شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105332
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105332 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جو آپ(ع) کی اقتدا کرتے ہیں کیونکہ رسول(ص) کا ارشاد ہے۔

اے علی(ع) قیامت کے روز آپ(ع) اور آپ(ع) کے شیعہ ہی کامیاب ہونگے۔ ( در منثور جلال الدین سیوطی۔ سورہ بینہ)

اور جو حق  کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابلِ اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی ہدایت کی جائے ۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے اور کیسا فیصلہ کررہے ہو۔( یونس /۳۵)

۳۲۱

کیا حدیث قرآن کی مخالف ہے؟

شیعہ اور اہل سنت والجماعت میں سے طرفین کے عقیدہ کی بحث و تحقیق کے بعد ہم نے  یہ محسوس کیا ہے کہ ششیعہ اپنے تمام فقہی امور میں کتاب ِ خدا اور سنت نبوی(ص) کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کسی چیز سے سروکار نہیں رکھتے۔

وہ قرآن کو پہلا رتبہ دیتے ہیں اور حدیث کو دوسرا رتبہ دیتے ہیں اور اسے اچھی طرح پرکھتے ہیں اور کتابِ خدا سے مطابقت کرتے ہیں ۔ پس جو حدیث کتاب ِخدا کے موافق ہوتی ہے اسے  لے لیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور جو کتاب خدا کےخلاف ہوتی ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا کوئی وزن نہیں سمجھتے ۔ ( قسم اپنی جان کی یہ وہ بہترین منطق ہےجس نے ان پر محدثین کا راستہ بند کردیا ہے جنھوں نے تدلیس حدیث میں شہرت پائی تھی اور اسے رسول(ص) کی  طر ف منسوب کردیا تھا جب کہ آپ(ص)  اس سے بری ہیں۔

اصل میں شیعوں کے اس نظریہ  کا سرچشمہ وہ حدیث ہے جو ائمہ اہل بیت(ع) نے اپنے جد رسول (ص) سے نقل کی ہے۔ آپ (ص) کا ارشاد ہے: جب تمھارے پاس کوئی حدیث آئے تو تم ( پہلے)

۳۲۲

اسے کتاب خدا  پر رکھ لو۔ اگر وہ اس کے موافق ہے تو اس پر عمل کرو اور اگر مخالف ہے تو دیوار پر دے مارو۔

امام صادق (ع) نے متعدد بار فرمایا : جو حدیث قرآن کے موافق نہیں ہے وہ جھوٹی ہے۔

اصول کافی میں منقول ہے کہ رسول (ص) نے منیٰ میں لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو! میری طرف سے جوبات تم تک پہونچتی ہے۔ ( اگر) وہ کتاب خدا کےموافق ہے تو وہ واقعا میرا قول ہے۔ اور جو بات میری طرف سے نقل ہو اور وہ کتابِ خدا کے خلاف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے۔

شیعہ امامیہ نے اسی مضبوط اساس پر اپنے عقائد اور فقیہ کی تعمیر کی ہے۔ پس جب حدیث  اسناد کے لحاظ سے صحیح ہوتو اس وقت اسے اس میزان پر تولنا ضروری ہے اور اس کتاب پر پرکھنا ضروری ہے جس میں کسی بھی طرف سے باطل داخل نہیں ہوسکتا ۔

فرق اسلامیہ کے درمیان صرف شیعہ ہی ایک ایسا فرقہ ہے جس نے یہ شرط رکھی ہے خصوصا باب تعارض میں۔ یعنی جہاں دو (۲) روایات و اخبار ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔

شیخ مفید نے اپنی " تصحیح الاعتقاد " نامی کتاب میں تحریر کیا ہے، کتابِ خدا ،احادیث و روایات پر مقدم ہے اور اس کےذریعہ اخبار و احادیث کے ضعف و صحت کا علم حاصل کیا جا تا ہے پس جو اس (قرآن) پر پوری اتر ے وہ حق ہے اور اس کےخلاف باطل ہے۔

اور اس شرط کی بنا پر حدیث کو کتابِ خدا پر تولتے ہیں لہذا اہل سنت والجماعت سے شیعہ بہت سے فقہی احکام اور عقائد میں ممتاز ہیں۔

شیعوں کے عقائد اور احکام کو ہر ایک محقق کتاب خدا کے موافق پائے گا۔ اس کے برخلاف اہل سنت والجماعت کے عقائد اور احکام کو صریح  طور پر قرآن کے خلاف پائے گا۔ عنقریب ہم اس بحث کو تفصیلی طور پر بیاں کریں گے اور دلیل سے ثابت کریں گے۔

۳۲۳

تحقیق کرنے والا اس بات کو بھی اچھی طرح محسوس کرے گا کہ شیعہ اپنی کسی بھی حدیث کی کتاب کو مکمل طور پر صحیح نہیں کہتے ہیں۔ اور نہ ہی اسے قرآن کے برابر ٹھہراتے ہیں جیسا کہ اہل سنت والجماعت ان تمام حدیثوں کو جن کو بخاری و مسلم نےجمع کیا ہے صحیح کہتے ہیں باوجودیکہ ان میں سینکڑوں حدیثیں ایسی ہیں جو سراسر کتاب خدا کے خلاف ہیں۔

آپ کی اطلاع کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی کتاب کافی باوجود اپنے مؤلف محمد بن یعقوب کلینی کی قدر و منزلت کے اور علم احادیث میں انکے تبحر علمی کے باوجود شیعہ علما نے ایک روز بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ جو کچھ کلینی نے جمع کیا  ہے وہ سب صحیح ہے بلکہ اس کے برعکس بعض شیعہ علما نے اس کے نصف سے زیادہ حصہ کو غیر صحیح قرار دیا ہے ۔ خود  مؤلف نےیہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ جو کچھ میں اس کتاب میں جمع کیا ہے وہ سب صحیح ہے۔

