کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155923 / ڈاؤنلوڈ: 5070
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۱ ۔ ایک نسخہ شیخ کاشف الغطاء کے کتاب خانہ نجف اشرف میں ۔

۲ ۔ایک نسخہ جناب مرزا محمد علی اردوبادی کے کتاب خانہ نجف اشرف میں ۔

۳ ۔ ایک نسخہ جناب محدث نوری کے کتاب خانہ نجف اشرف میں کہ انہوں نے کتاب مستدرک میں اس سے کثرت سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۴ ۔ ایک نسخہ جناب علامہ امینی کے کتاب خانہ نجف اشرف میں کہ جس کی تاریخ کتابت ۳/ شوال ۹۵۶ ھئق ہے۔(۲)

۵ ۔ ایک نسخہ آیة اللہ مرعشی کے کتاب خانہ قم میں جس کا شمارہ ۴۹۰۳ ہے، کہ جس کے ۴۸۲ صفحات ہیں اور اس کے کتابت کی تاریخ گیارہویں صدی ہجری سے مربوط ہے ۔(۳)

اس کی فوٹو کاپی کتاب خانہ موسہ آل البیت قم میں ہے جس کا شمارہ ۵۲۰۹ ( قفسہ ۲۹ ردیف ۱۷۶ ش ۱۹) ہے ۔

یہ کتاب پہلی مرتبہ ماہ رمضان ۱۴۱۹ ھئقم میں ۷۰۴ صفحات کے ساتھ قم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ۔

یہ کتاب مزار کبیر کے نام سے مشہور ہوئی اور زیارت کے متعلق جامع ترین کتاب

________________________

۱۔الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ،آغا بزرگ طھرانی، ج۲۰،ص ۳۲۴۔

۲۔طبقات اعلام الشیعہ، آغا بزرگ طھرانی، قرن ششم ،ص۲۵۳۔

۳۔ فہرست کتاب خانہ آیة اللہ مرعشی ،سید احمد حسینی اشکوری ،ج۱۳،ص۸۳۔

۴۱

ہے۔ جو مختلف طولانی زمانے اور صدیوں کے حوادث سے محفوظ رہی ہے اور ہمارے زمانے تک باقی ہے ۔

آٹھ صدی کی طویل مدت اس کی تاریخ تالیف سے گزرچکی ہے ،یہ کتاب ہمیشہ اکابر علمائے شیعہ کے مورد اعتماد رہی ہے اور ہر وہ صاحبان کتاب کہ جنہوں نے اس آٹھ صدی کے دوران دعاوزیارت کے متعلق کتاب تحریر کی انہوں نے واسطہ یا بغیر واسطہ کے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے ۔

ابن مشہدی اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:

”میں نے اس کتاب میں مقامات مقدسہ کی زیارات و اعمال ،مساجد کے اعمال ، منتخب دعائیں اور واجب نمازوں کی تعقیبات کی جمع آوری کی ہے جو متصل سند کے ساتھ مورد اعتماد راویوں کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہے ۔“(۱)

آیة اللہ خوئی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:

”یہ جملہ صراحت کے ساتھ ان تمام راویوں کی وثاقت پر دلالت کرتا ہے جو اس کتاب کے سلسلہ سند میں واقع ہوئے ہیں۔“(۲)

جناب آقا بزرگ تہرانی نے مجموعاً راویانِ حدیث کے پندرہ افراد کا استخراج کیا ہے اور ان کی وثاقت کا حکم لگایا ہے ۔(۳)

________________________

۱۔ المزار الکبیر ،ابو عبد اللہ محمد بن جعفر ابن مشہدی ،ص۲۷۔

۲۔ معجم رجال الحدیث ،سید ابو القاسم خوئی ،ج۱،ص ۶۵۔

۳۔ الذریعہ ،آغا بزرگ تہرانی ،ج۲۰،ص ۳۲۴۔

۴۲

ابن مشہدی اس کتاب میں ،دعائے ندبہ کو بہ عنوان ”وہ دعا جو حضرت صاحب الزمان کے لیے سزاوار ہے کہ چارعظیم عیدوں :عید فطر،عید قربان، عید غدیر اور عید جمعہ میں پڑھی جائے “ذکر کیا ہے۔

انہوں نے اس کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن یعقوب بن ابی قرّہ کے توسط سے کتاب بزوفری سے نقل کیا ہے ۔

دعائے ندبہ کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی کے نسخہ میں صفحہ ۸۲۱ سے ۸۳۷ تک اور آل البیت کے نسخہ میں صفحہ ۸۳۱ سے ۸۴۷ تک اور مطبوعہ نسخہ میں ۵۷۳ سے ۵۸۴ تک ذکر ہوئی ہے ۔(۱)

۴ ۔ صاحب کتاب مزار قدیم

مزار قدیم بھی گراں قدر اور بہت عظیم کتاب ہے کہ اس کے مولف بھی ابن مشہدی صاحب کے ہم عصر تھے

اس کتاب میں بہت سی دعائیں اور زیارتیں ہیں جو کسی دوسرے منابع میں نہیں مل سکتیں۔ اس کے مولف اپنے استاد کے ذریعہ ” مہدی بن ابی حرب حسینی“ الشیخ ابو علی (فرزند شیخ طوسی )سے روایت کرتے ہیں:

اس بیان کے مطابق وہ شیخ طبرسی رحمة اللہ علیہ صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ۔(۲)

________________________

۱۔صفحات کے اختلاف کا ارتباط شمارہ گزار ی سے ہے ورنہ نسخہ آ ل البیت کتاب خانہ مرعشی کے نسخہ کی فوٹو کاپی ہے۔

۲۔الذریعہ ،آغابزرگ تہرانی ،ص۳۲۲۔

۴۳

اس کتاب کا ایک خطی نسخہ کتاب خانہ آیة اللہ مرعشی میں شمارہ ۴۶۲،۱۸۱ صفحات میں موجود ہے ۔(۱)

مزار قدیم کے مولف اپنی اس گراں بہا یاد گاری کتاب میں دعائے ندبہ کو محمد بن علی بن ابی قرّہ کے توسط سے ،کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بزوفری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”یہ دعا حضرت صاحب الزمان کے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں کے شب و روز میں پڑھی جائے ۔“

اس نسخہ میں دعائے ندبہ ۱۷۳ صفحہ سے شروع ہوتی ہے اور ۱۷۶ صفحہ تک ختم ہوتی ہے ۔

اس بات کے پیش نظر کہ کتاب مزار قدیم کے مولف غیر معروف ہیں لہذا اس پر ایک موثق منبع کے عنوان سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا ، صرف اسے ابن مشہدی کی نقل کے لیے ابن ابی قرّہ اور بزوفری سے بطور تائید قرار دیا جا سکتا ہے ۔

۵ ۔ رضی الدین علی ابن موسیٰ ابن طاووس حلّی

سید ابن طاووس نے اپنی گراں قدر کتاب مصباح الزائر میں حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی زیارتوں کے حصّے میں چھ زیارات نقل کی ہےں ،اس وقت دعائے ندبہ کو ساتویں زیارت کے عنوان سے ”محمد بن علی بن ابی قرّہ“ کے نقل کے مطابق ”محمد

_______________________

۱۔ فہرست کتابخانہ آیت مرعشی ، سید احمد حسینی اشکوری ،ج۲،ص ۶۸۔

۴۴

بن حسین بن سنان بزوفری “ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے :

”یہ دعا حضرت صاحب الزمان سے متعلق ہے اور مستحب ہے کہ چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے ۔ “(۱)

اسی طرح آپ کتاب اقبال میں بھی اسلامی عیدوں کی دعاؤں کی ایک مخصوص تعداد شمار کر تے ہوئے کہتے ہیں:

”ایک دوسری دعا ہے جو نماز عید کے بعد اور تمام چارعظیم عیدوں میں پڑھی جاتی ہے ۔“(۲)

اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کرتے ہیں اور آخر میں مزید فرماتے ہیں:

”جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو پروردگار کے مقابل سجدہ کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور کہو:

جو کچھ ہم نے امام جعفر صادق سے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ فرمایا: اس دعا کے بعد اپنا داہنا رخسار زمین پر رکھو اور کہو ”سیدی ،سیدیکم من عتیق لک ای عزیز ای جمیل “۔(۳)

اس تعبیر سے استفادہ ہوتا ہے کہ سید ابن طاووس نے مزار کبیر کے علاوہ دعائے

________________________

۱۔ مصباح الزائر ،سید علی بن موسیٰ ابن طاووس ،ص۴۴۶۔ ۴۵۳۔

۲۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۵۔

۳۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۲۹۹۔

۴۵

ندبہ کو دسرے طریقہ سے نقل کیا ہے ،اس لیے کہ مزار کبیر اور مزار قدیم میں یہ آخری حصہ موجود نہیں ہے اور سید نے تصریح کی ہے کہ اسے اپنی اسناد کے ساتھ امام صادق سے روایت کی ہے ۔

