شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105526
ڈاؤنلوڈ: 5935

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105526 / ڈاؤنلوڈ: 5935
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :

جب شیعہ اس قوم کو کہا جاتا ہے جو عترت نبی(ص) کی عاشق و محب ہے تو مسلمانوں میں ایسا کون ہے جو شیعہ ہونے سے انکار کرے گا؟

نسلی تعصب وعداوت  کا درد واپس لوٹ چکا ہے، روشنی اور آزادی فکر کا زمانہ آگیا ہے ذہین وجدت پسند جوان آنکھیں کھولیں اور شیعوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں ان سے ملیں اور ان کے علماء سے گفتگو کریں اور اس طرح حق کو پہچان لیں ۔ کتنی شیرین زبانوں کے ذریعہ ہمیں دھوکہ دیا گیا اور کتنی بے بنیاد باتیں سنائی گئیں۔

آج جنکہ دنیا ہر ایک انسان کے ہاتھ میں ہے اور شیعہ بھی اس زمین کے چپہ چپہ پر آباد ہیں پھر کسی محقق کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ شیعوں کے بارے میں شیعوں کے دشمنوں سے سوال کرے ان لوگوں سے پوچھے جو کہ عقیدہ کے لحاظ سے ان کی مخالفت   کرتے ہیں اور ان سے سائل کیا توقع رکھتا ہے جو کہ ابتدا ہی سے شیعوں کے دشمن ہیں؟ شہعی کوئی خفیہ مذہب  نہیں ہے کہ جس کے عقائد سے کوئی واقف نہ ہوسکے بلکہ اس کی کتانیں اور منشورات دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر طالب علم کے لئے ان کے مدارس اور خوزات علمیہ کھلے ہوئے ہیں، ان کے علماء کی طرف سے کانفرنس، سیمنار منعقد ہوتے رہتے ہیں وہ امت اسلامیہ کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور انھیں ایک مشترک کلمہ پر جمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ملتِ اسلامیہ کے منصف مزاج افراد سنجیدگی اور جانفشانی سے اس مسئلہ کی تحقیق کریں گے تو وہ حق سے قریب ہوجائیں گے اور حق کے سوا تو ضلالت و گمراہی ہے اور جو چیز ان کے حق تک پہونچنے میں رکاوٹ بنتی ہے وہ دشمنان شیعہ کا جھوٹا پروپگنڈہ ہے یا شیعہ عوام میں سے  کسی کی غلطی ہے۔(کتاب کے آخر میں یہ بات واضح ہوجائے گا کہ شیعہ عوام میں بعض کے افعال سے اہل سنت کے ذہین و روشن خیال جوان بد ظن  ہوجاتے ہیں اور پھر ان میں حقیقت تک رسائی کے لئے بحث و تحقیق کی بھی ہمت نہیں رہتی ہے۔)

۲۱

کیونکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ( سی انسان کے قلب سے) شبہ زائل ہوجاتا ہے اور باطل افسانہ محو ہوجاتا ہے پھر آپ دیکھیں گے کہ شیعہ دشمن خود شیعہ ہوگیا ہے۔

یہاں مجھے اس شامی کا قصہ یاد آگیا جس کو اس زمانہ کے ذرائع ابلاغ نے گمراہ کردیا تھا۔ جب وہ قبر رسول اعظم کی زیارت کی غرض سے مدینہ میںداخل ہوا تو اہاں گھوڑے پر سوار ایک باوقار شخص کو دیکھا کہ جس کے چاروں طرف اس کے اصحاب کھڑے ہوئے ہیں اور اس کے اشارے کے منتظر ہیں۔

شامی یہ کیفیت دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کیونکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں معاویہ سے زیادہ بھی کسی کی تعظیم کی جاتی ہے اس نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا توجواب دیا گیا یہ حسن بن علی ابی طالب(ع)  ہیں۔ اس نے کہا : یہی خارجی ابن ابی تراب ؟ اس کے بعد اس نے امام حسن(ع)  اور  آپ  کے پدر اور اہل بیت پر سب و شتم کرنا شروع کردیا۔

امام حسن(ع) کے اصحاب نے اسے قتل کرنے کے لئے تلواریں کھینچ لیں لیکن امامِ حسن(ع) نے انہیں منع کردیا اور گھوڑے سے اتر پڑے اور اسے خوش آمدید کہا اور محبت آمیز لہجہ میں فرمایا:

کیا ا س شہر میں تم مسافر و غریب ہو؟ شامی نے کہا ہاں ، میں شام سے آیا ہوں اور میں امیر المؤمنین سید المرسلین معاویہ بن ابی سفیان کا چاہنے والا ہوں ،امام(ع) نے دوبارہ اسے  خوش آمدید کہا اور فرمایا : تم میرے مہمان ہو ، شامی نے انکار کیا لیکن امام حسن(ع) نے اسے مہمان ہونے پر راضی کرلیا اور بنفس نفیس کئی روز تک اس کی ضیافت کرتے رہے چوتھے روز شامی شرمندہ ہوگیا اور امام حسن(ع) کی شان میں جو گستاخی کی تھی اس کی معافی طلب کرنے لگا، امام حسن(ع) نے اس کے سب و شتم کے مقابلہ میں احسان و درگذشت اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا جس سے شامی پشیمان ہوا۔ امام حسن(ع) اور شامی کے درمیان اصحاب امام حسن(ع)  کے سامنے کچھ اور گفتگو بھی ہوئی تھی جسے ہم ذیل میں نقل کررہے ہیں۔

