کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 130%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153289 / ڈاؤنلوڈ: 4717
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

: کہ یہ خط قبلہ ہے رات یہیں ٹہہرو ،میں صبح آؤ ں گا اور انہوں نے مجہے کچہ ذکر تعلیم فرمائے ۔  یہاں تک کہ سات دن اسی طرح گزر گئے دوران سفر نہ تو مجہے کوئی تکلیف ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تہکا وٹ ہوئی ۔

           ساتویں صبح انہوں نے فرمایا : اس پانی میں میری طرح غسل کرو اور احرام باندہ لو اور جس طرح میں لبیک کہوں تم بہی کہو ۔میں نے تمام امور میں اس بزرگوار کی پیروی کی ۔پہر کچہ دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑ کے پاس پہنچے میری سماعتوں سے کچہ آوازیں ٹکڑائیں ۔ میں نے عرض کی ! یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اس پہاڑ پر چڑہنے کے بعد تم ایک شہر کو دیکہو گے ، اس شہر میں داخل ہو جاؤ پہر وہ مجہ سے جدا ہو گئے میں آگے بڑہا اور تنہا پہاڑ سے اتر کر ایک بڑے شہر میں داخل ہو گیا ۔

           وہاں لوگوں   سے پوچہا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟

           انہوں نے کہا : مکہ اور وہ بیت اللہ الحرام ہے  ۔

           اس وقت میں اپنی حالت سے آگاہ ہوا ۔ میں جان گیا کہ میرا بخت بیدار تہا لیکن میں خواب غفلت میں تہا ۔ مجہے بہت افسوس ہو اکہ میں نے اس مدت میں ان بزرگوار کو کیوں نہیں پہچا نا اس وقت پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں تہا پشیمان ہوا اور عقل کو اپنے جہل کی وجہ سے شکوہ کیا۔(۱)

           مر حوم سید عزیز اللہ تہرانی کے اس واقعہ پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حاصل ہونے والی عظیم زیارت معنوی مسائل میں چہوٹی سوچ رکہنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کر نے کی وجہ سے نصیب ہوئی ۔ اگر وہ ان دوستوں کے وسوسوں اور باتوں میں آجاتے تو کبہی بہی اس عظیم زیارت سے مشرف نہ ہوتے ۔ ان کی انجام دی گئی ریاضت و زحمات نے چہوٹی فکر رکہنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کے لئے آمادہ کیا اور اس کو اما م زمان  ارواحنا لہ فداہ کی زیارت اور ان کی ملاقات نصیب ہوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ معجزات  وکرامات آئمہ اطہار علیہم السلام: ۰ ۱۱

۱۲۱

۲ ۔ گمراہوں کی صحبت

جب دین کے دشمنوں سے مبارزہ اور بر سر پیکار ہونے کا امکان نہ ہو تو منفی مبارزہ سے مدد لیں آپ منفی مبارزہ کے ذریعہ دشمنان دین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں انہیں ان کے مذموم مقاصد تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں ان سے بے اعتنائی ، کنارہ کشی اور ان سے صحبت نہ کرنا منفی مبارزہ کی ایک نوع شمار ہوتا ہے ۔ ایسا کرنا اگر ان کی شکست کا وسیلہ نہ ہو تو کم از کم ان کے شرّ سے ایک طرح کی حفاظت ہے ۔

امام صادق(ع) ایک روایت میں فرما تے ہیں :

'' لا تصحبوا اهل البدع ولا تجالسوهم فتصیروا عند النّاس کواحدٍ منهم ، قال رسول اللّٰه ، المرئ علیٰ دین خلیله و قرینه ''(۱)

بدعت گزاروں سے صحبت نہ کرو اور ان کے ساتہ نہ بیٹہو ۔ کیو نکہ ان کی مصاحبت و مجالست سے تم بہی لوگوں کی نظروں میں ان ہی میں سے ایک شمار ہوگے ۔ پہر انہوں نے فرمایا :  رسول اکرم(ص) نے فرمایا : انسان اپنے دوست اور نزدیکی فرد کے دین پر ہو تا ہے  ۔

