شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے0%

شیعہ ہی اہل سنت ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب
صفحے: 431

شیعہ ہی اہل سنت ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 431
مشاہدے: 105388
ڈاؤنلوڈ: 5931

تبصرے:

شیعہ ہی اہل سنت ہے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 431 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105388 / ڈاؤنلوڈ: 5931
سائز سائز سائز
شیعہ ہی اہل سنت ہے

شیعہ ہی اہل سنت ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اگر وہ حقیقت میں اہلِ سنت ہوتے تو اپنے شیعہ بھائیوں کو اس کلمہ پر اتفاق کی ضرور دعوت دیتے جو ان کے اور شیعوں کے درمیان مساوی ہے۔

کیوں کہ اسلام تو اپنے دشمنوں یہود و نصاری کو مساوی کلمہ پر تفاہم  و اتحاد کی دعوت  دیتا ہے، تو وہ لوگ  آپس میں کیوں متحد نہیں ہوتے کہ جن کا خدا ایک، قبلہ ایک اور مقصد ایک ہے۔

پس علمائے اہلِ سنت اپنے شیعہ بھائی علماء کو کیوں دعوت نہیں دیتے،ان کے ساتھ بحث کی میز پر کیوں نہیں بیٹھتے اور احسن طریقہ سے ان سے مناظرہ کیوں نہیں کرتے اور اگر ان کے عقائد فاسد ہیں تو ان کی اصلاح کیوں نہیں کرتے ؟

ایک اسلامی کانفرنس منعقد کیوں نہیں کرتے کہ جس میں فریقین کے علماء شریک ہوں، اور اختلافی مسائل  کو تمام مسلمانو ں کے سامنے پیش کریں تا کہ وہ بھی راہِ راست اور کذب و بہتان سے آگاہ ہوجائیں۔

خصوصا اہلِ سنت والجماعت جو کہ پوری دنیا کے مسلمانو ں کو ۳/۱ ہیں اور ان کے پاس مادی امکانات بھی ہیں اور حکومتوں میں بھی ان کا اثر و رسوخ ہے ان کے لئے یہ بہت ہی آسان ہے کیوں کہ وہ تو فضائی سیارات کے بھی مالک ہیں۔

لیکن اہلِ سنت والجماعت ایسا ہرگز نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس علمی مقابلہ کے لئے تیار ہوسکتے ہیں کہ جس کی طرف کتابِ خدا دعوت دے رہی ہے۔

" اے رسول(ص) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اپنے دعوا میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔"( بقرہ آیت ۱۱۱)

۸۱

" اے  رسول(ص) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم کچھ جانتے ہو تو ہمارے سامنے بھی پیش کرو، تم لوگ توصرف خیالِ خام کی پیروی کرتے ہو  اور اٹکل  بچو باتیں کرتے ہو۔( انعام آیت ۱۴۸)

اسی لئے آپ انھیں شیعوں پر سب و شتم کرتے ہوئے اور بہتان و افتراء باندھتے ہوئے پائیں گے اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ دلیل و حجت شیعوں ہی کے پاس ہے۔

میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اہلِ سنت والجماعت  ایسا کرنےسے اس لئے ڈرتے ہیں کہ کہیں حقائق کے انکشاف پر اکثر مسلمان شیعہ نہ ہوجائیں۔

جیسا کہ مصر کی یونیورسٹی کے اکثر علماء کے ساتھ ہوا ہے انھوں نے حق کی تلاش میں زحمتیں اٹھائیں تو انھیں حق ملا اور انھوں نے مذہبِ شیعہ اختیار کرلیا اور عقیدہ سلفِ صالح کو چھوڑ دیا۔

اہلِ سنت کے علماء اس خطرہ کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں کہ جو  ان کے نظام کو درہم برہم کرنے کے لئے چیلنج ہے اسی لئے انھوں نے اپنے مقلدوں اور اتباع کرنے والوں پر  شیعوں کے پاس بیٹھنا حرام قرار دیدیا ہے  اسی طرح ان (شیعوں ) سے بحث کرنے ، ان کی لڑکی سے شادی کرنے انھیں لڑکی دینے اور ان کے ذبیحہ کے کھانے کو حرام قرار دیدیا ہے۔

ان کے اس موقف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ سنتِ نبی(ص) سے کتنا دور ہیں اور سنتِ اموی سے کتنا نزدیک ہیں کہ  جنھوں نے امتِ محمدی(ص)  کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ گمراہ کرنا چاہا کیوں کہ ذکرِ خدا کےلئے ان کے دل نرم نہیں تھے اور نہ ہی اس کا نزول  حق کی طرف سے مانتے تھے زبردستی اسلام قبول کیا تھا۔

جیسا کہ حکومت حاصل کرنے کی غرض سے نیک صحابہ کو  قتل کرنے والے اہلِ سنت

۸۲

والجماعت  کے پیشوا معاویہ ابن ابی سفیان نے ایک خطبہ میں کہا تھا:

" میں نے تم سے نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے اور حج کرنے کے لئے جنگ نہیں کی ہے میں نے تو اس لئے جنگ کی ہے تاکہ تم پر میری حکومت قائم ہوجائے ۔سو خدا نے مجھے عطا کی جبکہ تم اس سے خوش نہیں ہو۔"

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

" جب بادشاہ بستیوں میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں برباد کردیتے  ہیں اور ان دیہاتوں کے باعزت و شرف لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں ، ایسا ہی انھوں نے کیا۔( نمل، آیت۳۴)

