کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 130%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153253 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

: کہ یہ خط قبلہ ہے رات یہیں ٹہہرو ،میں صبح آؤ ں گا اور انہوں نے مجہے کچہ ذکر تعلیم فرمائے ۔  یہاں تک کہ سات دن اسی طرح گزر گئے دوران سفر نہ تو مجہے کوئی تکلیف ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تہکا وٹ ہوئی ۔

           ساتویں صبح انہوں نے فرمایا : اس پانی میں میری طرح غسل کرو اور احرام باندہ لو اور جس طرح میں لبیک کہوں تم بہی کہو ۔میں نے تمام امور میں اس بزرگوار کی پیروی کی ۔پہر کچہ دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑ کے پاس پہنچے میری سماعتوں سے کچہ آوازیں ٹکڑائیں ۔ میں نے عرض کی ! یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اس پہاڑ پر چڑہنے کے بعد تم ایک شہر کو دیکہو گے ، اس شہر میں داخل ہو جاؤ پہر وہ مجہ سے جدا ہو گئے میں آگے بڑہا اور تنہا پہاڑ سے اتر کر ایک بڑے شہر میں داخل ہو گیا ۔

           وہاں لوگوں   سے پوچہا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟

           انہوں نے کہا : مکہ اور وہ بیت اللہ الحرام ہے  ۔

           اس وقت میں اپنی حالت سے آگاہ ہوا ۔ میں جان گیا کہ میرا بخت بیدار تہا لیکن میں خواب غفلت میں تہا ۔ مجہے بہت افسوس ہو اکہ میں نے اس مدت میں ان بزرگوار کو کیوں نہیں پہچا نا اس وقت پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں تہا پشیمان ہوا اور عقل کو اپنے جہل کی وجہ سے شکوہ کیا۔(۱)

           مر حوم سید عزیز اللہ تہرانی کے اس واقعہ پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حاصل ہونے والی عظیم زیارت معنوی مسائل میں چہوٹی سوچ رکہنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کر نے کی وجہ سے نصیب ہوئی ۔ اگر وہ ان دوستوں کے وسوسوں اور باتوں میں آجاتے تو کبہی بہی اس عظیم زیارت سے مشرف نہ ہوتے ۔ ان کی انجام دی گئی ریاضت و زحمات نے چہوٹی فکر رکہنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کے لئے آمادہ کیا اور اس کو اما م زمان  ارواحنا لہ فداہ کی زیارت اور ان کی ملاقات نصیب ہوئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ معجزات  وکرامات آئمہ اطہار علیہم السلام: ۰ ۱۱

۱۲۱

۲ ۔ گمراہوں کی صحبت

جب دین کے دشمنوں سے مبارزہ اور بر سر پیکار ہونے کا امکان نہ ہو تو منفی مبارزہ سے مدد لیں آپ منفی مبارزہ کے ذریعہ دشمنان دین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں انہیں ان کے مذموم مقاصد تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں ان سے بے اعتنائی ، کنارہ کشی اور ان سے صحبت نہ کرنا منفی مبارزہ کی ایک نوع شمار ہوتا ہے ۔ ایسا کرنا اگر ان کی شکست کا وسیلہ نہ ہو تو کم از کم ان کے شرّ سے ایک طرح کی حفاظت ہے ۔

امام صادق(ع) ایک روایت میں فرما تے ہیں :

'' لا تصحبوا اهل البدع ولا تجالسوهم فتصیروا عند النّاس کواحدٍ منهم ، قال رسول اللّٰه ، المرئ علیٰ دین خلیله و قرینه ''(۱)

بدعت گزاروں سے صحبت نہ کرو اور ان کے ساتہ نہ بیٹہو ۔ کیو نکہ ان کی مصاحبت و مجالست سے تم بہی لوگوں کی نظروں میں ان ہی میں سے ایک شمار ہوگے ۔ پہر انہوں نے فرمایا :  رسول اکرم(ص) نے فرمایا : انسان اپنے دوست اور نزدیکی فرد کے دین پر ہو تا ہے  ۔

اس بناء پر ان لوگوں کی صحبت سے پر ہیز کر نا اور ان سے دوری سے انسان بد نامی کے خطرےسے اور تاثیر فکری کے لحاظ سے بہی امان میں ہو تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ اصول کافی :ج۲ ص ۷۵ ۳

۱۲۲

۳ ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

خواہش پرست دوستوں کی ہمنشینی اور ایسے افراد کی کہ جنہیں اصلاً عالم معنی و آخرت سے کوئی سرو کار نہ ہو ، مو من افراد کے دلوں سے ایمان کو نکالنے اور گمرا ہ کرنے والے شیاطین کے حضور کا باعث بنتے ہیں ۔ ہوا و ہوس پرست جو مجلس تشکیل دیتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے ساتہ مل کر بیٹہتے ہیں تو یہ حق و حقیقت کو نابود کرنے کی ایک چال ہوتی ہے ابتداء اسلام سے اہل بیت  کے دشمنوں نے ایسی مجالس اور اجتماعات تشکیل دے کر اپنے شیطانی اور مذموم مقاصد حاصل کئے ۔

کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المومنین (ع) ایسے اجتماعات کو شیاطین کی مجمع گاہ قرار دیتے ہیں اور نہج البلاغہ میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں :

'' مجالسة اهل الهوٰی منسأة للایمان و محضرة للشّیطان''(۱)

خواہش پرستوں کی ہمنشینی ایمان والی ہے اور شیاطین کو ہمیشہ سامنے لانے والی ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) خدا کے بہترین بندوں کی صفات میں سے ایک ہوس پرست لوگوں سے دوری کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' احبّ عباد اللّٰه الیه عبداً...خرج من صفة العمیٰ و مشارکة اهل الهوٰی ''(۲)

خدا کے نزدیک اس کے محبوب ترین بندے وہ ہیں کہ جو کور دلی کو چہوڑ کر ہو ا وہوس پرست لوگوں کے ساتہ شرکت کرنے سے گریز کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ خطبہ: ۸۶

[۲]۔ نہج البلاغہ خطبہ: ۸۶

۱۲۳

اہل فسق و فجور کے ساتہ اٹہنا ، بیٹہنا اور ان کے ساتہ انس نہ صرف عام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے بلکہ کبہی یہ معاشرے کے نیک افراد کے کردار و رفتار پر منفی اثرات مرتب کر تا ہے ۔ ان سے نیک صفات سلب کر کے انہیں معاشرے کے شریر افراد کے ردیف میں قرار دیتا ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' مجالسة الابرار للفجّار تلحق الا برار بالفجّار '' (۱)

نیک افراد کا  اہل فسق و فجور سے ہمنشینی ، انہیں فجار کے ساتہ ملحق کر دیتا ہے۔

دوسری روایت میں فرماتے ہیں :

'' ایّاک و مصاحبة الفسّاق '' (۲)

فساق افراد کی مصاحبت سے پر ہیز کرو  ۔

یہ خاندان عصمت و طہارت  کے فرامین و ارشادات کے کچہ نمونے ہیں کہ جو تمام انسانوں کی ہدایت کا سبب فراہم کر تے ہیں ۔اس بناء پر جو لوگ حقیقت کی جستجو میں ہو اور عالی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں ، وہ ایسے افراد کی دوستی سے گریز کریں کہ جن کا ہدف و مقصد صرف مادیات تک پہنچنا ہو اور جوذکر اللہ اور یاد خدا سے غافل ہوں کیونکہ جن کا مقصد صرف دنیا کی زندگی ہو اور جو آخرت کے بارے میں فکر نہ کرتے ہوں ، وہ دوستی و رفاقت کی صلاحیت نہیں رکہتے ۔ خدا وند تعالیٰ قر آن مجید میں ارشاد فرما تاہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔بحار  الانوار:ج۷۴ص۱۹۷

[۲]۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ ص ۲۸۹

۱۲۴

'' فَأعرض عَن مَن تَوَلّٰی عَن ذکرنَا وَلَم یرد الاَّ الحَیَاةَ اَلدّنیَا '' (۱)

لہذا جو شخص بہی ہمارے ذکر سے منہ پہیرے اور زند گانی دنیا کے علاوہ کچہ نہ چاہے ، آپ بہی  اس سے کنارہ کش ہو جائیں ۔

کیو نکہ اس گروہ کا ہدف صرف مال و دولت اور مادی دنیا سے استفادہ کرنا ہے وہ جتنا مال بہی جمع کر لیں ان کی ہوس میں اضافہ ہو تا رہتا ہے ۔ گویا وہ قارون کے خزانے کی تلاش میں ہیں قرآن اس واقعیت و حقیقت کی یوں تصریح کر تا ہے :

