کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155951 / ڈاؤنلوڈ: 5073
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۲۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز

خدا کی بار گاہ میں دعا کرنیسے ہمارے اندر یقین پیدا ہو تا ہے اور اس سے  یقین میں اضافہ بہی ہوتا ہے ؛ حضرت امیر المو منین(ع)  اپنے'' معروفہ''نامی خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

'' عباد اللّٰه سلوا اللّٰه الیقین ''(۱)

اے خدا کے بندو! خدا سے سوال کرو کہ تمہیں یقین عنایت فرمائے۔

اس بناء پر ہمیں یقین پیدا کرنے اور اس میں اضافہ کے لئے بتائے گئے ذرائع میں سے ایک ذریعہ خدا سے یقین کے حصول کی دعا کرنا ہے ، خاندان وحی علیہم  السلام  نے اپنے فرامین میں ہمیں یقین کی کیفیت کے بارے میں بہی راہنمائی فرمائی ہے جب انسان ہر لمحہ سقوط اور ہلاکت کے خطرے میں مبتلاہو تو ممکن ہے کہ وہ اپنا یقین کہو دے اور اس کے ایمان اور عقیدے میں ضعف پیدا ہو جائے لہذا انہوں نے ہمیں صادقانہ یقین حاصل کرنے کے لئے دعا ارشاد فرمائی : صالحین اور متقین دعا کے ذریعے صادقانہ یقین سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں ۔

جو انسان شک و شبہہ اور وسوسہ سے نجات پا کر سچے یقین کی منزل حاصل کرے وہ ایسے  انسان کی طرح ہے کہ جو کفر کے بعد دوبارہ  تجدید حیات کرے اور کفر کی ظلمت و تاریکی سے نکل کر عالم نور میں قدم رکہے  خداوند متعال  قر آن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ سورہ انعام آیت: ۱۲۲

۲۴۱

'' اومن کان میتاً فَاحیَیناه وَجَعَلنا له  نوراً یَمشی به فی النّاس کَمَن مَثَلَه فی الظلمات لَیسَ بخارجٍ منها ''( ۱ )

کیا جو شخص مردہ تہا پہر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور قرار دیا جس کے سہارے میں  لوگوں کے درمیان چلتا ہے اور اس کی مثال اس کی جیسی ہو سکتی ہے جو تاریکیو ں میں ہو اور ان سے نکل بہی نہ سکتا ہو ۔

یہ آیت ان لو گوں کے لئے ایک مثال ہے جو شک وشبہہ اور تردید  کی ظلمت سے نکل کر دلوں کو حیات عطا کرنے والے عالم یقین میں داخل ہو تے ہیں کیا ایسے افراد ان کی مانند ہیں کہ جو ابہی تک شک وشبہہ اور وسوسہ کی تاریکی میں گرفتار نہ ہو ئے ہوں ۔ جس طرح شک دلوں کو سیاہ کرتا ہے اسی طرح یقین دلوں کو نورانی کر تاہے بلکہ ان افراد کا دل نورانی ترین ہو تا ہے جو یقین کی منزل تک پہنچ چکے ہوں ۔

حضرت امام باقر(ع) فرماتے ہیں :

'' لا نور کنور الیقین '' ( ۲ )

کوئی نور بہی یقین کے نور کی طرح نہیں ہے ۔

جن افراد کو وسوسہ اور شک و شبہ نے گہیرا ہوا ہو کیا ان شخصیات کے مانند ہیں جن کی دلوںکو یقین کے نور نے احاطہ کیا ہو ؟ جس انسان نے اپنے اندر موجود صفات کو شک  کے ذریعہ نابود کیا ہو کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے انوار یقین سے دل کو صاف اور روشن کیا ہو اب جو تازہ حیات اور قدرت کا مالک ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۷۷ص۲۹۳

[۲]۔ بحا رالانوار :ج۷۸ص۱۶۵

۲۴۲

دل کو یقین کے تابناک نور سے روشن کر نے کے لئے خداوند کریم سے دعا کریں کہ: خدا وندا !ہمیں صادقانہ یقین عنایت فرما ؛ کیو نکہ اگر یقین صادقانہ و پختہ ہو تو یہ ہر قسم کے سخت امتحانات کو آسان کر نے کے علاوہ وہ ان کے استحکام و قوت میں بہی اضافہ کر تا ہے ۔

صادقانہ یقین فقط اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ جب وہ کسی قسم کے تزلزل کوقبول نہ کرے اور جب اس میں کسی طرح کا ضعف نہ ہو ۔ نماز ظہر کی تعقیبات میں امام صادق (ع) سے منقول دعا میں وارد ہوا ہے کہ خدا سے کس چیز کا سوال کیا جا ئے :

