کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153210 / ڈاؤنلوڈ: 4708
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

کامیابی کے اسرار

تالیف

آیت اللہ سید مرتضی مجتہدی سیستانی

 

جلد- ۱

ترجمہ

عرفان حیدر

۱

مؤلف : آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

 ترجمہ : عرفان حیدر  

نظر ثانی : مختار حسین رحیمی

کمپوزنگ : .................. موسی علی عارفی، ذیشان مہدی سومرو

طبع: .............................  اول

تاریخ طبع :........................ ۲۰۱۰مئی

تعداد:. ............................۲۰۰۰

قیمت: .............................۱۵۰

ناشر................................الماس  پرنٹرز  قم  ایران

          ملنے  کاپتہ:

                                  جامعہ امام صادق بک سینٹر علمدار روڈ کوئٹہ بلوچستان

                                   فون نمبر:۲۶۶۴۷۳۵۔۰۸۱

                                    امامیہ سیلز پوائنٹ قدمگاہ مولاعلی، حیدرآباد سندہ

                                   فون نمبر : ۲۶۷۲۱۱۰۔۰۳۳۳

ایمیل:        irfanhaidr۰۱۴@gmail.com

ویب سائٹ:        www.almonji.com

ایمیل مولف:        info@almonji.com

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

انتساب

السَّلام عَلَیک یَا فٰاطمةَ الزَّهراء

یَا بنتَ رَسول اللّٰه یَا قرَّةَ عَین المصطَفٰی

ولایت و امامت کے دفاع میں شہید ہونے والی اسلام کی اس پہلوشکستہ بی بی کے نام جنہوں نے دفاع ولایت کی خاطر ایسے ایسے مصائب برداشت کئے کہ اگر روشن دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے اور جن کے بارے میں امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

"انّ فَاطمةَ صدیقَة  شَهیدَة"

۳

مقدمہ مترجم

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد للّٰه الذی جعلنا من المتمسکین بولا یة علی بن ابی طالب

وصلّی اللّٰه علی محمّد وآله الا ئمة المعصومین

تمام تعریفیں پرور دگار عالم کے لئے ہیں جو عالمین کا خالق و مالک ہے اور بے شمار درود و سلام ہو اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی اور ان کی عترت طاہرہ پر جنہوں نے اپنی تعلیمات کے ذریعے بشریت کی راہنمائی فرمائی اور انسانوں کو گمراہی و ضلالت سے نکال کر ہدایت کا راستہ دکہا یا ۔

قارئین کرام ! کا میابی کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے ہر انسان کا میاب زندگی کا خواہاںہے لیکن اکثر صحیح راہنما میسر نہ آنے سے انسان کی یہ خواہش پوری نہیں ہو تی اور اسے نا کامی کا منہ دیکہنا پڑتا ہے ۔ آپ کے پیش نظر یہ کتاب آیت اللہ سید مرتضیٰ مجتہدی سیستا نی مد ظلہ کی فارسی کتاب ''اسرار موفقیت '' کا ترجمہ ہے یہ کتاب کا میابی کی تلاش و جستجو کرنے والوں کے لئے انمول تحفہ اور یأس و نا امید ی میں مبتلا افراد کے لئے امید کی کرن ہے ۔

اس کتاب میں معاشرے کی ضروریات کے مطابق کچہ موضو عات کو زیر بحث لا یا گیا ہے ۔ موضوعات کی مناسبت سے خاندان عصمت وطہارت علیہم السلام کے فرامین نے کتاب کو چار چاند لگا  دیئے ہیں۔ ترجمے کے دوران آسان ، عام فہم اور سلیس اردو کا استعما ل کیا گیاہے ۔ ثقیل اور غیر مانوس کلمات سے پر ہیز کیا گیا ۔ البتہ اس بات کا فیصلہ تو قارئین فرمائیں گے کہ میں مفاہیم  ومطالب کو منتقل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہا پہر بہی آپ سے استدعا ہے کہ ترجمے میں نقائص سے ضرور مطلع فرمائیں ۔

