شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105527
ڈاؤنلوڈ: 5935

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105527 / ڈاؤنلوڈ: 5935
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اور کیوں نہ ہو، جبکہ رسول اعظم (ص) نے فرمایا ہے:

     " إِنِّي‏ تَارِكٌ‏ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي [مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً] وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونَنِي فِيهِمَا."

" میں تمھارے درمیان کتاب خدا اور اپنے اہل بیت(ع) عترت کوچھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض ( کوثر) پروارد ہوں گے دیکھو : میرے بعد ان دونوں کے ساتھ سلوک کرتے ہو۔"

یہ اور اس جیسی دوسری حدیثوں سے یہ معلوم  ہوتا ہے کہ اکثر صحابہ نے آل محمد(ص) پر ظلم ڈھائے اور ان پر منبروں سے لعنت کرنے کی بنا پر اس حدیث کی مخالفت کی تو ان مخالفوں کو صحبت  سے کیا شرف حاصل ہوا اور انہیں کیسے عدالت سے متصف کیا جاسکتا ہے؟صحابہ کی عدالت کی نفی کےسلسلہ میں یہ ہے شیعوںکے نظریہ کا خلاصہ در حقیقت یہ وہ علمی اور واقعی اسباب ہیں جن پر شیعوں کے حجج کے بنیاد استوار ہے۔

یہی ڈاکٹر حامد حضنی داؤد دوسری جگہ اس بات کا اعتراف کرتےء ہںکہ صحابہ پر تنقید کرنا اور ان میں عیب نکالنا صرف شیعوں کی بدعت نہیں ہے کیوںکہ زمانہ قدیم میں اس بدعت کے لئے معتزلہ نے بھی اعتقادی مسائل میں وہی چیز بیان کی ہے جو کہ شیعہ بیان کرتے ہیں اور انھوں نے اسی پر  اکتفا نہیں کی ہے کہ عام صحابہ پر تنقید کرتے ہیں بلکہ اپنے خلفا پر بھی تنقید کی ہے اور جب انھوں نے تنقید کی تھی تو اس وقت ان میں صحابہ کے موافق بھی تھے اور مخالف بھی تھے۔یہ مسئلہ "صحابہ" پر تنقید فقط صاحبان علم سے مخصوص ہے اور اس راستہ کو ان شیعہ علما نے اورانکے سربرآوردہ افراد نے طے کیا ہے جو کہ محبت آلِ محمد(ص)  میں سخت تھے۔

میں پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ کرچکا ہوں کہ معتزلہ کے علمائے کلام اور بزرگ افراد نے  پہلی ہی صدی سے ہی علمائے شیعہ کی فکر کو اختیار کیا ہے ۔ اس بنا پر صحابہ پر تنقید کرنا شیعیانِ آلِ محمد(ص) کی

۳۶۱

ایجاد ہے لیکن وہ تشیع کی ایجاد ہے  خود تشیع و شیعیت نہیں ہے جیسا کہ شیعیان آل محمد(ص) اپنے عقائدی تبحر علمی سے پہچانے جاتے تھے اور یہ شہرت اس لئے تھی کہ انھوں نے درِ اہلِ بیت(ع) سے علم حاصل کیا تھا اور یہ وہ معین واصل مصدر ہےجس  سے اسلامی ثقافت صدر اسلام سے آج تک فیض حاصل کررہی ہے یہ تھا ڈاکٹر حامد داؤد کا نظریہ۔

میرا نظریہ تو یہ ہے کہ ہر حقیقت کے متلاشی انسان کو نقد و تبصرہ سے کام لینا پڑے گا ورنہ حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے گا بالکل اسی طرح جیسے اہلِ سنت والجماعت نے صحابہ کی عدالت کے سلسلہ میں مبالغہ کیا اور ان کے حالات کی تحقیق نہ کی لہذا آج تک حق سے نا  آشنا ہیں۔

۳۶۲

صحابہ اہل سنت والجماعت کی نظر میں

اہل سنت والجماعت صحابہ کی تقدیس و طہارت میں مبالغہ کرتے ہیں اور بلا استثنی سب کو عادل کہتے ہیں اور اس طرح وہ عقل ونقل کے دائرہ سے نکل گئے ہیں چنانچہ وہ ہر اس شخص کی مخالفت کرتے ہیں جو کسی صحابی پر تنقید کرتا ہے  یا کسی صحابی کو غیر عادل کہتا ہے، اس سلسلہ میں تمھارے سامنے ان کے کچھ اقوال پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مفاہیم قرآن اور نبی(ص) کی صحیح سنت  اورعقل و ضمیر سے ثابت شدہ چیزوں سے کتنی دور ہیں۔

شرح مسلم میں امام نووی تحریر فرماتے ہیں: بے شک صھابہ رضی اللہ عنہم سب برگزیدہ اور امت کے سردار ہیں اوراپنے بعد والوں  میں سب سے افضل ہیں ۔ سب عادل ہیں ایسے پیشوا ہیں جن میں کھوٹ نہیں ہے۔ ہاں بعد والوں میں کھوٹ پایا جاتا ہے اور ان کے بعد والے تو بالکل  بھوسی  چوکر ہیں ۔ ( صحیح مسلم جلد۸، ص۲۲)

