شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے9%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 109188 / ڈاؤنلوڈ: 6821
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

جن پر عقلاء کا چلن ہوتا ہے مثلاًقبضہ کی مثال لے لیں عقلاء کے ہاں یہ قابض کی ملکیت کی علامت ہوتا ہے تو اب جہاں قبضہ ہو وہ وہاں قابض کی ملکیت کا حکم لگاتے ہیں لہذا جہاں انہیں اس کا یقین ہو وہاں مقام عمل میں اس پر آثار مرتب کر دیتے ہیں اور اسے خرید کرنا جائز سمجھتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ فلاں چیز فلاں کی ملکیت ہے

خلاصہ یہ کہ خبر واحد کی حجیت میں بناء عقلاء کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک عادل یہ خبر دے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں آیت کی تفسیر ایسے مفہوم کے ساتھ کی ہے جو خلاف ظاہر ہے یا وہ خود ظواہر کتاب ہوں کہ جن کے معتبر ہونے پر سوائے اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ عقلاء ان کلمات کے ظواہر پر عمل کرتے اور الفاظ وعبارات سے مقصود معانی کی تشخیص کیا کرتے ہیںپس اب جس طرح بناء عقلاء کے باب میں تمام ظواہر مطلقاًحجت ہوتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظواہر عملی احکام میں سے کسی پر مشتمل ہو یانہ ہو،اسی طرح تمام وہ روایات جو باب تفسیر قرآن میں قول معصوم علیہ السلام کو نقل کرتی ہوں،وہ سب بھی حجت ہوتی ہیں اور ان میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی آیت کی تفسیر کو بیان کر رہی ہوں جو احکام عملیہ میں سے کسی پر مشتمل ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط ہی نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش نہیں کہ روایات فقط اس صورت میں حجت ہوتی ہیں جب کسی ایسی آیت کی تفسیر میں ہوں جن میں احکام کا بیان ہو بلکہ معتبر روایت باب تفسیر میں مطلقاً حجت ہوتی ہیں اور یہ ایک روشن حقیقت ہے۔

۲۔ اگر خبر واحد کی حجیت کی استناد ادلہ شرعیہ تعبدیہ کی طرف ہو تو وہاں بھی بظاہر عدم اختصاص ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان ادلہ شرعیہ میں سے کسی میں بھی”حجیة“ اور اس کے مشابہ عنوان دکھائی نہیں دیتا،تاکہ اس کی تفسیر میں اس منجزیت(وجہ نفاذ)اور معذریت(وجہ عذر) کا نام لیا جائے جو ان تکالیف کے باب میں ثابت ہوتی ہیں جن کا تعلق عمل کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اگر آیتنَبَاء ْ ( اِن جَآء َکمُ فَاسِقُ بِنَبَاٍ فَتَبَّینُوا ) (حجرات:۶)

جب تمہیں ایک فاسق کوئی خبر سنائے تو اس کی تحقیق کرو۔

۲۲۱

کے مفہوم کے بارے میں تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جاتی ہے، جبکہ خبر دینے والا ایک عادل شخص ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عادل کی خبر کی طرف استناد جائز ہوگا،اس کی تحقیق ضروری نہیں ہو گی او ر اس کی صداقت کی تفتیش لازم نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی بات بغیر تفتیش مان لی جائے گی تو پھر اس کو باب اعمال سے تعلق رکھنے والی خبر کے ساتھ مختص کرنا درست نہ ہوگا،بلکہ عادل کی خبرچاہے اعمال سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے ماننا ہو گی اور وہ حجت ہو گی۔

البتہ اس صورت میں اختصاص کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں جب خبر کاارتباط شارع کے ساتھ ہو اور اس کی شارع کی طرف نسبت بحیثیت اس کے شارع ہونے کے ہو،لیکن اس سے بھی یہ مقام بحث خارج نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف استناد اور قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو تشخیص دینا،اگرچہ کسی آیت کے حکم کے متعلق نہ بھی ہو،بلکہ مواعظ،نصائح،قصص حکایت یا ایسے امور کے متعلق ہو کہ جن پر کتاب خدا دلالت کرتی ہےیہ استناد بھی ایک ایسا امر ہے جو لامحالہ شارع سے متعلق ہوتا ہےلہذا اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دیتے ہوئے یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی پھانسی دیے گئے ہیں اگرچہ اس خبر کا تعلق باب تکالیف کے ساتھ بالکل نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ باب تفسیر میں خبر واحد کے مطلقاً حجت ہونے میں کسی اشکال کی گنجائش نہیں ہے۔

ہاں جہاں تک کتاب الہی کے عمومات کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینے کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے اور کئی ایک اقوال موجود ہیں جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کی خبر واحد کے ذریعے تنسیخ کرنا کسی طرح جائز نہیں اور اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہےالبتہ یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیل سے زیر بحث آتا ہے اور وہاں مرقوم ہے لہذا ہمیں یہاں اس سے سے بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہاں یہ یادر ہے کہ علمائے اہل سنت کا ایک گروہ خبر واحد سے قرآن کے عمومات کی تخصیص کے عدم جواز کا قائل ہے۔ اور خود اہل سنت میں بھی اس بارے میں اختلاف موجود ہے تاہم قائلین عدم جواز کے ادلہ کمزور اور واضح البطلا ن ہیں۔

۲۲۲

حکمِ عقل:

اس بات میں کوئی اشکال نہیں کہ عقل کا حکم قطعی اور ادراک جزی اصول تفسیر میں شامل ہے اور تفسیر کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے لہذاجب بھی حکم عقل قطعی طور پر ظاہر کتاب کے خلاف فیصلہ دے رہا ہو تو وہاں اس کو تسلیم کرنا پڑے گااور ظاہر کتاب کو اخذ نہیں کیا جائے گا،کیونکہ عقل کا حکم ہی کتاب خدا کی حجیت اور اس کے لانے والے اصول کی صداقت کو ظاہر کرنے والے معجزہ کی اساس ہے اسی عقل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ قرآن ایک معجزہ اور عادت بشری سے ماوریٰ ہے جس کی مثل نہ تو پیش کی جاسکی اور نہ پیش کی جاسکتی ہے،عقل ہی وہ رسول باطنی ہے جس کے حکم اور اس کی وحی کی مخالفت جائز نہیں ہے۔

درحقیقت جب ظواہر کے خلاف حکم عقل قائم ہو گا توپھر عقل کا ادراک بالجزم اس ظاہر کی مخالفت کررہا ہو گاوہاں یہ حکم عقل حقیقت میں اس قرینہ لفظیہ کی منزل پر ہوتا ہے اور حقیقی معنی کے مراد ہونے سے منصرف کرنے اور معنی مجازی میں ظہور کے منعقد ہونے کا موجب بنتا ہےظہور کی حجیت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ معنی حقیقی سے متعلق ہی ہو بلکہ ظہور حجت ہے خواہ وہ معنی مجازی میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ واضح ہے کہ قانونأصالةُ الحقیقة جو ظہورکے انعقاد کے تمام مواقع پر جاری ہوتی ہے وہ اصالةالظہور کی ہی ایک خاص قسم ہے اور کوئی فرق نہیں کہ ظہور معنی حقیقی میں قائم ہو جیسے کہ لفظ میں خلاف کا کوئی قرینہ موجود ہی نہ ہو اور خواہ وہ ظہور معنی مجازی میں قائم ہو۔

مثلاًکلام میں معنی حقیقی کے خلاف کا قرینہ موجود ہو تو معنی مجازی ہی ظاہر قرار پاجاتاہے یعنی”رَاَیْتْ اَسَداً“ کا ظہور معنی حقیقی میں قائم ہوتا ہے لیکن”رَایْتُ اَسَداً یَرْمِی“ کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہےکیونکہ عرف میں سے اس سے مراد”رجل شجاع“ یعنی بہادر آدمی ہوتا ہےبغیر اس فرق کے کہ ہم یہ مان لیں کہ اس جملے کا ایک ہی ظہور ہوتا ہے جو جملے کے تمام ہونے کے بعد قائم ہوتا ہے بایں نظر کہ لفظ”اسد“ کا اپنے معنی حقیقی میں ظہور پیدا کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ جملہ تمام ہو جائے اور خلاف حقیقت مراد ہونے پر کوئی قرینہ قائم نہ ہو۔

