کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 10%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

کامیابی کے اسرار ج 1

مؤلف: آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات:

صفحے: 259
مشاہدے: 136760
ڈاؤنلوڈ: 3870


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 136760 / ڈاؤنلوڈ: 3870
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج 1 جلد 1

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرکے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تونے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے ۔

دوسرے مورد میں خدا وند تعالی ارشاد فرماتا ہے :

''فَاذَا رَکبوا فی الفلک دَعَو الله مخلصینَ لَه الدّینَ فَلَمَّا نَجَّینٰهم الی البَرّ اذَا هم یشرکونَ ''(4)

پہر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان وعقیدہ کے پورے اخلاس کے ساتہ خدا کو پکارتے ہیں پہر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچادیتا ہے تو فورا شرک اختیار کرلیتے ہیں ۔

زاہد کہ ترس روز جزا  را بہانہ ساخت

بیمش ز خلق بود ، خدا رابہانہ ساخت

جو زاہدروز قیامت کو بہانہ بنا کر زہد اختیار کرے حقیقت میں لوگوں سے ڈرتا تہا مگر اس نے خدا سے ڈرنے کا بہانہ کیا۔

آیات قرآنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اخلاص ایک عمومی وظیفہ ہے ۔ ہرعبادی برنامہ میں اخلاص ہونا چاہیئے ،لیکن بہت سے لوگ خدا کو صرف شدید مشکل میں یاد کرتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[4]۔ سورہ عنکبوت آیت: 65

۱۸۱

زحمت اخلاص

ایک عجولانہ قضاوت سے اپنے آپ کو مخلص شمار نہ کریں۔بلکہ یہ اعتراف کریں کہ اخلاص کا مالک بننا بہت مشکل و دشوار ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین(ع) فرماتے ہیں:

'' تَصفیَة من العَمَل اَشَدّ من العَمَل وَ تَخلیص النّیة من الفَسَاد اَشَدّ عَلی العَاملین من طولٍ'' (1)

عمل کو خالص کرنا ،جو اصل عمل سے سخت تر ہے اور فساد سے نیت کو خالص کرنا اہل عمل کے لئے جنگ کو طول دینے سے زیادہ سخت ہے۔

دوسری روایت میں ہے امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

'' اَلابقَائ عَلی العَمَل حتّیٰ یَخلص اَشَدّ من العَمَل '' (2)

عمل کو ادامہ دینا ،تاکہ وہ خالص ہوجائے ،اصل عمل سے سخت ہے۔

ان روایات پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء خدا ،برجستہ شخصیات  اور علماء حقہ نے کاموں میں اخلاص کو اختیار کیا اور اپنے اعمال کو مخلصانہ طور پر انجام دیا ،انہوں نے کن سختیوں اور دشواریوں کو برداشت کیا اور مرحلہ اخلاص تک پہنچے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحار  الانوار:ج۷۷ص۲۹۰

[2]۔بحار  الانوار:ج۷۰ص۲۳۰

۱۸۲

حضرت امام رضا(ع) فرماتے ہیں:

'' یَخلصونَ کَمَا یَخلص الذَّهبَ''(1)

جس طرح سونا ،سونار کے پاس حرارت کی وجہ سے زیادہ خالص ہوجاتا ہے اسی طرح وہ بزرگان بہی بہت مشکلات اور دشواریوں کو تحمل کرنے کے بعد اخلاصکی منزل تک پہنچے۔وہ اس طرح خالص ہوجاتے تہے کہ جیسے سونا خالص ہوتا ہے۔

قلب روی اندودہ نستانند در بازارحشر

خالصی باید کہ از آتش برون آید سلیم

انسان کا دل بہت سی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ بازار حشر میں پیش کیا جائے،جس طرح سونا تپش اور حرارت کے بعد ہی خالص ہوتا ہے اور اس میں چمک پیدا ہوتی ہے۔

اسی بناء پر رسول اکرم(ص) کے اس فرمان پر تعجب نہ کریں کہ جب رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

''مَن اَخلَصَ للّٰه اَربَعینَ یَوماً فَجَّرَ الله یَنَابیعَ الحکمَة من قلبه عَلیٰ لسَانه''(2)

جو بہی چالیس دن اخلاص سے خدا کے لئے عمل انجام دے خداوند کریم اس کے دل سے،اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری کرتا ہے۔