۲۲

امام حسن(ع) : میرے عرب بھائی کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟

شامی: مجھے پورا قرآن حفظ ہے۔

امام حسن(ع) کیا تم جانتے ہو کہ اہل بیت (ع) کون ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور ایسے پاک رکھا جو حق ہے؟

شامی: معاویہ اور آل ابی سفیان ہیں۔

حاضر ین کو اس کی با ت پر بڑا تعجب ہوا، اور امام حسن(ع) نے مسکراتے ہوئے فرمایا: میں علی بن ابی طالب(ع) کا فرزند حسن (ع) ہوں جو کہ رسول اللہ (ص) کے ابن عم اور بھائی ہیں۔میری مادر گرامی فاطمہ زہرا سیدہ نساء العالمین، میرے جد رسول اللہ سید الانبیاء والمرسلین(ص)، میرے چچا سید الشہداء جناب حمزہ اور جعفر طیار(ع) ہیں خدا نے ہمیں پاک و پاکیزہ رکھا ہے اور تمام مسلمانوں ہماری محبت واجب کی ہے۔ خدا اور اس کے ملائکہ ہم پر صلوات بھیجتے ہیں اور مسلمانوں کو ہم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے ، میں اور میرے بھائی حسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اس کے علاوہ امام حسن(ع) نے اہل بیت(ع) کے کچھ اور فضائل شمار کرائے اور اس حقیقت سے آگاہ کیا تو شامی آپ کا محب ہوگیا اور رونے لگا اور امام حسن(ع) کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور  اپنی باتوں پشیمان ہوا اور کہا:

قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ جب میں مدینہ میں داخل ہوا تھا اس وقت روئے زمین پر آپ میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے اور اب میں آپ(ع) کی محبت و مودت اور آپ (ع)کے دشمنوں سے برءت کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کروںگا۔

امام حسن(ع) اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

"تم اسے قتل کرنا چاہتے تھے اور اب وہ ذبح گیا کیوں کہ اس نے

۲۳

حق کو پہچان لیا اور جو حق کو پہچان لیتا ہے اس سے عناد نہیں رکھا جاتا اور شام میں لوگ ایسے ہی ہیں اگر وہ حق کو پہچان لیتے تو ضرور اس کی اتباع کرتے۔"

اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:

إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (سوره یس آیت11)

آپ(ص)  تو صرف ذکرِ (قرآن) کا اتباع کرنے والے اور غیب کے خدا سے ڈرنے والے کو ڈرا سکتے ہیں۔ پس اسی کو بخشش اور اجرِ عظیم کی خوشخبری دے دو ۔

جی ہاں اسحقیقت سے اکثر لوگ نا واقف ہیں، افسوس کہ بہت سے لوگ ایک عمر تک حق سے عداوت و معاندت رکھتے ہیں لیکن جب انھیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم خطا پر ہیں تو فورا توبہ و استغفار میں مشغول ہو جاتے ہیںاور یہ تو ہر انسان پر واجب ہے جیسا کہ مقولہ بھی ہے،حق کی طرف بڑھنے  میں فضیلت ہے۔

مصیبت ان کی ہے جو اپنی آنکھوں سے حق دیکھتے  ہیں۔ محسوس کرتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی دنیوی اغراض اور پوشیدہ کینہ کی بنا پر حق سے برسر پیکار رہتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے متعلق رب العزَت کا ارشاد ہے:

تم انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے والے نہیں ۔" (یس آیت 10)

ان کےساتھ وقت خراب کرنے اور انکے حال پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہارے اوپر صرف یہ واجب ہے کہ ہم ان منصف مزاج افراد کے لئے ہر شئی کو واضح کردیں جو حق کے متلاشی ہیں اور حق تک پہنچنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے  ربَ العزَت کا ارشاد ہے:

تم تو صرف اس شخص کو ڈراسکتے ہو جو نصیحت قبول کرے اور ان دیکھےخد ا کا خوف

۲۴

رکھے لہذا تم بھی اسے مغفرت کی اور عظیم اجر کی بشارت دیدو۔

دنیا کے تمام روشن خیال شیعوں پر واجب ہے کہ وہ ملت کے نونہالوں کو حق سے متعارف کرانے کے سلسلے میں اپنا وقت اور اموال خرچ کریں کیونکہ ائمہ اہل بیت(ع) صرف شیعوں کا ذخیرہ نہیں ہیں بلکہ وہ سارے مسلماںوں کے لئے ائمہ ھدی اور تاریکی کو چھاٹنے والے چراغ ہیں۔

