کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 130%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153262 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تونے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے ۔

دوسرے مورد میں خدا وند تعالی ارشاد فرماتا ہے :

''فَاذَا رَکبوا فی الفلک دَعَو الله مخلصینَ لَه الدّینَ فَلَمَّا نَجَّینٰهم الی البَرّ اذَا هم یشرکونَ ''(۴)

پہر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان وعقیدہ کے پورے اخلاس کے ساتہ خدا کو پکارتے ہیں پہر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچادیتا ہے تو فورا شرک اختیار کرلیتے ہیں ۔

زاہد کہ ترس روز جزا  را بہانہ ساخت

بیمش ز خلق بود ، خدا رابہانہ ساخت

جو زاہدروز قیامت کو بہانہ بنا کر زہد اختیار کرے حقیقت میں لوگوں سے ڈرتا تہا مگر اس نے خدا سے ڈرنے کا بہانہ کیا۔

آیات قرآنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ۔ ہرعبادی برنامہ میں اخلاص ہونا چاہیئے ،لیکن بہت سے لوگ خدا کو صرف شدید مشکل میں یاد کرتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۴]۔ سورہ عنکبوت آیت: ۶۵

۱۸۱

زحمت اخلاص

ایک عجولانہ قضاوت سے اپنے آپ کو مخلص شمار نہ کریں۔بلکہ یہ اعتراف کریں کہ اخلاص کا مالک بننا بہت مشکل و دشوار ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین(ع) فرماتے ہیں:

'' تَصفیَة من العَمَل اَشَدّ من العَمَل وَ تَخلیص النّیة من الفَسَاد اَشَدّ عَلی العَاملین من طولٍ'' (۱)

عمل کو خالص کرنا ،جو اصل عمل سے سخت تر ہے اور فساد سے نیت کو خالص کرنا اہل عمل کے لئے جنگ کو طول دینے سے زیادہ سخت ہے۔

دوسری روایت میں ہے امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' اَلابقَائ عَلی العَمَل حتّیٰ یَخلص اَشَدّ من العَمَل '' (۲)

عمل کو ادامہ دینا ،تاکہ وہ خالص ہوجائے ،اصل عمل سے سخت ہے۔

ان روایات پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء خدا ،برجستہ شخصیات  اور علماء حقہ نے کاموں میں اخلاص کو اختیار کیا اور اپنے اعمال کو مخلصانہ طور پر انجام دیا ،انہوں نے کن سختیوں اور دشواریوں کو برداشت کیا اور مرحلہ اخلاص تک پہنچے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحار  الانوار:ج۷۷ص۲۹۰

[۲]۔بحار  الانوار:ج۷۰ص۲۳۰

۱۸۲

حضرت امام رضا(ع) فرماتے ہیں:

'' یَخلصونَ کَمَا یَخلص الذَّهبَ''(۱)

جس طرح سونا ،سونار کے پاس حرارت کی وجہ سے زیادہ خالص ہوجاتا ہے اسی طرح وہ بزرگان بہی بہت مشکلات اور دشواریوں کو تحمل کرنے کے بعد اخلاصکی منزل تک پہنچے۔وہ اس طرح خالص ہوجاتے تہے کہ جیسے سونا خالص ہوتا ہے۔

قلب روی اندودہ نستانند در بازارحشر

خالصی باید کہ از آتش برون آید سلیم

انسان کا دل بہت سی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ بازار حشر میں پیش کیا جائے،جس طرح سونا تپش اور حرارت کے بعد ہی خالص ہوتا ہے اور اس میں چمک پیدا ہوتی ہے۔

اسی بناء پر رسول اکرم(ص) کے اس فرمان پر تعجب نہ کریں کہ جب رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

''مَن اَخلَصَ للّٰه اَربَعینَ یَوماً فَجَّرَ الله یَنَابیعَ الحکمَة من قلبه عَلیٰ لسَانه''(۲)

جو بہی چالیس دن اخلاص سے خدا کے لئے عمل انجام دے خداوند کریم اس کے دل سے،اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری کرتا ہے۔

کیونکہ جو اپنے وجود و جسم کو شیطان کے وجود سے پاک کرے اور خواہشات نفسانی کو ترک کرے ملائکہ کو اپنے دل میں جگہ دے اور اپنے دل کو خدا کا گہر قرار دے تو اس کی خدمت میں مامور ملائکہ اس کے دل پر حکمتیں نازل کریں گے،اس پر الہام ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار:۵۲ص۱۱۵

