قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے0%

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے مؤلف:
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 32

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مرزاسلامت علی دبیر
: موسوی قهار
: موسوی قهار
زمرہ جات: صفحے: 32
مشاہدے: 3364
ڈاؤنلوڈ: 2665

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 32 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 3364 / ڈاؤنلوڈ: 2665
سائز سائز سائز
قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

مرزا سلامت علی دبیر

جمع و ترتیب: حسان خان

ماخذ: اردو کی برقی کتاب

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

۱

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے

دخترِ فاطمہ غیرت سے موئی جاتی ہے

روح قالب میں، وہ زندان میں گھبراتی ہے

بے حواسی سے ہر اک بار یہ چلاتی ہے

آسماں دور، زمیں سخت کدھر جاؤں میں

بیبیو مل کے دعا مانگو کہ مر جاؤں میں

آمدِ ہند کا غل عترتِ شبیر میں ہے

شورِ ماتم، حرمِ صاحبِ تطہیر میں ہے

دخترِ فاطمہ، روپوشی کی تدبیر میں ہے

کہتی ہے جاؤں کہاں، پاؤں تو زنجیر میں ہے

کس غضب کی یہ خجالت ہے دہائی لوگو

ہند آ پہنچی مجھے موت نہ آئی لوگو

۲

جا کے دربانوں کو قسمیں دو کہ بہرِ سبحاں

کوئی کھلوائے نہ تم کھولیو قفلِ زنداں

رات کا وقت ہے بچے ہیں ہمارے ناداں

گر نکل جائیں گے تو ہم انہیں ڈھونڈیں گے کہاں

حاکمِ شام کا کل تم پہ عتاب آئے گا

اور ہمارا تو گلا پہلے ہی کٹ جائے گا

کیا کروں، کیا نہ کروں، جلد بتاؤ لوگو

صدقہ اکبر کا، حقارت سے بچاؤ لوگو

اوٹ کر کے ہو کھڑے، مجھ کو چھپاؤ لوگو

یا کسی کونے میں لے جا کے بٹھاؤ لوگو

سر کھلے ہوں، کسی حجرے میں مجھے بند کرو

یہ بھی ممکن نہ ہو تو خاک کا پیوند کرو

۳

سلطنت پر ہے وہ نازاں، میں اسیر و مجبور

منہ بھی بالوں سے چھپاؤں گی تو سمجھے گی غرور

آمدِ حرف میں کہہ بیٹھے گی یہ ہند ضرور

بی بی دربار میں تو جاتی تھی مردوں کے حضور

ایسی غیرت تھی تو بلوے میں نہ آئی ہوتی

حلق پر اپنے چھری آپ پھرائی ہوتی

شرم بازار میں کل تم کو نہ آئی بی بی

واں تو گرد اونٹوں کے تھی ساری خدائی بی بی

شمر کے خوف سے گردن نہ جھکائی بی بی

دیکھ کر مجھ کو عبث شکل چھپائی بی بی

ہند جو چاہے گی بڑھ کر مجھے کہہ جائے گی

دخترِ فاطمہ منہ دیکھ کے رہ جائے گی

۴

اور جو پہچان کے مجھ سے کیا خُلق و احساں

لونڈیاں ہند کی گھبرا کے کریں گی یہ بیاں

بی بی کچھ خیر ہے زینب کہاں زندان کہاں

باپ تو عقدہ کشا بیٹی اسیرِ زنداں

بے ردائی ہے تباہی ہے پریشانی ہے

توبہ توبہ یہ نبی زادی ہے سیدانی ہے

کس طرح ہند کے آنے سے نہ گھبراؤں میں

بنتِ حیدر ہوں نہ کیوں قید میں شرماؤں میں