سید ابن طاووس عید قربان کے اعمال بیان کرتے وقت ان دعاؤں کو نقل کرتے ہیں کہ جسے نماز عید سے واپس ہونے کے بعد پڑھا جاتا ہے ،پھر کہتے ہیں:”منجملہ ان دعاؤں میں سے کہ جسے نماز عید قرباں کے بعد پڑھا جاتا ہے دعائے ندبہ ہے کہ جسے عید فطر کے باب میں ہم نے بیان کیا ہے “۔(۱)

۶ ۔ علی ابن علی ابن موسیٰ ابن طاووس

علی ابن علی ،فرزند سید ابن طاووس(۲) نے کتاب زوائد الفوائد(۳) میں دعائے ندبہ کو اپنے پدربزرگوار سے نقل کیا ہے ۔(۴)

_______________________

۱۔ اقبال الاعمال ،سید علی بن موسی ابن طاووس ،ص۴۴۹۔

۲۔ فرزند سید ابن طاووس ان کے پدر بزرگوار کی تحریر کے مطابق جمعہ کے دن ۸محرم ۶۴۷ھء ق نجف اشرف میں پیدا ہوئے (کشف المحجة ص۶۴۹) اور۶۸۰ھء ق میں ان کے بھائی جلال الدین محمد کے انتقال کے وقت سادات کی نقابت حاصل کی۔ (طبقات اعلام الشیعہ قرن ہفتم ،ص۱۰۷)

۳۔ اس کتاب کا خطی نسخہ سید محمد مشکات کے کتاب خانہ تہران میں موجود ہے۔(الذریعہ ،ج۱۲،ص ۶۰)

۴۔زوائد الفوائد ،علی بن علی بن موسیٰ حلی ،ص۴۹۳،نسخہ خطی کتاب خانہ مرکزی دانشگاہ تہران۔

۷۔علامہ محمد باقر مجلسی

۴۶

علامہ مجلسی نے دعائے ندبہ کو اپنی گراں قدر کتاب بحار الانوار میں مصباح الزائر کے نقل کے مطابق سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔(۱) اور آخر میں رقم طراز ہیں :

محمد بن مشہدی نے مزار کبیر میں کہا ہے : محمد بن علی بن ابی قرّہ کا قول ہے :

”میں نے دعائے ندبہ کو کتاب ابو جعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے۔“(۲)

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد میں بھی دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے اور اس کے آغاز میں کہتے ہیں:

”لیکن دعائے ندبہ جو برحق عقائد پر مشتمل ہے اور حضرت قائم کی غیبت پر اظہار افسوس ہے ،معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اس دعا ئے ندبہ کو چارعظیم عیدوں میں پڑھنا سنت ہے یعنی جمعہ ،عید فطر ،عید قرباں اور عید غدیر۔“(۳)

علامہ مجلسی اسی طرح کتاب تحفة الزائر میں سرداب مقدس کے اعمال کے بعد کہتے ہیں:

____________________

۱۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،ج۱۰۲،ص۱۰۴۔ ۱۱۰۔

۲۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۱۰۲،ص۱۱۰۔

۳۔ زاد المعاد ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۸۶۔

۴۷

”سید اور شیخ محمد بن مشہدی نے محمد بن علی بن (ابی) قرّہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے نقل کیا ہے کہ ”دعائے ندبہ“ جو صاحب الزمان سے متعلق ہے مستحب ہے اسے چار عظیم عیدوں میں پڑھی جائے اور وہ دعا یہ ہے “۔

اس وقت دعائے ندبہ کو نقل کیا ہے ۔(۱)

جیسا کہ قارئین کرام نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ علامہ مجلسی نے ،کتاب زاد المعاد میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ دعائے ندبہ معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے روایت ہوئی ہے ،اور کتاب تحفة الزائر کے مقدمہ میں اس بات کے پابند ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں صرف زیارات، ادعیہ اور ان آداب کو ذکر کریں گے جو معتبر اسناد کے ذریعہ ائمہ دین سے منقول ہےں ۔(۲)

۸ ۔ سید محمد طباطبائی یزدی

علامہ جلیل القدر ،صدر الدین سید محمد طباطبائی یزدی (متوفیٰ ۱۱۵۴ ھئق) اپنی گراں قدر کتاب شرح دعائے ندبہ کے آغاز میں دعائے ندبہ کے متن کو سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ یہ امام جعفر صادق سے مروی ہے ۔(۳)

_____________________

۱۔ تحفة الزائر ،محمد باقر مجلسی ، ص۴۳۴۔

۲۔ تحفة الزائر ، محمد باقر مجلسی ، ص۲۔

۳۔ فروغ ولایت ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ،ص۳۳۔

۹۔ سید حیدر کاظمی

۴۸

علامہ جلیل سید حیدر حسنی کاظمی ،(متوفیٰ ۱۲۶۵ ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب عمدة الزائر میں دعائے ندبہ کو سید ابن طاووس اور دوسروں سے روایت کی ہے ۔(۱)

۱۰ ۔ محدّث نوری

محدث بزگوار آقا مرزا حسین نوری (متوفیٰ ۱۳۲۰ ھئق) نے اپنی گراں قدر کتاب تحیة الزائر میں دعائے ندبہ کو مزار کبیر،مزار قدیم سے نقل کیا ہے اور مصباح الزائر سید ابن طاووس سے بھی روایت کی ہے ۔(۳)

۱۱ ۔ صدر الاسلام ہمدانی

دبیر الدین صدر الاسلام علی اکبر ہمدانی (متوفیٰ ۱۳۲۵ ھئق) اپنی گراں قدر کتاب تکالیف الانام میں وظیفہ نمبر ۳۴ کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں:

”یہ مبارک دعا کثرت شہرت کی وجہ سے آفتاب عالم تاب کی طرح ہے۔ بہتر ہے کہ ہر جمعہ کو حضرت کے چاہنے والے مرد عورت مساجد میں سے کسی مسجد یا عبادت گاہوں میں سے کسی عبادت گاہ میں جمع ہوں اور اس مبارک دعا کو انتہائی گریہ و زاری اور نالہ وشیون کے ساتھ نہایت حزن و ملال اور بے قراری سے پڑھیں اشک بہائیں اور اس روشن

________________________

۱۔ عمدة الزائر ،سید حیدر کاظمی ،ص۳۵۲۔۳۵۹۔

۲۔ تحیة الزائر ،حسین بن محمد تقی نوری ،ص۲۴۸۔

۴۹

آفتاب کی غیبت اور اس جان جاناں کی عدم موجودگی پر توجہ کریں فریاد و فغاں بلند کریں اور قلب پُر درد سے آہ سرد نکالیں۔

اور اس عظیم مصیبت کو آسان تصور نہ کریں، اس مصیبت عظمیٰ کو سہل گمان نہ کریں کہ ان کی غیبت کی وجہ سے اسلام بالکل ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا ہے اور صرف اس کا نام باقی رہ گیا ہے ۔”ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدینا“۔

کفر اور فسق و فجور ناشکری تمام کرہ ارض پر چھا گئی ہے ،جو کچھ دستیاب نہیں ہے وہ مسلمان ہونے کے آثار ہیں اور جو کچھ ظاہر اور دستیاب ہے شیطانی آثار ہیں۔سب وادی غفلت اور ضلالت و جہالت کے لق و دق صحرا میں حیرا ن و سرگرداں شیطان کے سپاہیوں کے تابع ہیں اور حضرت صاحب الامر کے حکم کے نا فرمان ہیں ”اللّھمّ عجّل فرجہ و سھّل مخرجہ بمحمد و آلہ الطاھرین “۔(۱)

پھر اس وقت دعائے ندبہ کے متن کو صفحہ( ۱۹۰ سے ۱۹۶ تک) ذکر کیا ہے ،اپنے استاد (مرحوم آقا مرزا حسین نوری طاب ثراہ) سے نقل کیا کہ استاداعظم کہتے ہےں :

”مشہور و معروف دعائے ندبہ کا شب جمعہ اور روز جمعہ پڑھنا مستحب ہے جو حضرت مہدی سے متعلق ہے ۔ در حقیقت اس کے مضامین دل

_______________________

۱۔ تکالیف الانام ،علی اکبر ہمدانی (صدر الاسلام) ص۱۸۸۔

۵۰

شگاف اور جگر کو پاش پاش کرنے والے ہیں اور اس شخص کو خون کے آنسو رلانے والے ہیں کہ جس نے حضرت کے شربت محبت کو پیا ہے اور ان کے فراق کے زہر کی تلخی چکھی ہے ،جمعہ کے دن بلکہ شب جمعہ میں بھی (جیسا کہ کسی ایک مزارات قدیم میں کہ جس کے مولف شیخ طبرسی صاحب احتجاج کے ہم عصر تھے ان سے مروی ہے) پڑھی جانی چاہیے ۔“(۱)

