کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 130%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153296 / ڈاؤنلوڈ: 4718
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

تجربات فراموش نہ کریں

عقل تجربات کی نگہدا ری کی اساس ہے ۔ جن کے پاس کامل قوت عقل نہ ہو وہ زندگی میں حاصل ہونے والے تجربات کو بہلا دیتے ہیں جن موارد میں ان تجربات سے استفادہ کرنا چا ہیئے وہ اصلاً گزشتہ تجربات کی طرف متوجہ نہیں ہو تے ۔ لیکن عقل مند کسی صورت میں بہی تجربہ سے حاصل ہونے والے درس کو فراموش نہیں کر تا ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) اپنی وصیت میں امام حسن مجتبیٰ(ع) سے فرماتے ہیں :

'' والعقل حفظ التجارب و خیرمٰا جرّبت ما وعظک '' (۱)

عقل مند ی تجربات کے محفووظ رکہنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو ۔

اس بناء پر تلخ یا شیریں، شخصی یا دوسروں سے حاصل ہو نے والے ، تمام تجربات کو محفوظ رکہنا اور ضروری موارد میں ان سے استفادہ کر نا ، انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے کیو نکہ تجربات کو محفوظ کرنا اور ان سے سبق سیکہنا ، قوت عقل سے صادر ہو تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا را لا نوار :ج۱ ص ۰ ۶ ۱ ،نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۱۴۱

حضرت امیر المو منین(ع)  ایک اور روا یت میں فرما تے ہیں :

'' من التّوفیق حفظ التجر بة '' (۱)

تجربات کو محفوظ کرنا توفیقات الٰہی میں سے ہے ۔

ہر حاصل ہونے والے تجربہ کو محفوظ کرو اگر چہ وہ دوسروں کے توسط سے ہی حاصل ہوا ہو ، اور ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کرو ۔ اس صورت میں تو فیق الٰہی انسان کے شامل حال ہو گی ، لہذا بہترین تجربہ وہ ہے کہ جس سے انسان درس لے ، عبرت لے اور اپنے آئندہ کے برناموں میں اس سے استفا دہ کرے ۔

پس اگر تجربہ فراموش کردیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور پہر اس سے مستفید نہیں ہو سکتے جس طرح تاریخ اپنے کو دہرا کے  بہت سے بہولے ہوئے مسائل کو زندہ کر دیتی ہے اسی طرح وقت گزرنے کے ساتہ ، زندگی کے اوراق کی  ورق گر دانی کرنے سے گزرے ہوئے تلخ تجربات بہی تکرار ہو تے ہیں اور گزشتہ تجربہ دوبارہ سے انسان کے ذہن میں نقش ہو جا تا ہے ۔

پس زندگی میں منتخب کئے گئے ہدف تک پہنچنے کے لئے حاصل ہونے والے تجربات کو محفوظ کریں اور ان سے پند و نصیحت لیں. نیز ایسا بہی نہ ہو کہ غفلت کی وجہ سے گزشتہ تلخ تجربات آپ کی زندگی میں دو بارہ تکرار ہو اور جس تجربہ و نتیجہ کا سالوں  پہلے سامنا ہوا تہا اب سالوں بعد پہر اس کا سامنا کرنا پڑے ۔

جی ہاں ! تجربات کو محفوظ کرنا اور  ضرورت کے وقت  ان اسے استفادہ کرنا بزرگان دین کی روش تہی چاہے انہیں وہ تجربات خود حاصل ہوئے ہوں یا انہوں نے دوسروں سے سیکہے ہو ں۔ اس برنامہ سے استفادہ کر تے ہوئے آ پ موجودہ فرصت سے بہترطور پر استفادہ کر سکتے ہیں اور بیشتر توفیقات کو اپنا مقدر بنا سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۲]۔ بحار الا نوار:ج ۶۹ص  ۱۰ ۴

۱۴۲

نتیجہ ٔ بحث

جو عظیم اہداف کی جستجو میں ہوں اور اعلیٰ علمی و عملی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں وہ تجربہ کے ذریعہ اپنی علمی و معنوی قدرت و قوت کر بڑہائیں ۔

