کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 130%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153242 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خواہشات پر عقل کی حکومت

اگر چہ انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی باگ ڈورعقل کے حوالہ کردے۔

صرف یہی نہیں بلکہ جس وقت خواہشات پر عقل کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور خواہشات اسکے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تب بھی عقل کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہوتی ہے وہ حکم دیتی ہے ،انسان کو برے کامو ںسے روکتی ہے،اور خواہشات ،نفس کے اندرصرف وسوسہ پیدا کرتے ہیں حضرت علی نے فرمایاہے:

(للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجروتنهی )( ۱ )

''نفسوں کے اندرمختلف خواہشیں سر ابھارتی ہیںاور عقلیں ان سے مانع ہوتی ہیں اورانہیں روکتی رہتی ہیں''

آپ ہی سے منقول ہے :

(للقلوب خواطرسوئ،والعقل یزجرمنها )( ۲ )

''دلوںمیں برے خیالات آتے ہیں اور عقل ان سے روکتی رہتی ہے''

اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات کی بناء پر انسان کے نفس میں صرف برے خیالات،اوہام اور وسوسے جنم لیتے ہیں لیکن عقل کے پاس انہیں کنڑول کرنے نیز ان سے روکنے کا اختیار موجود ہے اور اس کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہے۔ اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایاہے:

(العقل الکامل قاهرللطبع السُّوئ )( ۳ )

''عقل کامل ،بری طبیعتوں پر غالب ہی رہتی ہے''

جسکا مطلب یہ ہوا کہ انسانی مزاج اور اسکا اخلاق، بے جا خواہشات کی بناء پر بگڑکرچاہے جتنی پستی میں چلاجائے تب بھی عقل کی حکومت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور عقل سلیم وکامل اپنے اندر

____________________

(۱)تحف العقول ص۹۶۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۳)بحار الانوارج۱۷ص۱۱۶۔

۲۱

ہر قسم کی بری طبیعت اور مزاج کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ اسلامی تربیت کا ایک اہم اصول ہے جسکے بارے میں ہم آئندہ تفصیل سے گفتگوکریں گے۔

انسان ،عقل اور خواہش کا مجموعہ

یہاں تک ہم اس واضح نتیجہ تک پہونچ چکے ہیں کہ خواہشیں کتنی ہی قوی اورموثر کیوں نہ ہوںلیکن وہ انسان سے اسکاارادہ اور قوت ارادی کونہیں چھین سکتی ہیں۔بشرطیکہ انسان عقل کو کامل بنالے اور معاملات زندگی میں عقل کو اہمیت دیتارہے کیونکہ انسان، عقل اور خواہشات سے مل کر بنا ہے لہٰذاعقل اور خواہشات کے باعث انسان ہمیشہ ترقی و تنزلی کی منزلیںطے کرتارہتاہے انسان اپنے معاملات حیات میں جس حد تک عقل کی حاکمیت کا قائل ہوگا اور اپنی عقل کے تکامل کی کوشش کرے گا اسی حد تک ترقی اور کمال کی جانب قدم بڑھائے گا اسکے برخلاف عقل کو بالکل نظر انداز کرکے اور اس سے غافل ہو کراگرخواہشات کوعقل پر ترجیح دے گاتو اسی کے مطابق پستیوں میں چلاجائے گا۔

لیکن حیوانات کی زندگی کا معاملہ انسان کے بالکل بر خلاف ہے کیونکہ ان کے یہاں کہیں سے کہیں تک عقل کا گذر نہیں ہے اوروہاںسوفیصد خواہشات کی حکومت ہوتی ہے گویا وہ صرف ایک سبب کے تابع ہوتے ہیںاوران کی زندگی صرف اسی ایک سبب کے تحت گذرتی ہے۔مولائے کائنات کا ارشاد ہے:

(إن ﷲ رکّب فی الملائکة عقلا ًبلا شهوة،ورکّب فی البهائم شهوةبلاعقل،ورکّب فی بنی آدم کلیهمافمن غلب عقله شهوته فهوخیرمن الملائکة،ومن غلبت شهوته عقله،فهوشرمن البهائم )( ۱ )

''خداوند عالم نے ملائکہ کو صرف عقل دی ہے مگرخواہشات نہیں دیںاورحیوانات

____________________

(۱)وسائل الشیعہ،کتاب الجھاد:جہاد النفس باب ۹ح۲۔

۲۲

کو خواہشات دی ہیں مگر عقل سے نہیں نوازا ،مگر اولاد آدم میں یہ دونوںچیزیں ایک ساتھ رکھی ہیں لہٰذا جسکی عقل اس کی خواہشوں پر غالب آجائے وہ ملائکہ سے بہتر ہے اور جس کی خواہشیں اسکی عقل پر غلبہ حاصل کرلیں وہ حیوانات سے بدتر ہے ''

خواہشات کی شدت اورکمزوری

اسلامی تہذیب کاایک اہم مسئلہ خواہشات کی شدت اورکمزوری کا بھی ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی خواہش نہایت مختصر اور کم ہواور ممکن ہے کہ بعض خواہشات بھڑک کرشدت اختیار کرلیں ۔ چنانچہ اگر یہ مختصر ہوگی تو اس پر عقل حاکم ہوگی اور آدمی ،انسان کامل بن جائے گا اوراگر یہی خواہشات شدت اختیار کرلیں تو پھر ان کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اور انسان،حیوانیت کی اس پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں صرف اور صرف خواہشات کا راج ہوتاہے اور عقل وشعور نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔

انسان چاہے اس حالت کے ماتحت ہو یا اس حالت کے ماتحت ہو ہرصورت میں خواہشات کی کمی یا زیادتی کا دارومدار خود انسان کے اوپر ہی ہوتا ہے کہ جب وہ خواہشات کا تابع ہوتاہے اور ان کے تمام مطالبات کو پورا کرتاہے تو خواہشات اور بھڑک اٹھتی ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیتی ہیںاور انسانی زندگی میں ایک مضبوط قوت کے روپ میں ابھرتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کاکردار بہت اہم ہوتا ہے۔

اوراسی کے برعکس جب انسان اپنی خواہشات پرپابندی لگاتارہے اوران کوہمیشہ حداعتدال میں رکھے اور خواہشات پرانسان کا غلبہ ہواور وہ عقل کے ماتحت ہوں تو پھر اسکی خواہشات ضعیف ہوجاتی ہیں اور انکا زور گھٹ جاتاہے ۔

ایک متقی کے اندر بھی وہی خواہشات ہوتے ہیں جو دوسروں کے اندر پائے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ متقی افراد خواہشات کو اپنی عقل و فہم کے ذریعہ اپنے قابو میں رکھتے ہیں جبکہ بے عمل افرادپر ان کے خواہشات حاکم ہوتے ہیں اورخواہشات ان کو قابو میںکرلیتے ہیں۔ اس دور اہے پر انسان کوکوئی ایک راستہ منتخب کرناہے وہ جسے چاہے اختیار کرے۔ خواہشات کو کچل کر ان کا مالک ومختا ر بن جائے یا انکی پیروی کرکے ان کاغلام ہوجائے۔

۲۳

آئندہ صفحات میں ہم خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ذکر کریںگے لیکن فی الحال آیات وروایات کی روشنی میں ان باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن سے خواہشات کی کمزوری یاشدت اور ان صفات کے اسباب کا علم حاصل ہوتاہے۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ﷲتعالیٰ ارشادفرماتاہے:

( ولکن ﷲ حبَّب لیکم الایمان وزیَّنه فی قلوبکم وکَرَّه إلیکم الکفروالفسوق والعصیان ) ( ۱ )

''لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

فسوق (برائی) کی یہ نفرت خداوند عالم نے مومنین کے دلوں میں پیداکی اور اہل تقویٰ اس سے ہمیشہ متنفر رہتے ہیںمگرفاسقین اس پرلڑنے مرنے کو تیار رہتے ہیں اسکے واسطے جان توڑ کوشش کرتے ہیں اور اس کی راہ میں بیش قیمت اشیاء کو قربان کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کس ذات نے اس برائی کو مومنین کی نظروں میں قابل نفرت بنادیا؟ کون ہے جس نے فاسقوں کی نگاہ میں اسے محبوب بنادیا؟یقینا خدا وند عالم ہی نے مومنین کو اس سے متنفر کیا ہے۔کیونکہ مومن کا دل خداکے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے لیکن برائیوں کو فاسقوں کیلئے پسندیدہ بنانے والی چیز خود ان برائیوں اور خواہشات کی تکمیل نیزان کوہرقیمت پر انجام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسکی بناپر وہ ان کی

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۴

من پسند چیز بن جاتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

(المداومة علیٰ الخیرکراهیة الشر )( ۱ )

''کار خیر کی پابند ی برائیوں سے بیزار و متنفر کرتی ہے''

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اگر مسلسل کا رخیر کی پابندی کی جاتی رہے تو خود بخود شر اور برائی سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے شر سے مراد انسان کی وہ خواہشات اور لذتیں ہیںجن کے پیچھے لوگ دوڑتے رہتے ہیں۔ یعنی فاسق اور گمراہ لوگ انھیں حرام خواہشات ولذائذ کے متلاشی رہتے ہیں۔

اس کے برعکس ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح کارخیرکی پابندی کے باعث برائی سے نفرت ہوجاتی ہے اسی طر ح یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ''برائیوں کی پابندی سے برائیوں کی محبت پیدا ہوجاتی ہے''

