کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153269 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بہتر ین ہدف کا انتخاب کریں

اس کم فر صت اور محدود عمر میں وقت کو ضائع کرنے والے امور سے گریز کریں اور ایسے مہم اور ضروری مسائل میں وقت صرف کریں کہ جو دنیا و آخرت کے لئے سود مند ہو ں ۔

ہم مہم ترین اور ضروری مسائل کو اپنا ہدف قرار دیں اور ان  تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ۔ کیونکہ غیر ضروری اور غیر مہم مسائل میں وقت صرف کرنے سے ہم اساسی و باارزش امور بہول جائیںگے اورخلقت کے عالی ہدف و مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من اشتغل بغیر المهمّ ، ضیّع الدهمّ ''(۱)

جو غیر مہم امور میں لگا رہے وہ مہمترین امور کا ضائع کر دیتا ہے  ۔

اہمیت نہ رکہنے والے غیر ضروری مسائل میں مصروف رہنے سے بزرگ و اعلیٰ اہداف سے پیچہے رہ جائیں  گے یہ ایک حقیقت ہے کہ جسے حضرت امیر المو منین نے مختصر سے کلام کے ضمن میں بیان فر مایا ہے تا کہ اس سے بشریت بالخصو ص جوان و نو جوان نسل درس لے ۔ اگر بشریت مولا کے اس فرمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۰ ۳۳

۴۱

سے درس لے تو دنیا میں عظیم تبدیلیاں و تحولات وجود میں آئیں گے چو نکہ ہماری عمر محدود ہے اور ہم میں تمام امور کو احاطہ کرنے کی قدرت و توانا ئی نہیں ہے ، لہذا اسے بہترین اور باعظمت امور میں صرف کریں اور بے ارزش امور میں وقت صرف کرنے سے پر ہیز کریں کہ جو عمر کے ضیاں و تبا ہی وبربادی کے علاوہ کچہ نہیں ۔عمر سے اچہے طریقہ سے استفادہ کرنے اور اسے مہم و با ارزش امور پر صرف کرنے کے لئے ہماری فکر جزئی مسائل کی طرف مشغول نہیں ہو نی چاہئیے تا کہ ہم بہترین اہداف ومقاصد کو حاصل کرسکیں ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' انّ رأ یک لا یتّسع بکلّ شیئٍ فضرّ عنه للمهمّ ''(۱)

تمہاری فکر تمام امور کو احاطہ کرنے کی وسعت نہیں رکہتی لہذا اسے مہم امور کے لئے استعمال کرو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ شرح غرر الحکم :ج۲ص  ۶۰۶

۴۲

ہدف کے نتیجہ پر توجہ کریں

مہم ترین و بہترین ہدف کے انتخاب کے لئے اس کاانجام و نتیجہ کا ملاً واضح و معلوم ہو لہذا ایسے کام اور پروگرام ترتیب دیں کہ جس کے انجام کو ہم اپنا ہدف قرار دیں اور اس کے بارے میں ہمیں مکمل شناخت ہو اور تحقیق و بررسی کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے لئے روشن ہو ۔

اس کے نتیجہ کو خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام سے حاصل ہونے والی فر ما ئشات سے موازنہ کے بعد اپنی ہمت کو ہدف تک پہنچنے کے لئے تقویت دیں اور سستی و غفلت اور فراموشی کو ترک کر دیں ۔

پیغمبر اکرم(ص) نے فر ما یا :

'' اذا هممت بامرٍ فتدبّر عاقبته فان کان خیراً فَاَشرع الیه و ان کان شرّاً فانته عنه ''(۱)

جب کسی کام کو کرنے کے لئے ہمت کرو تو اس کے انجام کے بارے میں تدبر کرو اگر وہ کام اچہا اور پسندیدہ ہو تو اس کو انجام دو اور اگر وہ برا اوربرا ہو تو  اسے انجام دینے سے باز رہو ۔جب آ پ کسی کام کو اپنا ہدف قرار دیں تو اس کے انجام کے بارے میں بررسی و تحلیل کریں اور اس کے آئندہ کو اچہی طرح تشخیص دینے کے بعد اس کام کو شروع کریں پہر اسے آج کل انجام دینے کی بجائے فر صت سے استفادہ کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں کہ جب تک آپ کے لئے کوئی مانع درپیش نہ آئے یہ وہ راستہ ہے کہ جس پر بزرگان چلے آپ بہی ان کے نقش قدم ہر چلتے ہوئے اس مسیر کو طے کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار:ج ۷۲ص  ۳۴۲

۴۳

انسان کی تخلیق کا کیا ہدف ہے؟

جس طرح ہم نے کہا کہ انسان کا زندگی میں کوئی ہدف ہونا چاہیئے لہذا اسے عا لی ترین اہداف کی شناخت ہو ،تا کہ ان میں سے بہترین کا انتخاب کرے خلقت انسان کے سر و راز سے آشنائی ہماری راہنمائی کر سکتی ہے اور ہمارے لئے حقیقت کو آ شکار کر سکتی ہے ۔خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا ہے : '' وما خلقت الجنّ والا نس الاَّ ما لیعبدون ''   (۱) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔تفسیر نو ر الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں امام صادق سے ایک روایت کو ذکر کیا گیا ہے :'' قال خرج الحسین بن علیّ  علیٰ اصحابه- فقال : ایّها النّاس انّ اللّٰه عزّ وجلّ ذکره ، ماخلق العباد الاَّ لیعرفوه، فاذا عر فوه عبدوه ، فقال له رجل یابن رسول اللّٰه بابی انت و امّی فما معرفت اللّٰه - قال: معرفة اهل کلّ زمان امامهم الّذی تجب علیهم طاعته ''(۲)

امام صادق نے فرمایا : کہ امام حسین  اپنے اصحاب پر وارد ہوئے اور فرمایا : اے لوگو ! خدا نے بندوں کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اسے پہچانیں جب وہ اسے پہچان لیں تو پہر اس کی عبادت کریں اور  پہر اس کی عبادت کے ذریعہ غیر کی بندگی سے بے نیاز ہوجائیں ۔ ایک شخص نے آنحضرت سے عرض کی اے فرزند پیغمبر میرے ماں  ، باپ آپ پر قربان ہوں ،معرفت خدا سے کیا مراد ہے ؟ امام حسین  نے فرمایا : معرفت خدا سے یہ مراد ہے کہ ہر زمانے کے لوگ اپنے وقت کے امام کو پہچانیں کہ جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ الذا ریات آ یت: ۵۶

[۲] ۔ تفسیر نو ر الثقلین:ج ۵ص ۱۲۲

۴۴

اس یہ آیہ شریفہ اور وایت مذکورہ سے واضح و روشن ہو جا تا ہے کہ جنّ وا نس کی خلقت کا مقصد مقام عبودبیت تک پہنچنا ہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب معرفت خدا کے ہمراہ ہو جو خدا کی معرفت و شناخت رکہتا ہو وہ امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مقام سے بہی آشنائی رکہے ۔

پس آج کے زمانے میں ہمارا یہ وظیفہ ہے کہ ہمیں امام زمان  ارواحنا لہ فداہ کی معرفت و پہچان ہو اور امام کی خدمت کو اپنی زندگی کا ہدف و مقصد قرار دیں ۔ کیو نکہ امام صادق اپنے زرین کلام میں اس زمانے کے تمام شیعوں اور مقام ولایت کے پروانوں کا وظیفہ یوں بیان فرما تے ہیں :

'' لو ادرکته لخدمته ایّام حیاتی ''(۱)

اگرمیں  انہیں( امام زمانہ)کو درک کر لوں تو ساری  زندگی ان کی خدمت کروں۔  

گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہو ہم مقام عبودیت تک پہنچنے اور معارف دینی کو کسب  کرنے کے بعد امام ز مان ارواحنا فداہ کی بہتر خدمت کریں تا کہ اس وجود مقدس کے لطف و کرم سے بہرہ مند ہوں اور اس بزرگوار کے خدمت گاروں میں شمار ہوں ۔

جی ہاں ، ہر زمانے میں دین ، امام اور حجت زمان کی خدمت ان لوگوں کا شیوہ رہا ہے کہ جنہوں نے مقام عبودیت کو پالیا ، سلمان ، ابو ذر ، قنبرو مقداد اور خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام کے تمام خاص اصحاب مقام بندگی اور پرور دگار کی عبودیت کے بعد پوری زندگی اہل بیت علیہم السلام کی خدمت میںکوشاں رہے اور کامیاب ہو گئے ۔

یہ ان لوگوںکی راہ ہے کہ جو ہدف خلقت کے ہدف کو پہچان گئے آپ بہی ان کے راستے پر چلیں تا کہ کامیاب ہو جائیں ۔

در زندگی اگر ہدف نہ داری     از گنج جہان بہ جز خزف نداری

اگرتمہا ر ا  زندگی میں کوئی ہدف و مقصد نہ ہو تو تمہیں  دنیا کے گنج و خزانے سے اینٹ کے علاوہ کچہ حا صل نہیں ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۳] ۔ بحار الانوار :ج۵۱ص  ۱۴۸

۴۵

مقصد وہدف تک پہنچنے کے ذرا ئع

۱ ۔ اپنے ہدف کے حصول کی امید

بہت سے لوگ علوم و معارف میں بلند مقام اور پیشرفت کے خواہاں ہو تے ہیں تا کہ وہ بہی بزرگ افراد کی طرح اپنی ملت کیتقدیر کے لئے مؤثر کردار ادا کر سکیں اور لوگوں کو معنویت کا راستہ دکہا ئیں اور ان کی راہنا ئی کریں ۔

یہ ایک ایسی چاہت ہے کہ جو بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے لیکن وہ عظیم لوگوں کی کامیابی کے راز سے مطلع نہیں ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے صفحات کو اپنے نام سے روشن کیا ۔وہ اس آرزو سے نا امید ہو کر اسے صرف خام خیالی سمجہتے ہیں ۔ مکتب اہل بیت علیہم السلام سےسیکہے ہوئے انسان سازی کے دروس کو مد نظر رکہتے ہوئے اور ان بزرگان کی حیات بخش راہنما ئی (جو ہمارے قلوب کو منور کر تی ہے ، اس سے یہ حقیقت آشکار ہو تی ہے کہ عالی مقاصد و اہداف اور بزرگ آرزو ایسے امور میں سے ہے کہ خاندان وحی و عصمت و طہارت نے اپنے پیرو کاروں اور محبّوں کو اس کی تلقین کی اور انہیں یأس و ناامیدی سے نکا لا ۔