جب تک عام مسالمان ہی ائمہ کو نہیں پہچانیں گے خصوصا اہل سنت کے روشن خیال جوان بھی ان سے بے خبر رہیں گے تو اس وقت تک شیعہ عند اللہ جواب دہ ہیں۔

اسی طرح جب تک لوگ کافر وملحد ہیں اور اس دین خدا سے بے خبر ہیں جسے محمد سید المرسلین(ص) لائے تھے اس تک سارے مسلمان عند اللہ جواب دہ ہیں۔

۲۵

اہلِ سنت کا تعارف

مسلمان کا وہ بڑا فرقہ جو پوری دنیا میں مسلمانوں کا ۳/1حصَہ ہے اور ائمہ اربعہ ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد ابن حنبل کی تقلید کرتا ہے ۔ اور انہی کے فتووں کے مطابق عمل کرتا ہے۔

اس فرقہ کی بعد میں ایک اور شاخ نکلی جس کو سلفیہ کہا جاتا ہے اس کے خطوط ابن تیمیہ نے مقرر کئے اسی لئے یہ لوگ ابن تیمیہ کو  مجدد السنہ کہتے ہیں۔ پھر فرقہ وہابیت وجود میں آیا اس کے بانی محمد بن عبد الوہاب ہیں اور سعودی عرب کا یہی مذہب ہے۔

اور جب سب ہی اپنے کو اہل سنت کہتے ہیں اور کبھی "والجماعت" کا بھی اضافہ کرلیتے ہیں۔ اور اہل سنت والجماعت کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔

تاریخی بحث سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ جس کو اہل سنت خلافتِ راشدہ یا خلفائے راشدین کہتے ہیں۔وہ "ابوبکر، عمر، عثمان" اور علی(ع) سے عبارت ہے( آنے والی بحثوں سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اہل سنت والجماعت حضرت علی (ع) کو خلفائے راشدین

۲۶

 میں شمار نہیں کرتے تھے۔ بلکہ عرصہ دراز کے بعد شمار کرنا شروع کیا ہے) اہل سنت ان کی امامت کا اعتراف کرتے ہیں خود ان کے زمانہ میں بھی انھیں امام تسلیم کرتے تھے اور اس زمانہ میں بھی انھیں امام مانتے ہیں۔

اور جو شخص خلافتِ راشدہ کا منکر اور اس کو غیرِ شرعی قرار دیتا ہے اور نص سے حضرت علی(ع) کی خلافت ثابت کرتا ہے وہ شیعہ ہے۔

یہ بھی واضح ہے کہ ابوبکر سے لے کر خلفاء بنی عباس تک تمام حکام ایل سنت سے راضی تھے اور تمام باتوں میں ان سے متفق تھے۔ لیکن شیعیان علی(ع) پر غضب ناک رہتے تھے اور ان سے انتقام لینے کے درپے رہتے تھے۔

اس بنیاد پر وہ علی (ع) اور ان کے شیعوں کو اہل سنت والجماعت میں شمار نہیں کرتے تھے۔ گویا اہل سنت والجماعت والی اصطلاح شیعوں کی ضد گھڑی گئی تھی۔ اور رسول خدا(ص)  کی وفات کے بعد ملتِ اسلامیہ کے شیعہ و سنی میں تقسیم ہونے کا سبب بنی تھی۔

اور جب ہم تاریخی موثق مصادر کےذریعہ اسباب کا تجزیہ کرینگے اور حقائق سے پردہ ہٹائیں گے تو معلوم ہوگا کہ فرقوں کی تقسیم رسولِ خدا کی وفات کے فورا ہی بعد ہوگئی تھی۔ جبکہ ابوبکر تختِ خلافت پر بیٹھ چکے تھے اور صحابہ کی اکثریت نے ان کی بیعت کرلی تھی۔ جبکہ علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اور صحابہ میں سے وہ چند افراد جن میں اکثر غلام تھے۔ س خلافت کے مخالف تھے۔ واضح ہے کہ بر سرِ اقتدار حکومت نے ان لوگوں کو مدینہ سے دور رہنے پر مجبور کردیا۔ اور بعض کو جلاوطن  کردیا اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھنے لگے اور ان سے مقابلہ کے لئے وہی سلوک روا رکھا جو کہ کوفروں کے ساتھ روا رکھا جاتا تھا اور ان پر وہی اقتصادی ، اجتماعی اور سیاسی پابندیاں عائد کیں جو کافروں پر عائد کی جاتی تھیں۔

