کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 10%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

کامیابی کے اسرار ج 1

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات:

صفحے: 259
مشاہدے: 136656
ڈاؤنلوڈ: 3867


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136656 / ڈاؤنلوڈ: 3867
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج 1 جلد 1

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

: کہ یہ خط قبلہ ہے رات یہیں ٹہہرو ،میں صبح آؤ ں گا اور انہوں نے مجہے کچہ ذکر تعلیم فرمائے ۔  یہاں تک کہ سات دن اسی طرح گزر گئے دوران سفر نہ تو مجہے کوئی تکلیف ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تہکا وٹ ہوئی ۔

           ساتویں صبح انہوں نے فرمایا : اس پانی میں میری طرح غسل کرو اور احرام باندہ لو اور جس طرح میں لبیک کہوں تم بہی کہو ۔میں نے تمام امور میں اس بزرگوار کی پیروی کی ۔پہر کچہ دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑ کے پاس پہنچے میری سماعتوں سے کچہ آوازیں ٹکڑائیں ۔ میں نے عرض کی ! یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اس پہاڑ پر چڑہنے کے بعد تم ایک شہر کو دیکہو گے ، اس شہر میں داخل ہو جاؤ پہر وہ مجہ سے جدا ہو گئے میں آگے بڑہا اور تنہا پہاڑ سے اتر کر ایک بڑے شہر میں داخل ہو گیا ۔

           وہاں لوگوں   سے پوچہا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟

           انہوں نے کہا : مکہ اور وہ بیت اللہ الحرام ہے  ۔

           اس وقت میں اپنی حالت سے آگاہ ہوا ۔ میں جان گیا کہ میرا بخت بیدار تہا لیکن میں خواب غفلت میں تہا ۔ مجہے بہت افسوس ہو اکہ میں نے اس مدت میں ان بزرگوار کو کیوں نہیں پہچا نا اس وقت پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں تہا پشیمان ہوا اور عقل کو اپنے جہل کی وجہ سے شکوہ کیا۔(1)

           مر حوم سید عزیز اللہ تہرانی کے اس واقعہ پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حاصل ہونے والی عظیم زیارت معنوی مسائل میں چہوٹی سوچ رکہنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کر نے کی وجہ سے نصیب ہوئی ۔ اگر وہ ان دوستوں کے وسوسوں اور باتوں میں آجاتے تو کبہی بہی اس عظیم زیارت سے مشرف نہ ہوتے ۔ ان کی انجام دی گئی ریاضت و زحمات نے چہوٹی فکر رکہنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کے لئے آمادہ کیا اور اس کو اما م زمان  ارواحنا لہ فداہ کی زیارت اور ان کی ملاقات نصیب ہوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ معجزات  وکرامات آئمہ اطہار علیہم السلام: 0 11

۱۲۱

2 ۔ گمراہوں کی صحبت

جب دین کے دشمنوں سے مبارزہ اور بر سر پیکار ہونے کا امکان نہ ہو تو منفی مبارزہ سے مدد لیں آپ منفی مبارزہ کے ذریعہ دشمنان دین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں انہیں ان کے مذموم مقاصد تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں ان سے بے اعتنائی ، کنارہ کشی اور ان سے صحبت نہ کرنا منفی مبارزہ کی ایک نوع شمار ہوتا ہے ۔ ایسا کرنا اگر ان کی شکست کا وسیلہ نہ ہو تو کم از کم ان کے شرّ سے ایک طرح کی حفاظت ہے ۔

امام صادق(ع) ایک روایت میں فرما تے ہیں :

'' لا تصحبوا اهل البدع ولا تجالسوهم فتصیروا عند النّاس کواحدٍ منهم ، قال رسول اللّٰه ، المرئ علیٰ دین خلیله و قرینه ''(1)

بدعت گزاروں سے صحبت نہ کرو اور ان کے ساتہ نہ بیٹہو ۔ کیو نکہ ان کی مصاحبت و مجالست سے تم بہی لوگوں کی نظروں میں ان ہی میں سے ایک شمار ہوگے ۔ پہر انہوں نے فرمایا :  رسول اکرم(ص) نے فرمایا : انسان اپنے دوست اور نزدیکی فرد کے دین پر ہو تا ہے  ۔

