور آج اس کے بیٹے کو مارڈالاگیا۔(۴)

یہ عذر بھی قرآن و سنت کی نظر میں بے وقعت ہے کیونکہ ایسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کا قصاص مسلمانوں کے افتخار کا باعث تھا اور عملی طور پر یہ ثابت کردیتا کہ ان کاملک ،قانون وعدالت کا ملک ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے چاہے جس مقام ومنصب پر ہوں قانون کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور ان کامقام و منصب عدالت جاری کر تے وقت مانع نہیں ہوتا۔

دشمن اس وقت خوشحال ہوتا جب وہ دیکھتا ہے کہ حاکم ورہبر قوانین الہی کا مذق اڑارہے ہیں ، اور اپنی خواہشات کو حکم الہی پرمقدم کر رہے ہیں ۔

۴۔کہتے ہیں کہ ہر مزان، خلیفہ کو قتل کر نے میں شامل تھا کیونکہ عبدالرحمن بن ابو بکر نے گواہی دی کہ ابو لولو اور ہرمزان اور جفین کو ہم نے آپس میں آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک خنجر زمین پر گر ا جس میں دو نوک تھے ،اور اس کا دستہ بیچ میں تھا ،اور خلیفہ بھی اسی خنجر سے قتل ہوا۔(۵)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵ص۲۴۔

(۲)قاموس الرجال ج۹ ص۳۰۵منقول از شیخ مفید

(۳)الغدیر ج۸(طبع نجف)(بدائع الصنایع ملک العلماء حنفی سے گفتگو)

(۴)تاریخ طبری ج۵ص۴۱

(۵)تاریخ طبری ج۲ص۴۲

۳۰۹

اسلامی عدالت میں اس عذر کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ گواہی دینے والا ایک شخص ہے ایسے لوگوں کاایک جگہ ہونا جو مدتوں سے دوست رہے ہوں اور ان میں سے ایک لڑکی ہو ،خلیفہ کے قتل کرنے پر گواہ نہیں بن سکتا شاید ہرمزان نے اس وقت خلیفہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہو کیا صرف وہم وگمان کے ذریعے دوسروں کا خون بہایا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اس طرح کی گواہی اور ثبوت کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ؟جی ہاں تمام بے جا عذر سبب بنے کہ ہرمزان کا قاتل لمبے عر صے تک آزادانہ زندگی گزارے،لیکن امام علی نے اس سے کہا تھا کہ اگر کسی دن تم میرے قبضے میں آگئے تو تم سے ہرمزان کا قصاص ضرور لیں گے۔(۱) جس وقت امام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،عبیداللہ کوفہ سے شام بھاگ گیا، امام نے فرمایا ،اگر آج بھاگ گیا ہے تو ایک نہ ایک دن ضرور ہاتھ آئے گا ،زیا دہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہاتھوں یا مالک اشتر یا عماریاسر (بہ اختلاف تاریخ ) کے ہاتھوں قتل ہوا۔

دوسری وجہ، بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا

پیغمبر اسلام(ص) کی خلافت وجانشینی ایک مقدس واعلیٰ مقام ہے جسے تمام مسلمان نبوت ورسالت کے منصب کے بعد سب سے اہم مقام سمجھتے ہیں ،اور ان لوگوں کا اختلاف صرف مسئلہ خلافت کے بارے میں ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے یا لوگ خود خلیفہ کا انتخاب کریں، ان لوگوں کے درمیان اختلاف یہ نہ تھا کہ مقام خلافت کا رتبہ بڑھ جائے اور اسلامی خلافت کی موقعیت کو اہم شمار کریں .اسی مقام خلافت کے احترام کی وجہ سے امیر المو منین ـ نے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیفہ سوم سے یہ کہا:

''وانی انشدک االلّه ان لا تکون امام هذه الامةالمقتول،فانه کان یقال یقتل فی هذه الامةامام یفتح علیها القتل والقتال الی یوم القیامة'' (۲)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵،ص۲۴۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۱۵۹۔

۳۱۰

میں تجھے خدا کی قسم دیتاہوں کہ اس امت کے مقتول پیشواکی طرح نہ ہونا،کیونکہ کہا جاتا تھاکہ اس امت کا پیشوا مارا جائے گا جس کے قتل کی وجہ سے قیامت تک کے لئے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،

مہاجرین و انصار اوردیگر مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت اور خلیفہ مسلمین کی عظمت ورفعت کے باوجود اسلام کی دوسری بزرگ شخصیتیں مختلف جگہوں سے مدینہ آگئیں ،اور مہاجرین و انصار کی مددسے خلیفہ سوم کو قتل کرکے پھر اپنے اپنے شہر واپس چلی گئیں۔

عثمان کے خلاف شورش وانقلاب کی ایک دو وجہیں نہیں تھیں، انقلاب لانے کی ایک وجہ حدود الہی کا جاری نہ ہوناتھا جس کا تذکرہ ہم مختصر اً کر چکے ہیں اور دوسری وجہ جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یعنی خلیفہ کا اپنے رشتہ داروں کو بے حساب بیت المال سے مددکرنا اور ان کا خرچ دینا تھا ،اگر چہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے ، میں اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کیئے تھے ،تحریر نہیں کیا ہے(۱) لیکن وہی چیز یں جنہیں تاریخ نے لکھا ہے ، بیت المال سے متعلق عثمان کے کردار کوبخوبی واضح وروشن کرتا ہے ۔مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اور دوسرے سامان جو انہوں نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے ،وہ بہت زیادہ تھے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت زہرا اور خلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اور یہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا کی اولاد وں کو واپس کردیا۔

پیغمبر اسلام کی بیٹی نے کہا تھاکہ میرے بابا نے فدک مجھے دیا تھا ،لیکن ابو بکر کا یہ دعوی تھا کہ یہ صدقہ ہے اور دیگر صدقوں کی طرح یہ بھی محفوظ رہے اور اس کی آمدنی مسلمانوں کے امور میں خرچ ہو بہر حال کسی بھی صورت سے عثمان کا مروان کوفدک دینا صحیح نہیں تھا ،بہت سے مورخین نے عثمان کی اس حرکت پر ان کو

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۵ص۱۰۸و۱۱۳ و۲۳۲۔

۳۱۱

آڑے ہاتھ لیا اور سب نے یہی لکھا کہ'' تمام لوگوں نے جو ان پر اعتراض ہوئے یہ ہے کہ انہوں نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ''(۱) اے کاش خلیفہ اسی پر اکتفاء کرتے اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس کے علاوہ کچھ اور نہ دیتے،لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگائو کی کوئی حدنہ تھی ،انہوں نے اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ۲۷ ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین (۲۵لاکھ ) دینار تھی اس کا پانچواں حصہ (۵لاکھ ) جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا، اور اس طرح سے انہوں نے سب سے مخالفت مول لی ،چنانچہ بعض شعراء نے بعنوان اعتراض یہ شعر کہا(۲)

وأعطیت مروان خمس العبا

د ظلماًلهم وحمیت الحمی(۳)

وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔

بیت المال کے بارے میں اسلام کا نظریہ

ہر عمل ایک ونظریہ کی حکایت کرتا ہے، خلیفہ کاعمل اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے کو صلئہ رحمی اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بیت المال چاہے مال غنیمت ہو یازکات کی طرح دوسرے اموال کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے یہاں ہم پیغمبر اسلام(ص) اورامیر المومنین کے چند اقوال کو پیش کررہے ہیں ۔

۱۔پیغمبر اسلام (ص)مال غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں

للّه خمسه واربعة اخماس للجیش (۴)

______________________

(۱)ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص۸۴۔---(۲)سورئہ انفال آیت ۴۱۔----(۳)سنن بیہقی ج۶ص۳۲۴۔

(۴)سنن بیہقی ج۶ ص۳۲۴۔

۳۱۲

اس میں سے پانچواں خدا کا حصہ اور باقی ۴۵لشکر اسلام کا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ خدا س سے بے نیاز ہے کہ وہ اپنے لئے حصہ معین کرے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس ۵/ ۱کو ایسے کاموں میں خرچ کیا جائے جن میں خدا کی مرضی شامل ہو ۔

۲۔جب پیغمبر اسلام نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کیا توانہیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہنا۔

