کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153291 / ڈاؤنلوڈ: 4717
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی

جن تلخیوں میں صبر سے کام لیں تو پہر انسان ان تلخیوں کو بہول جاتا ہے اور انسان کے لئے سختیاں آسان ہوجاتی ہیں ۔

بزرگان الہی شیریں نتائج تک پہنچنے کے لئے صبر سے کام لیتے اور صبر کو اسرار کے خزانوں کی چابی سمجہتے ۔ وہ معتقد تہے کہ ان خزانوں تک پہنچنے کے لئے ان کی چابی یعنی صبر کا ہونا ضروری ہے ۔

حضرت امام حسن (ع)  اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں :

فَلَستم اَیّهاالناس نَائلین مَا تحبّونَ الَّا بالصَّبرعَلیٰ مَا تکرهون(۱)

اے لوگو ! تم جسے چاہتے ہو اس تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ جس چیز سے تمہیں کراہت ہو اس پر صبر کرو ۔

اس فرمان میں امام حسن مجتبی (ع) ہدف تک پہنچنے کے لئے صبر کومستقیم راہ قرار دیتے ہیں ۔ مورد نظر اہداف تک پہنچنے کے لئے شرط موانع اور مشکلات کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے کیونکہ صبر قوت وارادہ کی ہمت میں اضافہ کا باعث ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار الانوار:ج ۵۰ص۴۴

۱۶۱

صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث

ارادہ کی بحث میں ہم نے اس کے مثبت اثرات کو ذکر کیا اور ہم نے عرض کیا کہ کہ ہر بلند اہداف رکہنے والے کے لئے ارادہ کا وجود ضروری ہے نیز ہم نے ارادہ کو ایجاد اور اسے تقویت دینے کے طریقے بہی ذکر کئے اب ہم مورد بحث موضوع میں اس کی اہمیت کو بیان کریں گے ۔

صبر ارادہ کی مئوثر ترین راہ ہے اس کی وجہ سے صبر کرنے والے شخص کی قدرت ارادہ قوی ہوجاتی ہے۔ قدرت ارادہ کے قوی ہونے سے مشکلات اور سختیاں آسانی سے حل ہوجاتی ہیں خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

''  وَاصبر عَلیٰ مَا اَصَابَکَ انَّ ذٰلکَ من عَزم الامور'' (۱)

اس راہ میں جو مصیبت پڑے اس پر صبر کرو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ لقمان آیت:۱۷

۱۶۲

اگر ز سہم حوادث مصیبتی رسدت

درین نشین حرمان کہ موطن خطر ست

مکن بہ دست جزع دام صبوری چاک

کہ آہ ونالہ دراینجا مصیبت دگر ست

اگر تمہیں زمانے کے حوادث میں سے کوئی مصیبت پیش آئے تو اس کی وجہ سے مایوس نہ ہو جانا کیونکہ دنیا مصیبتوں کا گہر ہے مصیبتوں پر واویلا کرکے صبر کا دامن چاک نہ کرناکیونکہ یہاں آہ و واویلا کرنا ایک اور مصیبت ہے۔

جو مصیبتوں سختیوں اور مشکلات کے سامنے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو مشکلات کو تحمل کرنے سے ان میں عزم وارادہ قوی اور راسخ ہوجاتاہے ۔کیونکہ صابر انسان جب مشکلات و مصائب کو برداشت کرتا ہے تواس سے اس میں قوت ارادہ تقویت پاتی ہے اور اسے دیگر موانع کے سامنے بہی صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرتا ہے۔کبہی قوت مقاومت اس قدر زیادہ ہوجاتی ہے کہ اس کا دل لوہے کی طرح مضبوط ہوجاتاہے ۔

پہر وہ ہر قسم کے شیطانی وسوسہ اور خواہشات نفسانی کے مقابلے میں مقاومت کر سکتا ہے ایسا انسان اپنی توانائی کے مطابق امر ولایت آل اللہ کو قبول کرتا ہے اور خاندان وحی کے عقائدومعارف کو دل وجان سے قبول کرتا ہے اور خدا کے امتحان سے عہدہ برآمد ہوتا ہے ۔

۱۶۳

صبر حضرت ایوب (ع)

حضرت ایوب (ع) وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے مشکلات ومصائب کے سامنے صبر کیا اور خداوند متعال کے سخت امتحان سے بخوبی عہدہ برآمد ہوئے ۔

وہ مختلف گرفتاریوں اور مصائب میں مبتلا ہونے سے پہلے چالیس سال تک انہیں خدا کی عظیم نعمتیں میسر رہیں ۔ہر دن ہزار افراد ان کی نعمتوں کے دسترخوان سے استفادہ کرتے اور ان کی زراعتی زمین اس حدتک تہی کہ انہوں نے امر فرمایا تہا کہ ہرانسان یا حیوان ان کی زراعت سے جس چیز سے بہی چاہے استفادہ کر سکتا ہے چار سو غلام ان کے اونٹوں کے ساربان تہے ۔

پہر ایک دن حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا ! اے ایوب  تمہاری نعمتوں کا زمانہ ختم ہوگیا اب مصیبتوں اور گرفتاریوں کا وقت آپہنچاہے، اب ان کے لئے آمادہ و تیار رہو ۔

حضرت ایوب (ع)مصیبتوں کے آنے کے منتظر تہے ۔ ایک دن نماز صبح کے بعد اچانک ایک آواز آئی یہ پر دردناک آواز تہی جس کی طرف آپ متوجہ ہوئے،یہ شبان کی آواز تہی۔

جناب  ایوب (ع) نے پوچہا شبان کیا ہوا ہے ؟ شبان نے کہا پہاڑوں کے دامن سے آنے والے سیلاب میں تمام گلّہ بہہ گیا ہے اسی وقت ساربان اپنی گریبان چاک کرکے آیا اور کہا ! سمانی بجلی گرنے سےتمام اونٹ ہلاک ہوگئے ۔

۱۶۴

اسی وقت باغبان ہراسان ہوکر آیا اور کہا آندہی چلنے سے تمام درخت گر گئے ۔حضرت ایوب() یہ سب سن رہے تہے اور ذکر خدا میں مشغول تہے کہ ان کے بیٹوں کا معلم آہ وفغاں کرتا ہوا آیا اور کہا کہ آپ کے بارہ بیٹے آپ  کے بڑے بہائی کے گہر مہمان تہے اچانک گہر کی چہت ان پر گری اور تمام کے تمام اس دنیا سے چلے گئے ۔

اس وقت حضرت ایوب (ع) کی حالت تہوڑی تبدیل ہوگئی لیکن وہ جلد ہی متوجہ ہوگئے اور سجدہ میں گرکر کہا:

پروردگارا! جب تم میرے ساتہ ہو تو گویا میں ہر چیز رکہتا ہوں جب ان کا تمام مال اور اولاد ختم ہوگئے تو پہر ان پر طرح طرح کی بیماریوں  نے حملہ کیا وہ کئی سال تک بدترین وضعیت وکیفیت میں رہے لیکن انہوں نے اسی طرح صبر واستقامت کا دامن نہ چہوڑا اور خدا کے سخت ترین امتحان میں کامیاب ہوئے یہاں تک کہ امتحان کا وقت تمام ہوا ۔

انہوں نے سالوں بعد خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:

''انّی مَسَّنی الضّرّوَ اَنتَ اَرحَمَ الرَّاحمین'' (۱)

مجہے بیماری نے چہو لیا ہے اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے ۔

پہر ان کی دعا مستجاب ہوئی اور انہیں مشکلات ومصائب سے نجات ملی ۔

ترسم بہ عجز حمل نماید وگرنہ من      شرمندہ می کنم بہ تحمل زمانہ را

میں اپنے عجز و ناتوانی سے خائف ہوں کہ کہیں وہ مجہے اپنی لپیٹ میں نہ لے ورنہ میں زمانے کی سختیوں کو برداشت کرکے شرمندہ کر سکتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ انبیاء آیت :۸۳

۱۶۵

اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا

بعض لوگ مصائب ومشکلات  کے مقابل میں صبور وبردبار ہوتے ہیں اور بعض لوگ زندگی کی تلخیوں اور مصائب اور مشکل امور کے مقابل میں تحمل وبرداشت کی طاقت نہیں رکہتے ۔

