شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 98805
ڈاؤنلوڈ: 4785

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 98805 / ڈاؤنلوڈ: 4785
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سیاسی میدان سے علیحیدگی

ہم  بیان کرچکے ہیں کہ بائیکاٹ اور اقتصاد کو توڑ دینے  اور  غصب کرلینے کے بعد علی (ع) کو اسلامی معاشرہ سے بھی علیحیدہ کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگوں نے علی(ع) سے منہ پھیر لیا تھا۔لیکن برسرِ اقتدار پارٹی نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ انھیں سیاسی میدان سے بھی الگ کردیا اور انھیں حکومت کے کسی بھی امر سے دور رکھا حکومت کو کوئی منصب و ذمّہ داری اس کے سپرد نہ کی اگر چہ انھوں نے بنی امیہ کے ان طلقا و فساق میں حکومت کے منصب تقسیم کردیتے تھے جو کہ رسول (ص) کی حیات میں اسلام سے برسرپیکار تھے۔چنانچہ علی(ع) پچیس سال ابوبکر ، عمر، عثمان کے زمانہ خلافت تک سیاسی میدان اور حکومت کے منصب و  امور سے علیحدہ رکھے گئے۔ جب کہ اسی زمانہ میں بعض صحابہ نے اموال جمع کر کے دریچے بھر لئے تھے اور چاندی ، سونے کا ذخیرہ کرلیا تھا۔اور علی(ع) یہودیوں کے باغوں کی سینچائی کرتے اور محنت شاقہ سے اپنا پسینہ بہا کر روزی کماتے تھے۔باب العلم ، حبرالامامت اور علم بردار سنتِ نبی(ص) ایسے ہی اپنے گھر بیٹھے رہے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ہاں انگشت شمار وہ صحابہ ضرور قدر کرتے تھے جو کہ آپ کے شیعہ تھے لیکن نادار تھے۔ اور جب حضرت علی(ع) نے اپنی خلافت کے زمانہ میں لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف پلٹانا چاہا تو عمر ابن خطاب کے اجتہاد کے حامی چیخ پڑے ۔ ہائے سنتِ عمر!

ان تمام باتوں سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سنتِ نبی(ص) سے صرف علی(ع) اور شیعہ ہی متمسک تھے اور وہی اس پر عمل پیرا تھے۔ وہ کبھی سنت سے دستبردار نہیں ہوئے جبکہ باقی لوگوں سے ابوبکر،عمر، عثمان اور عائشہ کو اختیار کرلیا تھا اور ان کی  بدعت کو بدعت حسنہ کا نام دیتے تھے۔(صحیح بخاری، جلد۲، ص254، باب صلواۃ التراویح القباج، ص98)

۴۱

یہ صرف دعوا نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اور اہل سنت نے اپنی صحاح میں نقل کیا ہے۔ اور ہر ایک محقق اس سے واقف ہے۔

علی(ع) قرآن کی حفاظت کرتے تھے اور اس کے کل احکام کو جانتے تھے اور سب سے پہلے آپ (ع) ہی نے قرآن ایک جگہ جمع کیا تھا جیسا کہ بخاری نے تحریر کیا ہے ۔ جبکہ ابوبکر، عمر  اور عثمان کو قرآن سے کوئی سروکار نہیں تھا اور نہ ہی اس کے احکام  سے واقف تھے۔(احادیث کی کتابوں میں مشہور ہے کہ عمر کلالہ کے احکام نہیں جانتے تھے اسی طرح تیمم کے احکام سے بھی ناواقف تھے۔ جنھیں سب جانتے ہیں ملاحظہ فرمائیے بخاری ج۱،ص90) مورخین لکھتےہیں کہ عمر نے ستر (70) مرتبہ " لولا علی لھلک عمر" کہا ہے ابوبکر  اور ابوبکر نے کہا کرتے تھے اے ابوالحسن (ع) میں زمانہ میں زندہ نہ رہوں جس میں آپ نہ ہوں۔ لیکن عثمان کے بارے میں جو کچھ کہے حرج نہیں ہے۔

۴۲

سنتِ نبوی(ص) اور حقائق و اوھام

عمر ابن خطاب اہل سنت والجماعت کے یہاں صحابہ میں سے بڑے عالم اور الہام ہونے والے افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ جب کہ صحابہ کے درمیان سب سے بڑے عالم نہیں تھے جیسا کہ خود ان ہی کی نقل کردہ روایت سے ثابت ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی(ص) نے عمر کو اپنا جھوٹا پانی دیدیا اور علم سے اس کی تاویل ، خود عمر کہتے ہیں کہ مجھے نبی(ص) کی بہت سی حدیثیں یاد نہیں ہیں اور پھر انھیں حدیث سے کچھ لگاؤ نہ تھا اس لئے کہ انھیں تو بازاروں میں تجارت ہی سے فرصت نہیں تھی!!

بخاری نے اپنی صحیح کے باب الحجۃ میں کسی کا قول نقل کیا ہے کہ : احکام نبی(ص) آشکار تھے کیونکہ سب ہی تو نبی(ص) کے ساتھ رہتے تھے۔ اسلام کے امور کا مشاہدہ کرتے تھے۔

این روز ابوموسی نے عمر کے پاس جانے کی اجازت طلب کی لیکن عمر مشغول تھے اس لئے وہ لوٹ آئے ، عمر نے کہا مجھے عبداللہ ابن قیس کی آواز سنائی دے رہی ہے اسے بلاؤ ، بلایا گیا تو عمر نے کہا تم واپس کیوں چلے گئے تھے؟

ابوموسی نے کہا ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، عمر نے کہا اپنے اس دعوی کی دلیل پیش