۲۲۳

جب خلاف کا قرینہ موجود ہو تو وہاں اس کا ظہوربالکل ہوتا ہی نہیں بلکہ لفظ کا ظہور ابتداًء ہی معنی مجازی میں قائم ہو جاتا ہے یا ہم یہ تسلیم کریں کہ دو ظہور موجود ہوتے ہیں لفظ”الاسد“ کا ظہور اپنے معنی حقیقی میں اور لفظ”یرمی“ کا ظہورمعنی مجازی میں ہے لیکن چونکہ دوسرا ظہور زیادہ طاقتور ہوتا ہے،اس لیے وہ پہلے ظہور پر تقدم حاصل کرلیتا ہے اور در حقیقت دونوں لفظوں میں ہر لفظ اپنے اپنے حقیقی معنی میں ظاہر ہوتاہے لیکن ادھر قرینہ کا ظہور جو معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے وہ معنی اول کے ساتھ مل کر قوی اور کامل ہو جاتا ہےان دونوں قولوں کے مطابق جملے کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے یعنی اس مقام پررجل شجاع ہی مراد ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ اصالةالظہور جو دراصل ارادہ جدیہ کا ارادہ استعمالیہ کے ساتھ تطابق اور کلام سے اس مفہوم کا مقصود واقعی ہونا ہے جس میں ظاہر لفظ دلالت کررہا ہویہ اصالةالظہور ہر دو صورتوں میں جاری ہوتی ہے اور دونوں میں کوئی بنیادی فرق برقرار نہیں ہوتااس قاعدے کے روشن ہونے کے بعد جب کبھی معلوم ہو کہ عقل کسی مقام پر کتاب خدا کے لفظوں کے ظاہری معنی کے خلاف حکم دے رہی ہے تو یہ حکم عقلی ایسے قرینہ قطعیہ متصلہ کا قائم مقام ہو گا جو اس بات کا موجب ہے کہ کلام کا ظہو ر فقط اسی مفہوم میں منعقد ہو جس کا حکم عقل دے رہی ہے اور اس کے خلاف نہ ہو۔

چنانچہ خداوند تعالیٰ کاارشاد:

( وَجَآءَ رَبُکَ وَالمَلَکُ صَفًا صَفًا ) (سورة فجر:آیت۲۲) (اور جب تیرا رب آیا اور فرشتے صف بستہ تھے)

اس کلا م کا ابتدائی ظہور تو یہ ہے کہ آنے والا بذات خود رب تعالیٰ ہےیہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے کا مستلزم ہے،حالانکہ اس کا مجسم ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ عقل کا قطعی حکم ہے کہ جسمیت خداوند تعالیٰ کے لیے محال ہے کیونکہ تجسم کا لازمہ احتیاج ہے اور احتیاج واجب الوجودکی شان کے منافی ہے جب کہ واجب الوجود تو بالذات غنی ہوتا ہے اب یہ قطعی حکم عقلی اس امر کا موجب بنے گا کہ کلام کا ظہور اس معنی میں منعقد نہ ہو سکے کہ آنیوالا خود رب تعالیٰ ہے۔

۲۲۴

اسی طرح یہ آیت ہے:

( اَلَّرحمنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ) (سورہ طٰہٰ:آیت۵)

اس میں بھی خداوند تعالیٰ کا عرش پر محدود ہونا لازم آئے گا اس لیے اس کا ظہور ”اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے“میں منعقد نہ ہو گا کیونکہ عقل کے حکم کے خلاف ہے اور تما م ایسی آیات جن میں ابتدائی ظہور حکم عقل کے خلاف ہوتا ہے وہ اسی قبیل سے ہوں گی۔

ہماری اس بحث کے بعد یہ نکتہ روشن ہو گیا کہ جہاں حکم عقل اصول تفسیر میں سے ایک اصل ہے اور کتاب الہی کی آیات میں سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو حاصل کرنے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، وہاں حکم عقل سابقہ دو امور سے مقدم حیثیت رکھتا ہے،عقل کے حکم کے سامنے ”ظہور اور قول معصوم“ہر دو کا راج نہیں چلتایہ ظہور پر اس لیے مقدم ہے کہ اگر خلاف ظہور پر حکم عقل موجود ہو تو ظہور منعقد ہی نہیں ہو سکتاکیونکہ اس کو ایک قرینہ قطعیہ کا مقام حاصل ہے۔

پھر قول معصوم پر اس کے تقدم کی وجہ یہ ہے کہ خود قول معصوم کی حجیت بھی حکم عقل تک منتہی ہوتی ہے اور وہ عقل ہی کے سہارے پر حجت ہوتا ہے لہذا کوئی بھی حقیقی قول معصوم قول عقل کے مخالف ہو نہیں سکتا اور اگر بظاہر کہیں یہ مخالفت نظر آئے تو وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل یہ قول معصوم سے صادر ہی نہیں ہوایا معصوم کی مراد اس کے ظاہری معنی سے نہیں ہے پس جب حکم عقل کتابِ خدا کو اپنے ظاہری معنی سے روک لیتا اور خلاف ظاہر کی طرف موڑ دیتا ہے تو اس کا ایک روایت کو ظاہری معنی سے موڑ کر خلاف ظاہر کی طرف لے جانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔

ہماری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر کی بنیاد ان تین امور پر استوار ہو سکتی ہے

۱۔ ظاہر ۲۔ قول ۳۔ حکم عقل

۲۲۵

باب تفسیر میں ان تین کے علاوہ کسی دیگر شے کی طرف استناد جائز نہیں ہےہاں باب الظواہر میں قضیہ کے صغریٰ کا اطمینان کر لینا ضروری ہے یعنی وہ ظہور کہ جس کا مرجع ارادہ استعمالیہ ہوتا ہے،کیونکہ واضح ہے کہ دونوں ارادوں کا تطابق ارادہ استعمالیہ کی تشخیص اور لفظ کے مدلول کے بارے میں تسلی کر لینے کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔

اب یہ طے کرنا پڑ ے گا کہ کسی شخص کے لیے ارادہ استعمالیہ کی تشخیص کا طریقہ یہ ہو گاعربی زبان سے مکمل طور پر آشنانہ ہو اور خود اہل زبان بھی نہ ہو جبکہ ادھر کسی مفسر یا کسی لغوی (زبان شناس) کے قول پر بھروسہ کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ ان دونوں کا قول نہ مفید یقین ہوتا ہے اور نہ ہی مفید اطمینان مگر(عرفی طور پر یہی علم کہلاتا ہے)لیکن ان دونوں کے قول کے حجت ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں،پس نتیجہ یہی ہے کہ اس وقت تک کسی کی تفسیر کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ مرتب نہ ہو سکے گا،جب تک اس سے یقین حاصل نہ ہو یا یقین کے قائم مقام کوئی صورت بن سکےبایں معنی کہ وہ کسی معنی میں لفظ کے ظہور کا موجب بن جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ ارادہ استعمالیہ کے ساتھ یہی معنی متکلم کی مراد ہے۔

۲۲۶

علوم تفسیر

عُلومِ قرآن

ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟

علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:

اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں”علوم فی القرآن" کہتے ہیں۔

ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیںعلوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔

علوم فی القرآن :

قاضی ابو بکر بن عربی نے”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے

(۱) توحید

(۲) تذکیر

(۳) احکام

۲۲۷

اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے( وَاِلٰهُکم اِلٰه وَّاحِد ) (۱) اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیں علم تذکیر کے لئے( وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین ) کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے( وَاَنٍ اَحْکُمْ بینهم) کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہفاتحة الکتاب کو اسی لئے”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔

مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے( اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین ) عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔( اِهدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم ) سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔

اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیں سارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)

محمد بن جریر طبری کہتے ہیں: قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے( قُل هُواَاللهُ اَحَدْ ) قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔

عُلوم الِقُرآن

کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔

۲۲۸

قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے

( وَانِّهٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین )

تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔

لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔

قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( هُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منه آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ هُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِهاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِهم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَه منهُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیله وَماَیعلم ُ تَاوِیلَه اِلاَالله وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِه کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب )

(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔ قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں

۲۲۹

حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت( وَفاَ کِهَةً وَاَباًّ ) کی تلاوت کی اور کہافاکِهَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہاَبّاًّ سے کیا مراد ہے ؟۔

بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتها" یعنیابتدیتها یعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔

علوم قرآن پرپہلی کتاب

علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین ہوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیںابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔

ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

۱۔ تسمیة الکتب المصنفة فی تفسیر القرآن

۲۔ فی الغات القرآن

۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ

۴۔ فی القرات

۲۳۰

۵۔ الکتب المولِّفَہ فی غریب القرآن

۶۔ فی لاٰماٰت القرآن

۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن

۸۔ وقف التمام

۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن

۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن

۱۱۔ فی اختلاف المصاحف

۱۲_ اجزاء القرآن

۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن

۱۴۔ من فضائل القرآن

۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف

۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ

۱۷۔الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن

۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ

۲۳۱

۱۹۔ الکتبالمولفَةِ فی الْهٰاآتِ ورُجُوعِهٰا

۲۰۔ نزول القرآن

۲۱۔ احکام القرآن

۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن

لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کُتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب ہے جو” الاتقان والبرهان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ حاجی خلیفہ نے ابوالقاسم محمد بن حبیب نشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب” التَّنبیه عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاہے۔ چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے لہذا معلوم نہیں ہے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی ہے جو ہمارے مد نظر ہے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔ مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور ہے وہ کہتے ہیں۔ ” میں نے مصر کے دارالکتب میں” البُرهان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشہور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون میں” الشامل فی علوم القرآن" نامی کتاب کا تذکرہ ملتا ہے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی ہے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں ہے لہذا مطمن نہیں ہوا جا سکتاکہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم ہے جو کہ ہمارے پیش نظر ہے یانہیں۔ سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں” وَمن المصنّفاّت فی مثل هذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے مولفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب” البرهان فی مشکلات القرآن“ ہے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیزی بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوفی۴۹۴) ہے۔

۲۳۲

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی (متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن" اور ایک دوسری کتاب” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن" کے نام سے لکھی ہے۔

سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا ہے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُز قرار دیا ہے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا ہے۔

ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے” جمال القُرّاء" تالیف کی ہے کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔

سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام” المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا ہے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا ہے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے ماخذ اور مصادر میں شامل ہوتی ہے کی حیثیت رکھی تھی۔

آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب” البُرهان فی علوم القرآن" تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں

یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے ہے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا ہے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی ( متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔

۲۳۳

نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی (متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم" تحریر کی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:

”فرایته تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ"

سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں ہے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔ دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی (متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔

اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:

۱۔ الاتقان فی علوم القرآن

جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ

۲۔ الاحسان فی علوم القرآن

جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲

۳۔ البیان فی علوم القرآن

ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ص۲۶۳)

۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن

محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ص۱۷۰)

۲۳۴

۵۔ البرھان فی علوم القرآن

محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴)تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷

۶۔ بحوث حول علوم القرآن

شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفی نجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات

۷۔ البیان فی تفسیر القرآن

آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی

۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم

طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)

۹۔ البیان فی علوم القرآن

محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)

۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان

شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ ص

۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن

محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ ھ

۲۳۵

۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن

ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹

۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن

معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ ہجری، ۱۵۰ ص

۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن

ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹

۱۵۔ علوم القرآن

محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ

۱۶۔ علوم القرآن

احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱

۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان

محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴

۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن

محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹

۲۳۶

۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲

۲۰۔ قانون تفسیر

حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد

۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ

حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس

۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر

۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر

۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن

موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص

۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر

محمد الصّباغ المکتب الاسلامی

۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن

دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)

۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان

۲۳۷

جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م

۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)

۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن

احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)

۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن

سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م

۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن

نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ

محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی

۳۱۔ مفتاح علوم القرآن

حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ

۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن

۲۳۸

یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل ہے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ ہو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ ہے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی ہے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم

۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن

محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد

۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن

شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان

۳۵۔ الموسوی القرآنیہ

ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد

۳۶۔ موجز علوم القرآن

دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمی بیروت

نوٹ:۱ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا ہے

۲ بہت سی تفاسیریاتجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر : الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطیکی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن ہے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا ہے۔

۲۳۹

اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔

اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔

علوم قرآن کی اصطلاح

علومِ قرآن کی اصطلاح اور اسکی تقسیم بندی

صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔

ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔ متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

     " تمھارے پاس علم آچکا ہے اگر اس کے بعد بھی تم سے کوئی حجت کرتا ہے  تو تم ان سے کہہ دو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم اپنے نفسوں کو  لائیں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر خدا کی پھٹکار ڈالیں۔(آل عمران/۶۱)

۴۰۱

اہل سنت والجماعت کی دم بریدہ صلوٰت

گزشتہ فصلوں میں ہم آیت کا نزول ، رسول(ص) سے اس کی تفسیر اور کامل صلوٰت بھیجنے  کا طریقہ پیش کر چکے ہیں،اور رسول(ص) نے ناقص صلوٰت بھیجنے سے منع کیا ہے کیوں کہ اسے خدا  قبول نہیں فرماتا ہے۔ لیکن اہلسنت والجماعت کو ناقص صلوٰت بھیجنے پر مصر پاتے ہیں ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ صلوٰت میں آل محمد(ص) کا نام نہ آجائے اور اگر کبھی با دلِ ںخواستہ آلِ محمد(ص) کا نام لے لیا تو آلِ محمد(ص) کے ساتھ اس  صلوات میں اصحاب کا بھی اضافہ کردیتے  ہیں اور جب آپ ان میں سے کسی کے سامنے صلی اللہ علیہ و آلہ کہیں گے وہ فورا یہ سمجھیں گے کہ آپ شیعہ ہیں کیوں کہ محمد و آلِ محمد(ص) پر کامل صلوات بھیجنا شیعوں کا شعار بن چکا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے کہ جس میں ذراسا بھی شک نہیں  ہے میں خود بھی پہلے محمد(ص) کے بعد صلی اللہ علیہ وآلہ ، لکھنے والے کو شیعہ ہی سمجھتا تھا اور جب نام محمد(ص) کے بعد صلی اللہ علیہ و سلم دیکھتا تھا تو  سمجھتا تھا کہ اس کا لکھنے  والا سنی ہے۔

جیسا کہ علی(ع) لکھنے والے کو میں شیعہ سمجھتا ہوں اور جب کوئی کرم اللہ وجہہ لکھتا ہے تو سمجھ جاتا

۴۰۲

 ہوں کہ یہ سنی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پوری صلوات بھیجنے میں شیعہ سنت نبوی(ص) کی اقتداء کرتے ہیںجبکہ اہل سنت والجماعت نبی(ص) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں چنانچہ آپ انھیں ہمیشہ ناقص صلوات بھیجتے ہوئے پائیںگے اور جب کبھی وہ آل محمد (ص) کے نام کا اضافہ کرنے پر مجبور ہوجاتے  ہیں تو  اس وقت ان کے ساتھ اصحابہ اجمعین  کا بھی اضافہ کردیتے ہیں تا کہ اہل بیت(ع) کی فضیلت ثابت نہ ہو۔