ایسے افراد کچہ ایسی مشکلات جنہیں صبر واستقامت کے ذریعہ ختم کر سکتے ہیں ۔ ان کو ختم کرنے کے بجائے کچہ اور مشکلات ایجاد کرتے ہیں  جو ان کی زندگی کو برباد کردیتی ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین  (ع) فرماتے ہیں :

'' وَ عَوّد نَفسکَ باالتَّصَبّر'' (۱)

اپنے نفس کو صبر و استقامت کی عادت ڈالو ۔

کیونکہ نفس آرام پسند ہے جو کہ سختیوں اور تلخیوں سے بہاگتا ہے ۔

جو انہیں تحمل کرنے کی تاب نہیں رکہتا  وہ کبہی بہی بلند مقامات تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اگر چاہتے ہیںکہ  نفس مشکلات  ودشواریوں کو تحمل کر سکے تو صبر کا درس سیکہیں اور اپنے نفس کو صبر کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ عظیم واعلی اہداف تک پہنچ سکیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۱۶۶

کیونکہ کہ کسی بہی کام میں اکراہ واجبار کاکوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ بہت سے موارد میں اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں ، حتی کہ صبر واستقامت بہی اس صورت میں نافع ہے کہ نفس اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو ۔ اسی وجہ سے حضرت خضر(ع)نے حضرت موسیٰ    (ع)سے فرمایا :'' وَ طّن نَفسَکَ عَلی الصَّبر'' (۱) اپنے نفس کو صبر کے لئے آمادہ کرو۔

جب  انساں صبر واستقامت سے کام لے تو وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔

صبر وظفر ہردو از دوستان قدیمند          بر اثر صبر ، نوبت ظفر آید

یعنی صبر اور کامیابی دونوں قدیم دوست ہیں صبر سے کام لینے کے بعد پہر کامیابی کی باری آتی ہے۔ اسی طرح ان کے ارشادات میں سے ہے:'' رَضّ نَفسَکَ عَلی الصَّبر تخَلّص من الاثم'' (۲)

اپنے نفس کو صبر پر راضی کرو  تاکہ گناہوں  سے نجات پا سکو ۔

کیونکہ جب آپ نے اپنے نفس کو صبر کے لئے آمادہ و راضی نہ کیا تو باطنی اکراہ اور نفس کی بے میلی برے اثرات کا موجب بنے گی ۔ پہر نفس کی طغیانی اور سرکشی آپ کی شکست کا باعث بنے گی۔

جی ہاں! اہل بیت عصمت و طہارت نے ہمیں صبر و استقامت کا امر فرمایا اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ صبر امتحانات الہی میں کامیابی کا وسیلہ ہے صبر کے ذریعہ انسان آزمائش کے طور پر آنے والے مشکلات ومصائب کے مقابلے میں اپنے اعمال وا عتقادات پر ثابت قدم رہتا ہے   تمام اولیاء خدا کو یہ امتحانات در پیش آئے اور انہوں نے شدید مشکلات میں بہی مشیت خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  بحار  الانوار:ج  ۳۴ ص ۶۱

[۲] ۔ بحار الانوار:ج ۱ص ۲۲۷

۱۶۷

مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

جنہوں نے مشکلات کے مقابلہ میں صبر سے کام لیا اور اپنے راسخ عزم اور ایمان کو ثابت کیا ان میں سے ایک ملّا علی کَنی ہے ۔ وہ نجف اشرف میں انتہائی فقر و احتیاج کے عالم میں زندگی بسر کررہے تہے وہ ہر ہفتہ میں ایک رات مسجد سہلہ میںجاتے اور دوسروں کو متوجہ کئے بغیر مسجد کے اردگرد کناروں میں ڈالے گئے روٹی کے ٹکڑوں کو جمع کرتے اور مدرسہ لے جاتے اور ایک ہفتہ اسی پر گزر بسر کرتے وہ مدتوں اسی طرح کرتے رہے اور صبر استقامت کو اپنی عادت بنا لیا پہر وہ نجف اشرف سے عازم کربلا ہوئے انہوں نے وہاں بہی انتہائی سختی اور تنگدستی میں زندگی گزاری لیکن کبہی صبر کا دامن نہ چہوڑا، اور   استقامت سے کام لیتے رہے پہر وہ اپنی مشکلات سے نجات پانے کے لئے حضرت حر سے متوسل ہوئے یہ رسم تہی کہ تنگدست افراد چہار شنبہ کے چندہفتے حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ان سے متوسل ہوتے۔ جناب حر سے متوسل ہونے سے ان کی مادی مشکلات حل ہوجاتیں مرحوم علی کَنی چہار شنبہ کی رات حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ایک رات حضرت حر نے خواب میں ان سے فرمایا میرے آقا نے تمہیں تہران کا آقا قرار دیا ہے ۔

اگلے روز ایک مومن ملا اور اسے پانی کا مشکیزہ عطا کیا دوسرے شخص نے اس سے وہ مشکیزہ ایک سال کے لئے۲۵ تومان پر اجارہ پہ لے لیا  ۔ مرحوم علی ان پیسوں کے ذریعہ تہران پہنچ گئے دوسرے سال وہ مشکیزہ چار سوتومان پر اجارہ دیا آہستہ آہستہ ان کا حکم مانا جانے لگا ۔ یہاں تک کے ناصر الدین شاہ ان سے خائف ہونے لگا ۔

۱۶۸

کہتے ہیں کہ شاہ کے حکم پہ تہران میں ایک خیابان بنا ئی گئی کہ جس کی وجہ سے ایک چہوٹی سی مسجد کو خراب کیا گیا چونکہ یہ شاہ کا حکم تہا لہٰذا تہران کے علماء اس کی مخالفت نہ کرسکے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ اس مسجد کے عوض دوسری جگہ ایک بڑی مسجد بنائی جائے مرحوم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے شاہ کو ایک خط لکہا جس کی ابتداء میں لکہا تہا۔

'' بسم اللّٰه الرَّحمٰن الرَّحیم اَ لَم تَرَ کَیفَ فَعَلَ رَبّکَ باَصحَاب الفیل''

شاہ مسجد کو توڑنے سے باز رہا اور خیابان کا راستہ تبدیل کردیا ایک دن ناصر الدین شاہ اپنے خدام کے ہمراہ شکار کے قصد سے شہر کے دروازے سے باہر گیا شہر سے نکلنے کے بعد تہران کا نظارہ کیا اور کچہ دیر فکر کرنے کے بعد اپنے ارادہ پر پشیمان ہوا اور واپس شہر چلا گیا اس کے بعض قرابت داروں نے اس کی وجہ پوچہی تو شاہ نے یہ جواب دیا جب شہر سے باہر نکلا تو میری نظر شہر کے دروازوں پر پڑی تہی تو مجہے خیال آیا کہ اگر حاجی علی نے حکم کیا کہ شہر کے دروازوں کو بند کردو اور پہر نہ کہولیں تو میں کیا کروں گا؟ اس خوف و وحشت سے میں نے سوچا بہتر یہ ہی ہے کہ واپس شہر چلا جائوں مرحوم علی کنی کہ تجملات ایسے تہے کہ جو شہزادوں کے لئے بہی مورد توجہ تہے۔ کہتے ہیں کہ ناصرالدین شاہ کی بیٹی عراق  گئی اور نجف اشرف میں مرحوم شیخ انصاری کی زیارت سے شرفیاب ہوئی اس نے زہد عیسوی اور ورع یحیوی کی علائم شیخ میں پائے  ۔ شیخ کے کمرے  کے آدہے فرش پر ایک بوریا بچہا ہوا تہا حصیر کا ایک دستر خوان دیار پر آویزان تہا اور ایک چراغ تہا کہ جس سے نصف کمرے میں روشنی تہی جب اس نے کمرے کی یہ حالت دیکہی تو اس سے رہا نہ گیا اور کہا کہ اگر مجتہد وملّا ایسے ہیں تو پہر ملّا علی کیا کہتا ہے ؟