اس بناء پر ان لوگوں کی صحبت سے پر ہیز کر نا اور ان سے دوری سے انسان بد نامی کے خطرےسے اور تاثیر فکری کے لحاظ سے بہی امان میں ہو تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ اصول کافی :ج۲ ص ۷۵ ۳

۱۲۲

۳ ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

خواہش پرست دوستوں کی ہمنشینی اور ایسے افراد کی کہ جنہیں اصلاً عالم معنی و آخرت سے کوئی سرو کار نہ ہو ، مو من افراد کے دلوں سے ایمان کو نکالنے اور گمرا ہ کرنے والے شیاطین کے حضور کا باعث بنتے ہیں ۔ ہوا و ہوس پرست جو مجلس تشکیل دیتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے ساتہ مل کر بیٹہتے ہیں تو یہ حق و حقیقت کو نابود کرنے کی ایک چال ہوتی ہے ابتداء اسلام سے اہل بیت  کے دشمنوں نے ایسی مجالس اور اجتماعات تشکیل دے کر اپنے شیطانی اور مذموم مقاصد حاصل کئے ۔

کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المومنین (ع) ایسے اجتماعات کو شیاطین کی مجمع گاہ قرار دیتے ہیں اور نہج البلاغہ میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں :

'' مجالسة اهل الهوٰی منسأة للایمان و محضرة للشّیطان''(۱)

خواہش پرستوں کی ہمنشینی ایمان والی ہے اور شیاطین کو ہمیشہ سامنے لانے والی ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) خدا کے بہترین بندوں کی صفات میں سے ایک ہوس پرست لوگوں سے دوری کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' احبّ عباد اللّٰه الیه عبداً...خرج من صفة العمیٰ و مشارکة اهل الهوٰی ''(۲)

خدا کے نزدیک اس کے محبوب ترین بندے وہ ہیں کہ جو کور دلی کو چہوڑ کر ہو ا وہوس پرست لوگوں کے ساتہ شرکت کرنے سے گریز کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ خطبہ: ۸۶

[۲]۔ نہج البلاغہ خطبہ: ۸۶

۱۲۳

اہل فسق و فجور کے ساتہ اٹہنا ، بیٹہنا اور ان کے ساتہ انس نہ صرف عام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے بلکہ کبہی یہ معاشرے کے نیک افراد کے کردار و رفتار پر منفی اثرات مرتب کر تا ہے ۔ ان سے نیک صفات سلب کر کے انہیں معاشرے کے شریر افراد کے ردیف میں قرار دیتا ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' مجالسة الابرار للفجّار تلحق الا برار بالفجّار '' (۱)

نیک افراد کا  اہل فسق و فجور سے ہمنشینی ، انہیں فجار کے ساتہ ملحق کر دیتا ہے۔

دوسری روایت میں فرماتے ہیں :

'' ایّاک و مصاحبة الفسّاق '' (۲)

فساق افراد کی مصاحبت سے پر ہیز کرو  ۔

یہ خاندان عصمت و طہارت  کے فرامین و ارشادات کے کچہ نمونے ہیں کہ جو تمام انسانوں کی ہدایت کا سبب فراہم کر تے ہیں ۔اس بناء پر جو لوگ حقیقت کی جستجو میں ہو اور عالی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں ، وہ ایسے افراد کی دوستی سے گریز کریں کہ جن کا ہدف و مقصد صرف مادیات تک پہنچنا ہو اور جوذکر اللہ اور یاد خدا سے غافل ہوں کیونکہ جن کا مقصد صرف دنیا کی زندگی ہو اور جو آخرت کے بارے میں فکر نہ کرتے ہوں ، وہ دوستی و رفاقت کی صلاحیت نہیں رکہتے ۔ خدا وند تعالیٰ قر آن مجید میں ارشاد فرما تاہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔بحار  الانوار:ج۷۴ص۱۹۷

[۲]۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ ص ۲۸۹

۱۲۴

'' فَأعرض عَن مَن تَوَلّٰی عَن ذکرنَا وَلَم یرد الاَّ الحَیَاةَ اَلدّنیَا '' (۱)

لہذا جو شخص بہی ہمارے ذکر سے منہ پہیرے اور زند گانی دنیا کے علاوہ کچہ نہ چاہے ، آپ بہی  اس سے کنارہ کش ہو جائیں ۔

