کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155920 / ڈاؤنلوڈ: 5070
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

روزۂ فکر

اسلام میں  خاموشی اور سکوت کے روزے کا وجود نہیں ہے جیسا کہ راتوں کو کہانے پینے سے پرہیز کرتے ہوئے رات کے روزے کا کوئی معنی نہیں ہے ۔ لیکن جو عالی و بلند معنوی مقام و مراتب کےحصو ل کی جستجو میں ہیں ، وہ چپ کا روزہ رکہنے کی بجائے فکر کا روزہ رکہتے ہیں اور اپنے ذہن کو زشت وناپسندیدہ افکار سے آلو دہ نہیں کر تے ۔ یہ خاندا ن رسالت  علیہم  السلام   سے ہم تک پہنچنے والا ایک دستور ہے ۔حضرت علی (ع) فر ما تے ہیں :

''صیام القلب عن الفکر فی الاثام افضل من صیام البطن عن الطعام  '' (۱)

گنا ہوں کے بارے میں فکر کرتے ہوئے دل کا روزہ ،خوراک سے پر ہیز کرتے ہوئے پیٹ کے روزے سے افضل ہے  ۔

اگرخود کوبرے افکار سے آلودہ نہ کریں تو یہ گو یا گناہوں اور نا پسندید ہ اعمال کے لئے بیمہ ہے ۔ اس صورت میں فکر شفاف و درخشان آئینہ کی مانند آ پ کو واقعیت و حقیقت دکہا ئے گی ۔ روزہ فکر نجات لئے موثر ترین اور بہترین راہ انسان کے اختیار میں ہے اور یہ سیر معنوی کے لئے انسان کو کامران و کامیاب کرتا ہے ۔ فکر کا روزہ انسان کی روح کو عالم معنی کی بیکراں فضا میں پرواز کروا تا ہے اور اسے ترقی و پیشرفت کی اوج تک پہنچا تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۴ص  ۲۱۴

۲۱

اگر آپ فکر کا روزہ رکہنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ شیطان کو شکست دے سکتے ہیں اگر چہ مومنین کے لئے شیطان کی دشمنی بہت ضعیف ہے اور انسان کی گمراہی کے لئے اس کی قدرت و طاقت بہت کم ہے ۔ لیکن وہ انسانوں کے سر کش نفس سے استفادہ کر تا ہے کہ جو ہمیشہ انسانوں کے ہمرا ہ ہے ۔ وہ انسانوں کے نفس میں وسوسہایجاد کرکے نفس کو اپنا ہم عقیدہ بنا لیتا ہے اور نفس کی مدد سے انسان کی ہستی کو تباہ کر دیتا ہے اور دونوں جہانوں کی سعادت سے دور کر د یتا ہے ۔ شیطانی وسواس اور نفس کی غلامی سے نجات کا راستہ دنیاوی افکار کی نفی ہے  جو اپنے نفس کو دنیاوی افکار سے بچالے وہ برے اعمال اورگناہوں کا مرتکب نہیں ہو تا ۔ اس طرح اسے جاویدا نی سعادت حاصل ہو تی ہے ۔ کیو نکہ صحیح و سالم فکر انسان کو غم و اندوہ اور دنیاوی افکار سے نجات دیتی ہے کہ جو افکار انسان کی سعادت و خوشبختی کو ویران کرتی ہیں ۔

۲۲

صحیح و سالم فکر کے طریقے

۱۔ دقت اور  سوچ سے فکر کو  سالم کر نا

دقت و تامل ، افکار کی بر رسی ، تصحیح فکر اور فاسد فکر کو ختم کرنے میں مہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ خدا کے مقرب ملک جبرائیل امین پیغمبر اکرم(ص) کے لئے مناجات لائے تا کہ وہ امت کے لئے مورد استفادہ قرار پائے ان مناجات میں ہے :

'' والهمتنی رشدی بتفضلک و اجلیت بالرجاء لک قلبی وازلت خدعة عدوی عن لبّی و صححت با لتامل فکری ''(۱)

پرور دگار ا تو نے اپنے فضل سے میری ہدایت کا الہام فرمایا ، تجہ سے امیدواری نے میرے دل کو جلا بخشی اور تامل کے ذریعہ میری فکر کو سالم کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ بحا ر الانوار :ج۹۵ص  ۶۳ ۱

۲۳

۲ ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا

فکر کی تصحیح اور تامل پر قدرت کے لئے پر خوری سے پر ہیز و خود داری کر نا بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ کہانا ، پینا اگر اعتدال کی حدسے بڑہ جائے تو یہ فکر کو فاسد کرنے میں اثر انداز ہو تا ہے ۔ آ سائش فکری ، آسائش جسمی سے مرتبط ہے ۔

فکر اس صورت میں آسائش و راحت میں ہو گی کہ جب پر خوری کا احساس نہ ہو ۔ اس وقت انسان کو ذہن زشت و شیطانی افکار کے طغیان سے محفوظ رہے گا ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اقتصر فی اکله کثرت صحته و صلحت فکرته ''(۱)

جو کہا نے میں لازم حد تک اکتفا کرے ، اس کی صحت جسمی بیشتر ہو گی اور فکر میں اصلاح  ہوگی ۔

پر خوری کی وجہ سے بدن کے بخا رات زیادہ ہو کر دماغ کی طرف جا تے ہیں اور شیاطین کے نفوذ کی قدرت بڑہ جا تی ہے اسی وجہ سے فاسد افکار اور شیطانی وسوسے بہی زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ زیادہ کہانے سے پر ہیز کی صورت میں بدن کے بخا رات کم ہو کر نفوذ شیاطین کے راہ بہی کمتر ہو جاتے ہیں پہر وسوسہ شیطانی اور فاسد افکار کم ہو جاتے ہیں اور فکر اصلاح پا  تی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص  ۲ ۷ ۳

۲۴

۳ ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے  پر ہیز کرنا

صحیح و سالم فکر کے لئے ایسے افراد سے پر ہیز کرنا ضروری ہے کہ جو فکری اشتبا ہات کا شکار ہوں ۔ زود باور افراد سے کنارہ گیری و دوری انسان کو ان کے فکری اشتبا ہات سے محفوظ رکہتی ہے  جلدی باور کرنے والے سادہ لوح افراد اور جو لوگ جلدی دوسروں سے فریب کہا جائیں وہ فکری لحاظ سے ضعیف و کمزور ہو تے ہیں ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من ضعفت فکرته قویت غرّته ''(۱)

جس کی فکر ضعیف ہو ، اس کا فریب کہانے کا امکان قوی ہو جاتا ہے۔

 ضعیف فکر انسان کے دہو کا کہا نے کے امکا نات مہیا کر تی ہے ۔ کیو نکہ جب ایسے افراد میں  غور وفکر کی قدرت کم ہو تو ان میں وہم و خیال کی قوت زیادہ ہو جاتی ہے اسی لئے وہ دوسروں کی رائے اور نظریات کو جلدی قبول کر لیتے ہیں کیو نکہ وہم و خیال کا غلبہ قبول کرنے کی حالت کو ایجاد کر تا ہے لیکن سوچ و فکر دلیل و برہان اور قبول کرنے کی حالت کو شرائط کے ساتہ تسلیم کر تی ہے اسی وجہ سے تعلیمات وفرمائشات اہل بیت عصمت و طہارت میں فکری لحا ظ سے ضعیف افراد سے مصاحبت و واسطہ سے منع کیا گیا ہے تا کہ ان کی صحبت و ہمنیشی کی وجہ سے ان کے اشتبا ہا ت دوسروں تک سرایت نہ کریں ۔ تمرکز فکر، غور وفکر کی قدرت میں اضا فہ کا با عث ہے ۔جو کوئی  غور و فکر کر رہا ہو اس کے لئے ذہنی اطمینان و آرام و سکون ہونا ضروری ہے کیو نکہ تشویش ذہنی ، تمر کز فکر سے مانع ہے پس جب فکر متمر کز نہ ہو تو اس کی قدرت کم ہو جائے گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص  ۸۰ ۲

۲۵

تمر کز فکر کے لئے پر سکون اور آرام دہ محیط و ماحول ہو جو محیط فکر کو پرا کندہ کرے ، اسی طرح ہیجان اور روحی آشفتگی کے وقت بہی فکر کومکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتے ۔

اگر تمرکز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے تو قوی و قدرتمند فکر حاصل ہو گی ۔ کیو نکہ اس میں کوئی شک وتردید نہیں کہ تمرکز فکر کی قدرت کو کئی حد تک بڑہا تا ہے ۔ لہذا تمر کز فکری کا طریقہ سیکہیں اور اس کے موانع کو بر طرف کریں ۔

تمر کز فکر انسان کے باطنی و روحی حالات سے حاصل ہو تا ہے ۔ لہذا اسے بہت تیزی سے حاصل کرنے کے لئے تمرین و مشق کریں تا کہ وقت کے ساتہ ساتہ ہم میں یہ قدرت ایجاد ہو سکے ۔ جب تمر کز فکر کی قدرت پیدا ہو جائے اور اس سے استفادہ کریں تو آپ کے لئے کامیابی تک پہنچنے کے راستے کہل جائیں گے ۔

بہت سے دانشمند و طالب علم نوابغ کی حالت میں غبطہ و حسادت کا شکار ہو جاتے ہیں کیو نکہ وہ ذہین نہ ہونے کی وجہ سے  پریشان ہو تے ہیں   جب  کہ بعض مصنفین معتقد  ہیں :

