کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 130%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153265 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مشورہ دیا کرتا تھا_ اسی عبداللہ بن سلام نے حضرت عثمان کے محاصرے کے وقت اس کی زبانی کلامی حمایت پر اکتفا کیا اور اس کی کوئی عملی مدد نہیں کی(۱) حالانکہ اس نے جناب عثمان کی عملی مدد کا وعدہ بھی کیا تھا_ اور جب جناب عثمان کا گھیراؤ کرنے والے لوگوں نے عبداللہ بن سلام کے متعلق اسے کہا کہ یہ ابھی تک بھی اپنی یہودیت پر ڈٹا ہوا ہے تو وہ اپنی یہودیت کی نفی کرنے لگا(۱) نہ صرف یہ بلکہ ابن سلام ، کعب الاحبار اور یہود و نصاری کے دوسرے زعماء و بزرگان جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا وہ اسلامی حکومت کے بہت سے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے ، یہ دونوں اشخاص بہت سے اہم امور میں ا س وقت کے حکمرانوں کے مشیر اور معاون ہوتے تھے_

ہم بارگاہ خداوندی میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اہل کتاب کی سیاہ کاریوں اور مسلمانوں کی سیاست ،عقائد، تفسیر، حدیث ، فقہ اور تاریخ میں ان کی ریشہ دوانیوں اور اثر گذاریوں کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے_

____________________

۱)مندرجہ ذیل کتب میں اس کے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانی ج۱۱ ص ۴۴۴، ص ۴۴۵و ۴۴۶ نیز اسی کے حاشیہ میں از طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۸۳ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۴۰ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۹۲ و ۹۳ و الاصابہ ج ۲ ص ۳۲۱ _

۲)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۲۳و ۲۲۴_

۲۱

۲۳

دوسری فصل :

غیر جنگی حوادث و واقعات

۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی :

جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کی خبر پہنچی تو ان میں سے (۳) مرد اور آٹھ عورتیں واپس آئیں_ جن میں سے دو مرد مکہ میں فوت ہوگئے اور سات آدمیوں کو قید کر لیا گیا لیکن باقی مدینہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے جن میں سے چوبیس افراد جنگ بدر میں بھی موجود تھے(۱) _

اور(حبشہ سے) مدینہ کی طرف ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا(۲) یہاں تک کہ حضرت جعفرعليه‌السلام ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ افراد کو لے کر پہنچے _ جسکا ذکر انشاء اللہ بعد میں آئے گا_

مذکورہ بالا تیس اشخاص ان افرادکے علاوہ ہیں جو بعض کے بقول بعثت کے پانچویں برس اور ہجرت مدینہ سے آٹھ سال پہلے مکہ میں واپس آئے تھے_ لیکن ان کا مکہ سے گزرنے کا سبب(حالانکہ وہ اسی شہر سے ہی بھاگ کرگئے تھے) بظاہر یہ ہے کہ چونکہ مدینہ کی طرف جانے والا راستہ مکہ کے قریب سے گزر تا تھا(۳) تو شاید وہ مکہ میں موجود ا پنے اموال کو لینے، اقربااور رشتہ داروں سے ملنے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد پھر مدینہ جانے کے ارادے سے مخفیانہ یا علانیہ طور پر مکہ میں داخل ہوئے_

لیکن قریش ان کے ساتھ قساوت قلبی اور سنگدلی کے ساتھ پیش آئے، ان کے لئے کسی قسم کے

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج/ حصہ۱ص ۱۳۹_

۲) طبقات ابن سعد ج/۱حصہ۱ ص ۱۳۹،زاد المعاد ج/ ۱ ص ۲۵ و ج/ ۲ ص ۲۴ ، ۴۵ ، البدء والتاریخ ج/ ۴ ص ۱۵۲ و فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۳) اور اس پر المصنف ج/۵ ص ۳۶۷ کی یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ ''جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار قریش سے برسرپیکارہوئے تو وہ مہاجرین حبشہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس پہنچنے سے مانع ہوئے_یہاں تک کہ وہ لوگ جنگ خندق کے موقع پر مدینہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے''_ البتہ ان کا '' جنگ خندق کے مو قع پر '' کہنا ، ناقابل تائید ہے اور شاید خندق ، خیبر کی جگہ لکھا گیا ہے_

۲۳

احترام ، غریب الوطنی اور رشتہ داری کا لحاظ بھی نہیں کیا اور یہ بات واضح ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کے اس گروہ کا مدینہ میں پہنچنا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے چند مہینے بعد تھا کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی خبر کاان تک پہنچنا پھر ان کا مکہ کی طرف آنا اور وہاں پر رشتہ داروں سے ملاقات کرنا اور قریش کا وہ سلوک کرنا اور پھر ان کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا یہ سب چیزیں ایک طولانی مدت کے گزرنے کی متقاضی ہیں، یہاں تک کہ عسقلانی کہتا ہے :'' ابن مسعود مکہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے تیس آدمیوں میں سے تھے اور وہ مدینہ میں اس وقت پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے''(۱) _

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں :

ہجرت کے پہلے سال (اور کہا گیا ہے کہ دوسرے سال )حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں آئیں اور یہ ماہ شوال کی بات ہے، مورخین نے کہا ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے علاوہ کسی دوسری کنواری عورت سے شادی نہیں کی لیکن ہم اس بات کے صحیح ہونے پر اطمینان نہیں رکھتے اور اس کی وجہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت خدیجہعليها‌السلام کے ساتھ ازدواج کی بحث میں گزر چکی ہے کہ حضرت خدیجہع ليها‌السلام کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے علاوہ کسی دوسرے آدمی سے شادی کا مسئلہ نہایت مشکوک ہے_ ہو سکا تو انشاء اللہ ہم آئندہ بھی اس کی طرف اشارہ کریںگے_

رخصتی کی رسم

اور ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ کس وجہ سے حضرت عائشہ کی رخصتی کی رسم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی تھی کیونکہ روایت کی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے لئے ولیمہ نہیں کیا حالانکہ اس دور میں لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ولیمہ کھانے کی توقع بھی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی طاقت بھی رکھتے تھے_ صر ف یہی کچھ نقل کیا گیا ہے کہ دودھ کاایک پیالہ سعد بن عبادہ کے گھر سے آیا اور اس میں سے کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیا اور باقی حضرت عائشہ(۲)

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۸ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۱۲۱ _

۲۴

نے_اسی کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس شادی کا ولیمہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طبعی بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو اپنے پاس بیٹھنے والے کو کھانا پیش کرنے سے غفلت نہیں فرماسکتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کی تو بات ہی اور ہے_

انوکھا استدلال :

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اپنی منزلت اورشان پر اس طرح استدلال فرماتی تھیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ ماہ شوال میں ازدواج کیا تھا _ وہ کہتی تھیںکہ :

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماہ شوال میں مجھے شرف زوجیت بخشا پس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے کون سی زوجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ منزلت رکھتی ہے؟(۱) _

حقیقتاً یہ انوکھا استدلال ہے _ اس لئے کہ کب ماہ شوال کی اتنی عظیم فضیلت تھی جو حضرت عائشہ کی منزلت و فضیلت پر دلالت کرتی ؟_

جبکہ بلاشک و شبہہ حضرت خدیجہ اور حضرت ام سلمہ اوردیگر ازواج ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی نسبت زیادہ منزلت و عظمت رکھتی تھیں اسی وجہ سے تو یہ ان سے حسد کرتیں، ان کو اذیت دیتیں اور اکثر خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بھی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں ہمارے اس دعوے کے بعض دلائل ہجرت سے پہلے حضرت عائشہ کے عقد سے بحث کے دوران ذکر ہو چکے ہیں_

اور اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ بعض حضرات نے ماہ شوال میں عقد کے استحباب کا حکم صادر کیا ہے(۲) _

لگتا یہی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومت وقت کی دست راست اور حکومت وقت اور ان کے حامیوں کی آنکھوں کے کانٹے حضرت علیعليه‌السلام کی اچھائی کے ساتھ نام تک نہ لے سکنے والی(۳)

____________________

۱) تاریخ طبری مطبوعہ الاستقامة ج ۲ ص ۱۱۸ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۸_

۲) نزھة المجالس صفوری الشافعی ج/۲ ص ۱۳۷_

۳)فتح الباری ج ۲ ص ۱۳۱، مسند احمد ج ۶ ص ۲۲۸ ،و الغدیر ج ۹ ص ۳۲۴_

۲۵

حضرت عائشہ سے کچھ لوگوں کی محبت و عقیدت ، اور ان کی خواہشات کو اہمیت دینا ہی ان لوگوں کی اس طرح کی شریعت سازی کا موجب بنا_حالانکہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ اورحضرت حفصہ کے ساتھ ماہ شعبان میں اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ماہ مبارک رمضان میں اور زینب بنت جحش کے ساتھ ذی القعدہ میں رشتہ ازدواج استوار فرمایا_ پس اس صورت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مستحب کو ترک کیا ہے اور اس پر صرف اور صرف اکیلی حضرت عائشہ کے لئے عمل کیا ہے_ یہ بات حقیقتاًتعجب آور ہے اور نہایت ہی عجیب ہے