در اصل ان تما م چیزوں کا تعلق بنی امیہ کی اہل بیت(ع) سےدشمنی سے ہے یہ عداوت ان کے دلوں میں بڑھتی رہی ۔ یہاں تک کہ انھوں نے صلوات کے بجائے منبروں سے اہل بیت(ع) پر لعنت بھیجنا شروع کردی اور خوف و طمع کے ذریعہ لوگوں کو بھی لعنت بھیجنے پر مجبورکیا۔

اہل سنت والجماعت نے بہ رضا و رغبت اہل بیت(ع) پر لعن و طعن کرنانہیں چھوڑا ہے اگر  وہ لعنت کرتے تو  مسلمانو ں میں رسوا ہوجاتے اور ان کی حقیقت آشکار ہوجاتی اور لوگ ان سے بیزار ہوجاتے اس لئے انھوں نے لعنت کوچھوڑا دیا لیکناہل بیت(ع) سے عداوت و دشمنی ان کے دلوں میں محفوظ رہی اور ان کے نور کو خاموش کرنے اور ان کے دشمنوں کے  ذکر کو بلند کرنےکی پوری کوشش کرتے رہے۔ اور ان کےلئے ایسے خیالی فضائل گھڑتے رہے کہ جن کا حق و حقیقت سے کوئی ربط نہیں  ہے ۔

دلیل یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت آج تک معاویہ اور ان صحابہ کو کچھ بھی نہیں کہتے ہیں کہ جنھوں نے اسی(۸۰) سال تک اہل بیت(ع) پر لعنت کی اس کے بر عکس ان کو رضی اللہ عنہم اجمعین کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلمان کسی صحابہ  میں کوئی نقص نکالتا ہے اور ان کے جرائم کا انکشاف کرتا ہے تو وہ اس کے کفر اور قتل کا فتوا دیدیتے ہیں۔ بعض احادیث گھڑنے والوں نے تو یہاں تک کامل صلوات  میں ( جو نبی(ص) نے اپنے اصحاب کو تعلیم دی تھی۔) ایک جز کا اضافہ کردیا ہے اور وہ اس خیال سے تاکہ اہل بیت(ع)  کی عظمت کو گھٹایا جاسکے۔ روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا: قولوااللهم صلی علی

۴۰۳

محمّد وآلِ محمّد و علی ازواجه و ذریته، تم اس طرح کہو!اللهم صلی علی محمد وآل محمد وعلی ازواجه و ذریته" ایک محقق بادی النظر میں یہ بات سمجھ لے گا اس جز کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ عائشہ کو بھی اہل بیت(ع) کے زمرہ میں شامل کردیا جائے۔

ہم ان سے کہتے ہیں : اگر جدلی طور پر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کرلیں اور قبول کر لیں کہ  امہات المؤمنین بھی صلوات کے ضمن میں ہیں تو صحابہ تو ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے ۔ میں تمام مسلمانوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ قرآن یا حدیث سے اس سلسلہ میں ایک ہی دلیل پیش کردیں شاید آسمان کے ستاروں سے اس کا قریب ہونا آسان ہوگا لیکن دلیل لانا آسان نہیں ہے۔اور قرآن و حدیث ہر ایک صحابی اور قیامت تک پیدا ہونے والے  مسلمانوں کو محمد وآل محمد پر صلوات  بھیجنے کا حکم دیا ہے اور یہی ایک مرتبہ ایسا ہے جس سے  تمام  مراتب پست ہیں اور اس میں کوئی بھی ان کا شریک نہیں بن سکتا۔

پس ابوبکر و عمر اورعثمان بلکہ تمام صحابہ اور ساری دنیا کے مسلمان کہ جن کی تعداد سو(۱۰۰) ملین ہے تشہد پڑھتے وقت کہتے ہیں اللہم صلی علی محمّد وآل محمد! اگر یہ نہیں کہیں گے تو  ان کی نماز باطل ہے ۔ خدا اس نماز کو قبول نہیں کرتا ہے جس میں محمد و آل محمد(ص) پر صلوات نہ بھیجی جائے۔

             یہ ٹھیک وہی معنی ہیں کہ جو امام شافعی نے بیان کئے ہیں کہتے ہیں:

             یکفیکم من عظیم الشان انکم         من لم یصل علیکم لا صلوٰة له

اے اہل بیت (ع) آپ کی عظمت و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو  نماز  میں تم پر صلوات نہ بھیجے  اس کی نماز ، نماز نہیں۔اس شعر کی بنا پر شافعی کے اوپر شیعیت کی تہمت لگائی گئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ بنی امیہ و بنی عباس کے گماشتے  ہر اس شخص کو شیعہ کہنے لگے تھے جو محمد و آل محمد(ص)  پر صلوات بھیجتا تھا ان کی شان میں کوئی قصیدہ کہہ دیتا تھا یا ان کے فضائل کے سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کردیتا تھا۔

اس سلسلہ میں وسیع بحث ہے جو بارہا لکھی جا چکی ہے اور جب تکرار میں فائدہ ہو  تو دھرانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۴۰۴

اس فصل سے ہمیں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ شیعہ ہی اہل سنت والجماعت ہیں اور ان کی صلوات ان کے مخالف کی نظر میں بھی کامل اور مقبول ہے جب کہ اہل سنت والجماعت اس سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی صلوات ان کے علما و ائمہ کی نظر میں بھی ناقص اور غیر مقبول ہے۔

یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنھیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت  کچھ عطا کیا ہے  اور ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملکِ عظیم عطا کیا ہے۔ (نساء/۵۴)

۴۰۵

عصمت نبی(ص) اور اہل سنت والجماعت پر  اس کا اثر

عصمت کے سلسلہ میں مسلمانوں کے مختلف نظریات  ہیں اور یہ تنہا وہحقیقت ہے کہ جو مسلمانوں پر احکام نبی(ص) کے بے چون  و چرا قبول کرنے کو واجب قرار دیتی ہے اور جب مسلمان اس بات کے معتقد ہیں کہ نبی(ص) اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا ہے مگر جو کہتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو کہ اس پر کی جاتی ہے پس اگر مسلمان نبی(ص) کے ان اقوال احکام پر ایمان نہیں رکھتے کہ وہ قرآن پڑھا جانے والا  قرآن ہے تو اس صورت میں وہ فقط نبی(ص) ہی کا اجتہاد ہوگا۔

لیکن جو مسلمان اس بات کے معتقد ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ساری چیزیں خدا کی طرف سے ہیں، نبی(ص) تو صرف بیان کرنے اور پیغام پہنچانے والے ہیں تو وہ فقط شیعہ ہیں اور بہت سے صحابہ کا بھ ی یہی اعتقاد مشہور ہے اور ان کے سردار علی(ع) کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ انھوں نے سنتِ نبی(ص)  کو وحی خدا سمجھا اور اس میں کسی قسم کی رد و بد ل نہ کی  پس احکام خدا کے مقابلہ میں اپنی رائے اور ذاتی اجتہاد کو استعمال  کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن جن مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی(ص) اپنے قول و فعل میں غیر معصوم ہیں اور صرف

۴۰۶

قرآن کی تبلیغ اور اس کی آیات کی تلاوت کے وقت معصوم ہیں اس کے علاوہ تمام انسانوںکی مانند ہیں ، وہ صحیح امور بھی انجام دیتے ہیں اور خطا کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اس نظریہ کی رو سے اہل سنت والجماعت نبی(ص) کے ان احکام اقوال کے مقابلہ مین صحابہ اور علما کے اجتہاد کو جائز قرار دیتے ہیں جو کہ عام لوگوں کی مصلحت کے مطابق اور ہر زمانہ کے حالات سے سازگار ہیں

یہ بات محتاج بیان نہیں ہےکہ ( علی(ع) کے علاوہ) خلفائے راشدین سنتِ نبوی(ص) کے مقابلہ میں  اجتہاد کر لیا کرتے تھے پھر اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور نصوص قرآن کے مقابلہ میں بھی اجتہاد  کرنے لگے اور بعد  میں ان کی رائیں اہل سنت والجماعت میں احکام بن گئیں ۔ چنانچہ وہ ان ہی پر عمل کرتے ہیں اور ان ہی کو مسلمانو ں پر تھوپتے ہیں۔