'' ایک ذہین اور عادی یا عام فرد کی فکر میں فرق ہے کہ ذہین  شخص اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ قرار دیتا ہے ۔ آپ بہی اپنے ذہن کو خاص اور بیشتر طریقہ سے مورد استفادہ  قرار دینے پر قادر ہیں '' ۔

بعض گمان کر تے ہیں کہ ذہین افراد بچپن سے ہی غیر معمولی حافظے کے مالک ہو تے ہیں لیکن ان کی یہ سوچ درست نہیں ہے کیو نکہ بہت سے ذہین افراد میں بڑے ہونے تک ذہانت نامی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی ۔ حتی کہ بعض اپنے والدین اور تربیت دینے والوں کی نظر میں بچگا نہ ذہن کے مالک تہے ۔ آئن سٹائن کہ جو اس دنیا میں ایک ذہین ترین فرد کے طور پر پہچا نا جا تا ہے ، وہ بہی ان ہی افراد میں سے ایک تہا ۔

۲۶

بہت سے ذہین افراد نے اپنی ذہانت کو اپنی عمر کے آخری حصوں میں نکہا را اگرچہ بعض ذہین افراد میں ذہانت کی علامات بچپن ہی سے جلوہ گر ہوتی ہیں ۔

لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ تمام ذہین افراد میں ذہانت کی علامات ونشانیاں بچپن سے آشکار ہو تی ہیں کیو نکہ جس طرح ہم نے عرض کیا کہ ممکن ہے کہ انسان قوہ فکری سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جدید ، فوق العادہ اور استثنائی شخصیت کا مالک بن جائے ۔

تمر کز فکر ذہنی و  فکری قوة اور قدرت فکر سے بیشتر استفادہ کرنے کاایک موثر ذریعہ ہے ۔ فکر اور تمرکز فکر اس قدر اہم ہے کہ ہم نے ابہی تک اس کے ہزا روں میں سے ایک راز کو بہی دریافت نہیں کیا۔ افکار کو تجسم دینا اور فکری موجود ات کو ایجاد کرنا فکر کے نا شناختہ مسائل میں سے ایک ہے جس طرح ہم روح کی حقیقت کو نہیں جانتے اسی طرح حقیقت فکر بہی ہمارے لئے مجہول ہے۔ کیو نکہ غور وفکر کا سرچشمہ  انسان  کی روح ہے ۔ کیو نکہ جو انسان اپنی روح کو کہودے وہ تفکر و تدبر پر قادر نہیں ہے ۔ بس روح سے فکر جنم لیتی ہے اور ذہن ایک وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ روح انسان کے غور وفکر کو ظاہر کرتی ہے۔ جس طرح آنکہ روح کے لئے وسیلہ ہے کہ انسان تسلط روح کے ذریعہ آنکہوں سے اشیاء کو دیکہتا ہے ۔

۲۷

نتیجۂ بحث

آ پ غور و فکر اورتفکر و تعقل کے ذریعہ دنیا کے  عالی ، عظیم ترین اور قیمتی  خزانوں کو اپنے ذہن سے نکالیں  اور تامل و دقت کے ذریعہ اپنی افکار سے پر ارزش گوہر حاصل کریں کہ جس کے سامنے بہت سے قیمتی خزانے کوئی قیمت نہیں رکہتے ۔  اپنی فکر کو متمر کز کریں اور تمر کز فکر کی قدرت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی عقلی و ذہنی قوت کی افزائش کریں ۔ غور وفکر کے ذریعہ آپ نہ صرف ذہین اور ا پنے آگاہ ضمیر میں تبدیلیاں ایجاد کر سکتے ہیں ۔بلکہ آپ اپنے اس ضمیر میں بہی تبدیلی لا سکتے ہیں کہ جو اپنے سے آگاہ نہیں ہے ۔فکر آپ کے نفس و روح کے لئے مقناطیس ہے کیو نکہ آپ جس موضوع کے بارے میں سوچیں وہ آپ کو اس کی طرف جذب کرے گا ۔

تفکر کے ذریعہ فضائل ومناقب اہل بیت علیہم السلام سے اپنی روح کو بلندیوں پر لے جائیں تا کہ اس خاندان وحی کے لئے مجذوب بن سکیں ۔اس کائنات ، ملکوت آسمان و زمین اور آیات الٰہی سے آشکار عظمتوں میں تدبر و تامل سے آپ میں عظم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے ۔اشتبا ہات فکری کے شکار افراد کی صحبت و ہمنشینی سے گریز کریں اور عالی و بزرگ فکر کے مالک افراد کی مجلس میں بیٹہیں ۔

بہ یک تدبیر نیکو آن توانکرد

کہ نہ تو ان با شپاہ بیکران کرد

بہ رأیی لشکری را بشکنی پشت

بہ شمشیری یکی تا دہ تو ان کشت

ایک اچہی سوچ و فکر وہ کام بہی کر سکتی ہے کہ جسے بہت بڑا لشکر بہی انجام نہیں دے سکتا ۔   رائے ونظریہ کے ذریعہ لشکر کو شکست و مات دے سکتے ہیں لیکن تلوار کے ذریعہ ایک سے دس افراد کو ہی قتل کیا جاسکتا ہے ۔

۲۸

دوسراباب

مشورہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' افضل من شاورت ذو التجارب ''

تجربہ کار سے مشورہ کرنا سب سے بہتر ہے  ۔

    مشورہ کرنے کی ضرورت

    مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

    کس کے ساتہ مشورہ کریں ؟

    مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

    مشورہ نہ کرنے کا انجام

    نتیجۂ بحث

۲۹

مشورہ  کرنے  کی  ضرورت

سعی و جستجو اس صورت میںمفید ثابت ہو تی ہے کہ جب وہ صحیح راہ پر قرار پائے اور اس کا درست نتیجہ ہاتہ آئے ۔ اگر انسان کی فعالیت و کوشش صحیح شرائط کے ساتہ انجام نہ پائے تو اتلاف عمر اور تہکاوٹ کے علاوہ کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔ لہذا ہر کام اور پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے اس پر دقت کریں اور کامیا بی وناکامی کی تمام شرائط کی تحلیل و بررسی کریں ۔ اس کے بعد اگر آپ دیکہیں کہ اس کام سے اچہا اور عالی نتیجہ حاصل ہو رہا ہے تو اس کام کا آغاز کریں اگر اس کام کا نتیجہ آپ کے لئے روشن نہ ہوسکے تو کسی ایسے شخص سے مشورہ طلب کریں کہ جو آ پ کا ہمدرد ، دلسوز اور اس مسئلہ سے مطلع وآگاہ ہو پہر اگر اس کام میں کوئی صلاح دکہائی دے تو اس کام کا آ غاز کریں ۔

حضرت رسول اکرام(ص) ایک روایت میں فرماتے ہیں :

'' تَواضع للّٰه ، یَر فَعکَ اللّٰه وَلاَ تَقضیَنّ الاَّ بعلمٍ فَانّ اشکل علیک امر فسل ولا تستحیی ، واستشر ثمّ اجتهد فانّ اللّٰه عزّ وجلّ ان یعلم منک الصدق یوفقک ''(۱) خدا کے لئے تواضع کرو، تا کہ خدا تمہیں سر بلند کرے اور تم قضاوت نہ کرو مگر جس کے بارے  میں تم علم و آ گاہی رک ھ تے ہو ۔ پس اگر کوئی امر تمہارے لئے مشکل ہو تو اس کے بارے میں سوال کرو اور سوال کرنے میں مت شرماؤ، اس کے بارے میں مشورہ کرو اور پ ھ ر اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو، کیو نکہ خداوند متعال اگر تم میں صداقت جانے تو تمہیں کامیاب فرما ئے گا ۔جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا : '' مشکل امور میں دوسروں سے پوچ ھ و اور مشورہ کرو اور اس کے بعد اس کام کو انجام دینے کی کوشش کرو ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۲۱ص  ۴۰۸

۳۰

مشورہ ترقی و پیشرفت کااہم ذریعہ

جو معنوی مقام کی اوج پر اور بندگی خدا وند کے عا لی در جات پر فائز ہیں اور جو راہ کمال کے حصول کے لئے کوشاں اورتقرب اہل بیت کی جستجو میں ہیں وہ یہ جان لیں کہ مشورہ عظیم لوگوں کی ترقی وپیشرفت میں بہت اہم کردار کاحامل ہے ۔ اب جنہوں نے معنوی سفر کا آغاز کیا ہے اور جو آیات وروایات اور اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے ارشادات سے نا واقف ہیں کہ جو انسان کو سید ھ ا راستہ دک ھ اتی ہیں ۔ لہذا وہ کسی عاقل ، متقی اور فہمیدہ انسان سے مشورہ کریں اور ان کے تجربات اور رہنمائی سے استفادہ کریں ۔ ایسے بزرگ افراد سے مشورہ کریں کہ جو نعمت علم و فہم سے آراستہ ہوں اور جن کو صحیح راستہ مل گیا ہو اور اس پر گامزن ہوں نہ کہ ان لوگوں سے مشورہ کریں کہ جو آد ھ ے راستے میں بیٹ ھ گئے ہوں اور کاروان کو ب ھ ی اس پر چلنے سے روکے رک ھ ا ہو ۔حضرت امیر المو منین  (ع) ایسے افراد سے مشورہ کو ہدف و مقصد تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہیں کہ جنہیں صحیح راستہ مل چکا ہو ۔'' لا ظهیر کا لمشاورة ''(۱)

انسان کے لئے مشورہ سے بڑہ کر کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

فتحی کہ جہاں از او گشادند       در بازوی مشورت نہا دند

گر عقل تو عقدہ می گشاید      با ناخن شور خوشتر آید

وہ فتح کہ جس کے ذریعہ دنیا کو فتح کیا وہ مشورہ کے ذریعہ سے حاصل ہو تی ہے  اور اگر آ پ کی عقل گرہ کہو ل سکتی ہے تو یہ ناخن کے ذریعہ گر ہ کہولنے سے بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۴

۳۱

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟

امام صادق (ع)  مشاور کی شرئط کے بارے میں فرماتے ہیں:

 ''استشیر العاقل من الرجال الورع ، فانّه لا یأمر االاَّ بخیرٍ ...''