ابہی اس کی بات مکمل نہ ہوئی تہی کہ مرحوم شیخ انصاری اس حد تک غضبناک ہوئے کہ وہ رونے لگی اور کہا آقا میں تو بہ کرتی ہوں مجہے علم نہیں تہا ۔ مجہے معاف فرمائیں  ۔ شیخ نے اس کی غلطی سے در گذر فرمایا اور کہا جناب علی کنی کو حق ہے کہ وہ ویسی زندگی گذاریں ۔ کیونکہ وہ تمہارے باپ کے سامنے ویسی ہی زندگی گزارے لیکن میں طلّاب کے درمیان رہتا ہوں لہٰذامیری زندگی بہی طلّاب کے مانند ہونی چاہئے اگر مرحوم علی مشکلات کے مقابل میں صبر و استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے تو انہیں یہ تمام محبوبیت ، قدرت وعظمت کیسے حاصل ہوتی۔

۱۶۹

صبر قوت وقدرت کا باعث

خداوندتعالیٰ صبر کو مدد اور استعانت کا وسیلہ قرار دیتا ہے اور قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

''وَاستَعینوا با الصَّبر وَ الصَّلٰوة '' (۱)

صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔

خداوند متعال نے  صبر کو نماز کے ساتہ بلکہ اس پر مقدم فرمایاہے جو اس بات کا اشارہ

ہے کہ صبر کی وجہ سے انسان میں ایجاد ہونے والی قوت  بخش آثار سےبخوبی مدد لے سکتے ہیں انسان صبر کی وجہ سے خدا کی غیبی امداد سے بہی بہرہ مند ہوتا ہے یہ غیبی امداد ملائکہ صبر کرنے والوں تک پہنچاتے ہیں قرآن نہ صرف صبرواستقامت کو انسان وظیفہ قرار دیتا ہے بلکہ اس کے علاوہ یہ حکم بہی دیتا ہے کہ دوسروں کو بہی صبر کا امر کرو ۔

خدا وند متعال قرآن میں فرماتا ہے :

'' یا  ایها الَّذینَ اٰمَنوا اصبروا وَ صَابروا وَ رَابطوا ''(۲)

اے ایمان والو صبر کرو صبر کی تعلیم دو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ بقرہ آیت: ۴۵

[۲] ۔ سورہ آل عمران آیت: ۲۰۰

۱۷۰

انسان صبر واستقامت کے ذریعہ بیشتر قوت و قدرت حاصل کرتا ہے جس سے وہ مشکلات اور سختیوں کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے ۔ مشکلات کو تحمل کرنے کے لئے آمادگی اورمخالف قوت کے سامنے مقاومت میں مہم نقش رکہتا ہے ۔

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :

'' ان یَکن منکم عشرونَ صَابرون یَغلبوا '' (۱)

اگر ان میں سے بیس بہی صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آجائیں ۔

کیونکہ صبر انسان کی جسمانی قوت میں اضافہ کرتا ہے اوراسے دشمن کے سامنے مقاوم اور ثابت قدم رکہتا ہے ۔

پافشاری واستقامت میخ               سزد از عبر ت بشر گردد

بر سرش ہرچہ بیشتر کوبی         پافشاریش بیشتر گردد

یعنی استقامت اور ثابت قدمی میخ کی شان ہے جس میں انسانوںکے لئے سبق ہے کیونکہ   میخ کے سر پر جتنا زیادہ  مارو  وہ اتنا ہی زیادہ  محکم اور ثابت قدم ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ سورہ انفال آیت: ۶۵

۱۷۱

نتیجۂ بحث

عظیم مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کی شرائط میں سے ایک مہم شرط صبر واستقامت ہے اپنے نفس کو صبرواستقامت پرتیار کرو تاکہ بڑی سے بڑی مشکل بہی آپ کے لئے آسان ہوجائے ۔ صبر واستقامت سے آپ کی قوت ارادہ میں بہی اضافہ ہوتا ہے ۔

صبر واستقامت پانی کے ایسے بند کی مانند ہے جو پانی کو ضائع ہونے سے روکتا ہے یہ آپ کی توانائی کو متمرکز کرتا ہے ۔

بزرگوں نے بڑے سے بڑے موانع کو بہی صبر واستقامت سے برطرف کیا اور اپنی دیرینہ آرزو کو پورا کیا اس وقت زندگی کی تمام تلخیاں ، ناکامیاں صبر کی وجہ سے لذائذ میں تبدیل ہوجاتی ہیں آپ بہی صبر واستقامت کا دامن ہاتہ سے نہ چہوٹنے دیں اور بڑی بڑی مشکلات اور مصائب کے سامنے ثابت قدم رہیں تاکہ آپ بہی کامیاب بزرگان کی طرح اپنے اعلی ٰ اور باارزش مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکیں۔

باغبان گر پنج روزی صحبت گل بایدش

بر جفا ی خار ہجران ، صبر بلبل بایدش

اگر باغبان پانچ دن پہول کی صحبت میں رہے تو کانٹوں کی جفا سے رونما ہونے والی جدائی میں وہ بلبل کی مانند صبر سے کام لے۔

۱۷۲

گیارہواں باب

اخلاص

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' عندَ تَحَقّق الاخلَاص تَستَنیر البَصَائر ''

جب اخلاص متحقق ہوجائے تو بصیرت نورانی ہوجاتی ہے۔

    اہمیت اخلاص

    اخلاص کا نتیجہ

    صاحب جواہر الکلام کا اخلاص

    ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

    زحمت اخلاص

    نتیجۂ بحث

۱۷۳

اہمیت اخلاص

اخلاص ،یعنی انسان کے کردار ورفتار کا ریا، تظاہر اور تمام شرک آمیز امور سے پاک ہونا یہ بہت اہم اور باارزش صفات میں سے ہے کہ خداوند کریم نے اپنے بعض بندوں کو عطا کی جو عالی مراتب رکہتے ہیں ۔خداوند متعال حضرت موسیٰ (ع)  کے بارے میں فرماتا ہے :

'' وَ اذکر فی الکتاب موسیٰ انَّه کَانَ مخلصاًوَ کَانَ رَسولاًنَبیّاً ''(۱)

اور اس کتاب میں موسیٰ کا ذکر کیجئے وہ یقیناً برگزیدہ نبی مرسل تہے ۔

اور حضرت یوسف (ع) کے بارے میں فرمایا :

''انَّه من عبَادنَا المخلصین ''(۲)

کیونکہ یوسف ہمارے برگذیدہ و مخلص بندوں میں سے تہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ مریم  آیت: ۵۱

[۲]۔ سورہ یوسف آیت: ۲۴

۱۷۴

امام جواد (ع) اخلاص کو امام زمانہ کے تین سو تیرہ سپاہیوں کی صفات میں سے ایک قراردیتے ہیں اور انہیں اس صفت و خصلت سے آراستہ ہونے کا حکم دیتے ہیں۔

حضرت امام محمد تقی (ع) فرماتے ہیں :

'' فَاذا اجتَمَعَت لَه هٰذه العدَّة من اَهل الاخلَاص اَظهر اَمرَه ''(۱)

جب اہل اخلاص میں سے یہ گروہ حضرت مہدی  کی خدمت میں آئے تو امام زمان اپنے امر کو ظاہر فرمائیں گے ۔

کیونکہ وہ بزرگان غیر معمولی توانائی اور غیر عادی قدرت سے بہرہ مند ہیں ، اخلاص ان کی ضروری صفات میں سے ہے تاکہ وہ اپنی روحانی طاقت سے کاملا ًامام زمان کی ولایت وحکومت کے تحت استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۲۸ص۳۵۲

۱۷۵

اخلاص کا نتیجہ

اگر ہمارا کردار ورفتار نفس کی پیروی کی بنیاد پر ہو تو ہماری زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اور آخرت میں نقصان کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہوگا لیکن ہمارے اعمال میں خدا کے لئے اخلاص ہو تو ہماری زندگی پر ثمر ہوجائے گی اور دنیا و آخرت میں بہترین نتیجہ حاصل ہوگا ۔

حضرت امام صادق (ع)  اپنی گفتار میں فرماتے ہیں :

'' اَلاخلَاص یَجمَع حَوَاصلَ الاَعمَال '' (۱)

اخلاص اعمال کے نتیجہ کو جمع کرتا ہے ۔

جب انسان کے کردار کے ثمرات و نتائج جمع ہوتے ہیں تو اس اجتماع سے ایک عظیم قوت وطاقت تشکیل پاتی ہے جس طرح پانی کا قطرہ قطرہ  دریابن جاتا ہے ۔ اخلاص بہی انسان کے رفتارو  کردارکے ثمرات کو جمع کرتا ہے اور نفس میں ایک عظیم قوت کو ایجاد کرتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار  :ج۷۰ ص۲۴۵

