کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153212 / ڈاؤنلوڈ: 4710
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پانچويں فصل: تقصير

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _

مسئلہ ۳۱۱_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _

مسئلہ ۳۱۲_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۱۳_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيںہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے

۱۴۱

پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _

مسئلہ ۳۱۴_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزرچكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _

مسئلہ ۳۱۵_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجالائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجالائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج

۱۴۲

بجالائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجالائے _

مسئلہ ۳۱۶_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۱۷_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كر كے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجالائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۱۸_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كردے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگر چہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _

مسئلہ ۳۱۹_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو

۱۴۳

حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _

مسئلہ ۳۲۰_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجالائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيںہوںگى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجالانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _

مسئلہ ۳۲۱_ ظاہر كى بناپر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو اگر چہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _

۱۴۴

دوسرا حصہ:

اعمال حج كے بارے ميں

۱۴۵

پہلى فصل :احرام

يہ حج كے واجبات ميں سے پہلا واجب ہے _ شرائط ، كيفيت ، محرمات، احكام اور كفار ات كے لحاظ سے حج كا احرام عمرہ كے احرام سے مختلف نہيںہے مگر نيت ميں پس اسكے ساتھ اعمال حج كو انجام دينے كى نيت كريگا اور جو كچھ عمرہ كے احرام كى نيت ميں معتبر ہے وہ سب حج كے احرام كى نيت ميں بھى معتبر ہے اور يہ احرام نيت اور تلبيہ كے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے پس جب حج كى نيت كرے اور تلبيہ كہے تو اس كا احرام منعقد ہوجائيگا _ ہاں احرام حج بعض امور كے ساتھ مختص ہے جنہيں مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں :

۱۴۶

مسئلہ ۳۲۲_ حج تمتع كے احرام كا ميقات مكہ معظمہ ہے اور افضل يہ ہے كہ حج تمتع كا احرام مسجدالحرام سے باندھے اور مكہ معظمہ كے ہر حصے سے احرام كافى ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _ ليكن احوط يہ ہے كہ قديمى مقامات سے احرام باندھے ہاں اگر شك كرے كہ يہ مكہ كا حصہ ہے يا نہيں تو اس سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۳۲۳_ واجب ہے كہ نوذى الحج كو زوال سے پہلے احرام باندھے اس طرح كہ عرفات ميں وقوف اختيارى كو پاسكے اور اسكے اوقات ميں سے افضل ترويہ كے دن( آٹھ ذى الحج) زوال كا وقت ہے _ اور اس سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور بيمار كيلئے جب انہيں بھيڑ كى شدت كا خوف ہو _ نيز گزرچكا ہے كہ جو شخص عمرہ بجالانے كے بعد كسى ضرورت كى وجہ سے مكہ سے خارج ہونا چاہے تو اس كيلئے احرام حج كو مقدم كرنا جائز ہے _

مسئلہ ۳۲۴_ جو شخص احرام كو بھول كر عرفات كى طرف چلاجائے تو اس

۱۴۷

پر واجب ہے كہ مكہ معظمہ كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے يہ نہ كرسكتا ہو تو اپنى جگہ سے ہى احرام باندھ لے اور اس كا حج صحيح ہے اور ظاہر يہ ہے كہ جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے _

مسئلہ ۳۲۵_ جو شخص احرام كو بھول جائے يہاں تك كہ حج كے اعمال مكمل كرلے تو اس كا حج صحيح ہے _ اور حكم سے جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں آئندہ سال حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۲۶: جو شخص جان بوجھ كر احرام كو ترك كردے يہاں تك كہ وقوفبالعرفات اور وقوف بالمشعر كى فرصت ختم ہوجائے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۲۷_ جس شخص كيلئے اعمال مكہ كو وقوفين پر مقدم كرنا جائز ہو اس پر واجب ہے كہ انہيں احرام كى حالت ميں بجالائے پس اگر انہيں بغير احرام كے بجالائے تو احرام كے ساتھ ان كا اعادہ كرنا ہوگا _

۱۴۸

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جسكى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسطسے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_

مسئلہ ۳۲۸_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_

مسئلہ ۳۲۹_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_

مسئلہ ۳۳۰_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى

۱۴۹

(نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہر ين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جاسكے_

مسئلہ ۳۳۱_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميںسے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہوجاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كردے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كردے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _

مسئلہ ۳۳۲_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اورايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط

۱۵۰

يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگر چہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۳۳۳_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گارہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _

۱۵۱

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے تيسرا ہے اور اس سے مراد غروب كے وقت عرفات سے مشعر الحرام كى طرف كوچ كرنے كے بعد اس مشہور جگہ ميں ٹھہرنا ہے_

مسئلہ ۳۳۴_ وقوف بالمشعر عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۳۵_ واجب وقوف كا وقت دس ذى الحج كو طلوع فجر سے طلوع آفتاب تك ہے اوراحوط يہ ہے كہ عرفات سے كوچ كرنے كے بعد رات كو وہاں پہنچ كر وقوف كى نيت كے ساتھ وہاں وقوف كرے _

۱۵۲

مسئلہ ۳۳۶_ مشعر ميں طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك باقى رہنا واجب ہے ليكن ركن اتنى مقدار ہے جسے وقوف كہا جائے اگر چہ يہ ايك يا دو منٹ ہو _اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو جان بوجھ كر ترك كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگر چہ فعل احرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اگر اپنے اختيار كے ساتھ اتنى مقدار وقوف كو بھى ترك كردے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۳۷_ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،كمزوروں اور صاحبان عذر_ جيسے خوف يا بيماري_ كيلئے اتنى مقدار وقوف كرنے كے بعد كہ جس پر وقوف صدق كرتا ہے عيد كى رات مشعر سے منى كى طرف كوچ كرنا جائز ہے اسى طرح وہ لوگ جو ان كے ہمراہ كوچ كرتے ہيں اور انكى احوال پرسى كرتے ہيں جيسے خدام اور تيمار دارى كرنے والے _

تنبيہ : وقوفين ميں سے ايك يادونوں كو درك كرنے كے اعتبار سے اور اختياراً يا اضطراراً جان بوجھ كر، لاعلمى سے يا بھول كر فرداً يا تركيباً بہت سارى تقسيمات ہيں كہ جو مفصل كتابوں ميں مذكور ہيں_

۱۵۳

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا

يہ حج كے واجبات ميں سے چوتھا اور منى كے اعمال ميں سے پہلا ہے _ دس ذى الحج كو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) كوكنكرياں مارناواجب ہے _

