شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے9%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109201 / ڈاؤنلوڈ: 6823
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

اسلام کی نظر میں نظامِ حکومت

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے  کہ رسول(ص) نے کسی کی خلافت پر نص نہیںکی تھی تعیین خلیفہ کے مسئلؒہ کو لوگوں کی شوری پر چھوڑ کر چلے گئے تھے تاکہ وہ جس کو چاہیں منتخب کرلیں، خلافت کے بارے میں یہ  ہے ان کا عقیدہ چنانچہ وہ وفاتِ نبی(ص)کےدن سے آج تک اسی پر اڑے ہوئے ہیں۔

مفروض جیہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کو اس چیز پر عمل کرنا چاہئے کہ جس پر ان کا ایمان ہے اور جس سے وہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ دفاع کررے ہیں قطع نظر اس بات سےکہ اہل سنت والجماعت اپنے اعتقاد کے بر خلاف عمل کرتے ہیںاور ابوبکر کی بیعت سے قطع نظر کہ جس کو خود  اہل سنت ایک اتفاق امر کہتے ہیں کہ جس کے شر سے خدا ہی نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا، ابوبکر نے اسلام میں ولی عہد کی فکر ایجاد کی چنانچہ مرنے سے قبل اپنے دوست عمر ابن خطاب کو ولی عہد بنادیا۔

اسی طرح عمر ابن خطاب نے بھی انتقال سے قبل عبدالرحمن ابن عوف کو یہ  اختیار دیدیا کہ وہ نامزد پانچ اشخاص میں سے جس کو چاہئے خلافت کے لئے منتخب کرے اور تفرقہ پھیلانے والے مخالفوں کی گردن ماردے۔

۳۸۱

اور جب معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے بھی اس چیز پر عمل کیا اور اپنے بیٹے یزید(لع) کو اپن اعلی عہد بنا دیا اور پھر یزید(لع) نے اپنے بیٹے معاویہ کو اپناولی عہد مقرر کیا اور اسی وقت سے خلافت طلقا کے اور ان کے بیٹوں میں نسلا بعد نسل منتقل ہوتی رہی چنانچہ ہر ایک خلیفہ اپنے بیٹے کو ولی عہد بناتا ہے یا اپنے بھائی کو یا اپنے کسی عزیز کو اپنا ولی عہد بناتا ہے اور جس دن سے بنی عباس کو خلافت ملی تھی اور جب تک ان کے ہاتھوں میں رہی ل۔ وہ  بھی اسی سنت پر عمل کرتے رہے  اسی طرح عثمانی حکومت میں خلافت ورثہ میں منتقل ہوتی رہی جو کہ اس صدی میں زمانہ اتاتارک میں کمزور ہوئی۔

اور چوں کہ ان خلافتوں یا حکومتوں پر اہل سنت والجماعت ہی کا قبضہ رہا لہذا وہ دنیا کے چپہ چپہ پر پہنچ گئے۔ چنانچہ آپ انھیں اسلامی تاریخ میں اور آج سعودی عرب و مغرب میں اور اردن میں نیز  تمام خلیجی ممالک میں ولی عہد والے عقیدے پر عمل پیرا دیکھتے  ہیں اگر اس نظریہ کو صحیح تسلیم کر لیا جائے  کہ نبی(ص) نے خلیفہ سازی کا کام شوری اور قرآن پر چھوڑ دیا تھا تو بھی صحابہ نے قرآن و حدیث کی مخالفت کی اور شوری ، ڈیموکریسی ، والے نظام کو ولی عہد اور استبدادی حکومت کے نظام سے بدل دیا۔

لیکن اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کی خلافت پر نص کی تھی جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں ، تو بھی اہل سنت والجماعت نے نبی(ص) کی صریح حدیث اور قرآن مجید کی مخالفت کی ہے کیونکہ رسول(ص) نے کوئی کام خدا کی اجازت کے بغیر انجام نہیں دیا ہے۔

اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ اہل سنت شوری والے نظریہ کو بھی غلط سمجھتے ہیں جیسا کہ وہ اس نظریہ کو رسول(ص) کی اس حدیث سے مخدوش بتاتے ہیں کہ میرے بعد تیس(۳۰) سال تک خلافت رہے گی اس کے بعد کاٹ کھانے والے بادشاہ ہوں گے، گویا وہ اپنے غیر کو اس چیز سے مطمئن کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ خود مطمئن ہیں اور وہ یہ کہ حکومت خدا کی ہے وہ جسے چاہتا ہے دیدیتا ہے اور بادشاہوں کو وہی لوگوں پر حاکم و بادشاہ بناتا ہے لہذا ان کی اطاعت کرنا واجب ہے اور ان کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔یہ بحث بہت لمبی ہےجو کہ ہمیں قضا و قدر تک لےجاتی ہے کہ جس کو ہم اپنی " کتاب

۳۸۲

مع الصادقین" میں بیان کرچکے ہیں، اس لئے ہم اسے دہرانا نہیں چاہتے، بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ اہل سنت والجماعت کوقدر یہ بھی کہا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ اہل سنت والجماعت ولی عہد پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے شرعی خلافت سمجھتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ رسول(ص)  نے اس کا حکم دیا ہے ، آپ(ص)  نے اپنا ولی عہد معین کیا تھا، کیوںکہ اس کی تو وہ شروع سے مخالفت کرتے ہیں۔ بلکہ اس کو غیر شرعی سمجھتے ہیں کہ ابوبکر نے عمر کو اور عمر نے چھ افراد کو اور معاویہ نے یزید(لع) کو  ولی عہد بنایا تھا، اور اہل سنت کے علما یا ائمہ مذاہب میں سے کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا ہےکہ اموی حکومت یا عباسی و عثمانی حکومت غیر شرعی تھی بلکہ ہم انھیں بیعت کے لئے دوڑتے اور ان کی خلافت  کی تائید و تصحیح کرتے ہوؕئے دیکھتے ہیں یہی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ ہر وہ  خلافت شرعی ہے جو کہ قہر و غلبہ سے وجود میں آتی ہے وہ حاکم و خلیفہ کے نیک  و بد، متقی و فاسق اور عربی و قرشی اور  ترکی و کردی ہونے کو اہم نہیں سمجھتے۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹر احمد محمود صبحی کہتے ہیں: مسئلہ خلافت میں اہل سنت کا موقف ہے امر واقع کے سامنے تسلیم ہوجانا اس کی تائید تصدیق کرنا اس کے خلاف خروج نہ کرنا۔( نظریۃ الامامۃ مؤلف محمود صبحی ص۲۳)

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کی تائید  بھی جیسا کہ ابو یعلی الفراء نے امام احمد ابن حنبل کا قول نقل کیا ہے۔ خلافت قہر و غلبہ سے بھی ثابت ہوجاتی ہے بیعت کی  احتیاج نہیں؟

ایک روایت میں عبدوس ابن مالک العطار نے کہا ہے: جس نے تلوار سے غلبہ حاصل کرلیا  یہاں تک کہ خلیفہ بن گیا اور اسے امیرالمؤمنین کہاجانے لگا تو یہ خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لئے جائز نہیں ہےکہ وہ خلیفہ کو اپنا امام تصور نہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا بدکار، موصوف نے اس بات پر عبداللہ ابن عمر کے اس قول سے حجت قائم کی ہے کہ ہم تو غائب آجانے والے کے ساتھ  ہیں اس بنا پر اہل سنت والجماعت ولی عہد والی بدعت کے رہین منت ہو کر رہ گئے وہ ہر غالب آجانے والے ،  زبردستی حاکم بن بیٹھے والے کی بیعت کرتے ہیں اس کے علم و تقوی اور ورع و نیک کار و بدکار ہونے

۳۸۳

سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ۔ دلیل اس پر یہ ہے کہ اکثر صحابہ نے نبی(ص) کی رکاب میں معاویہ ابن ابی سفیان سے جنگ  کی اور بعد میں اس لئے اس کی بیعت کرلی کہ وہ امیرالمؤمنین ہے جیسا کہ انھوں نے مروان ابن حکم کی بھی خلافت کو قبول کرلیا کہ جس کو رسول(ص) نے چھپکلی کہا تھا اور مدینہ سے نکال دیا تھا اور  فرمایا تھا اسے موت و حیات میں میرا ہمسایہ نہیں ہونا چاہئیے۔

بلکہ اہل سنت نے یزید ابن معاویہ کو بھی خلیفہ تسلیم کر لیا تھا اور امیر المؤمنین کے عنوان سے اس کی بیعت کر لی تھی اور جب  فرزند رسول(ص) امام حسین(ع)  نے یزید(لع)  کے خلاف خروج کیا تاانھوں نے یزید(لع)  کی حکومت برقرار رکھنے کے لئے امام حسین(ع) اور ان کے اہل بیت(ع) کوقتل کردیا ۔ علمائے اہل سنت کا نظریہ ہے کہ امام حسین(ع) اپنےجد کی تلوار سے شہید ہوئے ہیں چنانچہ ان میں سے بعض آج تک یزید ابن معاویہ کے حق پر ہونے کے سلسلہ میں کتابیں لکھتے ہیں یہ تمام چیزیں یزید(لع)  کی خلافت کی تائید اور امام حسین(ع) کی  حقارت میں ہیں کیونکہ آپ(ع) نے یزید(لع)  کے خلاف خروج کیا تھا۔ان تمام چیزوں سے واقف ہونے کے بعد ہمارے سامنے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ہم اس بات کا اعتراف کر لیں کہ اہل سنت والجماعت نےسنت نبی(ص) کی مخالفت کی ہے۔ کیوںکہ وہ کہتے ہیں کہ نبی(ص)  مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ پر چھوڑ گئے تھے۔

لیکن امامت کےسلسلہ میں شیعوں کا ایک قول ہے اور وہ یہ کہ خلیفہ کے لئے خدا اور رسول(ص)  کی طرف سے نص ہونی چاہئے ، شیعہ صرف نص کے ذریعہ امامت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ اور اس طرح معصوم، اعلم، متقی ترین اور افضل ترین انسان ہی امام بن سکتا ہے ۔ شیعوں کے نزدیک مفضول (پست) کو فاضل( اعلیٰ) پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی لئے وہ اوّلا صحابہ کی خلافت کا انکار کرتے ہیں اور ثانیا اہل سنت والجماعت کی خلافت کا انکار کرتے ہیں۔ خلافت کےسلسلہ میں شیعہ جن ںصوص کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں ان کا وجود فعلی اور حقیقی مصداق موجود ہے پس ہمارے لئے اسکے علاوہ چارہ کار نہیں ہے کہ ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ شیعہ ہی نبی(ص)  کی صحیح  سنت  سے تمسک

