کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153264 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ہمت بلند دار کہ مردان روز گار         از ہمت بلند بہ جایی رسیدہ اند

یعنی بزرگ شخصیات بلند ہمت والے تہے اور وہ اپنی ہمت کے ذریعہ ایک مقام و منزلت تک پہنچ گئے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' قدر الرجل علیٰ قدر همّته ''(۱)

ہر شخص کی قدر وقیمت ، اس کی ہمت کے لحاظ سے ہے۔

کیو نکہ بلند ہمت و حو صلہ انسان کو بہت اہمیت  عطا کر تا ہے ہمارے بزرگ کہ جو صاحبان اسرار اہل بیت عصمت و طہارت تہے اور جنہوں نے ان کی رضا کی راہ میں جا نفشا نی سے کام لیا وہ کس طرح عالی مقامات پر فائز ہو ئے اور کس طرح اہل بیت علیہم السلام کے معنوی چشمہ سے سیراب ہوئے ؟

ان افراد کا ظرف ایسا تہا کہ اہل بیت  کے لطف نے جن میں کسی قسم کی خود پسندی اور تکبر ایجاد   نہ کیا ۔ وہ جس مقام کی جانب جائیں ، ان پر عنا یات بہی اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ لیکن جو ایک خواب دیکہنے یا کسی معنوی  سیر کے اتفاق یا امام سے کسی مادی حاجت کے پورا ہونے سے پہولے نہ سمائے ، کیا وہ بلند حوصلہ و ہمت رکہتا ہے ؟ یا جو کوئی خواب سننے یا معنوی سیر کے اتفاق یا مادی حاجت کے پورا ہونے پر تعجب کرے اور اس کا انکار کرے ، کیا یہ اعلیٰ و بلند ہمت سے بہرہ مند ہے ؟

حضرت امیرالمومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من صغرت همّته بطلت فضیلته ''(۲)

جس کی ہمت کم ہو وہ اپنی فضیلت کہو دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۴ص  ۵۰۰ ، بحار الانوار:ج ۷۸ص  ۱۴

[۲] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ ص ۲۱۰

۶۱

اپنے ارادہ پر عمل کریں

بہت سے موارد میں ممکن ہے کہ انسان کسی مناسب وقت و فرصت کو ضائع کر دے اور پہر اس پر افسوس کرے اور پشیمان ہو ، ایسی پشیمانیوں سے بچنے کے لئے تمام مناسب اور اچہے مکا نا ت و سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ارادہ پر عمل کریں  ۔

امام صادق (ع)ایک روایت میں فر ما تے ہیں :

'' اذا همّ احدکم بخیرٍ فلا یؤخّره ''(۱)

جب بہی تم میں سے کوئی کسی اچہے کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے تو اس میں تاخیر نہ کرو۔

  اسی طرح امام صادق (ع) ایک دوسری روایت میں فرما تے ہیں :

'' اذا همّت بخیرٍ فبادر فانّک لا تدری ما یحدث ''(۲)

جب بہی کسی اچہے کام کا ارادہ کرو تو اسے شروع کرو ، کیو نکہ تم نہیں جانتے کہ بعد میں کیا چیز در پیش آجا ئے ۔

مختلف حوادث کے پیش آنے سے انسان بہت سی سہولیات و امکا نا ت کو گنوا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم نے جس کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں اسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو تے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحارالانوار:ج ۷۱ص  ۱۷ ۲ ، مجالس شیخ مفید: ۲۸ ۱

[۲] ۔ بحا ر الا نوار:ج ۷۱ص  ۲ ۲ ۲ ، اصول کا فی:ج ۲ص  ۴۲ ۱

۶۲

قدرت در تصمیم گیری ، عامل پیروزی

وضعف در آن ، عامل شکست است

کامیابی کا عامل ارادہ کی قدرت ہے اور اس میں ضعف شکست کابا عث ہے ۔

جس طرح نیک کام کے لئے بلند حوصلہ و ہمت مقام انسان کی عظمت پر گوا ہ ہے ، اسی طرح   ارادہ  میں کمزور ی انسان کی ہار کی دلیل ہے ۔ پچیس ہزار افراد کے بارے میں تحقیق ومطالعہ سے یہ معلوم ہو اکہ ان کے ہدف تک نہ پہنچنے اور شکست کہانے کے اکتّیس اسباب میں سے اہم سبب عامل کمزورا رادہ تہا آج کے کام کو کل پر چہوڑ نا اور مسامحہ مضبوط ارادہ کے مخالف ہیں اس پر غلبہ پانا ضروری ہے ۔