کوئی دیوار جو شق ہو تو مفر پاؤں میں

سیدھی ماں جائے کے مقتل کو چلی جاؤں میں

کربلا میں نہ یہ ذلت ہے نہ رسوائی ہے

بے ردا میں ہوں تو بے گور مرا بھائی ہے

۵

لے کے لاشے کی بلائیں کہوں حالِ زنداں

ہند واں آئی تھی بھیا میں چلی آئی یہاں

تھا یہی خوف کہ گھبرا کے کرے گی وہ بیاں

اے پیمبر کی نواسی تو اسیروں میں کہاں

قابلِ طوق ہوئی لائقِ زنجیر ہوئی

کیا گنہ تجھ سے ہوا کون سی تقصیر ہوئی

سب ستم دیکھے یہ اندوہ اٹھائے نہ گئے

ہند کو خاک بھرے بال دکھائے نہ گئے

قید میں نام بزرگوں کے بتائے نہ گئے

در بدر پھرنے کے احوال سنائے نہ گئے

ملتی کیا ہند سے میں خاکِ عزا تھی سر پر

نہ تو تم تھے مرے سر پر، نہ ردا تھی سر پر

۶

کربلا کا جو سنا نام سکینہ نے آہ

یک بیک ہو کے کھڑی کہنے لگی بسم اللہ

اچھی میری پھوپھی اماں مجھے لینا ہمراہ

واں ملے گی مجھے ظالم کے طمانچوں سے پناہ

ضبط اب رونے کا زنہار نہ ہو گا مجھ سے

ننگے سر روز کا دربار نہ ہو گا مجھ سے

آہ بھر کر کہا زینب نے میں تم پر قرباں

کربلا شاہِ شہیداں کی کہاں اور میں کہاں

طوق گردن میں ہے اور پاؤں میں زنجیرِ گراں

میں ہوں زندان کے قابل مرے قابل زنداں

بیٹھو صدقے گئی بیٹھو میں کدھر جاؤں گی

بیڑیاں پہنے کسی دن یہیں مر جاؤں گی

۷

میں ہوں بیخود مرے کہنے پہ نہ جاؤ واری

آنے جانے کا کہیں ذکر نہ لاؤ واری

پھوپھی کہہ کہہ کے نہ اب شور مچاؤ واری

ہند آتی ہے مری گود میں آؤ واری

غیر ملنے کو جو آتا ہے تو چپ رہتے ہیں

پھوپھی کو ایسی جگہ کنبہ موئی کہتے ہیں

رو کے وہ بولی کہ اچھا پھوپھی صاحب اچھا

میں بھی اکبر کی بہن ہوں مجھے غیرت نہیں کیا

جان فاقے سے نکل جائے تو مانگوں نہ غذا

اپنے سقے کے لیے روتی ہوں، پانی کیسا

پانی اُس سے نہیں میں تشنہ جگر مانگوں گی

لاش بابا کی ہے بے گور، کفن مانگوں گی

۸

میں نہیں لینے کی میوے وہ اگر لائے گی

خاک سمجھوں گی اگر خلعت و زر لائے گی

کان دکھلاؤں گی زخمی جو گہر لائے گی

پر دعا دوں گی جو حاجت مری بر لائے گی

پوچھا زینب نے کہ کیا، رو کے کہا کہہ دوں گی

بابا صاحب کا جو سر دے گی تو میں لے لوں گی

ناگہاں فضّہ نے دی اہلِ حرم کو یہ خبر

ہند آتی ہے بڑے جاہ و تجمل سے ادھر

بیرقیں، نقرہ و زر کی ہیں جِلو کے اندر

پر کنیزیں تو ردا اوڑھے ہیں وہ ننگے سر

ہر قدم ہوتی ہے بیہوش وہ شیدائے حسین

ہائے زینب کبھی کہتی ہے کبھی ہائے حسین

۹

کہتی ہے قیدیوں کی شور و بکا نے مارا

مجھ کو اس ہائے حُسینا کی صدا نے مارا

ان کے سردار کو کس فوجِ جفا نے مارا

کیا وہ سید تھا جسے اہلِ وغا نے مارا

ایک بجلی سی کلیجے پہ مرے گرتی ہے

ننگے سر فاطمہ آنکھوں کے تلے پھرتی ہے

مر گیا کونسا یہ خاصہ باری لوگو

انس و جن حور و ملک کرتے ہیں زاری لوگو

لے چلو سوئے نجف میری سواری لوگو