۱۷۶

صاحب جواہر الکلام کا اخلاص

تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی سے اس حقیقت کے بہت سے شواہد ملیں گے نمونہ کے طور پر صاحب جواہرالکلام کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

مرحوم محدث قمی لکہتے ہیں :

اسلام میں حلال وحرام کے متعلق جواہر الکلام جیسی کتاب نہیں لکہی گئی    صاحب جواہرالکلام نے پچیس سال کی عمر میں شرح شرائع یعنی جواہرالکلام کو تحریر کرناشروع کیا۔

وہ فقر وتنگدستی کے باعث ضروری کتب خرید کرنے کی قدرت نہیں رکہتے تہے لہذا انہوں نے جواہر الکلام لکہنا شروع کی تاکہ یہ شخصاً ان کے سفر میں ہمراہ ہو اور جب لوگ ان سے کوئی مسئلہ دریافت کریں تو وہ ضرورت کے وقت اس کی طرف رجوع کریں ۔

انہوں نے وہ کتاب اپنے لئے لکہی تہی نہ کہ دوسروں کے لئے ان میں کسی قسم کا ریا وتظاہر نہیں تہا۔ ان کے زمانے میں بیس علماء شرح شرائع لکہنے میں مشغول تہے ۔ لیکن ان میں سے نہ تو کوئی منتشر ہوئی اور نہ ہی مکمل ہوئی ۔

مرحوم صاحب جواہر الکلام کے ایک فرزند تہے کہ جن کا نام شیخ حمید تہا کہ جو ان کے کام اور دیگر امور انجام دیتے اور وہ اپنی کتاب کے تکمیل میں مصروف رہتے   لیکن شیخ ناگہانی موت سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور صاحب جواہر الکلام کو داغ مفارقت دے گئے ۔

۱۷۷

وہ خود فرماتے تہے کہ اپنے فرزند کی موت کے بعد مجہے دن رات چین وقرار نہیں تہا ۔ میں ہمیشہ مضطرب ومتفکر رہتا ۔

ایک رات میں کسی مجلس سے گہر جانے کے لئے نکلا تو میں راستہ میں فکر کے عالم میں جارہا تہا کہ کسی ہاتف نے میرے پیچہے سے آواز دی:

'' لَا تَفکر ،لَکَ اللّه ''

فکر نہ کرو خداتمہارے ساتہ ہے ۔

جب میں نے پیچہے مڑ کر دیکہا تو وہاں کوئی بہی نہیں تہا اس وقت خدا کی حمد کی اور خدا کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ اس رات کے بعد خدا نے اپنی رحمت کے دروازے مجہ پر کہول دیئے ۔ میرے امور منظم ہوگئے اور حالات بہی بہتر ہو گئے ۔اس آواز کو سننے کے بعد اطمینان قلب کے ساتہ صاحب جواہر الکلام کتاب کو لکہنے میں اور اسے تمام کرنے میں مصروف ہوگئے ۔

یہ ان کے مخلصانہ عمل کا نتیجہ تہا سخت ترین حالات میں ان کی مدد کی گئی ایک ندائے غیبی کو سننے کے بعد وہ ایک علمی وپرارزش کتاب جواہرالکلام کو تکمیل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

اگر ہاتف غیبی سے ان کی مدد نہ ہو تو ایک مفصل ترین فقہی کتاب  یعنی جواہر الکلام کی تالیف مکمل نہ ہوتی ۔مرحوم  صاحب جواہرالکلام ، حضرت علی (ع) کے فرمان کے روشن مصداق ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :''طوبیٰ لمَن اَخلَصَ لله العبَادَة وَ الدّعَائَ''(۱)

خوش بخت ہے وہ شخص کہ جو خدا کے لئے عبادت اور دعا کو خالص کرے ۔

وہ اپنے اس اخلاص کے ذریعہ نہ صرف اس دنیا میں سعادتمند ہوئے بلکہ آخرت میں بہی کامیاب و سرفراز ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانور :ج۷۰ص۲۲۹

۱۷۸

ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟

فرمودات اہل بیت علیہم السلام میں اخلاص کے لئے مہم و قیمتی آثار ذکر ہوئے ہیں ۔ اخلاص  اس حد تک اہمیت کا حامل ہے شاید کچہ لوگ گمان کریں کہ اخلاص کا حصول، سب کا وظیفہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف ممتاز شخصیات اور اولیاء خدا کے لئے ضروری ہے فقط وہ ہی اخلاص کی نعمت سے بہرہمند ہوں ۔ لیکن قرآن مجید ایک عمومی دعوت میں فرماتا ہے :

'' فَادعوا الله مخلصینَ لَه الدّ ینَ وَ لَوکَرهَ الکَافرونَ''(۱)

پس دین کو صرف اسی کے لیے خالص کرکے اللہ ہی کو پکارو اگرچہ کفار کو برا لگے۔

اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ہر انسان کے دینی اعمال ریاء سے پاک ہوں اور انہیں اخلاص اور خشوع اور خضوع سے بجا لائے۔ بلکہ اس طرح روایات میں آیا ہے کہ انسان اپنے تمام اعمال اور رفتار وکردار میں تظاہر ریاء اور خود نمائی سے پرہیز کرے ۔

امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' اخلص حَرَکَاتکَ من الرّیَائ'' (۲)

اپنی حرکات کو ریاء سے پاک کرو ۔

کیونکہ انسان کی رفتار وکردار اس وقت ارزشمند ہوتی ہے جب اس میں ریاء وتظاہر نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ غافر آیت: ۱۴

[۲]۔ بحارالانوار:ج ۷۱ ص ۲۱۶

۱۷۹

می فروشد زاہد خود بین بہ دنیا دین خویش

گشتہ معلومش کہ در عقبی متاعش باب نیست

جب متکبر اور خود پسند عبادت گزار کو یہ معلوم ہوا کہ آخرت میں اس کے لئے کوئی متاع نہیں ہے تو اس نے دنیا کے مقابل میں اپنے دین کو فروخت کر دیا ۔

پس اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ہم سب کو اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیئے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ غفلت کی وجہ سے خدا کو صرف سخت مشکلات میں مخلصانہ یاد کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد قدرت ہے:

''هو الَّذی یسَیّرکم فی البرّ وَالبَحر حَتّیٰ اذَا کنتم فی الفلک وَ جَرَینَ بهم بریحٍ وَ فَر حوا بها جَائَتها بریحٍ عَاسفٍ وَ جَا ئَهم المَوج من کلّ مَکَانٍ وَ ظَنّوا اَنَّهم احیطَ بهم دَعَواللّٰه مخلصینَ لَه الدّ ین لَئن اَنجَیتَنَا من هٰذه لَنَکونَنَّ من الشَّاکرین''(۱)

وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے چنانچہ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر موافق ہوا کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں ۔ اتنے میں کشتی کومخالف تیز ہوا کاتہپیڑا لگتا ہے اور ہرطرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں ) گہر گئے ہیں تو اس وقت وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ یونس آیت: ۲۲

۱۸۰

اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تونے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے ۔

دوسرے مورد میں خدا وند تعالی ارشاد فرماتا ہے :

''فَاذَا رَکبوا فی الفلک دَعَو الله مخلصینَ لَه الدّینَ فَلَمَّا نَجَّینٰهم الی البَرّ اذَا هم یشرکونَ ''(4)

پہر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان وعقیدہ کے پورے اخلاس کے ساتہ خدا کو پکارتے ہیں پہر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچادیتا ہے تو فورا شرک اختیار کرلیتے ہیں ۔

زاہد کہ ترس روز جزا  را بہانہ ساخت

بیمش ز خلق بود ، خدا رابہانہ ساخت

جو زاہدروز قیامت کو بہانہ بنا کر زہد اختیار کرے حقیقت میں لوگوں سے ڈرتا تہا مگر اس نے خدا سے ڈرنے کا بہانہ کیا۔

آیات قرآنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ۔ ہرعبادی برنامہ میں اخلاص ہونا چاہیئے ،لیکن بہت سے لوگ خدا کو صرف شدید مشکل میں یاد کرتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[4]۔ سورہ عنکبوت آیت: 65

