شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105367
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105367 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسلام کی نظر میں نظامِ حکومت

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے  کہ رسول(ص) نے کسی کی خلافت پر نص نہیںکی تھی تعیین خلیفہ کے مسئلؒہ کو لوگوں کی شوری پر چھوڑ کر چلے گئے تھے تاکہ وہ جس کو چاہیں منتخب کرلیں، خلافت کے بارے میں یہ  ہے ان کا عقیدہ چنانچہ وہ وفاتِ نبی(ص)کےدن سے آج تک اسی پر اڑے ہوئے ہیں۔

مفروض جیہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کو اس چیز پر عمل کرنا چاہئے کہ جس پر ان کا ایمان ہے اور جس سے وہ پوری طاقت و توانائی کے ساتھ دفاع کررے ہیں قطع نظر اس بات سےکہ اہل سنت والجماعت اپنے اعتقاد کے بر خلاف عمل کرتے ہیںاور ابوبکر کی بیعت سے قطع نظر کہ جس کو خود  اہل سنت ایک اتفاق امر کہتے ہیں کہ جس کے شر سے خدا ہی نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا، ابوبکر نے اسلام میں ولی عہد کی فکر ایجاد کی چنانچہ مرنے سے قبل اپنے دوست عمر ابن خطاب کو ولی عہد بنادیا۔

اسی طرح عمر ابن خطاب نے بھی انتقال سے قبل عبدالرحمن ابن عوف کو یہ  اختیار دیدیا کہ وہ نامزد پانچ اشخاص میں سے جس کو چاہئے خلافت کے لئے منتخب کرے اور تفرقہ پھیلانے والے مخالفوں کی گردن ماردے۔

۳۸۱

اور جب معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے بھی اس چیز پر عمل کیا اور اپنے بیٹے یزید(لع) کو اپن اعلی عہد بنا دیا اور پھر یزید(لع) نے اپنے بیٹے معاویہ کو اپناولی عہد مقرر کیا اور اسی وقت سے خلافت طلقا کے اور ان کے بیٹوں میں نسلا بعد نسل منتقل ہوتی رہی چنانچہ ہر ایک خلیفہ اپنے بیٹے کو ولی عہد بناتا ہے یا اپنے بھائی کو یا اپنے کسی عزیز کو اپنا ولی عہد بناتا ہے اور جس دن سے بنی عباس کو خلافت ملی تھی اور جب تک ان کے ہاتھوں میں رہی ل۔ وہ  بھی اسی سنت پر عمل کرتے رہے  اسی طرح عثمانی حکومت میں خلافت ورثہ میں منتقل ہوتی رہی جو کہ اس صدی میں زمانہ اتاتارک میں کمزور ہوئی۔

اور چوں کہ ان خلافتوں یا حکومتوں پر اہل سنت والجماعت ہی کا قبضہ رہا لہذا وہ دنیا کے چپہ چپہ پر پہنچ گئے۔ چنانچہ آپ انھیں اسلامی تاریخ میں اور آج سعودی عرب و مغرب میں اور اردن میں نیز  تمام خلیجی ممالک میں ولی عہد والے عقیدے پر عمل پیرا دیکھتے  ہیں اگر اس نظریہ کو صحیح تسلیم کر لیا جائے  کہ نبی(ص) نے خلیفہ سازی کا کام شوری اور قرآن پر چھوڑ دیا تھا تو بھی صحابہ نے قرآن و حدیث کی مخالفت کی اور شوری ، ڈیموکریسی ، والے نظام کو ولی عہد اور استبدادی حکومت کے نظام سے بدل دیا۔

لیکن اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی(ص) نے علی ابن ابی طالب(ع) کی خلافت پر نص کی تھی جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں ، تو بھی اہل سنت والجماعت نے نبی(ص) کی صریح حدیث اور قرآن مجید کی مخالفت کی ہے کیونکہ رسول(ص) نے کوئی کام خدا کی اجازت کے بغیر انجام نہیں دیا ہے۔

اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ اہل سنت شوری والے نظریہ کو بھی غلط سمجھتے ہیں جیسا کہ وہ اس نظریہ کو رسول(ص) کی اس حدیث سے مخدوش بتاتے ہیں کہ میرے بعد تیس(۳۰) سال تک خلافت رہے گی اس کے بعد کاٹ کھانے والے بادشاہ ہوں گے، گویا وہ اپنے غیر کو اس چیز سے مطمئن کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ خود مطمئن ہیں اور وہ یہ کہ حکومت خدا کی ہے وہ جسے چاہتا ہے دیدیتا ہے اور بادشاہوں کو وہی لوگوں پر حاکم و بادشاہ بناتا ہے لہذا ان کی اطاعت کرنا واجب ہے اور ان کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔یہ بحث بہت لمبی ہےجو کہ ہمیں قضا و قدر تک لےجاتی ہے کہ جس کو ہم اپنی " کتاب

