کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155927 / ڈاؤنلوڈ: 5070
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

روزۂ فکر

اسلام میں  خاموشی اور سکوت کے روزے کا وجود نہیں ہے جیسا کہ راتوں کو کہانے پینے سے پرہیز کرتے ہوئے رات کے روزے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ لیکن جو عالی و بلند معنوی مقام و مراتب کےحصو ل کی جستجو میں ہیں ، وہ چپ کا روزہ رکہنے کی بجائے فکر کا روزہ رکہتے ہیں اور اپنے ذہن کو زشت وناپسندیدہ افکار سے آلو دہ نہیں کر تے ۔ یہ خاندا ن رسالت  علیہم  السلام   سے ہم تک پہنچنے والا ایک دستور ہے ۔حضرت علی (ع) فر ما تے ہیں :

''صیام القلب عن الفکر فی الاثام افضل من صیام البطن عن الطعام  '' (۱)

گنا ہوں کے بارے میں فکر کرتے ہوئے دل کا روزہ ،خوراک سے پر ہیز کرتے ہوئے پیٹ کے روزے سے افضل ہے  ۔

اگرخود کوبرے افکار سے آلودہ نہ کریں تو یہ گو یا گناہوں اور نا پسندید ہ اعمال کے لئے بیمہ ہے ۔ اس صورت میں فکر شفاف و درخشان آئینہ کی مانند آ پ کو واقعیت و حقیقت دکہا ئے گی ۔ روزہ فکر نجات لئے موثر ترین اور بہترین راہ انسان کے اختیار میں ہے اور یہ سیر معنوی کے لئے انسان کو کامران و کامیاب کرتا ہے ۔ فکر کا روزہ انسان کی روح کو عالم معنی کی بیکراں فضا میں پرواز کروا تا ہے اور اسے ترقی و پیشرفت کی اوج تک پہنچا تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۴ص  ۲۱۴

۲۱

اگر آپ فکر کا روزہ رکہنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ شیطان کو شکست دے سکتے ہیں اگر چہ مومنین کے لئے شیطان کی دشمنی بہت ضعیف ہے اور انسان کی گمراہی کے لئے اس کی قدرت و طاقت بہت کم ہے ۔ لیکن وہ انسانوں کے سر کش نفس سے استفادہ کر تا ہے کہ جو ہمیشہ انسانوں کے ہمرا ہ ہے ۔ وہ انسانوں کے نفس میں وسوسہایجاد کرکے نفس کو اپنا ہم عقیدہ بنا لیتا ہے اور نفس کی مدد سے انسان کی ہستی کو تباہ کر دیتا ہے اور دونوں جہانوں کی سعادت سے دور کر د یتا ہے ۔ شیطانی وسواس اور نفس کی غلامی سے نجات کا راستہ دنیاوی افکار کی نفی ہے  جو اپنے نفس کو دنیاوی افکار سے بچالے وہ برے اعمال اورگناہوں کا مرتکب نہیں ہو تا ۔ اس طرح اسے جاویدا نی سعادت حاصل ہو تی ہے ۔ کیو نکہ صحیح و سالم فکر انسان کو غم و اندوہ اور دنیاوی افکار سے نجات دیتی ہے کہ جو افکار انسان کی سعادت و خوشبختی کو ویران کرتی ہیں ۔

۲۲

صحیح و سالم فکر کے طریقے

۱۔ دقت اور  سوچ سے فکر کو  سالم کر نا

دقت و تامل ، افکار کی بر رسی ، تصحیح فکر اور فاسد فکر کو ختم کرنے میں مہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ خدا کے مقرب ملک جبرائیل امین پیغمبر اکرم(ص) کے لئے مناجات لائے تا کہ وہ امت کے لئے مورد استفادہ قرار پائے ان مناجات میں ہے :

'' والهمتنی رشدی بتفضلک و اجلیت بالرجاء لک قلبی وازلت خدعة عدوی عن لبّی و صححت با لتامل فکری ''(۱)

پرور دگار ا تو نے اپنے فضل سے میری ہدایت کا الہام فرمایا ، تجہ سے امیدواری نے میرے دل کو جلا بخشی اور تامل کے ذریعہ میری فکر کو سالم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا ر الانوار :ج۹۵ص  ۶۳ ۱

۲۳

۲ ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا

فکر کی تصحیح اور تامل پر قدرت کے لئے پر خوری سے پر ہیز و خود داری کر نا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ کہانا ، پینا اگر اعتدال کی حدسے بڑہ جائے تو یہ فکر کو فاسد کرنے میں اثر انداز ہو تا ہے ۔ آ سائش فکری ، آسائش جسمی سے مرتبط ہے ۔

فکر اس صورت میں آسائش و راحت میں ہو گی کہ جب پر خوری کا احساس نہ ہو ۔ اس وقت انسان کو ذہن زشت و شیطانی افکار کے طغیان سے محفوظ رہے گا ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اقتصر فی اکله کثرت صحته و صلحت فکرته ''(۱)

جو کہا نے میں لازم حد تک اکتفا کرے ، اس کی صحت جسمی بیشتر ہو گی اور فکر میں اصلاح  ہوگی ۔

پر خوری کی وجہ سے بدن کے بخا رات زیادہ ہو کر دماغ کی طرف جا تے ہیں اور شیاطین کے نفوذ کی قدرت بڑہ جا تی ہے اسی وجہ سے فاسد افکار اور شیطانی وسوسے بہی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ زیادہ کہانے سے پر ہیز کی صورت میں بدن کے بخا رات کم ہو کر نفوذ شیاطین کے راہ بہی کمتر ہو جاتے ہیں پہر وسوسہ شیطانی اور فاسد افکار کم ہو جاتے ہیں اور فکر اصلاح پا  تی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص  ۲ ۷ ۳

۲۴

۳ ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے  پر ہیز کرنا

صحیح و سالم فکر کے لئے ایسے افراد سے پر ہیز کرنا ضروری ہے کہ جو فکری اشتبا ہات کا شکار ہوں ۔ زود باور افراد سے کنارہ گیری و دوری انسان کو ان کے فکری اشتبا ہات سے محفوظ رکہتی ہے  جلدی باور کرنے والے سادہ لوح افراد اور جو لوگ جلدی دوسروں سے فریب کہا جائیں وہ فکری لحاظ سے ضعیف و کمزور ہو تے ہیں ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من ضعفت فکرته قویت غرّته ''(۱)

جس کی فکر ضعیف ہو ، اس کا فریب کہانے کا امکان قوی ہو جاتا ہے۔

 ضعیف فکر انسان کے دہو کا کہا نے کے امکا نات مہیا کر تی ہے ۔ کیو نکہ جب ایسے افراد میں  غور وفکر کی قدرت کم ہو تو ان میں وہم و خیال کی قوت زیادہ ہو جاتی ہے اسی لئے وہ دوسروں کی رائے اور نظریات کو جلدی قبول کر لیتے ہیں کیو نکہ وہم و خیال کا غلبہ قبول کرنے کی حالت کو ایجاد کر تا ہے لیکن سوچ و فکر دلیل و برہان اور قبول کرنے کی حالت کو شرائط کے ساتہ تسلیم کر تی ہے اسی وجہ سے تعلیمات وفرمائشات اہل بیت عصمت و طہارت میں فکری لحا ظ سے ضعیف افراد سے مصاحبت و واسطہ سے منع کیا گیا ہے تا کہ ان کی صحبت و ہمنیشی کی وجہ سے ان کے اشتبا ہا ت دوسروں تک سرایت نہ کریں ۔ تمرکز فکر، غور وفکر کی قدرت میں اضا فہ کا با عث ہے ۔جو کوئی  غور و فکر کر رہا ہو اس کے لئے ذہنی اطمینان و آرام و سکون ہونا ضروری ہے کیو نکہ تشویش ذہنی ، تمر کز فکر سے مانع ہے پس جب فکر متمر کز نہ ہو تو اس کی قدرت کم ہو جائے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص  ۸۰ ۲

۲۵

تمر کز فکر کے لئے پر سکون اور آرام دہ محیط و ماحول ہو جو محیط فکر کو پرا کندہ کرے ، اسی طرح ہیجان اور روحی آشفتگی کے وقت بہی فکر کومکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتے ۔

اگر تمرکز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے تو قوی و قدرتمند فکر حاصل ہو گی ۔ کیو نکہ اس میں کوئی شک وتردید نہیں کہ تمرکز فکر کی قدرت کو کئی حد تک بڑہا تا ہے ۔ لہذا تمر کز فکری کا طریقہ سیکہیں اور اس کے موانع کو بر طرف کریں ۔