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط

كنكرياں مارنے (رمي) ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: نيت اپنى تمام شرائط كے ساتھ جيسے كہ احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے_

دوم: يہ كہ رمى اسكے ساتھ ہو جسے كنكرياں كہا جائے پس نہ اتنے

۱۵۴

چھوٹے كے ساتھ صحيح ہے كہ وہ ريت ہو اور نہ اتنے بڑے كے ساتھ كہ جو پتھر ہو _

سوم : يہ كہ رمى عيدوالے دن طلوع آفتاب اورغروب آفتاب كے درميان ہو البتہ جس كيلئے يہ ممكن ہو _

چہارم: يہ كہ كنكرياں جمرے كو لگيں پس اگر نہ لگے يا اسے اسكے لگنے كا گمان ہو تو يہ شمار نہيں ہوگى اور اسكے بدلے دوسرى كنكرى مارنا واجب ہے اور اس كا لگے بغير صرف اس دائرے تك پہنچ جانا جو جمرے كے اردگرد ہے كافى نہيں ہے_

پنجم: يہ كہ رمى سات كنكريوں كے ساتھ ہو

ششم: يہ كہ پے در پے كنكرياں مارے پس اگر ايك ہى دفعہ مارے تو صرف ايك شمار ہوگى چاہے سب جمرے كو لگ جائيں يا نہ _

مسئلہ ۳۳۸_ جمرے كو رمى كرنا جائز ہے اس پر لگے ہوئے سيمنٹ سميت_ اسى طرح جمرہ كے نئے بنائے گئے حصے پر رمى كرنا بھى جائز ہے

۱۵۵

البتہ اگر عرف ميں اسے جمرہ كا حصہ شمار كيا جائے_

مسئلہ ۳۳۹_ اگر متعارف قديمى جمرہ كے آگے اور پيچھے سے كئي ميٹر كا اضافہ كر ديں تو اگر بغير مشقت كے سابقہ جمرہ كو پہچان كر اسے رمى كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے ورنہ موجودہ جمرہ كى جس جگہ كو چاہے رمى كرے اور يہى كافى ہے _

مسئلہ ۳۴۰_ ظاہر يہ ہے كہ اوپر والى منزل سے رمى كرنا جائز ہے اگرچہ احوط اس جگہ سے رمى كرنا ہے جو پہلے سے متعارف ہے_

كنكريوں كى شرائط:

كنكريوں ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول : يہ كہ وہ حرم كى ہوں اور اگر حرم كے باہر سے ہوں تو كافى نہيں ہيں_

دوم: يہ كہ وہ نئي ہوں كہ جنہيں پہلے صحيح طور پر نہ ماراگيا ہو اگرچہ گذشتہ سالوں ميں _

۱۵۶

سوم: يہ كہ مباح ہوں پس غصبى كنكريوں كا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان كنكريوں كا مارنا جنہيں كسى دوسرے نے جمع كيا ہو اسكى اجازت كے بغير ہاں كنكريوں كا پاك ہونا شرط نہيں ہے _

مسئلہ ۳۴۱_ عورتيں اور كمزور لوگ _ كہ جنہيں مشعر الحرام ميں صرف وقوف كا مسمى انجا م دينے كے بعد منى كى طرف جانے كى اجازت ہے اگر وہ دن كو رمى كرنے سے معذور ہوں تو ان كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے بلكہ عورتوں كيلئے ہر صورت ميں رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے البتہ اگروہ اپنے حج كيلئے رمى كر رہى ہوں يا ان كا حج نيابتى ہو ليكن اگر عورت صرف رمى كيلئے كسى كى طرف سے نائب بنى ہو تو رات كے وقت رمى كرنا صحيح نہيں ہے اگر چہ دن ميں رمى كرنے سے عاجز ہو بلكہ نائب بنانے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ايسے شخص كو نائب بنائے جو دن كے وقت رمى كر سكے اگر اسے ايسا شخص مل جائے _اور ان لوگوں كى ہمراہى كرنے والا اگر وہ خود معذور ہو تو اس كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے ورنہ اس پر واجب

۱۵۷

ہے كے دن وقت رمى كرے _

مسئلہ ۳۴۲ _ جو شخص عيد والے دن رمى كرنے سے معذور ہے اس كيلئے شب عيد يا عيد كے بعد والى رات ميں رمى كرنا جائز ہے اور اسى طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں كے دن رمى كرنے سے معذور ہے اسكے لئے اسكى رات يا اسكے بعد والى رات رمى كرنا جائز ہے _

پانچويں فصل :قربانى كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے پانچواں اورمنى كے اعمال ميں سے دوسرا عمل ہے

مسئلہ ۳۴۳_ حج تمتع كرنے والے پر قربانى كرنا واجب ہے اور قربانى تين جانوروں ميں سے ايك ہوگى اونٹ ، گائے اور بھيڑ بكرى اور ان جانوروں ميں مذكر اور مونث كے درميان فرق نہيں ہے اور اونٹ افضل ہے اورمذكورہ جانوروں كے علاوہ ديگر حيوانات كافى نہيں ہيں_

مسئلہ ۳۴۴_ قربانى ايك عبادت ہے كہ جس ميں ان تمام شرائط كے ساتھ نيت شر ط ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزر چكى ہيں_

۱۵۸

مسئلہ ۳۴۵_ قربانى ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: سن: اونٹ ميں معتبر ہے كہ وہ چھٹے سال ميں داخل ہو اور گائے ميں معتبر ہے كہ وہ تيسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر_ اور بكرى گائے كى طرح ہے ليكن بھيڑ ميں معتبر ہے كہ وہ دوسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر _مذكورہ حد بندى چھوٹا ہونے كى جہت سے ہے پس اس سے كمتر كافى نہيں ہے ليكن بڑا ہونے كى جہت سے تو مذكورہ حيوانات ميںسے بڑى عمر والا بھى كافى ہے _

دوم : صحيح و سالم ہونا

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو

چہارم: يہ كہ اسكے اعضا پورے ہوں پس ناقص كافى نہيں ہے جيسے خصى اور يہ وہ ہے كہ جسكے بيضے نكال ديئےائيں ہاں جسكے بيضے كوٹ ديئے جائيں وہ كافى ہے مگر يہ كہ خصى كى حد كو پہنچ جائے _ اور دم كٹا ، كانا ، لنگڑا ، كان كٹا اور جس كا اندر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى نہيںہے _ اسى طرح اگر

۱۵۹

پيدائشےى طور پر ايسا ہو تو بھى كافى نہيںہے پس دہ حيوان كافى نہيں ہے كہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف كے جانوروں ميںعام طور پر ہوتا ہے اس طرح كے اسے اس ميں نقص شمار كيا جائے _