ہم اپنی کتاب " مع الصادقین" میں ابوبکر وعمر اور عثمان کے اجتہاد کے متعلق بحث کر چکے ہیں اسی طرح " فاسئلوا اہل الذکر میں اشارہ کرچکے ہیں ، انشاء اللہ مستقبل میں ان کے اجتہاد سے متعلق خاص کتاب پیش کریں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اسلامی تشریع کے دو اساسی مصادر ( قرآن و سنت)  میں کچھ مصادر کا بھی اضافہ کرتے ہیںمن جملہ ان کے شیخین ابوبکر عمر" کی سیرت اور صحابہ کا اجتہاد ہے ۔ اور اس کا سرچشمہ ان کا وہ اعتقاد ہے جس میں نبی(ص) کو غیر معصوم کہا جاتا ہے ، بلکہ کہا جاتا ہے نبی(ص) اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے چنانچہ بعض صحابہ آپ کی رائے کی اصلاح کرتے تھے۔

 اس سے ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی  ہے کہ جب اہل سنتوالجماعت  یہ کہتے ہیں کہ نبی(ص) معصوم نہیں تھے تو اس قول سے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر  نبی(ص) کی مخالفت کو جائز  قرار دیتے ہیں۔

اور عقلی اور شرعی اعتبار سے غیر معصوم کی طاعت واجب نہیں ہے اور جب تک ہمارا یہ اعتقاد رہے گا کہ رسول(ص) سے خطا سرزد ہوتی تھی اس وقت ! ان کی طاعت واجب نہیں ہوگی۔ اور پھر خطا کار کی کیسے طاعت کریں؟

۴۰۷

اسیطرح یہ بھی ہم جپر واضجح ہوگیا کہ شیعہ نبی(ص) کو مطلق طور پر معصوم مانتے ہیںاور آپ(ص) کی طاعت کو واجب سمجھتے ہیں کیوں کہ آپ(ص) معصوم عن الخطا ہیں۔ پس کسی بھی صورت میں آپ کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے اور جو آپ(ص) کی مخالفت کرے گا یا آپ(ص) سے منہ پھرائےگا وہ اپنے پروردگار کی نافرمانی کرے گا جیسا کہ متعدد  آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

             جو رسول(ص) تمھارے پاس لائے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔( حشر/۷)

             اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اطاعت کرو۔ (آل عمران/۱۳۲)

             کہدیجئیے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میرا تباع رکرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔(آل عمران/۳۱)

اور بہت سی آیتیں ہیں جو  مسلمانوں پر نبی(ص) کی اطاعت کو واجب قرار دیتی ہیں اور  آپ(ص) کی مخالفت و نافرمانی سے روکتی ہیں کیونکہ آپ(ص) معصوم ہیں اور نبی(ص) اسی امر کی تبلیغ کرتے ہیں جس کا خدا کی طرف سے حکم ہوتا ہے۔

اور اس سے یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ شیعہ ہی اہل سنت ہیں۔ کیوں کہ وہ سنت کو معصوم تسلیم کرتے ہیں اور اس کے اتباع کو واجب سمجھتے ہیں اسی سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ" اہل سنت والجماعت" سنت نبی(ص) سے بہت دور ہیں۔ کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ سنت میں خطا واقع ہوئی ہے۔ اور اس کی مخالفت کرنا جائز  ہے۔

سب ایک ہی دین پر تھے۔ پس خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور ان کے ساتھ بر حق کتاب بھی نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان اختلاف

۴۰۸

 والی چیزوں کا فیصلہ کریں اور اس حکم سے ان لوگوں نے اختلاف کیا جن کو کتاب دی گئی تھی جب ان کے پاس خدا کے صاف صاف احکام آچکے اور انھوں نے پھر شرارت کی تو خدا نے اپنی مہربانی سے ایمانداروں کو راہ حق دکھا دی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا۔ اور خدا  جس کو چاہتا ہے راہِ راست  کی ہدایت کرتا ہے۔ (بقرہ/۲۱۳)

۴۰۹

ڈاکٹر موسوی اور ان کی کتاب اصلاح شیعہ

کچھ روشن فکر اور ذہین نوجوانوں سے پیرس میں میری ملاقات میرے عالم جوانی کے دوست اور خاندانی عزیز کے دولت خانہ پر اس وقت ہوئی جب طویل انتظار کے بعد خدا نے انھیں فرزند عطا کیا تھا اور اس پر انھوں نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا تھا ، وہاں ہمارے درمیان شیعہ  اور سنی کے موضوع پر  بحث چھڑ گئی شیعوں پر تنقیدیں کرنے میں الجزائر کے اکثر وہ لوگ تھے جو اسلامی انقلاب میں پیش پیش ہیں۔ وہ خیالی داستانوں کو دھرا رہے تھے، ان میں آپس میں بھی اختلاف تھا۔ بعض منصت مزاج کہہ رہے تھے کہ شیعہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بعض کہہ رہے تھے شیعہ گمراہ ہیں۔

اور جب ہم نے سنجیدگی سے بحث و استدلال شروع کیا تو ان میں سے بعض میرا مذاق اڑانے لگے اور یہ کہنے لگے تیجانی ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہوگئے ہیں، میرے دوست نے انھیں یہ بات باور کرانے کی لاکھ کوشش کی کہ میں بڑا محقق ہوں اور حاضرین کے سامنے میری تعریف  کرتے ہوئے کہا، انھوں نے اس موضوعات پر  متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔

لیکن ان میں سے ایک نے کہا: میرے پاس ایک دلیل و حجت ہے کہ جس کے بعد کوئی دلیل

۴۱۰

و حجت نہیں ہے، سب خوموش ہوگئے میں نے اس حجت کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا: چند منٹ کی اجازت دیجئے، وہ دوڑتا ہوا اپنے گھر گیا اور ڈاکٹر موسی موسوی کی کتاب" الشیعہ والتصحیح" لایا، جب میں نے کتا ب دیکھی تو مجھے ہنسی آگئی اور کہا ، کیا  یہی وہ حجت ہے۔ جس کے بعد کوئی حجت نہیں؟ وہ حاضرین کی طرف ملتفت ہوا اور کہنے لگا۔

یہ شیعوں کا بہت بڑا عالم اور ان کے مراجع میں سے ایک مرجع ، اس کے پاس اجازہ اجتہاد بھی ہے اور اس کے باپ دادا شیعوں کے بڑے علما میں شمار ہوتے تھے لیکن اس نے حق پہچان لیا اور شیعیت چھوڑ کر مذاہب اہل سنت والجماعت اختیار کر لیا۔

اور مجھے یقین ہے کہ اگر میرے بھائی ( تیجانی) بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتے تو شیعیت سے کبھی دفاع نہ کرتے اور ان (شیعوں) کے انحرافات کو پہچان لیتے۔

مجھے ایک مرتبہ پھر ہنسی آگئی اور اس سے کہا: میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں نے اسے ایک محقق کی حیثیت سے پڑھا ہے اسی کتاب سے میں سب کے سامنے آپ کو وہ  حجت پیش کروں گا کہ جس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔

             حاضرین کے ساتھ اس نے افسوس کے ساتھ کہا: لائیے ہم بھی تو سنیں۔

             میں نے کہا مجھے کتاب کا صفحہ تو یاد نہیں ہے لیکن اس کی شہ سرخی یاد ہے میں نے اسے اچھی طرح یاد کیا ہے۔ اور وہ  ہے۔ اقوال ائمہ الشیعہ فی الخلفاء الراشدین" شیعوں کے ائمہ کے اقوال خلفائے راشدین کے بارے میں۔

             اس نے کہا: اس میں کیا ہے؟

میں نے کہا : اسے حاضرین کے سامنے پڑھیئے اس کے بعد  میں آپ کے سامنے وہ حجت پیش  کروں گا۔