اپنے ہدف تک پہنچنے والے ہزاروں افراد کے مطا لعہ سے یہ معلوم ہو گا کہ وہ پختہا رادہ  کے مالک تہے اور اپنے عزم و ارادہ پر ثابت قدم رہتے تہے  ۔

اپنے ہدف و مقصد تک نہ پہنچنے والے افراد ایسے ہو تے ہیں کہ جو ارادہ نہیں کر سکتے یا اپنے ارادہ کو بہت جلد بدل دیتے ہیں ۔

پس اپنی قدرت کے  مطابق قوت ارادہ کو مزید مضبوط کریں کیو نکہ ارادہ جس قدرپختہ ہوگا ، آپ کے لئے  بیشتر آثار فراہم کرے گا پہر آپ بلند حوصلہ و ہمت کے ساتہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے ۔

حضرت امیر المومنین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من کبرت همّته عزّ مرامه ''(۱)

جس کی ہمت بلند ہو وہ عزیز و محترم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شر ح غرر الحکم:ج ۵ص  ۸۸ ۲

۶۳

نہ ہر در خت تحمل کند  جفای خزاں            غلام ہمّت سروم کہ این قدم دار

ہردرخت میں خزاں کی سختی و جفا کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔  لیکن یہ میرا ہی سرو ہے جو خزاںکی سختیوں کو برداشت کررہا ہے۔

پس عالی ہمت و ایسے افراد احترام کے  لائق ہیں کہ جو اپنے مصمم ارادے کی بناء پر اپنے ہدف کو پانے میں کامیا ب ہوگئے ۔ لوگ ایسی شخصیات کو عزت کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور ان کی مدح و تعریف   کر تے ہیں لوگ ایسے افراد کی رفتار و روش کو احترام کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں یہ شخصیات ممتاز و بے نظیر شمار ہوتی ہیں ۔

ایسے افراد اگر اپنی ہمت و ارادے کو معنوی  مسائل اور تقرب خدا کی راہ میں قرار دیں تو یہ خدا اور خاندان رسالت  کے نزدیک ارزش و تقرب حاصل کریں گے کہ جو دوسروں کے لئے مورد غبطہ ہو ۔

ہمت عالی ز فلک بگذرد        مرد بہ ہمت ز ملک بگذ رد

اگر عالی اور بلند ہمت آسمان سے بہی آگے بڑہ جائے تو مرد اپنی ہمت کے ذریعہ ملائکہ سے بہی آگے بڑہ سکتا ہے ۔

۶۴

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وقت گزرنے کے سا تہ ساتہ اس کا کردار و رفتار اس کے خلق اور ذات کا حصہ بن جا تا ہے جب اس کی عادت ہو جائے تو پہر اس سے جدا ہو نا ممکن نہیں ہو تا ۔

امام صادق (ع) فر ماتے ہیں :

'' الخلق خلقان ، احدهما نیّة والآخرة سجیّة قیل فایّهما افضل ، قال : النیّة لانّ صاحب السجیّة مجبول علی امرٍ لا یستطیع غیره وصاحب النیّة یتصبّر علی الطاعة تَصَبّراً فهذا افضل ''

اخلاق  کی  دو قسمیں  ہیں :

۱۔نیت کے ذریعہ حاصل ہو نے والا اخلاق ۔

۲۔ انسان کا طبیعی و ذاتی اخلا ق ۔

امام صادق سے پو چہا گیا کہ ان میں سے کون سا اخلاق افضل ہے ؟ امام صادق نے فرما یا : نیت کے ذریعہ حاصل شدہ اخلاق افضل ہے کیو نکہ جس کا اخلاق اس کی طبیعت سے اخذ ہو ، تو اس کی خلقت ایسی ہے کہ جو اس کے علا وہ کسی اور کام کے انجام دینے پر قادر نہیں ہو تا لیکن جو اپنے  ارادہ  سے پسندیدہ