تمر کز فکر انسان کے باطنی و روحی حالات سے حاصل ہو تا ہے ۔ لہذا اسے بہت تیزی سے حاصل کرنے کے لئے تمرین و مشق کریں تا کہ وقت کے ساتہ ساتہ ہم میں یہ قدرت ایجاد ہو سکے ۔ جب تمر کز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے اور اس سے استفادہ کریں تو آپ کے لئے کامیابی تک پہنچنے کے راستے کہل جائیں گے ۔

بہت سے دانشمند و طالب علم نوابغ کی حالت میں غبطہ و حسادت کا شکار ہو جاتے ہیں کیو نکہ وہ ذہین نہ ہونے کی وجہ سے  پریشان ہو تے ہیں   جب  کہ بعض مصنفین معتقد  ہیں :

'' ایک ذہین اور عادی یا عام فرد کی فکر میں فرق ہے کہ ذہین  شخص اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ قرار دیتا ہے ۔ آپ بہی اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ  قرار دینے پر قادر ہیں '' ۔

بعض گمان کر تے ہیں کہ ذہین افراد بچپن سے ہی غیر معمولی حافظے کے مالک ہو تے ہیں لیکن ان کی یہ سوچ درست نہیں ہے کیو نکہ بہت سے ذہین افراد میں بڑے ہونے تک ذہانت نامی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی ۔ حتی کہ بعض اپنے والدین اور تربیت دینے والوں کی نظر میں بچگا نہ ذہن کے مالک تہے ۔ آئن سٹائن کہ جو اس دنیا میں ایک ذہین ترین فرد کے طور پر پہچا نا جا تا ہے ، وہ بہی ان ہی افراد میں سے ایک تہا ۔

۲۶

بہت سے ذہین افراد نے اپنی ذہانت کو اپنی عمر کے آخری حصوں میں نکہا را اگرچہ بعض ذہین افراد میں ذہانت کی علامات بچپن ہی سے جلوہ گر ہوتی ہیں ۔

لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تمام ذہین افراد میں ذہانت کی علامات ونشانیاں بچپن سے آشکار ہو تی ہیں کیو نکہ جس طرح ہم نے عرض کیا کہ ممکن ہے کہ انسان قوہ فکری سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جدید ، فوق العادہ اور استثنائی شخصیت کا مالک بن جائے ۔

تمر کز فکر ذہنی و  فکری قوة اور قدرت فکر سے بیشتر استفادہ کرنے کاایک موثر ذریعہ ہے ۔ فکر اور تمرکز فکر اس قدر اہم ہے کہ ہم نے ابہی تک اس کے ہزا روں میں سے ایک راز کو بہی دریافت نہیں کیا۔ افکار کو تجسم دینا اور فکری موجود ات کو ایجاد کرنا فکر کے نا شناختہ مسائل میں سے ایک ہے جس طرح ہم روح کی حقیقت کو نہیں جانتے اسی طرح حقیقت فکر بہی ہمارے لئے مجہول ہے۔ کیو نکہ غور وفکر کا سرچشمہ  انسان  کی روح ہے ۔ کیو نکہ جو انسان اپنی روح کو کہودے وہ تفکر و تدبر پر قادر نہیں ہے ۔ بس روح سے فکر جنم لیتی ہے اور ذہن ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ روح انسان کے غور وفکر کو ظاہر کرتی ہے۔ جس طرح آنکہ روح کے لئے وسیلہ ہے کہ انسان تسلط روح کے ذریعہ آنکہوں سے اشیاء کو دیکہتا ہے ۔

۲۷

نتیجۂ بحث

آ پ غور و فکر اورتفکر و تعقل کے ذریعہ دنیا کے  عالی ، عظیم ترین اور قیمتی  خزانوں کو اپنے ذہن سے نکالیں  اور تامل و دقت کے ذریعہ اپنی افکار سے پر ارزش گوہر حاصل کریں کہ جس کے سامنے بہت سے قیمتی خزانے کوئی قیمت نہیں رکہتے ۔  اپنی فکر کو متمر کز کریں اور تمر کز فکر کی قدرت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی عقلی و ذہنی قوت کی افزائش کریں ۔ غور وفکر کے ذریعہ آپ نہ صرف ذہین اور ا پنے آگاہ ضمیر میں تبدیلیاں ایجاد کر سکتے ہیں ۔بلکہ آپ اپنے اس ضمیر میں بہی تبدیلی لا سکتے ہیں کہ جو اپنے سے آگاہ نہیں ہے ۔فکر آپ کے نفس و روح کے لئے مقناطیس ہے کیو نکہ آپ جس موضوع کے بارے میں سوچیں وہ آپ کو اس کی طرف جذب کرے گا ۔

تفکر کے ذریعہ فضائل ومناقب اہل بیت علیہم السلام سے اپنی روح کو بلندیوں پر لے جائیں تا کہ اس خاندان وحی کے لئے مجذوب بن سکیں ۔اس کائنات ، ملکوت آسمان و زمین اور آیات الٰہی سے آشکار عظمتوں میں تدبر و تامل سے آپ میں عظم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے ۔اشتبا ہات فکری کے شکار افراد کی صحبت و ہمنشینی سے گریز کریں اور عالی و بزرگ فکر کے مالک افراد کی مجلس میں بیٹہیں ۔

بہ یک تدبیر نیکو آن توانکرد

کہ نہ تو ان با شپاہ بیکران کرد

بہ رأیی لشکری را بشکنی پشت

بہ شمشیری یکی تا دہ تو ان کشت

ایک اچہی سوچ و فکر وہ کام بہی کر سکتی ہے کہ جسے بہت بڑا لشکر بہی انجام نہیں دے سکتا ۔   رائے ونظریہ کے ذریعہ لشکر کو شکست و مات دے سکتے ہیں لیکن تلوار کے ذریعہ ایک سے دس افراد کو ہی قتل کیا جاسکتا ہے ۔

۲۸

دوسراباب

مشورہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' افضل من شاورت ذو التجارب ''

تجربہ کار سے مشورہ کرنا سب سے بہتر ہے  ۔

    مشورہ کرنے کی ضرورت

    مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

    کس کے ساتہ مشورہ کریں ؟

    مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

    مشورہ نہ کرنے کا انجام

    نتیجۂ بحث

۲۹

مشورہ  کرنے  کی  ضرورت

سعی و جستجو اس صورت میںمفید ثابت ہو تی ہے کہ جب وہ صحیح راہ پر قرار پائے اور اس کا درست نتیجہ ہاتہ آئے ۔ اگر انسان کی فعالیت و کوشش صحیح شرائط کے ساتہ انجام نہ پائے تو اتلاف عمر اور تہکاوٹ کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔ لہذا ہر کام اور پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اس پر دقت کریں اور کامیا بی وناکامی کی تمام شرائط کی تحلیل و بررسی کریں ۔ اس کے بعد اگر آپ دیکہیں کہ اس کام سے اچہا اور عالی نتیجہ حاصل ہو رہا ہے تو اس کام کا آغاز کریں اگر اس کام کا نتیجہ آپ کے لئے روشن نہ ہوسکے تو کسی ایسے شخص سے مشورہ طلب کریں کہ جو آ پ کا ہمدرد ، دلسوز اور اس مسئلہ سے مطلع وآگاہ ہو پہر اگر اس کام میں کوئی صلاح دکہائی دے تو اس کام کا آ غاز کریں ۔

حضرت رسول اکرام(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

'' تَواضع للّٰه ، یَر فَعکَ اللّٰه وَلاَ تَقضیَنّ الاَّ بعلمٍ فَانّ اشکل علیک امر فسل ولا تستحیی ، واستشر ثمّ اجتهد فانّ اللّٰه عزّ وجلّ ان یعلم منک الصدق یوفقک ''(۱) خدا کے لئے تواضع کرو، تا کہ خدا تمہیں سر بلند کرے اور تم قضاوت نہ کرو مگر جس کے بارے  میں تم علم و آ گاہی رک ھ تے ہو ۔ پس اگر کوئی امر تمہارے لئے مشکل ہو تو اس کے بارے میں سوال کرو اور سوال کرنے میں مت شرماؤ، اس کے بارے میں مشورہ کرو اور پ ھ ر اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو، کیو نکہ خداوند متعال اگر تم میں صداقت جانے تو تمہیں کامیاب فرما ئے گا ۔جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا : '' مشکل امور میں دوسروں سے پوچ ھ و اور مشورہ کرو اور اس کے بعد اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۲۱ص  ۴۰۸