'' قَالَ اَلَّذینَ یریدونَ اَلحَیَاةَ اَلدّنیَا یَا لَیتَ لَنَا مثلَ مَااوتیَ قَارون انّه لَذوحَظٍّ عَظیمٍ''(۲)

جن لوگوں کے دل میں زندگانی دنیا کی خواہش تہی ، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کاش ہمارے پاس بہی یہ ساز و سامان ہو تا ، جو قارون کو دیا گیا ہے ۔ یہ تو بڑے عظیم حصہ کا ملک ہے۔

اگر فرض کریں کہ ایسے افراد کو قارون کا خزانہ بہی مل جائے تویہ پہر بہی بیشتر ثروت و قدرت کی جستجو کریں گے کیا ایسے خواہش پرست لوگوں کی دوستی صحبت انسان کو خدا سے نزدیک کر تی ہے یا فانی دنیا کی طرف لے جا تی ہے ؟

ایسے ا فراد اس ننگی اور تیز تلوار کی طرح ہیں کہ جو انسان کے پیکر وبدن سے اس کی جان کو  نکال دے ، اسی طرح یہ افراد بہی اپنے ہمنشینوں کی اہمیت اور ارزش کو ختم کر دیتے ہیں ۔

حضرت امام جواد(ع)  فرما تے ہیں : '' ایّاک ومصاحبة الشریر فانّه کالسّیف الملول یحسن منظره و یقبح اثره ''(۳)

شریر لوگوں کی صحبت و ہمنشینی سے پر ہیز کرو کیو نکہ وہ اس ننگی تلوار کی مانند ہے کہ جو ظاہراً اچہی ہے ، لیکن اس کا اثر قبیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ نجم آیت: ۹ ۲

[۲]۔ سورہ قصص آیت: ۷۹

[۳]۔ بحار الا نوار :ج۷۸ ص ۶۴ ۳

۱۲۵

با بدان کم نشین کہ بد مانی                      خو پذیر است نفس انسانی

من ندیدم سلامتی زخسان                      گر تو دیدی سلام ما برسان

یعنی برے لوگوں کے ساتہ مت بیٹہو، کیونکہ انسان کا نفس دوسروں کے اثرات کو قبول کرتا  ہے۔ میں نے برے اور کمینہ صفت افراد کے ساتہ بیٹہنے میں کوئی اچہائی اور فائدہ نہیں دیکہا اگر تم نے ایسا کوئی فائدہ دیکہا ہو تو اس تک ہمارا سلام پہنچانا۔

جس طرح اولیاء خدا اور بزرگان کی صحبت انسان کی عقل و فہم کی دلیل ہے ۔ اسی طرح  اشرار کی صحبت اس کے بر عکس ہے ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' لیس من خالط الا شرار بذی معقول '' (۱)

اشرار افراد کی صحبت و ہمنشینی میں بیٹہنے وا لا صاحب عقل اور معقول فرد نہیں ہے۔

کیو نکہ شریر افراد کی ہمنشینی زندگی کی ارزشوں کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کو اولیاء خدا کی نسبت سے بد گمان کر نے کا باعث بنتی ہے ۔

مہذب ، نیک اور صالح افراد کے بار ے میں حسن ظن گمراہ و شریر افراد کی صحبت کی وجہ سے ان افراد کے بار ے میں سو ء ظن میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ اس واقعیت کو حضرت امیر المو منین (ع) یوں بیان فرماتے ہیں :

'' صحبة الا شرار تورث سوء الظنّ با لا خیار '' (۲) شریر افراد کی صحبت ، اہل خیر افراد کے بارے میں سوء ظن کا باعث بنتا ہے ۔

کیو نکہ نہ صرف ان کے پاس تنہا رہنا اور ان سے ملا قات منفی اثرات رکہتی ہے بلکہ ان کی زہر آلود باتیں اور مسموم  افکار بہی گمراہی و ضلالت کا سبب بنتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۹]۔ شرح غررالحکم :ج۵ ص ۸۶

[۱۰]۔ بحار الانوار: ج۷۸ ص ۲

۱۲۶

۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت

بہت سے افراد گمراہ  اور کثیر الشک افراد کی ہمنشینی اور دوستی کی وجہ سے واضح مسائل میں بہی مشکل میں دچار ہو جاتے ہیں یہ روایت امام صادق (ع) سے منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لاتجالس من یشکل علیه الواضح '' (۱) جس کے لئے واضح امر بھی مشکل ہو ، اس سے مجالست و مصاحبت نہ کروایسے افراد میں دین کے بارے میں بہت کم اطلاعات کی وجہ سے شیطانی وسوسے رسوخ کرجاتے ہیں اور وہ اسے اپنے دوستوں اور ہمنشینوں میں القاء کر تے ہیں انکے دوست بھی کمزور اعتقاد کی وجہ سے ایسے شبہات کو قبول کر تے ہیں جس کے نتیجہ میں پاک لیکن سادہ لوح افراد شکاک افراد کی دوستی اور ہمنشینی کی وجہ سے ان ہی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ۔

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :'' من جالس اهل الریب فهو مریب '' (۲) جو اہل شک کی صحبت میں بیٹھے وہ بھی شک میں مبتلا ہو جائے گا ۔

گویند زمرگ سخت تر چیزی نیست                 باور منما کہ ہست ، گویم بہ تو چیست

با مردم بد سر شت محشور شدن                    سخت است ز صد ہزار مرد ن و زیست

یعنی کہا جاتا ہے کہ کوئی چیز موت سے بڑہ کر اذیت ناک اور تکلیف دہ نہیں ہے مگر اس بات کا یقین نہ کرومیں بتاتا ہو کہ اس سے بہی زیادہ تکلیف دہ چیز کون سی ہے؟ برے لوگوں کی صحبت میں بیٹہناہزار بار مرنے سے بہی زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار:ج ۷۰ص  ۳۰۷

[۲]۔ بحار الانوار:ج ۷۴ص  ۹۷ ۱

۱۲۷

نتیجۂ بحث

خوبیوں کو جذب کرنے کے لئے بزرگ ، نیک و صالح افراد کی صحبت اختیار کرو ۔ اس کے بہت سے مثبت اثرات ہیں ۔ ایسے افراد کی صحبت سے استفادہ کریں اور اپنی روحانی قوت کو مزید قوی بنائیں خد ا اور آل رسول اللہ کی طرف دعوت دینے والی بزرگ شخصیات کی صحبت و مجالست روح کی بالیدگی وبلندی اور معنوی قوت کی افزائش کا باعث ہے ۔ یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے کہ جسے ہم نے مکتب اہل بیت  سے سیکہا ہے ۔ اس بناء پر اس سے غافل نہ رہیں اور بزرگان دین کے محضر میں بیٹہ کر ان کے دستورا ت اور ارشادات اور ان کی رہنمائی سے اپنے قلبی اعتقادات کو محکم بنائیں اور انہیں اپنے دل کی گہرائیوں میں بسالیں ۔

چہوٹی فکر ، شکّاک ، خواہش پرست اور گمراہ افراد کی صحبت سے بچو تا کہ آپ کا اعتقاد ی سر مایہ تاراج نہ ہو جائے اور  شیاطین ، جن و انس کے شر سے محفوظ رہیں ۔ جب آپ افراد سے ہمنشینی و صحبت کی شرائط کی رعایت کریں گے تو آپ عالی مقاصد کی طرف اپنی راہ ہموار کر سکیں گے ۔

با بدان کم نشین کہ صحبت بد     گر چہ پاکی ، تو را پلید کند

آفتابی بہ این بزرگی را            پارہ ای ابر نا پدید کند

یعنی برے لوگوں کی صحبت میں مت بیٹہوان کی بری صحبت تمہاری اچہائیوں پر اثر انداز ہو کر انہیں ختم کر دے گی،جیسا کہ اتنے بڑے سورج کو بادل کا چہوٹاسا ٹکڑا چہپا دیتا ہے۔

۱۲۸

آٹھواں  باب

تجربہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' من عنی عن التجارب عمی عن العواقب ''