ہاں جس كا باہر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى ہے ( باہر كا سينگ اندر والے سينگ كے غلاف كے طور پر ہوتا ہے ) اور جسكا كان پھٹا ہوا ہو يا اسكے كان ميں سوراخ ہو اس ميں كوئي حرج نہيںہے _

مسئلہ ۳۴۶_ اگر ايك جانور كو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح كرے پھر اس كے مريض يا ناقص ہونے كا انكشاف ہو تو قدرت كى صورت ميں دوسرى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے _

مسئلہ ۳۴۷_ احوط يہ ہے كہ قربانى جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مؤخر ہو _

مسئلہ ۳۴۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اپنے اختيار كے ساتھ قربانى كو روز عيد سے مؤخر نہ كرے پس اگر جان بوجھ كر ، بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے كسى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

یقین کے آثار

۱۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے

آپ اپنے دل کوپند و نصیحت کے ذریعہ حیات بخش سکتے ہیں اور وعظ کے ذریعہ اس میں تازہ روح پہونک سکتے ہیں۔جس طرح ایمان کامل اور یقین کو مضبوط و قوی کرسکتے ہیں  اسی طرح آپ مشکلات و موانع کے سامنے ایک پہاڑ کی مانند ڈٹ جائیںکیونکہ اگر یقین قوی و کامل صورت میں موجود ہو تو پہر وسوسہ اور تردد کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ۔پہر ضعف،سستی اور کاہلی ختم ہوجائیگی۔اسی وجہ سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے یقین کو قوی کریں حضرت امیرالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں:

''اَحی قَلبکَ باالمَو عظَة ------- وَ قَوّه بالیَقین''(۱)

وعظ و نصیحت کے ذریعہ اپنے دل کوحیات بخشو اور یقین کے ذریعہ اسے قوّت دو۔

گر عزم  تو در رہ حق، آہنین است

می دان بہ یقین کہ راہ آن یقین  است

اگر راہ حق میں تمہارا عزم و ارادہ پختہ ہو تو یقین جانیئے کہ اس کا راستہ صرف یقین ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۷۷ص۲۱۹

۲۲۱

جب انسان کے دل میں یقین پیدا ہوجائے تو دل محکم و استوار ہوجاتا ہے اور جب تک یقین قوی ہو تب تک شیطانی وسوسہ کے نفوذ کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ۔اسی وجہ سے اس میں اضطراب و وہم پیدا نہیں ہوگا،وہ مصائب و مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند قائم رہے گا۔حضرت امیرالمؤمنین (ع)  فرماتے ہیں:''مَن قَویٰ یَقینه لَم یَرتَب'' ( ۱ ) جس کا یقین قوی ہو اس میں شک پیدا نہیں ہوتا۔

گر بہ صورت ملَکی یا بہ لطافت حوری

تا بہ معنی نرسی ،از ہمہ دلہا دوری

اگر فرشتہ صورت یا حور کی لطافت کے مالک ہی کیوںنہ ہو تو مگر جب تک اپنے ہدف اور مقصد تک نہیں پہنچو گے   تب تک تم سب کے دلوں سے دور رہو گے یعنی ان کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پاؤ گے ۔ہمیشہ اعتقادی مسائل یا دیگر مسائل میں شک وشبہہ اسی شخص  کے لئے پیدا ہوتا ہے کہ جسے قوی یقین حاصل نہ ہو۔جن میں یقین کمال کی حد تک نہ پہنچا ہو،اس میں شیطانی وسوسہ منفی اثرات مرتب کرتاہے۔لیکن جن کے دل میں یقین کی شمع روشن ہو وہ شیاطین کے شر اور ان کے وسوسہ کے سامنے فولاد کی مانند ثابت قدم رہتے ہیں۔امام باقر(ع) فرماتے ہیں:'' فَیَمرّالیَقین بالقَلب فَیَصیر کَاَنَّه زبر الحَدید '' ( ۲ ) جب دل میں یقین پیدا ہوجائے تو وہ اسے لوہے کے ٹکڑے کی مانند قوی و محکم کردیتا ہے۔دل کو محکم و مضبوط کرنے سے نہ صرف انسان کے دل میں اعتقادی مسائل کے بارے میں   شک و شبہہ پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ اسے قدرت عطا ہوتی ہیکہ وہ دوسروں کے ایمان و یقین میں بھی اضافہ کرے۔اب ہم شیعہ علم کے ایک ستون کے ایمان و یقین کی داستان رقم کرتے ہیں کہ جس نے دوسروں کے دلوں میں مسائل پر اعتقاد میں اضافہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غررالحکم:ج۵ص۲۳۰

[۲] ۔ بحارالانوار:ج۷۸ص۱۸۵

۲۲۲

مجلس مباہلہ میں حاضری

شیعہ علماء نے بہت تکلیفیں اور زحمتیں  برداشت کرکے خدا کے دین کی پاسداری کی اور اسے انحراف سے بچالیا۔ہمارے بزرگان نے حریم ولایت کے دفاع اور شیعہ مذہب کو اثبات کرنے کے لئے کسی قسم کی کوشش ا ور قربانی سے دریغ نہیں کیا۔

اہل بیت عصمت و طہارت کے عالی اور با عظمت مقام پر اعتقاد و یقین کی بناء پر وہ مخالفین اور دشمنوں سے مباہلہ کے لئے بہی حاضر ہوئے، اس عمل سے انہوں نے ولایت کی راہ میں حائل کانٹوں کو اکہاڑا  اور دشمنوں کو نابود کردیا۔جلیل القدر عالم دین جناب محمد ابن احمد  کا مباہلہ ان فداکاریوں کا ایک نمونہ ہے۔انہوں نے دشمنوں کے لئے بہی شیعہ عقائد کی حقانیت کو ثابت کیا،وہ شیعوں کے بزرگ علماء میں سے ہیں اور بعض بزرگ شیعہ علماء جیسے شیخ مفید ،ان سے روایت نقل کرتے تہے۔انہوں نے شیعہ عقائد کے بارے میں بہت سی کتابیں لکہیںاور جناب قاسم ابن علائ کے بابرکت محضر سے استفادہ کیا۔