۴۳

کرو، ورنہ تمھیں اس کا بھگتان کرنا ہوگا۔ ابوموسی انصار کے پاس گئے ، انصار نے کہا ہم میں سب سے چھوٹا اس کی گواہی دے گا۔ پس ابوسعید خدری اٹھے اور کہا یقینا ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ عمر نے کہا مجھ سے نبی(ص) کا یہ حکم مخفی رہا۔ ہاں بازاروں میں مجھے تجارت نے مشغول رکھا ۔(صحیح بخاری، ج۲، ص157، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، صحیح مسلم ، ج۶، ص179، باب لاستئذان من کتاب الآداب)

تعلیق :اس قصہ میں کچھ لطائف ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہے۔

اسلام میں اجازت طلب کرنے کا قضیہ مشہور ہے نبی(ص) کی اس سنت کو ہر خاص و عام جانتا ہے۔ کیوں کہ جب لوگ رسول (ص) کے پاس آتے تھے تو پہلے اجازت طلب کرتے تھے اور پھر  یہ اسلام کے آداب و مفاخر میں سے ایک ہے۔

۱۔اس واقعہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عمر ابن خطاب کے پاس دربان و چوکیدار رہتے تھے جو لوگوں کو بغیر اجازت کے ان کے پاس نہیں جانے دیتے تھے۔ ابو موسی نے بھی تین دفعہ اجازت مانگی  انھیں اجازت نہ ملی تو وہ لوٹ گئے۔ لیکن عمر کے یارو مددگار سب بنی امیہ تھے وہ انھیں نبی(ص) پر فضیلت دینا چاہتے تھے۔ اس لئے انھوں نے یہاں تک کہدیا کہ وہ بغیر کسی محافظ و باڈی گارڈ کے سرِراہ سوجاتے تھے مزید کہا تم نے عدل کیا تو (یہاں) سوگئے ۔ ( مطلب یہ ہے کہ اگر عدل نہ کرتے تو سرِراہ تھوڑی ہی سوسکتے تھے۔ کوئی بھی قتل کردیتا۔)

گویا وپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمر بنی(ص) سے بھی بڑے عادل تھے کیوں کہ نبی(ص) کے پاس محافظ و دربان رہتے تھے ورنہ یہ بات کیسے کہی گئی کہ عمر کے مرنے سے عدل بھی مرگیا؟

۲۔اس روایت سے ہمیں عمر کا مغلوب الغضب  ہونا اور ان کی کٹھور طبیعت اور   مسلمانوں سے ان کے بے جارویہ کا پتہ چلتا ہے۔

۴۴

ابوموسی اشعری" صحابہ میں سب سے بزرگ " مسئلہ اجازت طلبی پر حدیث بنی(ص) سے استدلال کرتے ہیں اور عمر کہتے ہیں کہ قسم خدا کی اگر تم نے اپنے مدعا پر کوئی شہادت پیش نہ کی تو میں تمھیں پشت وشکم کے درد میں مبتلا کردوں گا۔(صحیح مسلم، ج۶، ص179، کتاب الآداب باب الاستیذان)

ابوموسی کی اس سے بڑی اہانت و تذلیل اور کیا ہوگی کہ انھیں لوگوں کے سامنے جھٹلادیا  اور حدیث نبی(ص) سنانے پر انھیں اذیت باک سزا کی دھمکی دی۔ جبکہ ، حدیث کی صحت پر گواہی موجود تھی، ابی ابن کعب نے عمر ابن خطاب سے کہا کہ رسول اللہ (ص) کے اصحاب کے لئے ہر گز عذاب نہ بننا۔(حوالہ سابق)

مجھے تو اکثر امور میں عمر کا استبداد کے علاوہ کوئی نرم و نیک رویہ نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ وہ کتاب خدا وسنت نبی(ص) کی مخالفت کرتے تھے۔ اور غضب ناک ہوتے اور ڈراتے تھے ان کی اس سخت مزاجی نے بہت سے صحابہ کو حق چھپانے پر مجبور کیا جیسا کہ تیمم کے سلسلہ میں عمر نے عمار یاسر کو سنتِ نبوی(ص) بیان کرنے سے منع کیا اور جب عمر نےزیادہ تہدید کی تو عمار نے کہا اگر تم کہو تو میں یہ واقعہ کسی سے بیان نہ کروں۔(صحیح مسلم، ج۱، ص193، باب التیمم ، صحیح بخاری، باب التیمم)

اس سلسلہ میں بے شمار شواہد موجود ہیں کہ عمر نے زمانہ ابوبکر ہی میں صحابہ کو احادیث نبی(ص) بیان کرنے سے منع کردیا تھا اور اپنی دس سالہ خلافت کے دوران اس بات پر شدت سے عمل کیا تھا۔ اور صحابہ نے جو احادیث نبی(ص) جمع کرلی تھیں انھیں نذر آتش کردیا تھا مزید برآں بیان کرنے سے منع کردیا تھا۔ چنانچہ بعض صحابہ کو محبوس بھی کردیا تھا۔( اس موضوع کو ہم اہل ذکر میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔ شائقین کے لئے اس کا مطالعہ کافی ہوگا۔

عمر کی خلافت سے قبل ابوبکر نے اور عمر کی خلافت کے بعد عثمان نے نقل حدیث پر سخت پابندی لگادی تھی۔

۴۵

اس کے باوجود ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ تمام خلفاء سنتِ نبی(ص) پر عمل کرتے تھے جبکہ صحابہ حدیث نبی(ص) کو پیش بھی نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ جلادیا جاتا تھا؟

۳۔اس روایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عمر ابن خطاب اکثر نبی(ص) کی مجلس سے غائب رہتے تھے اور وہ بازاروں میں تجارت کے کاموں میں مشغولیت کی بنا پر حدیث نہیں سن پاتے تھے۔

اسی لئے وہ اکثر حدیثوں کو نہیں جانتے تھے جب کہ صحابہ میں سے ہر خاص و عام ان کو جانتا تھا یہاں تک کہ ان کے بچے بھی جانتے تھے۔ چنانچہ جناب ابوموسی کو جب عمر نے دھمکی دی اور وہ انصار کے پاس آئے تو انہوں نے یہی کہا تھا کہ اس حدیث کو ہمارا چھوٹا بچہ پیش کرے گا۔ پس ابوسعید خدری ان کے ساتھ گئے جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ انھوں نے گواہی دی کہ میں نے یہ حدیث نبی(ص) سے سنی ہے۔

یہ مسند خلافت پر بیٹھنے والے عمر کی توہین ہے کہ وہ حدیث نبی(ص) سے نا واقف ہے۔ جبکہ ایک بچہ اسے جانتا ہے ۔ اور رسول (ص) کی اس حدیث پر کیوں عمل نہیں ہوا  کہ جس میں فرمایا ہے!