خطبہ متقین جو خطبہ ہمام کے نام سے مشہور ہے اس میں امیر المومنین کا یہ ارشاد ہے: (تراه قریباًأمله،قلیلاًزلَله،خاشعاًقلبه،قانعةنفسه،منزوراًأکله،سهلاًأمره، حریزاًدینه،میتةً شهوته،مکظوماًغیظه )( ۲ ) '' متقین کی پہچان یہ ہے کہ ان کی آرزوئیں بہت مختصر ،لغزشیںکم،دل خاشع،نفس قانع، غذا معمولی،معاملات آسان،دین محفوظ ،خواہشات مردہ اور غیظ و غضب اور غصہ ٹھنڈارہتاہے''

بیشک تقویٰ شہوات اور خواہشات کو مختصر اور سادہ بنا دیتا ہے جسکے نتیجہ میں حریص اور لالچی نفوس بھی متقی اور قانع ہو جاتے ہیںاور انکی خواہشات گھٹ کر گویا مردہ ہوجاتی ہیں۔

البتہ اس طرح کی روایات نقل کرنے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ تقویٰ ،خواہشات کو لگام

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۷۔

(۲)نہج البلا غہ خطبہ ۹۵(ہمام)

۲۵

لگاکر ایک دم روک دیتا ہے( اگر چہ یہ بات اپنی جگہ پر کسی حد تک درست ہے )۔بلکہ نفس کے اوپر تقویٰ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کو بہت ہی ہلکا اور سادہ بنادیتا ہے اور اسی مقصد کے تحت ہم نے مذکورہ روایات بیان کی ہیں اب حضرت علی سے مروی مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں جنہیں ہم بغیر کسی تبصرہ کے پیش کررہے ہیں:

(کلما قویت الحکمة،ضعفت الشهوة )( ۱ )

''جس قدر حکمت قوی ہوگی خواہش اتنی ہی کمزور ہوجائے گی''

(اذاکثرت المقدرة قلت الشهوة )( ۲ )

''جب قدرت زیادہ ہوگی تو شہوت کم ہوجائے گی''

(العفة تضعف الشهوة )( ۳ )

''عفت اور پاکدامنی شہوت کو کمزور بنادیتی ہے''

(من اشتاق الیٰ الجنة سلا من الشهوات )( ۴ )

''جو جنت کا مشتاق ہوا وہ خواہشات سے بری ہوگیا ''

(واذکرمع کل لذة زوالها،ومع کل نعمة انتقالها،ومع کل بلیة کشفها فن ذلک أبقیٰ للنعمة،وأنقیٰ للشهوة،وأذهب للبطر،وأقرب للفرج، وأجد ر بکشف الغمةودرک المأمول )( ۵ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۱۱۔

(۲)بحار الانوار ج۷۲ص۶۸ونہج البلاغہ حکمت ۲۴۴۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۱۸۔

(۴)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

(۵)غررالحکم۔

۲۶

''ہر لذت کے ساتھ اسکے زوال پر، ہر نعمت کے ساتھ اسکے منتقل ہونے اورہر بلاکے ساتھ اسکے رفع ہونے پر بھی نظر رکھو کیونکہ یہ نعمت کو تادیر باقی رہنے، شہوت کو صاف و پاکیزہ بنانے ،نعمت پر اترانے اور اسکی ناشکری کو ختم کرنے ،آسانی اور کشادگی کو قریب کرنے ،مشکلات اور پیچیدگیوں کودور کرنے نیزآرزووں کی تکمیل کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہے۔''

تقویٰ اورضبط نفس کاتسلط انسانی خواہشات اور آرزووں پر اس حد تک ہوتا ہے کہ وہ انسانی خواہشات کو حدود الٰہیہ کے سانچہ میں ڈھال دیتے ہیں جسکے بعد انسان صرف وہی چاہتااور پسند کرتا ہے جو خداوند عالم پسند کرتا ہے اور صرف اسی سے نفرت اور کراہت محسوس کرتا ہے جس سے خداوندعالم نفرت کرتاہے اور یہ انسانی نفس اور حدود الٰہیہ کے آپسی رابطہ کی آخری حد ہے اسی عجیب و غریب انقلاب کی طرف اس آیۂ کریمہ نے اشارہ کیا ہے :

(وکرَّه لیکم الکفر والفسوق والعصیان )( ۱ )

''اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

اس مرحلہ میں تقویٰ کاانسان پر صرف یہی اثر نہیںہوتا ہے کہ وہ کفر،فسق وفجور اور گناہ سے دوررہتا ہے بلکہ تقویٰ انسان کو ان باتوں سے متنفر بھی کردیتا ہے۔

انسانی زندگی میں خواہشات کا مثبت کردار

انسانی زندگی میں اسکی خواہشوں کی تباہ کاریوں کو دیکھنے کے بعد ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان کی اتنی تباہ کاریوںکے باوجودبھی خداوند عالم نے انسان کے اندر ان خواہشات کو کیوں پیدا کیا ہے؟اور ان کاکیا فائدہ ہے ان میںایساکونسا مثبت پہلو پایاجاتا ہے جسکی بناپر انہیں خلق کیا گیا ہے؟اگر چہ آئندہ ہم خواہشات کی تباہ کاریوں اور اسکے منفی اثرات کا جائزہ لیں گے

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۷

لیکن فی الحال اسکے مثبت اثرات اور فوائد کا تذکرہ کررہے ہیں۔

۱۔انسانی زندگی کا سب سے طاقتور محرک

انسانی خواہشات اس کی زندگی میں سب سے بڑا محرک ہیں کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے حیات انسانی کے اہم ترین پہلوئوں کو انہیں خواہشات سے جوڑدیا ہے اوریہی خواہشات اسکی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی ضامن ہیں۔

جیسے تولیدنسل، انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر انسان صفحہ ہستی سے نابود ہوکر رہ جائے گا۔لہٰذا افزائش نسل اوراسکی بقاکے لئے کوئی ایساذریعہ یا جذبہ در کار تھا جسکی بنا پر نسل انسانی باقی رہے۔چنانچہ اس اہم مسئلہ کو خداوند عالم نے جنسی خواہشات سے جوڑکر بقائے انسانیت کا سامان فراہم کردیا۔

اسی طرح جسمانی نشوونما کو کھانے پینے سے جوڑ دیا اگر آب ودانہ کی یہ خواہش نہ ہوتو انسانی جسم نمو نہیں پاسکتا اور مسلسل جد و جہد کی وجہ سے اسکے بدن میں جو کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اس کی کمی پوری نہیں ہوسکتی تھی اور اسکے بدن میں جو خلیے مردہ ہوجاتے ہیں ان کی جگہ زندہ خلیے حاصل نہ ہوپاتے۔

اسی طرح خدا وند عالم نے اجتماعی زندگی کے لئے نفس میں سماج کی جانب رغبت اوررجحان کا جذبہ رکھا ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتاتو سماجی زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی اور انسانی تہذیب و تمدن تارتار ہوجاتا۔

انسانی زندگی کے اقتصادی اور معاشی حصہ میں ملکیت اورمالکیت کا جذبہ کا رفرما رکھا ہے۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو پھر اقتصادی نظام بالکل برباد ہوجاتا ۔

جان ،مال،ناموس اورعزت و آبرو کے تحفظ کیلئے قوت غضب رکھی گئی ہے اگر انسان کے اندر یہ قوت نہ رہے تو پھر ہر سمت دشمنی کارواج ہوگا اور کہیںبھی امن وامان کا نام ونشان باقی نہ رہے گا

اسی طرح انسان کے وہ دوسرے تمام ضروریات جن کے بغیر اسکے لئے روئے زمین پر زندگی گذار ناممکن نہیںہے ان کے لئے بھی خداوند عالم نے کوئی نہ کوئی جذبہ اور خواہش ضرور رکھی ہے اور اسی خواہش کے ذریعہ ان ضروریات کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔

۲۸

۲۔خواہشات ترقی کا زینہ

خواہشات انسانی زندگی میں ترقی کا زینہ ہیںاسی کے ساتھ یہ وہ پھسلن بھرا راستہ بھی ہے جس پر چل کرانسان پستیوں میںبھی پہنچ سکتا ہے۔اوراسی زینہ کے ذریعہ خدا تک بھی پہونچ سکتا ہے یہی زینہ انسان کی ترقی اور تکامل میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔

قرب خدا کی جانب انسان کا سفر اور اسی طرح انسان کی نشو ونما کادارو مداراس کے ''ارادہ''پر ہے جبکہ جمادات ،حیوانات اورنباتات کی نشو و نما اور ان کاتکاملی سفر ایک فطری اور قہری انداز میں انجام پاتاہے۔اور اس میں ان کے کسی ارادہ کا دخل نہیں ہوتا ہے لیکن انسان کو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ یہ خاص شرف بخشا ہے کہ اس کی ہر حرکت ،ہر کام اسکے اپنے ارادہ واختیار کے تحت انجام پاتاہے ۔ انسان اور کائنات کی دوسری تمام اشیاء مشیت وارادہ ٔ الٰہی کے تابع ہیں اس اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے فرق صرف اتنا ساہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مشیت الٰہی کا تابع ہوتا ہے اوربقیہ کا ئنات فطری اورقہری طور پر یعنی اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر مشیت الٰہی کے مطابق چلتی رہتی ہے۔