پھر مزید کہتے ہیں:

مولف کہتے ہیں :”اس مبارک دعا کے پڑھنے کے من جملہ خواص میں سے یہ ہے کہ تمام زمان و مکان میں مکمل خلوص اور حضور قلب سے پڑھی جائے اور اس کی خاصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر اس کے مضامین عالیہ اور روشن عبارات و اشارات کی طرف متوجہ رہے تو صاحب العصر و الزمان ارواحنا فداہ کی مخصوص عنایات اس صاحب مکان کے شامل حال ہو گی بلکہ حضرت کی بھی اس مجلس میںتشریف آوری کا باعث ہوگی۔ جیسا کہ بعض مقامات پر ایسا اتفاق ہوا ہے ۔“

پھر ایک واقعہ ملازین العابدین سلماسی کا نقل کیا ہے۔(۲)

_____________________

۱۔تکالیف الانام، علی اکبر ہمدانی (صدر اسلام) ،ص۱۹۷۔

۲۔ گزشتہ حوالہ ۔

۵۱

۱۲ ۔ ابراہیم ابن محسن کاشانی

عالم ربّانی شیخ ابراہیم ابن محسن کاشانی (متوفیٰ ۱۳۴۵ ھئق) اپنی ارزش مند کتاب ”الصحیفة الھادیة و التحفة المھدیة“ میں جو آیت اللہ آقای سید اسماعیل صدر کی تقریظ کے ساتھ ایک صدی پہلے طبع ہوئی دعائے ندبہ کے متن کو کتاب بحار الانوار کے باب مزار سے نقل کیا ہے ۔(۱)

۱۳ ۔ مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی

نادرہ زمان ،عاشق صاحب الزمان آقا مرزا محمد تقی موسوی اصفہانی (متوفیٰ ۱۳۴۸ ھئق) نے مبارک کتاب مکیال المکارم میں ایک سو سے زیادہ ائمہ معصومین سے ماثورہ دعاؤں کو اس آفتاب عالم تاب کے زمانہ غیبت کے لیے نقل کیا ہے ، منجملہ ان میں سے دعائے ندبہ کو علامہ مجلسی اور محدث نوری کے نقل کے مطابق ذکر کیا ہے ۔(۲)

صاحب مکیال المکارم مزکورہ کتاب کے علاوہ ،کتاب وظیفہ مردم در غیبت امام زمان ظ میں بھی ۵۲ نمبر کے وظیفہ کے عنوان سے بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”جمعہ ،عید غدیر ،عید فطر اور عید قرباں کے دنوں میں دعائے ندبہ جو

____________________

۱۔ الصحیفة الھادیة ، ابراہیم بن محسن کاشانی (فیض کاشانی) ، ص۷۵۔۸۹۔

۲۔ مکیال المکارم ،السید محمد تقی موسوی اصفہانی ،ج۲،ص ۹۳۔۱۰۰۔

ظ یہ کتاب اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔(مترجم)

۵۲

سے متعلق ہے اور زاد المعاد میں موجود ہے توجہ کے ساتھ پڑھنی چاہیے ۔“(۱)

۱۴ ۔ محدّث قمّی

خاتم المحدّثین جناب شیخ عباس قمّی (متوفیٰ ۱۳۵۹ ھئق) اپنی با برکت کتاب مفاتیح الجنان میں جو مولف کے خلوص کے نتیجہ میں عالَم مشرق و مغرب میں پھیلی ہوئی ہے اور شیعیان اہل بیت کی ہر فرد کے گھر میں، ایک یا چند نسخے اس کے مل جائیں گے، سرداب مقدس کے اعمال کے ضمن میں اور حضرت صاحب الزمان کی زیارتوں کے ذیل میں دعائے ندبہ کو بھی مصباح الزائر سید ابن طاووس سے نقل کیا ہے ۔

۱۵ ۔ شیخ محمد باقر فقیہ ایمان

حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے عاشق دل باختہ ،جناب شیخ محمد باقر فقیہ ایمانی (متوفیٰ ۱۳۷۰ ھئق) جو ۷۷ کتابوں کے مولف ہیں ،ان میں سے ۲۷ جلد کعبہ مقصود قبلہ موعود ،حضرت صاحب الزمان سے مخصوص ہے ۔اپنی گراں قدر کتاب فوز اکبر میں دعائے ندبہ کے متن کو ( ۱۱۵ سے ۱۲۵ تک ) ذکر کیا ہے ،اس کے پڑھنے کی بہت تاکید کی ہے اور اس کے پڑھنے کی علت کو تین عنوان میں بیان کیا ہے :

۱ ۔انسان کا آنکھوں کی روشنی کے لیے حضرت کے جمال اقدس کا مشاہدہ کرنا ۔

____________________

۱۔ وظیفہ مردم در غیبت امام زمانہ ، سید محمد تقی موسوی اصفہانی ، ص۷۹۔

۵۳

۲ ۔ حضرت کے ہمّ و غم کو دور کرنے کے لیے ۔

۳ ۔ تعجیل فرج کے ارادے سے۔(۱)

۱۶ ۔ سید محسن امین

عظیم مورخ سید محسن امین عاملی مولف اعیان الشیعہ (متوفیٰ ۱۳۷۱ ھئق) نے دعائے ندبہ کے متن کو کتاب مفتاح الجنّات میں ذکر کیا ہے ۔(۲)

اگر تمام دعاؤں اور زیارتوں کو نقل کرنا چاہیں کہ جس میں دعائے ندبہ کو نقل کیا گیا ہے تو ہماری بات طولانی اور وہ اس کتاب کی وسعت سے خارج ہو جائے گی، اس لحاظ سے ہم اپنی گفتگو یہیں ختم کرتے ہیں اور اس کی وسیع بحث کو کسی اور موقع پر موقوف کرتے ہیں مزید قارئین کرام کو اس کے متعلق جو مستقل طور پر کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔(۳)

____________________

۱۔ فوز اکبر ،محمد باقر فقیہ ایمانی ،ص۱۱۸۔

۲۔ مفتاح الجنّات ،سید محسن امین عاملی ،ج۲،ص ۲۶۰۔

۳۔ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لیے رجوع کریں ۔پاسخ ما بہ گفتہ ھا ،سید محمد مہدی مرتضوی لنگرودی ، تحقیقی دربارہ دعائے ندبہ ،رضا استادی ،فروغ ولایت در دعائے ندبہ ،لطف اللہ صافی گلپائیگانی ، مدارک دعائے شریف ندبہ ،جعفر صبوری قمی ، نشریة ینتشربھا انوار دعاء الندبہ ، شیخ محمد باقر رشاد زنجانی ،نصرة المومنین در حمایت از دعائے ندبہ ،عبد الرضا ابراہیمی ،مزکورہ بالا عناوین کی کتاب شناسی توصیفی کو کتاب نامہ حضرت مہدی ،ج۱،ص ۱۹۶، ۲۲۴،ج۲،ص۵۵۴،۶۳۷،۷۵۰،ا۷۵ میں ملاحظہ فرمائیں۔

>>>مکتب اسلام نامی ارزش مند مجلے میں اس سلسلے میں مقالات بھی نشر ہو چکے ہیں۔ (سال ۱۳، شمارہ ۶،۷،۸،۹)

اس سلسلے میں دوسرے آثار بھی طبع اور نشر ہو چکے ہیں جن کے عناوین کتاب نامہ حضرت مہدی میں ذکر ہوئے ہیں۔(ج۱،ص ۳۴۶۔۳۴۸)

جناب آیت الله شیخ محمد باقر صدیقین (متوفیٰ ۱۴۱۴هئق) نے سات کتابچه درسهائی از ولایت کے عنوان سے نشر کیے هیں که ان میں سے ایک دعائے ندبه سے دفاع کے لیے مخصوص ہے

۵۴

امام زمانہ کی دعائے ندبہ کی مجالس پر خاص عنایات

تجربه سے ثابت هوا ہے که حضرت ولی عصر ارواحنا فداه کے وجود اقدس کی طرف سے جن مجالس و محافل میں دعائے ندبه پڑهی جاتی ہے خاص عنایت هوتی ہے ، بعض تحریر شده کتابوں میں ان میں سے بعض عنایتوں کی طرف اشاره کیا گیا ہے اور اگر خدائے متعال توفیق عطا کرے تو ان میں سے بعض کو فرصت سے جمع آوری کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا، هم یهاں صرف اس کی فهرست کی طرف مختصر طور پر اشاره کر رهے هیں:

۱ سرداب مقدس میں ملّا زین العابدین سلماسی کا واقعه جسے صدر الاسلام همدانی نے نقل کیا ہے(۱)

۲ آیت الله جناب مرزا مهدی شیرازی کا واقعه جسے علامه قزوینی نے مولف کے لیے نقل کیا ہے

۳ آیت الله میر جهانی کا واقعه جسے مولف نے متعدد مرتبه خود ان سے سنا ہے

________________________

۱تکالیف الانام، علی اکبر همدانی (صدر الاسلام )ص۱۹۷

۵۵

۴ بعض سعادت مند افراد کے واقعات که جسے علامه نهاوندی نے بغیر واسطه کے خود ان سے نقل کیا ہے(۱)

۵ بعض دوسری جماعت کے واقعات که جسے محدث نوری نے متصل سند کے ساته نقل کیا ہے(۲)

هم یهاں صرف ایک عاشق دل باخته کے واقعه کے نقل پر اکتفا کرتے هیں:

حضرت صاحب الزمان ارواحنا فداه کے عاشق دل باخته حضرت آیت الله شیخ محمد خادمی شیرازی (متوفیٰ ۱۴۱۹ هئق) جو گراں قدر تالیفات جیسے رجعت ، یاد مهدی اور فروغ بی نهایت کے مالک هیں مولف کے لیے نقل کیا ہے که تقریباً چالیس سال پهلے امام رضا کے حرم مطهر پر آستانه بوسی کے لیے مشرف هوا ،ایک شب جمعه کو اس مهربان امام کے حرم مطهر میں حضرت بقیة الله ارواحنا فداه کے فراق میں بهت زیاده آنسو بهایا ،جب اپنی قیام گاه پر پهنچا تو کچه دیر آرام اور عالم خواب میں حضرت مهدی کے چهره انور کو دیکها ،خدا حافظی کے وقت میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا هو جاؤں، کیا دوباره بهی مجه رو سیاه کو اپنے دیدار مبارک کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ فرمایا: همارے وعده دیدار کا وقت کل صبح دعائے ندبه ہے میں نے عرض کیا : اے میرے مولا! میں زائر هوں مجهے نهیں معلوم که دعائے ندبه کهاں پڑهی جاتی هے؟ فرمایا: سید جواد مجتهدی کے گهر میں میں خواب سے بیدار هوا وضو کیا حرم کی طرف چلا اور امام رضا کی عنایات کا شکریه ادا کیا نماز صبح کے بعد حرم سے نکلا مسجد گوهر شاد کے صحن میں جس پهلے شخص کا دیدار کیا میں نے اس سے دریافت کیا: مشهد میں دعائے ندبه کهاں پڑهی جاتی هے؟ جواب دیا: جناب سید مجتهدی کے گهر میں میں نے ان کے گهر کا پته لیا اور تیزی سے اس پُر فیض مجلس میں خود کو پهنچایا ،که مجلس بهت نورانی اور معنوی تهی اور اس چهره منورکو که جس کا رات عالَم خواب میں مشاهده کیا تها اپنے عاشقوں کے درمیان حاضر پایا تهے

____________________

۱ العبقری الحسان ،علی اکبرنهاوندی ،ج۲،ص ۱۰۱،۱۹۸

۲ دار السلام ،حسین بن محمد تقی نوری ،ج۲،ص ۲۲۴

۵۶

اسی طرح کا واقعه جناب محمد یزدی کے لیے بهی پیش آیا تها انهوں نے بهی امام رضا سے توسل کیا ان کو بهی سید مجتهدی کے گهر کی طرف رهنمائی هوئی تهی اور وهاں بهی کعبه مقصود کی خدمت میں ان کے لیے شرفِ حضور فراهم هوا تها یه نمونے حضرت بقیة الله ارواحنا فداه کی مجالس دعائے ندبه پر خاص عنایت کی نشان دهی کرتے هیں

کتاب کے اس حصه میں دوسرے سوال کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے اور دعائے ندبه کے سلسله اسناد کی زمانوں اور صدیوں کے اعتبار سے تحقیق پیش کی ہے اور سند کی تاکید اور استحکام کے لیے عظیم شخصیتوں کے اقوال جیسے علامه مجلسی کے قول کو نقل کیا ہے یهاں پر هم مزید یه کهتے هیں که:

فقه شیعه میں رائج سخت گیریاں ان اخبار اور احادیث کے متعلق ہے جو ایک ضروری حکم (واجب یا حرام) کے استنباط کی راه میں قرار پاتی هیں، لیکن مستحبی مسائل میں ،بالخصوص دعاؤں اور زیارتوں میں وه سخت گیری اور سندی موشکافی مرسوم نهیں ہے ،بلکه اسی مقدار میں که اس کے مضامین شرع پسند اور مقبول هوں اور ایک مشهور کتاب میں نقل هو بس یهی کافی ہے

لهٰذا اگر ایک دعا کی سند معتبر نه هو اور اس کا (بالخصوص) معصوم سے صادر هونا ثابت نه هو چونکه عمومی طور پر دعا کے لیے حکم هوا ہے اور دعا اعمال راجحه اور عبادات موکده میں سے ہے ،ان کا پڑهنا قرآنی اور حدیثی عمومات کے مطابق راجح اور مستحب ہے اور مقام عمل میں سندی سخت گیری کی ضرورت نهیں ہے ،بلکه” قاعده تسامح در ادله سنن“ اس مقام پر جاری ہے اور اتنی مقدار بهر اخروی ثواب حاصل کرنے کے لیے کافی ہے قاعده تسامح در ادله سنن بهت زیاده حدیثوں پر متوقف ہے که اسے ”احادیث من بلغ“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے یعنی : ان حدیثوں کی بنا پر ، اگر ایک نیک عمل میں اجر و ثواب خداوپیغمبر سے نقل هوا هو اور یه نقل کسی ایک فرد کو معلوم هو اور وه اس اجر و ثواب کو حاصل کرنے کے لیے اس عمل خیر کے لیے اقدام کرے تو خداوندمنّان اس ثواب کو اسے عنایت فرمائے گا اگر چه اس قسم کی کوئی حدیث حقیقت میں معصوم سے صادر نه هوئی هو

اس سلسلے میں معصومین سے بهت سی روایات نقل هوئی هیں(۱) اور شیخ انصاری

________________________

۱الکافی ،محمد بن یعقوب کلینی ،ج۲،ص ۸۷، المحاسن ،احمد بن محمد بن خالد البرقی ، ج۱،ص ۹۳، ثواب الاعمال شیخ صدوق ،ص۱۳۲، عدّّة الداعی ، احمد بن فهد حلّی ،ص۱۳، اقبال الاعمال سید ابن طاووس ،فلاح السائل سید ابن طاووس ،ص۱۲، مفتاح الفلاح شیخ بهائی ،ص۴۰۶، روضة المتقین ،محمد تقی مجلسی ،ج۱،ص ۴۵۵، مدارک الاحکام ، العاملی ، ج۱،ص ۱۸۷، وسائل الشیعه ،حرعاملی ،ج۱،ص ۸۰، بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ، ج۲،ص ۲۵۶، مرآة العقول ،محمد باقر مجلسی ،ج۸،ص ۱۱۲

۵۷

نے جواز تسامح در ادلہ سنن کے متعلق مستقل رسالہ تحریر کیا ہے ۔

متن دعا قوی مضامین اور الفاظ کے استحکام بھی اس کے اعتبار میں اضافہ کا باعث ہےں ۔ اقوال معصومین کی روش گفتار کی معرفت اور شناخت رکھنے و الے افراد ایک متن کے مضمون اور مطالب کی تحقیق سے اس کا معصوم سے صادر ہونے یا صادر نہ ہونے کا اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔

جب آیت اللہ کاشف الغطا سے ”دعائے صباح“ ک ی سند کے متعلق سوال کیا گیا تو کہا:

ہر ایک صاحبان علم و ثقاقت کے لیے ایک اسلوب ہوا کرتا ہے اور بشری معاشروں کے ہر گروہ کے لیے بلکہ ہر ملت اور تمام ملک کے باشندوں کے لیے طور و طریقہ ہوتا ہے ائمہ علیہم السلام کے لیے بھی مقام دعا میں تعریف اور پروردگار کی حمد و ثنا کے لیے مخصوص شیوہ سخن ہوتا ہے کہ جو شخص بھی ان کے اقوال سے مانوس ہو گا اسے تسلط اور کمانڈ حاصل ہو جائے گا کہ ان کے اقوال کو پہچانے اور ایسا شخص شک و شبہ نہیں کر ے گا کہ دعاء صباح ان سے صادر ہوئی ہے ۔(۱)

________________________

۱۔ فردوس الاعلی ،شیخ محمد حسین، کاشف الغطاء ،ص۵۰۔

۵۸

بہت سے بزرگوں نے ”دعائے ندبہ “اور زیارت”جامعہ کبیرہ“ کے مضامین عالیہ اور متن کی تحقیق کے متعلق کہا ہے کہ وہی صرف اس کے اعتبار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اس کی سند کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے ۔(۱)

ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی ان لوگوں کے مقابل میں جنہوں نے نہج البلاغہ کے بعض فقرات کا مولائے متقیان امیر المومنین سے صادر ہونے کے متعلق شک و شبہ کا اظہار کیا ہے یہی طریقہ استدلال پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نہج البلاغہ کے تمام فقرات حضرت کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔

انہوں نے ”خطبہ شقشقیہ “ کے متعلق مصدّق بن شبیب واسطی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے:

۶۰۳ ھ ق میں اس خطبہ کو میں نے شیخ ابو محمد ،عبد اللہ بن احمد ،عرفیت ”ابن خشّاب“ کی خدمت میں پڑھان سے دریافت کیا: ”کیا آپ اس خطبہ کے جعلی اور نقلی ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں؟“۔

فرمایا: نہیں خدا کی قسم !