۸۳

اہلِ سنت ، شیعوں کی نظر میں

شیعہ عوام میں سے بعض متعصب لوگوں سے قطع نظر جو کہ اہلِ سنت والجماعت کو  ناصبی کہتے ہیں ، شیعوں کے گذشتہ اور موجودہ علماء  اہلِ سنت والجماعت کو اپنا بھائی سمجھتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اہلسنت بنی امیہ کے فریب میں آکر سلفِ صالح کے متعلق  حسن ظن رکھتے ہیں اور آنکھ  بند کرکے ان کی اقتداء کرتے ہیں۔ چنانچہ امویوں نے انھیں صراطِ مستقیم سے ہٹادیا اور ثقلین ۔ کتابِ خدا اور عترتِ رسول(ص) سے دور کردیا جو اپنے متمسک کو ضلالت و گمراہی سے محفوظ رکھتے ہیں اور اس کی ہدایت  کے ضامن ہیں۔

آپ نے شیعوں کو دیکھا ہوگا کہ جو کچھ لکھتے ہیں اپنے نفسوں سے دفاع اور اپنے معتقدات کی تعریف کے ساتھ ساتھ  اپنے سنی بھائیوں کو انصاف اور توحیدِ کلمہ کی دعوت دیتے ہیں۔

بعض شیعہ علماء نے تحقیق کی تکمیل اور مذاہت کو ایک چادر پر بٹھا کر گفتگو کرنے کےسلسلہ میں مختلف ملکوں اور شہروں میں مراکز قائم ہیں۔

اور ان میں سے بعض نے اہلِ سنت کے منارہ "علم و معرفت ازہر شریف" تک پہنچ

۸۴

کر بحث و مباحثہ کیا ہے او ازہر کے علماء سے (علمی) مقابلہ کیا ہے اور ان سے بطریق احسن مناظرہ کیا ہے اور بٖغض و عداوت  دور کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ امام شرف الدین موسوی نے مولانا سلیم الدین بشری سے ملاقات کے دوران مناظرہ کیا تھا اور اسی ملاقات و خط و کتابت کے نتیجہ  میں المراجعات نامی کتاب وجود میں آئی تھی ان کا مسلمانوں کو ایک  دوسرے سے قریب لانے میں بہت بڑا کردار  رہے۔ اس طرح مصر میں شیعہ علماء کی کوشش کامیاب ہوئی اور امام محمود شلتوت مفتی مصر نے اس وقت یہ فتوا دیا کہ شیعی جعفری مذہب قبول کرنا جائز ہے اور اسی وقت سے جامعہ ازہر میں فقہ جعفری کا درس دیا جانے لگا۔

ائمہ معصومین (ع) اور مذہب جعفری کے سلسلہ میں یہ ہے شیعہ اور خصوصا ان کے علماء کا کردار ،مذہب جعفری ہر طرح سے اسلام کی مکمل تصویر ہے، اس سلسلہ میں انھوں نے بہت سی کتابیں اور مقالات تحریر کئے ہیں اور اجتماعات منعقد کئے ہیں خصوصا ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں وحدتِ اسلامی کے نام سے اور تقریب المذاہب کے عنوان سے کانفرنس منعقد  ہوتی رہتی ہیں اور سب بغض و عداوت  کو ترک کرنے کی سچی دعوت ہیں اور سب  کا مقصد  مسلمانوں میں بھائی چارگی کی روح  پھونکنا اور ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ رکھنا ہے۔

ہر سال وحدتِ اسلامی کانفرنس میں شیعہ و سنی  علماء اورمفکرین کو بلایا جاتا ہے اور یہ لوگ ایک ہفتہ تک سچی اخوت کے سایہ میں زندگی گذارتے ہیں ، ایک دوسرے کےساتھ کھاتے پیتے  رہتے ہیں ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں ۔ دعا کرتے ہیں ۔ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے افکار سے استفادہ کرتے ہیں۔

ان کانفرنسوں کا مقصد تالیف قلوب  اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانا ہے ۔ تاکہ ایک دوسرے سے آشنا ہوجائیں  اور دشمنی کو چھوڑدیں یقینا اسی میں بھلائی اور  عظمت ہے اور عنقریب اس کا ثمرہ  انشاء اللہ مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا۔

۸۵

آپ کسی بھی شیعہ کے  گھر میں داخل ہو کر دیکھئے آپ کو وہاں شیعہ کتب کے ساتھ ساتھ اہلِ سنت کی کتابیں  ضرور  مل جائیں گی چہ جائیکہ علما اور روشن فکر شیعوں کے گھر میں نہ ملیں اس کے بر عکس اہلِسنت  والجماعت کے گھروں میں صرف ان کے علماء ہی کی کتابیں ملیں گی۔ شیعوں کی ایک کتاب بھی نہیں ملے گی اگر با فرض محال مل بھی گئی تو ایک یا دو کتابیں ملیں گی۔ اسی لئے اہلِ سنت حقائق شیعہ سے بے خبر رہتے ہیں ،انھیں فقط بہتانوں کا علم رہتا ہے جو شیعوں کے دشمن  تراشتے ہیں۔

ایک عام شیعہ کو  بھی آپ تاریخ اسلام سے آشنا پائیں گے کیونکہ وہ تاریخ کے  بعض واقعات کو محفوظ رکھنے کے لئے اجتماعات  منعقد کرتے ہیں۔