۳۸۴

 کئے ہوئے ہیں۔

خواہ اس خلافت کو شوری کے ذریعہ تسلیم کریں یا نص کے ذریعہ فقط شیعہ ہی حق پر ہیں۔

کیوں کہ نص اور شوریٰ  کے ذریعہ صرف علی ابن ابی طالب(ع) خلیفہ منتخب ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں کوئی بھی سنی، شیعہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول(ص) نے قریب و بعید کے اشارہ کے ذریعے ولی عہد کا حکم دیا تھا۔

اور اسی طرح مسلمانوں میں سے کوئی سنی، شیعہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاپنے اصحاب سے یہ فرمایا تھا کہ:

             میں تمھارے معاملہ کو شوری پر چھوڑ کر جارہا ہوں پس جس کو تم چاہو خلیفہ منتخب کرلو۔

ہم پوری دنیا  کو چیلنج کرتے ہیں کہ کوئی اس قسم کی ایک ہی حدیث پیش  کردے۔

پس اگر نہیں کرسکتے اور ہرگز نہیں کرسکو گے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثابت واضح سنت اور صحیح اسلامی تاریخ کی طرف  رجوع کرو تاکہ ہدایت پاجاؤ۔ یا وہ اس بات کے قائل ہوجائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عظیم امر کو ایسے ہی چھوڑ گئے۔

اور اس کی علامت ونشانی کو بیان نہ کیا تا کہ امت  کو مستقل فتنہ وفساد، جنگ و جدال اور افتراق میں مبتلا کردیں اور اسے صراط  مستقیم سے ہٹادیں۔ دیکھتے ہیں کہ فاسق  و ظالم حکام اپنی خلافت کے بعد اپنی قوم کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنی زندگی ہی میں کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کردیتے ہیں، تو اس کا کیا حال ہوگا جس کو خدا نے عالمین کے لئے رسول(ص) بناکر  بھیجا؟!

۳۸۵

صحابہ کو عادل ماننا سنت کی صریح مخالفت ہے۔

صحابہ کے سلسلہ میں نبی(ص) کے اقوال و افعال پر نظر ڈالئے تومعلوم ہوگا کہ آپ(ص) نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے، آپ(ص)  خدا  کے لئے  غضب ناک ہوتے تھے اور اس کی رضا سے رضا مند تھے پس جو صحابی بھی حکمِ خدا  کی مخالفت کرتا تھا نبی(ص) اس سے برائت کا اظہار کرتے تھے جیسا کہ آپ(ص) نے بنی حذیمہ کے قتل کے سلسلہ میں خالد ابن ولید سے برائت کی تھی اور اسامہ پر اس وقت غضب ناک ہوئے تھے جب وہ اس عورتکی سفارشکرنے آئے تھے جس نے چوری کی تھی اور فرمایا تھا ، تمھیںکیا ہوگیا ہےجکہ تم خد ا کےحدود  کے سسلہ مین سفارش کرتےہو؟ قسم خدا کی اگر محمد(ص) کی بیٹٰی  فاطمہ(س) بھی چوری  کرتی تو میں اس کا ہاتھ کا ٹ دیتا تم سے پہلے  لوگ صرف اس لئے  ہلاک ہوئے کہ جب کوئی شریف چوری کرتا تھا تو وہ چھوڑ دیئے جاتے تھے اور جب کوئی شریر چوری کرتا تھا تو اس پر حد جاری کرتے تھے۔

کبھی بعض مخلص صحابہ کو شاباش  مرحبا بھی کہتے اور ان کے لئے دعا و استغفار کرتے تھے اسی طرح اپنے حکم کی نافرمانی کرنے والوں اور انھیں اہمیت نہ دینے پر لعنت بھی کرتے تھے جیسا کہ آپ(ص) نےفرمایا تھا، خدا اس پر لعنت کرے جو اسامہ کے لشکر میں شرکت نہ کرے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ

۳۸۶

صحابہ نے نبی(ص) پر اس لئے اعتراض کیا تھا کہ آپ(ص) نے کم سن اسامہ کو لشکر کا امیر بنادیا تھا۔

اسی طرح ہم رسول(ص) کو لوگوں کے سامنے بعض صحابہ کی حق  پوشی اور ان کے نفاق کو واضح طور پر بیان کرتے دیکھتے ہیں، چنانچہ ایک منافق کے بارے میں فرماتے ہیں۔

اس کے دوست ہیں جو تم سے ہر ایک کی نماز کو اپنی نماز  کے سامنے کچھ نہیں سمجھتے اور  نہ ہی اپنے روزوں کے مقابل تمھارے روزوں کو کچھ سمجھتے ہیں ، قرآن پڑھتے  ہیں لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ ( یعنی اہمیت دیتے ) دین سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ کبھی آپ(ص) اس صحابی پر نماز  نہیں پڑھتے ہیں جو کہ خیبر میں مسلمانوں کے لشکر میں شامل تھا اور اس کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں اور  فرماتے ہیں اس نے دین خدا میں  خیانت کی ہے اور جب اس (صحابی) کے سامان کی تلاش لی گئی  تو اس میں یہودیوں کی مالاملی۔

مازودی لکھتے ہیں کہ جنگ تبوک میں نبی(ص) کو پیاس لگی تو منافقوں نے کہا محمد(ص) آسمان کی خبر بتاتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا  پانی کہاں ہے۔ پس جبرئیل نازل ہوئے اور آپ(ص)  کو ان کے نام بتادیئے ۔ اور نبی(ص) نے وہ اسماء  سعد ابن عبادہ کو بتائے تو سعد نے کہا اگر آپ(ص)  کی رضا ہوتو میں ان کی گردن اڑادوں؟ آپ(ص) نے فرمایا: ( رہنے دو) لوگ کہیں گے کہ محمد(ص)  اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں۔ لہذا جو ہمارے ساتھ  نشست برخاست رکھتا ہے ہم اس سے حسن ( صحبت) سلوک سے پیش آئیں گے۔ ( لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد(ص) اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں لیکن ہم اس کےساتھ حسن (صحبت) سلوک رکھتے ہیں۔ یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ صحابہ میں منافقین کو  بھی اپنے اصحاب میں شمار کیا ہے۔)

اور صحابہ کےحق میں جس چیز کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے رسول(ص) نے اسی کو اختیار کیا ہے، خدا سچے و صادقین صحابہ سے راضی ہے ۔ اور منافقین و مرتد اور ناکثین پر غضبناک ہے اور متعدد آیتوں میں ان  پر لعنت کی ہے اس موضوع سے متعلق ہم اپنی کتاب" فاسئلوا اهل الذکر" کی

۳۸۷

 فصل قرآن مجید صحابہ کی حقیقت کا انکشاف کرتا ہے، میں سیر  حاصل بحث کرچکے ہیں شائقین مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

ہمارے لئے بعض منافق صحابہ کے اعمال سے متعلق وہ ایک مثال کافی ہے جس کےذریعہ خدا نے ان کے اعمال سے پردہ ہٹایا اور انھیں رسوا کیا ، یہ بارہ(۱۲) اشخاص تھے جو اس بہانہ سے  کہ ہمارے مکانات دور ہیں نبی(ص) کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہوسکتے ، مسجد ٖ ضرار بنالی تھی، کیا اس  زیادہ بھی خلوص ملے گا؟ لوگ فریضہ نماز کوجماعت سے ادا کرنے کے لئے بھاری رقم خرچ کر کے مسجد بناتے ہیں؟

لیکن خداوند عالم پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے وہ آنکھوں کی خیانت  اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے، انکے  بھیدوں کو جانتا ہے اورجو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے اس سے بھی با خبر ہے۔ پس اس نے اپنے رسول(ص) کو ان کی سازش اور نفاق سے اس طرح مطلع کیا :

                     اور جن لوگوں نے مسجد ضرار بنائی تاکہ اس کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچائیں اور کفر کو مضبوط بنائیں اور مومنین کے درمیان اختلاف پیدا کریں اور خدا رسول(ص) سے جنگ کرنے والے کے لئے پہلے سے پناہ گاہ بنارکھیں وہ منافق ہیں جب کہ  قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے تو نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے۔ اور خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جھوٹے ہیں۔( توبہ/۱۰۷)

اور جس طرح خدا حق بیان کرنے شرم نہیں کرتا ہے ۔ اسی طرح کا رسول(ص) بھی واضح لفظوں میں  اپنے صحابہ سے فرماتا تھا کہ تم دنیا حاصل کرنے کے لئے آپس میں لڑ مروگے  اور تم عنقریب یہود و نصاری کی پیروی کروگے اور وہ یہودی   کرو گے جو وہ کر گز رہے ہیں اور میرے بعد کافر ومرتد ہوجاؤ گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل ہوگے اور تم میں سے

۳۸۸

بہت کم نجات پائیں گے جیسا کہ بنی(ص) نے چوپایوں سے تعبیر کیاہے۔۔۔۔

پس ان تمام باتوں کے باوجود اہلسنت والجماعت ہمیں اس بات سے مطمئن کر نیکی کوشش کیوں کرتے ہیں کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور وہ سب جنتی ہیں اور ان کے احکام ہم پر لازم ہیں ، ان کی رائے اور بدعت کا اتباع واجب ہے اور ان میں سے کسی ایک پر بھی اعتراض کرنے سے دین سے خارج ہونے کا سبب ہے؟؟

اس بات کو دیوانے بھی قبول نہیں کریںگے چہ جائیکہ عقل مند حضرات یہ لغو و مہمل بات ہے جو کہ امراء و سلاطین اور ان کی بارگاہ میں رہنے والے چاپلوس علما نے گھڑی ہیں ہم تو ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ۔کیوں کہ خدا و رسول(ص) کے قول کو رد کرنا ہے اور جو  خدا و رسول(ص) کے قول کو رد کرتا ہے وہ کافر ہے اور پھر یہ بات عقل و وجدان  کے خلاف ہے۔

اور ہم اہل سنت والجماعت پر بھی یہ لازم قرار نہیں دیتے کہ وہ اپنے اس نظریہ سے ہٹ جائیں یا اس کا انکار کریں ، وہ اپنے عقیدے میں آزاد ہیں۔ ( ہاں) اس کے بھیانک نتائج کے ذمہ دار بھی وہ خود  ہیں ان ہی سے اس کی باز پرس ہوگی۔

لیکن اہل سنت بھی اس شخص کو کافر قرار نہ دیں جو کہ صحابہ کی عدالت کےسلسلہ میں قرآن و سنت کا اتباع کرتا ہے۔ ان میں (صحابہ) سے اچھائی کرنے والے کو اچھا اور برائی کرنے والے کو برا کہتا ہے اور ان میں (صحابہ)  سے خدا و رسول(ص) کے اولیا سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) کےدشمن سے بیزار ہے۔

اور اس سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اہل سنت والجماعت قرآن و سنت کی مخالفت کرتے ہیں او ر اس چیز پر عمل کرتے ہیں جو کہ حکومتِ بنی امیہ و بنی عباس نے ان پر تھوپ دی ہے اور موازین عقلی و شرعی کو دیوار پردے مارا ہے۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ جب آپ اہل سنت والجماعت کےکسی عالم سے یہ کہیں گے کہ  جب آپ حضرات صحابہ پر سب و شتم کرنے والے کو کافر کہتے ہیں تو معاویہ اور ان صحابہ کو کیوں

۳۸۹

کافر قرار نہیں دیتے جنھوں نے منبروں سے علی(ع)  پر لعنت کی ہے ؟ تو وہ یقینا وہی جواب دیں گے جو کہ مشہور ہے۔

             وہ ایک قوم تھی جو گزرگئی انھیں ان کے کئے کا پھل ملے گا  اور تمھیں تمھارے کئے پھل ملے گا تم سے ان کے اعمال کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔(بقرہ/۱۳۴۔)

۳۹۰

اہل سنت حکمِ نبی(ص) کی مخالفت کرتے ہیں

گزشتہ بحثوں میں ہم حدیث ثقلینکو ثابت کرچکے ہیں جو کہ عبارت ہے:

تَرَكْتُ‏ فِيكُمْ‏الثقلين مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بعدی ابدا كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏إِنَّاللَّطِيف الْخَبِير نبَانی أَنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.