اس بناء پر ان لوگوں کی صحبت سے پر ہیز کر نا اور ان سے دوری سے انسان بد نامی کے خطرےسے اور تاثیر فکری کے لحاظ سے بہی امان میں ہو تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ اصول کافی :ج2 ص 75 3

۱۲۲

3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

خواہش پرست دوستوں کی ہمنشینی اور ایسے افراد کی کہ جنہیں اصلاً عالم معنی و آخرت سے کوئی سرو کار نہ ہو ، مو من افراد کے دلوں سے ایمان کو نکالنے اور گمرا ہ کرنے والے شیاطین کے حضور کا باعث بنتے ہیں ۔ ہوا و ہوس پرست جو مجلس تشکیل دیتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے ساتہ مل کر بیٹہتے ہیں تو یہ حق و حقیقت کو نابود کرنے کی ایک چال ہوتی ہے ابتداء اسلام سے اہل بیت  کے دشمنوں نے ایسی مجالس اور اجتماعات تشکیل دے کر اپنے شیطانی اور مذموم مقاصد حاصل کئے ۔

کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المومنین (ع) ایسے اجتماعات کو شیاطین کی مجمع گاہ قرار دیتے ہیں اور نہج البلاغہ میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں :

'' مجالسة اهل الهوٰی منسأة للایمان و محضرة للشّیطان''(1)

خواہش پرستوں کی ہمنشینی ایمان والی ہے اور شیاطین کو ہمیشہ سامنے لانے والی ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) خدا کے بہترین بندوں کی صفات میں سے ایک ہوس پرست لوگوں سے دوری کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' احبّ عباد اللّٰه الیه عبداً...خرج من صفة العمیٰ و مشارکة اهل الهوٰی ''(2)

خدا کے نزدیک اس کے محبوب ترین بندے وہ ہیں کہ جو کور دلی کو چہوڑ کر ہو ا وہوس پرست لوگوں کے ساتہ شرکت کرنے سے گریز کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ خطبہ: 86

[2]۔ نہج البلاغہ خطبہ: 86

۱۲۳

اہل فسق و فجور کے ساتہ اٹہنا ، بیٹہنا اور ان کے ساتہ انس نہ صرف عام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے بلکہ کبہی یہ معاشرے کے نیک افراد کے کردار و رفتار پر منفی اثرات مرتب کر تا ہے ۔ ان سے نیک صفات سلب کر کے انہیں معاشرے کے شریر افراد کے ردیف میں قرار دیتا ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' مجالسة الابرار للفجّار تلحق الا برار بالفجّار '' (1)

نیک افراد کا  اہل فسق و فجور سے ہمنشینی ، انہیں فجار کے ساتہ ملحق کر دیتا ہے۔

دوسری روایت میں فرماتے ہیں :

'' ایّاک و مصاحبة الفسّاق '' (2)

فساق افراد کی مصاحبت سے پر ہیز کرو  ۔

یہ خاندان عصمت و طہارت  کے فرامین و ارشادات کے کچہ نمونے ہیں کہ جو تمام انسانوں کی ہدایت کا سبب فراہم کر تے ہیں ۔اس بناء پر جو لوگ حقیقت کی جستجو میں ہو اور عالی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں ، وہ ایسے افراد کی دوستی سے گریز کریں کہ جن کا ہدف و مقصد صرف مادیات تک پہنچنا ہو اور جوذکر اللہ اور یاد خدا سے غافل ہوں کیونکہ جن کا مقصد صرف دنیا کی زندگی ہو اور جو آخرت کے بارے میں فکر نہ کرتے ہوں ، وہ دوستی و رفاقت کی صلاحیت نہیں رکہتے ۔ خدا وند تعالیٰ قر آن مجید میں ارشاد فرما تاہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔بحار  الانوار:ج۷۴ص۱۹۷

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج 2 ص 28۹

۱۲۴

'' فَأعرض عَن مَن تَوَلّٰی عَن ذکرنَا وَلَم یرد الاَّ الحَیَاةَ اَلدّنیَا '' (1)