یحی اابن معین کہتے ہیں : جو شخص عثمان یا طلحہیا رسول (ص) کے کسی بھی صحابی پر لعنت کرتا ہے وہ دجال ہے اور اس کا کوئی عمل مقبول نہ ہوگا اور اس پر اللہ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔( التہذیب ج۱، ص۵۰۹)

۳۶۳

ذہبی کہتے ہیں: کسی بھی صحابی کو برا جبھلا کہنا ، بڑا گناہ ہے پس جو شخص ان میں خامی نکالتا ہے یا ان پر لعنت کرتا ہے وہ دین سے خارج اور  ملت اسلامیہ  سے جدا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذہبی ص۲۳۳۔  ۲۳۵)

قاضیابو یعلی سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو کہ ابوبکر پر لعنت کرتا تھا انھوں نے کہا ایسا شخص کافر ہے، کہا گیا اس پر نماز پڑھنی چاہئیے ؟ کہا نہیں۔ لوگوں نے کہا پس اس کے ساتھ کیا  سلوک کرنا چاہئیے ۔ جبکہ وہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا تھا؟ قاضی نے کہا اسے اپنے ہاتھوں سے چھونا بھی نہیں بلکہ لکڑی سے ڈھل کر دفن کردو۔

احمد ابن حنبل کہتے ہیں: نبی(ص) کے بعد ابوبکر اور ان کے بعد عمر اور ابن خطاب کے بعد عثمان اور ابن عفان کے بعد علی(ع) امت میں سب سے افضل ہیں اور یہی خلفائے راشدین ہیں اور ان چار کے بعد رسول (ص) کے باقی صحابہ تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی برائی کرنا جائز نہیں ہے اور نہہی ان میں نقص و عیب نکالنا جائز ہے پس اگر کوئی شخص اس فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو سزا دینا واجب ہے۔ اسے معاف نہیںکیا جاسکتا ۔ بلکہاسے سزا دی جائے گی اور توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اگر توبہ کر لیگا تو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر توبہ نہ کرے تو دوبارہ سزا دی جائے گی اور عمر قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مرجائے یا توبہ کر لے۔

شیخ علاء الدین طرابلسی حنفی کہتے ہیں ۔ جو شخص اصحاب نبی(ص) میں سے ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی(ع) ، معاویہ یا عمرو بن عاص پر سب شتم کرتا  ہے اور انھیں گمراہ و کافر کہتا ہے تو قتل کیا جائے گا اور اگر صرف بر بھلا کہتا ہے تو اسے عبرت ناک سزادی جائے گی۔

ڈاکٹر حامد حنفی داؤد اختصار  کے ساتھ اہل سنت والجماعت کے چند اقوال نقل کرتے ہیں چنانچہ کہتے ہیںکہ: اہل سنت والجماعت تمام صحابہ کو عادل سمجھتے ہیں اور وہ سب عدالت میں مشترک ہیں اگر چہ درجات و مراتب میں مختلف ہیں، جو شخص کسی صحابی کی طرف کفر کی نسبت دیتاہے

۳۶۴

وہ کافر ہے اور اگر کوٓئی کسی صحابی کی طرف فسق کی نسبت دیتا ہے تو وہ فاسق ہے اور جس نےکسی صحابی پر اعتراض کیا گویا اس نےرسول(ص) پر اعتراض کیا۔

اور اہل سنت کے بڑے بڑے علما کا نظریہ ہے کہ حضرت علی(ع) اور معاویہ کے درمیان رونما ہونے والے حالات کا تجزیہ و تحقیق کرنا جائز نہیں ہے۔

بے شک صحابہ میں سے جس نے اجتہاد کیا اور واقعہ تک رسائی حاصل کی وہ علی(ع) اور ان کے پیروکار ہیں اور معاویہ و عائشہ سے ان کے ماننے والوں سے خطائے اجتہادی ہوئی ہے۔ اوریہ لازمی امر ہے۔ اہل سنت کی نظر میں ۔ جہاں خطائے اجتہادی ہو وہاں خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔ اور برائیوں کو نہیں بیان کرنا چاہئے۔ اہل سنت معاویہ پر بھی اس لئے سب وشتم کرنے سے منع کرتے ہیں کہ وہ صحابی تھا اور عائشہ کو برا کہنے والے کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں عائشہ خدیجہ کے بعد ام المؤمنین اور رسول(ص) کی چہیتی ہیں۔

اس کےعلاوہ کہتے ہیں کہ ایسے معاملات کی تحقیق کرنا سزاوار نہیں ہے بلکہ انھیں خدا کی طرف لوٹا دینا چاہئیے ۔ اس سلسلہ میں حسن بصری اور سعید ابن مسیب کہتے ہیں ان امور سے خدانے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہے تو ہمیں اپنی زبانوں کو پاک رکھنا چاہئیے۔

یہ تھا صحابہ کی عدالت کے متعلق اہل سنت کی رایوں کا خلاصہ۔ ( کتاب الصحابہ فی نظر الشیعہ الامامیہ ص۸۔۹)

جو شخص تفصیلی طور پر صحابہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاننا چاہتا  ہے کہ اہل سنت والجماعت کی نظر میں اس اصطلاح کے کیا معنی ہیں۔ تو تحقیق سے معلوم ہوگا کہ اہلسنت و الجماعت یہ با شرف لقب و علامت ہر اس شخص کو ریتے ہیںجس نے نبی(ص) کو دیکھا ہو۔