اس نے  وہ عبارت نکالی اور حاضرین کے سامنے پڑھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ " امام جعفر صادق(ع)" اپنے کو ابوبکر سے نسبت دینے پر افتخار کرتے تھے  چنانچہ ایک مرتبہ آپ(ص) نے فرمایا کہ

۴۱۱

 مجھے! ابوبکر سے دھری نسبت ہے اور جن لوگوں نے اس روایت کو بیان کیا ہے ان ہی لوگوں نے وہ روایت بھی نقل کی ہیں کہ جن امام جعفر صادق(ع) نے ابوبکر پر لعن طعن کی ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر موسوی  حاشیہ لگاتے ہیں کہ کیا یہ بات معقول ہے کہ ایک مرتبہ امام جعفر صادق(ع)  ایک لحاظ سے اپنے جد (ابوبکر) پر فخر کریں اور دوسری مرتبہ دوسرے اعتبار سے ان پر لعن طعن کریں؟ اس قسم کی باتیں تو  کوئی بازاری ہی کرسکتا ہے۔ امام ایسی بات کہہ سکتے یں؟

تمام حاضرین نے مجھ سے پوچھا ، اس میں کیا حجت ہے؟ نیز سب نے کہا یہ تو معقول اور  منطقی بات ہے۔

میں نے کہا : امام جعفر صادق(ع) کے اس قول سے کہ مجھے ابوبکر سے دھری نسبت ہے۔ ڈاکٹر موسوی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے جد پر فخر کرتے ہیں۔ جب کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس سے ابوبکر کی مدح و ستائش ہو اور  پھر امام صادق(ع)  ابوبکر کے خاص نواسے نہیں ہیں بلکہ ابوبکر آپ(ع) کی مادر گرامی کے جد ہیں کیوں کہ امام صادق(ع) ابوبکر کی وفات سے ستر(۷۰) سال  کے بعد  متولد ہوئے ہیں آپ(ع) نے ہرگز ابوبکر کو نہیں دیکھا۔

سب نے کہا اس  سے ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے کیا ہے؟!

میں نے کہا : اس شخص کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے کہ جو کہ اپنے خاص جد او ر اپنے باپ کے والد پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے معاصرین میں اعلم ہوں اور تاریخ اس کا مثل پیش نہیں کرسکتی اور پھر  کہے کہ میں نے ان سے درس و ادب حاصل کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی ان پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اور   کی اایک عقلمند انسان اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ کسی شخص پر ایک اعتبار سے افتخار کرے اور دوسری جہت سے اسے کافر ثابت کرے؟!

سب نے کہا: یہ تو معقول نہیں ہے اور کبھی نہیں ہوسکتا۔

میں نے کہا اس کتاب کے پہلے صفحہ کی عبارت پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر موسوی ایسے ہی ہیں۔

۴۱۲

اس نے پڑھا : میں نے اس گھر میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا جس کے ہاتھ شیعوں کی قیادت تھی اور میں نے اس شخص سے درس پڑھا جس کو تاریخ تشیع میں زمانہ غیبت میں زعیم اکبر اور دینی قائد کہا جاتا ہے اور وہ ہیں میرے جد امام الاکبر السید ابوالحسن الموسوی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہانھوں نے اپنے سے پہلے کے علما کی یاد کو بھلا دیا تھا اور بعد والوں کے لئے مثال چھوڑدی  تھی۔

میں نے کہا ، حمد خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے خود موسوی کی زبان سے اس حجت کا اظہار کرادیا اور اس نے خود اپنے خلاف فیصلہ کردیا جیسا کہ آپ نے اس کا قول پڑھا ہے کیا یہ معقول ہے کہ ایک جہت سے اپنے جد پر افتخار کریں اور دوسرے لحاظ سے ان پر اعتراض کریں؟ جب کہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ایسی بات تو کوئی بازاری ہی کہہ سکتا ہے۔

اور یہ  وہ شخص  ہے جو اپنے دادا کے لئے ایسے عظیم اوصاف گنوارہا ہے جو کہ ان کے علاوہ بڑے بڑے علما کو نصیب نہ ہوئے اور اس بات کا دعویدار ہے کہ میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ کیا ہے اور ان ہی سے حاصل کئے ہیں ان تمام باتوں کے بعد تو انھیں جاہل و بازاری ہی مورد طعن ٹھہراتا ہے۔

اس سے تمام حاضرین کے سر جھک گئے اور میرے صاحب خانہ نے مسکراتے ہوئے کہا : کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ برادرم تیجانی  موضوع اور منطق کے مطابق بحث کرتے ہیں؟

میں نے جواب دیا: اگر حقیقت یہ ہوتی جو آپ  کہہ رہے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو اپنے جد اور اس استاد سے برائت کا اظہار کرنا واجب تھا جس نے انھیں اجتہاد کا اجازہ دیا ہے ان پر افتخار کرنا جائز نہیں تھا ایک طرف ان کو لاشعوری طور پر کافر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف ان پر فخر کرتا ہے۔

اگر میں ڈاکٹر موسوی کی تحریر کے متعلق آپ سے مباحثہ کرنا چاہتا تو تمھیں حیرت انگیز  چیزیں دکھا دیتا۔

ان اشکالات کے شروح اور توضیحات کے بعد اس ملاقات کا اختتام بحمد اللہ مثبت نتائج

۴۱۳

 پر ہوا، ان بحث کرنے والوں میں سے بعض تو میری تینوں کتابوں کو مطالعہ کرنے کے بعد شیعیت سے قریب ہوگئے ہیں۔

اس موقع سے  فائدہاٹھا کر قارئین  محترم کے سامنے اپنی اس تحریر کو پیش کرتا ہوں جو کہ میں نے " الشیعۃ والتصحیح" کے متعلق عجلت میں قلم بندی کی تھی، کیوںکہ مذکورہ کتاب نے وہابیوں کے علاقوں میں بہت مقبولیت پیدا کی ہے ، پھر وہابیوں کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہے بعض علاقوں میں ان کا خاص اثر و نفوذ ہے لہذا و ہ ان نوجوانوں کو دامِ فریب میں پھنسا لیتے ہیں جو کہ شیعیت کو نہیں پہچانتے ہیں، اس کتاب کے ذریعہ انھیں بہکانے ہیں اور انھیں مفید تحقیق کرنے سے منع کرتے ہیں اور اس طرح ان کےاور حقیقت کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ یہ اعتراض کرنے والے ڈاکٹر موسوی کی کتاب "  الشیعہ و التصحیح " کوشیعوں پر حجت قرار دیتے ہیں۔ اس کتاب کو ان حکومتوں نے ملینوں کو تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا ہے کہ جن کے مقاصد کو ہر خؒاص وعام جانتا ہے۔ ان نے  چاروں کا خیال خام یہ ہے کہ انھوں نے مذکورہ کتاب کو نشر  و اشاعت کے ذریعہ شیعوں کی دہجیاں اڑادی ہیں تاکہ یہ حجت بن جائے اور پڑھنے والے پڑھ لیں، کیوں کہ اس کے مصنف " آیت اللہ موسوی"  شیعہ تھے۔

لیکن وہ بے چارے بعض چیزوں سے بے خبر ہیں انھوں نےت اس کتاب کا مطالعہ صحیح طور پر تجزیہ ہی نہیں کیا ہے اور اس سے رونما ہونے والے ان بھیانک نتائج کے بارے نہیں سوچا کہ جو ان کے لئے وبال جان بن جائیں گے۔

میں نے خود ڈاکٹر موسی موسوی کے جھوٹ کے پلندے کا جواب لکھنے میں اپنا قیمتی وقت نہیں صرف کروں گا، میں سمجھتا ہوں  کہ میری کتاب" مع الصادقین" موصوف کے مفتریات کے مسکت جواب ہے اگر چہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس کتاب سے قبل ایک کتابچہ تحریر  کیا تھا کہ  جس میں شیعوں کے ان معتقدات کا اظہار کیا تھا کہ جن کا مدار قرآن مجید اور نبی(ص) کی صحیح سنت اور بمع اہلسنت و الجماعت تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور ہم نے ان کے ہر ایک عقیدہ کو اہل سنت والجماعت کی صحاح سے ثابت کیاہے۔