جبکہ سنی عالم کو بھی آپ تاریخ کو اہمیت دیتا ہوا نہیں دیکھیں گے وہ اسے بیہودہ داستان تصور  کرتے ہیں اور اسے کریدنے اور اس سے باخبر ہونے کو بہتر نہیں سمجھتے ہیں  بلکہ اس سے قطع نظر  کرنے کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے سلفِ صالح کے سلسلہ میں سوء ظن پیدا ہوتا ہے۔

جبکہ اس نے اپنے نفس  کو تمام صحابہ کی عدالت و پاکیزگی پر مطمئن کرلیا ہے اور اس چیز کی طرف مڑکر نہیں دیکھتا ہے جو تاریخ نے ان کے بارے میں محفوظ کی ہے۔ اسی لئے آپ ان کو اس شخص کے مقابلہ سے فرار ہی کرتا پائیں گے جو دلیل و برہان کے ذریعہ بحث کرتا ہے ۔ پس یا تو انھیں پہلے سے یہ معلوم رہتا ہے کہ ہم شکست کھاجائیںگے یا وہ عواطف  و میلانات  سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور جواپنے نفس کو تحقیق کی زحمت میں مبتلا کرتا ہے اور اس کےسارے معتقدات ہوا بن کر اڑجاتے  ہیں اور وہ اہلِ بیت(ع)   مصطفی(ص)  کا شیعہ بن جاتاہے۔

پس شیعہ ہی اہلِ سنت  ہیں کیوں کہ ان کے پہلے امام علی ابن ابی طالب (ع) نبی(ص) کے بعد سنتِ نبی(ص)  کےسایہ میں زندگی گذارتے ہیں اور اسی کی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ لوگ ان کے پاس

۸۶

خلافت لے کر آتے ہیں۔ بیعت کرنے پر تیار  ہیں ، لیکن اس شرط پر کہ سیرت شیخین پر عمل کرنا ہوگا۔ علی(ع)  فرماتے ہیں ، میں کتابِ خدا  اور سنت رسول(ص) کے علاوہ کسی کی سنت پر عمل نہیں کروں گا اور مجھے ایسی خلافت کی ضرورت نہیں ہے، جس میں سنت نبی(ص) پر تو عمل ہے لیکن کتابِ خدا سے کو سروکار نہ ہے، چنانچہ آپ فرماتےہیں ۔

" تمھاری خلافت میرے نزدیک ایسی ہی ہے جیسے بکری کے ناک سے بہنے والی رینٹھ، مگر یہ کہ میں حدودِ خدا میں سے کو ئی قائم کرسکوں۔"

آپ(ع)  کے فرزند امام حسین(ع)  کو مشہور قول ہے جو کہ رہتی دنیا تک سنا جاتارہے گا۔

" اگر دینِ محمد (ص) میرے قتل ہی سے قائم رہ سکتا ہے تو اے تلوارو! آؤ مجھے باڑپہ لے لو۔"

اسی لئے شیعہ اپنے سنی بھائیوں کو محبت سے دیکھتے ہیں گویا انھیں راہِ راست اور راہِ نجات پر لانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ شیعوں کے نزدیک کسی کی ہدایت کرنا ، جیسا  کہ صحیح روایات میں وارد ہوا ہے، دنیا و فیہا سے بہتر ہے۔ رسول(ص) نے فتحِ  خیبر کے لئے علی(ع)  کو بھیجتے وقت یہی فرمایا تھا:

" ان (یہودیوں) سےاس وقت تک جنگ کرنا جب تک کہ وہ کلمہلا اله الا الله و أنَ محمدا رسول الله" نہ پڑھ لیں، پس اگر وہ یہ کلمہ پڑھ لیتے ہیں تو پھر ان کی جان و مال سے متعرض نہ ہونا، ان کا باقی حساب خدا لے گا۔ اگر خدا تمھارے ذریعہ کسی ایک شخص کی ہدایت کردے تو یہ تمھارے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پرسورج نے روشنی ڈالی ہے یا سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔( صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲، کتاب الفضائل باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) )

۸۷

جس طرح حضرت علی (ع) لوگوں کی ہدایت کرتے اور انھیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول(ص) کی طرف بلاتے تھے اسی طرح آج ان کے شیعہ اپنے نفسوں سے ہر قسم کی تہمتوں کا دفع کرتے ہیں اور اپنے سنی بھائیوں کو حقائقِ اہلبیت(ع)  سے متعارف کراتے ہیں اور انھیں سیدھے راستے کی ہدایت کرتے ہیں۔

" یقینا ان کے قصوں میں عقلمند کے لئے عبرت ہے(قرآن) کوئی ایسی بات نہیں ہے جو  گھڑی جائے بلکہ یہ موجودہ (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے ۔ اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمانداروں  کے لئے سراسر ہدایت و رحمت ہے۔(یوسف، آیت۱۱۱)

۸۸

شیعوں کے ائمہ (ع) کی تعریف

شیعہ اہلِ بیت(ع) میں سے بارہ(۱۲)  اماموں کی امامت کے قائل ہیں، ان میں سے اوَل علی ابن ابی طالب(ع) پھر ان کے بیٹے حسن(ع) ان کےبعد حسین(ع) اور پھر امام حسین(ع) کی نسل سے نو معصوم امام ہیں۔

رسول(ص) نے متعدد بار ائمہ کی امامت پر واضح اور اشارے و کنایہ میں نص فرمائی ہے۔ بعض روایات میں ناموں کے ساتھ  ائمہ کا تذکرہ ہے ۔ یہ روایات  شیعہ سنی علما نے نقل کی ہیں۔

