شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105365
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105365 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

     " تمھارے پاس علم آچکا ہے اگر اس کے بعد بھی تم سے کوئی حجت کرتا ہے  تو تم ان سے کہہ دو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم اپنے نفسوں کو  لائیں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر خدا کی پھٹکار ڈالیں۔(آل عمران/۶۱)

۴۰۱

اہل سنت والجماعت کی دم بریدہ صلوٰت

گزشتہ فصلوں میں ہم آیت کا نزول ، رسول(ص) سے اس کی تفسیر اور کامل صلوٰت بھیجنے  کا طریقہ پیش کر چکے ہیں،اور رسول(ص) نے ناقص صلوٰت بھیجنے سے منع کیا ہے کیوں کہ اسے خدا  قبول نہیں فرماتا ہے۔ لیکن اہلسنت والجماعت کو ناقص صلوٰت بھیجنے پر مصر پاتے ہیں ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ صلوٰت میں آل محمد(ص) کا نام نہ آجائے اور اگر کبھی با دلِ ںخواستہ آلِ محمد(ص) کا نام لے لیا تو آلِ محمد(ص) کے ساتھ اس  صلوات میں اصحاب کا بھی اضافہ کردیتے  ہیں اور جب آپ ان میں سے کسی کے سامنے صلی اللہ علیہ و آلہ کہیں گے وہ فورا یہ سمجھیں گے کہ آپ شیعہ ہیں کیوں کہ محمد و آلِ محمد(ص) پر کامل صلوات بھیجنا شیعوں کا شعار بن چکا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے کہ جس میں ذراسا بھی شک نہیں  ہے میں خود بھی پہلے محمد(ص) کے بعد صلی اللہ علیہ وآلہ ، لکھنے والے کو شیعہ ہی سمجھتا تھا اور جب نام محمد(ص) کے بعد صلی اللہ علیہ و سلم دیکھتا تھا تو  سمجھتا تھا کہ اس کا لکھنے  والا سنی ہے۔

جیسا کہ علی(ع) لکھنے والے کو میں شیعہ سمجھتا ہوں اور جب کوئی کرم اللہ وجہہ لکھتا ہے تو سمجھ جاتا

۴۰۲

 ہوں کہ یہ سنی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ پوری صلوات بھیجنے میں شیعہ سنت نبوی(ص) کی اقتداء کرتے ہیںجبکہ اہل سنت والجماعت نبی(ص) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کو اہمیت نہیں دیتے ہیں چنانچہ آپ انھیں ہمیشہ ناقص صلوات بھیجتے ہوئے پائیںگے اور جب کبھی وہ آل محمد (ص) کے نام کا اضافہ کرنے پر مجبور ہوجاتے  ہیں تو  اس وقت ان کے ساتھ اصحابہ اجمعین  کا بھی اضافہ کردیتے ہیں تا کہ اہل بیت(ع) کی فضیلت ثابت نہ ہو۔

در اصل ان تما م چیزوں کا تعلق بنی امیہ کی اہل بیت(ع) سےدشمنی سے ہے یہ عداوت ان کے دلوں میں بڑھتی رہی ۔ یہاں تک کہ انھوں نے صلوات کے بجائے منبروں سے اہل بیت(ع) پر لعنت بھیجنا شروع کردی اور خوف و طمع کے ذریعہ لوگوں کو بھی لعنت بھیجنے پر مجبورکیا۔

اہل سنت والجماعت نے بہ رضا و رغبت اہل بیت(ع) پر لعن و طعن کرنانہیں چھوڑا ہے اگر  وہ لعنت کرتے تو  مسلمانو ں میں رسوا ہوجاتے اور ان کی حقیقت آشکار ہوجاتی اور لوگ ان سے بیزار ہوجاتے اس لئے انھوں نے لعنت کوچھوڑا دیا لیکناہل بیت(ع) سے عداوت و دشمنی ان کے دلوں میں محفوظ رہی اور ان کے نور کو خاموش کرنے اور ان کے دشمنوں کے  ذکر کو بلند کرنےکی پوری کوشش کرتے رہے۔ اور ان کےلئے ایسے خیالی فضائل گھڑتے رہے کہ جن کا حق و حقیقت سے کوئی ربط نہیں  ہے ۔

دلیل یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت آج تک معاویہ اور ان صحابہ کو کچھ بھی نہیں کہتے ہیں کہ جنھوں نے اسی(۸۰) سال تک اہل بیت(ع) پر لعنت کی اس کے بر عکس ان کو رضی اللہ عنہم اجمعین کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلمان کسی صحابہ  میں کوئی نقص نکالتا ہے اور ان کے جرائم کا انکشاف کرتا ہے تو وہ اس کے کفر اور قتل کا فتوا دیدیتے ہیں۔ بعض احادیث گھڑنے والوں نے تو یہاں تک کامل صلوات  میں ( جو نبی(ص) نے اپنے اصحاب کو تعلیم دی تھی۔) ایک جز کا اضافہ کردیا ہے اور وہ اس خیال سے تاکہ اہل بیت(ع)  کی عظمت کو گھٹایا جاسکے۔ روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ(ص) نے فرمایا: قولوااللهم صلی علی

۴۰۳

محمّد وآلِ محمّد و علی ازواجه و ذریته، تم اس طرح کہو!اللهم صلی علی محمد وآل محمد وعلی ازواجه و ذریته" ایک محقق بادی النظر میں یہ بات سمجھ لے گا اس جز کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ عائشہ کو بھی اہل بیت(ع) کے زمرہ میں شامل کردیا جائے۔

