شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 98871
ڈاؤنلوڈ: 4786

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98871 / ڈاؤنلوڈ: 4786
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 کی اس نے ایک واجب ترک کردیا اور اپنی نماز کو باطل کردیا۔کیوں کہ سنت کی مخالفت وضلالت و گمراہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: رسول(ص) جو تمہارے پاس لائیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔

اس کے علاوہ ہمارے پاس چند ایسے ماخذ موجود ہیں جن سے صحابہ کی روایات کا سنت نبی(ص) کے خلاف ہونا آشکار ہےان میں سے چند مثالیں ہم گذشتہ بحثوں میں بیان کرچکے ہیں اور بعض کو آنے والی بحثوں میں ذکر کریں گے۔ ان تمام  چیزوں میں اہم بات یہ ہے کہ: اہل سنت والجماعت  صحابہ کے اقوال و افعال کا اتباع کرتے ہیں۔

             اولا :ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کے اقوال و افعال لازمی طور پر سنت ہیں۔

             ثاینا : وہ اس شبہ میں مبتلا ہیں کہ جو کچھ صحابہ نے کہا ہے وہ سنت نبی(ص) کے خلاف نہیں ہے ۔ جبکہ صحابہ اپنی رائے سے فیصلہ کرتے تھے اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں ان کا اثر ورسوخ ہوگیا اور اعتراض کرنے والوں سے محفوظ ہوگئے۔

پھر علی(ع) ابن ابی طالب ہی ایک مخالف تھے کہ جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنے اقوال و افعال اور قضاوت کے ذریعہ لوگوں کو سنت نبوی(ص) کی طرف پلٹانے کی پوری کوشش کی لیکن آپ اس میں کامیاب نہ ہوسکے کیوں کہ مخالفین نے آپ(ع) کوجنگوں میں مشغول کردیا، ایک جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ دوسری جب کی آگ بھڑکادیتے تھے۔ جنگِ جمل ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے جنگِ صفیں کی آگ بھڑکادی اور ابھی جنگ صفین تمام نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے جنگِ نہروان کے شعلوں کو  ہوا دی۔ ابھی وہ ختم نہیں ہوئی تھی کہ آپ(ع) کو محراب عبادت میں شہید کردیا۔

جب معاویہ تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس کی پوری کوشش نور خدا کو بجھانے میں صرف ہوتی چنانچہ وہ پوری طاقت و توان کے ساتھ اس سنت نبوی(ص) کو برباد کرنے میں مشغول ہوگیا کہ جس کو امام علی(ع)  زندہ رکھے ہوئے تھے اور لوگوں کو خلفائے ثلاثہ کی اس طاعت کی طرف پلٹانے کی تگ و دو کرنے لگا کہ جس کو لوگوں کے لئے دستور العمل بنا چکا تھا اور دوسری طرف حضرت علی(ع) پر لعنت

۳۴۱

 کا آغاز کیا اور اس  فعل شنیع کو اس قدر اہمیت دی کہ ہر ایک ذاکر برائی  ہی سے آپ(ع) کا ذکر کرتا تھا ۔ اور تمام برائیاں آپ کی طرف منسوب کرتا تھا۔

مدائنی کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کے پاس گئے اور کہا: اے امیرالمؤمنین ! علی(ع) مرگئے اور اب تمہارے لئے کوئی خوف نہیں ہے بس اب یہ لعنت کا سلسلہ بند کرو، معاویہ نے کہا: قسم خدا کی یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب بوڑھا بالکل ضعیف اور بچہ جوان ہوجائے گا۔

مدائنی کہتے  ہیں: ایک زمانہ تک بنی امیہ اسی نہج پر باقی رہے اور یہی چیز انہوں نے اپنے بچوں ، عورتوں، خدمت گاروں اور غلاموں کو سکھائی چنانچہ معاویہ کو  اپنے مقصد میں بڑی کامیابی ملی کیوںکہ اس نے پوری ملت اسلامیہ کو ( چند کو چھوڑ کر ) اس کے حقیقی قائد و ولی سے  دور کردیا تھا اور اسے اپنے قائد کی دشمنی اور اس سے بیزاری پر پوری طرح تیار کردیا تھا اور ملت اسلامیہ کے سامنے باطل کو حق کے لباس میں پیش کیا تھا اور اسے اس بات کامعتقد بنا دیا تھا کہ وہی ( اہل سنت ہیں  اور جو علی(ع) سے دوستی رکھتا ہے اور ان کا اتباع کرتا ہے وہ بدعتی اور خارجی ہے۔

اور جب  امیر المؤمنین امام علی(ع)  پر منبروں سے لعنت کی جاتی تھی اور فآپ پر لعنت کر کے خدا کا تقرب ڈھوںڈا جاتا تھا۔ آپ کا اتباع کرنے والے شیعوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہوگا۔ان کے عطا کو روک دیا گیا تھا، ان کے شہر و دیار کو جلادیا گیا تھا اور انھیں کھجور کی شاخوں پر سولی دی جاتی تھی، زندہ دفنا دیا جاتا تھا، لاحول و لاقوّۃ الا باللہ العلی العظیم۔

میری نظر میں معاویہ ایک عظیم سازش کے سلسلہ کی کڑی ہے لیکن حقائق کو چھپانے اور انھیں الٹ کر پیش کرنے اور امت کو اسلام کے لباس میں ملبوس جاہلیت کی طرف لوٹانے  میں اس کو دوسروں سے زیادہ کامیابی ملی۔

اس بات کی طرف اشارہ کردینا بھی مناسب ہے کہ معاویہ گذشتہ خلفا سے زیادہ زیرک تھا ۔ بہر و پیہ موقع و محل کے لحاظ سے روپ دھار لیتا تھا، کبھی اتنا روتا تھا کہ حاضرین متاثر ہوجاتے