بخاری کہتے ہیں : جو بھی نبی(ص) کے ساتھ رہا یا مسلمانوں میں سے کسی نے انھیں دیکھا تو وہ رسول(ص) کا صحابی ہے۔احمد ابن حنبل کہتے ہیں : بدری صحابی کے بعد سب سے افضل وہ شخص ہے جو ایک

۳۶۵

سال یا ایک ماہ یا ایک روز رسول(ص) کی صحبت و خدمت میں رہا  یا جس نے رسول(ص) کو دیکھا ہو اس کو اسی تناسب سے صحابی کہا جائے گا جتنی اسے صحبت نصیب ہوئی ہوگی۔ ( الکفایۃ ص۵۱ ،و کتاب تلقیح فہوم اہل الآثار)

ابن حجر کہتے ہیں: جس شخص نے بھی نبی(ص) سے کوئی حدیث یا لفظ نقل کیا ہے وہ مؤمن ہے اور صحابی ہے اور جس شخص نے حالتِ ایمان میں نبی(ص)  سے ملاقات کی اور مسلمان مرا ، اور آپ(ص) کے پاس زیادہ عرصہ تک رہا ہو یا کم مدت ، آپ(ص)ٌ سے روایت کی ہو یا نہ کی ہو، کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، کسی نے نبی(ص) کو دیکھا ہو لیکن آپ(ص)  کی خدمت و صحبت سے فیضیاب نہ ہواہو اور جس نے کسی رکاوٹ کی وجہ سے آپ(ص) کی زیارت نہ کی ہو وہ صحابی ہے۔( کتاب الاصابۃ لابن حجر جلد۱ ص۱۰)اکثر اہل سنت والجماعت کا یہی نظریہ ہے، ہر اس شخص کو صحابی کہتے ہیں جس نے نبی(ص) کو دیکھا ہو یا آپ(ص) کی حیات میں پیدا ہوا ہو خواہ وہ عقل و ادراک نہ رکھتا ہو، جیسا کہ ان میں سے بعض نے محمد ابن ابی بکر کو بھی صحابی قرار دیا ہے ۔ جب کہ وہ رسول(ص) کی وفات کے وقت تین ماہ کے تھے۔ابن سعد نے اپنی کتاب" طبقات" میں صحابی کو پانچ طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور صحابِ مستدرک حاکم نیشاپوری نے بارہ طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔

پہلا طبقہ :  وہ لوگ جو ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمان ہوچکے تھے جیسے خلفائے راشدین۔

دوسرا طبقہ : وہ لوگ دارالندوہ میں حاضر تھے۔

تیسرا طبقہ : جن لوگوں نے ملکِ حبشہ ہجرت کی تھی۔

چوتھا طبقہ : جو لوگ عقبہ اولیٰ میں حاضر تھے۔

پانچواں طبقہ : جو لوگ عقبہ ثانی میں حاضر تھے۔

چھٹا طبقہ : جن لوگوں نے رسول(ص) کی ہجرت کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔

ساتھواں طبقہ : جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔

آٹھواں طبقہ : جب لوگوں نے صلح حدیبیہ سے پہلے اور جنگ بدر کے بعد ہجرت کی۔

۳۶۶

نواں طبقہ : جو لوگ بیعت رضوان میں شریک تھے۔

دسواں طبقہ : جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل اور صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کی جیسے خالدابن ولید و عمرو ابن عاص و غیرہ۔

گیارہواں طبقہ : جن لوگوں کو نبی(ص) نے طلقا ( آزاد) کہا۔

بارہواں طبقہ : صحابہ  کے وہ لڑکے ، بچے جو حیات نبی(ص) میں پیدا ہوئے جیسے محمد ابن ابی بکر وغیرہ۔

اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں چنانچہ چاروں مذاہب تمام صحابہ کی روایات کو بغیر تردد کے قبول کرتے ہیں اور اس حدیث پر کسی بھی تنقید و اعتراض کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔

جب کہ آپ کو ان ( اہل سنت والجماعت) میں جرح و تعدیل کرنے والے افراد بھی ملیں  گے جنھوں نے احادیث کی تحقیق اور چھان بین کے سلسلہ میں محدثین اور رواۃ پر تنقید کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے ۔ لیکن جب وہ کسی صحابی تک پہنچتے  ہیں، خواہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو، وفاتِ نبی(ص) کے وقت اس کی عمر کچھ بھی رہی ہو تو فورا توقف کرتے ہیں اور اس کی روایت پر کسی قسم کی تنقید نہیں کرتے خواہ وہ حدیث عقل و نقل کے خلاف اور شکوک سے لبریز ہو۔ اہل سنت  کہتے ہیں کہ صحابہ تنقید اور جرح سے پاک ہیں وہ سب عادل ہیں!

قسم اپنی جان کی یہ تو زبردستی کی بات ہے جسے عقل نہیں قبول کرتی اور طبیعت پر گراں گزرتی ہے اور نہ ہی علم اس کو ثابت کرتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آج کے ذہین نوجوان اس مضحکہ خیز بدعت کو قبول کریں گے۔

اس بات کو ، کوئی نہیں جانتا کہ اہل سنت والجماعت نے یہ عجیب و غریب اور روح  اسلام سے الگ افکار کہاں سے لئے ہیں۔

اے کاش میں جانتا ،اے کاش ان میں سے کوئی مجھے کتابِ خدا ، سنت رسول(ص) ، منطقی دلیل کے ذریعہ صحابہ کی خیالی عدالت سمجھادیتا!