ہم ان سے کہتے ہیں : اگر جدلی طور پر اس روایت کو صحیح بھی تسلیم کرلیں اور قبول کر لیں کہ  امہات المؤمنین بھی صلوات کے ضمن میں ہیں تو صحابہ تو ہرگز اس میں داخل نہیں ہوں گے ۔ میں تمام مسلمانوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ قرآن یا حدیث سے اس سلسلہ میں ایک ہی دلیل پیش کردیں شاید آسمان کے ستاروں سے اس کا قریب ہونا آسان ہوگا لیکن دلیل لانا آسان نہیں ہے۔اور قرآن و حدیث ہر ایک صحابی اور قیامت تک پیدا ہونے والے  مسلمانوں کو محمد وآل محمد پر صلوات  بھیجنے کا حکم دیا ہے اور یہی ایک مرتبہ ایسا ہے جس سے  تمام  مراتب پست ہیں اور اس میں کوئی بھی ان کا شریک نہیں بن سکتا۔

پس ابوبکر و عمر اورعثمان بلکہ تمام صحابہ اور ساری دنیا کے مسلمان کہ جن کی تعداد سو(۱۰۰) ملین ہے تشہد پڑھتے وقت کہتے ہیں اللہم صلی علی محمّد وآل محمد! اگر یہ نہیں کہیں گے تو  ان کی نماز باطل ہے ۔ خدا اس نماز کو قبول نہیں کرتا ہے جس میں محمد و آل محمد(ص) پر صلوات نہ بھیجی جائے۔

             یہ ٹھیک وہی معنی ہیں کہ جو امام شافعی نے بیان کئے ہیں کہتے ہیں:

             یکفیکم من عظیم الشان انکم         من لم یصل علیکم لا صلوٰة له

اے اہل بیت (ع) آپ کی عظمت و منزلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو  نماز  میں تم پر صلوات نہ بھیجے  اس کی نماز ، نماز نہیں۔اس شعر کی بنا پر شافعی کے اوپر شیعیت کی تہمت لگائی گئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ بنی امیہ و بنی عباس کے گماشتے  ہر اس شخص کو شیعہ کہنے لگے تھے جو محمد و آل محمد(ص)  پر صلوات بھیجتا تھا ان کی شان میں کوئی قصیدہ کہہ دیتا تھا یا ان کے فضائل کے سلسلہ میں کوئی حدیث بیان کردیتا تھا۔

اس سلسلہ میں وسیع بحث ہے جو بارہا لکھی جا چکی ہے اور جب تکرار میں فائدہ ہو  تو دھرانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۴۰۴

اس فصل سے ہمیں یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ شیعہ ہی اہل سنت والجماعت ہیں اور ان کی صلوات ان کے مخالف کی نظر میں بھی کامل اور مقبول ہے جب کہ اہل سنت والجماعت اس سلسلہ میں سنتِ نبوی(ص) کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی صلوات ان کے علما و ائمہ کی نظر میں بھی ناقص اور غیر مقبول ہے۔

یا وہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جنھیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت  کچھ عطا کیا ہے  اور ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملکِ عظیم عطا کیا ہے۔ (نساء/۵۴)

۴۰۵

عصمت نبی(ص) اور اہل سنت والجماعت پر  اس کا اثر

عصمت کے سلسلہ میں مسلمانوں کے مختلف نظریات  ہیں اور یہ تنہا وہحقیقت ہے کہ جو مسلمانوں پر احکام نبی(ص) کے بے چون  و چرا قبول کرنے کو واجب قرار دیتی ہے اور جب مسلمان اس بات کے معتقد ہیں کہ نبی(ص) اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا ہے مگر جو کہتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو کہ اس پر کی جاتی ہے پس اگر مسلمان نبی(ص) کے ان اقوال احکام پر ایمان نہیں رکھتے کہ وہ قرآن پڑھا جانے والا  قرآن ہے تو اس صورت میں وہ فقط نبی(ص) ہی کا اجتہاد ہوگا۔

لیکن جو مسلمان اس بات کے معتقد ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ساری چیزیں خدا کی طرف سے ہیں، نبی(ص) تو صرف بیان کرنے اور پیغام پہنچانے والے ہیں تو وہ فقط شیعہ ہیں اور بہت سے صحابہ کا بھ ی یہی اعتقاد مشہور ہے اور ان کے سردار علی(ع) کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ انھوں نے سنتِ نبی(ص)  کو وحی خدا سمجھا اور اس میں کسی قسم کی رد و بد ل نہ کی  پس احکام خدا کے مقابلہ میں اپنی رائے اور ذاتی اجتہاد کو استعمال  کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن جن مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی(ص) اپنے قول و فعل میں غیر معصوم ہیں اور صرف

۴۰۶

قرآن کی تبلیغ اور اس کی آیات کی تلاوت کے وقت معصوم ہیں اس کے علاوہ تمام انسانوںکی مانند ہیں ، وہ صحیح امور بھی انجام دیتے ہیں اور خطا کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اس نظریہ کی رو سے اہل سنت والجماعت نبی(ص) کے ان احکام اقوال کے مقابلہ مین صحابہ اور علما کے اجتہاد کو جائز قرار دیتے ہیں جو کہ عام لوگوں کی مصلحت کے مطابق اور ہر زمانہ کے حالات سے سازگار ہیں