اخلاق کا مالک بنے وہ صابرانہ اپنے پرور دگار کی  اطاعت کر تا ہے پس یہ شخص افضل ہے ۔

۶۵

عظیم لوگ اپنے قوة  ارادہ  کے ذریعہ اخلاق حسنہ کو اپنی طبیعت کا  حصہ بنا لیتے  ہیں اور اپنی مضبوط نیت و پختہ ارادے کے ذریعہ اخلاق رذیلہ اور نا پسندید ہ عا دات کو اپنے سے دور کرتے ہیں ۔ ذو القر نین نے دنیا کے مشرق و مغرب کو طے کیا مختلف اقوام عالم کو نزدیک سے دیکہا اور ان کے رفتار و کردار کا مشا ہدہ کیا انہوںنے تمام لوگوں میں سے چند ایسے لوگوں کو بہی دیکہا کہ جن کی آسان زندگی ان کے لئے حیرت کا سبب تہی وہ اعلیٰ ترین اور خوبصور ت زندگی گزار رہے تہے ان میں قتل و خونریزی اور خیانت کے آثار دکہائی نہیں دیتے تہے صاحب ثروت ، نچلے طبقے کو کچہ نہیں دیتے تہے ۔

لہذا ذو القر نین بہت حیران ہوئے اور ان سے بہت سے سوالات پوچہے اور ان سے قانع کنندہ جوابات لیئے انہوں  نے ان سے پوچہا:'' فما لکم لا تسبّون ولا تقتلون ؟ قالو: من قبل انّا غلبنا طبائعنا با لعزم و سنّنا انفسنا بالحلم ''

ذو لقرنین نے ان سے پوچہا : تمہارے معاشرے میں فحش و دشنام اور قتل و غارت کیوں اور کس وجہ سے نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کیو نکہ ہم مصمم ارادے کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آچکے ہیں اور ہم نے قوی ارادہ سے بری عادات کو اپنے سے نکال دیا ہے اور بردبادی و حلم کو اپنی نفسانی روش قرار دیا ہے ۔

اس بناء پر اگر انسان طبیعتاً ظالم و جنایت کار ، جہوٹا یا ریا کار ، سست و کاہل ہو یا اس میں کوئی اور بری صفت ہو تو وہ مضبوط عزم  اور پختہ ارادہ سے انہیں بر طرف کر سکتا ہے اور اپنے کو صفات حسنہ سے مزین کرسکتا ہے ۔

کوہ نتوان شدن سدّ رہ مقصود مرد              ہمت مردان بر آرد از نہاد کوہ گرد

یعنی ایک بلند و با لا پہاڑ انسان کی منزل و مقصود میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ مردکی ہمت اس  پہاڑ کو بہی خاک کے ذرات میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

پس اگر آپ خود  میں کسی پہاڑ کے  برابربری صفات و عا دات کو دیکہیں تو آپ قوت ارادہ اور مردا نہ ہمت کے ذریعہ انہیں نابود کر سکتے ہیں بلکہ آپ انہیں اچہی صفات میں تبدیل کر نے کی بہی قدرت رکہتے ہیں ۔

۶۶

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

صالح مازندرانی ایسے صاحب تصمیم و پختہ ارادہ کے مالک تہے کہ جنہوں نے بہت کم وسائل کے باوجود اپنے مقصد کو پالیا وہ علا مہ مجلسی اول کے داماد اور نامور شیعہ علماء  میں سے تہے یہ ہر اس شخص کے لئے نمونہ ہیں کہ جو اعلیٰ مقاصد و اہداف رکہتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ہوں کیو نکہ مجہ سے بڑہ کر    کوئی فقیر نہیں تہا اور میرا حا فظہ سب سے ضعیف و بد تر تہا کبہی میں اپنے گہر تو کبہی اپنے فرزند کا نام بہول جا تا میری عمر کے تیس سال گزر چکے تہے کہ میں نے ( الف ، با ) سیکہنی شروع کی اور اتنی سعی و کوشش کی کہ خدا نے فضل کیا ۔