جو تجربات سے مستفید ہو وہ کبہی بہی امور کے نتائج پر پشیمان نہیں ہو گا ۔

    روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت

    تجربہ اور سر پرستی وحکومت

    علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ

    تجربہ عقل کی افزائش کا باعث

    تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ

    مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا

    تجربہ سے سبق سیکہیں

    دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں

    دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ

    تجربات فراموش نہ کریں

    نتیجہ ٔ بحث

۱۲۹

روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت

نہ صرف تحصیل علم و دانش اور اعلیٰ علمی مقامات تک پہنچنے اور نہ ہی معنوی و روحی مراتب کے حصول بلکہ ہر قسم کے ہدف تک پہنچنے کے لئے تجربہ کی ضرورت ہے کہ جن تک پہنچنا مشکل ہو ۔

اس بارے میں حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' کلّ معونة تحتاج الی التجارب '' (۱)

ہر مشکل امر تجربہ  سے مدد لینے کا محتاج ہے۔

جو انسان بلند مقامات و اہداف تک پہنچنے کی جستجو میں ہو وہ مختلف شخصیات اور ایسے لوگوں کے تجربات سے استفادہ کریں کہ جو اس مقام تک پہنچ چکے ہوں تا کہ جلد اپنے مقصد تک پہنچ سکیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار:ج ۷ص۸  ۶

۱۳۰

تجربہ اور  سر پرستی وحکومت

عدالت کے پیکر اور تاریخ کی مظلوم ترین شخصیت امیر المو منین(ع)  سر پرستوں اور حکمرانوں کے تجربہ کو لازمی شرائط میں سے قرار دیتے ہیں  حضرت امیر المومنین (ع) ، حضرت مالک اشتر کو اپنے ولایت نامہ (جس میں تمام ملتوں اور نسلوں میں عدالت کو قائم کرنے کی راہنمائی موجود ہے ) میں یوں فرماتے ہیں :

'' ثمّ انظر فی امور عمّالک فاستعملهم اختباراً ، ولا تولّهم محاباة و اثرة ، فانّهما جماع من شعبٍ الجور والجیانة و توّخ منهم اهل التجربة والحیاء من اهل البیو تات الصالحة  ''(۱)

اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر نگاہ رکہنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبردار انہیں تعلقات یا جانبداری کی بناء پر عہدہ نہ دے دینا کیو نکہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہو تی ہیں ان میں بہی مخلص تجربہ کار اور غیر ت مند  اور جوا چہے گہرانے کے افراد تلاش کرنا ۔

اس فرمان میں مولائے کائنات علی   کسی کام میں سر پرستی کے لائق ہونے کے لئے چند امور کو شرط سمجہتے ہیں ۔ وہ غیرت مند و صاحب حیاء ہونے کے علاوہ اس کام میں تجربہ رکہتا ہو کہ جو اسے سونپا جائے تا کہ اپنے تجربہ سے استفادہ کرتے ہو ان کا موں کو اچہے طریقے سے انجام دے اور ان سے  عہد بر آہو سکے اور احسن طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو نبہا سکے حضرت امیر المو منین  نے اپنے فرمان میں افراد کے انتخاقب میں حیا اور تجربہ کو اس لئے شرط قرار دیا ہے کہ کوئی ناخوش گوار و نا شائستہ واقعہ در پیش نہ آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلاغہ مکتوبات:۵۳

۱۳۱

علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ

تجربہ نہ صرف مملکتی امور میں بلکہ علم و دانش اور علمی مسائل میں بہی مؤثر نقش رکہتا ہے اسی وجہ سے جابربن حیّان علمی مقامات تک پہنچنے کے لئے تجربہ کو اہم شرط سمجہتے ہیں  ۔ انہوں نے آج کے دور میں رائج لفظ تجربہ کی بجائے ، لفظ تدبیر کو استعمال کیا ان کے نزدیک ایک حقیقی دانش مند کی ا ساسی شرط تدبّر ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ حقیقی اور واقعی دانش مند وہ ہے کہ جو تجربہ سے استفادہ کرے اور جو اس روش کو  استعمال میں نہ لائے اسے دانشمند نہیں سمجہا جا سکتا ۔ ہر علوم و صنا ئع میں تجربہ کی اہمیت کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ جو صنعتگر اپنے کام میں تجربے سے استفادہ کر تا ہے اس کی مہارت میں روز بروز اضافہ ہو تا چلا جاتاہے لیکن جو تجربے کو استعمال میں نہ لائے وہ اسی طرح راکدہی رہتا ہے ۔

۱۳۲

تجربہ عقل کی افزائش کا باعث

تجربہ  سے نہ صرف انسان کی علمی قوت و مہارت کو بڑہ جاتی ہے بلکہ یہ انسان کی عقلی قدرت کو بہی بڑہاتا ہے ۔حضرت امیر المو منین  انسان کے لئے ذا تی و طبیعی عقل کے علاوہ تجربی عقل کو اہم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح طبیعی عقل سے استفادہ کر سکتے ہیں ، اسی طرح تجربی عقل سے بہی بہت سے فوائد لے سکتے ہیں ۔ حضرت امیر المو منین علی  (ع) فرماتے ہیں :

'' العقل  عقلان : عقل الطبع عقل التجربة ، وکلا هما یؤدی الی المنفعة ، وا لمو ثوق به صاحب العقل والدین ''(۱)

کی  دو قسمیں  ہیں :

۱ : عقل طبیعی

۲ : عقل تجربی

عقل کی یہ دونوں قسمیں سود و منفعت کا سبب ہیں اور صاحب عقل و دین پر اعتماد و اطمینان کر نا چاہیئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار:ج ۷۸ ص ۶

۱۳۳

اس بناء پر جتنا انسان کا تجربہ بڑہتا جائے اتنا ہی اس کی عقل تجربی بہی بڑہتی ہے عقل و تکامل میں اضافہ کے لئے تجربے سے استفادہ کریں اور تجربہ حاصل کرنے اور حاصل شدہ تجربے کے مطابق عمل   کو انجام دینے کے لئے تکامل عقلی سے استفادہ کریں ۔

گزشتہ روایت کے علاوہ حضرت امام حسین (ع) سے ایک اور  روایت میں نقل  ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' طول التجارب زیادة فی العقل الشّرف و التقویٰ '' (۱)

تجر بہ کے زیادہ ہونے سے انسان کی عقل و شرف اور تقویٰ میں بہی اضافہ ہو تا ہے ۔

ان ارشا دات کی بناء پر درک کر تے ہیں کہ اہم امور اورپروگرام کی مسؤلیت اپنے کندہوں پر لینے والاتجربہ کار ہونا چاہیئے تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ عقل ذاتی کے علاوہ عقل تجربی سے بہی استفادہ کرسکے اور اپنی عملی قدرت کو افزائش  دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوا:ج۸۷ ص ۸ ۲ ۱

۱۳۴

تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ

ایک اور نکتہ کہ جس کی جانب متوجہ رہیں کہ ہماری آج کی دنیا ، دنیا پرستوں ، فریبیوں سے بہری پڑی ہے وہ مختلف انداز سے سادہ لوح افراد کو اپنے جال میں پہانس کر فریب دیتے اور گمراہ کرتے ہیں .لہذا ہمیں اس بارے میں علم  ہونا چاہیئے تا  کہ پہر دوسروں کو بہی اس سے آگاہ کر یں ۔

ان کے فریب سے نجات کی ایک راہ تجربہ ہے ، ہم تجربہ کے ذریعہ ان افراد کو پہچانیں اور اس طرح  ان کے فریب سے امان میں رہیں ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فرماتے ہیں :'' من لم تجرّب الا مور خدع ، و من صارع الحقّ صرع '' (۱)

جو امور کے بارے میں تجربہ نہ کرے وہ فریب کہائے گا اور جو حق سے ٹکرائے گا حق اسے پچہاڑدے گا ۔

تجربہ انسان کو ہوشیار کر تا ہے اور انسان کی معلو مات و اطلا عات میں اضا فہ کر تا ہے تجربہ کار انسان نے دنیا دیکہی ہوتی ہے ، لہذا وہ مکار ، فریبی اور گمرا ہ کرنے والوں کے ہاتہوں فریب کہا نے سے محفوظ رہتا ہے ۔

تجربہ کے ذریعے انسان ، راہ اور چاہ میں فرق کر سکتا ہے سعادت صرف اس کی ہے کہ جو صحیح راستہ کو دقیقاً جانتا ہو اور اپنے کو تبا ہی سے بچا سکے شقا وت ایسے افراد کے عمل کا نتیجہ ہے کہ جو تجربات سے نہیں سیکہتے اور اپنے کو دوبارہ گزشتہ مسائل میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ بحا ر الا نوار:ج ۷۷ ص ۲۲ ۴

