کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155900 / ڈاؤنلوڈ: 5061
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

کامیابی کے اسرار

تالیف

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

 

جلد- ۱

ترجمہ

عرفان حیدر

۱

مؤلف : آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 ترجمہ : عرفان حیدر  

نظر ثانی : مختار حسین رحیمی

کمپوزنگ : .................. موسی علی عارفی، ذیشان مہدی سومرو

طبع: .............................  اول

تاریخ طبع :........................ ۲۰۱۰مئی

تعداد:. ............................۲۰۰۰

قیمت: .............................۱۵۰

ناشر................................الماس  پرنٹرز  قم  ایران

          ملنے  کاپتہ:

                                  جامعہ امام صادق بک سینٹر علمدار روڈ کوئٹہ بلوچستان

                                   فون نمبر:۲۶۶۴۷۳۵۔۰۸۱

                                    امامیہ سیلز پوائنٹ قدمگاہ مولاعلی، حیدرآباد سندہ

                                   فون نمبر : ۲۶۷۲۱۱۰۔۰۳۳۳

ایمیل:        irfanhaidr۰۱۴@gmail.com

ویب سائٹ:        www.almonji.com

ایمیل مولف:        info@almonji.com

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

انتساب

السَّلام عَلَیک یَا فٰاطمةَ الزَّهراء

یَا بنتَ رَسول اللّٰه یَا قرَّةَ عَین المصطَفٰی

ولایت و امامت کے دفاع میں شہید ہونے والی اسلام کی اس پہلوشکستہ بی بی کے نام جنہوں نے دفاع ولایت کی خاطر ایسے ایسے مصائب برداشت کئے کہ اگر روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے اور جن کے بارے میں امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

"انّ فَاطمةَ صدیقَة  شَهیدَة"

۳

مقدمہ مترجم

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد للّٰه الذی جعلنا من المتمسکین بولا یة علی بن ابی طالب

وصلّی اللّٰه علی محمّد وآله الا ئمة المعصومین

تمام تعریفیں پرور دگار عالم کے لئے ہیں جو عالمین کا خالق و مالک ہے اور بے شمار درود و سلام ہو اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی اور ان کی عترت طاہرہ پر جنہوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعے بشریت کی راہنمائی فرمائی اور انسانوں کو گمراہی و ضلالت سے نکال کر ہدایت کا راستہ دکہا یا ۔

قارئین کرام ! کا میابی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے ہر انسان کا میاب زندگی کا خواہاںہے لیکن اکثر صحیح راہنما میسر نہ آنے سے انسان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو تی اور اسے نا کامی کا منہ دیکہنا پڑتا ہے ۔ آپ کے پیش نظر یہ کتاب آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستا نی مد ظلہ کی فارسی کتاب ''اسرار موفقیت '' کا ترجمہ ہے یہ کتاب کا میابی کی تلاش و جستجو کرنے والوں کے لئے انمول تحفہ اور یأس و نا امید ی میں مبتلا افراد کے لئے امید کی کرن ہے ۔

اس کتاب میں معاشرے کی ضروریات کے مطابق کچہ موضو عات کو زیر بحث لا یا گیا ہے ۔ موضوعات کی مناسبت سے خاندان عصمت وطہارت علیہم السلام کے فرامین نے کتاب کو چار چاند لگا  دیئے ہیں۔ ترجمے کے دوران آسان ، عام فہم اور سلیس اردو کا استعما ل کیا گیاہے ۔ ثقیل اور غیر مانوس کلمات سے پر ہیز کیا گیا ۔ البتہ اس بات کا فیصلہ تو قارئین فرمائیں گے کہ میں مفاہیم  ومطالب کو منتقل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا پہر بہی آپ سے استدعا ہے کہ ترجمے میں نقائص سے ضرور مطلع فرمائیں ۔

۴

 میں اپنے دوستوں ادیب علی آدا بی ، سید علی شاہ عابدی ، مشتاق حسین عمرانی ، ذیشان مہدی اور بالخصوص برادرعزیز علی اسدی اور عمران حیدرشاہد کا شکر گزار ہوں ، جنہوں نے اس کتاب کے سلسلے میں تعاون فرمایا۔ نیز حجة الا سلام و المسلمین مختار حسین رحیمی کا  بہی شکرگزارہوں کہ جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر کتاب پرنظر ثانی فرمائی ۔آخرمیں میںاپنے والدین ، اسا تید حجة الا سلام والمسلمین محمد جمعہ اسدی اور حجة الا سلام والمسلمین اکبر حسین زاہدی کا ممنون و مشکور ہوں جن کی شفقت اور تربیت نے مجہے مکتب اہل بیت  کا خادم بنایا ۔ خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پرور دگارا ! محمد و آل محمد کے طفیل اس نا چیز کاوش کو شرف قبولیت عطا فرما اور ہمیں حقیقی معنوں میں دین کی  خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما ۔

   عرفان حیدر               

  قم المقدس ( ایران )          

۱۸ ذلحجہ روز عید سعید غدیر۳۰ ۱۴ ہ

۵

 پیش گفتار

بسم الله الرحمن الرحیم

عظیم لوگوں کی کامیابی کا راز تفکر و تدبّر ہے ۔ اگر آپ بہی ان کے نقش قدم پر چلیں تو سعادت اور کامیابی و کامرانی آپ کے قدم چومے گی ۔ لیکن اس کے لئے فکر کی طاقت سے بہرہ مند ہوناضروری ہے۔ آپ مثبت سوچ کے ذریعے اپنے اندر کمی کا جبران کریں تاکہ اپنے عالی اہداف تک پہنچ کر اپنے معاشرے کو مثبت افکار سے آشنا کرواسکیں۔ جب بہی آ پ کو صحیح فکر کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو تو آگاہ اور مخلص افراد سے مشورہ کریں کہ جن میں مشاور کی شرائط ہوں ۔ ایسے افراد کی سوچ و فکر سے استفادہ کریں ۔ ان کے مشورے سے استفادہ کرتے ہوئے اعلیٰ اہداف سے آشنا ہوں اور بہترین اہداف کا انتخاب کریں پہر تر قی اور کامیابی کی اہم شرط یعنی پختہ ارادے اور بلند ہمت کے ذریعہ اپنے اہداف کے مطابق برنامہ تشکیل دے کر انہیں عملی جامہ پہنائیں ۔ کیو نکہ صحیح برنامہ اور نظم وضبط ہدف اور منزل تک پہنچنے کا آسان  راستہ ہے ۔ جو آ پ کو جلد اپنی منزل تک پہنچا تا ہے ۔

وقت سے استفادہ کریں اور فرصت کے لمحات میں نیک اور صالح افراد کی صحبت میں بیٹہ کر مستفید ہوں ان کی ہمنشینی وصحبت سے آپ کی روح تازہ اور ان کی دل نشین گفتار سے آپ کا دل منور ہوجائے گا آپ ان بزرگان کی صحبت سے ان کی روحانی و معنوی قوت سے خود بہی قدرت حاصل کریں اور انہیں نفس کی مخالفت اورسالوں کی محنت و کوشش سے حاصل ہونے والے تجربات سے استفادہ کریں ۔

۶

آپ کو اپنے نفس پر اختیار ہو تو صبر و استقامت کو اپنا ہتہیار بنا کر اپنی روحانی قوت کو متمر کز کریں پہر آپ کی معنوی قدرت پروان چڑہے گی ۔ کیو نکہ نفسانی خواہشات کے مقابل میں صبر کرنے سے آپ کا باطن برائیوں سے پاک ہو جائے گا پہر آپ کو اسرار خدا میں سے ایک راز یعنی اخلاص کا مقام حاصل ہو جائے گا ۔

اس صورت میں آپ کا دل رحمانی الہامات سے روشن ہو جائے گا آپ کی زبان پر علم و حکمت کے چشمے جاری ہو ں گے اورپہر علم و دانش سے بہرہ مند ہوں کہ جو عالی درجات کی جانب ارتقاء اور خداکے تقرب کا ذریعہ ہے ۔ اگر باب علم سے وابستہ ہو جائیں تو آپ کی شرافت و فضیلت میں اضافہ ہو گا اس طرح آپ معارف اہل بیت سے اپنے دل کو منور کریںاور ایک شمع کی طرح آپ اپنے معاشرے کو روشن کریں اور انہیں اہل بیت  کے حیات بخش مکتب سے آشنا کریں اور زنگ آلود قلوب کو ان کے نورانی افکارو گفتار سے منور کریں ۔