جب کسی کو کسی رعایا کے امور کی باگ ڈور دی جاتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس قوم میں مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے تو اس نے خدا و رسول (ص) اور مؤمنین کے ساتھ خیانت کی۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ عمر ابن خطاب نے نبی(ص) کی ایسی احادیث سنی تھیں۔ اور ان کا حیاتِ نبی(ص) میں ہی انکار کردیا تھا۔کیوں کہ ان سے مطمئن نہیں ہوتے تھے اور ان کے مقابلے میں اپنا اجتہاد شروع کردیا تھا۔

ہمیں ابو حفصہ کے لئے خود انھیں کی طرح ان کی جہالت کا اعتراف کرلینا چاہئے کیونکہ جب وہ بعض صحابہ سے بحث و مباحثہ میں زیر ہوجاتے تھے تو کہتے تھے اے عمر تمام لوگ تجھ

۴۶

 سے زیادہ جانتے ہیں جہاں تک حجلہ نشین عورتیں بھی تجھ سے زیادہ علم رکھتی ہیں۔ کبھی کہتے " اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا" اور کبھی اظہار نادانی ان الفاظ میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، احادیث نبی(ص) سے مجھے بازاروں کے کاموں نے بیگانا بنائے رکھا ۔ اور جب عمر حدیث سے بیگانوں کا سا رویہ اختیار کرکے بازاروں کے لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے تو قرآن سے بھی ویسے ہی بے اعتنا رہتے ہوں گے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ مشہور حافظ ابی ابن کعب سے بھڑگئے اور ان کی قرائت کا انکار کر دیا اور کہنے لگے ہم نے تو آج سے پہلے یہ قرائت کسی سے نہیں سنی، ابی ابن کعب نے کہا جناب عمر ہمیں قرآن سے دلچسپی تھی جبکہ آپ بازاروں میں مشغول رہتے تھے۔ ( تاریخ ابن عساکر، ج۲، ص228، ایسے ہی حاکم نے مستدرک میں اور ابوداؤد نے سنن اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں روایت کی ہے۔)

پس عمر تجارت و بازاروں کے لہو ولعب میں مشغول رہتے تھے اور اسے صحابہ میں ہر خاص و عام جانتا تھا خصوصا ان لوگوں سے تو یہ چیز قطعی طور پر مخفی نہیں تھی۔ جو کتابِ خدا اور حدیث رسول(ص) کے عارف تھے۔

اس لئے میرا عقیدہ ہے کہ عمر جہل مرکب میںمبتکا تھے۔ کیونکہ جو چیزیں مسلمانوں کے بچوں کو یاد تھیں وہ بھی عمر کو یاد نہیں تھیں جو ایک بچہ جانتا تھا وہ عمر نہیں جابتھ تھے اسی طرح ایک جانب علی(ع) ہیں جن کی عمر ابھی تیس ۳۰ سال نہیں ہے کتابِ خدا اور حدیث رسول(ص) کے سلسلہ میں ان کی رائے صحیح ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں صحابہ کے سامنے عمر نے کہا " اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا"

ایک مرتبہ مسجد کے آخری کونہ سے ایک عورت کھڑی ہوتی ہے اور تمام نمازیوں کےسامنے منبر پر بیٹھے ہوئے عمر پر عورتوں کے مہروں کے بارے میں احتجاج  کرتی ہے اور جب عمر سے جواب نہیں بن پڑتا تو کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ حجلہ نشین عورتیں فقہ جانتی ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ عمر نے اپنی جہالت کی پردہ پوشی اوراپنے موقف کے استحکام کے

۴۷

لئے جو کچھ کیا ہے اسے تواضع اور کسرِ نفسی کا نام نہیں دیا جاسکتا جیسا کہ آج بہت سے لوگ کہتے ہیں۔

بلکہ ان سے جہاں تک ہوسکتا تھا انھوں نے سنتِ نبی(ص) کو مٹایا اور کتابِ خدا اور سنتِ رسول (ص) کے خلاف اپنا اجتہاد کیا، عمر کی سوانح حیات کا محقق اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ اعلانِ رسالت کے بعد عمر گیارہ سال یا اس سے بھی کم نبی(ص) کے ساتھ رہے۔

اپنے متعلق وہ خود فرماتے ہیں۔

میں اور بنی امیہ میں سے میرے پڑوسی زید باری، باری رسول(ص) کے پاس جایا کرتے تھے۔ ایک روز زید اور ایک روز میں جاتا اور  وحی وغیرہ کی خبر لاتااور ایک روز زید جاتے تو وہ بھی وہی کام انجامدیتے تھے۔ (صحیح بخاری،ج1، کتاب العلم باالتناوت فی العلم)

عمر کا یہ قول خود بتاتا ہے کہ وہ رسول (ص) کی مسجد سے کہیں دور رہتے تھے اس لئے عمر نے اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا ایک روز رسول(ص) کو دیکھنے جاتے اور ایک روز  شید جاتے تھے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا ہ مسافت زیادہ ہونے کی بنا پر عمر زحمت برداشت نہیں کرتے تھے اور نہیں جاتے تھے۔ یا مسافت زیادہ نہں ہوتی تھی بلکہ عمر بازاروں میں تجارتی کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔

اور جب ہم ابوموسی اشعری کے قضیہ میں، جو کہ پہلے بیان ہوچکا  ہے، عمر کے اس قول کا اضافہ کرتے ہیں کہ مجھے تجارت نے نبی(ص) کی خدمت سے ہٹاکر بازار میں بھیج دیا اور پھر  اس کے فورا بعد ابی ابن کعب کا قول ہمیں قرآن سے شغف تھا اور اے عمر تمھیں بازار سے دلچسپی تھی۔ تو ان چیزوں سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ عمر نے رسولص) کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارا تھا۔

عمر اکثر رسول(ص) کے پاس سے غائب رہتے تھے یہاں تک ان عظیم مناسبتوں میں بھی غائب رہتے تھے ۔ جن میں سب مسلمان جمع ہوتے ہیں جیسے عید الفطر و عید الاضحی کیونکہ

۴۸

 عمر بعد میں ان لوگوں سے سوال کرتے تھے جنھیں ذکرِ خدا اور اقامتِ نماز سے تجارت باز نہیں رکھتی تھی۔ چنانچہ عمر پوچھتے تھے۔ رسول(ص) نے نماز عید الفطر و عید الاضحی میں کیا پڑھا تھا۔

مسلم نے اپنی صحیح کی کتاب العیدین میں عبید اللہ ابن عبد اللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ عمر نے ابو واقد اللیثی سے پوچھا رسول(ص) نے نمازِ عید الفطر و عید الاضحی میں کیا پڑھا تھا۔ انھوں نے کہا" ق والقرآن المجید اوراقترب الساعة والنشق القمر" ( صحیح مسلم ، ج3، ص61، کتاب الصلاة باب ما یقرا به الصلوة لاعیدین)

خود ابو واقد اللیثی سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا : مجھ سے عمر نے پوچھا کہ عید کے دن رسول (ص) نے کیا پڑھا تھا میں نے کہا " اقترب الساعۃ اور ق والقرآن المجید" صحیح مسلم ، ج3، ص61، کتاب الصلوۃ )

عبید اللہ اور ابو واقد اللیثی کے قول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی(ص) نے نماز عیدین میں کونسی  سورت پڑھی تھی اور ابی ابن کعب نے نیز عمر کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ وہ قرآن نہیں سنتے تھے بلکہ خرید و فروخت کے لیے بازروں میںرہتے تھے اس کے باوجود ایسے فتوے تراشتے تھے جن سے آج تک علما متحیر ہیں مثلا جس مجنب کو پانی نہ ملے وہ نماز چھوڑدے اسی طرح تیمم کے احکام سے بھی ناواقف تھے۔ جبکہ قرآن و حدیث میں اس کے احکام بیان ہوچکے تھے۔ کلالہ کے احکام سے بھی جاہل تھے اور نہ جانے ایسے کتنے ہی متناقض فیصلے کرڈالے۔ اگر چہ قرآن مجید میں وہ بیان ہوچکے تھے اور حدیث میں ان کی تفصیل مذکور تھی لیکن عمر انھیں مرتے دم تک نہ سمجھ پائے( بیہقی نے اپنی سنن میں روایت کی ہے کہ عمر نے نبی(ص) سے بھائی کی موجودگی میںدادا کی میراث کےبارے میں معلوم کیا تو آپ نے فرمایا عمر  تم اس چیز کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ تم اس کے جاننے سے قبل مرجاؤ گے۔ ابنِ مسیب کہے ہیںعمر اس سے بے خبر ہی مرے۔)

۴۹

اگرعمر اپنے دائرہ میں رہتے اور مسائل کو سیکھنے کی کوشش کرتے تو وہ ان کے اور تمام مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوتا۔ لیکن انھیں انانیت نے گناہ کی طرف کھینچ لیا۔ اور انھوں نے خدا اور رسول(ص) کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دے دیا جیسے متعہ حج۔ و متعہ نساء اور مولفتہ القلوب کا حصہ اور جن چیزوں کو خدا اور اس کےرسول(ص) نے حرام قرار دیا تھا انھیں حلال قرار دے دیا،مثلا تین طلاق کو جائز کردیا اور مسلمانوں پر جاسوس چھوڑنا وغیرہ ( ملاحظہ فرمائیں شرف الدین صاحب کی النص والاجتہاد)

شاید یہی وجہ تھی جو عمر اور ان کےدوست ابوبکر پہلے دن رسول(ص) کی احادیث بیان کرنے پر پابندی لگارہے تھے۔ اس کی تدوین اور تحریر سے منع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ دونوں نے صحابہ کی جمع کی ہوئی حدیثوں کو نذر آتش کردیا۔ احادیث کو جلا دینے میں ان کے تین فائدے تھے ایک علی(ع) اور اہل بیت(ع) کے ان فضائل و حقائق کا مٹانا جو رسول(ص) نے بیان فرمائے تھے ۔ دو تاکہ نصِ نبوی(ص) میں سے کوئی چیز ایسی نہ بچے جو ان کی سیاست کے خلاف اور احکام کے سلسلہ میں ان کے اجتہاد کے برعکس ہو۔ تین عمر ابن خطاب رسول(ص) کی چند ہی حدیثیں جانتے تھے۔

امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ عمر اس بات میں متحیَر تھے کہ اگر نماز میں شک ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ابن عباس سے کہا تم نے رسول اللہ(ص)  یا صحابہ  میں سے کسی سے سنا ہے کہ اگر کسی کو نماز میں شک ہوجائے تو وہ کیا کرے۔ ( مسند امام احمد ابن حنبل، ج1، ص190)

قسم خدا کی عمر ابن خطاب کا قضیہ ہی عجیب ہے وہ اپنی نماز بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے تھے بلکہ اس کے متعلق صحابہ کے بچے سے سوال کرتے تھے۔ حالانکہ یہ ایسا مسئلہ تھا۔ جسے عام مسلمان یہاں تک کہ ان پڑھ بھی جانتے ہیں اور اس سے زیادہ حیرت انگیز تو اہل سنت کا یہ قول ہے" کہ عمر صحابہ میں سب سے بڑے عالم تھے اگر صحابہ کے اعلم کی یہ کیفیت ہے

