کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155898 / ڈاؤنلوڈ: 5061
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

یقین کے آثار

۱۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

آپ اپنے دل کوپند و نصیحت کے ذریعہ حیات بخش سکتے ہیں اور وعظ کے ذریعہ اس میں تازہ روح پہونک سکتے ہیں۔جس طرح ایمان کامل اور یقین کو مضبوط و قوی کرسکتے ہیں  اسی طرح آپ مشکلات و موانع کے سامنے ایک پہاڑ کی مانند ڈٹ جائیںکیونکہ اگر یقین قوی و کامل صورت میں موجود ہو تو پہر وسوسہ اور تردد کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ۔پہر ضعف،سستی اور کاہلی ختم ہوجائیگی۔اسی وجہ سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے یقین کو قوی کریں حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:

''اَحی قَلبکَ باالمَو عظَة ------- وَ قَوّه بالیَقین''(۱)

وعظ و نصیحت کے ذریعہ اپنے دل کوحیات بخشو اور یقین کے ذریعہ اسے قوّت دو۔

گر عزم  تو در رہ حق، آہنین است

می دان بہ یقین کہ راہ آن یقین  است

اگر راہ حق میں تمہارا عزم و ارادہ پختہ ہو تو یقین جانیئے کہ اس کا راستہ صرف یقین ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۷۷ص۲۱۹

۲۲۱

جب انسان کے دل میں یقین پیدا ہوجائے تو دل محکم و استوار ہوجاتا ہے اور جب تک یقین قوی ہو تب تک شیطانی وسوسہ کے نفوذ کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ۔اسی وجہ سے اس میں اضطراب و وہم پیدا نہیں ہوگا،وہ مصائب و مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند قائم رہے گا۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں:''مَن قَویٰ یَقینه لَم یَرتَب'' ( ۱ ) جس کا یقین قوی ہو اس میں شک پیدا نہیں ہوتا۔

گر بہ صورت ملَکی یا بہ لطافت حوری

تا بہ معنی نرسی ،از ہمہ دلہا دوری

اگر فرشتہ صورت یا حور کی لطافت کے مالک ہی کیوںنہ ہو تو مگر جب تک اپنے ہدف اور مقصد تک نہیں پہنچو گے   تب تک تم سب کے دلوں سے دور رہو گے یعنی ان کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پاؤ گے ۔ہمیشہ اعتقادی مسائل یا دیگر مسائل میں شک وشبہہ اسی شخص  کے لئے پیدا ہوتا ہے کہ جسے قوی یقین حاصل نہ ہو۔جن میں یقین کمال کی حد تک نہ پہنچا ہو،اس میں شیطانی وسوسہ منفی اثرات مرتب کرتاہے۔لیکن جن کے دل میں یقین کی شمع روشن ہو وہ شیاطین کے شر اور ان کے وسوسہ کے سامنے فولاد کی مانند ثابت قدم رہتے ہیں۔امام باقر(ع) فرماتے ہیں:'' فَیَمرّالیَقین بالقَلب فَیَصیر کَاَنَّه زبر الحَدید '' ( ۲ ) جب دل میں یقین پیدا ہوجائے تو وہ اسے لوہے کے ٹکڑے کی مانند قوی و محکم کردیتا ہے۔دل کو محکم و مضبوط کرنے سے نہ صرف انسان کے دل میں اعتقادی مسائل کے بارے میں   شک و شبہہ پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ اسے قدرت عطا ہوتی ہیکہ وہ دوسروں کے ایمان و یقین میں بھی اضافہ کرے۔اب ہم شیعہ علم کے ایک ستون کے ایمان و یقین کی داستان رقم کرتے ہیں کہ جس نے دوسروں کے دلوں میں مسائل پر اعتقاد میں اضافہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غررالحکم:ج۵ص۲۳۰

[۲] ۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۱۸۵

۲۲۲

مجلس مباہلہ میں حاضری

شیعہ علماء نے بہت تکلیفیں اور زحمتیں  برداشت کرکے خدا کے دین کی پاسداری کی اور اسے انحراف سے بچالیا۔ہمارے بزرگان نے حریم ولایت کے دفاع اور شیعہ مذہب کو اثبات کرنے کے لئے کسی قسم کی کوشش ا ور قربانی سے دریغ نہیں کیا۔

اہل بیت عصمت و طہارت کے عالی اور با عظمت مقام پر اعتقاد و یقین کی بناء پر وہ مخالفین اور دشمنوں سے مباہلہ کے لئے بہی حاضر ہوئے، اس عمل سے انہوں نے ولایت کی راہ میں حائل کانٹوں کو اکہاڑا  اور دشمنوں کو نابود کردیا۔جلیل القدر عالم دین جناب محمد ابن احمد  کا مباہلہ ان فداکاریوں کا ایک نمونہ ہے۔انہوں نے دشمنوں کے لئے بہی شیعہ عقائد کی حقانیت کو ثابت کیا،وہ شیعوں کے بزرگ علماء میں سے ہیں اور بعض بزرگ شیعہ علماء جیسے شیخ مفید ،ان سے روایت نقل کرتے تہے۔انہوں نے شیعہ عقائد کے بارے میں بہت سی کتابیں لکہیںاور جناب قاسم ابن علائ کے بابرکت محضر سے استفادہ کیا۔

وہ بینائی کہوجانے کے بعد پڑہنے لکہنے کی نعمت سے محروم ہوجانے کے باوجود اپنے سینے میں محفوظ معلومات کو کاتب کے ذریعہ کاغذکی نظر کرتے،اس طرح سے انہوں نے مکتب تشیع کو بہت سی گرانبہا  اور انمول کتابیں فراہم کی۔وہ سیف الدولہ ہمدانی کے نزدیک اعلیٰ مقام رکہتے تہے۔ انہوں نے سیف الدولہ ہمدانی کے سامنے موصل کے قاضی سے مباہلہ کیا کہ جو جاہلانہ تعصب کی عینک  اتارنے کو تیار نہ تہا،مجلس مباہلہ برپا ہوئی اور مباہلہ کے اختتام کے بعد موصل کے قاضی کو اپنی سلامتی سے ہاتہ دہونے پڑے،وہ بخار میں مبتلا ہوگیا،اس نے مباہلہ میں جو ہاتہ بلند کیا تہا وہ بہی سیاہ ہوگیا اور اگلے روز ہلاک ہوگیا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ فوائدالرضویہ محدث قمی:۳۸۸

۲۲۳

بزرگ شیعہ عالم مرحوم محمد ابن احمدنے اپنے یقین کامل اوراعتقاد کی وجہ سے متعصب دشمن پر غلبہ پایا۔اس طرح انہوں نے اپنے اس عمل سے سب کے لئے شیعہ عقائد کی حقانیت کو مزید آشکار کیا اور ان کے دلوں میں یقین کو محکم کیا۔شیعہ تاریخ ایسے نمونوں سے بہری پڑی ہے کہ بزرگان دین نے اپنے یقین کامل اور اطمینان قلب کے ذریعہ دشمن کے ساتہ مقابلہ کیا اور دوسروں کے دلوں میں بہی یقین کا پیدا کیا۔

''میر فندرسکی ''ایسی ہی ایک اور مثال ہیں کہ جنہوں نے اپنے ایمان و یقین کامل کے ذریعہ دشمن کو محکوم و مغلوب کیا اور دوسروں کے دلوں میں یقین کا بیج بویا۔