[۲]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۲۴۹

۱۸۳

ان مراحل تک پہنچنے کے بار ے میں امام صادق(ع)  فرماتے ہیں:

''اَلقَلب حَرَم الله فَلَا تسکن فَی حَرَم  الله غَیرَالله''(۱)

دل خدا کا حرم ہے ۔ پس خدا کے حرم میں غیر خدا کو جگہ نہ دو۔

جو انسان اخلاص کی منزل کو پالے وہ تمام گناہوں سے ہاتہ اٹہا لیتا ہے۔کیونکہ اخلاص اس وقت اپنی انتہا کو پہنچتا ہے کہ جب انسان مکمل طور پر گناہوں ،اور آلودگیوں سے پاک ہوجائے۔

حضرت امیرالمؤمنین(ع) اس حقیقت کی یوں تصریح فرماتے ہیں:

''تَمَام الاخلَاص تَجَنّب المَعَاصی'' (۲)

اخلاص کی انتہا ،تمام گناہوں سے پرہیز کرنا ہے۔

در راہ  او  شکستہ  دلی می خرند  و  بس

بازار خود فروشی از آن سو ی  دیگر است

اس کی درگاہ میں صرف شکستہ دلوں کو ہی خریدا جاتا ہے۔خود فروشی کے بازار کہیں اور ملیں گے۔

واجبات کو انجام دینے میں پاک نیت کا ہونا اخلاص کی انتہا نہیں ہے بلکہ محرمات کو ترک کرنا بہی اس کی شرط ہے ۔بلکہ جو انسان عالم معنیٰ تک پہنچے اور حقائق کی جستجو میںہو،وہ اپنی سوچ و فکر کو خالص اور پاک کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار :ج۷۷ص۲۱۵

[۲]۔ بحارالانوار :ج۷۷ص۲۱۵

۱۸۴

جس طرح رسول اکرم(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں:

''فَاتَّق الله تَعالیٰ وَ اَخلص ضَمیرکَ''(۱)

خدا سے ڈرو اور اپنے ضمیر خالص و پاکیزہ رکہو۔

کیونکہ اگر انسان اپنے افکار و رفتار کو پاک کرے تو وہ راہ نجات تک پہنچ سکتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں :

''بالاخلَاص یَکون الخلَاصَ'' (۲)

اخلاص کے ذریعہ رہائی حاصل ہوتی ہے۔

جس طرح بدن کو دہونے سے وہ ہر قسم کی گندگی و آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے ،اسی طرح اخلاص سے خواہشات  نفسانی اور شیطانی سے رہائی پا سکتے ہیں ۔

اس وقت آپ کے دل میں حکمتوں کی کے چشمے اور چ ھ پے ہوئے اسرار و رموز آپ کی زبان پر جاری ہوں گے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے جب آپ اپنے کو خدا کے لئے خالص کریں ۔جیسا کہ اس جملہ میں ہے (مَن اَخلَصَ للّٰه)یعنی جو خدا کے لئے اخلاص اختیار کرے نہ کہ حالات و مقامات کو حاصل کرنے کے لئے۔ مراتب و مقامات تک پہنچنے کے لئے اخلاص اختیار کریں اور آپ کا ہدف مجہولات کو کشف کرنا اور حالات و مقامات ہوں  تو جان لیں ،کہ آپ اپنے آپ کو بہت بڑے خطرات میں مبتلا کررہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۷]۔ بحارالانوار :ج۷۸ص۲۸۰

[۸]۔ الکافی:ج ۲ص۴۶۸

۱۸۵

نتیجۂ بحث

اخلاص اولیاء خدا کی اہم صفات میں سے ہے۔اگر آپ کے تمام اعمال و حرکات خالصتاً خدا کے لئے ہوں تو آپ با عظمت زندگی سے بہرہ مند ہو ںگے۔کیونکہ اخلاس انسان کے کردار کے اثرات کو جمع کرتا ہے اور اس کے اجتماع سے بہت بڑے اثرات حاصل ہوتے ہیں ۔

اگر اخلاص کے حصول کے لئے اپنے کردار و رفتار حتّی کہ اپنی افکار و حرکات میں بہی سعی و کوشش کریںتو آپ فلاح و نجات کی راہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