بعض اہلِ سنت ان روایات پر اعتراض کرتے  ہیں اور  کہتے ہیں کہ رسول(ص) ان امور کے متعلق  کیسے کچھ فرماسکتے ہیں جو عدم کی منزلوں میں ہیں ؟ جبکہ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے؟

" اگر میرے پاس علم ِ غیب ہوتا تو بہت سی نیکیاں جمع کر لیتا اور مجھے کو ئی تکلیف چھو کے نہ جاتی۔" ( اعراف، آیت ۱۸۸)

ان لوگوں کے اعتراض  کا جواب یہ ہے کہ (مذکورہ ) آیت رسول(ص) کے علمِ غیب کی نفی

۸۹

 نہیں کرتی ہے۔ بلکہ آیت ان مشرکین کی رد میں نازل ہوئی ہے  جو آپ(ص) سے یہ کہتے ہیں ہمیں یہ بتائیے کہ قیامت کب آئے گی  قیامت کے آنے کا وقت خدا نے اپنی ذات سے مخصوص کیا ہے۔

" وہ عالمِ الغیب ہے اور اپنی غیب کی بات ظاہر نہیں کرتا مگی یہ کہ کسی پہغمبر کو اس کے لئے منتخب کرلے۔"(جن، آیت ۲۶،۲۷)

اس آیت کی صاف دلالت  اس بات پر ہے کہ خدا اپنے رسولوں میں سے جس کو  چاہتا ہے اسے علمِ غیب سے مطلع کردیتاہے چنانچہ اپنے قید کے ساتھیوں سے جنابِ یوست(ع)  کا قول اس کی واضح مثال ہے: ارشاد ہے۔

" تمہیں جو کھانے کو دیا جاتا ہے وہ آنے بھی نہ پائے گا کہ میں اس کے تمھارے پاس آنے سے قبل ہی تمھیں اس کی تعمیر بتادوں گا اور یہ  من جملہ ان باتوںکے ہے جو جھے میرے  خدا نے تعلیم دی  ہیں۔"

دوسری جگہ ارشاد ہے:

" ہمارے بندوں میں سے دونوں نے ایک (خاص)  بندہ (خضر) کو  پایا جس کو ہم نے اپنی بارگاہ سے رحمت کا حصہ عطا کیا تھا اور اسے علم لدنی میں سے کچھ سکھایا تھا" (کہف، آیت۶۵)

سنٌی ، شیعہ مسلمانوں کے درمیان اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ رسول (ص)  علم غیب جانتے تھے، سیرت نگاروں نے علم غیب سے متعلق واقعات لکھے ہیں۔ منجملہ ان کے چند یہ ہیں۔

عمٌار تمھیں باغی گروہ قتل کرے گا۔

حضرت علی(ع) سے فرمایا:

۹۰

" شقی ترین انسان تمھارے سر پر ضرب لگائے گا۔

اور تمھاری ریش خون سے خضاب ہوجائے گا۔"

امام حسن(ع) کے متعلق فرمایا:

" بے شک میرے بیٹے حسن (ع)  کےذریعہ خدا مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں  صلح کرائے گا۔"

ابوذر کے متعلق فرمایا :

" انھیں عنقریب غربت میں موت آئے گی۔"

اس کے علاوہ اور بہت سے واقعات  و اخبار ہیں جیسا کہ بخاری و مسلم نے اور دیگر محدثین نے ایک مشہور حدیث نقل کی ہے جس میں آپ(ص)  نے اپنے بعد  کے بارہ ائمہ(ع)  کی خبر دی ہے۔

ارشاد ہے:

" میرے بعد بارہ ائمہ(ع) ہوں گے جو کہ قریش سے ہوںگے۔"

بعض روایات میں قریش کے بجائے لفظ بنی ہاشم  وارد ہوا ہے یعنی وہ ائمہ سب بنی ہاشم سے ہوں گے۔

ہم اپنی پہلی کتابوں ، مع الصادقین اور اہل ذکر میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ اہل سنت نے اپنی صحاح و مسانید میں ایسی احادیث  نقل کی ہی اور انھیں صحیح تسلیم کیا ہے کہ جن کی واضح دلالت  بارہ ائمہ کی امامت پر ہے۔

اور جب کوئی پوچھنے والا ان سے پوچھتا ہے کہ تم بارہ ائمہ  کو چھوڑ کر چار کی اقتدا کیوں کرتے ہو جب کہ تمھیں ان احادیث  کا اعتراف ہے اور ان کو صحیح مانتے ہو؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ : سلف صالح چونکہ سب خلفائے ثلاثہ ابوبکر و عمر اور عثمان کہ جنھیں سقیفہ نے جنم دیا ہے ، یا رو مددگار ہیں، ان سب کو اہلِ بیت(ع) اور علی(ع) سے نفرت تھی اور ان کی اولاد سے عداوت تھی اس لئے انھوں نے سنتِ نبی(ص) کو برباد کیا اور اپنے

۹۱

اجتہاد سے بدل ڈالا۔

اسی وجہ سے رسول(ص) کے بعد امت دو  فرقوں میں تقسیم ہوگئی" سلف صالح" اور ان کے پیروکار اور ان کی رائے کا اتباع کرنے والے کہ جن کی اکثریت تھی، اہل سنت والجماعت بن گئے  اور جن لوگوں نے (ابوبکر کی)  بیعت نہیں کی تھی، علی(ع) اور ان کے شیعہ " جو کہ اقلیت میں تھے اور  اسی وجہ سے ان کی کو ئی پرواہ بھی نہیں تھی، حکومت کے عتاب کا  نشانہ بنے رہتے تھے، لوگ انھیں رافضی کہتے تھے۔