۱۸۱

زحمت اخلاص

ایک عجولانہ قضاوت سے اپنے آپ کو مخلص شمار نہ کریں۔بلکہ یہ اعتراف کریں کہ اخلاص کا مالک بننا بہت مشکل و دشوار ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین(ع) فرماتے ہیں:

'' تَصفیَة من العَمَل اَشَدّ من العَمَل وَ تَخلیص النّیة من الفَسَاد اَشَدّ عَلی العَاملین من طولٍ'' (1)

عمل کو خالص کرنا ،جو اصل عمل سے سخت تر ہے اور فساد سے نیت کو خالص کرنا اہل عمل کے لئے جنگ کو طول دینے سے زیادہ سخت ہے۔

دوسری روایت میں ہے امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' اَلابقَائ عَلی العَمَل حتّیٰ یَخلص اَشَدّ من العَمَل '' (2)

عمل کو ادامہ دینا ،تاکہ وہ خالص ہوجائے ،اصل عمل سے سخت ہے۔

ان روایات پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء خدا ،برجستہ شخصیات  اور علماء حقہ نے کاموں میں اخلاص کو اختیار کیا اور اپنے اعمال کو مخلصانہ طور پر انجام دیا ،انہوں نے کن سختیوں اور دشواریوں کو برداشت کیا اور مرحلہ اخلاص تک پہنچے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار  الانوار:ج۷۷ص۲۹۰

[2]۔بحار  الانوار:ج۷۰ص۲۳۰

۱۸۲

حضرت امام رضا(ع) فرماتے ہیں:

'' یَخلصونَ کَمَا یَخلص الذَّهبَ''(1)

جس طرح سونا ،سونار کے پاس حرارت کی وجہ سے زیادہ خالص ہوجاتا ہے اسی طرح وہ بزرگان بہی بہت مشکلات اور دشواریوں کو تحمل کرنے کے بعد اخلاصکی منزل تک پہنچے۔وہ اس طرح خالص ہوجاتے تہے کہ جیسے سونا خالص ہوتا ہے۔

قلب روی اندودہ نستانند در بازارحشر

خالصی باید کہ از آتش برون آید سلیم

انسان کا دل بہت سی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ بازار حشر میں پیش کیا جائے،جس طرح سونا تپش اور حرارت کے بعد ہی خالص ہوتا ہے اور اس میں چمک پیدا ہوتی ہے۔

اسی بناء پر رسول اکرم(ص) کے اس فرمان پر تعجب نہ کریں کہ جب رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

''مَن اَخلَصَ للّٰه اَربَعینَ یَوماً فَجَّرَ الله یَنَابیعَ الحکمَة من قلبه عَلیٰ لسَانه''(2)

جو بہی چالیس دن اخلاص سے خدا کے لئے عمل انجام دے خداوند کریم اس کے دل سے،اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری کرتا ہے۔

کیونکہ جو اپنے وجود و جسم کو شیطان کے وجود سے پاک کرے اور خواہشات نفسانی کو ترک کرے ملائکہ کو اپنے دل میں جگہ دے اور اپنے دل کو خدا کا گہر قرار دے تو اس کی خدمت میں مامور ملائکہ اس کے دل پر حکمتیں نازل کریں گے،اس پر الہام ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵۲ص۱۱۵

[2]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۲۴۹

۱۸۳

ان مراحل تک پہنچنے کے بار ے میں امام صادق(ع)  فرماتے ہیں:

''اَلقَلب حَرَم الله فَلَا تسکن فَی حَرَم  الله غَیرَالله''(1)

دل خدا کا حرم ہے ۔ پس خدا کے حرم میں غیر خدا کو جگہ نہ دو۔

جو انسان اخلاص کی منزل کو پالے وہ تمام گناہوں سے ہاتہ اٹہا لیتا ہے۔کیونکہ اخلاص اس وقت اپنی انتہا کو پہنچتا ہے کہ جب انسان مکمل طور پر گناہوں ،اور آلودگیوں سے پاک ہوجائے۔

حضرت امیرالمؤمنین(ع) اس حقیقت کی یوں تصریح فرماتے ہیں:

''تَمَام الاخلَاص تَجَنّب المَعَاصی'' (2)

اخلاص کی انتہا ،تمام گناہوں سے پرہیز کرنا ہے۔

در راہ  او  شکستہ  دلی می خرند  و  بس

بازار خود فروشی از آن سو ی  دیگر است

اس کی درگاہ میں صرف شکستہ دلوں کو ہی خریدا جاتا ہے۔خود فروشی کے بازار کہیں اور ملیں گے۔

واجبات کو انجام دینے میں پاک نیت کا ہونا اخلاص کی انتہا نہیں ہے بلکہ محرمات کو ترک کرنا بہی اس کی شرط ہے ۔بلکہ جو انسان عالم معنیٰ تک پہنچے اور حقائق کی جستجو میںہو،وہ اپنی سوچ و فکر کو خالص اور پاک کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار :ج۷۷ص۲۱۵

[2]۔ بحارالانوار :ج۷۷ص۲۱۵

۱۸۴

جس طرح رسول اکرم(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں:

''فَاتَّق الله تَعالیٰ وَ اَخلص ضَمیرکَ''(1)

خدا سے ڈرو اور اپنے ضمیر خالص و پاکیزہ رکہو۔

کیونکہ اگر انسان اپنے افکار و رفتار کو پاک کرے تو وہ راہ نجات تک پہنچ سکتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں :

''بالاخلَاص یَکون الخلَاصَ'' (2)

اخلاص کے ذریعہ رہائی حاصل ہوتی ہے۔

جس طرح بدن کو دہونے سے وہ ہر قسم کی گندگی و آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے ،اسی طرح اخلاص سے خواہشات  نفسانی اور شیطانی سے رہائی پا سکتے ہیں ۔

اس وقت آپ کے دل میں حکمتوں کی کے چشمے اور چ ھ پے ہوئے اسرار و رموز آپ کی زبان پر جاری ہوں گے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے جب آپ اپنے کو خدا کے لئے خالص کریں ۔جیسا کہ اس جملہ میں ہے (مَن اَخلَصَ للّٰه)یعنی جو خدا کے لئے اخلاص اختیار کرے نہ کہ حالات و مقامات کو حاصل کرنے کے لئے۔ مراتب و مقامات تک پہنچنے کے لئے اخلاص اختیار کریں اور آپ کا ہدف مجہولات کو کشف کرنا اور حالات و مقامات ہوں  تو جان لیں ،کہ آپ اپنے آپ کو بہت بڑے خطرات میں مبتلا کررہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[7]۔ بحارالانوار :ج۷۸ص۲۸۰

[8]۔ الکافی:ج ۲ص۴6۸

۱۸۵

نتیجۂ بحث

اخلاص اولیاء خدا کی اہم صفات میں سے ہے۔اگر آپ کے تمام اعمال و حرکات خالصتاً خدا کے لئے ہوں تو آپ با عظمت زندگی سے بہرہ مند ہو ںگے۔کیونکہ اخلاس انسان کے کردار کے اثرات کو جمع کرتا ہے اور اس کے اجتماع سے بہت بڑے اثرات حاصل ہوتے ہیں ۔

اگر اخلاص کے حصول کے لئے اپنے کردار و رفتار حتّی کہ اپنی افکار و حرکات میں بہی سعی و کوشش کریںتو آپ فلاح و نجات کی راہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

اخلاص کو ادامہ دینے کی صورت میں آپ کے دل میں حکمت کے چشمے جاری ہوں گے اور رحمانی الہامات آپ کے جسم و روح کو منور کریں  گے۔ آپ اس وقت اولیاء خدا کی مخصوص ہدایت سے بہرہ مند اور مستفید ہوںگے اور اس عظیم نعمت کے ذریعہ آب و سر آب کی پہچان کے علاوہ آپ گمراہی و ضلالت اور مشکلات سے با آسانی نکل پائیں گے۔بلکہ آپ اپنے اوپر ہونے والی عنایات کی بدولت دوسروں کی راہنمائی بہی کرسکیں گے۔

ای یک دلہ صد دلہ ، دل یک دلہ کن        مہر دگرانرا زدل خود یلہ کن

یک صبح ز اخلاص بیا بر در ما            بر ناید اگر کام تو از ما گلہ کن

یعنی ایک دل میں سینکڑوں محبوب بسا رکہے ہیں۔اس میں صرف ایک ہی محبوب کی جگہ ہے،دوسروں کی محبت کو اپنے دل سے نکال کر ایک دن خلوص دل سے میرے در پر آئو اگر میں تمہیں تمہارے  ہدف و مقصد تک نہ پہنچا دوں تو پہر مجہ سے شکوہ وگلہ کرو۔