۴

 میں اپنے دوستوں ادیب علی آدا بی ، سید علی شاہ عابدی ، مشتاق حسین عمرانی ، ذیشان مہدی اور بالخصوص برادرعزیز علی اسدی اور عمران حیدرشاہد کا شکر گزار ہوں ، جنہوں نے اس کتاب کے سلسلے میں تعاون فرمایا۔ نیز حجة الا سلام و المسلمین مختار حسین رحیمی کا  بہی شکرگزارہوں کہ جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر کتاب پرنظر ثانی فرمائی ۔آخرمیں میںاپنے والدین ، اسا تید حجة الا سلام والمسلمین محمد جمعہ اسدی اور حجة الا سلام والمسلمین اکبر حسین زاہدی کا ممنون و مشکور ہوں جن کی شفقت اور تربیت نے مجہے مکتب اہل بیت  کا خادم بنایا ۔ خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پرور دگارا ! محمد و آل محمد کے طفیل اس نا چیز کاوش کو شرف قبولیت عطا فرما اور ہمیں حقیقی معنوں میں دین کی  خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما ۔

   عرفان حیدر               

  قم المقدس ( ایران )          

۱۸ ذلحجہ روز عید سعید غدیر۳۰ ۱۴ ہ

۵

 پیش گفتار

بسم الله الرحمن الرحیم

عظیم لوگوں کی کامیابی کا راز تفکر و تدبّر ہے ۔ اگر آپ بہی ان کے نقش قدم پر چلیں تو سعادت اور کامیابی و کامرانی آپ کے قدم چومے گی ۔ لیکن اس کے لئے فکر کی طاقت سے بہرہ مند ہوناضروری ہے۔ آپ مثبت سوچ کے ذریعے اپنے اندر کمی کا جبران کریں تاکہ اپنے عالی اہداف تک پہنچ کر اپنے معاشرے کو مثبت افکار سے آشنا کرواسکیں۔ جب بہی آ پ کو صحیح فکر کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہو تو آگاہ اور مخلص افراد سے مشورہ کریں کہ جن میں مشاور کی شرائط ہوں ۔ ایسے افراد کی سوچ و فکر سے استفادہ کریں ۔ ان کے مشورے سے استفادہ کرتے ہوئے اعلیٰ اہداف سے آشنا ہوں اور بہترین اہداف کا انتخاب کریں پہر تر قی اور کامیابی کی اہم شرط یعنی پختہ ارادے اور بلند ہمت کے ذریعہ اپنے اہداف کے مطابق برنامہ تشکیل دے کر انہیں عملی جامہ پہنائیں ۔ کیو نکہ صحیح برنامہ اور نظم وضبط ہدف اور منزل تک پہنچنے کا آسان  راستہ ہے ۔ جو آ پ کو جلد اپنی منزل تک پہنچا تا ہے ۔

وقت سے استفادہ کریں اور فرصت کے لمحات میں نیک اور صالح افراد کی صحبت میں بیٹہ کر مستفید ہوں ان کی ہمنشینی وصحبت سے آپ کی روح تازہ اور ان کی دل نشین گفتار سے آپ کا دل منور ہوجائے گا آپ ان بزرگان کی صحبت سے ان کی روحانی و معنوی قوت سے خود بہی قدرت حاصل کریں اور انہیں نفس کی مخالفت اورسالوں کی محنت و کوشش سے حاصل ہونے والے تجربات سے استفادہ کریں ۔

۶

آپ کو اپنے نفس پر اختیار ہو تو صبر و استقامت کو اپنا ہتہیار بنا کر اپنی روحانی قوت کو متمر کز کریں پہر آپ کی معنوی قدرت پروان چڑہے گی ۔ کیو نکہ نفسانی خواہشات کے مقابل میں صبر کرنے سے آپ کا باطن برائیوں سے پاک ہو جائے گا پہر آپ کو اسرار خدا میں سے ایک راز یعنی اخلاص کا مقام حاصل ہو جائے گا ۔