۳۰

مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

جو معنوی مقام کی اوج پر اور بندگی خدا وند کے عا لی در جات پر فائز ہیں اور جو راہ کمال کے حصول کے لئے کوشاں اورتقرب اہل بیت کی جستجو میں ہیں وہ یہ جان لیں کہ مشورہ عظیم لوگوں کی ترقی وپیشرفت میں بہت اہم کردار کاحامل ہے ۔ اب جنہوں نے معنوی سفر کا آغاز کیا ہے اور جو آیات وروایات اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے ارشادات سے نا واقف ہیں کہ جو انسان کو سید ھ ا راستہ دک ھ اتی ہیں ۔ لہذا وہ کسی عاقل ، متقی اور فہمیدہ انسان سے مشورہ کریں اور ان کے تجربات اور رہنمائی سے استفادہ کریں ۔ ایسے بزرگ افراد سے مشورہ کریں کہ جو نعمت علم و فہم سے آراستہ ہوں اور جن کو صحیح راستہ مل گیا ہو اور اس پر گامزن ہوں نہ کہ ان لوگوں سے مشورہ کریں کہ جو آد ھ ے راستے میں بیٹ ھ گئے ہوں اور کاروان کو ب ھ ی اس پر چلنے سے روکے رک ھ ا ہو ۔حضرت امیر المو منین  (ع) ایسے افراد سے مشورہ کو ہدف و مقصد تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہیں کہ جنہیں صحیح راستہ مل چکا ہو ۔'' لا ظهیر کا لمشاورة ''(۱)

انسان کے لئے مشورہ سے بڑہ کر کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

فتحی کہ جہاں از او گشادند       در بازوی مشورت نہا دند

گر عقل تو عقدہ می گشاید      با ناخن شور خوشتر آید

وہ فتح کہ جس کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا وہ مشورہ کے ذریعہ سے حاصل ہو تی ہے  اور اگر آ پ کی عقل گرہ کہو ل سکتی ہے تو یہ ناخن کے ذریعہ گر ہ کہولنے سے بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۴

۳۱

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟

امام صادق (ع)  مشاور کی شرئط کے بارے میں فرماتے ہیں:

 ''استشیر العاقل من الرجال الورع ، فانّه لا یأمر االاَّ بخیرٍ ...''

عاقل مر دوں کے ساتہ مشورہ کرو کہ جو پر ہیز گار ہو ں ۔ کیونکہ وہ تمہاری راہنما ئی نہیں کریں گے مگر خیر و اچہا ئی کی طرف ۔اس امر سے بہی متوجہ رہیں کہ کبہی مشورہ ، مشورہ کرنے والے کے لئے بہت نقصان کا سبب بنتا ہے کہ جب بعض موارد میں یہ اسے گمراہی و ضلالت کے تاریک کنویں میں دہکیل دیتا ہے اسی وجہ سے خاندان وحی (ٕع) نے مشورہ کے بارے میں کچہ شرائط ذکر فر مائی ہیں تا کہ ایسی غلطیوں اور اشتبا ہات سے محفوظ رہ سکیں-آپ جس شخص سے مشورہ کرنا چا ہتے ہوں اس میں مشاور کی صلاحیت ہونی چاہئے اور اس سے جس موضوع کے بارے میں سوال کیا جائے وہ اس کے جواب کے لئے مکمل آ مادگی رکہتا ہو ۔ لہذا روایات اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کی تمام خصوصیات کامالک ہو ۔

امام صادق  (ع) فرماتے ہیں : '' شاور فی امور ک ممّا یقتضی الدین من فیه خمس خصالٍ عقل ،و حلم ، و تجربة ، ونصح ، و تقویٰ ''(۱)

اپنے امور میں کہ دین جن کا اقتضا ء کر تا ہے کسی ایسے سے مشورہ کرو کہ جس میں پانچ  خصوصیات موجود ہوں :

۱ ۔ عقل   ۲ ۔ حلم  ۳ ۔ تجر بہ  ۴ ۔ نصحیت کرنے والا   ۵ ۔ تقویٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۴

۳۲

مشکل مسا ئل میں فقط ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو فہمیدہ ، تجر بہ کار ، تقویٰ دار ، بردبار ، وحلیم اور اہل نصیحت ہو اور جن افراد میں یہ خصو صیات نہ ہو ان سے پر ہیز کیاجائے ور نہ ممکن ہے کہ انسان ہدایت کی بجائے ضلا لت و گمراہی میں مبتلا ہو جائے ۔ لہذا ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کے لئے آما دگی رکہتا ہو ۔

بہ ہر کار با کاروان راز گوی     در چارہ از رأیی او باز جوی

زدن با خداوند فر ہنگ رأیی    بہ فر ہنگ باشد تو ر اہنما ئی

امام صادق  (ع) ایک اور روایت میں ایسے شخص کو بیشتر شرائط بیان فرما تے ہیں کہ جس سے مشورہ کیاجائے:

'' انّ المشورة لاتکون الاَّ بحدودها، فمن عرفها والاَّ کانت مضرّ تها علی المستشیر اکثر من منفعتهاله ، فأ وّلها ان یکون الذی یشاوره عاقلاً ، والثانیة ان یکون حرّاً متدیناً ، والثالثة ان یکون صدیقاً مواخیاً، والرابعة ان تطلعه علی السرّک فیکون علمه به کعلمک بنفسک ، ثمّ یستشر ذالک و یکتمه فانّه اذا کان عاقلاً انتفعک بمشورته، واذا کان حراً متدیّناً جهد نفسه فی النصیحة لک ، و اذا کان صدیقاً مواخیاً کنتم شرک اذا طلعته علیه ، و اذا اطلعته علی سرک فکان علمه به کعلمک تمت المشورة وکملت النصیحة ''(۱)

مشورہ کی کچہ شرائط ہیں اگر کوئی اسے جان لے تو اچہا ہے ور نہ مشورہ کرنے والے کو فائدے سے زیادہ نقصان کا سامنا ہو گا ۔

۱ ۔ مشاور عاقل و فہمیدہ ہو ۔

۲ ۔ وہ آز اد اور متدین ہو ۔

۳ ۔ آپ سے برادرا نہ صدا قت رکہتا ہو ۔

۴ ۔ آپ اسے اپنے  راز سے آگاہ کریں تا کہ وہ  آپ کی طرح مورد مشورہ کیتمامپہلوؤں سے آگاہ ہو جائے  اور پہر اسے مخفی و پوشیدہ رکہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۳

۳۳

اگر وہ عاقل و فہمیدہ ہو تو اس سے مشورہ کرنا مفید ثا بت ہو گا اگر وہ آزاد و متدین ہو تو آ پ کو نصیحت کی سعی و کوشش کرے گا اور جب وہ برا درا نہ صداقت رکہتا ہو تو وہ آپ کے رازو ں کو پوشیدہ رکہے گا ۔ اور جب آپ اس کو اپنے راز بتا دیں کہ جس طرح آپ اس مسئلہ سے آ گاہ ہیں تو وہ آ پ کو کامل اور صحیح مشورہ دے گا ۔ پس نصیحت کامل ہو جائے گی ۔

   گویند کہ بی مشاورت کار مکن                                                الحق سخنی خوشست انکار مکن

لیکن بہ کسی کہ از غمت غم نخورد                                         گر در ز ذہن بریذد اظہار مکن

کہتے ہیں کہ مشور ہ کے بغیر کوئی کام نہ کرو اور حق یہ ہے کہ کسی اچہی بات کا انکار نہ کرو ، لیکن جو تمہارے غم میں غم خوار نہ ہو اگر وہ اپنے منہ سے موتی بہی نچہاور کرے  تو اس کا اظہار نہ کرو ۔

اس بناء پر بے  خبراور  نادان افراد سے مشورہ کرنا بہت خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جن میں مشاور کی شرا ئط نہ ہو ۔ کیو نکہ وہ انسان کو گمراہی و تبا ہی میں مبتلا کردے گا ۔

امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' لا تشاور من لا یصدّقه عقلک ''(۱)

جسے عقل قبول نہ کرے اس سے مشورہ نہ کرو  ۔

طبیبی کہ باشد و زرد رو ی     ازاو داوری سرخ روئی مجوی

جو طبیب خود ہی بیمار ہو اس سے صحت یابی کی امید رکہنا عقل مندی نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج ۷۵ص  ۳ ۰ ۱

۳۴

مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

شائستہ افراد سے مشورہ کرنے میں آپ کا ہدف و مقصد ان کی رائے کو قبول کرنا ہو اور حقیقت مل جانے کی صورت میں اسے قبول کر کے اس پر عمل کریں نہ کہ فقط اس کی صحبت میں وقت گزار کر ، آگاہ افراد کی نصیحت کو ان سنا کر کے فراموش کر دیں ۔ کیو نکہ اس صورت میں افسوس و پریشانی آپ کا استقبال کرے گی ۔