احکام الٰہی در اصل خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ کا مظہر ہیں جن پر بندہ اپنے اختیار سے چلتا ہے اسی طرح سنن الٰہی بھی مشیت و ارادہ الٰہی کامظہر ہیں جن پر جمادات نباتا ت اور حیوانات اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر رواں دواں ہیں۔

اسی لئے انسان کو قرآن مجید میں:(خلیفة ﷲ)قرار دیا گیاہے( ۱ ) اور اسکے علاوہ پوری کائنات کو (مسخرات بأ مرہ)''اسکے حکم کی تابع ''کہا گیا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۳۰۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۵۴وسورئہ نحل آیت ۱۲و۷۹۔

۲۹

خلافت اور تسخیر کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور ایک لحاظ سے ان کے درمیان اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا مشترک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی مشیت و ارادئہ الٰہی کے تابع اور مطیع ہیں البتہ اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ خلیفہ خدا (انسان)اپنے ارادہ و اختیار سے حکم الٰہی کی پابندی کرتا ہے اور(والمسخرات بامرہ) تقریباًمشینی اندا ز میں اپنے کسی ارادہ و اختیار کے بغیر حکم خدا پر چلتے رہتے ہیں۔

اور یہی نکتہ انسان کی عظمت و بلندی کا راز ہے کیونکہ اگر وہ بھی اپنے قصد و ارادہ سے خداوند عالم کی اطاعت نہ کرتااور مجبور ہوتا تو پھر اسکے اور بقیہ پوری کائنات کے عمل میں کوئی فرق نہ ہوتااور اس کے عمل کو کسی قسم کا امتیاز یا برتری حاصل نہ ہوتی۔

اسی ارادی اور اختیاری اطاعت نے دیگر مخلوقات کے مقابل انسان کوخلافت الٰہیہ کا اہل بنایا ہے اور اسی بناء پر اسکے ہر عمل کی قدروقیمت بھی اسکی محنت و مشقت کے متناسب ہوتی ہے۔

چونکہ ارادی عمل میں جسمانی زحمت کے ساتھ نفسیاتی اور روحانی زحمت ومشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے لہٰذاخدا کے نزدیک اس عمل کی قدروقیمت زیادہ ہونی ہی چاہئے ۔ارادی عمل سے پیدا ہونے والی حرکت میں سرعت و استحکام بھی زیادہ ہونا چاہئے لہٰذا یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان تو کسی عمل کیلئے باقاعدہ زحمتیں اٹھائے اور دوسرا شخص بغیر کسی مشقت کے کوئی عمل انجام دے اور قدرو قیمت کے اعتبار سے دونوں برابر قرار د یدئے جائیں ۔

جیسے'' کھانے پینے'' اور'' روزہ رکھنے'' کے درمیان زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جبکہ چاہے کھانا پینا ہو اور یا روزہ ہو یہ سب اعمال قصد وارادہ اور حکم الٰہی کی اطاعت کے جذبہ سے انجام پاتے ہیں لیکن کھانے پینے میں چونکہ انسان کے ارادہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور اس میں اسے کسی قسم کی زحمت ومشقت نہیں ہوتی ہے اورچونکہ ہرعمل کی قیمت کا اندازہ اس عمل کی راہ میں ہونے والی اس محنت و مشقت کو دیکھکر لگایا جاتا ہے جو اس عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے درکار ہوتی ہے اور کیونکہ کھانے پینے میں ایسی کوئی خاص زحمت نہیں ہے لہٰذاروزہ کے برخلاف اس عمل کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے۔

جس عمل میں زحمت و مشقت کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس عمل کی قدروقیمت بھی اسی اعتبار سے بڑھتی رہے گی۔اور ایسا عمل انسانی ترقی اور قرب الٰہی کے سفر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے ۔ لہٰذا اصل حیثیت عمل پر صرف ہونے والی محنت ومشقت کی ہے اور اگر یہ محنت و مشقت نہ ہو تو پھر عمل بالکل بے قیمت ہوکر رہ جاتاہے۔

۳۰

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ زحمت ومشقت کیا ہے؟یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟اور اسکے درجات مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

اس زحمت و مشقت کودینی اصطلاح میں''ابتلا''یعنی امتحان اور آزمائش کہا جاتا ہے اور یہ زحمت و مشقت خواہشات اور آرزووںکے وقت ظاہرہوتی ہے کیونکہ اگر ہمارے وجود میں خداوند عالم کی ودیعت کردہ یہ خواہشات نہ ہوتیں یا اسی طرح ان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اطاعت ممکن ہوتی تو پھر ہمارے کسی عمل کی کوئی قیمت باقی نہ رہ جاتی اور کوئی عمل بھی قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بن سکتاتھا۔

اس ابتلاء اور مشقت کے درجات میں تفاوت در اصل خواہشات اور آرزووں کی شدت و ضعف یاکمی وزیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ خواہشات جتنی زیادہ طاقتور ہونگی ان پر قابو پانے کیلئے انسان کو اتنی ہی مشقت اٹھا ناپڑے گی( ۱ ) اور عمل کو انجام دینے کیلئے خواہشات نفس کی جتنی زیادہ مخالفت درکارہوتی ہے وہ عمل قرب خداکیلئے اتنا ہی بیش قیمت ہوتاہے اور اسی کے مطابق خداوندعالم اسے جنت میں ثواب عنایت فرما تاہے ۔

____________________

(۱)خواہشات کے بارے میں اسلام کا نظریۂ اعتدال واضح ہے اوراسے تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔مختصر یہ کہ:

اسلام نہ تومکمل طورپر خواہشات کا گلا گھو ٹنے کی اجازت دیتاہے اور نہ وہ انھیں مطلق العنا ن چھوڑنے کاقائل ہے بلکہ اسلام کا ہر انسان سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو شرعی احکام کے دائر ہ میں پورا کرتا رہے ۔

۳۱

اس وضاحت کے بعد بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے پروردگار کی جانب انسان کے ارتقائی سفر میں خواہشات کی کیا قدر وقیمت ہے کیونکہ قرب الٰہی کے ہر راہرو کو خواہشات اور آرزووںکے اس دلدل سے گذرناپڑے گاجسے خداوندعا لم نے ہر انسان کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے ۔

اس وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ جسطرح خواہشات پستی اور ہلاکت کا باعث ہیںاسی طرح خداوندعالم تک پہونچنے کا زینہ بھی ہیں یہ نظریہ اسلامی فکر کی امتیازی جدت کا ایک نمونہ ہے ۔

جس کی طرف متعدد روایات میں اشارہ پایاجا تا ہے مگرہم اس مقام پر بطور نمونہ صرف دوروایات ذکر کر رہے ہیں :

۱۔(عن أبی البجیر،وکان من أصحاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:اصاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یومًاجوع شدید،فوضع حجراً علیٰ بطنه ثم قال:''ألارُبَّ طاعمة،ناعمة،فی الدنیاجائعة،عاریةیوم القیامة،ألارُبَّ مکرم لنفسه،وهولها مهین،ألاربّ مهین لنفسه،وهولها مکرم،ألا یارب متخوض،متنعم،فیما أفاء ﷲعلیٰ رسوله،ماله عندﷲ من خلاق،ألاون''عمل الجنة''حَزْنة بربوة، ألاون'' عملالنار''سهلة بشهوة،ألایارب شهوة ساعةٍأورثت حزناًطویلا )( ۱ )

''پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی ابی بجیر کا بیان ہے کہ ایک روز آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبے حد بھوک لگی تھی تو آپ نے اپنے شکم مبارک پر پتھر رکھ لیا اور فرمایا :

نعمتوں کے خواہشمندکتنے ایسے افرادہیںجنہیں دنیا میں نعمتیں مل جاتی ہیں لیکن وہ قیامت کے دن بھوکے اور برہنہ ہونگے یا د رکھو! بظاہراپنے نفس کی عزت کرنے والے نہ جانے کتنے لوگ خودنفس کی توہین کرتے ہیں ۔اور نفس کو رسوا کرنے والے کتنے افراد ہیں جو دراصل نفس کی عزت

____________________

(۱)ذم الہویٰ لا بن الجوزی ص۳۸۔

۳۲

افزائی کرتے ہیں۔یاد رکھو! کتنے لوگ ان نعمتوں سے سرشار ہیںجو خداوندعالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمائی ہیں مگر خدا کے نزدیک ان کا کوئی مرتبہ نہیں ہے یادرکھو !کہ جنت والا عمل ''حزنہ بربوة' ( نا ہموار پہا ڑی پر چڑھنے کے مثل )ہے اور جہنمی اعمال خواہشات کے عین مطابق او ر آسان ہیں یا د رکھو! بسا اوقات ایک ساعت کی شہوت ،طویل حزن و ملال کاسبب ہوتی ہے۔''

اس روایت میں متعدد قابل توجہ فکر انگیز نکات پائے جاتے ہیں جن سے بیحد مفید نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں جیسے کتنے نفس ایسے ہیں کہ جب انہیں کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے تو انہیں وہ نعمت مل جاتی ہے مگر وہ اپنی خواہشات کی بناء پر حرام وحلال کی کوئی فکر نہیں کرتے ۔۔۔ایسے لوگ روز قیامت بھوکے اوربرہنہ لائے جائیں گے۔