اخلاص کو ادامہ دینے کی صورت میں آپ کے دل میں حکمت کے چشمے جاری ہوں گے اور رحمانی الہامات آپ کے جسم و روح کو منور کریں  گے۔ آپ اس وقت اولیاء خدا کی مخصوص ہدایت سے بہرہ مند اور مستفید ہوںگے اور اس عظیم نعمت کے ذریعہ آب و سر آب کی پہچان کے علاوہ آپ گمراہی و ضلالت اور مشکلات سے با آسانی نکل پائیں گے۔بلکہ آپ اپنے اوپر ہونے والی عنایات کی بدولت دوسروں کی راہنمائی بہی کرسکیں گے۔

ای یک دلہ صد دلہ ، دل یک دلہ کن        مہر دگرانرا زدل خود یلہ کن

یک صبح ز اخلاص بیا بر در ما            بر ناید اگر کام تو از ما گلہ کن

یعنی ایک دل میں سینکڑوں محبوب بسا رکہے ہیں۔اس میں صرف ایک ہی محبوب کی جگہ ہے،دوسروں کی محبت کو اپنے دل سے نکال کر ایک دن خلوص دل سے میرے در پر آئو اگر میں تمہیں تمہارے  ہدف و مقصد تک نہ پہنچا دوں تو پہر مجہ سے شکوہ وگلہ کرو۔

۱۸۶

گیارہواں باب

علم  ودانش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اَعوَن االاَشیَائ عَلیٰ تَزکیَة العَقل التَّعلیم ''

تزکیہ نفس کے لئے تمام دیگر چیزوں کی بنسبت تعلیم زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    علم ارتقاء کا ذریعہ

    تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت

    حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا

    کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

    علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

    نتیجۂ بحث

۱۸۷

علم ارتقاء کا ذریعہ

علم و دانش نہ صرف علمی بلکہ روحانی و معنوی اعتبار سے بہی انسان کو کمال کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاتا ہے۔خدا وند تعالیٰ ،قرآن مجید میں علم کو اعلیٰ معنوی مقامات و درجات تک پہنچنے کے لئے ارتقاء کا ذریعہ شمار کرتا ہے اور صاحبان علم و دانش کو بلند درجات کے مالک قرار دیتا ہے اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

''  یَرفَع الله الَّذینَ اٰمَنوا منکم وَالَّذینَ اوتواالعلم دَرَجَات ''(۱)

خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ،ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

علم انسان کے نفس میں تحول ایجاد کرکے نفسانی حالات کو مضطرب کرتا ہے۔علم و دانش کی وجہ سے نفس میں ایجاد ہونے والا تحول ،انسان کو کمال کے درجات تک پہنچاتا ہے علم و دانش اور اعلیٰ مراتب پر فائز ہونا ،دانشمندوں کو جاہلوں سے ممتاز کرتا ہے ،خدا وند متعال اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد کرتا ہے:

'' قل هل یَستَوی الَّذینَ یَعلَمونَ وَ الَّذینَ لَا یَعلَمون''(۲)

کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ،ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.[۱] سورہ مجادلہ آیت: ۱۱

[۲]۔ سورہ زمرآیت:۹

۱۸۸

ز دانش زندہ مانی جاودانی                ز نادانی نیابی زندگانی

بود پیدا بر اہل علم ،اسرار                 ولی پوشیدہ گشت از چشم اغیار

نہ بہرخورد وخوابی  ہمچوں حیوان     برای حکمت وعلمی چو انسان

تم علم و دانش ہی سے زندہ و جاوید رہ سکتے ہو نادانی و جہالت میں تمہیں زندگی نہیں ملے گی ،اہل علم پر وہ اسرار بہی کہل جاتے ہیں کہ جو جہلا کی آنکہوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔حیوان کی طرح کہانے پینے اور سونے میں مصروف نہ رہو بلکہ انسان کی طرح علم و حکمت کے حصول کی کوشش کرو کیونکہ علم ہی انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔

ہم جو کام انجام دیتے ہیں ،ہمارے نفس پر اس کا اثر ہوتا ہے ۔اسی طرح علم و دانش ہمارے نفس میں تحول ایجاد کرتا ہے اور نفس پر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے یہ اعلیٰ درجات تک پہنچتا ہے۔