۳۴۲

 تھا اور وہ معاویہ کو مخلص بندوں  میں سے بہت بڑا زاہد سمجھنے  لگتے تھا اور کبھی قساوت قلبی اور جبر کا اظہار کرتا تھا ، یہاں تک کہ حاضرین یہ سمجھنے لگتے تھے کہ وہ ملحد ہے  اور بدو تو اسے رسول اللہ(ص) سمجھتے تھے۔

بحث کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ محمد ابن ابی بکر اور معاویہ کے درمیان ہونے والی  خط وکتابت کو پیش کیا جائے ۔ ان دونوں کے خطوط میں ایسے حقائق موجود ہیں جن سے محققین کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔

۳۴۳

محمّد بن ابی بکر کا خط معاویہ کے نام

محمد بن ابی بکر کاخط گمراہ معاویہ بن صخر کے نام

خدا کے طاعت گذاروں پر سلام ہو کہ جنہوں نے ولیّ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے۔

اما بعد۔

بے شک خدا نے اپنی عظمت و جلالت اور قدرت وتسلط سے اپنی مخلوق کو عبث پیدا نہیں کیا ہے اور نہ اسکی قوت میں ضعف ہے اور نہ ہی ان کی خلقت میں وہ محتاج ہے۔ لیکن خدا نے مخلوق کو مطیع و فرمانبردار پیدا کیا ہے اوران میں بعض کو ہدایت یافتہ اور بعض کو گمراہ اور بعض شقی اور بعض  کوسعید قرار دیا۔ پھر ان پر نظر ڈالی اوران میں سے محمّد (ص) کو منتخب کیا اور اپنی رسالت سے  مخصوص کیا اور اپنی وحی اور اپنے امر کی امانت کے لئے چنا ۔ انھیںرسول (ص) بنا کر

بھیجا ۔ پس وہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بن گئے اور آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والے اور شریعتوں پر دلیل ہیں ۔ انھوں نے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو راہ خدا کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے علی(ع) نے قبول کیا اور رغبت کی اور ایمان لائے ، تصدیق کی، اسلام

۳۴۴

قبول کیا اور خضوع اختیار کیا ۔ غیب کےسلسلہ میں ان کی تصدیق کی اور ہر سختی مٰں آپ(ص) کے ساتھ رہے۔ اور ہر خوف کے وقت بنفس نفیس ان  کی حمایت کی اور ہر مشکل و خوفناک وقت میں آپ کے شریک کاررہے ۔ آپ(ص) سے جنگ کرنے والوں سے جنگ کی اور جس سے آپ(ص) نے صلح کی اس  سے صلح کی۔ علی(ع) اس وقت بھی قائم رہےجب لوگوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور دل دہل جاتے  ہیں ، یہاں تک کہ اپنے جہاد میں وہ مقام حاصل کیا جس کی نظیر نہیں ملتی اور وہ کارنامے انجام دیئے جس میں کوئی آپ(ع) کے قریب تک نہ پہنچ سکا۔

میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم خوبیوں میں ان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہو، تم ، تم ہو ، وہ ، وہ ہیں وہ ہر ایک نیکی میں سب سے آگے ہیں ۔ سب لوگوں سے پہلے انھوں نے اپنےاسلام  کا اظہار کیا ۔ نیت کے لحاظ سے سب سے سچے ہیں ان کی ذریت بہترین ذریت ہے۔ ان کی زوجہ سب سے نیک و افضل و اعلیٰ ہیں۔ ان کے ابن عم سب سے افضل ہیں ، انکے بھائی نے جنگ موتہ میں اپنا نفس ( خدا کے ہاتھ) بیچ دیا تاھ، سید الشہداء جناب حمزہ ان کے چچا ہیں ، ان کے والد نے ( تا حیات) رسول(ص) اور آپ(ص) کے مقصد سے دفاع کیا۔ تم لعین ابن لعین ہو اور تمھارے باپ نے ہمیشہ دینِ خدا میں فریب کاری سے کام لیا ہے اور نور خدا کو بجھانے کی کوسشش میں لگے رہے۔( اسلام پر) لشکر کشی کرتے رہے، اس سلسلہ میں مال خرچ کیا، قبائل کو دین خدا کے خلاف اکسایا۔

اس حالت میں تمھارے باپ کو موت آئی تو اپنے مقصد کے لئے تمھیں اپناخلیفہ چھوڑ گیا۔ اس کی گواہی تو تمھارے حاشیہ نشین دیں گے۔ رسول(ص) سے نفاق و دشمنی رکھنے والوں کے سرداروں نے تمھارے دامن میں پناہ لی ہے اور علی(ع) کی آشکار فضیلت اور ابتدا ہی سے تمام کاموں میں سبقت کے ساتھ ساتھ ان کے انصار گواہ ہیںجن کا خدا نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور انصار و  مہاجرین میں سے جو ان کے ساتھ ہیں ان کی فضیلت بیانکی ہے ۔ پس انصار و مہاجرین ان(عل(ع)) کے ساتھ ایک فوجی دستہ اور بٹالین کی صورت میں ان سے دفاع کے لئے جہاد کرتے ہیں اور ان کی حفاظت و زندگی کے لئے خون بہاتے ہیں، ان کا اتباع کرنے والوں کو حق پر ان کی مخالفت

۳۴۵

 کرنے والوں شقاوت پر سمجھتے ہیں۔

خدا تمھیں سمجھے ان تمام باتوں کے باوجود تم کیسے خود کو علی(ع) کے برابر قرار دیتے ہو جبکہ علی(ع) وارثِ رسول(ص) اور آپ(ص)  کے وصی ہیں اور نبی(ص) کے بیٹوں کے باپ ہیں، سب سے پہلے انھوں نے آپ(ص) کا تباع کیا اور سب سے زیادہ آپ(ص) سے نزدیک ہیں۔ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا راز دار بنایا۔ اپنے امر سے خبردار کیا اور تم ان کے دشمن اور ان کے دشمن کی اولاد ہو؟!