ایک نئے دور کی ابتداء

بہر حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیت الشرف میں حضرت عائشہ کے آنے سے امن و آشتی اور عظمت و وقار کے نمونہ اس گھر میں خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں اوریہ گھر بہت سے ایسے اختلافات اور جھگڑوں کی جولانگاہ بن گیا جو اکثر اوقات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے غم و غصّہ کے موجب بنتے تھے اوراکثر جھگڑوں میں حضرت عائشہ کا کردار بنیادی ہوتا تھا_

ہمارے اس مدعا پر تاریخ اور متواتر احادیث گواہ ہیں بلکہ بعض منابع کے مطابق خود حضرت عائشہ نے تصریح کی ہے کہ : ''نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں رونما ہونے والے تما م اختلافات کا سبب میں ہی تھی''_

مومنین کے درمیان صلح والی آیت:

بعض مورخین نے غزوہ بدر سے پہلے کے حالات میں لکھا ہے(۱) کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مرتبہ خزرج کے قبیلہ بنی حرث میں سعدبن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے اسلام لانے سے پہلے کاہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۴_

۲۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی سواری پرسوارعبداللہ بن ابی کی ایک محفل کے قریب سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے _ ان میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کی ٹاپوں سے گرد و غبار اڑا تو ابن ابی نے اپنی چادر سے ناک ڈھاپنتے ہوئے کہا:'' ہم پر گرد و غبار نہ اڑاؤ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سواری سے نیچے اترے اور اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی تو ابن ابی کہنے لگا : '' بھلے مانس اگر تیری باتیں سچ ہیں تو یہ سب سے بہترین باتیں ہیں لیکن تیرے کہنے کا انداز بالکل بھی صحیح نہیں ہمیں محفل میں آکر پریشان مت کرو ،جاؤ اپنی سوار ی کا رخ کرواور جو تمہارے پاس آئے تم اسے یہ باتیں سنانا''_ ابن رواحہ نے کہا:'' جی ہاں یا رسول اللہ آپ ہمارے پاس آکر ہمیں اطمینان سے یہ باتیں سنائیں کیونکہ ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ فرمائشےات پسند ہیں '' _ پھر تو مسلمانوں اور مشرکوںکے درمیان ایسی گالی گلوچ شروع ہوگئی کہ مارکٹائی تک نوبت پہنچنے والی تھی _ لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں خاموش رہنے کی برابر تلقین کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے_

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن عبادہ کے پاس تشریف لے گئے اور سارا ماجرا اسے سنایا_ سعد نے عرض کی کہ آپ ابن ابی کو چھوڑ دیں کیونکہ جلد ہی ہم اس پر ہلہ بولیں گے _ لیکن جب وہ ان کے حملے سے پہلے اسلام لے آیا تو سعد بن عبادہ کے قبیلہ والے اس پر چڑھائی سے باز رہے _

دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کچھ مسلمان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ابن ابی کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ا س کے قبیلے سے روابط برقرار کریں _جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: ''دور ہو جاؤ مجھ سے بخدا تمہاری سواری کی بد بو سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ''_ اس پرایک انصاری صحابی بولے:'' اللہ کی قسم تیرے وجود کی بوسے رسول اللہ کی سواری کی بو کہیں زیادہ پاکیزہ ہے''_ ابن ابی کے قبیلے کے آدمی کو غصہ آیا اس نے اسے گا لیاں دیں_ اب طرفین غضبناک ہوگئے اور پھر دونوں میں چھڑیوں اورجوتوں سے لڑائی ہوئی _

۲۷

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما ) (حجرات _۹)

اگر مومنین کے دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو_(۱)

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جس نے ابن ابی سے مذکورہ بات کی وہ عبداللہ بن رواحہ تھے اور لڑائی ابن رواحہ کے قبیلے اوس اور ابن ابی کے قبیلے خزرج کے درمیان ہوئی_

البتہ دونوں روایات قابل اعتراض ہیں _کیونکہ:

اولاً: آیت صلح پہلی روایت پہ منطبق نہیں ہوتی کیونکہ اس روایت کی روسے جھگڑا مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان تھادو مسلمان گروہوں کے درمیان نہیں _بلکہ دوسری روایت سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ جھگڑا مومنین کے دوگروہوں میں تھا _اگر دونوں روایات کو ایک روایت قرار دیں کیونکہ دونوں کا سیاق و سباق اور مضمون ایک ہی ہے تو پھر بھی یہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ یہ آیہ مجیدہ اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہو_

ثانیاً : آیہ مجیدہ سورہ مبارکہ حجرات میں ہے جو ہجرت کے چند سال بعد نازل ہوئی _کیونکہ اس سورت کا نزول سورہ مجادلہ ، اور جنگ خندق کی مناسبت سے نازل ہونے والی سورت احزاب اور دیگر سورتوں کے نزول کے بعد ہوا_ جبکہ یہ بات گزر چکی ہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کاہے_ ان ساری باتوں کے علاوہ روایات کے مضامین میں بھی اختلاف و تناقض پایا جاتاہے جو واضح ہے_

البتہ ایسا بھی نہیں کہ روایت سرے سے ہی ناقابل قبول اور جعلی ہو_ تا ہم ہو سکتا ہے یہ واقعہ ہجرت کے چند سال بعد سورہ حجرات کے نزو ل اور ابن ابی کے اسلام لانے کے بعد رونما ہوا ہو اور جھگڑا مومنین کے دو گروہوں کے درمیان ہو_ اس اعتبار سے دوسری روایت مضمون کے زیادہ قریب اور مناسب ہے_

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۶۳و۶۴،درمنثورج/۶ص۹۰از مسلم، بخاری، احمد، بیہقی کی سنن ، ابن مردویہ ، ابن جریر اور ابن منذر ، حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۵۷۸ ،۵۷۹ ، ۵۶۰از البخاری ج/۱ص ۳۷۰ ، ج/۳ ص ۸۴۵_

۲۸

سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام :

پہلی ہجری میں اوربقولے اسی سال کے ماہ جمادی الاولی(۱) میں سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المعروف سلمان فارسی (حشر نا الله معه و فی زمرته )نے اسلام قبول کیا_ یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے فرمایا:''سلمان منا اهل البیت'' (۲) _

یہی وہ سلمان ہیں جنہوں نے دین حق کی تلاش میں اپنے علاقے سے ہجرت کی اور اس را ہ میں انہوں نے بہت ساری مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں _ یہاں تک کہ غلام ہوئے اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں آزاد ہوئے(۳) _

کہتے ہیں کہ مدینہ میں ''قبا'' کے مقام پر حضرت سلمان فارسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے یہ کہہ کہ کھجوریں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خودتو کھانے سے انکار فرمایالیکن اصحاب سے امر فرمایا کہ کھالیں تو انہوں نے یہ کھجوریں کھالیں_ حضرت سلمان نے اسے پہلی نشانی شمار کیا _

اگلی مرتبہ پھر جناب سلمان کی ملاقات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدینہ میں ہوئی_ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں کھجوریں یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ تحفہ ہے _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور کھجوریں کھالیں پس حضرت سلمان نے اسے دوسری نشانی شمار کیا _

____________________

۱)تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۳۵۱_

۲)قاموس الرجال ج/۴ ترجمہ سلمان_

۳) المصنف ج / ۸ ص ۴۱۸ میںان کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان فارسی کے علاقے میں ایک راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم کی تعلیمات اس سے سیکھیں اور علاقے کے لوگوں کو بتائیں تو انہوں نے راہب کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا_ آپ اپنے اہل و عیال سے چھپ کر اس کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انکی ملاقات چالیس۴۰راہبوں سے ہوئی _ چند ماہ بعد ایک راہب کے ہمراہ آپ بیت المقدس گئے وہاں ایک راہب کی سخت عبادت و ریاضت اور انکی بے چینی کو دیکھا لیکن پھر جلد ہی اس کا دل اس سے بھر گیا _ وہاں انصار کے سواروں کے ایک دستے نے ان راہبوںسے حضرت سلمان کے بارے سوال کیا توانہوںنے جواب دیا کہ یہ ایک بھگوڑا غلام ہے _پس انہوں نے اسے مدینے لے جاکر ایک باغ میں کام پر لگادیا_ اس راہب نے جناب سلمان کو بتایا تھا کہ عرب سے ایک نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عنقریب ظہور کرناہے جو صدقہ نہیں کھائے گا، ہدیہ قبول کرے گا اور اسکے شانوں پر نبوت کی مہر ہوگی _ اس راہب نے آپ سے کہا تھا کہ اسکی اتباع کرنا_

۲۹

اسکے بعد حضرت سلمان کی ملاقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بقیع کے ایک نشیب میں ہوئی جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعض اصحاب کی تشیع جنازہ میں شریک تھے پس قریب آئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا اور پیچھے پیچھے چل دیئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ شانوں پر نبوت کی مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھکے ،شانوں پر بوسہ دیا اور گریہ کرنا شروع کیا_ اس کے بعد اسلام قبول کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنا سارا واقعہ بیان کیا _ اسکے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اپنی آزادی کی رقم ادا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کی مالی امداد فرمائی _ اور پھر حضرت سلمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی میں اپنی ساری زندگی گذاردی تا کہ اس آزادی کا حق ادا کرسکیں_