۲۷

ظاہر ہے کہ آج کے اہل سنت والجماعت اس زمانہ میں کھیلی جانے والی سیاست کے پہلوؤں کا ادراک نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس دور کے اس بغض و عداوت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کہ رسول(ص) کے بعد تاریخِ بشریت کی عظیم شخصیت کے معزول کرنے کا سبب بنا تھا، آج کے اہل سنت والجماعت کا یہی عقدیدہ ہے کہ خلافائے راشدین کے زمانی میں تمام امور کتابِ خدا کے مطابق انجام پاتے تھے۔ لہذا وہ خلفائے راشدین کو ملائکہ صفت سمجھتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی حسد و کینہ نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ ہی ان میں پست خصلت کا شائبہ ہوتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اہل سنت تمام صحابہ کے بارے میں بالعموم اور خلفائے راشدین کے بارے میں بالخصوص شیعوں کے نظریات کی تردید کرتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے اپنے علماء کی لکھی ہوئی تاریخ بھی نہیں پڑھی ہے بلکہ انھوں نے اسلاف سے عام صحابہ کی خصوصا خلفائے راشدین کی مدح سرائی کو سنکر کافی سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ چشم بینا اور فراخ دلی سے کام لیتے اور اپنی تاریخ اور حدیثوں کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے اور ان میں حق جوئی کا جذبہ ہوتا تو یقینا ان کا عقیدہ بدل جاتا۔ اور یہ چیز صرف صحابہ کے عقیدہ ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ اور بھی بہت سے احکام کو صحیح سمجھتے ہیں جبکہ وہ صحیح نہیں ہیں۔

میں اپنے سنی بھائیوں کے لئے کچھ ایسے حقائق پیش کرتا ہوں جن سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور اختصار کے ساتھ ایسے روشن و آشکار نصوص کی نشادہی کرتا ہوں جو باطل کو مٹاتی اور حق کو ظاہر کرتی ہیں۔ امید ہے کہ یہ مسلمانوں کے اختلاف و تشتت کے لئے مفید دواء ثابت ہوں گی اور انھیں سلکِ اتحاد میں پیرونے کا باعث قرار پائیں گی۔

لاریب آج کے اہل سنت والجماعت متعصب نہیں ہیں اور نہ ہی وہ امام علی(ع) اور اہل بیت (ع) کے مخالف ہیں لیکن ان سے محبت و احترام کے ساتھ ساتھ ان کے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اور اس اعتبار سے ان کی اقتداء کرتے ہیں کہ ان سب نے رسول(ص) کو دیکھا

۲۸

ہے۔

اہل سنت والجماعت اولیاء اللہ سے محبت اور ان کے دشمنوں سے برائت والے قاعدے پر عمل نہیں کرتے بلکہ وہ سب  سے محبت رکھنے کے قائل ہیں وہ معاویہ بن ابی سفیان کو بھی دوست رکھتے ہیں اور حضرت علی(ع) کو بھی۔

انھیں اہل سنت والجماعت کا چمکتا ہوا نام بہت ہی پسند ہے۔ لیکن اسکی آڑ میں کھیلی جانے والی سازش سے وہ بے خبر ہیں اگر انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ سنت محمدی(ص)  محض علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔ اور یہی وہ باب ہیں جس سے سنتِ محمدی(ص) تک پہونچا جاتا ہے۔ جبکہ اہل سنت ہر چیز میں انکی مخالفت کرتے ہیں اور وہ بھی ہر چیز میں ان کے مخاف ہیں۔ تو وہ اپنا موقف بدک دیتے اور سنجیدگی سے اس موضوع پر بحث کرتے اور پھر شیعیانِ علی(ع) و شیعیانِ رسول(ص) کے علاوہ اہل سنت کا کہیں  نشان نہ ملتا۔ لیکن ان تمام چیزوں کے لئے ان بڑی سازشوں سے پردہ ہٹانا ضروری ہے۔ جنھوں نے سنتِ محمدی(ص) سے لوگوں کو دور رکنھے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اسے جاہلیت والی بدعتوں سے بدل دیا ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے مصیبت اور صراط مستقیم سے ہٹانے کا سبب قرار پائیں اور ان میں تفرقہ و اختلاف کاباعث بنیں اور بعض نے بعض کو کافر کہا  اور ایک نے دوسرے سے جنگ کی یہی چیزیں ان کے علم اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کا باعث بنیں اور اس طرح ان پر غیروں کی جرائت بڑھ گئی اور وہ انھیں حقیر و پست شمار کرنے لگےاور ہمہ وقت جنگ کی دعوت دینے لگے۔

شیعہ و سنی کے اس مختصر تعارف کو پیش کرنے کے بعد اس بات کو بیان کردینا ضروری ہے کہ شیعہ، سنت کی ضد نہیں ہے۔ جیسا کہ عامۃ الناس کا خیال ہے جبکہ وہ خود کو فخر سے اہل سنت کہتے ہیں اور دوسروں کو سنت کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ صرف ہم ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحیح سنت سے متمسک ہیں کیونکہ شیعوں نے اسے اس  کے باب علی ابن ابی طالب(ع) سے حاصل کیا

۲۹

ہے اور ان (شیعوں ) کا عقیدہ ہے۔ رسول (ص) تک اسی کی رسائی ہوسکتی ہے۔ جو علی (ع) کے واسطہ سے جاتا ہے۔

ہم عادت کے مطابق حق تک رسائی کے لئے غیر جانب دار ، راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں قارئین محترم کے لئے ہم تاریخی واقعات پیش کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں بھی دلیل و برہان پیش کریں گے کہ شیعہ ہی اہل سنت ہیں جیسا کہ ہم نے کتاب کا نام بھی یہی رکھا ہے۔