دین کی نظر میں علم و دانش کا حصول انتہائی اہم ہے ۔جس کی وجہ اہمیت ہمارے اذہان سے با لا تر ہے ،البتہ کچہ شرائط کو ضرور مد نظر رکہیں کہ جنہیں خاندان عصمت و طہارت  نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے ۔علم نہ صرف انسان کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے ،بلکہ یہ عبادات کی نوع بہی ہے۔حضرت امام باقر  (ع) فرماتے ہیں:

'' تَذَکّر العلمَ سَاعَةً خَیر من قیَام لَیلَةٍ '' (۱)

علمی گفتگو میں گزارنے والا ایک گہنٹا ایک رات کی عبادت سے بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۱ص۲۰۴

۱۸۹

یہ بدیہی ہے کہ ایک گہنٹہ علمی گفتگو میں گزارنا ،اس صورت میں ایک رات عبادت میں گزارنے سے بہتر ہے کہ تعلیم و تعلم سے تقرب الہٰی  کے علاوہ کوئی قصد نہ ہو ۔اگر طالب علم کا مقصد عوام کالانعام پر حکمرانی ہو تو یہ ان سے بہی زیادہ گمراہ ہوگا۔

''اولٰئکَ کَالاَنعَام بَل هم اَضَلّ ''(۱)

وہ چوپایوں جیسے ہیں ۔بلکہ ان سے بہی زیادہ گمراہ ہیں۔

علم کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا فرمان ہے:

'' قَلیل من العلم خَیر من کَثیرالعبَادَة '' (۲)

کچہ علم حاصل کرنا ،بہت زیادہ عبادت کرنے سے افضل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ سورہ اعراف آیت:۱۷۹

[۲]۔ بحارالانوار:ج۱ص۱۷۵

۱۹۰

تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت

علم کے ذریعہ روحانی و معنوی قوت کو حاصل کرنے کے لئے تحصیل علم میں ارادہ بہت اہم ہے تاکہ آپ کا نفس علمی و اعتقادی مسائل کو قبول کرنے کیلئے تیار رہے۔کیونکہ جن طالبعلموں کا کوئی ارادہ و ہدف نہ ہو ،ان کا مستقبل درخشاں نہیں ہوتا ۔وہ اپنے وقت اور فرصت کے لمحات سے استفادہ نہیں کرتے۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو طالبعلم علمی و معنوی مقامات کے حصول کے لئے بے ہدف و بے ارادہ ہوں ،تاریک مستقبل ،ا ن کا منتظر ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے خدا وند عالم کی حضرت داؤد پر کی گئی وحی میں آیا ہے :

'' اَلمتَعَلّم یَحتَاج الیٰ رَغبَةٍ و َ ارَادةٍ'' (۱)

متعلم کو شوق و ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس بناء پر علم دانش حاصل کرنے کیلئے شوق کے ساتہ اگر ارادہ نہ ہو تو یہ علم حاصل کرنے اور سیکہنے کے لئے مؤثر نہیں ہوگا۔

پس اگر آپ حصول علم کی طرف مائل ہوں اور آپ کو علم حاصل کرنے کا شوق اور آرزو ہو تو اپنی منزل و مقصد کی طرف پختہ ارادہ کے ساتہ گامزن ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

۱۹۱

حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا

علم کی حصول کی راہ میں قابل توجہ اور مہم مسائل میں سے ایک گناہوں کو ترک ہے۔جس طرح گناہوں کا ارتکاب،ہم سے بہت سی عبادات کی توفیق کو سلب کرتا ہے ،اسی طرح یہ حصول علم کے لئے بہی مانع ہے۔بہت سے لوگ گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے نہ تو نور علم سے منور ہیں اور نہ ہی وہ عقائد اور معارف اہل بیت عصمت و طہارت  سے زیادہ آگاہ ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبہی اپنے بندوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے علم کی نعمت سے محروم کردیتاہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں:

'' اذَا اَرذَلَ الله عَبداً حَظَرَ عَلَیه العلم ''(۱)

جب پروردگار کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔

اس فرمان کے رو سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے موارد میں خاندان عصمت و طہارت کے معارف سے بے بہرہ اور علم و دانش سے محروم ہونے کی وجہ انسان کی پستی ہے کہ جو اس کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔

اسی بناء پر تشنگی علم رکہنے والے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ علوم و معارف کے حصول اور اس میں پیشرفت کے لئے اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکہے اور اپنے کو اطاعت خدا اور زیور عبادت سے آراستہ کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار:۲۸۰