ایسی خد مات کو انجام دینے کے لئے کوشش کریں تاکہ توفیق الٰہی آپ کے شامل حال ہو۔ کیو نکہ توفیق کے حصول کے علاوہ دعا، سعی و کوشش اور تلاش و جستجو بہی ضروری ہے ۔ جب تک خدا کی توفیق ہماری دستگیری نہ کرے ، ہم  حقیقت کے کاروان تک نہیں پہنچ سکتے ۔

       کاروان رفت و تو در خواب وبیابان در پیش 

       کی روی ؟ رہ ز کہ پرسی ؟ چہ کنی ؟ چون باشی ؟

کاروان چلا گیا اور تم سوتے رہے،تمہارے سامنے بیابان ہے اور تم تنہا رہ گئے ہو۔اب تم کب جائو گے؟کس سے راستہ پوچہو گے اور کیا کرو گے؟

۷

اگر آپ حقیقت تک پہنچنا چاہو تو اغیارکے طعنوں سے نہ گہبراؤ ۔بلکہ منزل کی جانب گامزن رہو کسی جگہ تہک کر نہ بیٹہو اور عظیم لوگوں کی اہم ترین صفت یعنی مقام یقین حاصل کرو ۔

معاشرے کی ضرورت کو مد نظر رکہتے ہوئے میں نے معاشرے کے لئے مفید موضوعات پر روشنی ڈالی ، انہیں مفید موضوعات کے ضمن میں ، میں نے خاندان رسالت  کے فرامین اور بالخصوص صاحب ولایت امیر المو منین علی بن ابی طالب  کے ارشادات کو بیان کیا ہے اور انہیں عوام الناس کے اختیار میں قرار دیا امید ہے کہ یہ کتاب معصومین علیہم السلام کے نورانی اور تابناک فرامین کے وجہ سے بہٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ اور معنوی تکامل اور روحانی افزائش کے لئے مدد گار ثابت ہوگی ۔

سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

۸

پہلاباب

فکر

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' علیک با لفکر فانّه رشد من الضلال و مصلح الا عمال ''

تم پر فکر کرنا لازم ہے  کیو نکہ یہ گمرا ہی سے ہدایت اور اعمال کی اصلاح کر تی ہے ۔

     فکر کی اہمیت

    فکر کی پرواز

    فکر کی اہمیت کے کچہ راز

    گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

    تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے

    تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ

    روزۂ فکر

    صحیح و سالم فکر کے طریقے

    ۱۔ دقت اور سوچ سے فکر کو سالم کر نا

    ۲ ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا

    ۳ ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے پر ہیز کرنا

    نتیجۂ بحث

۹

فکر کی اہمیت

ہر انسان کے ذہن میں  ایسے قیمتی اور گراں قدر خزانے موجود ہوتے ہیں کہ جنہیں وہ سوچ کے ذریعہ حاصل کرکے استفادہ کر سکتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ کچہ لوگ اپنے اندر موجود ان پر قیمت وانمول  خزا نوں سے ا ستفادہ کر نے کی بجائے خاک میں چہپے ہوئے اموا ل اور خزا نوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ۔

اگر وہ یہ جان لیں کہ خدا وند متعال نے زمین میں دفن خزانوں سے بڑہ کر خزانے ان کے وجود میں قرار دیئے ہیں  تو وہ کبہی بہی اپنی عمر زمین کی خاک چہاننے میں ضائع نہیں کریں گے ۔ وہ لوگ مال و زر کے حصول کے لئے زمین کہو دتے ہیں اور غوطہ خور دریاؤں اور سمندروں کی تہہ میں موجود جواہرات کے حصول کے لئے غوطہ لگاتے ہیں ۔ جبکہ  مومن و صاحب تزکیہ حقیقی خزانے کے حصول   کے لئے اپنی فکر کے عمیق دریا میں غوطہ ور ہوتا ہے ۔

۱۰

حضرت امیر المومنین علی (ع)  نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

''المومن مغمور بفکرته''( ۱)

مومن اپنی افکار میں  ڈوبا ہوا  ہو تاہے ۔

 مومن اپنی افکار کے  بیکراں دریا سے ایسے گرانبہا گوہرحاصل کر تا ہے کہ سونے ، چاندی کے مادی خزانے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ وہ اپنے افکار سے ایسے با ارزش جواہر پاتا ہے کہ جو،  ابدی وجاویداں ہیں کہ جن کی واقعی قیمت و ارزش آ خرت میں اہمیت کی حامل ہے ۔

افکار میں غوطہ زن ہونا ( نہ کہ توہمات میں ) روح کو تقویت دیتا ہے اور  چہپے ہوئے  خزانوں کے حصول کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔ سوچ و فکر کے ذریعہ آپ کے روح و نفس پرورش پاتے ہیں جس طرح جسمانی ورزش انسان کے جسم کی پرورش کا باعث ہے اسی طرح مثبت سوچ و فکر انسان کے روح و نفس کو تقویت دیتی ہے ۔ کیو نکہ تفکر انسان کے ضمیر کے لئے ایک قسم کی آموزش ہے تفکر کے ذریعہ باطنی حالات قوی ہوتے ہیں اور انسان کی روحانیقدرت آشکار ہوتی ہے ۔ کیونکہ فکر روح کے تکامل وپرورش کا باعث ہے .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) نہج البلاغہ ، کلمات قصار ۳۳۵ .

۱۱

فکر کی پرواز

انسان کو چاہئے کہ وہ توہمات وتخیلات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا رخ کرے     اور حقائق ہستی میں فکر انسان کو عالم و ہم و گمان سے نکا ل کر ایک حقیقی و  واقعی مفکر بناتی ہے اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ  (ع) اپنے ارشادات میں فرماتے ہیں :

''غوّر.... قلبک الفکر'' (۱) اپنے قلب کو سوچ و فکر کی عادت ڈالو۔تفکر سے قدرت فکر و تمرکز زیادہ ہو جاتی ہے جب فکر قوی ہو تو وہم و خیال ضعیف ہو جاتے ہیں اور وہم و خیال کے ضعیف ہونے اور تقویت فکر سے شیطان اور دشمنان دین کی گمراہ کنندہ تبلیغات ضعیف ہو جاتی ہیں ۔ کیو نکہ جس انسان کو تفکر و تدبر و تعقل کی عادت ہو وہ اسے اپنے اعتقادات ومعلومات کا اساس قر ار دیتا ہے ۔مو لائے کا ئنات امیر المومنین علی (ع) کا فرمان ہے:''لاعلم کالتفکر '' (۲) تفکر کی مانند کوئی علم نہیں ہے ۔

انسان کے ذہن میں موجود قیمتی خزانوں میں تفکر و تدبر اور ان سے استفادہ کرنا بزرگ اشخاص کی صفات میں سے ہے ۔ ان کے فکر کی پرواز اور مو جو دات کا ئنات کی شناخت سے ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کے افکار و پراکندہ و بے رونق نہیں ہیں ۔ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی  (ع) سے فرمایا :'' من صفات المومن ان یکون جوّال الفکر '' (۳)

مومن کی صفات میں  سے ہے کہ وہ جولان فکری رکہتا ہو ۔

وہ فکری پرواز کے ذریعہ اپنی روح کو بلندی پر لے  جاتے ہیں  اور عالی ترین ہدف رکہتے ہیں اور اس کے بعد مضبوط ارادہ اور قوی ہمت حاصل کر تے ہیں وہ قوی اور مضبوط فکر و ارادہ کے ذریعہ اپنے مقدس اہداف میں کامیابی کے لئے خدا وند متعال سے مدد چاہتے ہیں .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔بحار الانوار :ج۱۴ص ۳۲۹، تنبیہ الجواہر:ج۲ص ۲۲۹

[۲] ۔ بحار الانوار:ج۶۹ ص ۴۰۹ ۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۱۰۹