باوجود اس کے کہ اہل سنت صدیوں تک امت پر حکم ران رہے ۔ اس کے مقدر  کا قلم انھیں کے ہاتھ میں تھام بنی امیہ اور بنی عباس سارے ہی تو اس مدرسہ خلافت کے  پیروکار تھے جس کی بنیاد ابوبکر ، عمر ، عثمان و معاویہ اور یزید (لعن)نے رکھی تھی۔ ( ہم نے یہاں جان بوجھ کر حضرت علی(ع) کی خلافت کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ اہلسنت والجماعت  انھیں خلیفہ نہیں مانتے تھے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ہاں احمد بن حنبل کے زمانہ سے ماننے لگے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں ، اہل سنت ، سنتِ نبوی(ص) کو نہیں مانتے")

جب خلافت کی ہوا کھڑ گئی ، ہیبت  جاتی رہی اور غلاموں ، اجنبیوں کے ہاتھوں میں پہونچ گئی، اس وقت رسول(ص) کی ان احادیث کو ایک جا جمع کرنے کی بات سنی گئی جن کو اوَلین مسلمان مٹانے اور چھپانے کی کوشش کرچکے تھے اور اس کے بغیر ان کی نہیں چلی تھی۔ ان احادیث نے بھی انھیں انگشت بدندان کردیا تھ۔ کیونکہ یہ ان کے مکتب کے سراسر  خلاف تھیں۔

بعض لوگوں نے ان حدیثوں میں اور جوان کے عقیدہ کے خلاف تھی ان میں توافق کرنا چاہا اور اہل بیت(ع) سے محبت  کا اظہار کرنے لگے اور علی(ع) کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ و  کرم اللہ وجہہ کہنے لگے ۔ تاکہ یہ لوگ سمجھیں  کہ وہ اہل بیت(ع)  کے دشمن نہیں ہیں۔

کوئی مسلمان ، یہاں تک کہ منافق بھی، اہل بیت نبی(ص) سے عداوت کا اظہار نہیں کرسکتا ، کیونکہ اہل بیت (ع)  کا دشمن رسول (ص) کا دشمن ہے اور رسول (ص) کی دشمنی اسلام سے خارج کردیتی ہے۔

۹۲

ان تمام باتوں کا لبِ لباب یہ ہے کہ سلف صالح اہل بیت (ع) کے دشمن ہیں کہ جنھوں نے اپنے کو خود  اہل سنت کہا یا ان کے انصار نے اہل سنت والجماعت کا نام دیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ان چار مذاہب پر عمل کرتے ہیں۔ جنھیں اس وقت کے حکام نے ایجاد  کیا تھا( عنقریب ہم اس کی تفصیل بیان کریں گے) ان کے مذہب میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ جس کے سلسلہ میں وہ فقہ اہل بیت(ع) سے رجوع کرتے ہوں  یا بارہ اماموں میں سے کسی کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

در حقیقت شیعہ امامیہ ہی اہلِ سنت ہیں کیونکہ وہ فقہی احکام میں ائمہ اہلِ بیت(ع) کر طرف رجوع کرتے ہیں۔ جنھوں نے اپنے سے صحیح سنت میراث میں پائی ہے۔ وہ اس میں اپنی رائے داخل نہیں کرتے ہیں اور نہ اجتہادات و اقوال خلفاء کو اس میں شامل کرتےہیں۔

فقط شیعہ ہی طول تاریخ میں نصوص کے پابند رہے ہیں اور ںص  کے مقابلہ میں اجتہاد کو ٹھکراتے رہے ہیں جیسا کہ وہ خلافتِ علی(ع) اور ان  کے بیٹوں کی خلافت کے قائل ہیں کیوں کہ اس پر رسول(ص) نے نص فرمادی تھی  سو وہ علی(ع)  اور ان کے فرزندوں کو خلیفہ رسول(ص) کہتے ہیں اگر چہ ظاہری خلافت علی(ع) کو سوا ان میں سے  کسی کو نہیں ملی، اسی طرح ان حکام  کی خلافت  کا انکار کرتے ہیں جو شروع سے آخر تک خلافت کو ادلتے بدلتے  رہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی بے سوچے، سمجھے رکھی گئی تھی، جس کے شر سے خدا ہی نے محفوظ رکھا ہے یہ  وہ خلافت تھی جو  خدا رسول(ص)  کے احکام کو ٹھکرا دیتی تھی اور خلافت راشدہ تو ایک میراث بن گئی تھی۔ اور جانے والا آنے والے کو متعین کرتا تھا۔ خواہ جنگ اور قہر و غلبہ ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ ( ایسے سیاہ کارناموں سے صرف علی ابن ابی طالب (ع)  کی خلافت مستثنی ہے۔ صرف یہ تن تنہا ہیں جسے گذر جانے والے خلیفہ نے متعین نہیں کیا اور نہ ہی آپ(ع)  طاقت کے زور سے خلیفہ بنے بلکہ مسلمانوں نے آزادانہ بیعت کی اور اصرار کر کے خلافت قبول کرنے کی دعوت دی۔