وہ فقر ، کند ذہن اور ضعیف حافظہ کے با وجود پختہ ارادہ  رکہتے تہے جس کی بدولت انہوں نے باارزش کتب کی تالیف کا مصمم ارادہ کیا اور کامیاب ہوئے ، وہ کتب آج بہی شیعہ  علماء  کے لئے مورد استفادہ ہیں ۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس قدر کم حافظہ رکہتے تہے کہ اپنے استاد کے گہر کو بہول جاتے اور اتنے فقیر و غریب تہے اور اتنا پرا نا لباس پہنتے کہ شرم کے مارے مجلس درس میں وارد نہ ہوتے وہ محل درس سے با ہر بیٹہتے اور ہڈیوں اور چنار کے درخت کے پتوں پر درس لکہتے ایک  بار کوئی مسئلہ مورد اشکال قرار پایا اور وہ چند روز تک جاری رہا  مرحوم مجلسی کے ایک شاگرد نے دیکہا کہ ملا صالح مازندرانی نے اس اشکال کا جواب چنار کے پتوں پر لکہا ہے ، اس نے درس میں علامہ  مجلسی کا جوا ب دیا ۔

۶۷

علامہ مجلسی  سمجہ گئے کہ یہ اس  کا جواب نہیں  ہے  لہذا انہوں نے اس سے پوچہا کہ یہ کس کا جواب ہے اور اس بارے میں اصرار کیا تو اس شاگرد نے بتا یا کہ یہ اس کا جواب ہے کہ جو مجلس درس کے باہر بیٹہا ہوا ہے ۔ علامہ مجلسی نے دیکہا تو ملا محمد صالح دروازے کے باہر بیٹہے ہوئے تہے ، علامہ نے ملا ّ  محمد صالح کو لباس دیا اور درس میں حاضر ہونے کو کہا وہ علامہ مجلسی کے اتنے مورد تو جہ قرار پائے کہ وہ انہیں اپنے گہر لے گئے اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی ! اور انہیں کو گہر کا کتابخانہ دیا ۔

بہ ہر کاری کہ ہمت بستہ گردد            اگر کاری بود ، گل دستہ گردد

یعنی جو کام بہی ہمت سے وابستہ ہو اور آپ اسے ہمت سے انجام دیں تو اگر وہ کام کانٹوں کی صورت میں بہی ہو تو وہ گل دستے میں تبدیل ہو جائے گا ۔

۶۸

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

علامہ صالح مازندرا نی نے بہت سی مشکلات کے با وجود پختہ ارادہ  کے ذریعہ علمی مراحل طے کرکے بلند مقام حاصل کیا اگر آپ چاہیں تو خدا آپ کو ب ھ ی یہ مقام عنایت فرمائے گا لیکن اس کے لئے اپنی نیت وارا دے میں کو تاہی نہ برتیں حضرت امیر المو منین  اپنے ایک خط میں لک ھ تے ہیں : '' فانّ اللّٰه یعطی العبد بقدر نیّته ''(۱)

بے شک خدا ہر بندے کو اس کی نیت کے برابر عطا فرما تا ہے  ۔جس قدر انسان کی نیت کی اہمیت ہو ، خدا بہی اسی لحاظ سے اسے عطا کر تا ہے آپ کی نیت جس قدر بہتر اور خالص  ہو گی ، اسی لحاظ سے اجر و ثواب بہی زیاد ہو گا اس بناء پر اپنی نیت کو خالص کریں نہ کہ صرف اپنے اعمال کو زینت دیں ۔

خدا کے بزرگ بندے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے خدا کی توفیقات و عنایات کا دامن پکڑتے ہیں ایک روایت میں امام صادق اس راز سے پردہ اٹہا تے ہوئے فرما تے ہیں :

'' انّما قدّر اللّٰه عون العباد علیٰ قدر نیّاتهم ، فمن صحّت نیّته تمّ عون اللّٰه له  ومن قصرت نیّته ، قصرعنه العون بقدر الّذی قصر ''(۲) خداوند تعالی لوگوں کی نیت کے مطابق ان کی مدد کو مقدر کر تا ہے جو صحیح و کامل نیت رک ھ تا ہو تو خداب ھ ی کامل طور پر اس کی مدد کر تا ہے اور جس کی نیت کم ہو اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحا ر الانوار:ج ۳۳ص  ۸۸ ۵