ان عظیم ہستیوں نے نہ صرف اپنی گفتار و فرامین بلکہ اپنی دعاؤں میں بھی ہمیں امید و آرزو کا درس دیا ، لہذا انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ جمعہ کے روز یہ دعا پڑھو :'' الّلهمّ اجعلنا من اقرب من تقرّب الیک '' (۱) پرور دگار ا ہمیں انکے نزدیک قرار دے کہ جنہوں نے تم سے تقرب پالیا ۔ ایسی دعا ئیں ہر اس شخص کے لئے امید کا درس ہے کہ جو اپنے میں حقارت کا احساس کر تے ہیں اور یہ دعا ئیں مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکا روں کے دلوں میں عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے امید کی شمع ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار :ج۹۰ص  ۳۳۹

۴۶

ایک نکتہ کا تذکر

اپنے اہداف کے مخالف اور نا امید افراد سے  ہمنشینی نہ کریں ان کے ساتہ بیٹہنے سے یأس وناامیدی ایجاد ہوتی ہے جو  اور آپ کے ارادہ و ہدف تک پہنچنے پر اثر انداز ہو گی ، اگر آپ ایسے افراد کے ساتہ بیٹہنے پر مجبور ہوں تو ان کو اپنے ارادہ  و ہدف سے آگاہ نہ کریں اور یہ راز اپنے دل میں مخفی رکہیں ۔

بعض لوگ دوسروں کا تمسخر و مذاق اڑانے سے ان کے مستقبل کو بدل دیتے ہیں اور وہ اپنی طرح  انہیں بہی عالی و عظیم اہداف تک پہنچنے سے مایوس کر دیتے ہیں اور ان کی کامیابی کی راہ میں روڑہے  اٹکاتے ہیں ۔ ایسے افراد آپ کی ترقی کی راہ میں رکا وٹ ہیں وہ چند کلمات کے ذریعہ آپ کو آپ کے اہداف و کا میابی سے منحرف کر سکتے ہیں ایسی صورت میں آپ کا یہ وظیفہ و ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو پہچانیں اور ان کے زہر آلود کلمات سے دل سرد اور مسموم نہ ہوں ۔

۴۷

۲ ۔ ہدف کے حصو ل میں طلب و جستجو کا کردا ر

انسان کو بلند و عالی مرتبہ مقا مات کے حصول سے روکنے میں شیطان کی سازشیں بہی اثر انداز ہوتی ہیں ۔ شیطان مختلف قسم کے وسواس ڈالتا ہے کہ کیا تمام مشکلات کے با وجود اس راستے پر چلنا ممکن ہے ؟ کیا اپنے ہدف کو اس کی پوری عظمت کے ساتہ مکمل کر سکتے ہو ؟ اور کیا ؟

کبہی شیطان نہ صرف فعالیت کو شروع کرنے سے پہلے وسوسوں اور گمراہ کنندہ خیالات سے یأس وناامید ی کو ایجاد کر تا ہے بلکہ کبہی آدہے راستے میں راہ سے گمراہ کر دیتا ہے ۔

عظیم مقاصد و اہداف کے طالب توجہ کریں کہ انسان اس طرح سے خلق ہوا ہے کہ اگر کچہ   مدت تک سختیوںکو برداشت کرے تو اس کی مشکلات و سختیاں ،سہل و راحت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ اگر ابتداء میں  کوئی کام مشکل بہی ہو تو تکرار کے ذریعہ اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خداوندمتعال عظیم اہداف رکہنے والوں کی مشکلات کو آسان فرما تا ہے اور اہل بیت عصمت و طہارت  کی مدد ودستگیری فر ما کر ان کی مشکلا ت کو حل فر ماتا ہے۔ خداوند کریم بہت سے سنگین ا و ر بڑے مسائل کو بر طرف کردیتا ہے ۔

حقیقت بہی ان ہی مسائل میں سے ایک ہے کیو نکہ حق تلخ و سنگین ہو تاہے  بالخصوص ایسے افراد کے لئے کہ جو گناہوں کی آلودگی ہیں غرق اور نفسانی  خواہشات  اور  شیطانی  وسوسوں کے تابع ہوں  ، ایسے افراد کے لئے حق بہت سنگین ہو تا ہے کیو نکہ یہ ان کی چاہت سے ساز گار نہیں ہو تا لیکن حقیقت کے طلبگار اور حقیقت تک  پہنچنے کی خواہش رکہنے والوں کے لئے حق سنگین نہیں ہو تا  ۔

۴۸

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' والحق کلّه ثقیل و قد یخففه اللّٰه علیٰ اقوام طلبوه العاقبة ''(۱)

تمام حق سنگین ہیں ، لیکن خدا عاقبت کی جستجو کرنے والوں کے لئے اسے سبک کر دیتا ہے۔

ان فرامین سے یہ معلوم ہو تاہے کہ طلب و جستجو مشکلات کی آسانی میں بہت مؤثر ہے بڑے اہداف کو مشکل اور ان تک دسترس کو محال سمجہنے والے ایسے افراد ہیں کہ جو آرزو و طلب کو پانے کی ہمت نہیں رکہتے ۔

جنہوں نے صمیم قلب کے ساتہ اپنی چاہت و مقصد کو پانے کی کوشش کی ، وہ اپنے مقصد تک   پہنچ گئے ۔ اگر چہ ان کا مقصد و چاہت بہت مشکل تہا ، لیکن کیو نکہ وہ مکمل طور پر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے بالآخر ان کی سختیاں اور مشکلات سہو لت و آسانی میں تبدیل ہو گئیں کہ و ہ خود بہی یہ تصور نہیں کر سکتے تہے کہ انہوں نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے ۔

یقین کریں کہ کسی چیز کی طلب کے لئے جستجو کرنا اور اس کے حصو ل کی سر توڑ کو شش سے اس کے حصول کے بعد مسرت و راحت ہو تی ہے ۔

لہذا کامیابی اور عظیم مقاصد و اہداف تک پہنچنے کے لئے کو شش کریں ، اس کے حصول کی جستجو کریں تا کہ اس کے حصول کا زمینہ فراہم ہو سکے ۔ گوشہ نشینی اور ہاتہ پر ہاتہ دہرے ، خیا لات میں کہوئے رہنے سے انسان اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ لوگ اپنی دلی خوا ہشات  اور مقاصد حاصل  کر سکتے ہیں جو ان کے حصو ل کی کوشش کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  شرح غرر الحکم :ج۵ص  ۰۵ ۳

۴۹

اگرکوئی اپنے مقصد کو پانے کی جستجو و طلب کرے تو ایسا نہیں کہ اسے اس سے کچہ بہی حاصل نہ ہو، اگر وہ تمام مقصد کو نہ پاسکے تو اسے کسی حد تک ضرور حا صل ہو گا ۔ یہ بذات خود ایک اہم نتیجہ ہے کہ جو طلب میں پو شیدہ ہے ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' من طلب شیئاً ناله او بعضه ''(۱)

اگر کوئی کسی چیز کی طلب کرے تو وہ اس تمام چیز یا ا س کی کچہ مقدار کو حاصل کرے گا ۔

 اس بناء پر بڑے اور با ارزش ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کی تلاش و جستجو کریں اس صورت میں آپ اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے یااپنے ہدف کی کچہ مقدار کو پالیں گے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۰۵ ۲

۵۰

۳ ۔ بزرگ ہستیوں کی خدمت میں رہنا

مکتب اہل بیت علیہم السلام میں کمال کے عالی مراتب و مراحل تک پہنچنے کو بہت اہم قرار دیا گیا ہے اسی وجہ سے آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کے بہت سے ہدایت کنندہ کلمات میں اس بارے میں وارد ہواہے اگر انسان ان پر عمل کرے تو اس کا مستقبل روشن ہو گا ۔ ان فرمائشات و ارشادات میں سے ایک بزرگ ہستیوں کے ہمرا ہ ان کی خدمت میں رہنا ہے کہ جو عظیم اہداف کو پانے میں کامیاب ہو گئے ۔ امام صادق(ع) سے ایک شعر کے ضمن میں نقل ہوا ہے :

'' عَلَیکَ باَهل العلیٰ ''(۱)

تم پر لازم ہے کہ تم اعلیٰ مرتبہ شخصیات کے ساتہ رہو ۔

کیونکہ ایسے افراد کو دیکہنا ،ان سے ہمنشینی ان کی صحبت اور ان کی محافل میں بیٹہنا ، انسان کے افکار و رفتار پر اثر انداز ہو تا ہے اور یہ انسان کے ارادہ کو قوی بنا کر ا سے بلند اہداف کی راہ دکہا تا ہے ۔ایسے افراد کی ہمت ، ضعیف و کمزور ارادہ کے مالک افراد کی ہمت کو بلند کر تا ہے ان کا عالی مقام بے ہدف افراد کو بیدار کر تا ہے ۔

جی ہاں ، آپ ان بزرگ ہستیوں کے محضر مقدس میں با ارزش ہدف سے آ شنا ہوں گے اور آپ   میں ان اہداف تک پہنچنے کا اشتیاق بڑے گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  بحار الانوار:ج ۴ص۷  ۲۴

۵۱

۴ ۔ عالی اہداف تک پہنچنے کے لئے نفس کی مخالفت

جو بلند اہداف کو پانا چاہتا ہے وہ سستی و کاہلی کو چہوڑ دے اور نفسانی خوا ہشات سے مردانہ وار مبارزہ کرے ۔

حضرت امیر المو منین  فر ماتے ہیں :

'' من احبّ نیل الدرجات العلیٰ فلیغلب الهویٰ ''

جو بلند درجات تک پہنچنے کو دوست رکہتا ہے وہ اپنے ہواء نفس پر غالب آئے 

یہ ملکوتی فرمان صاحب ولایت ملک و ملکوت حضرت امیر المو منین  کی زبان سے صادر ہوا ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ جو بلند اہداف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور جو بلند دینی و معنوی مقاما ت کے لئے کوشاںہیں ۔

یہ آسمانی فرمان تمام ا نسانوں بالخصوص نو جوانوں  اور جوانوں کے لئے بہت بڑا پیغام ہے کہ جو روشن مستقبل کی آرزو رکہتے ہیں

۵۲

۵ ۔ عظیم اہداف تک پہنچنے کے لئے اہل بیت  سے توسل

جیسا کہ ہم بعد میں ذکر کریں گے کہ انسان کو ہر نیک اور پسندیدہ کام کو انجام دینے کے لئے  تین چیزوں کی احتیاج ہوتی ہے ۔