'' اسألک حقایق الا یمان و صدق الیقین فی المواطن کلّها ''( ۱ )

خدا وندا ! میں  ہر جگہ تجہ سے ایمان اور سچے یقین کا سوال کر تا ہوں ۔

امام صادق (ع)کی نماز ظہر کی تعقیب میں ذکر ہونے والی تعبیر اس نکتہ کو بیان کر تی ہے کہ تمام موارد حتی کہ سخت ترین موارد میں بہی یقین محکم اور صادق ہو کہ جو کسی طرح کے خلل و ضعف کو قبول نہ کرے  یعنی سخت ترین حالات ، دشوار اور مشکل ترین امتحانات میں بہی انسان کے پاؤں متزلزل نہ ہو ں۔

ایسے یقین تک رسائی اور اس کا حصول آسان نہیں ہے ایسے یقین کو حاصل کرنے کے لئے خدا کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتہ اٹہائیں  ۔ کیو نکہ صادقانہ یقین اولیاء خدا کی صفات میں سے ہے یہ ہر کسی کی دسترس میں نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۸۶ص۷۱

۲۴۳

۳- تہذیب و اصلاح نفس

نفس کی اصلاح کے ذریعہ نفسانی اور شیطانی خطرات سے عالم یقین تک پہنچیں اور آب حیات سے سیراب ہونے کے بعد اپنے دل و جان کو اس کی طراوت سے جلا بخشیں ۔

کیو نکہ یقین انسان کو اصلی منزل و ہدف تک پہنچا تا ہے ۔ آپ اپنے نفس کی اصلاح سے یقین میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ امام مو سی بن جعفر(ع)  نے اس کی تصریح فرمائی ہے :

'' باصلاحکم انفسکم تزدادوا یقینا و تربحوا نفیساً ثمیناً رحم اللّٰه امرئً همَّ بخیرٍ فعمله او همَّ بشرٍّ فارتدع عنه ثمّ قال : نحن نؤیّد الّروح بالطّاعة للّه والعمل له ''(۱)

اپنے نفس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے یقین میں اضافہ کریں اور قیمتی سرمایہ و نفع حاصل کریں خداوند اس شخص پر رحمت کرے کہ جو اچہے کام کی ہمت کرے اور اسے انجام دے یا برے کام کا ارادہ کرے لیکن اپنے آپ کو اس کے انجام دینے سے روکے ۔ پہر آنحضرت نے فر مایا : ہم اہل بیت خدا کی اطاعت اور اس کے لئے عمل سے روح کی تائید کر تے ہیں ۔

پس نفس کی اصلاح سے انسان کے یقین میں اضافہ ہو تا ہے کیو نکہ یقین کا مخالف یعنی شک شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے پیداہو تا ہے ۔ اصلاح نفس کے ذریعہ حدیث نفس اور وسوسہ شیطان مغلوب ہو جاتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا رالانوار :ج۶۹ص۱۹۴

۲۴۴

اہل بیت  علیہم  السلام  کے ارشادات و فرامین سے یوں استفادہ کر تے ہیں کہ حالت یقین اور اصلاح نفس کے درمیان ملازمہ ہے ۔ یعنی اصلاح نفس کا لازمہ حالت یقین کی افزائش ہے اور یقین محکم کے وجود کا لازمہ اصلاح نفس ہے ۔

پس نفس کی اصلاح سے آپ اپنے یقین میں اضافہ کر سکتے ہیں اسی طرح یقین کو تقویت دینے سے آپ اپنے باطن اور نفس کو پاک بنا سکتے ہیں ، نفس کی پاکیزگی اور یقین کی پیدائش کے بعد روح کی بزرگ قدرت سے استفادہ کریں ۔

جن افراد سے کرامات اور غیر معمولی امور ظاہر ہوئے وہ یقین کی عظیم نعمت سے بہرہ مند تہے اس حقیقت کی شہادت کے طور پر ہم ایک واقعہ نقل کر تے ہیں   مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی نقل سے ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب میں حج کے سفر کے دوران حجاز میں داخل ہوا تومیرے پاس پیسے نہیں تہے مکہ میں خاوہ(ٹیکس) کے عنوا ن سے ہر مسافر سے کچہ پیسے وصول کر تے تہے کچہ لوگ اس عنوان سے پیسے نہیں دینا چاہتے تہے لہذا ہم مجبوراً جدہ کے راستے عازم مکہ ہوئے۔ راستے میں حکومت کے مامورین سے سامنا ہوا اور انہوں نے ہم سے کہا کہ جب تک  خاوہ  یاٹیکس کو وصول کرنے پر ما مور افراد نہ آجائیں تم سب اسی جگہ ٹہہروا اور پیسے دینے کے بعد آگے جاؤ ور نہ آپ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے ۔