اس صورت میں آپ کا دل رحمانی الہامات سے روشن ہو جائے گا آپ کی زبان پر علم و حکمت کے چشمے جاری ہو ں گے اورپہر علم و دانش سے بہرہ مند ہوں کہ جو عالی درجات کی جانب ارتقاء اور خداکے تقرب کا ذریعہ ہے ۔ اگر باب علم سے وابستہ ہو جائیں تو آپ کی شرافت و فضیلت میں اضافہ ہو گا اس طرح آپ معارف اہل بیت سے اپنے دل کو منور کریںاور ایک شمع کی طرح آپ اپنے معاشرے کو روشن کریں اور انہیں اہل بیت  کے حیات بخش مکتب سے آشنا کریں اور زنگ آلود قلوب کو ان کے نورانی افکارو گفتار سے منور کریں ۔

ایسی خد مات کو انجام دینے کے لئے کوشش کریں تاکہ توفیق الٰہی آپ کے شامل حال ہو۔ کیو نکہ توفیق کے حصول کے علاوہ دعا، سعی و کوشش اور تلاش و جستجو بہی ضروری ہے ۔ جب تک خدا کی توفیق ہماری دستگیری نہ کرے ، ہم  حقیقت کے کاروان تک نہیں پہنچ سکتے ۔

       کاروان رفت و تو در خواب وبیابان در پیش 

       کی روی ؟ رہ ز کہ پرسی ؟ چہ کنی ؟ چون باشی ؟

کاروان چلا گیا اور تم سوتے رہے،تمہارے سامنے بیابان ہے اور تم تنہا رہ گئے ہو۔اب تم کب جائو گے؟کس سے راستہ پوچہو گے اور کیا کرو گے؟

۷

اگر آپ حقیقت تک پہنچنا چاہو تو اغیارکے طعنوں سے نہ گہبراؤ ۔بلکہ منزل کی جانب گامزن رہو کسی جگہ تہک کر نہ بیٹہو اور عظیم لوگوں کی اہم ترین صفت یعنی مقام یقین حاصل کرو ۔

معاشرے کی ضرورت کو مد نظر رکہتے ہوئے میں نے معاشرے کے لئے مفید موضوعات پر روشنی ڈالی ، انہیں مفید موضوعات کے ضمن میں ، میں نے خاندان رسالت  کے فرامین اور بالخصوص صاحب ولایت امیر المو منین علی بن ابی طالب  کے ارشادات کو بیان کیا ہے اور انہیں عوام الناس کے اختیار میں قرار دیا امید ہے کہ یہ کتاب معصومین علیہم السلام کے نورانی اور تابناک فرامین کے وجہ سے بہٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ اور معنوی تکامل اور روحانی افزائش کے لئے مدد گار ثابت ہوگی ۔

سید مرتضیٰ مجتہدی سیستانی

۸

پہلاباب

فکر

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' علیک با لفکر فانّه رشد من الضلال و مصلح الا عمال ''

تم پر فکر کرنا لازم ہے  کیو نکہ یہ گمرا ہی سے ہدایت اور اعمال کی اصلاح کر تی ہے ۔

     فکر کی اہمیت

    فکر کی پرواز

    فکر کی اہمیت کے کچہ راز

    گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

    تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے

    تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ

    روزۂ فکر

    صحیح و سالم فکر کے طریقے

    ۱۔ دقت اور سوچ سے فکر کو سالم کر نا

    ۲ ۔ پر خوری سے پر ہیز کرنا

    ۳ ۔ فکری اشتباہات میں مبتلا افراد سے پر ہیز کرنا

    نتیجۂ بحث

۹

فکر کی اہمیت

ہر انسان کے ذہن میں  ایسے قیمتی اور گراں قدر خزانے موجود ہوتے ہیں کہ جنہیں وہ سوچ کے ذریعہ حاصل کرکے استفادہ کر سکتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ کچہ لوگ اپنے اندر موجود ان پر قیمت وانمول  خزا نوں سے ا ستفادہ کر نے کی بجائے خاک میں چہپے ہوئے اموا ل اور خزا نوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ۔