۳۸۲

مع الصادقین" میں بیان کرچکے ہیں، اس لئے ہم اسے دہرانا نہیں چاہتے، بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ اہل سنت والجماعت کوقدر یہ بھی کہا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ اہل سنت والجماعت ولی عہد پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے شرعی خلافت سمجھتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ رسول(ص)  نے اس کا حکم دیا ہے ، آپ(ص)  نے اپنا ولی عہد معین کیا تھا، کیوںکہ اس کی تو وہ شروع سے مخالفت کرتے ہیں۔ بلکہ اس کو غیر شرعی سمجھتے ہیں کہ ابوبکر نے عمر کو اور عمر نے چھ افراد کو اور معاویہ نے یزید(لع) کو  ولی عہد بنایا تھا، اور اہل سنت کے علما یا ائمہ مذاہب میں سے کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا ہےکہ اموی حکومت یا عباسی و عثمانی حکومت غیر شرعی تھی بلکہ ہم انھیں بیعت کے لئے دوڑتے اور ان کی خلافت  کی تائید و تصحیح کرتے ہوؕئے دیکھتے ہیں یہی نہیں بلکہ ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ ہر وہ  خلافت شرعی ہے جو کہ قہر و غلبہ سے وجود میں آتی ہے وہ حاکم و خلیفہ کے نیک  و بد، متقی و فاسق اور عربی و قرشی اور  ترکی و کردی ہونے کو اہم نہیں سمجھتے۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹر احمد محمود صبحی کہتے ہیں: مسئلہ خلافت میں اہل سنت کا موقف ہے امر واقع کے سامنے تسلیم ہوجانا اس کی تائید تصدیق کرنا اس کے خلاف خروج نہ کرنا۔( نظریۃ الامامۃ مؤلف محمود صبحی ص۲۳)

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کی تائید  بھی جیسا کہ ابو یعلی الفراء نے امام احمد ابن حنبل کا قول نقل کیا ہے۔ خلافت قہر و غلبہ سے بھی ثابت ہوجاتی ہے بیعت کی  احتیاج نہیں؟

ایک روایت میں عبدوس ابن مالک العطار نے کہا ہے: جس نے تلوار سے غلبہ حاصل کرلیا  یہاں تک کہ خلیفہ بن گیا اور اسے امیرالمؤمنین کہاجانے لگا تو یہ خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لئے جائز نہیں ہےکہ وہ خلیفہ کو اپنا امام تصور نہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا بدکار، موصوف نے اس بات پر عبداللہ ابن عمر کے اس قول سے حجت قائم کی ہے کہ ہم تو غائب آجانے والے کے ساتھ  ہیں اس بنا پر اہل سنت والجماعت ولی عہد والی بدعت کے رہین منت ہو کر رہ گئے وہ ہر غالب آجانے والے ،  زبردستی حاکم بن بیٹھے والے کی بیعت کرتے ہیں اس کے علم و تقوی اور ورع و نیک کار و بدکار ہونے

۳۸۳

سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ۔ دلیل اس پر یہ ہے کہ اکثر صحابہ نے نبی(ص) کی رکاب میں معاویہ ابن ابی سفیان سے جنگ  کی اور بعد میں اس لئے اس کی بیعت کرلی کہ وہ امیرالمؤمنین ہے جیسا کہ انھوں نے مروان ابن حکم کی بھی خلافت کو قبول کرلیا کہ جس کو رسول(ص) نے چھپکلی کہا تھا اور مدینہ سے نکال دیا تھا اور  فرمایا تھا اسے موت و حیات میں میرا ہمسایہ نہیں ہونا چاہئیے۔

بلکہ اہل سنت نے یزید ابن معاویہ کو بھی خلیفہ تسلیم کر لیا تھا اور امیر المؤمنین کے عنوان سے اس کی بیعت کر لی تھی اور جب  فرزند رسول(ص) امام حسین(ع)  نے یزید(لع)  کے خلاف خروج کیا تاانھوں نے یزید(لع)  کی حکومت برقرار رکھنے کے لئے امام حسین(ع) اور ان کے اہل بیت(ع) کوقتل کردیا ۔ علمائے اہل سنت کا نظریہ ہے کہ امام حسین(ع) اپنےجد کی تلوار سے شہید ہوئے ہیں چنانچہ ان میں سے بعض آج تک یزید ابن معاویہ کے حق پر ہونے کے سلسلہ میں کتابیں لکھتے ہیں یہ تمام چیزیں یزید(لع)  کی خلافت کی تائید اور امام حسین(ع) کی  حقارت میں ہیں کیونکہ آپ(ع) نے یزید(لع)  کے خلاف خروج کیا تھا۔ان تمام چیزوں سے واقف ہونے کے بعد ہمارے سامنے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ہم اس بات کا اعتراف کر لیں کہ اہل سنت والجماعت نےسنت نبی(ص) کی مخالفت کی ہے۔ کیوںکہ وہ کہتے ہیں کہ نبی(ص)  مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ پر چھوڑ گئے تھے۔

لیکن امامت کےسلسلہ میں شیعوں کا ایک قول ہے اور وہ یہ کہ خلیفہ کے لئے خدا اور رسول(ص)  کی طرف سے نص ہونی چاہئے ، شیعہ صرف نص کے ذریعہ امامت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ اور اس طرح معصوم، اعلم، متقی ترین اور افضل ترین انسان ہی امام بن سکتا ہے ۔ شیعوں کے نزدیک مفضول (پست) کو فاضل( اعلیٰ) پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی لئے وہ اوّلا صحابہ کی خلافت کا انکار کرتے ہیں اور ثانیا اہل سنت والجماعت کی خلافت کا انکار کرتے ہیں۔ خلافت کےسلسلہ میں شیعہ جن ںصوص کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں ان کا وجود فعلی اور حقیقی مصداق موجود ہے پس ہمارے لئے اسکے علاوہ چارہ کار نہیں ہے کہ ہم اس بات کے قائل ہوجائیں کہ شیعہ ہی نبی(ص)  کی صحیح  سنت  سے تمسک

۳۸۴

 کئے ہوئے ہیں۔

خواہ اس خلافت کو شوری کے ذریعہ تسلیم کریں یا نص کے ذریعہ فقط شیعہ ہی حق پر ہیں۔

کیوں کہ نص اور شوریٰ  کے ذریعہ صرف علی ابن ابی طالب(ع) خلیفہ منتخب ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں کوئی بھی سنی، شیعہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول(ص) نے قریب و بعید کے اشارہ کے ذریعے ولی عہد کا حکم دیا تھا۔