کیونکہ جو اپنے وجود و جسم کو شیطان کے وجود سے پاک کرے اور خواہشات نفسانی کو ترک کرے ملائکہ کو اپنے دل میں جگہ دے اور اپنے دل کو خدا کا گہر قرار دے تو اس کی خدمت میں مامور ملائکہ اس کے دل پر حکمتیں نازل کریں گے،اس پر الہام ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار:۵۲ص۱۱۵

[2]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۲۴۹

۱۸۳

ان مراحل تک پہنچنے کے بار ے میں امام صادق(ع)  فرماتے ہیں:

''اَلقَلب حَرَم الله فَلَا تسکن فَی حَرَم  الله غَیرَالله''(1)

دل خدا کا حرم ہے ۔ پس خدا کے حرم میں غیر خدا کو جگہ نہ دو۔

جو انسان اخلاص کی منزل کو پالے وہ تمام گناہوں سے ہاتہ اٹہا لیتا ہے۔کیونکہ اخلاص اس وقت اپنی انتہا کو پہنچتا ہے کہ جب انسان مکمل طور پر گناہوں ،اور آلودگیوں سے پاک ہوجائے۔

حضرت امیرالمؤمنین(ع) اس حقیقت کی یوں تصریح فرماتے ہیں:

''تَمَام الاخلَاص تَجَنّب المَعَاصی'' (2)

اخلاص کی انتہا ،تمام گناہوں سے پرہیز کرنا ہے۔

در راہ  او  شکستہ  دلی می خرند  و  بس

بازار خود فروشی از آن سو ی  دیگر است

اس کی درگاہ میں صرف شکستہ دلوں کو ہی خریدا جاتا ہے۔خود فروشی کے بازار کہیں اور ملیں گے۔

واجبات کو انجام دینے میں پاک نیت کا ہونا اخلاص کی انتہا نہیں ہے بلکہ محرمات کو ترک کرنا بہی اس کی شرط ہے ۔بلکہ جو انسان عالم معنیٰ تک پہنچے اور حقائق کی جستجو میںہو،وہ اپنی سوچ و فکر کو خالص اور پاک کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار :ج۷۷ص۲۱۵

[2]۔ بحارالانوار :ج۷۷ص۲۱۵

۱۸۴

جس طرح رسول اکرم(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں:

''فَاتَّق الله تَعالیٰ وَ اَخلص ضَمیرکَ''(1)

خدا سے ڈرو اور اپنے ضمیر خالص و پاکیزہ رکہو۔

کیونکہ اگر انسان اپنے افکار و رفتار کو پاک کرے تو وہ راہ نجات تک پہنچ سکتا ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں :

''بالاخلَاص یَکون الخلَاصَ'' (2)

اخلاص کے ذریعہ رہائی حاصل ہوتی ہے۔

جس طرح بدن کو دہونے سے وہ ہر قسم کی گندگی و آلودگی سے پاک ہوجاتا ہے ،اسی طرح اخلاص سے خواہشات  نفسانی اور شیطانی سے رہائی پا سکتے ہیں ۔

اس وقت آپ کے دل میں حکمتوں کی کے چشمے اور چ ھ پے ہوئے اسرار و رموز آپ کی زبان پر جاری ہوں گے۔یہ اس صورت میں ممکن ہے جب آپ اپنے کو خدا کے لئے خالص کریں ۔جیسا کہ اس جملہ میں ہے (مَن اَخلَصَ للّٰه)یعنی جو خدا کے لئے اخلاص اختیار کرے نہ کہ حالات و مقامات کو حاصل کرنے کے لئے۔ مراتب و مقامات تک پہنچنے کے لئے اخلاص اختیار کریں اور آپ کا ہدف مجہولات کو کشف کرنا اور حالات و مقامات ہوں  تو جان لیں ،کہ آپ اپنے آپ کو بہت بڑے خطرات میں مبتلا کررہے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[7]۔ بحارالانوار :ج۷۸ص۲۸۰

[8]۔ الکافی:ج ۲ص۴6۸

۱۸۵

نتیجۂ بحث

اخلاص اولیاء خدا کی اہم صفات میں سے ہے۔اگر آپ کے تمام اعمال و حرکات خالصتاً خدا کے لئے ہوں تو آپ با عظمت زندگی سے بہرہ مند ہو ںگے۔کیونکہ اخلاس انسان کے کردار کے اثرات کو جمع کرتا ہے اور اس کے اجتماع سے بہت بڑے اثرات حاصل ہوتے ہیں ۔

