کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153218 / ڈاؤنلوڈ: 4710
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

روزۂ فکر

اسلام میں  خاموشی اور سکوت کے روزے کا وجود نہیں ہے جیسا کہ راتوں کو کہانے پینے سے پرہیز کرتے ہوئے رات کے روزے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ لیکن جو عالی و بلند معنوی مقام و مراتب کےحصو ل کی جستجو میں ہیں ، وہ چپ کا روزہ رکہنے کی بجائے فکر کا روزہ رکہتے ہیں اور اپنے ذہن کو زشت وناپسندیدہ افکار سے آلو دہ نہیں کر تے ۔ یہ خاندا ن رسالت  علیہم  السلام   سے ہم تک پہنچنے والا ایک دستور ہے ۔حضرت علی (ع) فر ما تے ہیں :

''صیام القلب عن الفکر فی الاثام افضل من صیام البطن عن الطعام  '' (۱)

گنا ہوں کے بارے میں فکر کرتے ہوئے دل کا روزہ ،خوراک سے پر ہیز کرتے ہوئے پیٹ کے روزے سے افضل ہے  ۔

اگرخود کوبرے افکار سے آلودہ نہ کریں تو یہ گو یا گناہوں اور نا پسندید ہ اعمال کے لئے بیمہ ہے ۔ اس صورت میں فکر شفاف و درخشان آئینہ کی مانند آ پ کو واقعیت و حقیقت دکہا ئے گی ۔ روزہ فکر نجات لئے موثر ترین اور بہترین راہ انسان کے اختیار میں ہے اور یہ سیر معنوی کے لئے انسان کو کامران و کامیاب کرتا ہے ۔ فکر کا روزہ انسان کی روح کو عالم معنی کی بیکراں فضا میں پرواز کروا تا ہے اور اسے ترقی و پیشرفت کی اوج تک پہنچا تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۴ص  ۲۱۴

۲۱

اگر آپ فکر کا روزہ رکہنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ شیطان کو شکست دے سکتے ہیں اگر چہ مومنین کے لئے شیطان کی دشمنی بہت ضعیف ہے اور انسان کی گمراہی کے لئے اس کی قدرت و طاقت بہت کم ہے ۔ لیکن وہ انسانوں کے سر کش نفس سے استفادہ کر تا ہے کہ جو ہمیشہ انسانوں کے ہمرا ہ ہے ۔ وہ انسانوں کے نفس میں وسوسہایجاد کرکے نفس کو اپنا ہم عقیدہ بنا لیتا ہے اور نفس کی مدد سے انسان کی ہستی کو تباہ کر دیتا ہے اور دونوں جہانوں کی سعادت سے دور کر د یتا ہے ۔ شیطانی وسواس اور نفس کی غلامی سے نجات کا راستہ دنیاوی افکار کی نفی ہے  جو اپنے نفس کو دنیاوی افکار سے بچالے وہ برے اعمال اورگناہوں کا مرتکب نہیں ہو تا ۔ اس طرح اسے جاویدا نی سعادت حاصل ہو تی ہے ۔ کیو نکہ صحیح و سالم فکر انسان کو غم و اندوہ اور دنیاوی افکار سے نجات دیتی ہے کہ جو افکار انسان کی سعادت و خوشبختی کو ویران کرتی ہیں ۔

۲۲

صحیح و سالم فکر کے طریقے

۱۔ دقت اور  سوچ سے فکر کو  سالم کر نا

دقت و تامل ، افکار کی بر رسی ، تصحیح فکر اور فاسد فکر کو ختم کرنے میں مہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ خدا کے مقرب ملک جبرائیل امین پیغمبر اکرم(ص) کے لئے مناجات لائے تا کہ وہ امت کے لئے مورد استفادہ قرار پائے ان مناجات میں ہے :

'' والهمتنی رشدی بتفضلک و اجلیت بالرجاء لک قلبی وازلت خدعة عدوی عن لبّی و صححت با لتامل فکری ''(۱)

پرور دگار ا تو نے اپنے فضل سے میری ہدایت کا الہام فرمایا ، تجہ سے امیدواری نے میرے دل کو جلا بخشی اور تامل کے ذریعہ میری فکر کو سالم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا ر الانوار :ج۹۵ص  ۶۳ ۱

۲۳

۲ ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا

فکر کی تصحیح اور تامل پر قدرت کے لئے پر خوری سے پر ہیز و خود داری کر نا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ کہانا ، پینا اگر اعتدال کی حدسے بڑہ جائے تو یہ فکر کو فاسد کرنے میں اثر انداز ہو تا ہے ۔ آ سائش فکری ، آسائش جسمی سے مرتبط ہے ۔