اور اسی طرح مسلمانوں میں سے کوئی سنی، شیعہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاپنے اصحاب سے یہ فرمایا تھا کہ:

             میں تمھارے معاملہ کو شوری پر چھوڑ کر جارہا ہوں پس جس کو تم چاہو خلیفہ منتخب کرلو۔

ہم پوری دنیا  کو چیلنج کرتے ہیں کہ کوئی اس قسم کی ایک ہی حدیث پیش  کردے۔

پس اگر نہیں کرسکتے اور ہرگز نہیں کرسکو گے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثابت واضح سنت اور صحیح اسلامی تاریخ کی طرف  رجوع کرو تاکہ ہدایت پاجاؤ۔ یا وہ اس بات کے قائل ہوجائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عظیم امر کو ایسے ہی چھوڑ گئے۔

اور اس کی علامت ونشانی کو بیان نہ کیا تا کہ امت  کو مستقل فتنہ وفساد، جنگ و جدال اور افتراق میں مبتلا کردیں اور اسے صراط  مستقیم سے ہٹادیں۔ دیکھتے ہیں کہ فاسق  و ظالم حکام اپنی خلافت کے بعد اپنی قوم کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنی زندگی ہی میں کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کردیتے ہیں، تو اس کا کیا حال ہوگا جس کو خدا نے عالمین کے لئے رسول(ص) بناکر  بھیجا؟!

۳۸۵

صحابہ کو عادل ماننا سنت کی صریح مخالفت ہے۔

صحابہ کے سلسلہ میں نبی(ص) کے اقوال و افعال پر نظر ڈالئے تومعلوم ہوگا کہ آپ(ص) نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے، آپ(ص)  خدا  کے لئے  غضب ناک ہوتے تھے اور اس کی رضا سے رضا مند تھے پس جو صحابی بھی حکمِ خدا  کی مخالفت کرتا تھا نبی(ص) اس سے برائت کا اظہار کرتے تھے جیسا کہ آپ(ص) نے بنی حذیمہ کے قتل کے سلسلہ میں خالد ابن ولید سے برائت کی تھی اور اسامہ پر اس وقت غضب ناک ہوئے تھے جب وہ اس عورتکی سفارشکرنے آئے تھے جس نے چوری کی تھی اور فرمایا تھا ، تمھیںکیا ہوگیا ہےجکہ تم خد ا کےحدود  کے سسلہ مین سفارش کرتےہو؟ قسم خدا کی اگر محمد(ص) کی بیٹٰی  فاطمہ(س) بھی چوری  کرتی تو میں اس کا ہاتھ کا ٹ دیتا تم سے پہلے  لوگ صرف اس لئے  ہلاک ہوئے کہ جب کوئی شریف چوری کرتا تھا تو وہ چھوڑ دیئے جاتے تھے اور جب کوئی شریر چوری کرتا تھا تو اس پر حد جاری کرتے تھے۔

کبھی بعض مخلص صحابہ کو شاباش  مرحبا بھی کہتے اور ان کے لئے دعا و استغفار کرتے تھے اسی طرح اپنے حکم کی نافرمانی کرنے والوں اور انھیں اہمیت نہ دینے پر لعنت بھی کرتے تھے جیسا کہ آپ(ص) نےفرمایا تھا، خدا اس پر لعنت کرے جو اسامہ کے لشکر میں شرکت نہ کرے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ

۳۸۶

صحابہ نے نبی(ص) پر اس لئے اعتراض کیا تھا کہ آپ(ص) نے کم سن اسامہ کو لشکر کا امیر بنادیا تھا۔

اسی طرح ہم رسول(ص) کو لوگوں کے سامنے بعض صحابہ کی حق  پوشی اور ان کے نفاق کو واضح طور پر بیان کرتے دیکھتے ہیں، چنانچہ ایک منافق کے بارے میں فرماتے ہیں۔

اس کے دوست ہیں جو تم سے ہر ایک کی نماز کو اپنی نماز  کے سامنے کچھ نہیں سمجھتے اور  نہ ہی اپنے روزوں کے مقابل تمھارے روزوں کو کچھ سمجھتے ہیں ، قرآن پڑھتے  ہیں لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ ( یعنی اہمیت دیتے ) دین سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ کبھی آپ(ص) اس صحابی پر نماز  نہیں پڑھتے ہیں جو کہ خیبر میں مسلمانوں کے لشکر میں شامل تھا اور اس کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں اور  فرماتے ہیں اس نے دین خدا میں  خیانت کی ہے اور جب اس (صحابی) کے سامان کی تلاش لی گئی  تو اس میں یہودیوں کی مالاملی۔

مازودی لکھتے ہیں کہ جنگ تبوک میں نبی(ص) کو پیاس لگی تو منافقوں نے کہا محمد(ص) آسمان کی خبر بتاتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا  پانی کہاں ہے۔ پس جبرئیل نازل ہوئے اور آپ(ص)  کو ان کے نام بتادیئے ۔ اور نبی(ص) نے وہ اسماء  سعد ابن عبادہ کو بتائے تو سعد نے کہا اگر آپ(ص)  کی رضا ہوتو میں ان کی گردن اڑادوں؟ آپ(ص) نے فرمایا: ( رہنے دو) لوگ کہیں گے کہ محمد(ص)  اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں۔ لہذا جو ہمارے ساتھ  نشست برخاست رکھتا ہے ہم اس سے حسن ( صحبت) سلوک سے پیش آئیں گے۔ ( لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد(ص) اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں لیکن ہم اس کےساتھ حسن (صحبت) سلوک رکھتے ہیں۔ یہ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ صحابہ میں منافقین کو  بھی اپنے اصحاب میں شمار کیا ہے۔)