یہ بات محتاج بیان نہیں ہےکہ ( علی(ع) کے علاوہ) خلفائے راشدین سنتِ نبوی(ص) کے مقابلہ میں  اجتہاد کر لیا کرتے تھے پھر اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور نصوص قرآن کے مقابلہ میں بھی اجتہاد  کرنے لگے اور بعد  میں ان کی رائیں اہل سنت والجماعت میں احکام بن گئیں ۔ چنانچہ وہ ان ہی پر عمل کرتے ہیں اور ان ہی کو مسلمانو ں پر تھوپتے ہیں۔

ہم اپنی کتاب " مع الصادقین" میں ابوبکر وعمر اور عثمان کے اجتہاد کے متعلق بحث کر چکے ہیں اسی طرح " فاسئلوا اہل الذکر میں اشارہ کرچکے ہیں ، انشاء اللہ مستقبل میں ان کے اجتہاد سے متعلق خاص کتاب پیش کریں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اسلامی تشریع کے دو اساسی مصادر ( قرآن و سنت)  میں کچھ مصادر کا بھی اضافہ کرتے ہیںمن جملہ ان کے شیخین ابوبکر عمر" کی سیرت اور صحابہ کا اجتہاد ہے ۔ اور اس کا سرچشمہ ان کا وہ اعتقاد ہے جس میں نبی(ص) کو غیر معصوم کہا جاتا ہے ، بلکہ کہا جاتا ہے نبی(ص) اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے چنانچہ بعض صحابہ آپ کی رائے کی اصلاح کرتے تھے۔

 اس سے ہم پر یہ بات عیاں ہوجاتی  ہے کہ جب اہل سنتوالجماعت  یہ کہتے ہیں کہ نبی(ص) معصوم نہیں تھے تو اس قول سے وہ شعوری یا لاشعوری طور پر  نبی(ص) کی مخالفت کو جائز  قرار دیتے ہیں۔

اور عقلی اور شرعی اعتبار سے غیر معصوم کی طاعت واجب نہیں ہے اور جب تک ہمارا یہ اعتقاد رہے گا کہ رسول(ص) سے خطا سرزد ہوتی تھی اس وقت ! ان کی طاعت واجب نہیں ہوگی۔ اور پھر خطا کار کی کیسے طاعت کریں؟

۴۰۷

اسیطرح یہ بھی ہم جپر واضجح ہوگیا کہ شیعہ نبی(ص) کو مطلق طور پر معصوم مانتے ہیںاور آپ(ص) کی طاعت کو واجب سمجھتے ہیں کیوں کہ آپ(ص) معصوم عن الخطا ہیں۔ پس کسی بھی صورت میں آپ کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے اور جو آپ(ص) کی مخالفت کرے گا یا آپ(ص) سے منہ پھرائےگا وہ اپنے پروردگار کی نافرمانی کرے گا جیسا کہ متعدد  آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

             جو رسول(ص) تمھارے پاس لائے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔( حشر/۷)

             اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اطاعت کرو۔ (آل عمران/۱۳۲)

             کہدیجئیے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میرا تباع رکرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔(آل عمران/۳۱)

اور بہت سی آیتیں ہیں جو  مسلمانوں پر نبی(ص) کی اطاعت کو واجب قرار دیتی ہیں اور  آپ(ص) کی مخالفت و نافرمانی سے روکتی ہیں کیونکہ آپ(ص) معصوم ہیں اور نبی(ص) اسی امر کی تبلیغ کرتے ہیں جس کا خدا کی طرف سے حکم ہوتا ہے۔

اور اس سے یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ شیعہ ہی اہل سنت ہیں۔ کیوں کہ وہ سنت کو معصوم تسلیم کرتے ہیں اور اس کے اتباع کو واجب سمجھتے ہیں اسی سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ" اہل سنت والجماعت" سنت نبی(ص) سے بہت دور ہیں۔ کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ سنت میں خطا واقع ہوئی ہے۔ اور اس کی مخالفت کرنا جائز  ہے۔

سب ایک ہی دین پر تھے۔ پس خدا نے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا اور ان کے ساتھ بر حق کتاب بھی نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان اختلاف

۴۰۸

 والی چیزوں کا فیصلہ کریں اور اس حکم سے ان لوگوں نے اختلاف کیا جن کو کتاب دی گئی تھی جب ان کے پاس خدا کے صاف صاف احکام آچکے اور انھوں نے پھر شرارت کی تو خدا نے اپنی مہربانی سے ایمانداروں کو راہ حق دکھا دی جس میں ان لوگوں نے اختلاف ڈال رکھا تھا۔ اور خدا  جس کو چاہتا ہے راہِ راست  کی ہدایت کرتا ہے۔ (بقرہ/۲۱۳)

۴۰۹

ڈاکٹر موسوی اور ان کی کتاب اصلاح شیعہ

کچھ روشن فکر اور ذہین نوجوانوں سے پیرس میں میری ملاقات میرے عالم جوانی کے دوست اور خاندانی عزیز کے دولت خانہ پر اس وقت ہوئی جب طویل انتظار کے بعد خدا نے انھیں فرزند عطا کیا تھا اور اس پر انھوں نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا تھا ، وہاں ہمارے درمیان شیعہ  اور سنی کے موضوع پر  بحث چھڑ گئی شیعوں پر تنقیدیں کرنے میں الجزائر کے اکثر وہ لوگ تھے جو اسلامی انقلاب میں پیش پیش ہیں۔ وہ خیالی داستانوں کو دھرا رہے تھے، ان میں آپس میں بھی اختلاف تھا۔ بعض منصت مزاج کہہ رہے تھے کہ شیعہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بعض کہہ رہے تھے شیعہ گمراہ ہیں۔