عاقل مر دوں کے ساتہ مشورہ کرو کہ جو پر ہیز گار ہو ں ۔ کیونکہ وہ تمہاری راہنما ئی نہیں کریں گے مگر خیر و اچہا ئی کی طرف ۔اس امر سے بہی متوجہ رہیں کہ کبہی مشورہ ، مشورہ کرنے والے کے لئے بہت نقصان کا سبب بنتا ہے کہ جب بعض موارد میں یہ اسے گمراہی و ضلالت کے تاریک کنویں میں دہکیل دیتا ہے اسی وجہ سے خاندان وحی (ٕع) نے مشورہ کے بارے میں کچہ شرائط ذکر فر مائی ہیں تا کہ ایسی غلطیوں اور اشتبا ہات سے محفوظ رہ سکیں-آپ جس شخص سے مشورہ کرنا چا ہتے ہوں اس میں مشاور کی صلاحیت ہونی چاہئے اور اس سے جس موضوع کے بارے میں سوال کیا جائے وہ اس کے جواب کے لئے مکمل آ مادگی رکہتا ہو ۔ لہذا روایات اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کی تمام خصوصیات کامالک ہو ۔

امام صادق  (ع) فرماتے ہیں : '' شاور فی امور ک ممّا یقتضی الدین من فیه خمس خصالٍ عقل ،و حلم ، و تجربة ، ونصح ، و تقویٰ ''(۱)

اپنے امور میں کہ دین جن کا اقتضا ء کر تا ہے کسی ایسے سے مشورہ کرو کہ جس میں پانچ  خصوصیات موجود ہوں :

۱ ۔ عقل   ۲ ۔ حلم  ۳ ۔ تجر بہ  ۴ ۔ نصحیت کرنے والا   ۵ ۔ تقویٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۴

۳۲

مشکل مسا ئل میں فقط ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو فہمیدہ ، تجر بہ کار ، تقویٰ دار ، بردبار ، وحلیم اور اہل نصیحت ہو اور جن افراد میں یہ خصو صیات نہ ہو ان سے پر ہیز کیاجائے ور نہ ممکن ہے کہ انسان ہدایت کی بجائے ضلا لت و گمراہی میں مبتلا ہو جائے ۔ لہذا ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کے لئے آما دگی رکہتا ہو ۔

بہ ہر کار با کاروان راز گوی     در چارہ از رأیی او باز جوی

زدن با خداوند فر ہنگ رأیی    بہ فر ہنگ باشد تو ر اہنما ئی

امام صادق  (ع) ایک اور روایت میں ایسے شخص کو بیشتر شرائط بیان فرما تے ہیں کہ جس سے مشورہ کیاجائے:

'' انّ المشورة لاتکون الاَّ بحدودها، فمن عرفها والاَّ کانت مضرّ تها علی المستشیر اکثر من منفعتهاله ، فأ وّلها ان یکون الذی یشاوره عاقلاً ، والثانیة ان یکون حرّاً متدیناً ، والثالثة ان یکون صدیقاً مواخیاً، والرابعة ان تطلعه علی السرّک فیکون علمه به کعلمک بنفسک ، ثمّ یستشر ذالک و یکتمه فانّه اذا کان عاقلاً انتفعک بمشورته، واذا کان حراً متدیّناً جهد نفسه فی النصیحة لک ، و اذا کان صدیقاً مواخیاً کنتم شرک اذا طلعته علیه ، و اذا اطلعته علی سرک فکان علمه به کعلمک تمت المشورة وکملت النصیحة ''(۱)

مشورہ کی کچہ شرائط ہیں اگر کوئی اسے جان لے تو اچہا ہے ور نہ مشورہ کرنے والے کو فائدے سے زیادہ نقصان کا سامنا ہو گا ۔

۱ ۔ مشاور عاقل و فہمیدہ ہو ۔

۲ ۔ وہ آز اد اور متدین ہو ۔

۳ ۔ آپ سے برادرا نہ صدا قت رکہتا ہو ۔

۴ ۔ آپ اسے اپنے  راز سے آگاہ کریں تا کہ وہ  آپ کی طرح مورد مشورہ کیتمامپہلوؤں سے آگاہ ہو جائے  اور پہر اسے مخفی و پوشیدہ رکہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۵ص  ۱۰۳

۳۳

اگر وہ عاقل و فہمیدہ ہو تو اس سے مشورہ کرنا مفید ثا بت ہو گا اگر وہ آزاد و متدین ہو تو آ پ کو نصیحت کی سعی و کوشش کرے گا اور جب وہ برا درا نہ صداقت رکہتا ہو تو وہ آپ کے رازو ں کو پوشیدہ رکہے گا ۔ اور جب آپ اس کو اپنے راز بتا دیں کہ جس طرح آپ اس مسئلہ سے آ گاہ ہیں تو وہ آ پ کو کامل اور صحیح مشورہ دے گا ۔ پس نصیحت کامل ہو جائے گی ۔

   گویند کہ بی مشاورت کار مکن                                                الحق سخنی خوشست انکار مکن

لیکن بہ کسی کہ از غمت غم نخورد                                         گر در ز ذہن بریذد اظہار مکن

کہتے ہیں کہ مشور ہ کے بغیر کوئی کام نہ کرو اور حق یہ ہے کہ کسی اچہی بات کا انکار نہ کرو ، لیکن جو تمہارے غم میں غم خوار نہ ہو اگر وہ اپنے منہ سے موتی بہی نچہاور کرے  تو اس کا اظہار نہ کرو ۔

اس بناء پر بے  خبراور  نادان افراد سے مشورہ کرنا بہت خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جن میں مشاور کی شرا ئط نہ ہو ۔ کیو نکہ وہ انسان کو گمراہی و تبا ہی میں مبتلا کردے گا ۔

امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' لا تشاور من لا یصدّقه عقلک ''(۱)

جسے عقل قبول نہ کرے اس سے مشورہ نہ کرو  ۔

طبیبی کہ باشد و زرد رو ی     ازاو داوری سرخ روئی مجوی

جو طبیب خود ہی بیمار ہو اس سے صحت یابی کی امید رکہنا عقل مندی نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الا نوار:ج ۷۵ص  ۳ ۰ ۱

۳۴

مشورہ کے بعد اس پر عمل کریں

شائستہ افراد سے مشورہ کرنے میں آپ کا ہدف و مقصد ان کی رائے کو قبول کرنا ہو اور حقیقت مل جانے کی صورت میں اسے قبول کر کے اس پر عمل کریں نہ کہ فقط اس کی صحبت میں وقت گزار کر ، آگاہ افراد کی نصیحت کو ان سنا کر کے فراموش کر دیں ۔ کیو نکہ اس صورت میں افسوس و پریشانی آپ کا استقبال کرے گی ۔

حضرت امیر المو منین (ٕع)  فرما تے ہیں :

'' اما بعد فانّ معصیة الناصح الشفیق العالم لمجرب تورث الحسرة و تعقب الندامة '' (۱)

شفیق ومہر بان ، عالم و صاحب تجر بہ نصیحت کرنے والے شخص کی مخالفت کے بعد حسرت و پشیمانی حاصل ہو گی۔

 اس بناء پر اگر آپ کسی آگاہ و شائستہ شخص کی صحبت میں بیٹہ کر اس کی نصیحتوں کو سنیں اور اس کی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کر نے کے لئے کمر ہمت باندہ لیں تو آپ سعا دت مند ہو جائیں گے اور پہر   آپ پشیمانی ، افسوس اور فکری پریشانی کا شکار نہیں ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ خطبہ: ۳۵

۳۵

مشورہ نہ کرنے کا انجام

مختلف کاموں میں مشورہ نہ کر نے کی وجہ لاعلمی و نا آگا ہی ہے یا اس کی وجہ استبداد رائے ہے ۔ یعنی جو اپنے کردار و رفتار کو سو فیصد صحیح اور بے اشکال سمجہے اور کسی سے مشورہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو ، وہ استبداد رائے میں مبتلا ہے ۔ ایسے افراد اس صفت کی وجہ سے اپنے کو خطرے میں ڈالتے ہیں حضرت علی(ع)نے  نہج البلاغہ میں فرمایا:

''والاستشارة عین الهدایة و قد خاطر من استغنیٰ برأیه ''(۱)

مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور اگر کوئی اپنی شخصی رائے کی وجہ سے اپنے کو دوسروں سے مستغنی سمجہے تو وہ اپنے کو خطرے میں ڈالتا ہے ۔دنیا کے بہت سے حکمرا نوں میں غرور ، استبداد رائے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے جس کی وجہ سے وہ کبہی اپنے اور کبہی اپنی مملکت کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے کائنات میں منصب امامت کے لئے پہلے شائستہ ترین امام حضرت علی  (ع) نے فرمایا :جو اپنے کو اپنی شخصی رائے کی وجہ سے دوسرو ں سے بے نیاز و مستغنی سمجہے وہ اپنے کو خطرے میں مبتلا کر تا ہے ۔اس بناء پر جو دوسروں کے ساتہ مشورہ کر نے کو بیٹہنے کے لئے تیار نہ ہو اور جو اپنی رائے و عقیدے کو دوسروں سے بہتر و بر تر سمجہتا ہو ، وہ اپنی رائے میں استبداد رکہتا ہے جو کہ ہلا کت و نابودی کو سبب ہے کیو نکہ ایسا شخص کسی کام کو بہی انجام دیتے وقت دوسروں سے اپنی شخصی رائے اور عقیدے کے علاوہ کسی اور راہ کا انتخاب نہیں کرتا اگر چہ اس کا منتخب کیا ہوا راستہ غلط ہی کیوں نہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار: ۲۰۲

۳۶

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' من استبدّ برأیه هلک و من شاور الرجال شارکها فی عقو لها ''(۱)

جو اپنی رائے میں مستبدّ ہو ، وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور جو دوسرے لو گوں سے مشو رہ کرے گو یا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جا تا ہے  ۔

ان فرامین و ارشادات سے یہ استفادہ کرتے ہیں کہ جو کسی کام میں مشورہ نہیں کر تا اور استبداد رائے کا مالک ہو وہ بہت بڑے نقصان کا متحمل ہو تا ہے اور جو دوسروں سے مشورہ کر تے ہیں وہ نہ صرف ہلاکت سے رہائی پاتے ہیں بلکہ صاحبان نظر کی عقلوں میں بہی شریک ہو تے ہیں ۔

بنای کار خود را با مشاورت ننہی                                    نہ حق شرع گذاری نہ داد عدل دہی

مکن غرور و بکن مشورت بہ اہل خرد                         کہ در مشاورت از سہو و از خلل برہی

اگر اپنے کاموں کی بنیاد مشورے کے ذریعہ نہیں رکہو گے تو آپ کو نہ ہی تو شرع گزاری کا حق ہے اور نہ ہی فیصلہ اور عدل کرنے کا ۔ غرور نہ کرو بلکہ اہل عقل و خرد سے مشورہ کرو کیو نکہ مشورے سے سہو و خلل کے ذریعہ نجات پا سکتے ہیں ۔

مادی مسائل میں بہی کبہی مشورہ نہ کر نے سے ناقبل جبران نقصان ہو تا ہے اب نمونہ کے طور پر ایک مورد کو ذکر کرتے ہیں : جب سب لوگ سونے کی تلاش و جستجو میں تہے تو '' داربی '' نامی شخص کے ایک چچاکو بہی سونے کی ہوس کا بخار ہو گیا اس نے غرب کا رخ کیا تا کہ زمین کہود کر مال و ثروت حاصل کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلا غہ ، کلمات  قصار:۱۵۲

۳۷

اس نے یہ نہیں سنا تا کہ انسان کے ذہن میں موجود سونا ، زمین میں مخفی سونے سے بیش قیمت ہے وہ اجازت نا مہ لے کر بیلچہ اٹہا ئے زمین کو کہود نے لگا ایک ہفتہ کی کوشش کے بعد وہ سونے کی سطح تک پہنچ گیا اب سے کسی وسیلہ و آلہ کی ضرورت تہی کہ جس کی مدد سے وہ زمین کا سینہ چیر کر سونے کو نکال سکے اور کسی کو اس کی خبر بہی نہ ہو ۔ لہذا اس نے اس معدن کو چہپاد  یا اور واپس اپنے شہر چلا گیا اس نے اپنے رشتہ داروں اور بعض ہمسایو ں کو بتایا ، وہ سب جمع ہوئے اور انہوں نے مل کر زمین کہود نے کے لئے ایک مشین خریدی اور سونے کی کان والی جگہ آگئے '' داربی'' اور اس کے چچا کام میں مصروف ہوگئے جب انہوں نے وہاں زمین کہود کر مٹی کا پہلا ٹرک نکا لا تو معلوم ہوا کہ انہیں سونے کی بہت بڑی کان ملی ہے سونے والی مٹی کے چند ٹرک نکالنے کے بعدانہو ں نے تمام قرض ادا کر دیئے اور پہر انہیں بہت زیادہ منافع بہی ہوا وہ جتنی زمین کہودتے داربی اور اس کے چچاؤں کی ہوس بڑ ہ جاتی یہاں تک کہ سونے کی وہ سطح گم ہو گئی اور پہر سونے کی کان کے کوئی اثرات نہ ملے لیکن انہوں نے اپنے کام کو جاری رکہا مایوسی کے عالم میں بہی انہوں نے سونے کی تلاش کے لئے نئے سرے سے آغاز کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے لہذا انہو ں نے ارادہ کیا کہ اب اس کام سے ہاتہ اٹہا لیں ، انہوں نے زمین کہود نے کی مشین چند سو ڈالر میں فروخت کردی اور ریل کے ذریعہ اپنے علاقے میں واپس آ گئے ۔

جس نے وہ مشین خریدی ، اس نے ایک انجینئر سے تقاضا کیا کہ وہ معدن کا معائنہ کرے انجینئر نے بتایا کہ زمین کہود نے والے معدن کے اصو لوں اور قوا نین سے نا آشنا تہے اور وہ ہار کر واپس چلے گئے ۔ انجینئر نے بتا یا کہ انہوں نے جس جگہ کام چہوڑا تہا اس سے۹۰ سینٹی میٹر کے فاصلے پر سونے کی سطح ہے لیکن وہ ہار کر واپس لوٹ گئے ۔

جس شخص نے زمین کہود نے کی مشین خریدی تہی وہ ایک بہت اہم حقیقت سے واقف تہاکہ کسی چیز میں ہار ماننے اور کام کو چہوڑ نے سے پہلے اس کے ماہر سے مشورہ   کرناضرور کریں ۔

۳۸

نتیجۂ بحث

مادی و معنوی امور میں آگاہ ، فہمیدہ و پر ہیز گار شخصیات سے مشورہ ترقی و پیشرفت کا ذریعہ ہے ایسے افراد سے مشورے کے ذریعہ آپ ان با صلا حیت و صاحب نظر افراد کے افکار و تجربات سے مستفید ہو سکتے ہیں ان کی راہنما ئی سے استفادہ کر تے ہوئے آپ اپنے کو حیرت و سر گردا نی سے نجات دے سکتے ہیں ۔ ان کے خدا پسندا نہ نظریات کی مدد سے عظیم اہداف سے آشنا ہو کر ان عالی اہداف و مقاصد کے لئے قدم بڑہا ئیں ان دلسوز او ر بزرگ افراد سے مشورہ کر کے ان کی سالہا سال کی زحمت اور تلاش و کوشش سے استفادہ کریں ۔

با صلاحیت افراد کے  مشورہ سے استفادہ کر کے ان کی فکر سے مستفید ہوں اور اعلیٰ اہداف کی اہمیت و ارزش سے آگا ہ ہو ں اور ان اہداف تک پہنچنے کی تلاش و جستجو کریں تا کہ آئندہ افسوس اور پشیمانی میں دچار نہ ہوں۔

مشاورت تر ک کر نے سے نہ صرف معنوی مسائل بلکہ مادی امور میں بہی نا قابل تلافی نقصان ہو تا ہے  پرہیز گار و بزرگ افراد سے مشورہ آپ کی شکست کے لئے مانع ہے ۔

ہر کہ بی مشورت کند تد بیر    غالباً بر ہدف نیاید تیر

بیخ بی مشورت چو بنشانی       بر نیار د بہ جز پشیمانی

جو بہی مشورہ کے بغیر تدبیر کرے تو غا لباً اس کا تیر نشانے پر نہیں لگتا ۔ اور اگر کسی چیز کی مشورہ کے بغیر بنیاد دکہو گے تو پشیما نی کے سوا کچہ حاصل نہیں ہو گا ۔

۳۹

تیسراباب

ہدف

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' جمیل المقصد یدلّ علیٰ طهارة المولد ''

خوبصورت ( با ارزش ) ہدف مولد کی طہارت پر دلالت کرتا ہے ۔

    بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

    ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

    انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

    مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

   ۱ ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

    ایک نکتہ کا تذکر

   ۲ ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

   ۳ ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

   ۴ ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

   ۵ ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت سے توسل

    نتیجۂ بحث

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دسواں جعلی صحابی ربیع بن مطربن ثلج تمیمی

صحابی ، شاعر اور رجز خوان

ربیع بن مطر کی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے ابن عساکر لکھتا ہے :

ربیع بن مطر ایک ماہر رزمیہ شاعر تھا ، جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔ربیع ،دمشق بیسان اور قادسیہ کی جنگوں کے دوران اسلامی فوج میں حاضر تھا اور اس نے اس سلسلے میں

اشعار کہے ہیں ۔

ابن عساکرمزید لکھتا ہے :

سیف بن عمر سے روایت ہے کہ ربیع بن مطر نے بیسان کی جنگ میں اس طرح اشعار

کہے ہیں :

'' میں نے بیسان کی جنگ میں قلعوں میں مستقر ہوئے لوگوں سے کہا کہ جھوٹے وعدے کسی کام کے نہیں ہوتے ۔

اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہناپسند نہ کریں گے !

اے بیسان !آرام سے ہو اور اکڑو مت !صلح کا انجام بہتر ہے اسے قبول کرو !