۱ ۔ارادہ

۲ ۔ مورد نظر ہدف کوانجام دینے کی قدرت

۳ ۔ خدا وند متعال کی جانب سے توفیق کہ جو ا س کی دستگیری فر مائے

ان تین موارد میں سے اگرکسی میں بہی ضعف ہو تو کام کو انجام دینے میں پیشرفت نہیں ہو گی اور  کام متوقف ہو جائے گا ۔

ان تین شرائط کے لے اور ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خاندا ن وحی کو وسیلہ قرار دیں ہم زیارت امیرالمومنین (ع)  میں پڑہتے ہیں :

'' بک اتوسّل الی اللّٰه فی بلوغ مقصودی ''(۱)

اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے خدا کی طرف آپ کو وسیلہ قرار دیتا ہوں ۔

 نہ صرف کام کی ابتداء اور مذکورہ شرائط کے حصول کے لئے بلکہ ہدف و مقصد کے حصول تک متوسل رہیں اور جانشیناں خدا ور امیران کائنات کو فیوضات الٰہی اور اہداف تک پہنچنے کے لئے واسطہ قرار دیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار:ج ۱۰۰ص ۳۳۲

۵۳

نتیجۂ بحث

بہترین و عالی ترین ہدف کو پہچانیں اور اس کا انتخاب کریں پختہ و مصمم ارادے سے ہدف تک پہنچنے کی جستجو کریں ۔

بے ہمت افراد سے پر ہیز کریں اور بلند اہداف رکہنے والے افراد سے مصاحبت و ہمنشینی رکہیں تاکہ اس ذریعہ سے آپ کا عالی و با ارزش ہدف مشخص ہو سکے جب آپ حقیقی و واقعی طور پر بہترین ہدف کے حصول کی سعی کر یں گے تو خداوند مہربان آپ کے لئے سختیوں اور مشکلات کو آسان فر مائے گا ۔

ہوشیار رہیں کہ یہ رنگا رنگ دنیا آپ کو آپ کے عالی انسا نی ہدف سے دور نہ کردے اور آپ سراب کو آب نہ سمجہ بیٹہیں ۔

خلقت انسان کا ہدف خدا وند کریم کی عبادت و بندگی اور مقام عبودیت تک پہنچناہے ۔ یہ اس صورت میں متحقق ہو گا کہ جب مقام ولایت کی شناخت ہو اور کسب معارف الٰہی سے مستفید ہو ں کہ جو تقرب خداوند کانتیجہ ہے ۔

یقین رکہیں کہ مقام عبودیت اور معارف کو کسب کرنے کے بعد اہل بیت علیہم السلام کے حیات بخش مکتب اور بالا خص امام زمان  کی خدمت کریں ۔ یہ تقرب خداوند کی بہترین راہ ہے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس راہ کو اپنا ہدف قرار دیں اور اس تک پہنچنے کی سعی و کوشش کریں ۔

تا رشتہ زندگی بہ کف می باشد               اقبال تو در برخ شرف می باشد

عمر تو بود صدف در این بحر وجود درّ صدف عمر ، ہدف می باشد

جب تک انسان کا زندگی سے رشتہ و ناطہ رہے تمہا ری عزت ، شرف کی بلندیوں کو چہوتی رہے ۔ تمہاری عمر وجود کے اس سمندر میں ایک صدف کی طرح ہو اور عمر کا گوہر صدف تمہارا ہدف رہے ۔

۵۴

چوتھاباب

بلند  ہمت  اورمستحکم  ارادہ

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :'' ما رفع امرئً کهمّته ولا وضعه کشهوته ''

ہمت سے بڑہ کر کوئی چیز انسان کو سر بلند نہیں کر تی اور شہوت سے بڑہ کر کوئی چیز پست نہیں کرتی  ۔

    ارادہ کی اہمیت

    ارادہ سے پہلے اخلاص

    اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

    بلند حوصلہ رکہیں

    اپنے ارادہ پر عمل کریں

    قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

    ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

    اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

    ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

   ۱ ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

   ۲ ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

   ۳ ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں :

    نتیجہ ٔبحث

۵۵

ارادہ  کی  اہمیت

انسان اپنے نفس کو پہچا نے اور اس کی ذات میں خدا وند مہربان نے جو قوت و طاقت و توا نائی ودیعت کی ہے ، اس سے آشنا ہو اور آہستہ آہستہ انہیں قوت و طاقت کے مرحلہ سے فعلیت تک  پہنچائے انہی مہم قوت و طاقت میں سے ایک قوة ارادہ ہے ۔ اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور اسے تقویت دے تو اس با عظمت قوت کے ذریعہ اپنی روحا نی و جسما نی اور معاشرے کی مشکلات کو   حل کرسکتاہے ۔

جو انسان اپنے نفس کو نا پاکیوں سے پاک کرلے تو اس کا ارادہ بہی پاک ہو جا تا ہے اور خدا کے پسندید ہ کاموں میں مد د گار ثابت ہو تاہے ۔ پس اگر انسان اپنے ارادہ کی پرورش کرے اور پختہ ارادے کا مالک ہو تو وہ اسے احیاء دین کے راستے اور انسا نوں کو اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب اور لوگوں کی خدمت میں استعمال کر سکتاہے ۔

تاریخ انسانیت پر مختصر سی نگاہ میں آپ ملاحظہ کریں گے کہ دنیا کے نامور لوگ بلند ہمت کے مالک تہے ۔ جو روحانی ضعف ،کم ہمت یا احساس کمتری میں مبتلا ہوں وہ کبہی بہی عظیم اہداف تک نہیں پہنچ سکتے ۔

پس وہ احساس کمتری کو چہوڑ کر رو حانی ضعف  سے نجات حاصل کریں  اپنے ارادہ کو قوی کریں اور یقین رکہیں کہ جس خدا نے بزرگان دین کو توفیق عطا کی وہ آپ کو بہی کامیابی و کامرانی تک پہنچاسکتا ہے ۔

۵۶

ارادہ سے پہلے اخلاص

کسی بہی پروگرام ا ور کام کو انجام دینے سے پہلے اس کام کی طرف متحرک کرنے وا لی قوت کو پہچا ننا ضروری ہے کیا آپ کو کوئی رحمانی قوت مورد نظر ہدف کی طرف دعوت دیتی ہے یا یہ انگیزہ کوئی شیطانی محرک  ہے ؟ یا کوئی نفسانی عامل آپ کو آپ کے ہدف کی طرف کہینچتا ہے ؟

تحریک نفس اور شیطانی وسوسہ کے شکار نہ ہونے کے لئے کب ھ ی ب ھ ی آپ کے عمل میں یہ دو محرک نہیں ہونے چاہئیں ۔ ارادہ سے پہلے اپنے دل سے تمام وسوسے اور غیر رحمانی تحریکات کو نکال دیں ۔ پ ھ ر رضائے الٰہی کے لئے مورد نظر پروگرام کا ارادہ  کریں ۔حضرت امام صادق (ع) فرما تے ہیں : '' اذا اردت الحجّ فجرّد للّٰه من قبل عزمک من کلّ شاغلٍ وحجاب کلّ حاجب ''(۱)

جب بہی حج پر جانے کا ارادہ کرو تو ارادہ کرنے سے پہلے اپنے دل سے ہر اس چیز کو نکال دو کہ جو تمہیں اپنی طرف مشغول کرے اورجو تمہارے اور خدا کے در میان حائل ہو ۔

اگر چہ یہ فرمان حج کے بارے میں صادر ہوا ہے لیکن اس میں عظیم مقصد و ہدف تک پہنچنے کے خواہاں ہر شخص کے لئے ایک کلی راہنمائی ہے ۔

ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اپنے دل کو دنیا وی اغراض سے پاک کر کے فقط خداکی رضا  کو  مد نظر رکہیں ۔ پہر اپنے ارادے کی ابتداء کریں اور اپنے ہدف کے لئے عملی اقدام کر یں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحا ر الانوار:ج ۹۹ص  ۱۲۴

۵۷

اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیں

ہمارے ذہن میں موجود خیالا ت ہماری زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں نہ کہ ہم جسے زبان پر لائیں ، ہمارے افکار و اعتقادات اور دل کی عمیق آرزوئیں  ہماری زندگی میں تحولات ایجاد کر تی ہیں نہ کہ جن چیزوں پر ہمارا قلبی اعتقاد نہیں ۔

بہت سے انسان اپنے لئے کسی ہدف کا انتخاب کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کا دم بہر تے ہیں ۔ لیکن اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتے ، لہذا وہ کبہی بہی اسے حا صل نہیں ہو تا ۔ ان کے مقابل کچہ ایسے افراد بہی ہوتے ہیں جو وقت گزر نے کے ساتہ ساتہ اپنے ہدف تک پہنچ جا تے ہیں  اور ان کا قیل و قال کہنا واقعیت پیدا کرتا ہے اور ان کی دیر ینہ آرزو پوری ہو جاتی ہے ۔

کیوں کچہ لوگ اس طرح ہیں اور کچہ اپنی پوری زندگی اپنی آرزو وخوا ہش کے پوارا ہونے کے انتظار میں گزار دیتے ہیں لیکن ان کی آرزو پوری نہیں ہو تی ؟

حا لا نکہ  ہر انسان کو ارادہ  جیسی نعمت حاصل ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں حتی کہ جو افرادخود کو قوة ارادہ سے عاری سمجہتے اور گمان کر تے ہیں کہ ان کے ارادہ  کی قوت ختمہو چکی ہے ، ان میں بہی  ارادہ  کی قدرت ہو تی ہے

۵۸

مثال کے طور پر منشیات کے عادی افراد یہ خیال کر تے ہیں کہ منشیات کے استعمال سے ان کی قوت ارادہ ختم ہو گئی ہے اور وہ کسی چیزکا ارادہ  کرنے کی قدرت کو کہو چکے ہیں ۔ لیکن اس کے با وجود جب وہ نشہ آور چیز کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں تو ان کا ارادہ قوی و پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ کسی بہی صورت میں نشہ حاصل کریں گے ۔

اسی طرح اگر کسی تن پرور شخص کو قید کیا جائے اور قید خانے میں اس سے مشقت لی جا جائے تو وہ زندان سے فرار کرنے کے لئے ہر مشکل اور خطر ناک کام کو انجام دینے کے لئے تیار ہو گا ۔

اس بناء پر معلوم ہو اکہ ایسے افراد بہی  نعمت ارادہ کے مالک ہیں ، لیکن ان کا ارادہ کوئی سمت نہیں رکہتا ۔ وہ بہی اپنے ارادے کو سمت دیں اور اس کی سیدہے راستے کی طرف  ہدا یت کریں اور ان سے صحیح راستے میں ان سے استفادہ کریں نہ کہ اپنے ارادہ کو منشیات کے حصول یا کام سے فرار کے لئے استعمال کریں پس جو اپنے ارادہ کو صحیح سمت دیتا ہے وہ اپنی ترقی کے لئے  اسباب فراہم کر تا ہے ۔