فکر اس صورت میں آسائش و راحت میں ہو گی کہ جب پر خوری کا احساس نہ ہو ۔ اس وقت انسان کو ذہن زشت و شیطانی افکار کے طغیان سے محفوظ رہے گا ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اقتصر فی اکله کثرت صحته و صلحت فکرته ''(۱)

جو کہا نے میں لازم حد تک اکتفا کرے ، اس کی صحت جسمی بیشتر ہو گی اور فکر میں اصلاح  ہوگی ۔

پر خوری کی وجہ سے بدن کے بخا رات زیادہ ہو کر دماغ کی طرف جا تے ہیں اور شیاطین کے نفوذ کی قدرت بڑہ جا تی ہے اسی وجہ سے فاسد افکار اور شیطانی وسوسے بہی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ زیادہ کہانے سے پر ہیز کی صورت میں بدن کے بخا رات کم ہو کر نفوذ شیاطین کے راہ بہی کمتر ہو جاتے ہیں پہر وسوسہ شیطانی اور فاسد افکار کم ہو جاتے ہیں اور فکر اصلاح پا  تی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص  ۲ ۷ ۳

۲۴

۳ ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے  پر ہیز کرنا

صحیح و سالم فکر کے لئے ایسے افراد سے پر ہیز کرنا ضروری ہے کہ جو فکری اشتبا ہات کا شکار ہوں ۔ زود باور افراد سے کنارہ گیری و دوری انسان کو ان کے فکری اشتبا ہات سے محفوظ رکہتی ہے  جلدی باور کرنے والے سادہ لوح افراد اور جو لوگ جلدی دوسروں سے فریب کہا جائیں وہ فکری لحاظ سے ضعیف و کمزور ہو تے ہیں ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من ضعفت فکرته قویت غرّته ''(۱)

جس کی فکر ضعیف ہو ، اس کا فریب کہانے کا امکان قوی ہو جاتا ہے۔

 ضعیف فکر انسان کے دہو کا کہا نے کے امکا نات مہیا کر تی ہے ۔ کیو نکہ جب ایسے افراد میں  غور وفکر کی قدرت کم ہو تو ان میں وہم و خیال کی قوت زیادہ ہو جاتی ہے اسی لئے وہ دوسروں کی رائے اور نظریات کو جلدی قبول کر لیتے ہیں کیو نکہ وہم و خیال کا غلبہ قبول کرنے کی حالت کو ایجاد کر تا ہے لیکن سوچ و فکر دلیل و برہان اور قبول کرنے کی حالت کو شرائط کے ساتہ تسلیم کر تی ہے اسی وجہ سے تعلیمات وفرمائشات اہل بیت عصمت و طہارت میں فکری لحا ظ سے ضعیف افراد سے مصاحبت و واسطہ سے منع کیا گیا ہے تا کہ ان کی صحبت و ہمنیشی کی وجہ سے ان کے اشتبا ہا ت دوسروں تک سرایت نہ کریں ۔ تمرکز فکر، غور وفکر کی قدرت میں اضا فہ کا با عث ہے ۔جو کوئی  غور و فکر کر رہا ہو اس کے لئے ذہنی اطمینان و آرام و سکون ہونا ضروری ہے کیو نکہ تشویش ذہنی ، تمر کز فکر سے مانع ہے پس جب فکر متمر کز نہ ہو تو اس کی قدرت کم ہو جائے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص  ۸۰ ۲

۲۵

تمر کز فکر کے لئے پر سکون اور آرام دہ محیط و ماحول ہو جو محیط فکر کو پرا کندہ کرے ، اسی طرح ہیجان اور روحی آشفتگی کے وقت بہی فکر کومکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتے ۔

اگر تمرکز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے تو قوی و قدرتمند فکر حاصل ہو گی ۔ کیو نکہ اس میں کوئی شک وتردید نہیں کہ تمرکز فکر کی قدرت کو کئی حد تک بڑہا تا ہے ۔ لہذا تمر کز فکری کا طریقہ سیکہیں اور اس کے موانع کو بر طرف کریں ۔

تمر کز فکر انسان کے باطنی و روحی حالات سے حاصل ہو تا ہے ۔ لہذا اسے بہت تیزی سے حاصل کرنے کے لئے تمرین و مشق کریں تا کہ وقت کے ساتہ ساتہ ہم میں یہ قدرت ایجاد ہو سکے ۔ جب تمر کز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے اور اس سے استفادہ کریں تو آپ کے لئے کامیابی تک پہنچنے کے راستے کہل جائیں گے ۔