۱۹۲

کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

تحصیل علم کی شرائط کے بارے میں گذشتہ مطالب سے روشن ہوتا ہے کہ روایات کی رو سے حصول علم با ارزش اور اہم آثار علوم کی تمام انواع کو شامل نہیں کرتے۔اگرچہ بعض افرادلفظ علم سے عمومی معنی کو مراد لیتے ہیں یعنی  وہ علم کہ آج کی دنیا میں جس کا حصول رائج ہو۔لیکن روایات کی نظر میں علمی مسائل سے آگاہ بہت سے افراد کو صاحبان فضل (نہ کہ علم)شمار کیا گیا ہے۔لہٰذا مکتب عصمت و طہارت کی نظر میں ہر قسم کے مطالب کو علم کے عنوان سے سیکہنا واجب نہیں ہے۔

ایک مشہور روایت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے کہا:

'' طَلَب العلم فَریضَة عَلیٰ کلّ مسلَمٍ وَ مسلمَةٍ ''

علم کاحصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔

اس روایت کی تفسیر میں امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' اَیّ علم التَّقویٰ وَالیَقین'' ([۱)

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک جس علم کو حاصل کرنا ہو مرد اور عورت پر واجب ہے وہ ایسا علم ہے کہ جس سے انسان کے تقویٰ و یقین میں اضافہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

۱۹۳

اس بناء پر علم و دانش کی مدح میں وارد ہونے والی روایت کا مقصود ایسے علوم ہیں کہ جو انسان کو تکامل تک پہنچائیں نہ کہ ہر قسم کا علم،بعض ایسے علوم بہی ہیں کہ جو ظاہراً علم کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔لیکن در حقیقت وہ خیالی مسائل سے زیادہ نہیں ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:

انَّ من البَیَان سحراً وَ من العلم جَهلاً وَ من القَول عَیّاً

بعض خطبات و بیانات سحر ،بعض علوم جہل اور بعض اقوال میں درماندگی ہوتی ہے۔

کچہ لوگ خطاب کرنے سے عاجزہوتے ہیں اور بعض خطاب کرنے میں اس حد تک مہارت رکہتے ہیں کہ اگرچہ ان کی باتیں باطل ہی کیوں نہ ہوں ،لیکن انداز خطابت سے لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔

اگر ایسے افراد دنیا کی علمی محافل میں بعض خرافات علمی تہیوری کے نام پر پہیلائیں تو کیا انہیں حاصل کرنا واجب ہے؟

بطلمیوس نے ہیئت کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پہیلاکر دنیا کے تین ہزار سال تک کے دانشمندوں حتیٰ کہ ابوعلی سینا جیسے شخص کو اشتباہ میں ڈال دیا اور انہیں اپنا ہم عقیدہ اور ہم رائے بنالیا۔یہاں تک کہ بطلمیوس کے باطل مفروضہ پر علمی پیشرفت ہونے لگی۔

ایک زمانے میں ڈارون نے تنازع بقاء کے مسئلہ کو مطرح کیا۔اور اس نے اس خرافی فرضیہ کو اس طرح سے علمی رنگ دیا کہ کچہ دانشمندوں نے اس نظریہ کو قبول کیا ۔کچہ عرصہ کے بعدمعلوم ہوا کہ ان کایہ غلط مفروضہ فریب سے قائم کیاگیا تاکہ بعض دوسرے لوگوں کو دہوکہ دے سکے۔ لیکن ان دانشمندوں کی خیانت سے پردہ اٹہ گیا،اور ان کا فریب آشکار ہوگیا۔اب ہم یہاں چند سطور کے ذکر  کرنے سے ان کے فریب سے پردہ اٹہانے کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۹۴

گذشتہ صدی کے اوائل میں  ماہرین کو کہوپڑی اور نچلے جبڑے کے کچہ نمونے ملے۔ان ماہرین میں انگلینڈ کے مشہور ماہر آثار قدیمہ'' چالز ڈیوس ''بہی شامل تہے۔ان نمونوں سے ایسا لگتا تہا کہ یہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق بندر اور انسان کے درمیان مفقود حلقہ سے متعلق ہے۔نومبر۱۹۱۲ کو منچسٹر گارڈن میں اس کی خبر شائع ہوئی۔یہ نمونے ''ساسکن '' میں واقع'' پیلٹ ڈاون کمن '' کے مقام پر