اور صحابہ کےحق میں جس چیز کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے رسول(ص) نے اسی کو اختیار کیا ہے، خدا سچے و صادقین صحابہ سے راضی ہے ۔ اور منافقین و مرتد اور ناکثین پر غضبناک ہے اور متعدد آیتوں میں ان  پر لعنت کی ہے اس موضوع سے متعلق ہم اپنی کتاب" فاسئلوا اهل الذکر" کی

۳۸۷

 فصل قرآن مجید صحابہ کی حقیقت کا انکشاف کرتا ہے، میں سیر  حاصل بحث کرچکے ہیں شائقین مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔

ہمارے لئے بعض منافق صحابہ کے اعمال سے متعلق وہ ایک مثال کافی ہے جس کےذریعہ خدا نے ان کے اعمال سے پردہ ہٹایا اور انھیں رسوا کیا ، یہ بارہ(۱۲) اشخاص تھے جو اس بہانہ سے  کہ ہمارے مکانات دور ہیں نبی(ص) کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہوسکتے ، مسجد ٖ ضرار بنالی تھی، کیا اس  زیادہ بھی خلوص ملے گا؟ لوگ فریضہ نماز کوجماعت سے ادا کرنے کے لئے بھاری رقم خرچ کر کے مسجد بناتے ہیں؟

لیکن خداوند عالم پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے وہ آنکھوں کی خیانت  اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے، انکے  بھیدوں کو جانتا ہے اورجو کچھ ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے اس سے بھی با خبر ہے۔ پس اس نے اپنے رسول(ص) کو ان کی سازش اور نفاق سے اس طرح مطلع کیا :

                     اور جن لوگوں نے مسجد ضرار بنائی تاکہ اس کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچائیں اور کفر کو مضبوط بنائیں اور مومنین کے درمیان اختلاف پیدا کریں اور خدا رسول(ص) سے جنگ کرنے والے کے لئے پہلے سے پناہ گاہ بنارکھیں وہ منافق ہیں جب کہ  قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے تو نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے۔ اور خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ سب جھوٹے ہیں۔( توبہ/۱۰۷)

اور جس طرح خدا حق بیان کرنے شرم نہیں کرتا ہے ۔ اسی طرح کا رسول(ص) بھی واضح لفظوں میں  اپنے صحابہ سے فرماتا تھا کہ تم دنیا حاصل کرنے کے لئے آپس میں لڑ مروگے  اور تم عنقریب یہود و نصاری کی پیروی کروگے اور وہ یہودی   کرو گے جو وہ کر گز رہے ہیں اور میرے بعد کافر ومرتد ہوجاؤ گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل ہوگے اور تم میں سے

۳۸۸

بہت کم نجات پائیں گے جیسا کہ بنی(ص) نے چوپایوں سے تعبیر کیاہے۔۔۔۔

پس ان تمام باتوں کے باوجود اہلسنت والجماعت ہمیں اس بات سے مطمئن کر نیکی کوشش کیوں کرتے ہیں کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور وہ سب جنتی ہیں اور ان کے احکام ہم پر لازم ہیں ، ان کی رائے اور بدعت کا اتباع واجب ہے اور ان میں سے کسی ایک پر بھی اعتراض کرنے سے دین سے خارج ہونے کا سبب ہے؟؟

اس بات کو دیوانے بھی قبول نہیں کریںگے چہ جائیکہ عقل مند حضرات یہ لغو و مہمل بات ہے جو کہ امراء و سلاطین اور ان کی بارگاہ میں رہنے والے چاپلوس علما نے گھڑی ہیں ہم تو ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرسکتے ۔کیوں کہ خدا و رسول(ص) کے قول کو رد کرنا ہے اور جو  خدا و رسول(ص) کے قول کو رد کرتا ہے وہ کافر ہے اور پھر یہ بات عقل و وجدان  کے خلاف ہے۔

اور ہم اہل سنت والجماعت پر بھی یہ لازم قرار نہیں دیتے کہ وہ اپنے اس نظریہ سے ہٹ جائیں یا اس کا انکار کریں ، وہ اپنے عقیدے میں آزاد ہیں۔ ( ہاں) اس کے بھیانک نتائج کے ذمہ دار بھی وہ خود  ہیں ان ہی سے اس کی باز پرس ہوگی۔

لیکن اہل سنت بھی اس شخص کو کافر قرار نہ دیں جو کہ صحابہ کی عدالت کےسلسلہ میں قرآن و سنت کا اتباع کرتا ہے۔ ان میں (صحابہ) سے اچھائی کرنے والے کو اچھا اور برائی کرنے والے کو برا کہتا ہے اور ان میں (صحابہ)  سے خدا و رسول(ص) کے اولیا سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) کےدشمن سے بیزار ہے۔

اور اس سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ اہل سنت والجماعت قرآن و سنت کی مخالفت کرتے ہیں او ر اس چیز پر عمل کرتے ہیں جو کہ حکومتِ بنی امیہ و بنی عباس نے ان پر تھوپ دی ہے اور موازین عقلی و شرعی کو دیوار پردے مارا ہے۔

عجیب بات تو یہ ہے کہ جب آپ اہل سنت والجماعت کےکسی عالم سے یہ کہیں گے کہ  جب آپ حضرات صحابہ پر سب و شتم کرنے والے کو کافر کہتے ہیں تو معاویہ اور ان صحابہ کو کیوں