اور اسی طرح بعض اپنی خواہشات اور آرزووں کو پورا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح اپنے نفس کی عزت و احترام میں اضافہ کررہے ہیں جب کہ در حقیقت وہ نفس کی توہین کرکے اسے تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے نفس کے ساتھ شدت اور سختی سے پیش آتے ہیں اورجب وہ کسی شہوت اور خواہش کی طرف آگے بڑھناچاہتاہے تو صرف اسے روکتے ہی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اسکی توہین و تذلیل بھی کرتے ہیںیہ عمل در حقیقت اپنے نفس کی عزت افزائی اور احترام ہے۔

اور کچھ ایسے ہیں جو بالکل اندھا دھنداپنی خواہشات میں ڈوبے رہتے ہیں انھیںصرف دنیاوی لذت سے مطلب ہے ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ ہاتھ آنے والانہیں ہے۔یہ لوگ آخرت کی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔

حدیث کے ان الفاظ پرمزید توجہ فرمائیں :

(ألا ون عمل الجنةحَزْنة بربوة )

''حزنة ربو ة'' والاعمل جنت میں لے جاتا ہے۔''

۳۳

''حزنہ'' ناہموار پتھریلی زمین اور'' ربوة'' اس پر چلنے کو کہا جاتا ہے۔جو شخص ناہمواراور پتھریلی پہاڑیوں پر چڑھتا ہے اسکا سانس پھول جاتا ہے اور ہمت جواب دینے لگتی ہے اور آخری منزل تک پہنچنے تک اسکو بیحد مشقتوں کا سامنا کر نا پڑتاہے جیسے دریا کے بہائو کے خلاف تیرنے میں انسان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے لیکن ہموار راستہ پر چلنا یا دریا کے رخ کے مطابق تیرنا نہایت ہی آسان کام ہے یہی حال جنت اور جہنم کے اعمال یعنی اطاعت و معصیت کا بھی ہے کہ گناہ کرتے وقت تو انسان آسانی کے ساتھ خواہشات کے بہائو میں بہتا رہتا ہے لیکن اطاعت خدا کرتے وقت اسے اپنے نفس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

۲۔ نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ مولائے کائنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کایہ قول نقل کیا ہے کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برابر یہ فرمایا کرتے تھے:

(ن الجنةحفت بالمکاره،ون النارحفت بالشهوات،واعلموا:نه مامن طاعة ﷲ شیٔ لایأتی فی کره،وما من معصیة ﷲ شیٔ لایاتی فی شهوة،فرحم ﷲامرأً نزع نفسه عن شهوته،وقمع هویٰ نفسه،فن هذه النفس أبعد شی منزعا،ونها لاتزال تنزع لی معصیة فی هویٰ )( ۱ )

'' جنت کے چاروں طرف مشکلات اور زحمتوں کا حصار ہے اور جہنم کے چاروں طرف شہوتوں (خواہشات )کا گھرائو ہے اور یہ یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں کچھ نہ کچھ زحمت اور ناگواری کا پہلو نہ ہو اور اسکی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں شہوت اور ہوی ٰوہوس شامل نہ ہو۔ ﷲ اس بندے پر رحمت نازل کرے جو اپنے نفس کو ہویٰ وہوس سے دور کرلے اور اپنی ہوس کو بالکل اکھاڑ پھینکے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ لے جانے والا ہے اور ہمیشہ

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۷۶

۳۴

گناہوں کی خواہش کی طرف ہی کھنچتا رہتا ہے''

یہ حدیث ہمارے اس نتیجہ کی بہترین دلیل ہے جسے ہم نے روایات سے اخذ کرکے یہاںپیش کیا ہے کیونکہ جنت و جہنم ہی ہر انسان کی آخری منزل ہے جوانسان خداوند عالم کی طرف محوحرکت ہے وہ جنت میں جائے گا اور جو اسکی نافرمانی کرے گا وہ انتہائی پستیوں میں پہنچ کر جہنم کا نوالہ بن جائے گا۔

جنت کے چاروں طرف مشکلات اور ناگوار یوں کے حصار کا مطلب یہ ہے کہ اس تک پہونچنے کے لئے انسان کو ہر طرح کی مشکلات سے گذر ناپڑتا ہے یعنی خواہشات اور ہوی وہوس پر قابو پانے ،تسلط حاصل کرنے اوراسے کچلنے کے لئے سخت زحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جبکہ جہنم کے ہر طرف خواہشات اور ہوی ٰو ہوس کا بسیراہے انسان خواہشات اور ہوی وہوس کے درمیان پھسل کرہی تنزلی اور پستیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں امیر المومنین نے ایک عام اصول ہمارے حوالے کردیا ہے:

(مامن طاعة ﷲ شیء لایاتیفی کره ،ومامن معصیة ﷲ شیء لایاتی فی شهوة )

'' ہر اطاعت خدا کے وقت کچھ نہ کچھ ناگواری ضرور محسوس ہوتی ہے اور ہر گناہ میں ہوس کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے ''

اطاعت الٰہی کرتے وقت نفس کو اسکی خواہشات و لذات اور ہویٰ و ہوس سے دور رکھنے کے لئے انسان کو ناگواری کا احساس ہوتاہے جبکہ وہ گناہوں میں لذت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس سے نفس کی ہوس اور خواہشات پوری ہوتی ہیں اور اسے کسی قسم کے اندرونی ٹکرائو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان تمام تفصیلات کے بعد یہ حقیقت بآسانی قبول کی جاسکتی ہے کہ انسان کے لئے خداوندعالم تک پہونچنے کی راہیں خواہشات اور لذتوں کی دشوار گذاروادیوں سے ہوکر ہی گذرتی ہیں اورانسان خواہشات کے زینہ سے ہی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا خداوند عالم تک پہونچتا ہے۔ اگرانسانی وجود میں یہ خواہشات نہ ہوتیں تو انسان کے لئے اس منزل معراج وکمال تک پہونچنا ہرگز آسان نہ ہوتا جس کااسے اہل قرار دیاگیا ہے۔

۳۵

عمل اور رد عمل کا سلسلہ

خداوند عالم نے انسانی وجود میں خواہشات کو ودیعت فرماکر اسکے لئے درحقیقت ایک ایساذخیرہ فراہم کردیا جس سے انسان اپنی ہر ضرورت پوری کر سکتاہے ۔جیسے پروردگار نے انسان کے لئے زمین کے اندر کھانے پینے اور لباس کی جملہ ضروریات ،سمندروں میں پینے اور سینچائی کے لئے پانی فضا میں ہوا اور سانس کے لئے مختلف اقسام کے ذخائر فراہم کردئیے کہ انسان ان تینوں عناصر سے حسب ضرورت آب و غذایا دوسرے خام مواد حاصل کرتاہے۔اسی طرح خداوند عالم نے ان خواہشات کے ضمن میں نفس انسانی کے اندر علم ومعرفت ،یقین اور بندگی کے خزانے بھی ودیعت فرمائے ہیں۔

نفسانی خواہشات در حقیقت حیوانی وجود کا مقدمہ ہیں اوران خواہشات کا اکثر حصہ حیوانات کے اندر پایا جاتا ہے صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ ان خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے ،انہیں روکنے یامحدود رکھنے کی صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہے اوراسی ارادہ کے ماتحت ہوجانے کے بعد یہ اڑیل اور خود سر حیوانی خصلتیں بھی بہترین روحانی اور اخلاقی فضائل و اقدار ،بصیرت ویقین، عزم واستقلال اور تقوی وپرہیزگاری جیسی حسین شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

وہ خواہشات جن سے انسان کے اندر حیوانی اور جسمانی پہلو کی تشکیل ہوتی ہے یہ جب کنٹرول اور قابو میں رکھنے والے اسباب کے ماتحت آتی ہیں تو اخلاقی اقدار میں تبدیل ہوجاتی ہیںاور وہی خواہشات اس کے ''انسانی''پہلو کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ خود سرحیوانی خواہشات تقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعہ کس طرح ان بلندوبالا انسانی اقدار میں تبدیل ہوتی ہیں اور تقوی و پرہیز گاری کی بنا پر نفس کے اندرکس قسم کے تغیرات اورتبدیلیاںرونماہوتے ہیں جو اس حیوانی خصلت کو علم ویقین اور صبر و بصیرت میں تبدیل کردیتے ہیں؟اسکا جواب ہمیں نہیں معلوم ہے۔

۳۶

بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایک تویہ کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے۔ اور مزیدافسوس یہ کہ علم ومعرفت کا یہ وسیع باب انسان کیلئے آج تک نہ کھل سکا اور قدیم وجدیدماہرین نفسیات یہاں تک کہ اسلامیات کے ماہرین میں سے کوئی بھی آج تک اس گتھی کو سلجھا نے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔

لیکن جب ہم خود اپنے نفس کے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اسکے اندربڑے پیمانہ پر رونما ہونے والے عمل اور رد عمل کے سلسلہ کا صاف اشارہ ملتاہے جیسے حیا ئ،جنسی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنے کا ''ذریعہ''ہی نہیں ہے بلکہ حیاء ان خواہشات کو کچلنے کا ''نتیجہ''بھی ہے۔چنانچہ انسان ادب،فن اور ذوق کے غیر اخلاقی مواقع پر جس حد تک جنسی خواہشات کو کچلتارہتاہے اس کی حیامیں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے ۔

ادب سے ہمار ی مراد ،ہرگز بدکاری نہیںہے البتہ وہ بلندپایہ ادب ،فن اور ذوق جس کی بناء انسان حیوانیت سے ممتاز ہوتاہے وہ اسی قوت برداشت اور تقوی کی بناء پر حاصل ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میں جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسکے اندر بھی ہمیں واضح طورپر اشارے ملتے ہیں جو ہمیںاپنے نفس کے بارے میں غور کرنے سے حاصل ہورہے تھے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( واتقواﷲ ویعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