اس  کے بعد قارئین کو حاشیے اور رائے کی آزادی کا اختیار ہے۔

۳۰

شیعہ اور سنی کی تقسیم

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب رسول(ص) مسلمانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے لئے لکھ دینا چاہتے تھے۔ لیکن عمر ابن خطاب اور دیگر صحابہ نے رسول(ص) کو قلم دوات دینے سے انکار کردیا تھا۔(بخاری و مسلم میں رزیہ یوم الخمیس مشہور ہے)

اور آپ کی عظمت و عزَت کا کوئی احترام نہیں کیا تھا اور نہایت ہی سنگ دلی سے پیش آئے تھے یہاں یک کہ آپ(ص) پر ہذیان کا اتہام لگادیا تھا اور صاف کہدیا تھا ہمیں رسول(ص)  کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔

اس حادثہ سے کہ جس کو ابن عباس مصیبت کا دن کہا کرتے تھے، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکثر صحابہ سنتِ نبوی(ص) کے مخالف تھے اور انھیں اس ی ضرورت نہیں تھی ان کا یہی کہنا تھا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔

لیکن علی(ع) اور دیگر چند صحابہ جن کو رسول (ص) نے علی(ع) کا شیعہ کہا تھا وہ رسول (ص) کے

۳۱

احکام کی اطاعت کررہے تھے اور وہ آپ کے کل اقوال وافعال کو واجب الاتباع سمجھتے تھے بالکل ایسے ہی جیسے کتابِ خدا کو واجب الاتباع سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

ـاالّا الذن آمنوا اطعوا الل واطعوا الرسول ـ

"ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرو۔"(نساء)

عمر بن خطاب کی عادت کو تو سارے مسلمان جانتے ہی ہیں کہ وہ ہمیشہ رسول(ص) سے ٹکراتے رہے ( اہل ذکر میں ہم نے نبی(ص) سے عمر کی مخالفت کو تفصیل سے بیان کیا ہے) زبان حال کہتی ہے کہ عمر بن خطاب سنت نبوی(ص) کی قید کو برداشت نہیں کرتے تھے اور۴ یہ بات قارئین ان کی خلافت کے زمانہ میں صادر ہونے والے احکام سے بخوبی سمجھ لیں گے وہ نص نبوی(ص) کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے تھے( صرف یہی نہیں ہے) بلکہ خدا کی روشن نص کے مقابلہ میں بھی اجتہاد کر لیتے تھے اور حلالِ خد ا کو حرام اور حرام خدا کو حلالِ خدا قرار دیتے تھے۔ ( مولفۃ القلوب کا حصہ اور متعہ حج و متعہ نساء کو حرام قرار دیا۔ جبکہ خدا نے انھیں حلال کیا تھا۔ تین طلاقوں کو ایک طلاق کے ذریعہ حلال کردیا جبکہ خدا نے اسے حرام قرار دیا تھا۔)

اور زبان حال یہ بھی بتارہی ہے کہ صحابہ میں سے عمر کی تائید کرنے والوں کا بھی وہی مسلک تھا اور ان کے چاہنے والوں میں سلف و خلف نے بدعت حسنہ میں ان کی اقتداء کی ہے جیسا کہ انھوں نے خاد اسے (مثلا تراویح کو)  بدعت حسنہ کہا۔ آیندہ بحثوں میں اس بات کو واضح کیا جائے گا کہ صحابہ نے سنتِ نبی(ص) کو چھوڑدیا تھا۔ اور عمر بن خطاب کی سنت کا اتباع کرنے لگے تھے۔

۳۲

مخالفت نبی(ص) کا دوسرا واقعہ

رسول (ص) نے اپنی وفات سے دو روز قبل ایک لشکر تشکیل دیا اور اسامہ کو اسکا کمانڈر مقرر کیا اور تمام صحابہ کو اس لشکر میں شریک ہونے کا حکم دیا لیکن صحابہ اس میں شریک نہ ہوئے۔

یہاں تک کہ رسول (ص) کو صحابہ نے مطعون کیا کہ آپ(ص) نے ہمارا سردار 17 سال کے بے ریش نوجوان کو مقرر کردیا ہے۔

ابوبکر و عمر اور دوسرے بعض نے خلافت کے چکر میں اس لشکر میں شرکت نہیں کی باوجود اس کے کہ رسول(ص) نے لشکر اسامہ میں شریک نہ ہونے والوں پر لعنت کی تھی ۔ (جیش اسامہ سے تخلف کرنے والوں پر خدا لعنت کرے ۔ملل والنحل  شہرستانی، ج۱، ص29)

لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی(ع) اور ان کے پیروکاروں کو جیش اسامہ میں شریک ہونے کا حکم نہیں دیا تھا اور یہ کام آپ(ص) نے اختلاف کو  ختم کرنے کے لئے کیا تھا تاکہ حکمِ خدا سے ٹکرانے والوں کو مدینہ سے باہر بھیج دیا جائے ظاہر ہے کہ وہاں سے یہ