۴۱۴

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر موسیٰ موسوی کا کلام خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس پر نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی اسلامی منطق بلکہ وہ شیعوں سے پہلے اہل سنت والجماعت پر طعن و تشنیع ہے۔

اور  یہ بھی عیاں ہے کہ اس کی کتاب کو رواجدینے والے افراد اسلامی حقائق سے بلکل بے خبر  ہیں اور اس سے ان کی جہالت و حقیقت کا  انکشاف ہورہا ہے۔

اور عقائد شیعہ میں سے جس چیز پر بھی موصوف نے تنقید کی ہے اور ان پر زبان طعن دراز کی ہے وہ بحمد اللہ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجو د ہے۔

پس اس سے شیعوں پر کوئی نقص نہیں وارد ہوا بلکہ خود ڈاکٹر موسیٰ موسوی اور اہل سنت والجماعت میں عیب نکلا ہے کہ جنھیں یہی معلوم نہیں ہے کہ ان صحاح و مسانید میں کیا بھرا  پڑا ہے۔

پس امامت کا قائل ہونا اور ان بارہ(۱۲) خلفا کی خلافت پر نص جو کہ سب قریش سے ہوں گے  یہ شیعوں کی ایجاد نہیں ہے یہ تو اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔ اور امام مہدی(ع) کے وجود کا قائل ہونا اور یہ کہ وہ عترتِ طاہرہ(ع)  میں سے ہونگے اور اسی طرح زمین کو عدل و اںصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی، بھی شیعوں کی من گھڑت نہیں ہے یہ بھی اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اور اس بات کا قائل ہونا کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) رسول اللہ(ص) کے وصی ہیں یہ بھی شیعوں کی بدعت نہیں ہے بلکہ یہ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اسی طرح تقیہ پر عمل کرنا اور اس کو صحیح تسلیم کرنا بھی شیعوں کے خیال کی پیداوار نہیں ہے بلکہ تقیہ کے سلسلہ میں قرآن میں آیت نازل ہوئی ہے اور یہ سنت نبوی(ص) سے ثابت ہے اور یہ سب کچھ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اور متعہ کو جائز و حلال ماننا بھی شیعوں کی ذہنی اپج نہیں ہے بلکہ اسے تو خدا اور اس کے رسول(ص) نے حلال قرار دیا ہے اور عمر ابن خطاب نے حرام قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی

۴۱۵

صحاح میں موجود ہے۔

اور سال بھی کی آمدنی میں سے خمس نکالنے کو صحیح تسلیم کرنا بھی شیعوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اسے بھی کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) نے واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی صحاح گواہی دے رہی ہیں۔

اور بداء کا قائل ہونا اور یہ کہ خدا جس کو چاہتا ہے محو فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثبت فرماتا ہے، یہ بھی شیعوں کی خیالی پلاؤ نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری سے ثابت ہے۔

اور بغیر عسر و ضرورت کے " جمع بین الصلاتین" یعنی دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا قائل ہونا بھی شیعوں کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پر رسول(ص) نے عمل کیا ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی صحاح سے ثابت ہے۔

خاک شفا پر اور زمین پر سجدہ کرنا  بھی شیعوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ سید المرسلین(ص)  نے بھی زمین ہی  پر سجدہ کیا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت  کی صحاح سے ثابت ہے۔

اور اس کے علاوہ جو  باتیں ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے کہی ہیں کہ جن کا مقصد صرف تہویل و تھریج ہے، جیسے تحریف قرآن کو دعوا ، تو اہل سنت والجماعت اس تہمت کے زیادہ مستحق ہیں جیسا کہ اس سلسلہ میں ہم اپنی کتاب " مع الصادقین" میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔

مختصر یہ کہ ڈاکٹر موسیٰ موسوی کی  تالیف ، اصلاح شیعہ" پوری پوری قررآن و سنت رسول(ص) ،اجماع مسلمین اور عقل  و وجدان کے سراسر خلاف ہے۔

موسوی نے بہت سے ضروریات دین کا انکار کیا ہے جب کہ وہ کتابِ خدا میں موجود ہیں اور رسول(ص) نے ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے اور ان پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور ان کا انکار کرنے والا مسلمانوں کےاجماع سے کافر  ہے۔

پس اگر موسوی کی مراد اس " اصلاح" سے ان کا عقائد و احکام کا بدلنا ہے تو وہ ( موسوی) کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور تمام مسلمانوں پر اس کا مقابلہ کرنا واجب ہے۔ اور اگر "اصلاح "

۴۱۶

 مراد خود اپنے عقائد بدلنا ہے جیسا کہ ان کی کتاب سے میری سمجھ میں یہی آیا ہے  لیکن موصوف کی تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد کےقتل کا ذمہ دار شیعوں کو ٹھہرایا تھا ( جیسا کہ ص۵ پر تحریر کرتے ہیں) قاتل مذہبی شخص کے لباس میں تھا ۔ اور میرے باپ کو جانور کو طرح ذبح کردیا گیا تھا۔

شیعوں کے بارتے میں بچپن ہی سے ان کایہ عقیدہ تھا جب کہ ان کا اس قتلجسے کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن انھوںنے اہل سنت والجماعت کی طرف رخ پھیرا لیا اور اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والوں سے بغض کینہ میں ان کےشریک بن گئے جب کہ وہاں کوئی مقام نہ ملا اب نہ وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ، وہ صرف ان باتوں سے واقف ہیں جو شیعوں کے دشمن نے ان کی طرف منسوب کردی ہیں اور اسی طرح اہل سنت والجماعت کےمتعلق سوائے نماز جمعہ کے ( اگر شریک ہوتے تو) کچھ نہیں جانتے ہیں۔

اگر اصلاح سےان کی یہی مراد ہے تو ان پر ان غلط و فاسد  عقائد کی اصلاح کرنا واجب ہےکہ جن سے امت کےاجماع کی مخالفت کی ہے۔

پس جب ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے تعلیم و تربیت ( جیسا کہ انھوں نے اپنی کتاب کے صفحہ ۵ پر  تحریرکیا ہے ) اور درس و ادب اس شخص سے حاصل کیا ہے کہ جس کو آج تک تاریخ تشیع میں دینی قائد اور زعیم اکبر کہا جاتا ہے اور وہ ہیں خود ان  کے دادا  امام اکبر ابوالحسن موسوی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پہلے والوں کی یاد فراموش کردی اور  آنے والوں کو  عاجز کردیا۔ ڈاکٹر نے ان کے دروس کو حفظ نہ کیا اور ان کے آداب سے آراستہ نہ ہوئے اور ان کے راستہ کو اختیار نہ کیا ، ان کے علم سے سیراب نہ ہوئے بلکہ ہم تو انھیں ان کی جد امام اکبر اور زعیم دینی کے عقائد کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے اپنے والدین کو عاق کردیا ہے۔ بلکہ اس کا عاق یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس نے اپنے دادا اور والدین کو کافر قرار دیدیا ہے۔ پس جب موسوی کی نظروں میں شیعہ کافر ہیں تو ان کے قائد  بھی جو کہ موسوی کےجد ہیں ۔ کفر سے

۴۱۷

 زیادہ قریب ہیں۔

ڈاکٹر موسوی کا اپنے جد ابوالحسن الموسوی ( رحمۃ اللہ) کی کتاب " وسیلۃ النجاۃ" سے جاہل رہنا ایسا ننگ و عار ہے کہ جس کے بعد کوئی ننگ و عار نہیں ہے اور پھر یہ دعوی ہے کہ میں (ڈاکٹر موسوی) نے ان کے سامنے زانوائے تلمذ تہ کیا ہے!