بہت سے دانشمند و طالب علم نوابغ کی حالت میں غبطہ و حسادت کا شکار ہو جاتے ہیں کیو نکہ وہ ذہین نہ ہونے کی وجہ سے  پریشان ہو تے ہیں   جب  کہ بعض مصنفین معتقد  ہیں :

'' ایک ذہین اور عادی یا عام فرد کی فکر میں فرق ہے کہ ذہین  شخص اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ قرار دیتا ہے ۔ آپ بہی اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ  قرار دینے پر قادر ہیں '' ۔

بعض گمان کر تے ہیں کہ ذہین افراد بچپن سے ہی غیر معمولی حافظے کے مالک ہو تے ہیں لیکن ان کی یہ سوچ درست نہیں ہے کیو نکہ بہت سے ذہین افراد میں بڑے ہونے تک ذہانت نامی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی ۔ حتی کہ بعض اپنے والدین اور تربیت دینے والوں کی نظر میں بچگا نہ ذہن کے مالک تہے ۔ آئن سٹائن کہ جو اس دنیا میں ایک ذہین ترین فرد کے طور پر پہچا نا جا تا ہے ، وہ بہی ان ہی افراد میں سے ایک تہا ۔

۲۶

بہت سے ذہین افراد نے اپنی ذہانت کو اپنی عمر کے آخری حصوں میں نکہا را اگرچہ بعض ذہین افراد میں ذہانت کی علامات بچپن ہی سے جلوہ گر ہوتی ہیں ۔

لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تمام ذہین افراد میں ذہانت کی علامات ونشانیاں بچپن سے آشکار ہو تی ہیں کیو نکہ جس طرح ہم نے عرض کیا کہ ممکن ہے کہ انسان قوہ فکری سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جدید ، فوق العادہ اور استثنائی شخصیت کا مالک بن جائے ۔

تمر کز فکر ذہنی و  فکری قوة اور قدرت فکر سے بیشتر استفادہ کرنے کاایک موثر ذریعہ ہے ۔ فکر اور تمرکز فکر اس قدر اہم ہے کہ ہم نے ابہی تک اس کے ہزا روں میں سے ایک راز کو بہی دریافت نہیں کیا۔ افکار کو تجسم دینا اور فکری موجود ات کو ایجاد کرنا فکر کے نا شناختہ مسائل میں سے ایک ہے جس طرح ہم روح کی حقیقت کو نہیں جانتے اسی طرح حقیقت فکر بہی ہمارے لئے مجہول ہے۔ کیو نکہ غور وفکر کا سرچشمہ  انسان  کی روح ہے ۔ کیو نکہ جو انسان اپنی روح کو کہودے وہ تفکر و تدبر پر قادر نہیں ہے ۔ بس روح سے فکر جنم لیتی ہے اور ذہن ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ روح انسان کے غور وفکر کو ظاہر کرتی ہے۔ جس طرح آنکہ روح کے لئے وسیلہ ہے کہ انسان تسلط روح کے ذریعہ آنکہوں سے اشیاء کو دیکہتا ہے ۔

۲۷

نتیجۂ بحث

آ پ غور و فکر اورتفکر و تعقل کے ذریعہ دنیا کے  عالی ، عظیم ترین اور قیمتی  خزانوں کو اپنے ذہن سے نکالیں  اور تامل و دقت کے ذریعہ اپنی افکار سے پر ارزش گوہر حاصل کریں کہ جس کے سامنے بہت سے قیمتی خزانے کوئی قیمت نہیں رکہتے ۔  اپنی فکر کو متمر کز کریں اور تمر کز فکر کی قدرت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی عقلی و ذہنی قوت کی افزائش کریں ۔ غور وفکر کے ذریعہ آپ نہ صرف ذہین اور ا پنے آگاہ ضمیر میں تبدیلیاں ایجاد کر سکتے ہیں ۔بلکہ آپ اپنے اس ضمیر میں بہی تبدیلی لا سکتے ہیں کہ جو اپنے سے آگاہ نہیں ہے ۔فکر آپ کے نفس و روح کے لئے مقناطیس ہے کیو نکہ آپ جس موضوع کے بارے میں سوچیں وہ آپ کو اس کی طرف جذب کرے گا ۔

تفکر کے ذریعہ فضائل ومناقب اہل بیت علیہم السلام سے اپنی روح کو بلندیوں پر لے جائیں تا کہ اس خاندان وحی کے لئے مجذوب بن سکیں ۔اس کائنات ، ملکوت آسمان و زمین اور آیات الٰہی سے آشکار عظمتوں میں تدبر و تامل سے آپ میں عظم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے ۔اشتبا ہات فکری کے شکار افراد کی صحبت و ہمنشینی سے گریز کریں اور عالی و بزرگ فکر کے مالک افراد کی مجلس میں بیٹہیں ۔