۳۳

 لوگ اسی وقت لوٹ پائیں گے جب حضرت علی(ع) کی خلافت مستحکم ہوچکی ہوگی، خلافت کے بارے میں یہ تھا خدا اور رسول(ص) کا ارادہ، لیکن قریش کے زیرک و چالباز افراد اس بات کو سمجھ گئے اور انھوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ ہم مدینہ سے باہر نہ جائیں گے چنانچہ انھوں نے اتنی سستی کی کہ رسول (ص) کا انتقال ہوگیا اور وہ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے اور رسول(ص) کی خواہش کو ٹھکرادیا یادوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انھوں نے سنتِ رسول(ص) کا انکار کردیا۔

اس واقعہ سے یہ بات بھی ہم پر عیاں ہوجاتی ہے  کہ ابوبکر، عمر، عثمان، عبدالرحمن بن عوف، ابوعبیدہ،عامر بن جراح سنتِ نبی(ص) کے منکر تھے۔ وہ دنیوی اور خلافت کی مصلحت کی خاطر بے دھڑک اجتہاد کرلیا کرتے تھے۔ اور اس سلسلہ میںخدا اور رسول(ص) کی معصیت سے بھی نہیں ڈرتے تھے۔

لیکن علی(ع) اور ان کا اتباع کرنے والے سنتِ نبی(ص) کے پابند تھے اور جہاں تک ممکن ہوتا تھا وہ سنت پر عمل کرتے تھے۔ چنانچہ ان سنگین حالات میں بھی علی(ع) کو وصیت رسول(ص) پر عمل پیرادیکھتے ہیں۔ جبکہ تمام صحابہ رسول(ص) کو بے غسل و کفن چھور کر امر خلافت طے کرنے کے لئے سقیفہ پہونچ گئے تھے۔ علی(ع) رسول(ص) کے  غسل اور تجہیز و تکفین اور تدفین کے کاموں میں مصروف تھے۔ علی(ع) رسول(ص)  کے ہر حکم پر عمل کرتے رہے اور اس سے انھیں کوئی باز نہیں رکھ سکتی تھی اگرچہ آپ(ع) بھی سقیفہ میں جاسکتے تھے۔ اور صحابہ کے منصوبے کو خاک میں ملاسکتے تھے لیکن آپ کے پیشِ نظر سنتِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام اور اس کے مطابق عمل کرنا تھا۔

لہذا آپ(ع) اپنے ابن عم کے جنازہ کے پاس رہے۔ہرچند کہ خلافت سے دست بردار ہونا پڑا۔

۳۴

یہاں مختصر وقفہ کے لئے سہی لیکن اس خلقِ عظیم کا جائزہ لیان ضروری ہے جو کہ علی(ع)  کو مصطفی(ص) سے ورثہ میں ملا تھا۔

علی علیہ السلام سنتِ بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے لئے خلافت کو ٹھکرادیتے ہیں اور دوسرے خلافت کی طمع میں سنتِ نبی(ص) کو ٹھکرادیتے ہیں۔

۳۵

شیعہ اہل سنت کے مقابلہ میں

وہ اہم ترین موقف ہے جو کہ اکثر صحابہ نے سقیفہ میں اس لئے اختیار کیا تھا تاکہ خلافت علی(ع) کے سلسلہ میں نبی(ص) کی اس صریح نص کی مخالفت کریں۔ جس کے ذریعہ آپ نے حجۃ الوداع کے بعد روزِ غدیر علی(ع) کو خلیفہ مقرر کیا تھا اور یہ تمام صحابہ اس روزموجود تھے۔

باوجود یکہ  خلافت کے سلسلہ میں انصار و مہاجرین میں اختلاف تھا لیکن آخر میں سنتِ نبی(ص) کو چھوڑ دینے اور ابوبکر کو خلافت کے لئے پیش کر دینے پر سب متفق ہوگئے تھے۔ اور یہ طے کر لیا تھا کہ خلیفہ ابوبکر ہی رہیں گے ۔ اگر چہ اس سلسلے میں بہت سے لوگوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے اور ابوبکر کی خلافت سے اختلاف کرے اسے قتل کردیا جائے خواہ وہ نبی(ص) کا قریب ترین ہی کیوں نہ ہو۔ ( اس کی دلیل فاطمہ زہرا(س) کے گھر کو جلادینے کی دھمکی ہے)۔

اس حادثہ میں بھی صحابہ کی اکثریت نے سنتِ نبی(ص) سے انکار کرنے اور اسے اپنے اجتہاد سے بدلنے میں ابوبکر و عمر کی مدد کی۔ ظاہر ہے یہ سب اجتہاد کے حامی تھے۔

