کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153277 / ڈاؤنلوڈ: 4715
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

ہمیں آخری سانس اور آ خری لحظہ تک اپنے وظیفہ کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اپنی زندگی کے لحظات کو ایسے امور میں ضائع نہ کریں  کہ جن میں خدا کی رضایت شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المو منین  (ع) فرما تے ہیں :

'' انّ انفا سک اجزاء عمرک ، فلا تفنها الاَّ فی طاعةٍ تزلفک ''(۱)

تمہاری سانسیں تمہاری زندگی کے اجزا ء ہیں لہذا انہیں ضائع نہ کریں مگر ایسی عبادت میں کہ جوتمہارے لئے بیشتر تقرب کا باعث بنے۔

ہمارے بزرگان نے زندگی کے آخری لمحات اور آخری سانسوں تک فرصت اور وقت سے  بہترین استفادہ کیا ۔

شیعہ تاریخ  کے علماء و بزرگ شخصیات میں سے بر جستہ شخصیت آیت اللہ العظمیٰ حاج سید محمد حجت ایسے افراد میں سے تہے ۔

مرحوم آیت اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی حائری اس بزرگوار کے بارے میں یوں لکہتے ہیں کہ وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی  کے زمان میں تقریباً مرجع مطلق یا اکثر آذر بائیجان کے مرجع تہے تہران میں مقیم آذر بائیجانی اور بعض غیر آذر بائیجانی ان کی طرف مراجعہ کرتے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ غرر الحکم :ج۲  ص۹ ۹ ۴

۱۰۱

جس سال سردیوں کے اوائل میں وہ مرحوم ہوئے ، اس وقت موسم ابہی تک مکمل طور پر سرد نہیں ہوا تہا ، وہ گہر کی تعمیر میں مشغول تہے گہر کے ایک حصے کو توڑ چکے تہے تا کہ جدید گہر تعمیر کر سکیں اور گہر کے دوسرے حصے میں کاریگر دوسرے کاموں میں مصروف تہے جیسے کنویں کی کہودائی یا اس میں پتہر لگانا ، ان تعمیرات کے بانی ان کے ایک ارادتمند تہے ۔ ایک دن صبح کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا وہ تخت پر تشریف فرما تہے اور ان کی حالت عادی تہی وہ اکثر دمہ کی وجہ سے سر دیوں میں نفس تنگی کا شکار ہوتے تہے لیکن اس وقت سرد موسم کے باوجود ان کی حالت عادی و معمول کے مطابق تہی ۔ مجہے اطلاع ملی کہ انہوں نے ٹہیکے دار اور دیگر کاریگر وں کو کام سے فارغ کر دیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آغا آپ نے انہیں کیوں جواب دے دیا ؟ انہوں نے بڑے وثوق و صراحت سے کہا کہ ! مجہے لگتا ہے کہ میں مرجاؤں گا تو پہر یہ گہر کی تعمیر کس لئے ؟

پہر میں نے بہی کچہ نہ کہا دوسرے دن شاید بروز چہار شنبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا سید احمد زنجانی ان کے پاس بیٹہے تہے انہوں نے جائیداد کے کاغذات و اسناد آغا زنجانی کو دیئے اور ایک  چہوٹے صندوق میں پڑہی نقد رقم مجہے دی کہ اسے معین مصارف میں صرف کرو ں اور اس میں سے کچہ حصہ مجہے عطا فرمایا ۔

اس سے پہلے انہو ں نے وصیت کو چند نسخوں میں لکہا تہا کہ جن میں سے ایک انہوں نے مجہے بہیجوا یا تہا جواب بہی موجود ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تہی کہ ان کے اور ان کے وکلا کے پاس تمام موجود رقم سہم امام ہے ۔

انہوں نے  جو زمین مدرسہ کے نام پر خریدی تہی ، وہ ان کے نام پر تہی کہ جس کا یک بڑا حصہ بعد میں آغا بروجردی کی مسجد میں شامل ہو گیا انہوں نے وصیت نامہ لکہا تہا کہ وہ زمین بہی سہم مبارک امام سے جو ارث میں نہیں دی جاسکتی اور اگر آغا بروجردی نے چا ہا تو انہیں مسجد کے لئے دے دیں ۔

۱۰۲

ان کی رقم وہ ہی صندوق میں موجود رقم میں ہی منحصر تہی اور چند دن سے وجوہات شرعیہ نہیں لیتے تہے انہوں نے جب وہ رقم مجہے دی کہ میں وہ ان کے موارد میں صرف کروں تو انہوں نے آسمان کی طرف ہاتہ بلند کئے اور کہا کہ خدا یا میں نے اپنی تکلیف  پر عمل کیا اب تو میری موت کو پہنچا دے ۔

میں نے ان کی طرف دیکہا  اور کہا کہ آغا آپ ویسے ہی اس قدر ڈر رہے ہیں آپ ہر سال سردیوں میں اسی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں اور پہر ٹہیک ہو جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نہیں میں ظہر کے وقت فوت ہو جاؤں گا میں خاموش رہا اور ان کے فرمان کے مطابق کاموں کو انجام دینے کے لئے نکل پڑا میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں یہ اسی دن ظہر کے وقت وفات نہ پاجائیں اور ان پیسوں کے بارے میں تکلیف معلوم نہ ہو کہ کیا ورثہ کو دیں یا ان موارد میں خرچ کریں ۔ اسی شک میں میں سوار ہوا اور ظہر تک ان کو انجام دیا وہ اس دن ظہر کے وقت فوت نہ ہوئے بلکہ اس چہار شنبہ کے بعد آنے والے ہفتہ کو ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے میں گہر سے باہر آیا تو اسی وقت مدرسہ حجتیہ سے اذان کی صدا بلند تہی  ۔

انہیں راتوں میں سے ایک رات انہوں نے مجہے کہا کہ مجہے قرآن دو انہوں نے قرآن کہو لا تو  پہلے  صفحہ پر یہ آیت شریفہ تہی ، '' لہ دعوة الحق '' ظاہراً انہوں نے گریہ کیا اور انہوں نے اسی رات یا دوسری رات اپنی مہر توڑدی ۔

وفات کے نزدیک ایک دن وہ اپنی آنکہیں دروازے پر لگائے بیٹہے تہے اور ایسے لگتا تہا کہ وہ کسی چیز کا مشاہدہ فر ما رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ! آغا علی تشریف لائیں لیکن کچہ دیر بعد وہ عادی حالت  پہ واپس آگئے ۔ آخری دوتین دن وہ ذکر اور خدا  سے راز ونیاز میں زیادہ مشغول ہوتے تہے ۔

۱۰۳

ان کی وفات کے دن میں نے بڑے اطمینان سے گہر میں مکاسب کا درس دیا اور پہر ان کے چہوٹے کمرے میں گیا کہ جہاں وہ لیٹے تہے ۔ اس وقت فقط ان کی بیٹی وہاں موجود تہی کہ جومیری زوجہ بہی تہیں لیکن آغا کا چہرہ دیوار کی طرف تہا اور وہ ذکر  و دعا میں مشغول تہے ۔ انہوں نے کہا کہ آغا آج کچہ مضطرب ہیں ظاہراً ان کے اضطراب کی دلیل وہ ہی زیادہ ذکر و دعا تہا میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کاجواب دیا ور کہا آج کیا دن ہے میں نے کہا ، ہفتہ ، انہوں نے فر مایا کہ آج آغابروجردی درس پہ گئے تہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے صمیم قلب سے چند بار کہا ۔ الحمد للہ ۔

غرض یہ کہ ان کی بیٹی نے کہا کہ انہیں تہوڑی سی تربت امام حسین (ع)  دیں ۔ میں نے کہا ٹہیک ہے وہ تربت لائیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نوش فرمائیں وہ بیٹہ گئے میں ان کے سامنے گلاس لے گیا انہوں نے سو چا غذا یا دوا ہے انہوں  نے کچہ تلخ لہجے میں کہا یہ کیا ہے ؟ میں  نے کہا ، تربت امام حسین  ۔ ان کا چہرہ کہل گیا اور تربت اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد میں نے ان سے یہ کلمہ سنا کہ  انہوں نے کہا'' آخر زادی من الدنیا تربة الحسین '' دنیا سے میرا آخری توشہ تربت امام حسین (ع)  ہے۔ وہ دوبارہ لیٹ گئے میں نے دوسری مرتبہ ان کی فرمائش پر دعاء عدیلہ قرائت کی ۔ ان کے دوسرے بیٹے آغا سید حسن رو بہ قبلہ بیٹہے تہے اور آغا تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹہے ہوئے پڑہ رہے تہے اور وہ خدا وند متعال کے سامنے بڑی شدت اور صمیمیت سے اپنے عقائد کا اظہار کر رہے تہے ۔

مجہے یاد ہے کہ وہ امیر المو منین علی(ع)  کی خدمت کے اقرار کے بعد ترکی زبان میں یہ کہہ رہے تہے :بلافصل ، ہیچ فصلی یخدی ، لاپ بلا فصل لاپ بلا فصل ، کیمین بلا فصل وار؟

۱۰۴

آئمہ معصو مین علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے اس آیت کی تلاوت فرمائی '' الم تر کیف ضرب اللّٰه مثلاً کلمةً طیّبةً کشجرةٍ طیّبةٍ اصلها ثابت و فرعها فی السماء ''(۱)

کیا تم نے نہیں دیکہا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے ۔

میں وہاں کہڑا اس معنو ی منظر کا مشاہدہ کر رہا تہا میرے ذہن میں آیا کہ ا ن سے کہوں کہ آغا میرے لئے بہی دعا فرمائیں لیکن شرم مانع ہوئی کیو نکہ وہ اپنے حال میں مشغول تہے اور کسی دوسری جانب متوجہ نہیں تہے کیو نکہ وہ موت سے پہلے اپنے خدا کے  ساتہ راز ونیاز کر رہے تہے اور معنوی وظائف انجام دے رہے تہے اور ثانیاً یہ تقا ضا کرنا اس چیز کی طرف اشارہ تہا کہ ہم بہی آغا کی موت کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی موت کے سامنے تسلیم ہو چکے ہیں ۔

میں خاموشی سے کہڑا اس ماجرا کو دیکہ رہا تہا وہاں آغا سید حسن ، ان کی بیٹی اور خاندان کے دوسرے افراد موجود تہے۔ میں نے یہ بہی سنا کہ آغا کہہ رہے تہے ! خدا یا میرے تمام عقائد حاضر ہیں وہ تمام تجہے سپرد کر دیئے اب مجہے لوٹا دو ۔