اب جب کہ قبول نہیں کرتے ہو اور بیوقوفوں کی طرف سے سراب کے مانند دی گئی امیدوں کی خوش فہمی میں مبتلا ہو چکے ہو تو اسی حالت میں رہو ۔چوں کہ انھوں نے جنگ کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں کیا ،ہماری اس جنگ ۔ جس سے ہم کبھی منہ نہیں موڑتے، کی بلائیں ان کے سر پر پے در پے نازل ہوئیں ۔

ہم نے ان کا قافیہ ایسے تنگ کر دیا کہ وہ طولانی بد بختیوں ، مصیبتوں اور تاریکیوں سے دو چار ہوئے

۱۸۱

ہم نے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی مگر یہ کہ ہمارے قبیلہ نے اس کے افتخارات کو خصوصی طور پر اپنے لئے ثبت کیا ہو۔

جب وہ بے بس ہوئے تو انھوں نے ہم سے معافی مانگی ،پھر ہم نے آدھے دن کے اندر ہی ان کے بزرگوں اور سرداروں کو بخش دیا۔

سیف کے کہنے کے مطابق ربیع نے طبریہ کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

ہم ان کی سرحدوں پر قبضہ کرتے ہیں اور ہم ان کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔

وہ ڈرکے مارے اپنے گھروں کے اندر پائے جانے والے ہر سیاہ نقطہ پر تلوار او ر نیزہ سے حملہ کرتے ہیں ۔

ہمارے جوانوں نے بلندیوں سے اترتے ہوئے گروہ گروہ کی صورت میں ان پر حملے کئے اور وہ ڈر پوک ایسے بھاگ رہے تھے جیسے ان پر بجلی گرنے والی ہو ۔

جب ان پر خوف و دحشت طاری ہو گئی تو ہم نے انھیں جھیل کے نزدیک ہونے سے روکا۔

دمشق کی روئداد کو نظم کی صورت میں یوں بیان کرتا ہے :

حمص کے شہر اور رومیوں کے مرغزاروں میں رہائش کرنے والوں سے پوچھ لو کہ انھوں نے ہماری کاری ضرب کو کیسی پائی؟

یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے ان تک پہنچے ۔

ہم نے مر غزاروں میں ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے ، اس حالت میں رومیوں نے اپنے مقتولوں کو چھوڑ کر فرار اختیار کیا ۔

عربی گھوڑے ان کو میدان کار زار سے ایسے لے کے بھاگ رہے تھے کہ اپنی جان کی قسم میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کرسلتا تھا ۔

ان گھوڑوں نے انھیں ان کے مقصد و آرام گاہ حمص تک پہنچادیا ۔

ربیع بن مطر نے قادسیہ کی جنگ ،اسلام کے دلاوروں کی توصیف اور میدان جنگ سے فرار کرنے والے ایرانیوں کی تعقیب کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

جب میدان دشمنوں سے کھچا کھچ بھرا تھا تو ،عاصم بن عمرو ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا

۱۸۲

یا اس مرد مہمان نواز کی طرح ، سبوں کو حیرت میں ڈال کر ہرمزان کی اس شان و شوکت کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ۔

میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ حنظلہ نے نہر میں ایرانیوں پر حملہ کرکے ان کے کشتوں کے پشتے لگادئے ۔

یہی وقت تھا جب سعد وقاص نے بلندآواز میں کہا : جنگ کا حق صرف تمیمیوں نے اد ا کیا ہے ۔

یہی وہ دن تھا جب ہمیں انعام کے طور پر اچھے نسل کے گھوڑے ملے اور ایسے انعام حاصل کرنے میں ہم دوسرے لوگوں پر مقدم تھے ۔

ابن حجر بھی اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ربیع بن مطر کے بارے میں لکھتا ہے :

اس ربیع بن مطر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔سیف نے اپنی کتاب فتوح میں دمشق ، قادسیہ اور طبرستان جیسے شہروں کی فتح کے بارے میں اس کے کافی اشعار درج کئے ہیں ۔ منجملہ طبرستان کی فتح کے بارے میں لکھے گئے اس کے اشعار حسب ذیل ہیں :

ہم سرحدوں پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں ہم ان لوگوں کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔

چوں کہ ان پر جنگ کا خوف طاری تھا اس لئے ہم نے ان کو جھیل کے نزدیک جانے سے روکا ۔

ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

ابن عساکر بھی کہتا ہے کہ اس ربیع بن مطر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچاہے ۔

ان دو دانشوروں ابن عساکر اور ابن حجر نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس خیالی شاعراور صحابی کے دمشق ،بیسان اور طبرستان کی جنگوں میں شرکت کرنے کا یقین کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور سیف نے اس کی زبانی اپنے خاندان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے بارے میں کہے گئے اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ ہم نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا ہے کہ حقیقت میں خاندان تمیم والے ان قبیلوں میں سے نہیں تھے ،جنھوں نے اپنے وطن عراق سے باہر قدم رکھا ہو اور دیگر قبیلوں کے دوش بدوش شام کی جنگوں میں شرکت کی ہو ۔

ابن عساکر نے اپنی تاریخ (٥٣٥١)میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے

۱۸۳

لکھا ہے :

تمیمیوں کا وطن عراق تھا ،انہوں نے اپنی اسی جائے پیدائش پر ایرانیو ں سے جنگ کی ہے ۔

چونکہ طبری اور ابن عساکر نے فتوحات کی داستانوں میں سیف کے اس افسانوی شاعر و صحابی کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے ،لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ سیف نے ''ربیع ''کو صرف ایک سخن ور شاعر خلق کیا ہے اور اسے ان فتوحات کی شجاعتوں اور دلاوریوں میں شریک قرارنہیں دیا ہے۔

ربیع کے باپ اور دادا کے نام میں غلطی

کتاب ''تجرید ''میں سیف کے شاعر ''ربیع ''کو اس طرح پہچنوا یا گیا ہے

ربیع بن مطرف تمیمی

''تاج العروس ''کے مؤ لف زبیدی نے بھی کتاب ''تجرید ''کی پیروی کرتے ہوئے لفظ ''ربع''کے بارے میں یوں لکھا ہے :

''امیر ''کے وزن پر ''ربیع ''اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے پانچ صحا بیوں کانام تھا

اس کے بعد ایک ایک کرکے ان کے نام لینے کے بعد لکھتا ہے :

...ایک اور ربیع بن مطرف تمیمی شاعر ہے جس نے دمشق کی فتح میں شرکت کی ہے ۔

ابن عساکر کی کتابوں ''اصابہ ''اور ''تہذیب ''میں سیف کا یہ افسانوی شاعر وصحابی اس طرح پہچنوایا گیا ہے :

۱۸۴

ربیع بن مطربن بلخ

ہم نے اس سلسلے میں ابن عساکر کی تاریخ کے قدیمی ترین قلمی نسخہ جو قدیمی ترین منبع ہے جس میں سیف کی احادیث کو مکمل اسناد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کو دیگر تمام مصادر سے صحیح تر جانا ۔اس نسخہ میں سیف کے اس خیالی شاعر کا یوں تعرف ہوا ہے :

ربیع بن مطر بن ثلج(۱)

اس ترتیب اور تسلسل کے ساتھ یہ زیبا و دلچسپ تعرف (اول ''ربیع ''پھر ''مطر ''اور پھر ثلج ) در حقیقت اصلی نام گزار یعنی سیف بن عمر تمیمی کے ادبی ذوق اور کارنامہ کی حکایت ہے ۔

اسی ترتیب سے یہ نام اردو میں حسب ذیل ہے :

بہار ولد بارش ،نواسہ ٔبرف !!

ابن ماکولا اپنی کتاب ''اکمال ''میں لفظ ''ثلج ''کے بارے میں لکھتا ہے :

اور مطر بن ثلج تمیمی وہ ہے جس کا نام سیف نے لیا ہے ۔

پھر تین سطروں کے بعد لکھتا ہے :

میرے خیال میں ربیع بن ثلج تمیمی شاعر مطر کا بھائی ہے ۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ماکولا نے مطر اور ربیع کو دو بھائی اور ثلج تمیمی کے بیٹے تصور کیا ہے ، جب کہ سیف ، جو خود ان کا خالق ہے ان دونوں کو باپ بیٹے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے ، جیسا کہ تاریخ بن عساکر میں ربیع بن مطر بن ثلج ذکر ہو ا ہے۔

ربیع بن مطر بن ثلج سے مربوط اس کی زندگی کے حالات اور اس کے اشعار کے بارے میں

____________________

الف ( ربیع: بہار مطر : بارش ثلج: برف

۱۸۵

پایا ،یہی تھا جس کا اوپر ذکر کیا ، چوں کہ ہم نے اس صحابی اور شاعر کا نام ان مصادر کے علاوہ کہیں نہیں پایا ، جنھوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں اس لئے اسے ہم سیف کے ذہن کی تخلیق اور جعلی جانتے ہیں ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے سیف کے بیان میں ایسا کوئی مطلب نہیں پایا جو ربیع بن مطر کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ہونے پر دلالت کرتا ہو !بلکہ احتمال یہ ہے کہ ابن عساکر نے ربیع کے بارے میں سیف سے جو اشعار اور دلاوریاں نقل کی ہیں وہ ہجرت کی دوسری دہائی سے مربوط ہیں اور اس زمانے میں واقع ہوئی جنگوں میں ربیع کی شرکت کی حکایت کرتے ہیں ۔ اس لئے ابن عساکر نے یہ نتیجہ نکلا کہ ربیع بن مطر اس زمانے میں ایک ایسا مرد ہونا چاہئے جو سن و سال کے لحاظ سے اتنا بالغ ہو کہ ان جنگں میں سر گرم طور پر شرکت کر سکے ۔ اس بنا ء پر ربیع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہوگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی محسوب ہونا چاہئے !!