اس نے پہلی مرتبہ جنگ خندق میں حصہ لیا اور پھر اس کے بعد کئی جنگوں میں حصہ لیا_ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر میں حصہ لیا اور یہ نظریہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مالی امداد کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے _ اسکے لئے حدیث و تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے _(۱) نیز ہماری کتاب''سلمان الفارسی فی مواجهة التحدی'' ( سلمان فارسی چیلنجوںکے مقابلے میں) بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

ایک اہم بات :

یہاں قابل ملاحظہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سلمان نے ذاتی احساسات یا مفادات کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجبوری یا کسی کے دباؤ یا کسی سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلام قبول کیا بلکہ خالصتاً اپنی عقل و فکر اور سوچ و بچار کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ دین حق تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت سعی و کوشش کی اور اس راہ میں بہت سی رکاوٹوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا _ اور یہ بات اس دین کے فطری ہونے نیز عقل کے احکامات اور سالم فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونے کی تائید کرتی

____________________

۱)بطور مثال قاموس الرجال ج/۴ ، الاصابہ ج/ ۲ ص ۶۲ ، الاستیعاب اور دیگر کتابیں_

۳۰

ہے_ اسی طرح کی باتیں ہم حضرت ابوذرکے اسلام قبول کرنے کے واقعات میں بیان کرچکے ہیں، وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں :

بعض نے حضرت عثمان کے فضائل میں لکھاہے کہ جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو سوائے رومہ کے کنویں کے کوئی اور ایسا کنواں نہ تھا جس سے صاف اور میٹھا پانی پیا جاتا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے اس کنویں کو خریدے اور اپنی بالٹی اور دیگر مسلمانوںکی بالٹیاں اس میں قرار دے (یعنی سب مسلمانوں کے لئے وقف کردے ) تو اسے جنت میں اپنی پسند کا اس سے بھی اچھا کنواں ملے گا؟ ''پس حضرت عثمان نے اپنے خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور اس کنویں میں اپنی اور مسلمانوں کی بالٹیاں ڈال دیں_ لیکن جب حضرت عثمان کا محاصرہ ہو اتو لوگوں نے انہیں اس کنویں سے سخت پیاس کی صورت میں بھی پانی نہیں پینے دیا تھا حتی کہ وہ مجبور ہوکر سمندر کا پانی پینے لگے تھے _

لیکن ان روایات میں شدید اختلاف پایا جاتاہے_ہم بعدمیں مدارک و مصادر کی طرف اشارہ کریں گے_ انہی اختلافات کی وجہ سے ہمیں ان کے صحیح ہونے کے بارے شک ہے_یہ اختلافات مندرجہ ذیل ہیں:_

اولاً : روایات میں اتنا تناقض و اختلاف ہے کہ کوئی ایک روایت بھی دوسری سے نہیں ملتی _مثلاً کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی توانہوں نے باغیوں کو رومہ کے کنویں والے واقعہ کا واسطہ دیا لیکن یہاں روایتوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے _ ایک روایت تو یہ کہتی ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں محاصرے میں تھے تو تب انہوں نے لوگوں کے سامنے آکر یہ بات کی تھی جبکہ ایک اور روایت کہتی ہے کہ اس وقت وہ مسجد میں تھے _ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آدھا کنواں سو اونٹنیوں کے عوض اور باقی آدھا ایک آسان نرخ پہ خریدا_دوسری روایت کہتی ہے کہ چالیس ہزار کا کنواں خریدا ایک اور روایت میں

۳۱

ہے کہ ۳۵ اونٹینوں کے عوض خریدا_ چوتھی روایت ہے کہ آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میںاور باقی آدھا آٹھ ہزار میں خریدا_

ایک اور روایت اس بارے میں یہ ہے کہ یہ کنواں ایک یہودی کا تھا_ کوئی بھی قیمت ادا کئے بغیر اس سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں پی سکتا تھا_ایک اور روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کا تھا_ تیسری روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت تھا_ یہاں ایک روایت یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے کنواں خریداجبکہ دوسری یہ کہتی ہے کہ انہوں نے کنواں کھودا _ لوگ دونوں روایتوں کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کنواں خریدا لیکن اسکے بعداسے دوبارہ کھودنے کی ضرورت پڑ گئی_(۱) لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ اس کا ذکر حضرت عثمان نے اس وقت کیا تھا جب اصحاب کو اس کی قسم دی تھی اور یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ ہواتھا_

ایک روایت یہ کہتی ہے کہ یہ چشمہ تھا جو زمین پر جاری تھا جبکہ دوسری کہتی ہے کنواں تھا_ ایک روایت کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے مدینہ پہنچنے پر کنواں خریدا _ لیکن دوسری روایت کی حکایت یہ ہے کہ جب خلیفہ تھے تب یہ کنواں خریدا تھا_

ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے کنواں خریدنے کو فرمایا _دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں اعلان کرایا کہ کوئی ہے جو کنواں خریدے_ تیسری روایت کا کہناہے کہ اس غفاری (کنویں کے مالک ) نے جنت میں دو چشموں کے بدلے بھی پاک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں اسے بیچنا گوارا نہ کیا _جب یہ بات حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار میں خریدا(۲) _

____________________

۱)اس توجیہ کو سمہودی نے وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۷۰ میں ذکر کیا ہے_

۲)ان روایات کا مطالعہ فرمائیں اور ان کا آپس میں تقابل کریں_وفاء الوفاء للسمھودی ج / ۳ ص ۹۶۷ _ ۹۷۱ ، سنن نسائی ج/۶ ص ۲۳۴، ۲۳۵ ، ۲۳۶ ، منتخب کنز العمال ج/۵ ص۱۱ ، حیات الصحابہ ج/۲ ص ۸۹ از طبرانی وابن عساکر ، مسند احمد ج /۱ ص۷۰ ، ۷۵ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۷۵ ، اسی طرح بغوی، ابن زبالہ، ابن شبة، ابن عبدالبر، الحازمی، ابن حبان، ابن خزیمہ سے بھیروایت کی گئی ہے ، الترمذی ص ۶۲۷ ، حلیة الاولیاء ج/۱ ص ۵۸ ، البخاری حاشیہ فتح الباری ج/۵ ص ۳۰۵ ، فتح الباری ج ۵ ص ۳۰۵ ، ۳۰۶ ، سنن بیہقی ج/ ۶ ص ۱۶۷ ، ۱۶۸نیز التراتیب الاداریہ _

۳۲

اختلافات اور تناقضات کی فہرست طولانی ہے جن کے ذکر کا موقع نہیں _اگر کوئی چاہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتاہے جن کے ہم نے حوالے دیئے ہیں_

ثانیاً : نسائی، مسند احمد اور ترمذی جیسی کتب میں ایک روایت مذکور ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مدینہ تشریف لائے تووہاں میٹھا اور پینے کے قابل پانی نہ تھا_ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کیوں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کے کافی سارے کنویں تھے_ جن کنوؤں سے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی بھر پانی استعمال فرمایا_ ان کنوؤں میں سے اسقیا، بضاعہ، جاسوم اور دار ا نس کے کنویں تھے جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دین پھینکا تو اسکے بعد مدینے میں ان سے زیادہ میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا(۱) اس کے علاوہ بہت سارے کنویں تھے اس سلسلے میں وفاء الوفاء کے باب '' آبار المدینہ'' کا مطالعہ کرسکتے ہیں _

ثالثاً : اگر رومہ کے کنویں والی حدیث صحیح مان لی جائے تو پھر مندرجہ ذیل جواب طلب سؤالات سامنے آتے ہیں_

۱_حضرت عثمان جو حبشہ سے تازہ آئے تھے اور انکے پاس کوئی مال و متاع بھی نہ تھا تو پھر چالیس ، پینتیس یا بیس ہزار درہم اور سو اونٹنیاں کہاں سے آگئیں _ انہوں نے کب اور کس طرح یہ مال کمایا؟_

۲ _ حضرت عثمان نے جنگ بدر کے موقع پر اتنی بڑی رقم کے ہوتے ہوئے مدد کیوں نہ کی ؟ یا ان اونٹیوں میں کوئی چیز کیوں خرچ نہ کی جو روایات کے بقول یہ ان کا خالص ذاتی مال تھا؟ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی اشد ضرورت تھی _کیونکہ دو یا تین افراد ایک ہی اونٹ پر بیٹھتے تھے اوران کے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا _ مسلمانوں کے پاس صرف چھ عدد زر ہیں اور آٹھ عدد تلواریں تھیں جبکہ باقیوں نے ڈنڈوں اور کھجور کی چھڑیوں کے ساتھ جنگ کی _ اسکا اور اس کے منابع کا ذکر آئے گا_