۱۳۵

مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا

حقیقی دوستوں کو سختیوں اور تلخیوں میں پہچان سکتے ہیں اور ان کی صداقت کے میزان کو جان سکتے ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کو در پیش آنے والے مصائب و مشکلات اور اسی طرح امام زمان  کی غیبت حقیقی اور واقعی شیعوں کوپہچا ننے کا اہم ذریعہ ہے کیو نکہ فقط سچے پیروکار ، اپنے رہبر وں کی شدید مشکلات میں بہی حمایت و پیروری کر تے ہیں اور تجربہ و امتحان میں سر فراز ہو تے ہیں ۔

اسی وجہ سے جب حضرت یوسف  زندان سے آزاد ہوئے تو انہوں نے زندان میں لکہا :

'' هذا قبور الاحیاء و بیت الا حزان و تجربة الا صدقاء و شماتة الا عداء ''(۱)

زندان ، زندوں کی قبور ، غموں کا گہر ، دوستوں کو آزمانے اور دشمنوں کو سر زنش کرنے کا وسیلہ ہے  ۔

اس بناء پر مشکلات و مصائب جیسے بہی ہوں، ان کے ذریعے انسان دوستوں کو آزما سکتا ہے حقیقی دشمن وہ ہو تے ہیں کہ جنہوں نے دوستی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو لیکن سخت مشکلات میں دوست کو تنہا چہوڑدیں اور دشمن سے بڑہ کر نقصان پہچائیں مشکلات و تکالیف ایسے افراد کو پہچا ننے کا وسیلہ وذریعہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الا نوار :ج۱۲ ص ۴ ۹ ۲

۱۳۶

تجربہ سے سبق سیکھیں

ہماری زندگی میں اچہے برے ، تلخ اور شیرین تجربات ہماری زندگی کو بہتری کی جانب لے  جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے مستقبل کے لئے عبرت کے بہترین درس  ہیں تاکہ ہم ان کے ذریعہ گزشتہ  اشتبا ہات کو تکرار نہ کریں اور مستقبل میں مفید برنا موں سے مطلع ہو سکیں ۔ اگر ہم تجربہ سے سبق نہ سیکہیں تو پہر ہم کس بر نامہ سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ؟

حضرت امیر المو منین (ع)  فرما تے ہیں :

'' من لم ینفعه اللّٰه با لبلاء و التجارب لم ینتفع بشی ئٍ من العظة ''(۱)

خدا جسے مصائب و مشکلات اور تجر بہ کے ذریعہ نفع نہ پہچائے وہ کسی بہی وعظ و نصیحت سے مستفید نہیں ہو سکتا ۔

اس بناء پر مشکلات ، مصیبتوں اور حاصل ہونے والے تجربے سے بہترین طور پر استفادہ کریں اور اپنے کو بہتر زند گی کے لئے آمادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلا غہ خطبہ: ۷۵ ۱

۱۳۷

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں

تاریخ بہت سے عظیم واقعات کی شاہد ہے کہ تجر بے کے عنوان سے جن سے درس عبرت لیا جائے ماضی میں لوگوں کی اجتماعی یا انفرادی رفتار و کردار سے بر آمد ہونے والے اچہے یا برے نتائج سے استفادہ کریں کیو نکہ تجربے سے پند و نصیحت اور درس لینا فقط آپ کے انجام دیئے گئے اعمال سے مختص نہیں ہے بلکہ دوسروں کے تجربات سے بہی مستفید ہوسکتے ہیں ۔

کبہی بہت زیادہ مشکلات اور موانع انسان کو ہدف تک پہنچنے سے نا امید و ما یوس کر دیتے ہیں   لیکن دوسروں کے تجربات سے استفادہ کر کے ان مشکلات و موانع کو برطرف طرف کر کے نا امید ی کو امید میں تبدیل کر سکتے ہیں  ۔

یہ ان بزرگ اور عمر رسیدہ افراد کا انداز ہے کہ جو زندگی کے ہر موسم کو دیکہ چکے ہیں ، انہوں نے اپنے دوستوں اور قرابتداروں کو دوسروں کے تجر بات سے استفادہ کرنے کی سفارش کی ہے ۔ ان میں سے ایک عوف بن کنانہ ہے ۔ انہوں نے اپنی وصیت میں کہا ہے :

'' خذوا من اَهل التَّجارب ''(۱)

اہل تجربہ سے استفادہ کریں ۔

کیونکہ جو بہی کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہو وہ اس شعبہ میں تجربہ کا ر افراد سے استفادہ کرے اور ان کے تجربہ سے بہرہ مند ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج ۵۱ ص ۲ ۲۴

۱۳۸

دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ

تاریخ کے معالعہ اور تاریخ رقم کرنے والوں کے حالات ، معاشرے میں ان کے نفوذ کرنے کی کیفیت اور ان کے سقوط کے علل و اسباب ، خصوصاً بنی اسرائیل کی تاریخ کے تجزیہ و تحلیل اور ان ستمگر فرعونوں کی حکومت کے مطالعے سے ہم اپنی فردی و اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ تجربہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

عظیم لوگوں کی شخصیت اور ان کے حالات زندگی کا تجزیہ و تحلیل ، ان کی شخصیت کوپہچاننے کی بہترین راہ ہے ۔ ہمیں بزرگوں کی معنوی زند گی کا مطالعہ کرنا چاہیئے ان کی رفتار و کردار ہمارے لئے بہترین تجربہ و درس ہے گزشتہ افراد کے شخصی اعمال میں ہمارے لئے تجربہ کا درس ہے اور ان کے اجتماعی کردار میں ہمارے معاشرے کے لئے درس تجربہ ہے ہم بزرگوں کے حالات ، گزشتہ زمانے   میں ان کے فردی و اجتماعی تجربات اور ان کو در پیش آنے والے واقعات کی بر رسی کر کے استفادہ کریں ۔

مثال کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ انبیاء کے ظہور  و غیبت کے علل کی تحلیل اور ان کے ساتہ زمان غیبت میں بعض افراد کے شخصی ارتباط کی برر سی سے ہمارے لئے تجربہ و راہنما ئی ہے کہ جو غٰبت و ظہور امام عصر کے مسئلہ میں ہمارے راہنما ئی کر تا ہے ۔ شخصی اور دوسروں  کے تجربات سے استفادہ کر نا خداکی عظیم نعمتوں میں سے ہے کہ جو تمام افراد کو میسر نہیں ہے مختلف تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج کو فراموش کرنا انسان کی کم سعادتی اور بدنصیبی کی دلیل ہے ۔

۱۳۹

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' انّ الشّقی من حرم نفع ما اوتی من العقل التجربة '' (۱)

یقیناً بد خت وہ ہے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے بہی اس کے فوائد سے محروم رہے ۔

جو تجربہ سے استفادہ نہ کرے وہ ایسے مسافر کی مانند ہے کہ جوکسی راہنما کے بغیر بیابان میں گہومتا رہے اور مدتوں رنج و مشقت برداشت کرنے کے بعد اپنی پہلے والی جگہ پر آجائے ۔ ایسے افراد کو مسافرت سے حاصل ہونے والا نتیجہ صرف رنج و مشقت ہے ۔ وہ فوائد و منفعت حاصل کرنے کی بجائے اپنے کو زحمت میں ڈالتا ہے اور اپنی زندگی کو تباہی کی جانب لے جاتا ہے ۔

لہذا عقل کا یہ تقاضا ہے کہ عاقل انسان تجربات سے استفادہ کرے اپنے اور دوسروں کے اچہے ، برے تجربات سے عبرت کا درس لے اور نتیجتاً گزشتہ تجربات آئندہ کے لئے سبق ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ۷۸

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پوری شیعہ تاریخ میں علماء حقہ نے جن زحمات و تکالیف کو برداشت کیا ،ان کی زحمات لوگوں کو بتائیں اور ان کے احترام کی کوشش کریں،ان کی بدگوئی اور استخفاف سے گریز کریں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' من اَفسَدَ بالعلَماء اَفسَدَدینَه''( 1 )

علماء کی اہانت کرنے والا اپنے دین کو فاسد کرتا ہے۔

یہ فرامین ان علماء کے بارے میں صادر ہوئے ہیں کہ جنہوں نے دین خدا کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کی۔ایسے علماء کی اہانت ،دین اور خدا کے دستورات کی اہانت ہے۔ کیونکہ ایسے علماء علم ودانش کو کسب کرنے کی جستجو و کوشش اور اسے معاشرے میں فروغ دینے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ اوراہلبیت عصمت و طہارت علیہم  السلام  کے مقربین میں سے ہیں۔