۵۹

بلند حوصلہ رکھیں

اگر اپنے ہدف و مقصد تک پہنچنا چاہو تو معنویت کی وسیع فضا میں پرواز کرو ۔ بلند حوصلے اور مردانہ ہمت کے ساتہ عالم معنی کی فضا میں سیر کرو ۔ جس طرح پرندے اپنے بال و پر کے ذریعہ پرواز کر تے ہیں ، اسی طرح بزرگ شخصیات اپنی ہمت و ارادے کے ذریعہ عالم معنی کے نورانی آسمان کی طرف پرواز کرتے ہوئے مادی دنیا سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ بزرگ   اس واقعیت کو ایک چہوٹی مگر پر معنی مثال کے ذریعہ یوں بیان کرتے   ہیں :

'' المرء یطیر بهمّته ''(۱) انسان اپنی ہمت کے ذریعہ پرواز کر تا ہے۔

انسان کی ہمت جتنی بلند ہو وہ معنوی فضا میں اتنا ہی اوج پر پرواز کر تا ہے اور اگر عالی ہمت کا مالک نہ ہو تو یوں پرواز نہیں کر سکتا ہے ۔

لہذا اگر انسان کا ہدف تو بڑا ہو لیکن اس ہدف تک پہنچنے کی ہمت نہ ہو تو وہ کبہی بہی اپنے ہدفتک نہیں  پہنچ سکتا ۔ انسان عظیم ہدف کے علاوہ پختہ ارادہ ، بلند حوصلہ اور ہمت کا بہی مالک ہو ۔

 اولیاء خدا مقاما ت عالیہ تک پہنچنے کے لئے قوی ارادے اور بلند ہمت سے آراستہ تہے اور انہوں نے ہمیشہ معنوی مسیر میں استقامت سے کام لیا اورضعف و سستی سے  پر ہیز کیا ، عظیم مقصد ، مردا نہ ہمت ، بلند حوصلہ اور اعلیٰ ہدف ان بزرگون کی صفات تہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ، بحار الانوار:ج ۱۸ص  ۰ ۸ ۳

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قدر چستى و دليرى تھى اور ايسا جوش و خروش پايا جاتا تھا كہ اس سے جوانوں كو تقويت ہوتى تھي_

عمار جس وقت ميدان كارزار كى جانب روانہ ہوئے تھے اس وقت وہ دست بدعا تھے اور خداوند تعالى سے فرياد كر رہے تھے اے پروردگار اے خدايا تو ناظر و شاہد ہے اگر ميں يہ جان لوں كہ تيرى رضا اسى ميں تھے كہ ميں خود كو سمندر ميں گرادوں تو ميں ايسا ہى كرونگا اگر مجھے يہ معلوم ہوجائے كہ تيرى خوشنودى اس ميں ہے كہ ميں اپنے سينہ و دل كو نوك شمشير پر اس طرح ركھ دوں كہ وہ ميرى كمر سے نكل آئے تو يقينا ميں ايسا ہى كروں گا ليكن اس علم كے مطابق جو تو نے مجھے ديا ہے كہ ميں يہ جانتا ہوں كہ تجھے آج كوئي عمل اس سے زيادہ راضى و خوشنود نہيں كر سكتا كہ تباہ كاروں كے خلاف جہاد كروں _(۱۹)

عمار وہ مخلص دلاور اور ايسے جنگجو سپاہى تھے جو ميدان كارزار ميں تھكنا نہيں جانتے وہ عاشق جانبازى كى مانند جنگ كرتے حق كے دشمنوں كے لئے انكى تلوار موت كا پيغام تھى اور جس كے سرپر پڑجاتى اسے واصل جہنم كرتى مگر حاميان حق كے دلوں كو اس سے تقويت ملتى در حقيقت وہ ميزان حق تھے چنانچہ نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہى كى شان ميں تو فرمايا تھا كہ : عمار حق كے ساتھ زندہ ہے اور حق عمار كے ساتھ ہے(۲۰) جو شخص بھى ان كے محاذ پر جنگ كرتا اسے يہ يقين ہوتا كہ وہ حق كى مدافعت كريں گے اور اسى راہ ميں اگر انھيں قتل بھى كرديا گيا تو انھيں بہشت بريں ميں جگہ ملے گي_

مسلمانوں كے درميان يہ بات مشہور تھى كہ عمار ميزان حق ہيں چنانچہ جب كبھى حق و باطل كے درميان تشخيص كرنا مقصود ہوتا تو عمار كے عمل اور موجودگى كو بطور سند پيش كيا جاتا اس كى ايك مثال يہ ہے كہ : ان كے چچازاد بھائي'' ذى الكلاع حميرى '' شامى سپاہ عراق ميں شامل تھا عمار نے اسے بلايااور كہا ميں نے اس لئے بلايا ہے كہ تمہيں وہ حديث سناؤں جو عمروعاص نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل كى ہے اس كى بعد انہوں نے وہ حديث بيان كى جس ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : شام اور عراق كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل ہوں گے ان ميں سے ايك حق و ہدايت كا پيشوا ہوگا اور عمار اسى كے ساتھ ہوں گے(۲۱) اس پر ابونوح نے كہا تھا كہ : خدا كى قسم عمار ہمارے ساتھ ہيں

۲۲۱

اور ہم سب سے زيادہ انھيں تم سے جنگ كرنے پر اصرار ہے كتنا اچھا ہوتا كہ تم سب ايك تن ہوتے اور ميں اسے ذبح كرتا اور سب سے پہلے تجھ چچازاد بھائي كو ہى قتل كرتا كيونكہ ہم حق پر ہيں اور تم باطل پر ہو_

اس كے بعد ذوالكلاع كى درخواست پر وہ عمروعاص كے پاس گئے تا كہ اس تك بھى يہ اطلاع پہنچائي جاسكے كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں عمار بھى موجود ہيں اور شاميوں سے جہاد كرنے كيلئے واقعى وہ سنجيدہ ہيں تا كہ ان كے ضمير كو بيدار كيا جاسكے_

عمروعاص نے بھى گفتگو كے درميان اس حقيقت كا اعتراف كيا كہ : اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن ركھا ہے كہ عمار كو جفاكار اور باغى قتل كريں گے اس كے بعد عمروعاص كى تجويز پر اس كے اور عمار كے درميان ملاقات كا پروگرام مرتب كيا گيا گفتگو عمروعاص كى جانب سے شروع ہوئي اس نے عمار كو پند و نصيحت كرتے ہوئے كہا كہ : وہ جنگ و خونريزى سے باز رہيں اس ضمن ميں يہ بھى كہا كہ : ہمارے اور تمہارے درميان خدا كا فيصلہ قرآن اور رسول مشترك ہيں عمار نے كہا كہ : خدا كا شكر جس نے يہ توفيق دى كہ تم نے وہ سب باتيں اپنى زبان سے كہيں جو مجھے اور ميرے دوستوں كو كہنى چاہيے تھيں نہ كہ تمہيں _ اب ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ميں تم سے كيوں جنگ كر رہاہوں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ : ميں ''ناكثين'' سے جنگ كروں چنانچہ ميں نے ايساہى كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہى يہ حكم ديا تھا كہ ميں '' قاسطين'' سے جنگ كروں اور تم وہى ہو اسى لئے تم سے بر سر پيكار ہوں(۲۲)

بالاخر گفتگو كسى فيصلہ كن نتيجے تك نہيں پہنچى اور اب عمار دشمن كى اس فوج كے مقابلے ميں گئے جس كى فرماندارى عمروعاص كے ہاتھ ميں تھى جس وقت ان كى نگاہ عمروعاص كے پرچم پر گئي تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم اس پرچم كے خلاف تو ميں تين مرتبہ جنگ كرچكا ہوں اس راہ پر چل كر آدمى كہيں نہيں پہنچے گا اور دوسرے راستوں سے يہ كسى طرح بھى بہتر نہيں _(۲۳)

عمار نے اپنے ساتھيوں كے درميان بآواز بلند كہا كہ : كہاں ہيں وہ لوگ جو رضا خدا كے متمنى ہيں اور جنہيں مال و اولاد سے علاقہ نہيں(۲۴) اس كے بعد انہوں نے ان لوگوں سے خطاب

۲۲۲

كرتے ہوئے جنہوں نے راہ خدا ميں پيشقدمى كى تھى كہا كہ اے لوگو ہمارے ہمراہ ان لوگوں سے جنگ وجدل كيلئے جلد جلد آگئے آؤ جو اپنى دانست ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاہتے ہيں _(۲۵)

عمار جس لشكر ميں شامل تھے اس كے پرچمدار ہاشم مرقال تھے وہ اپنے پرچمدار كى حوصلہ افزائي كرتے رہتے كہ دشمن پر حملہ آور ہوں ہاشم مرقال بھى اپنى بے مثال دلاورى كے باعث جنگجو سپاہى كيلئے راستہ ہموار كرتے رہتے جب كبھى ان كا نيزہ ٹوٹ جاتا تو حضرت عمار انھيں دوسرا نيزہ دے ديتے ان دو جانبازوں كى بے پناہ و دليرانہ نبرد آزمائي نے عمروعاص كو ايسا مرعوب كيا اور اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس نے بآواز بلند كہا كہ جس شخص نے يہ سياہ پرچم اپنے ہاتھ ميں سنبھال ركھا ہے اگر اسى طرح آگے بڑھتا رہا تو آج يہ تمام عربوں ك ہلاك كر ڈالے گا_(۲۶)

جب يہ پيشوائے حريت يعنى عمار بہت سے شاميوں كو ہلاك كرچكے تو ان پر معاويہ كى فوج كے دو دلاور حملہ آور ہوئے اور ان ميں سے ايك نے اپنے نيزے سے ايسى كارى ضرب لگائي كہ وہ زمين پر آرہے اور دوسرے نے ان كے سرمبارك كو تن سے جدا كرديا(۲۷) اور اس طرح اس جرى و دلير سپاہى نے اپنے اس سركو جس سے وہ اپنے معبود حقيقى كے سامنے جبين سائي كيا كرتا تھا ميدان جہاد ميں اسى كى خاطر قربان كرديا_