کیو نکہ اس گروہ کا ہدف صرف مال و دولت اور مادی دنیا سے استفادہ کرنا ہے وہ جتنا مال بہی جمع کر لیں ان کی ہوس میں اضافہ ہو تا رہتا ہے ۔ گویا وہ قارون کے خزانے کی تلاش میں ہیں قرآن اس واقعیت و حقیقت کی یوں تصریح کر تا ہے :

'' قَالَ اَلَّذینَ یریدونَ اَلحَیَاةَ اَلدّنیَا یَا لَیتَ لَنَا مثلَ مَااوتیَ قَارون انّه لَذوحَظٍّ عَظیمٍ''(۲)

جن لوگوں کے دل میں زندگانی دنیا کی خواہش تہی ، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کاش ہمارے پاس بہی یہ ساز و سامان ہو تا ، جو قارون کو دیا گیا ہے ۔ یہ تو بڑے عظیم حصہ کا ملک ہے۔

اگر فرض کریں کہ ایسے افراد کو قارون کا خزانہ بہی مل جائے تویہ پہر بہی بیشتر ثروت و قدرت کی جستجو کریں گے کیا ایسے خواہش پرست لوگوں کی دوستی صحبت انسان کو خدا سے نزدیک کر تی ہے یا فانی دنیا کی طرف لے جا تی ہے ؟

ایسے ا فراد اس ننگی اور تیز تلوار کی طرح ہیں کہ جو انسان کے پیکر وبدن سے اس کی جان کو  نکال دے ، اسی طرح یہ افراد بہی اپنے ہمنشینوں کی اہمیت اور ارزش کو ختم کر دیتے ہیں ۔

حضرت امام جواد(ع)  فرما تے ہیں : '' ایّاک ومصاحبة الشریر فانّه کالسّیف الملول یحسن منظره و یقبح اثره ''(۳)

شریر لوگوں کی صحبت و ہمنشینی سے پر ہیز کرو کیو نکہ وہ اس ننگی تلوار کی مانند ہے کہ جو ظاہراً اچہی ہے ، لیکن اس کا اثر قبیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ نجم آیت: ۹ ۲

[۲]۔ سورہ قصص آیت: ۷۹

[۳]۔ بحار الا نوار :ج۷۸ ص ۶۴ ۳

۱۲۵

با بدان کم نشین کہ بد مانی                      خو پذیر است نفس انسانی

من ندیدم سلامتی زخسان                      گر تو دیدی سلام ما برسان

یعنی برے لوگوں کے ساتہ مت بیٹہو، کیونکہ انسان کا نفس دوسروں کے اثرات کو قبول کرتا  ہے۔ میں نے برے اور کمینہ صفت افراد کے ساتہ بیٹہنے میں کوئی اچہائی اور فائدہ نہیں دیکہا اگر تم نے ایسا کوئی فائدہ دیکہا ہو تو اس تک ہمارا سلام پہنچانا۔

جس طرح اولیاء خدا اور بزرگان کی صحبت انسان کی عقل و فہم کی دلیل ہے ۔ اسی طرح  اشرار کی صحبت اس کے بر عکس ہے ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' لیس من خالط الا شرار بذی معقول '' (۱)

اشرار افراد کی صحبت و ہمنشینی میں بیٹہنے وا لا صاحب عقل اور معقول فرد نہیں ہے۔

کیو نکہ شریر افراد کی ہمنشینی زندگی کی ارزشوں کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کو اولیاء خدا کی نسبت سے بد گمان کر نے کا باعث بنتی ہے ۔

مہذب ، نیک اور صالح افراد کے بار ے میں حسن ظن گمراہ و شریر افراد کی صحبت کی وجہ سے ان افراد کے بار ے میں سو ء ظن میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ اس واقعیت کو حضرت امیر المو منین (ع) یوں بیان فرماتے ہیں :

'' صحبة الا شرار تورث سوء الظنّ با لا خیار '' (۲) شریر افراد کی صحبت ، اہل خیر افراد کے بارے میں سوء ظن کا باعث بنتا ہے ۔