اسی طرح مسلمانوں کی اس اقلیت نے ایک شکل اختیار کی جو کہ سنتِ نبی(ص) سے

۳۶

متمسک تھی اور ابوبکر کی بیعت سے انکار کرچکی تھی۔ یعنی علی(ع) اور ان کے شیعہ۔

جی ہاں مذکورہ تین حوادث کے بعد اسلامی معاشرہ میں دو فریق یا دو مخصوص پارٹیاں وجود میں آگئیں، ایک ان میں سے سنتِ نبی(ص) کا سالک اور اس کے نفاذ کا قائل تھا۔ دوسرا سنتِ نبی(ص) کو اپنے اجتہاد سے بدل دیتا تھا ۔ یہ اکثریت والے اس گروہ کا کام تھا جو حکومت تک رسائی چاہتا تھا یا اس میں شرکت کے خواہاں تھے۔ اب ایک پارٹی یعنی علی(ع) اور ان کے شیعہ سنی قرار پائے ۔ اور دوسری پارٹی یعنی ابوبکر و عمر اور دوسرے صحابہ اجتہادی قرار  پائے۔

دوسری پارٹی نے ابوبکر کی قیادت میں پہلی پارٹی کی عظمت و شوکت ختم کرنے میں مہم شروع کی اور اپنے مخالف کو زیر کرنے لے لئے متعدد تدبیریں سوچیں۔

اقتصادی حملہ

برسر اقتدار پارٹی اپنے مخالف گروہ کے رزق و اموال پر حملہ آور ہوتی ہے۔ چنانچہ ابوبکر نے جنابِ فاطمہ زہرا(س) سے فدک چھین لیا۔ ( کتب تواریخ میں فدک کا قصہ اور جناب فاطمہ (س) کا ابوبکر سے ناراض ہونا اور اسی حالت میں دارِ فانی سے کوچ کرنا مشہور ہے۔) اور اسے تمام مسلمانوں کی ملکیت قرار دے دیا۔ اور کہا یہ فدک ٖصرف فاطمہ(س) سے مخصوص نہیں ہے جیسا کہ ان کے والد نے فرمایا ہے۔ ابوبکر نے فاطمہ(س) کو ان والد کی میراث سے محروم کردیا اور کہا ، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا خمس بھی بند کردیا جبکہ رسول(ص) نے خمس اپنے اور اپنے اہل بیت(ع) سے مخصوص کیا تھا کیوں کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔

اس طرح علی(ع) کو اقتصادی لحاظ سے کمزور بنادیا وہ فدک غصب کرلیا کہ جس سے خاصا نفع ہوتا تھا۔ ان کے ابن عم کی میراث سے محروم کردیا۔ خمس بھی بند کردیا۔ چنانچہ علی(ع) ان

۳۷

کی بیوی اور بچے پیٹ بھرنے کو محتاج ہوگئے اور یہ ٹھیک وہی بات ہے جو ابوبکر نے جناب زہرا(س) سے کہی تھی: ہاں خمس میں آپ کا حق ہے لیکن میں اس سلسلہ میں وہی عمل کروںگا، جو رسول(ص) کیا کرتے تھے۔ ہاں آپ(ع) کے روٹی کپڑے کا انظام کیا جائے گا۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ حضرت علی(ع) کا اتباع کرنے والے اور ان کے پیروکار وں میں اکثر غلام تھے جن کے پاس دولت وثروت نام کے کوئی چیز نہ تھی اور حکمران  پارٹی کو بھی ان سے خوف نہیں تھا۔ اور لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ مالدار کی طرف جھکتے ہیں فقیر کو حقیر شمار کرتے ہیں۔

معاشرہ کی نظر وں میں گرانا

حکمران پارٹی نے اپنے حریف علی ابن ابی طالب (ع) کی پارٹی کو کمزور بنانے  کے لئے معاشرہ میں ان کی عظمت کو مخدوش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ابوبکر و عمر نے پہلا اقدام یہ کیا کہ لوگوں کو رسول (ص) کے قرابت داروں کے احترام و تعظیم سے منع کردیا۔

چنانچہ عترت طاہرہ کے سردار و رئیس نبی(ص) کے ابنِ عم علی(ع) کو جو فضیلت خدا نے عطا کی تھی صحابہ بھی اس سے حسد کرتے تھے۔ چہ جائیکہ منافقین ! وہ تو موقع کی تلاش میں تھے ہی۔

نبی(ص) کی امت میں تنہا فاطمہ(س)  آپ(ص) کی یادگار تھیں جن کو خود نبی (ص) نے ام ابیہا اور عالمین کی عورتوں کی سردار کہا تھا۔ لہذا  سارے مسلمان فاطمہ(س) کا احترام کرتے تھے اس لحاظ سےبھی مسلمان انھیں معزز سمجھتے تھے کہ رسول(ص) ان کی تعظیم کرتے تھے اور ان احادیث کے لحاظ سے

۳۸

بھی جو رسول(ص) نے فاطمہ(س) کی فضیلت و شرافت اور طہارت کے بارے میں فرمائی تھیں۔

 لیکن ابوبکر و عمر نے لوگوں کے دلوں سے یہ احترام نکال کر پھینک دیا۔ اب عمر ابن خطاب بے دھڑک خانہ فاطمہ(س) پر آگ اور لکڑیاں لے کر پہونچ گئے اور قسم کھا کر کہا اگر ابوبکر کی بیعت نہیں کروگے تومیں گھر کو رہنے والوں سمیت پھونک دوں گا۔ علی(ع) و عباس اور زبیر جنابِ فاطمہ(س) کے گھر میں تھے کہ ابوبکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا کہ ان کو فاطمہ(س) کے گھر سے نکال لاؤ، اگر وہ آنے سے انکار کریں توان سے جھنگ کرو، عمر حکم سنتے ہی آگ لے کر پہونچ گئے، تاکہ گھر  کو اس کے رہنے والوں سمیت جلادیں، فاطمہ زہرا(س) پسِ در آئیں اور کہا خطاب کے بیٹے کیا ہمارے گھر کو آگ  لگانے آئے ہو؟