۳۸۹

کافر قرار نہیں دیتے جنھوں نے منبروں سے علی(ع)  پر لعنت کی ہے ؟ تو وہ یقینا وہی جواب دیں گے جو کہ مشہور ہے۔

             وہ ایک قوم تھی جو گزرگئی انھیں ان کے کئے کا پھل ملے گا  اور تمھیں تمھارے کئے پھل ملے گا تم سے ان کے اعمال کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا۔(بقرہ/۱۳۴۔)

۳۹۰

اہل سنت حکمِ نبی(ص) کی مخالفت کرتے ہیں

گزشتہ بحثوں میں ہم حدیث ثقلینکو ثابت کرچکے ہیں جو کہ عبارت ہے:

تَرَكْتُ‏ فِيكُمْ‏الثقلين مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بعدی ابدا كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏إِنَّاللَّطِيف الْخَبِير نبَانی أَنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.

میں تمھارے درمیان دو (۲) گرانقدر چیز چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم  میرے بعد ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( وہ ہے) کتابِ خدا اور میرے اہل بیت عترت (ع)  اور لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) پر وارد ہوں گے۔

اور یہ بھی ثابت  کرچکے ہیں کہ یہ حدیث صحیح او ر متواتر ہے اسے شیعہ اور اہل سنت نے اپنی  صحاح و مسانید میں نقل کیا ہے۔ مشہور ہےکہ اہل سنت والجماعت  نے اہل بیت(ع) سے رخ موڑ لیا ہے ۔ اور ان چار ائمہ مذاہب کا اتباع کرنے لگے ہیں  جو کہ ظالم بادشاہوں نے ان پر تھوپ دیئے

۳۹۱

ہیں ۔ ظاہر ہے  اہل سنت کی اس بیعت و تائید نے ان ائمہ کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔

جب ہم بحث کو وسعت دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بنی امیہ و بنی عباس کی قیادت میں اہل سنت والجماعت ہی نے اہل بیتِ رسول(ص) سے جنگ کی ہے چنانچہ اگر آپ ان کے عقائد اور ان کی حدیثوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تومعلوم ہوگا  کہ ان کے یہاں فقہ اہل بیت(ع) میں سے کوئی چیز نہیں ہے۔ جب کہ دشمنان اہل بیت(ع) اور نواصب ، جیسے عبداللہ بن عمر ، عائشہ اور ابوہریرہ کی فقہ و حدیث سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

انھوں نے نصف دین تو عائشہ حمیرا سے لیا اور ان کے نزدیک عبداللہ ابن عمر، رای اسلام ابوہریرہ اور طلقا و فرزندان طلقا دینِ خدا کے قاضی اور اس کے آشکار کرنے  والے ہیں۔

دلیل یہ ہے کہ سقیفہ سے پہلے اہل سنت والجماعت  کا  کہیں وجود نہ تھا اور نہ اس نام سے مشہور تھے۔ لیکنسقیفہ کے دن سے وہ مجموعی طور پر اہل بیت(ع) سے جنگ کرنے لگے اور ان سے خلافت چھین لی اور انھیں سیاسی میدان سے الگ کردیا تو فرقہ اہل سنت والجماعت تشکیل پا گیا۔

اصل میں فرقہ اہل سنت والجماعت  شیعوں کی ضد میں وجود میں آیا ہے۔ کیونکہ شیعہ  اہل بیت(ع) کا اتباع کرتے تھے اور قرآن و سنت کے اتباع میں ان کی امامت کے قائل تھے۔

اور یہ بات بدیہی ہے کہ حق سے ٹکرانے والوں کی کثرت بھی خصوصا جنگ اور فتںوں کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا، ایک بات کا میں اضافہ کرتا ہوں اور یہ کہ اہل بیت(ع) کو صرف چار سال حکومت کا موقعہ ملا اور اس میں بھی دشمنوں نے جنگ کے شعلے بھڑکائے  رکھے۔

لیکن اہل بیت(ع) کے مخالفوں ، اہل سنت والجماعت کی سینکڑوں سال حکومت رہی اور مشرق و مغرب میں ان کے حکام و بادشاہ پھیلے ہوئے تھے ان کے پاس طاقت اور سونا چاندی

۳۹۲

 کی بہتات تھی چونکہ اہل سنت والجماعت کی حکومت تھی اس لئے وہ غالب تھے اور اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والے شیعہ مغلوب و مظلوم اور محکوم تھے ان کو جلا وطن اور قتل کردیا جاتا تھا۔

ہم اس موضوع کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے ہم تو صرف ان کے حقائق سے پردہ ہٹانا چاہتے ہیں کہ جنھوں نے نبی(ص) کی ان وصیتوں اور میراث کی مخالفت کی جوکہ  ہدایت کی ضامن اور گمراہی  سے بچانے والی تھیں لیکن شیعہ نبی(ص)  کی وصیت  سے وابستہ رہے اور آپ(ص)  کی عترت طاہرہ(ع) کی اقتداء کی اور اس سلسلہ میں بہت سی مصیبتیں اٹھائیں۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اہل سنت والجماعت کی روگردانی اور اختلاف اور شیعوں کا اسے قبول کرنا  خصوصا قرآن و عترت سے وابستہ رہنے سے  پنجشنبہ کے مصیبت ناک حالات جنم لیا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دوات و قلم طلب کیا ، تاکہ مسلمانوں کے لئے ایک نوشتہ لکھدیں جس سے وہ کبھی گمراہ نہ ہوں لیکن عمر نے بہت بڑا قدم اٹھایا اور حکم رسول(ص)  کا یہ کہہ کر انکار کردیا ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے عترت کی ضرورت نہیں  ہے ۔