۵۰

تو  حسنِ ظن ہی ٹھیک ہے  حقیقت نہ پوچھئے۔

ہاں  تھوڑے احکام ان کے اجتہاد ات سے بچ گئے تھے وپ بھی اس لئے کہ ان سے خلافت کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جیسے ابوموسی کااجازت طلب کرنے والا قضیہ یا ابی ابن کعب کا اس قرآئت سے استدلال جسے عمر نہیں جانتے تھے، لہذا یہاں عمر فخر کے ساتھ اعتراف کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں ہاں میں بازار کے کاموں میں الجھا رہتا تھا۔

لیکن علی(ع)  فرماتے ہیں:

 میں رسول (ص) کے پاس بطور خاص دو مرتبہ جاتا تھا۔

"ایک مرتبہ صبح او ر ایک مرتبہ شام میں۔"

یہ صبح و شام کی مجلس علی(ع) سے مخصوص تھی ۔ اس کے علاوہ علی(ع) ہمیشہ عام مجالس میں بھی شریک رہتے تھے۔

لوگوں میں سب سے زیادہ نبی(ص) کے نزدیک علی(ع) ہی تھے وہی سب سے زیادہ آپ سے متصل رہتے تھے اور پیدائش کے دن  ہی سے وہ رسول(ص) سے مخصوص تھے، رسول(ص) نے انھیں اپنی آغوش میں پالا  یہاں تک عنفوانِ شباب  آگیا تو علی(ع) آپ کے پیچھے پیچھے ایسے چلتے تھے جیسے اونٹ کا دودھ   پیتا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے یہاں تک نزولِ وحی کے ؂وقت غارِ حراء میں بھی آپ کے ہمراہ رہتے تھے انھوں نے گہوارے ہی سے رسالت  کا دودھ  پیا  اور سنت نبوی(ص)  کے معارف سے سیراب ہوئے۔

سنت و حدیثِ رسول(ص) کے سلسلہ میں ان سے بہتر اور کون ہے؟ کیا ان کے علاوہ کوئی اور اس کا دعویدار ہوسکتاہے ۔ انصاف کرنے والے بتائیں؟

یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ علی(ع) اور ان کے شیعہ جو کہ ان کا اتباع کرتے ہیں وہی سنتِ محمدی(ص) کی علامت اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ کسی اور کو سنتِ محمدی(ص) سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے نہ اس کی ہدایت اس طرف

۵۱

ہوئی ہے ہر چند وہ خود کو غفلت و تقلید کی بنا پر "اہل سنت" کہتے ہیں۔

اس چیز کو  ہم انشاء اللہ آیندہ وضاحت کے ساتھ پیش کریںگے۔

" ایمان لانے والو: اللہ سے ڈرو! اور سیدھی سیدھی بات کرو۔

اللہ تمھارے اعمال کی اصلاح کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور جس نے اللہ اور اس کےرسول(ص) کی اطاعت کی اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔"( احزاب،70،71)

۵۲

اہل سنت،سنتِ نبی(ص) کو نہیں جانتے

قارئین محترم ! آپ عنوان سے پریشان نہ ہوں آپ تو اللہ کے فضل سے حق پر چل رہے ہیں اور آخر کار مرضئ  خدا کو حاصل کرلیں گے، شیطانی وسوسے اور انانیت آپ کو غرور میں مبتلا نہ کرے اور اندھا تعصب آپ پر طارینہ ہو کیونکہ وہ حق تک رسائی نہیں ہونے دیتا اور بہشت برین تک نہیں پہونچنے دیتا ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ " اہل سنت" وہ لوگ  کہلاتے ہیں جو خلفائے راشدین " ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع)  کی خلافت کے قائل ہیں اس بات کو آج سبھی جانتے  ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ علی ابن ابی طالب(ع) کو اہل سنت خلفائے راشدین میں شمار نہیں کرتے تھے اور نہ ہی آپ کی خلافت کو شرعی سمجھتے تھے۔

علی(ع) کو عرصہ دراز کے بعد خلفائے ثلاثہ والے زمرہ میں شامل کیا ہے۔ یعنیسنہ 220 ھ میں امام احمد ابن حنبل کے زمانہ میں علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کیا گیا۔

۵۳

غیر شیعہ صحابہ خلفا، بادشاہان اور ابوبکر کے زمانے کے حکام یہاں تک کہ عباسی خلیفہ محمد بن الرشید اور معتصم کے زمانہ کے حکام بھی نہ صرف یہ کہ علی(ع)  کی خلافت کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ ان میں سے بعض تو آپ پر لعنت کرتے تھے اور آپ کو مسلمان تک نہیں سمجھتے تھے۔ اگر مسلمان سمجھتے ہوتے تو پھر منبروں سے ان پر سب وشتم کرنے کے کیا معنی ؟

اس سیاست کو تو ہم سمجھ گئے کہ ابوبکر و عمر نے علی(ع) کو خلافت و حکومت سے کیوں دور رکھا ان دونوں کے بعد مسندِ خلافت پر عثمان بیٹھتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں سے بھی زیادہ علی(ع)  کی اہانت کرتے ہیں۔ یہاں تککہ ایک مرتبہدھمکی دی کہ آپ کو بھی  ابوذر کی طرح شہر بدر کردیا جائے گا۔ اور جب بادشاہت معاویہ کے ہاتھوں میں آئی تو اس نے اس کو اور وسعت دی اور علی(ع) پر سب وشتم کرنے لگا اور لوگوں کو بھی سب وشتم کرنے پر مجبور کیا۔چنانچہ بنی امیہ کے تمام حکام نے ہر شہر اور ہر دیہات میں یہ رسم بد شروع کردی اور اسی(80 )سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ( صرف ان میں سے عمر بن عبدالعزیز مستثنی ہیں۔)