حضرت امیر المو منین (ٕع)  فرما تے ہیں :

'' اما بعد فانّ معصیة الناصح الشفیق العالم لمجرب تورث الحسرة و تعقب الندامة '' (۱)

شفیق ومہر بان ، عالم و صاحب تجر بہ نصیحت کرنے والے شخص کی مخالفت کے بعد حسرت و پشیمانی حاصل ہو گی۔

 اس بناء پر اگر آپ کسی آگاہ و شائستہ شخص کی صحبت میں بیٹہ کر اس کی نصیحتوں کو سنیں اور اس کی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کر نے کے لئے کمر ہمت باندہ لیں تو آپ سعا دت مند ہو جائیں گے اور پہر   آپ پشیمانی ، افسوس اور فکری پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ خطبہ: ۳۵

۳۵

مشورہ نہ کرنے کا انجام

مختلف کاموں میں مشورہ نہ کر نے کی وجہ لاعلمی و نا آگا ہی ہے یا اس کی وجہ استبداد رائے ہے ۔ یعنی جو اپنے کردار و رفتار کو سو فیصد صحیح اور بے اشکال سمجہے اور کسی سے مشورہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو ، وہ استبداد رائے میں مبتلا ہے ۔ ایسے افراد اس صفت کی وجہ سے اپنے کو خطرے میں ڈالتے ہیں حضرت علی(ع)نے  نہج البلاغہ میں فرمایا:

''والاستشارة عین الهدایة و قد خاطر من استغنیٰ برأیه ''(۱)

مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور اگر کوئی اپنی شخصی رائے کی وجہ سے اپنے کو دوسروں سے مستغنی سمجہے تو وہ اپنے کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔دنیا کے بہت سے حکمرا نوں میں غرور ، استبداد رائے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے جس کی وجہ سے وہ کبہی اپنے اور کبہی اپنی مملکت کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے کائنات میں منصب امامت کے لئے پہلے شائستہ ترین امام حضرت علی  (ع) نے فرمایا :جو اپنے کو اپنی شخصی رائے کی وجہ سے دوسرو ں سے بے نیاز و مستغنی سمجہے وہ اپنے کو خطرے میں مبتلا کر تا ہے ۔اس بناء پر جو دوسروں کے ساتہ مشورہ کر نے کو بیٹہنے کے لئے تیار نہ ہو اور جو اپنی رائے و عقیدے کو دوسروں سے بہتر و بر تر سمجہتا ہو ، وہ اپنی رائے میں استبداد رکہتا ہے جو کہ ہلا کت و نابودی کو سبب ہے کیو نکہ ایسا شخص کسی کام کو بہی انجام دیتے وقت دوسروں سے اپنی شخصی رائے اور عقیدے کے علاوہ کسی اور راہ کا انتخاب نہیں کرتا اگر چہ اس کا منتخب کیا ہوا راستہ غلط ہی کیوں نہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار: ۲۰۲

۳۶

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' من استبدّ برأیه هلک و من شاور الرجال شارکها فی عقو لها ''(۱)

جو اپنی رائے میں مستبدّ ہو ، وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور جو دوسرے لو گوں سے مشو رہ کرے گو یا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جا تا ہے  ۔

ان فرامین و ارشادات سے یہ استفادہ کرتے ہیں کہ جو کسی کام میں مشورہ نہیں کر تا اور استبداد رائے کا مالک ہو وہ بہت بڑے نقصان کا متحمل ہو تا ہے اور جو دوسروں سے مشورہ کر تے ہیں وہ نہ صرف ہلاکت سے رہائی پاتے ہیں بلکہ صاحبان نظر کی عقلوں میں بہی شریک ہو تے ہیں ۔

بنای کار خود را با مشاورت ننہی                                    نہ حق شرع گذاری نہ داد عدل دہی

مکن غرور و بکن مشورت بہ اہل خرد                         کہ در مشاورت از سہو و از خلل برہی

اگر اپنے کاموں کی بنیاد مشورے کے ذریعہ نہیں رکہو گے تو آپ کو نہ ہی تو شرع گزاری کا حق ہے اور نہ ہی فیصلہ اور عدل کرنے کا ۔ غرور نہ کرو بلکہ اہل عقل و خرد سے مشورہ کرو کیو نکہ مشورے سے سہو و خلل کے ذریعہ نجات پا سکتے ہیں ۔

مادی مسائل میں بہی کبہی مشورہ نہ کر نے سے ناقبل جبران نقصان ہو تا ہے اب نمونہ کے طور پر ایک مورد کو ذکر کرتے ہیں : جب سب لوگ سونے کی تلاش و جستجو میں تہے تو '' داربی '' نامی شخص کے ایک چچاکو بہی سونے کی ہوس کا بخار ہو گیا اس نے غرب کا رخ کیا تا کہ زمین کہود کر مال و ثروت حاصل کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار:۱۵۲

۳۷

اس نے یہ نہیں سنا تا کہ انسان کے ذہن میں موجود سونا ، زمین میں مخفی سونے سے بیش قیمت ہے وہ اجازت نا مہ لے کر بیلچہ اٹہا ئے زمین کو کہود نے لگا ایک ہفتہ کی کوشش کے بعد وہ سونے کی سطح تک پہنچ گیا اب سے کسی وسیلہ و آلہ کی ضرورت تہی کہ جس کی مدد سے وہ زمین کا سینہ چیر کر سونے کو نکال سکے اور کسی کو اس کی خبر بہی نہ ہو ۔ لہذا اس نے اس معدن کو چہپاد  یا اور واپس اپنے شہر چلا گیا اس نے اپنے رشتہ داروں اور بعض ہمسایو ں کو بتایا ، وہ سب جمع ہوئے اور انہوں نے مل کر زمین کہود نے کے لئے ایک مشین خریدی اور سونے کی کان والی جگہ آگئے '' داربی'' اور اس کے چچا کام میں مصروف ہوگئے جب انہوں نے وہاں زمین کہود کر مٹی کا پہلا ٹرک نکا لا تو معلوم ہوا کہ انہیں سونے کی بہت بڑی کان ملی ہے سونے والی مٹی کے چند ٹرک نکالنے کے بعدانہو ں نے تمام قرض ادا کر دیئے اور پہر انہیں بہت زیادہ منافع بہی ہوا وہ جتنی زمین کہودتے داربی اور اس کے چچاؤں کی ہوس بڑ ہ جاتی یہاں تک کہ سونے کی وہ سطح گم ہو گئی اور پہر سونے کی کان کے کوئی اثرات نہ ملے لیکن انہوں نے اپنے کام کو جاری رکہا مایوسی کے عالم میں بہی انہوں نے سونے کی تلاش کے لئے نئے سرے سے آغاز کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے لہذا انہو ں نے ارادہ کیا کہ اب اس کام سے ہاتہ اٹہا لیں ، انہوں نے زمین کہود نے کی مشین چند سو ڈالر میں فروخت کردی اور ریل کے ذریعہ اپنے علاقے میں واپس آ گئے ۔

جس نے وہ مشین خریدی ، اس نے ایک انجینئر سے تقاضا کیا کہ وہ معدن کا معائنہ کرے انجینئر نے بتایا کہ زمین کہود نے والے معدن کے اصو لوں اور قوا نین سے نا آشنا تہے اور وہ ہار کر واپس چلے گئے ۔ انجینئر نے بتا یا کہ انہوں نے جس جگہ کام چہوڑا تہا اس سے۹۰ سینٹی میٹر کے فاصلے پر سونے کی سطح ہے لیکن وہ ہار کر واپس لوٹ گئے ۔

جس شخص نے زمین کہود نے کی مشین خریدی تہی وہ ایک بہت اہم حقیقت سے واقف تہاکہ کسی چیز میں ہار ماننے اور کام کو چہوڑ نے سے پہلے اس کے ماہر سے مشورہ   کرناضرور کریں ۔

۳۸

نتیجۂ بحث

مادی و معنوی امور میں آگاہ ، فہمیدہ و پر ہیز گار شخصیات سے مشورہ ترقی و پیشرفت کا ذریعہ ہے ایسے افراد سے مشورے کے ذریعہ آپ ان با صلا حیت و صاحب نظر افراد کے افکار و تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں ان کی راہنما ئی سے استفادہ کر تے ہوئے آپ اپنے کو حیرت و سر گردا نی سے نجات دے سکتے ہیں ۔ ان کے خدا پسندا نہ نظریات کی مدد سے عظیم اہداف سے آشنا ہو کر ان عالی اہداف و مقاصد کے لئے قدم بڑہا ئیں ان دلسوز او ر بزرگ افراد سے مشورہ کر کے ان کی سالہا سال کی زحمت اور تلاش و کوشش سے استفادہ کریں ۔