کیو نکہ نہ صرف ان کے پاس تنہا رہنا اور ان سے ملا قات منفی اثرات رکہتی ہے بلکہ ان کی زہر آلود باتیں اور مسموم  افکار بہی گمراہی و ضلالت کا سبب بنتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۹]۔ شرح غررالحکم :ج۵ ص ۸۶

[۱۰]۔ بحار الانوار: ج۷۸ ص ۲

۱۲۶

۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

بہت سے افراد گمراہ  اور کثیر الشک افراد کی ہمنشینی اور دوستی کی وجہ سے واضح مسائل میں بہی مشکل میں دچار ہو جاتے ہیں یہ روایت امام صادق (ع) سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لاتجالس من یشکل علیه الواضح '' (۱) جس کے لئے واضح امر بھی مشکل ہو ، اس سے مجالست و مصاحبت نہ کروایسے افراد میں دین کے بارے میں بہت کم اطلاعات کی وجہ سے شیطانی وسوسے رسوخ کرجاتے ہیں اور وہ اسے اپنے دوستوں اور ہمنشینوں میں القاء کر تے ہیں انکے دوست بھی کمزور اعتقاد کی وجہ سے ایسے شبہات کو قبول کر تے ہیں جس کے نتیجہ میں پاک لیکن سادہ لوح افراد شکاک افراد کی دوستی اور ہمنشینی کی وجہ سے ان ہی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :'' من جالس اهل الریب فهو مریب '' (۲) جو اہل شک کی صحبت میں بیٹھے وہ بھی شک میں مبتلا ہو جائے گا ۔

گویند زمرگ سخت تر چیزی نیست                 باور منما کہ ہست ، گویم بہ تو چیست

با مردم بد سر شت محشور شدن                    سخت است ز صد ہزار مرد ن و زیست

یعنی کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز موت سے بڑہ کر اذیت ناک اور تکلیف دہ نہیں ہے مگر اس بات کا یقین نہ کرومیں بتاتا ہو کہ اس سے بہی زیادہ تکلیف دہ چیز کون سی ہے؟ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹہناہزار بار مرنے سے بہی زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار:ج ۷۰ص  ۳۰۷

[۲]۔ بحار الانوار:ج ۷۴ص  ۹۷ ۱

۱۲۷

نتیجۂ بحث

خوبیوں کو جذب کرنے کے لئے بزرگ ، نیک و صالح افراد کی صحبت اختیار کرو ۔ اس کے بہت سے مثبت اثرات ہیں ۔ ایسے افراد کی صحبت سے استفادہ کریں اور اپنی روحانی قوت کو مزید قوی بنائیں خد ا اور آل رسول اللہ کی طرف دعوت دینے والی بزرگ شخصیات کی صحبت و مجالست روح کی بالیدگی وبلندی اور معنوی قوت کی افزائش کا باعث ہے ۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے کہ جسے ہم نے مکتب اہل بیت  سے سیکہا ہے ۔ اس بناء پر اس سے غافل نہ رہیں اور بزرگان دین کے محضر میں بیٹہ کر ان کے دستورا ت اور ارشادات اور ان کی رہنمائی سے اپنے قلبی اعتقادات کو محکم بنائیں اور انہیں اپنے دل کی گہرائیوں میں بسالیں ۔

چہوٹی فکر ، شکّاک ، خواہش پرست اور گمراہ افراد کی صحبت سے بچو تا کہ آپ کا اعتقاد ی سر مایہ تاراج نہ ہو جائے اور  شیاطین ، جن و انس کے شر سے محفوظ رہیں ۔ جب آپ افراد سے ہمنشینی و صحبت کی شرائط کی رعایت کریں گے تو آپ عالی مقاصد کی طرف اپنی راہ ہموار کر سکیں گے ۔

با بدان کم نشین کہ صحبت بد     گر چہ پاکی ، تو را پلید کند

آفتابی بہ این بزرگی را            پارہ ای ابر نا پدید کند

یعنی برے لوگوں کی صحبت میں مت بیٹہوان کی بری صحبت تمہاری اچہائیوں پر اثر انداز ہو کر انہیں ختم کر دے گی،جیسا کہ اتنے بڑے سورج کو بادل کا چہوٹاسا ٹکڑا چہپا دیتا ہے۔