''ان اللّه قدفرض علیکم صدقة اموالکم نوخذ من اغنیاء کم فتردّالی فقراء کم'' (۱)

خدا وند عالم نے تم پر زکواة واجب کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

۳۔ امیر المومنین نے اپنے مکہ کے حاکم کو لکھا :

جو کچھ خدا کا مال تمہارے پاس جمع ہوا ہے اس کا حساب وکتاب کرو اور اسے کثیر العیال اور بھوکوں کو دیدو ، اور اس بات کا خیال رہے کہ وہ یقینافقیروں اور محتاجوں کو ملے ۔

تاریخ میں ہے کہ دو عورتیں دو نژاد کی ایک عرب اور دوسری آزادکردہ ،مولائے کائنات کے پاس آئیں اور دونوں نے حاجت پیش کی ،امام نے ہر ایک کو ۴۰ درہم کے علاوہ کھانے پینے کا سامان دیا نژادوہ عورت جو عرب سے نہیں تھی اس نے اپنا حصہ لیا اور چلی گئی لیکن عرب عورت نے جاہلیت کی فکر رکھنے کے وجہ سے امام سے کہاکیا آپ مجھے اتنی ہی مقدار میں دیں گے جتنا غیر عرب کو دیا ہے ؟امام ـ نے جواب میں کہا ، میں خد ا کی کتاب قرآن میں اسماعیل کے بیٹوں کی اسحاق کے بیٹوں پر فضیلت وبرتر ی نہیں دیکھتا؟(۲)

ان حدیثوں اور صراحتوں کے ہوتے ہوئے اور یہ کہ خلیفہ اول ودوم کا طریقہ خلیفہ سوم سے علیحدہ تھا اس کے باوجود عثمان نے اپنی پوری خلافت کے درمیان بہت زیا دہ تحفے وہدیہ لوگوں کو دیئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اگر ان ہدیوں اورکو ان نیک لوگوںکو دیا جاتاجن کی گذشتہ زندگی اسلام کے لئے باعث افتخار تھی ،تو

______________________

(۱)الاموال ص۵۸۰۔

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۶۷۔

۳۱۳

اتنی ملامت نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ وہ گروہ لایق فضل وکرم قرار پایا جس کی اسلام میں کوئی فضیلت نہیں تھا۔

مروان بن حکم حضرت امیر المومنین کا سخت ترین دشمن تھا ، جس وقت اس نے حضرت علی سے اپنی بیعت توڑی اور جنگ جمل میں گرفتار ہوا اور امام حسین کی شفاعت کرنے سے آزاد ہوا ،تو امام کے بیٹوں نے امام سے کہا ، مروان دوسری مرتبہ پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا ، امام نے فرمایا ۔

مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیا عثمان کے قتل کے بعد اس نے میرے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا؟ اس کی بیعت یہودیوں کی بیعت کی طرح ہے جو مکروفریب اور بے وفائی میں بہت مشہور ہیں، اگر خود اپنے ہاتھوں پر بیعت کرے تودوسرے دن مکرو فریب کے ساتھ اسے توڑ دے گا اس کے لئے حکومت چھوٹی چیز ہے جیسے کتا خود اپنی ناک چاٹتاہے،وہ چاربچوں کاباپ ہے اور امت مسلمہ کواس سے اور اس کے بچوں سے ایک روز شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۱)

______________________

(۱)سنن بیہقی ج۶ص۳۴۸۔

۳۱۴

تیسری وجہ، اموی حکومت کی تشکیل

عثمان کے خلاف شورش کی تیسری وجہ ،اسلام کے حساس مر کزوں پر امویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی ، اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ سوم کو بنی امیہ سے بہت ہی زیاوہ الفت ومحبت تھی اور رشتہ دارکی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری تھی ، اپنے رشتہ داروں کی اس درخواست کی تکمیل کے لئے کہ ایک اموی حکومت تشکیل دی جائے عقل وخرد ، مسلمانوں کی مصالح و مفاسداور اسلام کے قوانین کی عثمان کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں تھی اور بنی امیہ سے بیحد محبت کی وجہ سے بہت زیادہ غلط انجام پاتے تھے ۔

اس بات کی بھی یاددہانی ضروری ہے کہ ان کی محبت سارے مسلمانوں سے نہ تھی بلکہ ان کی محبت کا ربط صرف اپنے رشتہ داروں سے تھا ، اور دوسرے افراد ان کے غیظ وغضب سے امان میں نہیں تھے ،یعنی شجرئہ اموی سے بے شمار محبت کی وجہ سے ابوذر ،عمار ،عبداللہ بن مسعود وغیرہ پر بہت خشمگین رہتے تھے ، جس وقت ابو ذر کو ایسی سرزمین جہاں آب ودانہ نہ تھا یعنی ، ربذہ بھیجا اور اس عظیم مجاہد نے وہاں تڑپ تڑپ کر جان دیدی ،اس وقت ان کی محبت جوش میں نہ آئی جس وقت عمار خلافت کے بکے ہوئے کارمندوںکے لات گھونسوں سے زخمی ہوئے اوراور بے ہوش ہوگئے، خلیفہ پر ذرہ برابربھی اثر نہ ہوا ۔

۳۱۵

خلیفہ کا خاندان ،بنی ابی معیط ،کے ساتھ لگائو چھپنے والا نہیں تھا،یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے بھی اس بات کا احساس کرلیا تھاتبھی تو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا :

''لوولیها عثمان لحمل بنی ابی معیط علی رقاب الناس ولو فعلها لقتلوه'' (۱)

اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معیط ،کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔

جس و قت عمر نے شوری تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس میں عثمان کو بھی داخل کیا توان کی طرف رخ کرکے کہا ، اگر خلافت تمہارے ہاتھوں میں آجائے تو اس وقت خدا سے خوف کھانا اور ابی معیط کی آل کولوگوں پرمسلط نہ کرناجب عثمان نے ولید بن عتبہ کو کوفہ کاگورنر بنایا،توامیرالمومنین اور طلحہ وزبیرنے عمر کی بات یاد دلائی اور عثمان سے کہا :

''الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی محیط وبنی امیه علی رقاب الناس ؟'' (۲)

کیا عمر نے تم کو نصیحت نہیں کی تھی کہ آل بنی محیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟

لیکن ہوا وہی کے سارے معیار ان کی مکمل محبت و غالب ہو گئی ،اور اسلام کے تمام حساس واہم مرا کز امویوں کے ہاتھوں میں آگئے ،اور ایساہوا کہ ایک گروہ قدرت و حکو مت میں مست اور دوسرا گروہ مال جمع کرنے میں مشغول ہو گیا جب کہ نزدیک اور دورکے علاقے کے مسلمان خلیفہ کے رشتہ داروں کو غرامت دینے والے تھے ۔

حقیقت میں عثمان نے خاندان بنی امیہ کے بوڑھے شخص ،ابو سفیان کی پیروی کی جو عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے والے دن ان کے گھر آیا ورجب اس نے دیکھا کہ وہاں سب کے سب بنی امیہ سے ہیں تواس

______________________

(۱) انساب بلاذری ج۵،۱۶۔

(۲)انساب بلاذری ج۵ص۳۰۔

۳۱۶

نے کہا کہ خلافت کویکے بعد دیگرے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا۔(۱)

ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا، اور یہ چیز خلیفہ کے ساتھیوں کے لئے برداشت کے قابل نہیں تھاکہ ایک غیر اموی شخص اس عہدے پرفائز ہو ،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں سب کے سب اموی تھے کہا:کیوں اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو دیدیا ہے ؟،خلیفہ نے کہا :تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔(۲)

اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔

اگر حکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ نے کہا تھا ۔

''لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتهابنی امیه حتی ید خلوامن اخرهم'' (۳)

اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے بنی امیہ کو دیدیتا تاکہ بنی امیہ کی آخری فردبھی جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی بے جااور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنمائوں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جنہوں نے عثمان کی خلافت اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میںگورنروں کے سلسلے میں صرف کوفہ اور مصر میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سیاست یہ تھی کہ سارے امور امویوں کے ہاتھوں میں ہوں۔