پس تم اپنے باطل کے ذریعہ اپنی دنیا سے جتنا چاہو فائدہ اٹھالو، تمھارے مقصد کے حصول میں عمرو بن عاص لازمی تمھاری مدد کرے گا، گویا تمھارا وقت آ پہنچا ہے اور تمھارے مکرو فریب کے بند ڈھیلے ہورہے ہیں۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ عاقبت کس کی بلند و بہتر ہے۔

یہ جان لو کہ تم نے خدا سے مکر کیا کہ جس کی تدبیر نے تمھیں محفوظ رکھا، اس کی رحمت سے تم مایوس ہوچکے ہو اور خدا تمھاری گھات میں ہے اور تم اس سے بے خبر ہو۔

والسلام علی من اتبع الھدیٰ ۔ ( جمھرہ رسائل العرب جلد۱ ص۴۷۵) مروج الذہب مسعودی جلد۲ ص۵۹، شرح ابن ابی الحدید جلد۱،ص۲۸۳)

اس خط میں محمد ابن ابی بکر نے حقیقت کے متلاشی افراد کے لئے ٹھوس حقائق قلم بند کئے ہیں۔ وہ معاویہ کو ضال و مضل اور لعین ابن لعین قرار دیتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ معاویہ نورِ خدا کو بجھانے کے لئے پوری کوشش کرتا ہے اور دین میں تحریف کرنے کے لئے اموال خرچ کرتا ہے اور دینِ خدا میں شر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ کہ معاویہ دشمنِ خدا اور عدوئے رسول(ص) ہے ۔ اور عمرو بن عاص کی مدد سے باطل امور کا ارتکاب کرتا ہے۔اسی طرح یہ خط حضرت علی ابنابی طالب(ع) کے ان فضائل و مناقب کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ جو نہ کسی کو ںصیب ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے اور حق یہ ہے کہ جو فضائل و مناقب محمد بن ابی بکر نے شمار کرائے ہیں ان سے کہیں زیادہ آپ(ع) کے فضائل و مناقب ہیں۔ فی الحال اہم بات یہ ہے

۳۴۶

کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے بھی اس خط کا جواب دیا ہے اسے بھی پیش کررہے ہیں تاکہ آپ محققین ، پوشیدہ حقیقت اور تاریخ مخفی سازش سے آگاہ ہوجائیں اور اس سازش کے وہ تارو پود بھی آشکار ہوجائیں کہ جس نے خلافت سے اس کے شرعی حقدار کو الگ کیا تھا اورپھر امت کی گمراہی کا  سبب بنی  معاویہ کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

۳۴۷

معاویہ کا جواب

یہ خط معاویہ ابن صخر کی طرف سے محمد ابن ابی بکر کے نام ہے۔

                                             سلام ہو اللہ کے طاعت گزار پر

اما بعد :

تمہارا وہ خط ملا جس میں تم نے خدا کی قدرت  و عظمت اوراس کی بادشاہت بیان کی ہے، اسی طرح رسول(ص) کے اوصاف بھی کثرت سے بیان کئے ہیں لیکن اس میں تمہاری رائے ضعیف اور تمھارے والد کی سرزنش ہے۔

اس خط میں تم نے علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل اور ان کا تمام چیزوں میں سابق ہونا اور آپ کی رسول(ص) سے قرابت ، انکی مدد اور ہر خوف وہراس کے موقع پر علی(ع)  کا رسول(ص) کے ساتھ رہنا بیان کیا ہے گویا تم نے مجھ پر حجت قائم کی ہے اور اپنے غیر کے فضل و کمال پر تم فخر کررہے ہو۔ میں خدا کی حمد کرتا ہوں کہ جس نے یہ فضل و کمال تجھ سے ہٹا کر غیر کو عطا کیا۔

حیاتِ نبی(ص) میں ہم اور تمھارے باپ دونوں ہی علی ابن ابی طالب(ع) کے حق کو  اچھی طرح سمجھتے

۳۴۸

 اور جانتے تھے، ان کے فضائل و کمالات  عیاں تھے پس جب خدا نے نبی(ص) کو منتخب کیا اور ان کے لئے اپنا وعدہ پورا کیا، ان کی دعوت  کو آشکار کردیا اوران کی حجت کو  قائم کردیا تو خدا نے انھیں (نبی(ص) کو) اٹھا لیا تو تمھارے اور ان کے دوست نےسب سے پہلے علی(ع) کی مخالفت کی اور زبردستی ان کا حق چھین لیا، اس میں وہ ( ابوبکر اور عمر) دونوں ہی شریک تھے اور دونوں  نے اس (خلافت) سے فائدہ اٹھایا، پھر تمھارے باپ اور ان کے دوست (عمر) نے علی(ع) سے بیعت کا مطالبہ کیا تو انھوں نے تامل کیا اور عذر کیا تو انھوں نے علی(ع) پر حملہ کیا اور ورپئے آزار ہوئے پھر حضرت علی(ع) نے ان ہی سے مصالحت کر لی لیکن تمھارے باپ اور ان کے دوست (عمر) نے یہ طے کیا کہ علی(ع) کو اپنے کسی کام میں شریک نہ کریں گے اور نہ اپنا راز بتائیں گے چنانچہ دونوں (ابوبکر و عمر) کو اسی حالت میں موت آئی اور قصہ ختم ہوا، پھر ان کا تیسرا ،" عثمان" کھڑا ہوا اور اس نے بھی انہی دونوں کا راستہ اختیار کیا اور انہی کیسیرت کو اپنایا تو اس پر تم نے اور تمھارے آقا(علی(ع))  نے حسد کیا یہاں تک کہ دور دراز کے معصیت کار بھی خلافت کی طمع کرنے لگے پس تم نے اس کے لئے چال چلی اور وہ چیز حاصل کر لی جس کا خواب دیکھا تھا۔