۱۲۸

آٹھواں  باب

تجربہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' من عنی عن التجارب عمی عن العواقب ''

جو تجربات سے مستفید ہو وہ کبہی بہی امور کے نتائج پر پشیمان نہیں ہو گا ۔

    روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت

    تجربہ اور سر پرستی وحکومت

    علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ

    تجربہ عقل کی افزائش کا باعث

    تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ

    مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا

    تجربہ سے سبق سیکہیں

    دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں

    دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ

    تجربات فراموش نہ کریں

    نتیجہ ٔ بحث

۱۲۹

روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت

نہ صرف تحصیل علم و دانش اور اعلیٰ علمی مقامات تک پہنچنے اور نہ ہی معنوی و روحی مراتب کے حصول بلکہ ہر قسم کے ہدف تک پہنچنے کے لئے تجربہ کی ضرورت ہے کہ جن تک پہنچنا مشکل ہو ۔

اس بارے میں حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' کلّ معونة تحتاج الی التجارب '' (۱)

ہر مشکل امر تجربہ  سے مدد لینے کا محتاج ہے۔

جو انسان بلند مقامات و اہداف تک پہنچنے کی جستجو میں ہو وہ مختلف شخصیات اور ایسے لوگوں کے تجربات سے استفادہ کریں کہ جو اس مقام تک پہنچ چکے ہوں تا کہ جلد اپنے مقصد تک پہنچ سکیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار:ج ۷ص۸  ۶

۱۳۰

تجربہ اور  سر پرستی وحکومت

عدالت کے پیکر اور تاریخ کی مظلوم ترین شخصیت امیر المو منین(ع)  سر پرستوں اور حکمرانوں کے تجربہ کو لازمی شرائط میں سے قرار دیتے ہیں  حضرت امیر المومنین (ع) ، حضرت مالک اشتر کو اپنے ولایت نامہ (جس میں تمام ملتوں اور نسلوں میں عدالت کو قائم کرنے کی راہنمائی موجود ہے ) میں یوں فرماتے ہیں :

'' ثمّ انظر فی امور عمّالک فاستعملهم اختباراً ، ولا تولّهم محاباة و اثرة ، فانّهما جماع من شعبٍ الجور والجیانة و توّخ منهم اهل التجربة والحیاء من اهل البیو تات الصالحة  ''(۱)

اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر نگاہ رکہنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبردار انہیں تعلقات یا جانبداری کی بناء پر عہدہ نہ دے دینا کیو نکہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہو تی ہیں ان میں بہی مخلص تجربہ کار اور غیر ت مند  اور جوا چہے گہرانے کے افراد تلاش کرنا ۔

اس فرمان میں مولائے کائنات علی   کسی کام میں سر پرستی کے لائق ہونے کے لئے چند امور کو شرط سمجہتے ہیں ۔ وہ غیرت مند و صاحب حیاء ہونے کے علاوہ اس کام میں تجربہ رکہتا ہو کہ جو اسے سونپا جائے تا کہ اپنے تجربہ سے استفادہ کرتے ہو ان کا موں کو اچہے طریقے سے انجام دے اور ان سے  عہد بر آہو سکے اور احسن طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو نبہا سکے حضرت امیر المو منین  نے اپنے فرمان میں افراد کے انتخاقب میں حیا اور تجربہ کو اس لئے شرط قرار دیا ہے کہ کوئی ناخوش گوار و نا شائستہ واقعہ در پیش نہ آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلاغہ مکتوبات:۵۳

۱۳۱

علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ

تجربہ نہ صرف مملکتی امور میں بلکہ علم و دانش اور علمی مسائل میں بہی مؤثر نقش رکہتا ہے اسی وجہ سے جابربن حیّان علمی مقامات تک پہنچنے کے لئے تجربہ کو اہم شرط سمجہتے ہیں  ۔ انہوں نے آج کے دور میں رائج لفظ تجربہ کی بجائے ، لفظ تدبیر کو استعمال کیا ان کے نزدیک ایک حقیقی دانش مند کی ا ساسی شرط تدبّر ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ حقیقی اور واقعی دانش مند وہ ہے کہ جو تجربہ سے استفادہ کرے اور جو اس روش کو  استعمال میں نہ لائے اسے دانشمند نہیں سمجہا جا سکتا ۔ ہر علوم و صنا ئع میں تجربہ کی اہمیت کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ جو صنعتگر اپنے کام میں تجربے سے استفادہ کر تا ہے اس کی مہارت میں روز بروز اضافہ ہو تا چلا جاتاہے لیکن جو تجربے کو استعمال میں نہ لائے وہ اسی طرح راکدہی رہتا ہے ۔