لہذا جو شخص بہی ہمارے ذکر سے منہ پہیرے اور زند گانی دنیا کے علاوہ کچہ نہ چاہے ، آپ بہی  اس سے کنارہ کش ہو جائیں ۔

کیو نکہ اس گروہ کا ہدف صرف مال و دولت اور مادی دنیا سے استفادہ کرنا ہے وہ جتنا مال بہی جمع کر لیں ان کی ہوس میں اضافہ ہو تا رہتا ہے ۔ گویا وہ قارون کے خزانے کی تلاش میں ہیں قرآن اس واقعیت و حقیقت کی یوں تصریح کر تا ہے :

'' قَالَ اَلَّذینَ یریدونَ اَلحَیَاةَ اَلدّنیَا یَا لَیتَ لَنَا مثلَ مَااوتیَ قَارون انّه لَذوحَظٍّ عَظیمٍ''(2)

جن لوگوں کے دل میں زندگانی دنیا کی خواہش تہی ، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کاش ہمارے پاس بہی یہ ساز و سامان ہو تا ، جو قارون کو دیا گیا ہے ۔ یہ تو بڑے عظیم حصہ کا ملک ہے۔

اگر فرض کریں کہ ایسے افراد کو قارون کا خزانہ بہی مل جائے تویہ پہر بہی بیشتر ثروت و قدرت کی جستجو کریں گے کیا ایسے خواہش پرست لوگوں کی دوستی صحبت انسان کو خدا سے نزدیک کر تی ہے یا فانی دنیا کی طرف لے جا تی ہے ؟

ایسے ا فراد اس ننگی اور تیز تلوار کی طرح ہیں کہ جو انسان کے پیکر وبدن سے اس کی جان کو  نکال دے ، اسی طرح یہ افراد بہی اپنے ہمنشینوں کی اہمیت اور ارزش کو ختم کر دیتے ہیں ۔

حضرت امام جواد(ع)  فرما تے ہیں : '' ایّاک ومصاحبة الشریر فانّه کالسّیف الملول یحسن منظره و یقبح اثره ''(3)

شریر لوگوں کی صحبت و ہمنشینی سے پر ہیز کرو کیو نکہ وہ اس ننگی تلوار کی مانند ہے کہ جو ظاہراً اچہی ہے ، لیکن اس کا اثر قبیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ نجم آیت: 9 2

[2]۔ سورہ قصص آیت: 79

[3]۔ بحار الا نوار :ج78 ص 64 3

۱۲۵

با بدان کم نشین کہ بد مانی                      خو پذیر است نفس انسانی

من ندیدم سلامتی زخسان                      گر تو دیدی سلام ما برسان

یعنی برے لوگوں کے ساتہ مت بیٹہو، کیونکہ انسان کا نفس دوسروں کے اثرات کو قبول کرتا  ہے۔ میں نے برے اور کمینہ صفت افراد کے ساتہ بیٹہنے میں کوئی اچہائی اور فائدہ نہیں دیکہا اگر تم نے ایسا کوئی فائدہ دیکہا ہو تو اس تک ہمارا سلام پہنچانا۔

جس طرح اولیاء خدا اور بزرگان کی صحبت انسان کی عقل و فہم کی دلیل ہے ۔ اسی طرح  اشرار کی صحبت اس کے بر عکس ہے ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' لیس من خالط الا شرار بذی معقول '' (1)

اشرار افراد کی صحبت و ہمنشینی میں بیٹہنے وا لا صاحب عقل اور معقول فرد نہیں ہے۔

کیو نکہ شریر افراد کی ہمنشینی زندگی کی ارزشوں کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کو اولیاء خدا کی نسبت سے بد گمان کر نے کا باعث بنتی ہے ۔

مہذب ، نیک اور صالح افراد کے بار ے میں حسن ظن گمراہ و شریر افراد کی صحبت کی وجہ سے ان افراد کے بار ے میں سو ء ظن میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ اس واقعیت کو حضرت امیر المو منین (ع) یوں بیان فرماتے ہیں :

'' صحبة الا شرار تورث سوء الظنّ با لا خیار '' (2) شریر افراد کی صحبت ، اہل خیر افراد کے بارے میں سوء ظن کا باعث بنتا ہے ۔