۳۶۷

لیکن ہم ان کی پوچ رایوں کا انحراف اور کجی سمجھ گئے ہیں، آنے والی فصل میں اس کی تشریح کریں گے۔محققین پر لازم ہے کہ وہ اپنی جگہ بعض ایسے اسرار سے پردہ ہٹائیں جو آج تک جرات و شجاعت کے دھنی کے محتاج چلے آرہے ہیں۔

۳۶۸

صحابہ کی حیثیت

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ انسان ہیں ۔ غیر معصوم ہیں اور عام لوگوں کی طرح ان پر بھی وہی چیزیں واجب ہیں جو کہ تمام انسانوں پر واجب ہیں اور جو حقوق صحابہ کے ہیں وہی دیگر افراد کے ہیں ۔ ہاںانھیںنبی(ص) کیصحبت کا شرف حاصل  ہے جب کہ انھوں نے صحبت کو  محترم سمجھا ہو  اور  کما حقہ اس کی رعایت کی ہو ورنہ دوگنا عذاب کے بھی مستحق قرار پائیں گے۔ کیوں کہ خدا کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ دور والے کو اتنا عذاب نہ دیا جائے جتنا قریب والے کو دیا جانا چاہئے، کیوںکہ دور والا ایسا نہیں ہے جیسا کہ وہ شخص ہے جس نے بالمشافہ نبی(ص) سے کوئی حدیث سنی ہے، نورِ نبوت کو دیکھا ہے اوسر معجزات کا مشاہدہ کیا ہے اور خود نبی(ص) کی تعلیمات سے مستفید ہوا ہے۔ چنانچہ نبی(ص) کے بعد والے زمانہ میں زندگی گزارنے والوں نے نہ آپ(ص) کو دیکھا ہے اور نہ بالمشافہ کوئی بات آپ(ص) کی زبانِ مبارک سے سنی ہے۔

رسول(ص) کےساتھ رہنے والے اس صحابی پر جو کہ آپ(ص) کے ساتھ رہا لیکن اس کے دل میں ایمان داخل نہ ہوا زبردستی اسلام قبول کیا یا نبی(ص) کی حیات میں تو صحابی متقی و پرہیزگار تھا لیکن آپ(ص) کی وفات

۳۶۹

 کے بعد مرتد ہوگیا ایسے صحابی پر عقل و وجدا ن اس شخص کو فضیلت دینا ہے جو کہ ہمارے زمانہ میں زندگی گزارتاہے لیکن قرآن وحدیث اور ان دونوں کی تعلیمات کا احترام کرتا ہے۔

اور اسی چیز کو قرآن و حدیث اورعقل و ضمیر بھی صحیح قرار دیتے ہیںاور جو شخص قرآنو حدیث کا تھوڑا سا بھی علم رکھتا ہے وہ اس حقیقت  میں قطعی شک نہیںکرسکتا اورنہ اس سے فرار کی راہ مل سکتی ہے۔

مثال کےطور پر خداوندِ عالم کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:

"يا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ كانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيراً " (احزاب ۳۰)

"اے نبی(ص) کی بیویوں جو بھی تم میں سے کھلی برائی کی مرتکب ہوگی اس کا عذاب بھی دھرا کر دیا جائے گا اور خدا کے لئے یہ بات بہت آسان ہے۔

پھر صحابہ میں وہ مؤمن بھی ہے جس نے اپنا ایمان کامل کیا۔ ان میں ضعیف الایمان بھی ہیں اور ان میں وہ بھی ہے جس کے قلب میں ایمان (کبھی) داخل نہ ہوا، ان میں متقی و پرہیز گار بھی ہے۔ ان میں بدعت گزار جاہل بھی ہیں۔ ان میںمخلص بھی ہیں، ان میں منافقین ، ناکثین ، صادقین اور مرتدین بھی ہیں۔

جب قرآنِ مجید ، حدیث نبی(ص) اور  تاریخ نے مذکورہ اقسام کو بیان کردیا ہے اور کھلے لفظوں میں اس کی  وضاحت کی ہے تو پھر اہل سنت کے اس قول کی کوئی حیثیت اور اعتبار نہیں رہ جاتا کہ تمام صحابہ عادل ہیں کیوںکہ انکو یہ قول قرآن و حدیث ، عقل و تاریخ کے خلاف ہے۔ یہ محض تعصب ہے اور ایسی بات ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

ان امور کےسلسلہ میں ایک محقق کو اہل سنت والجماعت کی عقل پر  تعجب ہوگا جو کہ

۳۷۰

 عقل ونقل اور تاریخ کی مخالفت کرتے ہیں۔

لیکن جب وہ اس عقیدہ ۔ یعنی صحابہ کی تعظیم اور انھیں برا نہ کہنا بلکہ عادل ماننے کے رسوخ کے سلسلہ میں بنی امیہ کے کرتوت اوران کے اتباع میں بنی عباس کے کارنوموں کو دیکھے گا تو اس کا سارا تعجب زائل ہوجائے گا اور اس بات میں قطعی شک نہیں کرے گا کہ انھوں نے صحابہ کے سلسلہ  میں کسی بھی گفتگو کو س لئے منع کیا ہے تاکہ ان کے افعال پر تنقید و تجزیہ کی نوبت ہی نہ آئے کہ جن کے ارتکاب سے انھوں نے اسلام کے دامن  کو نبی اسلام(ص)  اور ملتِ اسلامیہ کے دامن کو داغدار کیا ہے۔