حضرت عثمان نے اپنے اموال سے بالکل بھی مدد نہ کی ؟ کیا پھر بھی یہ بات درست اور معقول ہے کہ انہوں نے اپنے پاس موجود سب کچھ لٹا دیا اور خالی ہاتھ ہوگئے؟

____________________

۱) وفاء الوفاء للسمھودی ج/ ۳ ص ۹۵۱ ، ۹۵۶ ، ۹۵۸ ، ۹۵۹ ، ۹۷۲_

۳۳

حضرت عثمان نے کیونکر غریب مسلمانوں کو کھانا نہ کھلایا ، انکی ضروریات کو پورا نہ کیا اور انصار کی مدد نہ کی ؟ خود پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیوں نہ کی _ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدید اقتصادی بحران کا شکار تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی معاشی حالت ہجرت کے چند سال بعدجاکے کہیں ٹھیک ہوئی؟

۳_ بعض روایات کہتی ہیں کہ حضرت عثمان کو اس کنویں کا پانی پینے سے منع کردیا گیا جس سے وہ سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے_ یہ بات واقعاً بہت عجیب ہے پس اگر حضرت عثمان پانی حاصل کرسکتے تھے تو انہوں نے مدینہ میں دسیوں کی تعدا میں موجود دیگر کنوؤں کا میٹھا پانی کیوں استعمال نہیں کیا ؟_

کیونکہ جس شخص نے پانی پینے سے منع کیا تھا وہ تو چاہتا تھا کہ ان تک کسی طرح کا کوئی پانی ، کہیںسے بھی نہ پہنچے_ کیونکہ بقول ان کے حضرت عمار یاسر اس تک پانی پہنچانے لگے تو طلحہ نے انہیں منع کردیا _(۱)

پس جب تک حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے بچوں کے ہمراہ پانی نہیں پہنچایا تب تک انہیں پانی میسر نہیں آیا اور واضح ہے کہ آپعليه‌السلام نے اس کام سے اپنے خاندان کو خطرات میں جھونک دیا_ کیا یہ درست ہے کہ انہوں نے واقعا سمندر کا پانی پیا تھا؟_ جبکہ سمندر کا فاصلہ مدینہ سے بہت زیادہ دور ہے _ یا یہ نمکین اور کھارا پانی استعمال کرنے سے کنایہ ہے ؟ ؟

۴_ اگر حضرت عثمان نے یہ سارا مال صدقہ کیاتھا تو کیوں ان کی مدح میں ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی جو اس عمل کی تعریف کرتی جبکہ حضرت علیعليه‌السلام نے مختلف اوقات میں '' جو کی تین روٹیاں'' ، '' انگوٹھی'' ، '' چاردرہم'' اسی طرح '' نجوی'' کے واقعہ میں صدقے دیئے تو مختلف آیات کے نزول سے تعریف کے مستحق بنے لیکن حضرت عثمان کئی ہزار درہم اورایک سو اونٹنیاں صدقہ دینے پر بھی کسی تعریف کے مستحق نہیں ٹھہرے بلکہ خدا نے ان کے متعلق ایک کلمہ یا ایک حرف تک بھی ارشاد نہیں فرمایا ؟ اس کے برعکس وہ روایت جو اس عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے اس میں بہت زیادہ تناقض پایا جاتاہے اور وہ علمی اور آزاد تنقید کے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتی _ اس کے علاوہ انہوںنے بھی دوسرے صحابہ کی طرح ایک درہم کا صدقہ دے کر ''آیت

____________________

۱)وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۴۵_

۳۴

نجوی'' پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ یہاں تک کہ اصحاب کی مذمت میں آیت نازل ہوئی_ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو سے قبل صدقہ دینے سے کترانے پر ان کی بھی دوسرے صحابہ سمیت مذمت کی ہے _

'' اریس'' کا کنواں

بالا خر ہم یہ نہیں جان سکے کہ صرف '' رومہ'' کے کنویں کو اتنی عزت و عظمت کیسے ملی اور اریس کے کنویں کے ساتھ ایسا کیوں نہ ہوا ؟ _ جبکہ دعوی یہ ہے کہ یہ کنواں بھی حضرت عثمان نے ہی ایک یہودی سے خریدا تھا_ پھر اسے وقف بھی کردیا تھا _(۱) اللہ تعالی حضرت عثمان کو کنوؤں کے معاملے میں برکت دے لیکن یہودیوں کو تو اس غم اور غصہ سے مرجانا چاہئے تھا کیونکہ کنویں تو وہ کھودتے تھے لیکن ان سے حضرت عثمان خرید خرید کر وقف کردیتے تھے اور یہ سب فضیلت ، کرامت اور عظمت حاصل کرتے جاتے تھے _

مسئلے کی حقیقت

ظاہراً صحیح بات وہی ہے جو '' عدی بن ثابت '' کے ذریعہ سے ابن شبہ کی روایت میں آئی ہے کہ مزینہ قبیلے کے ایک شخص کو '' رومہ '' نامی کنواں ملاتو اس نے اس کا ذکر حضرت عثمان (جو اس وقت خلیفہ تھے) سے کیاتو انہوں نے یہ کنواں بیت المال سے ۳۰ ہزار درہم کا خریدکر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا(۲) _

لیکن سمہودی نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایت متروک ہے اور زبیر بن بکار نے اپنی کتاب ''عتیق'' میں اس روایت کو بیان کیا ہے_لیکن وہ اسے رد کرتے ہوئے کہتاہے:'' یہ درست نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ثابت یہ ہے کہ حضرت عثمان نے یہ کنواں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اپنے مال سے خریدکر اسے وقف کردیا تھا''(۳) _

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۶۸_

۲)وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۶۷ از ابن شبة _اس روایت کو زبیر بن بکار نے بھی روایت کیاہے_

۳)گذشتہ حوالہ_

۳۵

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ روایات جن کی طرف زبیر بن بکار نے اشارہ کیا ہے کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہیں _خصوصاً جبکہ ان روایات میں بہت اختلاف اور تناقض پایا جاتاہے اور ان روایات پہ ایسے اعتراضات بھی گزر گئے ہیں کہ جن کا کوئی جواب نہیں نیز ان روایات کی اسنا د و مدارک میں بھی بہت سے اعتراضات ہیں _ ایسے حالات میں روایت مذکور کی سند میں متروک شخص کے ہونے میں کوئی حرج نہیں _ اور اسے ماننا ہی پڑے گا کیونکہ یہ روایت اس زمانے کے حالات اور تاریخی واقعات سے مطابقت بھی رکھتی ہے_ اور بقیہ روایات بھی صحیح نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ ساری کی ساری حضرت عثمان کی فضیلت بنانے کے لئے گھڑی گئی ہیں_

البتہ مذکورہ بالا روایت کا یہ جملہ ہم نہیں سمجھ سکے '' انہوں نے بیت المال مسلمین سے ۳۰ ہزار درہم کا کنواں خریدا اور پھر مسلمانوں کے لئے اسے وقف کردیا ...'' _اگر یہ کنواں مسلمانوں کے اموال سے خریدا گیا تھا تو پھر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کرنے کا کیا معنی ہے؟ہاں اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ در حقیقت بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے اس لئے اسے وقف کہتے تھے _ اور ہم نے ان کے اس نظریئے پر کچھ دلائل اور قرائن بھی بیان کئے ہیں اس لئے آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں(۱)

کھجور کی پیوندکاری

کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور کھجوروں کی پیوند کاری کر نے والے کچھ افراد کے قریب سے گذرے ( یا ان کا شور سنا ) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم اس کام کو چھوڑ دو تو بہتر ہوگا _ ان لوگوں نے اس کام کو چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھجوریں نرم گٹھلی والی اور خراب نکل آئیں _ پھر ایک روز ان کے قریب سے گزرے یا ان سے یہ بات ذکر کی گئی، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا تمہاری کھجوروں کو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی تو ایسا کرنے کو کہاتھا (لہذا اس کا نتیجہ واضح ہے)_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱) ملاحظہ ہو ہماری کتاب : دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام ، بحث ''ابوذر ، سوشلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان ؟''_

۳۶

نے فرمایا:'' تم لوگ دنیاوی امور کو مجھ سے بہترجانتے ہو'' _ یا یہ فرمایا : ''اگر مفید تھا تو انہیں ویساہی کرنا چاہئے تھا میں نے تو یوں ہی ایک گمان کیا تھا_ لہذا تم لوگ اس گمان کی وجہ سے میرا مؤاخذہ نہیں کرسکتے _ البتہ میں جب اللہ تعالی کی کوئی بات تمہیں بتاؤں تو تم اس پر ضرور عمل کرو کیونکہ میں خدا پر ہرگز جھوٹ نہیں بولتا''_(۱)

ہمیں اس روایت کے صحیح ہونے میں شک ہے _کیونکہ اس روایت کی نصوص میں بھی اختلاف پایا جاتاہے _اس کے علاوہ مندرجہ ذیل چند سوالات کا پوچھنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے کاموں میں مداخلت کیوں کرتے تھے جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان میں کوئی مہارت حاصل تھی ؟

کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں جانتے تھے کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہرلفظ پر عمل کرتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں ؟ ؟_