میں تمھارے درمیان دو (۲) گرانقدر چیز چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم  میرے بعد ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( وہ ہے) کتابِ خدا اور میرے اہل بیت عترت (ع)  اور لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) پر وارد ہوں گے۔

اور یہ بھی ثابت  کرچکے ہیں کہ یہ حدیث صحیح او ر متواتر ہے اسے شیعہ اور اہل سنت نے اپنی  صحاح و مسانید میں نقل کیا ہے۔ مشہور ہےکہ اہل سنت والجماعت  نے اہل بیت(ع) سے رخ موڑ لیا ہے ۔ اور ان چار ائمہ مذاہب کا اتباع کرنے لگے ہیں  جو کہ ظالم بادشاہوں نے ان پر تھوپ دیئے

۳۹۱

ہیں ۔ ظاہر ہے  اہل سنت کی اس بیعت و تائید نے ان ائمہ کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔

جب ہم بحث کو وسعت دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بنی امیہ و بنی عباس کی قیادت میں اہل سنت والجماعت ہی نے اہل بیتِ رسول(ص) سے جنگ کی ہے چنانچہ اگر آپ ان کے عقائد اور ان کی حدیثوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تومعلوم ہوگا  کہ ان کے یہاں فقہ اہل بیت(ع) میں سے کوئی چیز نہیں ہے۔ جب کہ دشمنان اہل بیت(ع) اور نواصب ، جیسے عبداللہ بن عمر ، عائشہ اور ابوہریرہ کی فقہ و حدیث سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

انھوں نے نصف دین تو عائشہ حمیرا سے لیا اور ان کے نزدیک عبداللہ ابن عمر، رای اسلام ابوہریرہ اور طلقا و فرزندان طلقا دینِ خدا کے قاضی اور اس کے آشکار کرنے  والے ہیں۔

دلیل یہ ہے کہ سقیفہ سے پہلے اہل سنت والجماعت  کا  کہیں وجود نہ تھا اور نہ اس نام سے مشہور تھے۔ لیکنسقیفہ کے دن سے وہ مجموعی طور پر اہل بیت(ع) سے جنگ کرنے لگے اور ان سے خلافت چھین لی اور انھیں سیاسی میدان سے الگ کردیا تو فرقہ اہل سنت والجماعت تشکیل پا گیا۔

اصل میں فرقہ اہل سنت والجماعت  شیعوں کی ضد میں وجود میں آیا ہے۔ کیونکہ شیعہ  اہل بیت(ع) کا اتباع کرتے تھے اور قرآن و سنت کے اتباع میں ان کی امامت کے قائل تھے۔

اور یہ بات بدیہی ہے کہ حق سے ٹکرانے والوں کی کثرت بھی خصوصا جنگ اور فتںوں کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا، ایک بات کا میں اضافہ کرتا ہوں اور یہ کہ اہل بیت(ع) کو صرف چار سال حکومت کا موقعہ ملا اور اس میں بھی دشمنوں نے جنگ کے شعلے بھڑکائے  رکھے۔

لیکن اہل بیت(ع) کے مخالفوں ، اہل سنت والجماعت کی سینکڑوں سال حکومت رہی اور مشرق و مغرب میں ان کے حکام و بادشاہ پھیلے ہوئے تھے ان کے پاس طاقت اور سونا چاندی

۳۹۲

 کی بہتات تھی چونکہ اہل سنت والجماعت کی حکومت تھی اس لئے وہ غالب تھے اور اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والے شیعہ مغلوب و مظلوم اور محکوم تھے ان کو جلا وطن اور قتل کردیا جاتا تھا۔

ہم اس موضوع کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے ہم تو صرف ان کے حقائق سے پردہ ہٹانا چاہتے ہیں کہ جنھوں نے نبی(ص) کی ان وصیتوں اور میراث کی مخالفت کی جوکہ  ہدایت کی ضامن اور گمراہی  سے بچانے والی تھیں لیکن شیعہ نبی(ص)  کی وصیت  سے وابستہ رہے اور آپ(ص)  کی عترت طاہرہ(ع) کی اقتداء کی اور اس سلسلہ میں بہت سی مصیبتیں اٹھائیں۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اہل سنت والجماعت کی روگردانی اور اختلاف اور شیعوں کا اسے قبول کرنا  خصوصا قرآن و عترت سے وابستہ رہنے سے  پنجشنبہ کے مصیبت ناک حالات جنم لیا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دوات و قلم طلب کیا ، تاکہ مسلمانوں کے لئے ایک نوشتہ لکھدیں جس سے وہ کبھی گمراہ نہ ہوں لیکن عمر نے بہت بڑا قدم اٹھایا اور حکم رسول(ص)  کا یہ کہہ کر انکار کردیا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے عترت کی ضرورت نہیں  ہے ۔

نبی(ص) فرمارہے تھے : مسلمانو! تم کتابِ خدا اور (میری ) عترت سے وابستہ رہنا اور عمر آپ(ص) کی تردید کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ہمارے لئے قرآن کافی ہے ہمیں دوسرے ثقل ( یعنی عترت ) کی ضرورت نہیں ہے۔

عمر کے قول سے فرقہ " اہل سنت والجماعت" وجود میں آیا کیونکہ قریش ابوبکر، عثمان، عبدالرحمن ابن عوف، ابو عبیدہ ، خالد بنولید اور طلحہ ابن عبداللہ و غیرہ میں منحصر تھے اور ان سب نے عمر کے  موقف کی تائید کی تھی ابنعباس کہتے ہیں کہ ان (صحابہ ) میں سے بعض تو عمر ہی کا قول دہرارہے تھے اور بعض رسول(ص)  کی دوات و قلم دینے پر اصرار کررہے تھے۔

واضح رہے کہ علی(ع) اور آپ(ص) کے شیعہ اسی دن سے نبی(ص) کی وصیت پر عمل پیرا تھے۔ اگر چہ وہ

۳۹۳

 تحریری شکل میں موجورد نہیں تھی پھر وہ (علی(ع) اور ان کے شیعہ)  قرآن و سنت  پر عمل کرتے تھے اور ان کے دشمن قرآن پر بھی عمل نہیں کرتے تھے اگرچہ پہلے وہ قرآن کو قبول کرتے تھے لیکن جب وہ حکومت پر قابض ہوگئے تو پھر انھوں نے قرآن کے احکام کو معطل کردیا۔

اور اپنی رایوں سے اجتہاد کرنے لگے اور کتابِ خدا و سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسِ پشت ڈال دیا۔

۳۹۴

محبت اہل بیت(ع) اور اہل سنت

اس  میں کسی مسلمان کو شک نہیں ہے کہ خداوند عالم نے اہل بیت(ع) کی محبت کو محمد(ص) کی رسالت اس کی با فضیلت نعمتوں کے عوض واجب قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے۔

                             "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏ "

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے اہل بیت(ع) سے محبت کرو۔( شوری/۲۳)

یہ آیت مسلمانوں پر عتر ت طاہر(ع) یعنی علی(ع)، فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) کی محبت واجب کررہی ہے۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے تیس(۳۰) سے زیادہ مصادر اس بات کی گواہی دے  رہے ہیں۔ ( ملاحظہ  فرمائیں مؤلف کی کتاب، مع الصادقین)

امام شافعی کہتے ہیں:

     يااهل بيت رسول الله حبکم            فرض من الله فی القرآن انزله

اے رسول(ص)کے اہلبیت(ع) خدا نے تمھاری محبت قرآن میں واجب قرار دی ہے۔

۳۹۵

پس جب ان کی محبت قرآن میں نازل ہوئی ہے اوراہل قبلہ پرواجب کی گئی ہے. جیسا کہامامشافعی کواسبات کا اعتر اف ہے : اور جب ان کی محبت محمد(ص) کی رسالت کا اجر ہے جیسا کہ صریح طور پر بیان ہوا ہے اور جب ان کی محبت عبادت ہے جو کہ خدا سے قریب کرتی ہے تو پھر اہلِ سنت والجماعت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اہل بیت(ع) کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں اور انھیں صحابہ سے پست سمجھتے ہیں ۔ ( کیوںکہ اہلسنت والجماعت ابوبکر و عمر اور عثمان کو حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے بڑھا تے ہیں جب کہ آپ(ع) نبی(ص) کے  بعد عترت کے رئیس اور  اہل بیت(ع)  میں سب سے افضل ہیں اور اہل سنت صحابہ ثلاثۃ کے بعد اہل بیت(ع)  کو تصور کرتے ہیں۔)

ہجمین اہ ست والجماعت جسے سورال کرنے بلکہ چیلنج کرنے کا حق ہے کہ وہ کوئی آیت یا ایک حدیث ایسی پیش کر دیں جو کہ ابوبکر و عمر اور عثمان یا کسی بھی صحابی کی محبت کو لوگوں پر واجب قرار دیتی ہو!