اگر اخلاص کے حصول کے لئے اپنے کردار و رفتار حتّی کہ اپنی افکار و حرکات میں بہی سعی و کوشش کریںتو آپ فلاح و نجات کی راہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

اخلاص کو ادامہ دینے کی صورت میں آپ کے دل میں حکمت کے چشمے جاری ہوں گے اور رحمانی الہامات آپ کے جسم و روح کو منور کریں  گے۔ آپ اس وقت اولیاء خدا کی مخصوص ہدایت سے بہرہ مند اور مستفید ہوںگے اور اس عظیم نعمت کے ذریعہ آب و سر آب کی پہچان کے علاوہ آپ گمراہی و ضلالت اور مشکلات سے با آسانی نکل پائیں گے۔بلکہ آپ اپنے اوپر ہونے والی عنایات کی بدولت دوسروں کی راہنمائی بہی کرسکیں گے۔

ای یک دلہ صد دلہ ، دل یک دلہ کن        مہر دگرانرا زدل خود یلہ کن

یک صبح ز اخلاص بیا بر در ما            بر ناید اگر کام تو از ما گلہ کن

یعنی ایک دل میں سینکڑوں محبوب بسا رکہے ہیں۔اس میں صرف ایک ہی محبوب کی جگہ ہے،دوسروں کی محبت کو اپنے دل سے نکال کر ایک دن خلوص دل سے میرے در پر آئو اگر میں تمہیں تمہارے  ہدف و مقصد تک نہ پہنچا دوں تو پہر مجہ سے شکوہ وگلہ کرو۔

۱۸۶

گیارہواں باب

علم  ودانش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اَعوَن االاَشیَائ عَلیٰ تَزکیَة العَقل التَّعلیم ''

تزکیہ نفس کے لئے تمام دیگر چیزوں کی بنسبت تعلیم زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    علم ارتقاء کا ذریعہ

    تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت

    حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا

    کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

    علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

    نتیجۂ بحث

۱۸۷

علم ارتقاء کا ذریعہ

علم و دانش نہ صرف علمی بلکہ روحانی و معنوی اعتبار سے بہی انسان کو کمال کے اعلیٰ مراتب تک پہنچاتا ہے۔خدا وند تعالیٰ ،قرآن مجید میں علم کو اعلیٰ معنوی مقامات و درجات تک پہنچنے کے لئے ارتقاء کا ذریعہ شمار کرتا ہے اور صاحبان علم و دانش کو بلند درجات کے مالک قرار دیتا ہے اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

''  یَرفَع الله الَّذینَ اٰمَنوا منکم وَالَّذینَ اوتواالعلم دَرَجَات ''(1)

خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ،ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے۔

علم انسان کے نفس میں تحول ایجاد کرکے نفسانی حالات کو مضطرب کرتا ہے۔علم و دانش کی وجہ سے نفس میں ایجاد ہونے والا تحول ،انسان کو کمال کے درجات تک پہنچاتا ہے علم و دانش اور اعلیٰ مراتب پر فائز ہونا ،دانشمندوں کو جاہلوں سے ممتاز کرتا ہے ،خدا وند متعال اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد کرتا ہے:

'' قل هل یَستَوی الَّذینَ یَعلَمونَ وَ الَّذینَ لَا یَعلَمون''(2)

کہہ دیجئے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ،ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.[1] سورہ مجادلہ آیت: 11

[2]۔ سورہ زمرآیت:۹

۱۸۸

ز دانش زندہ مانی جاودانی                ز نادانی نیابی زندگانی

بود پیدا بر اہل علم ،اسرار                 ولی پوشیدہ گشت از چشم اغیار

نہ بہرخورد وخوابی  ہمچوں حیوان     برای حکمت وعلمی چو انسان

تم علم و دانش ہی سے زندہ و جاوید رہ سکتے ہو نادانی و جہالت میں تمہیں زندگی نہیں ملے گی ،اہل علم پر وہ اسرار بہی کہل جاتے ہیں کہ جو جہلا کی آنکہوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔حیوان کی طرح کہانے پینے اور سونے میں مصروف نہ رہو بلکہ انسان کی طرح علم و حکمت کے حصول کی کوشش کرو کیونکہ علم ہی انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے۔

ہم جو کام انجام دیتے ہیں ،ہمارے نفس پر اس کا اثر ہوتا ہے ۔اسی طرح علم و دانش ہمارے نفس میں تحول ایجاد کرتا ہے اور نفس پر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے یہ اعلیٰ درجات تک پہنچتا ہے۔