[۳] ۔ بحار الانوار :ج۶۷ ص ۳۱۰

۱۲

فکر کی اہمیت کے کچھ راز

غور وفکر حقائق جہان کی طرف مستقیم راستہ ہے جب فکر معنوی مسائل میں تداوم پیدا کرے تو یہ انسان کو معنویت کی طرف لے جاتی ہے۔ فکر میں ایک قوت جاذبہ ہے کہ جو متفکر اور اس مسئلہ کےدرمیان ایک ارتباط کو بر قرار کر تی ہے کہ جس کے بارے میں متفکر فکر کر تا ہے ۔ اس قوت کا وجود ، غور وفکر کی اہمیت کے مہم رازوں میں سے ایک اہم راز ہے ۔ اس قوت کی بناء پر انسان جب خوبیوں اور بدیوں کے بار ے میں سوچتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ خوبیوں یا ان چیزوں کو جلب کرتا ہے کہ جن کے بارے میں وہ فکر کرتا ہے ۔خاندان عصمت و رسالت علیہم السلام کی بہت سی روایات و ارشادات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے ۔ اس وجہ سے پسندیدہ افکار ، قلب انسان کی پاکیزگی و زینت اور انسان کے باطن کی نورانیت کا باعث ہیں ۔ جس طرح نا پسندیدہ و برے افکار انسان کے دل میں تاریکی و ظلمت کو ایجاد کرتے ہیں ۔

۱۳

حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں :''الفکر تورث نوراً والغفلة ظلمة '' (۱) سوچ و فکر نورانیت اور غفلت ظلمت و تاریکی کو ایجاد کر تی ہے ۔اگر تفکر حق اور کمال کی جستجو کی بناء پر ہو تو یہ حقیقت کو آشکار کرتا ہے اور متفکر کے لئے کائنات کی واقعیت کو بیان کر تا ہے ۔ یہ بذات خود نورانیت و پاکیزگی کو ایجاد کر تا ہے لیکن ان حقائق سے غفلت  اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے ۔انسان کے دل میں زیادہ غور و فکر سے ایجاد ہونے والے تحولات اسے عمل کے لئے تیار کر تے ہیں ، اس و جہ سے تفکر قوہ عاملہ کو بھی ایجاد کرتا ہے۔ پس فکر نہ صرف انسان کو مورد تفکر مسائل کی انجام دہی کے لئے آمادہ کرتی ہے بلکہ تداوم فکر کی وجہ سے انسان میں قوہ عاملہ کو بھی ایجاد کرتی ہے اور اسے عمل کی طرف جذب کرتی ہے تاکہ سوچ و فکر عملی صورت میں ظاہر ہو حضرت امام صادق (ع) فرما تے ہیں:“التفکر یدعوا الی البرّ والعمل به” (۲) فکر انسان کو خوبیوں اور ان پر عمل کی طرف دعوت دیتی ہے۔انسان کی خلقت و پیدائش کے سرّ و راز اور اس کی عاقبت کے بارے میں فکر انسان کو نیکی اور مقام عبودیت عطا کرتی ہے ، آپ فکر کے ذریعہ مقام عبودیت اور اپنے وجود میں پنہان و پوشیدہ عظیم قوت کو بیدار کر کے مقام فعلیت میں لا سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ تحف العقول ۹۳

[۲] ۔ بحار الانوار :ج۷۱ص ۳۲۲، اصول کافی:۲ ص ۵۵

۱۴

گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

انسان میں ہر اچہی و بری ، نیک و بد صفت کے خلق ہونے کی آمادگی مو جود ہوتی ہے ۔ اچہے اور برے کے بارے میں سو چ و فکر سے ان کی فعلیت و انجام دہی میں تبدیلی آ جاتی ہے ۔ پہر یہ امکان کے مرحلہ سے نکل کر واقعیت کا جامہ پہن لیتی ہے ۔ یہ ایک عام اور کلی حقیقت ہے کہ جو صرف اچہے اور پسندیدہ کاموں کے ساتہ مختص نہیں ہے ، یعنی جس طرح انسان اچہائیوں کے بارے میں سوچنے سے ان ہی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ اور انہیں انجام دیتا ہے اسی طرح حیوانی لذتوں اورگناہوں کے بارے میں سوچنا بہی انسان کو ان ہی کی طرف لے جاتا ہے اور پہر انسان ان کا مرتکب ہو تا ہے ۔

حضرت امیر المومنین  (ع) فرماتے ہیں :''من کثر فکره فی المعاصی ، دعته الیها ''(۱) جو کوئی گناہوں کے بارے میں زیادہ فکر کر ے تو وہ ان کی طرف آجاتا ہے ۔اسی طرح دوسرے فرمان میں ارشاد ہے : ''من کثر فی اللذات ، غلبت علیه ''(۲)

جو کو ئی لذتوں کے بارے میں زیادہ سوچے تو یہ اس پر غالب آجاتی ہیں ۔اس بناء پر انسان کی سوچ و فکر اس کےمستقبل کو تبدیل کرسکتی ہے اور اس کی زندگی میں عظیم تبدیلیاں اور تحو لات ایجاد کر سکتی ہے اسی وجہ سے خاندان عصمت و طہارت کے دلنشین کلمات وفرمودات میں تفکر و تعقل کی  اہمیت کو بیان فرما یا گیاہے اور انہوں نے اپنے محبوں اور پیرو کاروں کو اس کی اہمیت کے با رے میں امر فر مایا ہے۔ کیو نکہ اچہا عمل و کردار ، اہم اور باارزش مو ضوعات میں فکر اور سوچ و بیچار کا نتیجہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص ۳۲۱

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:۵۲۲

۱۵

تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے

نظام کائنات اور مخلوقات جہان کے با رے میں تفکر انسان کے دل میں ایمان و یقین کو تقویت دیتا ہے ۔ پہر اس کا وجود باری تعالیٰ اور تمام مذہبی عقائد پر اعتقاد مزید محکم ہو جاتا ہے ۔ کہکشانوں میں موجود اربوں ستاروں اور اس کے علاوہ آسمان پر موجود انگنت ستاروں کی خلقت اور پہر ان کا ایک منظم نظام کے تحت رواں و دواں رہنا ، ایک مدبر و قادر خالق کے وجود کی بہت واضح اور بڑی دلیل ہے۔ انسان کی فکر کائنات کی عظمت کو درک کرنے سے قاصر ہے ۔ دنیا بہر کے محققین کو خلقت کائنات کے بارے میں تحقیق کے دوران ایسے ایسے اسرار و رموز کا سامنا ہوا کہ انہوں نے ان کی حقیقت کو درک کرنے سے اپنے آپ کو عاجز پا یا ۔ لیکن انہوں نے واضح آیا ت و نشانیوں کا مشاہدہ کیا کہ جو صاحبان عقل کے دلوں کو احیاء و جلا بخشتی ہے ۔ جی ہاں ! اس کائنات کی عظمت کے بارے میں  تفکر کرنا   خالق کائنات  قادر و مہربان کے وجود پر یقین و ایمان  میں  اضافہ کا سبب ہے ۔

عالم ملکوت سے لو لگانا اولیاء خدا کی صفات میں سے ہے وہ غور و فکر کے ذریعہ کائنات کے رموز واسرار کو کشف کرتے ہیں ۔ وہ نہ صرف عالم ملکوت کی طرف رخ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے دوستوں اور قرابتداروں کو بہی اسی چیز کی سفارش و تلقین کرتے ہیں ۔

۱۶

حضرت لقمان کی اپنےبیٹوں کو کی گئی وصیت میں ذکر  ہوا ہے :

''اطل التفکر فی ملکوت السمٰوٰت و الارض والجبال و ما خلق اللّٰه فکفیٰ بهذا واعظاً لقلبک ''(۱)

اپنی فکر کو آسمانوں ، زمین ، پہاڑوں ، اورخدا کی دیگر خلق کردہ اشیاء کے بارے میں طولانی کرو۔ ایسی سوچ و فکر تمہارے قلب کو وعظ و نصیحت کے لحاظ سے کفایت کرے گی  ۔

ملکوت کے بارے میں تفکر (  جس کے بارے میں لقمان نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی) کے بہت سے اثرات ہیں کہ اگر انسان ان کو انجام دینے کی توفیق پیدا کرے تو اس کے مستقبل میں بہت عظیم تحولات رونما ہوتے ہیں ۔ کیو نکہ ملکوت و آسمانوں و زمین اور خدا کی دیگر مخلوقات کے بارے میں تفکر سے اعتقاد ایجاد ہو تا ہے ۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوند ہے :

''ا نَّ فی خَلق السَّماوات وَ الأَرض وَ اختلاف اللَّیل وَ النَّهار َلآیاتٍ لأولی الأَلباب،الَّذینَ یَذکرونَ اللّٰه قیامًا وَ قعودًا وَ عَلی جنوبهم وَ یَتَفَکَّرونَ فی خَلق السَّماوات وَ الأَرض رَبَّنا ما خَلَقتَ هذا باطلاً سبحانَکَ فَقنا عَذابَ النّار ''(۲)

بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل ونہار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔ جو لوگ اٹہتے بیٹہتے لیٹتے اور ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں کہ پرور دگار تو نے یہ سب بیکار خلق نہیں کیا ہے ۔ پرورگار تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما ۔

ان کا آسمان و زمین کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کرنا صرف ملکی پہلو سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ  ملکوتی پہلو کو بہی شامل کر تا ہے ۔ وہ کائنات کی مادی و ملکوتی خلقت میں تفکر کے ذریعہ اپنے ایمان ویقین میں اضافہ کر تے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار:ج ۱۳ ص ۴۳۱

 [۲]۔ سورہ آل عمران آیت: ۱۹۰  اور  ۱۹۱

۱۷

تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ

انسان جس کام کو انجام دینا چاہے ، اگر اس کے بارے میں غور وفکر سے کام لے تو وہ اس کام کے نتیجہ تک پہنچ جائے گا اور اسے افسوس اور پشیمانی کا سامنا بہی نہیں کرنا پڑے گا ۔

حضرت علی (ع) اپنے دلنشین گفتار کے ضمن میں فرماتے ہیں :

'' اذا قدّمت الفکر فی جمیع افعالک ، حسنت عواقبک فی کل امرٍ ''

اگر ہر کام کو انجام دینے سے پہلے اس کے بارے میں سو چو تو ہر کام میں تمہاری عاقبت اچہی ہو گی ۔

کیو نکہ ہر کام کے بارے میں سوچنا اس کام کے بارے میں بصیرت کا باعث ہے ۔ اولیاء خدا ، عظیم لوگ اور جو بارگاہ خداوند متعال میں نعمت تقرب رکہتے اور خاندان وحی کے پر فیض محضرمیں حضور رکہتے اور جوا ن بزرگان کے مدد گار اور اصحاب میں سے تہے ۔ وہ کسی کام کو سر انجام دینے سے پہلے تفکر کی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہوتے تہے ۔

جنہوں نے سر چشمہ ولایت سے آب حیات نوش کیا ، جنہوں نے خاندان وحی و عصمت کے تابناک انوار سے لو لگائی ، جنہوں نے اپنے دل و جان کو علوم و معارف اہلبیت  سے منور کیا ۔ انہوں نے خداوند کریم کی عظیم نعمت یعنی فکر سے استفادہ کیا اور وہ بصیرت اور دور اندیشی کے مالک بن گئے ۔

۱۸

شناخت ، ہدایت ، روشن فکر اور حقائق امر سے آگاہی صرف سوچ و فکر سے ایجاد ہو تی ہے ۔ حضرت امیرالمومنین   علی  (ع)  کے علمی بحر بیکراں میں سے ایک گوہر  نایاب  یہ  ہے :

 '' لابصیرة لمن لا فکر له ''(۱) جو فکر نہیں رکھتا وہ روشن بینی و بصارت نہیں رکھتا  ۔

وہ بصیرت نہیں رکہتا اور اس کا قلب نورانیت سے  بہرہ مند نہیں ہے ۔ لہذا سوچ و فکر دل کے غبار و زنگ کو مٹاتی ہے اور دل کو پاک کر کے اس کی ظلمت و تاریکی کو نورانیت و بصیرت میں تبدیل  کرتی ہے ۔

جس طرح حر ( رضوان اللہ علیہ ) حضرت فاطمہ زہرا کے احترام کا قائل ہونے کی وجہ سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ حسین  سے جنگ و مقاتلہ کا اس کے لئے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا حضرت زہرا صدیقہ کبریٰ کے احترام کے قائل ہونے کی وجہ سے اس کی سوچ و فکر نے اسے گمرا ہی و ضلالت اور ہلاکت سے نجات دلا کر کربلا کے شہداء کی صف میں قرار دیا ۔

حر نے تفکر و تأمل کی بنیاد پر امام حسین  (ع) کو جواب دیتے وقت غصے اور تندی کی بجائے تحمل و تواضع سے کام لیا ۔ اسی مناسبت سے امیر المو منین کا ایک کلام ہے کہ  جو انسانوں کی حیات کو نجات دیتاہے کہ جس میں  مو لائے کا ئنات فرماتے ہیں :

'' دع الحدّة و تفکر فی الحجة من الخطل ، تامن الزلل '' (۲)

تند روی کو ترک کرو اور حجت و دلیل کی بناء پر تفکر کرو ، اور غلط و باطل بات کہنے سے پر ہیز کرو تاکہ لغزش سے آمان میں رہو   ۔جناب  حر نے  بہی  اسی  طرح  کیا اور بصیرت و دور اندیشی سے اپنے مستقبل کو نجات دی جس طرح  حرنے غور و فکر سے کام لیا  ، کاش اسی طرح سقیفہ میں جمع ہونے والے  دنیا پرست بہی اپنی عاقبت کے بارے میں سوچتے تو چہرہ خورشید پر غم کے بادل نہ چہا جا تے ۔لیکن افسوس صد افسوس !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  شرح غرر الحکم:ص ۶ص ۴۰۱

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۴ص  ۱۹

۱۹

حضرت امیر المومنین  علی  (ع) بصیرت و دور اندیشی کو فکر کے آثار میں سے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

'' من فکّر ابصر العواقب '' ( ۱ )

جو فکر سے کام لے وہ امور کی عاقبت و نتیجہ سے آگاہ ہو جا تاہے۔

امیر المو منین  علی  (ع)   سے روایت ہے کہ آپ  نے  فرمایا :

'' من طالت فکرته ، حسنت بصیرته ''( ۲ )

جس کی فکر طولانی و دقیق ہو اس کی بصیرت اچہی ہو جا تی ہے ۔

کیونکہ اگر فکر شخصی اغراض سے آلودہ نہ ہو تو یہ شفاف آئینہ کی مانند حقائق کو جلوہ گر اور آشکار کرتی ہے ۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں :

'' الفکر مرآ ة صافیة '' ( ۳ )

فکر ایک شفاف آئینہ ہے   ۔

جب فکر ایک شفاف و درخشاں آئینہ کی مانند آپ کو واقعیت سے آگا ہ کرتی ہے تو پہر روزہ فکر سے استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۳۲۴[۱]

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۷۲ ۲

[۳]۔ ا ما لی الطوسی:ج ۱ص  ۱۱۴ ،بحا ر الانوار:ج ۷۷ص  ۴۰۳

۲۰

روزۂ فکر

اسلام میں  خاموشی اور سکوت کے روزے کا وجود نہیں ہے جیسا کہ راتوں کو کہانے پینے سے پرہیز کرتے ہوئے رات کے روزے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ لیکن جو عالی و بلند معنوی مقام و مراتب کےحصو ل کی جستجو میں ہیں ، وہ چپ کا روزہ رکہنے کی بجائے فکر کا روزہ رکہتے ہیں اور اپنے ذہن کو زشت وناپسندیدہ افکار سے آلو دہ نہیں کر تے ۔ یہ خاندا ن رسالت  علیہم  السلام   سے ہم تک پہنچنے والا ایک دستور ہے ۔حضرت علی (ع) فر ما تے ہیں :

''صیام القلب عن الفکر فی الاثام افضل من صیام البطن عن الطعام  '' (1)

گنا ہوں کے بارے میں فکر کرتے ہوئے دل کا روزہ ،خوراک سے پر ہیز کرتے ہوئے پیٹ کے روزے سے افضل ہے  ۔

اگرخود کوبرے افکار سے آلودہ نہ کریں تو یہ گو یا گناہوں اور نا پسندید ہ اعمال کے لئے بیمہ ہے ۔ اس صورت میں فکر شفاف و درخشان آئینہ کی مانند آ پ کو واقعیت و حقیقت دکہا ئے گی ۔ روزہ فکر نجات لئے موثر ترین اور بہترین راہ انسان کے اختیار میں ہے اور یہ سیر معنوی کے لئے انسان کو کامران و کامیاب کرتا ہے ۔ فکر کا روزہ انسان کی روح کو عالم معنی کی بیکراں فضا میں پرواز کروا تا ہے اور اسے ترقی و پیشرفت کی اوج تک پہنچا تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج 4ص  214