عمر نے جواب دیا۔ ہاں یا تم بھی وہی کرو جو امت نے کیا ہے (یعنی ابوبکر کی بیعت کرو)(العقد الفرید، ابن المبدربہ ، ج۴)

جب فاطمہ زہرا (س) عالمین کی عورتوں کی سردار، جیسا کہ صحاح اہل سنت میں منقول ہے اور ان کی فرزند حسن(ع) و حسین(ع)   سید ا شباب اہلِ الجنۃ، ریحانہ نبی(ص)  کو بھی وہ حقیر و پست تصور کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عمر ابن خطاب  نے لوگوں کے سامنے قسم کھا کر کہا اگر یہ لوگ ابوبکر کی بیعت سے انکار کردیں گے تو میں گھر کے ساتھ ان کو بھی پھونک دوںگا۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے قلوب میں ان معزز افراد( فاطمہ، حسن، حسین ) کے احترام کا باقی رہنا یا حضرت علی(ع) کی عظمت کا  سمجھنا مشکل تھا۔ پھر یہ کہ لوگ علی(ع) سے پہلے ہی سے بغض رکھتے تھے۔ مزید برآں وہ حزبِ مخالف کے رئیس بھی تھے اور پھر آپ کے پاس مالِ دنیا میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے لوگ آپ کی طرف مائل ہوتے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث نقل کی ہے کہ:

فاطمہ (س) نے ابوبکر سے  اپنے والد  رسول اللہ (ص) کی اس میراث کا مطالبہ کیا جو خدا نے رسول(ص) کو مدینہ ، فدک اور خیبر کے خمس کی فئ عطا کی تھی، ابوبکر نے میراث دینے سے منع

۳۹

کردیا ، تو فاطمہ(س) ابوبکر سے نارض ہوگئیں اور ان (ابوبکر) سے قطع تعلقی کر لی اور مرتے دم تک کلام نہ کیا، نبی(ص) کے بعد فقط چھ ماہ زندہ رہیں، جب انتقال فرمایا تو آپ(ع) کے شوہر علی(ع) نے رات کی تاریکی میں غٖسل دیا، کفن پہنایا اور دفن کردیا اور ابوبکر کو اس کی اطلاع نہ دی۔

حیاتِ فاطمہ(س) میں تو علی (ع) کی عزت و عظمت تھی۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد لوگوں کے رخ بدل گئے تو علی (ع) نے ابوبکر سے مصالحت کر لی۔ ہاں حیاتِ فاطمہ (س) میں مصالحت نہ کی تھی۔(صحیح بخاری، جلد۵، ص84، باب غزوہ خیبر صحیح مسلم، کتاب الجہاد)حزبِ مخالف علی (ع) کی اقتصادی ناکہ بندی اور مالی حالت بگاڑ کر اور سوشل بائیکاٹ کر کے کامیاب ہوگیا۔ علی (ع) کی حیثیت لوگوں کی نظروں سے ختم ہوگئی۔ اب کوئی قدر ومنزلت نہ تھی۔ خصوصا جنابِ زہرا (س) کی وفات کے بعد تو لوگوں کے رخ بدل گئے تھے۔ چنانچہ آپ (ع) ابوبکر سے مصالحت کرنے پر مجبور ہوگئے جیسا کہ بخاری و مسلم دونوں نے روایت کی ہے۔

بخاری کی عبارت " کہ لوگوں کے رخ بدل گئے تھے" سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول(ص) اور فاطمہ (س) کی وفات کے لوگوں کو علی (ع) سے کتنی دشمنی ہوگئی تھی اور آپ (ع) کتنے سخت ترین حالات سے دوچار تھے۔ شاید بعض صحابہ تو آپ پر سب و شتم بھی کرتے تھے اور مضحکہ اڑاتے تھے۔ کیوں کہ چہرہ پر نفرت کے آثار اسی شخص کو دیکھنے سے نمودار ہوتے ہیں۔ جس سے انسان خوش نہیں ہوتا۔

اس فصل میں ہم بالترتیب علی(ع) کی تاریخ اور مظلومیت کو جیسا پاہتے تھے بیان نہیں کرسکتے ۔ اگر چہ وہ تلخ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس علی (ع) کو لوگوں نے نظر انداز کردیا جو سنّتِ نبی(ص) کا علم بردار اور باب علم رسول اللّہ(ص) تھے اور ان کے مدِ مقابل اجتہادی گروہ کو جو کہ سنت نبی(ص) کا انکار کرتا تھا حکومت مل گئ اور اکثر صحابہ نے اسکی تائید کردی۔

۴۰