اور اس سے بڑی رسوائی یہ ہے کہ تیونس  کا ایک جوان جو کہ نجف اشرف سے ہزاروں کلومیٹر دور کا باشندہ ہے وہ امام اکبر ابوالحسن الموسوی کی کتاب " وسیلۃ النجاۃ" سے واقف ہے اور اس کے مطالعہ سے اہل بیت(ع) کے حقائق سے آگہی حاصل کرتا ہے جب کہ ان کا پوتا کہ جس نے ان کے گھر اور نگرانی میں تربیت پائی ہے وہ اس سے واقف نہیں ہے۔

امام اکبر ابوالحسن الموسوی اصفہانی( قدس سرہ) نے جو کچھ اپنی کتاب" وسیلۃ النجاۃ" میں تحریر کیا ہے اس کی ان کے پوتے ڈاکٹر موسوی نے تردید کی ہے اور مرحوم کا مذاق اڑاتا ہے اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج جانا ہے۔

منطق یہ کہتی ہے کہ اگر اس امام اکبر اور قائد دینی کا عقیدہ صحیح و سالم ہے تاریخ شیعیت میں جس کی مثال نہیں ملتی( جیسا کہ ان کے پوتے کا نظر یہ ہے) تو ان کے پوتے کا عقیدہ کفر و  گمراہی ہے۔

اور اگر ان کےپوتے ڈاکٹر موسیٰ موسوی کا عقیدہ صحیح و سالم ہے تو ان کے جد کا عقیدہ کفر و ضلالت ہے، اس صورت میں ڈاکٹر کا ان سے برائت کا اظہار کرنا واجب ہے اور ان سے نسبت پر افتخار کرنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ان کی نگرانی میں تربیت پانے کا قصیدہ پڑھنا صحیح ہےجیسا کہ موصوف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں فخر وفروشی کی ہے۔

اس منطق اور اس حجت سے ڈاکٹر موسوی کے اس اجازہ اجتہاد کو بھی دیوار پر دے مارا جاتا ہے جو کہ اس نے آلِ کاشت الغطا سے حاصل کیا تھا۔

اوّلا : کیونکہ انھوں نے اپنی کتاب میں جو اجازہ اجتہاد کی فوٹو کاپی شائع کی ہے وہ

۴۱۸

 فقط اجازہ روایی ہے اور یہ کوئی خاص اجازہ نہیں ہوتا ہے بلکہ مراجع عظام اکثر طلبا کو دیدیتے ہیں۔ میرے پاس خود ایسے ہی دو اجازے ہیں ایک آیت اللہ العظمی خوئی(رح) نے نجف میں دیا تھا اور دوسرا آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی(رح) نے قم میں دیا تھا۔

پس روائی اجازہ کی اسلامی فقہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر موسوی نے ان لوگوں کو فریب دیا ہے جو کہ حوزات علمیہ کے درسی مراحل سے ناواقف ہیں۔

ثانیا: امام اکبر کا پوتا تصحیح و اصلاح کا دعوا  کرتا ہے لہذا اس نے اس امانت میں خیانت کی ہے جو کہ اسے اس کے استاد نے دی تھی ، موسوی کا دعویٰ ہےکہ اس کے پاس اجازہ اجتہاد ہے جب کہ مرجع دینی، زعیم حوزہ علیہ نجف اشرف مرحوم شیخ محمّد حسین آلِ کاشف الغطا نے اس اجازہ میں کہ جس کو موسوی نے اپنی کتاب میں شائع کیا ہے۔ صاف طور پر تحریر کیا ہے کہ میں نے انھیں ان کی اہلیت کی بنا پر یہ اجازت دیتا ہوں کہ وہ مجھ سے ان روایات کو نقل کرسکتے ہیں جن کی صحت میرے نزدیک بزرگوں اور اساتذہ کرام کے ذریعہ ثابت ہے۔

اور ہم نےیہ دیکھا  ہے کہ موسوی ہر اس چیز کا مذا ق اڑاتا ہے کہ جس کو مرجع دینی اور زعیم حوزہ علمیہ آل کاشف الغطا  نے اپنے بزرگوں اور اساتذہ کرام سے اپی کتاب " اصل الشیعہ و اصولہا" میں نقل کیا ہے ۔ اس کتاب میں انھوں نے شیعوں کےسارے معتقدات اور احکام نقل کئے ہیں۔

پس کتاب الشیعہ والتصحیح کی جس کو ان کے خیانت کار شاگرد نے تحریر کیا ہے  کتاب اصل الشیعہ و اصولہا، مؤلفہ مرجع اعلیٰ کاشف الغطاء کے سامنے کیا حیثیت ہے۔

جب کاشف الغطا اعلیٰ دینی مرجع ہیں اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم ہیں جیسا کہ موسوی نے اپنی کتاب کے ص۱۵۸ پر اس کا اعتراف کیا ہے اور جب موسوی اس اجازہ کےذریعہ افتخار کرتا ہے جو کہ تیس(۳۰) سال قبل اس نے کاشف الغطا سے حاصل کیا تھا تو ان کا ادنیٰ و حقیر شاگرد اپنے اس استاد کے متعقدات کا کیسے مذاق اڑاتا ہے کہ جس نے اسے تعلیم دی اور ان کے خیال کے مطابق اجازہ اجہتاد  بھی دیا؟پس اگر زعیم حوزہ علمیہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا حق پر ہیں اور ان کے معتقدات صحیح ہیں

۴۱۹

 تو موسوی باطل پر ہیں اور اس کے سارے معتقدات غلط ہیں۔

اور اگر دینی مرجع باطل پر ہے اور ان کے معتقدات غلط ہیں اور موسوی ان کا مضحکہ اڑاتا ہے تو موسوی پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو یہ فریب نہ دے کہ وہ اسلامی فقہ میں  درجہ اجتہاد پر فائز ہے اور زعیم حوزہ نے اس کو اجازہ اجتہاد دیا ہے۔

اور اگر موسوی کے معتقدات صحیح ہیں جیساکہ وہ خود  دعویدار ہیں، تو انھوں نے اپنے جد سید ابو الحسن موسوی اصفہانی کو کافر  قرار دیدیا کہ جن کو وہ خود کہتے ہیں کہ وہ تاریخ تشیع میں غیبت سے آج تک زعیم اکبر اور دینی قائد شمار ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ڈاکٹر موسوی نے اپنے استاد اور اجازہ دینے والے کاشف  الغطا کو کافر قرار دیا اور روز سقیفہ سے لے کر آج تک کے ملینوں شیعوں کا کافر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں ڈاکٹر  موسی موسوی کی کتاب " الشیعہ والتصحیح پڑھتے وقت اپنے پروردگار سے یہ عہد کیا تھا کہ میں پڑھنے سے پہلے کوئی حکم نہیں لگاؤں گا چنانچہ میں نے انہماک کے ساتھ مطالعہ شروع کیا ۔ شاید مجھے کوئی ایسی چیز مل جائے۔

جو مجھ سے چھوٹ گئی تھی اور  میرا نقص کا مل ہوجائے ۔لیکن مجھے اس میں جھوٹ تناقضات نصِ قرآن کی مخالفت ، سنت نبی(ص) کا استہزا، اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کے سوا کچھ نہ ملا۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ موسوی نے صحیح بخاری بھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے جو کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحیح ترین کتاب ہے اور ڈاکٹر موسوی نےاپنے خیال خام کے مطابق جن چیزوں کو شیعوں سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیعہ حکم خدا کو پس پشت ڈالدیتے ہیں۔ اگر یہ جید عالم صاحب کہ جس نے ظاہرا بیس(۲۰) سال کی عمر میں فقہ اسلامی میں اجازہ اجتہاد  حاصل کرلیا تھا ( خدا  جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ) کیوں کہ اس کے بعد موصوف نے ۱۹۵۵ء میں تہران یونیورسٹی سے فقہ اسلامی میں ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی تھی اور اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ؁۱۹۳۰ء میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے تھے اور ۱۹۵۹ء میں پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431