۳۷

''یعنی تم پر ہیزگار اور متقی بن جائواور خداوند عالم تم کو دولت علم عطا فرمائے گا''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیت کا دوسرا جملہ( ویعلمکم ﷲ ) پہلے جملہ پر بغیرکسی رابطہ کے عطف کیا گیاہے اوران دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم و تقویٰ میں گہرا رابطہ ہے اور یہ دونوں جملے در حقیقت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ اور ایک ترازو کے دوپلڑوںکی طرح ہیں؟

جو شخص بھی قرآن مجید کے اسلوب سے باخبر ہے وہ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرسکتا اوروہ یقینی طورپر جانتاہے کہ یہ دونوں جملے ایک ہی ترازو کے دوپلڑوںکی مانند ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے بندوںکے لئے یہاں جس علم کاتذکرہ فرمایا ہے وہ علم تقویٰ کا ہی نتیجہ اور اثر ہے اور یہ علم اس علم سے بالکل مختلف ہے جسے ہم تعلیم کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ علم، نور ہے جو خداوند عالم اپنے جس بندے کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔

اس نور کی طرف سورئہ حدید کی یہ آیۂ کریمہ بھی اشارہ کر رہی ہے:

( یاأیهاالذین آمنواا تقواﷲ وآمنوابرسوله یؤتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''ایمان والو ﷲ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آو تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جسکی روشنی میں چل سکو''

اس نور سے مراد علم ہے لہٰذا سورئہ بقرہ اور سورئہ حدید دونوں مقامات پرعلم اور تقویٰ کے درمیان ایک جیسارابطہ پایا جاتا ہے۔

تقویٰ خواہشات کے طوفان کے سامنے بند باندھنے کا نام ہے اور خواہشات کے سامنے

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

۳۸

لگائی جانے والی یہی بندش ایک دن نور علم و بصیرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

جناب یوسف کے واقعہ کے ذیل میں ارشاد الٰہی ہے :

( ولمابلغ أشده آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۱ )

''اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہونچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

جناب موسیٰ کے قصہ میں بھی بعینہ یہی تذکرہ موجودہے :

( ولمابلغ أشده واستویٰ آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۲ )

''اور جب موسی جوانی کی توانائیوں کو پہونچے اور تندرست ہوگئے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کردی اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے جناب موسی اور جناب یوسف کو اس خاص انعام سے کیوں نواز ا دوسرے لوگوں کو یہ نعمت کیوں نہیں ملی؟کیاخدا یوں ہی بلاسبب اپنے بعض بندوں کو ایسے اعزاز سے نوازدیتاہے اور دوسروں کو محروم رکھتاہے؟یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب تبدیلیاں ثابت واستوار الٰہی سنتوں کے تحت انجام پاتی ہیں۔

جو لوگ قرآنی لہجہ سے واقف ہیں انھیں اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ ان دونوں آیتوں میں علم وحکمت کا تعلق ''احسان ''سے قراردیا گیا ہے۔ ''( وکذٰ لک نجزی المحسنین ) ''اور ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزادیاکرتے ہیں''تو جب وہ علم وحکمت جو جناب مو سی اور جناب یوسف کو خدا کی طرف سے عطا کی گئی ہے وہ سنت الٰہی کی بناء پر احسان سے

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت ۲۲

(۲)سورہ قصص آیت ۱۴

۳۹

مربوط ہے تو اسکے معنی یہ ہوئے کہ محسنین اپنے احسان اور حسن عمل کی وجہ سے ہی رحمت الٰہی کے مستحق ہوتے ہیںاور اسی بناء پر ان کو اسکی بارگاہ سے علم وحکمت کی دولت سے نوازا جاتا ہے۔لہٰذا اس استدلال کی درمیانی کڑیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ'' درحقیقت وہ احسان،علم وحکمت میں تبدیل ہوگیا ہے۔''

اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ تقوی اور خواہشات نفس کی مخالفت،احسان کا واضح ترین مصداق ہیں۔

فی الحال ہم اس موضوع کو مزید طول نہیں دے سکتے کیونکہ اس اہم موضوع کے لئے ہمارے پاس مناسب مقدار میں علمی مواد موجودنہیں ہے۔خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ کوئی ایسا صاحب علم و کمال پیدا ہوجائے جو بہترین انداز سے اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھا دے۔ کیونکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نفس کے اندرعمل اور رد عمل کا سلسلہ بالکل اسی طرح رونما ہوتارہتاہے جس طرح فیزکس،کیمسٹری اور زولوجی وغیرہ کے میدانوں میں دکھائی دیتاہے مثلاًحرارت حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور حرکت حرارت میں بدل جاتی ہے یا بجلی کی طاقت حرکت پیدا کردیتی ہے اور اسی حرکت سے بجلی بنائی جاتی ہے بالکل اسی طرح نفس کے اندربھی عمل اور رد عمل کا سلسلہ پایا جاتاہے جسکی طرف قرآن مجید کی بعض آیتوں میں سرسری اشارہ موجود ہے ،لہٰذااسلام سے تعلق رکھنے والے علم النفس کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفس کے اسرار سے پردہ ہٹاکر ان کے اصول وقوانین کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

خواہشات کا تخریبی کردار

خواہشات اور طاغوت

انسانی زند گی میںبربادی کاایک مرکز انسانی ہویٰ و ہوس اور خواہشات ہیں اور دوسرا مرکز طاغوت ہے انکے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ ہویٰ وہوس نفس کے اندر رہ کر تخریبی کا رروائی کرتی ہے اور طاغوت یہی کام نفس کے باہرسے انجام دیتا ہے اس طرح یہ دونوں انسان کو فتنہ وفسا داورتباہی کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔بس ان کاانداز جداہوتاہے۔

شیطان ان خواہشات کے ذریعہ انسان کے اندرداخل ہوکر اس پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے جبکہ سماج یا معاشرہ اور قوموں کے اوپر طاغوت کے ذریعہ اپنی گرفت مضبوط رکھتا ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

تجربات فراموش نہ کریں

عقل تجربات کی نگہدا ری کی اساس ہے ۔ جن کے پاس کامل قوت عقل نہ ہو وہ زندگی میں حاصل ہونے والے تجربات کو بہلا دیتے ہیں جن موارد میں ان تجربات سے استفادہ کرنا چا ہیئے وہ اصلاً گزشتہ تجربات کی طرف متوجہ نہیں ہو تے ۔ لیکن عقل مند کسی صورت میں بہی تجربہ سے حاصل ہونے والے درس کو فراموش نہیں کر تا ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) اپنی وصیت میں امام حسن مجتبیٰ(ع) سے فرماتے ہیں :

'' والعقل حفظ التجارب و خیرمٰا جرّبت ما وعظک '' (۱)

عقل مند ی تجربات کے محفووظ رکہنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو ۔

اس بناء پر تلخ یا شیریں، شخصی یا دوسروں سے حاصل ہو نے والے ، تمام تجربات کو محفوظ رکہنا اور ضروری موارد میں ان سے استفادہ کر نا ، انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے کیو نکہ تجربات کو محفوظ کرنا اور ان سے سبق سیکہنا ، قوت عقل سے صادر ہو تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا را لا نوار :ج۱ ص ۰ ۶ ۱ ،نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۱۴۱

حضرت امیر المو منین(ع)  ایک اور روا یت میں فرما تے ہیں :

'' من التّوفیق حفظ التجر بة '' (۱)

تجربات کو محفوظ کرنا توفیقات الٰہی میں سے ہے ۔

ہر حاصل ہونے والے تجربہ کو محفوظ کرو اگر چہ وہ دوسروں کے توسط سے ہی حاصل ہوا ہو ، اور ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کرو ۔ اس صورت میں تو فیق الٰہی انسان کے شامل حال ہو گی ، لہذا بہترین تجربہ وہ ہے کہ جس سے انسان درس لے ، عبرت لے اور اپنے آئندہ کے برناموں میں اس سے استفا دہ کرے ۔

پس اگر تجربہ فراموش کردیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور پہر اس سے مستفید نہیں ہو سکتے جس طرح تاریخ اپنے کو دہرا کے  بہت سے بہولے ہوئے مسائل کو زندہ کر دیتی ہے اسی طرح وقت گزرنے کے ساتہ ، زندگی کے اوراق کی  ورق گر دانی کرنے سے گزرے ہوئے تلخ تجربات بہی تکرار ہو تے ہیں اور گزشتہ تجربہ دوبارہ سے انسان کے ذہن میں نقش ہو جا تا ہے ۔

پس زندگی میں منتخب کئے گئے ہدف تک پہنچنے کے لئے حاصل ہونے والے تجربات کو محفوظ کریں اور ان سے پند و نصیحت لیں. نیز ایسا بہی نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے گزشتہ تلخ تجربات آپ کی زندگی میں دو بارہ تکرار ہو اور جس تجربہ و نتیجہ کا سالوں  پہلے سامنا ہوا تہا اب سالوں بعد پہر اس کا سامنا کرنا پڑے ۔