اس افسانہ کا ماحصل

سیف نے ربیع بن مطر تمیمی کوخلق کرکے:

١۔ عربی ادبیات کے خزانے میں مزید اشعار اور دلاوریوں کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں ایک اور صحابی و شاعر کا اضافہ کیا ہے ۔

٣۔ آنے والی نسلیں سیف کی باتوں پر تکیہ کر کے اور ربیع کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار کے پیش نظر تصور کریں گی کہ قبیلہ تمیم کے افراد نے اپنے وطن عراق سے دور مشرقی روم کی جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور اس طرح قبیلہ تمیم کے گزشتہ افتخارات میں چند دیگر فخر و مباہات کا اضافہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کا شاعر ربیع کہتا ہے :

اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہنے میں بے دلی

۱۸۶

دکھائیں گے ۔

طبرستان کی جنگ میں ان کی شرکت کے بارے میں شہادت کے طور پر کہتا ہے :

یہ ہم تھے جنھوں نے انھیں شکست دینے کے بعد ان کے لئے (طبریہ) کے جھیل تک پہنچنے میں روکاوٹ ڈالی ۔

یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے ان تک پہنچے ۔

ان کا شاعر فریاد بلند کرتے ہوئے کہتا ہے :

تمام زمانوں میں کوئی ایسا میدان کارزار نہ تھا کہ ہم نے وہاں پر قدم نہ رکھا ہو اور تمام افتخارات اپنے لئے مخصوص نہ کئے ہوں ۔

یہاں تک کہ سپاہ اسلام کے سپہ سالار سعد وقاص کو جوش و خروش میں لاکراس کی زبانی

کہلواتا ہے :

اس قادسیہ کی جنگ میں تلاش و کوشش اور جوش و جذبہ صرف قبیلہ تمیم نے دکھایا ہے !!

افسانہ کے اسناد کی تحقیق

ابن عساکر نے ربیع بن مطر کے بارے میں اپنے مطالب کے اسناد کو سیف بن عمر تک پہنچایا ہے اور ان کے نام لئے ہیں ۔لیکن خود سیف نے اپنے اسناد اور راویوں کو تعرف نہیں کیا ہے جس کے ذریعہ ہم ان کے وجود یا عدم کے بارے میں تحقیق و جستجو کرتے ۔

ربیع کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما

١۔ ابن عساکر نے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں

٢۔ ابن حجر نے سندکے ساتھ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ۔

٣۔ ذہبی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تجرید '' میں ۔

٤۔ زبیدی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں ۔

٥۔ ابن بدران نے کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ۔

۱۸۷

گیارہواں جعلی صحابی ربعی بن افکل تمیمی

ربعی ، کمانڈر کی حیثیت سے

سیف بن عمر نے ربعی بن افکل کو خاندان عنبر اور قبیلہ بنی عمرو تمیمی سے خلق کیا ہے ۔

ابن حجر ، ربعی کی سوانح حیات کے بارے میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے ربعی کو حکم دیا کہ موصل کی جنگ کی کمانڈ سنبھالے ۔ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج تھا کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپاہ کی کمانڈ نہیں سونپی جاتی تھی ۔

سیف اپنی کتاب کی امیں جگہ پر لکھتا ہے :

عمر نے حکم دیا تھا کہ عبد اللہ معتم(۱) کی قیادت میں لشکر کے ہراول دستے کی کمانڈ ربعی کو سونپی جائے ۔

____________________

۱) ایسا لگتا ہے کہ یہ عبد اللہ بھی سیف بن عمر کی مخلوقات میں سے ہے عبداللہ معتم کے حالات کے بارے میں کتاب اسد الغابہ ٢٦٢٣، میں تشریح کی گئی ہے ۔

۱۸۸

معلومات کے مطابق ربعی نے فتوحات میں سر گرم طور پر شرکت کی ہے '' ز'' (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ حرف '' ز'' کو ابن حجر وہاں استعمال کرتا ہے جہاں اس نے دوسرے مؤرخین کی بات پر اپنی طرف سے کوئی چیز اضافہ کی ہو

طبری نے ١٦ھ کے حوادث کے ضمن میں '' تکریت '' کی فتح کے موضوع کو بیان کرتے وقت ربعی کے بارے میں سیف کے بیانات کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے اور یہاں پر اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں :

''کمانڈر انچیف سعد وقاص نے وقت کے خلیفہ عمر کو لکھا کہ موصل کے لوگ '' انطاق '' کے ارد گرد جمع ہوئے ہیں اور اس نے تکریت کے اطراف تک پیش قدمی کرکے وہاں پر مورچہ سنبھالا ہے تاکہ اپنی سر زمین کا دفاع کر سکے عمر نے سعد کو جواب میں لکھا:

''عبد اللہ معتم کو '' انطاق''سے لڑنے کی ماموریت دینا اور ہر اول دستے کی کمانڈ ربعی بن افکل کو سونپنا ۔ جب وہ دشمن کو سامنے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو ربعی کو نینوا(۱) اور موصل کے قلعے فتح کرنے کی ماموریت دینا ''

اس کے بعد طبری نے انطاق پر فتح پانے کے سلسلے میں عبد اللہ کی عزیمت ، اس کی جنگوں اور دشمن کو چالیس دن تک اپنے محاصرے میں قرار دینے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

عبد اللہ نے انطاق کی پیروی میں مسلمانوں سے لڑنے والے عربوں کے دوسرے قبیلوں

____________________

۱) ۔نینوا عراق میں شہر موصل کے برابرمیں واقع تھا ۔دریائے دجلہ ان دو شہروں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا ، نینوا کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں

۱۸۹

جیسے ایاد ، نمر اور تغلب کے سرداروں سے رابطہ برقرار کیا اور سر انجام ان کو اسلام کی طرف مائل کیا اور بالآخر ان کے درمیان طے پایا کہ اسلام کے سپاہی نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے جب شہر کے مقررہ دروازوں سے حملہ کریں گے تو وہ بھی تکبیر کی آواز سنتے ہی شہر کے اندر انطاق کے محافظوں کے خلاف تلوار چلائیں گے تا کہ آسانی کے ساتھ تکریت فتح ہوجائے ۔

یہ منصوبہ متفقہ طور پر سبوں کی طرف سے منظور کیا گیا اور اس کے مطابق عمل ہوا ،جس کے نتیجہ میں دشمن کی فوج میں ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکی !طبری ،تکریت کی فتح کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے :

خلیفہ عمر کے فرمان کے مطابق عبداللہ معتم نے حکم دیا کہ ''ربعی بن افکل ''تازہ مسلمان قبائل تغلب ، ایاد اور نمر جن کے مسلمان ہونے کی ابھی موصل و نینوا کے باشندوں کو اطلاع نہیں ملی تھی کو اپنے ساتھ لے کر موصل و نینوا کے قلعے فتح کرنے کے لئے روانہ ہوجائے ۔مزید حکم دیا کہ اس سے پہلے کہ دشمن مسلمانوں کے ہاتھوں تکریت کی فتح کی خبر کے بارے میں آگاہ ہوں ،ان پر ٹوٹ پڑیں ۔

ابن افکل نے حکم کی تعمیل کی اور اپنی حتمی کامیابی کے لئے تازہ مسلمان قبائل سے طے کرلیا کہ وہ اس علاقے میں یہ افواہ پھیلادیں کہ انطاق کے سپاہیوں نے تکریت میں مسلمانوں پر کامیابی پاکر انھیں شکست دیدی ہے ۔چونکہ یہ لوگ خود انطاق کے سپاہی شمار ہوتے تھے ،اس لئے آسانی کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہوکر قلعہ کے صد ردروازوں کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے لیں تا کہ اسلام کے سپاہی کسی مزاحمت کے بغیر قلعے کے دروازوں سے داخل ہوجائیں ۔

ربعی کا نقشہ کامیاب ہوا اور دشمن کے قلعے کسی مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھوں

۱۹۰

فتح ہوئے ۔

ربعی نے نینوا ،موصل اور وہاں کے مستحکم قلعوں پر فتح پانے کے بعد موصل کے دوسرے علاقے فتح کرنے کے لئے ان کے اطراف کی طرف روانہ ہوا ۔یہ ربعی بن افکل کے ذریعہ تکریت کی فتح اور موصل و نینوا کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کرنے کی داستان کا خلاصہ تھا ،جسے طبری نے سیف سے نقل کرکے بیان کیا ہے ۔

لفظ ''انطاق''اور حموی کی غلط فہمی

جیساکہ اس افسانہ میں سیف کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ''انطاق''دشمن کے لشکر کا کمانڈر تھا ،لیکن حموی نے یہ تصور کیا ہے کہ سیف کا مورد بحث ''انطاق ''تکریت کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے !اس لحا ظ سے ''معجم البلدان''میں لفظ ''انطاق''کے بارے میں لکھا ہے :

''انطاق''تکریت کے نزدیک ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف کی کتاب ''فتوح ''میں ١٦ھ کے مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کے ضمن میں آیا ہے اور ربعی بن افکل نے اس کے بارے میں یوں اشعار کہے ہیں :

ہم اپنی تلوارکی تیز دھار سے ہر حملہ آور اور متجاوز کو سز ا دیتے ہیں ۔

جس طرح ہم نے انطاق کو اسی کے ذریعہ سزا دی کہ وہ اپنے کو دوسروں سے الگ کرکے رویا ۔

کتاب '' مراصدالاطلاع ''کے مؤلف نے بھی حموی کی پیروی کرکے لفظ انطاق کے بارے میں لکھا ہے :

کہتے ہیں '' انطاق'' تکریت کے نزدیک ایک علاقہ تھا ۔

ایسا لگتا ہے کہ حموی کی غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں آیا ہے :

'' نزولہ علی الانطاق '' اس کا '' انطاق '' میں داخل ہونا۔

۱۹۱

یہاں پر کلمہ داخل ہونا کسی جگہ کے لئے مناسب ہے نہ کسی فرد کے لئے ، اسی طرح ہم نہیں جانتے کہ حموی نے خود سیف سے نقل کئے ہوئے شعر کے آخر ی حصہ پر کیوں توجہ نہیں کی جہاں وہ واضح طور پر کہتا ہے :

انطاق اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے جدا کر کے رویا ۔

یہ انسان ہے جو دیگر لوگوں سے جدا ہو کر رو سکتا ہے ، نہ مکان !!