مجھے یقین ہے کہ یہ خطبہ حضرت کے اقوال کا حصہ ہے ،جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس کی تصدیق کرنے والے ہو۔

میں نے کہا: بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سید رضی کے کلمات کا

________________________

۱۔ الانوار اللامعہ ،سید عبد اللہ شُبّر،ص۳۱۔

۵۹

حصہ ہے ۔

فرمایا: نہیں نہ رضی اور نہ غیر رضی ، ان کا طرز گفتگو کہاں اس قسم کا تھا؟ میں نے رضی کے مکتوبات کو دیکھا ہے اور ان کے نثر کے طریقہ کلام سے میں آشنا ہوں ۔(۱)

اس بیان کی بنا پر ،اعلی معارف ،درخشاں حقائق ،روشن معانی اور عمیق مطالب جو پسندیدہ اسلوب، بہترین بیان ،منطقی نما اور نہایت عظیم و فصیح عبارتیں اس مبارک دعا میں مزکور ہیں ،وہ ہمیں ہر قسم کی سند اور منبع و مصدر پیش کرنے سے بے نیاز کرتی ہیں کہ ایسے تابناک اور روشن ظریف نکات جو کبھی بھی ولایت کے صاف و شفاف چشمہ کے علاوہ کسی اور منبع و مصدر سے نشاة نہیں پاتے ۔

ہمارے استاد دانا حضرت آیت اللہ سید مرتضیٰ شبستری (متوفیٰ ۱۴۰۱ ھء ق) جو قرآنی اور حدیثی مسائل میں ایک بے مثال انسان تھے ،جس زمانے میں ائمہ اطہار کی ولایت و امامت کی بحث محکمات قرآن کی بنیاد پر حوزہ علمیہ قم کے ممتاز علماء و فضلاء کی جماعت کے لیے درس دیتے تھے ایک دن مسند درس پر فرمایا:

”میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ دعائے ندبہ کے فقرات میں سے ہر فقرہ متواتر ہے اور تمام حوزہ علمیہ کے لوگوں کو اس سلسلے میں بحث و گفتگو کی دعوت عام دیتا ہوں۔ “

_______________________

۱۔ شر ح نہج البلاغہ ،ابن ابی الحدید ،ابو حامد ھبة اللہ مدائنی ،ج۱،ص ۲۰۵۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی

جن تلخیوں میں صبر سے کام لیں تو پہر انسان ان تلخیوں کو بہول جاتا ہے اور انسان کے لئے سختیاں آسان ہوجاتی ہیں ۔

بزرگان الہی شیریں نتائج تک پہنچنے کے لئے صبر سے کام لیتے اور صبر کو اسرار کے خزانوں کی چابی سمجہتے ۔ وہ معتقد تہے کہ ان خزانوں تک پہنچنے کے لئے ان کی چابی یعنی صبر کا ہونا ضروری ہے ۔

حضرت امام حسن (ع)  اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :

فَلَستم اَیّهاالناس نَائلین مَا تحبّونَ الَّا بالصَّبرعَلیٰ مَا تکرهون(۱)

اے لوگو ! تم جسے چاہتے ہو اس تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ جس چیز سے تمہیں کراہت ہو اس پر صبر کرو ۔

اس فرمان میں امام حسن مجتبی (ع) ہدف تک پہنچنے کے لئے صبر کومستقیم راہ قرار دیتے ہیں ۔ مورد نظر اہداف تک پہنچنے کے لئے شرط موانع اور مشکلات کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے کیونکہ صبر قوت وارادہ کی ہمت میں اضافہ کا باعث ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الانوار:ج ۵۰ص۴۴

۱۶۱

صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث

ارادہ کی بحث میں ہم نے اس کے مثبت اثرات کو ذکر کیا اور ہم نے عرض کیا کہ کہ ہر بلند اہداف رکہنے والے کے لئے ارادہ کا وجود ضروری ہے نیز ہم نے ارادہ کو ایجاد اور اسے تقویت دینے کے طریقے بہی ذکر کئے اب ہم مورد بحث موضوع میں اس کی اہمیت کو بیان کریں گے ۔

صبر ارادہ کی مئوثر ترین راہ ہے اس کی وجہ سے صبر کرنے والے شخص کی قدرت ارادہ قوی ہوجاتی ہے۔ قدرت ارادہ کے قوی ہونے سے مشکلات اور سختیاں آسانی سے حل ہوجاتی ہیں خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

''  وَاصبر عَلیٰ مَا اَصَابَکَ انَّ ذٰلکَ من عَزم الامور'' (۱)

اس راہ میں جو مصیبت پڑے اس پر صبر کرو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ لقمان آیت:۱۷

۱۶۲

اگر ز سہم حوادث مصیبتی رسدت

درین نشین حرمان کہ موطن خطر ست

مکن بہ دست جزع دام صبوری چاک

کہ آہ ونالہ دراینجا مصیبت دگر ست

اگر تمہیں زمانے کے حوادث میں سے کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کی وجہ سے مایوس نہ ہو جانا کیونکہ دنیا مصیبتوں کا گہر ہے مصیبتوں پر واویلا کرکے صبر کا دامن چاک نہ کرناکیونکہ یہاں آہ و واویلا کرنا ایک اور مصیبت ہے۔

جو مصیبتوں سختیوں اور مشکلات کے سامنے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو مشکلات کو تحمل کرنے سے ان میں عزم وارادہ قوی اور راسخ ہوجاتاہے ۔کیونکہ صابر انسان جب مشکلات و مصائب کو برداشت کرتا ہے تواس سے اس میں قوت ارادہ تقویت پاتی ہے اور اسے دیگر موانع کے سامنے بہی صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرتا ہے۔کبہی قوت مقاومت اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ اس کا دل لوہے کی طرح مضبوط ہوجاتاہے ۔

پہر وہ ہر قسم کے شیطانی وسوسہ اور خواہشات نفسانی کے مقابلے میں مقاومت کر سکتا ہے ایسا انسان اپنی توانائی کے مطابق امر ولایت آل اللہ کو قبول کرتا ہے اور خاندان وحی کے عقائدومعارف کو دل وجان سے قبول کرتا ہے اور خدا کے امتحان سے عہدہ برآمد ہوتا ہے ۔

۱۶۳

صبر حضرت ایوب (ع)

حضرت ایوب (ع) وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے مشکلات ومصائب کے سامنے صبر کیا اور خداوند متعال کے سخت امتحان سے بخوبی عہدہ برآمد ہوئے ۔

وہ مختلف گرفتاریوں اور مصائب میں مبتلا ہونے سے پہلے چالیس سال تک انہیں خدا کی عظیم نعمتیں میسر رہیں ۔ہر دن ہزار افراد ان کی نعمتوں کے دسترخوان سے استفادہ کرتے اور ان کی زراعتی زمین اس حدتک تہی کہ انہوں نے امر فرمایا تہا کہ ہرانسان یا حیوان ان کی زراعت سے جس چیز سے بہی چاہے استفادہ کر سکتا ہے چار سو غلام ان کے اونٹوں کے ساربان تہے ۔

پہر ایک دن حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا ! اے ایوب  تمہاری نعمتوں کا زمانہ ختم ہوگیا اب مصیبتوں اور گرفتاریوں کا وقت آپہنچاہے، اب ان کے لئے آمادہ و تیار رہو ۔

حضرت ایوب (ع)مصیبتوں کے آنے کے منتظر تہے ۔ ایک دن نماز صبح کے بعد اچانک ایک آواز آئی یہ پر دردناک آواز تہی جس کی طرف آپ متوجہ ہوئے،یہ شبان کی آواز تہی۔