۹۳

ان ہی وجوہ کی بنا پر اہل سنت  کو  مجبور ا ہر ایک فاسق و فاجر کی امامت کا قائل ہونا پڑا ،اسی لئے انھوں نے فاسق حکام تک کی خلافت کو بھی صحیح مانا ہے۔

شیعہ امامیہ امام کے لئے عصمت کو واجب سمجھتے ہیں پس امامت کبری اور امامت و قیادت کا استحقاق صرف معصوم امام کو ہے اور اس امت میں ان لوگوں کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور ایسے پاک رکھا جو کہ حق ہے۔

۹۴

اہلِ سنَت کے ائمہ کا تعارف

اہلِ سنت والجماعت  فروع دین میں ائمہ اربعہ " ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کی تقلید کرتے ہیں۔

یہ ائمہ اربعہ کے صحابی نہیں ہیں اور نہ ہی تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے، نہ انھیں رسول(ص) جانتے ہیں اور نہ انھوں نے آپ(ص) کو دیکھا ہے۔ عمر کے لحاظ سے ان میں سب سے بزرگ ابوحنیفہ ہیں ، ابوحنیفہ اور نبی(ص) کے درمیان سو (۱۰۰)  سال سے زائد کافاصلہ ہے کیوں کہ ابوحنیفہ    ۸۰؁ھ میں  پیدا ہوئے اور   ۱۵۰؁ھ  میں  انتقال کیا، اور ان (ائمہ اربعہ) میں سب سے بعد میں احمد بن حنبل ہیں جو کہ سنہ ۱۶۵ھ  میں پیدا ہوئے اور سنہ ۲۴۱ھ  میں انتقال کرگئے۔

اصول دین میں اہلِ سنت والجماعت امام ابوالحسن بن اسماعیل ، اشعری کے تابع ہیں جو کہ سنہ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ ۳۳۵ھ میں انتقال کرگئے۔

ان ائمہ میں نہ آپ کو کوئی اہلِ بیت(ع) میں سے نظر آئےگا اور نہ اصحابِ رسول(ص) میں سے

۹۵

کوئی ملے گا کہ جس کے بارے میں رسول(ص)  نے کچھ فرمایا ہو یا اس کی طرف امَت کی ہدایت کی ہو ؟

ہرگز ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی یہ کام بڑی مشکل ہی ہو سکتا تھا۔

اور جب اہلِ سنت والجماعت یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے سنت نبی(ص) کا دامن تھام رکھا ہے تو پھر یہ مذاہب اربعہ اتنی تاخیر سے کیوں وجود میں آئے ہیں؟ اور اس سے قبل اہلِ سنت والجماعت کہاں تھے؟ کسی کی بات تسلیم کرتے تھے؟ احکام کے سلسلہ میں کس سے رجوع کرتے تھے؟

اور ان لوگوں کی تقلید پر کیسے اکتفا کرلی جو کہ نبی(ص) کے زمانہ میں نہیں تھے اور آپ کو جانتے بھی نہیں تھے ، یہ ائمہ اربعہ تو پیدا بھی اس وقت ہوئے ہیں جب فتنے پھوٹ پڑے تھے، صحابہ ایک دوسرے کو قتل کرچکے تھے اور بعض ، بعض کو کافر کہتے تھے، جبکہ خلفاء قرآن و سنت میں اپنی من مانی کرچکے تھے اور ان میں اجتہاد سے کام لے چکے تھے، جبکہ یزید بن معاویہ  کی خلافت  کا دور گذر چکا تھا۔ کہ جس نے اپنے لشکر کے لئے مدینہ رسول(ص) کو مباح قرار دیدیا تھا وہ جو چاہے کرے۔ چنانچہ ایک مدت تک فوجِ یزید  نے فساد برپا رکھا اور ان صحاب اخیار کو تہہ تیغ کردیا  جنھوں نے یزید کی بیعت بہیں کی تھی، عورتوں کو مباح سمجھ لیا، اور کسی کا کوئی  پاس و لحاظ نہ رکھا یہاں تک بے شمار عورتیں حاملہ ہوگئیں۔

ایک عقلمند ان ائمہ پر کیسے اعتماد کرسکتا ہے کہ جن کا تعلق بشریت کے اس طبقہ سے تھا جو فتنوں میں لتھڑا ہوا ہے جس کی غذا رنگ برنگ کا دودھ ہے مکر و فریب کی بنیاد پر پڑی ہو اور پلی بڑھی ہے اور اس کا ہر کام جعلی علم پر قرار ہے۔ پس ان سے وہی لوگ وجود  میں آئے جن سے حکومت راضی تھی اور وہ حکومت سے خوش تھے۔ ( آنے  والی بحثوں میں یہ بیان ہوگا اموی اور عباسی حکام ہی نے ان مذاہب کو وجود دیا اور لوگوں پر تھوپا ہے)

اور سنت سے تمسک رکھنے والا، باب مدینہ علم، علی(ع) اور جو انان جنت  کے سردار حسن(ع) و حسین(ع) اور عترت نبی(ص) سے دیگر ائمہ طاہرین کو کیونکر چھوڑا جاسکتا ہے کہ جنھوں نے اپنے جد رسول(ص)

۹۶

 اللہ کے علوم ہیراث میں پائے ہیں اور کوئی شخص ان ائمہ کا کیونکر اتباع کرسکتا ہے۔ جنھیں سنتِ نبی(ص) کی خبر تک نہیں ہے بلکہ اموی سیاست سے وجود میں آئے ہیں؟