انھیںکتابِ خدا اور سنت رسول(ص) میں ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی ہاں اہل بیت(ع) کی شان میں متعدد آیتیں ملیں گی جو کہ انھیں تمام لوگوں سے افضل قرار دیتی ہیں اور انکی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔

اور رسول(ص) کی ایسی بہت سی حدیثیں ہیں جو کہ اہل بیت(ع) کو افضل قرار دیتی ہیں اور تمام لوگوں پر مقدم کرتی ہیں ایسے ہی جیسے امام ماموم پر اور عالم جاہل پر مقدم ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے  آیہ مودّۃ ، آیہ مباہلہ اور آیۃ صلوٰۃ، آیت تطہیر، آیۃ ولایت اور آیۃ اصطفا کافی ہے۔اور سنت سے حدیث ثقلین، حدیث سفینہ، حدیث منزلت، حدیث صلوٰۃ الکاملہ، حدیث نجوم، حدیث مدینۃ العلم اور حدیث الائمہ بعدی اثنا عشر کافی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک تہائی قرآن اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوا ہے جیسا کہ ابن عباس وغیرہ کا قول ہے اور نہ ہی اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ تمام سنت نبوی(ص) اہل بیت(ع) کا قصیدہ ہے اور لوگوں کو ان کی عظمت و فضائل کی طرف متوجہ کرتی ہے جیسا کہ امام احمد ابن حنبل کا خیال ہے۔تمام انسانوں پر اہل بیت(ع) کی فضیلت کے سلسلہ میں ہمارے لئے وہی کافی ہے کہ جوکہ قرآن اور

۳۹۶

 اہلسنت کی صحاح  سے ہم نے نقل کیا ہے۔

اہل سنت والجماعت کےعقائد ، ان کی کتابوں اور ان کے اس تاریخی راستہ پر جوکہ اہل بیت(ع) کے  خلاف ہے ایک مختصر نظر ڈالنے کے بعد ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھوں نے اہل بیت(ع) کے خلاف راستہ اختیار کیا اور ان کے قتل کے لئے تلوار کھینچ لی اور ان کی کسرِ شان اوران کے دشمن  کی عظمت  بڑھانے کے لئے قلم کو حرکت دی۔

اس سلسلہ میں ہمارے لئے ایک دلیل کافی ہے جو کہ حجت بالغہ بھی ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ اہلسنت  دوسری صدی ہجری میں شیعوں کی مخالفت سے پہچانے گئے ہیں۔ شیعہ اہل بیت(ع) سے وابستہ تھے اور ان ہی سے رجو ع کرتے تھے چنانچہ انکی فقہ ، عبادت اور معتقدات میں کوئی ایسی چیز  نہیں ملتی ہے جو کہ اہل بیت(ع) سے مروی نہ ہو۔ ( فرض کیجئے ان کا یہ خیال کہ ہم علی(ع) اور اہل بیت(ع) کو شیعوں سے زیادہ چاہتے  ہیں، صحیح ہے تو پھر انھوں نے، ان کے علما نے اور ائمہ مذاہب نےفقہ اہل بیت(ع) کو کیوں چھوڑا اور وہ آج ان کےیہاں کیوں سیا منسیا ہے؟ اور  وہ اپنے ایجاد کردہ مذاہب کا کیوں  اتباع کرتے ہیں کہ جس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی یہ خدا کا ارشاد ہے کہ ابراہیم(ع) سے وہ لوگ محبت کرتے ہیں جو کہ ان کا اتباع کرتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کا اتباع نہیں کرتے وہ محبت کےدعوے میں جھوٹے ہیں۔)

اور پھر گھر والے ہی گھر کی بات کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ نبی(ص) کی عترت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ علم و عمل میں کوئی ان سے آگے نہیں بڑھا انھوں نے تین سو سال تک امت  کی رہبری و قیادت کی اور بارہ(۱۲) ائمہ(ع) نے روحانی و دینی امامت کےذمہ داری سنبھالی اور ان میں سے ایک کی رائے دوسرے کے  خلاف نہ تھی جب کہ اہل سنت والجماعت ان چار مذاہب کے سامنے سرا پا تسلیم ہیں جو کہ  تیسری صدی میں وجود میں آئے اور ایک نےدوسرے کی رائے  کی مخالفت کی اور ساتھ ہی انھوں نے اہل بیت(ع) سے روگردانی کی اور ان سے دشمنوں جیسا سلوک کیا بلکہ ان کے شیعوں سے جنگ کی اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔

۳۹۷

دوسری دلیل کے لئے ہم اہل سنت والجماعت کے اس مؤلف کا تجزیہ کرتے ہیں جو کہ عاشورا ایسے مصیبت ناک دن کی عزاداری کے سلسلہ میں اختیار کیاہے ۔ روزِ عاشورا الم انگیز دن ہے جس میں امام حسین(ع) ، عترت اور برگزیدہ صالح مومنین کے قتل کے  سبب ارکانِ اسلام  منہدم ہوئے۔

   اولا:

قتل امام حسین(ع) سے اہل سنت راضی تھے اور اس روز خوشی مناتے تھے اور یہ ان سے بعید بھی نہیں ہے۔ پس سارے سنیوں نے امام حسین(ع) کو قتل کیا ہے۔ چنانچہ قتلِ حسین(ع) کے لئے ابنِ زیاد نے عمر ابن سعد ابن ابی وقاص کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا تھا اہل سنت والجماعت تمام صحابہ کو رضی اللہ عنہم  کہتے ہیں جب کہ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو قتلِ حسین(ع)  میں شریک تھے اور اہل سنت ان کی احادیث کو موثق تسلیم کرتے ہیں اور یہی نہیں ان صحابہ میں سے ایسے  بھی تھے جو امام حسین(ع) کو خارج کہتے تھے۔ کیوں کہ آپ(ع) نے امیر المؤمنین یزید ابن معاویہ کے خلاف  خروج کیا تھا۔

یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے فقیہہ عبداللہ ابن عمر نے یزید ابن معاویہ کی بیعت کی اور اپنے پیروکارں کو یزید (لع) کے خلاف خروج کرنے کو حرام قرار   دیا اور کہا :

" ہم تو غالب (فتحیاب) کے ساتھ ہیں۔"

ثانیا :

ہم اہل سنت والجماعت کو روز عاشورا سے آج تک دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ وہ عاشورا کے دن محفل جشن و سرور منعقد کرتے ہیں اور اسے روز عید تصور کرتے ہیں، اس دن اپنے اموال کی زکوۃ نکالتے ہیں۔ بچوں کو مثل عید پیسے دیتے ہیں اور اسے رحمت و برکتوں کا دن سمجھتے ہیں۔

۳۹۸

اور اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آج تک شیعوں پر طعلن و تشنیع کرتے ہیں اور امام حسین(ع۹ پر گریہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں بعض اسلامی ممالک میں تو عزاداری پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ شیوں سے اسلحہ سے اور بدعتوں سے جنگ کے بہانے شیعوں کا خون بہاتے ہیں اور انھیں زخمی کرتے ہیں۔

در حقیقت وہ بدعتوں سے جنگ نہیں کرتے ہیں بلکہ بنی امیہ و بنی عباس کے حکام کا کردار  ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے ذکر حسین(ع) کو مٹانے کی پوری کو شش کی تھی یہاں تک کہ قبر امام حسین(ع)  کو  کھدوا ڈالا اور زمین سے ملادیا تھا اور لوگوں کی زیارت سے روک دیا تھا، آج اہل سنت اس ذکرِ حسین(ع) کو زندہ کرنے سے لئے ڈرتے کہ کہیں لوگ جو کہ اہل بیت(ع) کی حقیقت و عظمت سے نا واقف ہیں۔ حقیقت  سے واقف نہ ہوجائیں اور اس سے ان کے سید و سردار کی اصلیت آشکار نہ ہوجائے اورلوگ حق کو باطل سے اور مومن کو فاسق جدا نہ کرلیں۔

ایک مرتنہ پھر یہ بات آشکار ہوگئی کہ شیعہ ہی حقیقی اہل سنت ہیں کیوں کہ وہ امام حسین(ع) پر گریہ و بکاء میں سنت نبی(ص) پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ جب جبرئیل نے سانحہ کربلا سے پچاس سال قبل رسول(ص) کو حسین(ع) کے کربلا میں قتل ہونے کی خبر دی  تو آپ(ص) نے گریہ فرمایا:

یہ تو واضح ہے کہ اہل سنت والجماعت عاشورا کےروز محفل جشن متعقد کرتے ہیں اور وہ اس روز محفل منعقد کر کے یزید ابن معاویہ اور بنی امیہکا اتباع کرتے  ہیںکیوںکہ انھیں( یزید بنی امیہ کو ) اس روز امام حسین(ع) پر ( ظاہری) کامیابی ملی تھی اور آپ(ع) کے اس انقلاب کو کچل دیا تھا جو کہ ان کی حکومت و نظام کے لئے چیلنج بنا ہوا تھا اس طرح انھوں نےانقلاب کی جڑ کاٹ دی تھی۔تاریخ ہمیں یہبتاتی ہے کہ یزید اور بنی امیہ نے اس خوشی میں بہت بڑا جشن منایا تھا یہاں تک  کہ دربار یز ید (لع) میں امام حسین(ع)  کا سر اور بے پردہ ناموس پہنچے تو انھیں اس حالت میں دیکھ کر انھوں نے بہت خوشی منائی اور رسول(ص) کی شان میں گستاخی کی چنانچہ اس سلسلہ میں اشعار بھی کہے۔اہلسنت والجماعت کے علما نے ان کا تقرب حاصل کیا اور بنی امیہ کے لئے روز عاشورا سے

۳۹۹

متعلق بہت سی احدیث وضع کرڈالیں ، جن  کا مفہوم یہ ہے روزِ عاشورا خدا نے حضرت آدم(ع) کی توبہ قبول کی اور اس دن حضرت نوح(ع) کی کشتی جو پہاڑ پر ٹھہری اور اسی دن حضرت ابراہیم(ع) کے لئے آگ سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوئی اور اسی دن حضرت یوسف(ع)  نے قید سے رہائی پائی اور جناب یعقوب(ع) کو دوبارہ بصارت ملی، اسی دن جناب موسی(ع) کو فرعون (لع) پر فتح ملی اور اسی دن حضرت عیسیٰ(ع) پر آسمان سے خوانِ نعمت نازل ہوا۔

اور اہل سنت والجماعت کے علما و ائمہ آج بھی عاشورہ کی ناسبت سے ان تمام روایات کو منبروں سے دھراتے ہیں۔ اور یہ روایات ان دجال لوگوں کی گھڑی ہوئی ہیں جنھوں نے علما کا لباس پہن لیا تھا اور ہر طرح حکام کا تقرب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے دنیا کے عوض اپنی آخرت کو فروخت کر دیا تھا تو ان کو اس تجارت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوں گے۔

انھوں نے جھوٹ کی انتہا کردی ہے۔ چنانچہ یہ روایت گھڑدی کہ جب رسول(ص) نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ(ص) روز عاشورا مدینہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مدینہ کے یہودی روزہ رکھے ہوئے ہیں آپ(ص) نے روزہ رکھنے کا سبب پوچھا : انھوں نے بتایا : آج کے دن موسی(ع) کو فرعون پر فتخ حاصل ہوئی تھی ۔ پس نبی(ص) نے فرمایا: ہم موسی(ع) کو تم سے زیادہ مانتے ہیں لہذا آپ(ص) نے یہودیوں کی مخالفت میں مسلمانوں کو نویں اور دسویں محرم کو روزہ کھنے کا حکم دیدیا۔