جناب  ایوب (ع) نے پوچہا شبان کیا ہوا ہے ؟ شبان نے کہا پہاڑوں کے دامن سے آنے والے سیلاب میں تمام گلّہ بہہ گیا ہے اسی وقت ساربان اپنی گریبان چاک کرکے آیا اور کہا ! سمانی بجلی گرنے سےتمام اونٹ ہلاک ہوگئے ۔

۱۶۴

اسی وقت باغبان ہراسان ہوکر آیا اور کہا آندہی چلنے سے تمام درخت گر گئے ۔حضرت ایوب() یہ سب سن رہے تہے اور ذکر خدا میں مشغول تہے کہ ان کے بیٹوں کا معلم آہ وفغاں کرتا ہوا آیا اور کہا کہ آپ کے بارہ بیٹے آپ  کے بڑے بہائی کے گہر مہمان تہے اچانک گہر کی چہت ان پر گری اور تمام کے تمام اس دنیا سے چلے گئے ۔

اس وقت حضرت ایوب (ع) کی حالت تہوڑی تبدیل ہوگئی لیکن وہ جلد ہی متوجہ ہوگئے اور سجدہ میں گرکر کہا:

پروردگارا! جب تم میرے ساتہ ہو تو گویا میں ہر چیز رکہتا ہوں جب ان کا تمام مال اور اولاد ختم ہوگئے تو پہر ان پر طرح طرح کی بیماریوں  نے حملہ کیا وہ کئی سال تک بدترین وضعیت وکیفیت میں رہے لیکن انہوں نے اسی طرح صبر واستقامت کا دامن نہ چہوڑا اور خدا کے سخت ترین امتحان میں کامیاب ہوئے یہاں تک کہ امتحان کا وقت تمام ہوا ۔

انہوں نے سالوں بعد خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:

''انّی مَسَّنی الضّرّوَ اَنتَ اَرحَمَ الرَّاحمین'' (۱)

مجہے بیماری نے چہو لیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے ۔

پہر ان کی دعا مستجاب ہوئی اور انہیں مشکلات ومصائب سے نجات ملی ۔

ترسم بہ عجز حمل نماید وگرنہ من      شرمندہ می کنم بہ تحمل زمانہ را

میں اپنے عجز و ناتوانی سے خائف ہوں کہ کہیں وہ مجہے اپنی لپیٹ میں نہ لے ورنہ میں زمانے کی سختیوں کو برداشت کرکے شرمندہ کر سکتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ انبیاء آیت :۸۳

۱۶۵

اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا

بعض لوگ مصائب ومشکلات  کے مقابل میں صبور وبردبار ہوتے ہیں اور بعض لوگ زندگی کی تلخیوں اور مصائب اور مشکل امور کے مقابل میں تحمل وبرداشت کی طاقت نہیں رکہتے ۔

ایسے افراد کچہ ایسی مشکلات جنہیں صبر واستقامت کے ذریعہ ختم کر سکتے ہیں ۔ ان کو ختم کرنے کے بجائے کچہ اور مشکلات ایجاد کرتے ہیں  جو ان کی زندگی کو برباد کردیتی ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین  (ع) فرماتے ہیں :

'' وَ عَوّد نَفسکَ باالتَّصَبّر'' (۱)

اپنے نفس کو صبر و استقامت کی عادت ڈالو ۔

کیونکہ نفس آرام پسند ہے جو کہ سختیوں اور تلخیوں سے بہاگتا ہے ۔

جو انہیں تحمل کرنے کی تاب نہیں رکہتا  وہ کبہی بہی بلند مقامات تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اگر چاہتے ہیںکہ  نفس مشکلات  ودشواریوں کو تحمل کر سکے تو صبر کا درس سیکہیں اور اپنے نفس کو صبر کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ عظیم واعلی اہداف تک پہنچ سکیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۱۶۶

کیونکہ کہ کسی بہی کام میں اکراہ واجبار کاکوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ بہت سے موارد میں اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں ، حتی کہ صبر واستقامت بہی اس صورت میں نافع ہے کہ نفس اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو ۔ اسی وجہ سے حضرت خضر(ع)نے حضرت موسیٰ    (ع)سے فرمایا :'' وَ طّن نَفسَکَ عَلی الصَّبر'' (۱) اپنے نفس کو صبر کے لئے آمادہ کرو۔

جب  انساں صبر واستقامت سے کام لے تو وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔

صبر وظفر ہردو از دوستان قدیمند          بر اثر صبر ، نوبت ظفر آید

یعنی صبر اور کامیابی دونوں قدیم دوست ہیں صبر سے کام لینے کے بعد پہر کامیابی کی باری آتی ہے۔ اسی طرح ان کے ارشادات میں سے ہے:'' رَضّ نَفسَکَ عَلی الصَّبر تخَلّص من الاثم'' (۲)

اپنے نفس کو صبر پر راضی کرو  تاکہ گناہوں  سے نجات پا سکو ۔

کیونکہ جب آپ نے اپنے نفس کو صبر کے لئے آمادہ و راضی نہ کیا تو باطنی اکراہ اور نفس کی بے میلی برے اثرات کا موجب بنے گی ۔ پہر نفس کی طغیانی اور سرکشی آپ کی شکست کا باعث بنے گی۔

جی ہاں! اہل بیت عصمت و طہارت نے ہمیں صبر و استقامت کا امر فرمایا اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ صبر امتحانات الہی میں کامیابی کا وسیلہ ہے صبر کے ذریعہ انسان آزمائش کے طور پر آنے والے مشکلات ومصائب کے مقابلے میں اپنے اعمال وا عتقادات پر ثابت قدم رہتا ہے   تمام اولیاء خدا کو یہ امتحانات در پیش آئے اور انہوں نے شدید مشکلات میں بہی مشیت خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  بحار  الانوار:ج  ۳۴ ص ۶۱

[۲] ۔ بحار الانوار:ج ۱ص ۲۲۷

۱۶۷

مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

جنہوں نے مشکلات کے مقابلہ میں صبر سے کام لیا اور اپنے راسخ عزم اور ایمان کو ثابت کیا ان میں سے ایک ملّا علی کَنی ہے ۔ وہ نجف اشرف میں انتہائی فقر و احتیاج کے عالم میں زندگی بسر کررہے تہے وہ ہر ہفتہ میں ایک رات مسجد سہلہ میںجاتے اور دوسروں کو متوجہ کئے بغیر مسجد کے اردگرد کناروں میں ڈالے گئے روٹی کے ٹکڑوں کو جمع کرتے اور مدرسہ لے جاتے اور ایک ہفتہ اسی پر گزر بسر کرتے وہ مدتوں اسی طرح کرتے رہے اور صبر استقامت کو اپنی عادت بنا لیا پہر وہ نجف اشرف سے عازم کربلا ہوئے انہوں نے وہاں بہی انتہائی سختی اور تنگدستی میں زندگی گزاری لیکن کبہی صبر کا دامن نہ چہوڑا، اور   استقامت سے کام لیتے رہے پہر وہ اپنی مشکلات سے نجات پانے کے لئے حضرت حر سے متوسل ہوئے یہ رسم تہی کہ تنگدست افراد چہار شنبہ کے چندہفتے حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ان سے متوسل ہوتے۔ جناب حر سے متوسل ہونے سے ان کی مادی مشکلات حل ہوجاتیں مرحوم علی کَنی چہار شنبہ کی رات حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ایک رات حضرت حر نے خواب میں ان سے فرمایا میرے آقا نے تمہیں تہران کا آقا قرار دیا ہے ۔

اگلے روز ایک مومن ملا اور اسے پانی کا مشکیزہ عطا کیا دوسرے شخص نے اس سے وہ مشکیزہ ایک سال کے لئے۲۵ تومان پر اجارہ پہ لے لیا  ۔ مرحوم علی ان پیسوں کے ذریعہ تہران پہنچ گئے دوسرے سال وہ مشکیزہ چار سوتومان پر اجارہ دیا آہستہ آہستہ ان کا حکم مانا جانے لگا ۔ یہاں تک کے ناصر الدین شاہ ان سے خائف ہونے لگا ۔

۱۶۸

کہتے ہیں کہ شاہ کے حکم پہ تہران میں ایک خیابان بنا ئی گئی کہ جس کی وجہ سے ایک چہوٹی سی مسجد کو خراب کیا گیا چونکہ یہ شاہ کا حکم تہا لہٰذا تہران کے علماء اس کی مخالفت نہ کرسکے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ اس مسجد کے عوض دوسری جگہ ایک بڑی مسجد بنائی جائے مرحوم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے شاہ کو ایک خط لکہا جس کی ابتداء میں لکہا تہا۔