اور اہلِ سنت والجماعت یہ دعوی کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم سنتِ نبی(ص) کا اتباع کرتے ہیں جب کہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے خلاف محاذ بنایا ؟ اور نبی(ص) کے ان اوامر اور  وصیتوں کو پسِ پشت ڈال دیاجنمیں آپ(ص)  نے عترت طاہرہ سے تمسک رکھنے کے لئے  فرمایا تھا۔ پھر بھی دعوی ہے کہ ہم اہلِ سنت ہیں؟

کیا کسی تاریخِ اسلام کے ماہر اور قرآن و سنت کا مطالعہ رکھنے والے مسلمان کو اس بات میں کوئی شک ہوگا کہ اہلِ سنت بنی امیہ و بنی عباس کا اتباع نہیں کرتے ہیں؟ اور کیا تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والا اور قرآن و سنت سے آگہی رکھنے والا کوئی مسلمان اس بات میں شک کرے گا کہ شیعہ عترتِ نبی(ص) کے مقلد اور ان کے محب نہیں ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ شیعہ ہی سنتِ نبی(ص) کا اتباع کرتے ہیں کسی اور کو یہ دعوی کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ سنتِ نبی(ص) کا اتباع کرتا ہے۔

قارئین محترم ! کیا آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ سیاسی امور کیسے بدل جاتے ہیں اور وہ باطل کو حق اور حق کو باطل کیسے بنادیتے ہیں۔! پس جب نبی(ص) اور ان کی عترت سے محبت رکھنے والوں کو رافضی اور بدعت کار کہا جانے لگا اور بدعت گذاروں ، سنت و عترت نبی(ص) کو چھوڑنے والوں اور ظالم حکام کے اجتہاد پر عمل کرنے والوں کو اہلِ سنت  والجماعت  کہا جانے  لگا ، تو اس سے زیادہ اور تعجب خیز بات کیا ہوسکتی ہے؟

لیکن میں تو یقین کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ ایسے  لوگوں کو اہلِ سنت کا نام دینے میں قریش کا ہاتھ ہے کیونکہ اس کام میں ان (قریش) کی کامیابی تھی۔

یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قریش نے عبداللہ ابن عمرو کو احادیثِ رسول(ص) لکھنے سے منع کردیا تھا اور اس دلیل کے ساتھ کہ نبی(ص) معصوم نہیں ہیں۔

۹۷

در حقیقت قریش وہ لوگ تھے جن کا عرب کے قبائل میں خاندانی اورمعنوی اثر و رسوخ تھااسی لئے بعض مورخین نے انھیں " دھاۃ العرب" (یعنی عرب کے زیرک اور چالاک ترین اشخاص ) لکھا  ہے۔ کیونکہ مکر و فریب زیرکی اور امور کے انتظام  میں فوقیت طلبی میں وہ مشہور تھے۔ ان ہی لوگوں کو بعض حضرات نے اہلِ حلَ و عقد بھی کہا ہے۔

اور ان ہی میں سے ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابوسفیان ، معاویہ، عمرو عاص، مغیرہ بن شعبہ، مران بن الحکم ، طلحہ بن عبداللہ، عبد الرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ عامر بن جراح وغیرہ ہیں۔

( ہم نے حضرت علی(ع) کی مستثنی کیا ہے کیونکہ حکمت کے لحاظ سے ہوشیار و عقلمند ہونا اور حسن تدبیر  کا حامل ہونا ہے اور دھوکہ دہی والی زیدکی اور نفاق اور ہے۔ اور حضرت علی(ع) نے خود متعدد  بار فرمایا ہے کہ اگر میں فریب و نفاق سے کام لیتا تو عر ب کا زیرک ترین انسان ہوتا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بھی بیان ہوا ہے ويمکرون  ويمکروا الله والله خير الماکرين مکر خدا حسن تدبیر و حکمت ہے. اور مشرکین  کا مکرو فریب دھوکہ ، نفاق اور بہتان ہے۔)

جیسا کہ کبھی کبھی یہ لوگ کسی امر کے مشورے  اور کسی چیز کو نافذ کرنے کے لئے مٹینگ  کرتے تھے جب اسپر اتفاق ہو جاتا تھا اسے مضبوط ومستحکم بنانے کے لئے لوگو ں کے درمیان پھیلاتے تھے تاکہ کچھ دنوں کے بعد وہ حقیقت کی جامل ہوجائے اور لوگ اس کا راز سمجھے بغیر اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔

ان کے مکر اور فریب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ محمد(ص) معصوم نہیں ہیں بلکہ تمام لوگوں کی طرح وہ بھی بشر ہیں ان سے خطا سرزد ہوسکتی ہے۔ اس طرح وہ نبی(ص)  کی تنقیص کرتے تھے اور حق کے سلسلہ میں آپ (ص) سے مجادلہ کرتے تھے جبکہ حق کو جانتے تھے۔

ان ہی چالاکیوں  میں سے ان کا علی(ع)  کو ابو تراب کہہ کر پکارنا، ان پر سب وشتم کرنا اور لوگوں کو یہ باور کرانا بھی کہ علی(ع)  (معاذ اللہ) خدا اور رسول(ص) کے دشمن ہیں۔