کیوںکہ ، ابوسفیان ، معاویہ، یزید، عمرو ابن العاص، مروان ابن حکم، مغیرہ ابن شعبہ اور ابن ارطاۃ سب ہی صحابی ہیں ، یہ مؤمنین کے امیر و حاکم بھی رہ چکے ہیں تو ہو کیسے صحابہ کے حالات کی چھان بین کو منع نہ کرتے اور ان کیعدالت و فضیلت کے لئےکیسے جھوٹی حدیث نہ گھڑتے اور پھر اس وقت ان کے افعال وکردار پر تنقید کرنے کی کس میں ہمت تھی۔

اور اگر کسی مسلمان نے ایس کردیا تو اسے کافر و زندیق قرار دیدیا اور اس کے قتل اور بے گورو کفن چھوڑدینے کا فتوا دیدیا۔ ظاہر ہے اس مسلمان کو لکڑی سے ڈھکیل کر ہی دفن کیا جاتا تھا جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ اور جب وہ شیعوں کو قتل کرنا چاہتے تھے تو ان پر صحابہ کو  برا بھلا کہنے کی تہمت لگادیتے تھے اور پھر صحابہ پر تقید و تبصرہ ہی کو وہ سبِ شتم کہتے تھے اور  یہ چیز قتل اور عبرت ناک سزا کے لئے کافی ہوتی تھی ظلم کی انتہا ہوگئی تھی اگر کوئی شخص حدیث کا مفہوم پوچھ لیتا تھا اور وہی اسکی موت کے لئے کافی ہوجاتا جیسا کہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے ہارون رشید کے  سمانے ابوہریری کی بیان کردہ یہ حدیث نقل ی گئی کہ موسی(ع) نے آدم(ع) سے ملاقات کی اور ان سے کہا : آپ ہی وہ آدم(ع) ہیں جس نے ہمیں جنت سے نکلوادیا؟ یہ جملہ سنکر مجلس میں موجود ایک قرشی نے کہا: موسی(ع) نے آدم(ع) سے کہاں ملاقات کی تھی؟ یہ سنکر ہارون رشید کو غصہ آگیا اور اس قرشی کے قتل کا حکم دیدیا، اور کہا زندیق رسول(ص) کی حدیث پر اعتراض کرتا ہے۔( تاریخ بغدادی، ج۱۴، ص۷) ظاہر ہے  حدیث کا مفہوم پوچھنے والا کوئی با حیثیت آدمی تھا کیوںکہ رشید  کی مجلس میں موجود تھا

۳۷۱

اور اس بات پر اس کی گردن اڑادی گئی کہ اس نے وہ جگہ دریافت کر لی تھی کہ جہاں موسی(ع) نے آدم(ع) سے ملاقات کی تھی۔

تو اس شیعہ کی حالت پوچھئے کیا ہوئی ہوگی جو کہ ابوہریرہ کو کذاب و جھوٹا کہتا ہے جیسا کہ صحابہ اور ان کے راس و رئیس عمر ابن خطاب ابوہریرہ کو جھٹلا چکے ہیں۔ یہیں سے ایک محقق حدیث میں وارد غلط و محال اور کفریات باتوں نیز تناقضات سے واقف ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان روایات کو صحیح کہا جاتا ہے اور انھیں تقدس کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ تنقید و جرح کے ممنوع ہونے اور ہلاکت و تباہی کے خوف سے ہوتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس شخص کو بھی قتل کردیا جاتا تھا جو حقیقت تک پہنچنے کے لئے کسی لفظ کے معنی کو پوچھ لیتا تھا اس کے بعد کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔

اور پھر انھوں نےلوگوں کو یہ بات باور کرادی تھی کہ جو شخص ابوہریرہ یا کسی عام صحابی کی  حدیث پر اعتراض کرتا ہے  تو گویا وہ رسول(ص) کی حدیث پر اعتراض کرتا ہے در اصل اس سے انھوں نے ان جعلی حدیثوں کا حصار بیادیاتھا جو کہ وفات نبی(ص)  کے بعد صحابہ نے گھڑی تھیں اور پھر وہ مسلمات میں شمار ہونے لگیں۔

میں اپنے بعض علماء  سے اس موضوع پر بہت بحث  کرتا تھا کہ صحابہ خود بھی اپنے کو اتنا مقدس  نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کی حدیث کو مشکوک سمجھتے تھے خصوصا جب کسی کی نقل کردہ حدیث قرآن کے مخالف ہوتی تھی چنانچہ عمرابن خطاب نے ابوہریرہ کو درے مارے اور حدیث نقل کرنے  سے منع کیا اور اس پر جھوٹ کی تہمت لگائی، لیکن وہ علما ہمیشہ مجھے یہ جواب دیتے تھے کی صحابہ کو ایک دوسرے پر اعتراض کرنے کا حق ہے لیکن ہم صحابہ کے ہم پلہ نہیں ہیں کہ ان کے اوپر اعتراض و تنقید کریں ۔