با صلاحیت افراد کے  مشورہ سے استفادہ کر کے ان کی فکر سے مستفید ہوں اور اعلیٰ اہداف کی اہمیت و ارزش سے آگا ہ ہو ں اور ان اہداف تک پہنچنے کی تلاش و جستجو کریں تا کہ آئندہ افسوس اور پشیمانی میں دچار نہ ہوں۔

مشاورت تر ک کر نے سے نہ صرف معنوی مسائل بلکہ مادی امور میں بہی نا قابل تلافی نقصان ہو تا ہے  پرہیز گار و بزرگ افراد سے مشورہ آپ کی شکست کے لئے مانع ہے ۔

ہر کہ بی مشورت کند تد بیر    غالباً بر ہدف نیاید تیر

بیخ بی مشورت چو بنشانی       بر نیار د بہ جز پشیمانی

جو بہی مشورہ کے بغیر تدبیر کرے تو غا لباً اس کا تیر نشانے پر نہیں لگتا ۔ اور اگر کسی چیز کی مشورہ کے بغیر بنیاد دکہو گے تو پشیما نی کے سوا کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔

۳۹

تیسراباب

ہدف

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' جمیل المقصد یدلّ علیٰ طهارة المولد ''

خوبصورت ( با ارزش ) ہدف مولد کی طہارت پر دلالت کرتا ہے ۔

    بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

    ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

    انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

    مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

   ۱ ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

    ایک نکتہ کا تذکر

   ۲ ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

   ۳ ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

   ۴ ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

   ۵ ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت سے توسل

    نتیجۂ بحث

۴۰

بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

اس کم فر صت اور محدود عمر میں وقت کو ضائع کرنے والے امور سے گریز کریں اور ایسے مہم اور ضروری مسائل میں وقت صرف کریں کہ جو دنیا و آخرت کے لئے سود مند ہو ں ۔

ہم مہم ترین اور ضروری مسائل کو اپنا ہدف قرار دیں اور ان  تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ۔ کیونکہ غیر ضروری اور غیر مہم مسائل میں وقت صرف کرنے سے ہم اساسی و باارزش امور بہول جائیںگے اورخلقت کے عالی ہدف و مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اشتغل بغیر المهمّ ، ضیّع الدهمّ ''(1)

جو غیر مہم امور میں لگا رہے وہ مہمترین امور کا ضائع کر دیتا ہے  ۔

اہمیت نہ رکہنے والے غیر ضروری مسائل میں مصروف رہنے سے بزرگ و اعلیٰ اہداف سے پیچہے رہ جائیں  گے یہ ایک حقیقت ہے کہ جسے حضرت امیر المو منین نے مختصر سے کلام کے ضمن میں بیان فر مایا ہے تا کہ اس سے بشریت بالخصو ص جوان و نو جوان نسل درس لے ۔ اگر بشریت مولا کے اس فرمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5ص  0 33

۴۱

سے درس لے تو دنیا میں عظیم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے چو نکہ ہماری عمر محدود ہے اور ہم میں تمام امور کو احاطہ کرنے کی قدرت و توانا ئی نہیں ہے ، لہذا اسے بہترین اور باعظمت امور میں صرف کریں اور بے ارزش امور میں وقت صرف کرنے سے پر ہیز کریں کہ جو عمر کے ضیاں و تبا ہی وبربادی کے علاوہ کچہ نہیں ۔عمر سے اچہے طریقہ سے استفادہ کرنے اور اسے مہم و با ارزش امور پر صرف کرنے کے لئے ہماری فکر جزئی مسائل کی طرف مشغول نہیں ہو نی چاہئیے تا کہ ہم بہترین اہداف ومقاصد کو حاصل کرسکیں ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' انّ رأ یک لا یتّسع بکلّ شیئٍ فضرّ عنه للمهمّ ''(1)

تمہاری فکر تمام امور کو احاطہ کرنے کی وسعت نہیں رکہتی لہذا اسے مہم امور کے لئے استعمال کرو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ شرح غرر الحکم :ج2ص  606

۴۲

ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

مہم ترین و بہترین ہدف کے انتخاب کے لئے اس کاانجام و نتیجہ کا ملاً واضح و معلوم ہو لہذا ایسے کام اور پروگرام ترتیب دیں کہ جس کے انجام کو ہم اپنا ہدف قرار دیں اور اس کے بارے میں ہمیں مکمل شناخت ہو اور تحقیق و بررسی کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے لئے روشن ہو ۔

اس کے نتیجہ کو خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے حاصل ہونے والی فر ما ئشات سے موازنہ کے بعد اپنی ہمت کو ہدف تک پہنچنے کے لئے تقویت دیں اور سستی و غفلت اور فراموشی کو ترک کر دیں ۔

پیغمبر اکرم(ص) نے فر ما یا :

'' اذا هممت بامرٍ فتدبّر عاقبته فان کان خیراً فَاَشرع الیه و ان کان شرّاً فانته عنه ''(1)

جب کسی کام کو کرنے کے لئے ہمت کرو تو اس کے انجام کے بارے میں تدبر کرو اگر وہ کام اچہا اور پسندیدہ ہو تو اس کو انجام دو اور اگر وہ برا اوربرا ہو تو  اسے انجام دینے سے باز رہو ۔جب آ پ کسی کام کو اپنا ہدف قرار دیں تو اس کے انجام کے بارے میں بررسی و تحلیل کریں اور اس کے آئندہ کو اچہی طرح تشخیص دینے کے بعد اس کام کو شروع کریں پہر اسے آج کل انجام دینے کی بجائے فر صت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں کہ جب تک آپ کے لئے کوئی مانع درپیش نہ آئے یہ وہ راستہ ہے کہ جس پر بزرگان چلے آپ بہی ان کے نقش قدم ہر چلتے ہوئے اس مسیر کو طے کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحار الانوار:ج 72ص  342

۴۳

انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

جس طرح ہم نے کہا کہ انسان کا زندگی میں کوئی ہدف ہونا چاہیئے لہذا اسے عا لی ترین اہداف کی شناخت ہو ،تا کہ ان میں سے بہترین کا انتخاب کرے خلقت انسان کے سر و راز سے آشنائی ہماری راہنمائی کر سکتی ہے اور ہمارے لئے حقیقت کو آ شکار کر سکتی ہے ۔خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا ہے : '' وما خلقت الجنّ والا نس الاَّ ما لیعبدون ''   (1) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔تفسیر نو ر الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں امام صادق سے ایک روایت کو ذکر کیا گیا ہے :'' قال خرج الحسین بن علیّ  علیٰ اصحابه- فقال : ایّها النّاس انّ اللّٰه عزّ وجلّ ذکره ، ماخلق العباد الاَّ لیعرفوه، فاذا عر فوه عبدوه ، فقال له رجل یابن رسول اللّٰه بابی انت و امّی فما معرفت اللّٰه - قال: معرفة اهل کلّ زمان امامهم الّذی تجب علیهم طاعته ''(2)

امام صادق نے فرمایا : کہ امام حسین  اپنے اصحاب پر وارد ہوئے اور فرمایا : اے لوگو ! خدا نے بندوں کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اسے پہچانیں جب وہ اسے پہچان لیں تو پہر اس کی عبادت کریں اور  پہر اس کی عبادت کے ذریعہ غیر کی بندگی سے بے نیاز ہوجائیں ۔ ایک شخص نے آنحضرت سے عرض کی اے فرزند پیغمبر میرے ماں  ، باپ آپ پر قربان ہوں ،معرفت خدا سے کیا مراد ہے ؟ امام حسین  نے فرمایا : معرفت خدا سے یہ مراد ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے وقت کے امام کو پہچانیں کہ جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ الذا ریات آ یت: 56

[2] ۔ تفسیر نو ر الثقلین:ج 5ص 122

۴۴

اس یہ آیہ شریفہ اور وایت مذکورہ سے واضح و روشن ہو جا تا ہے کہ جنّ وا نس کی خلقت کا مقصد مقام عبودبیت تک پہنچنا ہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب معرفت خدا کے ہمراہ ہو جو خدا کی معرفت و شناخت رکہتا ہو وہ امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مقام سے بہی آشنائی رکہے ۔