اور جب ہم نے سنجیدگی سے بحث و استدلال شروع کیا تو ان میں سے بعض میرا مذاق اڑانے لگے اور یہ کہنے لگے تیجانی ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہوگئے ہیں، میرے دوست نے انھیں یہ بات باور کرانے کی لاکھ کوشش کی کہ میں بڑا محقق ہوں اور حاضرین کے سامنے میری تعریف  کرتے ہوئے کہا، انھوں نے اس موضوعات پر  متعدد کتابیں تحریر کی ہیں۔

لیکن ان میں سے ایک نے کہا: میرے پاس ایک دلیل و حجت ہے کہ جس کے بعد کوئی دلیل

۴۱۰

و حجت نہیں ہے، سب خوموش ہوگئے میں نے اس حجت کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا: چند منٹ کی اجازت دیجئے، وہ دوڑتا ہوا اپنے گھر گیا اور ڈاکٹر موسی موسوی کی کتاب" الشیعہ والتصحیح" لایا، جب میں نے کتا ب دیکھی تو مجھے ہنسی آگئی اور کہا ، کیا  یہی وہ حجت ہے۔ جس کے بعد کوئی حجت نہیں؟ وہ حاضرین کی طرف ملتفت ہوا اور کہنے لگا۔

یہ شیعوں کا بہت بڑا عالم اور ان کے مراجع میں سے ایک مرجع ، اس کے پاس اجازہ اجتہاد بھی ہے اور اس کے باپ دادا شیعوں کے بڑے علما میں شمار ہوتے تھے لیکن اس نے حق پہچان لیا اور شیعیت چھوڑ کر مذاہب اہل سنت والجماعت اختیار کر لیا۔

اور مجھے یقین ہے کہ اگر میرے بھائی ( تیجانی) بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتے تو شیعیت سے کبھی دفاع نہ کرتے اور ان (شیعوں) کے انحرافات کو پہچان لیتے۔

مجھے ایک مرتبہ پھر ہنسی آگئی اور اس سے کہا: میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں نے اسے ایک محقق کی حیثیت سے پڑھا ہے اسی کتاب سے میں سب کے سامنے آپ کو وہ  حجت پیش کروں گا کہ جس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے۔

             حاضرین کے ساتھ اس نے افسوس کے ساتھ کہا: لائیے ہم بھی تو سنیں۔

             میں نے کہا مجھے کتاب کا صفحہ تو یاد نہیں ہے لیکن اس کی شہ سرخی یاد ہے میں نے اسے اچھی طرح یاد کیا ہے۔ اور وہ  ہے۔ اقوال ائمہ الشیعہ فی الخلفاء الراشدین" شیعوں کے ائمہ کے اقوال خلفائے راشدین کے بارے میں۔

             اس نے کہا: اس میں کیا ہے؟

میں نے کہا : اسے حاضرین کے سامنے پڑھیئے اس کے بعد  میں آپ کے سامنے وہ حجت پیش  کروں گا۔

اس نے  وہ عبارت نکالی اور حاضرین کے سامنے پڑھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ " امام جعفر صادق(ع)" اپنے کو ابوبکر سے نسبت دینے پر افتخار کرتے تھے  چنانچہ ایک مرتبہ آپ(ص) نے فرمایا کہ

۴۱۱

 مجھے! ابوبکر سے دھری نسبت ہے اور جن لوگوں نے اس روایت کو بیان کیا ہے ان ہی لوگوں نے وہ روایت بھی نقل کی ہیں کہ جن امام جعفر صادق(ع) نے ابوبکر پر لعن طعن کی ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر موسوی  حاشیہ لگاتے ہیں کہ کیا یہ بات معقول ہے کہ ایک مرتبہ امام جعفر صادق(ع)  ایک لحاظ سے اپنے جد (ابوبکر) پر فخر کریں اور دوسری مرتبہ دوسرے اعتبار سے ان پر لعن طعن کریں؟ اس قسم کی باتیں تو  کوئی بازاری ہی کرسکتا ہے۔ امام ایسی بات کہہ سکتے یں؟

تمام حاضرین نے مجھ سے پوچھا ، اس میں کیا حجت ہے؟ نیز سب نے کہا یہ تو معقول اور  منطقی بات ہے۔

میں نے کہا : امام جعفر صادق(ع) کے اس قول سے کہ مجھے ابوبکر سے دھری نسبت ہے۔ ڈاکٹر موسوی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے جد پر فخر کرتے ہیں۔ جب کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس سے ابوبکر کی مدح و ستائش ہو اور  پھر امام صادق(ع)  ابوبکر کے خاص نواسے نہیں ہیں بلکہ ابوبکر آپ(ع) کی مادر گرامی کے جد ہیں کیوں کہ امام صادق(ع) ابوبکر کی وفات سے ستر(۷۰) سال  کے بعد  متولد ہوئے ہیں آپ(ع) نے ہرگز ابوبکر کو نہیں دیکھا۔

سب نے کہا اس  سے ہم آپ کا مقصد سمجھ گئے کیا ہے؟!

میں نے کہا : اس شخص کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے کہ جو کہ اپنے خاص جد او ر اپنے باپ کے والد پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے معاصرین میں اعلم ہوں اور تاریخ اس کا مثل پیش نہیں کرسکتی اور پھر  کہے کہ میں نے ان سے درس و ادب حاصل کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی ان پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اور   کی اایک عقلمند انسان اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ کسی شخص پر ایک اعتبار سے افتخار کرے اور دوسری جہت سے اسے کافر ثابت کرے؟!