۱۳۲

تجربہ عقل کی افزائش کا باعث

تجربہ  سے نہ صرف انسان کی علمی قوت و مہارت کو بڑہ جاتی ہے بلکہ یہ انسان کی عقلی قدرت کو بہی بڑہاتا ہے ۔حضرت امیر المو منین  انسان کے لئے ذا تی و طبیعی عقل کے علاوہ تجربی عقل کو اہم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح طبیعی عقل سے استفادہ کر سکتے ہیں ، اسی طرح تجربی عقل سے بہی بہت سے فوائد لے سکتے ہیں ۔ حضرت امیر المو منین علی  (ع) فرماتے ہیں :

'' العقل  عقلان : عقل الطبع عقل التجربة ، وکلا هما یؤدی الی المنفعة ، وا لمو ثوق به صاحب العقل والدین ''(۱)

کی  دو قسمیں  ہیں :

۱ : عقل طبیعی

۲ : عقل تجربی

عقل کی یہ دونوں قسمیں سود و منفعت کا سبب ہیں اور صاحب عقل و دین پر اعتماد و اطمینان کر نا چاہیئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار:ج ۷۸ ص ۶

۱۳۳

اس بناء پر جتنا انسان کا تجربہ بڑہتا جائے اتنا ہی اس کی عقل تجربی بہی بڑہتی ہے عقل و تکامل میں اضافہ کے لئے تجربے سے استفادہ کریں اور تجربہ حاصل کرنے اور حاصل شدہ تجربے کے مطابق عمل   کو انجام دینے کے لئے تکامل عقلی سے استفادہ کریں ۔

گزشتہ روایت کے علاوہ حضرت امام حسین (ع) سے ایک اور  روایت میں نقل  ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' طول التجارب زیادة فی العقل الشّرف و التقویٰ '' (۱)

تجر بہ کے زیادہ ہونے سے انسان کی عقل و شرف اور تقویٰ میں بہی اضافہ ہو تا ہے ۔

ان ارشا دات کی بناء پر درک کر تے ہیں کہ اہم امور اورپروگرام کی مسؤلیت اپنے کندہوں پر لینے والاتجربہ کار ہونا چاہیئے تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ عقل ذاتی کے علاوہ عقل تجربی سے بہی استفادہ کرسکے اور اپنی عملی قدرت کو افزائش  دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوا:ج۸۷ ص ۸ ۲ ۱

۱۳۴

تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ

ایک اور نکتہ کہ جس کی جانب متوجہ رہیں کہ ہماری آج کی دنیا ، دنیا پرستوں ، فریبیوں سے بہری پڑی ہے وہ مختلف انداز سے سادہ لوح افراد کو اپنے جال میں پہانس کر فریب دیتے اور گمراہ کرتے ہیں .لہذا ہمیں اس بارے میں علم  ہونا چاہیئے تا  کہ پہر دوسروں کو بہی اس سے آگاہ کر یں ۔

ان کے فریب سے نجات کی ایک راہ تجربہ ہے ، ہم تجربہ کے ذریعہ ان افراد کو پہچانیں اور اس طرح  ان کے فریب سے امان میں رہیں ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فرماتے ہیں :'' من لم تجرّب الا مور خدع ، و من صارع الحقّ صرع '' (۱)

جو امور کے بارے میں تجربہ نہ کرے وہ فریب کہائے گا اور جو حق سے ٹکرائے گا حق اسے پچہاڑدے گا ۔

تجربہ انسان کو ہوشیار کر تا ہے اور انسان کی معلو مات و اطلا عات میں اضا فہ کر تا ہے تجربہ کار انسان نے دنیا دیکہی ہوتی ہے ، لہذا وہ مکار ، فریبی اور گمرا ہ کرنے والوں کے ہاتہوں فریب کہا نے سے محفوظ رہتا ہے ۔