اس واقعہ کو مرحوم نراقی کتاب'' الخزائن ''میں یوں رقم کرتے ہیں:

''میر فندرسکی''سیاحت کے ایام میں کفار کے ایک شہر میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے گفتگو کے لئے بیٹہ گئے،ایک دن ایک گروہ نے ان سے کہا کہ ہمارے عقائد کی حقانیت اور آپ کے عقائد کے بطلان کی ایک دلیل یہ بہی ہے کہ ہماری عبادت گاہیں دوہزار سال پہلے تعمیر ہوئی ہیں اور ابہی تک ان میں خرابی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔لیکن آپ کی اکثر مساجد سو سال سے زیادہ باقی نہیں رہتی اور خراب ہوجاتی ہیں چونکہ ہر چیز کی لقاء اور حفاظت،اس کی حقانیت کی دلیل ہے،پس ہمارا دین بر حق ہے اور آپ کا دین باطل ہے۔

'' میر فندرسکی '' نے اپنے یقین و اعتقاد کی بناء پر جواب دیا کہ آپ کی عبادت گاہوں کا باقی نہ رہنا اور ہماری مساجد کے خراب ہونے کی یہ وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کا راز یہ ہے کہ ہماری مساجد  میں صحیح عبادت انجام پاتی ہے اور مساجد میں خداوند بزرگ و برتر کا نام لیا جاتا ہے کہ وہ عمارت اسے تحمل کرنے طاقت نہ رکہنے کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہیں۔

۲۲۴

لیکن آپ کی عبادت گاہوں میں صحیح  اور حقیقی عبادت انجام نہیں  دی جاتی، بلکہ کبہی اس میں فاسد اعمال انجام دئیے جاتے ہیں ،لہٰذا ان میں کسی قسم کی خرابی رونما نہیں ہوتی۔اگر ہمارے پروردگار کی عبادت تمہاری عبادت گاہوں میں انجام دی جائے تو وہ اسے بہی متحمل نہیں کر پائیںگی اور خراب ہوجائیںگی۔

انہوں نے کہا یہ بہت آسان کام ہے ،آپ ہماری عبادت گاہوں میں جاکر وہاں اپنی عبادت کریں  تاکہ ہماری حقانیت اور آپ کابطلان ثابت ہوجائے،سید نے قبول کیا اور وضو کرنے کے بعد خدا پر توکل اور اہل بیت عصمت و طہارت سے توسل کیا،پہر وہ ان کی بہت بڑی عبادت گاہ میں داخل ہوئے کہ جو بہت مضبوط بنی ہوئی تہی اور دو ہزار سال پرانی تہی۔

لوگوں کی بہت بری تعداداس نظارہ کو دیکہنے کے لئے بیٹہی ہوئی تہی ،سید نے عبادتگاہ میں داخل ہونے کے بعد اذان و اقامت کہی اور نماز کی نیت سے بلند آواز سے (اللہ اکبر) کہا اور عبادتگاہ سے باہر کی طرف بہاگ آئے، اچانک اس عبادتگاہ کی چہت گر گئی اور دیواریں بہی خراب ہوگئی ۔اس کرامت کی وجہ سے بہت سے کفار دین اسلام سے مشرف ہوئے۔(۲)

''میر فندرسکی'' نے اپنے اعتقاد و یقین اور کامل ایمان کے ذریعہ اپنے دل کو محکم و مضبوط کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۲] ۔ جامع الدرر:ج۲ص۳۷۰، تذکرةالقبور:۶۰

۲۲۵

۲۔ یقین  اعمال  کی  اہمیت  میں  اضافہ  کا  ذریعہ

اگر کیمیا اور اکسیر کو کسی کم قیمت مادہ کے ساتہ بہی بنائیں تو یہ اس کو با ارزش اور قیمتی و دہات میں تبدیل کردیتا ہے اور اس کی قیمت کئی گنا بڑہ جاتی ہے، یقین بہی اسی طرح ہے،کیونکہ یقین اعمال کو   ارزش عطا کرتا ہے۔اگر قلیل عمل کو یقین کے ساتہ انجام دیا جائے تو خدا کے نزدیک اس کی ارزش شک و شبہ  میں انجام دیئے گئے بہت زیادہ عمل سے زیادہ ہے۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

''انَّ العَمَلَ الدَّائمَ القَلیلَ عَلی الیَقین اَفضَل عندَالله من العَمَل الکَثیر عَلی غَیر الیَقین''(۱)

خدا کے نزدیک یقین کے ساتہ انجام دیا گیا کم اور دائمی عمل یقین کے بغیر انجام دیے گئے زیادہ عمل سے  بہتر ہے۔

یہ فرمان واضح دلالت کرتا ہے کہ یقین اعمال وکردارکی اہمیت میں اضافہ کا باعث  ہے،یعنی یقین کے ساتہ انجام دیا گیاکم عمل،یقین کے بغیر انجام دیئے گئے زیادہ عمل سے افضل ہے۔اس بناء پر یقین اس کیمیاگری کے اس مادہ کے مانند ہے،کہ جو کم قیمت دہات کو سونے میں تبدیل کرتاہے۔ یقین بہی اسی طرح کیونکہ اس میں یہ قدرت ہے کہ یہ قلیل عمل کو یقین کے ساتہ انجام سے ارزش و قیمت عطا کرتا ہے۔

متوجہ رہیں کہ بہت سے موارد میں خدا کے نزدیک اہمیت رکہنے والے کم عمل کے ظاہراً بہی بہت سے آثار و اثرات ہوتے ہیں،اب ہم جو  واقعہ بیان کرنے لگے ہیں وہ اس حقیقت کا شاہد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ الکافی :ج۲ص۵۷

۲۲۶

مرحوم آیةاللہ العظمیٰ خوئی  یقین سے کہی جانے والی(بسم الله الرحمٰن الرحیم) کے بارے میں شیخ احمد (یہ استادالفقہاء مرحوم میرزاشیرازی کے خادم تہے)سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا کہ مرحوم میرزا کے ایک اور خادم بہی تہے جن کا نام شیخ محمد تہا کہ جو مرحوم میرزا کی وفات کے بعد لوگوں سے نہ ملتے اور گوشہ نشین ہوگئے تہے۔

ایک دن کوئی شخص شیخ محمد کے پاس گیا تہا اور اس نے دیکہا کہ وہ غروب آفتاب کے وقت اپنے چراغ میں پانی ڈال کر روشن کر رہے ہیں اور چراغ بہی مکمل طورپر روشن ہے۔وہ شخص بہت حیران ہوا اور اس کی علت پوچہی ؟شیخ محمد نے اس کے جواب میں کہا مرحوم میرزا کی وفات سے مجہے بہت صدمہہوا اور ان بزرگوار کی جدائی کے غم کی وجہ سے میں نے لوگوں کے ساتہ میل جول قطع کردیا اور اپناوقت گہر میں ہی بسر کرتا، میں بہت ہی غمزدہ تہا ۔ایک دن عرب طلّاب کی صورت کا ایک جوان میرے پاس آیا اور میرے ساتہ بہت پیار ،محبت اور انس سے پیش آیا وہ غروب تک میرے پاس رہا ،اس کی باتیں مجہے بہت پسند آئیں اور میرے دل کا کچہ بوجہ اور غم ہلکا ہوگیا،وہ چنددن تک میرے پاس آتا رہا اور میں اس سے مانوس ہوگیا تہا۔ایک دن وہ میرے ساتہ باتیں کررہا تہا کہ مجہے یاد آیا کہ آج رات میرے چراغ میں تیل نہیں ہے۔ اس وقت دکانیں غروب کے وقت بند ہوجاتی تہیں۔اسی وجہ سے میں یہ سوچ رہا تہا اگر میں ان سے اجازت لے کر تیل لینے کے لئے گہر سے نکلوں تو ان کی پر فیض باتوں سے محروم ہوجاؤں گا اور اگر تیل نہ خریدوں تو آج رات تاریکی میں بسر کرنی پڑے گی۔