______________________

(۱)استیعاب ج۲ص۶۹۰۔

(۲) تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر۔ انساب بلاذری ۔

(۳)مسند احمد بن جنل ج۱ص۶۲۔

۳۱۷

جس وقت خلیفہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،مغیرہ بن شعبہ کوکوفہ کی گورنری سے معزول کرکے سعد وقاص کو اس کی جگہ پر منصوب کردیا ،اس مورد میںبظاہر اچھا کام کیاکیونکہ سعد وقاص کا مقام ومر تبہ جو کہ فاتح عراق تھا .مغیرہ بن شعبہ سے جونا زیبا اور غلط کاموں میں مشہور تھابہت بلند تھا بلکہ اس کا ان سے مقابلہ نہیں تھا ،لیکن حقیقت میں سعدوقاص کو منصوب کرنے کا مقصد کچھ دوسرا تھا کیونکہ ایک سال کے بعد انہوں نے سعد وقاص کو ہٹا کر اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ بن ابی معیط کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ،۲۷ ہجری میں عمروعاص کو مصر سے جزیہ لینے کی ذمہ داری سے ہٹا کر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر میں جزیہ لینے کے لئے معین کردیا،۳۰ ہجری میں ابو موسی اشعری کو ،جو خلیفہ دوم کے زمانے سے بصرہ کا حاکم تھا ،معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر جو بالکل نوجوان (۱۶سال کا)تھا بصرہ کا حاکم بنا دیا ۔(۱)

یہ تمام موارد جوذ کر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے ۔

چوتھی وجہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ پر ظلم وستم

عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبر کے صحابہ کی بے حرمتی تھی ،جو خود عثمان کی طرف سے یا ان کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام ہوتی تھی ، اس سلسلے میں یہاںصرف دو نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم

عبداللہ بن مسعود پیغمبر اسلام (ص)کے بزرگ صحابی تھے، تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں انکے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوی ایمان والے اورقرآن کی تعلیم کے ذریعے معارف اسلامی کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔(۲)

______________________

(۱)تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر ،انساب بلاذری۔

(۲)استیعاب ج۱،ص۳۷۳،اصابہ ج۲،۳۶۹،اسد الغابہ۔

۳۱۸

وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مسجدالحرام میں اور قریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی ، تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچائیں ،جی ہاں دو پہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکر تبا دلہ خیال کررہے تھے ،کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز میں سورئہ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی ، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ابن ام عبد ، کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہواہے اسے ہی پڑھ رہا ہے، اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم اور ان کے چہرے پر طمانچہ مارکر ان کی آواز کو خاموش کردیا ، عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے، لوگوں نے ان سے کہا ،تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا ، عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے ،اور پھر کہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس کو جتنا انہوں نے سن لیا بس وہ ہی کافی ہے(۲) یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنمااوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اور توحید کا درس دینے میں صرف کیا تھااور وہ ا ن چھ افراد میں سے ہے جن کے بارے میں ذیل کی آیت نازل ہوئی ۔(۲)

( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) (انعام۵۲)

اور (اے رسول) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو، نہ ان کے (حساب و کتاب کی) جوابدہی تمہارے ذمہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمہ ہے تاکہ تم انھیں (اس خیال سے) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار) میں ہو جاؤ گے۔

______________________

(۱)سیرئہ ابن ہشام ج۱،ص۳۳۷۔

(۲)تفسیر ی طبری ج۷،ص۱۲۸،مستدرک حاکم نیشا پوری ج۳،ص۳۱۹۔

۳۱۹

عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اور خدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔

سعدو قاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ معین کردیا ، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اسکی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی ،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس کی خبر عثمان کو بھیجی ،عثمان نے عبداللہ بن مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پر ملامت کیا، عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کی طرف پھینک دی اور کہا:

کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا ،خدا کا کلام سچا ہے بہترین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہنمائی وہدا یت ہے، ان کے لئے بدترین امورانکی نئی باتیں ہیں جن کا اسلام نے حکم نہیں دیا ہے جو چیز بھی شرعی نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے ۔

عبداللہ نے یہ با تیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے کوفہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو ے اور مدد کر نے کا وعدہ کیا انہوں نے کہا خلیفہ کی اطاعت مچھ پر فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو فتنہ وفساد کا دروازہ کھولتا ہے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوے سیدھے مسجد گئے اوروہاں خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا ۔

بلاذری لکھتے ہیں : جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوے اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور آیا ہے وہ جاندار جو خود اپنی غذا پر چلتا ہے اور اس پر قے کر کے اسے خراب کردیتا ہے۔

عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا ،کہ میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں پیغمبر کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اور بیعت الرضوان ،میں بیعت کرنے والا ہوں ۔ اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریا د بلند کی ،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحا بی کی توہین کررہے ہو؟چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں شروآفت سے بچنے کیلئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔

۳۲۰

قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جو آپ(ع) کی اقتدا کرتے ہیں کیونکہ رسول(ص) کا ارشاد ہے۔

اے علی(ع) قیامت کے روز آپ(ع) اور آپ(ع) کے شیعہ ہی کامیاب ہونگے۔ ( در منثور جلال الدین سیوطی۔ سورہ بینہ)

اور جو حق  کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابلِ اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے ۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے اور کیسا فیصلہ کررہے ہو۔( یونس /۳۵)

۳۲۱

کیا حدیث قرآن کی مخالف ہے؟

شیعہ اور اہل سنت والجماعت میں سے طرفین کے عقیدہ کی بحث و تحقیق کے بعد ہم نے  یہ محسوس کیا ہے کہ ششیعہ اپنے تمام فقہی امور میں کتاب ِ خدا اور سنت نبوی(ص) کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کسی چیز سے سروکار نہیں رکھتے۔

وہ قرآن کو پہلا رتبہ دیتے ہیں اور حدیث کو دوسرا رتبہ دیتے ہیں اور اسے اچھی طرح پرکھتے ہیں اور کتابِ خدا سے مطابقت کرتے ہیں ۔ پس جو حدیث کتاب ِخدا کے موافق ہوتی ہے اسے  لے لیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور جو کتاب خدا کےخلاف ہوتی ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا کوئی وزن نہیں سمجھتے ۔ ( قسم اپنی جان کی یہ وہ بہترین منطق ہےجس نے ان پر محدثین کا راستہ بند کردیا ہے جنھوں نے تدلیس حدیث میں شہرت پائی تھی اور اسے رسول(ص) کی  طر ف منسوب کردیا تھا جب کہ آپ(ص)  اس سے بری ہیں۔

اصل میں شیعوں کے اس نظریہ  کا سرچشمہ وہ حدیث ہے جو ائمہ اہل بیت(ع) نے اپنے جد رسول (ص) سے نقل کی ہے۔ آپ (ص) کا ارشاد ہے: جب تمھارے پاس کوئی حدیث آئے تو تم ( پہلے)

۳۲۲

اسے کتاب خدا  پر رکھ لو۔ اگر وہ اس کے موافق ہے تو اس پر عمل کرو اور اگر مخالف ہے تو دیوار پر دے مارو۔

امام صادق (ع) نے متعدد بار فرمایا : جو حدیث قرآن کے موافق نہیں ہے وہ جھوٹی ہے۔

اصول کافی میں منقول ہے کہ رسول (ص) نے منیٰ میں لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو! میری طرف سے جوبات تم تک پہونچتی ہے۔ ( اگر) وہ کتاب خدا کےموافق ہے تو وہ واقعا میرا قول ہے۔ اور جو بات میری طرف سے نقل ہو اور وہ کتابِ خدا کے خلاف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے۔

شیعہ امامیہ نے اسی مضبوط اساس پر اپنے عقائد اور فقیہ کی تعمیر کی ہے۔ پس جب حدیث  اسناد کے لحاظ سے صحیح ہوتو اس وقت اسے اس میزان پر تولنا ضروری ہے اور اس کتاب پر پرکھنا ضروری ہے جس میں کسی بھی طرف سے باطل داخل نہیں ہوسکتا ۔

فرق اسلامیہ کے درمیان صرف شیعہ ہی ایک ایسا فرقہ ہے جس نے یہ شرط رکھی ہے خصوصا باب تعارض میں۔ یعنی جہاں دو (۲) روایات و اخبار ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔

شیخ مفید نے اپنی " تصحیح الاعتقاد " نامی کتاب میں تحریر کیا ہے، کتابِ خدا ،احادیث و روایات پر مقدم ہے اور اس کےذریعہ اخبار و احادیث کے ضعف و صحت کا علم حاصل کیا جا تا ہے پس جو اس (قرآن) پر پوری اتر ے وہ حق ہے اور اس کےخلاف باطل ہے۔

اور اس شرط کی بنا پر حدیث کو کتابِ خدا پر تولتے ہیں لہذا اہل سنت والجماعت سے شیعہ بہت سے فقہی احکام اور عقائد میں ممتاز ہیں۔

شیعوں کے عقائد اور احکام کو ہر ایک محقق کتاب خدا کے موافق پائے گا۔ اس کے برخلاف اہل سنت والجماعت کے عقائد اور احکام کو صریح  طور پر قرآن کے خلاف پائے گا۔ عنقریب ہم اس بحث کو تفصیلی طور پر بیاں کریں گے اور دلیل سے ثابت کریں گے۔

۳۲۳

تحقیق کرنے والا اس بات کو بھی اچھی طرح محسوس کرے گا کہ شیعہ اپنی کسی بھی حدیث کی کتاب کو مکمل طور پر صحیح نہیں کہتے ہیں۔ اور نہ ہی اسے قرآن کے برابر ٹھہراتے ہیں جیسا کہ اہل سنت والجماعت ان تمام حدیثوں کو جن کو بخاری و مسلم نےجمع کیا ہے صحیح کہتے ہیں باوجودیکہ ان میں سینکڑوں حدیثیں ایسی ہیں جو سراسر کتاب خدا کے خلاف ہیں۔

آپ کی اطلاع کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی کتاب کافی باوجود اپنے مؤلف محمد بن یعقوب کلینی کی قدر و منزلت کے اور علم احادیث میں انکے تبحر علمی کے باوجود شیعہ علما نے ایک روز بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ جو کچھ کلینی نے جمع کیا  ہے وہ سب صحیح ہے بلکہ اس کے برعکس بعض شیعہ علما نے اس کے نصف سے زیادہ حصہ کو غیر صحیح قرار دیا ہے ۔ خود  مؤلف نےیہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ جو کچھ میں اس کتاب میں جمع کیا ہے وہ سب صحیح ہے۔

شاید یہ سب کچھ سیرت خلفا کا نتیجہ ہے پس  اہل سنت والجماعت نےجن ائمہ کی اقتداء کی وہ احکام قرآن و سنت سے جاہل تھے یا جانتے  تھے لیکن بعض اسباب کی بنا پر اپنی رائے سے اجتہاد کر لیتے تھے ان میں سے بعض اجتہادات کا ہم گذشتہ بحثوں میں تذکرہ کر چکے ہیں۔

لیکن شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی قتدا کرتے  ہیں جو کہ قرآن کے ہم پلہ اور اس کے ترجمان ہیں وہ نہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف کرتے ہیں۔

                     جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی                                 ہے۔اور اس سے پہلے کتابِ موسیٰ گوہی دے رہی ہے جو کہ رحمت و پیشوا تھی۔

صاحبان ایمان اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ  اس کا انکار کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ خبردار تم قرآن

۳۲۴

کے بارے میں شک میں مبتلا نہ ہونا وہ تمھارے پر وردگار کی طرف سے برحق ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔( سورہ ہود : آیت۱۷)

۳۲۵

قرآن و حدیث اہل سنت کی نظر میں

ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ امامیہ قرآن کو سنت پر مقدم کرتے ہیں اور اسے سنت کا قاضی و حاکم قرار دیتے  ہیں لیکن اہل سنت والجماعت اس سلسلہ میں شیعوں کے خلاف ہیں وہ قرآن پر سنت کو مقدم کرتے ہیں اور اسے حاکم و قاضی قرار دیتے ہیں۔

اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ اسی لئے خود کو اہل سنت کہتے ہیں کہ انھوں نےسنت ہی کو  سب کچھ سمجھ لیا ہے ورنہ وہ اپنے کو اہل قرآن و سنت کیوں نہیں کہتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنی کتابوں میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ بنی(ص) نے فرمایا:

" میں تمھارے درمیان قرآن اور اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں۔"

انھوں نے قرآن کو چھوڑ دیا اور اسے مرتبہ پر رکھا اور خیالی سنت سے تمسک کرلیا اور اسے  پہلے مرتبہ پر رکھا ۔ ہم ان کے قول کا اصلی مقصد سمجھتے ہیں کہ سنت قرآن پر حاکم و قاضی ہے یہ بات عجیب ہے۔ میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت یہ فیصلہ کرنےپر اس وقت مجبور ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ ہمارے اعمال قرآن خلاف ہیں اور جب ان کے مخدوم حکام نے ان پر یہ بات تھوپ دی کہ تم یہ لکھو کہ سنت  قرآن پر مقدم ہے تب انھوں نے لکھا اور ان کے اعمال کی برئت کے لئے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر نبی(ص)  کی طرف  منسوب کردیں ۔ جب وہ احادیث احکام قرآن کے خلاف ظاہر ہوئیں تو کہا : سنت قرآن پر حاکم وقاضی ہے یا وہ قرآ ن  کو منسوخ کرتی ہے۔

اس کے لئے میں ایک واضح مثال دیتا ہوں جس کو ایک مسلمان دن بھر میں چند مرتبہ انجام دیتا ہے اور وہ ہے ہر نماز سے قبل وضو قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

۳۲۶

' اے ایمان لانے والو: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو( اس وقت) اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولیا کرو اور اپنے سروں کے بعض حصّہ کا اور پیروں کا گٹوں تک مسح کیا کرو۔( مائدہ/۶)

نصب و جر کی قرت سے قطع نظر، جیسا کہ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ لغت عرب میں ماہر اہلسنت والجماعت کے مشہور عالم فخررازی دونوں قرت واجب جانتے ہیں۔( تفسیر کبیر  فخررازی جلد۱۱، ص۶۱)

ابن حزم نےبھی کہا ہے: خواہ لام کو کسرے کے ساتھ پڑھا جائے یا فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے بہر صورت وہ رؤس پر عطف ہوگا۔ خواہ لفظی اعتبار سے خواہ وضع کے لحاظ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔( المحلی۔ ابن حزم جلد۲ ص۵۴)

اگر ہم سورہ مائدہ میں نازل ہونے والی آیت وضو میں غور کرتے جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ جو سورہ مائدہ آخر میں نازل ہوا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی(ص) کی وفات  سے صرف دو ماہ قبل نازل ہوا ہے پس نبی(ص) نے کیسے اور کب حکم مسح کو منسوخ کیا ؟ اور نبی(ص) نے ۲۳ سال تک وضو مسح کیا اور ہر روز متعدد بار مسح کرتے تھے۔

کیا یہ بات عقل می آی ہے کہ وفاتِ نبی(ص) سے دو ماہ قبل آیت" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " نازل ہوئی اور رسول(ص) نے حکمِ قرآن کے خلاف مسح کے بجاے پیر دھوئے ؟!! اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔

پھر لوگ اس نبی(ص) کو کیسے تسلیم کریں گے جو کہ انھیں قرآن کی طرف بلایا ہے اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے بے شک یہ قرآن سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے اور پھر خود اس کے برعکس عمل کرتا ہے؟! کیا یہ معقول ہے کیا اسے دانشور افراد قبول کریں گے؟!