شاید یہ سب کچھ سیرت خلفا کا نتیجہ ہے پس  اہل سنت والجماعت نےجن ائمہ کی اقتداء کی وہ احکام قرآن و سنت سے جاہل تھے یا جانتے  تھے لیکن بعض اسباب کی بنا پر اپنی رائے سے اجتہاد کر لیتے تھے ان میں سے بعض اجتہادات کا ہم گذشتہ بحثوں میں تذکرہ کر چکے ہیں۔

لیکن شیعہ ائمہ اطہار (ع) کی قتدا کرتے  ہیں جو کہ قرآن کے ہم پلہ اور اس کے ترجمان ہیں وہ نہ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف کرتے ہیں۔

                     جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا گواہ بھی                                 ہے۔اور اس سے پہلے کتابِ موسیٰ گوہی دے رہی ہے جو کہ رحمت و پیشوا تھی۔

صاحبان ایمان اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو لوگ  اس کا انکار کرتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ خبردار تم قرآن

۳۲۴

کے بارے میں شک میں مبتلا نہ ہونا وہ تمھارے پر وردگار کی طرف سے برحق ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔( سورہ ہود : آیت۱۷)

۳۲۵

قرآن و حدیث اہل سنت کی نظر میں

ہم یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ امامیہ قرآن کو سنت پر مقدم کرتے ہیں اور اسے سنت کا قاضی و حاکم قرار دیتے  ہیں لیکن اہل سنت والجماعت اس سلسلہ میں شیعوں کے خلاف ہیں وہ قرآن پر سنت کو مقدم کرتے ہیں اور اسے حاکم و قاضی قرار دیتے ہیں۔

اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ اسی لئے خود کو اہل سنت کہتے ہیں کہ انھوں نےسنت ہی کو  سب کچھ سمجھ لیا ہے ورنہ وہ اپنے کو اہل قرآن و سنت کیوں نہیں کہتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنی کتابوں میں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ بنی(ص) نے فرمایا:

" میں تمھارے درمیان قرآن اور اپنی سنت چھوڑے جارہا ہوں۔"

انھوں نے قرآن کو چھوڑ دیا اور اسے مرتبہ پر رکھا اور خیالی سنت سے تمسک کرلیا اور اسے  پہلے مرتبہ پر رکھا ۔ ہم ان کے قول کا اصلی مقصد سمجھتے ہیں کہ سنت قرآن پر حاکم و قاضی ہے یہ بات عجیب ہے۔ میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ اہل سنت یہ فیصلہ کرنےپر اس وقت مجبور ہوئے جب انھوں نے دیکھا کہ ہمارے اعمال قرآن خلاف ہیں اور جب ان کے مخدوم حکام نے ان پر یہ بات تھوپ دی کہ تم یہ لکھو کہ سنت  قرآن پر مقدم ہے تب انھوں نے لکھا اور ان کے اعمال کی برئت کے لئے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر نبی(ص)  کی طرف  منسوب کردیں ۔ جب وہ احادیث احکام قرآن کے خلاف ظاہر ہوئیں تو کہا : سنت قرآن پر حاکم وقاضی ہے یا وہ قرآ ن  کو منسوخ کرتی ہے۔

اس کے لئے میں ایک واضح مثال دیتا ہوں جس کو ایک مسلمان دن بھر میں چند مرتبہ انجام دیتا ہے اور وہ ہے ہر نماز سے قبل وضو قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے۔

۳۲۶

' اے ایمان لانے والو: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو( اس وقت) اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولیا کرو اور اپنے سروں کے بعض حصّہ کا اور پیروں کا گٹوں تک مسح کیا کرو۔( مائدہ/۶)

نصب و جر کی قرت سے قطع نظر، جیسا کہ ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ لغت عرب میں ماہر اہلسنت والجماعت کے مشہور عالم فخررازی دونوں قرت واجب جانتے ہیں۔( تفسیر کبیر  فخررازی جلد۱۱، ص۶۱)

ابن حزم نےبھی کہا ہے: خواہ لام کو کسرے کے ساتھ پڑھا جائے یا فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے بہر صورت وہ رؤس پر عطف ہوگا۔ خواہ لفظی اعتبار سے خواہ وضع کے لحاظ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔( المحلی۔ ابن حزم جلد۲ ص۵۴)

اگر ہم سورہ مائدہ میں نازل ہونے والی آیت وضو میں غور کرتے جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ جو سورہ مائدہ آخر میں نازل ہوا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی(ص) کی وفات  سے صرف دو ماہ قبل نازل ہوا ہے پس نبی(ص) نے کیسے اور کب حکم مسح کو منسوخ کیا ؟ اور نبی(ص) نے ۲۳ سال تک وضو مسح کیا اور ہر روز متعدد بار مسح کرتے تھے۔

کیا یہ بات عقل می آی ہے کہ وفاتِ نبی(ص) سے دو ماہ قبل آیت" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " نازل ہوئی اور رسول(ص) نے حکمِ قرآن کے خلاف مسح کے بجاے پیر دھوئے ؟!! اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔

پھر لوگ اس نبی(ص) کو کیسے تسلیم کریں گے جو کہ انھیں قرآن کی طرف بلایا ہے اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے بے شک یہ قرآن سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے اور پھر خود اس کے برعکس عمل کرتا ہے؟! کیا یہ معقول ہے کیا اسے دانشور افراد قبول کریں گے؟!