میں کہتا ہوں۔ اللہ کے بندو! انھوں نے ایک دوسرے سے جنگ کی ایک نے دوسرے کو کافر کہا اور بعض نے بعض کو قتل کیا ؟!وہ کہتے ہیں: وہ (صحابہ) سب مجتہد تھے پس ان میں سے جس کا اجتہاد صحیح تھا اس کو دو اجر اور جس کا اجتہاد غلط تھا اسے اجر ملیگا اور ہمیں ان کے حالات کی تحقیق کا حق نہیں ہے۔

۳۷۲

انھیں یہ دعوی ان کے آباؤ  اجداد اور سلف سے خلف کو میراث میں ملا ہے۔ پس یہ بغیر سوچے سمجھے طوطے کی طرح وہی رٹتے ہیں جو انھیں رٹا دیا گیا ہے۔

اور جب ان کے امام غزلی کا خود یہی نظریہ ہے اور انھوں نے لوگوں کےدرمیانااسی کو  رواج دیا ہے تو حجت الاسلام بن گئے وہ اپنی کتاب " المستصفیٰ" میں لکھتے ہیں :  اور جس چیز پر سلف اورخلف جمہور ہیں وہ یہ ہے کہ صحابہ  کی عدالت ثابت ہے، خدا عزوجل نے انھیں عادل قرار دیا  ہے اور اپنی کتاب میں ان کی مدح کی اور ان( صحابہ) کے بارے میں یہی ہمارا اعتقاد ہے۔

مجھے غزالی اور عام اہل سنت والجماعت کے اس استدلال پر تعجب ہے جو  کہ وہ قرآن کے ذریعہ صحابہ کیعدلات پر کرتے ہیں جب کہ قرآن  میں ایک  آیت بھی ایسی نہیں ہے جو صحابہ کی عدالت پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کےبرعکس قرآن میں ایسی بہت سی آیات ہیں جو کہ صحابہ کی عدالت کی نفی کرتی ہیں اور ان کی حقیقتوں  سے پردہ ہٹاتی ہیں اور ان کے نفاق کا انکشاف کرتی ہیں۔

میں نے انی کتابِ " فالسئلوا اہل الذکر" میں اس موضوع سے متعلق پوری ایک فصل  معین کی ہے۔ تفصیل کے شائق مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ تا کہ انھیں صحابہ کے سلسلہ میں خدا و رسول(ص)  کے اقوال کا علم بھی ہوجائے ، تاکہ محقق کو یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ نے اپنی اس عظمت ومنزلت کا کبھی خواب نہیں دیکھا ہوگا جو کہ بعد میں اہل سنت والجماعت  کے ایجاد کی ہے۔ محقق پر واجب ہےکہ وہ حدیث و تواریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرلے جو کہ صحابہ  کے برے افعال سے بھری پڑی ہیں اور بعض کو کار قرار دے رہی ہیں اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ ان میں سے بعض اپنے منافق ہونے کے بارے میں شک کرتے تھے۔چنانچہ بخاری نے اپی صحیح میں روایت کی ہے کہ ابن ملیکہ نے تین اصحابِ نبی(ص) سے ملاقات کی اور تینوں کو اپنے منافق ہونے کا ڈرتھا اور کسی کو یہ دعویٰ نہیں کہ وہ جبرئیل کے ایمان پر قائم ہے۔(صحیح بخاری جلد۱، ص۱۷)

خود غزالی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ عمر ابن خطاب حذیفہ ابن یمان نے پوچھا کرتے

۳۷۳

 تھے کہ رسول(ص)  نےجو تمھیں منافقین کے نام بتائے ہیں ان مین میرا نام تو شامل نہیں ہے۔( احیاء علوم الدین ۔ غزالی جلد۱،ص۱۲۹، کنز العمال جلد۷، ص۲۴)کسی کہنے ولاے کےاس قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ ، منافقین  کا صحابہ سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان کا الگ گروہ تھا جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر شخص جس کا رسول(ص)  پر ایمان اور اس نے آپ(ص) کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے چاہے وہ آپ(ص) کی مجلس میں نہ بیٹھا ہو۔ان کے اس قول میں کہ جو رسول(ص) پر ایمان رکھتا تھا، ضعف ہے کیوں کہ جو نبی(ص) کی صحبت میں رہتے تھے وہ کلمۃ شہادتین پڑھ لیتے تھے اور نبی(ص) بھی ان کےظاہری اسلام کو قبول فرماتے تھے چنانچہ آپ(ص) ہی کا ارشاد ہے، مجھے ظاہر پر حکم لگانے کا حکم دیا گیا ہے اور باطنی چیزوں کی ذمہ داری خدا پر ہے آپ(ص)  نے اپنی حیات مین کسی صحابی سے بھی یہ نہیں کہا کہ تم منافق ہو۔ لہذا تمھارا اسلام قابل قبول نہیں ہے!ہم تو نبی(ص) کو منافقین کو بھی اپنے صحابی فرماتے ہوئے دیکھتے ہیں جب کہ آپ(ص) ان کے نفاق سے واقف تھے بطور دلیل ملاحظہ فرمائیں۔