ایک نشیبی علاقے میں دریافت ہوئے اور اسے پیلٹ ڈاون کا نام دیا گیا۔بعض ماہرین کا شک تہا کہ کہوپڑی اور جبڑے کے ٹکڑے ایک ہی چیز کے ہیں۔جب۱۹۱۷ ء میں یہ اعلان ہوا کہ دو سال پہلے بہی ایسا ہی ایک نمونہ دریافت ہوا ہے  تو اکثر شکّاک خاموش ہو گئے۔

۱۹۵۳ ء میں آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''وائنز ''نے اس قضیہ کے بارے میں تحقیق شروع کی تو وہ اس وقت شک میں مبتلا ہو گیا کہ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ ابہی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ  پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ کس مقام سے دریافت ہوا تہا ۔اس نے  آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''سر ویلفوڈڈیگراس کلار ''اور برطانیہ  کے عجائب گہر میں آثار قدیمہ کے ماہر ''کنٹ آکلی ''سے مدد کا تقاضا کیا۔کچہ مدت کے بعدان کی کوششوں کے نتائج انگلینڈ کے میوزیم کی گزارشات میں شائع ہوئے۔اب اس میں کوئی شک نہیں تہا کہ انہوں نے جبڑے کے دانتوں کی اصلاح تہی ،تاکہ یہ انسان کی شبیہ لگے۔

مختلف تجربات سے پتہ چلا کہ کہوپڑی اور جبڑے کے نمونے بہی مختلف ہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ خود ساختہ اور مصنوعی تہا۔وہاں سے ملنے والی حیوانات کی ہڈیوں کو جمع کرکے پیلٹ ڈاون کی شکل دی گئی۔لیکن ابہی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کس کی سازش تہی؟

۱۹۵

پس معلوم ہوا کہ علم میں بہی دوسری چیزوں کی طرح تقلّب ممکن ہے۔نیز یہ بہی مشخص نہیں کہ عمل میں کس ہد تک تقلّب انجام پاتا ہے۔

ایسی سازشوں اور تقلّبات سے بچنے کا واحد راستہ خاندان عصمت وطہارت علیہم السلام کی تعلیمات ہیں۔ہم  خاندان وحی و عصمت وطہارت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی روح کو تکامل حاصل سکتے ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین علی (ع)، پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا :

'' وَلٰکنیّ اَخَاف عَلَیکم کلّ منَافق الجَنَان عَالم الّلسان یَقول مَا تَعرفونَ وَیَفعَل مَا تَنکرون'' ( ۱ )

لیکن سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اور دل کے منافق ،کہتے وہی ہیں  جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہی ہیں جسے تم برا سمجہتے ہو۔

بعض دانشمند یہ سوچتے ہیں کہ وہ معاشرے کی خدمت کے لئے جستجو کررہے ہیں ،لیکن در حقیقت وہ نادانی کی وجہ سے استعمار کے ہاتہوں استعمال ہورہے ہوتے ہیں ۔استعماری طاقتیں ان کے علم ودانش کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔'' آئن سٹائن '' بہی ایسے افراد میں سے ایک ہے۔

اس کا روحانی افسوس و افسردگی اور اس کے ساتہ کام کرنے والے '' رابرٹ '' کی پشیمانی اس حقیقت و واقعیت کی گواہ ہے۔ ان دونوں کو روحانی افسوس و پشیمانی اس وقت ہوئی کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ایٹم کی عظیم قوت کو انسانیت کی فلاح و فائدہ میں استعمال کرنے کی بجائے بعض ممالک کی سیاسی شخصیات اسے بعض اقوام و ملل اور انسانوں کو نابود کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب:۲۷

۱۹۶

یونیسکوکے توسط سے منعقد کی جانے والی آئن سٹائن کی دسویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے ''آئن سٹائن '' کے قریبی دوست نے کہا:

'' آئن سٹائن '' نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں تسلیحاتی مسابقات اور جنگوں سے مایوس ہوکر کہا تہا کہ اگر میں زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتا تو میں ایک الیکٹریشن بننے کو ترجیح دیتا۔

آئن سٹائن اس تمام علمی شہرت کے باوجود اپنی زندگی کی آخری ایام میں اپنے ماضی پر پشیمان تہا ۔جب اس نے اپنے علم و دانش کو استعماری اور دنیا کو برباد کرنے والی طاقتوں کے ہاتہوں استعمال ہوتے دیکہا،نہ کہ لوگوں کی خدمت میں ،تو اسے پشیمانی ہوئی۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا استعمار اور دنیا کی ظالم اور ستمگر قوتوں کی خدمت میں استعمال ہونے والا علم روح کی بلندی اور معنوی درجات کے عروج کا سبب بن سکتا ہے؟