اس بناء پر جو ان کی اہانت کرے،حقیقت میں  وہ دین کی اہانت کرتا ہے،اور جو خدا کے دستورات کی اہانت کرے وہ اپنے دین کو تباہ کرتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج23ص378

۲۰۱

نتیجۂ بحث

علم و دانش کے حصول کیلئے شوق اور ارادہ بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔لہٰذا اپنے اندر ان دونوں صفات کو ایجاد کریںاور انہیں تقویت دیں۔اس علم کو حاصل کرنے کی کوشش کہ جس کا سرچشمہ مکتب وحی ہو،اور اپنے وجود کو ان کے تابناک انوار سے منوّر کریں۔

ان علوم کو حاصل کرنے سے آپ کے نفس میںعظیم تحولات جنم لیںگے۔کیونکہ علم و دانش شعور پر اثرانداز ہوتے ہیں اور آپ کے افکار کو بلند مقام پر پہنچاتے ہیں۔

ان روحانی تحولات کا نتیجہ جاویدانی حیات اور اغیار سے پوشیدہ اسرار تک رسائی ہے۔اس صورت میں آپ کو بلند درجات کا وسیلہ فراہم ہوجائے گا۔

آپ ان عالی اور علمی مقامات کو کسب کرنے سے معاشرے اور امت کی ہدایت اور راہنمائی کریں اور انہیں ضلالت اور گمراہی نجات دے کر مکتب اہل بیت سے آشنا کروائیں۔

چو علمت ہست خدمت کن کہ زشت آید بردانا

گرفتہ چینیان احرام و مکّی خفتہ در بطحا

تمہارے پاس علم ہے تو خدمت کرو کیونکہ عالم کے لئے زشت ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے علم سے مستفید نہ کرے ہماری غفلت کا یہ حال ہے کہ اہل چین نے احرام بہی باندہ لیا اور ہم مدینہ میں بیٹہے سو  رہے ہیں۔

۲۰۲

بارہواں باب

توفیق

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' لَا ینفَع اجتهاد بغیر تَوفیق ''

توفیق کے بغیر کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

    انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

    سعادت کے چار بنیادی ارکان

    توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

    کامیاب اشخاص

    توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

   1 ۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

    ایک اہم نکتہ

   2 ۔ ماں باپ کی دعا توفیق کا سبب

   3 ۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

   4 ۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

    نتیجۂ بحث

۲۰۳

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار

نیک کام انجام دینے کے لئیانسان کو خداوند متعال کی جانب سے توفیق اور عنایت کی ضرورت ہوتی ہے،جب تک توفیق الٰہی شامل حال نہ ہو تب تک وہ کسی بہی خدا پسندانہ کام کو انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اپنے اہداف تک پہنچنے اور اپنے امور زندگی میں کامیابی کے لئے خداوندعالم سے دعا کرنا ضروری  ہے کہ اے پروردگار ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اہم اور عالی اہداف و مقاصد تک پہنچ سکیں اور ان کا حصول ہمارے لئے آسان فرما۔

حضرت جوادالائمہ امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں:

''اَلمؤمن يَحتاج الٰی تَوفیقٍ من اللّه وَ وَاعظٍ من نفسه وَ قَبول ممَّن يَنصَحَه''(1) مومن تین چیزوں کا محتاج ہے:

1 ۔ خدا کی طرف سے حاصل ہونے والی توفیق۔

2 ۔ اپنے نفس کے ذریعہ خود کو وعظ کرنے والا ہو۔

3 ۔ جو اسے نصیحت کرے اس کی نصیحت قبول کرے۔

اس فرمان کی رو سے توفیق الٰہی ہر مومن شخص کی ضرورتوں میں سے ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہنائے،زیارت سے مشرف ہوتے وقت جس دعا کو پڑہنا مستحب ہے،اس دعا میں کہتے ہیں:

''اَلَّلهمَّ صل  نیَّتی باالتَوفیق ''(2) پروردگارا  میرے ارادہ کو  تو فیق  کے سات ھ متصل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ تحف العقول مرحوم حرّانی:457

[2]۔ بحارالانوار:ج 102 ص162

۲۰۴

کیونکہ جس خدا پسندانہ اور نیک کام کی نیت و ارادہ میں توفیق الٰہی شامل نہ ہو ،وہ کام کبہی بہی مؤثر نہیں ہوتا۔

لہٰذا انسان کی نیت و ارادہ ،توفیق الٰہی کے ہمراہ ہونی چاہئے تاکہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ سکے ۔ لیکن اگر نیت کے ساتہ توفیق الٰہی شامل نہ ہو تو اس کام کا کوئی عملی اثر نہیں ہوگا،اگرچہ انسا ن وعدہ دیئے گئے ثواب سے بہرہ مند ہوجائے گا۔

اس بناء پر خدا کی توفیق ہر مؤمن کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔کیونکہ کسی نیک کام کو انجام دینے کی قدرت اور نیت ،اس کام کے وقوع پذیر ہونے کی علت تامّہ نہیںہے۔

کار خیر کو انجام دینے کے لئے نیت اور توانائی کے علاوہ توفیق الٰہی کی بہی ضرورت ہوتی ہے،اگر خدا کی توفیق آپ کے شامل حال نہ ہو تو نیک کام انجام دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔

خدا وند متعال قرآن میں حضرت شعیب کے قول کو یوں بیان فرماتا ہے ،جو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تہا:

'' ان اریدَ الّا الاصلَاح مَا اَستَطَعت وَ مَا تَوفیقی الَّا باللّٰه ''( 1 )

میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے امکان میں ہو،میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک کام کو انجام دینے کے لئے فقط استطاعت اور قدرت کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی توفیق بہی مورد نیاز ہے۔

پروردگا ر کی توفیق اور لطف انسان کی قوت اور قدرت کی تکمیل کرتی ہے ورنہ صرف انسان کی توانائی مشکلات کو حل کرنے سے قاصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ ہود آیت:88

۲۰۵

اس بیان کی رو سے نہ صرف عام افراد بلکہ اولیاء خدا اور بزرگان دین بہی اسی صورت میں نیک کاموں کو انجام دینے میں کامیاب ہوسکتے  ہیں کہ جب خدا کی جانب سے توفیق شامل حال ہو۔

اس نکتہ کی جانب توجہ نہ صرف لازم اور ضروری ہے، بلکہ اس کے بہت اہم اثرات بہی ہیں۔

اس نکتہ پر اعتقاد اور توجہ کہ تمام افراد کے لئے خداپسندانہ امور کو انجام دینے میںتوفیق الٰہی کا حاصل ہونا نہ صرف لازم اور ضروری ہے بلکہ اس کے بہت مہم اثرات بہی ہیں اور وہ یہ کہ اس سے انسان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔اولیائ خدا اور بزرگان دین اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ان کے تمام نیک کاموں میں خدا کی توفیق شامل ہے، لہٰذا ان میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔

وہ اس دنیا میں  خود کو کچہ بہی نہیں سمجہتے،اس اعتقاد سے ان کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔جو انہیں خود پسندی اور انانیّت سے باز رکہتا ہے۔

صبر بردرد، نہ از ہمت مردانہ ماست

درد  از او، صبر از او، ہمت مردانہ از اوست

دگری را بہ جز او،راہ بہ ویرانہ دل

نتوان داد،کہ این گوشہ ویرانہ از او  ست

شمع و پروانہ از او سوختن آموختہ اند

شعلہ شمع از او ،سوزش پروانہ از اوست

مصیبتوں پہ صبر ہماری مردانگی کی علامت نہیں ہے ، صبر درد اور ہمت مردانہ اسی کی عطا ہے لہذا اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی اور کو نہ بٹہائوکیونکہ یہ دل اسی کا گہر ہے، شمع اور پروانے نے جلنا اسی سے سیکہا شمع کا شعلہ اور پروانے کا جلنا بہی اسی سے ہی ہے۔

۲۰۶

سعادت کے چار بنیادی ارکان

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔

توفیق کے مطابق عمل کرنے والا انسان سعادتمند ہوتاہے ،یعنی جو نیت و ارادہ اور قدرت و توفیق کے علاوہ توفیق الٰہی کو عملی صورت میں لائے اور شیطان کے فریب و وسوسہ سے توفیق کو نہ کہودے۔ بہت سے لوگ کامیابی کی تمام شرائط کے با وجود منفی و شیطانی افکار کی وجہ سے کام کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں اور یوں توفیق کہودیتے ہیں۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' مَا کلّ مَن نَویٰ شَیئا قَدَرَ عَلَیه وَ لَا کلّ مَن قَدَرَ عَلیٰ شئی وفّقَ لَه وَلَا کلّ مَن وفّقَ لشَئی اَصَابَ لَه فَاذااجتَمَعَت النّيةوَالقدرَة وَالتَّوفیق وَالاصَابَةفَهنَالک تَمَّت السَّعَادَة''(1)