کیا نبی(ص) سے جھگڑالو، مشرک اور منافق یہ نہ کہیں گے جب آپ(ص) خود اس کے خلاف  عمل کرتے ہیں تو ہمیں اس پر عمل کرنے کے لئے  کس منہ سے  کہتے ہیں؟ اس وقت نبی(ص) ہکا پکا رہ جائنگے

۳۲۷

اور ان کےاعتراض کو رد کرنے کے لئے کوئی جواب نہیں بن سکے گا۔ اسی لئے ہم اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے جس کو عقل اور نقل دونوں رد کرتی ہیں اور جو بھی قرآن و سنت سے تھوڑا سا واقف ہے وہ بھی  اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔

لیکن اہل سنت والجماعت جو کہ در حقیقت بنی امیہ کے حکام اور ان کا اتباع کرنے والے ہیں جیسا کہ گذشتہ صفحات میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے گمراہ پیشواؤں کے اجتہاد ات اور  راویوں کو صحیح بنانے کی وجہ سے احادیث گھڑیں اور انھیں سے دین و شریعت کے احکام نکالے اور نص کے مقابلہ میں اجہادات کے لئے ایک علت بھی ڈھونڈ نکالی اور وہ یہ کہ نبی(ص) خود بھیایسا ہی کیا کرتے تھے، آپ(ص) بھی تو قرآن کی نص کے مقابلہ میں اجتہاد کرتے تھے اور قرآن کی جس آیت کو  چاہتے تھے منسوخ کردیتے تھے، اس طرح بدعتی لوگ جھوٹ اور  بہتان کی وجہ سے نصوص کی مخالف کرنے میں رسول(ص) کے پیرو کاربن گئے۔( کیونکہ آپ بھی ںصوص کی  مخالفت کرتے تھے۔ اور  آج  اہل سنت بھی مخالفت کرتے ہیں۔)

گذشتہ بحثوں میں ہم قوی حجتوں اور ٹھوس دلیلوں سے یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ بنی(ص) نے ایک روز بھی اپنے رائے سے کوئی بات نہیں کہی بلکہ آپ وحی کا انتظار  کرتے تھے اور خدا کے حکم  ایک روز بھی اپنی رائے سے کوئی بات نہیں کہی بلکہ آپ وحی کا انتظار کرتے تھے اور خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

آپ حکم خدا کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ  کریں : ( نساء ۱۰۵،۔ صحیح بخاری ج۸ ، ص۱۴۸۔)

کیا اس بات کا کہنے والا اپنے پروردگار کا مبلغ نہیں ہے:

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو جن لوگوں کو  ہماری ملاقات کی امید نہیں ہے وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کیجئے یا اس کو بدل دیجئے ۔ آپ کہہ دیجئے میں اسے اپنے اختیار سے نہیں بدل  سکتا میں صرف اس  حکم پر عمل کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی کی جاتی ہے میں

۳۲۸

 اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب کا خوف ہے۔( یونس۔۱۵)

کیا خدا نے نبی(ص) کو اپنی طرف ایک جھوٹی نسبت دینے کے سلسلے میں سخت تہدید نہیں کی تھی؟ جیسا کہ ارشاد ہے:

اگر پیغمبر  ہماری طرف سے کوئی بات گھڑ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کاٹ لیتے اور پھر یقینا ہم اس کی گردن اڑا دیتے اور تم میں سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔(الحاقہ۴۳تا ۴۷۔)

یہ ہے قرآن اور یہ ہیں بنی(ص) جہنوں نے قرآن پیش کیا۔ لیکن اہل سنت والجماعت ، علی ابنِ ابی طالب(ع) اور اہلبیت" علیہم السلام" سے شدید عداوت کی بنا پر ہر چیز میں ان کی مخالفت کرتے ہیں یہاں تک کہ علی(ع) اور ان کے شیعوں کی مخالفت ان کا شعار بن چکی ہے  خواہ ان  کے نزدیک سنتَ نبی(ص) ثابت بھی ہو۔( ہماری مراد اوائل کے وہ افراد جنہوں نے علی(ع) اور آپ(ص) کے بعد آپکی اولاد سے دشمنی رکھی اور مذہب اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھی۔)

امام علی(ع) کے متعلق یہ مشہور تھا کہ آپ(ع) سنتِ رسول(ص) کو زندہ رکھنے کے لئے اخفاتی نمازوں میں بھی بسم اللہ۔۔۔ بآواز بلند پڑھے تھے۔بعض لوگوں نے کہا نماز  میں بسم اللہ۔۔۔۔ پڑھنا مکروہ  ہے اسی طرح ہاتھ باندھنا یا کھولنا اور دعائے قنوت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق نماز پنجگانہ سے ہے۔

اور اسی لئے انس بن مالک گریہ کررہے تھے اور  کہہ رہے تھے: قسم خدا کی آج میں ایک چیز بھی ایسی نہیں دیکھتا جس پر رسول(ص) عمل کرتے تھے۔ لوگوں نے کہا : اور یہ نماز ؟ مالک نے جواب دیا: اس میں بھیتم بہت سی رد و بدل کی ہے۔(بخاری۔ج۱ ص۷۴)

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ان اختلافات پر خاموش رہتے ہیں کیوں کہ  ان ہی سلسلہ میں مذاہت اربعہ کے درمیان اختلاف ہے لہذا اس میں اہل سنت کو کوئی

۳۲۹

 جرم  معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس اختلاف کو رحمت قرار دیتے ہیں۔