یہ تو کھلا جھوٹ ہے کیوں کہ ہمارے ساتھ بھی یہودی زندگی گزارتے ہیں لیکن ہم نے ان کی ایسی کوئی عاشورہ نامی عید نہیں دیکھی جس میں وہ روزہ رکھتے ہوں۔

کیا ہم اپنے خدا سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ تو نے سوائے محمد(ص) کے آدم(ع) سے عیسی(ع) تک یہ دن مبارک کیوں قراردیا ہے جب کہ محمد(ص) کے لئے یہ دن رنج و مصیبت  کا دن ہے اسی دن آپ(ص) کی عترت و ذریت کو نے دردی سے قتل کیا گیا اور آپ(ص)  کی بیٹیوں کو قیدی بنایا گیا؟

جواب : جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی لیکن لوگوں سے باز پرس ہوگی ( سورہ انبیاء/۲۲)

۴۰۰

     " تمھارے پاس علم آچکا ہے اگر اس کے بعد بھی تم سے کوئی حجت کرتا ہے  تو تم ان سے کہہ دو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم اپنے نفسوں کو  لائیں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر خدا کی پھٹکار ڈالیں۔(آل عمران/۶۱)

۴۰۱

اہل سنت والجماعت کی دم بریدہ صلوٰت

گزشتہ فصلوں میں ہم آیت کا نزول ، رسول(ص) سے اس کی تفسیر اور کامل صلوٰت بھیجنے  کا طریقہ پیش کر چکے ہیں،اور رسول(ص) نے ناقص صلوٰت بھیجنے سے منع کیا ہے کیوں کہ اسے خدا  قبول نہیں فرماتا ہے۔ لیکن اہلسنت والجماعت کو ناقص صلوٰت بھیجنے پر مصر پاتے ہیں ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ صلوٰت میں آل محمد(ص) کا نام نہ آجائے اور اگر کبھی با دلِ ںخواستہ آلِ محمد(ص) کا نام لے لیا تو آلِ محمد(ص) کے ساتھ اس  صلوات میں اصحاب کا بھی اضافہ کردیتے  ہیں اور جب آپ ان میں سے کسی کے سامنے صلی اللہ علیہ و آلہ کہیں گے وہ فورا یہ سمجھیں گے کہ آپ شیعہ ہیں کیوں کہ محمد و آلِ محمد(ص) پر کامل صلوات بھیجنا شیعوں کا شعار بن چکا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے کہ جس میں ذراسا بھی شک نہیں  ہے میں خود بھی پہلے محمد(ص) کے بعد صلی اللہ علیہ وآلہ ، لکھنے والے کو شیعہ ہی سمجھتا تھا اور جب نام محمد(ص) کے بعد صلی اللہ علیہ و سلم دیکھتا تھا تو  سمجھتا تھا کہ اس کا لکھنے  والا سنی ہے۔

جیسا کہ علی(ع) لکھنے والے کو میں شیعہ سمجھتا ہوں اور جب کوئی کرم اللہ وجہہ لکھتا ہے تو سمجھ جاتا

۴۰۲

 ہوں کہ یہ سنی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پوری صلوات بھیجنے میں شیعہ سنت نبوی(ص) کی اقتداء کرتے ہیںجبکہ اہل سنت والجماعت نبی(ص) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں چنانچہ آپ انھیں ہمیشہ ناقص صلوات بھیجتے ہوئے پائیںگے اور جب کبھی وہ آل محمد (ص) کے نام کا اضافہ کرنے پر مجبور ہوجاتے  ہیں تو  اس وقت ان کے ساتھ اصحابہ اجمعین  کا بھی اضافہ کردیتے ہیں تا کہ اہل بیت(ع) کی فضیلت ثابت نہ ہو۔

در اصل ان تما م چیزوں کا تعلق بنی امیہ کی اہل بیت(ع) سےدشمنی سے ہے یہ عداوت ان کے دلوں میں بڑھتی رہی ۔ یہاں تک کہ انھوں نے صلوات کے بجائے منبروں سے اہل بیت(ع) پر لعنت بھیجنا شروع کردی اور خوف و طمع کے ذریعہ لوگوں کو بھی لعنت بھیجنے پر مجبورکیا۔

اہل سنت والجماعت نے بہ رضا و رغبت اہل بیت(ع) پر لعن و طعن کرنانہیں چھوڑا ہے اگر  وہ لعنت کرتے تو  مسلمانو ں میں رسوا ہوجاتے اور ان کی حقیقت آشکار ہوجاتی اور لوگ ان سے بیزار ہوجاتے اس لئے انھوں نے لعنت کوچھوڑا دیا لیکناہل بیت(ع) سے عداوت و دشمنی ان کے دلوں میں محفوظ رہی اور ان کے نور کو خاموش کرنے اور ان کے دشمنوں کے  ذکر کو بلند کرنےکی پوری کوشش کرتے رہے۔ اور ان کےلئے ایسے خیالی فضائل گھڑتے رہے کہ جن کا حق و حقیقت سے کوئی ربط نہیں  ہے ۔

دلیل یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت آج تک معاویہ اور ان صحابہ کو کچھ بھی نہیں کہتے ہیں کہ جنھوں نے اسی(۸۰) سال تک اہل بیت(ع) پر لعنت کی اس کے بر عکس ان کو رضی اللہ عنہم اجمعین کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلمان کسی صحابہ  میں کوئی نقص نکالتا ہے اور ان کے جرائم کا انکشاف کرتا ہے تو وہ اس کے کفر اور قتل کا فتوا دیدیتے ہیں۔ بعض احادیث گھڑنے والوں نے تو یہاں تک کامل صلوات  میں ( جو نبی(ص) نے اپنے اصحاب کو تعلیم دی تھی۔) ایک جز کا اضافہ کردیا ہے اور وہ اس خیال سے تاکہ اہل بیت(ع)  کی عظمت کو گھٹایا جاسکے۔ روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا: قولوااللهم صلی علی

۴۰۳

محمّد وآلِ محمّد و علی ازواجه و ذریته، تم اس طرح کہو!اللهم صلی علی محمد وآل محمد وعلی ازواجه و ذریته" ایک محقق بادی النظر میں یہ بات سمجھ لے گا اس جز کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ عائشہ کو بھی اہل بیت(ع) کے زمرہ میں شامل کردیا جائے۔

ہم ان سے کہتے ہیں : اگر جدلی طور پر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کرلیں اور قبول کر لیں کہ  امہات المؤمنین بھی صلوات کے ضمن میں ہیں تو صحابہ تو ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے ۔ میں تمام مسلمانوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ قرآن یا حدیث سے اس سلسلہ میں ایک ہی دلیل پیش کردیں شاید آسمان کے ستاروں سے اس کا قریب ہونا آسان ہوگا لیکن دلیل لانا آسان نہیں ہے۔اور قرآن و حدیث ہر ایک صحابی اور قیامت تک پیدا ہونے والے  مسلمانوں کو محمد وآل محمد پر صلوات  بھیجنے کا حکم دیا ہے اور یہی ایک مرتبہ ایسا ہے جس سے  تمام  مراتب پست ہیں اور اس میں کوئی بھی ان کا شریک نہیں بن سکتا۔

پس ابوبکر و عمر اورعثمان بلکہ تمام صحابہ اور ساری دنیا کے مسلمان کہ جن کی تعداد سو(۱۰۰) ملین ہے تشہد پڑھتے وقت کہتے ہیں اللہم صلی علی محمّد وآل محمد! اگر یہ نہیں کہیں گے تو  ان کی نماز باطل ہے ۔ خدا اس نماز کو قبول نہیں کرتا ہے جس میں محمد و آل محمد(ص) پر صلوات نہ بھیجی جائے۔

             یہ ٹھیک وہی معنی ہیں کہ جو امام شافعی نے بیان کئے ہیں کہتے ہیں:

             یکفیکم من عظیم الشان انکم         من لم یصل علیکم لا صلوٰة له

اے اہل بیت (ع) آپ کی عظمت و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو  نماز  میں تم پر صلوات نہ بھیجے  اس کی نماز ، نماز نہیں۔اس شعر کی بنا پر شافعی کے اوپر شیعیت کی تہمت لگائی گئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ بنی امیہ و بنی عباس کے گماشتے  ہر اس شخص کو شیعہ کہنے لگے تھے جو محمد و آل محمد(ص)  پر صلوات بھیجتا تھا ان کی شان میں کوئی قصیدہ کہہ دیتا تھا یا ان کے فضائل کے سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کردیتا تھا۔

اس سلسلہ میں وسیع بحث ہے جو بارہا لکھی جا چکی ہے اور جب تکرار میں فائدہ ہو  تو دھرانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۴۰۴

اس فصل سے ہمیں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ شیعہ ہی اہل سنت والجماعت ہیں اور ان کی صلوات ان کے مخالف کی نظر میں بھی کامل اور مقبول ہے جب کہ اہل سنت والجماعت اس سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی صلوات ان کے علما و ائمہ کی نظر میں بھی ناقص اور غیر مقبول ہے۔

یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنھیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت  کچھ عطا کیا ہے  اور ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملکِ عظیم عطا کیا ہے۔ (نساء/۵۴)

۴۰۵

عصمت نبی(ص) اور اہل سنت والجماعت پر  اس کا اثر

عصمت کے سلسلہ میں مسلمانوں کے مختلف نظریات  ہیں اور یہ تنہا وہحقیقت ہے کہ جو مسلمانوں پر احکام نبی(ص) کے بے چون  و چرا قبول کرنے کو واجب قرار دیتی ہے اور جب مسلمان اس بات کے معتقد ہیں کہ نبی(ص) اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا ہے مگر جو کہتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو کہ اس پر کی جاتی ہے پس اگر مسلمان نبی(ص) کے ان اقوال احکام پر ایمان نہیں رکھتے کہ وہ قرآن پڑھا جانے والا  قرآن ہے تو اس صورت میں وہ فقط نبی(ص) ہی کا اجتہاد ہوگا۔

لیکن جو مسلمان اس بات کے معتقد ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ساری چیزیں خدا کی طرف سے ہیں، نبی(ص) تو صرف بیان کرنے اور پیغام پہنچانے والے ہیں تو وہ فقط شیعہ ہیں اور بہت سے صحابہ کا بھ ی یہی اعتقاد مشہور ہے اور ان کے سردار علی(ع) کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ انھوں نے سنتِ نبی(ص)  کو وحی خدا سمجھا اور اس میں کسی قسم کی رد و بد ل نہ کی  پس احکام خدا کے مقابلہ میں اپنی رائے اور ذاتی اجتہاد کو استعمال  کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن جن مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی(ص) اپنے قول و فعل میں غیر معصوم ہیں اور صرف