ہو گی مشکل وہیں آسان ہماری لوگو

خیر سے ہیں مرے آقا تو وہ سوتے ہوں گے

ورنہ مرقد میں علی بیٹے کو روتے ہوں گے

۱۰

درِ زنداں پہ ہوا اتنے میں انبوہِ کمال

بولے درباں کہ بڑھے دولت و عمر و اقبال

قیدیو اٹّھو دعا دے کے کرو استقبال

زنِ حاکم کا ہے زنداں میں نزولِ اجلال

تم کھلے سر تھے حضور اب تمہیں چادر دیں گی

رحم دل ہیں ابھی زنداں سے رہا کر دیں گی

مہرباں ہوں گی تو خلعت ابھی پہنا دیں گی

صبح کو بیڑیاں بھی پاؤں کی کٹوا دیں گی

عذر حاکم نہ کرے گا جو یہ سمجھا دیں گی

نام جس شہر کا لو گے وہیں پہنچا دیں گی

قصرِ شاہی سے جو تشریف یہاں لائی ہیں

پرورش کرنے کو تم سب کی حضور آئی ہیں

۱۱

دم بخود رہ گئیں سیدانیاں سن کر یہ صدا

ہو گئی قطع زباں تیغِ حیا سے گویا

دم نہ تھا جان نہ تھی ہوش نہ تھا صبر نہ تھا

تھرتھرانے لگے بچے بھی کہ، کیا قہر ہوا

یوں حرم لوٹتے تھے جکڑے ہوئے آہن میں

ذبح ہو کر شہِ دیں تڑپے تھے جیسے رن میں

درِ زنداں پہ قدم ہند نے رکھّا ناگاہ

اور باہر سے نقیبوں نے کہا بسم اللہ

لونڈیاں آگے بڑھیں کہتی ہوئیں پیش نگاہ

پیچھے دامن لیے ہاتھوں میں خواتیں ہمراہ

سر پہ رکھے کوئی کرسیِ زبرجد آئی

کوئی بغلوں میں لیے تکیہ و مسند آئی

۱۲

زنِ حاکم کی یہ حشمت یہ لباسِ پُر زر

اور بانوئے حسین ابنِ علی ننگے سر

نہ مدائن نہ مدینہ نہ پدر نے شوہر

دونوں سرکاریں لُٹیں رہنے کو پایا یہ گھر

خون اکبر کا لگائے ہوئے پیشانی پر

روتی تھی اپنی گرفتاری و حیرانی پر

لونڈیاں تھیں زنِ حاکم کے جِلو میں جو رواں

دیکھتی کیا ہیں کہ اک شیر ہے آہن میں نہاں

لاغر و خستہ تن و فاقہ کش و تشنہ دہاں

منہ پہ سیلی کے نشاں پشت پہ دُرّوں کا نشاں

ساقِ پا، فاقے سے زنجیر میں تھراتی ہے

استخوانوں سے لرزنے کی صدا آتی ہے

۱۳

سب نے مڑ کر طرفِ ہند یہ کی نوحہ گری

دیکھئے شام کے زنداں میں چراغِ سحری

کیوں مسلسل کیا یہ تو ہے عدم کا سفری

یادِ حق سے ہے خبر، خلق سے ہے بے خبری

کس نے دم بند کیا طوقِ جفا سے اِن کا

سلسلہ ملتا نہ ہو شیرِ خدا سے اِن کا

خشکیِ لب سے عیاں ہے کہ مہینوں کے ہے پیاس

تپ سے بیہوش ہے پر شکرِ خدا کا ہے حواس

نہ بچھونا ہے نہ تکیہ نہ عمامہ نہ لباس

سر کو زانو پہ جھکائے ہوئے بیٹھا ہے اداس

لنگرِ طوق سے سیدھا نہیں ہو سکتا ہے

نہ تو سو سکتا ہے بیمار نہ رو سکتا ہے

۱۴

بیچ میں زانوؤں کے سر کی ہے کیا شوکت و شاں

نور کی رحل پہ گویا کہ دھرا ہے قرآں

کیا بھووں کے تلے آنکھوں سے تجلی ہے عیاں

کعبے کے طاق میں روشن ہے چراغِ ایماں

قلمِ قدرتِ حق بینیِ نورانی ہے

لوحِ محفوظ کی اثبات کو پیشانی ہے

سورہ نور جو پڑھنا ہو تو چہرا دیکھو

لیلۃ القدر ہے کاکل سے ہویدا دیکھو

شجرِ طور کے بدلے قدِ زیبا دیکھو

یدِ بیضا کے عوض آبلہ پا دیکھو

کیوں نہ یاں صلِ علی منہ سے ہمارے نکلے