جو کچھ ہم نے اس افسانوی سورما ربعی بن افکل کے بارے میں سیف کی احادیث سے تاریخ طبری میں دیکھا ،یہی تھا جو اوپر ذکر ہوا ۔ اور انہی مطالب کو ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے دانشوروں نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔

جیسا کہ حرملہ بن مریطہ کے افسانہ میں ہم نے ذکر کیا کہ یعقوب حموی کے پاس سیف کی کتاب فتوح کا ایک قلمی نسخہ تھا جسے '' ابن خاضبہ '' نام کے ایک دانشورنے لکھا ہے ۔ حموی نے اس نسخہ پر پورا اعتماد کرکے مقامات اور دیگر جگہوں کے نام براہ راست اسی نسخہ سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے کتاب ''معجم البدان '' میں ذکر کئے گئے بعض شہروں قصبوں اور گائوں کے نام سیف کی روایتوں کے علاوہ جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے یا دوسرے لفظوں میں سیف کے خلق کئے گئے تمام مقامات کے نام کتاب '' معجم البدان '' میں پائے جاتے ہیں ۔

ربعی کے نسب میں غلطی

ایک اور مسئلہ جو یہاں پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ طبری میں ربعی کانسب '' عنزی '' اور تاریخ ابن کثیرمیں '' غزی'' ذکر ہوا ہے جب کہ ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں '' عنبری '' ثبت ہوا ہے کہ عنبری خود قبیلہ ٔتمیم کا ایک خاندان ہے ۔ ہم نے بھی موخر الذکر نسب کو حقیقت کے قریب تر پایا ، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سیف پوری طاقت کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ اپنے خیالی اور افسانوی سورمائوں کو اپنے ہی خاندان ،تمیم سے دکھلائے ، چوں کہ عنبری خاندان تمیم کی ایک شاخ ہے ، اس لئے یہ انتخاب یعنی '' عنبری '' افسانہ نگار کی خواہش کے مطابق لگتا ہے نہ کہ '' عنزی'' و '' غزی''

۱۹۲

سیف کی روایتوں کا تاریخ کے حقائق سے موازنہ

مناسب ہے اب ہم موصل،تکریت اور نینوا کی فتح کی حقیقت کے بارے میں دوسرے مؤرخین کے نظریات سے بھی آگاہ ہو جائیں ۔

بلاذری نے موصل و تکریت کی فتح کے بارے میں اس طرح تشریح کی ہے :

عمر بن خطاب نے ٢٠ھمیں عتبہ بن فرقد سلمی کو موصل کی فتح کے لئے مامور کیا ۔

عتبہ نے نینوا کے باشندوں سے جنگ کی اور دریائے دجلہ کے مشرقی حصہ میں واقعہ ان کے ایک قلعہ کوبڑی مشکل سے فتح کیا اور دجلہ کو عبور کرکے دوسرے قلعہ کی طرف چڑھائی کی ۔ اس قلعہ کے باشندے چوں کہ عتبہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اس لئے صلح کی تجویز پیش کرکے جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔

عتبہ نے ان کی صلح کی درخواست منظور کی اور طے پایا کہ جو بھی قلعہ سے باہر آئے گا امان میں ہوگا اور جہاں چاہے جا سکتا ہے ۔

بلاذری عتبہ کے ذریعہ موصل کے دیہات ،قصبہ اور ابادیوں ،منجملہ تکریت کی فتوحات کا نام لے کر آخر میں لکھتا ہے :

عتبہ بن فرقد نے ''طیرہان '' و '' تکریت'' کو فتح کیا اور قلعہ تکریت کے باشندوں کو امان دی اس بنا پر حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جو شہر فتح ہوا وہ شہر موصل تھا ، اس کے بعد تکریت فتح ہوا ہے ۔ ان دونوں شہروں کافاتح عتبہ بن فرقد سلمی انصاری یمانی قحطانی تھا اور یہ فتح ٢٠ھ میں انجام پائی ہے ۔

لیکن سیف نے تکریت کی فتح کو موصل کی فتح پر مقدم قرار دیا ہے ،اور عبد اللہ معتم عبسی عدنانی کو ان جگہوں کا فاتح بتایا ہے ۔ موصل کا فاتح ربعی بن افکل تمیمی عدنانی مضری بتاتا ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی قبائل عدنان مضری کے افراد بتایا کرتاہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ موصل اور تکریت عتبہ یمانی قحطانی کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں اور یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ سیف اسے نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کرے لہٰذا وہ قبیلۂ مضر کے دو افراد کو خلق کرکے حکومت اور فوجی کمانڈ ان کے ہاتھ سوپنتا ہے، اسلام کے سپاہی بھی قبیلہ مضر یعنی اپنے خاندان سے بتایاہے اور اسی تغیر و تبدل کو خاندانی تعصب کی بناء پر تاریخ اسلام میں درج کرتا ہے۔

۱۹۳

لیکن اس نے ایسے تاریخی حوادث کی تاریخ کو کیوں تبدیل کرکے ٢٠ھ واقع ہوئی فتح کو ١٦ھ میں لکھا ہے ؟ یہ ایک ایسا مطلب ہے جو حائز اہمیت ہے اور اس کاربط اس کے اسلام سے منحرف ہونے کے عقیدہ سے ہے ۔ کیونکہ اگر اس کے زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا اس پر الزام ہے اسلام کی تاریخ میں تشویش پیدا کرنا اس کا اصلی مقصد نہ تھا تو پھر کون سی چیز اس کے لئے تاریخ اسلام میں اس جرم کے مرتکب ہونے کا سبب بن سکتی ہے؟!

اس افسانہ کا ماحصل

ربعی بن افکل تمیمی کو خلق کرکے سیف بن عمر نے حسب ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں :

١۔ ایک صحابی سپاہ سالار ، فاتح اور سخن و ر شاعر کو خلق کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں میں ایک اور صحابی کا اضافہ کرکے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔

٢۔ایک نئی جگہ کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں اسے درج کرایا ہے۔

٣۔خاندان تمیم کے لئے افسانوی جنگیں خلق کرکے اپنے خاندانی تعصبات کی پیاس کو بجھا کر اپنے خاندان کے افتخارات میں اضافہ کیاہے ۔

٤۔زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا الزام اس پر تھا اسلام کے تاریخی واقعات میں ان کے رونما ہونے کی تاریخ میں ردّو بدل کیا ہے ۔

۱۹۴

سیف کے اسناد کی تحقیق

''ربعی بن افکل ''کے سلسلہ میں سیف نے اپنی احدیثوں کے اسناد کے طور پر درج ذیل نام ذکر کئے ہیں :

١۔محمد ، سیف نے اسے ''محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ'' بتایا ہے اور دوسرا مھلب بن عتبہ اسدی ہے ۔ گزشتہ بحثوں میں ہم ان دو راویوں سے مواجہ ہوئے ہیں اور جان لیا ہے کہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے خلق کئے ہوئے راوی ہیں ۔

٢۔طلحہ، ممکن ہے سیف کی روایتوں میں یہ نام دو راویوں کی طرف اشارہ ہو۔ ان میں سے ایک ''طلحہ بن اعلم'' ہے اور دوسرا طلحہ بن عبد الرحمن ہے۔

ہم نے طلحہ بن عبد الرحمن کو سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں نہیں پایا ۔ اس لئے یہ نام بھی سیف کے خیالات کی پیدا وار ہے اور اس قسم کا کوئی راوی خارج میں موجود نہیں ہے۔

ہاں طلحہ بن اعلم ، ایک معروف راوی ہے جس کانام سیف کے علاوہ بھی دیگر احادیث میں آیا ہے لیکن سیف کے گزشتہ تجربہ اور اس کے دروغ گو ہونے کے پیش نظر ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ سیف کے جھوٹ کے گناہ کو ایسے راویوں کی گردن پر ڈالیں خاص کر جب سیف تنہا فرد ہے جو اس قسم کے جھوٹ کی تہمت ایسے راویوں پر لگا تاہے۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

ان تمام افسانوں کا سرچشمہ سیف ہے ، لیکن اس کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے منابع مندرجہ ذیل میں :

١۔طبری ، سند کے ساتھ ، اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابن حجر ، سند کے ساتھ کتاب ''الاصابہ'' میں ۔

٣۔ ابن اثیر طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ۔

٤۔ابن کثیر طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔

٥۔ابن خلدون طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔

٦۔حموی ''معجم البلدان'' میں سندکے بغیر۔

٧۔ عبد المؤمن ،حموی سے نقل کرتے ہوئے کتاب ''مراصد الطلاع''میں

۱۹۵

بارہواں جعلی صحابی اُطّ بن ابی اُطّ تمیمی

سیف نے اُط کو قبیلہ سعد بن زید بن مناة تمیمی سے بتایا ہے ۔

ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں اُط بن ابی اط کاتعارف اس طرح کیا گیا ہے :

'' اُط بن ابی اُط خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم سے ہے ۔ اُط خلافت ابو بکر کے زمانے میں خالد بن ولید کا دوست اور کارندہ تھا ۔ عراق میں ایک دریا کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے !اس دریا کا نام اسی زمانے میں اس کے نام پر رکھا گیا ہے جب خالد بن ولید نے اُط کو اس علاقے کے باشندوں سے خراج وصول کرنے پر مامور کیا تھا!