۴۰۶

قرآن کی تبلیغ اور اس کی آیات کی تلاوت کے وقت معصوم ہیں اس کے علاوہ تمام انسانوںکی مانند ہیں ، وہ صحیح امور بھی انجام دیتے ہیں اور خطا کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اس نظریہ کی رو سے اہل سنت والجماعت نبی(ص) کے ان احکام اقوال کے مقابلہ مین صحابہ اور علما کے اجتہاد کو جائز قرار دیتے ہیں جو کہ عام لوگوں کی مصلحت کے مطابق اور ہر زمانہ کے حالات سے سازگار ہیں

یہ بات محتاج بیان نہیں ہےکہ ( علی(ع) کے علاوہ) خلفائے راشدین سنتِ نبوی(ص) کے مقابلہ میں  اجتہاد کر لیا کرتے تھے پھر اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور نصوص قرآن کے مقابلہ میں بھی اجتہاد  کرنے لگے اور بعد  میں ان کی رائیں اہل سنت والجماعت میں احکام بن گئیں ۔ چنانچہ وہ ان ہی پر عمل کرتے ہیں اور ان ہی کو مسلمانو ں پر تھوپتے ہیں۔

ہم اپنی کتاب " مع الصادقین" میں ابوبکر وعمر اور عثمان کے اجتہاد کے متعلق بحث کر چکے ہیں اسی طرح " فاسئلوا اہل الذکر میں اشارہ کرچکے ہیں ، انشاء اللہ مستقبل میں ان کے اجتہاد سے متعلق خاص کتاب پیش کریں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اسلامی تشریع کے دو اساسی مصادر ( قرآن و سنت)  میں کچھ مصادر کا بھی اضافہ کرتے ہیںمن جملہ ان کے شیخین ابوبکر عمر" کی سیرت اور صحابہ کا اجتہاد ہے ۔ اور اس کا سرچشمہ ان کا وہ اعتقاد ہے جس میں نبی(ص) کو غیر معصوم کہا جاتا ہے ، بلکہ کہا جاتا ہے نبی(ص) اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے چنانچہ بعض صحابہ آپ کی رائے کی اصلاح کرتے تھے۔

 اس سے ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی  ہے کہ جب اہل سنتوالجماعت  یہ کہتے ہیں کہ نبی(ص) معصوم نہیں تھے تو اس قول سے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر  نبی(ص) کی مخالفت کو جائز  قرار دیتے ہیں۔

اور عقلی اور شرعی اعتبار سے غیر معصوم کی طاعت واجب نہیں ہے اور جب تک ہمارا یہ اعتقاد رہے گا کہ رسول(ص) سے خطا سرزد ہوتی تھی اس وقت ! ان کی طاعت واجب نہیں ہوگی۔ اور پھر خطا کار کی کیسے طاعت کریں؟

۴۰۷

اسیطرح یہ بھی ہم جپر واضجح ہوگیا کہ شیعہ نبی(ص) کو مطلق طور پر معصوم مانتے ہیںاور آپ(ص) کی طاعت کو واجب سمجھتے ہیں کیوں کہ آپ(ص) معصوم عن الخطا ہیں۔ پس کسی بھی صورت میں آپ کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے اور جو آپ(ص) کی مخالفت کرے گا یا آپ(ص) سے منہ پھرائےگا وہ اپنے پروردگار کی نافرمانی کرے گا جیسا کہ متعدد  آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

             جو رسول(ص) تمھارے پاس لائے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔( حشر/۷)

             اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اطاعت کرو۔ (آل عمران/۱۳۲)

             کہدیجئیے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میرا تباع رکرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔(آل عمران/۳۱)

اور بہت سی آیتیں ہیں جو  مسلمانوں پر نبی(ص) کی اطاعت کو واجب قرار دیتی ہیں اور  آپ(ص) کی مخالفت و نافرمانی سے روکتی ہیں کیونکہ آپ(ص) معصوم ہیں اور نبی(ص) اسی امر کی تبلیغ کرتے ہیں جس کا خدا کی طرف سے حکم ہوتا ہے۔

اور اس سے یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ شیعہ ہی اہل سنت ہیں۔ کیوں کہ وہ سنت کو معصوم تسلیم کرتے ہیں اور اس کے اتباع کو واجب سمجھتے ہیں اسی سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ" اہل سنت والجماعت" سنت نبی(ص) سے بہت دور ہیں۔ کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ سنت میں خطا واقع ہوئی ہے۔ اور اس کی مخالفت کرنا جائز  ہے۔

سب ایک ہی دین پر تھے۔ پس خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور ان کے ساتھ بر حق کتاب بھی نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان اختلاف

۴۰۸

 والی چیزوں کا فیصلہ کریں اور اس حکم سے ان لوگوں نے اختلاف کیا جن کو کتاب دی گئی تھی جب ان کے پاس خدا کے صاف صاف احکام آچکے اور انھوں نے پھر شرارت کی تو خدا نے اپنی مہربانی سے ایمانداروں کو راہ حق دکھا دی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا۔ اور خدا  جس کو چاہتا ہے راہِ راست  کی ہدایت کرتا ہے۔ (بقرہ/۲۱۳)

۴۰۹

ڈاکٹر موسوی اور ان کی کتاب اصلاح شیعہ

کچھ روشن فکر اور ذہین نوجوانوں سے پیرس میں میری ملاقات میرے عالم جوانی کے دوست اور خاندانی عزیز کے دولت خانہ پر اس وقت ہوئی جب طویل انتظار کے بعد خدا نے انھیں فرزند عطا کیا تھا اور اس پر انھوں نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا تھا ، وہاں ہمارے درمیان شیعہ  اور سنی کے موضوع پر  بحث چھڑ گئی شیعوں پر تنقیدیں کرنے میں الجزائر کے اکثر وہ لوگ تھے جو اسلامی انقلاب میں پیش پیش ہیں۔ وہ خیالی داستانوں کو دھرا رہے تھے، ان میں آپس میں بھی اختلاف تھا۔ بعض منصت مزاج کہہ رہے تھے کہ شیعہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بعض کہہ رہے تھے شیعہ گمراہ ہیں۔

اور جب ہم نے سنجیدگی سے بحث و استدلال شروع کیا تو ان میں سے بعض میرا مذاق اڑانے لگے اور یہ کہنے لگے تیجانی ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہوگئے ہیں، میرے دوست نے انھیں یہ بات باور کرانے کی لاکھ کوشش کی کہ میں بڑا محقق ہوں اور حاضرین کے سامنے میری تعریف  کرتے ہوئے کہا، انھوں نے اس موضوعات پر  متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔

لیکن ان میں سے ایک نے کہا: میرے پاس ایک دلیل و حجت ہے کہ جس کے بعد کوئی دلیل

۴۱۰

و حجت نہیں ہے، سب خوموش ہوگئے میں نے اس حجت کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا: چند منٹ کی اجازت دیجئے، وہ دوڑتا ہوا اپنے گھر گیا اور ڈاکٹر موسی موسوی کی کتاب" الشیعہ والتصحیح" لایا، جب میں نے کتا ب دیکھی تو مجھے ہنسی آگئی اور کہا ، کیا  یہی وہ حجت ہے۔ جس کے بعد کوئی حجت نہیں؟ وہ حاضرین کی طرف ملتفت ہوا اور کہنے لگا۔

یہ شیعوں کا بہت بڑا عالم اور ان کے مراجع میں سے ایک مرجع ، اس کے پاس اجازہ اجتہاد بھی ہے اور اس کے باپ دادا شیعوں کے بڑے علما میں شمار ہوتے تھے لیکن اس نے حق پہچان لیا اور شیعیت چھوڑ کر مذاہب اہل سنت والجماعت اختیار کر لیا۔

اور مجھے یقین ہے کہ اگر میرے بھائی ( تیجانی) بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتے تو شیعیت سے کبھی دفاع نہ کرتے اور ان (شیعوں) کے انحرافات کو پہچان لیتے۔

مجھے ایک مرتبہ پھر ہنسی آگئی اور اس سے کہا: میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں نے اسے ایک محقق کی حیثیت سے پڑھا ہے اسی کتاب سے میں سب کے سامنے آپ کو وہ  حجت پیش کروں گا کہ جس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔

             حاضرین کے ساتھ اس نے افسوس کے ساتھ کہا: لائیے ہم بھی تو سنیں۔

             میں نے کہا مجھے کتاب کا صفحہ تو یاد نہیں ہے لیکن اس کی شہ سرخی یاد ہے میں نے اسے اچھی طرح یاد کیا ہے۔ اور وہ  ہے۔ اقوال ائمہ الشیعہ فی الخلفاء الراشدین" شیعوں کے ائمہ کے اقوال خلفائے راشدین کے بارے میں۔

             اس نے کہا: اس میں کیا ہے؟

میں نے کہا : اسے حاضرین کے سامنے پڑھیئے اس کے بعد  میں آپ کے سامنے وہ حجت پیش  کروں گا۔

اس نے  وہ عبارت نکالی اور حاضرین کے سامنے پڑھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ " امام جعفر صادق(ع)" اپنے کو ابوبکر سے نسبت دینے پر افتخار کرتے تھے  چنانچہ ایک مرتبہ آپ(ص) نے فرمایا کہ

۴۱۱

 مجھے! ابوبکر سے دھری نسبت ہے اور جن لوگوں نے اس روایت کو بیان کیا ہے ان ہی لوگوں نے وہ روایت بھی نقل کی ہیں کہ جن امام جعفر صادق(ع) نے ابوبکر پر لعن طعن کی ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر موسوی  حاشیہ لگاتے ہیں کہ کیا یہ بات معقول ہے کہ ایک مرتبہ امام جعفر صادق(ع)  ایک لحاظ سے اپنے جد (ابوبکر) پر فخر کریں اور دوسری مرتبہ دوسرے اعتبار سے ان پر لعن طعن کریں؟ اس قسم کی باتیں تو  کوئی بازاری ہی کرسکتا ہے۔ امام ایسی بات کہہ سکتے یں؟

تمام حاضرین نے مجھ سے پوچھا ، اس میں کیا حجت ہے؟ نیز سب نے کہا یہ تو معقول اور  منطقی بات ہے۔

میں نے کہا : امام جعفر صادق(ع) کے اس قول سے کہ مجھے ابوبکر سے دھری نسبت ہے۔ ڈاکٹر موسوی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے جد پر فخر کرتے ہیں۔ جب کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس سے ابوبکر کی مدح و ستائش ہو اور  پھر امام صادق(ع)  ابوبکر کے خاص نواسے نہیں ہیں بلکہ ابوبکر آپ(ع) کی مادر گرامی کے جد ہیں کیوں کہ امام صادق(ع) ابوبکر کی وفات سے ستر(۷۰) سال  کے بعد  متولد ہوئے ہیں آپ(ع) نے ہرگز ابوبکر کو نہیں دیکھا۔

سب نے کہا اس  سے ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے کیا ہے؟!