سب نے کہا: یہ تو معقول نہیں ہے اور کبھی نہیں ہوسکتا۔

میں نے کہا اس کتاب کے پہلے صفحہ کی عبارت پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ ڈاکٹر موسوی ایسے ہی ہیں۔

۴۱۲

اس نے پڑھا : میں نے اس گھر میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا جس کے ہاتھ شیعوں کی قیادت تھی اور میں نے اس شخص سے درس پڑھا جس کو تاریخ تشیع میں زمانہ غیبت میں زعیم اکبر اور دینی قائد کہا جاتا ہے اور وہ ہیں میرے جد امام الاکبر السید ابوالحسن الموسوی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہانھوں نے اپنے سے پہلے کے علما کی یاد کو بھلا دیا تھا اور بعد والوں کے لئے مثال چھوڑدی  تھی۔

میں نے کہا ، حمد خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے خود موسوی کی زبان سے اس حجت کا اظہار کرادیا اور اس نے خود اپنے خلاف فیصلہ کردیا جیسا کہ آپ نے اس کا قول پڑھا ہے کیا یہ معقول ہے کہ ایک جہت سے اپنے جد پر افتخار کریں اور دوسرے لحاظ سے ان پر اعتراض کریں؟ جب کہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ایسی بات تو کوئی بازاری ہی کہہ سکتا ہے۔

اور یہ  وہ شخص  ہے جو اپنے دادا کے لئے ایسے عظیم اوصاف گنوارہا ہے جو کہ ان کے علاوہ بڑے بڑے علما کو نصیب نہ ہوئے اور اس بات کا دعویدار ہے کہ میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ کیا ہے اور ان ہی سے حاصل کئے ہیں ان تمام باتوں کے بعد تو انھیں جاہل و بازاری ہی مورد طعن ٹھہراتا ہے۔

اس سے تمام حاضرین کے سر جھک گئے اور میرے صاحب خانہ نے مسکراتے ہوئے کہا : کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ برادرم تیجانی  موضوع اور منطق کے مطابق بحث کرتے ہیں؟

میں نے جواب دیا: اگر حقیقت یہ ہوتی جو آپ  کہہ رہے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو اپنے جد اور اس استاد سے برائت کا اظہار کرنا واجب تھا جس نے انھیں اجتہاد کا اجازہ دیا ہے ان پر افتخار کرنا جائز نہیں تھا ایک طرف ان کو لاشعوری طور پر کافر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف ان پر فخر کرتا ہے۔

اگر میں ڈاکٹر موسوی کی تحریر کے متعلق آپ سے مباحثہ کرنا چاہتا تو تمھیں حیرت انگیز  چیزیں دکھا دیتا۔

ان اشکالات کے شروح اور توضیحات کے بعد اس ملاقات کا اختتام بحمد اللہ مثبت نتائج

۴۱۳

 پر ہوا، ان بحث کرنے والوں میں سے بعض تو میری تینوں کتابوں کو مطالعہ کرنے کے بعد شیعیت سے قریب ہوگئے ہیں۔

اس موقع سے  فائدہاٹھا کر قارئین  محترم کے سامنے اپنی اس تحریر کو پیش کرتا ہوں جو کہ میں نے " الشیعۃ والتصحیح" کے متعلق عجلت میں قلم بندی کی تھی، کیوںکہ مذکورہ کتاب نے وہابیوں کے علاقوں میں بہت مقبولیت پیدا کی ہے ، پھر وہابیوں کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں ہے بعض علاقوں میں ان کا خاص اثر و نفوذ ہے لہذا و ہ ان نوجوانوں کو دامِ فریب میں پھنسا لیتے ہیں جو کہ شیعیت کو نہیں پہچانتے ہیں، اس کتاب کے ذریعہ انھیں بہکانے ہیں اور انھیں مفید تحقیق کرنے سے منع کرتے ہیں اور اس طرح ان کےاور حقیقت کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ یہ اعتراض کرنے والے ڈاکٹر موسوی کی کتاب "  الشیعہ و التصحیح " کوشیعوں پر حجت قرار دیتے ہیں۔ اس کتاب کو ان حکومتوں نے ملینوں کو تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا ہے کہ جن کے مقاصد کو ہر خؒاص وعام جانتا ہے۔ ان نے  چاروں کا خیال خام یہ ہے کہ انھوں نے مذکورہ کتاب کو نشر  و اشاعت کے ذریعہ شیعوں کی دہجیاں اڑادی ہیں تاکہ یہ حجت بن جائے اور پڑھنے والے پڑھ لیں، کیوں کہ اس کے مصنف " آیت اللہ موسوی"  شیعہ تھے۔

لیکن وہ بے چارے بعض چیزوں سے بے خبر ہیں انھوں نےت اس کتاب کا مطالعہ صحیح طور پر تجزیہ ہی نہیں کیا ہے اور اس سے رونما ہونے والے ان بھیانک نتائج کے بارے نہیں سوچا کہ جو ان کے لئے وبال جان بن جائیں گے۔

میں نے خود ڈاکٹر موسی موسوی کے جھوٹ کے پلندے کا جواب لکھنے میں اپنا قیمتی وقت نہیں صرف کروں گا، میں سمجھتا ہوں  کہ میری کتاب" مع الصادقین" موصوف کے مفتریات کے مسکت جواب ہے اگر چہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس کتاب سے قبل ایک کتابچہ تحریر  کیا تھا کہ  جس میں شیعوں کے ان معتقدات کا اظہار کیا تھا کہ جن کا مدار قرآن مجید اور نبی(ص) کی صحیح سنت اور بمع اہلسنت و الجماعت تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اور ہم نے ان کے ہر ایک عقیدہ کو اہل سنت والجماعت کی صحاح سے ثابت کیاہے۔