پس آج کے زمانے میں ہمارا یہ وظیفہ ہے کہ ہمیں امام زمان  ارواحنا لہ فداہ کی معرفت و پہچان ہو اور امام کی خدمت کو اپنی زندگی کا ہدف و مقصد قرار دیں ۔ کیو نکہ امام صادق اپنے زرین کلام میں اس زمانے کے تمام شیعوں اور مقام ولایت کے پروانوں کا وظیفہ یوں بیان فرما تے ہیں :

'' لو ادرکته لخدمته ایّام حیاتی ''(1)

اگرمیں  انہیں( امام زمانہ)کو درک کر لوں تو ساری  زندگی ان کی خدمت کروں۔  

گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہو ہم مقام عبودیت تک پہنچنے اور معارف دینی کو کسب  کرنے کے بعد امام ز مان ارواحنا فداہ کی بہتر خدمت کریں تا کہ اس وجود مقدس کے لطف و کرم سے بہرہ مند ہوں اور اس بزرگوار کے خدمت گاروں میں شمار ہوں ۔

جی ہاں ، ہر زمانے میں دین ، امام اور حجت زمان کی خدمت ان لوگوں کا شیوہ رہا ہے کہ جنہوں نے مقام عبودیت کو پالیا ، سلمان ، ابو ذر ، قنبرو مقداد اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے تمام خاص اصحاب مقام بندگی اور پرور دگار کی عبودیت کے بعد پوری زندگی اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میںکوشاں رہے اور کامیاب ہو گئے ۔

یہ ان لوگوںکی راہ ہے کہ جو ہدف خلقت کے ہدف کو پہچان گئے آپ بہی ان کے راستے پر چلیں تا کہ کامیاب ہو جائیں ۔

در زندگی اگر ہدف نہ داری     از گنج جہان بہ جز خزف نداری

اگرتمہا ر ا  زندگی میں کوئی ہدف و مقصد نہ ہو تو تمہیں  دنیا کے گنج و خزانے سے اینٹ کے علاوہ کچہ حا صل نہیں ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [3] ۔ بحار الانوار :ج51ص  148

۴۵

مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

1 ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

بہت سے لوگ علوم و معارف میں بلند مقام اور پیشرفت کے خواہاں ہو تے ہیں تا کہ وہ بہی بزرگ افراد کی طرح اپنی ملت کیتقدیر کے لئے مؤثر کردار ادا کر سکیں اور لوگوں کو معنویت کا راستہ دکہا ئیں اور ان کی راہنا ئی کریں ۔

یہ ایک ایسی چاہت ہے کہ جو بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے لیکن وہ عظیم لوگوں کی کامیابی کے راز سے مطلع نہیں ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے صفحات کو اپنے نام سے روشن کیا ۔وہ اس آرزو سے نا امید ہو کر اسے صرف خام خیالی سمجہتے ہیں ۔ مکتب اہل بیت علیہم السلام سےسیکہے ہوئے انسان سازی کے دروس کو مد نظر رکہتے ہوئے اور ان بزرگان کی حیات بخش راہنما ئی (جو ہمارے قلوب کو منور کر تی ہے ، اس سے یہ حقیقت آشکار ہو تی ہے کہ عالی مقاصد و اہداف اور بزرگ آرزو ایسے امور میں سے ہے کہ خاندان وحی و عصمت و طہارت نے اپنے پیرو کاروں اور محبّوں کو اس کی تلقین کی اور انہیں یأس و ناامیدی سے نکا لا ۔

ان عظیم ہستیوں نے نہ صرف اپنی گفتار و فرامین بلکہ اپنی دعاؤں میں بھی ہمیں امید و آرزو کا درس دیا ، لہذا انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ جمعہ کے روز یہ دعا پڑھو :'' الّلهمّ اجعلنا من اقرب من تقرّب الیک '' (1) پرور دگار ا ہمیں انکے نزدیک قرار دے کہ جنہوں نے تم سے تقرب پالیا ۔ ایسی دعا ئیں ہر اس شخص کے لئے امید کا درس ہے کہ جو اپنے میں حقارت کا احساس کر تے ہیں اور یہ دعا ئیں مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکا روں کے دلوں میں عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے امید کی شمع ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار :ج90ص  339

۴۶

ایک نکتہ کا تذکر

اپنے اہداف کے مخالف اور نا امید افراد سے  ہمنشینی نہ کریں ان کے ساتہ بیٹہنے سے یأس وناامیدی ایجاد ہوتی ہے جو  اور آپ کے ارادہ و ہدف تک پہنچنے پر اثر انداز ہو گی ، اگر آپ ایسے افراد کے ساتہ بیٹہنے پر مجبور ہوں تو ان کو اپنے ارادہ  و ہدف سے آگاہ نہ کریں اور یہ راز اپنے دل میں مخفی رکہیں ۔

بعض لوگ دوسروں کا تمسخر و مذاق اڑانے سے ان کے مستقبل کو بدل دیتے ہیں اور وہ اپنی طرح  انہیں بہی عالی و عظیم اہداف تک پہنچنے سے مایوس کر دیتے ہیں اور ان کی کامیابی کی راہ میں روڑہے  اٹکاتے ہیں ۔ ایسے افراد آپ کی ترقی کی راہ میں رکا وٹ ہیں وہ چند کلمات کے ذریعہ آپ کو آپ کے اہداف و کا میابی سے منحرف کر سکتے ہیں ایسی صورت میں آپ کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو پہچانیں اور ان کے زہر آلود کلمات سے دل سرد اور مسموم نہ ہوں ۔

۴۷

2 ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

انسان کو بلند و عالی مرتبہ مقا مات کے حصول سے روکنے میں شیطان کی سازشیں بہی اثر انداز ہوتی ہیں ۔ شیطان مختلف قسم کے وسواس ڈالتا ہے کہ کیا تمام مشکلات کے با وجود اس راستے پر چلنا ممکن ہے ؟ کیا اپنے ہدف کو اس کی پوری عظمت کے ساتہ مکمل کر سکتے ہو ؟ اور کیا ؟

کبہی شیطان نہ صرف فعالیت کو شروع کرنے سے پہلے وسوسوں اور گمراہ کنندہ خیالات سے یأس وناامید ی کو ایجاد کر تا ہے بلکہ کبہی آدہے راستے میں راہ سے گمراہ کر دیتا ہے ۔

عظیم مقاصد و اہداف کے طالب توجہ کریں کہ انسان اس طرح سے خلق ہوا ہے کہ اگر کچہ   مدت تک سختیوںکو برداشت کرے تو اس کی مشکلات و سختیاں ،سہل و راحت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ اگر ابتداء میں  کوئی کام مشکل بہی ہو تو تکرار کے ذریعہ اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خداوندمتعال عظیم اہداف رکہنے والوں کی مشکلات کو آسان فرما تا ہے اور اہل بیت عصمت و طہارت  کی مدد ودستگیری فر ما کر ان کی مشکلا ت کو حل فر ماتا ہے۔ خداوند کریم بہت سے سنگین ا و ر بڑے مسائل کو بر طرف کردیتا ہے ۔

حقیقت بہی ان ہی مسائل میں سے ایک ہے کیو نکہ حق تلخ و سنگین ہو تاہے  بالخصوص ایسے افراد کے لئے کہ جو گناہوں کی آلودگی ہیں غرق اور نفسانی  خواہشات  اور  شیطانی  وسوسوں کے تابع ہوں  ، ایسے افراد کے لئے حق بہت سنگین ہو تا ہے کیو نکہ یہ ان کی چاہت سے ساز گار نہیں ہو تا لیکن حقیقت کے طلبگار اور حقیقت تک  پہنچنے کی خواہش رکہنے والوں کے لئے حق سنگین نہیں ہو تا  ۔

۴۸

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' والحق کلّه ثقیل و قد یخففه اللّٰه علیٰ اقوام طلبوه العاقبة ''(1)

تمام حق سنگین ہیں ، لیکن خدا عاقبت کی جستجو کرنے والوں کے لئے اسے سبک کر دیتا ہے۔

ان فرامین سے یہ معلوم ہو تاہے کہ طلب و جستجو مشکلات کی آسانی میں بہت مؤثر ہے بڑے اہداف کو مشکل اور ان تک دسترس کو محال سمجہنے والے ایسے افراد ہیں کہ جو آرزو و طلب کو پانے کی ہمت نہیں رکہتے ۔

جنہوں نے صمیم قلب کے ساتہ اپنی چاہت و مقصد کو پانے کی کوشش کی ، وہ اپنے مقصد تک   پہنچ گئے ۔ اگر چہ ان کا مقصد و چاہت بہت مشکل تہا ، لیکن کیو نکہ وہ مکمل طور پر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے بالآخر ان کی سختیاں اور مشکلات سہو لت و آسانی میں تبدیل ہو گئیں کہ و ہ خود بہی یہ تصور نہیں کر سکتے تہے کہ انہوں نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے ۔