لوگ اتنے بڑے نقصان پر کیسے راضی ہوگئے؟ پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشور ے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون تھا؟ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کہنا کیسا ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو وہ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص کو حکم دیا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ بھی سن رہاہے سب تحریر کرے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کوئی چیز نہیں نکلتی ؟ یہ روایت بہت مشہور و معروف ہے _ یہ روایت اپنے مآخذو مدارک کے ساتھ پہلی جلد میں بیان ہوچکی ہے ، وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن مبارک اس وقت (۳۳ تینتیس) سال سے زیادہ تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عرب خطے کے مرکزی حصے کے رہنے والے تھے_ کیا ہم اس بات کی تصدیق کرسکیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند کاری اور اس کے فوائد کو نہیں جانتے تھے اور یہ کہ کھجور اسکے بغیر کوئی نتیجہ نہیں دیتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی کا

____________________

۱)صحیح مسلم ج/۷ ص ۹۵، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص ۸۲۵ کتاب الرھون باب ۱۵، مسنداحمد ج/۶ ص۱۲۳نیز ج ۳ ص ۱۵۲، البر صان والعرجان ص ۲۵۴، مشکل الآثارج/۲ص۲۹۴، کشف الاستار عن مسند البزار ج ۱ ص ۱۱۲ ، مسند ابویعلی ج ۶ ص ۱۹۸و ۲۳۸ و صحیح ابن حبان مطبوعہ مؤسسة الرسالہ ج ۱ ص ۲۰۱_

۳۷

ایک بڑا عرصہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ سنا ہو حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی عربوں کے درمیان اور ان کے ساتھ رہتے تھے یا کم از کم ان کی ہمسائیگی میں تو تھے؟

بالآخر کیا یہ صحیح ہے کہ دنیاوی امور میں لوگوں پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت واجب نہ تھی؟ اور یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی تھی؟ کیا یہ درست ہے کہ اسلام، دین اور دنیا میں فاصلے کا قائل ہو اور اس دین مقدس کا کل ہم و غم دنیاوی امور نہ ہوں بلکہ صرف اخروی امور ہوں ؟ کیا یہ اسلام پر بہتان اور تہمت نہیں ہے ؟ کیا یہ سب کچھ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہیں ؟اور کیا یہ سیکو لرازم کی طرف اشارہ نہیں ؟ اور اسلام کو صرف عبادت گا ہوں میں منحصر کرنے کی ابتداء نہیں ؟

۳۸

۴۱

تیسری فصل :

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام

۳۹

تمہید:

مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے ایسے بنیادی کام انجام دیئے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسلامی دعوت کے مستقبل سے مربوط تھے، یہ کام مختلف نوعیت کے تھے ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱: نماز جمعہ کا انعقاد_

۲ : مسجد قبا کی تعمیر،ان دونوں کا موں کے متعلق ہم پہلے بحث کرچکے ہیں_

۳ : مدینہ میں مسجد کی تعمیر _اس بارے میں ایک علیحدہ فصل میں بات کریں گے_

۴ : ہجری تاریخ کا آغاز _اس کے لئے بھی ایک علیحدہ فصل مخصوص کی گئی ہے_

۵ : مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ_

۶ : مسلمانوں کے آپس میں آئندہ تعلقات نیز غیر مسلم اقوام کے ساتھ ان کے روابط

کی نوعیت اور حدود کا تعین_

۷ : علاقے میں بسنے والے یہودیوں سے صلح :

اور ان مؤخر الذکر تین امور کے لئے بھی علیحدہ فصل رکھی گئی ہے_

اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ اور کام بھی انجام دیئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے ، یہاں ہم مؤخر الذکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پانچ کاموں کی وضاحت کرتے ہیں اور ابتدا ہجری تاریخ کے آغاز سے کرتے ہیں_

۴۰

بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

اس کم فر صت اور محدود عمر میں وقت کو ضائع کرنے والے امور سے گریز کریں اور ایسے مہم اور ضروری مسائل میں وقت صرف کریں کہ جو دنیا و آخرت کے لئے سود مند ہو ں ۔

ہم مہم ترین اور ضروری مسائل کو اپنا ہدف قرار دیں اور ان  تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ۔ کیونکہ غیر ضروری اور غیر مہم مسائل میں وقت صرف کرنے سے ہم اساسی و باارزش امور بہول جائیںگے اورخلقت کے عالی ہدف و مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اشتغل بغیر المهمّ ، ضیّع الدهمّ ''(۱)

جو غیر مہم امور میں لگا رہے وہ مہمترین امور کا ضائع کر دیتا ہے  ۔

اہمیت نہ رکہنے والے غیر ضروری مسائل میں مصروف رہنے سے بزرگ و اعلیٰ اہداف سے پیچہے رہ جائیں  گے یہ ایک حقیقت ہے کہ جسے حضرت امیر المو منین نے مختصر سے کلام کے ضمن میں بیان فر مایا ہے تا کہ اس سے بشریت بالخصو ص جوان و نو جوان نسل درس لے ۔ اگر بشریت مولا کے اس فرمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۰ ۳۳

۴۱

سے درس لے تو دنیا میں عظیم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے چو نکہ ہماری عمر محدود ہے اور ہم میں تمام امور کو احاطہ کرنے کی قدرت و توانا ئی نہیں ہے ، لہذا اسے بہترین اور باعظمت امور میں صرف کریں اور بے ارزش امور میں وقت صرف کرنے سے پر ہیز کریں کہ جو عمر کے ضیاں و تبا ہی وبربادی کے علاوہ کچہ نہیں ۔عمر سے اچہے طریقہ سے استفادہ کرنے اور اسے مہم و با ارزش امور پر صرف کرنے کے لئے ہماری فکر جزئی مسائل کی طرف مشغول نہیں ہو نی چاہئیے تا کہ ہم بہترین اہداف ومقاصد کو حاصل کرسکیں ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' انّ رأ یک لا یتّسع بکلّ شیئٍ فضرّ عنه للمهمّ ''(۱)

تمہاری فکر تمام امور کو احاطہ کرنے کی وسعت نہیں رکہتی لہذا اسے مہم امور کے لئے استعمال کرو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ شرح غرر الحکم :ج۲ص  ۶۰۶

۴۲

ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

مہم ترین و بہترین ہدف کے انتخاب کے لئے اس کاانجام و نتیجہ کا ملاً واضح و معلوم ہو لہذا ایسے کام اور پروگرام ترتیب دیں کہ جس کے انجام کو ہم اپنا ہدف قرار دیں اور اس کے بارے میں ہمیں مکمل شناخت ہو اور تحقیق و بررسی کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے لئے روشن ہو ۔

اس کے نتیجہ کو خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے حاصل ہونے والی فر ما ئشات سے موازنہ کے بعد اپنی ہمت کو ہدف تک پہنچنے کے لئے تقویت دیں اور سستی و غفلت اور فراموشی کو ترک کر دیں ۔

پیغمبر اکرم(ص) نے فر ما یا :

'' اذا هممت بامرٍ فتدبّر عاقبته فان کان خیراً فَاَشرع الیه و ان کان شرّاً فانته عنه ''(۱)

جب کسی کام کو کرنے کے لئے ہمت کرو تو اس کے انجام کے بارے میں تدبر کرو اگر وہ کام اچہا اور پسندیدہ ہو تو اس کو انجام دو اور اگر وہ برا اوربرا ہو تو  اسے انجام دینے سے باز رہو ۔جب آ پ کسی کام کو اپنا ہدف قرار دیں تو اس کے انجام کے بارے میں بررسی و تحلیل کریں اور اس کے آئندہ کو اچہی طرح تشخیص دینے کے بعد اس کام کو شروع کریں پہر اسے آج کل انجام دینے کی بجائے فر صت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں کہ جب تک آپ کے لئے کوئی مانع درپیش نہ آئے یہ وہ راستہ ہے کہ جس پر بزرگان چلے آپ بہی ان کے نقش قدم ہر چلتے ہوئے اس مسیر کو طے کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۲ص  ۳۴۲

۴۳

انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

جس طرح ہم نے کہا کہ انسان کا زندگی میں کوئی ہدف ہونا چاہیئے لہذا اسے عا لی ترین اہداف کی شناخت ہو ،تا کہ ان میں سے بہترین کا انتخاب کرے خلقت انسان کے سر و راز سے آشنائی ہماری راہنمائی کر سکتی ہے اور ہمارے لئے حقیقت کو آ شکار کر سکتی ہے ۔خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا ہے : '' وما خلقت الجنّ والا نس الاَّ ما لیعبدون ''   (۱) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔تفسیر نو ر الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں امام صادق سے ایک روایت کو ذکر کیا گیا ہے :'' قال خرج الحسین بن علیّ  علیٰ اصحابه- فقال : ایّها النّاس انّ اللّٰه عزّ وجلّ ذکره ، ماخلق العباد الاَّ لیعرفوه، فاذا عر فوه عبدوه ، فقال له رجل یابن رسول اللّٰه بابی انت و امّی فما معرفت اللّٰه - قال: معرفة اهل کلّ زمان امامهم الّذی تجب علیهم طاعته ''(۲)