بخاری نے روایت کی ہےکہ عمر ابن خطاب نے رسول(ص) سے عبداللہ ابن ابی منافق کی گردن مار دینے کی اجازت طلب کی تو آپ(ص) نے فرمایا : جانے دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد(ص) تو اپنے اصحاب ہی کو قتل کررہے ہیں۔( صحیح بخاری جلد۶، ص۶۵، کتاب الفضائل القرآن سورہ منافقین، تاریخ ابن عساکر ج۴، ص۹۷)اہل سنت والجماعت کے بعض علما ہمیں یہ بات باور کرانا چاہتے ہیں کہ منافقین تو مشہور تھے تو ہم انھیں صحابہ میں نہ ملائٰیں یہ محال بات ہے جسے قبول کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے بلکہ منافقین صحابہ ہی کے درمیان موجود تھے کہ جن کے باطن کو خدا  ہی جانتا  ہے۔ اگرچہ وہ  نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، خدا کی عبادت کرتے تھے اور ہر طرح نبی(ص) کا تقرب ڈھونڈتے تھے ۔ بطور دلیل ملاحظہ فرمائیں۔بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ عمر ابن خطاب نے رسول(ص) سے اس وقت ذی خوبصرہ کی گردن مار دینے کی اجازت مانگی جب اس نے نبی(ص) سےکہا تھا کہ عدل سے کام لیجئیے لیکن نبی(ص) نے عمر سے فرمایا : جانے دو اس کے اور بہت سے ساتھی ہیں جو ک نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور قرآن

۳۷۴

پڑھتے ہیں لیکن ان کے حلق سے نہیں اترتا اور دین سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔( صحیح بخاری،جلد۴، ص۱۷۹)

میری اس بات میں مبالغہ نہیں ہے کہ اکثر صحابہ منافق تھے جیسا کہ کتابِ خدا  کی متعدد آیتوں اور رسول(ص) کی متعدد حدیثوں نے یہ بات ثابت ہے۔ خدا وند عالم کا ارشاد  ہے:

( رسول(ص)) تو ان (صحابہ) کے پاس حق بات لے کر آیا ہے لیکن ان میں سے اکثر حق بات سے نفرت کرتے ہیں۔(مؤمنون/۷۰)

نیز ارشاد ہے۔

عرب کے گنوار کفر و نفاق میں بڑے سخت ہیں ۔( توبہ/۹۷)

دوسری آیت میں ہے:

اہل مدینہ میں سے  بعض نفاق پر اڑ گئے ہیں آپ(ص) انھیں نہیں جانتے ۔(توبہ/۰۱۰)

پھر ارشاد فرماتا ہے:

     مسلمانو! تمھارے پاس جو یہ گنوار بیٹھے ہیں ان میں سے بعض منافق ہیں۔(توبہ/۱۰۱)

مناسب ہےکہ س بات کی طرف اشارہ کردیا جائے کہ اہل سنت والجماعت کے بعض علما حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ وہ آیت میں واردلفظ اعراب یعنی وہ گنوار کے وہ تفسیر کرتے ہیں کہ صحابہ سے ان کا کوئی تعلق نہٰیں ہے بلکہ وہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں بسنتے والے صحرا نشین ہیں۔

لیکن عمر ابن خطاب کو مرتے وقت وصیت کرتے دیکھتے ہیں وہ اپنے بعد والے خلیفہ سے کہتے ہیں کہ میں اسے وصیت کرتا ہوں کہ وہ عرب کے گنور دیہاتیون کےساتھ نیکی سے پیش آئے  کیوں کہ وہی اصل عرب اور اسلام کا مادہ ہیں۔ ( صحیح بخاری جلد۴، ص۲۰۶)

۳۷۵

پس جب اہل عرب اور مادہ اسلام  ہی کفر و نفاق پر آڑے ہوئے ہیں اور اسی قابل ہیں کہ جو کتابِ خدا نے اپنے رسول(ص) پر نازل کی ہے اس ے احکام نہ جانیں اور خدا تو جاننے والا اور حکمت والا  ہے۔ تو پھر اہل سنت والجماعت کی اس بات کا کوئی وزن نہیں رہ جاتا کہ تمام صحابہ عادل ہیں۔

وضاحت : قاری پر یہ ثابت ہوجائے کہ عام صحابہ ہی اعراب ، گنوار دیہاتی تھے جیسا اعراب کے کفر  ونفاق کے ذکر کے بعد کہ قرآن مجید میں نازل ہوا ہے۔

             " اور کچھ دیہاتی تو ایسے بھی ہیں جو خدا اور  روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے خدا کی بارگاہ میں  نزدیکی اور رسول(ص) کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں آگاہ ہوجاؤ واقعی یہ ضرور ان کے تقرب کا ذریعہ ہے خدا انھیں بہت جلدی اپنی رحمت میں داخل کرے گا بے شک خدا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (توبہ/۹۹)

رسول(ص) کا ارشاد ہے:

     میرے صحابی کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو میں عرض کروں گا : پروردگار یہ میرا صحابی ہے جواب آئے گا ، تم نہیں جانتے انھوں نے تمھارے بعد کیا کیا بدعتیں کی ہیں ۔ میں  عرض کروں گا  جس نے میرے  بعد بدعت کی خدا اسے غارت کرے، میں ان (صحابہ) میں سے کسی کو مخلص نہیں دیکھتا ہوں یہ چوپایوں  کی طرح ہیں۔ ( صحیح بخاری، جلد۷،ص۲۰۹، باب الحوض)