تجربہ کے ذریعے انسان ، راہ اور چاہ میں فرق کر سکتا ہے سعادت صرف اس کی ہے کہ جو صحیح راستہ کو دقیقاً جانتا ہو اور اپنے کو تبا ہی سے بچا سکے شقا وت ایسے افراد کے عمل کا نتیجہ ہے کہ جو تجربات سے نہیں سیکہتے اور اپنے کو دوبارہ گزشتہ مسائل میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ بحا ر الا نوار:ج ۷۷ ص ۲۲ ۴

۱۳۵

مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا

حقیقی دوستوں کو سختیوں اور تلخیوں میں پہچان سکتے ہیں اور ان کی صداقت کے میزان کو جان سکتے ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کو در پیش آنے والے مصائب و مشکلات اور اسی طرح امام زمان  کی غیبت حقیقی اور واقعی شیعوں کوپہچا ننے کا اہم ذریعہ ہے کیو نکہ فقط سچے پیروکار ، اپنے رہبر وں کی شدید مشکلات میں بہی حمایت و پیروری کر تے ہیں اور تجربہ و امتحان میں سر فراز ہو تے ہیں ۔

اسی وجہ سے جب حضرت یوسف  زندان سے آزاد ہوئے تو انہوں نے زندان میں لکہا :

'' هذا قبور الاحیاء و بیت الا حزان و تجربة الا صدقاء و شماتة الا عداء ''(۱)

زندان ، زندوں کی قبور ، غموں کا گہر ، دوستوں کو آزمانے اور دشمنوں کو سر زنش کرنے کا وسیلہ ہے  ۔

اس بناء پر مشکلات و مصائب جیسے بہی ہوں، ان کے ذریعے انسان دوستوں کو آزما سکتا ہے حقیقی دشمن وہ ہو تے ہیں کہ جنہوں نے دوستی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو لیکن سخت مشکلات میں دوست کو تنہا چہوڑدیں اور دشمن سے بڑہ کر نقصان پہچائیں مشکلات و تکالیف ایسے افراد کو پہچا ننے کا وسیلہ وذریعہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار :ج۱۲ ص ۴ ۹ ۲

۱۳۶

تجربہ سے سبق سیکھیں

ہماری زندگی میں اچہے برے ، تلخ اور شیرین تجربات ہماری زندگی کو بہتری کی جانب لے  جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے مستقبل کے لئے عبرت کے بہترین درس  ہیں تاکہ ہم ان کے ذریعہ گزشتہ  اشتبا ہات کو تکرار نہ کریں اور مستقبل میں مفید برنا موں سے مطلع ہو سکیں ۔ اگر ہم تجربہ سے سبق نہ سیکہیں تو پہر ہم کس بر نامہ سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ؟

حضرت امیر المو منین (ع)  فرما تے ہیں :

'' من لم ینفعه اللّٰه با لبلاء و التجارب لم ینتفع بشی ئٍ من العظة ''(۱)

خدا جسے مصائب و مشکلات اور تجر بہ کے ذریعہ نفع نہ پہچائے وہ کسی بہی وعظ و نصیحت سے مستفید نہیں ہو سکتا ۔

اس بناء پر مشکلات ، مصیبتوں اور حاصل ہونے والے تجربے سے بہترین طور پر استفادہ کریں اور اپنے کو بہتر زند گی کے لئے آمادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلا غہ خطبہ: ۷۵ ۱

۱۳۷

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں

تاریخ بہت سے عظیم واقعات کی شاہد ہے کہ تجر بے کے عنوان سے جن سے درس عبرت لیا جائے ماضی میں لوگوں کی اجتماعی یا انفرادی رفتار و کردار سے بر آمد ہونے والے اچہے یا برے نتائج سے استفادہ کریں کیو نکہ تجربے سے پند و نصیحت اور درس لینا فقط آپ کے انجام دیئے گئے اعمال سے مختص نہیں ہے بلکہ دوسروں کے تجربات سے بہی مستفید ہوسکتے ہیں ۔