نبی(ص) فرمارہے تھے : مسلمانو! تم کتابِ خدا اور (میری ) عترت سے وابستہ رہنا اور عمر آپ(ص) کی تردید کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ہمارے لئے قرآن کافی ہے ہمیں دوسرے ثقل ( یعنی عترت ) کی ضرورت نہیں ہے۔

عمر کے قول سے فرقہ " اہل سنت والجماعت" وجود میں آیا کیونکہ قریش ابوبکر، عثمان، عبدالرحمن ابن عوف، ابو عبیدہ ، خالد بنولید اور طلحہ ابن عبداللہ و غیرہ میں منحصر تھے اور ان سب نے عمر کے  موقف کی تائید کی تھی ابنعباس کہتے ہیں کہ ان (صحابہ ) میں سے بعض تو عمر ہی کا قول دہرارہے تھے اور بعض رسول(ص)  کی دوات و قلم دینے پر اصرار کررہے تھے۔

واضح رہے کہ علی(ع) اور آپ(ص) کے شیعہ اسی دن سے نبی(ص) کی وصیت پر عمل پیرا تھے۔ اگر چہ وہ

۳۹۳

 تحریری شکل میں موجورد نہیں تھی پھر وہ (علی(ع) اور ان کے شیعہ)  قرآن و سنت  پر عمل کرتے تھے اور ان کے دشمن قرآن پر بھی عمل نہیں کرتے تھے اگرچہ پہلے وہ قرآن کو قبول کرتے تھے لیکن جب وہ حکومت پر قابض ہوگئے تو پھر انھوں نے قرآن کے احکام کو معطل کردیا۔

اور اپنی رایوں سے اجتہاد کرنے لگے اور کتابِ خدا و سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسِ پشت ڈال دیا۔

۳۹۴

محبت اہل بیت(ع) اور اہل سنت

اس  میں کسی مسلمان کو شک نہیں ہے کہ خداوند عالم نے اہل بیت(ع) کی محبت کو محمد(ص) کی رسالت اس کی با فضیلت نعمتوں کے عوض واجب قرار دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے۔

                             "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏ "

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے اہل بیت(ع) سے محبت کرو۔( شوری/۲۳)

یہ آیت مسلمانوں پر عتر ت طاہر(ع) یعنی علی(ع)، فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) کی محبت واجب کررہی ہے۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے تیس(۳۰) سے زیادہ مصادر اس بات کی گواہی دے  رہے ہیں۔ ( ملاحظہ  فرمائیں مؤلف کی کتاب، مع الصادقین)

امام شافعی کہتے ہیں:

     يااهل بيت رسول الله حبکم            فرض من الله فی القرآن انزله

اے رسول(ص)کے اہلبیت(ع) خدا نے تمھاری محبت قرآن میں واجب قرار دی ہے۔

۳۹۵

پس جب ان کی محبت قرآن میں نازل ہوئی ہے اوراہل قبلہ پرواجب کی گئی ہے. جیسا کہامامشافعی کواسبات کا اعتر اف ہے : اور جب ان کی محبت محمد(ص) کی رسالت کا اجر ہے جیسا کہ صریح طور پر بیان ہوا ہے اور جب ان کی محبت عبادت ہے جو کہ خدا سے قریب کرتی ہے تو پھر اہلِ سنت والجماعت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اہل بیت(ع) کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں اور انھیں صحابہ سے پست سمجھتے ہیں ۔ ( کیوںکہ اہلسنت والجماعت ابوبکر و عمر اور عثمان کو حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے بڑھا تے ہیں جب کہ آپ(ع) نبی(ص) کے  بعد عترت کے رئیس اور  اہل بیت(ع)  میں سب سے افضل ہیں اور اہل سنت صحابہ ثلاثۃ کے بعد اہل بیت(ع)  کو تصور کرتے ہیں۔)

ہجمین اہ ست والجماعت جسے سورال کرنے بلکہ چیلنج کرنے کا حق ہے کہ وہ کوئی آیت یا ایک حدیث ایسی پیش کر دیں جو کہ ابوبکر و عمر اور عثمان یا کسی بھی صحابی کی محبت کو لوگوں پر واجب قرار دیتی ہو!

انھیںکتابِ خدا اور سنت رسول(ص) میں ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی ہاں اہل بیت(ع) کی شان میں متعدد آیتیں ملیں گی جو کہ انھیں تمام لوگوں سے افضل قرار دیتی ہیں اور انکی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔

اور رسول(ص) کی ایسی بہت سی حدیثیں ہیں جو کہ اہل بیت(ع) کو افضل قرار دیتی ہیں اور تمام لوگوں پر مقدم کرتی ہیں ایسے ہی جیسے امام ماموم پر اور عالم جاہل پر مقدم ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے  آیہ مودّۃ ، آیہ مباہلہ اور آیۃ صلوٰۃ، آیت تطہیر، آیۃ ولایت اور آیۃ اصطفا کافی ہے۔اور سنت سے حدیث ثقلین، حدیث سفینہ، حدیث منزلت، حدیث صلوٰۃ الکاملہ، حدیث نجوم، حدیث مدینۃ العلم اور حدیث الائمہ بعدی اثنا عشر کافی ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک تہائی قرآن اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوا ہے جیسا کہ ابن عباس وغیرہ کا قول ہے اور نہ ہی اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ تمام سنت نبوی(ص) اہل بیت(ع) کا قصیدہ ہے اور لوگوں کو ان کی عظمت و فضائل کی طرف متوجہ کرتی ہے جیسا کہ امام احمد ابن حنبل کا خیال ہے۔تمام انسانوں پر اہل بیت(ع) کی فضیلت کے سلسلہ میں ہمارے لئے وہی کافی ہے کہ جوکہ قرآن اور