دین کی نظر میں علم و دانش کا حصول انتہائی اہم ہے ۔جس کی وجہ اہمیت ہمارے اذہان سے با لا تر ہے ،البتہ کچہ شرائط کو ضرور مد نظر رکہیں کہ جنہیں خاندان عصمت و طہارت  نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے ۔علم نہ صرف انسان کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے ،بلکہ یہ عبادات کی نوع بہی ہے۔حضرت امام باقر  (ع) فرماتے ہیں:

'' تَذَکّر العلمَ سَاعَةً خَیر من قیَام لَیلَةٍ '' (1)

علمی گفتگو میں گزارنے والا ایک گہنٹا ایک رات کی عبادت سے بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج۱ص۲۰۴

۱۸۹

یہ بدیہی ہے کہ ایک گہنٹہ علمی گفتگو میں گزارنا ،اس صورت میں ایک رات عبادت میں گزارنے سے بہتر ہے کہ تعلیم و تعلم سے تقرب الہٰی  کے علاوہ کوئی قصد نہ ہو ۔اگر طالب علم کا مقصد عوام کالانعام پر حکمرانی ہو تو یہ ان سے بہی زیادہ گمراہ ہوگا۔

''اولٰئکَ کَالاَنعَام بَل هم اَضَلّ ''(1)

وہ چوپایوں جیسے ہیں ۔بلکہ ان سے بہی زیادہ گمراہ ہیں۔

علم کی فضیلت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کا فرمان ہے:

'' قَلیل من العلم خَیر من کَثیرالعبَادَة '' (2)

کچہ علم حاصل کرنا ،بہت زیادہ عبادت کرنے سے افضل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ سورہ اعراف آیت:179

[2]۔ بحارالانوار:ج۱ص۱۷۵

۱۹۰

تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت

علم کے ذریعہ روحانی و معنوی قوت کو حاصل کرنے کے لئے تحصیل علم میں ارادہ بہت اہم ہے تاکہ آپ کا نفس علمی و اعتقادی مسائل کو قبول کرنے کیلئے تیار رہے۔کیونکہ جن طالبعلموں کا کوئی ارادہ و ہدف نہ ہو ،ان کا مستقبل درخشاں نہیں ہوتا ۔وہ اپنے وقت اور فرصت کے لمحات سے استفادہ نہیں کرتے۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو طالبعلم علمی و معنوی مقامات کے حصول کے لئے بے ہدف و بے ارادہ ہوں ،تاریک مستقبل ،ا ن کا منتظر ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے خدا وند عالم کی حضرت داؤد پر کی گئی وحی میں آیا ہے :

'' اَلمتَعَلّم یَحتَاج الیٰ رَغبَةٍ و َ ارَادةٍ'' (1)

متعلم کو شوق و ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس بناء پر علم دانش حاصل کرنے کیلئے شوق کے ساتہ اگر ارادہ نہ ہو تو یہ علم حاصل کرنے اور سیکہنے کے لئے مؤثر نہیں ہوگا۔

پس اگر آپ حصول علم کی طرف مائل ہوں اور آپ کو علم حاصل کرنے کا شوق اور آرزو ہو تو اپنی منزل و مقصد کی طرف پختہ ارادہ کے ساتہ گامزن ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

۱۹۱

حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا

علم کی حصول کی راہ میں قابل توجہ اور مہم مسائل میں سے ایک گناہوں کو ترک ہے۔جس طرح گناہوں کا ارتکاب،ہم سے بہت سی عبادات کی توفیق کو سلب کرتا ہے ،اسی طرح یہ حصول علم کے لئے بہی مانع ہے۔بہت سے لوگ گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے نہ تو نور علم سے منور ہیں اور نہ ہی وہ عقائد اور معارف اہل بیت عصمت و طہارت  سے زیادہ آگاہ ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبہی اپنے بندوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے علم کی نعمت سے محروم کردیتاہے۔

حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں:

'' اذَا اَرذَلَ الله عَبداً حَظَرَ عَلَیه العلم ''(1)

جب پروردگار کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔

اس فرمان کے رو سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے موارد میں خاندان عصمت و طہارت کے معارف سے بے بہرہ اور علم و دانش سے محروم ہونے کی وجہ انسان کی پستی ہے کہ جو اس کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔

اسی بناء پر تشنگی علم رکہنے والے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ علوم و معارف کے حصول اور اس میں پیشرفت کے لئے اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکہے اور اپنے کو اطاعت خدا اور زیور عبادت سے آراستہ کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار:280

۱۹۲

کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

تحصیل علم کی شرائط کے بارے میں گذشتہ مطالب سے روشن ہوتا ہے کہ روایات کی رو سے حصول علم با ارزش اور اہم آثار علوم کی تمام انواع کو شامل نہیں کرتے۔اگرچہ بعض افرادلفظ علم سے عمومی معنی کو مراد لیتے ہیں یعنی  وہ علم کہ آج کی دنیا میں جس کا حصول رائج ہو۔لیکن روایات کی نظر میں علمی مسائل سے آگاہ بہت سے افراد کو صاحبان فضل (نہ کہ علم)شمار کیا گیا ہے۔لہٰذا مکتب عصمت و طہارت کی نظر میں ہر قسم کے مطالب کو علم کے عنوان سے سیکہنا واجب نہیں ہے۔

ایک مشہور روایت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے کہا:

'' طَلَب العلم فَریضَة عَلیٰ کلّ مسلَمٍ وَ مسلمَةٍ ''

علم کاحصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔

اس روایت کی تفسیر میں امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' اَیّ علم التَّقویٰ وَالیَقین'' ([1)

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک جس علم کو حاصل کرنا ہو مرد اور عورت پر واجب ہے وہ ایسا علم ہے کہ جس سے انسان کے تقویٰ و یقین میں اضافہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

۱۹۳

اس بناء پر علم و دانش کی مدح میں وارد ہونے والی روایت کا مقصود ایسے علوم ہیں کہ جو انسان کو تکامل تک پہنچائیں نہ کہ ہر قسم کا علم،بعض ایسے علوم بہی ہیں کہ جو ظاہراً علم کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔لیکن در حقیقت وہ خیالی مسائل سے زیادہ نہیں ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:

انَّ من البَیَان سحراً وَ من العلم جَهلاً وَ من القَول عَیّاً

بعض خطبات و بیانات سحر ،بعض علوم جہل اور بعض اقوال میں درماندگی ہوتی ہے۔

کچہ لوگ خطاب کرنے سے عاجزہوتے ہیں اور بعض خطاب کرنے میں اس حد تک مہارت رکہتے ہیں کہ اگرچہ ان کی باتیں باطل ہی کیوں نہ ہوں ،لیکن انداز خطابت سے لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔

اگر ایسے افراد دنیا کی علمی محافل میں بعض خرافات علمی تہیوری کے نام پر پہیلائیں تو کیا انہیں حاصل کرنا واجب ہے؟

بطلمیوس نے ہیئت کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پہیلاکر دنیا کے تین ہزار سال تک کے دانشمندوں حتیٰ کہ ابوعلی سینا جیسے شخص کو اشتباہ میں ڈال دیا اور انہیں اپنا ہم عقیدہ اور ہم رائے بنالیا۔یہاں تک کہ بطلمیوس کے باطل مفروضہ پر علمی پیشرفت ہونے لگی۔

ایک زمانے میں ڈارون نے تنازع بقاء کے مسئلہ کو مطرح کیا۔اور اس نے اس خرافی فرضیہ کو اس طرح سے علمی رنگ دیا کہ کچہ دانشمندوں نے اس نظریہ کو قبول کیا ۔کچہ عرصہ کے بعدمعلوم ہوا کہ ان کایہ غلط مفروضہ فریب سے قائم کیاگیا تاکہ بعض دوسرے لوگوں کو دہوکہ دے سکے۔ لیکن ان دانشمندوں کی خیانت سے پردہ اٹہ گیا،اور ان کا فریب آشکار ہوگیا۔اب ہم یہاں چند سطور کے ذکر  کرنے سے ان کے فریب سے پردہ اٹہانے کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۹۴

گذشتہ صدی کے اوائل میں  ماہرین کو کہوپڑی اور نچلے جبڑے کے کچہ نمونے ملے۔ان ماہرین میں انگلینڈ کے مشہور ماہر آثار قدیمہ'' چالز ڈیوس ''بہی شامل تہے۔ان نمونوں سے ایسا لگتا تہا کہ یہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق بندر اور انسان کے درمیان مفقود حلقہ سے متعلق ہے۔نومبر1912 کو منچسٹر گارڈن میں اس کی خبر شائع ہوئی۔یہ نمونے ''ساسکن '' میں واقع'' پیلٹ ڈاون کمن '' کے مقام پر