۲۱

اگر آپ فکر کا روزہ رکہنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ شیطان کو شکست دے سکتے ہیں اگر چہ مومنین کے لئے شیطان کی دشمنی بہت ضعیف ہے اور انسان کی گمراہی کے لئے اس کی قدرت و طاقت بہت کم ہے ۔ لیکن وہ انسانوں کے سر کش نفس سے استفادہ کر تا ہے کہ جو ہمیشہ انسانوں کے ہمرا ہ ہے ۔ وہ انسانوں کے نفس میں وسوسہایجاد کرکے نفس کو اپنا ہم عقیدہ بنا لیتا ہے اور نفس کی مدد سے انسان کی ہستی کو تباہ کر دیتا ہے اور دونوں جہانوں کی سعادت سے دور کر د یتا ہے ۔ شیطانی وسواس اور نفس کی غلامی سے نجات کا راستہ دنیاوی افکار کی نفی ہے  جو اپنے نفس کو دنیاوی افکار سے بچالے وہ برے اعمال اورگناہوں کا مرتکب نہیں ہو تا ۔ اس طرح اسے جاویدا نی سعادت حاصل ہو تی ہے ۔ کیو نکہ صحیح و سالم فکر انسان کو غم و اندوہ اور دنیاوی افکار سے نجات دیتی ہے کہ جو افکار انسان کی سعادت و خوشبختی کو ویران کرتی ہیں ۔

۲۲

صحیح و سالم فکر کے طریقے

1۔ دقت اور  سوچ سے فکر کو  سالم کر نا

دقت و تامل ، افکار کی بر رسی ، تصحیح فکر اور فاسد فکر کو ختم کرنے میں مہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ خدا کے مقرب ملک جبرائیل امین پیغمبر اکرم(ص) کے لئے مناجات لائے تا کہ وہ امت کے لئے مورد استفادہ قرار پائے ان مناجات میں ہے :

'' والهمتنی رشدی بتفضلک و اجلیت بالرجاء لک قلبی وازلت خدعة عدوی عن لبّی و صححت با لتامل فکری ''(1)

پرور دگار ا تو نے اپنے فضل سے میری ہدایت کا الہام فرمایا ، تجہ سے امیدواری نے میرے دل کو جلا بخشی اور تامل کے ذریعہ میری فکر کو سالم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحا ر الانوار :ج95ص  63 1

۲۳

2 ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا

فکر کی تصحیح اور تامل پر قدرت کے لئے پر خوری سے پر ہیز و خود داری کر نا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ کہانا ، پینا اگر اعتدال کی حدسے بڑہ جائے تو یہ فکر کو فاسد کرنے میں اثر انداز ہو تا ہے ۔ آ سائش فکری ، آسائش جسمی سے مرتبط ہے ۔

فکر اس صورت میں آسائش و راحت میں ہو گی کہ جب پر خوری کا احساس نہ ہو ۔ اس وقت انسان کو ذہن زشت و شیطانی افکار کے طغیان سے محفوظ رہے گا ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اقتصر فی اکله کثرت صحته و صلحت فکرته ''(1)

جو کہا نے میں لازم حد تک اکتفا کرے ، اس کی صحت جسمی بیشتر ہو گی اور فکر میں اصلاح  ہوگی ۔

پر خوری کی وجہ سے بدن کے بخا رات زیادہ ہو کر دماغ کی طرف جا تے ہیں اور شیاطین کے نفوذ کی قدرت بڑہ جا تی ہے اسی وجہ سے فاسد افکار اور شیطانی وسوسے بہی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ زیادہ کہانے سے پر ہیز کی صورت میں بدن کے بخا رات کم ہو کر نفوذ شیاطین کے راہ بہی کمتر ہو جاتے ہیں پہر وسوسہ شیطانی اور فاسد افکار کم ہو جاتے ہیں اور فکر اصلاح پا  تی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5 ص  2 7 3

۲۴

3 ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے  پر ہیز کرنا

صحیح و سالم فکر کے لئے ایسے افراد سے پر ہیز کرنا ضروری ہے کہ جو فکری اشتبا ہات کا شکار ہوں ۔ زود باور افراد سے کنارہ گیری و دوری انسان کو ان کے فکری اشتبا ہات سے محفوظ رکہتی ہے  جلدی باور کرنے والے سادہ لوح افراد اور جو لوگ جلدی دوسروں سے فریب کہا جائیں وہ فکری لحاظ سے ضعیف و کمزور ہو تے ہیں ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من ضعفت فکرته قویت غرّته ''(1)

جس کی فکر ضعیف ہو ، اس کا فریب کہانے کا امکان قوی ہو جاتا ہے۔

 ضعیف فکر انسان کے دہو کا کہا نے کے امکا نات مہیا کر تی ہے ۔ کیو نکہ جب ایسے افراد میں  غور وفکر کی قدرت کم ہو تو ان میں وہم و خیال کی قوت زیادہ ہو جاتی ہے اسی لئے وہ دوسروں کی رائے اور نظریات کو جلدی قبول کر لیتے ہیں کیو نکہ وہم و خیال کا غلبہ قبول کرنے کی حالت کو ایجاد کر تا ہے لیکن سوچ و فکر دلیل و برہان اور قبول کرنے کی حالت کو شرائط کے ساتہ تسلیم کر تی ہے اسی وجہ سے تعلیمات وفرمائشات اہل بیت عصمت و طہارت میں فکری لحا ظ سے ضعیف افراد سے مصاحبت و واسطہ سے منع کیا گیا ہے تا کہ ان کی صحبت و ہمنیشی کی وجہ سے ان کے اشتبا ہا ت دوسروں تک سرایت نہ کریں ۔ تمرکز فکر، غور وفکر کی قدرت میں اضا فہ کا با عث ہے ۔جو کوئی  غور و فکر کر رہا ہو اس کے لئے ذہنی اطمینان و آرام و سکون ہونا ضروری ہے کیو نکہ تشویش ذہنی ، تمر کز فکر سے مانع ہے پس جب فکر متمر کز نہ ہو تو اس کی قدرت کم ہو جائے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5 ص  80 2

۲۵

تمر کز فکر کے لئے پر سکون اور آرام دہ محیط و ماحول ہو جو محیط فکر کو پرا کندہ کرے ، اسی طرح ہیجان اور روحی آشفتگی کے وقت بہی فکر کومکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتے ۔

اگر تمرکز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے تو قوی و قدرتمند فکر حاصل ہو گی ۔ کیو نکہ اس میں کوئی شک وتردید نہیں کہ تمرکز فکر کی قدرت کو کئی حد تک بڑہا تا ہے ۔ لہذا تمر کز فکری کا طریقہ سیکہیں اور اس کے موانع کو بر طرف کریں ۔

تمر کز فکر انسان کے باطنی و روحی حالات سے حاصل ہو تا ہے ۔ لہذا اسے بہت تیزی سے حاصل کرنے کے لئے تمرین و مشق کریں تا کہ وقت کے ساتہ ساتہ ہم میں یہ قدرت ایجاد ہو سکے ۔ جب تمر کز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے اور اس سے استفادہ کریں تو آپ کے لئے کامیابی تک پہنچنے کے راستے کہل جائیں گے ۔

بہت سے دانشمند و طالب علم نوابغ کی حالت میں غبطہ و حسادت کا شکار ہو جاتے ہیں کیو نکہ وہ ذہین نہ ہونے کی وجہ سے  پریشان ہو تے ہیں   جب  کہ بعض مصنفین معتقد  ہیں :

'' ایک ذہین اور عادی یا عام فرد کی فکر میں فرق ہے کہ ذہین  شخص اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ قرار دیتا ہے ۔ آپ بہی اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ  قرار دینے پر قادر ہیں '' ۔

بعض گمان کر تے ہیں کہ ذہین افراد بچپن سے ہی غیر معمولی حافظے کے مالک ہو تے ہیں لیکن ان کی یہ سوچ درست نہیں ہے کیو نکہ بہت سے ذہین افراد میں بڑے ہونے تک ذہانت نامی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی ۔ حتی کہ بعض اپنے والدین اور تربیت دینے والوں کی نظر میں بچگا نہ ذہن کے مالک تہے ۔ آئن سٹائن کہ جو اس دنیا میں ایک ذہین ترین فرد کے طور پر پہچا نا جا تا ہے ، وہ بہی ان ہی افراد میں سے ایک تہا ۔

۲۶

بہت سے ذہین افراد نے اپنی ذہانت کو اپنی عمر کے آخری حصوں میں نکہا را اگرچہ بعض ذہین افراد میں ذہانت کی علامات بچپن ہی سے جلوہ گر ہوتی ہیں ۔

لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تمام ذہین افراد میں ذہانت کی علامات ونشانیاں بچپن سے آشکار ہو تی ہیں کیو نکہ جس طرح ہم نے عرض کیا کہ ممکن ہے کہ انسان قوہ فکری سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جدید ، فوق العادہ اور استثنائی شخصیت کا مالک بن جائے ۔