کبہی بہت زیادہ مشکلات اور موانع انسان کو ہدف تک پہنچنے سے نا امید و ما یوس کر دیتے ہیں   لیکن دوسروں کے تجربات سے استفادہ کر کے ان مشکلات و موانع کو برطرف طرف کر کے نا امید ی کو امید میں تبدیل کر سکتے ہیں  ۔

یہ ان بزرگ اور عمر رسیدہ افراد کا انداز ہے کہ جو زندگی کے ہر موسم کو دیکہ چکے ہیں ، انہوں نے اپنے دوستوں اور قرابتداروں کو دوسروں کے تجر بات سے استفادہ کرنے کی سفارش کی ہے ۔ ان میں سے ایک عوف بن کنانہ ہے ۔ انہوں نے اپنی وصیت میں کہا ہے :

'' خذوا من اَهل التَّجارب ''(۱)

اہل تجربہ سے استفادہ کریں ۔

کیونکہ جو بہی کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہو وہ اس شعبہ میں تجربہ کا ر افراد سے استفادہ کرے اور ان کے تجربہ سے بہرہ مند ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج ۵۱ ص ۲ ۲۴

۱۳۸

دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ

تاریخ کے معالعہ اور تاریخ رقم کرنے والوں کے حالات ، معاشرے میں ان کے نفوذ کرنے کی کیفیت اور ان کے سقوط کے علل و اسباب ، خصوصاً بنی اسرائیل کی تاریخ کے تجزیہ و تحلیل اور ان ستمگر فرعونوں کی حکومت کے مطالعے سے ہم اپنی فردی و اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ تجربہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

عظیم لوگوں کی شخصیت اور ان کے حالات زندگی کا تجزیہ و تحلیل ، ان کی شخصیت کوپہچاننے کی بہترین راہ ہے ۔ ہمیں بزرگوں کی معنوی زند گی کا مطالعہ کرنا چاہیئے ان کی رفتار و کردار ہمارے لئے بہترین تجربہ و درس ہے گزشتہ افراد کے شخصی اعمال میں ہمارے لئے تجربہ کا درس ہے اور ان کے اجتماعی کردار میں ہمارے معاشرے کے لئے درس تجربہ ہے ہم بزرگوں کے حالات ، گزشتہ زمانے   میں ان کے فردی و اجتماعی تجربات اور ان کو در پیش آنے والے واقعات کی بر رسی کر کے استفادہ کریں ۔

مثال کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ انبیاء کے ظہور  و غیبت کے علل کی تحلیل اور ان کے ساتہ زمان غیبت میں بعض افراد کے شخصی ارتباط کی برر سی سے ہمارے لئے تجربہ و راہنما ئی ہے کہ جو غٰبت و ظہور امام عصر کے مسئلہ میں ہمارے راہنما ئی کر تا ہے ۔ شخصی اور دوسروں  کے تجربات سے استفادہ کر نا خداکی عظیم نعمتوں میں سے ہے کہ جو تمام افراد کو میسر نہیں ہے مختلف تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج کو فراموش کرنا انسان کی کم سعادتی اور بدنصیبی کی دلیل ہے ۔

۱۳۹

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' انّ الشّقی من حرم نفع ما اوتی من العقل التجربة '' (۱)

یقیناً بد خت وہ ہے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے بہی اس کے فوائد سے محروم رہے ۔

جو تجربہ سے استفادہ نہ کرے وہ ایسے مسافر کی مانند ہے کہ جوکسی راہنما کے بغیر بیابان میں گہومتا رہے اور مدتوں رنج و مشقت برداشت کرنے کے بعد اپنی پہلے والی جگہ پر آجائے ۔ ایسے افراد کو مسافرت سے حاصل ہونے والا نتیجہ صرف رنج و مشقت ہے ۔ وہ فوائد و منفعت حاصل کرنے کی بجائے اپنے کو زحمت میں ڈالتا ہے اور اپنی زندگی کو تباہی کی جانب لے جاتا ہے ۔

لہذا عقل کا یہ تقاضا ہے کہ عاقل انسان تجربات سے استفادہ کرے اپنے اور دوسروں کے اچہے ، برے تجربات سے عبرت کا درس لے اور نتیجتاً گزشتہ تجربات آئندہ کے لئے سبق ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ۷۸

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259