ایک نشیبی علاقے میں دریافت ہوئے اور اسے پیلٹ ڈاون کا نام دیا گیا۔بعض ماہرین کا شک تہا کہ کہوپڑی اور جبڑے کے ٹکڑے ایک ہی چیز کے ہیں۔جب1917 ء میں یہ اعلان ہوا کہ دو سال پہلے بہی ایسا ہی ایک نمونہ دریافت ہوا ہے  تو اکثر شکّاک خاموش ہو گئے۔

1953 ء میں آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''وائنز ''نے اس قضیہ کے بارے میں تحقیق شروع کی تو وہ اس وقت شک میں مبتلا ہو گیا کہ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ ابہی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ  پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ کس مقام سے دریافت ہوا تہا ۔اس نے  آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''سر ویلفوڈڈیگراس کلار ''اور برطانیہ  کے عجائب گہر میں آثار قدیمہ کے ماہر ''کنٹ آکلی ''سے مدد کا تقاضا کیا۔کچہ مدت کے بعدان کی کوششوں کے نتائج انگلینڈ کے میوزیم کی گزارشات میں شائع ہوئے۔اب اس میں کوئی شک نہیں تہا کہ انہوں نے جبڑے کے دانتوں کی اصلاح تہی ،تاکہ یہ انسان کی شبیہ لگے۔

مختلف تجربات سے پتہ چلا کہ کہوپڑی اور جبڑے کے نمونے بہی مختلف ہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ خود ساختہ اور مصنوعی تہا۔وہاں سے ملنے والی حیوانات کی ہڈیوں کو جمع کرکے پیلٹ ڈاون کی شکل دی گئی۔لیکن ابہی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کس کی سازش تہی؟

۱۹۵

پس معلوم ہوا کہ علم میں بہی دوسری چیزوں کی طرح تقلّب ممکن ہے۔نیز یہ بہی مشخص نہیں کہ عمل میں کس ہد تک تقلّب انجام پاتا ہے۔

ایسی سازشوں اور تقلّبات سے بچنے کا واحد راستہ خاندان عصمت وطہارت علیہم السلام کی تعلیمات ہیں۔ہم  خاندان وحی و عصمت وطہارت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی روح کو تکامل حاصل سکتے ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین علی (ع)، پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا :

'' وَلٰکنیّ اَخَاف عَلَیکم کلّ منَافق الجَنَان عَالم الّلسان یَقول مَا تَعرفونَ وَیَفعَل مَا تَنکرون'' ( 1 )

لیکن سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اور دل کے منافق ،کہتے وہی ہیں  جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہی ہیں جسے تم برا سمجہتے ہو۔

بعض دانشمند یہ سوچتے ہیں کہ وہ معاشرے کی خدمت کے لئے جستجو کررہے ہیں ،لیکن در حقیقت وہ نادانی کی وجہ سے استعمار کے ہاتہوں استعمال ہورہے ہوتے ہیں ۔استعماری طاقتیں ان کے علم ودانش کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔'' آئن سٹائن '' بہی ایسے افراد میں سے ایک ہے۔

اس کا روحانی افسوس و افسردگی اور اس کے ساتہ کام کرنے والے '' رابرٹ '' کی پشیمانی اس حقیقت و واقعیت کی گواہ ہے۔ ان دونوں کو روحانی افسوس و پشیمانی اس وقت ہوئی کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ایٹم کی عظیم قوت کو انسانیت کی فلاح و فائدہ میں استعمال کرنے کی بجائے بعض ممالک کی سیاسی شخصیات اسے بعض اقوام و ملل اور انسانوں کو نابود کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب:27

۱۹۶

یونیسکوکے توسط سے منعقد کی جانے والی آئن سٹائن کی دسویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے ''آئن سٹائن '' کے قریبی دوست نے کہا:

'' آئن سٹائن '' نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں تسلیحاتی مسابقات اور جنگوں سے مایوس ہوکر کہا تہا کہ اگر میں زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتا تو میں ایک الیکٹریشن بننے کو ترجیح دیتا۔