اس جنگ كے دوسرے دلير و جانباز ہاشم بن عتبہ تھے جو دو زرہ پہنے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جس وقت پرچم ان كے سپرد كيا تو بطور مزاح ان سے كہا كہ : اس كا لے بزدل كا تو ڈر كہيں تمہارے دل ميں نہيں ؟(۲۸) اس پر انہوں نے عرض كيا كہ : يہ تو اميرالمومنينعليه‌السلام كو جلد ہى معلوم ہوجائے گا قسم خدا كى ميں ان كے سروں كو اس طرح اڑاوں گا كہ جس طرح كوئي اس دنيا سے دوسرى دنيا ميں جانے كا قصد ركھتا ہو_ اس كے بعد انہوں نے نيزہ اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اس زور سے اسے جھٹكا ديا كہ وہ ٹوٹ گيا دوسرا نيزہ لايا گيا وہ چونكہ سوكھ چكا تھا اسى لئے انہوں

۲۲۳

نے اسے دور پھينك ديا بآلاخر انھيں ايك نرم نيزہ ديا گيا جس پر انہوں نے پرچم كا پھريرا باندھا اور اپنے حملے كو اس خيمے پر مركوز كرديا جس ميں عمروعاص ، معاويہ اور ان كے دوست و احباب جمع تھے اس روز كشت كشتار كا ايسا بازار گرم ہوا كہ كسى نے اس سے پہلے ايسى قتل و غارتگرى نہ ديكھى تھى اور نہ ہى كسى كو موت كى ايسى گرم بازارى ياد تھي_ (۲۹)

آخرى مرتبہ جب سياہ پرچم امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ہاشم كو ديا تو چاہا كہ اب يہ جنگ ايك طرف ہو چنانچہ آپ نے فرمايا كہ : ہاشم معلوم نہيں اب تمہارا آب و دانہ كب تك كا باقى ہے؟ اس پر انہوں نے عرض كيا كہ اس مرتبہ راہ جہاد ميں ايسا نكلوں گا كہ پھر كبھى واپس نہ آؤں گا آپ نے فرمايا كہ '' تمہارے مقابل ذى الكلاع ہے اور اس كے گرد موت منڈھلا رہى ، سرخ موت''

ہاشم ميدان كارزار كى طرف روانہ ہوئے جب وہ معاويہ كے نزديك پہنچے تو اس نے پوچھا كہ كون شخص ہے جو آگے بڑھا چلا آرہا ہے اسے بتايا گيا كہ ہاشم مرقال ہيں(۳۰) يہ سن كر اس نے كہا كہ وہى بنى زہرہ كا كانا، خدا اسے غارت كرے(۳۱) ہاشم نے اپنے ان ساتھيوں كے ہمراہ جو قارى قرآن اور خدا كے عاشق تھا كتنى مرتبہ دشمن كى صف كو درہم برہم كيا چنانچہ جس وقت وہ طائفہ '' تنوح'' كے پرچم تك پہنچے تقريبا دشمن كے دس دلاوروں(۳۲) كو ہلاك كرچكے تھے انہوں نے معاويہ كے پرچمدار كو جو طائفہ '' عذرہ'' كا فرد تھا قتل كرديا اس كے بعد ذوالكلاع ان سے جنگ كرنے كيلئے ميدان ميں آيا ان كے درميان ايسى زبردست جنگ ہوئي اور ايسى كارى ضربيں ايك دوسرے كو لگائي كہ دونوں ہى قتل ہوگئے(۳۳) اس كے بعد ان كے فرزند عبداللہ نے فورا ہى اپنے والد كا پرچم اٹھاليا اور جہاد كيلئے آمادہ ہوگئے_(۳۴)

حضرت عمار كى شہادت كارد عمل

عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كو بہت زيادہ غمگين و رنجيدہ خاطر كيا چنانچہ ان كى جدائي كا ايسا قلق و صدمہ ہوا كہ آپ نے ان كے سوگ

۲۲۴

ميں گريہ و زارى كرتے ہوئے چند اشعار بھى كہے جن كا مفہوم يہ ہے كہ : اے موت مجھے تجھ سے رہائي تو نصيب نہ ہوگى اور مجھے بھى اس زندگى سے نجات دے كيونكہ تونے تمام دوستوں كو مجھ سے چھين ليا ہے مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے كہ تو ميرے دوستوں كو خوب پہچانتى ہے اور ايسا معلوم ہوتا ہے كہ تو كسى راہنما كى مدد سے ان كى تلاش ميں نكلتى ہے_ (۳۵) ليكن اس كے ساتھ ہى اس شہادت نے باطل كے چہرے كو بے نقاب كرديا اور لشكر شام كے بہت سے سپاہيوں كا رادہ متزلزل ہوگيا چنانچہ ان ميں سے بعض افراد كو جن ميں عبداللہ بن سويد بھى شامل تھے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وہ حديث ياد آگئي جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں فرمائي تھى اور ان پر يہ ظاہر ہوگيا كہ معاويہ ناحق اور باطل پر ہے اور اس كى يہ جنگ در اصل بغاوت تھى چنانچہ انہوں نے معاويہ كا ساتھ چھوڑ كر امير المومنين حضرت علىعليه‌السلام كى ہمراہى اختيار كرلي_

عمار كى شہادت نے سپاہ دشمن كو بھى اتنا متاثر كيا كہ اس كا حوصلہ بھى متزلزل ہوگيا چنانچہ عمروعاص نے اس كے اثر كو زائل كرنے كے خيا ل سے ايك بہانہ نكل ہى ليا اور يہ اعلان كرديا كہ '' عمار كے قاتل ہم نہيں بلكہ علىعليه‌السلام ہيں كيونك انہوںعليه‌السلام نے انھيں محاذ جنگ پر بھيجا تھا_(۳۶)

معاويہ نے بھى اس جرم كى پاداش ميں كہ عمروعاص نے وہ حديث نقل كى تھى جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمار كى شان ميں بيان كى تھى اس كى بہت زيادہ سرزنش كى اور كہا كہ تم نے شام كے لوگوں كو ميرے خلاف شورش پر آمادہ كيا ہے كيا ضرورى تھا كہ تم نے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا اسے يہاں بيان كرتے انہوں نے جواب ديا كہ مجھے كيا معلوم تھا كہ وہ وقت بھى آئے گا جب جنگ صفين بپا ہوگى جس روز ميں نے يہ حديث بيان كى تھى اس وقت عمار ہمارے اور تمہارے ہم خيال تھے اس كے علاوہ جو كچھ ميں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن كر بيان كيا تھا تم نے بھى اسے نقل كيا ہے اور اگر اس بات سے تمہيں انكار ہے تو خود ہى شام كے لوگوں سے دريافت كرلو معاويہ كو پہلے سے بھى زيادہ طيش آيا اور اس نے عمروعاص كو بہت زيادہ سخت و سست كہا_(۳۷)

۲۲۵

سوالات

۱_ جب بعض سپاہى محاذ جنگ سے فرار كر گئے تو حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدام كيا اور انہيںعليه‌السلام كس حد تك اپنے مقصد ميں كاميابى ہوئي؟

۲_ مالك اشتر كا جنگ صفين ميں كيا كردار رہا مختصر طور پر بيان كيجئے؟

۳_ معاويہ كا غلام حريث كس طرح فريفتہ ہوا اور وہ كس كے ہاتھوں ماراگيا؟

۴_ جنگ ختم كرنے كے لئے حضرت علىعليه‌السلام نے معاويہ كے سامنے كونسى تجويز ركھي؟

۵_ معاويہ نے حضرت علىعليه‌السلام كے لشكر ميں تزلزل پيدا كرنے كيلئے محاذ جنگ پر حضرت امام حسنعليه‌السلام كے سامنے كيا تجويز پيش كى اس پر حضرت حسنعليه‌السلام كا كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۶_ سپاہ اسلام كے فرمانداروں پر عمار كو كيا خصوصيت و برترى حاصل تھي؟

۷_ شام كى سپاہ پر عمار كى شہادت كا كيا اثر ہوا اس كے بارے ميں ايك تاريخى مثال پيش كيجئے؟

۸_ عمار كى شہادت كا اثر زائل كرنے كے لئے عمروعاص نے كيا تركيب نكالي؟

۲۲۶

حوالہ جات

۱_ وقعہ صفين ص ۲۵۳و ۲۵۰

۲_ شايد اس آيت كى جانب اشارہ ہے) يا ايها الذى آمنوا اذا لقيتم الذين كفرو ازحفا فلا تولوا هم الادبار و من يولهم يومئذ دبره الا متحرفا لقتال او منحيزا الى فئة فَقَد باء بغضب من الله و ماواه جهنم و بئس المصير ( (الے لوگو جو ايمان لائے ہو، جب تم ايك لشكر كى صورت ميں كفار سے دوچار ہو تو ان كے مقابلے ميں پيٹھ نہ پھيرو جس نے ايسے موقعے پر پيٹھ پھيرى مگر يہ كہ جنگى چال كے طور پر ايسا كرے يا كسى دوسرے فوجى دستہ سے جا ملنے كے لئے تو وہ اللہ كے غضب ميں گھر جائے گا اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھكانہ ہے سورہ انفال آيہ ۱۴_ ۱۵

۳_ وقعہ صفين ص ۲۵۶، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۵ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۰۴

۴ و ۵_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۶_ وقعہ صفين ۲۵۵_ ۲۵۴

۷_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۳۰۲ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۲۴

۸_ وقعہ صفين ص ۲۵۴ _ ۲۵۳ '' الا ليستحيى الرجل ان ينصرف لم يقتل و لم يقتل؟

۹_ وقعہ صفين ۲۴۳ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۵(۱۰) وقعہ صفين ص ۲۷۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۵

۱۱_و الله ما بارز ابن ابى طالب رجلا قط الا سقى الارض من دمه

۱۲_ وقعہ صفين ص ۲۷۴_ ۲۷۵_۳۱۶ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۸_ ۲۱۷ ، يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ تاريخ كے اس حصے ميں حضرت علىعليه‌السلام اور معاويہ كا اپنى سپاہ كے ساتھ جو رويہ رہا اسے مورخين نے مختلف طوار سے بيان كيا ہے انہوں نے لكھا ہے حضرت علىعليه‌السلام كتنى ہى مرتبہ محاذ جنگ پر تشريف لے گئے اور آپعليه‌السلام نے اپنے ساتھيوں كى مدد بھى كى مگر اس كے برعكس معاويہ كى يہ پورى توجہ اپنى جان كى حفاظت كى جانب رہى اس واقعے كے ضمن ميں جو اوپر گذرا ہے معاويہ نے عمروعاص سے كہا تھا كہ : كيسى نادانى كى باتيں كرتے ہو قبائل عَكّ اشعريان اور جذام كے ہوتے ہوئے ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں ، وقعہ صفين ۲۷۵

۱۳_ شرح ابن ابى الحديد ج ۶ ص ۳۱۴_۳۱۳ ، وقعہ صفين ۴۲۴_۴۲۳ ، وقعہ صفين ميں نقل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے

۲۲۷

جب عمروعاص پر ضرب كارى لگائي اور وہ اس كى تاب نہ لاسكا تو اس نے يہ بدترين راہ اختيار كي_

۱۴_ وقعہ صفين ۴۱۸_ ۴۱۷

۱۵_ وقعہ صفين ص ۲۹۷

۱۶_ وقعہ صفين ۴۷۸_۴۷۷

۱۷_ وقعہ صفين ص ۴۷۵ ، ليكن اسى كتاب كے صفحہ ۳۹۲ پر اور شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۴۹ ميں درج ہے كہ اس وقت اكثر سپاہ نے نماز اشاروں سے پڑھي_

۱۸_ نہج البلاغہ خ ۱۹۸ ، (فيض)

۱۹_ لغت ميں ہرير كے معنى اس آواز كے ہيں جو سردى پڑنے كى وجہ سے كتے سے نكلتى ہے چونكہ اس شب شديد جنگ جارى تھى اور فريقين كے گھڑ سوار ايك دوسرے كے سرپر چيختے تھے اس لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں (معجم البلدان ج ۵ ص ۴۰۳ ، مجمع البحرين ج ۳ ص ۵۱۸ مادہ ہرر

۲۰_ نصر بن مزاحم نے وقعہ صفين ص ۴۷۵ ميں اس دن اور رات كے دوران قتل ہونے والوں كى تعداد ستر ہزار افراد بيان كى ہے_

۲۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۰ ، شرح ابن ابى الحديدج ۵ ص ۲۵۳

۲۲_ حضرت عمار سے متعلق احاديث نبوى كے بارے ميں مزيد معلومات كے لئے ملاحظہ ہوں معجم رجال الحديث ج ۱۲ ص ۲۶۷ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۸۷، استيعاب ج ۲ ص ۴۳۶ ،اور وقعہ صفين ص ۳۴۳_۳۴۲

۲۳_ ''يلتقى اهل الشام و اهل العراق و فى احد الكتيبيتين الحق و امام لهدى و معه عمار بن ياسر

۲۴_ وقعہ صفين ص ۳۴۰_۳۳۳

۲۵_و الله ان هذه الراية قاتلها ثلاث عركات و ما هذه بار شدهَّن (وقعہ صفين ص ۳۴۰)

۲۶_ اين من يبتغى رضوان ربہ و لا يؤب الى مال و لا ولد

۲۷_ وقعہ صفين ص ۳۲۶

۲۸_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۲۲۸

۲۹_ وقعہ صفين ص ۳۴۱_۳۴۰

۳۰_ يہاں حضرت اميرالمومنينعليه‌السلام كا اشارہ حضرت مرقال كى جانب تھا كيونكہ وہ ايك آنكھ سے محروم تھے_

۳۱_ وقعہ صفين ص ۳۲۸

۳۲_ انھيں مرقال اس بنا پر كہا جاتا تھا كہ وہ بہت چست و چالاك اور تيز رفتار تھے چونكہ ان كى آنكھ جاتى رہى تھى اسے لئے انھيں اعور بھى كہا جاتا تھا_

۳۳_ وقعہ صفين ۳۴۷_ ۳۴۶

۳۴_ وقعہ صفين ۳۵۵

۳۵_الا ايها الموت الذى لست تاركى ارحنى فقد افنيت كل خليل

اراك بصيرا بالذين احبهمكانك تنحو محوه بدليل

۳۶_ تاريخ طبرى ج ۵ ص ۴۱

۳۷_ وقعہ صفين ۳۴۵

۲۲۹

بارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين)۴

نجات كيلئے كوشش

آخرى فريب

سپاہ عراق كا رد عمل

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

مالك كا واپس آنا

سركشوں كى سرزنش

نفاق و حماقت كے خلاف جد و جہد

حكميت و ثالثى كى دعوت

معاويہ كى جانب

حكمين كا انتخاب

سوالات

حوالہ جات

۲۳۰

نجات كے لئے كوشش

سپاہ اسلام كى جانب سے معاويہ اور عمروعاص كو جب پے در پے شكستيں ہوئيں تو وہ اس نتيجے پر پہنچے كہ اميرالمومنين حضرت عليعليه‌السلام كے لشكر كى تاب نہيں لاسكتے اور ان كى شكست فاش ہونے ميں زيادہ دير نہيں _ اسى لئے انہوں نے جنگ سے نجات پانے اور اپنے مقام و حيثيت كے تحفظ كى خاطر كوشش شروع كردي_ سب سے پہلے انہوں نے عراق كے لشكر كے بعض سرداروں كو پيغامات بھيجے اور ان سے جنگ ترك كرنے كى درخواست كى معاويہ نے اپنے بھائي عتبہ كو جو نہايت ہى فصيح بيان اور چرب زبان آدمى تھا حكم ديا كہ وہ علىعليه‌السلام كے سردار لشكر اشعث بن قيس سے ملاقات كرے اور جنگ و جدل ختم كرنے كيلئے اسے آمادہ كرے_

عتبہ نے اشعث سے ملاقات كى اور خوب مدح سرائي كرنے كے بعد كہا كہ : آپ عراق اور يمن كے لوگوں كے سردار ہيں _ آپ كى عثمان سے نہ صرف قرابت دارى تھى بلكہ آپ ان كى فوج كے فرماندار بھى تھے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر اصحاب كے برخلاف آپ طائفہ شام كے لوگوں كى حميت و غيرت اور ان كے جذبہ ناموس كى خاطر جنگ و جدل ميں حصہ لے رہے ہيں _

آخر ميں اس نے اپنى آمد كا مدعا بيان كيا اور كہا: جنگ انتہائي پر خطر صورت اختيار كرچكى ہے ہم آپ سے يہ تونہ كہيں گے كہ آپ حضرت علىعليه‌السلام سے كنارہ كشى اختيار كر ليجئے البتہ اس بات كے متمنى ہيں كہ اس جنگ كا اب كسى طرح خاتمہ ہوجائے تا كہ سپاہ مزيد ہلاك نہ ہو_

اشعث نے عتبہ كى تعريف و ستائشے كا جواب ديتے ہوئے اس كے اس بيان كى تائيد كى كہ اس كى جنگ شام كے لوگوں سے ايمان و عقيدے كى بنياد پر نہيں بلكہ ميں اہل عراق كى حمايت اس بنا

۲۳۱

پر كر رہا ہوں كہ ہر شخص كو چاہيئے كہ وہ اپنے گھر كى خود حفاظت كرے اس نے جنگ ختم كرنے كے سلسلے ميں بھى انھيں منفى جواب نہ ديا اور كہا كہ : ميرے نظريئے كا اعلان جلد ہى كرديا جائے گا_ (۱)

اس ملاقات كے ذريعے عتبہ كو اتنى كاميابى تو ہوگئي كہ اس نے اشعث كے ذہن ميں صلح كا ميلان پيدا كرديا اور جو تجاويز و پيشنہادات بعد ميں وقوع پذير ہوں گى ان كے اجراء نيز سپاہ عراق ميں س كى تشہير و ترويج كيلئے ايك موثر عامل كے طور پر اسے آمادہ كرليا گيا ہے_

معاويہ نے يہ بھى حكم ديا كہ عتبہ اور اشعث كے درميان جو ملاقات ہوئي ہے نہ صرف اسے بلكہ جو گفتگو ان دونوں نے كى ہے اسے حرف بحرف سپاہ عراق كے درميان منتشر كرديا جائے_ عمرو سے كہا كہ وہ ابن عباس كو بھى خط لكھے عمروعاص نے خط اس طرح لكھا علي(ع)كے بعد چونكہ آپ ہى اس جماعت كے سرور و سردار ہيں اسى لئے جو گذر گيا اسے فراموش اور آيندہ كے بارے ميں غور و فكر كيجئے_ خدا كى قسم اس جنگ نے ہم پر اور تم پر زندگى حرام اور صبر و تحمل كى تاب تمام كردى ہے يہ جان ليجئے كہ عراق اور شام كو بيك وقت جب ہى قابو ميں لايا جاسكتا ہے جب كہ ان ميں سے ايك نيست و نابود ہوجائے طرفين كيلئے صلاح اس امر ميں ہرگز نہيں كہ حريف مقابل ہلاك ہوجائے ہمارے اور تمہارے درميان ايسے لوگ بھى موجود ہيں جنہيں جنگ و جدل پسند نہيں _ آپ مشير و امين ہيں ليكن اشتر سنگدل انسان ہيں اور يہ مناسب نہيں كہ انھيں مشورے ميں شريك كيا جائے_

ابن عباس نے يہ خط حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں پيش كرديا جسے ديكھ كر آپعليه‌السلام كو ہنسى آگئي اور فرمايا كہ : اس ''عمر و عاص'' كو خدا غارت كرے معلوم نہيں كہ اسے كس چيز نے اس بات كيلئے مجبور كيا كہ وہ تم سے اس قسم كى توقع ركھے؟ اور اس كا جواب دينے كيلئے حكم ديا ابن عباس نے عمروعاص كو واضح و مدلل جواب ديا اور اس كى اميدوں پر قطعى پانى پھيرديا_(۲)

۲۳۲

آخرى فريب

معاويہ كو اتنى كاميابى تو ہو ہى گئي تھى كہ وہ ايسا ميدان ہموار كرلے جس كے ذريعے وہ سپاہ عراق كے درميان اپنے آخرى جنگى حربے كو بروئے كار لاسكے_ اس نے چونكہ سن ليا تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے تمام اہل لشكر كے درميان يہ فرمايا ہے كہ: كل جنگ كو يك طرفہ كرديا جائے گا اسى لے اس نے عمروعاص سے كہا كہ بس يہى ايك رات ہے جس ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں كل جنگ يك طرفہ ہوجائے گى اس بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے؟ اس نے جواب ديا كہ: آپ كے جوانوں ميں نہ تو ان جوانوں كا مقابلہ كرنے كى تاب و طاقت ہے اور نہ ہى آپ علىعليه‌السلام كے مثل و مانند ہيں وہ دين كى خاطر جنگ كر رہے ہيں اور آپ دنيا كے لئے_ آپ زندگى و بقاء كے متمنى ہيں اور وہ شہادت كے خواہشمند_ عراق كے لوگوں كو آپ كے غالب آنے كا خوف و ہراس ہے مگر شام كے عوام حضرت علىعليه‌السلام كى فتح و كامرانى سے خوش و خرم ہيں ليكن ميں ايك مشورہ ديتا ہوں اور وہ يہ كہ ان كے سامنے ايسى تجويز پيش كردى جائے كہ جس كو وہ قبول كرليں يا اسے رد كرديں ان كے درميان اختلاف راہ پاسكے_ انہيں يہ دعوت ديجئے كہ قرآن ہمارے درميان ثالث و حكم ہے_ اور يہى ايسى راہ ہے جس كے ذريعے آپ كامياب ہوسكتے ہيں ميں نے اس حربے كو ہميشہ اس خيال كے پيش نظر التواء ميں ركھا تا كہ اسے بوقت ضرورت بروئے كار لايا جاسكے معاويہ نے اس كے اس نظريے كو پسند كيا_(۳)