سب لوگ خر ما کے درخت کے سایہ میں مامورین کے انتظار میں بیٹہ گئے وہاں پر موجود سب لوگوں نے پیسے جمع کئے اور مجہ سے بہی کہا کہ آپ بہی پیسے دیں میں نے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ اگر تم یہ طمع کر رہے ہو کہ ہم تمہیں پیسے دیں گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے ہم تمہیں پیسے نہیں دیں گے اوراگر پیسے نہیں دو گے تو تم خا نہ خدا کی طرف نہں جا سکتے میں نے ان سے کہا کہ مجہے تم سے کوئی طمع نہیں ہے بلکہ خدا سے طمع کر رہا ہوں کہ جو میری مدد کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ عرب کے اس بیابان  میں خدا کس طرح تمہاری مدد کرے گا ؟

۲۴۵

میں نے کہا کہ رسول(ص) سے ایک حدیث روایت ہوئی ہے کہ جو لوگوں کی خدمت کرے اور ان سے کوئی اجرت نہ لے خداوند بیابان میں گرفتار ی کی حالت میں اس کی اس طرح سے مدد کرے گا اور موانع کو بر طرف کر دے گا ۔

ایک گہنٹہ کے بعد انہوں نے اپنے سوال کو تکرار کیا میں نے بہی وہی جواب دیا تو ان لوگوں نے تمسخر سے کہا کہ معلوم ہو تا ہے کہ جیسے شیخ نے حشیش پی ہو کہ جس کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہا ہے ۔ ورنہ بیابان میں ہمارے علاوہ اور کون ہے کہ جو اس کی مدد کرے لیکن ہم بہی اس کی مدد نہیں کریں گے۔

کچہ دیر گزرنے کے بعد دور سے گرد اڑتی دکہائی دی میں نے اپنے ساتہ موجود لوگوں سے کہا کہ یہ میرے طرف آنے والی خیر ہے انہوںنے میرا مذاق اڑایا چند لمحوں کے بعد اس گرد سے دو سوار نمودار ہوئے وہ گہوڑے کو ہاتہ سے کہینچ کر لا رہے تہے اور وہ میرے قریب آگئے ۔

ان میں سے ایک نے کہا کہ تم میں سے شیخ حسن علی اصفہانی کون ہیں ؟

میرے ساتہیوں نے میری طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا کہ یہ شیخ حسن علی ہیں انہوں نے کہا کہ شریف کی دعوت قبول کریں اور میں گہوڑے پر سوار ہو گیا اور شریف مکہ کی طرف روانہ ہو گئے جب '' شریف '' مکہ میں داخل ہوا تو میں نے دیکہا کہ مرحوم شیخ فضل اللہ نوری مرحوم شیخ محمد جواد بیدآبادی بہی وہاں موجو دہیں شریف مکہ کی کوئی حاجت تہی کہ میں نے خدا کی مدد سے اسے حل کر دیا مجہے بعد  میں معلوم ہوا کہ شریف نے پہلے اپنی حاجت مرحوم شیخ فضل اللہ نوری کی خدمت میں عرض کی   لیکن شیخ فضل اللہ نے اس سے فر مایا : تمہاری حاجت کو فلاں شخص انجام دے سکتا ہے تم حکم دو کہ اس شخص کو تلاش کر کے یہاں لاؤ اور یقینا وہ پیدل ہیں ۔ اسی وجہ سے شریف نے حکم دیا کہ ما مورین تمام چہوٹے راستوں پر جائیں اور جہاں بہی وہ ملیں  انہیں میرے پاس لے آؤ ۔

جی ہاں !اولیاء خدا سے کرامات اور غیر معمولی امور کے ظہور پر یقین مثبت اثرات رکہتا ہے ۔

۲۴۶

نتیجۂ بحث

ہمارے افکار اس صورت میں اثر رکہتے ہیں کہ جب ان کے ساتہ یقین کی صفت بہی ہو جو عالی معنوی مقامات کی جستجو اور معارف الٰہی کی تلاش میں ہوں وہ اپنے اندر یقین پیدا کرنے کے اسباب ایجاد کریں ۔