آئن سٹائن اس تمام علمی شہرت کے باوجود اپنی زندگی کی آخری ایام میں اپنے ماضی پر پشیمان تہا ۔جب اس نے اپنے علم و دانش کو استعماری اور دنیا کو برباد کرنے والی طاقتوں کے ہاتہوں استعمال ہوتے دیکہا،نہ کہ لوگوں کی خدمت میں ،تو اسے پشیمانی ہوئی۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا استعمار اور دنیا کی ظالم اور ستمگر قوتوں کی خدمت میں استعمال ہونے والا علم روح کی بلندی اور معنوی درجات کے عروج کا سبب بن سکتا ہے؟

جو دانشمند نادانی کے باعث غیروں کی خدمت اور اپنوں سے خیانت کرے کس طرح ممکن ہے کہ وہ اہلبیت  کی مدح و ستایش کا مستحق ہو۔

ہماری روایات میں ایسا عالم مدح و ستائش کا مستحق ہے کہ جو صرف گفتار کی حد تک نہیں بلکہ مقام عمل میں ب ھ ی دین کا خدمتگذار ہو۔اسی وجہ سے امام صادق (ع) فرماتے ہیں: ''یعنی بالعلماء مَن صَدَّقَ قَولَه فعله وَمَن لَم یصَدّق قَولَه فعله فَلَیسَ بعَالمٍ ''( 1 )

عالم سے مراد وہ شخص ہے کہ جس کا کردار اس کی گفتار کی تصدیق کرے اور جس کا کردار ، اس کی گفتار کی تصدیق  نہ کرے وہ عالم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحاراالانوار:ج 70ص 344

۱۹۷

علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

جو علم قلب کو حیات بخشتا ہے ،اس کی فضیلت فقط اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ عالم کے نفس میں تحولات ایجاد کرتا ہے۔بلکہ یہ دوسروں کو سکہائے تو یہ معاشرے میں تحولات ایجاد کرنے کے لحاظ سے بہی فضیلت رکہتا ہے۔کیونکہ علم کا لازمہ،اس کی نشر و اشاعت اور دوسروں کو سکہانا ہے۔تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے افراد کو بہی

تعلیم دیں۔اس طرح سے اگرچہ علم کم ہو لیکن ایک دوسرے کو تعلیم دینے سے یہ ہزاروں افراد میں فروغ پائے گا۔اب ہم جو واقعہ بیان کرنے جارہے ہیں اس سے آپ علم کی نشر و اشاعت کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔وہ اپنی پوری زندگی ریاضت، مجاہدہ، تہذیب اخلاق اور لوگوں کی خدمت میں مشغول رہے۔وہ اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہیں:

میں زیارت کے لئے گیا ،جب نجف اشرف پہنچا تو سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تہا ،میں نے ارادہ کیا کہ سردیاںنجف اشرف میں گزاروں رات کو عالم خواب میں حضرت امیرالمومنین  کی زیارت نصیب ہوئی،انہوں نے مجہ پر بہت لطف و کرم کیااور فرمایا:اب تم نجف میں نہ رہو بلکہ واپس اپنے شہر (اصفہان)چلے جائو کیونکہ وہاں تمہاری زیادہ ضرورت ہے اور وہاں کے لئے تم زیادہ مفید ہو۔چونکہ مجہے نجف اشرف رہنے کا زیادہ اشتیاق تہا میں نے بہت اصرار کیا کہ کسی طرح مولا مجہے وہاںرہنے کی اجازت دے دیںلیکن حضرت امیرالمومنین نہ مانے اور فرمایا:اس سال شاہ عباس وفات پاجائیگا اور شاہ صفی اس کا جانشین بنے گا ،ایران میں سخت فتنہ برپا ہوگا،خدا چاہتا ہے کہ تم اس فتنہ کے دوران لوگوں کی ہدایت کرو۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی :440

۱۹۸

مہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ تم خود تنہا خدا کی طرف آنا چاہتے ہو،لیکن خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہدایت سے ستر ہزار افراد خدا کی طرف آئیں،پس تم واپس چلے جائو ۔اس خواب کی وجہ سے میں واپس اصفہان چلا گیا۔میں نے اپنے ایک نزدیکی دوست سے یہ خواب بیان کیا،اس ننے یہ خواب شاہ صفی کو بتایا کہ جو ان دنوں مدرسہ صفویہ میں تہا ۔چند دن گذرنے کے بعد شاہ عباس مازندران کے سفر کے دوران چل بسااور شاہ صفی اس کا جانشین بن گیا۔