میں وہیں کہڑا ہوا تہا اور وہ بہی اسی حالت میں تکیہ پر ٹیک لگائے رو بہ قبلہ

بیٹہ تہے  ۔ اچانک انکی سانس رک گئی ہم نے سوچا کہ شاید ان کا دل بند ہوا ہے ہم نے ان کے منہ میں کرامین کے چند قطرے ڈالے لیکن دوا ان کی لبوں کی اطراف سے باہر نکل آئی ۔ وہ اسی وقت وفات پاگئے تہے اس پانی اور تربت امام حسین  کے بعد کرامین کے چند قطرے بہی ان کے حلق تک نہیں پہنچے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ ابراہیم آیت: ۴ ۲

۱۰۵

مجہے یقین ہوگیا کہ آغا فوت ہوگئے ہیں میں گہر سے باہر آیا تو مدرسہ حجتیہ سے اذان کی آواز سنی   ان کی وفات اول ظہر کے قریب تہی جس کے بارے میں انہوں نے چہار شنبہ کو کہاتہا کہ میری موت ظہر کے وقت واقع ہو گی ۔

یہ مرد بزرگوار وہ تہے کہ جنہوں نے زندگی کے اس سفر میں ، سفر کی تمام قید و شرط کی رعایت کی اور وجوہات شرعیہ کے مصرف کو بہی کاملاً واضح کرد یا کہ اس میں ورثہ کو کچہ بہی نہ ملا ۔

ایک ایمان محکم شخص کی یہ گزشتہ داستان چند چیزوں پر مشتمل ہے :

۱ ۔ ان کا ظہر کے وقت اپنی  موت کے بارے میں خبر دینا اور پہر حقیقتاً ان کی موت ظہر کے وقت واقع ہوئی ۔

۲ ۔ وہ مکاشفہ کہ جس میں انہوں نے حضرت امیر المو منین(ع)  کو دیکہا تہا ۔

۳ ۔ ان کا یہ خبر دینا کہ ان کا آخری توشہ تربت امام حسین  (ع)ہو گا اور پہر ایسا ہی ہوا  ۔

مرحوم آیة اللہ العظمیٰ آغا حجت مو لا امیر المومنین (ع) کے فرمان کے واضح مصداق ہیں کہ :

'' انّ انفاسک اجزاء عمرک فلا تفنها الاَّ فی طاعة تزلفک ''

انہوں نے زندگی کے آخری لمحے اور آخری سانس کو راہ عبادت اور اطاعت خداوند میں بسر کیا ۔

جولوگ شیعہ  بزرگوںکی زندگی سے درس لیتے ہیں وہ آخری لحظہ تک مقام عبودیت اور اپنی  ذمہ  داری  کو انجام دیتے ہیں آخرت میں خداوند کریم کا خاص لطف ان کے شامل حال ہو گا ور اہل بیت  علیہم  السلام  کے جوار رحمت میں قرار پائیں گے ۔

۱۰۶

نتیجہ ٔ بحث

وقت اہم ترین نعمت ہے کہ جو خداوند تعالیٰ نے آپ کو عنایت کی ہے یہ آپ کی زندگی اور وجود کا بہترین اور بزرگترین سرمایہ ہے اسے بہترین راہ اور عالی ترین ہدف میں مصرف کریں ۔

آپ کی موجودہ وضعیت ، آپ کے گزشتہ اعمال و کردار کا نتیجہ و محصول ہے اور آپ کا مستقبل ، آپ کے حال کی رفتار و کردار کا ثمرہ ہوگا ۔

اگر آپ ارزشمند اور اعلیٰ اہداف کے خواہاں ہیں اگر آپ روشن مستقبل کے امید وار ہیں تو اپنے وقت کو فضول ضائع نہ کریں ۔

آپ متوجہ رہیں کہ اگر آپ نے اپنے ماضی سے استفادہ نہ کیا ہو اور آپ کو گزرے ہوئے کل پر افسوس ہو تو آپ اب اس طرح سے زندگی بسر کریں کہ آپ کو آئندہ اپنے آج پر شرمندگی و افسوس نہ ہو ۔

جستجو اور کوشش کے ذریعہ اپنے ماضی کا جبران اور باقی ماندہ فرصت سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں اورجو لوگ اپنے گزرے ہوئے وقت سے درس عبرت  لیتے ہیں اپنے لئے درخشاں اور روشن مستقبل کا انتخاب کرتے ہیں ۔

قدر وقت از نشناشی تو و کاری نکنی

پس خجالت کہ از این حاصل اوقات بری

اگر آپ وقت کی قدر و اہمیت کو نہیںپہچانیں گے اور کوئی کام انجام نہیں دیں گے تو وقت ضائع کرنے کے بعد صرف شرمندگی حاصل ہو گی ۔

۱۰۷

ساتواں باب

اہل تقویٰ کی صحبت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''  اکثر  الصّلاح و الصّواب فی صحبة اولی النهیٰ والا لباب ''

اکثر و بیشتر اصلاح اور درستی صاحبان عقل و خرد کی صحبت میں ہے ۔ ۔

    صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

    جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

   ۱ ۔ علماء ربانی کی صحبت

   ۲ ۔ صالحین کی صحبت

    اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

    جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

   ۱ ۔ چہوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

   ۲ ۔ گمراہوں کی صحبت

   ۳ ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

    ۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

    نتیجۂ بحث

۱۰۸

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز

معنوی مقاصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن ان میں سے کون سا راستہ اہم ترین ہے کہ جو انسان کو جلد منزل و مقصد تک پہنچا دے ۔

اس بارے میں مختلف عقائد و نظریات ہیں ہر گروہ کسی راہ کو اقرب الطرق کے عنوان سے قبول کرتاہے اور اسے نزدیک ترین ، بہتر اور سریع ترین راہ سمجہتے ہیں ان میں سے بعض نیک اور صالح افراد کے ساتہ ہمنشینی کو اقرب الطرق سمجہتے ہیں ۔

ان میںسے جو نظریہ صحیح لگتاہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ہمنشینی کہ جو خدا کو خدا کے لئے چاہیں نہ کہ اپنے لئے ، اور ان کی صحبت کہ جو اپنے اندر حقیقت ایمان کو واقعیت کے مرحلہ تک پہنچا ئیں ۔ یہ فوق العادہ اثر رکہتا ہے ۔

اسی وجہ سے کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے دل نشین کلام میں فرماتے ہیں :

'' لیس شیء اوعیٰ لخیر و انجیٰ من شرّ من صحبة الاخیار '' (۱)

اچہے افراد کی صحبت سے بڑہ کر کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو انسان کو بیشتر خوبیوں کی دعوت دے اور برائیوں  سے نجات دے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غر ر الحکم :ج۵ص  ۸۷

۱۰۹

کیو نکہ معاشرے کے شریف اور صالح افراد کے ساتہ بیٹہنا انسان کے لئے شرف و ہدایت کا باعث ہوتا ہے جو زنگ آلود دلوں کو صاف اور منور کر تا ہے اور انسان کو معنویت کی طرف مائل کرتاہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ع) فر ماتے ہیں :

'' مجالسة الصالحین داعیة الی الصلاح '' (۱)

صالح افراد کی صحبت انسان کو صلاح کی دعوت دیتی ہے  ۔

ایسے افراد میں معنوی قوت و طاقت ، ان کے ہمنشین حضرات میں بہی نفوذ کرتی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتہ ان کے اعمال و کردار و رفتار ان ہی کی مانند ہو جاتے ہیں ۔

کبہی ایسے افراد کا دوسروں میں معنوی نفوذ جلد ہو تا ہے جس میں طولانی مدت کی صحبت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایک نشست یا ایک نگاہ یا ایک دلنشین جملہ دوسروں کی فکر ی و اعتقادی وضعیت کو بدل کر ان میں حیات جاویداں ایجاد کر تا ہے ۔

جی ہاں ، نیک افراد کے مجمع میں دوسرے بہی ان سے معطر ہو کر نیک اور اچہے لوگوں کی صف میں آجاتے ہیں نیک لوگوں کی نورانیت و پاکیزگی دوسروں پر بہی اثر انداز ہوتی ہے اور ان کے قلب کی آلودگی و ظلمت کو دور کر کے اپنی طرف جذب کر تی ہے۔

نیک اور پاکیزہ افراد کی صحبت سے قلب کی پاکیزگی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اچہے لوگوں کے ساتہ رہنا اچہائی سکہا تا ہے اور نیک اور خود ساختہ افراد کے ہمراہ رہنا ، انسان بناتا ہے اور ان پر ہونے والی توجہات ان کے ہمراہ رہنے والوں کو بہی شامل ہو تی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ اصول کافی:ج ۱ص  ۲۰

۱۱۰

یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی طرف دعاؤں میں بہی اشارہ ہواہے ۔ مرحوم شیخ مفید   کتاب مزار میں ایک دعانقل فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومین  کی زیارت کے بعد اس دعا کو پڑہنا مستحب ہےاوراس دعا کے ایک حصے میں یوں بیان ہو اہے :

'' یا ولیّ اللّٰه عزّ و جلّ حظّی من زیارتک تخلیطی بخالصی زوّارک الّذین تسأل اللّٰه عزّ و جلّ فی عتق رقابهم و ترغب الیه فی حسن ثوابهم ''

اے ولی خدا ! اپنی زیارت سے مجہے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے   کہ جن افراد کی خداوند کریم سے آزادی چاہتے ہو اور جن کے لئے خدا سے نیک ثواب اور جن کے لئے خدا کی رغبت چاہتے ہو ۔ ۔

جس طرح خشک و تر ایک ساتہ جل جاتے ہیں جس طرح پہول اور کانٹے ایک ہی چشمہ سے سیراب ہو تے ہیں جس طرح باغبان کی گلستان پر پڑنے والی محبت آمیز نگاہ میں باغ میں موجود کانٹوں کو بہی شامل کر تی ہے اور پہول کی خوشبو سے کانٹے بہی معطر ہو جاتے ہیں جس طرح پہول فروخت کرنے والے پہول کو کانٹوںکے ساتہ فروخت کر تے ہیں اسی طرح خریدار بہی پہول کو کانٹوں سمیت خرید تا ہے اسی طرح جو نیک افراد کی خدمت میں حاضر ہو وہ ان پر پڑنے والے تابناک انوار سے بہی بہرہ مند ہو تا ہے ۔

اسی لئے زیارت کے بعد پڑہی جانے والی دعامیں امام  کی خدمت میں عرض کر تے ہیں کہ اے ولی خدا ! مجہے اپنی زیارت سے اپنے خالص زوار وں میں سے قرار دے ۔

نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹہنا ایک ایسے نسخہ کیمیا کی مانند ہے کہ جو اولیاء خدا کے اطراف بدن میں موجود ہو تا ہے کہ جو ان کے ہمراہ اور ان کی صحبت میں بیٹہنے والے شخص میں موجود ضعف کو ختم کرکے اسے شہامت و ا چہائی عطا کر تے ہیں اسے بال و پر عطا کر تے ہیں تاکہ وہ معنویت کی بیکراں فضا میں پرواز کر سکے اور عالم معنی کی لذّتوں سے مستفید ہو ۔

۱۱۱

انسان ایک دوسرے کی صحبت اور ہمنشینی سے ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثرات مرتب کر تا ہے  انسان کی نفسیات اور اعتقا دات مختلف ہو تے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کیفیت کے لحاظ  سے بہت  تفاوت ہو تا ہے ۔ اسی طرح ان افراد میں ایک دوسرے پر اثر گزاری کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے بہی درجات کا اختلاف ہو تا ہے ۔

افراد کی ایک دوسرے سے مصاحبت ، ہمنشینی اور رفاقت سے افراد کی فکری اور اعتقادی خصوصیات ایک دوسرے کی طرف منتقل ہو تی ہیں ۔

عام طور پر صاحب یقین افراد دوسروں پر زیادہ اثر چہوڑ تے ہیں کیو نکہ یہ ارادہ و نفوذ رکہتے ہیں لہذا یہ اپنی فکری اور اعتقادی خصوصیات دوسروں میں ایجاد کر تے ہیں یا انہیں تقویت دیتے ہیں ۔ معنوی افراد کی صحبت ، صرف مقابل کی فکری خصو صیات میں تحول ایجاد کر تا ہے اور غیر سالم اور غلط افکار کو صحیح اعتقادات میں تبدیل کر تا ہے لیکن یہ ایک قانون کلی ہے کیو نکہ جس طرح دین ایک آگاہ و عالم شخصیت کو دستور دیتا ہے کہ جاہل اور نا آگاہ افراد میں جا کر انہیں دین و مذہب کی طرف لائیں اور انہیں تشیع کے حیات بخش دستورات سے آشنا کروا ئیں ۔ اسی طرح وہ دستور و حکم دیتا ہے کہ پست اور منحرف افراد سے ہمنشینی سے دور رہو کہ جب ان کے ساتہ آمد و رفت تم پر اثر انداز ہو ۔

یہ تشخیص دینا عالم اور با خبر شخص کی  ذمہ  داری ہے کہ جاہل افراد کی ہمنشینی کس حد تک منفی یا مثبت اثرات رکہتی ہے ؟ کیا وہ دوسروں میں نفوذ کر تا ہے اور ان افکار و عقائد کو کمال کی طر ف لے جارہا ہے یا ان کی نفسیات اس پر مسلط ہو چکی ہے اور ان کی صحبت اس پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہے؟ کیا وہ دوسروں پر اثر انداز ہو رہا ہے یا دوسرے اس پر اثر انداز ہو رہے ہیں ؟

لہذا اہل علم کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ وہ لو گوں کو تبلیغ کریں اور اپنے روحانی و نفسانی حالات کی جانب بہی متوجہ رہیں تاکہ دوسروں کے تحت تاثیر قرار نہ پائیں ۔

۱۱۲

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے

ہم جلد ایسے افراد کے بارے میں بحث کریں گے کہ جن کی صحبت انسان کی علمی و عملی ترقی کے لئے نقصان دہ ہے اب ہم نمونہ کے طور پر چند ایسے افراد کا ذکر کر تے ہیں کہ جن کی صحبت اور ہمنشینی معنوی سیر اور پرواز کا باعث ہے :

۱ ۔ علماء ربانی کی صحبت

ان افراد کی صحبت اور ہمنشینی کے بہت زیادہ آثار اور فوائد ہیں مخصوصا اگر انسان ان کے لئے خاص احترام و محبت کا قائل ہو ۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں :

'' لا تجلسوا عند کلّ عالمٍ الاَّ عالم یدعوکم الی الاخلاص '' (۱)

ہر عالم کے پاس نہ بیٹہو مگر اس عالم کے پاس کہ جو تمہیں ریا سے روکے اور اخلاص کی طرف لے کر جائے ۔

جو آپ کوصحیح راستہ کی طرف لے جا کر اللہ کی طرف دعوت دے اس کی رہنمائی اور گفتار کا ہدف اپنی طرف دعوت دینا نہیں ہے ۔ ایسے ربانی علماء کی صحبت آپ پر اثر انداز ہو گی اور آپ کو اہل بیت  کے نورانی معارف سے آشنا کر ے گی وہ تمہارے دل کو خاندان وحی کی محبت سے پیوند لگا دیں گے اور تمہیں منافقین تاریخ کی کالی کر توتوں سے آگاہ کر کے تمہارے دلوں میں ان کے لئے نفرت کو زیادہ کریں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]بحار الانوار:ج ۱  ص۵ ۲۰۔

۱۱۳

۲ ۔ صالحین کی صحبت

پیغمبر اکرم(ص) اپنے ارشادات میں مجالست و مصاحبت کے مورد میں اپنے محبوں اور دوستوں کی رہنمائی فرماتے ہیں اور انہیں تاکید فرماتے ہیں کہ پر ہیز گار اورمو من افراد میں سے اپنے ہمنشینی منتخب کریں اور بے ہدف اور دنیا پرست افراد کی صحبت سے پر ہیز کریں ۔ آپ  نے اپنے ایک مفصل ارشاد میں عبد اللہ بن مسعود  سے  یوں فرمایا :

'' یابن مسعود فلیکن جلساؤک الا برار واخوانک الا تقیاء والزّهاد ، لانّ اللّٰ هتعالیٰ قال فی کتاب ه: الاخلاَّئ یو مئذٍ بعضهم لبعضٍ عدوّ والاَّ المتّقین ''(۱)

اے ابن مسعود ، تمہارے ہمنشین نیک افراد ہوں او ر تمہارے بہائی متقی اور زاہد ہوں کیو نکہ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : آج کے دن صاحبان تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجا ئیں گے  ۔

رسول اکرم(ص) نے  جناب ابوذر کو کی گئی وصیت میں ارشاد فرمایا :

'' یا اباذر لا تصاحب الاَّ مومناً '' (۲)

اے ابوذر ! اپنے لئے کسی مصاحب کو منتخب نہ کرو ، مگر یہ کہ وہ مومن ہو  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ زخرف ، آ یت ۶۷ ، بحار الا نوار:ج ۷۷ص  ۲ ۱۰

[۲]۔ بحار الانوار:ج ۷۷ص  ۸۶

۱۱۴

کیو نکہ زندگی کا لطف ، اولیاء خدا اور نیک لو گوں کی صحبت میں ہے حضرت امیر المومنین  اپنے ایک حیات بخش فرمان میں رسول(ص) سے فرماتے ہیں :

'' هل احبّ الحیاة الاَّ بخدمتک والتّصرّف بین امرک و نهیک ولمحبّة اولیائک ''(۱)

کیا زندگی کو دوست رکہتا ہوں مگر آپ کی خدمت ، آپ کے امر و نہی کی اطاعت اور آپ نے اولیا ء  و محبین سے محبت کے لئے ؟ 

دنیا کی ارزش و اہمیت صرف اولیاء  خدا ور نیک و خود ساختہ افراد کی وجہ سے ہے ورنہ زندگی صرف رنج و غم کا نام ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین کی نظر میں دنیا کی کوئی ارزش و واقعیت نہیں ہے زندگی میں کچہ بے ارزش ، رنج آور اور نا راحت کرنے والے و اقعات ہو تے ہیں لہذا صرف اولیاء خدا کا وجود ہی خدا کے بندوں کے لئے دنیا میں زندگی گزار نے کا سبب ہے نہ کہ دنیا کی زرق برق رونقیں اس بناء پر خدا کے بندوں کے لئے جو چیز دنیا میں زندگی بسر کرنے کو شیریں بنا تی ہے وہ اولیاء خدا اور نیک لوگوں کا وجود ہے کہ جن کی صحبت انسان کے دل میں یاد خدا اور اہل بیت  کو زندہ کرتی ہے یہ چیز ان شخصیات کے لئے دنیا میں زند گی گزار نے کے لئے شیرینی ، مسرت و فرحت کا باعث ہے کہ جنہوں نے دنیا کو فروخت کر دیا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۳]۔ بحا ر الانوار:ج ۱۹ص  ۸۱

۱۱۵

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں

ان دو قسم کے افراد کے درمیاں فرق کو مد نظر رکہیں کہ جن میں سے بعض کا ہدف اپنے نام  چمکانا  ہوتا  ہےاور  کچہ   کا ہدف اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نام کی نشر و اشاعت کے علاوہ کچہ نہ ہو ، انہیں ایک دوسرے سے تشخیص دیں ۔ افراد کی پہچان اور ان کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان ہلا کت وگمراہی یا توقف کا باعث بن سکتا ہے ۔ حضرت جواد الائمہ امام تقی (ع)   فرما تے ہیں :

'' من انقاد الیٰ الطّمانینة قبل الحبرة ، فقد عرض نفسه للهلکة و لعاقبة المتعبة ''(۱)

جو کسی کو آزمانے سے پہلے ان پر اطمینان کرے وہ اپنے نفس کو ہلا کت میں ڈالتا ہے جس کا انجام بہت سخت ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار :ج۷۱ ص ۴۰ ۳

۱۱۶

اکثر دہو کا کہانے والے یا پہر آسمان سے گرنے  اور کہجور پر اٹہکنے کے مصداق وہ افراد ہیںجوحسن ظن ، جلدی فریفتہ ہو نے والے اور تحقیق کے بغیر اطمینان کر نے کی وجہ سے دہو کا دینے والوں کے چکر میں پہنس جاتے ہیں ۔ اگر وہ مکتب اہل بیت  کی پیروی کرتے ہوئے کسی سے دل لگی اور محبت سےپہلے ان کو آزمالیں تو وہ کبہی بہی  ہلاکت اور گمراہی میں مبتلا نہ ہوں  ۔

اسی وجہ سے ہمیں اپنے دوستوں اور ہمنشین افراد کو پہچا ننا چاہیئے ۔ ان کی کامل پہچان کے بعد ان پر اطمینان و اعتماد کریں اور یہ صحیح و کامل شناخت انہیں آزمانے کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہے ۔

           حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

          '' یعرف النّاس بالا ختیار '' (۱)

           لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے ذریعہ پہچانو  ۔

پس  کیوں  سب  پر  بہروسہ  کریں؟  کیوں کسی  بہی قسم کے افراد کے ساتہ ہمنشینی و رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں ؟ ہمیں اپنی زند گی کا برنامہ اہل بیت  کے ہدایت کر نے والے ارشا دات کے مطابق قراردیں  اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہو کر  اپنے مستقبل کو درخشاں بنا ئیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ اصول کافی :ج۱  ص۳۰