وہ میری اس حالت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آج تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میری باتوں کو دلچسپی سے نہیں سن رہے؟میں نے کہا نہیں ایسی بات نہیں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔انہوں نے فرمایا نہیں تم میری باتوں سے نہیں سن رہے۔میں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے۔انہوں نے فرمایا بہت تعجب ہے کہ میں نے تمہارے لئے اتنی احادیث بیان کی اور(بسم الله الرحمن الرحیم) کی فضیلت بیان کی ،کیا تم ان سے اتنا بہی مستفید نہیں ہوئے کہ تم تیل کی خریداری سے بے نیاز ہوجاؤ؟میں نے کہا کہ مجہے یاد نہیں کہ آپ نے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائی ہو؟

۲۲۷

 انہوں نے فرمایا تم بہول گئے ہو میں نے بتایا تہا کہ( بسم الله الرحمن الرحیم) کے خواص و فوائد میں سے یہ ہے کہ اگر تم اسے کسی قصد سے کہو تو وہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔تم اپنے چراغ کو اس قصد کے ساتہ پانی سے بہردو کہ پانی تیل کی خاصیت رکہتاہو ،تم(بسم الله الرحمٰن الرحیم) کہو میں نے قبول کیا اور اٹہ کر اسی قصد سے اپنے چراغ کو پانی سے بہر دیا اور اس وقت کہا(بسم الله الرحمٰن الرحیم) پہر میں نے اسے جلایا تو وہ روشن ہوگیا۔اس وقت سے آج تک جب بہی یہ خالی ہوجائے تو اسے پانی سے بہرکر(بسم الله) پڑہتا ہوں تو چراغ روشن ہوجاتا ہے۔

مرحوم آیةاللہ العظمٰی خوئی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:تعجب یہ ہے کہ اس واقعہ کیعام ہوجانے کے بعد مرحوم شیخ محمد کے اس عمل میں ذرّہ برابر فرق نہ آیا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اعتقاد و یقین کے ساتہ ایک(بسم الله) پڑہی جائے تو اس قدر غیر معمولی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ،جو اسم اعظم کی معرفت رکہتے ہیں وہ بہی دوسرے لوگوں میں رائج اور متداول اسم سے ہی استفادہ کرتے ہیںلیکن جو چیز ان کے عمل کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ ان کا یقین ہے کہ جو تلفظ کئے جانے والے اسم کی تاثیر میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔

۲۲۸

۳۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

کبہی انسان محاسبہ کے ذریعہ اپنے ظاہر کو سنوار لیتا ہے،لیکن پس پردہ حقیقت و و اقعیت سے آگاہ نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے وہ تشویش و اضطراب میں مبتلا ہوتا ہے۔انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کیا اس کی گفتار و کردار مورد رضایت پروردگار ہے یا نہیں؟کیا اس کا باطن آلودگی سے پاک ہے؟یا وہ باطناً نفس اور شیطان کے ہاتہوں اسیر ہے اور خود اس سے بے خبر ہے؟اگر فرض کریں اس کا باطن آلودہ ہو تو وہ کس طرح اپنے باطن کو اس سنگین خطرے سے نجات دلا سکتا ہے؟کیا اس روحانی رنج و غم سے نجات پانے کا کوئی راستہ ہے؟

ان سوالات کے جواب میں کہتے ہیںمکتب عصمت و طہارت کے عقائد پر یقین سے باطنی و روحانی پاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے۔کیونکہ یقین باطن کی اصلاح کرتا ہے۔اتوار کی رات پڑہی جانے والی دعا میں آیا ہے:

'' اَلّٰلهمَّ اَصلح بالیَقین سَرَائرَنَا''(۱)

پروردگا ر ا!یقین کے ذریعہ ہمارے باطن کی اصلاح فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۹۰ص۲۸۶

۲۲۹

اہل یقین نیک سیرت اور پاک ذات کے مالک ہوتے ہیں وہ فساد اور تباہی سے دور ہوتے ہیں۔ جن کے باطن میں  بری صفات ہو وہ یقین پیدا کرنے سے اپنے باطن کی اصلاح کرسکتے ہیں۔

یقین نہ صرف آپ کے شعور اور ضمیر کو شیطان کے وسوسہ سے محفوظ رکہتا ہے بلکہ اگر آپ کے باطن میں کوئی فساد موجود ہو تو یہ اس کی بہی اصلاح کرتا ہے اور باطن کی برائیوں کو ختم کرتا ہے۔اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم(ص) ایک خطبہ کے ضمن میں فرماتے ہیں:

'' خَیر مَا القی فی القَلب الیَقین'' ( ۱ )

مؤمن کے دل میں القاء ہونے والی بہترین چیز یقین ہے۔

کیونکہ جیسا ہم نے کہا کہ یقین نہ صرف شعور اجاگر کرتا بلکہ یہ باطن کو اخلاقی و اعتقادی اشتباہات سے بہی پاک کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۲۱ص۲۱۱

۲۳۰

یقین کو متزلزل کرنے والے امور

۱۔ شک و شبہ

جو انسان شک وشبہ  میں مبتلا ہو وہ نہ صرف اپنی معنوی اہمیت کو کہو دیتا ہے،بلکہ جب تک وہ شک و شبہہ اور وسواس کا اسیر رہے تب تک وہ متوقف اور جمود کی حالت میں رہے گا۔وہ کبہی بہی معنوی ترقی نہیں کرسکتا۔وہ اپنی نجات کے لئے اپنے صفحہ دل سے شک و شبہ کو ہمیشہ کے لئے نکال دے۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' الفوا عَن نفوسکم الشّکوکَ '' (۱)

اپنے نفوس سے شکوک کو برطرف کریں۔

اس بناء پر روحانی و معنوی ارزشوں کو حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے اپنے دل سے شک اور وسوسہ کو نکال دیں اور ایمان و یقین کامل پیدا کرنے کے بعد اپنے عقائد کے استحکام کی کوشش کریں۔ایسانہ کرنے کی صورت میں صرف آپ کے اعتقادات ہی متزلزل نہیں ہوںگے بلکہ آخری زمانے کے آشوب میں بہی شریک ہوں گے۔ کیونکہ شک وشبہہ ایک طرف سے آشوب، پریشانیاں  اور آزمایشات الہٰی کا سامان فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف سے شک وشبہہمیں گرفتار افراد اس امتحان میں بہی ناکام ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۵۱ ص۱۴۷