لیکن اگر شیعوں سے کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو پھر قیامت آجائے گی ، ان پر  طعن و تشینع کی بوچھار ہوجائے گی  اور رحمت ، زحمت میں بدل جائے گی۔ وہ صرف اپنے ہی ائمہ کی راویوں کو قبول کرتے ہیں اور عترتِ طاہرہ(ع) کے ائمہ کو علم و عمل اور فضل  وشرف میں ان کے برابر نہیں سمجھتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پیروں کے دھونے کے سلسلہ میں بیان کرچکے ہیں باوجودیکہ انکی کتابیں گواہی دے رہی ہیں کہ قرآن میں مسح واجب ہے اور یہی سنتِ بنی(ص) سے ثابت ہے۔ ( طبقات الکبری ابن سعد ج۶ ص ۱۹۱۔) لیکن اس سلسلہ مین شیعوں کی بات قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں تاویل کرنے والے اور دین سے خارج بتاتے ہیں۔

اور دوسری مثال کہ جس کا ذکر ضروری ہے وہ نکاح متعہ ہے جس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے اور نبی(ص) کے زمانہ میں اس پر عمل ہوا ہے لیکن اہل سنت متعہ کو حرام قرار دینے والے عمر ابن خطاب کے اجتہاد کی برت کے لئے جھوٹی حدیثیں گھٹ لیںاور انھیں نبی(ص) کی طرف منسوب کردیا ہے اور اس نکاح کو مباح سمجھنے والے شیعوں پر طعن و تشنیع کرنے لگے، متعہ کی حلیت پر شیعوں کے پاس علی(ع) کا قول موجود ہے اور خود اہل سنت کی صحاح بھی گواہی دے رہی ہیں کہ صحابہ نے زمانہ نبی(ص) اور عہد ابوبکر میں نیز ایک مدت تک عمر کی خلافت کے دور میں متعہ کیاہے، اس  بات کو بھی بیان کررہی ہیں کہ متعہ کے حلال ہونے اور حرام ہونے کے سلسلہ میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہے۔

ایسے موارد کے لئے کہ جہاں جھوٹی حدیثوں سے انھوں نے نصِ قرآنی کو منسوخ کیا ہے ، بہت سی ثالیں ہیں جس میں سے ہم نے صرف دو مثالیں مذہب اہل سنت سے پردہ ہٹانے اور قارئین کی اطلاع کے لئے پیش کی ہیں کہ وہ قرآن پر حدیث کو مقدم کرتے ہیں اور صریح طور پر کہتے ہیں کہ سنت قرآن پر حاکم و قاضی ہے۔

۳۳۰

اہل سنت والجماعت کے فقیہ اور محدث اما عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ متوفی ۲۷۶ہج کھلے لفظوں میں کہتے ہیں: سنت قرآن پر حاکم ہے جبکہ قرآن سنت پر حاکم و قاضی نہیں ہے۔

صاحب مقالات الاسلامیین ، امام اشعری جو کہ اصول میں اہل سنت والجماعت کے امام ہیں ان سے نقل کرتے ہیںکہ سنت قرآن (کے کسی بھی حکم) کو  منسوخ کرسکتی ہے اور اس کے خلاف فیصلہ کرسکتی ہے۔ جبکہ قرآن سنت کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے اور اس کےخلاف حکم لگا  سکتا ہے۔

عبداللہ تو یہ فرماتے ہیںکہ امام اوزاعی، ( یہ بھی اہل سنت والجماعت کے  بڑے امام ہیں ) کہتے ہیں: قرآن سنت کا زیادہ محتاج ہے جبکہ سنت قرآن کی محتاج نہیں ہے۔ ( جامع بیان العلم ج۲، ص۲۳۴۔)

اہل سنت کے اقوال ان کے عقیدہ کے غماز ہیں اور یہ بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں کے اور اہل بیت(ع)  کے اس قول میں تناقض ہے کہ حدیث کو کتابِ خدا پر پرکھو! اور اس پر تو لو! کیونکہ قرآن سنت  حاکم و قاضی ہے اور یہ بھی طبیعی ہے کہ اہل سنت ان احادیث کی تردید کرتے ہیں اورانھیں قبول نہیں کرتے ہیں۔ اگر چہ ان کو ائمہ اہل بیت(ع) ہی نے بیان کیا ہو کیوں کہ ان سے ان کے مذہب کی دھجیاں اڑتی ہیں۔

بیہقی نے دالائل النبوت میں لکھا ہے: نبی(ص) کی یہ حدیث باطل ہے۔ " جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو تم اسے قرآن سے ملاؤ اگر قرآن کے موافق ہے تو میرا قول ہے اور اگر مخالف ہے تو میرا قول نہیں ہے" باطل ہے اور خود اپنے خلاف ہے  کیونکہ قرآن میں کوئی مفہوم ایسا نہیں ہے کہ جو حدیث کو  قرآن سے ملانے پر دلالت کررہا ہو!

عبدالبر نے عبدالرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ حدیث جو رسول(ص) سے نقل کی جاتی ہے " تمہارے سامنے جب میری کوئی حدیث نقل کی جائے تو

۳۳۱

 تم اسے کتابِ خدا سے ملاؤ اگر کتابِ خدا کے موافق ہے تو وہ میرا قول ہے اور اگر کتابِ خدا کے خلاف ہے تو وہ میرا قول نہیں ہے۔ ایسی حدیث کی نسبت رسول(ص)  کی طرف دینا اہل علم کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔یہ حدیث خوارج اور زنادقہ کی  گھڑی ہوئی ہے۔

اس اندھے تعصب کو ملاحظہ فرمائیے کہ جس نے ان کے لئے علمی تحقیق او حق کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اہل سنت والجماعت اس حدیث کے راوی ائمہ معصومین(ع) کو خوارج اور زنادقہ کہتے ہیں اور ان پر حدیث گھڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔

کیا ہم ان سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ حدیث کو گھڑنے سےکہ جس میں قرآن کو ہر چیز کا مرجع بتایا گیا ہے خوارج اور زنادقہ کا کیا مقصد تھا؟؟