جی ہاں ! تجربات کو محفوظ کرنا اور  ضرورت کے وقت  ان اسے استفادہ کرنا بزرگان دین کی روش تہی چاہے انہیں وہ تجربات خود حاصل ہوئے ہوں یا انہوں نے دوسروں سے سیکہے ہو ں۔ اس برنامہ سے استفادہ کر تے ہوئے آ پ موجودہ فرصت سے بہترطور پر استفادہ کر سکتے ہیں اور بیشتر توفیقات کو اپنا مقدر بنا سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۲]۔ بحار الا نوار:ج ۶۹ص  ۱۰ ۴

۱۴۲

نتیجہ ٔ بحث

جو عظیم اہداف کی جستجو میں ہوں اور اعلیٰ علمی و عملی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں وہ تجربہ کے ذریعہ اپنی علمی و معنوی قدرت و قوت کر بڑہائیں ۔

تجربہ آپ کی علمی  وعملی قوت کی افزائش کرتا ہے ، کیو نکہ تجربہ کے ذریعہ آپ کی عقل تجربی میں اضافہ ہو تا ہے اور آپ پہر اپنے حقیقی دوستوں کو احسن طریقہ سے پہچان سکتے ہیں اور فریبیوں اور مکاروں کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

تجربہ کے ذریعہ آپ اپنے ماضی کے نقصان و کمی کا جبران اور اپنے آئندہ کو درخشاں بناسکتے ہیں ان کے علمی و عملی تجربات کی بنیاد پر ہے اپنے اور بزرگ شخصیات کے تجربات سے اپنی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کریں اور ان سے استفادہ کر تے ہوئے دنیا کی علمی و معنوی فضا میں پرواز کر یں ۔ اس بناء پر ہم سب تجربہ کے محتاج و ضرورت مند ہیں ۔

یک نصیحت بشنو از من کا ندر آن نبود غرض

چون کنی رأی مہمی ، تجربت از پیش کن

مصلحت از لفظ دینداری کا مل عقل جو

مشورت با رأی نزدیکان دور اندیش کن

جب کسی امر میں اپنی رائے کا اظہار کرو تو اپنے سابقہ تجربات سے کام لو،دینداری اور عقل کامل سے امور کی مصلحتوں کو جاننے کی کوشش کرو ہمیشہ دور اندیش دوستوں سے مشورہ لو۔

۱۴۳

نواں  باب

نفس  کی  مخالفت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' عظَم ملکٍ ملک النَّفس ''

عظیم ترین ملکیت نفس کی ملکیت ہے۔

    مخالفت نفس یا نفس پر حکومت

    عقل پر نفس کا غلبہ

    نفس کا معالجہ

    اصلاح نفس کے لئے دعا

    مخالفت نفس کی عادت

    اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا

    قدرت نفس

    نتیجۂ بحث

۱۴۴

مخالفت نفس یا نفس پر حکومت

انسان نفس کی مخالفت اور خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرنے سے ذہنوں سے بالاتر روحانی طاقت حاصل کر سکتا ہے اور روح کی عجیب قوت سے بہرہ مند ہو سکتا ہے انسان روحانی قوت کے تشکّل اور حصول سے اپنی اور دوسروں کی بہت سی مشکلات کو آسان کر سکتا ہے ۔

جس طرح نفس کی مخالفت یا نفس پر حکومت پراکندہ روحانی قوتوں کو جمع کرتی ہے اور انہیں فعال اور کارساز بنا تی ہے ۔

مخالفت نفس کو پانی کے سامنے باندہے گئے بند سے تشبیہ دے سکتے کہ جو نہ صرف اسے ضائع ہونے سے بچا تا ہے بلکہ پانی کے جمع ہونے کی صورت میں بجلی کی پیداوار کا بہترین ذریعہ بہی ہے کہ جس سے شہر روشن اوربڑے بڑے کارخانے آباد ہوتے ہیں ۔

اسی طرح نفس کی مخالفت انسان کی روحانی اور آسمانی قوتوں کو ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ روحانی قوت کے جمع ہونے کی صورت میں یہ ایک عام اور معمولی انسان کو صاحب ارادہ اور باشخصیت انسان میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

عقل اسی بند کی مانند ہے خداوند تعالی نے جسے انسان کی ذات میں قرار دیا ہے تاکہ اس  کے ذریعہ نفس کو لگام ڈال سکے اور روحانی قوتوںکو متمرکز کر سکے۔

کیا آپ نفس کی مخالفت سے اس عظیم روحانی طاقت سے استفادہ کرنے کو تیار ہیں جسے خداوند کریم نے آپ کے وجود میں قرار دیا ہے ؟

۱۴۵

جس طرح زمین کی گہرائیوں میں بہت سے قیمتی خزانے موجود ہیں ، اسی طرح ہماری نفسانی خواہشات کے پس پردہ بہی عجیب روحانی طاقتیں موجود ہیں ۔ جس طرح خاک اور مٹی کو ہٹانے کے بعد خزانے تک پہنچ سکتے ہیں ، اسی طرح نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرکے روح کی قوت حاصل کر سکتے ہیں ۔

جس طرح نفس کی موافقت روحانی قوت وطاقت کو نابود کر دیتی ہے اسی طرح نفس کی مخالفت اور خواہشات نفسانی کو ترک کرنے سے آپ میں روحانی طاقت ظاہر ہوگی اور آپ کا دل صاحب حیات بن جائے گا۔ اس صورت میں آپ ایسی بزرگ طاقت کے مالک بن جائیں گے کہ جس کے وجود کی وجہ سے آپ خود تعجب کریں گے ۔

حضرت رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

'' بمَوت النَّفس یَکون حَیَاة القَلب '' (۱)

نفس کی موت سے دل کو حیات ملتی ہے ۔

جب نفس سے حیوانی خصلت ختم ہوجائے تو رحمانی حالات اس میں مستقر ہوجاتے ہیں اور قلب کی حیات کا وقت آجاتا ہے ۔ اس روایت کے ضمن میں رسول اکرم(ص)  نے انوار معارف سے بیکراں دریا کو بیان فرمایا ہے حیات قلب سے روحانی ومعنوی توانائی  ایجاد ہوتی ہے اور بے مثال معنوی قدرت حاصل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار:ج ۷۰ص۱۹۳،مصباح الشریعہ: ۶۱

۱۴۶

عقل پر نفس کا غلبہ

قوت نفس اس قدر قوی و سرکش ہے کہ جو انسان کے فطری مسائل کو بہی تبدیل کر سکتا ہے اور اسے اپنے عزیز ترین اور قریبی ترین فرد کو قتل کرنے  کے لئے آمادہ کر سکتا ہے ۔ حالانکہ قرابتداروں سے محبت انسان کی فطرت وطبیعت میں شامل ہے ۔ لیکن نفس ان کی محبت کو دل سے نکال کر اس کی جگہ بغض و عداوت ڈال سکتا ہے قابیل وہ پہلا فرد ہے کہ جس سے یہ جنایت سرزد ہوئی اس بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے ۔

'' فَطَوَّعَت لَه نَفسَه قَتلَ اَخیه فَقَتَلَه فَاَ صبَحَ من الخَاسرینَ''(۱)

پہر اس کے نفس نے اسے بہائی کے قتل پر آمادہ کیا اور اس نے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا ۔

اس بناء پر نفس نہ صرف انسان کی صفات کو تغییر دے سکتا ہے بلکہ وسوسہ کہ ذریعہ انسان کے فطری مسائل کو بہی بدل سکتا ہے ۔ جس طرح قابیل نے اپنے دل میں ہابیل کی محبت کے بجائے اس کے لئے بغض و عداوت اور دشمنی کو جگہ دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] سورہ مائدہ آیت۳۰:

۱۴۷

اور اسے قتل کر کے اس کے خون سے اپنے ہاتہوں کو رنگین کیا۔ایسے موارد میں نفس عقل پرحکومت کرتا ہے ۔ کیونکہ کبہی نفس اتنا قوی ہوتا ہے کہ عقل اپنی تمام تر توانائی و طاقت کے باوجود ارشاد اور راہنمائی سے قاصر ہوتی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع)  فرماتے  ہیں :

'' وَکَم من عَقل ٍاَسیر تَحتَ هویٰ اَمیرٍ''(۱)

عقل کا نفس کے تابع اور نفس کا حاکم ہونا بہت زیادہ ہے ۔

بہت سے افراد بہت زیادہ عقلی قوت سے آراستہ ہوتے ہیں اور ذاتاً اعلیٰ اہداف تک پہنچنے کے لئے آمادہ و تیار ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ نہ صرف اس پر ارزش معنوی سرمایہ سے استفادہ کرتے ہیں بلکہ نفس امّارہ کی پیروی سے عقل کو نفس کے تابع کرتے ہیں اور عقل کی ارشاد وراہنمائی کی قدرت کو نابود کردیتے ہیں ،اسی بناء پر اپنے نفس کا علاج کریں اور عقل کو اس کی اسارت سے نجات دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۲۰۲

۱۴۸

نفس کا معالجہ

نفس ایک عجیب موجود ومخلوق ہے کیونکہ یہ انسان کو انسانیت کے بالاترین درجات تک  لے جاسکتا ہے جس طرح یہ اسے رذالت کے خوفناک درّوں میں قرار دے سکتا ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفس کو آزاد نہ چہوڑیں اور اس کی چاہت کو آزاد نہ چہوڑیں ۔

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

''  لَا تَدَع  النَّفسَ وَ هوَاها''(۱)