۴۱۴

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر موسیٰ موسوی کا کلام خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس پر نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی اسلامی منطق بلکہ وہ شیعوں سے پہلے اہل سنت والجماعت پر طعن و تشنیع ہے۔

اور  یہ بھی عیاں ہے کہ اس کی کتاب کو رواجدینے والے افراد اسلامی حقائق سے بلکل بے خبر  ہیں اور اس سے ان کی جہالت و حقیقت کا  انکشاف ہورہا ہے۔

اور عقائد شیعہ میں سے جس چیز پر بھی موصوف نے تنقید کی ہے اور ان پر زبان طعن دراز کی ہے وہ بحمد اللہ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجو د ہے۔

پس اس سے شیعوں پر کوئی نقص نہیں وارد ہوا بلکہ خود ڈاکٹر موسیٰ موسوی اور اہل سنت والجماعت میں عیب نکلا ہے کہ جنھیں یہی معلوم نہیں ہے کہ ان صحاح و مسانید میں کیا بھرا  پڑا ہے۔

پس امامت کا قائل ہونا اور ان بارہ(۱۲) خلفا کی خلافت پر نص جو کہ سب قریش سے ہوں گے  یہ شیعوں کی ایجاد نہیں ہے یہ تو اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔ اور امام مہدی(ع) کے وجود کا قائل ہونا اور یہ کہ وہ عترتِ طاہرہ(ع)  میں سے ہونگے اور اسی طرح زمین کو عدل و اںصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم وجور سے پر ہوچکی ہوگی، بھی شیعوں کی من گھڑت نہیں ہے یہ بھی اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اور اس بات کا قائل ہونا کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) رسول اللہ(ص) کے وصی ہیں یہ بھی شیعوں کی بدعت نہیں ہے بلکہ یہ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اسی طرح تقیہ پر عمل کرنا اور اس کو صحیح تسلیم کرنا بھی شیعوں کے خیال کی پیداوار نہیں ہے بلکہ تقیہ کے سلسلہ میں قرآن میں آیت نازل ہوئی ہے اور یہ سنت نبوی(ص) سے ثابت ہے اور یہ سب کچھ اہل سنت والجماعت کی صحاح میں موجود ہے۔

اور متعہ کو جائز و حلال ماننا بھی شیعوں کی ذہنی اپج نہیں ہے بلکہ اسے تو خدا اور اس کے رسول(ص) نے حلال قرار دیا ہے اور عمر ابن خطاب نے حرام قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی

۴۱۵

صحاح میں موجود ہے۔

اور سال بھی کی آمدنی میں سے خمس نکالنے کو صحیح تسلیم کرنا بھی شیعوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اسے بھی کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) نے واجب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی صحاح گواہی دے رہی ہیں۔

اور بداء کا قائل ہونا اور یہ کہ خدا جس کو چاہتا ہے محو فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثبت فرماتا ہے، یہ بھی شیعوں کی خیالی پلاؤ نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری سے ثابت ہے۔

اور بغیر عسر و ضرورت کے " جمع بین الصلاتین" یعنی دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا قائل ہونا بھی شیعوں کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کا حکم ہے اور اس پر رسول(ص) نے عمل کیا ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کی صحاح سے ثابت ہے۔

خاک شفا پر اور زمین پر سجدہ کرنا  بھی شیعوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ سید المرسلین(ص)  نے بھی زمین ہی  پر سجدہ کیا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت  کی صحاح سے ثابت ہے۔

اور اس کے علاوہ جو  باتیں ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے کہی ہیں کہ جن کا مقصد صرف تہویل و تھریج ہے، جیسے تحریف قرآن کو دعوا ، تو اہل سنت والجماعت اس تہمت کے زیادہ مستحق ہیں جیسا کہ اس سلسلہ میں ہم اپنی کتاب " مع الصادقین" میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔

مختصر یہ کہ ڈاکٹر موسیٰ موسوی کی  تالیف ، اصلاح شیعہ" پوری پوری قررآن و سنت رسول(ص) ،اجماع مسلمین اور عقل  و وجدان کے سراسر خلاف ہے۔

موسوی نے بہت سے ضروریات دین کا انکار کیا ہے جب کہ وہ کتابِ خدا میں موجود ہیں اور رسول(ص) نے ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے اور ان پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور ان کا انکار کرنے والا مسلمانوں کےاجماع سے کافر  ہے۔

پس اگر موسوی کی مراد اس " اصلاح" سے ان کا عقائد و احکام کا بدلنا ہے تو وہ ( موسوی) کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور تمام مسلمانوں پر اس کا مقابلہ کرنا واجب ہے۔ اور اگر "اصلاح "

۴۱۶

 مراد خود اپنے عقائد بدلنا ہے جیسا کہ ان کی کتاب سے میری سمجھ میں یہی آیا ہے  لیکن موصوف کی تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد کےقتل کا ذمہ دار شیعوں کو ٹھہرایا تھا ( جیسا کہ ص۵ پر تحریر کرتے ہیں) قاتل مذہبی شخص کے لباس میں تھا ۔ اور میرے باپ کو جانور کو طرح ذبح کردیا گیا تھا۔