جو عالم غیب کے ساتہ ارتباط رکہتے ہوں وہ اپنے میں یقین کی قوت ایجاد کر تے ہیں اور اسے تقویت دینے کی کو شش کر تے ہیں ۔ کیو نکہ یقین عالم معنی تک پہنچنے اور معنوی مقامات کے حصول کی بنیاد ی شرط ہے ۔ یقین پیدا کرنے سے آپ اپنے زنگ آلود دل کو نئی زندگی دے کر روحانی امراض اور فکری آلودگیوں کوختم کریں اس صورت میں آپ کے باطن کی بہی اصلاح ہو جائے گی اور خدا کے نزدیک آپ کے اعمال کی اہمیت میں بہی اضافہ ہو گا ۔

کسب معارف ، اصلاح نفس اور بزرگان دین و اولیاء خدا کی صحبت یقین ایجاد کر نے کے بہترین ذرائع ہیں ۔ یقین کی حفاظت کی اساسی شرط گناہوں کو ترک کرنا ہے ۔ کیو نکہ گناہ و معصیت کئی سالوں کی کوششوں سے حاصل ہونے والے یقین کو نابود کر دیتا ہے ۔

گر عزم تو محکم و  متین آمدہ است

در پر تو انوار یقین آمدہ است

تا نور یقین بہ دل نتا بید ، کجا ؟

سر پنجۂ عزم ، از آستین آمدہ است

تمہارا عزم و ارادہ پختہ اور مضبوط ہو لیکن ارادے کی پختگی یقین کے ہمراہ ہو ۔جب تک دل یقین کے نور سے منور نہ ہو تب تک پختہ عزم وارادہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔

۲۴۷

فہرست مطالب

انتساب. ۳

مقدمہ مترجم ۴

پیش گفتار ۶

فکر کی اہمیت. ۱۰

فکر کی پرواز ۱۲

فکر کی اہمیت کے کچھ راز ۱۳

گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر ۱۵

تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے.. ۱۶

تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ ۱۸

روزۂ فکر ۲۱

۲۴۸

صحیح و سالم فکر کے طریقے ۲۳

۱۔ دقت اور  سوچ سے فکر کو  سالم کر نا ۲۳

۲ ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا ۲۴

۳ ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے  پر ہیز کرنا ۲۵

نتیجۂ بحث. ۲۸

مشورہ  کرنے  کی  ضرورت. ۳۰

مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ ۳۱

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟ ۳۲

مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں. ۳۵

مشورہ نہ کرنے کا انجام ۳۶

نتیجۂ بحث. ۳۹

بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں. ۴۱

۲۴۹

ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں. ۴۳

انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟ ۴۴

مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع ۴۶

۱ ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید ۴۶

ایک نکتہ کا تذکر ۴۷

۲ ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر ۴۸

۳ ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا ۵۱

۴ ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت. ۵۲

۵ ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت  سے توسل. ۵۳

نتیجۂ بحث. ۵۴

ارادہ  کی  اہمیت. ۵۶

ارادہ سے پہلے اخلاص.. ۵۷

۲۵۰

اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں. ۵۸

بلند حوصلہ رکھیں. ۶۰

اپنے ارادہ پر عمل کریں. ۶۲

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا ۶۵

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص.. ۶۷

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا ۶۹

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے ۷۱

۱ ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے.. ۷۱

۲ ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے.. ۷۳

۳ ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  : ۷۴

نتیجہ ٔبحث. ۷۵

نظم  وضبط  کی  اہمیت. ۷۷

۲۵۱

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے.. ۷۸

نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں. ۸۱

نظم و ضبط ۸۳

وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ ۸۳

مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام ۸۴

نتیجۂ بحث. ۸۷

وقت  سے  استفادہ  کرنا ۸۹

علامہ مجلسی کا وقت  سے استفادہ کر نا ۹۱

وقت ضائع نہ کریں. ۹۳

بیکاری کا نتیجہ ۹۵

وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی ۹۶

اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں. ۹۷

۲۵۲

دوسروں کے ماضی سے سبق سیکھیں. ۹۸

اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں. ۹۹

فرصت سے استفادہ کریں. ۱۰۰

آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں. ۱۰۱

نتیجہ ٔ بحث. ۱۰۷

صالحین سے ہمنشینی کی اہمیت کا راز ۱۰۹

جن افراد کی صحبت روح کی تقویت کا باعث ہے.. ۱۱۳

۱ ۔ علماء ربانی کی صحبت. ۱۱۳

۲ ۔ صالحین کی صحبت. ۱۱۴

اپنے ہمنشینوں کو پہچانیں. ۱۱۶

جن افراد کی صحبت ترقی کی راہ میں رکاوٹ. ۱۱۸

۱ ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت. ۱۱۸

۲۵۳

۲ ۔ گمراہوں کی صحبت. ۱۲۲

۳ ۔ خواہش پرستوں کی صحبت. ۱۲۳

۴ ۔ شکّی لوگوں کی صحبت. ۱۲۷

نتیجۂ بحث. ۱۲۸

روحانی تکامل کے لئے تجربہ کی ضرورت. ۱۳۰

تجربہ اور  سر پرستی وحکومت. ۱۳۱

علمی و صنعتی مسائل میں تجربہ ۱۳۲

تجربہ عقل کی افزائش کا باعث. ۱۳۳

تجربہ ، فریب سے نجات کا ذریعہ ۱۳۵

مشکلات میں دوستوں کو پہچاننا ۱۳۶

تجربہ سے سبق سیکھیں. ۱۳۷

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کریں. ۱۳۸

۲۵۴

دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنے کا طریقہ ۱۳۹

تجربات فراموش نہ کریں. ۱۴۱

نتیجہ ٔ بحث. ۱۴۳

مخالفت نفس یا نفس پر حکومت. ۱۴۵

عقل پر نفس کا غلبہ ۱۴۷

نفس کا معالجہ ۱۴۹

اصلاح نفس کے لئے دعا ۱۵۱

مخالفت نفس کی عادت. ۱۵۲

اصلاح نفس کے ذریعہ روحانی قوت سے استفادہ کرنا ۱۵۷

قدرت نفس. ۱۵۸

نتیجۂ بحث. ۱۵۹

صبر اسرار کے خزانوں کی کنجی ۱۶۱

۲۵۵

صبر واستقامت ارادہ کی تقویت کا باعث. ۱۶۲

صبر حضرت ایوب (ع) ۱۶۴

اپنے نفس کو صبر واستقامت کے لئے آمادہ کرنا ۱۶۶

مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ ۱۶۸

صبر قوت وقدرت کا باعث. ۱۷۰

نتیجۂ بحث. ۱۷۲

اہمیت اخلاص.. ۱۷۴

اخلاص کا نتیجہ ۱۷۶

صاحب جواہر الکلام کا اخلاص.. ۱۷۷

ہم کیا صاحب اخلاص بن سکتے ہیں ؟ ۱۷۹

زحمت اخلاص.. ۱۸۲

نتیجۂ بحث. ۱۸۶

۲۵۶

علم ارتقاء کا ذریعہ ۱۸۸

تحصیل علم میں ارادہ کی اہمیت. ۱۹۱

حصول علم کے لئے گناہوں کو ترک کرنا ۱۹۲

کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟ ۱۹۳

علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ ۱۹۸

نتیجۂ بحث. ۲۰۲

انسان کی ترقی میں توفیق کا کردار ۲۰۴

سعادت کے چار بنیادی ارکان. ۲۰۷

نیت ، قدرت، توفیق، منزل تک پہنچنا۔ ۲۰۷

توفیق نیکیوں کی طرف ہدایت کا ذریعہ ۲۰۸

کامیاب اشخاص.. ۲۰۹

توفیق حاصل کرنے کے ذرائع ۲۱۱

۲۵۷

۱۔ کسب توفیق کے لئے دعا کرنا ۲۱۱

ایک اہم نکتہ ۲۱۳

۲۔ ماں باپ کی دعا  توفیق کا سبب. ۲۱۴

۳۔ توفیق کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کرنا ۲۱۵

۴۔ خدا کی نعمتوں میں تفکر، توفیق الٰہی کا سبب. ۲۱۶

نتیجۂ بحث. ۲۱۷

یقین کی اہمیت. ۲۱۹

یقین کے آثار ۲۲۱

۱۔ یقین دل کو محکم کرتا ہے.. ۲۲۱

مجلس مباہلہ میں حاضری. ۲۲۳

۲۔ یقین  اعمال  کی  اہمیت  میں  اضافہ  کا  ذریعہ ۲۲۶

۳۔ یقین آپ کے باطن کی اصلاح کرتا ہے.. ۲۲۹

۲۵۸

یقین کو متزلزل کرنے والے امور ۲۳۱

۱۔ شک و شبہ ۲۳۱

۱۔ شک و شبہ ۲۳۳

۲۔ گناہ ۲۳۵

یقین کھودینا ۲۳۷

تحصیل یقین کے ذرائع ۲۳۹

۱۔ کسب معارف.. ۲۳۹

۱ ۔ کسب معارف.. ۲۴۰

۲۔ دعا اور خدا سے راز و نیاز ۲۴۱

۳- تہذیب و اصلاح نفس. ۲۴۴

نتیجۂ بحث. ۲۴۷

۲۵۹