بلکہ یہ لعن طعن اور ان سے برائت  اور ان کےشیعوں سے برائت  کا سلسلہ اس سے بھی زیادہ زمانہ تک جاری رہا۔ عباسی خلیفہ متوکل کی عداوت و کینہ توزی دیکھئے وہ سنہ 240 ھ میں قبرِ علی(ع) و قبرِ حسین بن علی(ع) کو کھد وا ڈالتا ہے۔

اپنے زمانہکے امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک کو ملاحظہ فرمائیے جمعہ کے روز خطبہ دیتے ہوئے لوگوںسے کہتے ہیں:" رسول(ص) سے جو یہ حدیث نقل کی جاتی ہے  کہ (اے علی(ع) ) تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسی (ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔" صحیح ہے لیکن اس میں تحریف کردی گئی۔ کیو نکہ رسول(ص)  نے ان (علی) کو مخاطب کرکے فرمایا تھاتم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسی (ع) کے لئے قارون تھاسننے والے کو اشتباہ ہوگیا۔(تاریخ بغداد ، ج8، ص266)

معتصم کے زمانہ میں زندیقوں اور ملحدوں کی اکثریت تھی ،متکلمین کا زمانہ تھا خلافت  راشد ہ کا زمانہ ختم ہوچکا تھا۔ لوگوں کے لئے نئ نئ مشکلات کھڑی ہوگئیں تھیں۔

۵۴

امام احمد بن حنبل کو اس بات پر کوڑے لگوائے گئے تھے کہ وہ قرآن کو قدیم مانتے تھے، لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر چل رہے تھے اور قرآن کو مخلوق کہہ رہے تھے۔ چنانچہ احمد بن حنبل نے خوف  کے مارے قرآن کو مخلوق کہہ کرجان بچائی لیکن متوکل کے زمانے میں حنبل کا ستارہ  چمکا اور اسی زمانہ میں حضرت علی(ع)  کو خلفا ثلاثہ سے ملحق کیا گیا۔ ( اہل حدیث یعنی اہلِ سنت)

شاید احمد بن حنبل کو ان احادیث نے حیرت میں ڈالدیا تھا جو حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں وارد ہوئی تھیں ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں ، جتنی احادیث علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور کے متعلق وارد نہیں ہوئی ہیں۔

دلیل

طبقات حنابلہ ۔جو کہ ان کی معتبر ترین کتاب ہے اس میں ابن ابی یعلی اور دیزہ الحمصی کے اسناد سے مرقوم ہے کہ اس نے کہا :

میں اس وقت احمد بن حنبل کے پاس گیا۔ جب وہ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کرچکا تھا( اس محدث کو ملاحظہ فرمائیے جو کہ علی(ع) پر سب و شتم نہیں کرتا ہے اور نہ یہ لعنت کرتا ہے بلکہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے۔ لیکن اس بات پر راضی نہیں ہے کہ علی(ع) خلفا میں شمار کئے جائیں اسی لئے احمد بن حنبل سے بحث کرتا ہے اور اس کا جمع کا صیغہ استعمال کرنے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اہل سنت کی جماعت نے احمد بن حنبل کے پاس بھیجا تھا۔) میں نے ان سے کہا اے ابو عبداللہ یہ طلحہ و زبیر پر لعن طعن ہے انھوں نے کہا تم نے بہت بری با ت کہی ہے، کیا ہم اس قوم کے جھگڑوں اور  قصوں ہی میں پڑے رہیں؟ میں نے کہا! خدا آپ کی اصلاح کرے میں نے یہ بات اس لئے کہی ہے کہ آپ نے علی(ع)  کو چوتھا خلیفہ قرار دیا ہے اور ان کی خلافت کو واجب جانا ہے جبکہ ائمہ نے ان کی خلافت کو واجب نہیں جانا ہے۔

۵۵

انھوں نے کہا: اس سے مجھے کونسی چیزروک سکتی ہے؟ میں نے کہا حدیثِ ابنِ عمر انھوں نے کہا: عمر اپنے بیٹے سے افضل ہیں وہ علی(ع) کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانے پر راضی تھے اور علی(ع) کو خلیفہ منتخب کرنے والی کمیٹی کا ممبر بھی  بنایا تھا اور علی(ع) نے خود اپنا نام امیرالمؤمنین رکھا  ہے ۔ کیا میں یہ کہوں کہ میں مؤمنوں کا امیر نہیں ہوں؟ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد میں اٹھ کر چلا آیا۔(طبقات الحنابلہ، ج1، ص292)

اس قصہ سے واضح ہو جاتا ہے " اہل سنت" علی(ع) کو خلیفہ نہیں مانتے تھے ہاں خلافت کی صحت کے احمد بن حنبل کے بعد قائل ہوئے ہیں۔

اور یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ محدثِ اہل سنت والجماعت کے سردار اور ان کے ترجمان تھے۔ کیونکہ علی(ع) کی خلافت کےرد کرنے پر عبداللہ بن عمر کے قول سے حجت قائم کرتے تھے ۔ چونکہ بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ اور اہل سنت صحیح بخاری کو  کتابِ خدا کے بعد صحیح ترین کتاب کہتے ہیں۔اس لئے علی(ع) کی خلافت کا انکار کرنا ضروری ہے۔

اگر چہ ہم اس حدیث کو اپنی کتاب "فاسئلوا اہل الذکر" میں نقل کرچکے ہیں لیکن عام فائدے کے پیش نظر اسے دوبارہ نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اعادہ میں افادیت ہے۔ بخاری نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا ہم ( صحیح بخاری، ج4،ص191، کتاب بداء الخلق باب  فضل ابی بکر بعد نبی(ص)) زمانہ نبیٌ(ص) میں ابوبکر کو سب سے افضل سمجھتے تھے۔ان کےبعد عمر اور ان کےبعد عثمان کا مرتبہ تھا۔