۲۳۱

خاندان عصمت و طہارت کے فرامین و دستورات میں ہمیں اپنے دل سے شک و شبہہ کو برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یہ صرف آزمائشات الہٰی کو قبول کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ فتنہ اور آشوب کے اسباب کو ختم کرنے کے لئے بہی شک و شبہہ کو بر طرف کرنے کا امر کیا گیا ہے۔ کیونکہ شک وشبہہ اور بے مورد گمان فتنہ و فساد اور امشکلات کو ایجاد کرنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

امام سجاد (ع) مناجات مطیعین میں خدا سے عرض کرتے ہیں:

'' وَاَثبت الحَقَّ فی سَرَائرنَا فَانَّ الشّکوکَ وَ الظّنونَ لَوَاقع الفتَن '' ( ۱ )

پروردگارا ! میرے باطن میں حق کو ثابت فرما، کیونکہ شکوک و ظنون فتنہ ایجاد کرتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ صدر اسلام سے آج تک جن فساد و فتنہ نے مسلمان معاشرے کو گمراہ کیا ،ان میں سے اکثر ایسے افراد تہے کہ جو صراط مستقیم سے متعلق اپنے یقین کو کہوکر شک و شبہہ میں گرفتار ہوچکے تہے۔

حقیقت میں شک و شبہ گمراہ کر نے والے فتنوں اور بلائوں میں گرفتار ہونے کا وسیلہ ہے۔ شک وشبہ  سے انسان فتنوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کے علاوہ شکّاک اور متزلزل افراد کے لئے بہی  مشکلات اور فتنوں کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۹۴ ص۱۴۷

۲۳۲

۱۔ شک و شبہ

جو انسان شک وشبہ  میں مبتلا ہو وہ نہ صرف اپنی معنوی اہمیت کو کہو دیتا ہے،بلکہ جب تک وہ شک و شبہہ اور وسواس کا اسیر رہے تب تک وہ متوقف اور جمود کی حالت میں رہے گا۔وہ کبہی بہی معنوی ترقی نہیں کرسکتا۔وہ اپنی نجات کے لئے اپنے صفحہ دل سے شک و شبہ کو ہمیشہ کے لئے نکال دے۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' الفوا عَن نفوسکم الشّکوکَ '' (۱) اپنے نفوس سے شکوک کو برطرف کریں۔

اس بناء پر روحانی و معنوی ارزشوں کو حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے اپنے دل سے شک اور وسوسہ کو نکال دیں اور ایمان و یقین کامل پیدا کرنے کے بعد اپنے عقائد کے استحکام کی کوشش کریں۔ایسانہ کرنے کی صورت میں صرف آپ کے اعتقادات ہی متزلزل نہیں ہوںگے بلکہ آخری زمانے کے آشوب میں بہی شریک ہوں گے۔ کیونکہ شک وشبہہ ایک طرف سے آشوب، پریشانیاں  اور آزمایشات الہٰی کا سامان فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف سے شک وشبہہمیں گرفتار افراد اس امتحان میں بہی ناکام ہوتے ہیں۔

خاندان عصمت و طہارت کے فرامین و دستورات میں ہمیں اپنے دل سے شک و شبہہ کو برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یہ صرف آزمائشات الہٰی کو قبول کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ فتنہ اور آشوب کے اسباب کو ختم کرنے کے لئے بہی شک و شبہہ کو بر طرف کرنے کا امر کیا گیا ہے۔ کیونکہ شک وشبہہ اور بے مورد گمان فتنہ و فساد اور امشکلات کو ایجاد کرنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۵۱ ص۱۴۷

۲۳۳

امام سجاد (ع) مناجات مطیعین میں خدا سے عرض کرتے ہیں:

'' وَاَثبت الحَقَّ فی سَرَائرنَا فَانَّ الشّکوکَ وَ الظّنونَ لَوَاقع الفتَن '' ( ۱ )

پروردگارا ! میرے باطن میں حق کو ثابت فرما، کیونکہ شکوک و ظنون فتنہ ایجاد کرتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ صدر اسلام سے آج تک جن فساد و فتنہ نے مسلمان معاشرے کو گمراہ کیا ،ان میں سے اکثر ایسے افراد تہے کہ جو صراط مستقیم سے متعلق اپنے یقین کو کہوکر شک و شبہہ میں گرفتار ہوچکے تہے۔

حقیقت میں شک و شبہ گمراہ کر نے والے فتنوں اور بلائوں میں گرفتار ہونے کا وسیلہ ہے۔ شک وشبہ  سے انسان فتنوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کے علاوہ شکّاک اور متزلزل افراد کے لئے بہی  مشکلات اور فتنوں کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۹۴ ص۱۴۷

۲۳۴

۲۔ گناہ

گناہوں کا مرتکب ہونا،اہل بیت عصمت و طہارت  کے دستورات کے منافی ہے۔یہ شرم آور اور تباہی کا باعث ہے۔ممکن ہے کہ یہ مردان خدا کے بہترین حالات کو ختم کردے۔اس بناء پر گناہ کو انجام دینا نہ صرف معنوی حالات کو ایجاد کرنے کے لئے مانع ہے۔بلکہ یہ اس ایجاد شدہ حالات کو درہم برہم کرنے کی قدرت رکہتا ہے۔امام صادق (ع)فرماتے ہیں:

'' قَالَ سَمعت اَبَا عَبدالله - یَقول-اتَّقواالله ،وَ لَا یحسد بَعضکم بَعضاً-انَّ عیسیٰ بنَ مَریَمَ کَانَ من شَریعه السَّیح فی البلَاد،فَخَرَجَ فی بَعض سَیحه وَ مَعَه رَجل من الصَّحابَةقَصیر وَ کَانَ کَثیراللّزوم  لعیسی بن مَریمَ،فَلَمَّا انتَهیٰ عیسیٰ الی البَحرقَالَ بسم الله بصحّةیَقینٍ منه،فَمَشیٰ علیٰ ظَهرالمَائ فَقَالَ الرَّجل القَصیر حینَ نَظَرَ الیٰ عیسیٰ جَازَه،بسم الله بصحَّةیَقینٍ منه فَمَشیٰ عَلیٰ المَائ وَ لَحقَ بعیسیٰ،فَدَخَلَه العَجب بنَفسه "

''فَقَالَ هٰذا عیسیٰ روح الله یَمشی عَلی المَائ وَ اَنَا اَمشی عَلی المَائ فَمَا فَضله عَلَیَّ ؟قَالَ فَرمسَ فی المَائ فَااستَغَاثَ بعیسیٰ فَتَنَاوَله منَ المَائ فَاَخرَجَه، ثمَّ قَالَ لَه،مَا قلتَ يَا قَصیر؟قَالَ  قلت هٰذا روح الله یَمشی عَلی المَائ وَ اَنَا اَمشی ،فَدَخَلَنی من ذَالکَ عجب ''

'' فَقَالَ لَه عیسیٰ:لَقَد وَضَعت نَفسَکَ فی غَیرالمَوضع الَّذی وَضَعَکَ الله فیه فَمَقَّتَکَ الله علیٰ مَا قلت فَتب الی الله عَزَّوَجَلَّ ممَّا قلتَ، قَالَ فَتَابَ الرَّجل وَعَادَ الیٰ المَرتَبَة الَّتی وَضَعَه الله فیها،فَاتَّقوا الله وَلَا يَحسدَنَّ بَعضکم بَعضاً''(۱)