ایسا نہیں ہے کہ جو شخص کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر ے وہ اسے انجام دینے کی قدرت بہی رکہتا ہو اور جو قدرت بہی رکہتا ہو وہ اسے انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو،نیز ایسا بہی نہیں ہے کہ جو کسی کام انجام دینے کی توفیق بہی رکہتا ہو وہ اس تک پہنچ جائے ، پس جب نیت، قدرت، توفیق اور مقصد تک پہنچنا ایک ساتہ جمع ہوجائیں تو انسان کی سعادت مکمل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵ ص۲۱۰

۲۰۷

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ

روایت سے لائے گئے نکتہ سے استفادہ کرتے ہیں کہ توفیق کے مسئلہ میں اجباری طور پر اجراء کی قدرت کا وجود نہیں ہے،کیونکہ سعادت تک پہنچنے کے لئے توفیق کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کی بہی ضرورت ہے۔توفیق،ایک ایسی قوت ہے کہ جو انسان کی خوبیوں اور پسندیدہ امور کی طرف ہدایت کرتی ہے۔حقیقت میں توفیق نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے راہنمائی کرتی ہے۔اس مسئلہ میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ کامیاب فرد اسے انجام دینے کے لئے مجبور نہیں ہے البتہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قوت سے استفادہ کرے اور اسے ضائع نہ کرے۔اس بناء پر توفیق نیک اعمال کے لئے فقط راہنمائی کرتی ہے۔اس میں کسی قسم کا اجبار اور اکراہ موجود نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''  لَا قَائدَ خَیر من التَّوفیق'' (1) توفیق سے بہتر کوئی راہنماموجود نہیں ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) توفیق کو بہترین راہنما کے عنوان سے متعارف کرواتے ہیں ۔ کیونکہ جس طرح ہم نے کہا کہ اعطائ توفیق میں کوئی اجباری قدرت پوشیدہ نہیں ہوتی، لہٰذا کبہی خدا ہمیں توفیق عنایت کرتا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) نے جو تعبیر فرمائی ہے وہ ان افراد کے لئے جواب ہے کہ جو نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے سے گریز کرتے ہیں۔اگر ان سے اس بارے میں پوچہا جائے اور ان پر اعتراض کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا وند تعالی نے ہمیں توفیق عطا نہیں کی ۔اس بیان کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ بہت سے موارد میں توفیق الٰہی ہماری مدد کرتی ہے۔لیکن ہم اسے ضائع کر دیتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے اس بناء پر حتمی کامیابی اور ہدف تک رسائی کی شرائط میں سے ایک شرط توفیق الٰہی کے مطابق عمل کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج9ص41

۲۰۸

کامیاب اشخاص

مرحوم سید محمد باقر قزوینی بزرگ شخصیت کے مالک تہے ۔ وہ عظیم و بیکران توفیق سے بہرہ مند تہے۔یہ مرحوم بزرگ علماء شیعہ میں سے اور خلق خدا کے گزار تہے ،یہ سید بحرالعلوم کے بہانجے تہے۔

ان کے بہتیجے مرحوم سید مہدی قزوینی (جو خود بہی بزرگ علماء میں سے تہے) نقل کرتے ہیں کہ عراق میں طاعون کی وباء پہیلنے سے دو سال پہلے اس بزرگ نے اس کے آنے کی خبر دی تہی اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں میں سے ہر ایک کو دعا لکہ کر دی اور فرمایا حضرت امیرالمؤمنین(ع) نے خواب میں مجہ سے فرمایا ہے'' وَ بکَ ختم یا وَلَدی'' طاعون کی بیماری تم پر ختم ہوجائے گی۔اس سال انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت کہ جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔انہوں نے شہر اور شہر سے باہر ہر میت کی نماز پڑہی،وہ ہر بیس ،تیس یا اس سے کم یا زیادہ افراد پر ایک نماز پڑہتے۔طاعون کے مرض سے اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں کہ ایک دن ہزار افرادکے لئے  ایک نماز بجا لائی گئی۔وہ  1246 ہ کو عرفہ کی رات نمازمغرب کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔وہ طاعون کے مرض سے ہلاک ہونے والے آخری  شخص تہے۔

ایک بار وہ دسیوں علماء و صلحاء کے ہمراہ کشتی میں سوار تہے،طوفان کی وجہ سے وہ سب غرق ہونے کے قریب تہے ،لیکن اس بزرگوار نے اپنی غیر معمولی معنوی قوّت سے طوفان کو ٹال دیا اور کشتی کو غرق ہونے سے بچالیا۔ان کے بہتیجے کا کہنا ہے کہ علماء و صالحین کے ایک گروہ کے ساتہ کشتی میں سوار ہوکر کربلا سے آرہے تہے کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنے لگی کہ جس سے کشتی کے الٹنے کا خطرہ لاحق ہوا،ہمارے ساتہ ایک شخص بہت خوفزدہ اور مضطرب ہوگیا اور اس کی حالت متغیر ہوگئی،وہ کبہی روتا تہا اور کبہی حضرت امیرالمؤمنین سے متوسّل ہوتا،لیکن اس دوران مرحوم سید اپنی عادی حالت میں بیٹہے رہے،

۲۰۹

جب وہ شخص خوف کے مارے بہت زیادہ رونے لگا تو اس سے فرمایا:تم کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ہوا،آندہی،اور رعد و برق یہ تمام خدا کے امر کے مطیع ہیں،پہر انہوں نے اپنی عباء کو اکٹہا کیا اور ہوا کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:آرام کرو اسی وقت طوفان تہم گیا اور کشتی بہی طوفان سے بچ گئی۔

یہ بزرگوار اس توفیق کی وجہ سے ایسے عظیم علوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ عام حالات اور شرائط میں جن کا حصول ممکن نہیں ہے۔

اس مرحوم کی شخصیت اور غیر معمولی عظمت کو بیان کرنے والے اس واقعہ کو مرحوم محدّث نوری یوں بیان کرتے ہیں۔امام زمان نے اس بزرگوار کو بشارت دی تہی کہ مستقبل میں تمہاری روزی علم توحید ہوگا۔مرحوم فرماتے ہیں کہ اس بشارت کے بعد ایک رات خواب میں دیکہا کہ دو فرشتے آسمان سے نازل ہوئے ،ان میں سے ایک کے ہاتہ میں کچہ لوح تہے جن پر کچہ لکہا تہا اور دوسرے کے ہاتہ میں ایک میزان تہا، ان فرشتوں کے دونوں لوح ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکہے اور انہیں تولنے لگے ،پہر انہوں نے وہ لوح مجہے دیئے اور میں نے ان پر لکہی ہوئی تحریر کو پڑہا ،پہر انہوں نے تمام لوح میرے سامنے رکہے اور میں نے انہیں پڑہا ،ان میں سے بعض لوح پر اصحاب پیغمبر (ص) اور اصحاب ائمہ اطہار (سلمان،ابوذر،سے نوّاب اربعہ تک)کے علوم و عقائد لکہے تہے اور بعض دیگر پر علماء شیعہ جیسے کلینی،صدوق،تا بحرالعلوم اور ان کے متاخرین علماء کے علوم و عقائد درج تہے،وہ دونوں فرشتے پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطہار علیہم  السلام  کے اصحاب اور بزرگ شیعہ علماء کے علوم و عقائد کو ترازو میں رکہ کر تول رہے تہے۔اس خواب کی وجہ سے میں علوم کے بہت سے اسرار سے آگاہ ہوا کی اگرمجہے نوح کی عمر بہی مل جاتی اور میں جستجو کرتا تو اس کا ایک فیصد بہی حاصل نہ ہوتا۔

۲۱۰

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع

1۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا

خدا وند متعال سے توفیق کی درخواست و دعا کریں تاکہ بزرگان دین کو حاصل ہونے والی توفیقات الٰہی سے ہم بہی بہرہ مند ہوسکیں ،اکثر دعائوں میں خدا وند بزرگ و برتر سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔

1 ۔ نماز جعفر طیار کے بعد دعا میں پڑہتے ہیں :