بہ یک تدبیر نیکو آن توانکرد

کہ نہ تو ان با شپاہ بیکران کرد

بہ رأیی لشکری را بشکنی پشت

بہ شمشیری یکی تا دہ تو ان کشت

ایک اچہی سوچ و فکر وہ کام بہی کر سکتی ہے کہ جسے بہت بڑا لشکر بہی انجام نہیں دے سکتا ۔   رائے ونظریہ کے ذریعہ لشکر کو شکست و مات دے سکتے ہیں لیکن تلوار کے ذریعہ ایک سے دس افراد کو ہی قتل کیا جاسکتا ہے ۔

۲۸

دوسراباب

مشورہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' افضل من شاورت ذو التجارب ''

تجربہ کار سے مشورہ کرنا سب سے بہتر ہے  ۔

    مشورہ کرنے کی ضرورت

    مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

    کس کے ساتہ مشورہ کریں ؟

    مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

    مشورہ نہ کرنے کا انجام

    نتیجۂ بحث

۲۹

مشورہ  کرنے  کی  ضرورت

سعی و جستجو اس صورت میںمفید ثابت ہو تی ہے کہ جب وہ صحیح راہ پر قرار پائے اور اس کا درست نتیجہ ہاتہ آئے ۔ اگر انسان کی فعالیت و کوشش صحیح شرائط کے ساتہ انجام نہ پائے تو اتلاف عمر اور تہکاوٹ کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔ لہذا ہر کام اور پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اس پر دقت کریں اور کامیا بی وناکامی کی تمام شرائط کی تحلیل و بررسی کریں ۔ اس کے بعد اگر آپ دیکہیں کہ اس کام سے اچہا اور عالی نتیجہ حاصل ہو رہا ہے تو اس کام کا آغاز کریں اگر اس کام کا نتیجہ آپ کے لئے روشن نہ ہوسکے تو کسی ایسے شخص سے مشورہ طلب کریں کہ جو آ پ کا ہمدرد ، دلسوز اور اس مسئلہ سے مطلع وآگاہ ہو پہر اگر اس کام میں کوئی صلاح دکہائی دے تو اس کام کا آ غاز کریں ۔

حضرت رسول اکرام(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

'' تَواضع للّٰه ، یَر فَعکَ اللّٰه وَلاَ تَقضیَنّ الاَّ بعلمٍ فَانّ اشکل علیک امر فسل ولا تستحیی ، واستشر ثمّ اجتهد فانّ اللّٰه عزّ وجلّ ان یعلم منک الصدق یوفقک ''(۱) خدا کے لئے تواضع کرو، تا کہ خدا تمہیں سر بلند کرے اور تم قضاوت نہ کرو مگر جس کے بارے  میں تم علم و آ گاہی رک ھ تے ہو ۔ پس اگر کوئی امر تمہارے لئے مشکل ہو تو اس کے بارے میں سوال کرو اور سوال کرنے میں مت شرماؤ، اس کے بارے میں مشورہ کرو اور پ ھ ر اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو، کیو نکہ خداوند متعال اگر تم میں صداقت جانے تو تمہیں کامیاب فرما ئے گا ۔جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا : '' مشکل امور میں دوسروں سے پوچ ھ و اور مشورہ کرو اور اس کے بعد اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۲۱ص  ۴۰۸

۳۰

مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

جو معنوی مقام کی اوج پر اور بندگی خدا وند کے عا لی در جات پر فائز ہیں اور جو راہ کمال کے حصول کے لئے کوشاں اورتقرب اہل بیت کی جستجو میں ہیں وہ یہ جان لیں کہ مشورہ عظیم لوگوں کی ترقی وپیشرفت میں بہت اہم کردار کاحامل ہے ۔ اب جنہوں نے معنوی سفر کا آغاز کیا ہے اور جو آیات وروایات اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے ارشادات سے نا واقف ہیں کہ جو انسان کو سید ھ ا راستہ دک ھ اتی ہیں ۔ لہذا وہ کسی عاقل ، متقی اور فہمیدہ انسان سے مشورہ کریں اور ان کے تجربات اور رہنمائی سے استفادہ کریں ۔ ایسے بزرگ افراد سے مشورہ کریں کہ جو نعمت علم و فہم سے آراستہ ہوں اور جن کو صحیح راستہ مل گیا ہو اور اس پر گامزن ہوں نہ کہ ان لوگوں سے مشورہ کریں کہ جو آد ھ ے راستے میں بیٹ ھ گئے ہوں اور کاروان کو ب ھ ی اس پر چلنے سے روکے رک ھ ا ہو ۔حضرت امیر المو منین  (ع) ایسے افراد سے مشورہ کو ہدف و مقصد تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہیں کہ جنہیں صحیح راستہ مل چکا ہو ۔'' لا ظهیر کا لمشاورة ''(۱)