کیو نکہ نہ صرف ان کے پاس تنہا رہنا اور ان سے ملا قات منفی اثرات رکہتی ہے بلکہ ان کی زہر آلود باتیں اور مسموم  افکار بہی گمراہی و ضلالت کا سبب بنتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [9]۔ شرح غررالحکم :ج5 ص 86

[10]۔ بحار الانوار: ج78 ص 2

۱۲۶

۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

بہت سے افراد گمراہ  اور کثیر الشک افراد کی ہمنشینی اور دوستی کی وجہ سے واضح مسائل میں بہی مشکل میں دچار ہو جاتے ہیں یہ روایت امام صادق (ع) سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لاتجالس من یشکل علیه الواضح '' (1) جس کے لئے واضح امر بھی مشکل ہو ، اس سے مجالست و مصاحبت نہ کروایسے افراد میں دین کے بارے میں بہت کم اطلاعات کی وجہ سے شیطانی وسوسے رسوخ کرجاتے ہیں اور وہ اسے اپنے دوستوں اور ہمنشینوں میں القاء کر تے ہیں انکے دوست بھی کمزور اعتقاد کی وجہ سے ایسے شبہات کو قبول کر تے ہیں جس کے نتیجہ میں پاک لیکن سادہ لوح افراد شکاک افراد کی دوستی اور ہمنشینی کی وجہ سے ان ہی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :'' من جالس اهل الریب فهو مریب '' (2) جو اہل شک کی صحبت میں بیٹھے وہ بھی شک میں مبتلا ہو جائے گا ۔

گویند زمرگ سخت تر چیزی نیست                 باور منما کہ ہست ، گویم بہ تو چیست

با مردم بد سر شت محشور شدن                    سخت است ز صد ہزار مرد ن و زیست

یعنی کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز موت سے بڑہ کر اذیت ناک اور تکلیف دہ نہیں ہے مگر اس بات کا یقین نہ کرومیں بتاتا ہو کہ اس سے بہی زیادہ تکلیف دہ چیز کون سی ہے؟ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹہناہزار بار مرنے سے بہی زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار:ج 70ص  307

[2]۔ بحار الانوار:ج 74ص  97 1

۱۲۷

نتیجۂ بحث

خوبیوں کو جذب کرنے کے لئے بزرگ ، نیک و صالح افراد کی صحبت اختیار کرو ۔ اس کے بہت سے مثبت اثرات ہیں ۔ ایسے افراد کی صحبت سے استفادہ کریں اور اپنی روحانی قوت کو مزید قوی بنائیں خد ا اور آل رسول اللہ کی طرف دعوت دینے والی بزرگ شخصیات کی صحبت و مجالست روح کی بالیدگی وبلندی اور معنوی قوت کی افزائش کا باعث ہے ۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے کہ جسے ہم نے مکتب اہل بیت  سے سیکہا ہے ۔ اس بناء پر اس سے غافل نہ رہیں اور بزرگان دین کے محضر میں بیٹہ کر ان کے دستورا ت اور ارشادات اور ان کی رہنمائی سے اپنے قلبی اعتقادات کو محکم بنائیں اور انہیں اپنے دل کی گہرائیوں میں بسالیں ۔

چہوٹی فکر ، شکّاک ، خواہش پرست اور گمراہ افراد کی صحبت سے بچو تا کہ آپ کا اعتقاد ی سر مایہ تاراج نہ ہو جائے اور  شیاطین ، جن و انس کے شر سے محفوظ رہیں ۔ جب آپ افراد سے ہمنشینی و صحبت کی شرائط کی رعایت کریں گے تو آپ عالی مقاصد کی طرف اپنی راہ ہموار کر سکیں گے ۔

با بدان کم نشین کہ صحبت بد     گر چہ پاکی ، تو را پلید کند

آفتابی بہ این بزرگی را            پارہ ای ابر نا پدید کند

یعنی برے لوگوں کی صحبت میں مت بیٹہوان کی بری صحبت تمہاری اچہائیوں پر اثر انداز ہو کر انہیں ختم کر دے گی،جیسا کہ اتنے بڑے سورج کو بادل کا چہوٹاسا ٹکڑا چہپا دیتا ہے۔