جو دانشمند نادانی کے باعث غیروں کی خدمت اور اپنوں سے خیانت کرے کس طرح ممکن ہے کہ وہ اہلبیت  کی مدح و ستایش کا مستحق ہو۔

ہماری روایات میں ایسا عالم مدح و ستائش کا مستحق ہے کہ جو صرف گفتار کی حد تک نہیں بلکہ مقام عمل میں ب ھ ی دین کا خدمتگذار ہو۔اسی وجہ سے امام صادق (ع) فرماتے ہیں: ''یعنی بالعلماء مَن صَدَّقَ قَولَه فعله وَمَن لَم یصَدّق قَولَه فعله فَلَیسَ بعَالمٍ ''( ۱ )

عالم سے مراد وہ شخص ہے کہ جس کا کردار اس کی گفتار کی تصدیق کرے اور جس کا کردار ، اس کی گفتار کی تصدیق  نہ کرے وہ عالم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحاراالانوار:ج ۷۰ص ۳۴۴

۱۹۷

علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

جو علم قلب کو حیات بخشتا ہے ،اس کی فضیلت فقط اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ عالم کے نفس میں تحولات ایجاد کرتا ہے۔بلکہ یہ دوسروں کو سکہائے تو یہ معاشرے میں تحولات ایجاد کرنے کے لحاظ سے بہی فضیلت رکہتا ہے۔کیونکہ علم کا لازمہ،اس کی نشر و اشاعت اور دوسروں کو سکہانا ہے۔تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے افراد کو بہی

تعلیم دیں۔اس طرح سے اگرچہ علم کم ہو لیکن ایک دوسرے کو تعلیم دینے سے یہ ہزاروں افراد میں فروغ پائے گا۔اب ہم جو واقعہ بیان کرنے جارہے ہیں اس سے آپ علم کی نشر و اشاعت کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔وہ اپنی پوری زندگی ریاضت، مجاہدہ، تہذیب اخلاق اور لوگوں کی خدمت میں مشغول رہے۔وہ اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہیں:

میں زیارت کے لئے گیا ،جب نجف اشرف پہنچا تو سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تہا ،میں نے ارادہ کیا کہ سردیاںنجف اشرف میں گزاروں رات کو عالم خواب میں حضرت امیرالمومنین  کی زیارت نصیب ہوئی،انہوں نے مجہ پر بہت لطف و کرم کیااور فرمایا:اب تم نجف میں نہ رہو بلکہ واپس اپنے شہر (اصفہان)چلے جائو کیونکہ وہاں تمہاری زیادہ ضرورت ہے اور وہاں کے لئے تم زیادہ مفید ہو۔چونکہ مجہے نجف اشرف رہنے کا زیادہ اشتیاق تہا میں نے بہت اصرار کیا کہ کسی طرح مولا مجہے وہاںرہنے کی اجازت دے دیںلیکن حضرت امیرالمومنین نہ مانے اور فرمایا:اس سال شاہ عباس وفات پاجائیگا اور شاہ صفی اس کا جانشین بنے گا ،ایران میں سخت فتنہ برپا ہوگا،خدا چاہتا ہے کہ تم اس فتنہ کے دوران لوگوں کی ہدایت کرو۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی :۴۴۰

۱۹۸

مہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ تم خود تنہا خدا کی طرف آنا چاہتے ہو،لیکن خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہدایت سے ستر ہزار افراد خدا کی طرف آئیں،پس تم واپس چلے جائو ۔اس خواب کی وجہ سے میں واپس اصفہان چلا گیا۔میں نے اپنے ایک نزدیکی دوست سے یہ خواب بیان کیا،اس ننے یہ خواب شاہ صفی کو بتایا کہ جو ان دنوں مدرسہ صفویہ میں تہا ۔چند دن گذرنے کے بعد شاہ عباس مازندران کے سفر کے دوران چل بسااور شاہ صفی اس کا جانشین بن گیا۔