اگر وہ یہ جان لیں کہ خدا وند متعال نے زمین میں دفن خزانوں سے بڑہ کر خزانے ان کے وجود میں قرار دیئے ہیں  تو وہ کبہی بہی اپنی عمر زمین کی خاک چہاننے میں ضائع نہیں کریں گے ۔ وہ لوگ مال و زر کے حصول کے لئے زمین کہو دتے ہیں اور غوطہ خور دریاؤں اور سمندروں کی تہہ میں موجود جواہرات کے حصول کے لئے غوطہ لگاتے ہیں ۔ جبکہ  مومن و صاحب تزکیہ حقیقی خزانے کے حصول   کے لئے اپنی فکر کے عمیق دریا میں غوطہ ور ہوتا ہے ۔

۱۰

حضرت امیر المومنین علی (ع)  نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :

''المومن مغمور بفکرته''( ۱)

مومن اپنی افکار میں  ڈوبا ہوا  ہو تاہے ۔

 مومن اپنی افکار کے  بیکراں دریا سے ایسے گرانبہا گوہرحاصل کر تا ہے کہ سونے ، چاندی کے مادی خزانے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ وہ اپنے افکار سے ایسے با ارزش جواہر پاتا ہے کہ جو،  ابدی وجاویداں ہیں کہ جن کی واقعی قیمت و ارزش آ خرت میں اہمیت کی حامل ہے ۔

افکار میں غوطہ زن ہونا ( نہ کہ توہمات میں ) روح کو تقویت دیتا ہے اور  چہپے ہوئے  خزانوں کے حصول کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔ سوچ و فکر کے ذریعہ آپ کے روح و نفس پرورش پاتے ہیں جس طرح جسمانی ورزش انسان کے جسم کی پرورش کا باعث ہے اسی طرح مثبت سوچ و فکر انسان کے روح و نفس کو تقویت دیتی ہے ۔ کیو نکہ تفکر انسان کے ضمیر کے لئے ایک قسم کی آموزش ہے تفکر کے ذریعہ باطنی حالات قوی ہوتے ہیں اور انسان کی روحانیقدرت آشکار ہوتی ہے ۔ کیونکہ فکر روح کے تکامل وپرورش کا باعث ہے .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) نہج البلاغہ ، کلمات قصار ۳۳۵ .

۱۱

فکر کی پرواز

انسان کو چاہئے کہ وہ توہمات وتخیلات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا رخ کرے     اور حقائق ہستی میں فکر انسان کو عالم و ہم و گمان سے نکا ل کر ایک حقیقی و  واقعی مفکر بناتی ہے اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ  (ع) اپنے ارشادات میں فرماتے ہیں :

''غوّر.... قلبک الفکر'' (۱) اپنے قلب کو سوچ و فکر کی عادت ڈالو۔تفکر سے قدرت فکر و تمرکز زیادہ ہو جاتی ہے جب فکر قوی ہو تو وہم و خیال ضعیف ہو جاتے ہیں اور وہم و خیال کے ضعیف ہونے اور تقویت فکر سے شیطان اور دشمنان دین کی گمراہ کنندہ تبلیغات ضعیف ہو جاتی ہیں ۔ کیو نکہ جس انسان کو تفکر و تدبر و تعقل کی عادت ہو وہ اسے اپنے اعتقادات ومعلومات کا اساس قر ار دیتا ہے ۔مو لائے کا ئنات امیر المومنین علی (ع) کا فرمان ہے:''لاعلم کالتفکر '' (۲) تفکر کی مانند کوئی علم نہیں ہے ۔

انسان کے ذہن میں موجود قیمتی خزانوں میں تفکر و تدبر اور ان سے استفادہ کرنا بزرگ اشخاص کی صفات میں سے ہے ۔ ان کے فکر کی پرواز اور مو جو دات کا ئنات کی شناخت سے ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہو تا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کے افکار و پراکندہ و بے رونق نہیں ہیں ۔ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی  (ع) سے فرمایا :'' من صفات المومن ان یکون جوّال الفکر '' (۳)