داؤد رقّی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا کہ آپ نے فرمایا خدا سے ڈرو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔

حضر ت عیسیٰ ابن مریم کی شریعت میں شہروں کی سیاحت تہی،ان سیاحتوں میں سے ایک دفعہ چہوٹے قد کا  ایک مرد بہی ان کے ہمراہ تہا ، وہ حضرت عیسیٰ  بن مر یم کے ساتہ بہت نزدیک تہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔بحار  الانوار:ج۷۳ ص۲۴۴، اصول کافی:ج۲ص۳۰۶

۲۳۵

وہ چلتے ہوئے ایک دریا کے پاس پہنچے حضرت عیسیٰ  نے اپنے صحیح و کامل یقین سے بسم اللہ کہا اور پانی پر چلنے لگے جب اس مرد نے یہ واقعہ دیکہاتو اس نے بہی صحیح یقین کے ساتہ بسم اللہ کہی اور پانی پر چلتاہوا حضرت عیسیٰ  تک پہنچ گیا ۔

اسے اس وقت ایک عجیب حالت کا سامنا ہوا اور اس نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ عیسیٰ  روح اللہ ہے کہ جو پانی پر چلتا ہے میں بہی پانی پر چل سکتا ہوں پس وہ کس بات میں مجہ سے بر تر ہے ؟ اسی وقت وہ پانی میں ڈوبنے لگا ۔ پہر اس نے حضرت عیسٰی  (ع)سے مدد طلب کی حضرت عیسٰی  نے اسے پکڑ کر پانی سے نکالا ، اور اس سے فرمایا تم نے اپنے آپ سے کیا کہا تہا؟ اس نے اپنے آپ سے جو کچہ کہا تہا وہ حضرت عیسیٰ  سے عرض کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے میں پانی میں ڈوبنے لگا تہا ۔

حضرت عیسٰی(ع)  نے اس سے فرمایا : خدا نے تمہیں جس جگہ قرار دیا تہا تم نے  اپنے آپ کو اس کے علاو ہ کہیں اور قرار دیا اور تم نے حسدکی وجہ سے خدا سے دشمنی کی پس خدا کی طرف واپس لوٹ جاؤ اور تم نے جو کچہ کہا اس سے توبہ کرو ۔ اس مرد نے اسی وقت تو بہ کی اور خدا نے اسے جو رتبہ دیا تہا ، اسے دوبارہ لاٹا دیا پس خدا سے ڈرو اور تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔

یہ روایت اس واقعیت و حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ گناہ  اولیاء خدا سے ان کے بہترین معنوی حالات سلب کرسکتا ہے اور انہیں معنویت کی اوج سے گرا سکتا ہے

۲۳۶

یقین کھودینا

تاریخ کی طرف رجوع کرنے اور اس کی ورق گر دانی سے ایسے افراد ملیں گے کہ جو اپنی زندگی  کے ایک حصے تک یقین و اعتقاد رکہتے تہے لیکن استقامت اور ثابت قدم نہ تہے لہذا انہوں نے گناہ کی وجہ سے اپنے ایمان و یقین کو کہو دیا ۔

ایسے افراد میں سے ایک زبیر تہا جو رحلت پیغمبر اکرم(ص) کے بعد حضرت امیر المو منین  اور اہل بیت وحی علیہم السلام کے دفاع میں سب سے پیش پیش تہا ، وہ امیر المو منین  کے دوستو ں میں سے تہا لیکن اس کے بیٹوں کے بڑے ہونے سے ان کے شیطانی وسوسوں نے اس کے ایمان و یقین کو شک و شبہہ اور تر دید میں تبدیل کر دیا اور پہر یہ امیر المو منین  سے بغاوت اور جنگ پر اتر آیا حضرت امیر المو منین (ع) اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

ما زال کان الز بیر منّا اهل البیت حتّٰی نشاء بنوه فصرفوه عنّا(۱)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت  علیہم السلام میں سے تہا لیکن جب اس کے بیٹے بڑے ہو گئے تو انہوں نے اسے ہم  سے رو گرداں کر دیا۔

لہذا ہمیں خداوند متعال سے ایسے یقین کے لئے دعا کر نی چاہیئے کہ جس میں کبھی بھی شک وشبہ اور انکار ایجاد نہ ہو ۔ امام صادق سے نقل روز جمعہ کی دعا میں پڑھتے ہیں :'' اللّٰهمّ انّی اسألک ایما ناً صادقاً و یقینا لیس بعده کفر '' (۲)

پرور دگار ا! میں تجہ سے سچے ایمان اور ایسے یقین کا سوال کر تا ہوں کہ جس کے بعد کفر و انکار نہ آئے   ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج۲۸ص۳۴۷

[۲]۔ بحار الا نوار:ج۹۰ص۴۲

۲۳۷

ایسی تعبیرات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ گناہ کی وجہ سے یقین کی حالت کا شک وشبہ یا کفر و انکار میں تبدیل ہو نے کا امکان ہے ۔ یقین کی سر زمین پر داخل ہونے والوں کو متوجہ رہنا چاہیئے کہ نفس امارہ بہت قوی ہے ۔ اگر آپ نے غفلت برتی تو آپ یقین سے ہاتہ دہو کر کفر و انکار میں مبتلا ہوجائیں گے لہذا خدا وند کریم سے ایسے یقین کو طلب کریں کہ جس کے بعد کسی قسم کا تز لزل نہ ہو ۔

اس بناء پر جو دل یقین کے تابناک نور سے منور ہو ا ہو اور جو یقین دل میں اتر چکا ہو گناہ کی صورت میں اس کی نورانیت میں کمی واقع ہو جا تی ہے اور ایک دیگر حالت ایجاد ہو تی ہے ۔ اس وجہ سے کبہی بہی  معنوی صفات کے مالک افراد اپنے اندر تکبر اور خود پسندی پیدا نہ ہونے دیں کیو نکہ جس خدا نے ان کے دلوں میں یقین کی نعمت القاء کی ہے وہ اسے تکبر اور خود پسندی کی وجہ سے واپس لینے پر بہی قادر ہے ۔

۲۳۸

تحصیل یقین کے ذرائع

۱۔ کسب معارف

اہل بیت عصمت و طہارت  علیہم  السلام کے بہت سے فرا مین و ارشادات میںیقین کیمقام  کی فضیلت واہمیت کو بیان کیا گیا ۔ اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کس طرح یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب بہی خاندا ن وحی   علیہم  السلام  کے فرمودات میں مو جود ہے ۔یقین کا مقام حاصل کر نے کا مؤثر ترین ذریعہ ، معرفت ، ہے جب انسان معارف الٰہی  سے مستفید ہو تو وہ راسخ اعتقاد سے یقین کی منزل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے شب معراج خدا نے پیغمبر اکرم(ص) سے موعظہ میں فرما یا:

'' المعرفة تورث الیقین ، فاذا استیقن العبد لا یبالی لیف اصبح بعسرٍ اَم بیسرٍ '' (۱)

معرفت یقین کا موجب ہے پس جب بہی بندے کو یقین حاصل ہو جائے تو پہر اس سے کوئی خوف نہیں ہو تا کہ رات کس طرح سے گزر گئی اور کیسے صبح ہو ئی ، چاہے یہ سختی میں ہو یا راحت میں ۔