 ابوبکر کے بیٹے اپنے لئے اسباب فراہم کرلو، عنقریب تم اپنے ئے چکھو گے۔ اب تمجاپنے پیمانے اور تخمینہ سے اچھی طرح اندازہ کر کے دیکھو تو اس شخص سے کسی طرح بھی برابری نہیں کر سکو گے جو اپنی عقل سے پہاڑوں کو تول لیتا ہے اور وہ اپنے نیزے کی  گرفت میں نرم نہیں ہے اور کوئی اس کے صبر کا اندازہ نہیںلگا سکتا۔

تمہارے باپ نے اس کے لئے راستہ ہموار کیا اور اس کی بادشاہت  کی بنیاد کرکھی پس اگ ہم صحیح راستہ پر گامزن ہیں تو تمہارے والد اس کے پہلے سالک ہیں اور اگر ہم ظالم ہیں تو  تمہارے باپ نے ظلم کیا اورہم ان کے شریک کار ہیں ، ہم نے انکے راستہ کو اختیار کیا اور ان کے افعال کی اقتداء کی ، اگر تمہارے والد نے پہلے یہ نہ کیا ہوتا تو ہم ابن ابی طالب(ع) کی کبھی مخالفت نہ کرتے اور خلافت ان ہی پر چھوڑ دیتے لیکن ہم نے دیکھا کہ یہی کام پہلے تمہارے باپ انجام دے چکے ہیں تو ہم نے ان کی پیری کی اور ان کے افعال میں ان کی اقتداء کی پس اب تم اپنے باپ کو برا بھلا کہو یا چشم

۳۴۹

پوشی کرلو!

                                                     والسلام علی من اناب ورجع من غوايته و تاب

( جمہرۃ رسائل العرب ج۱ ص ۴۷۷، مروج الذہب ج۲ ص ۶۰، شرحِ ابن ابی الحدید ج۱ ص۲۸۶)

معاویہ کے اس جواب سے ہم یہ نتیجہ نکالتے  ہیںکہ وہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل اور کمالات کا منکر نہیں تھا لیکن اس سلسلہ میں اس نے ابوبکر و عمر کے راستہ کو اختیار کیا ، اگر یہ دونوں نہ ہوتے وہ ( معاویہ) کبھی علی(ع) کو حقیر نہ سمجھتا اور نہ کوئی شخص آپ پر سبقت کرتا جیسا کہ معاویہ نے اعتراف کیا ہے کہ بنی امیہ کی بادشاہت اور خلافت کے لئے تو ابوبکر نے راستہ ہموار کیا ہے اور انہوںنے( ابوبکر نے) ہی انکی بادشاہت کی بنیاد رکھی ہے۔

اور معاویہ کے س خط سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ معاویہ نے رسول(ص) کی اقتداء نہیں کی اور نہ آپ کے راست پر چلا جیسا کہ جیساکہ اس نے اس بات  کا اعتراف بھی کیا ہے کہ میں نے عثمان نے ابوبکر اور عمر کی سیرت پر عمل کیا۔

اس خط سے یہ بات بھی آشکار ہوجاتی ہےکہ ان سب ( ابوبکر و عمر و عثمان اور معاریہ ) نے رسول(ص) کی سنت کو چھوڑ دیا تھا اور ایک دوسرے کی بدعت کی پیروی کرتے تھے جیسا کہ معاویہ کو اس بات  کا اعتراف ہے کہ وہ ان  گمراہ لوگوں میں سے ایک تھا جو کہ باطل امور انجام دیتے تھے اور انھیں نبی(ص) نے لعین ابن لعین کہا ہے۔

عام قائدہ کے مطابق اس خط کا تذکرہ کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں جو یزید(لع) ابن معاویہ نے ابنِ عمر کے جواب میں لکھا تھا۔ اگر چہ اس کا جواب بھی لب لباب وہی ہے جو اس کے باپ کے خط کا ہے ۔

             بلاذری نے اپنی تاریخ میںلکھا ہے کہ:

جب حسین ابن علی ابن ابی طالب(ع)  شہید کردیئے گئے تو عبداللہ ابن عمر نے یزید (لع) کودرج ذیل مضمون پر مشتمل ایک خط لکھا:

۳۵۰

             امّا بعد :

غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور مصیبتیں عیاں ہوگئیں اور اسلام میں عظیم رخنہ پڑگیا اور قتلِ حسین(ع) جیسا کوئی دن نہ ہوگا۔

یزید (لع) نے جواب لکھا :

اما بعد :

اے بیوقوف ہم تو اس نئے گھر میں ، کہ جس میں فرش بچھا ہوا ہے ، تکئے لگے ہوئے ہیں ، اب آئے ہیں۔ انہوں ( حسین ابن علی(ع)) نے اس سلسلہ میں ہم سے جنگ کی۔

پس اگر یہ ہمارا حق ہے تو ہم نے اپنے حق سے دفاع کے لئے جنگ کی اور اگر یہ ہمارے غیر ( علی اور اولادِ علی(ع)) کا حق ہے تو سب سے پہلے تمہارے باپ نے یہ ریت قائم کی اور حقدار کے ہاتھ سے چھین لیا۔