'' بسم اللّٰه الرَّحمٰن الرَّحیم اَ لَم تَرَ کَیفَ فَعَلَ رَبّکَ باَصحَاب الفیل''

شاہ مسجد کو توڑنے سے باز رہا اور خیابان کا راستہ تبدیل کردیا ایک دن ناصر الدین شاہ اپنے خدام کے ہمراہ شکار کے قصد سے شہر کے دروازے سے باہر گیا شہر سے نکلنے کے بعد تہران کا نظارہ کیا اور کچہ دیر فکر کرنے کے بعد اپنے ارادہ پر پشیمان ہوا اور واپس شہر چلا گیا اس کے بعض قرابت داروں نے اس کی وجہ پوچہی تو شاہ نے یہ جواب دیا جب شہر سے باہر نکلا تو میری نظر شہر کے دروازوں پر پڑی تہی تو مجہے خیال آیا کہ اگر حاجی علی نے حکم کیا کہ شہر کے دروازوں کو بند کردو اور پہر نہ کہولیں تو میں کیا کروں گا؟ اس خوف و وحشت سے میں نے سوچا بہتر یہ ہی ہے کہ واپس شہر چلا جائوں مرحوم علی کنی کہ تجملات ایسے تہے کہ جو شہزادوں کے لئے بہی مورد توجہ تہے۔ کہتے ہیں کہ ناصرالدین شاہ کی بیٹی عراق  گئی اور نجف اشرف میں مرحوم شیخ انصاری کی زیارت سے شرفیاب ہوئی اس نے زہد عیسوی اور ورع یحیوی کی علائم شیخ میں پائے  ۔ شیخ کے کمرے  کے آدہے فرش پر ایک بوریا بچہا ہوا تہا حصیر کا ایک دستر خوان دیار پر آویزان تہا اور ایک چراغ تہا کہ جس سے نصف کمرے میں روشنی تہی جب اس نے کمرے کی یہ حالت دیکہی تو اس سے رہا نہ گیا اور کہا کہ اگر مجتہد وملّا ایسے ہیں تو پہر ملّا علی کیا کہتا ہے ؟

ابہی اس کی بات مکمل نہ ہوئی تہی کہ مرحوم شیخ انصاری اس حد تک غضبناک ہوئے کہ وہ رونے لگی اور کہا آقا میں تو بہ کرتی ہوں مجہے علم نہیں تہا ۔ مجہے معاف فرمائیں  ۔ شیخ نے اس کی غلطی سے در گذر فرمایا اور کہا جناب علی کنی کو حق ہے کہ وہ ویسی زندگی گذاریں ۔ کیونکہ وہ تمہارے باپ کے سامنے ویسی ہی زندگی گزارے لیکن میں طلّاب کے درمیان رہتا ہوں لہٰذامیری زندگی بہی طلّاب کے مانند ہونی چاہئے اگر مرحوم علی مشکلات کے مقابل میں صبر و استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے تو انہیں یہ تمام محبوبیت ، قدرت وعظمت کیسے حاصل ہوتی۔

۱۶۹

صبر قوت وقدرت کا باعث

خداوندتعالیٰ صبر کو مدد اور استعانت کا وسیلہ قرار دیتا ہے اور قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''وَاستَعینوا با الصَّبر وَ الصَّلٰوة '' (۱)

صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔

خداوند متعال نے  صبر کو نماز کے ساتہ بلکہ اس پر مقدم فرمایاہے جو اس بات کا اشارہ

ہے کہ صبر کی وجہ سے انسان میں ایجاد ہونے والی قوت  بخش آثار سےبخوبی مدد لے سکتے ہیں انسان صبر کی وجہ سے خدا کی غیبی امداد سے بہی بہرہ مند ہوتا ہے یہ غیبی امداد ملائکہ صبر کرنے والوں تک پہنچاتے ہیں قرآن نہ صرف صبرواستقامت کو انسان وظیفہ قرار دیتا ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ حکم بہی دیتا ہے کہ دوسروں کو بہی صبر کا امر کرو ۔

خدا وند متعال قرآن میں فرماتا ہے :

'' یا  ایها الَّذینَ اٰمَنوا اصبروا وَ صَابروا وَ رَابطوا ''(۲)

اے ایمان والو صبر کرو صبر کی تعلیم دو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ بقرہ آیت: ۴۵

[۲] ۔ سورہ آل عمران آیت: ۲۰۰

۱۷۰

انسان صبر واستقامت کے ذریعہ بیشتر قوت و قدرت حاصل کرتا ہے جس سے وہ مشکلات اور سختیوں کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے ۔ مشکلات کو تحمل کرنے کے لئے آمادگی اورمخالف قوت کے سامنے مقاومت میں مہم نقش رکہتا ہے ۔

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

'' ان یَکن منکم عشرونَ صَابرون یَغلبوا '' (۱)

اگر ان میں سے بیس بہی صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آجائیں ۔

کیونکہ صبر انسان کی جسمانی قوت میں اضافہ کرتا ہے اوراسے دشمن کے سامنے مقاوم اور ثابت قدم رکہتا ہے ۔

پافشاری واستقامت میخ               سزد از عبر ت بشر گردد

بر سرش ہرچہ بیشتر کوبی         پافشاریش بیشتر گردد

یعنی استقامت اور ثابت قدمی میخ کی شان ہے جس میں انسانوںکے لئے سبق ہے کیونکہ   میخ کے سر پر جتنا زیادہ  مارو  وہ اتنا ہی زیادہ  محکم اور ثابت قدم ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ سورہ انفال آیت: ۶۵

۱۷۱

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کی شرائط میں سے ایک مہم شرط صبر واستقامت ہے اپنے نفس کو صبرواستقامت پرتیار کرو تاکہ بڑی سے بڑی مشکل بہی آپ کے لئے آسان ہوجائے ۔ صبر واستقامت سے آپ کی قوت ارادہ میں بہی اضافہ ہوتا ہے ۔

صبر واستقامت پانی کے ایسے بند کی مانند ہے جو پانی کو ضائع ہونے سے روکتا ہے یہ آپ کی توانائی کو متمرکز کرتا ہے ۔

بزرگوں نے بڑے سے بڑے موانع کو بہی صبر واستقامت سے برطرف کیا اور اپنی دیرینہ آرزو کو پورا کیا اس وقت زندگی کی تمام تلخیاں ، ناکامیاں صبر کی وجہ سے لذائذ میں تبدیل ہوجاتی ہیں آپ بہی صبر واستقامت کا دامن ہاتہ سے نہ چہوٹنے دیں اور بڑی بڑی مشکلات اور مصائب کے سامنے ثابت قدم رہیں تاکہ آپ بہی کامیاب بزرگان کی طرح اپنے اعلی ٰ اور باارزش مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔

باغبان گر پنج روزی صحبت گل بایدش

بر جفا ی خار ہجران ، صبر بلبل بایدش

اگر باغبان پانچ دن پہول کی صحبت میں رہے تو کانٹوں کی جفا سے رونما ہونے والی جدائی میں وہ بلبل کی مانند صبر سے کام لے۔

۱۷۲

گیارہواں باب

اخلاص

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' عندَ تَحَقّق الاخلَاص تَستَنیر البَصَائر ''

جب اخلاص متحقق ہوجائے تو بصیرت نورانی ہوجاتی ہے۔

    اہمیت اخلاص

    اخلاص کا نتیجہ

    صاحب جواہر الکلام کا اخلاص

    ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

    زحمت اخلاص

    نتیجۂ بحث

۱۷۳

اہمیت اخلاص

اخلاص ،یعنی انسان کے کردار ورفتار کا ریا، تظاہر اور تمام شرک آمیز امور سے پاک ہونا یہ بہت اہم اور باارزش صفات میں سے ہے کہ خداوند کریم نے اپنے بعض بندوں کو عطا کی جو عالی مراتب رکہتے ہیں ۔خداوند متعال حضرت موسیٰ (ع)  کے بارے میں فرماتا ہے :

'' وَ اذکر فی الکتاب موسیٰ انَّه کَانَ مخلصاًوَ کَانَ رَسولاًنَبیّاً ''(۱)

اور اس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے وہ یقیناً برگزیدہ نبی مرسل تہے ۔

اور حضرت یوسف (ع) کے بارے میں فرمایا :

''انَّه من عبَادنَا المخلصین ''(۲)

کیونکہ یوسف ہمارے برگذیدہ و مخلص بندوں میں سے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ مریم  آیت: ۵۱

[۲]۔ سورہ یوسف آیت: ۲۴

۱۷۴

امام جواد (ع) اخلاص کو امام زمانہ کے تین سو تیرہ سپاہیوں کی صفات میں سے ایک قراردیتے ہیں اور انہیں اس صفت و خصلت سے آراستہ ہونے کا حکم دیتے ہیں۔