عقلمند او منصف مزاج انسان تو انہی زنادقہ اور خوارج کی طرف جھکے گا جو کہ کتابخداکو معظم اور محترم سمجھتے ہیں اور تشریع میں اسے پہلا مصدر  قرار دیتے ہیں۔ کیا اہل سنت واجماعت کی طرف مائل ہونا صحیح ہے جوکہ جھوٹی حدیث کے ذریعہ کتاب خداکے خلاف فیصلؒہ کرتے ہیں اور اپنی من گھڑت سے قرآن کے احکام کو منسوخ کرتے  ہیں۔

اس سلسلہ میں انھیں کوئی علم نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا یہ تو بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے وہ جھوٹ کے علاوہ کچھ کہتے ہی نہیں ہیں۔(کہف۔۵۰)

اہل سنت والجماعت ائمہ ہدیٰ ، مصابیح الدجیٰ کہ جن کو رسول(ص) نےامت کے لئے اختلاف سےامن کا باعث بتایا تھیا اور فرمایا تھا: قبائل عرب میں سے  جو قبیلہ انکی مخالفت کرے گا وہ پراکندہ ہوکر گروہ ابلیس بن جائے گا۔ زنادقہ اور خوارج کہتے ہیں ائمہ معصومین(ع) کا صرف یہ گناہ ہے کہ وہ اپنے جد کیسنت سے تمسک کئے ہوئے ہیں اور اس کے سوا ابوبکر ، عمر ، عظمان ، معاویہ ، یزیدلع اور مروان و امویوں کی بدعتوں کو ٹھکرا دیا ہے، ار چہ حکومت کی باگ دوڑ انہی مذکورہ افراد کے ہاتھوں میں تھی لہذا وہ اپنے مخالفوں  پر خوارج اور زنادقہ کہہ کر سب وشتم

۳۳۲

 کرتے تھے ، ان سے جنگ کرتے اور پراگندہ کردیتے تھے ۔ کیا علی(ع) اور اہلبیت(ع)  پر ان کے منبروں سے اسی(۸۰) سال تک لعنت نہیں ہوئی؟؟ کیا انہوں نے امام حسن(ع) کو زہر اور حسین (ع) اور آپ(ع)کی ذریت کو تلواروں سے شہید نہیں کیا؟

اہلبیت (ع)  جن پر غم والم کے پہاڑ توڑے گئے اور بعد میں بھی ظلم وستم کا سلسلہ جاری رہا انھیں چھوڑتے  ہیں اور ان لوگوں کی طرف پلٹتے ہیں۔ جو کہ اپنے کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور قرآن پر تولنے والی حدیث کا انکار کرتے ہیں اور ابوبکر صدیق ، اور ام المؤمنین عائشہ کہ جس سے نصف دین لیا ہے کو زندیق اور خوارج نہیں کہتے۔۔ مذکورہ خدیث کو انہوں نے شہرت دی ہے اور پھر جب کوئی ایسی حدیث ان کے پاس پہنچتی تھی کہ جس کو عائشہ نہیں جانتی تھیں تو  وہ اس حدیث کو قرآن پر تولتی تھیں اگر وہ قرآن کے خلاف ہوتی تھی اسے ٹھکرا دیتی تھیں چنانچہ عمر ابن خطاب کی بیان کردہ اس حدیث کو جھٹلادیا تھا کہ میت پر اس وقت عذاب ہوتا ہے جب اس کے خاندان میں سے کوئی اس پر گریہ  کرتا ہے: عائشہ نے کہا : تمہارے لئے قرآن کافی ہے  وہ کہتا ہے: کوئی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( صحیح بخاری، کتاب الجنائز باب قول النبی(ص) لعذاب المیت ببعض بکاء اہلہ علیہ( کذالک مسلم کتاب الجنائز باب المیت ، یعذب ببکاء اہلہ علیہ)

ایسے ہی عائشہ نے عبداللہ ابن عمر کی بیان کی ہوئی اس حدیث کو رد کردیا تھا کہ ، نبی(ص) اس گڑھے پر کھڑے ہوئے  جس میں جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کو ڈالدیا گیا تھا۔ پھر ان س کچھ فرمایا: اور اس کے بعد اپنے اصحاب کی طرف ملتفت ہوئے اوور فرمایا: وہ یقینا میری باتوں کو سنتے ہیں۔

عائشہ نے کہا : کیا مردے بھی سنتے ہیں؟ نیز کہا: رسول(ص) نے یہ فرمایا تھا کہ وہ اس بات کو ضرور جان لیں گے جو  میں نے  ان سے کہی تھی پھر اس حدیث کی تکذیب کے ثبوت میںوہی حدیث پیش کی جس میں حدیث  کو قرآن کے ذریعہ پرکھنے کا حکم ہے اور پھر یہ آیت پڑھی۔

۳۳۳

اور حق ان کے تابع ہے؟

ذوالنورین بھی آپ ہی ہیں ۔ ( اہل سنت والجماعت عثمان کو ذوالنورین کہتے ہیں اور اسکی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی(ص) کی دو بیٹیوں " رقیہ اور ام کلثوم سے شادی کی تھی ، حقیقت یہ ہے کہ دونوں رسول(ص) کی ربیبہ تھیں اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ بیٹی تھیں تو بھی ان کا نورین ہونا ثابت نہیںہے ۔ نبی(ص) سے  تو ان دونوں کے سلسلہ میں کوئی حدیث نہیں فرمائی ۔ یہ نور فاطمہ(س)  کیوں نہ ہوں کہ جن کے متعلق یہ فرمایا ہے: وہ عالمین کی عورتوں  کی سردار ہیں ، پس وہ نور ہیں اور اس بنیاد پر علی(ع) کو  ذوالنورین کیوں نہیں کہتے۔) آپ حسن اور حسین ( علیہماالسلام) جوانانِ جنت کے سردار اور نور نبوت کے باپ ہیں، آپ ہی سیف اللہ ہیں چنانچہ جنگ احد میں جبریل نے آپ کی شان میں فرمایا تھا