۳۹۶

 اہلسنت کی صحاح  سے ہم نے نقل کیا ہے۔

اہل سنت والجماعت کےعقائد ، ان کی کتابوں اور ان کے اس تاریخی راستہ پر جوکہ اہل بیت(ع) کے  خلاف ہے ایک مختصر نظر ڈالنے کے بعد ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھوں نے اہل بیت(ع) کے خلاف راستہ اختیار کیا اور ان کے قتل کے لئے تلوار کھینچ لی اور ان کی کسرِ شان اوران کے دشمن  کی عظمت  بڑھانے کے لئے قلم کو حرکت دی۔

اس سلسلہ میں ہمارے لئے ایک دلیل کافی ہے جو کہ حجت بالغہ بھی ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ اہلسنت  دوسری صدی ہجری میں شیعوں کی مخالفت سے پہچانے گئے ہیں۔ شیعہ اہل بیت(ع) سے وابستہ تھے اور ان ہی سے رجو ع کرتے تھے چنانچہ انکی فقہ ، عبادت اور معتقدات میں کوئی ایسی چیز  نہیں ملتی ہے جو کہ اہل بیت(ع) سے مروی نہ ہو۔ ( فرض کیجئے ان کا یہ خیال کہ ہم علی(ع) اور اہل بیت(ع) کو شیعوں سے زیادہ چاہتے  ہیں، صحیح ہے تو پھر انھوں نے، ان کے علما نے اور ائمہ مذاہب نےفقہ اہل بیت(ع) کو کیوں چھوڑا اور وہ آج ان کےیہاں کیوں سیا منسیا ہے؟ اور  وہ اپنے ایجاد کردہ مذاہب کا کیوں  اتباع کرتے ہیں کہ جس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی یہ خدا کا ارشاد ہے کہ ابراہیم(ع) سے وہ لوگ محبت کرتے ہیں جو کہ ان کا اتباع کرتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کا اتباع نہیں کرتے وہ محبت کےدعوے میں جھوٹے ہیں۔)

اور پھر گھر والے ہی گھر کی بات کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ نبی(ص) کی عترت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ علم و عمل میں کوئی ان سے آگے نہیں بڑھا انھوں نے تین سو سال تک امت  کی رہبری و قیادت کی اور بارہ(۱۲) ائمہ(ع) نے روحانی و دینی امامت کےذمہ داری سنبھالی اور ان میں سے ایک کی رائے دوسرے کے  خلاف نہ تھی جب کہ اہل سنت والجماعت ان چار مذاہب کے سامنے سرا پا تسلیم ہیں جو کہ  تیسری صدی میں وجود میں آئے اور ایک نےدوسرے کی رائے  کی مخالفت کی اور ساتھ ہی انھوں نے اہل بیت(ع) سے روگردانی کی اور ان سے دشمنوں جیسا سلوک کیا بلکہ ان کے شیعوں سے جنگ کی اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔

۳۹۷

دوسری دلیل کے لئے ہم اہل سنت والجماعت کے اس مؤلف کا تجزیہ کرتے ہیں جو کہ عاشورا ایسے مصیبت ناک دن کی عزاداری کے سلسلہ میں اختیار کیاہے ۔ روزِ عاشورا الم انگیز دن ہے جس میں امام حسین(ع) ، عترت اور برگزیدہ صالح مومنین کے قتل کے  سبب ارکانِ اسلام  منہدم ہوئے۔

   اولا:

قتل امام حسین(ع) سے اہل سنت راضی تھے اور اس روز خوشی مناتے تھے اور یہ ان سے بعید بھی نہیں ہے۔ پس سارے سنیوں نے امام حسین(ع) کو قتل کیا ہے۔ چنانچہ قتلِ حسین(ع) کے لئے ابنِ زیاد نے عمر ابن سعد ابن ابی وقاص کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا تھا اہل سنت والجماعت تمام صحابہ کو رضی اللہ عنہم  کہتے ہیں جب کہ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو قتلِ حسین(ع)  میں شریک تھے اور اہل سنت ان کی احادیث کو موثق تسلیم کرتے ہیں اور یہی نہیں ان صحابہ میں سے ایسے  بھی تھے جو امام حسین(ع) کو خارج کہتے تھے۔ کیوں کہ آپ(ع) نے امیر المؤمنین یزید ابن معاویہ کے خلاف  خروج کیا تھا۔

یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے فقیہہ عبداللہ ابن عمر نے یزید ابن معاویہ کی بیعت کی اور اپنے پیروکارں کو یزید (لع) کے خلاف خروج کرنے کو حرام قرار   دیا اور کہا :

" ہم تو غالب (فتحیاب) کے ساتھ ہیں۔"

ثانیا :

ہم اہل سنت والجماعت کو روز عاشورا سے آج تک دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ وہ عاشورا کے دن محفل جشن و سرور منعقد کرتے ہیں اور اسے روز عید تصور کرتے ہیں، اس دن اپنے اموال کی زکوۃ نکالتے ہیں۔ بچوں کو مثل عید پیسے دیتے ہیں اور اسے رحمت و برکتوں کا دن سمجھتے ہیں۔

۳۹۸

اور اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آج تک شیعوں پر طعلن و تشنیع کرتے ہیں اور امام حسین(ع۹ پر گریہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں بعض اسلامی ممالک میں تو عزاداری پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ شیوں سے اسلحہ سے اور بدعتوں سے جنگ کے بہانے شیعوں کا خون بہاتے ہیں اور انھیں زخمی کرتے ہیں۔