اشعث بن قيس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اس بيان كى پيروى كرتے ہوئے كہ دشمن آخرى چند سانس لے رہا ہے كہا ميں كل ان پر حملہ كروں گا تا كہ بارگاہ خداوندى ميں ان كا محاكمہ كيا جائے(۴) اس نے اپنے طائفہ ''كندا'' كے لوگوں سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے مسلمانو: تم ديكھ رہے ہو كہ تم پر كيا گزر گئي ہے كتنے عرب ہلاك ہوچكے ہيں خدا كى قسم ميں نے اپنى پورى زندگى ميں ايسا منحوس دن نہيں ديكھا جو حاضر ہيں وہ غائب لوگوں كو يہ پيغام پہنچا ديں كہ اگر كل كا دن بھى اسے طرح گذرا تو عربوں كى نسل نيست و نابود ہوجائے گى عورتوں اور بچوں كے

۲۳۳

سرپر كوئي وارث نہ رہے گا_

معاويہ كے جاسوسوں نے اشعث كے اس بيان كو اس تك پہنچا ديا معاويہ نے اس كے اس بيان كو اپنى جنگى سازش كى بنياد اور نيرنگى فكر كا محور بنا ليا اس نے اشعث كے بيان كى تائيد كرتے ہوئے حكم ديا كہ آدھى رات كے وقت عراقيوں كے درميان بلند آواز سے كہيں كہ '' اے عراقيو اگر ہم ميں سے ہر ايك دوسرے كو قتل كرے گا تو ہمارى عورتوں اور اولاد كا كون ولى و وارث ہوگا اب جو كچھ باقى رہ گيا ہے كم از كم اس كى حفاظت كى جائے_(۵)

بروز جمعہ (يوم الہرير) مالك اشتر كے حملے دشمس پر مسلسل جارى تھے يہاں تك كہ ان كے سپاہى تھك گئے چنانچہ انہوں نے اپنى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : ميں تمہارے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس لئے كہ (اگر زندہ بچ گئے) تو باقى دنوں ميں اپنے گلے كا دودھ دوہيا كروگے(۶) اس كے بعد انہوں نے اپنا گھوڑا طلب كيا اور پرچم كو ''حيان بن ہوذہ'' سے لے كر زمين ميں گاڑديا_ اور بآواز بلند يہ كہتے ہوئے سپاہ كے درميان پہنچ گئے كہ : تم ميں سے كون حاضر ہے كہ اپنى جان كا خدا سے معاملہ كرے اور اشتر كے شانہ بشانہ جنگ كرے تا كہ اسے يا تو فتح و نصرت نصيب ہو يا شہادت اس تقرير كے بعد بہت سے سپاہى ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان كے ہمراہ دشمن پر حملہ آور ہوئے يہاں تك كہ انہوں نے سپاہ شام كو دھكيل كر ان كى قرار گاہ لشكر تك پہنچا ديا ليكن يہاں پہنچ كر انھيں دشمن كا سخت مقابلہ كنا پڑا چنانچہ اس مقابلے ميں مالك كے پرچمدار شہيدبھى ہوگئے_

حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ ديكھا كہ فتح و كاميابى مالك كے قدم چومنا چاھتى ہے تو آپعليه‌السلام نے ان كى مدد كيلئے سپاہ كى ايك جماعت روانہ كي_(۷)

مالك كى سرشكن ضربات اور دشمن كے ٹھكانہ پر مسلسل يورش سے يہ خوشخبرى مل رہى تھى كہ فتح و نصرت جلد ہى نصيب ہونے والى ہے شام كے ضعيف و عمر رسيدہ لوگوں كے لبوں پر يہ صدا بلند تى اللہ اللہ فى الحرمات من النساء و البنات(۸) (خدا كيلئے اپنے عورتوں اور بيٹيوں كا

۲۳۴

توكچھ تو خيال و پاس كرو)

معاويہ نے اپنے لشكر كى جب يہ زبوں حالى ديكھى اور يہ يقين ہوگيا كہ شكست ميں قطعا شك نہيں تو اس نے عمروعاص سے كہا كہ : ہم تو اب فنا ہوا چاھتے ہيں كہاں ہے وہ تمہارا آخرى حربہ(۱۹) يہ سن كر عمروعاص نے بآواز بلند كہا كہ : اے لوگو تم ميں سے جس كے پاس بھى قرآن مجيد ہے اسے نيزے كى نوك پر حمائل كردو_ تقريبا پانچ سو قرآن نيزوں پر آگئے اس كے ساتھ لوگوں كو چيخ و پكار بھى شروع ہوگئي كہ: ہمارے اور تمہارے درميان قرآن حاكم و ثالث ہے اگر ہميں قتل كردو گے تو شام كى سرحدوں كى كون نگرانى و حفاظت كرے گا(۱۰)

سپاہ عراق كا رد عمل

عراق كے بعض سپاہيوں پر دشمن كے حيلہ و نيرنگ اور اس كے پر فريب ،ہيجان انگيز نعروں كا جادو چل گيا (بالخصوص اشعث جيسے سرداروں پر چونكہ ان كے دل معاويہ كى جانب مايل تھے اسى لئے ان كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے منافقين ميں ہوتا تھا) چنانچہ انہوں نے لوگوں كو مشتعل كرنا شروع كرديا تا كہ وہ دشمن كے دام فريب ميں آجائيں اور اسى لئے انہوں نے بآواز بلند يہ كہنا شروع كرديا كہ ''تمہارى دعوت كتاب خدا ہم نے قبول كر ليا ہے آؤ ہم اسى طرف چليں ''(۱۱)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو اپنى سپاہ كے افكار روشن كرنے اور دشمن كے حيلہ و نيرنگ سے باخبر كرنے كى خاطر فرمايا كہ '' اے بندگان خدا اسى طرف چلتے رہو دشمن سے جہاد كرتے ہوئے حقيقت و حقانيت كو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دو معاويہ، عمروعاص اور ابن ابى معيط كو دين و قرآن سے كوئي سروكار نہيں ميں ان لوگوں كو تم سے بہتر جانتا ہوں ان كے بچپن سے سن رسيدہ ہونے تك ميرا سابقہ رہا ہے يہ اپنے وقت كے بدترين بچے اور بدترين مرد رہے ہيں اگر يہ لوگ قرآن كى عظمت سے واقف ہوتے اور اس كے احكام پر عمل كرتے تو ان كو نيزوں

۲۳۵

پر نہ چڑھاتے_ وہ جو كچھ كر رہے ہيں سب نيرنگ و نفاق ہے_(۱۲)

اس سے قبل يہ واقعہ رونما ہوا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے اس خط ميں جو معاويہ كو لكھا تھا يہ پيشين گوئي كردى تھى گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ حوصلہ شكن ضربات، بے حد و اندازہ كشت و خون اور يقينى شكست و ريخت كے بعد تم اپنے ساتھيوں كے ہمراہ كتاب اللہ كى جانب آنے كى دعوت دوگے چنانچہ جو لوگ اس دعوت كى دہائي ديں گے وہ كافر ہوں گے يا منافق يا حق سے روگرداں(۱۳) دشمن كى اس سازش كو ناكام كرنے اور سپاہ فريقين كے افكار بيدار كرنے كى خاطر حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت سعيد كو قرآن كے ساتھ شاميوں كى جانب روانہ كيا اور انھيں حكومت قرآن كى دعوت دي_

سپاہ عراق ميں نظرياتى اختلاف

حضرت علىعليه‌السلام كى تقارير و تنبيہات كا اثر چند ہى لوگوں پر ہوا ان ميں اكثريت ايسے لوگوں كى تھى جنہوں نے ضد اختيار كر لى تھى اور ان كا اس بات پر اصرار تھا كہ جنگ ترك كردى جائے چنانچہ انہوں نے پكارپكار كر كہنا شروع كيا: اس جنگ نے ہميں نگل ليا اس ميں ہمارے تمام مرد مارے گئے ان كى دعوت كو قبول كر لو ورنہ سب مارے جاؤ گے_

جو لوگ اس حق ميں تھے كہ جنگ جارى رہے ان ميں مالك اشتر پيش پيش تھے_

ان كى دليل يہ تھى كہ معاويہ كے پاس اب اپنى فوجى طاقت كا دم خم نہيں جب كہ ہمارى فوجى طاقت بہت زيادہ ہے اور ہم ميں حوصلہ مندى ہے اگر اس كے پاس تمہارى جيسى فوجى طاقت ہوتى تو وہ ہرگز جنگ سے روگرداں نہ ہوتا(۱۴)

جنگ كو جارى ركھنے كے حاميوں ميں دوسرے شخص'' عدى بن حاتم'' تھے انہوں نے كہا كہ ہرچند ہمارى سپاہ كا كشت و خون ہوا ہے اور ان ميں سے بہت سے مجروح بھى ہوئے ہيں مگر حق كى پاسدارى كر رہے ہيں اس لئے ہم اہل شام زيادہ ثابت قدم وپائيدار ہيں اب وہ لوگ زبوں و ناتواں ہوچكے ہيں ضرورى ہے كہ اس موقع سے فائدہ اٹھايا جائے اور ہم ان سے جنگ

۲۳۶

كريں _ (۱۵)

انہى افراد ميں سے ''عمرو بن حمق'' اپنى جگہ سے اٹھے اور كہنے لگے: اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم نے آپ كا ساتھ باطل كى خاطر نہيں ديا ہے بلكہ ہم راہ خدا ميں اور حق قائم كرنے كى غرض سے آپ كے دوش بدوش رہے ہيں اب كام اپنے انجام كو پہنچ چكا ہے اور ہم بھى آپ كے مطيع و فرمانبردار ہيں(۱۶)