میں نے کہا : اس شخص کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے کہ جو کہ اپنے خاص جد او ر اپنے باپ کے والد پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے معاصرین میں اعلم ہوں اور تاریخ اس کا مثل پیش نہیں کرسکتی اور پھر  کہے کہ میں نے ان سے درس و ادب حاصل کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی ان پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اور   کی اایک عقلمند انسان اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ کسی شخص پر ایک اعتبار سے افتخار کرے اور دوسری جہت سے اسے کافر ثابت کرے؟!

سب نے کہا: یہ تو معقول نہیں ہے اور کبھی نہیں ہوسکتا۔

میں نے کہا اس کتاب کے پہلے صفحہ کی عبارت پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر موسوی ایسے ہی ہیں۔

۴۱۲

اس نے پڑھا : میں نے اس گھر میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا جس کے ہاتھ شیعوں کی قیادت تھی اور میں نے اس شخص سے درس پڑھا جس کو تاریخ تشیع میں زمانہ غیبت میں زعیم اکبر اور دینی قائد کہا جاتا ہے اور وہ ہیں میرے جد امام الاکبر السید ابوالحسن الموسوی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہانھوں نے اپنے سے پہلے کے علما کی یاد کو بھلا دیا تھا اور بعد والوں کے لئے مثال چھوڑدی  تھی۔

میں نے کہا ، حمد خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے خود موسوی کی زبان سے اس حجت کا اظہار کرادیا اور اس نے خود اپنے خلاف فیصلہ کردیا جیسا کہ آپ نے اس کا قول پڑھا ہے کیا یہ معقول ہے کہ ایک جہت سے اپنے جد پر افتخار کریں اور دوسرے لحاظ سے ان پر اعتراض کریں؟ جب کہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ایسی بات تو کوئی بازاری ہی کہہ سکتا ہے۔

اور یہ  وہ شخص  ہے جو اپنے دادا کے لئے ایسے عظیم اوصاف گنوارہا ہے جو کہ ان کے علاوہ بڑے بڑے علما کو نصیب نہ ہوئے اور اس بات کا دعویدار ہے کہ میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ کیا ہے اور ان ہی سے حاصل کئے ہیں ان تمام باتوں کے بعد تو انھیں جاہل و بازاری ہی مورد طعن ٹھہراتا ہے۔

اس سے تمام حاضرین کے سر جھک گئے اور میرے صاحب خانہ نے مسکراتے ہوئے کہا : کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ برادرم تیجانی  موضوع اور منطق کے مطابق بحث کرتے ہیں؟

میں نے جواب دیا: اگر حقیقت یہ ہوتی جو آپ  کہہ رہے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو اپنے جد اور اس استاد سے برائت کا اظہار کرنا واجب تھا جس نے انھیں اجتہاد کا اجازہ دیا ہے ان پر افتخار کرنا جائز نہیں تھا ایک طرف ان کو لاشعوری طور پر کافر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف ان پر فخر کرتا ہے۔

اگر میں ڈاکٹر موسوی کی تحریر کے متعلق آپ سے مباحثہ کرنا چاہتا تو تمھیں حیرت انگیز  چیزیں دکھا دیتا۔

ان اشکالات کے شروح اور توضیحات کے بعد اس ملاقات کا اختتام بحمد اللہ مثبت نتائج

۴۱۳

 پر ہوا، ان بحث کرنے والوں میں سے بعض تو میری تینوں کتابوں کو مطالعہ کرنے کے بعد شیعیت سے قریب ہوگئے ہیں۔

اس موقع سے  فائدہاٹھا کر قارئین  محترم کے سامنے اپنی اس تحریر کو پیش کرتا ہوں جو کہ میں نے " الشیعۃ والتصحیح" کے متعلق عجلت میں قلم بندی کی تھی، کیوںکہ مذکورہ کتاب نے وہابیوں کے علاقوں میں بہت مقبولیت پیدا کی ہے ، پھر وہابیوں کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہے بعض علاقوں میں ان کا خاص اثر و نفوذ ہے لہذا و ہ ان نوجوانوں کو دامِ فریب میں پھنسا لیتے ہیں جو کہ شیعیت کو نہیں پہچانتے ہیں، اس کتاب کے ذریعہ انھیں بہکانے ہیں اور انھیں مفید تحقیق کرنے سے منع کرتے ہیں اور اس طرح ان کےاور حقیقت کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ یہ اعتراض کرنے والے ڈاکٹر موسوی کی کتاب "  الشیعہ و التصحیح " کوشیعوں پر حجت قرار دیتے ہیں۔ اس کتاب کو ان حکومتوں نے ملینوں کو تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا ہے کہ جن کے مقاصد کو ہر خؒاص وعام جانتا ہے۔ ان نے  چاروں کا خیال خام یہ ہے کہ انھوں نے مذکورہ کتاب کو نشر  و اشاعت کے ذریعہ شیعوں کی دہجیاں اڑادی ہیں تاکہ یہ حجت بن جائے اور پڑھنے والے پڑھ لیں، کیوں کہ اس کے مصنف " آیت اللہ موسوی"  شیعہ تھے۔

لیکن وہ بے چارے بعض چیزوں سے بے خبر ہیں انھوں نےت اس کتاب کا مطالعہ صحیح طور پر تجزیہ ہی نہیں کیا ہے اور اس سے رونما ہونے والے ان بھیانک نتائج کے بارے نہیں سوچا کہ جو ان کے لئے وبال جان بن جائیں گے۔

میں نے خود ڈاکٹر موسی موسوی کے جھوٹ کے پلندے کا جواب لکھنے میں اپنا قیمتی وقت نہیں صرف کروں گا، میں سمجھتا ہوں  کہ میری کتاب" مع الصادقین" موصوف کے مفتریات کے مسکت جواب ہے اگر چہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس کتاب سے قبل ایک کتابچہ تحریر  کیا تھا کہ  جس میں شیعوں کے ان معتقدات کا اظہار کیا تھا کہ جن کا مدار قرآن مجید اور نبی(ص) کی صحیح سنت اور بمع اہلسنت و الجماعت تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور ہم نے ان کے ہر ایک عقیدہ کو اہل سنت والجماعت کی صحاح سے ثابت کیاہے۔

۴۱۴

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر موسیٰ موسوی کا کلام خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس پر نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی اسلامی منطق بلکہ وہ شیعوں سے پہلے اہل سنت والجماعت پر طعن و تشنیع ہے۔

اور  یہ بھی عیاں ہے کہ اس کی کتاب کو رواجدینے والے افراد اسلامی حقائق سے بلکل بے خبر  ہیں اور اس سے ان کی جہالت و حقیقت کا  انکشاف ہورہا ہے۔

اور عقائد شیعہ میں سے جس چیز پر بھی موصوف نے تنقید کی ہے اور ان پر زبان طعن دراز کی ہے وہ بحمد اللہ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجو د ہے۔

پس اس سے شیعوں پر کوئی نقص نہیں وارد ہوا بلکہ خود ڈاکٹر موسیٰ موسوی اور اہل سنت والجماعت میں عیب نکلا ہے کہ جنھیں یہی معلوم نہیں ہے کہ ان صحاح و مسانید میں کیا بھرا  پڑا ہے۔

پس امامت کا قائل ہونا اور ان بارہ(۱۲) خلفا کی خلافت پر نص جو کہ سب قریش سے ہوں گے  یہ شیعوں کی ایجاد نہیں ہے یہ تو اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔ اور امام مہدی(ع) کے وجود کا قائل ہونا اور یہ کہ وہ عترتِ طاہرہ(ع)  میں سے ہونگے اور اسی طرح زمین کو عدل و اںصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی، بھی شیعوں کی من گھڑت نہیں ہے یہ بھی اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اور اس بات کا قائل ہونا کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) رسول اللہ(ص) کے وصی ہیں یہ بھی شیعوں کی بدعت نہیں ہے بلکہ یہ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اسی طرح تقیہ پر عمل کرنا اور اس کو صحیح تسلیم کرنا بھی شیعوں کے خیال کی پیداوار نہیں ہے بلکہ تقیہ کے سلسلہ میں قرآن میں آیت نازل ہوئی ہے اور یہ سنت نبوی(ص) سے ثابت ہے اور یہ سب کچھ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اور متعہ کو جائز و حلال ماننا بھی شیعوں کی ذہنی اپج نہیں ہے بلکہ اسے تو خدا اور اس کے رسول(ص) نے حلال قرار دیا ہے اور عمر ابن خطاب نے حرام قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی

۴۱۵

صحاح میں موجود ہے۔

اور سال بھی کی آمدنی میں سے خمس نکالنے کو صحیح تسلیم کرنا بھی شیعوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اسے بھی کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) نے واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی صحاح گواہی دے رہی ہیں۔

اور بداء کا قائل ہونا اور یہ کہ خدا جس کو چاہتا ہے محو فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثبت فرماتا ہے، یہ بھی شیعوں کی خیالی پلاؤ نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری سے ثابت ہے۔

اور بغیر عسر و ضرورت کے " جمع بین الصلاتین" یعنی دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا قائل ہونا بھی شیعوں کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پر رسول(ص) نے عمل کیا ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی صحاح سے ثابت ہے۔

خاک شفا پر اور زمین پر سجدہ کرنا  بھی شیعوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ سید المرسلین(ص)  نے بھی زمین ہی  پر سجدہ کیا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت  کی صحاح سے ثابت ہے۔

اور اس کے علاوہ جو  باتیں ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے کہی ہیں کہ جن کا مقصد صرف تہویل و تھریج ہے، جیسے تحریف قرآن کو دعوا ، تو اہل سنت والجماعت اس تہمت کے زیادہ مستحق ہیں جیسا کہ اس سلسلہ میں ہم اپنی کتاب " مع الصادقین" میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔

مختصر یہ کہ ڈاکٹر موسیٰ موسوی کی  تالیف ، اصلاح شیعہ" پوری پوری قررآن و سنت رسول(ص) ،اجماع مسلمین اور عقل  و وجدان کے سراسر خلاف ہے۔

موسوی نے بہت سے ضروریات دین کا انکار کیا ہے جب کہ وہ کتابِ خدا میں موجود ہیں اور رسول(ص) نے ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے اور ان پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور ان کا انکار کرنے والا مسلمانوں کےاجماع سے کافر  ہے۔

پس اگر موسوی کی مراد اس " اصلاح" سے ان کا عقائد و احکام کا بدلنا ہے تو وہ ( موسوی) کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور تمام مسلمانوں پر اس کا مقابلہ کرنا واجب ہے۔ اور اگر "اصلاح "

۴۱۶

 مراد خود اپنے عقائد بدلنا ہے جیسا کہ ان کی کتاب سے میری سمجھ میں یہی آیا ہے  لیکن موصوف کی تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد کےقتل کا ذمہ دار شیعوں کو ٹھہرایا تھا ( جیسا کہ ص۵ پر تحریر کرتے ہیں) قاتل مذہبی شخص کے لباس میں تھا ۔ اور میرے باپ کو جانور کو طرح ذبح کردیا گیا تھا۔