در حقیقت وہ بدعتوں سے جنگ نہیں کرتے ہیں بلکہ بنی امیہ و بنی عباس کے حکام کا کردار  ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے ذکر حسین(ع) کو مٹانے کی پوری کو شش کی تھی یہاں تک کہ قبر امام حسین(ع)  کو  کھدوا ڈالا اور زمین سے ملادیا تھا اور لوگوں کی زیارت سے روک دیا تھا، آج اہل سنت اس ذکرِ حسین(ع) کو زندہ کرنے سے لئے ڈرتے کہ کہیں لوگ جو کہ اہل بیت(ع) کی حقیقت و عظمت سے نا واقف ہیں۔ حقیقت  سے واقف نہ ہوجائیں اور اس سے ان کے سید و سردار کی اصلیت آشکار نہ ہوجائے اورلوگ حق کو باطل سے اور مومن کو فاسق جدا نہ کرلیں۔

ایک مرتنہ پھر یہ بات آشکار ہوگئی کہ شیعہ ہی حقیقی اہل سنت ہیں کیوں کہ وہ امام حسین(ع) پر گریہ و بکاء میں سنت نبی(ص) پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ جب جبرئیل نے سانحہ کربلا سے پچاس سال قبل رسول(ص) کو حسین(ع) کے کربلا میں قتل ہونے کی خبر دی  تو آپ(ص) نے گریہ فرمایا:

یہ تو واضح ہے کہ اہل سنت والجماعت عاشورا کےروز محفل جشن متعقد کرتے ہیں اور وہ اس روز محفل منعقد کر کے یزید ابن معاویہ اور بنی امیہکا اتباع کرتے  ہیںکیوںکہ انھیں( یزید بنی امیہ کو ) اس روز امام حسین(ع) پر ( ظاہری) کامیابی ملی تھی اور آپ(ع) کے اس انقلاب کو کچل دیا تھا جو کہ ان کی حکومت و نظام کے لئے چیلنج بنا ہوا تھا اس طرح انھوں نےانقلاب کی جڑ کاٹ دی تھی۔تاریخ ہمیں یہبتاتی ہے کہ یزید اور بنی امیہ نے اس خوشی میں بہت بڑا جشن منایا تھا یہاں تک  کہ دربار یز ید (لع) میں امام حسین(ع)  کا سر اور بے پردہ ناموس پہنچے تو انھیں اس حالت میں دیکھ کر انھوں نے بہت خوشی منائی اور رسول(ص) کی شان میں گستاخی کی چنانچہ اس سلسلہ میں اشعار بھی کہے۔اہلسنت والجماعت کے علما نے ان کا تقرب حاصل کیا اور بنی امیہ کے لئے روز عاشورا سے

۳۹۹

متعلق بہت سی احدیث وضع کرڈالیں ، جن  کا مفہوم یہ ہے روزِ عاشورا خدا نے حضرت آدم(ع) کی توبہ قبول کی اور اس دن حضرت نوح(ع) کی کشتی جو پہاڑ پر ٹھہری اور اسی دن حضرت ابراہیم(ع) کے لئے آگ سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوئی اور اسی دن حضرت یوسف(ع)  نے قید سے رہائی پائی اور جناب یعقوب(ع) کو دوبارہ بصارت ملی، اسی دن جناب موسی(ع) کو فرعون (لع) پر فتح ملی اور اسی دن حضرت عیسیٰ(ع) پر آسمان سے خوانِ نعمت نازل ہوا۔

اور اہل سنت والجماعت کے علما و ائمہ آج بھی عاشورہ کی ناسبت سے ان تمام روایات کو منبروں سے دھراتے ہیں۔ اور یہ روایات ان دجال لوگوں کی گھڑی ہوئی ہیں جنھوں نے علما کا لباس پہن لیا تھا اور ہر طرح حکام کا تقرب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے دنیا کے عوض اپنی آخرت کو فروخت کر دیا تھا تو ان کو اس تجارت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوں گے۔

انھوں نے جھوٹ کی انتہا کردی ہے۔ چنانچہ یہ روایت گھڑدی کہ جب رسول(ص) نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ(ص) روز عاشورا مدینہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مدینہ کے یہودی روزہ رکھے ہوئے ہیں آپ(ص) نے روزہ رکھنے کا سبب پوچھا : انھوں نے بتایا : آج کے دن موسی(ع) کو فرعون پر فتخ حاصل ہوئی تھی ۔ پس نبی(ص) نے فرمایا: ہم موسی(ع) کو تم سے زیادہ مانتے ہیں لہذا آپ(ص) نے یہودیوں کی مخالفت میں مسلمانوں کو نویں اور دسویں محرم کو روزہ کھنے کا حکم دیدیا۔

یہ تو کھلا جھوٹ ہے کیوں کہ ہمارے ساتھ بھی یہودی زندگی گزارتے ہیں لیکن ہم نے ان کی ایسی کوئی عاشورہ نامی عید نہیں دیکھی جس میں وہ روزہ رکھتے ہوں۔

کیا ہم اپنے خدا سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ تو نے سوائے محمد(ص) کے آدم(ع) سے عیسی(ع) تک یہ دن مبارک کیوں قراردیا ہے جب کہ محمد(ص) کے لئے یہ دن رنج و مصیبت  کا دن ہے اسی دن آپ(ص) کی عترت و ذریت کو نے دردی سے قتل کیا گیا اور آپ(ص)  کی بیٹیوں کو قیدی بنایا گیا؟

جواب : جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی لیکن لوگوں سے باز پرس ہوگی ( سورہ انبیاء/۲۲)

۴۰۰