حضرت امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں :

'' فَاذا اجتَمَعَت لَه هٰذه العدَّة من اَهل الاخلَاص اَظهر اَمرَه ''(۱)

جب اہل اخلاص میں سے یہ گروہ حضرت مہدی  کی خدمت میں آئے تو امام زمان اپنے امر کو ظاہر فرمائیں گے ۔

کیونکہ وہ بزرگان غیر معمولی توانائی اور غیر عادی قدرت سے بہرہ مند ہیں ، اخلاص ان کی ضروری صفات میں سے ہے تاکہ وہ اپنی روحانی طاقت سے کاملا ًامام زمان کی ولایت وحکومت کے تحت استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۲۸ص۳۵۲

۱۷۵

اخلاص کا نتیجہ

اگر ہمارا کردار ورفتار نفس کی پیروی کی بنیاد پر ہو تو ہماری زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اور آخرت میں نقصان کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہوگا لیکن ہمارے اعمال میں خدا کے لئے اخلاص ہو تو ہماری زندگی پر ثمر ہوجائے گی اور دنیا و آخرت میں بہترین نتیجہ حاصل ہوگا ۔

حضرت امام صادق (ع)  اپنی گفتار میں فرماتے ہیں :

'' اَلاخلَاص یَجمَع حَوَاصلَ الاَعمَال '' (۱)

اخلاص اعمال کے نتیجہ کو جمع کرتا ہے ۔

جب انسان کے کردار کے ثمرات و نتائج جمع ہوتے ہیں تو اس اجتماع سے ایک عظیم قوت وطاقت تشکیل پاتی ہے جس طرح پانی کا قطرہ قطرہ  دریابن جاتا ہے ۔ اخلاص بہی انسان کے رفتارو  کردارکے ثمرات کو جمع کرتا ہے اور نفس میں ایک عظیم قوت کو ایجاد کرتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار  :ج۷۰ ص۲۴۵

۱۷۶

صاحب جواہر الکلام کا اخلاص

تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی سے اس حقیقت کے بہت سے شواہد ملیں گے نمونہ کے طور پر صاحب جواہرالکلام کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

مرحوم محدث قمی لکہتے ہیں :

اسلام میں حلال وحرام کے متعلق جواہر الکلام جیسی کتاب نہیں لکہی گئی    صاحب جواہرالکلام نے پچیس سال کی عمر میں شرح شرائع یعنی جواہرالکلام کو تحریر کرناشروع کیا۔

وہ فقر وتنگدستی کے باعث ضروری کتب خرید کرنے کی قدرت نہیں رکہتے تہے لہذا انہوں نے جواہر الکلام لکہنا شروع کی تاکہ یہ شخصاً ان کے سفر میں ہمراہ ہو اور جب لوگ ان سے کوئی مسئلہ دریافت کریں تو وہ ضرورت کے وقت اس کی طرف رجوع کریں ۔

انہوں نے وہ کتاب اپنے لئے لکہی تہی نہ کہ دوسروں کے لئے ان میں کسی قسم کا ریا وتظاہر نہیں تہا۔ ان کے زمانے میں بیس علماء شرح شرائع لکہنے میں مشغول تہے ۔ لیکن ان میں سے نہ تو کوئی منتشر ہوئی اور نہ ہی مکمل ہوئی ۔

مرحوم صاحب جواہر الکلام کے ایک فرزند تہے کہ جن کا نام شیخ حمید تہا کہ جو ان کے کام اور دیگر امور انجام دیتے اور وہ اپنی کتاب کے تکمیل میں مصروف رہتے   لیکن شیخ ناگہانی موت سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور صاحب جواہر الکلام کو داغ مفارقت دے گئے ۔

۱۷۷

وہ خود فرماتے تہے کہ اپنے فرزند کی موت کے بعد مجہے دن رات چین وقرار نہیں تہا ۔ میں ہمیشہ مضطرب ومتفکر رہتا ۔

ایک رات میں کسی مجلس سے گہر جانے کے لئے نکلا تو میں راستہ میں فکر کے عالم میں جارہا تہا کہ کسی ہاتف نے میرے پیچہے سے آواز دی:

'' لَا تَفکر ،لَکَ اللّه ''

فکر نہ کرو خداتمہارے ساتہ ہے ۔

جب میں نے پیچہے مڑ کر دیکہا تو وہاں کوئی بہی نہیں تہا اس وقت خدا کی حمد کی اور خدا کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ اس رات کے بعد خدا نے اپنی رحمت کے دروازے مجہ پر کہول دیئے ۔ میرے امور منظم ہوگئے اور حالات بہی بہتر ہو گئے ۔اس آواز کو سننے کے بعد اطمینان قلب کے ساتہ صاحب جواہر الکلام کتاب کو لکہنے میں اور اسے تمام کرنے میں مصروف ہوگئے ۔

یہ ان کے مخلصانہ عمل کا نتیجہ تہا سخت ترین حالات میں ان کی مدد کی گئی ایک ندائے غیبی کو سننے کے بعد وہ ایک علمی وپرارزش کتاب جواہرالکلام کو تکمیل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

اگر ہاتف غیبی سے ان کی مدد نہ ہو تو ایک مفصل ترین فقہی کتاب  یعنی جواہر الکلام کی تالیف مکمل نہ ہوتی ۔مرحوم  صاحب جواہرالکلام ، حضرت علی (ع) کے فرمان کے روشن مصداق ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :''طوبیٰ لمَن اَخلَصَ لله العبَادَة وَ الدّعَائَ''(۱)

خوش بخت ہے وہ شخص کہ جو خدا کے لئے عبادت اور دعا کو خالص کرے ۔

وہ اپنے اس اخلاص کے ذریعہ نہ صرف اس دنیا میں سعادتمند ہوئے بلکہ آخرت میں بہی کامیاب و سرفراز ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانور :ج۷۰ص۲۲۹

۱۷۸

ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

فرمودات اہل بیت علیہم السلام میں اخلاص کے لئے مہم و قیمتی آثار ذکر ہوئے ہیں ۔ اخلاص  اس حد تک اہمیت کا حامل ہے شاید کچہ لوگ گمان کریں کہ اخلاص کا حصول، سب کا وظیفہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف ممتاز شخصیات اور اولیاء خدا کے لئے ضروری ہے فقط وہ ہی اخلاص کی نعمت سے بہرہمند ہوں ۔ لیکن قرآن مجید ایک عمومی دعوت میں فرماتا ہے :

'' فَادعوا الله مخلصینَ لَه الدّ ینَ وَ لَوکَرهَ الکَافرونَ''(۱)

پس دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرکے اللہ ہی کو پکارو اگرچہ کفار کو برا لگے۔

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دینی اعمال ریاء سے پاک ہوں اور انہیں اخلاص اور خشوع اور خضوع سے بجا لائے۔ بلکہ اس طرح روایات میں آیا ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال اور رفتار وکردار میں تظاہر ریاء اور خود نمائی سے پرہیز کرے ۔

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' اخلص حَرَکَاتکَ من الرّیَائ'' (۲)

اپنی حرکات کو ریاء سے پاک کرو ۔

کیونکہ انسان کی رفتار وکردار اس وقت ارزشمند ہوتی ہے جب اس میں ریاء وتظاہر نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ غافر آیت: ۱۴

[۲]۔ بحارالانوار:ج ۷۱ ص ۲۱۶

۱۷۹

می فروشد زاہد خود بین بہ دنیا دین خویش

گشتہ معلومش کہ در عقبی متاعش باب نیست

جب متکبر اور خود پسند عبادت گزار کو یہ معلوم ہوا کہ آخرت میں اس کے لئے کوئی متاع نہیں ہے تو اس نے دنیا کے مقابل میں اپنے دین کو فروخت کر دیا ۔

پس اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ہم سب کو اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیئے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ غفلت کی وجہ سے خدا کو صرف سخت مشکلات میں مخلصانہ یاد کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہے:

''هو الَّذی یسَیّرکم فی البرّ وَالبَحر حَتّیٰ اذَا کنتم فی الفلک وَ جَرَینَ بهم بریحٍ وَ فَر حوا بها جَائَتها بریحٍ عَاسفٍ وَ جَا ئَهم المَوج من کلّ مَکَانٍ وَ ظَنّوا اَنَّهم احیطَ بهم دَعَواللّٰه مخلصینَ لَه الدّ ین لَئن اَنجَیتَنَا من هٰذه لَنَکونَنَّ من الشَّاکرین''(۱)

وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے چنانچہ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر موافق ہوا کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں ۔ اتنے میں کشتی کومخالف تیز ہوا کاتہپیڑا لگتا ہے اور ہرطرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں ) گہر گئے ہیں تو اس وقت وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ یونس آیت: ۲۲

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259