اس خواب کی وجہ سے مرحوم علّامہ مجلسی اول اصفہان چلے آئے اور لوگوں کو علوم و معارف اہلبیت کے تابناک انوار سے آشنا کروایا۔جی ہاں !غیبت کے دوران دانشمندوں اور خاندان عصمت و طہارت کے عقائد و معارف سے آگاہ افراد پر لازم ہے کہ ایک مہربان و شفیق باپ کی طرح دوسروں کی مدد کریں اور ان کی رہنمائی کی کوشش کریں۔اس حقیقت سے آگاہ امام حسن عسکری  کی ایک روایت ہے کہ جو انہوں نے پیغمبر(ص) سے نقل فرمائی ہے: '' اَشَدّ من یتم اليَتیم الّذی انقَطَعَ عَن اَبیه،یتم يَتیمٍ انقَطَعَ عَن امَامه، وَلَايَقدرالوصول الَیه وَلَا یَدری کَیفَ حکمه فیمَايَبتَلی به من شَرایع دینه اَلَا فَمَن کَانَ من شیعَتنَا عَالما بعلومنَاوَهذا الجَاهل بشَریعَتنا،اَلمنقَطع عَن مشَاهدَتنَا،يَتیم فی حجره-اَلَا فَمَن هداه وَاَرشَدَه وَ عَلَّمَه شَریعَتَنا کَانَ مَعَنَا فی الرَّفیق الاَعلٰی ''( ۱ )

اپنے باپ کا سایہ سر سے اٹہ جانے والے یتیم سے بڑہ کر بے سرپرست وہ یتیم ہے کہ جو اپنے امام سے دور ہو اور امام تک پہنچنے کی قدرت نہ رکہتا ہو وہ نہیں جانتا کہ اسے درپیش آنے والے شرعی احکامات میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟

آگاہ ہوجائو کہ ہمارے شیعوں میں سے جو ہمارے علوم سے آشنا ہیں،ان میں سے جو بہی ایسے شخص کی ہدایت کرے اور اسے شریعت کے احکام بتائے کہ جو ہماری شریعت سے جاہل ،ہمارے دیدار سے محروم اور ہمارے حجر میں یتیم ہو تو وہ بہشت میں بلند مقام پر ہمارے ساتہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار :ج۲ص ۲

۱۹۹

اس روایت میں پیغمبر اکر(ص) م  علوم کی ترویج اور نا بلد و نا آشنا افراد کی ہدایت کرنے کو تکامل معنوی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

جو  لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کرے گا وہ بہشت برین میں ہمارے ساتہ ہوگا۔اسی وجہ سے بہت سے علماء نے علم و دانش کو کسب کرنے کی بہت کوششیں کی،ان میں سے بعض تو اس طرح علمی صلاحیت و مسائل میں کہو جاتے کہ وہ کہانے پینے اور سونے کو ہی بہول جاتے۔

مرحوم حاج کریم فرّاش کہ جو حضرت امام حسین(ع) کے حرم کے خدام میں سے تہے وہ کہتے ہیں:میں حرم مطہر میں خدمتگذاری میں مصروف تہا خدّام نے زوّاروں کو حرم کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی،میں نے دیکہا کہ وحید بہہبانی اور آقا شیخ یوسف بحرانی ایک ساتہ حرم سے باہر آئے اور برآمدے میں آکر علمی مسائل پر بحث کرنے لگے،پہر خدام نے زائرین کو برآمدے کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی تو ان دونوں بزرگواروں نے صحن میں آکر بحث کو جاری رکہا،یہاں تک کے صحن کے دروازے بند ہونے کے بارے میں بہی زائرین کو مطلع کیا گیا۔

وہ دونوں بزرگوار صحن سے نکل کر دروازے کے پیچہے اپنی علمی گفتگو میں مصروف رہے،میں حرم کے صحن میں تہا سحری کے وقت حرم کے دروازے کہولنے گیا ،جب میں نے حرم کے دروازے کہولے تو دیکہا کہ وہ دونوں بزرگوار ابہی تک کہڑے ہیں اور علمی بحث کررہے ہیں۔

جب میں نے دیکہا تو ان کے قریب کہڑا ہوگیا اور ان کی بحث سننے لگا ،لیکن انہوں نے اپنے مباحثہ کو جاری رکہا،یہاں تک کہ مؤذن نے صبح کی اذان دی تو اس وقت آقا شیخ یوسف بحرانی حرم مطہر کی طرف چلے گئے کیونکہ وہ حرم مطہر میں امام جماعت تہے،پہر ان کی بحث تمام ہوئی۔( ۱ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی:۴۰۶

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259