شیعوں کے بارتے میں بچپن ہی سے ان کایہ عقیدہ تھا جب کہ ان کا اس قتلجسے کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن انھوںنے اہل سنت والجماعت کی طرف رخ پھیرا لیا اور اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والوں سے بغض کینہ میں ان کےشریک بن گئے جب کہ وہاں کوئی مقام نہ ملا اب نہ وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ، وہ صرف ان باتوں سے واقف ہیں جو شیعوں کے دشمن نے ان کی طرف منسوب کردی ہیں اور اسی طرح اہل سنت والجماعت کےمتعلق سوائے نماز جمعہ کے ( اگر شریک ہوتے تو) کچھ نہیں جانتے ہیں۔

اگر اصلاح سےان کی یہی مراد ہے تو ان پر ان غلط و فاسد  عقائد کی اصلاح کرنا واجب ہےکہ جن سے امت کےاجماع کی مخالفت کی ہے۔

پس جب ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے تعلیم و تربیت ( جیسا کہ انھوں نے اپنی کتاب کے صفحہ ۵ پر  تحریرکیا ہے ) اور درس و ادب اس شخص سے حاصل کیا ہے کہ جس کو آج تک تاریخ تشیع میں دینی قائد اور زعیم اکبر کہا جاتا ہے اور وہ ہیں خود ان  کے دادا  امام اکبر ابوالحسن موسوی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پہلے والوں کی یاد فراموش کردی اور  آنے والوں کو  عاجز کردیا۔ ڈاکٹر نے ان کے دروس کو حفظ نہ کیا اور ان کے آداب سے آراستہ نہ ہوئے اور ان کے راستہ کو اختیار نہ کیا ، ان کے علم سے سیراب نہ ہوئے بلکہ ہم تو انھیں ان کی جد امام اکبر اور زعیم دینی کے عقائد کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے اپنے والدین کو عاق کردیا ہے۔ بلکہ اس کا عاق یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس نے اپنے دادا اور والدین کو کافر قرار دیدیا ہے۔ پس جب موسوی کی نظروں میں شیعہ کافر ہیں تو ان کے قائد  بھی جو کہ موسوی کےجد ہیں ۔ کفر سے

۴۱۷

 زیادہ قریب ہیں۔

ڈاکٹر موسوی کا اپنے جد ابوالحسن الموسوی ( رحمۃ اللہ) کی کتاب " وسیلۃ النجاۃ" سے جاہل رہنا ایسا ننگ و عار ہے کہ جس کے بعد کوئی ننگ و عار نہیں ہے اور پھر یہ دعوی ہے کہ میں (ڈاکٹر موسوی) نے ان کے سامنے زانوائے تلمذ تہ کیا ہے!

اور اس سے بڑی رسوائی یہ ہے کہ تیونس  کا ایک جوان جو کہ نجف اشرف سے ہزاروں کلومیٹر دور کا باشندہ ہے وہ امام اکبر ابوالحسن الموسوی کی کتاب " وسیلۃ النجاۃ" سے واقف ہے اور اس کے مطالعہ سے اہل بیت(ع) کے حقائق سے آگہی حاصل کرتا ہے جب کہ ان کا پوتا کہ جس نے ان کے گھر اور نگرانی میں تربیت پائی ہے وہ اس سے واقف نہیں ہے۔

امام اکبر ابوالحسن الموسوی اصفہانی( قدس سرہ) نے جو کچھ اپنی کتاب" وسیلۃ النجاۃ" میں تحریر کیا ہے اس کی ان کے پوتے ڈاکٹر موسوی نے تردید کی ہے اور مرحوم کا مذاق اڑاتا ہے اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج جانا ہے۔

منطق یہ کہتی ہے کہ اگر اس امام اکبر اور قائد دینی کا عقیدہ صحیح و سالم ہے تاریخ شیعیت میں جس کی مثال نہیں ملتی( جیسا کہ ان کے پوتے کا نظر یہ ہے) تو ان کے پوتے کا عقیدہ کفر و  گمراہی ہے۔

اور اگر ان کےپوتے ڈاکٹر موسیٰ موسوی کا عقیدہ صحیح و سالم ہے تو ان کے جد کا عقیدہ کفر و ضلالت ہے، اس صورت میں ڈاکٹر کا ان سے برائت کا اظہار کرنا واجب ہے اور ان سے نسبت پر افتخار کرنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ان کی نگرانی میں تربیت پانے کا قصیدہ پڑھنا صحیح ہےجیسا کہ موصوف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں فخر وفروشی کی ہے۔

اس منطق اور اس حجت سے ڈاکٹر موسوی کے اس اجازہ اجتہاد کو بھی دیوار پر دے مارا جاتا ہے جو کہ اس نے آلِ کاشت الغطا سے حاصل کیا تھا۔

اوّلا : کیونکہ انھوں نے اپنی کتاب میں جو اجازہ اجتہاد کی فوٹو کاپی شائع کی ہے وہ

۴۱۸

 فقط اجازہ روایی ہے اور یہ کوئی خاص اجازہ نہیں ہوتا ہے بلکہ مراجع عظام اکثر طلبا کو دیدیتے ہیں۔ میرے پاس خود ایسے ہی دو اجازے ہیں ایک آیت اللہ العظمی خوئی(رح) نے نجف میں دیا تھا اور دوسرا آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی(رح) نے قم میں دیا تھا۔

پس روائی اجازہ کی اسلامی فقہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر موسوی نے ان لوگوں کو فریب دیا ہے جو کہ حوزات علمیہ کے درسی مراحل سے ناواقف ہیں۔

ثانیا: امام اکبر کا پوتا تصحیح و اصلاح کا دعوا  کرتا ہے لہذا اس نے اس امانت میں خیانت کی ہے جو کہ اسے اس کے استاد نے دی تھی ، موسوی کا دعویٰ ہےکہ اس کے پاس اجازہ اجتہاد ہے جب کہ مرجع دینی، زعیم حوزہ علیہ نجف اشرف مرحوم شیخ محمّد حسین آلِ کاشف الغطا نے اس اجازہ میں کہ جس کو موسوی نے اپنی کتاب میں شائع کیا ہے۔ صاف طور پر تحریر کیا ہے کہ میں نے انھیں ان کی اہلیت کی بنا پر یہ اجازت دیتا ہوں کہ وہ مجھ سے ان روایات کو نقل کرسکتے ہیں جن کی صحت میرے نزدیک بزرگوں اور اساتذہ کرام کے ذریعہ ثابت ہے۔

اور ہم نےیہ دیکھا  ہے کہ موسوی ہر اس چیز کا مذا ق اڑاتا ہے کہ جس کو مرجع دینی اور زعیم حوزہ علمیہ آل کاشف الغطا  نے اپنے بزرگوں اور اساتذہ کرام سے اپی کتاب " اصل الشیعہ و اصولہا" میں نقل کیا ہے ۔ اس کتاب میں انھوں نے شیعوں کےسارے معتقدات اور احکام نقل کئے ہیں۔

پس کتاب الشیعہ والتصحیح کی جس کو ان کے خیانت کار شاگرد نے تحریر کیا ہے  کتاب اصل الشیعہ و اصولہا، مؤلفہ مرجع اعلیٰ کاشف الغطاء کے سامنے کیا حیثیت ہے۔

جب کاشف الغطا اعلیٰ دینی مرجع ہیں اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم ہیں جیسا کہ موسوی نے اپنی کتاب کے ص۱۵۸ پر اس کا اعتراف کیا ہے اور جب موسوی اس اجازہ کےذریعہ افتخار کرتا ہے جو کہ تیس(۳۰) سال قبل اس نے کاشف الغطا سے حاصل کیا تھا تو ان کا ادنیٰ و حقیر شاگرد اپنے اس استاد کے متعقدات کا کیسے مذاق اڑاتا ہے کہ جس نے اسے تعلیم دی اور ان کے خیال کے مطابق اجازہ اجہتاد  بھی دیا؟پس اگر زعیم حوزہ علمیہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا حق پر ہیں اور ان کے معتقدات صحیح ہیں

۴۱۹

 تو موسوی باطل پر ہیں اور اس کے سارے معتقدات غلط ہیں۔

اور اگر دینی مرجع باطل پر ہے اور ان کے معتقدات غلط ہیں اور موسوی ان کا مضحکہ اڑاتا ہے تو موسوی پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو یہ فریب نہ دے کہ وہ اسلامی فقہ میں  درجہ اجتہاد پر فائز ہے اور زعیم حوزہ نے اس کو اجازہ اجتہاد دیا ہے۔

اور اگر موسوی کے معتقدات صحیح ہیں جیساکہ وہ خود  دعویدار ہیں، تو انھوں نے اپنے جد سید ابو الحسن موسوی اصفہانی کو کافر  قرار دیدیا کہ جن کو وہ خود کہتے ہیں کہ وہ تاریخ تشیع میں غیبت سے آج تک زعیم اکبر اور دینی قائد شمار ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ڈاکٹر موسوی نے اپنے استاد اور اجازہ دینے والے کاشف  الغطا کو کافر قرار دیا اور روز سقیفہ سے لے کر آج تک کے ملینوں شیعوں کا کافر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں ڈاکٹر  موسی موسوی کی کتاب " الشیعہ والتصحیح پڑھتے وقت اپنے پروردگار سے یہ عہد کیا تھا کہ میں پڑھنے سے پہلے کوئی حکم نہیں لگاؤں گا چنانچہ میں نے انہماک کے ساتھ مطالعہ شروع کیا ۔ شاید مجھے کوئی ایسی چیز مل جائے۔

جو مجھ سے چھوٹ گئی تھی اور  میرا نقص کا مل ہوجائے ۔لیکن مجھے اس میں جھوٹ تناقضات نصِ قرآن کی مخالفت ، سنت نبی(ص) کا استہزا، اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کے سوا کچھ نہ ملا۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ موسوی نے صحیح بخاری بھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے جو کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحیح ترین کتاب ہے اور ڈاکٹر موسوی نےاپنے خیال خام کے مطابق جن چیزوں کو شیعوں سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیعہ حکم خدا کو پس پشت ڈالدیتے ہیں۔ اگر یہ جید عالم صاحب کہ جس نے ظاہرا بیس(۲۰) سال کی عمر میں فقہ اسلامی میں اجازہ اجتہاد  حاصل کرلیا تھا ( خدا  جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ) کیوں کہ اس کے بعد موصوف نے ۱۹۵۵ء میں تہران یونیورسٹی سے فقہ اسلامی میں ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی تھی اور اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ؁۱۹۳۰ء میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے تھے اور ۱۹۵۹ء میں پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431