۱۲۸

آٹھواں  باب

تجربہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' من عنی عن التجارب عمی عن العواقب ''

جو تجربات سے مستفید ہو وہ کبہی بہی امور کے نتائج پر پشیمان نہیں ہو گا ۔

    روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت

    تجربہ اور سر پرستی وحکومت

    علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ

    تجربہ عقل کی افزائش کا باعث

    تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ

    مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا

    تجربہ سے سبق سیکہیں

    دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں

    دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ

    تجربات فراموش نہ کریں

    نتیجہ ٔ بحث

۱۲۹

روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت

نہ صرف تحصیل علم و دانش اور اعلیٰ علمی مقامات تک پہنچنے اور نہ ہی معنوی و روحی مراتب کے حصول بلکہ ہر قسم کے ہدف تک پہنچنے کے لئے تجربہ کی ضرورت ہے کہ جن تک پہنچنا مشکل ہو ۔

اس بارے میں حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' کلّ معونة تحتاج الی التجارب '' (1)

ہر مشکل امر تجربہ  سے مدد لینے کا محتاج ہے۔

جو انسان بلند مقامات و اہداف تک پہنچنے کی جستجو میں ہو وہ مختلف شخصیات اور ایسے لوگوں کے تجربات سے استفادہ کریں کہ جو اس مقام تک پہنچ چکے ہوں تا کہ جلد اپنے مقصد تک پہنچ سکیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار:ج 7ص8  6

۱۳۰

تجربہ اور  سر پرستی وحکومت

عدالت کے پیکر اور تاریخ کی مظلوم ترین شخصیت امیر المو منین(ع)  سر پرستوں اور حکمرانوں کے تجربہ کو لازمی شرائط میں سے قرار دیتے ہیں  حضرت امیر المومنین (ع) ، حضرت مالک اشتر کو اپنے ولایت نامہ (جس میں تمام ملتوں اور نسلوں میں عدالت کو قائم کرنے کی راہنمائی موجود ہے ) میں یوں فرماتے ہیں :

'' ثمّ انظر فی امور عمّالک فاستعملهم اختباراً ، ولا تولّهم محاباة و اثرة ، فانّهما جماع من شعبٍ الجور والجیانة و توّخ منهم اهل التجربة والحیاء من اهل البیو تات الصالحة  ''(1)

اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر نگاہ رکہنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبردار انہیں تعلقات یا جانبداری کی بناء پر عہدہ نہ دے دینا کیو نکہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہو تی ہیں ان میں بہی مخلص تجربہ کار اور غیر ت مند  اور جوا چہے گہرانے کے افراد تلاش کرنا ۔

اس فرمان میں مولائے کائنات علی   کسی کام میں سر پرستی کے لائق ہونے کے لئے چند امور کو شرط سمجہتے ہیں ۔ وہ غیرت مند و صاحب حیاء ہونے کے علاوہ اس کام میں تجربہ رکہتا ہو کہ جو اسے سونپا جائے تا کہ اپنے تجربہ سے استفادہ کرتے ہو ان کا موں کو اچہے طریقے سے انجام دے اور ان سے  عہد بر آہو سکے اور احسن طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو نبہا سکے حضرت امیر المو منین  نے اپنے فرمان میں افراد کے انتخاقب میں حیا اور تجربہ کو اس لئے شرط قرار دیا ہے کہ کوئی ناخوش گوار و نا شائستہ واقعہ در پیش نہ آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ مکتوبات:۵۳

۱۳۱

علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ

تجربہ نہ صرف مملکتی امور میں بلکہ علم و دانش اور علمی مسائل میں بہی مؤثر نقش رکہتا ہے اسی وجہ سے جابربن حیّان علمی مقامات تک پہنچنے کے لئے تجربہ کو اہم شرط سمجہتے ہیں  ۔ انہوں نے آج کے دور میں رائج لفظ تجربہ کی بجائے ، لفظ تدبیر کو استعمال کیا ان کے نزدیک ایک حقیقی دانش مند کی ا ساسی شرط تدبّر ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ حقیقی اور واقعی دانش مند وہ ہے کہ جو تجربہ سے استفادہ کرے اور جو اس روش کو  استعمال میں نہ لائے اسے دانشمند نہیں سمجہا جا سکتا ۔ ہر علوم و صنا ئع میں تجربہ کی اہمیت کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ جو صنعتگر اپنے کام میں تجربے سے استفادہ کر تا ہے اس کی مہارت میں روز بروز اضافہ ہو تا چلا جاتاہے لیکن جو تجربے کو استعمال میں نہ لائے وہ اسی طرح راکدہی رہتا ہے ۔