مومن کی صفات میں  سے ہے کہ وہ جولان فکری رکہتا ہو ۔

وہ فکری پرواز کے ذریعہ اپنی روح کو بلندی پر لے  جاتے ہیں  اور عالی ترین ہدف رکہتے ہیں اور اس کے بعد مضبوط ارادہ اور قوی ہمت حاصل کر تے ہیں وہ قوی اور مضبوط فکر و ارادہ کے ذریعہ اپنے مقدس اہداف میں کامیابی کے لئے خدا وند متعال سے مدد چاہتے ہیں .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔بحار الانوار :ج۱۴ص ۳۲۹، تنبیہ الجواہر:ج۲ص ۲۲۹

[۲] ۔ بحار الانوار:ج۶۹ ص ۴۰۹ ۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۱۰۹

[۳] ۔ بحار الانوار :ج۶۷ ص ۳۱۰

۱۲

فکر کی اہمیت کے کچھ راز

غور وفکر حقائق جہان کی طرف مستقیم راستہ ہے جب فکر معنوی مسائل میں تداوم پیدا کرے تو یہ انسان کو معنویت کی طرف لے جاتی ہے۔ فکر میں ایک قوت جاذبہ ہے کہ جو متفکر اور اس مسئلہ کےدرمیان ایک ارتباط کو بر قرار کر تی ہے کہ جس کے بارے میں متفکر فکر کر تا ہے ۔ اس قوت کا وجود ، غور وفکر کی اہمیت کے مہم رازوں میں سے ایک اہم راز ہے ۔ اس قوت کی بناء پر انسان جب خوبیوں اور بدیوں کے بار ے میں سوچتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ خوبیوں یا ان چیزوں کو جلب کرتا ہے کہ جن کے بارے میں وہ فکر کرتا ہے ۔خاندان عصمت و رسالت علیہم السلام کی بہت سی روایات و ارشادات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے ۔ اس وجہ سے پسندیدہ افکار ، قلب انسان کی پاکیزگی و زینت اور انسان کے باطن کی نورانیت کا باعث ہیں ۔ جس طرح نا پسندیدہ و برے افکار انسان کے دل میں تاریکی و ظلمت کو ایجاد کرتے ہیں ۔

۱۳

حضرت امیر المومنین علی (ع) فرماتے ہیں :''الفکر تورث نوراً والغفلة ظلمة '' (۱) سوچ و فکر نورانیت اور غفلت ظلمت و تاریکی کو ایجاد کر تی ہے ۔اگر تفکر حق اور کمال کی جستجو کی بناء پر ہو تو یہ حقیقت کو آشکار کرتا ہے اور متفکر کے لئے کائنات کی واقعیت کو بیان کر تا ہے ۔ یہ بذات خود نورانیت و پاکیزگی کو ایجاد کر تا ہے لیکن ان حقائق سے غفلت  اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے ۔انسان کے دل میں زیادہ غور و فکر سے ایجاد ہونے والے تحولات اسے عمل کے لئے تیار کر تے ہیں ، اس و جہ سے تفکر قوہ عاملہ کو بھی ایجاد کرتا ہے۔ پس فکر نہ صرف انسان کو مورد تفکر مسائل کی انجام دہی کے لئے آمادہ کرتی ہے بلکہ تداوم فکر کی وجہ سے انسان میں قوہ عاملہ کو بھی ایجاد کرتی ہے اور اسے عمل کی طرف جذب کرتی ہے تاکہ سوچ و فکر عملی صورت میں ظاہر ہو حضرت امام صادق (ع) فرما تے ہیں:“التفکر یدعوا الی البرّ والعمل به” (۲) فکر انسان کو خوبیوں اور ان پر عمل کی طرف دعوت دیتی ہے۔انسان کی خلقت و پیدائش کے سرّ و راز اور اس کی عاقبت کے بارے میں فکر انسان کو نیکی اور مقام عبودیت عطا کرتی ہے ، آپ فکر کے ذریعہ مقام عبودیت اور اپنے وجود میں پنہان و پوشیدہ عظیم قوت کو بیدار کر کے مقام فعلیت میں لا سکتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ تحف العقول ۹۳