تجربہ آپ کی علمی  وعملی قوت کی افزائش کرتا ہے ، کیو نکہ تجربہ کے ذریعہ آپ کی عقل تجربی میں اضافہ ہو تا ہے اور آپ پہر اپنے حقیقی دوستوں کو احسن طریقہ سے پہچان سکتے ہیں اور فریبیوں اور مکاروں کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

تجربہ کے ذریعہ آپ اپنے ماضی کے نقصان و کمی کا جبران اور اپنے آئندہ کو درخشاں بناسکتے ہیں ان کے علمی و عملی تجربات کی بنیاد پر ہے اپنے اور بزرگ شخصیات کے تجربات سے اپنی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کریں اور ان سے استفادہ کر تے ہوئے دنیا کی علمی و معنوی فضا میں پرواز کر یں ۔ اس بناء پر ہم سب تجربہ کے محتاج و ضرورت مند ہیں ۔

یک نصیحت بشنو از من کا ندر آن نبود غرض

چون کنی رأی مہمی ، تجربت از پیش کن

مصلحت از لفظ دینداری کا مل عقل جو

مشورت با رأی نزدیکان دور اندیش کن

جب کسی امر میں اپنی رائے کا اظہار کرو تو اپنے سابقہ تجربات سے کام لو،دینداری اور عقل کامل سے امور کی مصلحتوں کو جاننے کی کوشش کرو ہمیشہ دور اندیش دوستوں سے مشورہ لو۔

۱۴۳

نواں  باب

نفس  کی  مخالفت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' عظَم ملکٍ ملک النَّفس ''

عظیم ترین ملکیت نفس کی ملکیت ہے۔

    مخالفت نفس یا نفس پر حکومت

    عقل پر نفس کا غلبہ

    نفس کا معالجہ

    اصلاح نفس کے لئے دعا

    مخالفت نفس کی عادت

    اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا

    قدرت نفس

    نتیجۂ بحث

۱۴۴

مخالفت نفس یا نفس پر حکومت

انسان نفس کی مخالفت اور خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرنے سے ذہنوں سے بالاتر روحانی طاقت حاصل کر سکتا ہے اور روح کی عجیب قوت سے بہرہ مند ہو سکتا ہے انسان روحانی قوت کے تشکّل اور حصول سے اپنی اور دوسروں کی بہت سی مشکلات کو آسان کر سکتا ہے ۔

جس طرح نفس کی مخالفت یا نفس پر حکومت پراکندہ روحانی قوتوں کو جمع کرتی ہے اور انہیں فعال اور کارساز بنا تی ہے ۔

مخالفت نفس کو پانی کے سامنے باندہے گئے بند سے تشبیہ دے سکتے کہ جو نہ صرف اسے ضائع ہونے سے بچا تا ہے بلکہ پانی کے جمع ہونے کی صورت میں بجلی کی پیداوار کا بہترین ذریعہ بہی ہے کہ جس سے شہر روشن اوربڑے بڑے کارخانے آباد ہوتے ہیں ۔

اسی طرح نفس کی مخالفت انسان کی روحانی اور آسمانی قوتوں کو ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ روحانی قوت کے جمع ہونے کی صورت میں یہ ایک عام اور معمولی انسان کو صاحب ارادہ اور باشخصیت انسان میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

عقل اسی بند کی مانند ہے خداوند تعالی نے جسے انسان کی ذات میں قرار دیا ہے تاکہ اس  کے ذریعہ نفس کو لگام ڈال سکے اور روحانی قوتوںکو متمرکز کر سکے۔

کیا آپ نفس کی مخالفت سے اس عظیم روحانی طاقت سے استفادہ کرنے کو تیار ہیں جسے خداوند کریم نے آپ کے وجود میں قرار دیا ہے ؟