تمر کز فکر ذہنی و  فکری قوة اور قدرت فکر سے بیشتر استفادہ کرنے کاایک موثر ذریعہ ہے ۔ فکر اور تمرکز فکر اس قدر اہم ہے کہ ہم نے ابہی تک اس کے ہزا روں میں سے ایک راز کو بہی دریافت نہیں کیا۔ افکار کو تجسم دینا اور فکری موجود ات کو ایجاد کرنا فکر کے نا شناختہ مسائل میں سے ایک ہے جس طرح ہم روح کی حقیقت کو نہیں جانتے اسی طرح حقیقت فکر بہی ہمارے لئے مجہول ہے۔ کیو نکہ غور وفکر کا سرچشمہ  انسان  کی روح ہے ۔ کیو نکہ جو انسان اپنی روح کو کہودے وہ تفکر و تدبر پر قادر نہیں ہے ۔ بس روح سے فکر جنم لیتی ہے اور ذہن ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ روح انسان کے غور وفکر کو ظاہر کرتی ہے۔ جس طرح آنکہ روح کے لئے وسیلہ ہے کہ انسان تسلط روح کے ذریعہ آنکہوں سے اشیاء کو دیکہتا ہے ۔

۲۷

نتیجۂ بحث

آ پ غور و فکر اورتفکر و تعقل کے ذریعہ دنیا کے  عالی ، عظیم ترین اور قیمتی  خزانوں کو اپنے ذہن سے نکالیں  اور تامل و دقت کے ذریعہ اپنی افکار سے پر ارزش گوہر حاصل کریں کہ جس کے سامنے بہت سے قیمتی خزانے کوئی قیمت نہیں رکہتے ۔  اپنی فکر کو متمر کز کریں اور تمر کز فکر کی قدرت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی عقلی و ذہنی قوت کی افزائش کریں ۔ غور وفکر کے ذریعہ آپ نہ صرف ذہین اور ا پنے آگاہ ضمیر میں تبدیلیاں ایجاد کر سکتے ہیں ۔بلکہ آپ اپنے اس ضمیر میں بہی تبدیلی لا سکتے ہیں کہ جو اپنے سے آگاہ نہیں ہے ۔فکر آپ کے نفس و روح کے لئے مقناطیس ہے کیو نکہ آپ جس موضوع کے بارے میں سوچیں وہ آپ کو اس کی طرف جذب کرے گا ۔

تفکر کے ذریعہ فضائل ومناقب اہل بیت علیہم السلام سے اپنی روح کو بلندیوں پر لے جائیں تا کہ اس خاندان وحی کے لئے مجذوب بن سکیں ۔اس کائنات ، ملکوت آسمان و زمین اور آیات الٰہی سے آشکار عظمتوں میں تدبر و تامل سے آپ میں عظم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے ۔اشتبا ہات فکری کے شکار افراد کی صحبت و ہمنشینی سے گریز کریں اور عالی و بزرگ فکر کے مالک افراد کی مجلس میں بیٹہیں ۔

بہ یک تدبیر نیکو آن توانکرد

کہ نہ تو ان با شپاہ بیکران کرد

بہ رأیی لشکری را بشکنی پشت

بہ شمشیری یکی تا دہ تو ان کشت

ایک اچہی سوچ و فکر وہ کام بہی کر سکتی ہے کہ جسے بہت بڑا لشکر بہی انجام نہیں دے سکتا ۔   رائے ونظریہ کے ذریعہ لشکر کو شکست و مات دے سکتے ہیں لیکن تلوار کے ذریعہ ایک سے دس افراد کو ہی قتل کیا جاسکتا ہے ۔

۲۸

دوسراباب

مشورہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' افضل من شاورت ذو التجارب ''

تجربہ کار سے مشورہ کرنا سب سے بہتر ہے  ۔

    مشورہ کرنے کی ضرورت

    مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

    کس کے ساتہ مشورہ کریں ؟

    مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

    مشورہ نہ کرنے کا انجام

    نتیجۂ بحث

۲۹

مشورہ  کرنے  کی  ضرورت

سعی و جستجو اس صورت میںمفید ثابت ہو تی ہے کہ جب وہ صحیح راہ پر قرار پائے اور اس کا درست نتیجہ ہاتہ آئے ۔ اگر انسان کی فعالیت و کوشش صحیح شرائط کے ساتہ انجام نہ پائے تو اتلاف عمر اور تہکاوٹ کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔ لہذا ہر کام اور پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اس پر دقت کریں اور کامیا بی وناکامی کی تمام شرائط کی تحلیل و بررسی کریں ۔ اس کے بعد اگر آپ دیکہیں کہ اس کام سے اچہا اور عالی نتیجہ حاصل ہو رہا ہے تو اس کام کا آغاز کریں اگر اس کام کا نتیجہ آپ کے لئے روشن نہ ہوسکے تو کسی ایسے شخص سے مشورہ طلب کریں کہ جو آ پ کا ہمدرد ، دلسوز اور اس مسئلہ سے مطلع وآگاہ ہو پہر اگر اس کام میں کوئی صلاح دکہائی دے تو اس کام کا آ غاز کریں ۔

حضرت رسول اکرام(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

'' تَواضع للّٰه ، یَر فَعکَ اللّٰه وَلاَ تَقضیَنّ الاَّ بعلمٍ فَانّ اشکل علیک امر فسل ولا تستحیی ، واستشر ثمّ اجتهد فانّ اللّٰه عزّ وجلّ ان یعلم منک الصدق یوفقک ''(1) خدا کے لئے تواضع کرو، تا کہ خدا تمہیں سر بلند کرے اور تم قضاوت نہ کرو مگر جس کے بارے  میں تم علم و آ گاہی رک ھ تے ہو ۔ پس اگر کوئی امر تمہارے لئے مشکل ہو تو اس کے بارے میں سوال کرو اور سوال کرنے میں مت شرماؤ، اس کے بارے میں مشورہ کرو اور پ ھ ر اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو، کیو نکہ خداوند متعال اگر تم میں صداقت جانے تو تمہیں کامیاب فرما ئے گا ۔جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا : '' مشکل امور میں دوسروں سے پوچ ھ و اور مشورہ کرو اور اس کے بعد اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج 21ص  408

۳۰

مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

جو معنوی مقام کی اوج پر اور بندگی خدا وند کے عا لی در جات پر فائز ہیں اور جو راہ کمال کے حصول کے لئے کوشاں اورتقرب اہل بیت کی جستجو میں ہیں وہ یہ جان لیں کہ مشورہ عظیم لوگوں کی ترقی وپیشرفت میں بہت اہم کردار کاحامل ہے ۔ اب جنہوں نے معنوی سفر کا آغاز کیا ہے اور جو آیات وروایات اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے ارشادات سے نا واقف ہیں کہ جو انسان کو سید ھ ا راستہ دک ھ اتی ہیں ۔ لہذا وہ کسی عاقل ، متقی اور فہمیدہ انسان سے مشورہ کریں اور ان کے تجربات اور رہنمائی سے استفادہ کریں ۔ ایسے بزرگ افراد سے مشورہ کریں کہ جو نعمت علم و فہم سے آراستہ ہوں اور جن کو صحیح راستہ مل گیا ہو اور اس پر گامزن ہوں نہ کہ ان لوگوں سے مشورہ کریں کہ جو آد ھ ے راستے میں بیٹ ھ گئے ہوں اور کاروان کو ب ھ ی اس پر چلنے سے روکے رک ھ ا ہو ۔حضرت امیر المو منین  (ع) ایسے افراد سے مشورہ کو ہدف و مقصد تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہیں کہ جنہیں صحیح راستہ مل چکا ہو ۔'' لا ظهیر کا لمشاورة ''(1)

انسان کے لئے مشورہ سے بڑہ کر کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

فتحی کہ جہاں از او گشادند       در بازوی مشورت نہا دند

گر عقل تو عقدہ می گشاید      با ناخن شور خوشتر آید

وہ فتح کہ جس کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا وہ مشورہ کے ذریعہ سے حاصل ہو تی ہے  اور اگر آ پ کی عقل گرہ کہو ل سکتی ہے تو یہ ناخن کے ذریعہ گر ہ کہولنے سے بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج 75ص  104

۳۱

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟

امام صادق (ع)  مشاور کی شرئط کے بارے میں فرماتے ہیں:

 ''استشیر العاقل من الرجال الورع ، فانّه لا یأمر االاَّ بخیرٍ ...''