اس جماعت كے مقابل اشعث كھڑا تھا اور كہنے لگا اے اميرالمومنينعليه‌السلام ہم آپ كے آج بھى وہى جاں نثار دوست ہيں جو كل تھے ليكن كام كا انجام آغاز سے مختلف ہے مجھ سے بڑھ كر كوئي اہل عراق كا دوست او مجھ سے بدتر كوئي شاميوں كا دشمن نہيں انہوں نے جب كلام اللہ كى دعوت دى ہے تو قبول كر ليجئے كيونكہ اس كيلئے آپ ان سے كہيں زيادہ اہل و لائق ہيں لوگ اپنى زندگى و بقاء كے متمنى ہيں ہلاكت و تباہى انھيں پسند نہيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال كے پيش نظر كہ لشكر كے درميان ہم آہنگى برقرار رہے اور ان كے درميان كوئي اختلاف و اشتعال پيدا نہ ہو پہلے تو خود سے ہى كہا كہ اس مسئلہ كے بارے ميں غور كيا جانا چاہيئے(۱۷) ليكن جيسے ہى ہر گوشہ و كنار سے صلح كے بارے ميں دبى دبى آوازيں آنے لگيں تو آپ نے فرمايا كہ : اے بندگان خدا اس ميں كوئي شك نہيں كہ كلام اللہ كى دعوت قبول كرنے كيلئے ميں آپ سے زيادہ لائق و اہل ہوں مگر دين و قرآن كے معاملے ميں معاويہ اور عمروعاص كى بات الگ ہے ان كا قول اگرچہ كلمہ حق ہے مگر اس كے پس پردہ جو ارادہ كار فرما نظر آتا ہے وہ باطل ہے قرآن كو نيزے پر چڑھانا معرفت اور ايفائے عہد كى بنياد پر نہيں بلكہ يہ بھى حيلہ و نيرنگ اور ايك بہانہ ہے تم صرف ايك گھنٹے كے لئے اپنے دست و بازو اور سر ميرے حوالے كردو تو جلد ہى يہ ديكھو گے كہ حق اپنے آشكارہ نتيجے پر پہنچ چكا ہے اور ستمگروں كى بيخ كنى ہونے ميں ذرا بھى دير نہيں _

ليكن اشعث نے جب يہ ديكھا كہ اس كى بات كو نظر انداز كيا جا رہا ہے اور يا اس پر عمل ہونا

۲۳۷

مشكل و محال نظر آتا ہے تو يہ بات اس كيلئے ناقابل برداشت ہوگئي چنانچہ و ہ سپاہ كى جانب روانہ ہوا تا كہ اپنے اس نظريے كا ان كے درميان پر چار كر سكے چنانچہ اس نے اس بات پر سب سے زيادہ زور ديا كہ جنگ بند كردى جائے اور يہ بات اس نے ان حساس لمحات ميں كہى جب كہ جنگ كى چكى مالك اشتر كے ہاتھ ميں گھوم رہى تھى اور دشمن گيہوں كے دانوں كى مانند ان كى سرشكن ضربات كے باعث پس رہے تھے وہ ميدان كارزار ميں حق كو روشن اور فتح و نصرت كو آشكار كرنا چاہتے تھے دشمن كے آخرى محاذ كو زير و زبر كرنے ميں بھى اب چند قدم كا ہى فاصلہ رہ گيا تھا_

شاميوں كى زندگى اب معاويہ اور عمروعاص كے باريك تار اميد سے وابستہ تھى وہ سراسيمہ و پريشان معاويہ كے سرپر كھڑے چلا رہے تھے اور كہہ رہے تھے معاويہ ايسا لگتا ہے كہ اہل عراق ہمارى دعوت قبول كرنے كو تيار نہيں اپنى اس تجويز كو ان كے سامنے دوبارہ ركھيے تم نے يہ دعوت دے كر دشمن كو جرات مند و گستاخ كرديا ہے اور لالچ و حرص نے تم كو گھير ليا ہے(۱۸) _

دوسرى طرف اشعث كى كوشش كے باعث تقريبا دو ہزار آہن پوش افراد سلاح بدست اور شمشير بدوش ان قاريان قرآن كى جماعت كے ہمراہ جن كو بعد ميں جزو خوارج كہا گيا'' مسطر بن فدكي'' اور '' زيد بن حصين'' كى قيادت ميں حضرت علىعليه‌السلام پر حملہ آور ہوئے وہ آپ كو بار بار ضدى و خود سر كہے جا رہے تھے_

انہوں نے پہلى مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كو اميرالمومنينعليه‌السلام خطاب كرنے كے بجائے يہ كہ كہا اے على انہوں نے كلام اللہ كى دعوت دى ہے تم اسے قبول كر لو ورنہ ہم تمہيں بھى عثمان كى طرح قتل كروائيں گے اور ہم خدا كو شاہد بنا كر كہتے ہيں كہ ہم يہ كام كر گزريں گے_

حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تمہارى حالت پر ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن كى دعوت دى اور ميں ہى پہلا فرد ہوں جس نے اس كى دعوت كو قبول كيا ميرے لئے يہ كسى طرح بھى شائستہ و سزاوار نہيں كہ حكميت قرآن كى دعوت دى جائے اور ميں اسے قبول نہ كروں ميں ان سے اس لئے جنگ كر رہا ہوں كہ وہ حكم قرآن كے آگے اپنى گرد نيں خم كرديں كيونكہ انہوں نے حكم

۲۳۸

خداوندى سے روگردانى كى اور اس كے احكام سے عہد شكنى كر كے اس كى كتاب سے منحرف ہوگئے ہيں ميں بار بار تمہارے سامنے يہ اعلان كر چكا ہوں كہ ان كا ہرگز يہ ارادہ نہيں كہ احكام الہى پر عمل پيرا ہوں بلكہ اپنے اس اقدام سے وہ تمہيں فريب دے رہے ہيں ميں نے جو كچھ كہا اور وہ بات جو تم كہہ رہے ہو اس پر غور كرو اگر ميرى اطاعت مقصود ہے تو جنگ كرو اور اگر ميرے حكم كى خلاف ورزى منظور ہے تو تمہيں اختيار ہے جو چاھو كرو_ (۱۹)

انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كے بيان كى جانب توجہ كئے بغير كہا كہ اشتر كو حكم د يجئے كہ وہ جنگ سے دست بردار ہوكر واپس آجائيں _(۲۰)

مالك كا واپس آنا

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ناگزير يزيد بن ہانى كے ذريعے مالك كو پيغام بھجوايا كہ واپس آجائيں _ مالك اس وقت دشمن كى استقامت و پايدارى كو كارى ضرب لگا چكے تھے اور فتح و نصرت ان كے قدم چوم لينا چاہتى تھى انہوں نے جواب ديا كہ : يہ وقت مجھے اپنے موقف سے دوركرنے كيلئے مناسب نہيں مجھے خداوند تعالى كى ذات سے اميد ہے كہ فتح و كاميابى حاصل ہوگى ميرے بارے ميں آپ جلدى نہ كيجئے انہوں نے مالك كا پيغام حضرت علىعليه‌السلام كو پہنچا ديا انہى لمحات كے دوران ميدان كار زار ميں گرد و غبار بلند ہوا اور نبرد آزما سپاہ كى پر جوش و خروش صدائيں سنائي ديں اب مالك اشتر كى فتح و نصرت اور شاميوں كى شكست فاش نماياں ہوچكى تھي_

ليكن فتح و نصرت كى ان علامتوں سے كوئي بھى علامت ان سركشوں كو جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو اپنے حصار ميں لے ركھا تھا ضد پر سے نہ روك سكى وہ غضبناك ہو كر چيخے اور كہنے لگے كہ يقينا آپ نے مالك كو يہ حكم ديا ہے كہ آتش جنگ كو مزيد بر افروختہ كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : افسوس تمہارى حالت پر كيا ميں نے تمہارے سامنے قاصد مالك كى جانب روانہ نہيں كيا جو بات روشن و آشكارا ميں نے كہى تھى كيا وہ تمہارے كانوں تك نہيں پہنچي؟ انہوں نے كہا : دوبارہ يہ

۲۳۹

پيغام بھجوائے كہ وہ واپس آجائيں اور اگر آپ نے ايسا نہ كيا تو ہم آپ سے قطع تعلق كرليں گے حضرت على عليه‌السلام نے دوبارہ يہ پيغام بھيجا كہ يہاں فتنہ بپا ہے تم واپس آجاؤ اشتر نے قاصد سے پوچھا كيا يہ شور و غوغا قرآن كو نيزوں پر بلند كرنے كے باعث بپا ہوا ہے؟ قاصد نے جواب ديا ہاں اس كى وجہ يہى ہے اس پر مالك نے كہا كہ خدا كى قسم جس وقت قرآن كو نيزوں پر لايا گيا تھا مجھے اسى وقت يہ گمان گذرا تھا كہ اختلاف و تفرقہ پيدا ہوگا يہ طرح ريزى و نقشہ كشى اس غير معمولى ذہنى كى پيدا وار ہے جس كا نام عمروعاص ہے_

اس كے بعد انہوں نے يزيد بن ہانى سے كہا كہ:كيا تم ديكھ نہيں رہے ہو كہ خداوند تعالى نے ہميں فتح و كاميابى عطا فرمائي ہے كيا اس وقت يہ مناسب ہے كہ اس موقع كو ہاتھ سے جانے دوں اور واپس چلا آجاؤں ؟ يزيد بن ہانى نے كہا كہ : كيا آپ يہ چاھتے ہيں كہ اس محاذ جنگ پر تو آپ كامياب ہوجائيں اور ادھر آپ اميرالمومنينعليه‌السلام كو دشمن كے حوالے كرديں ؟ انہوں نے جواب ديا كہ '' سبحان اللہ آپ نے يہ كيا بات كہى خدا كى قسم ميں ايسا ہرگز چاھوں گيا يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار سے واپس آگئے_(۲۱)

سركشوں كى سرزنش

مالك جب ميدان كارزار سے واپس آگئے تو وہ ان لوگوں پر غضبناك ہوے جنہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو گھير ركھا تھا اور كہا: اے مذلت پذير سست عنصر لوگو تمہيں غالب و فاتح ديكھ كر دشمن نے حكميت قرآن كى دعوت دى ہے كيا دعوت دينے كيلے يہى وقت رہ گيا تھا خدا كى قسم انہوں نے احكام الہى و قرآن اور سنت كو پامال كيا ہے اس لئے تم ان كى دعوت قبول نہ كرو مجھے اتنى مہلت دے دو كہ ميں يہاں سے جاؤں اور واپس چلا آؤں ميں فتح و كاميابى كو اپنے سامنے ديكھ رہا ہوں انہوں نے كہا كہ : ايسا نہيں ہوسكتا مالك نے كہا كہ '' كم از كم مجھے اتنا ہى وقت دے ديا جائے جتنى دير گھوڑے كو دوڑنے ميں لگتى ہے انہوں نے جواب ديا كہ ايسے وقت ميں ہم تمہارے ساتھ

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259