امام صادق نے فرمایا : کہ امام حسین  اپنے اصحاب پر وارد ہوئے اور فرمایا : اے لوگو ! خدا نے بندوں کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اسے پہچانیں جب وہ اسے پہچان لیں تو پہر اس کی عبادت کریں اور  پہر اس کی عبادت کے ذریعہ غیر کی بندگی سے بے نیاز ہوجائیں ۔ ایک شخص نے آنحضرت سے عرض کی اے فرزند پیغمبر میرے ماں  ، باپ آپ پر قربان ہوں ،معرفت خدا سے کیا مراد ہے ؟ امام حسین  نے فرمایا : معرفت خدا سے یہ مراد ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے وقت کے امام کو پہچانیں کہ جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ الذا ریات آ یت: ۵۶

[۲] ۔ تفسیر نو ر الثقلین:ج ۵ص ۱۲۲

۴۴

اس یہ آیہ شریفہ اور وایت مذکورہ سے واضح و روشن ہو جا تا ہے کہ جنّ وا نس کی خلقت کا مقصد مقام عبودبیت تک پہنچنا ہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب معرفت خدا کے ہمراہ ہو جو خدا کی معرفت و شناخت رکہتا ہو وہ امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مقام سے بہی آشنائی رکہے ۔

پس آج کے زمانے میں ہمارا یہ وظیفہ ہے کہ ہمیں امام زمان  ارواحنا لہ فداہ کی معرفت و پہچان ہو اور امام کی خدمت کو اپنی زندگی کا ہدف و مقصد قرار دیں ۔ کیو نکہ امام صادق اپنے زرین کلام میں اس زمانے کے تمام شیعوں اور مقام ولایت کے پروانوں کا وظیفہ یوں بیان فرما تے ہیں :

'' لو ادرکته لخدمته ایّام حیاتی ''(۱)

اگرمیں  انہیں( امام زمانہ)کو درک کر لوں تو ساری  زندگی ان کی خدمت کروں۔  

گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہو ہم مقام عبودیت تک پہنچنے اور معارف دینی کو کسب  کرنے کے بعد امام ز مان ارواحنا فداہ کی بہتر خدمت کریں تا کہ اس وجود مقدس کے لطف و کرم سے بہرہ مند ہوں اور اس بزرگوار کے خدمت گاروں میں شمار ہوں ۔

جی ہاں ، ہر زمانے میں دین ، امام اور حجت زمان کی خدمت ان لوگوں کا شیوہ رہا ہے کہ جنہوں نے مقام عبودیت کو پالیا ، سلمان ، ابو ذر ، قنبرو مقداد اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے تمام خاص اصحاب مقام بندگی اور پرور دگار کی عبودیت کے بعد پوری زندگی اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میںکوشاں رہے اور کامیاب ہو گئے ۔

یہ ان لوگوںکی راہ ہے کہ جو ہدف خلقت کے ہدف کو پہچان گئے آپ بہی ان کے راستے پر چلیں تا کہ کامیاب ہو جائیں ۔

در زندگی اگر ہدف نہ داری     از گنج جہان بہ جز خزف نداری

اگرتمہا ر ا  زندگی میں کوئی ہدف و مقصد نہ ہو تو تمہیں  دنیا کے گنج و خزانے سے اینٹ کے علاوہ کچہ حا صل نہیں ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۳] ۔ بحار الانوار :ج۵۱ص  ۱۴۸

۴۵

مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

۱ ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

بہت سے لوگ علوم و معارف میں بلند مقام اور پیشرفت کے خواہاں ہو تے ہیں تا کہ وہ بہی بزرگ افراد کی طرح اپنی ملت کیتقدیر کے لئے مؤثر کردار ادا کر سکیں اور لوگوں کو معنویت کا راستہ دکہا ئیں اور ان کی راہنا ئی کریں ۔

یہ ایک ایسی چاہت ہے کہ جو بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے لیکن وہ عظیم لوگوں کی کامیابی کے راز سے مطلع نہیں ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے صفحات کو اپنے نام سے روشن کیا ۔وہ اس آرزو سے نا امید ہو کر اسے صرف خام خیالی سمجہتے ہیں ۔ مکتب اہل بیت علیہم السلام سےسیکہے ہوئے انسان سازی کے دروس کو مد نظر رکہتے ہوئے اور ان بزرگان کی حیات بخش راہنما ئی (جو ہمارے قلوب کو منور کر تی ہے ، اس سے یہ حقیقت آشکار ہو تی ہے کہ عالی مقاصد و اہداف اور بزرگ آرزو ایسے امور میں سے ہے کہ خاندان وحی و عصمت و طہارت نے اپنے پیرو کاروں اور محبّوں کو اس کی تلقین کی اور انہیں یأس و ناامیدی سے نکا لا ۔

ان عظیم ہستیوں نے نہ صرف اپنی گفتار و فرامین بلکہ اپنی دعاؤں میں بھی ہمیں امید و آرزو کا درس دیا ، لہذا انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ جمعہ کے روز یہ دعا پڑھو :'' الّلهمّ اجعلنا من اقرب من تقرّب الیک '' (۱) پرور دگار ا ہمیں انکے نزدیک قرار دے کہ جنہوں نے تم سے تقرب پالیا ۔ ایسی دعا ئیں ہر اس شخص کے لئے امید کا درس ہے کہ جو اپنے میں حقارت کا احساس کر تے ہیں اور یہ دعا ئیں مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکا روں کے دلوں میں عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے امید کی شمع ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار :ج۹۰ص  ۳۳۹

۴۶

ایک نکتہ کا تذکر

اپنے اہداف کے مخالف اور نا امید افراد سے  ہمنشینی نہ کریں ان کے ساتہ بیٹہنے سے یأس وناامیدی ایجاد ہوتی ہے جو  اور آپ کے ارادہ و ہدف تک پہنچنے پر اثر انداز ہو گی ، اگر آپ ایسے افراد کے ساتہ بیٹہنے پر مجبور ہوں تو ان کو اپنے ارادہ  و ہدف سے آگاہ نہ کریں اور یہ راز اپنے دل میں مخفی رکہیں ۔

بعض لوگ دوسروں کا تمسخر و مذاق اڑانے سے ان کے مستقبل کو بدل دیتے ہیں اور وہ اپنی طرح  انہیں بہی عالی و عظیم اہداف تک پہنچنے سے مایوس کر دیتے ہیں اور ان کی کامیابی کی راہ میں روڑہے  اٹکاتے ہیں ۔ ایسے افراد آپ کی ترقی کی راہ میں رکا وٹ ہیں وہ چند کلمات کے ذریعہ آپ کو آپ کے اہداف و کا میابی سے منحرف کر سکتے ہیں ایسی صورت میں آپ کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو پہچانیں اور ان کے زہر آلود کلمات سے دل سرد اور مسموم نہ ہوں ۔

۴۷

۲ ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

انسان کو بلند و عالی مرتبہ مقا مات کے حصول سے روکنے میں شیطان کی سازشیں بہی اثر انداز ہوتی ہیں ۔ شیطان مختلف قسم کے وسواس ڈالتا ہے کہ کیا تمام مشکلات کے با وجود اس راستے پر چلنا ممکن ہے ؟ کیا اپنے ہدف کو اس کی پوری عظمت کے ساتہ مکمل کر سکتے ہو ؟ اور کیا ؟

کبہی شیطان نہ صرف فعالیت کو شروع کرنے سے پہلے وسوسوں اور گمراہ کنندہ خیالات سے یأس وناامید ی کو ایجاد کر تا ہے بلکہ کبہی آدہے راستے میں راہ سے گمراہ کر دیتا ہے ۔

عظیم مقاصد و اہداف کے طالب توجہ کریں کہ انسان اس طرح سے خلق ہوا ہے کہ اگر کچہ   مدت تک سختیوںکو برداشت کرے تو اس کی مشکلات و سختیاں ،سہل و راحت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ اگر ابتداء میں  کوئی کام مشکل بہی ہو تو تکرار کے ذریعہ اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خداوندمتعال عظیم اہداف رکہنے والوں کی مشکلات کو آسان فرما تا ہے اور اہل بیت عصمت و طہارت  کی مدد ودستگیری فر ما کر ان کی مشکلا ت کو حل فر ماتا ہے۔ خداوند کریم بہت سے سنگین ا و ر بڑے مسائل کو بر طرف کردیتا ہے ۔

حقیقت بہی ان ہی مسائل میں سے ایک ہے کیو نکہ حق تلخ و سنگین ہو تاہے  بالخصوص ایسے افراد کے لئے کہ جو گناہوں کی آلودگی ہیں غرق اور نفسانی  خواہشات  اور  شیطانی  وسوسوں کے تابع ہوں  ، ایسے افراد کے لئے حق بہت سنگین ہو تا ہے کیو نکہ یہ ان کی چاہت سے ساز گار نہیں ہو تا لیکن حقیقت کے طلبگار اور حقیقت تک  پہنچنے کی خواہش رکہنے والوں کے لئے حق سنگین نہیں ہو تا  ۔

۴۸

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' والحق کلّه ثقیل و قد یخففه اللّٰه علیٰ اقوام طلبوه العاقبة ''(۱)