[۲] ۔ بحار الانوار :ج۷۱ص ۳۲۲، اصول کافی:۲ ص ۵۵

۱۴

گناہ کے بارے میں فکر کرنے کا اثر

انسان میں ہر اچہی و بری ، نیک و بد صفت کے خلق ہونے کی آمادگی مو جود ہوتی ہے ۔ اچہے اور برے کے بارے میں سو چ و فکر سے ان کی فعلیت و انجام دہی میں تبدیلی آ جاتی ہے ۔ پہر یہ امکان کے مرحلہ سے نکل کر واقعیت کا جامہ پہن لیتی ہے ۔ یہ ایک عام اور کلی حقیقت ہے کہ جو صرف اچہے اور پسندیدہ کاموں کے ساتہ مختص نہیں ہے ، یعنی جس طرح انسان اچہائیوں کے بارے میں سوچنے سے ان ہی کی طرف مائل ہو تا ہے ۔ اور انہیں انجام دیتا ہے اسی طرح حیوانی لذتوں اورگناہوں کے بارے میں سوچنا بہی انسان کو ان ہی کی طرف لے جاتا ہے اور پہر انسان ان کا مرتکب ہو تا ہے ۔

حضرت امیر المومنین  (ع) فرماتے ہیں :''من کثر فکره فی المعاصی ، دعته الیها ''(۱) جو کوئی گناہوں کے بارے میں زیادہ فکر کر ے تو وہ ان کی طرف آجاتا ہے ۔اسی طرح دوسرے فرمان میں ارشاد ہے : ''من کثر فی اللذات ، غلبت علیه ''(۲)

جو کو ئی لذتوں کے بارے میں زیادہ سوچے تو یہ اس پر غالب آجاتی ہیں ۔اس بناء پر انسان کی سوچ و فکر اس کےمستقبل کو تبدیل کرسکتی ہے اور اس کی زندگی میں عظیم تبدیلیاں اور تحو لات ایجاد کر سکتی ہے اسی وجہ سے خاندان عصمت و طہارت کے دلنشین کلمات وفرمودات میں تفکر و تعقل کی  اہمیت کو بیان فرما یا گیاہے اور انہوں نے اپنے محبوں اور پیرو کاروں کو اس کی اہمیت کے با رے میں امر فر مایا ہے۔ کیو نکہ اچہا عمل و کردار ، اہم اور باارزش مو ضوعات میں فکر اور سوچ و بیچار کا نتیجہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ ص ۳۲۱

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:۵۲۲

۱۵

تفکر ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہے

نظام کائنات اور مخلوقات جہان کے با رے میں تفکر انسان کے دل میں ایمان و یقین کو تقویت دیتا ہے ۔ پہر اس کا وجود باری تعالیٰ اور تمام مذہبی عقائد پر اعتقاد مزید محکم ہو جاتا ہے ۔ کہکشانوں میں موجود اربوں ستاروں اور اس کے علاوہ آسمان پر موجود انگنت ستاروں کی خلقت اور پہر ان کا ایک منظم نظام کے تحت رواں و دواں رہنا ، ایک مدبر و قادر خالق کے وجود کی بہت واضح اور بڑی دلیل ہے۔ انسان کی فکر کائنات کی عظمت کو درک کرنے سے قاصر ہے ۔ دنیا بہر کے محققین کو خلقت کائنات کے بارے میں تحقیق کے دوران ایسے ایسے اسرار و رموز کا سامنا ہوا کہ انہوں نے ان کی حقیقت کو درک کرنے سے اپنے آپ کو عاجز پا یا ۔ لیکن انہوں نے واضح آیا ت و نشانیوں کا مشاہدہ کیا کہ جو صاحبان عقل کے دلوں کو احیاء و جلا بخشتی ہے ۔ جی ہاں ! اس کائنات کی عظمت کے بارے میں  تفکر کرنا   خالق کائنات  قادر و مہربان کے وجود پر یقین و ایمان  میں  اضافہ کا سبب ہے ۔

عالم ملکوت سے لو لگانا اولیاء خدا کی صفات میں سے ہے وہ غور و فکر کے ذریعہ کائنات کے رموز واسرار کو کشف کرتے ہیں ۔ وہ نہ صرف عالم ملکوت کی طرف رخ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے دوستوں اور قرابتداروں کو بہی اسی چیز کی سفارش و تلقین کرتے ہیں ۔