یقین کریں کہ کسی چیز کی طلب کے لئے جستجو کرنا اور اس کے حصو ل کی سر توڑ کو شش سے اس کے حصول کے بعد مسرت و راحت ہو تی ہے ۔

لہذا کامیابی اور عظیم مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ، اس کے حصول کی جستجو کریں تا کہ اس کے حصول کا زمینہ فراہم ہو سکے ۔ گوشہ نشینی اور ہاتہ پر ہاتہ دہرے ، خیا لات میں کہوئے رہنے سے انسان اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ لوگ اپنی دلی خوا ہشات  اور مقاصد حاصل  کر سکتے ہیں جو ان کے حصو ل کی کوشش کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔  شرح غرر الحکم :ج5ص  05 3

۴۹

اگرکوئی اپنے مقصد کو پانے کی جستجو و طلب کرے تو ایسا نہیں کہ اسے اس سے کچہ بہی حاصل نہ ہو، اگر وہ تمام مقصد کو نہ پاسکے تو اسے کسی حد تک ضرور حا صل ہو گا ۔ یہ بذات خود ایک اہم نتیجہ ہے کہ جو طلب میں پو شیدہ ہے ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من طلب شیئاً ناله او بعضه ''(1)

اگر کوئی کسی چیز کی طلب کرے تو وہ اس تمام چیز یا ا س کی کچہ مقدار کو حاصل کرے گا ۔

 اس بناء پر بڑے اور با ارزش ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کی تلاش و جستجو کریں اس صورت میں آپ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے یااپنے ہدف کی کچہ مقدار کو پالیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5ص  05 2

۵۰

3 ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

مکتب اہل بیت علیہم السلام میں کمال کے عالی مراتب و مراحل تک پہنچنے کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے اسی وجہ سے آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کے بہت سے ہدایت کنندہ کلمات میں اس بارے میں وارد ہواہے اگر انسان ان پر عمل کرے تو اس کا مستقبل روشن ہو گا ۔ ان فرمائشات و ارشادات میں سے ایک بزرگ ہستیوں کے ہمرا ہ ان کی خدمت میں رہنا ہے کہ جو عظیم اہداف کو پانے میں کامیاب ہو گئے ۔ امام صادق(ع) سے ایک شعر کے ضمن میں نقل ہوا ہے :

'' عَلَیکَ باَهل العلیٰ ''(1)

تم پر لازم ہے کہ تم اعلیٰ مرتبہ شخصیات کے ساتہ رہو ۔

کیونکہ ایسے افراد کو دیکہنا ،ان سے ہمنشینی ان کی صحبت اور ان کی محافل میں بیٹہنا ، انسان کے افکار و رفتار پر اثر انداز ہو تا ہے اور یہ انسان کے ارادہ کو قوی بنا کر ا سے بلند اہداف کی راہ دکہا تا ہے ۔ایسے افراد کی ہمت ، ضعیف و کمزور ارادہ کے مالک افراد کی ہمت کو بلند کر تا ہے ان کا عالی مقام بے ہدف افراد کو بیدار کر تا ہے ۔

جی ہاں ، آپ ان بزرگ ہستیوں کے محضر مقدس میں با ارزش ہدف سے آ شنا ہوں گے اور آپ   میں ان اہداف تک پہنچنے کا اشتیاق بڑے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔  بحار الانوار:ج 4ص7  24

۵۱

4 ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

جو بلند اہداف کو پانا چاہتا ہے وہ سستی و کاہلی کو چہوڑ دے اور نفسانی خوا ہشات سے مردانہ وار مبارزہ کرے ۔

حضرت امیر المو منین  فر ماتے ہیں :

'' من احبّ نیل الدرجات العلیٰ فلیغلب الهویٰ ''

جو بلند درجات تک پہنچنے کو دوست رکہتا ہے وہ اپنے ہواء نفس پر غالب آئے 

یہ ملکوتی فرمان صاحب ولایت ملک و ملکوت حضرت امیر المو منین  کی زبان سے صادر ہوا ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ جو بلند اہداف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور جو بلند دینی و معنوی مقاما ت کے لئے کوشاںہیں ۔

یہ آسمانی فرمان تمام ا نسانوں بالخصوص نو جوانوں  اور جوانوں کے لئے بہت بڑا پیغام ہے کہ جو روشن مستقبل کی آرزو رکہتے ہیں

۵۲

5 ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت  سے توسل

جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے کہ انسان کو ہر نیک اور پسندیدہ کام کو انجام دینے کے لئے  تین چیزوں کی احتیاج ہوتی ہے ۔

1 ۔ارادہ

2 ۔ مورد نظر ہدف کوانجام دینے کی قدرت

3 ۔ خدا وند متعال کی جانب سے توفیق کہ جو ا س کی دستگیری فر مائے

ان تین موارد میں سے اگرکسی میں بہی ضعف ہو تو کام کو انجام دینے میں پیشرفت نہیں ہو گی اور  کام متوقف ہو جائے گا ۔

ان تین شرائط کے لے اور ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خاندا ن وحی کو وسیلہ قرار دیں ہم زیارت امیرالمومنین (ع)  میں پڑہتے ہیں :

'' بک اتوسّل الی اللّٰه فی بلوغ مقصودی ''(1)

اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خدا کی طرف آپ کو وسیلہ قرار دیتا ہوں ۔

 نہ صرف کام کی ابتداء اور مذکورہ شرائط کے حصول کے لئے بلکہ ہدف و مقصد کے حصول تک متوسل رہیں اور جانشیناں خدا ور امیران کائنات کو فیوضات الٰہی اور اہداف تک پہنچنے کے لئے واسطہ قرار دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار:ج 100ص 332

۵۳

نتیجۂ بحث

بہترین و عالی ترین ہدف کو پہچانیں اور اس کا انتخاب کریں پختہ و مصمم ارادے سے ہدف تک پہنچنے کی جستجو کریں ۔

بے ہمت افراد سے پر ہیز کریں اور بلند اہداف رکہنے والے افراد سے مصاحبت و ہمنشینی رکہیں تاکہ اس ذریعہ سے آپ کا عالی و با ارزش ہدف مشخص ہو سکے جب آپ حقیقی و واقعی طور پر بہترین ہدف کے حصول کی سعی کر یں گے تو خداوند مہربان آپ کے لئے سختیوں اور مشکلات کو آسان فر مائے گا ۔

ہوشیار رہیں کہ یہ رنگا رنگ دنیا آپ کو آپ کے عالی انسا نی ہدف سے دور نہ کردے اور آپ سراب کو آب نہ سمجہ بیٹہیں ۔

خلقت انسان کا ہدف خدا وند کریم کی عبادت و بندگی اور مقام عبودیت تک پہنچناہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب مقام ولایت کی شناخت ہو اور کسب معارف الٰہی سے مستفید ہو ں کہ جو تقرب خداوند کانتیجہ ہے ۔

یقین رکہیں کہ مقام عبودیت اور معارف کو کسب کرنے کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے حیات بخش مکتب اور بالا خص امام زمان  کی خدمت کریں ۔ یہ تقرب خداوند کی بہترین راہ ہے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس راہ کو اپنا ہدف قرار دیں اور اس تک پہنچنے کی سعی و کوشش کریں ۔

تا رشتہ زندگی بہ کف می باشد               اقبال تو در برخ شرف می باشد

عمر تو بود صدف در این بحر وجود درّ صدف عمر ، ہدف می باشد

جب تک انسان کا زندگی سے رشتہ و ناطہ رہے تمہا ری عزت ، شرف کی بلندیوں کو چہوتی رہے ۔ تمہاری عمر وجود کے اس سمندر میں ایک صدف کی طرح ہو اور عمر کا گوہر صدف تمہارا ہدف رہے ۔

۵۴

چوتھاباب

بلند  ہمت  اورمستحکم  ارادہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' ما رفع امرئً کهمّته ولا وضعه کشهوته ''

ہمت سے بڑہ کر کوئی چیز انسان کو سر بلند نہیں کر تی اور شہوت سے بڑہ کر کوئی چیز پست نہیں کرتی  ۔

    ارادہ کی اہمیت

    ارادہ سے پہلے اخلاص

    اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

    بلند حوصلہ رکہیں

    اپنے ارادہ پر عمل کریں

    قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

    ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

    اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

    ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

   1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

   2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

   3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں :

    نتیجہ ٔبحث

۵۵

ارادہ  کی  اہمیت

انسان اپنے نفس کو پہچا نے اور اس کی ذات میں خدا وند مہربان نے جو قوت و طاقت و توا نائی ودیعت کی ہے ، اس سے آشنا ہو اور آہستہ آہستہ انہیں قوت و طاقت کے مرحلہ سے فعلیت تک  پہنچائے انہی مہم قوت و طاقت میں سے ایک قوة ارادہ ہے ۔ اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور اسے تقویت دے تو اس با عظمت قوت کے ذریعہ اپنی روحا نی و جسما نی اور معاشرے کی مشکلات کو   حل کرسکتاہے ۔

جو انسان اپنے نفس کو نا پاکیوں سے پاک کرلے تو اس کا ارادہ بہی پاک ہو جا تا ہے اور خدا کے پسندید ہ کاموں میں مد د گار ثابت ہو تاہے ۔ پس اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور پختہ ارادے کا مالک ہو تو وہ اسے احیاء دین کے راستے اور انسا نوں کو اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب اور لوگوں کی خدمت میں استعمال کر سکتاہے ۔

تاریخ انسانیت پر مختصر سی نگاہ میں آپ ملاحظہ کریں گے کہ دنیا کے نامور لوگ بلند ہمت کے مالک تہے ۔ جو روحانی ضعف ،کم ہمت یا احساس کمتری میں مبتلا ہوں وہ کبہی بہی عظیم اہداف تک نہیں پہنچ سکتے ۔

پس وہ احساس کمتری کو چہوڑ کر رو حانی ضعف  سے نجات حاصل کریں  اپنے ارادہ کو قوی کریں اور یقین رکہیں کہ جس خدا نے بزرگان دین کو توفیق عطا کی وہ آپ کو بہی کامیابی و کامرانی تک پہنچاسکتا ہے ۔

۵۶

ارادہ سے پہلے اخلاص

کسی بہی پروگرام ا ور کام کو انجام دینے سے پہلے اس کام کی طرف متحرک کرنے وا لی قوت کو پہچا ننا ضروری ہے کیا آپ کو کوئی رحمانی قوت مورد نظر ہدف کی طرف دعوت دیتی ہے یا یہ انگیزہ کوئی شیطانی محرک  ہے ؟ یا کوئی نفسانی عامل آپ کو آپ کے ہدف کی طرف کہینچتا ہے ؟

تحریک نفس اور شیطانی وسوسہ کے شکار نہ ہونے کے لئے کب ھ ی ب ھ ی آپ کے عمل میں یہ دو محرک نہیں ہونے چاہئیں ۔ ارادہ سے پہلے اپنے دل سے تمام وسوسے اور غیر رحمانی تحریکات کو نکال دیں ۔ پ ھ ر رضائے الٰہی کے لئے مورد نظر پروگرام کا ارادہ  کریں ۔حضرت امام صادق (ع) فرما تے ہیں : '' اذا اردت الحجّ فجرّد للّٰه من قبل عزمک من کلّ شاغلٍ وحجاب کلّ حاجب ''(1)

جب بہی حج پر جانے کا ارادہ کرو تو ارادہ کرنے سے پہلے اپنے دل سے ہر اس چیز کو نکال دو کہ جو تمہیں اپنی طرف مشغول کرے اورجو تمہارے اور خدا کے در میان حائل ہو ۔

اگر چہ یہ فرمان حج کے بارے میں صادر ہوا ہے لیکن اس میں عظیم مقصد و ہدف تک پہنچنے کے خواہاں ہر شخص کے لئے ایک کلی راہنمائی ہے ۔

ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنے دل کو دنیا وی اغراض سے پاک کر کے فقط خداکی رضا  کو  مد نظر رکہیں ۔ پہر اپنے ارادے کی ابتداء کریں اور اپنے ہدف کے لئے عملی اقدام کر یں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحا ر الانوار:ج 99ص  124

۵۷

اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

ہمارے ذہن میں موجود خیالا ت ہماری زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں نہ کہ ہم جسے زبان پر لائیں ، ہمارے افکار و اعتقادات اور دل کی عمیق آرزوئیں  ہماری زندگی میں تحولات ایجاد کر تی ہیں نہ کہ جن چیزوں پر ہمارا قلبی اعتقاد نہیں ۔

بہت سے انسان اپنے لئے کسی ہدف کا انتخاب کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کا دم بہر تے ہیں ۔ لیکن اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتے ، لہذا وہ کبہی بہی اسے حا صل نہیں ہو تا ۔ ان کے مقابل کچہ ایسے افراد بہی ہوتے ہیں جو وقت گزر نے کے ساتہ ساتہ اپنے ہدف تک پہنچ جا تے ہیں  اور ان کا قیل و قال کہنا واقعیت پیدا کرتا ہے اور ان کی دیر ینہ آرزو پوری ہو جاتی ہے ۔

کیوں کچہ لوگ اس طرح ہیں اور کچہ اپنی پوری زندگی اپنی آرزو وخوا ہش کے پوارا ہونے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہو تی ؟

حا لا نکہ  ہر انسان کو ارادہ  جیسی نعمت حاصل ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں حتی کہ جو افرادخود کو قوة ارادہ سے عاری سمجہتے اور گمان کر تے ہیں کہ ان کے ارادہ  کی قوت ختمہو چکی ہے ، ان میں بہی  ارادہ  کی قدرت ہو تی ہے

۵۸

مثال کے طور پر منشیات کے عادی افراد یہ خیال کر تے ہیں کہ منشیات کے استعمال سے ان کی قوت ارادہ ختم ہو گئی ہے اور وہ کسی چیزکا ارادہ  کرنے کی قدرت کو کہو چکے ہیں ۔ لیکن اس کے با وجود جب وہ نشہ آور چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں تو ان کا ارادہ قوی و پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بہی صورت میں نشہ حاصل کریں گے ۔

اسی طرح اگر کسی تن پرور شخص کو قید کیا جائے اور قید خانے میں اس سے مشقت لی جا جائے تو وہ زندان سے فرار کرنے کے لئے ہر مشکل اور خطر ناک کام کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گا ۔

اس بناء پر معلوم ہو اکہ ایسے افراد بہی  نعمت ارادہ کے مالک ہیں ، لیکن ان کا ارادہ کوئی سمت نہیں رکہتا ۔ وہ بہی اپنے ارادے کو سمت دیں اور اس کی سیدہے راستے کی طرف  ہدا یت کریں اور ان سے صحیح راستے میں ان سے استفادہ کریں نہ کہ اپنے ارادہ کو منشیات کے حصول یا کام سے فرار کے لئے استعمال کریں پس جو اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیتا ہے وہ اپنی ترقی کے لئے  اسباب فراہم کر تا ہے ۔

۵۹

بلند حوصلہ رکھیں

اگر اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنا چاہو تو معنویت کی وسیع فضا میں پرواز کرو ۔ بلند حوصلے اور مردانہ ہمت کے ساتہ عالم معنی کی فضا میں سیر کرو ۔ جس طرح پرندے اپنے بال و پر کے ذریعہ پرواز کر تے ہیں ، اسی طرح بزرگ شخصیات اپنی ہمت و ارادے کے ذریعہ عالم معنی کے نورانی آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے مادی دنیا سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ بزرگ   اس واقعیت کو ایک چہوٹی مگر پر معنی مثال کے ذریعہ یوں بیان کرتے   ہیں :

'' المرء یطیر بهمّته ''(1) انسان اپنی ہمت کے ذریعہ پرواز کر تا ہے۔

انسان کی ہمت جتنی بلند ہو وہ معنوی فضا میں اتنا ہی اوج پر پرواز کر تا ہے اور اگر عالی ہمت کا مالک نہ ہو تو یوں پرواز نہیں کر سکتا ہے ۔

لہذا اگر انسان کا ہدف تو بڑا ہو لیکن اس ہدف تک پہنچنے کی ہمت نہ ہو تو وہ کبہی بہی اپنے ہدفتک نہیں  پہنچ سکتا ۔ انسان عظیم ہدف کے علاوہ پختہ ارادہ ، بلند حوصلہ اور ہمت کا بہی مالک ہو ۔

 اولیاء خدا مقاما ت عالیہ تک پہنچنے کے لئے قوی ارادے اور بلند ہمت سے آراستہ تہے اور انہوں نے ہمیشہ معنوی مسیر میں استقامت سے کام لیا اورضعف و سستی سے  پر ہیز کیا ، عظیم مقصد ، مردا نہ ہمت ، بلند حوصلہ اور اعلیٰ ہدف ان بزرگون کی صفات تہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ، بحار الانوار:ج 18ص  0 8 3

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259