طبری نے یہی داستان سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کی ہے ۔ ایک جگہ پر اسے '' اُطّ بن سوید '' لکھا ہے ،گویا اُط کے باپ کا نام '' سوید '' تھا ۔

ابن فتحون نے بھی اط کے حالات کو اس عنوان سے لکھا ہے کہ شخصیات کی زندگی کے حالات لکھنے والے اس کا ذکرکرنا بھول گئے ہیں ۔ اور اپنی بات کا آغاز یوں کرتا ہے ۔

میں نے اس کا اُطّ کا نام ایک ایسے شخص کے ہاتھوں لکھا پایا ، جس کے علم و دانش پرمیں مکمل اعتماد کرتا ہوں ۔ اس نے اط کوپہلے حرف پر ضمہ( پیش ) سے لکھا تھا ۔

اُطّ ، دور قستان کا حاکم

طبری نے اط کی داستان کو فتح حیرہ کے بعد والے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی دو روایتوں میں ذکر کیا ہے ۔ پہلی روایت میں اس طرح لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید نے اپنے کارندوں اور کرنیلوں کو ماموریت دی کہ (یہاں تک لکھتا ہے ) اور اط بن ابی اط جو خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم کا ایک مرد تھا کو دور قستان کے حاکم کی حیثیت سے ماموریت دی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پر پڑا ئو ڈالا ۔ وہ دریا اس دن اط کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

۱۹۶

حموی نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب معجم البدان میں لفظ اُط کے سلسلے میں لکھا ہے۔

جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس علاقہ کی دوسری سرزمینوں پر قبضہ کرلیا تو اس نے اپنے کارندوں کو مختلف علاقوں کی ماموریت دی ۔اس کے کارندوں میں سے ایک اط بن ابی اط تھا ۔جو خاندان سعد بن زید بن مناة تمیمی سے تعلق رکھتا تھا ۔اسے دور قستان کی ماموریت دی گئی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پڑائو ڈالا۔وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے۔

حموی نے یہاں پر اپنی روایت کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔اس کے اس جملہ اور وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے ۔سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے حموی کے زمانے تک وہ دریا اسی نام ، یعنی دریائے اط کے نام سے موجود تھا اور حموی ذاتی طور پر اس سے آگاہ تھا ۔اس لئے اس بات کو یقین کے ساتھ کہتا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر شہادت دیتا ہے ۔ جب کہ ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ حموی نے سیف کی بات نقل کی ہے نہ کہ خود اس سلسلے میں کچھ کہا ہے ۔

ابن عبد الحق نے بھی ان ہی مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب مراصد الاطلاع میں درج کرتے ہوئے لکھا ہے :

دریائے اط ،اط ،خاندان بنی سعد تمیم کا ایک مرد تھا جو خالد بن ولید کا کارندہ تھا۔ اط کو یہ ماموریت اس وقت دی گئی تھی جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس کے اطراف کی سرزمینوں پر قبضہ کیا تھا (یہاں تک لکھا ہے ) اور وہ دریا اس کے نام سے مشہور ہوا ہے ۔

کتاب تاج العروس کے مؤلف نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کرکے لفظ اط کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اط بن اط بنی سعد بن مناة تمیمی میں سے ایک مرد ہے جو خالد بن ولید کی طرف سے دور قستان کا ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا اور وہاں پردریائے اط اسی کے نام سے مشہور ہو ا ہے ۔

طبری نے بھی حیرہ کے مختلف مناطق کی تقسیم بندی کے بارے میں خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا ہے :

خالد بن ولید نے حیرہ کے مختلف علاقوں کو اپنے کارندوں اور کرنیلوں کے درمیان تقسیم کیا ، منجملہ جریر کو علاقہ (یہاں تک لکھتا ہے ) اور حکومت اط و سوید کو سونپی ۔

۱۹۷

ابن حجر کی غلط فہمی

یہاں پر ابن حجر ،طبری کے بیان کے پیش نظر ، غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور اط و سوید کو اط بن سوید پڑھ کر سوید کو اط کا باپ تصور کیا ہے ۔

ابن حجر کی یہ غلط فہمی اس کی گزشتہ اسی غلط فہمی کے مانند ہے جہاں اس نے '' حرملہ و سلمی'' کے بجائے '' حرملہ بن سلمی '' پڑھا تھا اور حرملہ بن سلمی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک صحابی تصور کرکے حرملہ بن مریطہ کے علاوہ حرملہ بن سلمی کے بارے میں بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ ابن حجر کی غلط فہمی کتاب کے مسودہ میں موجود کتابت کی غلطی کے سبب پیش آئی ہو کہ '' اط و سوید '' کے بجائے کاتب نے اط بن سوید لکھ کر بیچار ہ ابن حجر کو اس غلط فہمی سے دو چار کیا ہو۔!بہر حال موضوع جو بھی ہو ، اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اگر چہ یہ نام بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں درج کیا گیا ہے ، جب کہ پورا افسانہ بنیادی طور پر جھوٹ ہے اور یہ اضافات بھی اسی سیف کے افسانوں کی برکت سے وجود میں آئے ہیں ۔ ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء نے بھی ایسے صحابیوں کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

یاقوت حموی ،ابن عبدالحق اور زبیدی نے نے بھی سیف کی ان ہی روایتوں اور افسانوں کے پیش نظر لفظ اط کی تشریح کرتے ہوئے اط کی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں اور دریا ئے اط کابھی ذکر کیا ہے ۔ ستم ظریفی کا عالم ہے کہ حقائق سے خاکی ان ہی مطالب نے صدیوں تک علماء و محققین کو اس مسئلے میں الجھاکے رکھا ہے !!

ہم نے اط بن ابی اط اور اس نام کے دریا کے سلسلے میں تحقیق و جستجو کرتے ہوئے اپنے اختیار میں موجود مختلف کتابوں اور متعدد مصادر کی طرف رجوع کیا ، لیکن ہماری تلاش و کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اس قسم کے نام کو ہم نے مذکورہ مصادر میں سے کسی ایک میں نہیں پایا اس لحاظ سے سیف کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ کرنے کے لئے کوئی چیز ہمارے ہاتھ نہ آئی جس کے ذریعہ اس کی روایتوں کا موازنہ و مقابلہ کرتے !!کیوں کہ سیف کی داستان بالکل جھوٹ اور بیہودہ خیالات پر مبنی ہے ۔

۱۹۸

اس افسانہ کا ماحصل

سیف نے اط نام کے صحابی اور اسی نام کے دریا کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے :

١۔ خاندان تمیم سے ایک اور عظیم صحابی اور لائق کمانڈر خلق کرتا ہے اور ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء اس کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دے کر اس کی زندگی کے حالات کو اپنی کتابوں میں لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ،

٢۔ سرزمین دور قستان میں ایک دریا کو خلق کرکے اس کا نام دریائے اط رکھتا ہے اور اس طرح حموی و عبد الحق اس دریا کے نام کو اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس طرح خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرتا ہے ۔

افسانہ کے اسناد کی پڑتال

افسانہ اط کے سلسلے میں سیف کی حدیث کی سند میں مندرجہ ذیل نام ملتے ہیں :

١۔ ابن ابی مکنف ، مھلب بن عقبہ اسدی اور محمد بن عبد اللہ نویرہ ،ان تینوں کے بارے میں ہم نے گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٢۔ طلحہ ، سیف کی احادیث میں یہ راوی یا طلحہ بن اعلم ہے یا طلحہ بن عبد الرحمن مل ہے ۔جن کا نام سیف کے علاوہ بھی دیگر روایتوں میں ملتا ہے ۔

عبد الرحمن نام کے بھی دو راوی ہیں ۔ ایک یہی مذکورہ عبد الرحمن مل ہے اور دوسرا یزید بن اسید غسانی ہے کہ ہم نے مؤخر الذکر کا نام سیف بن عمر کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ۔

بہر حال جو بھی ہو ،خواہ ان راویوں کا نام دوسری احادیث میں پایا جاتا ہو یا وہ سیف کے ہی مخصوص راوی ہوں ، ہم سیف کے جھوٹ کا گناہ معروف راویوں کی گردن پرنہیں ڈال سکتے ہیں ، خاص کر جب اس قسم کے افسانے صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہوں اور وہ اکیلا ان افسانوں کا خالق ہو!

۱۹۹

اُطّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء

اط کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر ہے اور درج ذیل منابع میں اس افسانہ کی اشاعت کی گئی ہے :

١۔ طبری نے اط کے افسانہ کو سیف سے نقل کرکے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن حجر نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔

٣۔ ابن فتحون

٤۔ یاقوت حموی ۔

٥۔ زبیدی نے'' تاریخ العروس '' میں ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259