ایسی ہی ہوشیاریوں سے میں ، ان کا عمار  یاسر کو عبید اللہ بن سبایا ابن سوداء کے

۹۸

نام سے پکارنا اور ان کی تحقیر کرنا ہے۔ عمار یاسر  کی صرف یہ خطا تھی کہ وہ خلفاء کے موقف کے خلاف تھے اور لوگوں کو علی(ع) کی امامت کی دعوت دیتے تھے۔ ( اس سلسلہ میں ڈاکٹر مصطفی کامل الشببی مصری کی کتاب الصلہ بین التصوف والتشیع ملاحظہ فرمائیں ، مؤلف نے دسیوں دلیلوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا ، یہودی یا ابن سوداء ،عمار یاسر ہی ہیں)

ان کی مکاریوں میں سے شیعیانِ علی(ع) کو رافضی کہنا بھی ہے تاکہ لوگوں کے  ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں کہ شیعوں نے  محمد(ص)  کی نبوت  کا انکار کر دیا ہے اور  علی(ع)  کے پیچھے ہولئے۔

خود کو اہلِ سنت والجماعت  کا نام دینا ایک زیرکی ہے تاکہ مخلص مؤمنین فریب کھائیں اور روافض کے عقائد کو سنت نبی(ص)  سے متمسک سمجھنے لگیں اور شیعوں کو سنت  کا منکر سمجھنے   لگیں۔

حقیقت میں ان کے نزدیک سنت وہ بدترین  بدعت ہے جس کا آغاز ہی انھوں نے امیر المؤمنین (ع)اور اہل بیت نبی(ص) پر ہر مسجد کے منبر  سے لعنت سے کیا تھا۔ چنانچہ  ہر شہر و دیہات کی مسجد سے یہ فعل بد انجام  دیا   جاتاتھا ۔ اور یہ بدعت اسی(۸۰) سال تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ خطیب جب نماز کے لئے منبر سے علی(ع) پر لعنت کئے بغیر اترتا  تھا تو مسجد میں موجود لوگ چلانے لگتے تھے ۔ " تم نے سنت کو ترک کردیا۔"

اور جب عمر بن عبد العزیز  خداوند عالم کے اس قول کے مطابق " بے شک خداوند عالم عدل و احسان اور قرابت داروں کو ان کا حق دینے کا حکم دیتا ہے۔" ( سورہ نحل، آیت ۹۰)

اس سنتِ بد کو بدل دیتا ہے تو اس کے خلاف شورش ہوجاتی ہے اور مسلمان اسے قتل کردیتے ہیں۔ کیونکہ عمر بن عبد العزیز  نے ان کی سنت کو برباد کردیا تھا اور اسلاف کے اقوال کو باطل قرار دیاتھا کہ جنھوں نے اسے تختِ  خلافت پر بٹھایا تھا، لہذا اسے زہر دیکر قتل کردیا گیا جب کہ اس کی عمر ۳۸ سال تھی۔ اور صرف دو سال تک خلافت کی تھی۔

۹۹

کیونکہ اس کے چچا زاد بھائی اپنی سنت کادم گھٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے اور پھر اس سے ابوتراب اور ان کی اولاد کی شان بڑھ رہی تھی۔

اور جب بنی امیہ کی خلافت کی تباہی کے بعد خلافت  بنی عباس کے ہاتھ آئی ، تو انھوں نے بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور ان کےشیعوں پر مصیتوں  کے پہاڑ توڑے چنانچہ جب جعفر بن معتصم الملقب بہ متوکل  کا زمانہ آیا تو اس نے بھی حضرت علی(ع) اور ان کی اولاد سے بہت زیادہ دشمنی کا اظہار کیا اس کا بغض  و کینہ توزی یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ امام حسین(ع)  کی قبر مبارک کو کھدوا دیا تھا اور لوگوں کو اس کی زیارت سے منع کردیا تھا۔ متوکل اسی کو  عطایا دیتا تھا جو حضرت علی(ع) پر سب وشتم کرتا تھا۔

علم نحو کے  مشہور عالمِ دین ابن سکیت کی زبان صرف اس جرم میں گدی سے کھنچوالی تھی کہ اس نے علی(ع) اور ان کے اہلِ بیت(ع)  سے اس  وقت محبت کا اظہار کردیا تھا جس زمانہ میں متوکل کے بچوں کوپڑھاتاتھا۔

متوکل کی دشمنی و عداوت کی انتہا یہ تھی کہ اس نے بچے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیدیا تھا  جس کا نام اس  کے ماں باپ نے علی رکھ دیا تھا کیونکہ متوکل کے نزدیک علی نام بھی مبغوض ترین نام تھا۔ دشمنی کی حد و انتہا ملاحظہ فرمائیں  کہ جب مشہور شاعر  علی بن الجھم  متوکل کے پاس گیا تو کہنے  لگا اے امیر المؤمنین میرے  والدین نے مجھے عاق کردیا متوکل نے پوچھا کیوں ؟

اس نے کہا اس لئے کہ انھوں نے میرا نام علی رکھا تھا اور مجھے یہ نام پسند نہیں ہے اور مجھے یہ بھی گوارا نہیںہے کہ کسی کا یہ نام رکھا جائے ۔ اس بات پر متوکل نے قہقہہ لگایا اور اسے انعام سے نوازا۔

متوکل کی مجلس میں ایک شخص میر المؤمنین  علی ابن ابی طالب(ع) کی شبیہ بنتا ہے۔ اور  لوگ اسے دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں ، گنجا اور پیٹو آرہا ہے (معاذ اللہ ) اہلِ مجلس اس سے مسخراپن کرتے ہیں اور اس سے خلیفہ کو تسلی ہوتی ہے۔

۱۰۰