کیا نبی(ص) سے جھگڑالو، مشرک اور منافق یہ نہ کہیں گے جب آپ(ص) خود اس کے خلاف  عمل کرتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل کرنے کے لئے  کس منہ سے  کہتے ہیں؟ اس وقت نبی(ص) ہکا پکا رہ جائنگے

۳۲۷

اور ان کےاعتراض کو رد کرنے کے لئے کوئی جواب نہیں بن سکے گا۔ اسی لئے ہم اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے جس کو عقل اور نقل دونوں رد کرتی ہیں اور جو بھی قرآن و سنت سے تھوڑا سا واقف ہے وہ بھی  اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔

لیکن اہل سنت والجماعت جو کہ در حقیقت بنی امیہ کے حکام اور ان کا اتباع کرنے والے ہیں جیسا کہ گذشتہ صفحات میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے گمراہ پیشواؤں کے اجتہاد ات اور  راویوں کو صحیح بنانے کی وجہ سے احادیث گھڑیں اور انھیں سے دین و شریعت کے احکام نکالے اور نص کے مقابلہ میں اجہادات کے لئے ایک علت بھی ڈھونڈ نکالی اور وہ یہ کہ نبی(ص) خود بھیایسا ہی کیا کرتے تھے، آپ(ص) بھی تو قرآن کی نص کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے تھے اور قرآن کی جس آیت کو  چاہتے تھے منسوخ کردیتے تھے، اس طرح بدعتی لوگ جھوٹ اور  بہتان کی وجہ سے نصوص کی مخالف کرنے میں رسول(ص) کے پیرو کاربن گئے۔( کیونکہ آپ بھی ںصوص کی  مخالفت کرتے تھے۔ اور  آج  اہل سنت بھی مخالفت کرتے ہیں۔)

گذشتہ بحثوں میں ہم قوی حجتوں اور ٹھوس دلیلوں سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ بنی(ص) نے ایک روز بھی اپنے رائے سے کوئی بات نہیں کہی بلکہ آپ وحی کا انتظار  کرتے تھے اور خدا کے حکم  ایک روز بھی اپنی رائے سے کوئی بات نہیں کہی بلکہ آپ وحی کا انتظار کرتے تھے اور خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

آپ حکم خدا کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ  کریں : ( نساء ۱۰۵،۔ صحیح بخاری ج۸ ، ص۱۴۸۔)

کیا اس بات کا کہنے والا اپنے پروردگار کا مبلغ نہیں ہے:

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو جن لوگوں کو  ہماری ملاقات کی امید نہیں ہے وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کیجئے یا اس کو بدل دیجئے ۔ آپ کہہ دیجئے میں اسے اپنے اختیار سے نہیں بدل  سکتا میں صرف اس  حکم پر عمل کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی کی جاتی ہے میں

۳۲۸

 اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب کا خوف ہے۔( یونس۔۱۵)

کیا خدا نے نبی(ص) کو اپنی طرف ایک جھوٹی نسبت دینے کے سلسلے میں سخت تہدید نہیں کی تھی؟ جیسا کہ ارشاد ہے:

اگر پیغمبر  ہماری طرف سے کوئی بات گھڑ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کاٹ لیتے اور پھر یقینا ہم اس کی گردن اڑا دیتے اور تم میں سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔(الحاقہ۴۳تا ۴۷۔)

یہ ہے قرآن اور یہ ہیں بنی(ص) جہنوں نے قرآن پیش کیا۔ لیکن اہل سنت والجماعت ، علی ابنِ ابی طالب(ع) اور اہلبیت" علیہم السلام" سے شدید عداوت کی بنا پر ہر چیز میں ان کی مخالفت کرتے ہیں یہاں تک کہ علی(ع) اور ان کے شیعوں کی مخالفت ان کا شعار بن چکی ہے  خواہ ان  کے نزدیک سنتَ نبی(ص) ثابت بھی ہو۔( ہماری مراد اوائل کے وہ افراد جنہوں نے علی(ع) اور آپ(ص) کے بعد آپکی اولاد سے دشمنی رکھی اور مذہب اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھی۔)

امام علی(ع) کے متعلق یہ مشہور تھا کہ آپ(ع) سنتِ رسول(ص) کو زندہ رکھنے کے لئے اخفاتی نمازوں میں بھی بسم اللہ۔۔۔ بآواز بلند پڑھے تھے۔بعض لوگوں نے کہا نماز  میں بسم اللہ۔۔۔۔ پڑھنا مکروہ  ہے اسی طرح ہاتھ باندھنا یا کھولنا اور دعائے قنوت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق نماز پنجگانہ سے ہے۔

اور اسی لئے انس بن مالک گریہ کررہے تھے اور  کہہ رہے تھے: قسم خدا کی آج میں ایک چیز بھی ایسی نہیں دیکھتا جس پر رسول(ص) عمل کرتے تھے۔ لوگوں نے کہا : اور یہ نماز ؟ مالک نے جواب دیا: اس میں بھیتم بہت سی رد و بدل کی ہے۔(بخاری۔ج۱ ص۷۴)

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ان اختلافات پر خاموش رہتے ہیں کیوں کہ  ان ہی سلسلہ میں مذاہت اربعہ کے درمیان اختلاف ہے لہذا اس میں اہل سنت کو کوئی

۳۲۹

 جرم  معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس اختلاف کو رحمت قرار دیتے ہیں۔

لیکن اگر شیعوں سے کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو پھر قیامت آجائے گی ، ان پر  طعن و تشینع کی بوچھار ہوجائے گی  اور رحمت ، زحمت میں بدل جائے گی۔ وہ صرف اپنے ہی ائمہ کی راویوں کو قبول کرتے ہیں اور عترتِ طاہرہ(ع) کے ائمہ کو علم و عمل اور فضل  وشرف میں ان کے برابر نہیں سمجھتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پیروں کے دھونے کے سلسلہ میں بیان کرچکے ہیں باوجودیکہ انکی کتابیں گواہی دے رہی ہیں کہ قرآن میں مسح واجب ہے اور یہی سنتِ بنی(ص) سے ثابت ہے۔ ( طبقات الکبری ابن سعد ج۶ ص ۱۹۱۔) لیکن اس سلسلہ مین شیعوں کی بات قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں تاویل کرنے والے اور دین سے خارج بتاتے ہیں۔

اور دوسری مثال کہ جس کا ذکر ضروری ہے وہ نکاح متعہ ہے جس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے اور نبی(ص) کے زمانہ میں اس پر عمل ہوا ہے لیکن اہل سنت متعہ کو حرام قرار دینے والے عمر ابن خطاب کے اجتہاد کی برت کے لئے جھوٹی حدیثیں گھٹ لیںاور انھیں نبی(ص) کی طرف منسوب کردیا ہے اور اس نکاح کو مباح سمجھنے والے شیعوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے، متعہ کی حلیت پر شیعوں کے پاس علی(ع) کا قول موجود ہے اور خود اہل سنت کی صحاح بھی گواہی دے رہی ہیں کہ صحابہ نے زمانہ نبی(ص) اور عہد ابوبکر میں نیز ایک مدت تک عمر کی خلافت کے دور میں متعہ کیاہے، اس  بات کو بھی بیان کررہی ہیں کہ متعہ کے حلال ہونے اور حرام ہونے کے سلسلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہے۔

ایسے موارد کے لئے کہ جہاں جھوٹی حدیثوں سے انھوں نے نصِ قرآنی کو منسوخ کیا ہے ، بہت سی ثالیں ہیں جس میں سے ہم نے صرف دو مثالیں مذہب اہل سنت سے پردہ ہٹانے اور قارئین کی اطلاع کے لئے پیش کی ہیں کہ وہ قرآن پر حدیث کو مقدم کرتے ہیں اور صریح طور پر کہتے ہیں کہ سنت قرآن پر حاکم و قاضی ہے۔

۳۳۰

اہل سنت والجماعت کے فقیہ اور محدث اما عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ متوفی ۲۷۶ہج کھلے لفظوں میں کہتے ہیں: سنت قرآن پر حاکم ہے جبکہ قرآن سنت پر حاکم و قاضی نہیں ہے۔

صاحب مقالات الاسلامیین ، امام اشعری جو کہ اصول میں اہل سنت والجماعت کے امام ہیں ان سے نقل کرتے ہیںکہ سنت قرآن (کے کسی بھی حکم) کو  منسوخ کرسکتی ہے اور اس کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے۔ جبکہ قرآن سنت کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے اور اس کےخلاف حکم لگا  سکتا ہے۔

عبداللہ تو یہ فرماتے ہیںکہ امام اوزاعی، ( یہ بھی اہل سنت والجماعت کے  بڑے امام ہیں ) کہتے ہیں: قرآن سنت کا زیادہ محتاج ہے جبکہ سنت قرآن کی محتاج نہیں ہے۔ ( جامع بیان العلم ج۲، ص۲۳۴۔)

اہل سنت کے اقوال ان کے عقیدہ کے غماز ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں کے اور اہل بیت(ع)  کے اس قول میں تناقض ہے کہ حدیث کو کتابِ خدا پر پرکھو! اور اس پر تو لو! کیونکہ قرآن سنت  حاکم و قاضی ہے اور یہ بھی طبیعی ہے کہ اہل سنت ان احادیث کی تردید کرتے ہیں اورانھیں قبول نہیں کرتے ہیں۔ اگر چہ ان کو ائمہ اہل بیت(ع) ہی نے بیان کیا ہو کیوں کہ ان سے ان کے مذہب کی دھجیاں اڑتی ہیں۔

بیہقی نے دالائل النبوت میں لکھا ہے: نبی(ص) کی یہ حدیث باطل ہے۔ " جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو تم اسے قرآن سے ملاؤ اگر قرآن کے موافق ہے تو میرا قول ہے اور اگر مخالف ہے تو میرا قول نہیں ہے" باطل ہے اور خود اپنے خلاف ہے  کیونکہ قرآن میں کوئی مفہوم ایسا نہیں ہے کہ جو حدیث کو  قرآن سے ملانے پر دلالت کررہا ہو!