۱۱۷

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ

 خاندان وحی علیہم  السلام  نے ہمیں اپنے فرامین میں لوگوں کے چند گروہوں کی صحبت و دوستی سے پر ہیز کرنے کا حکم دیا ہے

۱ ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکہیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچہی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایه و ینکر عمله فانّ الصّاحب معتبر بصاحبه ''(۱)

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتہی کا قیاس اس کے ساتہی پر کیا جا تاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ۶۹

۱۱۸

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکہ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بہی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چہوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بہی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تہا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبہی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تہے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تہیں ، انہوں نے مجہ سے پوچہا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکہتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجہے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

۱۱۹

           میرے دوست مجہے مذاق کر رہے تہے اور کہہ رہے تہے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتہ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑہ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پر نم آنکہوں کے ساتہ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تہا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑہتا وہاں بیٹہ کر گریہ و توسل کو جاری  رکہا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندہے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکہا وہ عربی لباس میں ملبّس تہے ۔ لیکن مجہ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچہ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتہ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتہ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچہ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پہر وہ دن بہی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تہا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پہر صحن اور پہر شہر سے بہی خارج ہوگئے ۔ کچہ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجہے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچہ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کہانا کہاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کہینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹہہرا رہا ، کہا نا کہایا  ، وضو کیا اور پہر نماز پڑہی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹہو چلیں ، چند گہنٹے چلنے کے بعد پہر اک جگہ اور پانی تک پہنچے، انہوں نے پہر زمین پر خط کہینچا اور فرمایا

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

نے ترقى بھى كى جب ايران منگولوں كے وحشيانہ حملوں كى زد ميں تھا اسى زمانہ ميں مصر كے سلطان بيبرس آرٹسٹ حضرات اور جنگجووں كى حمايت كر رہے تھے _ ايك قلعہ ميں ايك بلند ٹيلے پر سلطان بيرس كے حكم پر حصار نما د،يوار نماپناہ گاہ بنائي گى اسميں قديم اہرام جيزہ كے پتھر استعمال كيے گئے _ اسى زمانہ ميں شيشہ گر حلب اور دمشق ميں موجودتھے كہ جنكے شاہكاروں كوعيسائي لوگ پسند كرتے تھے اور خريدتے تھے _ يہ شيشہ گر لوگ اپنے ظروف كو سونے كے پانى اور براق زرد، سرخ اور سبز رنگ كے پانى سے آراستہ كرتے تھے _

اسلامى جلد سازى كا ہنر جسميں ہندسى ( Geomatrical )اشكال كو كتابوں كى چرمى جلدوں پر استعمال كيا جاتا تھا كى كشش نے مصر اور شمالى افريقہ كے ہنرمندوں كو اپنى طرف كھينچا اور يہ بالكل وہى زمانہ تھا كہ قلمى نسخہ جات ميں سے كوفى خط رخصت ہو رہا تھا اور اسكى جگہ خط نسخ لے رہا تھا كہ جسميں كوفى خط كى نسبت لچك زيادہ تھى(۱)

ساتويں ايل خان غازان خان (۷۰۳_ ۶۹۴ قمرى ) نے اپنے دار الحكومت تبريز كو علم و دانش اور اسلامى فنون كے مركز ميں تبديل كرديا تھا _ وہ با قاعدہ طور پر مسلمان ہوچكا تھا اس نے تبريز كے جنوب ميں ايك نيا شہر بسايا اور وہاں دينى مدارس ، كتابخانہ ، ہسپتال اور ايك محل تعمير كروايا اسكے وزير رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى جو كہ خود بھى اپنے زمانہ كے اديبوں ميں سے تھے انہوں نے تبريز كے مشرقى حصہ ميں ربع رشيدى كے نام سے ايك كمپليكس بنوايا جو بہت سے ثقافتى مراكز اور طالب علموں ، مصوروں ، خطاطوں اور نسخوں كو سونے اور رنگوں كے پانى مزين كرنے والوں كے ليے تربيت گاہوں پر مشتمل تھا _ خود انہوں نے كتاب'' جامع التواريخ '' تاليف كى كہ آج اسكے كچھ حصے مولف كے زمانہ كى تصاوير كے ساتھ موجود ہيں _

ايران كى قديم ترين پينٹنگ وہ تصاوير ہيں كہ جو كتاب منافع الحيوان كيلئے بنائي گئيں اور يہ كتاب ۴۹۹ قمرى ميں منگول بادشاہ كے حكم پر مراغہ ميں دوبارہ لكھى گئي _ اس كتاب كى پينٹنگ اور شاہنامہ فردوسى كے ايك نفيس نسخے جس كى نقل (۷۲۰ ھ ق) ميں تيار كى گئي كى تصاوير ميں چينى فن كى اسلامى ايران كى مصورى پر تاثير واضح طور پر محسوس كى جاسكتى ہے_

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۶۹_

۱۴۱

مصورى كى مانند مٹى كے برتن بنانے كا ايرانى فن بھى چينى فن سے متاثر تھا،يہ برتن بنانے والے بجائے اسكے كہ اسى سلجوقى روش كو آگے بڑھاتے انہوں نے مختلف (جديد)اور آزاد روشوں كو اختيار كرليا_ ان برتنوں اور ديواروں كى كاشى كارى ميں سياہ ، خاكسترى ، فيروزى ، ارغوانى اور نيلے رنگ ہلكے اور رقيق انداز بہت دلفريب اور بھلے معلوم ہوتے تھے _

ايلخانى (منگول)دور ميں ايرانى اور اسلامى اديبوں كى منگولوں كى اولاد ميں تمدن كى روح پھونكنے كى كوششيں ابھى ثمر آور ہوئيں ہى تھيں كہ يہ حكومت اندرونى مخالفتوں اور بغاوتوں كا شكار ہوگئي اور ختم ہوگئي انكے بعد تيمور لنگ ايران پر قابض ہوگيا اسكے وحشيانہ حملوں كى زد سے كوئي بھى سرزمين ايران ، ہند ، شام ، مصر اور ايشيا ئے صغير محفوظ نہيں رہى ليكن تيمور كے بيٹے اور اسكے پوتے اور نواسے بالخصوص شاہرخ ، بايسنقر، الغ بيگ، سلطان حسين ، بايقرا اور تيمور كى اولاد كا وہ سلسلہ كہ جو ہندوستان كے عظيم مغل بادشاہ كہلائے انہوں نے مختلف فنى ميدانوں ميں بہت سے فنى نمونے ايجاد كرنے كے اسباب مہيا كيے_

پندرہويں صدى عيسوى كے آخر ميں اندلس مسلمان كے ہاتھوں سے نكل گيا اسلامى حكومت كا وہ چھوٹاسا مركز اپنى زندگى كے آخرى سالوں ميں بہت ہى خوبصورت فنون سے آراستہ تھا _ اس دور كى ايك باشكوہ عمارت قصر الحمرا ، ( سرخ محل) تھى جب بنى نصر كے پہلے امير محمد بن احمد نے ۶۳۴ قمرى اور ۱۲۳۶ عيسوى ميں غرناطہ كو فتح كيا تو اس نے اپنا محل ايك بلند پہاڑ پر ايك چٹان پر بنايا اسكے بعد اسكى نسل كے ہر بادشاہ نے اس محل ميں كچھ نہ كچھ اضافہ كيا_

اسى سلسلہ كے ايك بادشاہ محمد پنجم نے چھٹى صدى ہجرى ميں الحمراء كو انتہائي خوبصورت صورت ميں آراستہ كيا كہ جو ابھى تك موجود ہے تقريبا اسى زمانہ ميں كہ جب الحمراء محل تعمير ہو رہا تھا قاہرہ ميں مدرسہ سلطان حسين تعمير ہوا البتہ دونوں كى معمارى ميں بڑا فرق تھا_ مدرسہ سلطان حسين كى وہ سمت جو قبلہ كى طرف تھى سلطان كے مقبرہ سے متصل تھى _ يہ عمارت مكعب شكل ميں تھى اور اسكا گنبد بيزانس كے گنبدوں سے مشابہہ تھا_

۱۴۲

مسلمانوں كے خوبصورت محلات نے ہسپانيہ كے عيسائي معماروں كو حيران كن انداز سے متاثر كيا _ عيسائي بادشاہ ہسپانيہ كو فتح كرنے كے بعد مسلمان صنعت گروں كو اسلامى طرز پر كام كرنے كا كہتے تھے چونكہ انہيں مسلمانوں كے صحن والے گھروں سے انس ہوگيا تھا اس ليے وہ يہ طرز و روش امريكا بھى لے گئے _ تيمورى دور ميں جيسا كہ ذكر ہوا لوٹ مار اور قتل و غارت كے باوجود تيمور نے ہنر و فن ميں ترقى كا راستہ اختيار كيا تيمور كے بيٹے شاہرخ نے دارالحكومت كو سمرقند سے ہرات كى طرف منتقل كيا _ اور اپنے باپ كے ہاتھوں سے ہونے والى ويرانيوں كو دوبارہ آباديوں ميں تبديل كيا _

شاہرخ كى ملكہ گوہر شاد نے امام رضا (ع) كے روضہ كے قريب اپنے نام سے ايك مسجد بنائي _ شاہرخ اور اسكے بعد والے بادشاہوں كے دور ميں مشہد اور اصفہان كى رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا عمارتوں ميں رنگين چمكدار كاشى والى ٹائيلوں كا استعمال اپنے عروج كو پہنچا _ اسى طرح تيمورى دوربالخصوص شاہرخ اور بايسنقر كے دورنفيس قلمى كتابوں كے تيار ہونے كا زرين زمانہ تھا _ اس دور جيسا جلد سازى ، خطاطى ، پينٹنگ اور پينٹنگ كا ہنر كسى اور دورميں نہيں ملتا ( ۱)

مصوّرين نے تصويروں كے بنانے ميں خاص روش ايجاد كى جو ''مكتب ہرات ''كہلائي _ ہرات كى پينٹنگ كا اسلوب اور شيوہ بغداد اور شيراز كے فن مصورى سے كافى حد تك مختلف تھا اور ايلخانى دور كے چينى ہنر سے متاثر تھا مكتب ہرات شاہرخ كے بعد بھى جارى رہا _ شاہرخ كا بيٹا بايسنقر ميرزا جو كہ ہنر پسند اور آرام پسند طبيعت كا مالك بادشاہ تھا اس نے ايران كے بہترين چاليس مصوروں كو ہرات ميں جمع كيا تا كہ وہ اسكے كتابخانہ كے قلمى نسخوں كيلئے تصاوير تيار كريں اسكى دلچسپى كى بنا پر اس دور ميں جو مشہورترين كام ہوا وہ بايسنقر معروف شاہنامہ تھا كہ جسكى پينٹنگ كا كام ۸۳۳ ميں مكمل ہوا _ تركمانى بادشاہ '' قراقوينلو اور آق قوينلو '' كے دور ميں شيراز كے اہل فن حضرات نے ايك نيا طريقہ دريافت كيا كہ جو'' تركمان'' كے عنوان سے معروف ہوا_