             "لافتی الاّ علی لاسیف الاّ ذوالفقار"

حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی شمشیر خدا ہیں جس کو خدا نے مشرکین کے لئے نیام سے نکالا تھا، چنانچہ آپ نے مشکوں کے سو ماؤں کو اور ان کے جری و شجاع لشکر کو موت کے گھات اتارا اور انکی ناک رگڑدی یہاں تک کہ انہوں نے مجبورا حق کا اورار کرلیا۔ آپ(علی) اس لئے بھی شمشیر خدا  ہیں کہ آپ نے کبھی میدان جنگ سے فرار نہیں کیا اور نہ کبھی جنگ سے گھبرائے، آپ(ع) ہی نے خیبر  فتح کیا جبکہ بڑے بڑے صحابہ اسے فتح نہ کرسکے اور شکست کھا کر لوٹ آئے تھے۔

لیکن پہلی ی خلافت سے یہ سیاست چلی گئی کہ آپ کی تمام فضیلتوں کو مٹایا جائے اور ہر ایک منصب سے الگ رکھا جائے اور جب معاویہ کے ہاتھ حکومت آئی تو وہ آگے نکل گیا یہاں تک کہ علی(ع) پر لعنت اور تنقیص کا سلسلہ شروع کردیا اور اپنے ہم خیال افراد کی شان بڑھانے اور علی(ع) کے تمام القاب اور فضائل کو زبردستی دیگر صحابہ پر منطبق کرنے لگا اور اس زمانہ میں معاویہ کی تکذیب کون کرسکتاتھا اور اس سے کون ٹکر لے سکتا تھا؟ اور پھر علی(ع) پر سب و شتم اور لعنت کرنے نیز  آپ(ع) سے برت اور بیزاری کے سلسلہ میں معاویہ کی بہت سے لوگوں نے موافقت کی اور " اہل سنت والجماعت" میں سے معاویہ کا اتباع کرنے والے نے حقائق کو الٹ کر رکھدیا چنانچہ نیکی ان کے

۳۳۴

 نزدیک برائی اور برائی ان کے نزدیک اچھائی بن گئی اور علی(ع) اور انکے شیعہ زندیق و خوارج اور رافضی بن گئے، لہذا انہوں نے ان کا خون بہانا اور ان پر لعنت کرنا مباح سمجھ لیا اور دشمن خدا و دشمن رسول خدا(ص) اور عدوئے اہل بیت(ع) " اہل سنت والجماعت " بن گئے ، پڑھئے اور تعجب کیجئے اور اگر اس سلسلہ میں آپ کو کوئی شک ہے تو تحقیق اور چھان بین کر لیجئے۔

"ان دونوں کی مثال اندھے ، بہرے ، دیکھنے والے اور سننے والے کی سی ہے کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں، کیا غور نہیں کرتے؟( ہود آیت ۲۴)

۳۳۵

نبی(ص) کی احادیث میں تناقض

محقق کو بہت سی ایسی احادیث ملیں گی جو نبی(ص) کی طرف منسوب کی جاتی ہیں در حقیقت انھیں آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے گھڑلیا تھا اور لوگوں کو ان کا پابند بنادیا تھا اور زبردستی ان پر عمل کرواتے تھے یہاں تک کہ ان بے چاروں کا یہ اعتقاد بن گیا تھا کہ یہ نبی(ص) افعال اور ان کے اقوال ہیں۔

اسی وجہ سے ان گھڑی ہوئی حدیثوں میں تناقض ہے اور قرآن کے خلاف ہیں ، اس لئے اہلِ سنت کے علماء تاویل پر مجبور ہوئے اور کہا ایک مرتبہ رسول(ص) نے یہ فعل انجام دیا اور دوسری مرتبہ وہ فعل انجام دیا ۔ مثلا علمائے اہل سنت کہتے ہیں :ایک مرتبہ رسول(ص) نے نماز میں بسم اللہ ۔۔۔پڑھی اور ایک مرتبہ بغیر بسم اللہ ۔۔۔ کے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ وضو میں پیروں کا مسح کیا اور ایک مرتبہ دوںوں پیروں کو دھویا ۔ اک مرتبہ نماز میں دونوں ہاتھ باندھے ، ایک مرتبہ دوںوں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی۔ یہاں تک کہ بعض علمائے اہل سنت نے تو یہ بھی کہدیا کہ رسول(ص) نے ایسا امّت کی آسانی کے لئے کیا تھا کہ وہ جس کو چاہئے انجام دے۔

یہ سفید جھوٹ ہے اور اسلام اس کی تردید کرتا ہے جس کے عقائد کی اساس کلمہ توحید اور عبادی توحید پر استوار ہے۔ یہاں تک کہ ظاہری چیزوں اور لباس میں بھی توحید و اتحاد ہے  چننچہ حج کے زمانہ میں محرِم (احرام باندھنے والے) کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ جیسا چاہئے مخصوص شکل رنگ کا لباس پہنے اسی طرح ماموم کو بھی الگ سے کوئی فعل انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے حرکات و سکنات ، قیام ورکوع اور سجود وجلوس میں اپنے امام  کا اتباع کرتا ہے۔

اس لئے بھی یہ بات جھوٹی ہے کہ اہل سنت میں سے ائمہ طاہرین(ع) نے ان روایات کا انکار  کیا ہے اور وہ عبادات می شکل و  مضمون کے اختلاف کو قبول نہیں  کرتے تھے۔