عبدالبر نے عبدالرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ حدیث جو رسول(ص) سے نقل کی جاتی ہے " تمہارے سامنے جب میری کوئی حدیث نقل کی جائے تو

۳۳۱

 تم اسے کتابِ خدا سے ملاؤ اگر کتابِ خدا کے موافق ہے تو وہ میرا قول ہے اور اگر کتابِ خدا کے خلاف ہے تو وہ میرا قول نہیں ہے۔ ایسی حدیث کی نسبت رسول(ص)  کی طرف دینا اہل علم کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔یہ حدیث خوارج اور زنادقہ کی  گھڑی ہوئی ہے۔

اس اندھے تعصب کو ملاحظہ فرمائیے کہ جس نے ان کے لئے علمی تحقیق او حق کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اہل سنت والجماعت اس حدیث کے راوی ائمہ معصومین(ع) کو خوارج اور زنادقہ کہتے ہیں اور ان پر حدیث گھڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔

کیا ہم ان سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ حدیث کو گھڑنے سےکہ جس میں قرآن کو ہر چیز کا مرجع بتایا گیا ہے خوارج اور زنادقہ کا کیا مقصد تھا؟؟

عقلمند او منصف مزاج انسان تو انہی زنادقہ اور خوارج کی طرف جھکے گا جو کہ کتابخداکو معظم اور محترم سمجھتے ہیں اور تشریع میں اسے پہلا مصدر  قرار دیتے ہیں۔ کیا اہل سنت واجماعت کی طرف مائل ہونا صحیح ہے جوکہ جھوٹی حدیث کے ذریعہ کتاب خداکے خلاف فیصلؒہ کرتے ہیں اور اپنی من گھڑت سے قرآن کے احکام کو منسوخ کرتے  ہیں۔

اس سلسلہ میں انھیں کوئی علم نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا یہ تو بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے وہ جھوٹ کے علاوہ کچھ کہتے ہی نہیں ہیں۔(کہف۔۵۰)

اہل سنت والجماعت ائمہ ہدیٰ ، مصابیح الدجیٰ کہ جن کو رسول(ص) نےامت کے لئے اختلاف سےامن کا باعث بتایا تھیا اور فرمایا تھا: قبائل عرب میں سے  جو قبیلہ انکی مخالفت کرے گا وہ پراکندہ ہوکر گروہ ابلیس بن جائے گا۔ زنادقہ اور خوارج کہتے ہیں ائمہ معصومین(ع) کا صرف یہ گناہ ہے کہ وہ اپنے جد کیسنت سے تمسک کئے ہوئے ہیں اور اس کے سوا ابوبکر ، عمر ، عظمان ، معاویہ ، یزیدلع اور مروان و امویوں کی بدعتوں کو ٹھکرا دیا ہے، ار چہ حکومت کی باگ دوڑ انہی مذکورہ افراد کے ہاتھوں میں تھی لہذا وہ اپنے مخالفوں  پر خوارج اور زنادقہ کہہ کر سب وشتم

۳۳۲

 کرتے تھے ، ان سے جنگ کرتے اور پراگندہ کردیتے تھے ۔ کیا علی(ع) اور اہلبیت(ع)  پر ان کے منبروں سے اسی(۸۰) سال تک لعنت نہیں ہوئی؟؟ کیا انہوں نے امام حسن(ع) کو زہر اور حسین (ع) اور آپ(ع)کی ذریت کو تلواروں سے شہید نہیں کیا؟

اہلبیت (ع)  جن پر غم والم کے پہاڑ توڑے گئے اور بعد میں بھی ظلم وستم کا سلسلہ جاری رہا انھیں چھوڑتے  ہیں اور ان لوگوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ جو کہ اپنے کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور قرآن پر تولنے والی حدیث کا انکار کرتے ہیں اور ابوبکر صدیق ، اور ام المؤمنین عائشہ کہ جس سے نصف دین لیا ہے کو زندیق اور خوارج نہیں کہتے۔۔ مذکورہ خدیث کو انہوں نے شہرت دی ہے اور پھر جب کوئی ایسی حدیث ان کے پاس پہنچتی تھی کہ جس کو عائشہ نہیں جانتی تھیں تو  وہ اس حدیث کو قرآن پر تولتی تھیں اگر وہ قرآن کے خلاف ہوتی تھی اسے ٹھکرا دیتی تھیں چنانچہ عمر ابن خطاب کی بیان کردہ اس حدیث کو جھٹلادیا تھا کہ میت پر اس وقت عذاب ہوتا ہے جب اس کے خاندان میں سے کوئی اس پر گریہ  کرتا ہے: عائشہ نے کہا : تمہارے لئے قرآن کافی ہے  وہ کہتا ہے: کوئی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( صحیح بخاری، کتاب الجنائز باب قول النبی(ص) لعذاب المیت ببعض بکاء اہلہ علیہ( کذالک مسلم کتاب الجنائز باب المیت ، یعذب ببکاء اہلہ علیہ)

ایسے ہی عائشہ نے عبداللہ ابن عمر کی بیان کی ہوئی اس حدیث کو رد کردیا تھا کہ ، نبی(ص) اس گڑھے پر کھڑے ہوئے  جس میں جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کو ڈالدیا گیا تھا۔ پھر ان س کچھ فرمایا: اور اس کے بعد اپنے اصحاب کی طرف ملتفت ہوئے اوور فرمایا: وہ یقینا میری باتوں کو سنتے ہیں۔

عائشہ نے کہا : کیا مردے بھی سنتے ہیں؟ نیز کہا: رسول(ص) نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اس بات کو ضرور جان لیں گے جو  میں نے  ان سے کہی تھی پھر اس حدیث کی تکذیب کے ثبوت میںوہی حدیث پیش کی جس میں حدیث  کو قرآن کے ذریعہ پرکھنے کا حکم ہے اور پھر یہ آیت پڑھی۔

۳۳۳

اور حق ان کے تابع ہے؟

ذوالنورین بھی آپ ہی ہیں ۔ ( اہل سنت والجماعت عثمان کو ذوالنورین کہتے ہیں اور اسکی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی(ص) کی دو بیٹیوں " رقیہ اور ام کلثوم سے شادی کی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ دونوں رسول(ص) کی ربیبہ تھیں اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ بیٹی تھیں تو بھی ان کا نورین ہونا ثابت نہیںہے ۔ نبی(ص) سے  تو ان دونوں کے سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں فرمائی ۔ یہ نور فاطمہ(س)  کیوں نہ ہوں کہ جن کے متعلق یہ فرمایا ہے: وہ عالمین کی عورتوں  کی سردار ہیں ، پس وہ نور ہیں اور اس بنیاد پر علی(ع) کو  ذوالنورین کیوں نہیں کہتے۔) آپ حسن اور حسین ( علیہماالسلام) جوانانِ جنت کے سردار اور نور نبوت کے باپ ہیں، آپ ہی سیف اللہ ہیں چنانچہ جنگ احد میں جبریل نے آپ کی شان میں فرمایا تھا