۱۸۶

گیارہواں باب

علم  ودانش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اَعوَن االاَشیَائ عَلیٰ تَزکیَة العَقل التَّعلیم ''

تزکیہ نفس کے لئے تمام دیگر چیزوں کی بنسبت تعلیم زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    علم ارتقاء کا ذریعہ

    تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت

    حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا

    کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

    علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

    نتیجۂ بحث

۱۸۷

علم ارتقاء کا ذریعہ

علم و دانش نہ صرف علمی بلکہ روحانی و معنوی اعتبار سے بہی انسان کو کمال کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاتا ہے۔خدا وند تعالیٰ ،قرآن مجید میں علم کو اعلیٰ معنوی مقامات و درجات تک پہنچنے کے لئے ارتقاء کا ذریعہ شمار کرتا ہے اور صاحبان علم و دانش کو بلند درجات کے مالک قرار دیتا ہے اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

''  یَرفَع الله الَّذینَ اٰمَنوا منکم وَالَّذینَ اوتواالعلم دَرَجَات ''(1)

خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ،ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

علم انسان کے نفس میں تحول ایجاد کرکے نفسانی حالات کو مضطرب کرتا ہے۔علم و دانش کی وجہ سے نفس میں ایجاد ہونے والا تحول ،انسان کو کمال کے درجات تک پہنچاتا ہے علم و دانش اور اعلیٰ مراتب پر فائز ہونا ،دانشمندوں کو جاہلوں سے ممتاز کرتا ہے ،خدا وند متعال اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد کرتا ہے:

'' قل هل یَستَوی الَّذینَ یَعلَمونَ وَ الَّذینَ لَا یَعلَمون''(2)

کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ،ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.[1] سورہ مجادلہ آیت: 11

[2]۔ سورہ زمرآیت:۹

۱۸۸

ز دانش زندہ مانی جاودانی                ز نادانی نیابی زندگانی

بود پیدا بر اہل علم ،اسرار                 ولی پوشیدہ گشت از چشم اغیار

نہ بہرخورد وخوابی  ہمچوں حیوان     برای حکمت وعلمی چو انسان

تم علم و دانش ہی سے زندہ و جاوید رہ سکتے ہو نادانی و جہالت میں تمہیں زندگی نہیں ملے گی ،اہل علم پر وہ اسرار بہی کہل جاتے ہیں کہ جو جہلا کی آنکہوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔حیوان کی طرح کہانے پینے اور سونے میں مصروف نہ رہو بلکہ انسان کی طرح علم و حکمت کے حصول کی کوشش کرو کیونکہ علم ہی انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔

ہم جو کام انجام دیتے ہیں ،ہمارے نفس پر اس کا اثر ہوتا ہے ۔اسی طرح علم و دانش ہمارے نفس میں تحول ایجاد کرتا ہے اور نفس پر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے یہ اعلیٰ درجات تک پہنچتا ہے۔

دین کی نظر میں علم و دانش کا حصول انتہائی اہم ہے ۔جس کی وجہ اہمیت ہمارے اذہان سے با لا تر ہے ،البتہ کچہ شرائط کو ضرور مد نظر رکہیں کہ جنہیں خاندان عصمت و طہارت  نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے ۔علم نہ صرف انسان کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے ،بلکہ یہ عبادات کی نوع بہی ہے۔حضرت امام باقر  (ع) فرماتے ہیں:

'' تَذَکّر العلمَ سَاعَةً خَیر من قیَام لَیلَةٍ '' (1)

علمی گفتگو میں گزارنے والا ایک گہنٹا ایک رات کی عبادت سے بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج۱ص۲۰۴

۱۸۹

یہ بدیہی ہے کہ ایک گہنٹہ علمی گفتگو میں گزارنا ،اس صورت میں ایک رات عبادت میں گزارنے سے بہتر ہے کہ تعلیم و تعلم سے تقرب الہٰی  کے علاوہ کوئی قصد نہ ہو ۔اگر طالب علم کا مقصد عوام کالانعام پر حکمرانی ہو تو یہ ان سے بہی زیادہ گمراہ ہوگا۔

''اولٰئکَ کَالاَنعَام بَل هم اَضَلّ ''(1)

وہ چوپایوں جیسے ہیں ۔بلکہ ان سے بہی زیادہ گمراہ ہیں۔

علم کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا فرمان ہے:

'' قَلیل من العلم خَیر من کَثیرالعبَادَة '' (2)

کچہ علم حاصل کرنا ،بہت زیادہ عبادت کرنے سے افضل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ سورہ اعراف آیت:179

[2]۔ بحارالانوار:ج۱ص۱۷۵

۱۹۰

تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت

علم کے ذریعہ روحانی و معنوی قوت کو حاصل کرنے کے لئے تحصیل علم میں ارادہ بہت اہم ہے تاکہ آپ کا نفس علمی و اعتقادی مسائل کو قبول کرنے کیلئے تیار رہے۔کیونکہ جن طالبعلموں کا کوئی ارادہ و ہدف نہ ہو ،ان کا مستقبل درخشاں نہیں ہوتا ۔وہ اپنے وقت اور فرصت کے لمحات سے استفادہ نہیں کرتے۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو طالبعلم علمی و معنوی مقامات کے حصول کے لئے بے ہدف و بے ارادہ ہوں ،تاریک مستقبل ،ا ن کا منتظر ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے خدا وند عالم کی حضرت داؤد پر کی گئی وحی میں آیا ہے :

'' اَلمتَعَلّم یَحتَاج الیٰ رَغبَةٍ و َ ارَادةٍ'' (1)

متعلم کو شوق و ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس بناء پر علم دانش حاصل کرنے کیلئے شوق کے ساتہ اگر ارادہ نہ ہو تو یہ علم حاصل کرنے اور سیکہنے کے لئے مؤثر نہیں ہوگا۔

پس اگر آپ حصول علم کی طرف مائل ہوں اور آپ کو علم حاصل کرنے کا شوق اور آرزو ہو تو اپنی منزل و مقصد کی طرف پختہ ارادہ کے ساتہ گامزن ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

۱۹۱

حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا

علم کی حصول کی راہ میں قابل توجہ اور مہم مسائل میں سے ایک گناہوں کو ترک ہے۔جس طرح گناہوں کا ارتکاب،ہم سے بہت سی عبادات کی توفیق کو سلب کرتا ہے ،اسی طرح یہ حصول علم کے لئے بہی مانع ہے۔بہت سے لوگ گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے نہ تو نور علم سے منور ہیں اور نہ ہی وہ عقائد اور معارف اہل بیت عصمت و طہارت  سے زیادہ آگاہ ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبہی اپنے بندوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے علم کی نعمت سے محروم کردیتاہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں:

'' اذَا اَرذَلَ الله عَبداً حَظَرَ عَلَیه العلم ''(1)

جب پروردگار کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔

اس فرمان کے رو سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے موارد میں خاندان عصمت و طہارت کے معارف سے بے بہرہ اور علم و دانش سے محروم ہونے کی وجہ انسان کی پستی ہے کہ جو اس کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔

اسی بناء پر تشنگی علم رکہنے والے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ علوم و معارف کے حصول اور اس میں پیشرفت کے لئے اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکہے اور اپنے کو اطاعت خدا اور زیور عبادت سے آراستہ کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار:280

۱۹۲

کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

تحصیل علم کی شرائط کے بارے میں گذشتہ مطالب سے روشن ہوتا ہے کہ روایات کی رو سے حصول علم با ارزش اور اہم آثار علوم کی تمام انواع کو شامل نہیں کرتے۔اگرچہ بعض افرادلفظ علم سے عمومی معنی کو مراد لیتے ہیں یعنی  وہ علم کہ آج کی دنیا میں جس کا حصول رائج ہو۔لیکن روایات کی نظر میں علمی مسائل سے آگاہ بہت سے افراد کو صاحبان فضل (نہ کہ علم)شمار کیا گیا ہے۔لہٰذا مکتب عصمت و طہارت کی نظر میں ہر قسم کے مطالب کو علم کے عنوان سے سیکہنا واجب نہیں ہے۔