شیعوں کے بارتے میں بچپن ہی سے ان کایہ عقیدہ تھا جب کہ ان کا اس قتلجسے کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن انھوںنے اہل سنت والجماعت کی طرف رخ پھیرا لیا اور اہل بیت(ع) کا اتباع کرنے والوں سے بغض کینہ میں ان کےشریک بن گئے جب کہ وہاں کوئی مقام نہ ملا اب نہ وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ، وہ صرف ان باتوں سے واقف ہیں جو شیعوں کے دشمن نے ان کی طرف منسوب کردی ہیں اور اسی طرح اہل سنت والجماعت کےمتعلق سوائے نماز جمعہ کے ( اگر شریک ہوتے تو) کچھ نہیں جانتے ہیں۔

اگر اصلاح سےان کی یہی مراد ہے تو ان پر ان غلط و فاسد  عقائد کی اصلاح کرنا واجب ہےکہ جن سے امت کےاجماع کی مخالفت کی ہے۔

پس جب ڈاکٹر موسیٰ موسوی نے تعلیم و تربیت ( جیسا کہ انھوں نے اپنی کتاب کے صفحہ ۵ پر  تحریرکیا ہے ) اور درس و ادب اس شخص سے حاصل کیا ہے کہ جس کو آج تک تاریخ تشیع میں دینی قائد اور زعیم اکبر کہا جاتا ہے اور وہ ہیں خود ان  کے دادا  امام اکبر ابوالحسن موسوی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پہلے والوں کی یاد فراموش کردی اور  آنے والوں کو  عاجز کردیا۔ ڈاکٹر نے ان کے دروس کو حفظ نہ کیا اور ان کے آداب سے آراستہ نہ ہوئے اور ان کے راستہ کو اختیار نہ کیا ، ان کے علم سے سیراب نہ ہوئے بلکہ ہم تو انھیں ان کی جد امام اکبر اور زعیم دینی کے عقائد کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر نے اپنے والدین کو عاق کردیا ہے۔ بلکہ اس کا عاق یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس نے اپنے دادا اور والدین کو کافر قرار دیدیا ہے۔ پس جب موسوی کی نظروں میں شیعہ کافر ہیں تو ان کے قائد  بھی جو کہ موسوی کےجد ہیں ۔ کفر سے

۴۱۷

 زیادہ قریب ہیں۔

ڈاکٹر موسوی کا اپنے جد ابوالحسن الموسوی ( رحمۃ اللہ) کی کتاب " وسیلۃ النجاۃ" سے جاہل رہنا ایسا ننگ و عار ہے کہ جس کے بعد کوئی ننگ و عار نہیں ہے اور پھر یہ دعوی ہے کہ میں (ڈاکٹر موسوی) نے ان کے سامنے زانوائے تلمذ تہ کیا ہے!

اور اس سے بڑی رسوائی یہ ہے کہ تیونس  کا ایک جوان جو کہ نجف اشرف سے ہزاروں کلومیٹر دور کا باشندہ ہے وہ امام اکبر ابوالحسن الموسوی کی کتاب " وسیلۃ النجاۃ" سے واقف ہے اور اس کے مطالعہ سے اہل بیت(ع) کے حقائق سے آگہی حاصل کرتا ہے جب کہ ان کا پوتا کہ جس نے ان کے گھر اور نگرانی میں تربیت پائی ہے وہ اس سے واقف نہیں ہے۔

امام اکبر ابوالحسن الموسوی اصفہانی( قدس سرہ) نے جو کچھ اپنی کتاب" وسیلۃ النجاۃ" میں تحریر کیا ہے اس کی ان کے پوتے ڈاکٹر موسوی نے تردید کی ہے اور مرحوم کا مذاق اڑاتا ہے اور انھیں دائرہ اسلام سے خارج جانا ہے۔

منطق یہ کہتی ہے کہ اگر اس امام اکبر اور قائد دینی کا عقیدہ صحیح و سالم ہے تاریخ شیعیت میں جس کی مثال نہیں ملتی( جیسا کہ ان کے پوتے کا نظر یہ ہے) تو ان کے پوتے کا عقیدہ کفر و  گمراہی ہے۔

اور اگر ان کےپوتے ڈاکٹر موسیٰ موسوی کا عقیدہ صحیح و سالم ہے تو ان کے جد کا عقیدہ کفر و ضلالت ہے، اس صورت میں ڈاکٹر کا ان سے برائت کا اظہار کرنا واجب ہے اور ان سے نسبت پر افتخار کرنا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ان کی نگرانی میں تربیت پانے کا قصیدہ پڑھنا صحیح ہےجیسا کہ موصوف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں فخر وفروشی کی ہے۔

اس منطق اور اس حجت سے ڈاکٹر موسوی کے اس اجازہ اجتہاد کو بھی دیوار پر دے مارا جاتا ہے جو کہ اس نے آلِ کاشت الغطا سے حاصل کیا تھا۔

اوّلا : کیونکہ انھوں نے اپنی کتاب میں جو اجازہ اجتہاد کی فوٹو کاپی شائع کی ہے وہ

۴۱۸

 فقط اجازہ روایی ہے اور یہ کوئی خاص اجازہ نہیں ہوتا ہے بلکہ مراجع عظام اکثر طلبا کو دیدیتے ہیں۔ میرے پاس خود ایسے ہی دو اجازے ہیں ایک آیت اللہ العظمی خوئی(رح) نے نجف میں دیا تھا اور دوسرا آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی(رح) نے قم میں دیا تھا۔