             "لافتی الاّ علی لاسیف الاّ ذوالفقار"

حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی شمشیر خدا ہیں جس کو خدا نے مشرکین کے لئے نیام سے نکالا تھا، چنانچہ آپ نے مشکوں کے سو ماؤں کو اور ان کے جری و شجاع لشکر کو موت کے گھات اتارا اور انکی ناک رگڑدی یہاں تک کہ انہوں نے مجبورا حق کا اورار کرلیا۔ آپ(علی) اس لئے بھی شمشیر خدا  ہیں کہ آپ نے کبھی میدان جنگ سے فرار نہیں کیا اور نہ کبھی جنگ سے گھبرائے، آپ(ع) ہی نے خیبر  فتح کیا جبکہ بڑے بڑے صحابہ اسے فتح نہ کرسکے اور شکست کھا کر لوٹ آئے تھے۔

لیکن پہلی ی خلافت سے یہ سیاست چلی گئی کہ آپ کی تمام فضیلتوں کو مٹایا جائے اور ہر ایک منصب سے الگ رکھا جائے اور جب معاویہ کے ہاتھ حکومت آئی تو وہ آگے نکل گیا یہاں تک کہ علی(ع) پر لعنت اور تنقیص کا سلسلہ شروع کردیا اور اپنے ہم خیال افراد کی شان بڑھانے اور علی(ع) کے تمام القاب اور فضائل کو زبردستی دیگر صحابہ پر منطبق کرنے لگا اور اس زمانہ میں معاویہ کی تکذیب کون کرسکتاتھا اور اس سے کون ٹکر لے سکتا تھا؟ اور پھر علی(ع) پر سب و شتم اور لعنت کرنے نیز  آپ(ع) سے برت اور بیزاری کے سلسلہ میں معاویہ کی بہت سے لوگوں نے موافقت کی اور " اہل سنت والجماعت" میں سے معاویہ کا اتباع کرنے والے نے حقائق کو الٹ کر رکھدیا چنانچہ نیکی ان کے

۳۳۴

 نزدیک برائی اور برائی ان کے نزدیک اچھائی بن گئی اور علی(ع) اور انکے شیعہ زندیق و خوارج اور رافضی بن گئے، لہذا انہوں نے ان کا خون بہانا اور ان پر لعنت کرنا مباح سمجھ لیا اور دشمن خدا و دشمن رسول خدا(ص) اور عدوئے اہل بیت(ع) " اہل سنت والجماعت " بن گئے ، پڑھئے اور تعجب کیجئے اور اگر اس سلسلہ میں آپ کو کوئی شک ہے تو تحقیق اور چھان بین کر لیجئے۔

"ان دونوں کی مثال اندھے ، بہرے ، دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں، کیا غور نہیں کرتے؟( ہود آیت ۲۴)

۳۳۵

نبی(ص) کی احادیث میں تناقض

محقق کو بہت سی ایسی احادیث ملیں گی جو نبی(ص) کی طرف منسوب کی جاتی ہیں در حقیقت انھیں آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے گھڑلیا تھا اور لوگوں کو ان کا پابند بنادیا تھا اور زبردستی ان پر عمل کرواتے تھے یہاں تک کہ ان بے چاروں کا یہ اعتقاد بن گیا تھا کہ یہ نبی(ص) افعال اور ان کے اقوال ہیں۔

اسی وجہ سے ان گھڑی ہوئی حدیثوں میں تناقض ہے اور قرآن کے خلاف ہیں ، اس لئے اہلِ سنت کے علماء تاویل پر مجبور ہوئے اور کہا ایک مرتبہ رسول(ص) نے یہ فعل انجام دیا اور دوسری مرتبہ وہ فعل انجام دیا ۔ مثلا علمائے اہل سنت کہتے ہیں :ایک مرتبہ رسول(ص) نے نماز میں بسم اللہ ۔۔۔پڑھی اور ایک مرتبہ بغیر بسم اللہ ۔۔۔ کے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ وضو میں پیروں کا مسح کیا اور ایک مرتبہ دوںوں پیروں کو دھویا ۔ اک مرتبہ نماز میں دونوں ہاتھ باندھے ، ایک مرتبہ دوںوں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی۔ یہاں تک کہ بعض علمائے اہل سنت نے تو یہ بھی کہدیا کہ رسول(ص) نے ایسا امّت کی آسانی کے لئے کیا تھا کہ وہ جس کو چاہئے انجام دے۔

یہ سفید جھوٹ ہے اور اسلام اس کی تردید کرتا ہے جس کے عقائد کی اساس کلمہ توحید اور عبادی توحید پر استوار ہے۔ یہاں تک کہ ظاہری چیزوں اور لباس میں بھی توحید و اتحاد ہے  چننچہ حج کے زمانہ میں محرِم (احرام باندھنے والے) کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ جیسا چاہئے مخصوص شکل رنگ کا لباس پہنے اسی طرح ماموم کو بھی الگ سے کوئی فعل انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے حرکات و سکنات ، قیام ورکوع اور سجود وجلوس میں اپنے امام  کا اتباع کرتا ہے۔

اس لئے بھی یہ بات جھوٹی ہے کہ اہل سنت میں سے ائمہ طاہرین(ع) نے ان روایات کا انکار  کیا ہے اور وہ عبادات می شکل و  مضمون کے اختلاف کو قبول نہیں  کرتے تھے۔

۳۳۶

جب ہم اہل سنت والجماعت  کی متناقض احادیث کی تحقیق کریں گے تو بہت ملیں گی ۔ انشاء اللہ ہم عبقریب انھیں ایک کتاب  کی صورت  میں پیش کریں گے۔

اور جیسا کہ ہماری عادت ہے یہاں بھی ہم ختصار کے ساتھ بعض حدیثوں کو مثال طور پر پیش کررہے ہیں تاکہ قاری و  محقق کو  یہ معلوم ہوجائے کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور مذہب کی بنیاد کس چیز پر ہے۔

صحیح مسلم  اور جلال الدیں سیوطی کی شرح موطا میں انس بن مالک سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ۔ ابوبکر ، عمر اور عثمان کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے لیکن میں نے  ان میں سے کسی کو نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیں دیکھا۔

ایک روایت  میںہے کہ رسول اللہ بلند آواز سے بسم اللہ ۔۔۔۔نہیں پڑھتے تھے اور یہ حدیث انس قتادہ اور ثابت السنبانی وغیرہ سے مروی ہے اورہر ایک نے اس کی نسبت رسول (ص) کی طرف دی ہے مگر یہ کہ آپ(ص) کے لفظ کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حیرانی اور دفاع کی صورت میں ان میںسے کوئی کہتا ہے کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہی نہیں تھے ،کوئی کہتا ہے  بلند آواز  سے نہیں پڑھتے تھے ، کوئی کہتا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور بلند آواز سے پڑھتے تھے، کوئی کہتا ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کبھی ترک نہیں کرتے تھے ، کوئی کہتا ہے وہ قرائت کی ابتداء الحمد للہ ربَ العالمین سے کرتے تھے۔

کہتے ہیں : ان  پراکندہ اقوال کے ہوتے ہوئے کوئی فقیہ کسی چیز پر حجت قائم نہیں کرسکتا ہے ۔ ( تنویر الحوالک ، شرح علی موطاء مالک ج۱، ص۱۰۳، ہم کہتے ہیں شکر خدا کہ انہی میں سے ایک نے گواہی دے دی کہا انکی احادیث میں اضطراب اور تناقض ہے اور اسی طرح یہ اعتراف بھی کیا کہ اس اضطراب کے ہوتے ہوئے کسی فقیہہ  کے لئے حجت قائم نہیں ہوسکتی ۔ حجت تو صرف ائمہ اطہار(ع) کے پاس ہے  کہ جنہوں نے کسی چیز میں اختلاف نہیں کیا۔)

لیکن جب آپ اسی کے راوی یعنی انس بن مالک جو کہ رسول(ص) کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ

۳۳۷

 آپ کے حجب تھے کی احادیث میں تناقض و اضطراب کی معرفت کا راز حاصل کرنا چاہیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ۔۔۔۔ رسول اللہ اور خلفائے ثلاثہ ۔۔۔ بسم اللہ الرّحمن الرّحیم نہیں پڑھتے تھے اور ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اسے چھوڑا نہیں ۔