نفس اور خواہشات کو آزاد نہ چہوڑیں۔

کیونکہ نفس ایک عظیم قوت ہے لیکن سرکش اور نا فرمان ہمیں اس پر غالب آنا چاہیئے تا کہ اس کی قدرت سے استفادہ کرسکیں۔

امام صادق (ع) ایک روایت کے آخر میں نفس کی دوا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

'' وَکَفّ النَّفس  عَمَّا تَهوی دَوَاها''(۱)

نفس کو اس چیز سے روکنا کہ جس کی وہ ہوس یا خواہش کرے،نفس کی دوا ہے۔

نفس کے معالجہ سے اسے ایک سالم و رحمانی قدرت میں تبدیل کریں اور آپ کے وجود میں موجود اس روحانی قوّت سے بہرہ مند ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ اصول کافی:ج ۲ص ۳۳۶

۱۴۹

نفس کی مخالفت سے اپنے وجود میں بالقوة موجود قدرت اور عظیم قوّت کو فعلیت کی منزل پر لاکر آپ اس سے بہتر طریقہ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

جو اپنے مستقبل کو روشن و درخشان کرنا چاہیں وہ ولایت معصومین کے تابناک انوار سے منوّر ہوکر نفسانی حالات کو ختم کرکے ان میں تحول ایجاد کریں۔جب انسان اپنے نفسانی حالات کو تغیر دے تو اس کے معنوی حالات بہی تبدیل ہوجائیں گے۔

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

'' انَّ اللّٰه لَا غَیّر مَا بقَومٍ حتّٰی یغَیّروا  مَا باَنفسهم''(۱)

خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے۔

اس بناء پر معاشرے کی سرنوشت ،نیک بختی اور بد بختی کی بنیاد ان کے نفسانی خواہشات ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ رعد آیت:۱۱

۱۵۰

اصلاح نفس کے لئے دعا

ہوس نفسانی اور خواہشات نفسانی سے نجات کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا اور اہل بیت عصمت علیہم السلام سے متوسل ہوں ایسا کرنا بہت مئوثر ہے ۔ اسی وجہ سے اائمہ اطہار علیہم السلام  بہت سی روایات میں ہماری راہنمائی فرماتے ہیں کہ خواہشات نفسانی کے بر طرف ہونے کے لئے دعاکریں۔

نمونہ کے طور پر ہر شب چہار شنبہ پڑہی جانے والی دعا میں وارد ہوا ہے :

'' اللهم-----اَصلح مَا بَینی وَ بَینَکَ وَاجعَل هوَایَ فی تَقوٰکَ''(۱)

پروردگارا ! میرے اور اپنے درمیان اصلاح فرما اور میری خواہشات کو اپنی مخالفت سے پرہیز کی صورت میں قرار دے ۔

مہذب نفس کی خواہشات نفسانی تقوی الہی کے علاوہ کچہ نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اگر ہم پست نفسانی خواہشات سے دور رہنا چاہیں تو تہذیب نفس و اصلاح نفس اور خود سازی کی دعا کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار:ج ۱۹۳ص۹۰ ، البلد الامین۱۲۷ ، المصباح ۱۲۳

۱۵۱

مخالفت نفس کی عادت

جو عمل بہی نفس کی خاطر انجام پائے ، اگر چہ وہ بہت چہوٹا کام ہو تو وہ عمل روحانی طاقت کی کچہ مقدار کو زائل کر دیتا ہے نفس کی مخالفت سے انسان میں یہ قوت متمرکز ہوتی ہے کہ جس سے نورانیت ایجاد ہوتی ہے جس قدر نفس کی مخالفت زیادہ ہو اسی قدر روحانی قوت بہی بیشتر ہوجاتی ہے ۔ نفس کی مخالفت کے ہمراہ بہت سی مشکلات ا ور سختیاں بہی آتی ہیں کہ بہت سے لوگ ان ہی مشکلات کی  وجہ سے اس کام سے  ہاتہ روک لیتے ہیں دوسرا گروہ خواہشات نفسانی کے ساتہ مبارزہ آرائی کرتا ہے لیکن استقامت اور ثابت قدم نہ ہونے کی وجہ سے کچہ مدت کے بعد وہ اپنے کو آزاد چہوڑدیتا ہے اور پہر وہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچہے چل پڑتا ہے۔

ایک نکتہ کی جانب توجہ کرنے سے آپ ایسے افراد کو روحانی اعتبار سے تقویت دے سکتے ہیں اور جو اس راہ کو ادامہ نہیں دے سکے ، ان میں امید کی شمع روشن کر سکتے ہیں۔ وہ نکتہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی اہمیت سے عبارت ہے نفس کی مخالفت سے وجود میں آنے والی سختیاں اور زحمات نیک کاموں کے عادی ہوجانے سے بر طرف ہوجاتی ہیں کہ پہر مخالفت نفس کو ترک کرنا مشکل ہوجائے گا ، اسی وجہ سے حضرت امام باقر(ع) کا فرمان ہے :

'' عَوّدوا اَنفسَکم اَلخَیرَ'' (۱)

اپنے نفوس کو نیک کاموں کی عادت ڈالو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار :ج۴۶ ص۲۴۴،الخرائج۲۲۹

۱۵۲

کیونکہ نیک کاموں کی عادت سے نہ صرف انسان برے کاموں سے ہاتہ اٹہا لیتا ہے بلکہ نیک کاموں کی مزید عادت ڈالتا ہے اگرچہ وہ کام بہت مشکل اور پر زحمت ہی کیوں نہ ہو ں کسی بہی چیز کی عادت انسان کی ذات کا حصہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے ، پہر انہیں انجام دینا مشکل نہیں ہوتا بلکہ انہیں ترک کرنا رنج والم کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا کار خیر کو انجام دینے اور ان کی عادت سے آپ نہ صرف بہت آسانی سے نفس کی مخالفت کرسکتے ہیں ، بلکہ ان کی عادت ہوجانے سے ان کو ترک کرنا آپ کے لئے رنج آور ہوگا ۔

جب کوئی خائن شخص پہلی بار چوری یا کوئی اور خیانت انجام دے تو اس کا ضمیر شرم وگناہ محسوس کرے گا ، اس کا ضمیر قبول کر لے گا کہ اس کے نفس نے زشت وناپسندیدہ کام انجام دیا ہے لیکن گناہ کو تکرار کرنے سے آہستہ آہستہ اس میں سے احساس شرم وندامت ختم ہوجائے گی پہر گناہ کو انجام دینے سے اسے نہ گناہ وشرم کا احساس ہوگا بلکہ اس کی عادت پڑ جانے سے اس کو چہوڑنا بہی بہت مشکل ہوجائے گا ۔

جس طرح وقت گزرنے کے ساتہ ساتہ گناہ کو بارہا تکرار کرنے سے بعض اس کے عادی ہوجاتے ہیں پہر ان کے لئے ترک کرنا مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح اولیاء خدا اور اہل بیت کے تقرب کی راہ میں جستجو کوشش کرنے والوں کے لئے سخت عبادی برنامہ کو انجام دینے میں کوئی مشکل وزحمت نہیں ہوتی۔

بلکہ انہیں اس سے لگن ہوجاتی ہے کہ پہر وہ کسی صورت بہی اسے ترک نہیں کر سکتے مخصوصا ًجب وہ اپنے اور برنامہ کے مہم آثار کو جانتے ہوں تو اس طرح بعض افراد کے لئے مخالفت نفس مشکل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے لئے موافقت نفس مشکل ہوتی ہے۔

۱۵۳

بعض افراد کو مخالفت نفس کی عادت ڈالنے اور خواہشات نفسانی کو ختم کرنے کے لئے مرور زمان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ناگہانی تفسیر سے اپنے نفس میں تحول ایجاد کرتے ہیں اور ایک  نئی شخصیت  کے مالک بن جاتے ہیں۔ پوریا ولی ان ہی افراد میں سے ایک ہیں۔

پوریا ایک پہلوان تہا کہ اس کے شہر میں کوئی بہی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تہا وہ دوسرے شہروں میں جاکر بہی تمام پہلوانوں کو مغلوب کردیتا۔پہر اس نے دارالخلافہ جانے کا قصدکیا تاکہ وہاں جاکر بہی تمام پہلوانوں کو شکست دے اور خود ان کی جگہ بیٹہے۔

اس کی طاقت کا چرچابہت دور دور تک ہو ررہا تہا اسی وجہ سے جب اس نے دارالخلافہ جانے کا قصد کیا تو وہاں کے پہلوانوں کے دل میں اس کا بہت رعب بیٹہ گیا اور وہ مہموم  ومتفکر ہو گیا اس کی ماں نے پریشانی کی وجہ پوچہی تو ا س نے اپنی پریشانی کی علت بیان کی ۔

اس کی ماں ایک صالحہ اور بااعتقاد عورت تہی وہ متوسل ہوئی اورہر روز نذر کرتی وہ حلوا پکاتی اور شہر کے دروازے پر بیٹہے فقراء و مساکین میں  تقسیم کرتی ۔پہر ایک دن پوریا اس شہر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے دیکہا کہ ایک عورت بیٹہی ہے جس کے سامنے کچہ حلوا  پڑا ہے وہ قریب آیا اور پوچہا اس کی کتنی قیمت ہے؟ عورت نے کہا کہ فروخت کرنے کے لئے نہیںبلکہ نذر کی ہے؟