۱۴۵

جس طرح زمین کی گہرائیوں میں بہت سے قیمتی خزانے موجود ہیں ، اسی طرح ہماری نفسانی خواہشات کے پس پردہ بہی عجیب روحانی طاقتیں موجود ہیں ۔ جس طرح خاک اور مٹی کو ہٹانے کے بعد خزانے تک پہنچ سکتے ہیں ، اسی طرح نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرکے روح کی قوت حاصل کر سکتے ہیں ۔

جس طرح نفس کی موافقت روحانی قوت وطاقت کو نابود کر دیتی ہے اسی طرح نفس کی مخالفت اور خواہشات نفسانی کو ترک کرنے سے آپ میں روحانی طاقت ظاہر ہوگی اور آپ کا دل صاحب حیات بن جائے گا۔ اس صورت میں آپ ایسی بزرگ طاقت کے مالک بن جائیں گے کہ جس کے وجود کی وجہ سے آپ خود تعجب کریں گے ۔

حضرت رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں:

'' بمَوت النَّفس یَکون حَیَاة القَلب '' (۱)

نفس کی موت سے دل کو حیات ملتی ہے ۔

جب نفس سے حیوانی خصلت ختم ہوجائے تو رحمانی حالات اس میں مستقر ہوجاتے ہیں اور قلب کی حیات کا وقت آجاتا ہے ۔ اس روایت کے ضمن میں رسول اکرم(ص)  نے انوار معارف سے بیکراں دریا کو بیان فرمایا ہے حیات قلب سے روحانی ومعنوی توانائی  ایجاد ہوتی ہے اور بے مثال معنوی قدرت حاصل ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار:ج ۷۰ص۱۹۳،مصباح الشریعہ: ۶۱

۱۴۶

عقل پر نفس کا غلبہ

قوت نفس اس قدر قوی و سرکش ہے کہ جو انسان کے فطری مسائل کو بہی تبدیل کر سکتا ہے اور اسے اپنے عزیز ترین اور قریبی ترین فرد کو قتل کرنے  کے لئے آمادہ کر سکتا ہے ۔ حالانکہ قرابتداروں سے محبت انسان کی فطرت وطبیعت میں شامل ہے ۔ لیکن نفس ان کی محبت کو دل سے نکال کر اس کی جگہ بغض و عداوت ڈال سکتا ہے قابیل وہ پہلا فرد ہے کہ جس سے یہ جنایت سرزد ہوئی اس بارے میں خداوند متعال فرماتا ہے ۔

'' فَطَوَّعَت لَه نَفسَه قَتلَ اَخیه فَقَتَلَه فَاَ صبَحَ من الخَاسرینَ''(۱)

پہر اس کے نفس نے اسے بہائی کے قتل پر آمادہ کیا اور اس نے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا ۔

اس بناء پر نفس نہ صرف انسان کی صفات کو تغییر دے سکتا ہے بلکہ وسوسہ کہ ذریعہ انسان کے فطری مسائل کو بہی بدل سکتا ہے ۔ جس طرح قابیل نے اپنے دل میں ہابیل کی محبت کے بجائے اس کے لئے بغض و عداوت اور دشمنی کو جگہ دی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] سورہ مائدہ آیت۳۰:

۱۴۷

اور اسے قتل کر کے اس کے خون سے اپنے ہاتہوں کو رنگین کیا۔ایسے موارد میں نفس عقل پرحکومت کرتا ہے ۔ کیونکہ کبہی نفس اتنا قوی ہوتا ہے کہ عقل اپنی تمام تر توانائی و طاقت کے باوجود ارشاد اور راہنمائی سے قاصر ہوتی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع)  فرماتے  ہیں :

'' وَکَم من عَقل ٍاَسیر تَحتَ هویٰ اَمیرٍ''(۱)

عقل کا نفس کے تابع اور نفس کا حاکم ہونا بہت زیادہ ہے ۔

بہت سے افراد بہت زیادہ عقلی قوت سے آراستہ ہوتے ہیں اور ذاتاً اعلیٰ اہداف تک پہنچنے کے لئے آمادہ و تیار ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ نہ صرف اس پر ارزش معنوی سرمایہ سے استفادہ کرتے ہیں بلکہ نفس امّارہ کی پیروی سے عقل کو نفس کے تابع کرتے ہیں اور عقل کی ارشاد وراہنمائی کی قدرت کو نابود کردیتے ہیں ،اسی بناء پر اپنے نفس کا علاج کریں اور عقل کو اس کی اسارت سے نجات دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۲۰۲