۳۳۶

جب ہم اہل سنت والجماعت  کی متناقض احادیث کی تحقیق کریں گے تو بہت ملیں گی ۔ انشاء اللہ ہم عبقریب انھیں ایک کتاب  کی صورت  میں پیش کریں گے۔

اور جیسا کہ ہماری عادت ہے یہاں بھی ہم ختصار کے ساتھ بعض حدیثوں کو مثال طور پر پیش کررہے ہیں تاکہ قاری و  محقق کو  یہ معلوم ہوجائے کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور مذہب کی بنیاد کس چیز پر ہے۔

صحیح مسلم  اور جلال الدیں سیوطی کی شرح موطا میں انس بن مالک سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ۔ ابوبکر ، عمر اور عثمان کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے لیکن میں نے  ان میں سے کسی کو نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیں دیکھا۔

ایک روایت  میںہے کہ رسول اللہ بلند آواز سے بسم اللہ ۔۔۔۔نہیں پڑھتے تھے اور یہ حدیث انس قتادہ اور ثابت السنبانی وغیرہ سے مروی ہے اورہر ایک نے اس کی نسبت رسول (ص) کی طرف دی ہے مگر یہ کہ آپ(ص) کے لفظ کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حیرانی اور دفاع کی صورت میں ان میںسے کوئی کہتا ہے کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہی نہیں تھے ،کوئی کہتا ہے  بلند آواز  سے نہیں پڑھتے تھے ، کوئی کہتا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور بلند آواز سے پڑھتے تھے، کوئی کہتا ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کبھی ترک نہیں کرتے تھے ، کوئی کہتا ہے وہ قرائت کی ابتداء الحمد للہ ربَ العالمین سے کرتے تھے۔

کہتے ہیں : ان  پراکندہ اقوال کے ہوتے ہوئے کوئی فقیہ کسی چیز پر حجت قائم نہیں کرسکتا ہے ۔ ( تنویر الحوالک ، شرح علی موطاء مالک ج۱، ص۱۰۳، ہم کہتے ہیں شکر خدا کہ انہی میں سے ایک نے گواہی دے دی کہا انکی احادیث میں اضطراب اور تناقض ہے اور اسی طرح یہ اعتراف بھی کیا کہ اس اضطراب کے ہوتے ہوئے کسی فقیہہ  کے لئے حجت قائم نہیں ہوسکتی ۔ حجت تو صرف ائمہ اطہار(ع) کے پاس ہے  کہ جنہوں نے کسی چیز میں اختلاف نہیں کیا۔)

لیکن جب آپ اسی کے راوی یعنی انس بن مالک جو کہ رسول(ص) کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ

۳۳۷

 آپ کے حجب تھے کی احادیث میں تناقض و اضطراب کی معرفت کا راز حاصل کرنا چاہیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ۔۔۔۔ رسول اللہ اور خلفائے ثلاثہ ۔۔۔ بسم اللہ الرّحمن الرّحیم نہیں پڑھتے تھے اور ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اسے چھوڑا نہیں ۔

جیہاں ! یہ ایکغم انگریز حقیقت ہے کہ نقل حدیث میں اکثر صحابہ نے ان ہی کا اتباع کیا اور ہر ایک نے سیاسی مصلحت کے اقتضا ےکے مطابق اورا مراء کی مرضی کے موافق حدیثیں بیان کی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انس جنے بسم اللہ الرّحمن الرحیم نہ پڑھنے والی روایت اس وقت بیا ن کی جب بنی امیہ اور ان کے حکام و کارندے  ہر اس سنت کو محو کررہے تھے جس پر علی(ع) گامزن  تھے اور اسے زندہ رکھے ہوئے تھے۔

بنی امیہ کی سیاست کی بنیاد ہی علی(ع) کی مخالفت اور ان کے برخلاف عمل کرنے پر قائم تھی۔حضرت علی(ع)  کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ(ع)  نمازوں میں یہاں تک اخفاتی نمازوں  می باآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھتے تھے۔

یہ ہمارا  یا شیعوں  کا دعوی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہم نے اہل سنت والجماعت کی کتابوں نے تصریحات سے لکھا ہے۔

امام نیشابوری نے انس بن مالک کی متناقض روایات بیان کر نے کے بعد، غرائب القرآن میں لکھا ہے کہ ان ( روایات)  پر ایک دوسری بھی تہمت ہے اور وہ یہ کہ علی( رضی اللہ عنہ) بآواز بلند بسم اللہ۔۔۔ پرھتے تھے جب بنی امیہ کا دور آیا تو انھوں علی ابن ابی طالب(ع) کے آثار کو مٹانے میں ایڑی چوٹیکا زور لگا دیا، شاید انس بن ملک ان سے ڈر گئے اور اس لئے ان ے اقوال پراگندہ ہوگئے ۔ ( تفسیر غرائب القرآن ، نیشاپوری، جو کہ تفسیر طبری کی ج۱، ص۷۷، کے حاشیہ پر  مرقوم ہے۔)

اسی سے ملتی جلتی بات شیخ ابوزہرہ نے کہی ہے: کہتے ہیں اموی حکومت نے علی(ع) کے

۳۳۸

آثار میں سے قضاوت اور فتوؤں کو ضرور چھپایا ہے لیکن یہ ات معقول نہیں ہے کہ وہ منبروں سے علی پر لعنت کرتے اور یہ بھی معقول نہیں ہے کہ علماء کو آزاد چھوڑدیتے  کہ وہ لوگوں میں آپ(ع) کے علم اور اقوال و فتاوی نقل کریں خصوصا وہ چیزیں جو کہ اسلامی حکم کی اساس سے متصل ہوں۔