ایک مشہور روایت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے کہا:

'' طَلَب العلم فَریضَة عَلیٰ کلّ مسلَمٍ وَ مسلمَةٍ ''

علم کاحصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔

اس روایت کی تفسیر میں امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' اَیّ علم التَّقویٰ وَالیَقین'' ([1)

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک جس علم کو حاصل کرنا ہو مرد اور عورت پر واجب ہے وہ ایسا علم ہے کہ جس سے انسان کے تقویٰ و یقین میں اضافہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

۱۹۳

اس بناء پر علم و دانش کی مدح میں وارد ہونے والی روایت کا مقصود ایسے علوم ہیں کہ جو انسان کو تکامل تک پہنچائیں نہ کہ ہر قسم کا علم،بعض ایسے علوم بہی ہیں کہ جو ظاہراً علم کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔لیکن در حقیقت وہ خیالی مسائل سے زیادہ نہیں ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:

انَّ من البَیَان سحراً وَ من العلم جَهلاً وَ من القَول عَیّاً

بعض خطبات و بیانات سحر ،بعض علوم جہل اور بعض اقوال میں درماندگی ہوتی ہے۔

کچہ لوگ خطاب کرنے سے عاجزہوتے ہیں اور بعض خطاب کرنے میں اس حد تک مہارت رکہتے ہیں کہ اگرچہ ان کی باتیں باطل ہی کیوں نہ ہوں ،لیکن انداز خطابت سے لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔

اگر ایسے افراد دنیا کی علمی محافل میں بعض خرافات علمی تہیوری کے نام پر پہیلائیں تو کیا انہیں حاصل کرنا واجب ہے؟

بطلمیوس نے ہیئت کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پہیلاکر دنیا کے تین ہزار سال تک کے دانشمندوں حتیٰ کہ ابوعلی سینا جیسے شخص کو اشتباہ میں ڈال دیا اور انہیں اپنا ہم عقیدہ اور ہم رائے بنالیا۔یہاں تک کہ بطلمیوس کے باطل مفروضہ پر علمی پیشرفت ہونے لگی۔

ایک زمانے میں ڈارون نے تنازع بقاء کے مسئلہ کو مطرح کیا۔اور اس نے اس خرافی فرضیہ کو اس طرح سے علمی رنگ دیا کہ کچہ دانشمندوں نے اس نظریہ کو قبول کیا ۔کچہ عرصہ کے بعدمعلوم ہوا کہ ان کایہ غلط مفروضہ فریب سے قائم کیاگیا تاکہ بعض دوسرے لوگوں کو دہوکہ دے سکے۔ لیکن ان دانشمندوں کی خیانت سے پردہ اٹہ گیا،اور ان کا فریب آشکار ہوگیا۔اب ہم یہاں چند سطور کے ذکر  کرنے سے ان کے فریب سے پردہ اٹہانے کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۹۴

گذشتہ صدی کے اوائل میں  ماہرین کو کہوپڑی اور نچلے جبڑے کے کچہ نمونے ملے۔ان ماہرین میں انگلینڈ کے مشہور ماہر آثار قدیمہ'' چالز ڈیوس ''بہی شامل تہے۔ان نمونوں سے ایسا لگتا تہا کہ یہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق بندر اور انسان کے درمیان مفقود حلقہ سے متعلق ہے۔نومبر1912 کو منچسٹر گارڈن میں اس کی خبر شائع ہوئی۔یہ نمونے ''ساسکن '' میں واقع'' پیلٹ ڈاون کمن '' کے مقام پر

ایک نشیبی علاقے میں دریافت ہوئے اور اسے پیلٹ ڈاون کا نام دیا گیا۔بعض ماہرین کا شک تہا کہ کہوپڑی اور جبڑے کے ٹکڑے ایک ہی چیز کے ہیں۔جب1917 ء میں یہ اعلان ہوا کہ دو سال پہلے بہی ایسا ہی ایک نمونہ دریافت ہوا ہے  تو اکثر شکّاک خاموش ہو گئے۔

1953 ء میں آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''وائنز ''نے اس قضیہ کے بارے میں تحقیق شروع کی تو وہ اس وقت شک میں مبتلا ہو گیا کہ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ ابہی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ  پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ کس مقام سے دریافت ہوا تہا ۔اس نے  آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''سر ویلفوڈڈیگراس کلار ''اور برطانیہ  کے عجائب گہر میں آثار قدیمہ کے ماہر ''کنٹ آکلی ''سے مدد کا تقاضا کیا۔کچہ مدت کے بعدان کی کوششوں کے نتائج انگلینڈ کے میوزیم کی گزارشات میں شائع ہوئے۔اب اس میں کوئی شک نہیں تہا کہ انہوں نے جبڑے کے دانتوں کی اصلاح تہی ،تاکہ یہ انسان کی شبیہ لگے۔

مختلف تجربات سے پتہ چلا کہ کہوپڑی اور جبڑے کے نمونے بہی مختلف ہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ خود ساختہ اور مصنوعی تہا۔وہاں سے ملنے والی حیوانات کی ہڈیوں کو جمع کرکے پیلٹ ڈاون کی شکل دی گئی۔لیکن ابہی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کس کی سازش تہی؟

۱۹۵

پس معلوم ہوا کہ علم میں بہی دوسری چیزوں کی طرح تقلّب ممکن ہے۔نیز یہ بہی مشخص نہیں کہ عمل میں کس ہد تک تقلّب انجام پاتا ہے۔

ایسی سازشوں اور تقلّبات سے بچنے کا واحد راستہ خاندان عصمت وطہارت علیہم السلام کی تعلیمات ہیں۔ہم  خاندان وحی و عصمت وطہارت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی روح کو تکامل حاصل سکتے ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین علی (ع)، پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا :

'' وَلٰکنیّ اَخَاف عَلَیکم کلّ منَافق الجَنَان عَالم الّلسان یَقول مَا تَعرفونَ وَیَفعَل مَا تَنکرون'' ( 1 )

لیکن سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اور دل کے منافق ،کہتے وہی ہیں  جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہی ہیں جسے تم برا سمجہتے ہو۔

بعض دانشمند یہ سوچتے ہیں کہ وہ معاشرے کی خدمت کے لئے جستجو کررہے ہیں ،لیکن در حقیقت وہ نادانی کی وجہ سے استعمار کے ہاتہوں استعمال ہورہے ہوتے ہیں ۔استعماری طاقتیں ان کے علم ودانش کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔'' آئن سٹائن '' بہی ایسے افراد میں سے ایک ہے۔

اس کا روحانی افسوس و افسردگی اور اس کے ساتہ کام کرنے والے '' رابرٹ '' کی پشیمانی اس حقیقت و واقعیت کی گواہ ہے۔ ان دونوں کو روحانی افسوس و پشیمانی اس وقت ہوئی کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ایٹم کی عظیم قوت کو انسانیت کی فلاح و فائدہ میں استعمال کرنے کی بجائے بعض ممالک کی سیاسی شخصیات اسے بعض اقوام و ملل اور انسانوں کو نابود کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب:27

۱۹۶

یونیسکوکے توسط سے منعقد کی جانے والی آئن سٹائن کی دسویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے ''آئن سٹائن '' کے قریبی دوست نے کہا:

'' آئن سٹائن '' نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں تسلیحاتی مسابقات اور جنگوں سے مایوس ہوکر کہا تہا کہ اگر میں زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتا تو میں ایک الیکٹریشن بننے کو ترجیح دیتا۔

آئن سٹائن اس تمام علمی شہرت کے باوجود اپنی زندگی کی آخری ایام میں اپنے ماضی پر پشیمان تہا ۔جب اس نے اپنے علم و دانش کو استعماری اور دنیا کو برباد کرنے والی طاقتوں کے ہاتہوں استعمال ہوتے دیکہا،نہ کہ لوگوں کی خدمت میں ،تو اسے پشیمانی ہوئی۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا استعمار اور دنیا کی ظالم اور ستمگر قوتوں کی خدمت میں استعمال ہونے والا علم روح کی بلندی اور معنوی درجات کے عروج کا سبب بن سکتا ہے؟