۱۳۲

تجربہ عقل کی افزائش کا باعث

تجربہ  سے نہ صرف انسان کی علمی قوت و مہارت کو بڑہ جاتی ہے بلکہ یہ انسان کی عقلی قدرت کو بہی بڑہاتا ہے ۔حضرت امیر المو منین  انسان کے لئے ذا تی و طبیعی عقل کے علاوہ تجربی عقل کو اہم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح طبیعی عقل سے استفادہ کر سکتے ہیں ، اسی طرح تجربی عقل سے بہی بہت سے فوائد لے سکتے ہیں ۔ حضرت امیر المو منین علی  (ع) فرماتے ہیں :

'' العقل  عقلان : عقل الطبع عقل التجربة ، وکلا هما یؤدی الی المنفعة ، وا لمو ثوق به صاحب العقل والدین ''(1)

کی  دو قسمیں  ہیں :

1 : عقل طبیعی

2 : عقل تجربی

عقل کی یہ دونوں قسمیں سود و منفعت کا سبب ہیں اور صاحب عقل و دین پر اعتماد و اطمینان کر نا چاہیئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار:ج 78 ص 6

۱۳۳

اس بناء پر جتنا انسان کا تجربہ بڑہتا جائے اتنا ہی اس کی عقل تجربی بہی بڑہتی ہے عقل و تکامل میں اضافہ کے لئے تجربے سے استفادہ کریں اور تجربہ حاصل کرنے اور حاصل شدہ تجربے کے مطابق عمل   کو انجام دینے کے لئے تکامل عقلی سے استفادہ کریں ۔

گزشتہ روایت کے علاوہ حضرت امام حسین (ع) سے ایک اور  روایت میں نقل  ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' طول التجارب زیادة فی العقل الشّرف و التقویٰ '' (1)

تجر بہ کے زیادہ ہونے سے انسان کی عقل و شرف اور تقویٰ میں بہی اضافہ ہو تا ہے ۔

ان ارشا دات کی بناء پر درک کر تے ہیں کہ اہم امور اورپروگرام کی مسؤلیت اپنے کندہوں پر لینے والاتجربہ کار ہونا چاہیئے تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ عقل ذاتی کے علاوہ عقل تجربی سے بہی استفادہ کرسکے اور اپنی عملی قدرت کو افزائش  دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوا:ج۸۷ ص 8 2 1

۱۳۴

تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ

ایک اور نکتہ کہ جس کی جانب متوجہ رہیں کہ ہماری آج کی دنیا ، دنیا پرستوں ، فریبیوں سے بہری پڑی ہے وہ مختلف انداز سے سادہ لوح افراد کو اپنے جال میں پہانس کر فریب دیتے اور گمراہ کرتے ہیں .لہذا ہمیں اس بارے میں علم  ہونا چاہیئے تا  کہ پہر دوسروں کو بہی اس سے آگاہ کر یں ۔

ان کے فریب سے نجات کی ایک راہ تجربہ ہے ، ہم تجربہ کے ذریعہ ان افراد کو پہچانیں اور اس طرح  ان کے فریب سے امان میں رہیں ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فرماتے ہیں :'' من لم تجرّب الا مور خدع ، و من صارع الحقّ صرع '' (1)

جو امور کے بارے میں تجربہ نہ کرے وہ فریب کہائے گا اور جو حق سے ٹکرائے گا حق اسے پچہاڑدے گا ۔

تجربہ انسان کو ہوشیار کر تا ہے اور انسان کی معلو مات و اطلا عات میں اضا فہ کر تا ہے تجربہ کار انسان نے دنیا دیکہی ہوتی ہے ، لہذا وہ مکار ، فریبی اور گمرا ہ کرنے والوں کے ہاتہوں فریب کہا نے سے محفوظ رہتا ہے ۔