____________________

۱) كريستين ، پرايس، سابقہ حوالہ، ص ۱۲۹_

۱۴۳

نويں صدى كے وسط ميں ايك بچے نے اس جہان ميں آنكھيں كھوليں كہ جسے بہزاد كا نام ملا يہ بچہ بڑا ہو كہ ہرات ميں سلطان حسين كے دربار ميں مصورى كے كام ميں مشغول ہوا تھوڑى ہى مدت كے بعد اسكا نام ايرانى فن مصورى ميں امر ہوگيا كمال الدين بھزاد نے ايك نيا شيوہ ايجاد كيا كہ اس ميں وہ روزانہ كى حقيقى زندگى كى جزئيات بيان كرتا تھا _ اس طرز كى بہترين اور بولتى ہوئي پينٹنگ طہماسپ صفوى كے دور حكومت ميں تبريز ، قزوين اور مشہد ميں تيار ہوئيں ان تصوير وں ميں جذاب رنگوں كے استعمال كے ساتھ ايرانى لوگوں كى روزانہ كى زندگى كو پيش كيا جاتا تھا _(۱)

ايشيا ئے صغير ميں عثمانى تركوں كى مملكت بھى اسلامى فنون كے آشكار ہونے كى ايك اور نظير تھى '' اياصوفيہ'' كہ جو شروع ميں كليسا تھا پھر مسجد بنا اسكے اثرات انكے دل و جان ميں اسقدر تھے كہ نويں صدى كے اختتام اور اسكے بعد تك اسكى معمارى كے اثرات قسطنطنيہ شہر يا ديگر عثمانى حكومت كے علاتوں ميں باقى اور واضح تھے ان ميں سب سے بڑا اور عظيم معمارى كا شاہكار مسجد سلطان احمد اول ہے جو سن ۱۶۰۹ عيسوى سے ۱۶۱۶ عيسوى تك تعمير ہوئي _ اسى طرح اسلامى معمارى كا ايك اور نمونہ مسجد سليمانيہ ہے كہ جو سلطان سليمان قانونى كے حكم پر ''سنان پاشا ''كى معمارى اور نقشہ سازى كے مطابق كے ساتھ تيار ہوئي _ سنان پاشا كہ جس نے ۹۶۸ قمرى ميں مسجد سليمانيہ ميں كام ختم كيا ايك اور مسجد بنام رستم پاشا كو بھى تعمير كيا _ وہ محل كہ جسكى تعمير كا آغاز سلطان محمد فاتح نے شروع كيا تھاسليمان قانونى كے دور ميں ايك چھوٹے سے شہر كى شكل اختيار كر گيا تھا جسكے چار بڑے صحن اور چند دروازے تھے _

يہ مسلم سى بات ہے كہ مشرق قريب بالخصوص ايران ميں پانچ قرن قبل مسيح قالين سازى كى صنعت رائج تھى _ سائبيريا كے جنوب ميں ''پا زير يك'' نام كى جگہ پر پانچ قرن قبل چھوٹا سا پشمى قالين معجزانہ طريقہ سے ہمارے ليے برف ميں محفوظ رہا _ يہ قالين جس جگہ سے ملا وہ جگہ '' قالى پا زير يك '' كے عنوان سے مشہور ہوگئي

____________________

۱) فورست دلدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۳۱۲_

۱۴۴

ان سب چيزوں كے باوجود ساتويں صدى سے ايك جيسى روش كے ساتھ بہت زيادہ تعداد ميں قالين تيار ہونے كا كام رائج تھا _ ايسے قالينوں كا ايك مكمل سيٹ قونيہ اور ديگر شہروں ميں سلجوقيوں كى بڑى مساجد سے ملاہے _ ايران ميں قالين باف افراد نے خطى نسخوں كو سونے كے پانى سے آراستہ كرنے كى روش كى مانند كام كيا قالينوں كے وسط اور حاشيوں پر مختلف انواع كے جذاب رنگ استعمال كيے _ صفوى دور ميں نفيس ترين ايرانى قالين مساجد ، معابد اور متبرك مقامات كو ہديہ كيے جا تے تھے كہ ان ميں سے ايك ابھى تك باقى ہے يہ قالين شيخ صفى كى آرامگاہ كيلئے تيار ہوا تھا اس قالين كا نقشہ مقصود كاشانى نے تيار كيا تھا كہ يہ ۹۶۶ قمرى ميں مكمل ہوا تھا اور اب يہ لندن كے ميوزيم ميں موجود ہے _

صفوى دور كے قالين بيشتر پشم سے تيار ہوتے تھے _ ليكن شاہ عباس كبير كے دور ميں كبھى ريشمى اور كبھى توسونے وچاندى كى تاروں سے قاليں تيار ہوتے تھے_ قفقاز والوں نے بعض ايرانى قالين بطور قرض ليے اور انہيں اس روش كے ساتھ كہ جن ميں گل بوٹے اور جانور و غيرہ تھے تيار كيا _ صفوى دور كے ريشمى اور سونے كى تاروں سے تيار كپڑے ابھى يورپ والوں كے پاس موجود ہيں اس قسم كے كپڑوں پر ڈيزائن زيادہ تر پھول اور كبھى تو جانوروں اور آدميوں كى صورت كے ساتھ بنائے جاتے تھے_

صفوى بادشاہوں ميں شاہ عباس كبير سب سے ممتاز شخصيت كا مالك تھا وہ ہنر و فن كا دلدادہ اور ہنر پروردہ شخصيت كا حامل تھا در اصل اصفہان كى رونق اور شہرت اسى كے مرہون منت ہے_قديم اصفہان كے مغربى جنوبى علاقہ يعنى نئے اصفہان ميں چوك ، ميدان ، مساجد ، محلات ، بازار اور بہت سے باغ كہ جو اس نے بنوائے ان كى بدولت اصفہان نصف جہا ن بنا _

شاہ عباس كے زمانے ميں شہرى اور عمومى تعميرات كيلئے علاقے كا نقشہ تيار ہوا ايك بہت بڑا ميدان يا چوك اس نے بنايا كہ جسے ميدان نقش جہان كا نام ديا گيا _پھر اسكے تمام چاركونوں كے درميان ايك بڑى عمارت بنائي گى ان عمارتوں كا عمومى نقشہ چار ايوانوں پر مشتمل ايك عمارت كا تھا كہ جو ايرانى معمارى ميں قديم

۱۴۵

ادوار سے ربط ركھتا تھا _ يہ چار بہترين عمارتيں يہ تھيں : مسجد شاہ ، مسجد شيخ لطف اللہ ، قيصريہ كے بازار كا دروازہ اور عالى قاپو كى عمارت _(۱)

شہر كے درميان ميدان شاہ پانچ سوميٹر سے زيادہ رقبہ پر مشتمل تھا بازار بھى تھا اورساتھ ساتھ چوگان بازى اور تير اندازى كے ميدان كا كام بھى ديتا تھا ميدان كے تمام اطراف كو ايك دو طبقہ عمارت نے گھيرے ميں ليا ہواتھا نچلے طبقہ ميں دھات كارى اور كندہ كارى والوں كى دوكانيں تھيں كہ جہاں وہ لوگ اپنى فنى ايجادات ميں مصروف تھے_

اس ميدان كے مشرقى حصے ميں مشہور اور خوبصورت مسجد يعنى مسجد شيخ لطف اللہ تعمير ہوئي تھى _ (۱۰۱۲ قمرى ، ۱۶۰۳ عيسوى ) البتہ مسجد شاہ اصفہان مسجد شيخ لطف اللہ سے بڑى ہے اور اسميں ايك قابل ديد اور باشكوہ صحن ہے _ ميدان شاہ كے مغربى جانب چھ طبقات پر مشتمل عالى قاپو كا محل تھا كہ اسكے چوتھے طبقہ ميں بہت سے ستونوں والا ايك ايوان ہے جہاں بادشاہ بيٹھ كہ كھيليں اور جشن ديكھا كرتا تھا _ شاہ عباس نے شہر كے مركز ميں ايك كھلى اور وسيع سڑك بنوائي كر جسكا نام چارباغ ہے كہ جسكے كناروں پر درخت چنار كى چندقطاريں لگوائيں اس سڑك كا اختتام سى و سہ پل يا پل اللہ ورديخان پر ہوتا ہے _

شايد جانسن كى بات درست ہے كہ اس نے گيارہويں صدى كے اوائل يعنى ستريں صدى عيسوى كے ابتدائي پچاس سال كو معمارى كى دنيا ميں اسلامى عروج اور ترقى كا آخرى مرحلہ قرار ديا ہے كيونكہ اس دور ميں عالم اسلام كے تين مقامات پرفن كے تين شاہكار وجود ميں آئے :ايران ميں ميدان شاہ اصفہان ، ہندوستان ميں تاج محل يا ارجمند بانو بيگم كى آرامگاہ اور عثمانى مملكت ميں مسجد سلطان احمد اول _(۲)

____________________

۱) ہورست و لدمار جنسن ، سابقہ حوالہ ، ص ۲۰۰

۲)سابقہ حوالہ، ص ۲۰۲_

۱۴۶

اصفہان ميں شاہ عباس كے دور ميں ايك يا دو مصوروں كى تصاوير اور پينٹنگ بہت زيادہ رائج تھيں اور لوگوں ميں مقبول تھيں وہ آقا رضا اور پھر رضا عباسى تھے جو اس فنى روش كے سردار مانے جاتے تھے اس فنى اسلوب ميں معروفترين ہنرمند رضا عباسى تھااسكا شاہ عباس كے دربار سے تعلق تھا اسكى تمام پينٹنگز اس دور كے تمام ہنرمندوں كيلئے نمونہ عمل كا درجہ اختيار كر گئي تھيں _ گيا رھويں صدى كے پہلے چوتھائي حصہ ميں ايك اور نامى گرامى مصور معين مصور تھے كہ جنكى افسانوں اور تاريخ كے حوالے سے پينٹنگز شہرہ آفاق تھيں _