جو دانشمند نادانی کے باعث غیروں کی خدمت اور اپنوں سے خیانت کرے کس طرح ممکن ہے کہ وہ اہلبیت  کی مدح و ستایش کا مستحق ہو۔

ہماری روایات میں ایسا عالم مدح و ستائش کا مستحق ہے کہ جو صرف گفتار کی حد تک نہیں بلکہ مقام عمل میں ب ھ ی دین کا خدمتگذار ہو۔اسی وجہ سے امام صادق (ع) فرماتے ہیں: ''یعنی بالعلماء مَن صَدَّقَ قَولَه فعله وَمَن لَم یصَدّق قَولَه فعله فَلَیسَ بعَالمٍ ''( 1 )

عالم سے مراد وہ شخص ہے کہ جس کا کردار اس کی گفتار کی تصدیق کرے اور جس کا کردار ، اس کی گفتار کی تصدیق  نہ کرے وہ عالم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحاراالانوار:ج 70ص 344

۱۹۷

علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

جو علم قلب کو حیات بخشتا ہے ،اس کی فضیلت فقط اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ عالم کے نفس میں تحولات ایجاد کرتا ہے۔بلکہ یہ دوسروں کو سکہائے تو یہ معاشرے میں تحولات ایجاد کرنے کے لحاظ سے بہی فضیلت رکہتا ہے۔کیونکہ علم کا لازمہ،اس کی نشر و اشاعت اور دوسروں کو سکہانا ہے۔تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے افراد کو بہی

تعلیم دیں۔اس طرح سے اگرچہ علم کم ہو لیکن ایک دوسرے کو تعلیم دینے سے یہ ہزاروں افراد میں فروغ پائے گا۔اب ہم جو واقعہ بیان کرنے جارہے ہیں اس سے آپ علم کی نشر و اشاعت کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔وہ اپنی پوری زندگی ریاضت، مجاہدہ، تہذیب اخلاق اور لوگوں کی خدمت میں مشغول رہے۔وہ اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہیں:

میں زیارت کے لئے گیا ،جب نجف اشرف پہنچا تو سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تہا ،میں نے ارادہ کیا کہ سردیاںنجف اشرف میں گزاروں رات کو عالم خواب میں حضرت امیرالمومنین  کی زیارت نصیب ہوئی،انہوں نے مجہ پر بہت لطف و کرم کیااور فرمایا:اب تم نجف میں نہ رہو بلکہ واپس اپنے شہر (اصفہان)چلے جائو کیونکہ وہاں تمہاری زیادہ ضرورت ہے اور وہاں کے لئے تم زیادہ مفید ہو۔چونکہ مجہے نجف اشرف رہنے کا زیادہ اشتیاق تہا میں نے بہت اصرار کیا کہ کسی طرح مولا مجہے وہاںرہنے کی اجازت دے دیںلیکن حضرت امیرالمومنین نہ مانے اور فرمایا:اس سال شاہ عباس وفات پاجائیگا اور شاہ صفی اس کا جانشین بنے گا ،ایران میں سخت فتنہ برپا ہوگا،خدا چاہتا ہے کہ تم اس فتنہ کے دوران لوگوں کی ہدایت کرو۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی :440

۱۹۸

مہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ تم خود تنہا خدا کی طرف آنا چاہتے ہو،لیکن خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہدایت سے ستر ہزار افراد خدا کی طرف آئیں،پس تم واپس چلے جائو ۔اس خواب کی وجہ سے میں واپس اصفہان چلا گیا۔میں نے اپنے ایک نزدیکی دوست سے یہ خواب بیان کیا،اس ننے یہ خواب شاہ صفی کو بتایا کہ جو ان دنوں مدرسہ صفویہ میں تہا ۔چند دن گذرنے کے بعد شاہ عباس مازندران کے سفر کے دوران چل بسااور شاہ صفی اس کا جانشین بن گیا۔

اس خواب کی وجہ سے مرحوم علّامہ مجلسی اول اصفہان چلے آئے اور لوگوں کو علوم و معارف اہلبیت کے تابناک انوار سے آشنا کروایا۔جی ہاں !غیبت کے دوران دانشمندوں اور خاندان عصمت و طہارت کے عقائد و معارف سے آگاہ افراد پر لازم ہے کہ ایک مہربان و شفیق باپ کی طرح دوسروں کی مدد کریں اور ان کی رہنمائی کی کوشش کریں۔اس حقیقت سے آگاہ امام حسن عسکری  کی ایک روایت ہے کہ جو انہوں نے پیغمبر(ص) سے نقل فرمائی ہے: '' اَشَدّ من یتم اليَتیم الّذی انقَطَعَ عَن اَبیه،یتم يَتیمٍ انقَطَعَ عَن امَامه، وَلَايَقدرالوصول الَیه وَلَا یَدری کَیفَ حکمه فیمَايَبتَلی به من شَرایع دینه اَلَا فَمَن کَانَ من شیعَتنَا عَالما بعلومنَاوَهذا الجَاهل بشَریعَتنا،اَلمنقَطع عَن مشَاهدَتنَا،يَتیم فی حجره-اَلَا فَمَن هداه وَاَرشَدَه وَ عَلَّمَه شَریعَتَنا کَانَ مَعَنَا فی الرَّفیق الاَعلٰی ''( 1 )

اپنے باپ کا سایہ سر سے اٹہ جانے والے یتیم سے بڑہ کر بے سرپرست وہ یتیم ہے کہ جو اپنے امام سے دور ہو اور امام تک پہنچنے کی قدرت نہ رکہتا ہو وہ نہیں جانتا کہ اسے درپیش آنے والے شرعی احکامات میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟

آگاہ ہوجائو کہ ہمارے شیعوں میں سے جو ہمارے علوم سے آشنا ہیں،ان میں سے جو بہی ایسے شخص کی ہدایت کرے اور اسے شریعت کے احکام بتائے کہ جو ہماری شریعت سے جاہل ،ہمارے دیدار سے محروم اور ہمارے حجر میں یتیم ہو تو وہ بہشت میں بلند مقام پر ہمارے ساتہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار :ج2ص 2

۱۹۹

اس روایت میں پیغمبر اکر(ص) م  علوم کی ترویج اور نا بلد و نا آشنا افراد کی ہدایت کرنے کو تکامل معنوی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

جو  لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کرے گا وہ بہشت برین میں ہمارے ساتہ ہوگا۔اسی وجہ سے بہت سے علماء نے علم و دانش کو کسب کرنے کی بہت کوششیں کی،ان میں سے بعض تو اس طرح علمی صلاحیت و مسائل میں کہو جاتے کہ وہ کہانے پینے اور سونے کو ہی بہول جاتے۔

مرحوم حاج کریم فرّاش کہ جو حضرت امام حسین(ع) کے حرم کے خدام میں سے تہے وہ کہتے ہیں:میں حرم مطہر میں خدمتگذاری میں مصروف تہا خدّام نے زوّاروں کو حرم کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی،میں نے دیکہا کہ وحید بہہبانی اور آقا شیخ یوسف بحرانی ایک ساتہ حرم سے باہر آئے اور برآمدے میں آکر علمی مسائل پر بحث کرنے لگے،پہر خدام نے زائرین کو برآمدے کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی تو ان دونوں بزرگواروں نے صحن میں آکر بحث کو جاری رکہا،یہاں تک کے صحن کے دروازے بند ہونے کے بارے میں بہی زائرین کو مطلع کیا گیا۔

وہ دونوں بزرگوار صحن سے نکل کر دروازے کے پیچہے اپنی علمی گفتگو میں مصروف رہے،میں حرم کے صحن میں تہا سحری کے وقت حرم کے دروازے کہولنے گیا ،جب میں نے حرم کے دروازے کہولے تو دیکہا کہ وہ دونوں بزرگوار ابہی تک کہڑے ہیں اور علمی بحث کررہے ہیں۔

جب میں نے دیکہا تو ان کے قریب کہڑا ہوگیا اور ان کی بحث سننے لگا ،لیکن انہوں نے اپنے مباحثہ کو جاری رکہا،یہاں تک کہ مؤذن نے صبح کی اذان دی تو اس وقت آقا شیخ یوسف بحرانی حرم مطہر کی طرف چلے گئے کیونکہ وہ حرم مطہر میں امام جماعت تہے،پہر ان کی بحث تمام ہوئی۔( 1 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی:406

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259