انسان کے لئے مشورہ سے بڑہ کر کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

فتحی کہ جہاں از او گشادند       در بازوی مشورت نہا دند

گر عقل تو عقدہ می گشاید      با ناخن شور خوشتر آید

وہ فتح کہ جس کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا وہ مشورہ کے ذریعہ سے حاصل ہو تی ہے  اور اگر آ پ کی عقل گرہ کہو ل سکتی ہے تو یہ ناخن کے ذریعہ گر ہ کہولنے سے بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۴

۳۱

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟

امام صادق (ع)  مشاور کی شرئط کے بارے میں فرماتے ہیں:

 ''استشیر العاقل من الرجال الورع ، فانّه لا یأمر االاَّ بخیرٍ ...''

عاقل مر دوں کے ساتہ مشورہ کرو کہ جو پر ہیز گار ہو ں ۔ کیونکہ وہ تمہاری راہنما ئی نہیں کریں گے مگر خیر و اچہا ئی کی طرف ۔اس امر سے بہی متوجہ رہیں کہ کبہی مشورہ ، مشورہ کرنے والے کے لئے بہت نقصان کا سبب بنتا ہے کہ جب بعض موارد میں یہ اسے گمراہی و ضلالت کے تاریک کنویں میں دہکیل دیتا ہے اسی وجہ سے خاندان وحی (ٕع) نے مشورہ کے بارے میں کچہ شرائط ذکر فر مائی ہیں تا کہ ایسی غلطیوں اور اشتبا ہات سے محفوظ رہ سکیں-آپ جس شخص سے مشورہ کرنا چا ہتے ہوں اس میں مشاور کی صلاحیت ہونی چاہئے اور اس سے جس موضوع کے بارے میں سوال کیا جائے وہ اس کے جواب کے لئے مکمل آ مادگی رکہتا ہو ۔ لہذا روایات اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کی تمام خصوصیات کامالک ہو ۔

امام صادق  (ع) فرماتے ہیں : '' شاور فی امور ک ممّا یقتضی الدین من فیه خمس خصالٍ عقل ،و حلم ، و تجربة ، ونصح ، و تقویٰ ''(۱)

اپنے امور میں کہ دین جن کا اقتضا ء کر تا ہے کسی ایسے سے مشورہ کرو کہ جس میں پانچ  خصوصیات موجود ہوں :

۱ ۔ عقل   ۲ ۔ حلم  ۳ ۔ تجر بہ  ۴ ۔ نصحیت کرنے والا   ۵ ۔ تقویٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۴

۳۲

مشکل مسا ئل میں فقط ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو فہمیدہ ، تجر بہ کار ، تقویٰ دار ، بردبار ، وحلیم اور اہل نصیحت ہو اور جن افراد میں یہ خصو صیات نہ ہو ان سے پر ہیز کیاجائے ور نہ ممکن ہے کہ انسان ہدایت کی بجائے ضلا لت و گمراہی میں مبتلا ہو جائے ۔ لہذا ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کے لئے آما دگی رکہتا ہو ۔

بہ ہر کار با کاروان راز گوی     در چارہ از رأیی او باز جوی

زدن با خداوند فر ہنگ رأیی    بہ فر ہنگ باشد تو ر اہنما ئی

امام صادق  (ع) ایک اور روایت میں ایسے شخص کو بیشتر شرائط بیان فرما تے ہیں کہ جس سے مشورہ کیاجائے:

'' انّ المشورة لاتکون الاَّ بحدودها، فمن عرفها والاَّ کانت مضرّ تها علی المستشیر اکثر من منفعتهاله ، فأ وّلها ان یکون الذی یشاوره عاقلاً ، والثانیة ان یکون حرّاً متدیناً ، والثالثة ان یکون صدیقاً مواخیاً، والرابعة ان تطلعه علی السرّک فیکون علمه به کعلمک بنفسک ، ثمّ یستشر ذالک و یکتمه فانّه اذا کان عاقلاً انتفعک بمشورته، واذا کان حراً متدیّناً جهد نفسه فی النصیحة لک ، و اذا کان صدیقاً مواخیاً کنتم شرک اذا طلعته علیه ، و اذا اطلعته علی سرک فکان علمه به کعلمک تمت المشورة وکملت النصیحة ''(۱)