ایسے ہی بخاری نے ابن عمر سے ایک اور حدیث نقل کی ہے جو کہ پہلی حدیث سے صاف وصریح ہے۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں:

ہم زمانہ نبی(ص) میں کسی کو بھی ابوبکر سے افضل نہیں سمجھتے تھے۔ انکے بعد عمر کا مرتبہ تھا اور پھر عثمان تھے اور انکے بعد  تو سارے اصحا ب برابر تھے ان میں سے ہم کسی کو کسی پر فضیلت ، نہیں دیتے تھے۔( صحیح بخاری، ج4، ص203، باب مناقب عثمان بن عفان من کتاب بدءالخلق)

۵۶

اور اس حدیث کی رو سے کہ جس میں رسول (ص) کو رائے دینے کا بھی حق نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں ان کا کوئی کردار ہے، بلکہ عبداللہ بن عمر کی ایجاد ہے۔ جس کی علی(ع) سے عداوت و حسد  مشہور ہے۔ اہل سنت والجماعت کے مذہب کی بنیاد ہی حضر ت علی(ع) کی خلافت کے نہ ماننے پر  استوار ہے۔

ایسی احادیث کیبنا پر بنی امیہ نے علی(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنے کو مباح قرار دیا اور معاویہ کے زمانہ سے مروان بن محمد بن مروان کے زمانہ یعنی سنہ132ھ تک حکام کا وتیرہ تھا کہ وہ منبروں سے علی(ع) پر لعنت کرتے اور ان کے شیعوں کو تہ تیغ کرتے تھے۔( صرف عمر بن عبدالعزیز کی دو سالہ خلافت کے دوران لعنت بند رہی لیکن عمر بن عبد العزیز کے قتل کے بعد یہ سلسلہ شروع  ہوگیا تھا اور اسی پر اکتفاء نہیں کی تھی ۔ بلکہ علی(ع) کی قبر  کھود ڈالی تھی او ان کے نام پر نام رکھنے کو حرام قرار دیدیا تھا۔)

پھر سنہ132ھ میں حکومت بنی عباس کے ہاتھوں میں آئی اور متوکل کے زمانہ یعنی سنہ247ھ تک اسی خاندان میں رہی۔بنی عباس کی حکومت کے دوران بھی مختکف طریقوںسے حضرت علی(ع) اور انکے شیعوں سے مخفی طور پر برائت کا اظہار کیا جاتا رہا کیونکہ بنی عباس  کو حکومت اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں سے ہمدردی کے طفیل میں نصیب ہوئی تھی اس لئے وہ اور ان کے حکام کھلم کھلا علی(ع) پر لعنت نہیں کرسکتے تھے ۔ کیونکہ حکومت کی مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ لیکن خفیہ طور پر یہ بنی امیہ سے کہیں زیادہ کھیل، کھیل رہے تھے۔ اہل بیت(ع) اور ان کےشیعوں کی مظلومیت آشکار ہوچکی تھی اور فطری طور پر لوگوں میں ان سے ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوچکا تھا۔ لہذا حکام نے مکاری و چالاکی سے کام لے کر ائمہ اہل بیت(ع)  کا تقرب ڈھوںڈا ورنہ انھیں اہل بیت(ع)  سے کوئی محبت  تھی اور نہ ہی ان کے حق کا اعتراف کرتے تھے بلکہ ان کی خاموشی اس اٹھنے والی شورش کے سبب تھی جو کہ ان کی حکومت کے لئے چیلنج بن سکتی تھی۔ چنانچہ مامون رشید نے بھی امام رضا(ع) کو ولی عہد بنایا تھا۔ لیکن جب داخلی حالات سے مطئن ہوگیا

۵۷

تو ائمہ اور ان ے شیعوں کی اہانت کرنے لگا۔ ایسے ہی متوکل نے بھی جب فضا سازگار دیکھی تو علی(ع) سے بغض و حسد کا کھل کر اظہار کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے فرزند حسین(ع) کی قبر مبارک تک کھدوا ڈالی۔

ان ہی تمام  باتوں کی بناء پر ہم یہ کہتے ہیں کہ " اہل سنت والجماعت " نے علی(ع) کو خلیفہ تسلیم نہیں کیا تھا ہاں احمد بن حنبل کےبعد تسلیم کرنے لگے تھے۔

یہ بات صحیح ہے کہ سب سے پہلے احمد بن حنبل علی(ع) کی خلافت کے قائل ہوئے لیکن وہ اس سے اہل حدیث  کو مطمئن نہ کرسکے ، جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں، کیونکہ وہ عبداللہ بن عمر کی اقتدا کرتے رہے۔

ظاہر ہے احمد ابن حنبل کی فکر کو لوگ  اتنی آسانی سے قبول نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ اس کےلئے ایک طویل زمانہ درکار تھا۔ اٌصل  حنابلہ کا اہل بیت(ع) کے سلسلہ میں انصاف دربننا اور ان کا تقرب ڈھونڈنے کا بھی ایک سبب تھا ۔ اور وہ یہ کہ خود کو اپنے دیگر سنی مذاہب مالکی، حنفی اور شافعی  سے ممتاز کرلیں اور اس طرح اپنی تائیدکرنے والوں کادائرہ وسیع کرلیں ظاہر ہے اس کے لئے ایک فکر کا قائل ہونا ضروری تھا۔

مرور زمان  کے تحت سارے " اہل سنت والجماعت" وہی کہنے لگے جو احمد ابن حنبل  نے کہاتھا اور علی(ع) کو چوتھا خلیفہ تسلیم کرلیا ۔ اور ان کے لئے اسی چیز کو واجب سمجھنے لگے جو دیگر تین خلفا کے لئے واجب سمجھتے تھے جیسے احترام اور رضی اللہ عنہ وغیرہ کہنا۔