اس خواب کی وجہ سے مرحوم علّامہ مجلسی اول اصفہان چلے آئے اور لوگوں کو علوم و معارف اہلبیت کے تابناک انوار سے آشنا کروایا۔جی ہاں !غیبت کے دوران دانشمندوں اور خاندان عصمت و طہارت کے عقائد و معارف سے آگاہ افراد پر لازم ہے کہ ایک مہربان و شفیق باپ کی طرح دوسروں کی مدد کریں اور ان کی رہنمائی کی کوشش کریں۔اس حقیقت سے آگاہ امام حسن عسکری  کی ایک روایت ہے کہ جو انہوں نے پیغمبر(ص) سے نقل فرمائی ہے: '' اَشَدّ من یتم اليَتیم الّذی انقَطَعَ عَن اَبیه،یتم يَتیمٍ انقَطَعَ عَن امَامه، وَلَايَقدرالوصول الَیه وَلَا یَدری کَیفَ حکمه فیمَايَبتَلی به من شَرایع دینه اَلَا فَمَن کَانَ من شیعَتنَا عَالما بعلومنَاوَهذا الجَاهل بشَریعَتنا،اَلمنقَطع عَن مشَاهدَتنَا،يَتیم فی حجره-اَلَا فَمَن هداه وَاَرشَدَه وَ عَلَّمَه شَریعَتَنا کَانَ مَعَنَا فی الرَّفیق الاَعلٰی ''( 1 )

اپنے باپ کا سایہ سر سے اٹہ جانے والے یتیم سے بڑہ کر بے سرپرست وہ یتیم ہے کہ جو اپنے امام سے دور ہو اور امام تک پہنچنے کی قدرت نہ رکہتا ہو وہ نہیں جانتا کہ اسے درپیش آنے والے شرعی احکامات میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟

آگاہ ہوجائو کہ ہمارے شیعوں میں سے جو ہمارے علوم سے آشنا ہیں،ان میں سے جو بہی ایسے شخص کی ہدایت کرے اور اسے شریعت کے احکام بتائے کہ جو ہماری شریعت سے جاہل ،ہمارے دیدار سے محروم اور ہمارے حجر میں یتیم ہو تو وہ بہشت میں بلند مقام پر ہمارے ساتہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحارالانوار :ج2ص 2

۱۹۹

اس روایت میں پیغمبر اکر(ص) م  علوم کی ترویج اور نا بلد و نا آشنا افراد کی ہدایت کرنے کو تکامل معنوی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

جو  لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کرے گا وہ بہشت برین میں ہمارے ساتہ ہوگا۔اسی وجہ سے بہت سے علماء نے علم و دانش کو کسب کرنے کی بہت کوششیں کی،ان میں سے بعض تو اس طرح علمی صلاحیت و مسائل میں کہو جاتے کہ وہ کہانے پینے اور سونے کو ہی بہول جاتے۔

مرحوم حاج کریم فرّاش کہ جو حضرت امام حسین(ع) کے حرم کے خدام میں سے تہے وہ کہتے ہیں:میں حرم مطہر میں خدمتگذاری میں مصروف تہا خدّام نے زوّاروں کو حرم کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی،میں نے دیکہا کہ وحید بہہبانی اور آقا شیخ یوسف بحرانی ایک ساتہ حرم سے باہر آئے اور برآمدے میں آکر علمی مسائل پر بحث کرنے لگے،پہر خدام نے زائرین کو برآمدے کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی تو ان دونوں بزرگواروں نے صحن میں آکر بحث کو جاری رکہا،یہاں تک کے صحن کے دروازے بند ہونے کے بارے میں بہی زائرین کو مطلع کیا گیا۔

وہ دونوں بزرگوار صحن سے نکل کر دروازے کے پیچہے اپنی علمی گفتگو میں مصروف رہے،میں حرم کے صحن میں تہا سحری کے وقت حرم کے دروازے کہولنے گیا ،جب میں نے حرم کے دروازے کہولے تو دیکہا کہ وہ دونوں بزرگوار ابہی تک کہڑے ہیں اور علمی بحث کررہے ہیں۔

جب میں نے دیکہا تو ان کے قریب کہڑا ہوگیا اور ان کی بحث سننے لگا ،لیکن انہوں نے اپنے مباحثہ کو جاری رکہا،یہاں تک کہ مؤذن نے صبح کی اذان دی تو اس وقت آقا شیخ یوسف بحرانی حرم مطہر کی طرف چلے گئے کیونکہ وہ حرم مطہر میں امام جماعت تہے،پہر ان کی بحث تمام ہوئی۔( 1 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی:406

۲۰۰