اس بناء پر معلوم ہوا کہ تردد و اضطراب یقین کے نہ ہو نے سے پیدا ہو تا ہے انہیں رفع کرنے کے لئے اپنے اندر یقین کی حالت پیدا کریں اور یقین کی حالت ایجاد کرنے کے لئے معرفت حاصل کریں کیو نکہ معارف اہل بیت  حاصل کرنے سے یقین کے بلند مقام تک پہنچ سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۷۷ص۲۷

۲۳۹

۱ ۔ کسب معارف

اہل بیت عصمت و طہارت  علیہم  السلام کے بہت سے فرا مین و ارشادات میںیقین کیمقام  کی فضیلت واہمیت کو بیان کیا گیا ۔ اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کس طرح یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب بہی خاندا ن وحی   علیہم  السلام  کے فرمودات میں مو جود ہے ۔

یقین کا مقام حاصل کر نے کا مؤثر ترین ذریعہ ، معرفت ، ہے جب انسان معارف الٰہی  سے مستفید ہو تو وہ راسخ اعتقاد سے یقین کی منزل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے شب معراج خدا نے پیغمبر اکرم(ص) سے موعظہ میں فرما یا:

'' المعرفة تورث الیقین ، فاذا استیقن العبد لا یبالی لیف اصبح بعسرٍ اَم بیسرٍ '' (۱)

معرفت یقین کا موجب ہے پس جب بہی بندے کو یقین حاصل ہو جائے تو پہر اس سے کوئی خوف نہیں ہو تا کہ رات کس طرح سے گزر گئی اور کیسے صبح ہو ئی ، چاہے یہ سختی میں ہو یا راحت میں ۔

اس بناء پر معلوم ہوا کہ تردد و اضطراب یقین کے نہ ہو نے سے پیدا ہو تا ہے انہیں رفع کرنے کے لئے اپنے اندر یقین کی حالت پیدا کریں اور یقین کی حالت ایجاد کرنے کے لئے معرفت حاصل کریں کیو نکہ معارف اہل بیت  حاصل کرنے سے یقین کے بلند مقام تک پہنچ سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۷۷ص۲۷

۲۴۰

2۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

خدا کی بار گاہ میں دعا کرنیسے ہمارے اندر یقین پیدا ہو تا ہے اور اس سے  یقین میں اضافہ بہی ہوتا ہے ؛ حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے'' معروفہ''نامی خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

'' عباد اللّٰه سلوا اللّٰه الیقین ''(1)

اے خدا کے بندو! خدا سے سوال کرو کہ تمہیں یقین عنایت فرمائے۔

اس بناء پر ہمیں یقین پیدا کرنے اور اس میں اضافہ کے لئے بتائے گئے ذرائع میں سے ایک ذریعہ خدا سے یقین کے حصول کی دعا کرنا ہے ، خاندان وحی علیہم  السلام  نے اپنے فرامین میں ہمیں یقین کی کیفیت کے بارے میں بہی راہنمائی فرمائی ہے جب انسان ہر لمحہ سقوط اور ہلاکت کے خطرے میں مبتلاہو تو ممکن ہے کہ وہ اپنا یقین کہو دے اور اس کے ایمان اور عقیدے میں ضعف پیدا ہو جائے لہذا انہوں نے ہمیں صادقانہ یقین حاصل کرنے کے لئے دعا ارشاد فرمائی : صالحین اور متقین دعا کے ذریعے صادقانہ یقین سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ۔

جو انسان شک و شبہہ اور وسوسہ سے نجات پا کر سچے یقین کی منزل حاصل کرے وہ ایسے  انسان کی طرح ہے کہ جو کفر کے بعد دوبارہ  تجدید حیات کرے اور کفر کی ظلمت و تاریکی سے نکل کر عالم نور میں قدم رکہے  خداوند متعال  قر آن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ سورہ انعام آیت: 122

۲۴۱

'' اومن کان میتاً فَاحیَیناه وَجَعَلنا له  نوراً یَمشی به فی النّاس کَمَن مَثَلَه فی الظلمات لَیسَ بخارجٍ منها ''( 1 )

کیا جو شخص مردہ تہا پہر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا جس کے سہارے میں  لوگوں کے درمیان چلتا ہے اور اس کی مثال اس کی جیسی ہو سکتی ہے جو تاریکیو ں میں ہو اور ان سے نکل بہی نہ سکتا ہو ۔

یہ آیت ان لو گوں کے لئے ایک مثال ہے جو شک وشبہہ اور تردید  کی ظلمت سے نکل کر دلوں کو حیات عطا کرنے والے عالم یقین میں داخل ہو تے ہیں کیا ایسے افراد ان کی مانند ہیں کہ جو ابہی تک شک وشبہہ اور وسوسہ کی تاریکی میں گرفتار نہ ہو ئے ہوں ۔ جس طرح شک دلوں کو سیاہ کرتا ہے اسی طرح یقین دلوں کو نورانی کر تاہے بلکہ ان افراد کا دل نورانی ترین ہو تا ہے جو یقین کی منزل تک پہنچ چکے ہوں ۔

حضرت امام باقر(ع) فرماتے ہیں :

'' لا نور کنور الیقین '' ( 2 )

کوئی نور بہی یقین کے نور کی طرح نہیں ہے ۔

جن افراد کو وسوسہ اور شک و شبہ نے گہیرا ہوا ہو کیا ان شخصیات کے مانند ہیں جن کی دلوںکو یقین کے نور نے احاطہ کیا ہو ؟ جس انسان نے اپنے اندر موجود صفات کو شک  کے ذریعہ نابود کیا ہو کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے انوار یقین سے دل کو صاف اور روشن کیا ہو اب جو تازہ حیات اور قدرت کا مالک ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحا رالانوار :ج۷۷ص۲۹۳

[2]۔ بحا رالانوار :ج۷۸ص۱6۵

۲۴۲

دل کو یقین کے تابناک نور سے روشن کر نے کے لئے خداوند کریم سے دعا کریں کہ: خدا وندا !ہمیں صادقانہ یقین عنایت فرما ؛ کیو نکہ اگر یقین صادقانہ و پختہ ہو تو یہ ہر قسم کے سخت امتحانات کو آسان کر نے کے علاوہ وہ ان کے استحکام و قوت میں بہی اضافہ کر تا ہے ۔

صادقانہ یقین فقط اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ جب وہ کسی قسم کے تزلزل کوقبول نہ کرے اور جب اس میں کسی طرح کا ضعف نہ ہو ۔ نماز ظہر کی تعقیبات میں امام صادق (ع) سے منقول دعا میں وارد ہوا ہے کہ خدا سے کس چیز کا سوال کیا جا ئے :

'' اسألک حقایق الا یمان و صدق الیقین فی المواطن کلّها ''( 1 )

خدا وندا ! میں  ہر جگہ تجہ سے ایمان اور سچے یقین کا سوال کر تا ہوں ۔

امام صادق (ع)کی نماز ظہر کی تعقیب میں ذکر ہونے والی تعبیر اس نکتہ کو بیان کر تی ہے کہ تمام موارد حتی کہ سخت ترین موارد میں بہی یقین محکم اور صادق ہو کہ جو کسی طرح کے خلل و ضعف کو قبول نہ کرے  یعنی سخت ترین حالات ، دشوار اور مشکل ترین امتحانات میں بہی انسان کے پاؤں متزلزل نہ ہو ں۔