۱۴۸

نفس کا معالجہ

نفس ایک عجیب موجود ومخلوق ہے کیونکہ یہ انسان کو انسانیت کے بالاترین درجات تک  لے جاسکتا ہے جس طرح یہ اسے رذالت کے خوفناک درّوں میں قرار دے سکتا ہے انسان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفس کو آزاد نہ چہوڑیں اور اس کی چاہت کو آزاد نہ چہوڑیں ۔

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

''  لَا تَدَع  النَّفسَ وَ هوَاها''(۱)

نفس اور خواہشات کو آزاد نہ چہوڑیں۔

کیونکہ نفس ایک عظیم قوت ہے لیکن سرکش اور نا فرمان ہمیں اس پر غالب آنا چاہیئے تا کہ اس کی قدرت سے استفادہ کرسکیں۔

امام صادق (ع) ایک روایت کے آخر میں نفس کی دوا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

'' وَکَفّ النَّفس  عَمَّا تَهوی دَوَاها''(۱)

نفس کو اس چیز سے روکنا کہ جس کی وہ ہوس یا خواہش کرے،نفس کی دوا ہے۔

نفس کے معالجہ سے اسے ایک سالم و رحمانی قدرت میں تبدیل کریں اور آپ کے وجود میں موجود اس روحانی قوّت سے بہرہ مند ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ اصول کافی:ج ۲ص ۳۳۶

۱۴۹

نفس کی مخالفت سے اپنے وجود میں بالقوة موجود قدرت اور عظیم قوّت کو فعلیت کی منزل پر لاکر آپ اس سے بہتر طریقہ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

جو اپنے مستقبل کو روشن و درخشان کرنا چاہیں وہ ولایت معصومین کے تابناک انوار سے منوّر ہوکر نفسانی حالات کو ختم کرکے ان میں تحول ایجاد کریں۔جب انسان اپنے نفسانی حالات کو تغیر دے تو اس کے معنوی حالات بہی تبدیل ہوجائیں گے۔

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

'' انَّ اللّٰه لَا غَیّر مَا بقَومٍ حتّٰی یغَیّروا  مَا باَنفسهم''(۱)

خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے۔

اس بناء پر معاشرے کی سرنوشت ،نیک بختی اور بد بختی کی بنیاد ان کے نفسانی خواہشات ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ رعد آیت:۱۱

۱۵۰

اصلاح نفس کے لئے دعا

ہوس نفسانی اور خواہشات نفسانی سے نجات کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا اور اہل بیت عصمت علیہم السلام سے متوسل ہوں ایسا کرنا بہت مئوثر ہے ۔ اسی وجہ سے اائمہ اطہار علیہم السلام  بہت سی روایات میں ہماری راہنمائی فرماتے ہیں کہ خواہشات نفسانی کے بر طرف ہونے کے لئے دعاکریں۔

نمونہ کے طور پر ہر شب چہار شنبہ پڑہی جانے والی دعا میں وارد ہوا ہے :

'' اللهم-----اَصلح مَا بَینی وَ بَینَکَ وَاجعَل هوَایَ فی تَقوٰکَ''(۱)

پروردگارا ! میرے اور اپنے درمیان اصلاح فرما اور میری خواہشات کو اپنی مخالفت سے پرہیز کی صورت میں قرار دے ۔

مہذب نفس کی خواہشات نفسانی تقوی الہی کے علاوہ کچہ نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اگر ہم پست نفسانی خواہشات سے دور رہنا چاہیں تو تہذیب نفس و اصلاح نفس اور خود سازی کی دعا کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار:ج ۱۹۳ص۹۰ ، البلد الامین۱۲۷ ، المصباح ۱۲۳