ہندوستان ميں تيمور لنگ كا نواسہ بابر ميرزا كى ہنر سے دلچسپى كے باعث مكتب ہرات كے بعض فنى آثار خصوصاً بہزادكے تمام فن پاروں كو جمع كيا گيا ، بابر كا بيٹا ہمايوں كہ جس نے فن و ہنر سے عشق اپنے والد سے وراثت ميں ليا تھا ايران ميں ايك سال كے قيام كے بعد ہنرمندوں كا ايك گروہ بھى ہندوستان ساتھ لے گيا اس سے ايرانى كلچر اور ہنر دوبارہ ہندوستان پر چھانے لگا مصورى ميں ہندوستان كے مغليہ آرٹ كى روش ايرانى اور ہندوستانى مصورى كى آميزش كا ثمرہ تھى _ ہند ميں مغليہ آرٹ كے بانى مير سيد على تبريزى اور عبدالصمد شيرازى تھے_ امير حمزہ كى داستان كو تصويروں ميں لانے كے بہت بڑے كام پر مير سيد على اور پچاس ديگر ہندوستانى ہنرمندوں نے كام كيا اور يہ كام ہمايوں كے بيٹے اكبر بادشاہ كے زمانے ميں ختم ہوا _(۱)

اكبر كہ جو مغليہ سلسلہ كا سب سے بڑا بادشاہ تھا معمارى سے بہت زيادہ دلچسپى ركھتا تھا اس نے آگرہ اور فتح پور سيكرى ميں بہت سے گنبد اور قبّے اور محلات تعمير كروائے فتح پور كى بڑى مسجد ايرانى اور ہندوستانى آرٹ كا ملاپ تھى _ اس نے ۱۰۱۴ قمرى ميں انتقال كيا اور اسكا بيٹا جھانگير تخت حكومت پر رونق افروز ہوا وہ مصورى اور افسانوى پيٹنگ كا دلدادہ تھا _ اسى ليے ہندوستان ميں فن مصورى كى مقبوليت جارى رہى _ ۱۰۳۸ ميں جھانگير كا بيٹا شہاب الدين المعروف شاہ جہان بادشاہ بنا تو اس دور تك فن مصورى بہت ترقى كر چكا تھا وہ اس كے ساتھ ساتھ معمارى ميں بھى كافى دلچسپى ركھتا تھا اس نے اپنى ملكہ ارجمند بانو بيگم كى ابدى آرامگاہ كے

____________________

۱) ذبيح اللہ صفا ، سابقہ حوالہ، ص ۱۳_ ۴۱_

۱۴۷

عنوان سے خوبصورت اور عظيم الشان'' تاج محل '' بنانے كا حكم صادر كيا اس تاريخى عمارت كا فن معمارى تيمور كے دور كى ايرانى معمارى سے متاثر تھا _ يہ آرامگاہ اگر چہ شاہ جہاں نے اپنى ملكہ كيلئے تيار كروائي تھى ليكن وہ خود بھى ساتھ ہى دفن ہے _

ايران ميں صفوى عہد كا آخرى زمانہ اور ہندوستان ميں مغليہ دور كا آخرى زمانہ دونوں ہى اندرونى اختلافات اور جنگوں سے دوچار تھے ليكن اسكے باوجود دونوں حكومتيں سانس لے رہيں تھيں كہ نادرشاہ افشار نے دونوں بادشاہتوں كو ختم كرديا _ اسى زمانہ ميں عثمانى بادشاہت كافى حد تك اطمينان و آسايش سے بہرہ مند تھى اور سلطان احمد جشن و سرور كا دلدادہ تھا _ اسى ليے اس دور كے فنكاروں كى افسانوى تصاوير اور پينٹنگز مثلا لونى(۱) ابھى بھى موجود ميں اور انكى تعداد سو سے بھى زيادہ ہے ۱۷۲۷ عيسوى يا ۱۱۴۰ قمرى ميں استانبول ميں چھاپ خانے كى صنعت آنے سے قلمى نسخوں اور كتابوں كو دربارہ لكھنے اور انكى تصويريں بنانے كا دور شروع ہوا _ سلطان احمد سوم كے آخرى دور سے عثمانى سلطنت كى معمارى يورپى معمارى سے متاثر ہوئي اور ديگر اسلامى فنون مصورى ، مٹى كے برتن بنانا اور اينٹوں پر نقش و نگار دسويں صدى ہجرى كى رونق كھو چكے تھے ،البتہ قيمتى پتھروں كو تراشنے ، كپڑوں پر كڑھائي اور زرى كا كام سترھويں صدى كے وسط تك چلتا رہا_

قاجارى دور ميں صفوى دور كے فنون كو باقى ركھنے كى كوششيں ہوئيں مگر كامياب نہ ہو سكےں كيونكہ بہت سے فنون زوال كا شكار ہوگئے تھے ليكن خوشنويسى كا ہنر تينوں اقسام نستعليق ، شكستہ نستعليق اور نسخ ميں اپنى بلندى كو چھونے لگا _ اسى طرح پھول اور پرندوں كے حوالے سے مصورى كے فن خصوصاً لاكى كے آثار نے بہت ترقى كى اور اسى دور ميں كتاب سے ہٹ كر فن مصورى نے ايك ايرانى مكتب كى شكل اختيار كى _(۲)

____________________

۱) Levni

۲) مرصع رنگين ، منتخبى از آثار نفيس خوشنويسان بزرگ ايران تا نيمہ قرن چہاردہم ،تہران ، ج ۱، نگارستان خط ، مجموعہ آثار ميرزا غلامرضا اصفہانى ، احمد سھيل خوانسارى كى كوشش_

۱۴۸

۲_ علم موسيقي

عباسى خلافت كے دور ميں اور اس زمانہ ميں كہ جب تحريك ترجمہ اپنے عروج پر تھى _ ايران ، ہندوستان اور يونان سے موسيقى كى كتب ترجمہ ہوئيں _ عباسى خلفاء نے بھى علم موسيقى كى ترويج اور وسعت ميں بھر پور سعى كى _ يہاں ہم عباسى دور كے موسيقيدانوں كے آثار اوراختراعات كا مختصر سا ذكر كرتے ہيں :

ابراہيم بن ماہان موصلى (۱۸۸ _ ۱۲۵ قمرى ) اسكا والد ماہان ،ارجان يا ارگان فارس كا دہقان تھا فارس سے ہجرت كرتاہوا كوفہ پہنچا وہاں ايك ايرانى خاندان ميں شادى كى _ ابراہيم نے موسيقى كا فن ايرانى موسقيدانوں ''جو انويہ ''سے سيكھا اور حيرت انگيز ترقى كى كہ اسكى شہرت عباسى خليفہ مہدى كى دربار تك پہنچى عباس خليفہ مہدى اور اسكے بيٹے ہارون الرشيد كى دعوت سے ابراہيم نے دربار ميں خاص مقام و منزلت پائي _ بغداد اور دربار خلفاء كے اكثر گلوكار ، موسيقار، بالخصوص فن موسيقى كے بزرگ دانشور حضرات مثلا اسحاق موصلى اسى كے تربيت يافتہ شاگرد تھے _(۱)

اسحاق موصلي، ابراہيم موصلى كا بيٹا تھا كہ جو تقريباً ۱۵۰ قمرى ميں رى ميں پيدا ہوا اس نے علم موسيقى كے اصول و قواعد اپنے والد اور ماموں منصور زلزل كے ہاں سيكھے اور اپنے دور ميں علم موسيقى ميں بے نظير مقام حاصل كيا اسكے موسيقى ميں مكتوب آثار مثلا الاغانى و الكبير ، النغم ، الايقاع اغانى معبد اور كتاب الرقص اب موجود نہيں ہيں يہ ہارون الرشيد ، مامون ، معتصم اور واثق عباسى كے دور ميں رہا اور ۲۳۵ ميں اسكا انتقال ہوا _

ابوالحسن على بن نافع ، اسكا لقب زرياب تھا وہ بصرى كے عنوان سے معروف تھا اور نسب كے اعتبار سے ايرانى اور اسحاق موصلى كے شاگردوں ميں سے تھا _ اس نے ايرانى موسيقى كے آلہ'' بربط'' ميں جدت پيدا كي_ بربط كے چارتاروں ميں ايك اور تار كا اضافہ كيا اور بربط كو بنانے كيلئے عقاب كے ناخن اور شير كے بچے كى انتڑيوں كو استعمال كيا كہ اس سے بربط كى آواز زيادہ جاذب ہوگئي زرياب نے اپنے مكتب ميں فن موسيقى كے

____________________

۱) ابوالفرج اصفہانى ، الاغانى ، قاہرہ ، ج ۵ ، ص ۲۰۸، ص ۲۳۰_

۱۴۹

حوالے سے نئے اصول و قواعد بنائے_ اور اسى كا شيوہ اہل مغرب ميں بھى مقبول ہوا بالخصوص اسپين كے مكتب موسيقى كى ايك روش زرياب كى تخليق تھى كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئي_(۱)

منصور زلزل عباسى دور ميں ايك ايرانى موسيقى دان تھا كہ جو بربط بجانے ميں استاد اور بے نظير گلوكار تھا _ ابونصرفارابى (۳۳۹ _ ۲۵۹ يا ۲۶۰ قمرى ) ايران كا عظيم الشان فلسفى ، رياضى دان اور موسيقيدان تھا _ فارابى نے موسيقى ميں قيمتى ترين كتابيں تاليف كيں ، اسكى موسيقى كے حوالے سے كتابيں مندرجہ زيل ہيں : المدخل الى صناعة الموسيقي، كلام فى الموسيقا، احصاء الايقاع ، كتاب فى النقرة مضافا الى الايقاع اور مقالات كے عنوان سے رسالہ ان ميں سے بعض كتابيں ختم ہو چكى ہيں _ موسيقى كے حوالے سے فارابى كى اہم ترين كتاب احصاء العلوم و الموسيقى الكبير ہے اسى وجہ سے قرون وسطى ميں فارابى كو موسيقى ميں سب سے بڑا مصنف جانا جاتا ہے _ فارابى نے موسيقى كے دو معروف پردوں '' وسطاى زلزل اور وسطاى فرس ميں دقيق مطالعہ كيا اور انكے فاصلوں كو بيان كيا _(۲)

ابوعلى سينا (۴۲۸ _ ۳۷۰ قمرى ) طب ، فلسفہ ، منطق ميں عظيم تاليفات كے ساتھ ساتھ فن موسيقى ميں انتہائي اہم تاليفات كے حامل ہيں انہوں نے كتاب شفا ميں فن موسيقى كيلئے ايك باب خاص كيا بوعلى سينا پہلے شخص ہيں كہ اسلام ميں موسيقى كے بارے ميں انكى فارسى ميں كتاب ابھى تك موجود ہے يہ وہى كتاب النجاة ہے جسكا انكے شاگرد ابوعبيدہ جو زجانى نے ترجمہ كيا اور اسكا نام ''دانشنامہ علايى ''ركھا_(۳)

____________________

۱) H.G. Farmer A historY of Arabian Music to the Xth Century London p .