وہ بینائی کہوجانے کے بعد پڑہنے لکہنے کی نعمت سے محروم ہوجانے کے باوجود اپنے سینے میں محفوظ معلومات کو کاتب کے ذریعہ کاغذکی نظر کرتے،اس طرح سے انہوں نے مکتب تشیع کو بہت سی گرانبہا  اور انمول کتابیں فراہم کی۔وہ سیف الدولہ ہمدانی کے نزدیک اعلیٰ مقام رکہتے تہے۔ انہوں نے سیف الدولہ ہمدانی کے سامنے موصل کے قاضی سے مباہلہ کیا کہ جو جاہلانہ تعصب کی عینک  اتارنے کو تیار نہ تہا،مجلس مباہلہ برپا ہوئی اور مباہلہ کے اختتام کے بعد موصل کے قاضی کو اپنی سلامتی سے ہاتہ دہونے پڑے،وہ بخار میں مبتلا ہوگیا،اس نے مباہلہ میں جو ہاتہ بلند کیا تہا وہ بہی سیاہ ہوگیا اور اگلے روز ہلاک ہوگیا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ فوائدالرضویہ محدث قمی:۳۸۸

۲۲۳

بزرگ شیعہ عالم مرحوم محمد ابن احمدنے اپنے یقین کامل اوراعتقاد کی وجہ سے متعصب دشمن پر غلبہ پایا۔اس طرح انہوں نے اپنے اس عمل سے سب کے لئے شیعہ عقائد کی حقانیت کو مزید آشکار کیا اور ان کے دلوں میں یقین کو محکم کیا۔شیعہ تاریخ ایسے نمونوں سے بہری پڑی ہے کہ بزرگان دین نے اپنے یقین کامل اور اطمینان قلب کے ذریعہ دشمن کے ساتہ مقابلہ کیا اور دوسروں کے دلوں میں بہی یقین کا پیدا کیا۔

''میر فندرسکی ''ایسی ہی ایک اور مثال ہیں کہ جنہوں نے اپنے ایمان و یقین کامل کے ذریعہ دشمن کو محکوم و مغلوب کیا اور دوسروں کے دلوں میں یقین کا بیج بویا۔

اس واقعہ کو مرحوم نراقی کتاب'' الخزائن ''میں یوں رقم کرتے ہیں:

''میر فندرسکی''سیاحت کے ایام میں کفار کے ایک شہر میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے گفتگو کے لئے بیٹہ گئے،ایک دن ایک گروہ نے ان سے کہا کہ ہمارے عقائد کی حقانیت اور آپ کے عقائد کے بطلان کی ایک دلیل یہ بہی ہے کہ ہماری عبادت گاہیں دوہزار سال پہلے تعمیر ہوئی ہیں اور ابہی تک ان میں خرابی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔لیکن آپ کی اکثر مساجد سو سال سے زیادہ باقی نہیں رہتی اور خراب ہوجاتی ہیں چونکہ ہر چیز کی لقاء اور حفاظت،اس کی حقانیت کی دلیل ہے،پس ہمارا دین بر حق ہے اور آپ کا دین باطل ہے۔

'' میر فندرسکی '' نے اپنے یقین و اعتقاد کی بناء پر جواب دیا کہ آپ کی عبادت گاہوں کا باقی نہ رہنا اور ہماری مساجد کے خراب ہونے کی یہ وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کا راز یہ ہے کہ ہماری مساجد  میں صحیح عبادت انجام پاتی ہے اور مساجد میں خداوند بزرگ و برتر کا نام لیا جاتا ہے کہ وہ عمارت اسے تحمل کرنے طاقت نہ رکہنے کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہیں۔

۲۲۴

لیکن آپ کی عبادت گاہوں میں صحیح  اور حقیقی عبادت انجام نہیں  دی جاتی، بلکہ کبہی اس میں فاسد اعمال انجام دئیے جاتے ہیں ،لہٰذا ان میں کسی قسم کی خرابی رونما نہیں ہوتی۔اگر ہمارے پروردگار کی عبادت تمہاری عبادت گاہوں میں انجام دی جائے تو وہ اسے بہی متحمل نہیں کر پائیںگی اور خراب ہوجائیںگی۔

انہوں نے کہا یہ بہت آسان کام ہے ،آپ ہماری عبادت گاہوں میں جاکر وہاں اپنی عبادت کریں  تاکہ ہماری حقانیت اور آپ کابطلان ثابت ہوجائے،سید نے قبول کیا اور وضو کرنے کے بعد خدا پر توکل اور اہل بیت عصمت و طہارت سے توسل کیا،پہر وہ ان کی بہت بڑی عبادت گاہ میں داخل ہوئے کہ جو بہت مضبوط بنی ہوئی تہی اور دو ہزار سال پرانی تہی۔

لوگوں کی بہت بری تعداداس نظارہ کو دیکہنے کے لئے بیٹہی ہوئی تہی ،سید نے عبادتگاہ میں داخل ہونے کے بعد اذان و اقامت کہی اور نماز کی نیت سے بلند آواز سے (اللہ اکبر) کہا اور عبادتگاہ سے باہر کی طرف بہاگ آئے، اچانک اس عبادتگاہ کی چہت گر گئی اور دیواریں بہی خراب ہوگئی ۔اس کرامت کی وجہ سے بہت سے کفار دین اسلام سے مشرف ہوئے۔(۲)

''میر فندرسکی'' نے اپنے اعتقاد و یقین اور کامل ایمان کے ذریعہ اپنے دل کو محکم و مضبوط کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۲] ۔ جامع الدرر:ج۲ص۳۷۰، تذکرةالقبور:۶۰

۲۲۵

۲۔ یقین  اعمال  کی  اہمیت  میں  اضافہ  کا  ذریعہ

اگر کیمیا اور اکسیر کو کسی کم قیمت مادہ کے ساتہ بہی بنائیں تو یہ اس کو با ارزش اور قیمتی و دہات میں تبدیل کردیتا ہے اور اس کی قیمت کئی گنا بڑہ جاتی ہے، یقین بہی اسی طرح ہے،کیونکہ یقین اعمال کو   ارزش عطا کرتا ہے۔اگر قلیل عمل کو یقین کے ساتہ انجام دیا جائے تو خدا کے نزدیک اس کی ارزش شک و شبہ  میں انجام دیئے گئے بہت زیادہ عمل سے زیادہ ہے۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

''انَّ العَمَلَ الدَّائمَ القَلیلَ عَلی الیَقین اَفضَل عندَالله من العَمَل الکَثیر عَلی غَیر الیَقین''(۱)

خدا کے نزدیک یقین کے ساتہ انجام دیا گیا کم اور دائمی عمل یقین کے بغیر انجام دیے گئے زیادہ عمل سے  بہتر ہے۔