۱۵۱

مخالفت نفس کی عادت

جو عمل بہی نفس کی خاطر انجام پائے ، اگر چہ وہ بہت چہوٹا کام ہو تو وہ عمل روحانی طاقت کی کچہ مقدار کو زائل کر دیتا ہے نفس کی مخالفت سے انسان میں یہ قوت متمرکز ہوتی ہے کہ جس سے نورانیت ایجاد ہوتی ہے جس قدر نفس کی مخالفت زیادہ ہو اسی قدر روحانی قوت بہی بیشتر ہوجاتی ہے ۔ نفس کی مخالفت کے ہمراہ بہت سی مشکلات ا ور سختیاں بہی آتی ہیں کہ بہت سے لوگ ان ہی مشکلات کی  وجہ سے اس کام سے  ہاتہ روک لیتے ہیں دوسرا گروہ خواہشات نفسانی کے ساتہ مبارزہ آرائی کرتا ہے لیکن استقامت اور ثابت قدم نہ ہونے کی وجہ سے کچہ مدت کے بعد وہ اپنے کو آزاد چہوڑدیتا ہے اور پہر وہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچہے چل پڑتا ہے۔

ایک نکتہ کی جانب توجہ کرنے سے آپ ایسے افراد کو روحانی اعتبار سے تقویت دے سکتے ہیں اور جو اس راہ کو ادامہ نہیں دے سکے ، ان میں امید کی شمع روشن کر سکتے ہیں۔ وہ نکتہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی اہمیت سے عبارت ہے نفس کی مخالفت سے وجود میں آنے والی سختیاں اور زحمات نیک کاموں کے عادی ہوجانے سے بر طرف ہوجاتی ہیں کہ پہر مخالفت نفس کو ترک کرنا مشکل ہوجائے گا ، اسی وجہ سے حضرت امام باقر(ع) کا فرمان ہے :

'' عَوّدوا اَنفسَکم اَلخَیرَ'' (۱)

اپنے نفوس کو نیک کاموں کی عادت ڈالو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار :ج۴۶ ص۲۴۴،الخرائج۲۲۹

۱۵۲

کیونکہ نیک کاموں کی عادت سے نہ صرف انسان برے کاموں سے ہاتہ اٹہا لیتا ہے بلکہ نیک کاموں کی مزید عادت ڈالتا ہے اگرچہ وہ کام بہت مشکل اور پر زحمت ہی کیوں نہ ہو ں کسی بہی چیز کی عادت انسان کی ذات کا حصہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے ، پہر انہیں انجام دینا مشکل نہیں ہوتا بلکہ انہیں ترک کرنا رنج والم کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا کار خیر کو انجام دینے اور ان کی عادت سے آپ نہ صرف بہت آسانی سے نفس کی مخالفت کرسکتے ہیں ، بلکہ ان کی عادت ہوجانے سے ان کو ترک کرنا آپ کے لئے رنج آور ہوگا ۔

جب کوئی خائن شخص پہلی بار چوری یا کوئی اور خیانت انجام دے تو اس کا ضمیر شرم وگناہ محسوس کرے گا ، اس کا ضمیر قبول کر لے گا کہ اس کے نفس نے زشت وناپسندیدہ کام انجام دیا ہے لیکن گناہ کو تکرار کرنے سے آہستہ آہستہ اس میں سے احساس شرم وندامت ختم ہوجائے گی پہر گناہ کو انجام دینے سے اسے نہ گناہ وشرم کا احساس ہوگا بلکہ اس کی عادت پڑ جانے سے اس کو چہوڑنا بہی بہت مشکل ہوجائے گا ۔

جس طرح وقت گزرنے کے ساتہ ساتہ گناہ کو بارہا تکرار کرنے سے بعض اس کے عادی ہوجاتے ہیں پہر ان کے لئے ترک کرنا مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح اولیاء خدا اور اہل بیت کے تقرب کی راہ میں جستجو کوشش کرنے والوں کے لئے سخت عبادی برنامہ کو انجام دینے میں کوئی مشکل وزحمت نہیں ہوتی۔