۲) احصاء العلوم ، فصل موسيقى ، ہنرى جورج فارمو، سابقہ حوالہ، ص ۱۴۴، مہدى يركشلى ، موسيقى ، ايوانشہر، كميسيون ملى يونسكو در ايران نيز Encyclopaedia of Islam. New Edition S v Musiki Byo. Wright

۳)مہدى بركشلى ، سابقہ حوالہ، دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ذيل ابن سينا ، موسيقى ، تقى بينش ، ہنرى جارج فارمر، تاريخ موسيقى خاور زمين ، ترجمہ بہزاد باشى ، تہران ، ص ۳۶۸_

۱۵۰

صفى الدين عبدالمومن ارموى (۶۱۹ _ ۶۱۳ قمرى ) ساتويں صدى ہجرى ميں ايرانى موسيقى كا درخشاں ستارہ تھا ، انكى دو معتبر كتابيں '' الادوار'' اور '' رسالہ الشرفيہ '' كے مطالعہ سے يہ حقيقت آشكار ہوتى ہے كہ فارابى كے بعد وہ سب سے بڑا اور اہم ترين شخص ہے جنہوں نے فن موسيقى كے قواعد ميں تحقيق كى ہے _ اسكى كتاب ''الادوار ''ميں فارسى اور عربى كے قديم ترين راگ موجود ہيں _

عبدالقادر غيبى مراتمى (۸۳۸ قمرى ) تيمورى دور (تيمور اور شاہرخ كے دربار) ميں نظرى علم موسيقى كا اہم ترين عالم شمار ہوتا ہے اسكى سب سے بڑى كتاب ''جامع الالحان ''ہے دوسرى كتاب ''مقاصد الالحان ''جو جامع الالحان كى نسبت چھوٹى ہے ، شرح الادوار بھى مراغى كى تاليف ہے كہ ابھى بھى موجود ہے _ اسى طرح مراغى كى كتاب كنزالالحان انتہائي قيمتى كتاب تھى كہ جو فن موسيقى سے آشنا لوگوں كيلئے بہت اہميت كى حامل تھى اور اس كے نغموں پر مشتمل تھى ليكن اب موجود نہيں ہے اسكا بيٹا اور پوتا بھى موسيقيدان تھے اسكے بيٹے كا نام عبدالعزيز تھا جس نے ''نقاوة الادوار'' اور پوتے نے ''مقاصد الادوار'' كتابيں لكھيں _

نويں صدى ہجرى كے بعد ايران ميں كوئي بڑا موسيقيدان ظاہر نہيں ہوا كبھى كبھى كوئي شخصيت سامنے آتى رہى ليكن كسى نے جدت پيدا نہيں كى _ ايرانى موسيقى كے ترك موسيقى اور عرب ممالك حتى كہ مشرق بعيد كے ممالك كى موسيقى ميں اثرات واضح ہيں اور موسيقى كى فارسى اصطلاحات ان مناطق كى زبان اور تہذيب ميں واضح اور آشكار ہيں _(۱)

____________________

۱)ہنرى جارج فارمر، مجلہ روزگار نو ، ش ۱، ۱۹۴۲_

۱۵۱

چھٹا باب :

اسلامى تہذيب كےمغربي تہذيب پر اثرات

۱۵۲

دنيا كى موجودہ تہذيب پورى تاريخ ميں تمام اقوام كى كوششوں كا نتيجہ ہے اگر چہ موجودہ تہذيب ديگر اقوام كى تہذيبوں سے خصوصيات كے اعتبار سے مختلف ہے ليكن يہ حقيقت ميں گذشتہ تہذيبوں كا مركب ہے _ واضح سى بات ہے كہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں اسلام كا كردار ديگر تہذيبوں سے كم نہيں ہے _ ميرے خيال ميں گوناگوں تہذيبوں كى تركيب اور اقوام عالم ميں نظرياتى تبادلہ اس جديد تہذيب كے وجود ميں آنے اور وسعت پانے ميں بہت زيادہ كردار ركھتا ہے _ اور اسلام بھى اس امتزاج كے اسباب مہيا كرنے ميں متاثر كن اور اساسى كردار ركھتا ہے _ اس باب ميں اس موضوع پر گفتگو ہوگى كہ مختلف تہذيبوں كے امتزاج اور ان ميں فكرى ، ثقافتى اور علوم كے تبادلہ اور انكو مغرب ميں منتقل كرنے ميں اسلام كا كردار كيسا تھا ؟

اسلام سے مغرب ميں علم اور تہذيب كا نقل و انتقال تين راہوں سے انجام پايا :

۱) مسلمانوں كااسپين ، اٹلى ،سسلى اور صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كے ساتھ ميل جول اور انكا عالم اسلام كے مختلف مناطق ميں اسلامى تہذيب اور كلچر سے آشنا ہونے اور عالم اسلام كى باہر كى دنيا سے سرحدوں كے ذريعے_

۲) پانچويں صدى سے ساتويں صدى ہجرى تك عربى كتب كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ _

۳) ان عربى كتب كى تدريس اور ان سے فائدہ اٹھانا كہ جنہيں مسلمان دانشوروں نے علمى مراكز ميں تحرير يا ترجمہ كيا تھا_

مغرب والوں كا اسلامى تہذيب و تمدن سے آشنائي كا ايك اہم ترين مركز اسپين تھا _ اسپين كے عيسائيوں

۱۵۳

پر اسلامى نظريات كى چھاپ انكے عيسائي رہبروں پر اسلامى نظريات كے اثرات سے ديكھى جا سكتى ہے _ جيسا كہ كہاگيا ہے كہ ٹولڈو(طليطلہ ) شہر كے پادرى ايلى پنڈس نے اسلامى عقائد سے متاثر ہوتے ہوئے حضرت عيسى كى الوہيت كا انكار كيا اور كہا كہ وہ بشر اور خدا كے منہ بولے بيٹے تھے دوسرى طرف اس زمانہ ميں اسپين كے لوگ عربى لباس پہنتے تھے اور اسلامى و عربى آداب كاخيال ركھتے تھے كہا جاتا ہے كہ غرناطہ (گرايناڈا) شہر كى دو لاكھ مسلمان آبادى ميں سے فقط پانچ سو عرب تھے باقى سب خود اسپين كے لوگ تھے _(۱)

اسلامى آثار كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ : مجموعى طور پر عربى زبان سے يورپى زبانوں ميں ترجمہ كے رواج كو عيسائي مملكت كے اندرونى اوربيرونى دو قسم كے اسباب ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كا مسلمانوں كى تہذيب سے آشنا ہونا اور مسلمانوں كى علمى ميراث اور كتابوں كے ايك مجموعہ كا سامنا كرنے كو بيرونى سبب شمار كيا جا سكتا ہے،عيسائيوں ميں اہم ترين اندرونى سبب يہ ہے كہ عيسائي دانشور حضرات كو معلوم نہ تھا كہ يونانى علماء بالخصوص ارسطو ، سقراط، بطلميوس اور جالينوس كے علمى آثار كے مقابلے ميں كيا كريں ، بہت سارے دلائل اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ عيسائي علماء اور فلاسفہ ان يونانى آثار كے اصلى متون سے استفادہ كرنے پر قادر نہيں تھے ، چونكہ يونانى معيارى زبان اور ان آثار كى كتابت كے مابين بارہ صديوں كے فاصلے كے باعث عيسائيوں كے بہترين زبان شناس اور مترجمين بھى ان متون كے ادراك سے عاجز تھے ، اور ساتھ بہت سے يونانى كلاسيكى آثار ختم ہوچكے تھے اور ان تك پہنچنے كيلئے عربى زبان سے ترجمہ كے علاوہ كوئي اور راستہ نہ بچا تھا اسى ليے عربى آثار سے لاطينى ميں ترجمہ كى تحريك شروع ہوئي_

يہ تحريك دو بڑے ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے:پہلا دورہ ويٹيكن كے پاپ سيلوسٹر دوم ( ۱۰۰۳ _ ۹۹۸عيسوي) كے اس عہدے پر پہنچنے سے شروع ہوا اور اسپين كے مقامى حاكموں ميں سے آلفونسوى دہم كى حكومت كے

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۱۰ ، ذيل انڈلس_

۱۵۴

زمانہ ميں ختم ہوا _ اور دوسرا دور اين آلفونسو (۱۲۸۴ _ ۱۲۵۳ عيسوى ) كے زمانہ سے شروع ہوا _ دونوں ادوار ميں اہم فرق يہ ہے كہ پہلے دور ميں عربى آثار سے عمومى طور پر لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا جبكہ دوسرے دور ميں زيادہ تر عربى زبان سے اسپينى اور رومى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا اس دور ميں وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ بہت سے مترجم افراد سامنے آئے كہ جنكى تعداد كا ۱۵۰ تك تخمينہ لگايا گيا ہے _(۱)

ان افراد ميں بعض افراد كى اس حوالے سے خدمات پر يوں نگاہ ڈالى جا سكتى ہے :

افريقى گروہ ميں كينسٹينٹن كے ذريعے وسيع پيمانہ پر آثار كا ترجمہ ہوا اسكے ترجمہ شدہ آثار ميں طب كے حوالے سے جالينوس كے آثار اور فلسفہ ميں ارسطو كے آثار قابل ذكر ہيں _ ہوگوسينٹالايى نے ارسطو ، يعقوب بن اسحاق كندى ، ابومعشر بلخى اور ديگر افراد كے آثار كا ترجمہ كيا ، يوہيس ہيسپايسنر نے ارسطو ، بتّانى ، فارابى ، فرغانى ، قبيسي، محمد بن موسى خوارزمى ، يعقوب بن اسحاق كندى اور ابو معشر بلخى كے كثير آثار كاترجمہ كيا اسكا اہم ترين كام بوعلى سينا كے آثار كو لاطينى زبان ميں ترجمہ كرنا ہے مايكل اسكاٹ نے بھى بہت سے ترجمے كيے بالخصوص اسكا اہم كام ارسطو كے تمام آثار كا ترجمہ كرنا ہے _ پلاٹوى ٹيولياى نے بھى مختلف علمى ميدانوں مثلا نجوم ، رياضى ، ہندسہ ، اور فلسفہ ميں بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ كيا _(۲)

عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ كى تحريك ''گراردوى كرموناي'' كا مقام انتہائي كى اہميت كا حامل ہے اس نے لاطينى زبان ميں ستر كے قريب آثار كا ترجمہ كيا ان ميں بہت سے علمى موضوعات مثلا طب ، فلسفہ ، نجوم ، اخلاق ، سياست و غيرہ شامل ہيں ، طب كے حوالے سے اسكے قلم سے ترجمہ شدہ جالينوس اور سقراط كے آثار اور اسكے ساتھ مسلمان شارحين كے آثار كا ترجمہ يونانى طب كا ايك مكمل مجموعہ كہلاتا ہے _