تجربہ کے ذریعے انسان ، راہ اور چاہ میں فرق کر سکتا ہے سعادت صرف اس کی ہے کہ جو صحیح راستہ کو دقیقاً جانتا ہو اور اپنے کو تبا ہی سے بچا سکے شقا وت ایسے افراد کے عمل کا نتیجہ ہے کہ جو تجربات سے نہیں سیکہتے اور اپنے کو دوبارہ گزشتہ مسائل میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1]۔ بحا ر الا نوار:ج 77 ص 22 4

۱۳۵

مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا

حقیقی دوستوں کو سختیوں اور تلخیوں میں پہچان سکتے ہیں اور ان کی صداقت کے میزان کو جان سکتے ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کو در پیش آنے والے مصائب و مشکلات اور اسی طرح امام زمان  کی غیبت حقیقی اور واقعی شیعوں کوپہچا ننے کا اہم ذریعہ ہے کیو نکہ فقط سچے پیروکار ، اپنے رہبر وں کی شدید مشکلات میں بہی حمایت و پیروری کر تے ہیں اور تجربہ و امتحان میں سر فراز ہو تے ہیں ۔

اسی وجہ سے جب حضرت یوسف  زندان سے آزاد ہوئے تو انہوں نے زندان میں لکہا :

'' هذا قبور الاحیاء و بیت الا حزان و تجربة الا صدقاء و شماتة الا عداء ''(1)

زندان ، زندوں کی قبور ، غموں کا گہر ، دوستوں کو آزمانے اور دشمنوں کو سر زنش کرنے کا وسیلہ ہے  ۔

اس بناء پر مشکلات و مصائب جیسے بہی ہوں، ان کے ذریعے انسان دوستوں کو آزما سکتا ہے حقیقی دشمن وہ ہو تے ہیں کہ جنہوں نے دوستی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو لیکن سخت مشکلات میں دوست کو تنہا چہوڑدیں اور دشمن سے بڑہ کر نقصان پہچائیں مشکلات و تکالیف ایسے افراد کو پہچا ننے کا وسیلہ وذریعہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار الا نوار :ج12 ص 4 9 2

۱۳۶

تجربہ سے سبق سیکھیں

ہماری زندگی میں اچہے برے ، تلخ اور شیرین تجربات ہماری زندگی کو بہتری کی جانب لے  جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے مستقبل کے لئے عبرت کے بہترین درس  ہیں تاکہ ہم ان کے ذریعہ گزشتہ  اشتبا ہات کو تکرار نہ کریں اور مستقبل میں مفید برنا موں سے مطلع ہو سکیں ۔ اگر ہم تجربہ سے سبق نہ سیکہیں تو پہر ہم کس بر نامہ سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ؟

حضرت امیر المو منین (ع)  فرما تے ہیں :

'' من لم ینفعه اللّٰه با لبلاء و التجارب لم ینتفع بشی ئٍ من العظة ''(1)

خدا جسے مصائب و مشکلات اور تجر بہ کے ذریعہ نفع نہ پہچائے وہ کسی بہی وعظ و نصیحت سے مستفید نہیں ہو سکتا ۔

اس بناء پر مشکلات ، مصیبتوں اور حاصل ہونے والے تجربے سے بہترین طور پر استفادہ کریں اور اپنے کو بہتر زند گی کے لئے آمادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلا غہ خطبہ: 75 1

۱۳۷

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں

تاریخ بہت سے عظیم واقعات کی شاہد ہے کہ تجر بے کے عنوان سے جن سے درس عبرت لیا جائے ماضی میں لوگوں کی اجتماعی یا انفرادی رفتار و کردار سے بر آمد ہونے والے اچہے یا برے نتائج سے استفادہ کریں کیو نکہ تجربے سے پند و نصیحت اور درس لینا فقط آپ کے انجام دیئے گئے اعمال سے مختص نہیں ہے بلکہ دوسروں کے تجربات سے بہی مستفید ہوسکتے ہیں ۔