بلکہ انہیں اس سے لگن ہوجاتی ہے کہ پہر وہ کسی صورت بہی اسے ترک نہیں کر سکتے مخصوصا ًجب وہ اپنے اور برنامہ کے مہم آثار کو جانتے ہوں تو اس طرح بعض افراد کے لئے مخالفت نفس مشکل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے لئے موافقت نفس مشکل ہوتی ہے۔

۱۵۳

بعض افراد کو مخالفت نفس کی عادت ڈالنے اور خواہشات نفسانی کو ختم کرنے کے لئے مرور زمان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ناگہانی تفسیر سے اپنے نفس میں تحول ایجاد کرتے ہیں اور ایک  نئی شخصیت  کے مالک بن جاتے ہیں۔ پوریا ولی ان ہی افراد میں سے ایک ہیں۔

پوریا ایک پہلوان تہا کہ اس کے شہر میں کوئی بہی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تہا وہ دوسرے شہروں میں جاکر بہی تمام پہلوانوں کو مغلوب کردیتا۔پہر اس نے دارالخلافہ جانے کا قصدکیا تاکہ وہاں جاکر بہی تمام پہلوانوں کو شکست دے اور خود ان کی جگہ بیٹہے۔

اس کی طاقت کا چرچابہت دور دور تک ہو ررہا تہا اسی وجہ سے جب اس نے دارالخلافہ جانے کا قصد کیا تو وہاں کے پہلوانوں کے دل میں اس کا بہت رعب بیٹہ گیا اور وہ مہموم  ومتفکر ہو گیا اس کی ماں نے پریشانی کی وجہ پوچہی تو ا س نے اپنی پریشانی کی علت بیان کی ۔

اس کی ماں ایک صالحہ اور بااعتقاد عورت تہی وہ متوسل ہوئی اورہر روز نذر کرتی وہ حلوا پکاتی اور شہر کے دروازے پر بیٹہے فقراء و مساکین میں  تقسیم کرتی ۔پہر ایک دن پوریا اس شہر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے دیکہا کہ ایک عورت بیٹہی ہے جس کے سامنے کچہ حلوا  پڑا ہے وہ قریب آیا اور پوچہا اس کی کتنی قیمت ہے؟ عورت نے کہا کہ فروخت کرنے کے لئے نہیںبلکہ نذر کی ہے؟

۱۵۴

عورت نے کہا : میرا بیٹا دارالخلافہ کا پہلوان ہے اور اب کسی پہلوان نے یہاں آکر اسے شکست دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ اگر ایسا ہو اتو ہمارا مال اور اعتبار دونوں برباد ہوجائیں گے ۔ پوریا نے دیکہا کہ وہ عورت حضرت حق سے متوسل ہوئی ہے یہاں اسے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی:

'' یا اَیّهاالَّذینَ اٰمَنوا کونوا اَنصَارَالله ''(۱)

اس نے سوچا کہ اس جوان کو پچہاڑدوں تو سلطان کے دارالحکومت کا پہلوان بن سکتا ہوں اور اگر اپنے نفس کو شکست دے دوں تو خدا کے دارالحکومت کا پہلوان بن جائوں گا پس اس نے اپنے آپ سے کہا کہ رضائے خدا کے لئے اس بوڑہی عورت کو ناامید نہیں کروں گا۔

پہر اس نے عورت کی طرف دیکہ کر کہا کہ ماں تمہاری نذر قبول ہو گئی۔ اس نے اپنے چالیس حامیوں میں  حلوا تقسیم کیا اور شہر میں وارد ہو گئے ۔

معین دن میں  دارلحکومت کا پہلوان ، ہواس باختہ پوریا کے ساتہ کشتی لڑنے کے لئے حاضر ہوا۔پوریا کے حامیوں نے اس سے کہا کہ ہم میدان میں جاکر اس کو سبق سکہاتے ہیں۔انہوں نے بہت اصرار کیا لیکن پوریانے قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ میرا کام ہے اور کسی دوسرے کو اس سے سروکار نہیں۔