''اللّٰهمَّ انّی اَساَلکَ تَو فیقَ اَهل الهدیٰ وَ اَعمَالَ اَهل التَّقویٰ''(1)

پروردگار ا میں تجہ سے اہل ہدایت کی توفیق اور اہل تقویٰ کے اعمال و رفتار کا سوال کرتا ہوں۔

یہ جملہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ فقط توفیق کا حاصل ہوجانا نیک کام کو انجام دینے کی دلیل نہیں ہے ،اسی وجہ سے اس دعا میں اہل ہدایت کی توفیق طلب کرنے کے علاوہ خدا سے پرہیزگاروں کے اعمال و رفتار کا بہی سوال کرتے ہیں۔

2 ۔آیت قرآن''صرَاطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیہم'' کی تفسیر میں امام حسن عسکری  (ع) سے نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

''قولوا اهدنَا الصّراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهم باالتَّوفیق لدینک وَ طَا عَتکَ''(2)

کہو کہ ہمیں ان کے راستے کی طرف ہدایت فرما جن پر تو نے اپنے دین کو قبول کرنے اور تیری اطاعت کرنے کی توفیق کے ذریعہ نعمتیں نازل کی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۹۱ص۱۹۸

[2]۔ معانی الاخبار: 15 ، بحارالانوار: 1024، تفسیر الامام العسکری:17

۲۱۱

اس بناء پر خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور دینداری کی توفیق ،خدا کی طرف سے بندوں کو عنایت ہونے والا لطف ہے۔ہم سب کو خدا سے دعا کرنی چاہیئے کہ پروردگار دنیا کے اس پر خطر سفر میں توفیق الٰہی کو ہمارا مونس و ہمسفر قرار دے تاکہ ہمارا سفر خیریت سے اختتام پذیر ہو۔

3 ۔ماہ مبارک رمضان کی تیرہویں دن کی دعا میں آیا ہے:

''اَلَّلهمَّ وَفّقنی فیه عَلی التّقیٰ وَ صحبَةالاَبرَار''( 1 )

پروردگارا! اس دن میں مجہے تقویٰ کی اور نیک و متقی افراد کی صحبت کی توفیق عطا فرما۔

4 ۔ماہ رمضان کی بائیسویں شب کی دعا میں وارد ہوا ہے :

''وَارزقنی فیها التَّوفیقَ لماوَفَّقتَ له شیعَةَ آل محمَّد ''( 2 )

پروردگارا! آج کی رات میں مجہے وہ توفیق عنایت فرما کہ جس سے تو نے پیروان  آل محمد کو کامیاب فرمایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۳۷

[2]۔ بحارالانوار:ج۹۸ص۵۳

۲۱۲

ایک اہم نکتہ

اگرچہ ممکن ہے کہ سائل مقربین آل محمد اور شیعوں کی توفیقات کو بہت بڑی حاجت سمجہے اور اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کے سامنے پست اور  نا اہل سمجہے ، لیکن چونکہ وہ خدا بزرگ و برتر کے حضور میں ہے اور خالق کائنات کی بارگاہ میں سوال کررہا ہے،لہٰذا وہ بہترین اور پر ثمر ترین حاجات طلب کرے ۔ کیونکہ خدا کے حضور اور خدا کی بارگاہ میں خدا کی عظمت و بزرگی کو مدّ نظر رکہیں نہ کہ فقط اپنی پستی و ذلت کو ملاحظہ کریں۔

بعض لوگ معتقد ہیں کہ انسان خدا وند متعال سے اپنی حد اور اوقات سے زیادہ طلب نہ کرے ، لہٰذا اپنی حیثیت و صلاحیت اور حدود کو مد نظر رکھ کر اپنے ہدف تک پہنچنے کی دعا کریں۔اگر فرض کریں کہ   یہ عقیدہ صحیح بھی ہو تو یہ کلیّت نہیں رکھتا۔کیونکہ بعض مقامات پر اور بعض اوقات  انسان خدا کے نزدیک اس قدر عظیم و عالی مقام رکھتا ہے کہ انسان خدا سے ہر قسم کی عظیم حاجت طلب کرسکتا ہے۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  کی زیارت  وداع میں پڑھتے ہیں:''اَلَّلهمَّ وَفّقنا لکلّ مَقامٍ مَحمودٍوَ اَقلبنی من هذا الحَرَم بکلّ خَیرٍ مَوجودٍ'' (1)

پروردگارا، مجہے ہر قسم کے مقام محمود کے حصول کی توفیق عطا فرما اور مجہے اس حرم سے ہر موجود خیر کے ساتہ لوٹا۔

خدا کے نزدیک حضرت امیرالمؤمنین  کے حرم مطہر کی شرافت و محبوبیت کی وجہ سے زائر کو اجازت ہے کہ وہ خدا سے ہر قسم کی توفیق اور مقام محمود کو طلب کرسکتا ہے۔

اسی بناء پر اگرچہ سائل بعض مقامات کو طلب کرنے کی لیاقت و صلاحیت نہ رکہتا ہو لیکن زمان ومکان کی عظمت کی وجہ سے ایسی بزرگ حاجات کو طلب کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۱۰۰ص۳۸۲

۲۱۳

2۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب

ماں باپ کی دعا توفیق کو ایجاد کرنے میں مؤثر کردار کی حامل ہے،بعض بزرگان اپنی تمام تر توفیقات کو اپنے والدین کی دعائوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،مرحوم مجلسی جو کہ کثرت تالیفات اور اہلبیت کی خدمت کے لحاظ سے شیعہ علماء میں کم نظیر بلکہ بے نظیر ہیں،وہ اپنی عظیم توفیقات کو اپنے والد بزرگوار کی دعائوں کے مرہون منت سمجہتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول فرماتے ہیں کہ ایک رات نماز شب سے فارغ ہونے کے بعد مجہ  پرایک ایسی حالت  طاری ہوئی کہ جس سے میں یہ سمجہا کہ اگر دعا کروں تو ضرور مستجاب ہوگی،میں ابہی اسی سوچ   میں مبتلا تہا کہ آخر خدا سے کس چیز کی دعا کروں؟اچانک جہولے سے سے محمد باقر کے رونے کی آواز بلند ہوئی،میں نے کہا :پروردگار بحق محمد و آل محمدعلیہم السلام اس بچے کو شریعت محمد(ص) اور دین کا خادم اور مروّج قرار دے اور اسے بے انتہا توفیقات سے بہرہ مند فرما۔صاحب مراةالاحوال کہتے ہیں علامہ مجلسی سے ظاہر ہونے والے غیر معمولی امور مسلما ًاسی دعا کے آثار ہیں(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائد الرضویہ محدث قمی:411

۲۱۴

3۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ توفیق حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک خدا سے دعا کرنا ہے ۔ دل سے دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیںاور پروردگار بزرگ و مہربان سے نیک مقاصد کے حصول کی دعا کریں،دعا کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کی سعی و کوشش بہی کریں ورنہ آپ کی دعا استہزاء اور تمسخر شمار ہوگی۔

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں:

''مَن سَاَله التَّوفیق وَ لَم یَجتَهد فَقَد استَهزَئَ بنَفسه ''(1)

جو خدا سے توفیق کا سوال کرے لیکن اس کے لئے کوشش نہ رے وہ اپنے ساتہ مذاق کرتا ہے۔

کیونکہ توفیق کی دعا کے علاوہ ایک اور بنیاد بہی ہے کی جسے سعی و کوشش کہتے ہیں ،اس بناء پر عالی مقاصد اور خدا پسندانہ اہداف کو حاصل کرنے کیلئے توفیق کی دعا کے علاوہ کوشش اور جستجو بہی کریں، جب آپ دعا کے بعد کوشش بہی کریں گے تو خدا کی توفیق آپ کے لئے شامل حال ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۳۵6

۲۱۵

4۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب

پروردگار کی بے شمار نعمتوں کے بارے میں تفکر کرنا توفیق حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔خدا کی مخلوقات میں تفکر سے آپ خدا کی توفیقات کو جلب کرسکتے ہیں۔حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:''مَن تَفَکَّر فی آلائ اللّه وفّقَ '' (1) جو خدا کی نعمتوں میں تفکر کرے ،وہ کامیاب ہوگیا۔