ایسے یقین تک رسائی اور اس کا حصول آسان نہیں ہے ایسے یقین کو حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیں  ۔ کیو نکہ صادقانہ یقین اولیاء خدا کی صفات میں سے ہے یہ ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحا رالانوار :ج۸6ص۷۱

۲۴۳

3- تہذیب و اصلاح نفس

نفس کی اصلاح کے ذریعہ نفسانی اور شیطانی خطرات سے عالم یقین تک پہنچیں اور آب حیات سے سیراب ہونے کے بعد اپنے دل و جان کو اس کی طراوت سے جلا بخشیں ۔

کیو نکہ یقین انسان کو اصلی منزل و ہدف تک پہنچا تا ہے ۔ آپ اپنے نفس کی اصلاح سے یقین میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ امام مو سی بن جعفر(ع)  نے اس کی تصریح فرمائی ہے :

'' باصلاحکم انفسکم تزدادوا یقینا و تربحوا نفیساً ثمیناً رحم اللّٰه امرئً همَّ بخیرٍ فعمله او همَّ بشرٍّ فارتدع عنه ثمّ قال : نحن نؤیّد الّروح بالطّاعة للّه والعمل له ''(1)

اپنے نفس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے یقین میں اضافہ کریں اور قیمتی سرمایہ و نفع حاصل کریں خداوند اس شخص پر رحمت کرے کہ جو اچہے کام کی ہمت کرے اور اسے انجام دے یا برے کام کا ارادہ کرے لیکن اپنے آپ کو اس کے انجام دینے سے روکے ۔ پہر آنحضرت نے فر مایا : ہم اہل بیت خدا کی اطاعت اور اس کے لئے عمل سے روح کی تائید کر تے ہیں ۔

پس نفس کی اصلاح سے انسان کے یقین میں اضافہ ہو تا ہے کیو نکہ یقین کا مخالف یعنی شک شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے پیداہو تا ہے ۔ اصلاح نفس کے ذریعہ حدیث نفس اور وسوسہ شیطان مغلوب ہو جاتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]۔ بحا رالانوار :ج6۹ص۱۹۴

۲۴۴

اہل بیت  علیہم  السلام  کے ارشادات و فرامین سے یوں استفادہ کر تے ہیں کہ حالت یقین اور اصلاح نفس کے درمیان ملازمہ ہے ۔ یعنی اصلاح نفس کا لازمہ حالت یقین کی افزائش ہے اور یقین محکم کے وجود کا لازمہ اصلاح نفس ہے ۔

پس نفس کی اصلاح سے آپ اپنے یقین میں اضافہ کر سکتے ہیں اسی طرح یقین کو تقویت دینے سے آپ اپنے باطن اور نفس کو پاک بنا سکتے ہیں ، نفس کی پاکیزگی اور یقین کی پیدائش کے بعد روح کی بزرگ قدرت سے استفادہ کریں ۔

جن افراد سے کرامات اور غیر معمولی امور ظاہر ہوئے وہ یقین کی عظیم نعمت سے بہرہ مند تہے اس حقیقت کی شہادت کے طور پر ہم ایک واقعہ نقل کر تے ہیں   مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی نقل سے ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب میں حج کے سفر کے دوران حجاز میں داخل ہوا تومیرے پاس پیسے نہیں تہے مکہ میں خاوہ(ٹیکس) کے عنوا ن سے ہر مسافر سے کچہ پیسے وصول کر تے تہے کچہ لوگ اس عنوان سے پیسے نہیں دینا چاہتے تہے لہذا ہم مجبوراً جدہ کے راستے عازم مکہ ہوئے۔ راستے میں حکومت کے مامورین سے سامنا ہوا اور انہوں نے ہم سے کہا کہ جب تک  خاوہ  یاٹیکس کو وصول کرنے پر ما مور افراد نہ آجائیں تم سب اسی جگہ ٹہہروا اور پیسے دینے کے بعد آگے جاؤ ور نہ آپ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے ۔

سب لوگ خر ما کے درخت کے سایہ میں مامورین کے انتظار میں بیٹہ گئے وہاں پر موجود سب لوگوں نے پیسے جمع کئے اور مجہ سے بہی کہا کہ آپ بہی پیسے دیں میں نے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ اگر تم یہ طمع کر رہے ہو کہ ہم تمہیں پیسے دیں گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے ہم تمہیں پیسے نہیں دیں گے اوراگر پیسے نہیں دو گے تو تم خا نہ خدا کی طرف نہں جا سکتے میں نے ان سے کہا کہ مجہے تم سے کوئی طمع نہیں ہے بلکہ خدا سے طمع کر رہا ہوں کہ جو میری مدد کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ عرب کے اس بیابان  میں خدا کس طرح تمہاری مدد کرے گا ؟

۲۴۵

میں نے کہا کہ رسول(ص) سے ایک حدیث روایت ہوئی ہے کہ جو لوگوں کی خدمت کرے اور ان سے کوئی اجرت نہ لے خداوند بیابان میں گرفتار ی کی حالت میں اس کی اس طرح سے مدد کرے گا اور موانع کو بر طرف کر دے گا ۔

ایک گہنٹہ کے بعد انہوں نے اپنے سوال کو تکرار کیا میں نے بہی وہی جواب دیا تو ان لوگوں نے تمسخر سے کہا کہ معلوم ہو تا ہے کہ جیسے شیخ نے حشیش پی ہو کہ جس کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہا ہے ۔ ورنہ بیابان میں ہمارے علاوہ اور کون ہے کہ جو اس کی مدد کرے لیکن ہم بہی اس کی مدد نہیں کریں گے۔

کچہ دیر گزرنے کے بعد دور سے گرد اڑتی دکہائی دی میں نے اپنے ساتہ موجود لوگوں سے کہا کہ یہ میرے طرف آنے والی خیر ہے انہوںنے میرا مذاق اڑایا چند لمحوں کے بعد اس گرد سے دو سوار نمودار ہوئے وہ گہوڑے کو ہاتہ سے کہینچ کر لا رہے تہے اور وہ میرے قریب آگئے ۔

ان میں سے ایک نے کہا کہ تم میں سے شیخ حسن علی اصفہانی کون ہیں ؟

میرے ساتہیوں نے میری طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا کہ یہ شیخ حسن علی ہیں انہوں نے کہا کہ شریف کی دعوت قبول کریں اور میں گہوڑے پر سوار ہو گیا اور شریف مکہ کی طرف روانہ ہو گئے جب '' شریف '' مکہ میں داخل ہوا تو میں نے دیکہا کہ مرحوم شیخ فضل اللہ نوری مرحوم شیخ محمد جواد بیدآبادی بہی وہاں موجو دہیں شریف مکہ کی کوئی حاجت تہی کہ میں نے خدا کی مدد سے اسے حل کر دیا مجہے بعد  میں معلوم ہوا کہ شریف نے پہلے اپنی حاجت مرحوم شیخ فضل اللہ نوری کی خدمت میں عرض کی   لیکن شیخ فضل اللہ نے اس سے فر مایا : تمہاری حاجت کو فلاں شخص انجام دے سکتا ہے تم حکم دو کہ اس شخص کو تلاش کر کے یہاں لاؤ اور یقینا وہ پیدل ہیں ۔ اسی وجہ سے شریف نے حکم دیا کہ ما مورین تمام چہوٹے راستوں پر جائیں اور جہاں بہی وہ ملیں  انہیں میرے پاس لے آؤ ۔