مشورہ کی کچہ شرائط ہیں اگر کوئی اسے جان لے تو اچہا ہے ور نہ مشورہ کرنے والے کو فائدے سے زیادہ نقصان کا سامنا ہو گا ۔

۱ ۔ مشاور عاقل و فہمیدہ ہو ۔

۲ ۔ وہ آز اد اور متدین ہو ۔

۳ ۔ آپ سے برادرا نہ صدا قت رکہتا ہو ۔

۴ ۔ آپ اسے اپنے  راز سے آگاہ کریں تا کہ وہ  آپ کی طرح مورد مشورہ کیتمامپہلوؤں سے آگاہ ہو جائے  اور پہر اسے مخفی و پوشیدہ رکہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۳

۳۳

اگر وہ عاقل و فہمیدہ ہو تو اس سے مشورہ کرنا مفید ثا بت ہو گا اگر وہ آزاد و متدین ہو تو آ پ کو نصیحت کی سعی و کوشش کرے گا اور جب وہ برا درا نہ صداقت رکہتا ہو تو وہ آپ کے رازو ں کو پوشیدہ رکہے گا ۔ اور جب آپ اس کو اپنے راز بتا دیں کہ جس طرح آپ اس مسئلہ سے آ گاہ ہیں تو وہ آ پ کو کامل اور صحیح مشورہ دے گا ۔ پس نصیحت کامل ہو جائے گی ۔

   گویند کہ بی مشاورت کار مکن                                                الحق سخنی خوشست انکار مکن

لیکن بہ کسی کہ از غمت غم نخورد                                         گر در ز ذہن بریذد اظہار مکن

کہتے ہیں کہ مشور ہ کے بغیر کوئی کام نہ کرو اور حق یہ ہے کہ کسی اچہی بات کا انکار نہ کرو ، لیکن جو تمہارے غم میں غم خوار نہ ہو اگر وہ اپنے منہ سے موتی بہی نچہاور کرے  تو اس کا اظہار نہ کرو ۔

اس بناء پر بے  خبراور  نادان افراد سے مشورہ کرنا بہت خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جن میں مشاور کی شرا ئط نہ ہو ۔ کیو نکہ وہ انسان کو گمراہی و تبا ہی میں مبتلا کردے گا ۔

امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' لا تشاور من لا یصدّقه عقلک ''(۱)

جسے عقل قبول نہ کرے اس سے مشورہ نہ کرو  ۔

طبیبی کہ باشد و زرد رو ی     ازاو داوری سرخ روئی مجوی

جو طبیب خود ہی بیمار ہو اس سے صحت یابی کی امید رکہنا عقل مندی نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج ۷۵ص  ۳ ۰ ۱

۳۴

مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

شائستہ افراد سے مشورہ کرنے میں آپ کا ہدف و مقصد ان کی رائے کو قبول کرنا ہو اور حقیقت مل جانے کی صورت میں اسے قبول کر کے اس پر عمل کریں نہ کہ فقط اس کی صحبت میں وقت گزار کر ، آگاہ افراد کی نصیحت کو ان سنا کر کے فراموش کر دیں ۔ کیو نکہ اس صورت میں افسوس و پریشانی آپ کا استقبال کرے گی ۔

حضرت امیر المو منین (ٕع)  فرما تے ہیں :

'' اما بعد فانّ معصیة الناصح الشفیق العالم لمجرب تورث الحسرة و تعقب الندامة '' (۱)

شفیق ومہر بان ، عالم و صاحب تجر بہ نصیحت کرنے والے شخص کی مخالفت کے بعد حسرت و پشیمانی حاصل ہو گی۔

 اس بناء پر اگر آپ کسی آگاہ و شائستہ شخص کی صحبت میں بیٹہ کر اس کی نصیحتوں کو سنیں اور اس کی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کر نے کے لئے کمر ہمت باندہ لیں تو آپ سعا دت مند ہو جائیں گے اور پہر   آپ پشیمانی ، افسوس اور فکری پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ خطبہ: ۳۵

۳۵

مشورہ نہ کرنے کا انجام

مختلف کاموں میں مشورہ نہ کر نے کی وجہ لاعلمی و نا آگا ہی ہے یا اس کی وجہ استبداد رائے ہے ۔ یعنی جو اپنے کردار و رفتار کو سو فیصد صحیح اور بے اشکال سمجہے اور کسی سے مشورہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو ، وہ استبداد رائے میں مبتلا ہے ۔ ایسے افراد اس صفت کی وجہ سے اپنے کو خطرے میں ڈالتے ہیں حضرت علی(ع)نے  نہج البلاغہ میں فرمایا:

''والاستشارة عین الهدایة و قد خاطر من استغنیٰ برأیه ''(۱)

مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور اگر کوئی اپنی شخصی رائے کی وجہ سے اپنے کو دوسروں سے مستغنی سمجہے تو وہ اپنے کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔دنیا کے بہت سے حکمرا نوں میں غرور ، استبداد رائے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے جس کی وجہ سے وہ کبہی اپنے اور کبہی اپنی مملکت کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے کائنات میں منصب امامت کے لئے پہلے شائستہ ترین امام حضرت علی  (ع) نے فرمایا :جو اپنے کو اپنی شخصی رائے کی وجہ سے دوسرو ں سے بے نیاز و مستغنی سمجہے وہ اپنے کو خطرے میں مبتلا کر تا ہے ۔اس بناء پر جو دوسروں کے ساتہ مشورہ کر نے کو بیٹہنے کے لئے تیار نہ ہو اور جو اپنی رائے و عقیدے کو دوسروں سے بہتر و بر تر سمجہتا ہو ، وہ اپنی رائے میں استبداد رکہتا ہے جو کہ ہلا کت و نابودی کو سبب ہے کیو نکہ ایسا شخص کسی کام کو بہی انجام دیتے وقت دوسروں سے اپنی شخصی رائے اور عقیدے کے علاوہ کسی اور راہ کا انتخاب نہیں کرتا اگر چہ اس کا منتخب کیا ہوا راستہ غلط ہی کیوں نہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار: ۲۰۲

۳۶

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' من استبدّ برأیه هلک و من شاور الرجال شارکها فی عقو لها ''(۱)

جو اپنی رائے میں مستبدّ ہو ، وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور جو دوسرے لو گوں سے مشو رہ کرے گو یا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جا تا ہے  ۔

ان فرامین و ارشادات سے یہ استفادہ کرتے ہیں کہ جو کسی کام میں مشورہ نہیں کر تا اور استبداد رائے کا مالک ہو وہ بہت بڑے نقصان کا متحمل ہو تا ہے اور جو دوسروں سے مشورہ کر تے ہیں وہ نہ صرف ہلاکت سے رہائی پاتے ہیں بلکہ صاحبان نظر کی عقلوں میں بہی شریک ہو تے ہیں ۔

بنای کار خود را با مشاورت ننہی                                    نہ حق شرع گذاری نہ داد عدل دہی

مکن غرور و بکن مشورت بہ اہل خرد                         کہ در مشاورت از سہو و از خلل برہی

اگر اپنے کاموں کی بنیاد مشورے کے ذریعہ نہیں رکہو گے تو آپ کو نہ ہی تو شرع گزاری کا حق ہے اور نہ ہی فیصلہ اور عدل کرنے کا ۔ غرور نہ کرو بلکہ اہل عقل و خرد سے مشورہ کرو کیو نکہ مشورے سے سہو و خلل کے ذریعہ نجات پا سکتے ہیں ۔

مادی مسائل میں بہی کبہی مشورہ نہ کر نے سے ناقبل جبران نقصان ہو تا ہے اب نمونہ کے طور پر ایک مورد کو ذکر کرتے ہیں : جب سب لوگ سونے کی تلاش و جستجو میں تہے تو '' داربی '' نامی شخص کے ایک چچاکو بہی سونے کی ہوس کا بخار ہو گیا اس نے غرب کا رخ کیا تا کہ زمین کہود کر مال و ثروت حاصل کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار:۱۵۲