۱۶

حضرت لقمان کی اپنےبیٹوں کو کی گئی وصیت میں ذکر  ہوا ہے :

''اطل التفکر فی ملکوت السمٰوٰت و الارض والجبال و ما خلق اللّٰه فکفیٰ بهذا واعظاً لقلبک ''(۱)

اپنی فکر کو آسمانوں ، زمین ، پہاڑوں ، اورخدا کی دیگر خلق کردہ اشیاء کے بارے میں طولانی کرو۔ ایسی سوچ و فکر تمہارے قلب کو وعظ و نصیحت کے لحاظ سے کفایت کرے گی  ۔

ملکوت کے بارے میں تفکر (  جس کے بارے میں لقمان نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی) کے بہت سے اثرات ہیں کہ اگر انسان ان کو انجام دینے کی توفیق پیدا کرے تو اس کے مستقبل میں بہت عظیم تحولات رونما ہوتے ہیں ۔ کیو نکہ ملکوت و آسمانوں و زمین اور خدا کی دیگر مخلوقات کے بارے میں تفکر سے اعتقاد ایجاد ہو تا ہے ۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوند ہے :

''ا نَّ فی خَلق السَّماوات وَ الأَرض وَ اختلاف اللَّیل وَ النَّهار َلآیاتٍ لأولی الأَلباب،الَّذینَ یَذکرونَ اللّٰه قیامًا وَ قعودًا وَ عَلی جنوبهم وَ یَتَفَکَّرونَ فی خَلق السَّماوات وَ الأَرض رَبَّنا ما خَلَقتَ هذا باطلاً سبحانَکَ فَقنا عَذابَ النّار ''(۲)

بے شک زمین و آسمان کی خلقت لیل ونہار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔ جو لوگ اٹہتے بیٹہتے لیٹتے اور ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں کہ پرور دگار تو نے یہ سب بیکار خلق نہیں کیا ہے ۔ پرورگار تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما ۔

ان کا آسمان و زمین کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کرنا صرف ملکی پہلو سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ  ملکوتی پہلو کو بہی شامل کر تا ہے ۔ وہ کائنات کی مادی و ملکوتی خلقت میں تفکر کے ذریعہ اپنے ایمان ویقین میں اضافہ کر تے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار:ج ۱۳ ص ۴۳۱

 [۲]۔ سورہ آل عمران آیت: ۱۹۰  اور  ۱۹۱

۱۷

تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ

انسان جس کام کو انجام دینا چاہے ، اگر اس کے بارے میں غور وفکر سے کام لے تو وہ اس کام کے نتیجہ تک پہنچ جائے گا اور اسے افسوس اور پشیمانی کا سامنا بہی نہیں کرنا پڑے گا ۔

حضرت علی (ع) اپنے دلنشین گفتار کے ضمن میں فرماتے ہیں :

'' اذا قدّمت الفکر فی جمیع افعالک ، حسنت عواقبک فی کل امرٍ ''

اگر ہر کام کو انجام دینے سے پہلے اس کے بارے میں سو چو تو ہر کام میں تمہاری عاقبت اچہی ہو گی ۔

کیو نکہ ہر کام کے بارے میں سوچنا اس کام کے بارے میں بصیرت کا باعث ہے ۔ اولیاء خدا ، عظیم لوگ اور جو بارگاہ خداوند متعال میں نعمت تقرب رکہتے اور خاندان وحی کے پر فیض محضرمیں حضور رکہتے اور جوا ن بزرگان کے مدد گار اور اصحاب میں سے تہے ۔ وہ کسی کام کو سر انجام دینے سے پہلے تفکر کی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہوتے تہے ۔

جنہوں نے سر چشمہ ولایت سے آب حیات نوش کیا ، جنہوں نے خاندان وحی و عصمت کے تابناک انوار سے لو لگائی ، جنہوں نے اپنے دل و جان کو علوم و معارف اہلبیت  سے منور کیا ۔ انہوں نے خداوند کریم کی عظیم نعمت یعنی فکر سے استفادہ کیا اور وہ بصیرت اور دور اندیشی کے مالک بن گئے ۔