تمام حق سنگین ہیں ، لیکن خدا عاقبت کی جستجو کرنے والوں کے لئے اسے سبک کر دیتا ہے۔

ان فرامین سے یہ معلوم ہو تاہے کہ طلب و جستجو مشکلات کی آسانی میں بہت مؤثر ہے بڑے اہداف کو مشکل اور ان تک دسترس کو محال سمجہنے والے ایسے افراد ہیں کہ جو آرزو و طلب کو پانے کی ہمت نہیں رکہتے ۔

جنہوں نے صمیم قلب کے ساتہ اپنی چاہت و مقصد کو پانے کی کوشش کی ، وہ اپنے مقصد تک   پہنچ گئے ۔ اگر چہ ان کا مقصد و چاہت بہت مشکل تہا ، لیکن کیو نکہ وہ مکمل طور پر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے بالآخر ان کی سختیاں اور مشکلات سہو لت و آسانی میں تبدیل ہو گئیں کہ و ہ خود بہی یہ تصور نہیں کر سکتے تہے کہ انہوں نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے ۔

یقین کریں کہ کسی چیز کی طلب کے لئے جستجو کرنا اور اس کے حصو ل کی سر توڑ کو شش سے اس کے حصول کے بعد مسرت و راحت ہو تی ہے ۔

لہذا کامیابی اور عظیم مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ، اس کے حصول کی جستجو کریں تا کہ اس کے حصول کا زمینہ فراہم ہو سکے ۔ گوشہ نشینی اور ہاتہ پر ہاتہ دہرے ، خیا لات میں کہوئے رہنے سے انسان اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ لوگ اپنی دلی خوا ہشات  اور مقاصد حاصل  کر سکتے ہیں جو ان کے حصو ل کی کوشش کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  شرح غرر الحکم :ج۵ص  ۰۵ ۳

۴۹

اگرکوئی اپنے مقصد کو پانے کی جستجو و طلب کرے تو ایسا نہیں کہ اسے اس سے کچہ بہی حاصل نہ ہو، اگر وہ تمام مقصد کو نہ پاسکے تو اسے کسی حد تک ضرور حا صل ہو گا ۔ یہ بذات خود ایک اہم نتیجہ ہے کہ جو طلب میں پو شیدہ ہے ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من طلب شیئاً ناله او بعضه ''(۱)

اگر کوئی کسی چیز کی طلب کرے تو وہ اس تمام چیز یا ا س کی کچہ مقدار کو حاصل کرے گا ۔

 اس بناء پر بڑے اور با ارزش ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کی تلاش و جستجو کریں اس صورت میں آپ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے یااپنے ہدف کی کچہ مقدار کو پالیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۰۵ ۲

۵۰

۳ ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

مکتب اہل بیت علیہم السلام میں کمال کے عالی مراتب و مراحل تک پہنچنے کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے اسی وجہ سے آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کے بہت سے ہدایت کنندہ کلمات میں اس بارے میں وارد ہواہے اگر انسان ان پر عمل کرے تو اس کا مستقبل روشن ہو گا ۔ ان فرمائشات و ارشادات میں سے ایک بزرگ ہستیوں کے ہمرا ہ ان کی خدمت میں رہنا ہے کہ جو عظیم اہداف کو پانے میں کامیاب ہو گئے ۔ امام صادق(ع) سے ایک شعر کے ضمن میں نقل ہوا ہے :

'' عَلَیکَ باَهل العلیٰ ''(۱)

تم پر لازم ہے کہ تم اعلیٰ مرتبہ شخصیات کے ساتہ رہو ۔

کیونکہ ایسے افراد کو دیکہنا ،ان سے ہمنشینی ان کی صحبت اور ان کی محافل میں بیٹہنا ، انسان کے افکار و رفتار پر اثر انداز ہو تا ہے اور یہ انسان کے ارادہ کو قوی بنا کر ا سے بلند اہداف کی راہ دکہا تا ہے ۔ایسے افراد کی ہمت ، ضعیف و کمزور ارادہ کے مالک افراد کی ہمت کو بلند کر تا ہے ان کا عالی مقام بے ہدف افراد کو بیدار کر تا ہے ۔

جی ہاں ، آپ ان بزرگ ہستیوں کے محضر مقدس میں با ارزش ہدف سے آ شنا ہوں گے اور آپ   میں ان اہداف تک پہنچنے کا اشتیاق بڑے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  بحار الانوار:ج ۴ص۷  ۲۴

۵۱

۴ ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

جو بلند اہداف کو پانا چاہتا ہے وہ سستی و کاہلی کو چہوڑ دے اور نفسانی خوا ہشات سے مردانہ وار مبارزہ کرے ۔

حضرت امیر المو منین  فر ماتے ہیں :

'' من احبّ نیل الدرجات العلیٰ فلیغلب الهویٰ ''

جو بلند درجات تک پہنچنے کو دوست رکہتا ہے وہ اپنے ہواء نفس پر غالب آئے 

یہ ملکوتی فرمان صاحب ولایت ملک و ملکوت حضرت امیر المو منین  کی زبان سے صادر ہوا ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ جو بلند اہداف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور جو بلند دینی و معنوی مقاما ت کے لئے کوشاںہیں ۔

یہ آسمانی فرمان تمام ا نسانوں بالخصوص نو جوانوں  اور جوانوں کے لئے بہت بڑا پیغام ہے کہ جو روشن مستقبل کی آرزو رکہتے ہیں

۵۲

۵ ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت  سے توسل

جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے کہ انسان کو ہر نیک اور پسندیدہ کام کو انجام دینے کے لئے  تین چیزوں کی احتیاج ہوتی ہے ۔

۱ ۔ارادہ

۲ ۔ مورد نظر ہدف کوانجام دینے کی قدرت

۳ ۔ خدا وند متعال کی جانب سے توفیق کہ جو ا س کی دستگیری فر مائے

ان تین موارد میں سے اگرکسی میں بہی ضعف ہو تو کام کو انجام دینے میں پیشرفت نہیں ہو گی اور  کام متوقف ہو جائے گا ۔

ان تین شرائط کے لے اور ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خاندا ن وحی کو وسیلہ قرار دیں ہم زیارت امیرالمومنین (ع)  میں پڑہتے ہیں :

'' بک اتوسّل الی اللّٰه فی بلوغ مقصودی ''(۱)

اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خدا کی طرف آپ کو وسیلہ قرار دیتا ہوں ۔

 نہ صرف کام کی ابتداء اور مذکورہ شرائط کے حصول کے لئے بلکہ ہدف و مقصد کے حصول تک متوسل رہیں اور جانشیناں خدا ور امیران کائنات کو فیوضات الٰہی اور اہداف تک پہنچنے کے لئے واسطہ قرار دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار:ج ۱۰۰ص ۳۳۲

۵۳

نتیجۂ بحث

بہترین و عالی ترین ہدف کو پہچانیں اور اس کا انتخاب کریں پختہ و مصمم ارادے سے ہدف تک پہنچنے کی جستجو کریں ۔

بے ہمت افراد سے پر ہیز کریں اور بلند اہداف رکہنے والے افراد سے مصاحبت و ہمنشینی رکہیں تاکہ اس ذریعہ سے آپ کا عالی و با ارزش ہدف مشخص ہو سکے جب آپ حقیقی و واقعی طور پر بہترین ہدف کے حصول کی سعی کر یں گے تو خداوند مہربان آپ کے لئے سختیوں اور مشکلات کو آسان فر مائے گا ۔

ہوشیار رہیں کہ یہ رنگا رنگ دنیا آپ کو آپ کے عالی انسا نی ہدف سے دور نہ کردے اور آپ سراب کو آب نہ سمجہ بیٹہیں ۔

خلقت انسان کا ہدف خدا وند کریم کی عبادت و بندگی اور مقام عبودیت تک پہنچناہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب مقام ولایت کی شناخت ہو اور کسب معارف الٰہی سے مستفید ہو ں کہ جو تقرب خداوند کانتیجہ ہے ۔

یقین رکہیں کہ مقام عبودیت اور معارف کو کسب کرنے کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے حیات بخش مکتب اور بالا خص امام زمان  کی خدمت کریں ۔ یہ تقرب خداوند کی بہترین راہ ہے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس راہ کو اپنا ہدف قرار دیں اور اس تک پہنچنے کی سعی و کوشش کریں ۔

تا رشتہ زندگی بہ کف می باشد               اقبال تو در برخ شرف می باشد

عمر تو بود صدف در این بحر وجود درّ صدف عمر ، ہدف می باشد

جب تک انسان کا زندگی سے رشتہ و ناطہ رہے تمہا ری عزت ، شرف کی بلندیوں کو چہوتی رہے ۔ تمہاری عمر وجود کے اس سمندر میں ایک صدف کی طرح ہو اور عمر کا گوہر صدف تمہارا ہدف رہے ۔

۵۴

چوتھاباب

بلند  ہمت  اورمستحکم  ارادہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' ما رفع امرئً کهمّته ولا وضعه کشهوته ''