۱_ عقلى علوم ، اسلامى فلسفہ اور الہى علوم كے مغربى تہذيب پر اثرات

بارہويں صدى عيسوى كے ابتدائي سالوں ميں گونڈيسالومى اور خواں شقوبى نے بوعلى سينا ، فارابى اور غزالي

____________________

۱)دانشنامہ جہان اسلام ، ج ۷ ، ذيل ترجمہ ، نہضت (سيد احمد قاسمى )_

۲)سابقہ حوالہ، ج ۵ ، ذيل پلاوى تيولياى ، فريد قاسملو_

۱۵۵

كے آثار كا ترجمہ كيا ، اہل مغرب ان ترجمہ شدہ كتابوں كے ذريعے ارسطو كے نظريات و عقائد سے آشنا ہوئے ، حقيقى بات يہى ہے كہ اہل مغرب ارسطو كے بارے معلومات حاصل كرنے ميں مسلمانوں كے احسان مند ہيں اور اسميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ يورپ والے مسلمانوں كے نظريات سے آگاہ ہونے كے بعد فلسفہ كے عاشق ہوئے اور ارسطو كے آثار كا مطالعہ كرنے لگے_

ارسطو اور ابن رشد كى تعليمات آپس ميں مخلوط ہو چكى تھيں اس كى روش اور نظريات وسيع پيما نہ پر يہوديوں ميں پھيل چكے تھے_ اسى طرح يہ نظريات عيسائيوں ميں بہت گہرائي تك اس طرح سرايت كر رہے تھے كہ كليسا والے پريشان ہونے لگے يہاں تك كہ سن تھامس نے عربى زبان كے مترجميں پر تنقيد كى اور ارسطو اور اسكى كتابوں كے عرب شارحين كے عقائد و افكار ميں فرق پر زور ديا ابن رشد كے علاوہ بو على سيناكى آراء و افكار كا بھى سرزمين مغرب ميں بہت زيادہ استقبال ہوا_

بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _

سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(۱) _

____________________

۱)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج ۳ ذيل'' ابن رشد'' ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل'' ابن سينا''_

۱۵۶

۶۴۸ قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ''پوگو فيڈي'' ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _

فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوں ميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(۱) _

يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوں كى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيں اور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ''سوما''اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_

چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ

____________________

۱) سابقہ حوالہ ج ۲_

۱۵۷

آثار كا تجزيہ كريں تو ديكھيں گے كہ اسلامى تسلط ہميشہ جارى رہا اور يہ اسلامى برترى قرون وسطى كے ادوار ميں اس سے كہيں زيادہ تھى كہ جس كا تذكرہ آج كيا جاتا ہے_

۲_ اسلامى طب كے مغربى تہذيب پراثرات

اسلامى طب نے مغربى طب پر مختلف انداز سے اثرات ڈالے ان ميں سے ايك اسلامى طبيبوں كے بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہونا تھا، ان اطباء ميں سے ايك اہم ترين طبيب محمد بن زكريا رازى ہيں كہ جنكے بہت سے آثار لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئے اور ہر كتاب باربار شايع ہوئي بہت سے مغربى مورخين اور دانشوروں كا يہ نظريہ ہے كہ رازى كى كتاب '' الجدرى و الحصبة'' ( پھوڑے اور خسرہ) انكى سب سے بڑى تاليف ہے يہ كتاب ۱۴۹۸عيسوى ميں پہلى بار ترجمہ ہو كر شايع ہوئي اس كے علاوہ يہ كتاب چاليس بار يورپ ميں شايع ہوئي معلوم يہ ہوتا ہے كہ اسلامى تہذيب ميں اسلامى طبى كتابوں ميں سے اس كتاب كے ترجموں اور چھپنے كى تعداد ديگر كتب سے بہت زيادہ ہے _

رازى كى ايك اور كتاب'' الحصى المتولدہ فى الكلى و المثانہ ۱۸۹۶ عيسوى ميں پيرس ميں شايع ہوئي _

۱۲۷۹ عيسوى ميں چارلس اول كے دور ميں رازى كى كتاب الحاوى فرح بن سالم نامى ايك يہودى طبيب كے ذريعے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي اور ۱۵۴۲ عيسوى ميں پانچ بار شايع ہوئي _ يہ كتاب يورپ ميں علم طب كے نصاب كى اہم ترين كتاب شمار ہوتى تھى _

دوسرے طبيب كہ جنہوں نے مغربى طب كو متاثر كيا جناب بو على سينا ہيں انكى كتاب قانون بہت سالوں تك مغرب كى اہم ترين طبى كتاب شمار ہوتى رہى پندرھويں صدى عيسوى كے آخر ميں اس كتاب كى سولہ بار يورپ ميں اشاعت كى گئي جو پندر ہ بار لاطينى زبان اور ايك بار عبرى زبان ميں تھى _ اس كتاب كى لاطينى اور عربى زبان ميں لكھى گئي تفاسيربے شمار ہيں يہ كتاب سترويں صدى عيسوى كے دوسرے نصف حصے تك كئي بار شايع ہوئي اور ايك طويل مدت تك ايك نصابى كتاب شمار ہوئي رہى شايد علم طب ميں آج تك اسكى مانند كوئي كتاب اسقدر رائج نہ رہى ہو_

۱۵۸

اس كے علاوہ اور كئي پہلوں سے اسلامى علم طب نے مغربى طب كو متاثر كيا_ ميرے خيال ميں يورپ ميں ہسپتالوں كا وجود ميں آنا شرقى اور اسلامى ہسپتالوں سے متاثر ہونے كى بناء پر تھا_ علاوہ ازيں يورپى طبيب جس چيزميں مسلمانوں كے احسان مند ميں وہ مختلف بيماريوں كے طريقہ علاج تھا يہ تو ہم جانتے ہيں كہ يورپى طبيبوں نے بہت سى بيماريوں مثلا خسرہ ، ٹائيفائڈاور طاعون كا علاج اور اسى طرح بہت سے طبى آپريشنوں كے طريقہ كار كو مسلمانوں سے سيكھا جسكى مثال يہ ہے كہ مسلمان طبيب زھراوى قرطبى كا طبى رسالہ يورپ ميں آج علم جراحت كى اساس كے طور پر جانا گيا ہے _(۱)

۳_ اسلامى رياضيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

مغرب ميں علم رياضى كى ترقى كے حوالے سے اسلامى رياضى دانوں كے اثرات بہت زيادہ ہيں يورپى لوگ مسلمانوں كے ذريعے دہائي نظام كى عدد نويسى اور ہندى اعداد كى شكل سے آشنا ہوئے جو آج بھى مورد توجہ ہے _ يہ اثرات خاص طور پر كتاب '' المختصر فى الجبر و المقابلہ'' كے ترجمہ كے ذريعے پڑے _ يہ كتاب بار بار لاطينى زبان ميں '' لبيبر الگوريسمي'' ( يعنى خوارزمى كى كتاب) كے نام سے ترجہ ہوئي اسى كتاب كے لاطينى ترجمہ سے كلمہ '' algorism '' كا معنى حساب كرنا اور حساب كرنے كى روش ليا گيا _

قرون وسطى كے ادوار ميں يہ كتاب يورپ ميں شہرہ آفاق تھي_ اور سولھويں صدى عيسوى ميں فرانسيسى رياضى دان فرانسويت كے زمانہ تك يورپى رياضى دانوں كے مطالعات كى بنياد چلى آئي _ خوارزمى كى ايك اور اہم ترين كتاب كہ جسكا نام '' حساب ھند'' ہے ،خود اصل كتاب تو اب باقى نہيں رہى ليكن چودھويں صدى عيسوى ميں اسكا لاطينى زبان ميں ہونے والا ترجمہ موجود ہے _ اسلامى ماخذات ميں يہ كتاب '' الجمع و التفريق بحساب الہندسہ'' كے نام سے پہچانى جاتى ہے _

____________________

۱) فؤاڈ سزگين : تاريخ نگارشہا ى عربى ، ج ۳ ترجمہ اشاعت از خانہ كتاب ، مقدمہ ، ص ۳۰ كے بعد_

۱۵۹

خوارزمى كے علاوہ ديگر اسلامى دانشوروں كے كى كتابيں بھى اسى دور ميں اور بعد كے ادوار ميں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں(۱) مثلا خيام ، خواجہ نصير الدين طوسى اور فارابى كى علم رياضى ميں كتابيں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _

آخرى مسلمان رياضى دان كہ جنگے قرون وسطى بعد كے ادوار ميں آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوا جناب بہاء الدين عادلى تھے كہ جو شيخ بہائي كے نام سے مشہورترين ہيں انكى كتاب '' خلاصة الحساب انگلش ، فرانسيسي، اور جرمنى زبان ميں ترجمہ ہوئي رياضى كے پرعملى پہلو مثلاًچند حصوں پر مشتمل منظم و غير منظم اشكال الجبرا كى مساواتوں كے متعدد عددى اور ہندسى راہ حل ، p عدد( n ) كے دقيق ميزان تك پہچنا اور متعدد اضلاع پر مشتمل چيزوں كى حدود اور مساحت كى نمائشے كيلئے مختلف روشيں و غيرہ اس مسلمان رياضى دان كے محنتوں كا ثمرہ تھا كر جو مغرب ميں منتقل ہوا(۲)

۴_ اسلامى علم فلكيات كے مغربى تہذيب پر اثرات

اسلامى ماہرين فلكيات كى معلومات و تحقيقات ميں انكى بہت سى اختراعات بھى شامل ہيں مثلا مختلف انداز كى جنتريوں كا بنانا اور ستاروں كے حوالہ سے مختلف معلومات اسى طرح سياروں كى حركت كے بارے ميں جديدنظريات يہ سب اسلامى نجوم كے اہم ثمرات تھے كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئے_

آج تو مكمل طور پر واضح ہو چكا ہے كہ مغربى ماہرين فلكيات مثلا نيوٹن ، كپلر اور كوپرينك اسلامى علم نجوم سے آشنا تھے اور اسلامى ماہرين فلكيات كى تحقيقات اور ثمرات سے بہت زيادہ بہرہ مند تھے قرون وسطى كے ادوار ميں سب سے پہلے اسلامى ماہر فلكيات كہ جو مغرب ميں بہت زيادہ مشہور ہوے احمد بن كثير فرغانى تھے انكى كتاب '' جوامع علم نجوم'' گوارڈوى كرموناى اور يوھنيس ھسپالنسز كے ذريعے يورپ ميں ترجمہ ہوئي اور يہ

____________________

۱) گوسٹالو بون _ ص ۵۶۷_

۲) سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ، ترجمہ احمد آرام ، تہران ۱۳۵۹ ، ج ۲ ص ۱۳۷_۱۳۸_

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259