جیہاں ! یہ ایکغم انگریز حقیقت ہے کہ نقل حدیث میں اکثر صحابہ نے ان ہی کا اتباع کیا اور ہر ایک نے سیاسی مصلحت کے اقتضا ےکے مطابق اورا مراء کی مرضی کے موافق حدیثیں بیان کی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انس جنے بسم اللہ الرّحمن الرحیم نہ پڑھنے والی روایت اس وقت بیا ن کی جب بنی امیہ اور ان کے حکام و کارندے  ہر اس سنت کو محو کررہے تھے جس پر علی(ع) گامزن  تھے اور اسے زندہ رکھے ہوئے تھے۔

بنی امیہ کی سیاست کی بنیاد ہی علی(ع) کی مخالفت اور ان کے برخلاف عمل کرنے پر قائم تھی۔حضرت علی(ع)  کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ(ع)  نمازوں میں یہاں تک اخفاتی نمازوں  می باآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھتے تھے۔

یہ ہمارا  یا شیعوں  کا دعوی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہم نے اہل سنت والجماعت کی کتابوں نے تصریحات سے لکھا ہے۔

امام نیشابوری نے انس بن مالک کی متناقض روایات بیان کر نے کے بعد، غرائب القرآن میں لکھا ہے کہ ان ( روایات)  پر ایک دوسری بھی تہمت ہے اور وہ یہ کہ علی( رضی اللہ عنہ) بآواز بلند بسم اللہ۔۔۔ پرھتے تھے جب بنی امیہ کا دور آیا تو انھوں علی ابن ابی طالب(ع) کے آثار کو مٹانے میں ایڑی چوٹیکا زور لگا دیا، شاید انس بن ملک ان سے ڈر گئے اور اس لئے ان ے اقوال پراگندہ ہوگئے ۔ ( تفسیر غرائب القرآن ، نیشاپوری، جو کہ تفسیر طبری کی ج۱، ص۷۷، کے حاشیہ پر  مرقوم ہے۔)

اسی سے ملتی جلتی بات شیخ ابوزہرہ نے کہی ہے: کہتے ہیں اموی حکومت نے علی(ع) کے

۳۳۸

آثار میں سے قضاوت اور فتوؤں کو ضرور چھپایا ہے لیکن یہ ات معقول نہیں ہے کہ وہ منبروں سے علی پر لعنت کرتے اور یہ بھی معقول نہیں ہے کہ علماء کو آزاد چھوڑدیتے  کہ وہ لوگوں میں آپ(ع) کے علم اور اقوال و فتاوی نقل کریں خصوصا وہ چیزیں جو کہ اسلامی حکم کی اساس سے متصل ہوں۔

الحمد للہ کہ اس نے اہل سنت ہی کے بعض علما کی زبان سے حق کا اظہار کرادیا ہے اور انہون نے یہ اعترافکر لیا ہے کہ علی(ع) بآواز بلند بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی کوشش کرتے تھے ۔

اس چیز سے ہم یہ  نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس چیز نے علی(ع) کو بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے پر ابھارا وہ یہ ہے کہ خلفا نے عمدا یا سہوا اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سلسلہ میں لوگوں نے ان ( خلفا) کی اقتداء کر لی تھی اور یہ فعل ایک ایسی سنت بن گیا تھا جس کا اتباع ہورہا تھا۔ بے شک اخفاتی نماز میں بھی بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے کی کوشش کیوں کی۔

پھر ہمیں انس بن مالک کی روایات سے چاپلوسی اور بنی امیہ کو راضی کرنے کی بو محسوس ہوتی ہے کہ جنہوں نے انس کو اموال میں ڈوبا دیا تھا اوران کے لئے عظم الشان محل تعمیر کرا دیا تھا ۔ انھیں بھی علی(ع)  سے دشمنی بھی ۔ طیر مشوی کے واقعہ سے ان کا بغض  ظاہر ہوگیا تھا چنانچہ جب نبی(ص) نے فرمایا : پروردگارا میرے پاس اسے بھیجدے جو تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، تاکہ وہ اس پرندہ کو میرے ساتھ تناول کرے۔ علی(ع) تشریف لائے تو انس  نے آپ کو تین مرتبہ واپس کیا چوتھی بار رسول(ص)  کو معلوم ہوگیا تو انس سے فرمایا : تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ؟ اس نے کہا: میں چاہتا تھا کہ کوئی انصار میں سے آئے۔( حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور شیخیں کی شرط پر اسے صحیح  قرار دیا ہے ۔ ترمذی ج۲، ص۲۹۹، ریاض النفرہ ج۲، ص۱۶۰،  تاریخ بغداد ج۳، ص۱۷۱، کنز العمال ج۶، ص۴۰۶، خصائص نسائی ص۵، اسد الغابہ ج۴، ص۳۰)

اس صحابی کے لئے  تو اتنا ہی کافی ہے کہ نبی(ص) اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ میرے پاس اسے بھیجدے جو تجھے پوری مخلوق سے زیادہ محبوب ہے اور خدا اپنے رسول(ص) کی دعا قبول کرتا ہے اور علی(ع) کو

۳۳۹

 بھیجدیتا ہے لیکن انس کو جو آپ سے بغض تھا اس نے انس کو جھوٹ بولنے پر ابھارا اور انھوں نے علی(ع) کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ نبی(ص) اس وقت مشغول ہیں اور یہی پے درپے تین بار دھرایا کیونکہ انس نہیں چاہتے تھے کہ نبی(ص) کے بعد خدا کے نزدیک علی(ع) سب سے زیادہ محبوب قرار پائیں لیکن علی(ع) نے چوتھی بار بمشکل دروازہ کھولا اور داخل ہوگئے۔ نبی(ص) نے دریافت کیا اے علی(ع) تمہیں مجھ تک پہنچنے  سے کس نے روکا؟ عرض کی میں آپ کے پاس آنا چاہتا تھا لیکن انس نے مجھے تین بار واپس کیا : رسول(ص) نے فرمایا: اے انس اس کام پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا؟ انس کے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میں نے آپ کی دعا سن لی تھی اس لئے میں چاہتا تھا کہ وہ شخص میری قوم سے ہو۔

اس کے بعد بھی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہےکہ پوری زندگی انس کے دل میں علی(ع) کا بغض باقی رہا چنانچہ جب رحبہ کے دن علی(ع) نے ان سے فرمایا : حدیث غدیر بیان کرو تو انہوں نے اس سے پہلو تہی کی اور آپ نے انس کے لئے بد دعا کی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ بھی نہیں پائے تھے کہ برص کے مرض میں مبتلا ہوگئے پھر انس علی(ع)  کے دشمن کیوں نہ ہوتے جب کہ انھیں آپ کی ذات سے شدید نفرت تھی اور آپ کے دشمنوں کا تقرب ڈھونڈتے تھے اور آپ سے بیزاری کا اظہارکرتے تھے۔

ان ہی تما چیزوں کی وجہ سے ان کی روایت جو خصوصا بسم اللہ کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہے وہ انہوں نے معاویہ بن سفیان کی محبت میں بیان  کی تھی۔ کہتے ہیں : میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ یعنی اس طرح  وہ یہ قبول نہیں کرتے ہیں کہ میں نے علی(ع) کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور یہ بالکل وہی چیز ے جو معاویہ اور اس کے ہمنوا چاہتے تھے کہ خلفائے ثلاثہ کا ذکر بلند ہو  اور علی(ع) کا ذکر مٹ جائے اور ان کانام تک نہ لیا جائے۔

اورجو کچھ ائمہ اطہار(ع) اور ان کے شیعوں کے طریق سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ علی(ع) سورہ فاتحہ اور اس کے بعد والے سورہ کی بسم اللہ ۔۔۔ کو بآواز بلند پڑھتے تھے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے طریق سے بھی ثابت ہوچکا ہے کہ آپ(ص) بسم اللہ۔۔۔ کو بلند آواز سے  پڑھتے تھے ۔ یہاں تک کہ اخفاتی نمازوں میں بھی ۔ پس اس سے یہ ثابتہوگیا یہی نبی(ص) کی صحیح سنت ہے۔ جس نے بسم اللہ۔۔۔ ترک

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431