۳۷

اس نے یہ نہیں سنا تا کہ انسان کے ذہن میں موجود سونا ، زمین میں مخفی سونے سے بیش قیمت ہے وہ اجازت نا مہ لے کر بیلچہ اٹہا ئے زمین کو کہود نے لگا ایک ہفتہ کی کوشش کے بعد وہ سونے کی سطح تک پہنچ گیا اب سے کسی وسیلہ و آلہ کی ضرورت تہی کہ جس کی مدد سے وہ زمین کا سینہ چیر کر سونے کو نکال سکے اور کسی کو اس کی خبر بہی نہ ہو ۔ لہذا اس نے اس معدن کو چہپاد  یا اور واپس اپنے شہر چلا گیا اس نے اپنے رشتہ داروں اور بعض ہمسایو ں کو بتایا ، وہ سب جمع ہوئے اور انہوں نے مل کر زمین کہود نے کے لئے ایک مشین خریدی اور سونے کی کان والی جگہ آگئے '' داربی'' اور اس کے چچا کام میں مصروف ہوگئے جب انہوں نے وہاں زمین کہود کر مٹی کا پہلا ٹرک نکا لا تو معلوم ہوا کہ انہیں سونے کی بہت بڑی کان ملی ہے سونے والی مٹی کے چند ٹرک نکالنے کے بعدانہو ں نے تمام قرض ادا کر دیئے اور پہر انہیں بہت زیادہ منافع بہی ہوا وہ جتنی زمین کہودتے داربی اور اس کے چچاؤں کی ہوس بڑ ہ جاتی یہاں تک کہ سونے کی وہ سطح گم ہو گئی اور پہر سونے کی کان کے کوئی اثرات نہ ملے لیکن انہوں نے اپنے کام کو جاری رکہا مایوسی کے عالم میں بہی انہوں نے سونے کی تلاش کے لئے نئے سرے سے آغاز کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے لہذا انہو ں نے ارادہ کیا کہ اب اس کام سے ہاتہ اٹہا لیں ، انہوں نے زمین کہود نے کی مشین چند سو ڈالر میں فروخت کردی اور ریل کے ذریعہ اپنے علاقے میں واپس آ گئے ۔

جس نے وہ مشین خریدی ، اس نے ایک انجینئر سے تقاضا کیا کہ وہ معدن کا معائنہ کرے انجینئر نے بتایا کہ زمین کہود نے والے معدن کے اصو لوں اور قوا نین سے نا آشنا تہے اور وہ ہار کر واپس چلے گئے ۔ انجینئر نے بتا یا کہ انہوں نے جس جگہ کام چہوڑا تہا اس سے۹۰ سینٹی میٹر کے فاصلے پر سونے کی سطح ہے لیکن وہ ہار کر واپس لوٹ گئے ۔

جس شخص نے زمین کہود نے کی مشین خریدی تہی وہ ایک بہت اہم حقیقت سے واقف تہاکہ کسی چیز میں ہار ماننے اور کام کو چہوڑ نے سے پہلے اس کے ماہر سے مشورہ   کرناضرور کریں ۔

۳۸

نتیجۂ بحث

مادی و معنوی امور میں آگاہ ، فہمیدہ و پر ہیز گار شخصیات سے مشورہ ترقی و پیشرفت کا ذریعہ ہے ایسے افراد سے مشورے کے ذریعہ آپ ان با صلا حیت و صاحب نظر افراد کے افکار و تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں ان کی راہنما ئی سے استفادہ کر تے ہوئے آپ اپنے کو حیرت و سر گردا نی سے نجات دے سکتے ہیں ۔ ان کے خدا پسندا نہ نظریات کی مدد سے عظیم اہداف سے آشنا ہو کر ان عالی اہداف و مقاصد کے لئے قدم بڑہا ئیں ان دلسوز او ر بزرگ افراد سے مشورہ کر کے ان کی سالہا سال کی زحمت اور تلاش و کوشش سے استفادہ کریں ۔

با صلاحیت افراد کے  مشورہ سے استفادہ کر کے ان کی فکر سے مستفید ہوں اور اعلیٰ اہداف کی اہمیت و ارزش سے آگا ہ ہو ں اور ان اہداف تک پہنچنے کی تلاش و جستجو کریں تا کہ آئندہ افسوس اور پشیمانی میں دچار نہ ہوں۔

مشاورت تر ک کر نے سے نہ صرف معنوی مسائل بلکہ مادی امور میں بہی نا قابل تلافی نقصان ہو تا ہے  پرہیز گار و بزرگ افراد سے مشورہ آپ کی شکست کے لئے مانع ہے ۔

ہر کہ بی مشورت کند تد بیر    غالباً بر ہدف نیاید تیر

بیخ بی مشورت چو بنشانی       بر نیار د بہ جز پشیمانی

جو بہی مشورہ کے بغیر تدبیر کرے تو غا لباً اس کا تیر نشانے پر نہیں لگتا ۔ اور اگر کسی چیز کی مشورہ کے بغیر بنیاد دکہو گے تو پشیما نی کے سوا کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔

۳۹

تیسراباب

ہدف

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' جمیل المقصد یدلّ علیٰ طهارة المولد ''

خوبصورت ( با ارزش ) ہدف مولد کی طہارت پر دلالت کرتا ہے ۔

    بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

    ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

    انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

    مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

   ۱ ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

    ایک نکتہ کا تذکر

   ۲ ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

   ۳ ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

   ۴ ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

   ۵ ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت سے توسل

    نتیجۂ بحث

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259