عاقل مر دوں کے ساتہ مشورہ کرو کہ جو پر ہیز گار ہو ں ۔ کیونکہ وہ تمہاری راہنما ئی نہیں کریں گے مگر خیر و اچہا ئی کی طرف ۔اس امر سے بہی متوجہ رہیں کہ کبہی مشورہ ، مشورہ کرنے والے کے لئے بہت نقصان کا سبب بنتا ہے کہ جب بعض موارد میں یہ اسے گمراہی و ضلالت کے تاریک کنویں میں دہکیل دیتا ہے اسی وجہ سے خاندان وحی (ٕع) نے مشورہ کے بارے میں کچہ شرائط ذکر فر مائی ہیں تا کہ ایسی غلطیوں اور اشتبا ہات سے محفوظ رہ سکیں-آپ جس شخص سے مشورہ کرنا چا ہتے ہوں اس میں مشاور کی صلاحیت ہونی چاہئے اور اس سے جس موضوع کے بارے میں سوال کیا جائے وہ اس کے جواب کے لئے مکمل آ مادگی رکہتا ہو ۔ لہذا روایات اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کی تمام خصوصیات کامالک ہو ۔

امام صادق  (ع) فرماتے ہیں : '' شاور فی امور ک ممّا یقتضی الدین من فیه خمس خصالٍ عقل ،و حلم ، و تجربة ، ونصح ، و تقویٰ ''(1)

اپنے امور میں کہ دین جن کا اقتضا ء کر تا ہے کسی ایسے سے مشورہ کرو کہ جس میں پانچ  خصوصیات موجود ہوں :

1 ۔ عقل   2 ۔ حلم  3 ۔ تجر بہ  4 ۔ نصحیت کرنے والا   5 ۔ تقویٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج 75ص  104

۳۲

مشکل مسا ئل میں فقط ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو فہمیدہ ، تجر بہ کار ، تقویٰ دار ، بردبار ، وحلیم اور اہل نصیحت ہو اور جن افراد میں یہ خصو صیات نہ ہو ان سے پر ہیز کیاجائے ور نہ ممکن ہے کہ انسان ہدایت کی بجائے ضلا لت و گمراہی میں مبتلا ہو جائے ۔ لہذا ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کے لئے آما دگی رکہتا ہو ۔

بہ ہر کار با کاروان راز گوی     در چارہ از رأیی او باز جوی

زدن با خداوند فر ہنگ رأیی    بہ فر ہنگ باشد تو ر اہنما ئی

امام صادق  (ع) ایک اور روایت میں ایسے شخص کو بیشتر شرائط بیان فرما تے ہیں کہ جس سے مشورہ کیاجائے:

'' انّ المشورة لاتکون الاَّ بحدودها، فمن عرفها والاَّ کانت مضرّ تها علی المستشیر اکثر من منفعتهاله ، فأ وّلها ان یکون الذی یشاوره عاقلاً ، والثانیة ان یکون حرّاً متدیناً ، والثالثة ان یکون صدیقاً مواخیاً، والرابعة ان تطلعه علی السرّک فیکون علمه به کعلمک بنفسک ، ثمّ یستشر ذالک و یکتمه فانّه اذا کان عاقلاً انتفعک بمشورته، واذا کان حراً متدیّناً جهد نفسه فی النصیحة لک ، و اذا کان صدیقاً مواخیاً کنتم شرک اذا طلعته علیه ، و اذا اطلعته علی سرک فکان علمه به کعلمک تمت المشورة وکملت النصیحة ''(1)

مشورہ کی کچہ شرائط ہیں اگر کوئی اسے جان لے تو اچہا ہے ور نہ مشورہ کرنے والے کو فائدے سے زیادہ نقصان کا سامنا ہو گا ۔

1 ۔ مشاور عاقل و فہمیدہ ہو ۔

2 ۔ وہ آز اد اور متدین ہو ۔

3 ۔ آپ سے برادرا نہ صدا قت رکہتا ہو ۔

4 ۔ آپ اسے اپنے  راز سے آگاہ کریں تا کہ وہ  آپ کی طرح مورد مشورہ کیتمامپہلوؤں سے آگاہ ہو جائے  اور پہر اسے مخفی و پوشیدہ رکہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج 75ص  103

۳۳

اگر وہ عاقل و فہمیدہ ہو تو اس سے مشورہ کرنا مفید ثا بت ہو گا اگر وہ آزاد و متدین ہو تو آ پ کو نصیحت کی سعی و کوشش کرے گا اور جب وہ برا درا نہ صداقت رکہتا ہو تو وہ آپ کے رازو ں کو پوشیدہ رکہے گا ۔ اور جب آپ اس کو اپنے راز بتا دیں کہ جس طرح آپ اس مسئلہ سے آ گاہ ہیں تو وہ آ پ کو کامل اور صحیح مشورہ دے گا ۔ پس نصیحت کامل ہو جائے گی ۔

   گویند کہ بی مشاورت کار مکن                                                الحق سخنی خوشست انکار مکن

لیکن بہ کسی کہ از غمت غم نخورد                                         گر در ز ذہن بریذد اظہار مکن

کہتے ہیں کہ مشور ہ کے بغیر کوئی کام نہ کرو اور حق یہ ہے کہ کسی اچہی بات کا انکار نہ کرو ، لیکن جو تمہارے غم میں غم خوار نہ ہو اگر وہ اپنے منہ سے موتی بہی نچہاور کرے  تو اس کا اظہار نہ کرو ۔

اس بناء پر بے  خبراور  نادان افراد سے مشورہ کرنا بہت خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جن میں مشاور کی شرا ئط نہ ہو ۔ کیو نکہ وہ انسان کو گمراہی و تبا ہی میں مبتلا کردے گا ۔

امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' لا تشاور من لا یصدّقه عقلک ''(1)

جسے عقل قبول نہ کرے اس سے مشورہ نہ کرو  ۔

طبیبی کہ باشد و زرد رو ی     ازاو داوری سرخ روئی مجوی

جو طبیب خود ہی بیمار ہو اس سے صحت یابی کی امید رکہنا عقل مندی نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الا نوار:ج 75ص  3 0 1

۳۴

مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

شائستہ افراد سے مشورہ کرنے میں آپ کا ہدف و مقصد ان کی رائے کو قبول کرنا ہو اور حقیقت مل جانے کی صورت میں اسے قبول کر کے اس پر عمل کریں نہ کہ فقط اس کی صحبت میں وقت گزار کر ، آگاہ افراد کی نصیحت کو ان سنا کر کے فراموش کر دیں ۔ کیو نکہ اس صورت میں افسوس و پریشانی آپ کا استقبال کرے گی ۔

حضرت امیر المو منین (ٕع)  فرما تے ہیں :

'' اما بعد فانّ معصیة الناصح الشفیق العالم لمجرب تورث الحسرة و تعقب الندامة '' (1)

شفیق ومہر بان ، عالم و صاحب تجر بہ نصیحت کرنے والے شخص کی مخالفت کے بعد حسرت و پشیمانی حاصل ہو گی۔

 اس بناء پر اگر آپ کسی آگاہ و شائستہ شخص کی صحبت میں بیٹہ کر اس کی نصیحتوں کو سنیں اور اس کی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کر نے کے لئے کمر ہمت باندہ لیں تو آپ سعا دت مند ہو جائیں گے اور پہر   آپ پشیمانی ، افسوس اور فکری پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلا غہ خطبہ: 35

۳۵

مشورہ نہ کرنے کا انجام

مختلف کاموں میں مشورہ نہ کر نے کی وجہ لاعلمی و نا آگا ہی ہے یا اس کی وجہ استبداد رائے ہے ۔ یعنی جو اپنے کردار و رفتار کو سو فیصد صحیح اور بے اشکال سمجہے اور کسی سے مشورہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو ، وہ استبداد رائے میں مبتلا ہے ۔ ایسے افراد اس صفت کی وجہ سے اپنے کو خطرے میں ڈالتے ہیں حضرت علی(ع)نے  نہج البلاغہ میں فرمایا:

''والاستشارة عین الهدایة و قد خاطر من استغنیٰ برأیه ''(1)

مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور اگر کوئی اپنی شخصی رائے کی وجہ سے اپنے کو دوسروں سے مستغنی سمجہے تو وہ اپنے کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔دنیا کے بہت سے حکمرا نوں میں غرور ، استبداد رائے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے جس کی وجہ سے وہ کبہی اپنے اور کبہی اپنی مملکت کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے کائنات میں منصب امامت کے لئے پہلے شائستہ ترین امام حضرت علی  (ع) نے فرمایا :جو اپنے کو اپنی شخصی رائے کی وجہ سے دوسرو ں سے بے نیاز و مستغنی سمجہے وہ اپنے کو خطرے میں مبتلا کر تا ہے ۔اس بناء پر جو دوسروں کے ساتہ مشورہ کر نے کو بیٹہنے کے لئے تیار نہ ہو اور جو اپنی رائے و عقیدے کو دوسروں سے بہتر و بر تر سمجہتا ہو ، وہ اپنی رائے میں استبداد رکہتا ہے جو کہ ہلا کت و نابودی کو سبب ہے کیو نکہ ایسا شخص کسی کام کو بہی انجام دیتے وقت دوسروں سے اپنی شخصی رائے اور عقیدے کے علاوہ کسی اور راہ کا انتخاب نہیں کرتا اگر چہ اس کا منتخب کیا ہوا راستہ غلط ہی کیوں نہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار: 202

۳۶

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' من استبدّ برأیه هلک و من شاور الرجال شارکها فی عقو لها ''(1)

جو اپنی رائے میں مستبدّ ہو ، وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور جو دوسرے لو گوں سے مشو رہ کرے گو یا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جا تا ہے  ۔

ان فرامین و ارشادات سے یہ استفادہ کرتے ہیں کہ جو کسی کام میں مشورہ نہیں کر تا اور استبداد رائے کا مالک ہو وہ بہت بڑے نقصان کا متحمل ہو تا ہے اور جو دوسروں سے مشورہ کر تے ہیں وہ نہ صرف ہلاکت سے رہائی پاتے ہیں بلکہ صاحبان نظر کی عقلوں میں بہی شریک ہو تے ہیں ۔

بنای کار خود را با مشاورت ننہی                                    نہ حق شرع گذاری نہ داد عدل دہی

مکن غرور و بکن مشورت بہ اہل خرد                         کہ در مشاورت از سہو و از خلل برہی

اگر اپنے کاموں کی بنیاد مشورے کے ذریعہ نہیں رکہو گے تو آپ کو نہ ہی تو شرع گزاری کا حق ہے اور نہ ہی فیصلہ اور عدل کرنے کا ۔ غرور نہ کرو بلکہ اہل عقل و خرد سے مشورہ کرو کیو نکہ مشورے سے سہو و خلل کے ذریعہ نجات پا سکتے ہیں ۔

مادی مسائل میں بہی کبہی مشورہ نہ کر نے سے ناقبل جبران نقصان ہو تا ہے اب نمونہ کے طور پر ایک مورد کو ذکر کرتے ہیں : جب سب لوگ سونے کی تلاش و جستجو میں تہے تو '' داربی '' نامی شخص کے ایک چچاکو بہی سونے کی ہوس کا بخار ہو گیا اس نے غرب کا رخ کیا تا کہ زمین کہود کر مال و ثروت حاصل کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار:152

۳۷

اس نے یہ نہیں سنا تا کہ انسان کے ذہن میں موجود سونا ، زمین میں مخفی سونے سے بیش قیمت ہے وہ اجازت نا مہ لے کر بیلچہ اٹہا ئے زمین کو کہود نے لگا ایک ہفتہ کی کوشش کے بعد وہ سونے کی سطح تک پہنچ گیا اب سے کسی وسیلہ و آلہ کی ضرورت تہی کہ جس کی مدد سے وہ زمین کا سینہ چیر کر سونے کو نکال سکے اور کسی کو اس کی خبر بہی نہ ہو ۔ لہذا اس نے اس معدن کو چہپاد  یا اور واپس اپنے شہر چلا گیا اس نے اپنے رشتہ داروں اور بعض ہمسایو ں کو بتایا ، وہ سب جمع ہوئے اور انہوں نے مل کر زمین کہود نے کے لئے ایک مشین خریدی اور سونے کی کان والی جگہ آگئے '' داربی'' اور اس کے چچا کام میں مصروف ہوگئے جب انہوں نے وہاں زمین کہود کر مٹی کا پہلا ٹرک نکا لا تو معلوم ہوا کہ انہیں سونے کی بہت بڑی کان ملی ہے سونے والی مٹی کے چند ٹرک نکالنے کے بعدانہو ں نے تمام قرض ادا کر دیئے اور پہر انہیں بہت زیادہ منافع بہی ہوا وہ جتنی زمین کہودتے داربی اور اس کے چچاؤں کی ہوس بڑ ہ جاتی یہاں تک کہ سونے کی وہ سطح گم ہو گئی اور پہر سونے کی کان کے کوئی اثرات نہ ملے لیکن انہوں نے اپنے کام کو جاری رکہا مایوسی کے عالم میں بہی انہوں نے سونے کی تلاش کے لئے نئے سرے سے آغاز کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے لہذا انہو ں نے ارادہ کیا کہ اب اس کام سے ہاتہ اٹہا لیں ، انہوں نے زمین کہود نے کی مشین چند سو ڈالر میں فروخت کردی اور ریل کے ذریعہ اپنے علاقے میں واپس آ گئے ۔

جس نے وہ مشین خریدی ، اس نے ایک انجینئر سے تقاضا کیا کہ وہ معدن کا معائنہ کرے انجینئر نے بتایا کہ زمین کہود نے والے معدن کے اصو لوں اور قوا نین سے نا آشنا تہے اور وہ ہار کر واپس چلے گئے ۔ انجینئر نے بتا یا کہ انہوں نے جس جگہ کام چہوڑا تہا اس سے90 سینٹی میٹر کے فاصلے پر سونے کی سطح ہے لیکن وہ ہار کر واپس لوٹ گئے ۔

جس شخص نے زمین کہود نے کی مشین خریدی تہی وہ ایک بہت اہم حقیقت سے واقف تہاکہ کسی چیز میں ہار ماننے اور کام کو چہوڑ نے سے پہلے اس کے ماہر سے مشورہ   کرناضرور کریں ۔

۳۸

نتیجۂ بحث

مادی و معنوی امور میں آگاہ ، فہمیدہ و پر ہیز گار شخصیات سے مشورہ ترقی و پیشرفت کا ذریعہ ہے ایسے افراد سے مشورے کے ذریعہ آپ ان با صلا حیت و صاحب نظر افراد کے افکار و تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں ان کی راہنما ئی سے استفادہ کر تے ہوئے آپ اپنے کو حیرت و سر گردا نی سے نجات دے سکتے ہیں ۔ ان کے خدا پسندا نہ نظریات کی مدد سے عظیم اہداف سے آشنا ہو کر ان عالی اہداف و مقاصد کے لئے قدم بڑہا ئیں ان دلسوز او ر بزرگ افراد سے مشورہ کر کے ان کی سالہا سال کی زحمت اور تلاش و کوشش سے استفادہ کریں ۔

با صلاحیت افراد کے  مشورہ سے استفادہ کر کے ان کی فکر سے مستفید ہوں اور اعلیٰ اہداف کی اہمیت و ارزش سے آگا ہ ہو ں اور ان اہداف تک پہنچنے کی تلاش و جستجو کریں تا کہ آئندہ افسوس اور پشیمانی میں دچار نہ ہوں۔

مشاورت تر ک کر نے سے نہ صرف معنوی مسائل بلکہ مادی امور میں بہی نا قابل تلافی نقصان ہو تا ہے  پرہیز گار و بزرگ افراد سے مشورہ آپ کی شکست کے لئے مانع ہے ۔

ہر کہ بی مشورت کند تد بیر    غالباً بر ہدف نیاید تیر

بیخ بی مشورت چو بنشانی       بر نیار د بہ جز پشیمانی

جو بہی مشورہ کے بغیر تدبیر کرے تو غا لباً اس کا تیر نشانے پر نہیں لگتا ۔ اور اگر کسی چیز کی مشورہ کے بغیر بنیاد دکہو گے تو پشیما نی کے سوا کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔

۳۹

تیسراباب

ہدف

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' جمیل المقصد یدلّ علیٰ طهارة المولد ''

خوبصورت ( با ارزش ) ہدف مولد کی طہارت پر دلالت کرتا ہے ۔

    بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

    ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

    انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

    مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

   1 ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

    ایک نکتہ کا تذکر

   2 ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

   3 ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

   4 ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

   5 ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت سے توسل

    نتیجۂ بحث

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259