۱۸

شناخت ، ہدایت ، روشن فکر اور حقائق امر سے آگاہی صرف سوچ و فکر سے ایجاد ہو تی ہے ۔ حضرت امیرالمومنین   علی  (ع)  کے علمی بحر بیکراں میں سے ایک گوہر  نایاب  یہ  ہے :

 '' لابصیرة لمن لا فکر له ''(۱) جو فکر نہیں رکھتا وہ روشن بینی و بصارت نہیں رکھتا  ۔

وہ بصیرت نہیں رکہتا اور اس کا قلب نورانیت سے  بہرہ مند نہیں ہے ۔ لہذا سوچ و فکر دل کے غبار و زنگ کو مٹاتی ہے اور دل کو پاک کر کے اس کی ظلمت و تاریکی کو نورانیت و بصیرت میں تبدیل  کرتی ہے ۔

جس طرح حر ( رضوان اللہ علیہ ) حضرت فاطمہ زہرا کے احترام کا قائل ہونے کی وجہ سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ حسین  سے جنگ و مقاتلہ کا اس کے لئے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا حضرت زہرا صدیقہ کبریٰ کے احترام کے قائل ہونے کی وجہ سے اس کی سوچ و فکر نے اسے گمرا ہی و ضلالت اور ہلاکت سے نجات دلا کر کربلا کے شہداء کی صف میں قرار دیا ۔

حر نے تفکر و تأمل کی بنیاد پر امام حسین  (ع) کو جواب دیتے وقت غصے اور تندی کی بجائے تحمل و تواضع سے کام لیا ۔ اسی مناسبت سے امیر المو منین کا ایک کلام ہے کہ  جو انسانوں کی حیات کو نجات دیتاہے کہ جس میں  مو لائے کا ئنات فرماتے ہیں :

'' دع الحدّة و تفکر فی الحجة من الخطل ، تامن الزلل '' (۲)

تند روی کو ترک کرو اور حجت و دلیل کی بناء پر تفکر کرو ، اور غلط و باطل بات کہنے سے پر ہیز کرو تاکہ لغزش سے آمان میں رہو   ۔جناب  حر نے  بہی  اسی  طرح  کیا اور بصیرت و دور اندیشی سے اپنے مستقبل کو نجات دی جس طرح  حرنے غور و فکر سے کام لیا  ، کاش اسی طرح سقیفہ میں جمع ہونے والے  دنیا پرست بہی اپنی عاقبت کے بارے میں سوچتے تو چہرہ خورشید پر غم کے بادل نہ چہا جا تے ۔لیکن افسوس صد افسوس !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔  شرح غرر الحکم:ص ۶ص ۴۰۱

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۴ص  ۱۹

۱۹

حضرت امیر المومنین  علی  (ع) بصیرت و دور اندیشی کو فکر کے آثار میں سے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

'' من فکّر ابصر العواقب '' ( ۱ )

جو فکر سے کام لے وہ امور کی عاقبت و نتیجہ سے آگاہ ہو جا تاہے۔

امیر المو منین  علی  (ع)   سے روایت ہے کہ آپ  نے  فرمایا :

'' من طالت فکرته ، حسنت بصیرته ''( ۲ )

جس کی فکر طولانی و دقیق ہو اس کی بصیرت اچہی ہو جا تی ہے ۔

کیونکہ اگر فکر شخصی اغراض سے آلودہ نہ ہو تو یہ شفاف آئینہ کی مانند حقائق کو جلوہ گر اور آشکار کرتی ہے ۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں :

'' الفکر مرآ ة صافیة '' ( ۳ )

فکر ایک شفاف آئینہ ہے   ۔

جب فکر ایک شفاف و درخشاں آئینہ کی مانند آپ کو واقعیت سے آگا ہ کرتی ہے تو پہر روزہ فکر سے استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۳۲۴[۱]

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۷۲ ۲

[۳]۔ ا ما لی الطوسی:ج ۱ص  ۱۱۴ ،بحا ر الانوار:ج ۷۷ص  ۴۰۳

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259