پوریا میدان میں گیا وہ اپنے نفس کو ہرانے کی ہمت رکہتا تہا دارالحکومت کا پہلوان اس سے لڑنے کے لئے آیا ۔پوریا نے اپنے آپ کو سست  کرلیا اور اس کے حریف نے دیکہا کہ وہ بہت سست ہے اس کا دل قوی ہوگیا اس نے پوریا کو اٹہا کر زمین پر دے مارا اور اس کے سینہ پر بیٹہ گیا ۔ جب پوریا کی پیٹہ زمین پہ لگی تو اس کے لئے بہت سے راز منکشف ہو گئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ صف آیت :۱۴

۱۵۵

افتادگی  آموز اگر قابل فیضی         ہر گز نخورد آب زمینی کہ بلند است

اگرچہ اس جوان نے پوریا کو پچہاڑ دیا ۔ لیکن خدا نے اسے اولیاء پاک میں سے قرار دیا یہ شعر پوریا ولی کے سرود میں سے ہے ۔

گر بر نفس خود امیری مردی            وربر دگری نکتہ نگیری مردی

مردی نبود فتاد را پای زدن               گر دست فتادہ ای بگیری مردی

اگر تمہیں اپنے نفس پر اختیار ہواور دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو  تو تم مرد ہو،گرے ہوئے کو ٹہوکر مارنا مردانگی نہیں ہے  بلکہ گرے ہوئے کو تہامنا مردانگی ہے۔آپ بہی پوریا کی طرح پختہ عزم وارادہ اور خدا کی امداد اور مہربانی سے نفس کی مخالفت کر سکتے ہیں اور مختصر مدت میں اس پر قابو پا سکتے ہیں۔

۱۵۶

اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا

نفس کے بارے میں بحث بہت اہم ہے جالب اور قابل توجہ ہے جس کی تفصیل کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ۔ لیکن ہم خلاصتًا کہتے ہیں کہ جس طرح نفس ہمیں اپنے فطری مقام سے حیوانات کے درجہ پر گرادیتا ہے اسی طرح یہ ہمیں نورانی، روحانی اور ملکوتی ملکوت کے بلند مقام پر پہنچاسکتا ہے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فرماتے ہیں :

'' مَن اَصلَحَ نَفسَه مَلَکَها ''(۱)

جو اپنے نفس کی اصلاح کرے وہ اس کا مالک ہے ۔

جو اپنے نفس کا مالک ہوا وہ اس کی قوت و قدرت سے بہرہ مند ہوتا ہے ۔کیونکہ اصلاح وتہذیب نفس سے نفس عقل کے تابع ہوجاتا ہے ۔ اس وقت پست نفسانی خواہشات کنٹرول ہوجاتی ہیں حتی کہ نفسانی خطورات بہی آسانی سے صفحہ ذہن کو آلودہ نہیں کرسکتے ۔

اب اس وقت نفسانی خواہشات نیز گرائش رحمانی حاصل کر لیتی ہیں۔پہر آہستہ آہستہ نفس عقل کے ہمراہ اور ہمقدم ہوجائے گا پہر وہ عقل سے مبارزہ نہیں کرے گا بلکہ قوت عقلی کی پشتیبانی کرے گا جب آپ کی نفسانی قدرت مکمل طور پر قوہ عقلی کے ماتحت وتابع ہوجائے تو حالت( تروّح) ایجاد ہوتی ہے اس دوران آپ اپنے جسم سے مادیت کے آثار کو نکال سکتے ہیں  اور مادہ کے اثرات کو ختم کرکے خوبصورت اور جذاب ترین حالات ایجاد کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص۱۶۰

۱۵۷

قدرت نفس

بزرگوں میں  سے ایک بزرگ نفس کی قدرت یوں بیان کرتے ہیں ۔

نفس اپنے مقام میں خلّاقیت سے خالی نہیں ہے کیونکہ انشائ صور کرتا ہے اور اس وجہ سے خلاقیت حق کی صفت کا مظہر ہے ۔