کبہی بہت زیادہ مشکلات اور موانع انسان کو ہدف تک پہنچنے سے نا امید و ما یوس کر دیتے ہیں   لیکن دوسروں کے تجربات سے استفادہ کر کے ان مشکلات و موانع کو برطرف طرف کر کے نا امید ی کو امید میں تبدیل کر سکتے ہیں  ۔

یہ ان بزرگ اور عمر رسیدہ افراد کا انداز ہے کہ جو زندگی کے ہر موسم کو دیکہ چکے ہیں ، انہوں نے اپنے دوستوں اور قرابتداروں کو دوسروں کے تجر بات سے استفادہ کرنے کی سفارش کی ہے ۔ ان میں سے ایک عوف بن کنانہ ہے ۔ انہوں نے اپنی وصیت میں کہا ہے :

'' خذوا من اَهل التَّجارب ''(1)

اہل تجربہ سے استفادہ کریں ۔

کیونکہ جو بہی کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہو وہ اس شعبہ میں تجربہ کا ر افراد سے استفادہ کرے اور ان کے تجربہ سے بہرہ مند ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الا نوار:ج 51 ص 2 24

۱۳۸

دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ

تاریخ کے معالعہ اور تاریخ رقم کرنے والوں کے حالات ، معاشرے میں ان کے نفوذ کرنے کی کیفیت اور ان کے سقوط کے علل و اسباب ، خصوصاً بنی اسرائیل کی تاریخ کے تجزیہ و تحلیل اور ان ستمگر فرعونوں کی حکومت کے مطالعے سے ہم اپنی فردی و اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ تجربہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

عظیم لوگوں کی شخصیت اور ان کے حالات زندگی کا تجزیہ و تحلیل ، ان کی شخصیت کوپہچاننے کی بہترین راہ ہے ۔ ہمیں بزرگوں کی معنوی زند گی کا مطالعہ کرنا چاہیئے ان کی رفتار و کردار ہمارے لئے بہترین تجربہ و درس ہے گزشتہ افراد کے شخصی اعمال میں ہمارے لئے تجربہ کا درس ہے اور ان کے اجتماعی کردار میں ہمارے معاشرے کے لئے درس تجربہ ہے ہم بزرگوں کے حالات ، گزشتہ زمانے   میں ان کے فردی و اجتماعی تجربات اور ان کو در پیش آنے والے واقعات کی بر رسی کر کے استفادہ کریں ۔

مثال کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ انبیاء کے ظہور  و غیبت کے علل کی تحلیل اور ان کے ساتہ زمان غیبت میں بعض افراد کے شخصی ارتباط کی برر سی سے ہمارے لئے تجربہ و راہنما ئی ہے کہ جو غٰبت و ظہور امام عصر کے مسئلہ میں ہمارے راہنما ئی کر تا ہے ۔ شخصی اور دوسروں  کے تجربات سے استفادہ کر نا خداکی عظیم نعمتوں میں سے ہے کہ جو تمام افراد کو میسر نہیں ہے مختلف تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج کو فراموش کرنا انسان کی کم سعادتی اور بدنصیبی کی دلیل ہے ۔

۱۳۹

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' انّ الشّقی من حرم نفع ما اوتی من العقل التجربة '' (1)

یقیناً بد خت وہ ہے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے بہی اس کے فوائد سے محروم رہے ۔

جو تجربہ سے استفادہ نہ کرے وہ ایسے مسافر کی مانند ہے کہ جوکسی راہنما کے بغیر بیابان میں گہومتا رہے اور مدتوں رنج و مشقت برداشت کرنے کے بعد اپنی پہلے والی جگہ پر آجائے ۔ ایسے افراد کو مسافرت سے حاصل ہونے والا نتیجہ صرف رنج و مشقت ہے ۔ وہ فوائد و منفعت حاصل کرنے کی بجائے اپنے کو زحمت میں ڈالتا ہے اور اپنی زندگی کو تباہی کی جانب لے جاتا ہے ۔

لہذا عقل کا یہ تقاضا ہے کہ عاقل انسان تجربات سے استفادہ کرے اپنے اور دوسروں کے اچہے ، برے تجربات سے عبرت کا درس لے اور نتیجتاً گزشتہ تجربات آئندہ کے لئے سبق ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: 78

۱۴۰