یہ فرمان واضح دلالت کرتا ہے کہ یقین اعمال وکردارکی اہمیت میں اضافہ کا باعث  ہے،یعنی یقین کے ساتہ انجام دیا گیاکم عمل،یقین کے بغیر انجام دیئے گئے زیادہ عمل سے افضل ہے۔اس بناء پر یقین اس کیمیاگری کے اس مادہ کے مانند ہے،کہ جو کم قیمت دہات کو سونے میں تبدیل کرتاہے۔ یقین بہی اسی طرح کیونکہ اس میں یہ قدرت ہے کہ یہ قلیل عمل کو یقین کے ساتہ انجام سے ارزش و قیمت عطا کرتا ہے۔

متوجہ رہیں کہ بہت سے موارد میں خدا کے نزدیک اہمیت رکہنے والے کم عمل کے ظاہراً بہی بہت سے آثار و اثرات ہوتے ہیں،اب ہم جو  واقعہ بیان کرنے لگے ہیں وہ اس حقیقت کا شاہد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ الکافی :ج۲ص۵۷

۲۲۶

مرحوم آیةاللہ العظمیٰ خوئی  یقین سے کہی جانے والی(بسم الله الرحمٰن الرحیم) کے بارے میں شیخ احمد (یہ استادالفقہاء مرحوم میرزاشیرازی کے خادم تہے)سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا کہ مرحوم میرزا کے ایک اور خادم بہی تہے جن کا نام شیخ محمد تہا کہ جو مرحوم میرزا کی وفات کے بعد لوگوں سے نہ ملتے اور گوشہ نشین ہوگئے تہے۔

ایک دن کوئی شخص شیخ محمد کے پاس گیا تہا اور اس نے دیکہا کہ وہ غروب آفتاب کے وقت اپنے چراغ میں پانی ڈال کر روشن کر رہے ہیں اور چراغ بہی مکمل طورپر روشن ہے۔وہ شخص بہت حیران ہوا اور اس کی علت پوچہی ؟شیخ محمد نے اس کے جواب میں کہا مرحوم میرزا کی وفات سے مجہے بہت صدمہہوا اور ان بزرگوار کی جدائی کے غم کی وجہ سے میں نے لوگوں کے ساتہ میل جول قطع کردیا اور اپناوقت گہر میں ہی بسر کرتا، میں بہت ہی غمزدہ تہا ۔ایک دن عرب طلّاب کی صورت کا ایک جوان میرے پاس آیا اور میرے ساتہ بہت پیار ،محبت اور انس سے پیش آیا وہ غروب تک میرے پاس رہا ،اس کی باتیں مجہے بہت پسند آئیں اور میرے دل کا کچہ بوجہ اور غم ہلکا ہوگیا،وہ چنددن تک میرے پاس آتا رہا اور میں اس سے مانوس ہوگیا تہا۔ایک دن وہ میرے ساتہ باتیں کررہا تہا کہ مجہے یاد آیا کہ آج رات میرے چراغ میں تیل نہیں ہے۔ اس وقت دکانیں غروب کے وقت بند ہوجاتی تہیں۔اسی وجہ سے میں یہ سوچ رہا تہا اگر میں ان سے اجازت لے کر تیل لینے کے لئے گہر سے نکلوں تو ان کی پر فیض باتوں سے محروم ہوجاؤں گا اور اگر تیل نہ خریدوں تو آج رات تاریکی میں بسر کرنی پڑے گی۔

وہ میری اس حالت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آج تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میری باتوں کو دلچسپی سے نہیں سن رہے؟میں نے کہا نہیں ایسی بات نہیں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔انہوں نے فرمایا نہیں تم میری باتوں سے نہیں سن رہے۔میں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے۔انہوں نے فرمایا بہت تعجب ہے کہ میں نے تمہارے لئے اتنی احادیث بیان کی اور(بسم الله الرحمن الرحیم) کی فضیلت بیان کی ،کیا تم ان سے اتنا بہی مستفید نہیں ہوئے کہ تم تیل کی خریداری سے بے نیاز ہوجاؤ؟میں نے کہا کہ مجہے یاد نہیں کہ آپ نے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائی ہو؟

۲۲۷

 انہوں نے فرمایا تم بہول گئے ہو میں نے بتایا تہا کہ( بسم الله الرحمن الرحیم) کے خواص و فوائد میں سے یہ ہے کہ اگر تم اسے کسی قصد سے کہو تو وہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔تم اپنے چراغ کو اس قصد کے ساتہ پانی سے بہردو کہ پانی تیل کی خاصیت رکہتاہو ،تم(بسم الله الرحمٰن الرحیم) کہو میں نے قبول کیا اور اٹہ کر اسی قصد سے اپنے چراغ کو پانی سے بہر دیا اور اس وقت کہا(بسم الله الرحمٰن الرحیم) پہر میں نے اسے جلایا تو وہ روشن ہوگیا۔اس وقت سے آج تک جب بہی یہ خالی ہوجائے تو اسے پانی سے بہرکر(بسم الله) پڑہتا ہوں تو چراغ روشن ہوجاتا ہے۔

مرحوم آیةاللہ العظمٰی خوئی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:تعجب یہ ہے کہ اس واقعہ کیعام ہوجانے کے بعد مرحوم شیخ محمد کے اس عمل میں ذرّہ برابر فرق نہ آیا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اعتقاد و یقین کے ساتہ ایک(بسم الله) پڑہی جائے تو اس قدر غیر معمولی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ،جو اسم اعظم کی معرفت رکہتے ہیں وہ بہی دوسرے لوگوں میں رائج اور متداول اسم سے ہی استفادہ کرتے ہیںلیکن جو چیز ان کے عمل کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ ان کا یقین ہے کہ جو تلفظ کئے جانے والے اسم کی تاثیر میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔

۲۲۸

۳۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے

کبہی انسان محاسبہ کے ذریعہ اپنے ظاہر کو سنوار لیتا ہے،لیکن پس پردہ حقیقت و و اقعیت سے آگاہ نہیں ہوتا۔اسی وجہ سے وہ تشویش و اضطراب میں مبتلا ہوتا ہے۔انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کیا اس کی گفتار و کردار مورد رضایت پروردگار ہے یا نہیں؟کیا اس کا باطن آلودگی سے پاک ہے؟یا وہ باطناً نفس اور شیطان کے ہاتہوں اسیر ہے اور خود اس سے بے خبر ہے؟اگر فرض کریں اس کا باطن آلودہ ہو تو وہ کس طرح اپنے باطن کو اس سنگین خطرے سے نجات دلا سکتا ہے؟کیا اس روحانی رنج و غم سے نجات پانے کا کوئی راستہ ہے؟

ان سوالات کے جواب میں کہتے ہیںمکتب عصمت و طہارت کے عقائد پر یقین سے باطنی و روحانی پاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے۔کیونکہ یقین باطن کی اصلاح کرتا ہے۔اتوار کی رات پڑہی جانے والی دعا میں آیا ہے:

'' اَلّٰلهمَّ اَصلح بالیَقین سَرَائرَنَا''(۱)

پروردگا ر ا!یقین کے ذریعہ ہمارے باطن کی اصلاح فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۹۰ص۲۸۶

۲۲۹

اہل یقین نیک سیرت اور پاک ذات کے مالک ہوتے ہیں وہ فساد اور تباہی سے دور ہوتے ہیں۔ جن کے باطن میں  بری صفات ہو وہ یقین پیدا کرنے سے اپنے باطن کی اصلاح کرسکتے ہیں۔

یقین نہ صرف آپ کے شعور اور ضمیر کو شیطان کے وسوسہ سے محفوظ رکہتا ہے بلکہ اگر آپ کے باطن میں کوئی فساد موجود ہو تو یہ اس کی بہی اصلاح کرتا ہے اور باطن کی برائیوں کو ختم کرتا ہے۔اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم(ص) ایک خطبہ کے ضمن میں فرماتے ہیں:

'' خَیر مَا القی فی القَلب الیَقین'' ( ۱ )

مؤمن کے دل میں القاء ہونے والی بہترین چیز یقین ہے۔

کیونکہ جیسا ہم نے کہا کہ یقین نہ صرف شعور اجاگر کرتا بلکہ یہ باطن کو اخلاقی و اعتقادی اشتباہات سے بہی پاک کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج۲۱ص۲۱۱

۲۳۰

یقین کو متزلزل کرنے والے امور

۱۔ شک و شبہ

جو انسان شک وشبہ  میں مبتلا ہو وہ نہ صرف اپنی معنوی اہمیت کو کہو دیتا ہے،بلکہ جب تک وہ شک و شبہہ اور وسواس کا اسیر رہے تب تک وہ متوقف اور جمود کی حالت میں رہے گا۔وہ کبہی بہی معنوی ترقی نہیں کرسکتا۔وہ اپنی نجات کے لئے اپنے صفحہ دل سے شک و شبہ کو ہمیشہ کے لئے نکال دے۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' الفوا عَن نفوسکم الشّکوکَ '' (۱)

اپنے نفوس سے شکوک کو برطرف کریں۔

اس بناء پر روحانی و معنوی ارزشوں کو حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے اپنے دل سے شک اور وسوسہ کو نکال دیں اور ایمان و یقین کامل پیدا کرنے کے بعد اپنے عقائد کے استحکام کی کوشش کریں۔ایسانہ کرنے کی صورت میں صرف آپ کے اعتقادات ہی متزلزل نہیں ہوںگے بلکہ آخری زمانے کے آشوب میں بہی شریک ہوں گے۔ کیونکہ شک وشبہہ ایک طرف سے آشوب، پریشانیاں  اور آزمایشات الہٰی کا سامان فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف سے شک وشبہہمیں گرفتار افراد اس امتحان میں بہی ناکام ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۵۱ ص۱۴۷

۲۳۱

خاندان عصمت و طہارت کے فرامین و دستورات میں ہمیں اپنے دل سے شک و شبہہ کو برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یہ صرف آزمائشات الہٰی کو قبول کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ فتنہ اور آشوب کے اسباب کو ختم کرنے کے لئے بہی شک و شبہہ کو بر طرف کرنے کا امر کیا گیا ہے۔ کیونکہ شک وشبہہ اور بے مورد گمان فتنہ و فساد اور امشکلات کو ایجاد کرنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

امام سجاد (ع) مناجات مطیعین میں خدا سے عرض کرتے ہیں:

'' وَاَثبت الحَقَّ فی سَرَائرنَا فَانَّ الشّکوکَ وَ الظّنونَ لَوَاقع الفتَن '' ( ۱ )

پروردگارا ! میرے باطن میں حق کو ثابت فرما، کیونکہ شکوک و ظنون فتنہ ایجاد کرتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ صدر اسلام سے آج تک جن فساد و فتنہ نے مسلمان معاشرے کو گمراہ کیا ،ان میں سے اکثر ایسے افراد تہے کہ جو صراط مستقیم سے متعلق اپنے یقین کو کہوکر شک و شبہہ میں گرفتار ہوچکے تہے۔

حقیقت میں شک و شبہ گمراہ کر نے والے فتنوں اور بلائوں میں گرفتار ہونے کا وسیلہ ہے۔ شک وشبہ  سے انسان فتنوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کے علاوہ شکّاک اور متزلزل افراد کے لئے بہی  مشکلات اور فتنوں کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۹۴ ص۱۴۷

۲۳۲

۱۔ شک و شبہ

جو انسان شک وشبہ  میں مبتلا ہو وہ نہ صرف اپنی معنوی اہمیت کو کہو دیتا ہے،بلکہ جب تک وہ شک و شبہہ اور وسواس کا اسیر رہے تب تک وہ متوقف اور جمود کی حالت میں رہے گا۔وہ کبہی بہی معنوی ترقی نہیں کرسکتا۔وہ اپنی نجات کے لئے اپنے صفحہ دل سے شک و شبہ کو ہمیشہ کے لئے نکال دے۔امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' الفوا عَن نفوسکم الشّکوکَ '' (۱) اپنے نفوس سے شکوک کو برطرف کریں۔

اس بناء پر روحانی و معنوی ارزشوں کو حاصل کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے اپنے دل سے شک اور وسوسہ کو نکال دیں اور ایمان و یقین کامل پیدا کرنے کے بعد اپنے عقائد کے استحکام کی کوشش کریں۔ایسانہ کرنے کی صورت میں صرف آپ کے اعتقادات ہی متزلزل نہیں ہوںگے بلکہ آخری زمانے کے آشوب میں بہی شریک ہوں گے۔ کیونکہ شک وشبہہ ایک طرف سے آشوب، پریشانیاں  اور آزمایشات الہٰی کا سامان فراہم کرتا ہے تو دوسری طرف سے شک وشبہہمیں گرفتار افراد اس امتحان میں بہی ناکام ہوتے ہیں۔

خاندان عصمت و طہارت کے فرامین و دستورات میں ہمیں اپنے دل سے شک و شبہہ کو برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے،یہ صرف آزمائشات الہٰی کو قبول کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ فتنہ اور آشوب کے اسباب کو ختم کرنے کے لئے بہی شک و شبہہ کو بر طرف کرنے کا امر کیا گیا ہے۔ کیونکہ شک وشبہہ اور بے مورد گمان فتنہ و فساد اور امشکلات کو ایجاد کرنے کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۵۱ ص۱۴۷

۲۳۳

امام سجاد (ع) مناجات مطیعین میں خدا سے عرض کرتے ہیں:

'' وَاَثبت الحَقَّ فی سَرَائرنَا فَانَّ الشّکوکَ وَ الظّنونَ لَوَاقع الفتَن '' ( ۱ )

پروردگارا ! میرے باطن میں حق کو ثابت فرما، کیونکہ شکوک و ظنون فتنہ ایجاد کرتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ صدر اسلام سے آج تک جن فساد و فتنہ نے مسلمان معاشرے کو گمراہ کیا ،ان میں سے اکثر ایسے افراد تہے کہ جو صراط مستقیم سے متعلق اپنے یقین کو کہوکر شک و شبہہ میں گرفتار ہوچکے تہے۔

حقیقت میں شک و شبہ گمراہ کر نے والے فتنوں اور بلائوں میں گرفتار ہونے کا وسیلہ ہے۔ شک وشبہ  سے انسان فتنوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کے علاوہ شکّاک اور متزلزل افراد کے لئے بہی  مشکلات اور فتنوں کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحارالانوار: ج۹۴ ص۱۴۷

۲۳۴

۲۔ گناہ

گناہوں کا مرتکب ہونا،اہل بیت عصمت و طہارت  کے دستورات کے منافی ہے۔یہ شرم آور اور تباہی کا باعث ہے۔ممکن ہے کہ یہ مردان خدا کے بہترین حالات کو ختم کردے۔اس بناء پر گناہ کو انجام دینا نہ صرف معنوی حالات کو ایجاد کرنے کے لئے مانع ہے۔بلکہ یہ اس ایجاد شدہ حالات کو درہم برہم کرنے کی قدرت رکہتا ہے۔امام صادق (ع)فرماتے ہیں:

'' قَالَ سَمعت اَبَا عَبدالله - یَقول-اتَّقواالله ،وَ لَا یحسد بَعضکم بَعضاً-انَّ عیسیٰ بنَ مَریَمَ کَانَ من شَریعه السَّیح فی البلَاد،فَخَرَجَ فی بَعض سَیحه وَ مَعَه رَجل من الصَّحابَةقَصیر وَ کَانَ کَثیراللّزوم  لعیسی بن مَریمَ،فَلَمَّا انتَهیٰ عیسیٰ الی البَحرقَالَ بسم الله بصحّةیَقینٍ منه،فَمَشیٰ علیٰ ظَهرالمَائ فَقَالَ الرَّجل القَصیر حینَ نَظَرَ الیٰ عیسیٰ جَازَه،بسم الله بصحَّةیَقینٍ منه فَمَشیٰ عَلیٰ المَائ وَ لَحقَ بعیسیٰ،فَدَخَلَه العَجب بنَفسه "

''فَقَالَ هٰذا عیسیٰ روح الله یَمشی عَلی المَائ وَ اَنَا اَمشی عَلی المَائ فَمَا فَضله عَلَیَّ ؟قَالَ فَرمسَ فی المَائ فَااستَغَاثَ بعیسیٰ فَتَنَاوَله منَ المَائ فَاَخرَجَه، ثمَّ قَالَ لَه،مَا قلتَ يَا قَصیر؟قَالَ  قلت هٰذا روح الله یَمشی عَلی المَائ وَ اَنَا اَمشی ،فَدَخَلَنی من ذَالکَ عجب ''

'' فَقَالَ لَه عیسیٰ:لَقَد وَضَعت نَفسَکَ فی غَیرالمَوضع الَّذی وَضَعَکَ الله فیه فَمَقَّتَکَ الله علیٰ مَا قلت فَتب الی الله عَزَّوَجَلَّ ممَّا قلتَ، قَالَ فَتَابَ الرَّجل وَعَادَ الیٰ المَرتَبَة الَّتی وَضَعَه الله فیها،فَاتَّقوا الله وَلَا يَحسدَنَّ بَعضکم بَعضاً''(۱)

داؤد رقّی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا کہ آپ نے فرمایا خدا سے ڈرو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔

حضر ت عیسیٰ ابن مریم کی شریعت میں شہروں کی سیاحت تہی،ان سیاحتوں میں سے ایک دفعہ چہوٹے قد کا  ایک مرد بہی ان کے ہمراہ تہا ، وہ حضرت عیسیٰ  بن مر یم کے ساتہ بہت نزدیک تہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔بحار  الانوار:ج۷۳ ص۲۴۴، اصول کافی:ج۲ص۳۰۶

۲۳۵

وہ چلتے ہوئے ایک دریا کے پاس پہنچے حضرت عیسیٰ  نے اپنے صحیح و کامل یقین سے بسم اللہ کہا اور پانی پر چلنے لگے جب اس مرد نے یہ واقعہ دیکہاتو اس نے بہی صحیح یقین کے ساتہ بسم اللہ کہی اور پانی پر چلتاہوا حضرت عیسیٰ  تک پہنچ گیا ۔

اسے اس وقت ایک عجیب حالت کا سامنا ہوا اور اس نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ عیسیٰ  روح اللہ ہے کہ جو پانی پر چلتا ہے میں بہی پانی پر چل سکتا ہوں پس وہ کس بات میں مجہ سے بر تر ہے ؟ اسی وقت وہ پانی میں ڈوبنے لگا ۔ پہر اس نے حضرت عیسٰی  (ع)سے مدد طلب کی حضرت عیسٰی  نے اسے پکڑ کر پانی سے نکالا ، اور اس سے فرمایا تم نے اپنے آپ سے کیا کہا تہا؟ اس نے اپنے آپ سے جو کچہ کہا تہا وہ حضرت عیسیٰ  سے عرض کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے میں پانی میں ڈوبنے لگا تہا ۔

حضرت عیسٰی(ع)  نے اس سے فرمایا : خدا نے تمہیں جس جگہ قرار دیا تہا تم نے  اپنے آپ کو اس کے علاو ہ کہیں اور قرار دیا اور تم نے حسدکی وجہ سے خدا سے دشمنی کی پس خدا کی طرف واپس لوٹ جاؤ اور تم نے جو کچہ کہا اس سے توبہ کرو ۔ اس مرد نے اسی وقت تو بہ کی اور خدا نے اسے جو رتبہ دیا تہا ، اسے دوبارہ لاٹا دیا پس خدا سے ڈرو اور تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔

یہ روایت اس واقعیت و حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ گناہ  اولیاء خدا سے ان کے بہترین معنوی حالات سلب کرسکتا ہے اور انہیں معنویت کی اوج سے گرا سکتا ہے