اے عزیز ! تم میں بہی یہ مظہریت ہے لیکن تمہارا اثر مطلوب ضعیف ہے ،چونکہ تمہارا وجود ضعیف ہے۔ تم آگ کا دریا خلق کرتے ہو حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ صور خیالیہ اگر قوی ہوجائیں تو اثر پیدا کرتی ہیں انبیاء کے معجزات میں سے ایک قوت نفس تہی کہ جسے محض ارادہ کرنے سے خلق کردیتے تہے لیکن چونکہ ہمارا نفس ضیّق ہے جو اس سے بڑہ کر توان و قوت نہیں رکہتا اسی وجہ سے بہشت میں نفوس قوت پائیں گے پس ایسا کام کرو کہ یہ نفس اسی دنیا میں کامل ہوجائے

کیونکہ جب انسان کا نفس اصلاح وتکمیل کے ذریعہ خلّاقیہ قدرت سے آراستہ ہوگا محض فکر وخطور سے جس چیز کا ارداہ کرے اسے خارج میں متحقق کرسکے گا ۔

جی ہاں ! جس طرح حضرت امیرالمومنین (ع)  فرماتے ہیں :

'' مَن قَویَ عَلیٰ نَفسه تَنَاهٰی فی القدرَة''(۱) جو اپنے نفس پر قوی ہوجائے وہ قدرت کے لحاظ سے انتہاء کو پہنچ جا تا ہے

آپ بہی پختہ ، سنجیدہ عزم و ارادہ کے ذریعہ خداوند متعال سے مدد طلب کرکے اپنے نیک رفتاروکردار سے اپنے مستقبل میں عظیم تحول ایجاد کریں اور ایک جدید اور ممتاز قدرت وشخصیت حاصل کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ شرح غرر الحکم: ج ۵ ص۱۵۴

۱۵۸

نتیجۂ بحث

خداوند کریم نے انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ جو اپنے اندر موجود عظیم روحانی قدرت سے استفادہ کر سکتا ہے لیکن انسان کا نفس اسے نابود اور برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔نفس کی مخالفت خود سازی کے اساسی عوامل وشرائط میں سے ہے اپنے نفس کو کنٹرول کریں تاکہ عقلی قوت رشد وپرورش پائے آپ اپنے نفس کی مخالفت سے اپنی عقل کو قوی بنائیں اور نہ صرف اس قوت کو نابودی کے خطرے سے بچائیں بلکہ اسے فعال بنا کر خلاقیت بخشیں ۔

روحانی قوت کے لحاظ سے پیشرفت کرکے تکامل تک پہنچیں بلکہ کاملاً نفس کی مہار اپنے ہاتہوں میں لیں اور خواہشات نفسانی کی مخالفت کرکے اس کی اصلاح کریں تاکہ آپ کے وجود میں عجیب اور ذہنوں سے بالاتر قدرت فعال ہوجائے اور پہر اس سے استفادہ کریں اور بزرگان کی طرح روحانی قوت کے ذریعہ دین اور مکتب اہل بیت کی بہترین طریقے سے خدمت کریں۔

زد سحر طایرقدسم زسرصد رہ صفیر کرد             کہ در  این دا مگہ حادثہ آرام مگیر

بال بگشا وصفیر از شجر طوبی زن                    حیف باشد چوتو مرغی کہ اسیرقفسی

طائر قدسی ہمہ وقت یہ آواز دے رہا ہے کہ خبردار اے جال میں پہنسے پرندے آرام سے نہ بیٹہو بلکہ دام سے نکل جانے کی بہرپور کوشش کرو ،اور ہمیشہ بال و پر مارتے رہو تاکہ قفس سے آزاد ہوجائو لیکن صد افسوس کہ تم جال میں پہنس چکے ہو۔

۱۵۹

دسواں باب

صبر و استقامت

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

''مَرَارَة الصَّبرتَذهبهاَ حَلَاوَة الظَّفر ''

صبر کی تلخی کامیابی کی حلاوت و شیرینی ختم کر دیتی ہے ۔

    صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی

    صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث

    صبر حضرت ایوب (ع)

    اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا

    مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

    صبر قوت وقدرت کا باعث

    نتیجۂ بحث

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259