اور بہت سی احادیث ہیں جنھیں اختصار کے پیش نظر ہم نے نظر انداز کردیا ہے در حقیقت اس سے ہمارا مقصد صحابہ کی زندگی کی تحقیق نہیں ہے کہ جس سے ان کی عدالت پر اعتراض

۳۷۶

کیا جائے اس سلسلہ میں تاریخ کافی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ان (صحابہ) میں سے بعض زناکار ، بعض شراب خور ، بعض مرتد اور بعض امت کے خیانت کار اور  نیکوکاروں کے حق میں ظالم تھے، لیکن ہم اس بات کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کل صحابہ کی عدالت والا مقولہ بے عقلی کی بات ہے جس کو اہل سنت والجماعت نے اپنے ان بزرگ اور سردار صحابہ کی پردہ پوشی کے لئے ایجاد کیا ہے کہ جنہوں نے دین میں بدعتیں ایجاد کیںاور اس کے احکام کو بدل ڈالا ۔

ایک مرتبہ پھر ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل سنت والجماعت نے جو اپنی گردن میں تمام صحابہ کی عدالت کا قلادہ ڈالا ہے اس سے ان کی حقیقی صورت سامنے آگئی ہے آگاہ ہوجاؤ وہ ہے  منافقین کی محبت اور ان کی اس بدعتوں کی اقتداء جو کہ انھوں نے لوگوں کو جاہلیت کی طرف پلٹانے کے لئے تراشی تھیں۔

اس کے ساتھ اہل سنت والجماعت نے ان ( منافقین) کے اتباع میں صحابہ پر تنقید کرنے کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اپنے اوپر دروازہ اجتہاد بند کرلیا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ خلفائے بنی امیہ اور مذاہب کی ایجاد کے وقت سے چلی  آرہی ہے۔ ان کے پیروکاروں کو یہ عقیدہ میراث میں ملا اور وہ اپنے بیٹوں کے لئے بطور میراث چھوڑ گئے جس کا سلسلہ بعد نسل چلا آرہا ہے ۔اس طرح اہل سنت والجماعت صحابہ کے سلسلہ میں آج تک تحقیق کو منع کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور سب کو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اور جو شخص صحابہ میں سے کسی پر تنقید کرتا ہے اسے کافر کہتے ہیں۔

بحث کا خلاصہ :

اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والے " شیعہ" صحابہ کو وہی حیثیت و عظمت دیتے ہیں

۳۷۷

 جس کے وہ مستحق ہیں وہ متقین صحابہ کو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔اور دشمنان خدا و رسول(ص) اور منافقین و فاسقین سے برائت کا اظہار کرتے ہیں اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ حقیقی اہل سنت ہیں۔ اس لئے وہ صحابہ میں سے ان سے محبت کتے ہیں کہ جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں۔ اور خدا و رسول(ص) کے ان دشمنوں سے برائت کرتے ہیں کہ  جنھوں نے مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ کیا ہے۔

۳۷۸

اہل سنت والجماعت حدیثِ نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہیں

اس فصل میں ضروری ہے کہ ہم قاری کےسامنے اجمالی طور پر سہی یہ بات واضح کریں کہ اہل سنت والجماعت نبی(ص) کی اکثر حدیثوں کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ شیعہ ہی حدیث و سنت نبوی(ص) سے تمسک رکھتے ہیں اسی لئے ہم نے اس کتاب کا نام " الشیعۃ ہم اہل السنۃ" رکھا ہے۔

اس فصل میں ہم ان اہم مسائل کو پیش کرنا چاہتے ہیں جو قارئین کو اچھی طرح یہ سمجھا دیں کہ اہل سنت والجماعت اسلام کی ان تمام تعلیمات کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ خدا نے اپنی کتاب میں اور رسول(ص) نے اپنی حدیث میں بیان کی ہیں چنانچہ وہ امت کی گمراہی کا سبب بن گئے اور مسلمانوں کی کھوپڑی الٹ گئی اور نتیجہ میں ان کے بعد والے ان کے مددگار بھی اسی سے دوچار ہوئے۔

میری نظر میں تو گمراہی کا بڑا سبب حبّ دنیا ہے کیا رسول(ص) نے نہیں فرمایا تھا کہ حبّ  دنیا ہر خطا کی جڑ ہے اور حب دنیا سے حب حکومت و بالادستی پیدا ہوتی ہے اور حکومت کے لئے قوموں کو کچلا جاتا ہے، وطنوں اور شہروں کو برباد کیا جاتا ہے اور انسان وحشی حیوان سے بھی زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔

۳۷۹

 اوررسول(ص) نےاسی بات کی طرف اشارہ فرمایا تھا : مجھے اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے ۔لیکن اس بات کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے چکر میں پڑجاؤ گے۔

ان تمام باتوں کے لئے امامت و خلافت والے موضوع کی تحقیق و تجزیہ ضروری ہے۔ یا آج کی اصطلاح  میں اسلامی حکومت کے نظام کی چھان بین لازمی ہے اس کی وجہ سے  اسلام پر  مصائب کے پہاڑ ٹوٹے اور اسی کے باعث  مسلمان ہلاک و گمراہ ہوئے۔

۳۸۰