جی ہاں !اولیاء خدا سے کرامات اور غیر معمولی امور کے ظہور پر یقین مثبت اثرات رکہتا ہے ۔

۲۴۶

نتیجۂ بحث

ہمارے افکار اس صورت میں اثر رکہتے ہیں کہ جب ان کے ساتہ یقین کی صفت بہی ہو جو عالی معنوی مقامات کی جستجو اور معارف الٰہی کی تلاش میں ہوں وہ اپنے اندر یقین پیدا کرنے کے اسباب ایجاد کریں ۔

جو عالم غیب کے ساتہ ارتباط رکہتے ہوں وہ اپنے میں یقین کی قوت ایجاد کر تے ہیں اور اسے تقویت دینے کی کو شش کر تے ہیں ۔ کیو نکہ یقین عالم معنی تک پہنچنے اور معنوی مقامات کے حصول کی بنیاد ی شرط ہے ۔ یقین پیدا کرنے سے آپ اپنے زنگ آلود دل کو نئی زندگی دے کر روحانی امراض اور فکری آلودگیوں کوختم کریں اس صورت میں آپ کے باطن کی بہی اصلاح ہو جائے گی اور خدا کے نزدیک آپ کے اعمال کی اہمیت میں بہی اضافہ ہو گا ۔

کسب معارف ، اصلاح نفس اور بزرگان دین و اولیاء خدا کی صحبت یقین ایجاد کر نے کے بہترین ذرائع ہیں ۔ یقین کی حفاظت کی اساسی شرط گناہوں کو ترک کرنا ہے ۔ کیو نکہ گناہ و معصیت کئی سالوں کی کوششوں سے حاصل ہونے والے یقین کو نابود کر دیتا ہے ۔

گر عزم تو محکم و  متین آمدہ است

در پر تو انوار یقین آمدہ است

تا نور یقین بہ دل نتا بید ، کجا ؟

سر پنجۂ عزم ، از آستین آمدہ است

تمہارا عزم و ارادہ پختہ اور مضبوط ہو لیکن ارادے کی پختگی یقین کے ہمراہ ہو ۔جب تک دل یقین کے نور سے منور نہ ہو تب تک پختہ عزم وارادہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔

۲۴۷

فہرست مطالب

انتساب. 3

مقدمہ مترجم 4

پیش گفتار 6

فکر کی اہمیت. 10

فکر کی پرواز 12

فکر کی اہمیت کے کچھ راز 13

گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر 15

تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے.. 16

تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ 18

روزۂ فکر 21

۲۴۸

صحیح و سالم فکر کے طریقے 23

1۔ دقت اور  سوچ سے فکر کو  سالم کر نا 23

2 ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا 24

3 ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے  پر ہیز کرنا 25

نتیجۂ بحث. 28

مشورہ  کرنے  کی  ضرورت. 30

مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ 31

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟ 32

مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں. 35

مشورہ نہ کرنے کا انجام 36

نتیجۂ بحث. 39

بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں. 41

۲۴۹

ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں. 43

انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟ 44

مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع 46

1 ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید 46

ایک نکتہ کا تذکر 47

2 ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر 48

3 ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا 51

4 ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت. 52

5 ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت  سے توسل. 53

نتیجۂ بحث. 54

ارادہ  کی  اہمیت. 56

ارادہ سے پہلے اخلاص.. 57

۲۵۰

اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں. 58

بلند حوصلہ رکھیں. 60

اپنے ارادہ پر عمل کریں. 62

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا 65

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص.. 67

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا 69

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے 71

1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے.. 71

2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے.. 73

3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  : 74

نتیجہ ٔبحث. 75

نظم  وضبط  کی  اہمیت. 77

۲۵۱

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے.. 78

نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں. 81

نظم و ضبط 83

وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ 83

مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام 84

نتیجۂ بحث. 87

وقت  سے  استفادہ  کرنا 89

علامہ مجلسی کا وقت  سے استفادہ کر نا 91

وقت ضائع نہ کریں. 93

بیکاری کا نتیجہ 95

وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی 96

اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں. 97

۲۵۲

دوسروں کے ماضی سے سبق سیکھیں. 98

اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں. 99

فرصت سے استفادہ کریں. 100

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں. 101

نتیجہ ٔ بحث. 107

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز 109

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے.. 113

1 ۔ علماء ربانی کی صحبت. 113

2 ۔ صالحین کی صحبت. 114

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں. 116

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ. 118

1 ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت. 118

۲۵۳

2 ۔ گمراہوں کی صحبت. 122

3 ۔ خواہش پرستوں کی صحبت. 123

۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت. 127

نتیجۂ بحث. 128

روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت. 130

تجربہ اور  سر پرستی وحکومت. 131

علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ 132

تجربہ عقل کی افزائش کا باعث. 133

تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ 135

مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا 136

تجربہ سے سبق سیکھیں. 137

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں. 138

۲۵۴

دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ 139

تجربات فراموش نہ کریں. 141

نتیجہ ٔ بحث. 143

مخالفت نفس یا نفس پر حکومت. 145

عقل پر نفس کا غلبہ 147

نفس کا معالجہ 149

اصلاح نفس کے لئے دعا 151

مخالفت نفس کی عادت. 152

اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا 157

قدرت نفس. 158

نتیجۂ بحث. 159

صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی 161

۲۵۵

صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث. 162

صبر حضرت ایوب (ع) 164

اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا 166

مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ 168

صبر قوت وقدرت کا باعث. 170

نتیجۂ بحث. 172

اہمیت اخلاص.. 174

اخلاص کا نتیجہ 176

صاحب جواہر الکلام کا اخلاص.. 177

ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟ 179

زحمت اخلاص.. 182

نتیجۂ بحث. 186

۲۵۶

علم ارتقاء کا ذریعہ 188

تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت. 191

حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا 192

کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟ 193

علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ 198

نتیجۂ بحث. 202

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار 204

سعادت کے چار بنیادی ارکان. 207

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔ 207

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ 208

کامیاب اشخاص.. 209

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع 211

۲۵۷

1۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا 211

ایک اہم نکتہ 213

2۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب. 214

3۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا 215

4۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب. 216

نتیجۂ بحث. 217

یقین کی اہمیت. 219

یقین کے آثار 221

1۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے.. 221

مجلس مباہلہ میں حاضری. 223

۲۔ یقین  اعمال  کی  اہمیت  میں  اضافہ  کا  ذریعہ 226

3۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے.. 229

۲۵۸

یقین کو متزلزل کرنے والے امور 231

1۔ شک و شبہ 231

1۔ شک و شبہ 233

2۔ گناہ 235

یقین کھودینا 237

تحصیل یقین کے ذرائع 239

1۔ کسب معارف.. 239

1 ۔ کسب معارف.. 240

2۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز 241

3- تہذیب و اصلاح نفس. 244

نتیجۂ بحث. 247

۲۵۹