کیا یہ اس بات پر بہترین دلیل نہیں ہے کہ اہل سنت والجماعت کا تعلق پہلے نواصب سے تھا جو کہ علی(ع)  سے بغض رکھتے ہیں ان کی توہین و تنقیص کرتے ہیں؟

جی ہاں جب زمانہ گذر گیا ، ائمہ اہل بیت(ع) دنیا سے چلے گئے اور(بظاہر) نہیں لوٹیں گے اور حکام و بادشاہوں کا خوف ختم ہوگیا اور اسلامی خلافت ٹکڑوں میں بٹ گئی، اور غلام و مٖغل اور تا تار اس پر قابض ہوگئے دین میں اضمحلال آگیا اور اکثر مسلمان شراب و

۵۸

کباب اور لہو ولعب میں مبتلا ہوگئے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، نماز کو انھوں نے فراموس کردیا، شہوتوں میں غرق ہوگئے۔ نیک کاموں کو برا سمجھنے لگے۔ اور برے افعال کو  نیک تصور کرنے لگے خشک وتر میں فساد پھیل گیا، اب مسلمان اپنے اسلاف کو رونے لگے۔ ان کی عظمتوں کو یاد کرنے لگے۔ ان کے دنوں کا نقشہ کھینچنے لگے اور ان دنوں کو سونے کا زمانہ کہنے لگے ہر چند کہ ان کے نزدیک افضل ترین زمانہ صحابہ کا تھا کیون کہ انھوں نے ہر شہروں  کو فتح کیا تھا اور مشرق ومغرب میں اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالی تھی، قیصر و کسری ان کی سامنے ہیچ تھے۔ اس لئے وہ تمام صحابہ کر رضی اللہ عنہ کہنے لگے چونکہ علی ابن ابی طالب علیہماالسلام بھی صحابہ میں شامل تھے۔ لہذا انھیں بھی رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ اور جب اہل سنت والجماعت تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہوگئے تو ان کے لئے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ وہ علی علیہ السلام کو صحابہ کے زمرہ سے خارج کردیں۔

اور اگر علی علیہ السلام کو صحابہ کے زمرہ سے خارج کرنے کےلئے کہتے تو مصیبت میں پھنس جاتا اور ہر عاقل پر ان کی بات کا انکشاف  ہو جاتا لہذا انھوں نے عوام فریبی کے لئے  خلفائے راشدین میں سے علی(ع)  کو چوتھا خلیفہ، باب مدینۃ العلم، رضی اللہ عنہ اور کرم اللہ  وجہہ کہنا شروع کردیا۔

اہل سنت والجماعت سے ہمارا ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ اگر تم علی(ع) کوصحیح طور پر باب مدینۃ العلم  تسلیم کرتے ہو تو اپنے دینی اور دنیوی امور میں ان کا اتباع کیوں نہیں کرتے؟

تم نے جان بوجھ کر باب علمکو کیوں چھوڑدیا اور ابو حنیفہ، مالک و شافعی احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کی تقلید کیوں کی،  کیا یہ لوگ علم و عمل اور فضل و شعف میں علی(ع) سے آگے بڑھ گئے تھے، چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ اگر تمھارے پاس عقل ہوتی تو

۵۹

کبھی علی(ع) اور معاویہ کا موازنہ ہی نہ کرتے۔

رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی تمام نصوص سے قطع نظر اور اس چیز سے صرف نظر کرتے ہوئے جو کہ نبی(ص) کے بعد علی(ع) کا اتباع تمام مسلمانوں پر واجب کرتی ہے، خود اہل سنت والجماعت میں سے کسی کا قول ہے کہ علی(ع) کے فضل ان کے سابق الاسلام ہونے ۔ راہِ خدا مین جہاد کر کے ان کے علم ، ان کے عظیم شرف اور ان کے زہد کو سب جانتے تھے۔ بلکہ اہل سنت علی علیہ السلام سے بخوبی واقف ہیں اور وہ شیعوں سے زیادہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ ( اس زمانہ میںاس قسم کی باتیں اکثر اہلِ سنت کیا کرتے ہیں)

ان لوگوں سے ہماری گزارش ہے کہ:

کہاں آگے بڑھے چلےجارہے ہو ذرا اپنے  اسلاف اور علما کو بھی دیکھ لو جنھوں نے دو سو سال  تک منبروں سے خضرت امیر المؤمنین علیہ السلام پر لعنت کی ہے ۔ ہم  نے ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ نہیں سنا اور نہ تاریخ نے ہمیں بتایا کہ فلاں شخص نے علی(ع) پرلعنت کرنے سے انکار کردیاتھا یا فلاں شخص علی(ع) کی محبت کی بنا پر قتل کردیا گیا تھا۔ علمائے اہل سنت میں سے نہ ایسا کوئی تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ جو ایسا جرت مندانہ کارنامہ انجام دے سکے اس کے برعکس وہ سلاطین و امراء اور حکام کے مقرب رہے ہیں کیوں کہ ان کی بیعت  اور رضامندی سے عطیات ملتے تھے۔چنانچہ انھوں نے بیعت سے انکار کرنے والے ان بزرگوں کے قتل کے فتوے دئیے جو  علی(ع) اور ان کی ذریت کے محب تھے۔ ایسے علما ہمارے اس زمانے میں بھی موجود ہیں۔

نصاری یہودیوں کو صدیوں سے اپنا دشمن سمجھتے چلے آرہے تھے اور جنابِ عیسی بن مریم کے قتل کا جرم انھیں کے سر تھوپتے تھے۔ لیکن جب نصاری میں ضعف پیدا ہوگیا اور عقائد میں پراگندگی پیدا ہوگئی اور اکثر کا مذہب الحاد بن گیا۔ اور کلیسا اس موقف کے لئے کباڑ گھر بن گیا جو علم و علما کے خلاف تھا۔ اور یہودی مضبوط

۶۰