الحمد للہ کہ اس نے اہل سنت ہی کے بعض علما کی زبان سے حق کا اظہار کرادیا ہے اور انہون نے یہ اعترافکر لیا ہے کہ علی(ع) بآواز بلند بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی کوشش کرتے تھے ۔

اس چیز سے ہم یہ  نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس چیز نے علی(ع) کو بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے پر ابھارا وہ یہ ہے کہ خلفا نے عمدا یا سہوا اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سلسلہ میں لوگوں نے ان ( خلفا) کی اقتداء کر لی تھی اور یہ فعل ایک ایسی سنت بن گیا تھا جس کا اتباع ہورہا تھا۔ بے شک اخفاتی نماز میں بھی بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے کی کوشش کیوں کی۔

پھر ہمیں انس بن مالک کی روایات سے چاپلوسی اور بنی امیہ کو راضی کرنے کی بو محسوس ہوتی ہے کہ جنہوں نے انس کو اموال میں ڈوبا دیا تھا اوران کے لئے عظم الشان محل تعمیر کرا دیا تھا ۔ انھیں بھی علی(ع)  سے دشمنی بھی ۔ طیر مشوی کے واقعہ سے ان کا بغض  ظاہر ہوگیا تھا چنانچہ جب نبی(ص) نے فرمایا : پروردگارا میرے پاس اسے بھیجدے جو تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، تاکہ وہ اس پرندہ کو میرے ساتھ تناول کرے۔ علی(ع) تشریف لائے تو انس  نے آپ کو تین مرتبہ واپس کیا چوتھی بار رسول(ص)  کو معلوم ہوگیا تو انس سے فرمایا : تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ؟ اس نے کہا: میں چاہتا تھا کہ کوئی انصار میں سے آئے۔( حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور شیخیں کی شرط پر اسے صحیح  قرار دیا ہے ۔ ترمذی ج۲، ص۲۹۹، ریاض النفرہ ج۲، ص۱۶۰،  تاریخ بغداد ج۳، ص۱۷۱، کنز العمال ج۶، ص۴۰۶، خصائص نسائی ص۵، اسد الغابہ ج۴، ص۳۰)

اس صحابی کے لئے  تو اتنا ہی کافی ہے کہ نبی(ص) اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ میرے پاس اسے بھیجدے جو تجھے پوری مخلوق سے زیادہ محبوب ہے اور خدا اپنے رسول(ص) کی دعا قبول کرتا ہے اور علی(ع) کو

۳۳۹

 بھیجدیتا ہے لیکن انس کو جو آپ سے بغض تھا اس نے انس کو جھوٹ بولنے پر ابھارا اور انھوں نے علی(ع) کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ نبی(ص) اس وقت مشغول ہیں اور یہی پے درپے تین بار دھرایا کیونکہ انس نہیں چاہتے تھے کہ نبی(ص) کے بعد خدا کے نزدیک علی(ع) سب سے زیادہ محبوب قرار پائیں لیکن علی(ع) نے چوتھی بار بمشکل دروازہ کھولا اور داخل ہوگئے۔ نبی(ص) نے دریافت کیا اے علی(ع) تمہیں مجھ تک پہنچنے  سے کس نے روکا؟ عرض کی میں آپ کے پاس آنا چاہتا تھا لیکن انس نے مجھے تین بار واپس کیا : رسول(ص) نے فرمایا: اے انس اس کام پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا؟ انس کے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میں نے آپ کی دعا سن لی تھی اس لئے میں چاہتا تھا کہ وہ شخص میری قوم سے ہو۔

اس کے بعد بھی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہےکہ پوری زندگی انس کے دل میں علی(ع) کا بغض باقی رہا چنانچہ جب رحبہ کے دن علی(ع) نے ان سے فرمایا : حدیث غدیر بیان کرو تو انہوں نے اس سے پہلو تہی کی اور آپ نے انس کے لئے بد دعا کی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ بھی نہیں پائے تھے کہ برص کے مرض میں مبتلا ہوگئے پھر انس علی(ع)  کے دشمن کیوں نہ ہوتے جب کہ انھیں آپ کی ذات سے شدید نفرت تھی اور آپ کے دشمنوں کا تقرب ڈھونڈتے تھے اور آپ سے بیزاری کا اظہارکرتے تھے۔

ان ہی تما چیزوں کی وجہ سے ان کی روایت جو خصوصا بسم اللہ کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہے وہ انہوں نے معاویہ بن سفیان کی محبت میں بیان  کی تھی۔ کہتے ہیں : میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ یعنی اس طرح  وہ یہ قبول نہیں کرتے ہیں کہ میں نے علی(ع) کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور یہ بالکل وہی چیز ے جو معاویہ اور اس کے ہمنوا چاہتے تھے کہ خلفائے ثلاثہ کا ذکر بلند ہو  اور علی(ع) کا ذکر مٹ جائے اور ان کانام تک نہ لیا جائے۔

اورجو کچھ ائمہ اطہار(ع) اور ان کے شیعوں کے طریق سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ علی(ع) سورہ فاتحہ اور اس کے بعد والے سورہ کی بسم اللہ ۔۔۔ کو بآواز بلند پڑھتے تھے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے طریق سے بھی ثابت ہوچکا ہے کہ آپ(ص) بسم اللہ۔۔۔ کو بلند آواز سے  پڑھتے تھے ۔ یہاں تک کہ اخفاتی نمازوں میں بھی ۔ پس اس سے یہ ثابتہوگیا یہی نبی(ص) کی صحیح سنت ہے۔ جس نے بسم اللہ۔۔۔ ترک

۳۴۰