کیونکہ انسان اس ذریعہ سے اپنے دل میں خدا کی محبت پیدا کرتا ہے۔جب دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجائے تو وہ خدا کی طرف جذب ہوجاتا ہے  اور خدا کی طرف مجذوب ہونے کے ثمرات میں سے ایک ہے۔اسی وجہ سے امیرالمؤمنین(ع) اپنے دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں:''التَّوفیق من جَذَبات الرَّب '' (2) توفیق خداوند تعالیٰ کے جذبات میں سے ہے۔

مذکورہ بیان کے رو سے انسان خدا کی بے شمار نعمتوں میں تفکر کے ذریعہ توفیقات کو اپنی طرف جذب کرکے درگاہ الہٰی کے مقربین سے مخصوص جذبہ ربّانی سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔البتہ اس امر کی جانب متوجہ رہیں کہ اہلبیت اطہار کا وجود مبارک نہ صرف خدا کی مہم ترین نعمت ہے ۔بلکہ ہم پرنازل ہونے والی ہر نعمت ان ہی مقدس ہستیوں کے طفیل ہے،یہ بزرگ ہستیاں وجہ تخلیق کائنات ہیں،اسی بناء پر اہلبیت عصمت و طہارت بالخصوص اس خاندان کی آخری کڑی حضرت امام زمان کے فضائل و مناقب میں تفکر و تامّل کے ذریعہ اپنی توفیقات میں اضافہ کریں۔اس صورت میں جذبہ رحمانی شامل حال ہوگا، اس صراط مستقیم پر عمل پیرا رہنے اور ان ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے سے آپ بلند مقام حاصل کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص۳۰۸

[2]۔ شرح غرر الحکم:ج۱ص۱۴۴

۲۱۶

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد اور عالی معنوی اہدا ف تک پہنچنے کے لئے ارادہ و تصمیم کے علاوہ توفیق کی قوت سے بہی بہرہ مند ہوں،توفیق راہنما کی حیثیت رکہتی ہے اسی وجہ سے اگرچہ یہ کامیابی کی علت تامہ نہیں ہے لیکن اس کے متحقق ہونے سے مؤثر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آپ کی ذمہ داری ہے کہ توفیق کے حصول کے لئے دعا کریں اور پہر توفیقحاصل ہونے پر اکتفاء نہ کریں بلکہ کوشش کریں کہ یہ حاصل ہونے والی توفیق ضائع نہ ہوجائے۔

خدا کی نعمتوں اور بالخصوص وجود اہلبیت اطہارعلیہم  السلام کی عظیم نعمت کے فضائل ومناقب میں تفکر کرنا ، توفیق کے مہم ترین عوامل میں سے ہے ،اپنی توفیقات میں اضافہ کے لئے حضرت بقیةاللہ (ارواحنا فداہ) کی عظمت پر تفکر کریں اور امام عصر کی غیبی امداد کو اپنے ذہن میں پروان چڑہائیں اس سے آپ کی توفیقات میں اضافہ ہوگا ،ضعف، سستی و کاہلی اور گناہوں کے ارتکاب سے فراہم ہونے والی توفیقات کو ضائع نہ ہونے دیں۔

راہ  جستن  ز تو ہدایت از او        جہد کردن زتو عنایت ا ز او

جہد بر  تو  است  و  بر خدا  توفیق     زآن کہ  توفیق  و جہد ہست رفیق

یعنی تم کسی راہ کا انتخاب کرو اور وہ تمہاری ہدایت کرے گا۔تم کوشش کرو ،خدا عنایت کرے گا۔ جدوجہد کرنا تمہاری ذمہ داری ہے  جب تم کوشش کرو گے تو خدا تمہیں توفیق عطا فرمائے گا۔کیونکہ توفیق اور کوشش ہمیشہ سے دوست ہیں۔

۲۱۷

تیرہواں باب

یقین

حضرت امیر المو منین علی علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' باالیَقین تد رَک غَایَة القصویٰ ' 'یقین کے ذریعہ مقصد کی انتہا حاصل ہوتی ہے ۔    یقین کی اہمیت    یقین کے آثار

   1 ۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

    مجلس مباہلہ میں حاضری

    ۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

   3 ۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

    یقین کو متزلزل کرنے والے امور

   1 ۔ شک و شبہ

   2 ۔ گناہ

    یقین کہودینا

    تحصیل یقین کے ذرائع

   1 ۔ کسب معارف

   2 ۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

   3 ۔ تہذیب و اصلاح نفس

    نتیجۂ بحث

۲۱۸

یقین کی اہمیت

یقین با عظمت عالم غیب کی طرف جانے کا آسان اور سیدہا راستہ ہے۔ یقین عالم ملکوت تک پہنچنے اور نا مرئی دنیا سے ارتباط کے لئے صراط مستقیم ہے۔ یقین تہذیب یافتہ اشخاص اور بزرگان کی اہم ترین صفات میں سے ہے، یقین اہلبیت اطہار کے اصحاب اور اللہ کے خاص بندوں کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔یقین ،انسان میں قوی ترین روحانی قوّت کو ایجاد کرتا ہے، یقین خاندان وحی سے ارتباط کا وسیلہ ہے، دل میں یقین کا وجود معنوی پیوند کے موانع کو برطرف کرتا ہے اور اہلبیت کے تقرب اور ان تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔یقین کی افزائش سے آپ اپنے دل کو ملائکہ کی قیامگاہ قرار دے کر اسے شیاطین کے شر اور وسوسوں سے نجات دے سکتے ہیں۔شیطان کے شر سے رہائی پانے کے بعد آپ کو بہت سے معنوی فیض حاصل ہوںگے۔اس صورت میں آپ کا دل نورانیت سے سرشار ہوجائیگا۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ (عج)  کے ظہور کے دن تمام لوگوں کے دل و جان میں یقین پیدا ہوجائیگا ، کیونکہ اس دن جب تاریخ کی قدیم ترین  عبات گاہ (خانہ کعبہ) سے حضرت قائم آل محمد (عج)  کی حیات بخش صدا لوگوں کی سماعتوں تک پہنچے گی توابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دلوںمیں خوف طاری ہوجائے گا ،حضرت بقیةاللہ اعظم  کے ظہور سے سب شیاطین ہلاک ہوجائیں گے۔ اس وقت لوگوں کے دل وسوسہ سے نجات پاجائیں گے اور ان کے دل و جان پر آرام و اطمینان کی حاکمیت ہوگی۔اس دن لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان میں اضافہ ہوگا۔اس دن یقین پیدا کرنے والے سب امور فراہم ہوجائیں  گے اور یقین کے ذریعہ سب کے باطن کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ ظہور کے وقت سب اہل یقین بن جائیں گے، ہم مقدمہ کے طور پر کچہ مطالب ذکر کرتے ہیں:  خدا وند متعال قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بارے میں فرماتا ہے:

۲۱۹

'' وَ کَذٰلکَ نری َابرَاهیمَ مَلَکوت السمٰوات وَالاَرض وَ لیَکون من المؤمنین''(1)

او ر اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان اور زمین کے اختیارات دکہاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

صفوان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا(ع)  سے پوچہا کہ خدا نے حضرت ابراہیم  (ع) کے بارے فرمایاہے:

'' اَوَ لَم نؤمن قَال بلیٰ وَ لٰکن لیَطمَئنَّ قَلبی '' (2)

کیا ابراہیم کو یقین نہیں تہا اور کیا ان کے دل میں شک و شبہہ موجود تہا؟

'' قَالَ لَا،کَانَ عَلیٰ یَقینٍ وَ لٰکن اَرادَ منَ اللّٰه الزّیَا دَةَ فی یَقینه ''(3)

حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا : نہیں ، انہیں یقین تہا لیکن اس نے خدا سے چاہا کہ اس کا یقین زیادہ ہوجائے۔

اس بناء پر حضرت ابراہیم  نے ملکوت آسمانی اور زمین کو دیکہا اور ان کے یقین میں اضافہ ہوا ملکوت آسمان و زمین کو دیکہنے کی وجہ سے ان کا یقین زیادہ ہوا ، پہر ان میں دوسروں  کے دلوں میں بہی یقین ایجاد کرنے کی قدرت پیدا ہو گئی۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کی حالت اور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت پر توجہ کریں کہ آنحضرت صاحب ملکوت ہیں وہ جلوہ ولایت و ملکوتی سے زمین و آسمان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کیا اس زمان کے لوگ یقین یقین حاصل نہیں کرسکتے؟پس عصر غیبت میں بہی ہر کوئی یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔یقین حاصل کرنے سے انسان شیطان پر حاکم بنسکتا ہے اور معنویت کے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ  آیت انعام:75

[2]۔ سورہ بقرہ  آیت:260

[3]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۱۷6

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259