پس روائی اجازہ کی اسلامی فقہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر موسوی نے ان لوگوں کو فریب دیا ہے جو کہ حوزات علمیہ کے درسی مراحل سے ناواقف ہیں۔

ثانیا: امام اکبر کا پوتا تصحیح و اصلاح کا دعوا  کرتا ہے لہذا اس نے اس امانت میں خیانت کی ہے جو کہ اسے اس کے استاد نے دی تھی ، موسوی کا دعویٰ ہےکہ اس کے پاس اجازہ اجتہاد ہے جب کہ مرجع دینی، زعیم حوزہ علیہ نجف اشرف مرحوم شیخ محمّد حسین آلِ کاشف الغطا نے اس اجازہ میں کہ جس کو موسوی نے اپنی کتاب میں شائع کیا ہے۔ صاف طور پر تحریر کیا ہے کہ میں نے انھیں ان کی اہلیت کی بنا پر یہ اجازت دیتا ہوں کہ وہ مجھ سے ان روایات کو نقل کرسکتے ہیں جن کی صحت میرے نزدیک بزرگوں اور اساتذہ کرام کے ذریعہ ثابت ہے۔

اور ہم نےیہ دیکھا  ہے کہ موسوی ہر اس چیز کا مذا ق اڑاتا ہے کہ جس کو مرجع دینی اور زعیم حوزہ علمیہ آل کاشف الغطا  نے اپنے بزرگوں اور اساتذہ کرام سے اپی کتاب " اصل الشیعہ و اصولہا" میں نقل کیا ہے ۔ اس کتاب میں انھوں نے شیعوں کےسارے معتقدات اور احکام نقل کئے ہیں۔

پس کتاب الشیعہ والتصحیح کی جس کو ان کے خیانت کار شاگرد نے تحریر کیا ہے  کتاب اصل الشیعہ و اصولہا، مؤلفہ مرجع اعلیٰ کاشف الغطاء کے سامنے کیا حیثیت ہے۔

جب کاشف الغطا اعلیٰ دینی مرجع ہیں اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کے زعیم ہیں جیسا کہ موسوی نے اپنی کتاب کے ص۱۵۸ پر اس کا اعتراف کیا ہے اور جب موسوی اس اجازہ کےذریعہ افتخار کرتا ہے جو کہ تیس(۳۰) سال قبل اس نے کاشف الغطا سے حاصل کیا تھا تو ان کا ادنیٰ و حقیر شاگرد اپنے اس استاد کے متعقدات کا کیسے مذاق اڑاتا ہے کہ جس نے اسے تعلیم دی اور ان کے خیال کے مطابق اجازہ اجہتاد  بھی دیا؟پس اگر زعیم حوزہ علمیہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطا حق پر ہیں اور ان کے معتقدات صحیح ہیں

۴۱۹

 تو موسوی باطل پر ہیں اور اس کے سارے معتقدات غلط ہیں۔

اور اگر دینی مرجع باطل پر ہے اور ان کے معتقدات غلط ہیں اور موسوی ان کا مضحکہ اڑاتا ہے تو موسوی پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو یہ فریب نہ دے کہ وہ اسلامی فقہ میں  درجہ اجتہاد پر فائز ہے اور زعیم حوزہ نے اس کو اجازہ اجتہاد دیا ہے۔

اور اگر موسوی کے معتقدات صحیح ہیں جیساکہ وہ خود  دعویدار ہیں، تو انھوں نے اپنے جد سید ابو الحسن موسوی اصفہانی کو کافر  قرار دیدیا کہ جن کو وہ خود کہتے ہیں کہ وہ تاریخ تشیع میں غیبت سے آج تک زعیم اکبر اور دینی قائد شمار ہوتے ہیں۔

جیسا کہ ڈاکٹر موسوی نے اپنے استاد اور اجازہ دینے والے کاشف  الغطا کو کافر قرار دیا اور روز سقیفہ سے لے کر آج تک کے ملینوں شیعوں کا کافر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں ڈاکٹر  موسی موسوی کی کتاب " الشیعہ والتصحیح پڑھتے وقت اپنے پروردگار سے یہ عہد کیا تھا کہ میں پڑھنے سے پہلے کوئی حکم نہیں لگاؤں گا چنانچہ میں نے انہماک کے ساتھ مطالعہ شروع کیا ۔ شاید مجھے کوئی ایسی چیز مل جائے۔

جو مجھ سے چھوٹ گئی تھی اور  میرا نقص کا مل ہوجائے ۔لیکن مجھے اس میں جھوٹ تناقضات نصِ قرآن کی مخالفت ، سنت نبی(ص) کا استہزا، اور مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت کے سوا کچھ نہ ملا۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ موسوی نے صحیح بخاری بھی پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے جو کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک صحیح ترین کتاب ہے اور ڈاکٹر موسوی نےاپنے خیال خام کے مطابق جن چیزوں کو شیعوں سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیعہ حکم خدا کو پس پشت ڈالدیتے ہیں۔ اگر یہ جید عالم صاحب کہ جس نے ظاہرا بیس(۲۰) سال کی عمر میں فقہ اسلامی میں اجازہ اجتہاد  حاصل کرلیا تھا ( خدا  جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے ) کیوں کہ اس کے بعد موصوف نے ۱۹۵۵ء میں تہران یونیورسٹی سے فقہ اسلامی میں ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی تھی اور اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ؁۱۹۳۰ء میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے تھے اور ۱۹۵۹ء میں پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔

۴۲۰