اور معاویہ نے جو ابوبکر کے بیٹے کی تردید کی ہے اور یزید(لع) نے جو ابن عمر کو جواب دیا ہے اس میں ہمیں وہی منطق اور احتجاج ملتا ہے ، قسم اپنی جا ن کی یہی لازمی امر تھاکہ جس کو ضمیر کہتا ہے اور عقلمند محسوس کرتا ہے اس سلسلہ میں معاویہ اور اس کے بیٹے یزید(لع) کی گواہی بھی ضروری نہیں ہے۔

اگر حضرت علی(ع) پر ابوبکر او عمر استبداد نہ کرتے تو ملتِ اسلامیہ پر جو کچھ گذر گئی وہ نہ گذرتی اور اگر نبی(ص) کے بعد علی(ع) کو خلافت مل گئی ہوتی اور آپ مسلمانوں کے حاکم بن گئے ہوتے تو ان کی خلافت چالیس (۴۰) سال تک یعنی نبی(ص) کے بعد تیس (۳۰) سال تک باقی رہتی اور اسلام کے قوانین اور اصول و فروع کو مضبوط کرنے کے لئے یہ مدت کافی تھی اور آپ(ع) بغیر کسی تحریف و تاویل کے کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کے مطابق عمل کراتے ۔

اور جب آپ کی وفات کے بعد جوانانِ جنت کے سردار امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) اور ان کی معصوم اولاد کو خلافت ملتی تو پھر تین سو سال تک خلافتِ راشدہ کا دور رہتا کہ جس کے بعد کافروں، منافقوںاور ملحدوں کا نہوجود رہتا اور نہ اثر رہتا ظاہر ہے اس زمین کا کچھ اور ہی رنگ ہوتا اور آج

۳۵۱

کے لوگوں کی کیتیت ہی کچھ اور ہوتی

                     لاحول ولا قوّة الا بالله العلی العظيم

اس احتمال پر بعض اہل سنت والجماعت ہمیشہ اعتارض کرتے ہیں کہ جسکی دو وجہیں ہیں۔

۱۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی خدا چاہتا تھا اور اس نے ایسے ہی مقدر کیا تھا ، اگر خدا علی(ع) اور ان کی اولاد کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانا چاہتا تو ضرور ایسا ہی ہوتا، اہل سنت ہمیشہ اسی میں پڑے رہتے  ہیں کہ خدا کی اختیار کردہ چیز میں خیر ہے۔

۲۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ : اگر نبی(ص) کی وفات کے فورا علی(ع) خلیفہ بن گئے ہوتے اور ان کے بعد تختِ خلافت پر حسن و حسین علیہما السلام متمکنہوئے ہوتے تو خلافت ایک میراث بن جاتی جو کہ باپ سے بیٹوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اور اسے اسلام پسند نہیں کرتا ہے بلکہ اس نے خلافت کا مسئلہ شورای پر چھوڑا ہے۔

             اس کا جواب میں ہم کہتے ہیں :

اولا ۔۔۔ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ خدا کا ارادہ تھا اور یہی مقدر تھا بلکہ قرآن اور حدیث میں اس کے برعکس دلیلیں موجود ہیں  چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:

اگر دیہاتوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور تقوا اختیار کرتے تو ہم ان پر  زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے ہمارے پیغمبر(ص) کے جھٹلایا تو ہم نے بھی ان کے کرتوتوں کی بدولت انھیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ ( سورۃ اعراف، آیت۹۶)

اور سی طرح ارشاد ہے:

اور اگر یہ لوگ توریت او انجیل اور جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کے مطابق احکام قائم رکھتے تو ضرور ان پر آسمان و زمین کے دروازے کھل جاتے اور وہ اچھی طرح کھاتے ان میں کچھ لوگ اعتدال پسند ہیں اور بہت سے ہیں کہ برائی کرتے ہیں(مائدہ ۶۶)

۳۵۲

 نیز ارشاد ہے :

اگر تم خدا کا شکر کرتے اور اس پر ایمان  لاتے تو خدا تم پر کیون عذاب کرتااور خدا تو قدر دان اور واقف کا ر ہے۔(نساء ۱۴۷)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

بے شک خدا  اس وقت تک کسی قوم ی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔ ( رعد ۱۱)

ان واضح اور روشن آیتوں سے یہ بات آشکار ہے کہ جو کچھ اںحرافات ہیں وہ فردی ہوں یا اجتماعی وہ سب انہی کی طرف سے ہیں۔

حدیثِ رسول(ص) ہے:

میں نے تمہارے درمیان کتابِ خدا اور اپنی عترت چھوڑی ہے، اگر تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

نیز فرمایا :

لاؤ تمہارے لئے نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم  میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

آپ(ص) نے ہی فرمایا : عبقریب میری امت (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں سے ایک جنتی ہے اور باقی جہنمی ہیں۔

ان تمام حدیثوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امت اس لئے گمراہ ہوئی کہ اس نے خدا کی اختیار کی ہوئی چیز سے منہ موڑ لیا تھا۔

ثانیا :         فرض کیجئے کہ اسلامی خلافت وراثت بن جاتی تو کوئی ( حرج نہیں تھا) کیونکہ یہ اپنی میراث نہ بنتی جیسا کہ ان کا خیال ہے کہ حاکم اپنی رعیت پر استبداد کر کے اپنیوفات سے قبل اپنے بیٹے کو اس کا حاکم بنا دیتا ہےجس کو ولی عہد کہا جاتا ہے چاہے دونوں باپ بیٹے فاسق ہوں۔ بلکہ یہ