ہمت سے بڑہ کر کوئی چیز انسان کو سر بلند نہیں کر تی اور شہوت سے بڑہ کر کوئی چیز پست نہیں کرتی  ۔

    ارادہ کی اہمیت

    ارادہ سے پہلے اخلاص

    اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

    بلند حوصلہ رکہیں

    اپنے ارادہ پر عمل کریں

    قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

    ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

    اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

    ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

   ۱ ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

   ۲ ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

   ۳ ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں :

    نتیجہ ٔبحث

۵۵

ارادہ  کی  اہمیت

انسان اپنے نفس کو پہچا نے اور اس کی ذات میں خدا وند مہربان نے جو قوت و طاقت و توا نائی ودیعت کی ہے ، اس سے آشنا ہو اور آہستہ آہستہ انہیں قوت و طاقت کے مرحلہ سے فعلیت تک  پہنچائے انہی مہم قوت و طاقت میں سے ایک قوة ارادہ ہے ۔ اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور اسے تقویت دے تو اس با عظمت قوت کے ذریعہ اپنی روحا نی و جسما نی اور معاشرے کی مشکلات کو   حل کرسکتاہے ۔

جو انسان اپنے نفس کو نا پاکیوں سے پاک کرلے تو اس کا ارادہ بہی پاک ہو جا تا ہے اور خدا کے پسندید ہ کاموں میں مد د گار ثابت ہو تاہے ۔ پس اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور پختہ ارادے کا مالک ہو تو وہ اسے احیاء دین کے راستے اور انسا نوں کو اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب اور لوگوں کی خدمت میں استعمال کر سکتاہے ۔

تاریخ انسانیت پر مختصر سی نگاہ میں آپ ملاحظہ کریں گے کہ دنیا کے نامور لوگ بلند ہمت کے مالک تہے ۔ جو روحانی ضعف ،کم ہمت یا احساس کمتری میں مبتلا ہوں وہ کبہی بہی عظیم اہداف تک نہیں پہنچ سکتے ۔

پس وہ احساس کمتری کو چہوڑ کر رو حانی ضعف  سے نجات حاصل کریں  اپنے ارادہ کو قوی کریں اور یقین رکہیں کہ جس خدا نے بزرگان دین کو توفیق عطا کی وہ آپ کو بہی کامیابی و کامرانی تک پہنچاسکتا ہے ۔

۵۶

ارادہ سے پہلے اخلاص

کسی بہی پروگرام ا ور کام کو انجام دینے سے پہلے اس کام کی طرف متحرک کرنے وا لی قوت کو پہچا ننا ضروری ہے کیا آپ کو کوئی رحمانی قوت مورد نظر ہدف کی طرف دعوت دیتی ہے یا یہ انگیزہ کوئی شیطانی محرک  ہے ؟ یا کوئی نفسانی عامل آپ کو آپ کے ہدف کی طرف کہینچتا ہے ؟

تحریک نفس اور شیطانی وسوسہ کے شکار نہ ہونے کے لئے کب ھ ی ب ھ ی آپ کے عمل میں یہ دو محرک نہیں ہونے چاہئیں ۔ ارادہ سے پہلے اپنے دل سے تمام وسوسے اور غیر رحمانی تحریکات کو نکال دیں ۔ پ ھ ر رضائے الٰہی کے لئے مورد نظر پروگرام کا ارادہ  کریں ۔حضرت امام صادق (ع) فرما تے ہیں : '' اذا اردت الحجّ فجرّد للّٰه من قبل عزمک من کلّ شاغلٍ وحجاب کلّ حاجب ''(۱)

جب بہی حج پر جانے کا ارادہ کرو تو ارادہ کرنے سے پہلے اپنے دل سے ہر اس چیز کو نکال دو کہ جو تمہیں اپنی طرف مشغول کرے اورجو تمہارے اور خدا کے در میان حائل ہو ۔

اگر چہ یہ فرمان حج کے بارے میں صادر ہوا ہے لیکن اس میں عظیم مقصد و ہدف تک پہنچنے کے خواہاں ہر شخص کے لئے ایک کلی راہنمائی ہے ۔

ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنے دل کو دنیا وی اغراض سے پاک کر کے فقط خداکی رضا  کو  مد نظر رکہیں ۔ پہر اپنے ارادے کی ابتداء کریں اور اپنے ہدف کے لئے عملی اقدام کر یں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحا ر الانوار:ج ۹۹ص  ۱۲۴

۵۷

اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

ہمارے ذہن میں موجود خیالا ت ہماری زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں نہ کہ ہم جسے زبان پر لائیں ، ہمارے افکار و اعتقادات اور دل کی عمیق آرزوئیں  ہماری زندگی میں تحولات ایجاد کر تی ہیں نہ کہ جن چیزوں پر ہمارا قلبی اعتقاد نہیں ۔

بہت سے انسان اپنے لئے کسی ہدف کا انتخاب کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کا دم بہر تے ہیں ۔ لیکن اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتے ، لہذا وہ کبہی بہی اسے حا صل نہیں ہو تا ۔ ان کے مقابل کچہ ایسے افراد بہی ہوتے ہیں جو وقت گزر نے کے ساتہ ساتہ اپنے ہدف تک پہنچ جا تے ہیں  اور ان کا قیل و قال کہنا واقعیت پیدا کرتا ہے اور ان کی دیر ینہ آرزو پوری ہو جاتی ہے ۔

کیوں کچہ لوگ اس طرح ہیں اور کچہ اپنی پوری زندگی اپنی آرزو وخوا ہش کے پوارا ہونے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہو تی ؟

حا لا نکہ  ہر انسان کو ارادہ  جیسی نعمت حاصل ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں حتی کہ جو افرادخود کو قوة ارادہ سے عاری سمجہتے اور گمان کر تے ہیں کہ ان کے ارادہ  کی قوت ختمہو چکی ہے ، ان میں بہی  ارادہ  کی قدرت ہو تی ہے

۵۸

مثال کے طور پر منشیات کے عادی افراد یہ خیال کر تے ہیں کہ منشیات کے استعمال سے ان کی قوت ارادہ ختم ہو گئی ہے اور وہ کسی چیزکا ارادہ  کرنے کی قدرت کو کہو چکے ہیں ۔ لیکن اس کے با وجود جب وہ نشہ آور چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں تو ان کا ارادہ قوی و پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بہی صورت میں نشہ حاصل کریں گے ۔

اسی طرح اگر کسی تن پرور شخص کو قید کیا جائے اور قید خانے میں اس سے مشقت لی جا جائے تو وہ زندان سے فرار کرنے کے لئے ہر مشکل اور خطر ناک کام کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گا ۔

اس بناء پر معلوم ہو اکہ ایسے افراد بہی  نعمت ارادہ کے مالک ہیں ، لیکن ان کا ارادہ کوئی سمت نہیں رکہتا ۔ وہ بہی اپنے ارادے کو سمت دیں اور اس کی سیدہے راستے کی طرف  ہدا یت کریں اور ان سے صحیح راستے میں ان سے استفادہ کریں نہ کہ اپنے ارادہ کو منشیات کے حصول یا کام سے فرار کے لئے استعمال کریں پس جو اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیتا ہے وہ اپنی ترقی کے لئے  اسباب فراہم کر تا ہے ۔

۵۹

بلند حوصلہ رکھیں

اگر اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنا چاہو تو معنویت کی وسیع فضا میں پرواز کرو ۔ بلند حوصلے اور مردانہ ہمت کے ساتہ عالم معنی کی فضا میں سیر کرو ۔ جس طرح پرندے اپنے بال و پر کے ذریعہ پرواز کر تے ہیں ، اسی طرح بزرگ شخصیات اپنی ہمت و ارادے کے ذریعہ عالم معنی کے نورانی آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے مادی دنیا سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ بزرگ   اس واقعیت کو ایک چہوٹی مگر پر معنی مثال کے ذریعہ یوں بیان کرتے   ہیں :

'' المرء یطیر بهمّته ''(۱) انسان اپنی ہمت کے ذریعہ پرواز کر تا ہے۔

انسان کی ہمت جتنی بلند ہو وہ معنوی فضا میں اتنا ہی اوج پر پرواز کر تا ہے اور اگر عالی ہمت کا مالک نہ ہو تو یوں پرواز نہیں کر سکتا ہے ۔

لہذا اگر انسان کا ہدف تو بڑا ہو لیکن اس ہدف تک پہنچنے کی ہمت نہ ہو تو وہ کبہی بہی اپنے ہدفتک نہیں  پہنچ سکتا ۔ انسان عظیم ہدف کے علاوہ پختہ ارادہ ، بلند حوصلہ اور ہمت کا بہی مالک ہو ۔

 اولیاء خدا مقاما ت عالیہ تک پہنچنے کے لئے قوی ارادے اور بلند ہمت سے آراستہ تہے اور انہوں نے ہمیشہ معنوی مسیر میں استقامت سے کام لیا اورضعف و سستی سے  پر ہیز کیا ، عظیم مقصد ، مردا نہ ہمت ، بلند حوصلہ اور اعلیٰ ہدف ان بزرگون کی صفات تہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ، بحار الانوار:ج ۱۸ص  ۰ ۸ ۳

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259