۱۵۴

عورت نے کہا : میرا بیٹا دارالخلافہ کا پہلوان ہے اور اب کسی پہلوان نے یہاں آکر اسے شکست دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ اگر ایسا ہو اتو ہمارا مال اور اعتبار دونوں برباد ہوجائیں گے ۔ پوریا نے دیکہا کہ وہ عورت حضرت حق سے متوسل ہوئی ہے یہاں اسے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی:

'' یا اَیّهاالَّذینَ اٰمَنوا کونوا اَنصَارَالله ''(۱)

اس نے سوچا کہ اس جوان کو پچہاڑدوں تو سلطان کے دارالحکومت کا پہلوان بن سکتا ہوں اور اگر اپنے نفس کو شکست دے دوں تو خدا کے دارالحکومت کا پہلوان بن جائوں گا پس اس نے اپنے آپ سے کہا کہ رضائے خدا کے لئے اس بوڑہی عورت کو ناامید نہیں کروں گا۔

پہر اس نے عورت کی طرف دیکہ کر کہا کہ ماں تمہاری نذر قبول ہو گئی۔ اس نے اپنے چالیس حامیوں میں  حلوا تقسیم کیا اور شہر میں وارد ہو گئے ۔

معین دن میں  دارلحکومت کا پہلوان ، ہواس باختہ پوریا کے ساتہ کشتی لڑنے کے لئے حاضر ہوا۔پوریا کے حامیوں نے اس سے کہا کہ ہم میدان میں جاکر اس کو سبق سکہاتے ہیں۔انہوں نے بہت اصرار کیا لیکن پوریانے قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ میرا کام ہے اور کسی دوسرے کو اس سے سروکار نہیں۔

پوریا میدان میں گیا وہ اپنے نفس کو ہرانے کی ہمت رکہتا تہا دارالحکومت کا پہلوان اس سے لڑنے کے لئے آیا ۔پوریا نے اپنے آپ کو سست  کرلیا اور اس کے حریف نے دیکہا کہ وہ بہت سست ہے اس کا دل قوی ہوگیا اس نے پوریا کو اٹہا کر زمین پر دے مارا اور اس کے سینہ پر بیٹہ گیا ۔ جب پوریا کی پیٹہ زمین پہ لگی تو اس کے لئے بہت سے راز منکشف ہو گئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ صف آیت :۱۴

۱۵۵

افتادگی  آموز اگر قابل فیضی         ہر گز نخورد آب زمینی کہ بلند است

اگرچہ اس جوان نے پوریا کو پچہاڑ دیا ۔ لیکن خدا نے اسے اولیاء پاک میں سے قرار دیا یہ شعر پوریا ولی کے سرود میں سے ہے ۔

گر بر نفس خود امیری مردی            وربر دگری نکتہ نگیری مردی

مردی نبود فتاد را پای زدن               گر دست فتادہ ای بگیری مردی

اگر تمہیں اپنے نفس پر اختیار ہواور دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو  تو تم مرد ہو،گرے ہوئے کو ٹہوکر مارنا مردانگی نہیں ہے  بلکہ گرے ہوئے کو تہامنا مردانگی ہے۔آپ بہی پوریا کی طرح پختہ عزم وارادہ اور خدا کی امداد اور مہربانی سے نفس کی مخالفت کر سکتے ہیں اور مختصر مدت میں اس پر قابو پا سکتے ہیں۔

۱۵۶

اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا

نفس کے بارے میں بحث بہت اہم ہے جالب اور قابل توجہ ہے جس کی تفصیل کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ۔ لیکن ہم خلاصتًا کہتے ہیں کہ جس طرح نفس ہمیں اپنے فطری مقام سے حیوانات کے درجہ پر گرادیتا ہے اسی طرح یہ ہمیں نورانی، روحانی اور ملکوتی ملکوت کے بلند مقام پر پہنچاسکتا ہے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فرماتے ہیں :

'' مَن اَصلَحَ نَفسَه مَلَکَها ''(۱)

جو اپنے نفس کی اصلاح کرے وہ اس کا مالک ہے ۔

جو اپنے نفس کا مالک ہوا وہ اس کی قوت و قدرت سے بہرہ مند ہوتا ہے ۔کیونکہ اصلاح وتہذیب نفس سے نفس عقل کے تابع ہوجاتا ہے ۔ اس وقت پست نفسانی خواہشات کنٹرول ہوجاتی ہیں حتی کہ نفسانی خطورات بہی آسانی سے صفحہ ذہن کو آلودہ نہیں کرسکتے ۔

اب اس وقت نفسانی خواہشات نیز گرائش رحمانی حاصل کر لیتی ہیں۔پہر آہستہ آہستہ نفس عقل کے ہمراہ اور ہمقدم ہوجائے گا پہر وہ عقل سے مبارزہ نہیں کرے گا بلکہ قوت عقلی کی پشتیبانی کرے گا جب آپ کی نفسانی قدرت مکمل طور پر قوہ عقلی کے ماتحت وتابع ہوجائے تو حالت( تروّح) ایجاد ہوتی ہے اس دوران آپ اپنے جسم سے مادیت کے آثار کو نکال سکتے ہیں  اور مادہ کے اثرات کو ختم کرکے خوبصورت اور جذاب ترین حالات ایجاد کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص۱۶۰

۱۵۷

قدرت نفس

بزرگوں میں  سے ایک بزرگ نفس کی قدرت یوں بیان کرتے ہیں ۔

نفس اپنے مقام میں خلّاقیت سے خالی نہیں ہے کیونکہ انشائ صور کرتا ہے اور اس وجہ سے خلاقیت حق کی صفت کا مظہر ہے ۔

اے عزیز ! تم میں بہی یہ مظہریت ہے لیکن تمہارا اثر مطلوب ضعیف ہے ،چونکہ تمہارا وجود ضعیف ہے۔ تم آگ کا دریا خلق کرتے ہو حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ صور خیالیہ اگر قوی ہوجائیں تو اثر پیدا کرتی ہیں انبیاء کے معجزات میں سے ایک قوت نفس تہی کہ جسے محض ارادہ کرنے سے خلق کردیتے تہے لیکن چونکہ ہمارا نفس ضیّق ہے جو اس سے بڑہ کر توان و قوت نہیں رکہتا اسی وجہ سے بہشت میں نفوس قوت پائیں گے پس ایسا کام کرو کہ یہ نفس اسی دنیا میں کامل ہوجائے

کیونکہ جب انسان کا نفس اصلاح وتکمیل کے ذریعہ خلّاقیہ قدرت سے آراستہ ہوگا محض فکر وخطور سے جس چیز کا ارداہ کرے اسے خارج میں متحقق کرسکے گا ۔

جی ہاں ! جس طرح حضرت امیرالمومنین (ع)  فرماتے ہیں :

'' مَن قَویَ عَلیٰ نَفسه تَنَاهٰی فی القدرَة''(۱) جو اپنے نفس پر قوی ہوجائے وہ قدرت کے لحاظ سے انتہاء کو پہنچ جا تا ہے

آپ بہی پختہ ، سنجیدہ عزم و ارادہ کے ذریعہ خداوند متعال سے مدد طلب کرکے اپنے نیک رفتاروکردار سے اپنے مستقبل میں عظیم تحول ایجاد کریں اور ایک جدید اور ممتاز قدرت وشخصیت حاصل کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۵۴

۱۵۸

نتیجۂ بحث

خداوند کریم نے انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ جو اپنے اندر موجود عظیم روحانی قدرت سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن انسان کا نفس اسے نابود اور برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نفس کی مخالفت خود سازی کے اساسی عوامل وشرائط میں سے ہے اپنے نفس کو کنٹرول کریں تاکہ عقلی قوت رشد وپرورش پائے آپ اپنے نفس کی مخالفت سے اپنی عقل کو قوی بنائیں اور نہ صرف اس قوت کو نابودی کے خطرے سے بچائیں بلکہ اسے فعال بنا کر خلاقیت بخشیں ۔

روحانی قوت کے لحاظ سے پیشرفت کرکے تکامل تک پہنچیں بلکہ کاملاً نفس کی مہار اپنے ہاتہوں میں لیں اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرکے اس کی اصلاح کریں تاکہ آپ کے وجود میں عجیب اور ذہنوں سے بالاتر قدرت فعال ہوجائے اور پہر اس سے استفادہ کریں اور بزرگان کی طرح روحانی قوت کے ذریعہ دین اور مکتب اہل بیت کی بہترین طریقے سے خدمت کریں۔

زد سحر طایرقدسم زسرصد رہ صفیر کرد             کہ در  این دا مگہ حادثہ آرام مگیر

بال بگشا وصفیر از شجر طوبی زن                    حیف باشد چوتو مرغی کہ اسیرقفسی

طائر قدسی ہمہ وقت یہ آواز دے رہا ہے کہ خبردار اے جال میں پہنسے پرندے آرام سے نہ بیٹہو بلکہ دام سے نکل جانے کی بہرپور کوشش کرو ،اور ہمیشہ بال و پر مارتے رہو تاکہ قفس سے آزاد ہوجائو لیکن صد افسوس کہ تم جال میں پہنس چکے ہو۔

۱۵۹

دسواں باب

صبر و استقامت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''مَرَارَة الصَّبرتَذهبهاَ حَلَاوَة الظَّفر ''

صبر کی تلخی کامیابی کی حلاوت و شیرینی ختم کر دیتی ہے ۔

    صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی

    صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث

    صبر حضرت ایوب (ع)

    اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا

    مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

    صبر قوت وقدرت کا باعث

    نتیجۂ بحث

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259