۳۵۳

( خلافت) خدائی میراث ہوتی، جس کو اس خدا نے اختیار کیا ہے کہ جس کے علم سے رائی کے دانے کا بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے لئے ایسے چنیدہ افراد کو مخصوص کیا ہے جن کو اس نے منتخب کیا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کا وارث بنایا ہے  تاکہ وہ لوگوں کے امام بن جائیں۔ چنانچہ ارشاد ہے:

اور ہم نے انھیں امام بنایا وہ ہمارے حکم سے ان کی ہدایت کرتے ہیں اور ہم نے نیک کام نماز قائم کرنے اور زکواۃ دینے کے لئے ان پر وحی نازل کی ہے اور وہ ہمارے عبادت گزار ہیں۔( انبیاء ۷۳)

باوجود یکہ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ  اسلام خلافت کے میراث قرار نہیں دیتا ہے اور اس کا فیصلہ شوری پر چھوڑتا ہے۔ لیکن مغالطہ ہے، تاریخ اور واقعات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ در حقیقت خود وراثت والے منفور نظام میں مبتلا ہیں ۔ حضرت علی(ع) کے بعد ظالم و غاصب لوگ امت کے حاکم بنے کہ جنہوں نے امت کی ناراضگی کے باوجود اپنے فسق بیٹوں کو امت کا حاکم بنادیا۔

پس ان می سے کون سا افضل ہے ، فاسق اپنی خواہش نفس سے میراث کے طور پر اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنائیں؟ یا ائمہ طاہرین(ع) کہ جنہوں نے منتخب کیا اور جن سے رجس کو دور رکھا ہے، علم کتاب کا وارث بنیا تا کہوہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کریں اور انھیں سیدھے راستہ کی ہدایت کریں اور انھیں نعمتوں  والی جنت میں داخل کریں۔ پھر ارشاد ہے:

             داؤد (ع) نے  سلیمان(ع) کو وارث بنایا۔ ( نحل ۱۶)

میں تو سمجھتا ہوں کہ عقلمند مسلمان دوسری ہی شق کو اختیار کرےگا! گذشتہ باتوں پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس لئے ہم اپنے موضوع  کی طرف پلٹتے ہیں۔جب ابوبکر و عمر نے امری المؤمنین علی(ع۹) کو تختِ خلافت سے الگ رکھا اور دونوں خلافت کی قمیص کو زبردستی پہن لیا اور اس کی آڑ میں علی(ع) فاطمہ(س) اور اہل بیت (ع) کی توہین کی تو اب معاویہ، یزید(لع) اور عبدالملک ابن مروان جیسوں کے لئے ان افعال کا انجام دینا آسان ہوگیا جن کا گذشتہ حاکم ارتکاب  کرچکے تھے اور پھر ابوبکر و عمر نے معاویہ کے لئے راہ ہموار کی اور اسے شہروں پر تسلط دیا یہاں

۳۵۴

تک کہ وہ بیس(۲۰) سال سے زیادہ شامکا حاکم رہا اور اسے قطعی معزول کرنے کے بارے میں نہ سوچا چنانچہ لوگوں پر معاویہ کا خوف و ہراس طاری ہوگیا اور پھر اس کی خواہش کے مقابل میں طاقت دم زدن نہ رہی ۔ اپنے بعد اس نے یزید(لع) کو خلیفہ بنادیا جیساکہ یزید(لع) نے صریح طور پر  کہا ہے، ہمیں تو نئے گھر ، بچھے ہوئے فرش اورلگے ہوئے تکئے ملے ہیں، ان چیزوں کےلئے جنگ کرنا فطری بات تھی چنانچہ اس نے نواسہ رسول(ص)  کو قتل کرنے میں کوئی پرواہ نہ کی کیوں کہ اس نے اپنی ماں میسون کے پستانوں سے بغض اہل بیت(ع) کا دودھ پیا تھا اور اپنے اس باپ کی گود میں پلا بڑھا تھا جو اہل بیت(ع) پر  سبّ و شتم کرتا تھا۔ ظاہرا ایسے شخص سے ایسی چیزوں کا ارتکاب کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

                     بعض شعراء نے اپنے کلام میں اس حقیقت کا اعتراف کی اہے ۔ کہتے ہیں:

                             لو لاَ حدودَ صوارم             امضیٰ مضاربَها الخلیفه !

                             لنثرت من اسرار آلِ !          محمّد جملا ظریفه !!

                             و اریتکم ان الحسین(ع)!!     اصیب یوم السقیفه !!

اگر  دار و رسن کا خوف نہ ہوتا جو کہ خلیفہ نے معین کر رکھی ہیںتومیں ضرور ظریف جملوں میں آل محمد(ص) کے اسرار کو بیان کرتا ااور آپ کو  یہ دکھا دیتا کہ حسین(ع) تو سقیفہ کے روز ہی قتل ہوچکے تھے۔

بال کی کھال نکالنے والا محقق اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کو ابوبکر و عمر کے طفیل میں حکومت ملی تھی۔

اس لئے دوںوں حکومتوں نے ابوبکر وعمر کے ذکر کو خوب بلند کیا اوران کے اخلاقی فضائل کو ثابت کرنے کے سلسلہ می ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور خلافت کےلئے انھیں زیادہ حقدار ثابت کیا ہے کیوںکہ وہ ( بنی امیہ اور بنی عباس) اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان کی خلافت اسی صورت میں کامل ہوسکتی ہے کہ جب وہ ابوبکر و عمر کی خلافت کو صحیح تسلیم کریں ۔

اور دوسری طرف ہم ان سب کو اہل بیت(ع) پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے

۳۵۵

دیکھتے  ہیں صرف اس قصور پر کہ وہ (اہل بیت(ع))  شرعی طور پر خلافت کے وارث تھے اور ان لوگوں کی خلافت اور حکومت کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔

اور یہ بات تو حق پہچاننے والے اشخاص کے نزدیک بدیہی ہے اور اس زمانہ میں آپ بھی بعض اسلامی ممالک میں اس چیز  کو مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ چند ممالک پر ان لوگوں کی بادشاہت ہے کہ جن کا کوئی ذاتی فضل و شرف نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بادشاہوں اور حکام کے بیٹے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے یزید(لع) بادشاہ بن گیا تھا کیونکہ اس کا باپ معاویہ بادشاہ تھا جوکہ قہر و غلبہ سے امت کا حاکم بنا تھا۔

پس یہ بات معقول نہیں ہے کہ سعودی عرب کے امراء اور بادشاہ اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں سے محبت کریں۔

اسی طرح سعودی عرب کے حکام اور ملوک کے لئے معاویہ اور یزید(لع) اور جنہوں نے ان کے لئے ولیعہدی کا دستور ایجاد کیا ، اور بنی امیہ و بنی عباس کہ جن سے آج بادشاہ مدد حاصل کرتے ہیں انھیں برا بھلا کہنا بھی معقول نہیں ہے۔

یہیں سے خلفاء کی تعظیم و تقدیس اور ان کی فضلیت و عدالت کا بھی سوتا پھوٹتا ہے اور یہی ان پر تنقید نہ کرنے اور ان کے متعلق جرح سے روکنے کا راز ہے اس لئے کہ سقیفنہ کے دن سے آج تک جتنی حکومتیں وجود میں آئی ہیں یا خدا کی زمین اور اس کی چیزوں کا وارث بنانے تک جتنی حکومتیں وجود میں آئیں گی ان سب کی بنیاد وہی لوگ ہیں۔

اس بنیاد پر یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے لئے اہل سنت والجماعت کا نام کیوں  منتخب کیا ہے اور اپنے غیر زندیق و رافضی کیوں کہتے ہیں! اس لئے کہ علی(ع) اہلبیت(ع) اور شیعوں نے اہل سنت کے خلفاء کی خلافت کا انکار کردیا تھا اور ان کی بیعت کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا تھا  اور ہر مناسب موقع پر ان کے خلاف احتجاج کرتے تھے نتیجہ میں حکام نے بھی انھیں ذلیل و رسوا کرنے ، ان پر لعنت کرنے، جلاوطن کرنے اور قتل کرنے پر کرنے پر کمر باندھ لی تھی۔

۳۵۶

اور جب ان اہلبیت(ع) کو قتل کیا گیا کہ جن کی محبت کو قرآن میں اجر رسالت قرار دیا گیا ہے تو پھر ان کے شیعوں اور دوستداروں کا اذیت ناک سزاؤں ، انسانیت سوز مظالم اور ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی چنانچہ حق گمنام اور مردود بن گیا اور باطل قائد و رہبر اور واجب الطاعت بن گیا۔

پس جس نے علی(ع) سے محبت کی اور اس کا اعلان کیا وہ بدعتی اور فتنہ انگیز ہے اور معاویہ کو دوست رکھنے والا اہل سنت والجماعت ہے۔

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں عقل عطا کی ، جس کے ذریعہ ہم حق کو باطل سے ،نور کو تاریکی سے اور سفیدی کو سیاہی سے جدا کرتے ہیں۔ بے شک میرے آقا کا سیدھا راستہ ہے اور اندھے اور دیکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی نور  و تاریکی  برابر ہوسکتے ہیں اورسایہ اور دھوپ بھی یکساں نہیں ہوسکتے اور زندہ و مردے برابر  نہیں ہوسکتے، بے شک خدا جس کو چاہتا ہے اپنی بات سنا دیتا ہے اور آپ انھیں نہیں سنا سکتے جو قبروں کو اندر رہنے والے ہیں۔( سورہ فاطر ، آیت ۱۹، ۲۲)

۳۵۷

صحابہ شیعوں کی نظر میں

جب ہم غیر جانب دار ہوکر صحابہ کے موضوع پر بحث کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ انھیں وہی حیثیت دیتے ہیں جو قرآن و حدیث اور عقل دیتی ہے وہ سب کا کافر نہیں کہتے ہیں جیسا کہ غالی کہتے ہیں اور نہ ہی تمام صحابہ کو عادل تسلیم جیسا کہ اہل سنت والجماعت  کا مسلک ہے۔

اس سلسلہ میں امام شرف الدین موسوی فرماتے ہیں۔ جس نے صحابہ کے متعلق سنجیدگی سے ہمارے نظر یہ کا مطالعہ کیا وہ اس بات کو سمجھ گیا کہ یہی معتدل راستہ ہے۔ کیونکہ ہم اس سلسلہ میں نہ تو غالیوں کی طرح تفریط کے شکار ہیں کیوں کہ وہ تمام صحابہ کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی جمہوری(سنیوں) کی طر ح افراط کا شکار ہیں جو کہ تمام صحابہ کو معتبر وموثق کہتے ہیں، بے شک کاملیہ اور غلو میں  ان کا شریک تمام صحابہ کو  کافر کہتا ہے اہل سنت ہر اس مسلمان کو عادل کہتے ہیں جس نے نبی(ص) کو دیکھا یا ان سے کچھ سنا ہے۔

اگر چہ صرف صحبت ہمارے نزدیک بہت بڑی فضیلت ہے لیکن صحبت بغیر کسی قید و

۳۵۸

 شرط کے معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس اعتبار سے صحابہ بھی ایسے ہی ہیں جیسے دیگر افراد، ان میں عادل بھی ہیں۔ سربرآوردہ بھی ہیں اورعلما بھی ہیں چنانچہ ان ہی میں باغی بھی ہیں، جرائم پیشہ بھی ہیں، منافقین بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں پس ہم ان میں سے عادلوں کو تسلیم کرتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ان سے محبت کرتے ہیں۔