صدقے ان پاؤں کے جن سے یہ ستارے نکلے

۱۵

ہتھکڑی میں ہے یہ پتلی سی کلائی روشن

یا ہلالِ شبِ اول کے ہے چو گرد گہن

دیکھنا بی بی گلے میں ہے یہ طوقِ آہن

یا کہ ہالے میں ہے خورشیدِ فلک جلوہ فگن

بی بی قربان ترے اس کی رہائی کر دے

ہاتھ ہم باندھتے ہیں عقدہ کشائی کر دے

ہند نے دیکھ کے رانڈوں کی طرف دی یہ صدا

خاک پر دُرِّ نجف ہائے پڑا ہے کس کا

کس کا یوسف ہے یہ زنداں میں گرفتارِ بلا

کیسے بے قدر ہو تم قدر نہیں اس کی ذرا

کام آخر ہوا اک دم میں یہ دم توڑتا ہے

ایسے بیمار کو تنہا بھی کوئی چھوڑتا ہے

۱۶

گرد عابد کے پھری پھر وہ بحالِ تغئیر

رکھ دیا پاؤں پہ سر اپنا ہٹا کر زنجیر

بولے وہ کون یہ چلّائی کنیزِ شبیر

السلام اے رسن و طوق و سلاسل کے اسیر

ہے وصیّت کا محل مرنے پہ تیار ہے تو

کچھ کفن کے لیے رکھتا ہے کہ نادار ہے تو

غم نہ کھا گور و کفن میں تجھے دوں گی واللہ

ننگے سر تیرے جنازے کے چلوں گی ہمراہ

مرنے والے ترا کیا نام ہے اور کیوں ہے تباہ

بولے مولا ابھی چالیس برس جینا ہے آہ

نام بیکس بھی ہے قیدی بھی ہے نادار بھی ہے

حال یہ ہے کہ اسیری بھی ہے آزار بھی ہے

۱۷

ہند نے پوچھا مرض کیا ہے کہا بے پدری

رو کے وہ بولی دوا کیا ہے؟ کہا نوحہ گری

گھر جو دریافت کیا کہنے لگے در بدری

بولی لیتا ہے خبر کون کہا بے خبری

آہ کرنے کا سبب پوچھا تو شرمانے لگے

تازیانوں کے نشاں پشت پہ دکھلانے لگے

بولی وہ کون سی عصیاں پہ ملی یہ تعزیر

رو کے فرمایا گنہ کچھ بھی نہیں، بے تقصیر

اُس نے منہ پیٹ لیا اور کہا کب سے ہو اسیر

بولے دسویں تھی محرم کی جو پہنی زنجیر

کچھ کفن کے لیے ہمراہ نہیں لایا ہوں

باپ کو چھوڑ کے بے گور و کفن آیا ہوں

۱۸

بولی وہ کوئی ترے سر پہ ہے اے خاک نشیں

سر اٹھایا سوئے گردوں کہ خداوندِ زمیں

ہاتھ بیووں کی طرف کر کے پکارا وہ حزیں

یہ ہمارے لیے، ہم ان کے لیے ہیں غمگیں

بابا صاحب کے گلے پر جو نہ خنجر پھرتا

اِن کے سر کھلتے نہ میں کانٹوں پہ در در پھرتا

سن کے عابد کے کلام اُس نے خواصوں سے کہا

صاف کعبے کے فصیحوں کا ہے لہجہ بخدا

مل گیا حیدرِ کرار کی باتوں کا مزا

اب چلو رانڈوں سے پوچھیں نہ اسے دیں ایذا

پاس بیووں کے جو وہ صاحبِ حشمت آئی

اور خاتونِ قیامت پہ قیامت آئی

۱۹

شانِ زینب پہ نظر کر کے کہا یا داور

خلد سے فاطمہ زندان میں آئیں کیونکر

دیکھا بانو کو تو یہ کہنے لگی وہ ششدر

ہائے ایران کی شہزادی ہے کیوں ننگے سر

قدرتِ خالقِ قیوم نظر آتی ہے

کوئی زینب کوئی کلثوم نظر آتی ہے

بولی زینب کے نہ لے زینب و کلثوم کا نام

وہ نبی زادیاں ہیں قید میں اُن کا کیا کام

ہے غضب فاطمہ کی آل کے حق میں یہ کلام

توبہ کر ہوش میں آ، بی بی زباں اپنی تھام

بلوے میں عترتِ محبوبِ الٰہی آئے

اور جہاں میں نہ قیامت نہ تباہی آئے

۲۰