۲۳۶

یقین کھودینا

تاریخ کی طرف رجوع کرنے اور اس کی ورق گر دانی سے ایسے افراد ملیں گے کہ جو اپنی زندگی  کے ایک حصے تک یقین و اعتقاد رکہتے تہے لیکن استقامت اور ثابت قدم نہ تہے لہذا انہوں نے گناہ کی وجہ سے اپنے ایمان و یقین کو کہو دیا ۔

ایسے افراد میں سے ایک زبیر تہا جو رحلت پیغمبر اکرم(ص) کے بعد حضرت امیر المو منین  اور اہل بیت وحی علیہم السلام کے دفاع میں سب سے پیش پیش تہا ، وہ امیر المو منین  کے دوستو ں میں سے تہا لیکن اس کے بیٹوں کے بڑے ہونے سے ان کے شیطانی وسوسوں نے اس کے ایمان و یقین کو شک و شبہہ اور تر دید میں تبدیل کر دیا اور پہر یہ امیر المو منین  سے بغاوت اور جنگ پر اتر آیا حضرت امیر المو منین (ع) اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

ما زال کان الز بیر منّا اهل البیت حتّٰی نشاء بنوه فصرفوه عنّا(۱)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت  علیہم السلام میں سے تہا لیکن جب اس کے بیٹے بڑے ہو گئے تو انہوں نے اسے ہم  سے رو گرداں کر دیا۔

لہذا ہمیں خداوند متعال سے ایسے یقین کے لئے دعا کر نی چاہیئے کہ جس میں کبھی بھی شک وشبہ اور انکار ایجاد نہ ہو ۔ امام صادق سے نقل روز جمعہ کی دعا میں پڑھتے ہیں :'' اللّٰهمّ انّی اسألک ایما ناً صادقاً و یقینا لیس بعده کفر '' (۲)

پرور دگار ا! میں تجہ سے سچے ایمان اور ایسے یقین کا سوال کر تا ہوں کہ جس کے بعد کفر و انکار نہ آئے   ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج۲۸ص۳۴۷

[۲]۔ بحار الا نوار:ج۹۰ص۴۲

۲۳۷

ایسی تعبیرات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ گناہ کی وجہ سے یقین کی حالت کا شک وشبہ یا کفر و انکار میں تبدیل ہو نے کا امکان ہے ۔ یقین کی سر زمین پر داخل ہونے والوں کو متوجہ رہنا چاہیئے کہ نفس امارہ بہت قوی ہے ۔ اگر آپ نے غفلت برتی تو آپ یقین سے ہاتہ دہو کر کفر و انکار میں مبتلا ہوجائیں گے لہذا خدا وند کریم سے ایسے یقین کو طلب کریں کہ جس کے بعد کسی قسم کا تز لزل نہ ہو ۔

اس بناء پر جو دل یقین کے تابناک نور سے منور ہو ا ہو اور جو یقین دل میں اتر چکا ہو گناہ کی صورت میں اس کی نورانیت میں کمی واقع ہو جا تی ہے اور ایک دیگر حالت ایجاد ہو تی ہے ۔ اس وجہ سے کبہی بہی  معنوی صفات کے مالک افراد اپنے اندر تکبر اور خود پسندی پیدا نہ ہونے دیں کیو نکہ جس خدا نے ان کے دلوں میں یقین کی نعمت القاء کی ہے وہ اسے تکبر اور خود پسندی کی وجہ سے واپس لینے پر بہی قادر ہے ۔

۲۳۸

تحصیل یقین کے ذرائع

۱۔ کسب معارف

اہل بیت عصمت و طہارت  علیہم  السلام کے بہت سے فرا مین و ارشادات میںیقین کیمقام  کی فضیلت واہمیت کو بیان کیا گیا ۔ اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کس طرح یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب بہی خاندا ن وحی   علیہم  السلام  کے فرمودات میں مو جود ہے ۔یقین کا مقام حاصل کر نے کا مؤثر ترین ذریعہ ، معرفت ، ہے جب انسان معارف الٰہی  سے مستفید ہو تو وہ راسخ اعتقاد سے یقین کی منزل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے شب معراج خدا نے پیغمبر اکرم(ص) سے موعظہ میں فرما یا:

'' المعرفة تورث الیقین ، فاذا استیقن العبد لا یبالی لیف اصبح بعسرٍ اَم بیسرٍ '' (۱)

معرفت یقین کا موجب ہے پس جب بہی بندے کو یقین حاصل ہو جائے تو پہر اس سے کوئی خوف نہیں ہو تا کہ رات کس طرح سے گزر گئی اور کیسے صبح ہو ئی ، چاہے یہ سختی میں ہو یا راحت میں ۔

اس بناء پر معلوم ہوا کہ تردد و اضطراب یقین کے نہ ہو نے سے پیدا ہو تا ہے انہیں رفع کرنے کے لئے اپنے اندر یقین کی حالت پیدا کریں اور یقین کی حالت ایجاد کرنے کے لئے معرفت حاصل کریں کیو نکہ معارف اہل بیت  حاصل کرنے سے یقین کے بلند مقام تک پہنچ سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۷۷ص۲۷

۲۳۹

۱ ۔ کسب معارف

اہل بیت عصمت و طہارت  علیہم  السلام کے بہت سے فرا مین و ارشادات میںیقین کیمقام  کی فضیلت واہمیت کو بیان کیا گیا ۔ اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کس طرح یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب بہی خاندا ن وحی   علیہم  السلام  کے فرمودات میں مو جود ہے ۔

یقین کا مقام حاصل کر نے کا مؤثر ترین ذریعہ ، معرفت ، ہے جب انسان معارف الٰہی  سے مستفید ہو تو وہ راسخ اعتقاد سے یقین کی منزل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے شب معراج خدا نے پیغمبر اکرم(ص) سے موعظہ میں فرما یا:

'' المعرفة تورث الیقین ، فاذا استیقن العبد لا یبالی لیف اصبح بعسرٍ اَم بیسرٍ '' (۱)

معرفت یقین کا موجب ہے پس جب بہی بندے کو یقین حاصل ہو جائے تو پہر اس سے کوئی خوف نہیں ہو تا کہ رات کس طرح سے گزر گئی اور کیسے صبح ہو ئی ، چاہے یہ سختی میں ہو یا راحت میں ۔

اس بناء پر معلوم ہوا کہ تردد و اضطراب یقین کے نہ ہو نے سے پیدا ہو تا ہے انہیں رفع کرنے کے لئے اپنے اندر یقین کی حالت پیدا کریں اور یقین کی حالت ایجاد کرنے کے لئے معرفت حاصل کریں کیو نکہ معارف اہل بیت  حاصل کرنے سے یقین کے بلند مقام تک پہنچ سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۷۷ص۲۷

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259