لیکن نبی(ص) کے وصی اور علی(ع)  سے بغاوت کرنے والے اور دیگر جرائم پیشہ کی جیسے ہند کے بیٹے ابن زرقا، ابن عقبہ اور ارطاہ کے خلف نا سلف ہیں۔ پس ان کی کوئی عزت نہیں ہے اور نہ ان کی حدیث کا کوئی و زن ہے اور  جن کے حالات معلوم نہیں ہیں ان کے سلسلہ میں حالات معلوم ہونے تک توقف کریں گے۔

صحابہ کے سلسلہ میں یہ ہے ہمارا نظریہ اور قرآن و حدیث بھی ہمارے اس نظریہ کی تائید کررہی ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مفصل طور پر یہ بحث موجود ہے لیکن جمہور نے صحابہ کی تقدیس میں اتنا مبالغہ سے کام لیا کہ میانہ روی سے نکل گئے اور اس سلسلہ میں ہر ضعیف و جعلی حدیث سے استدلال کرنے لگے اور ہر اس مسلمان شخص کی اقتداء کرنے لگے جس نے نبی(ص)  سنا ہو یا آپ(ص)  کو دیکھا ہو۔ بالکل اندھی تقلید اور جن لوگوں نے اس غلو کی مخالفت کی اس پر  انھوں نے سبّ وشتم کی بوجھار کی ۔

وہ ہمیں اس وقت بہت برا بھلا کہتے ہیں جب ہم دینی حقائق کی تحقیق اور بنی(ص) کے صحیح آثار کی تلاش میں واجب شرعی پر عمل کرتے ہوئے مجہول الحال صحابہ کی بیان کردہ حدیث کو  رد کردیتے ہیں۔

ان ہی باتوں کی بنا پر وہ ہم سے بدگمان ہیں چنانچہ جہالت و نادانی کی بنا پر وہ ہم پر رکیک قسم کی تہمتیں لگاتے ہیں، اگر وہ عقل سے کام لیتے اور قواعد علم کی طرف رجوع کرتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ صحابہ کی عدالت والے مقولہ پر کوئی دلیل نہیں ہے اگر وہ (اہل سنت) قرآن میں غور و فکر کریں گے تو  معلوم ہوگا کہ منافق صحابہ کے ذکر سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ اس کے لئے

۳۵۹

سورہ احزاب و توبہ کا مطالعہ کافی ہے۔۔۔۔

جامعہ عین الشمس " قاہرہ" کے شعبہ عربی ادب کے پروفیسر ڈاکٹر  حامد حنفی داؤد کہتے ہیں، لیکن شیعہ صحابہ کو بھی ایسا سمجھتے ہیں جیسے عام افراد ہیں ، ان ( صحابہ) کے اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے درمیان کسی فرق و فضیلت کے قائل نہیں ہیں۔

اصل میں وہ (شیعہ) صرف عدل کو پیمانہ سمجھتے ہیں چنانچہ اسی صحابہ کے افعال کو ناپنے ہیں اور اسی طرح صحابہ کے بعد آنے والوں کے افعال کو بھی اسی کسوٹی پر کستے ہیں اور پھر صحبت، کوئی فضیلت نہیں ہے مگر  یہ کہ کوئی یہ کہ انسان فضلیت کا اہل ہو اور  اس کے اندر رسالتمآب(ص)  کے پاس ٹھہرنے کی استعداد ہو ، صحابہ میں سے معصوم بھی ہیں جیسے وہ ائمہ ہیں جو کہ رسول(ص) کی صحبت سے فیضیاب ہونے ہوئے ہیں مثلا علی(ع)  اور  ان کے فرزند، ان میں ایسے عادل بھی ہیں جنہوں نے رسول(ص) کی وفات کے بعد علی(ع) کی صحبت اختیار کی۔

ان میں ، ایسے مجتہد بھی ہیں جو مصیبت ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کا اجتہاد غلط ہے ان میں فاسق بھی ہیں، زندیق بھی ہیں جو کہ فاسقوں سے بھی گئے گزرے ہیں اور زندیق ہی لے دائرہ میں منافق اور وہ لوگ داخل ہیں، جو کہ صرف ظاہری طہور پر خدا کی عبادت کرتے تھے۔ جیسا کہ ان میں و ہ کفار بھی ہیں جنھوں نے نفاق کے بعد توبہ نہیں کی ہے اور وہ بھی ہیں جو اسلام لانے کے بعد  مرتد ہوگئے تھے۔

شیعہ ۔جو کہ اہل قبلہ میں سے بڑا گروہ ہے ۔ تمام مسلمانوں کو ایک ترازو میں تو لتے ہیں اس سلسلہ میں ان کے یہاں صحابی ، تابعین اور متاخرین کا امتیاز نہیں ہے پھر صحبت انھیں معصوم نہیں بناسکتی ہے اور نہ اعتقادی مسائل انھیں کجی سے بچاسکتے ہیں اور اسی مستحکم  بنیاد کی وجہ انھوں نے اپنے کے لئے ۔ اجتہاد  سے ۔ صحابہ پر تنقید کرنا اور ان کی عدالت کی تحقیق کی مباح سمجھ لیا ہے۔ جیسا کہ وہ ان صحابہ پر سب و شتم کرنے کو بھی سمجھتے ہیں۔ جنھوں نے صحبت کے شرائط کو پس پشت ڈالدیا تھا اور آلِ محمد(ص) محبت کو چھوڑا دیا تھا۔

۳۶۰