 [۲] ۔ بحار الانوار:ج ۰ ۷ص ۱۱ ۲

۶۹

لحاظ سے اس کی مدد میں بہی کمی آتی ہے۔

امام صادق (ع) اپنے اس قول میں کامیاب لوگوں کی کامیابی اور نا کام لوگوں کی ناکامی کے راز کو بیان فرماتے ہیں : کیو نکہ لوگوں کو خدا کی مدد ان کی نیت کے لحاظ سے پہنچتی ہے ۔

نیت و ارادہ اس قدر کا رساز اور پر قدرت ہے کہ اگر اپنے ارادہ کو تقویت دیں تو آپ کے جسم کا ضعف دور ہو جائے گا اور آپ جسمانی  لحاظ سے بہی ہر مشکل کام ا  نجام دینے کو تیار ہوں گے کیو نکہ نیت میں پختگی آپ کے  بدنی ضعف کو دور کرتی ہے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' ما ضعف بدن عمّا قویت علیه النیّة ''(۱)

 نیت کے ذریعہ سے قوی ہونے والے بدن کو کوئی ضعف لا حق نہیں ہو سکتا۔

بہت سے ورزش کار اور کہلاڑی جسمی تمرینات سے زیادہ روح کو تقویت دینے سے استفادہ کرتے ہیں کیو نکہ نیت سے  فکر اور ارادہ کو تقویت دینا، صرف بدن کو طاقت ور بنا نے سے بہتر ہے بہت سے افراد معتقد ہیں کہ جوا نی و بڑہا پا اور قوت و ضعف کا سر چشمہ ایک غیر جسمی منشاء ہے اگر چہ اس موضوع کو تمام قبول نہیں کرتے لیکن اس فرض کی بناء پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فکر و اندیشہ انسان کی صحت و مرض ،اور بندی  قدرت و ضعف  حتی کہ حیات وموت میں بہی مؤثر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔   اما لی صدوق: ۸ ۹ ۱ ، بحار الا نوار:ج ۷ ص ۵ ۰ ۲

۷۰

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

۱ ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

شیطان گناہ کار کو گمراہی کے راستے دکہا تا ہے اور گناہ اور وسوسہ کی طرف متحرک کر تا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو راہ راست سے بہٹکا دے اور ابدی نقصان میں مبتلا کردے گمراہی کے راستوں میں سے ایک شہوت کا فراوان شوق ہے خدا وند متعال فرما تا ہے :

'' و یرید الّذین یتّبعون الشّهوات ان تمیلوا میلاً عظیماً ''(۱)

شہوات کی پیرو ی کرنے والے چاہتے ہیں کہ تمہیں بالکل ہی راہ حق سے دور کردیں  ۔

ان میں شہوت کو پورا کرنے کا شوق اور نفس امارہ اور شیطان کی طرف تحرک کا اشتیاق ایجاد ہوجاتا ہے ۔ جنہیں انجام دینے سے وہ بدترین و زشت ترین گناہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔

جس طرح شہوت کو پورا کرنے کا اشتیاق انسان کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح اپنے عالی اہداف تک پہنچنے کا ذوق و شوق انسان کوا علیٰ علمی و معنوی مراتب پر فائز کر تاہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ سورہ نساء آیت: ۷ ۲

۷۱

پس اگر آپ اعلیٰ اہداف کے حصول کی طرف مائل ہیں اور آپ آ سانی سے انہیں حاصل کر نا چاہتے ہیں تو اپنے میں شدید ذوق و شوق ایجاد کریں پہر سختیاں آسانی ، دشواریاں سہل اور ہدف سے دوری نزدیکی میں تبدیل ہو جائے گی ذوق و شوق سے ہر قسم کے مانع و دشواری کو بر طرف کر سکتے ہیں پہر آپ کا ارادہ ہدف تک پہنچنے کے لئے قوی ہو جائے گا کسی موضوع کے بارے میں ذوق و شوق ، بہت سے دیگر مسائل کو بہی بر طرف کر دیتا ہے لہذا آ پ شوق کی بنیاد پر  مختلف و پرا کندہ مسائل سے نجات پا کر عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے فعالیت کریں بہترین ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کے لئے اپنے میں ذوق و شوق ایجاد کریں ۔

امام صادق(ع) سے منسوب ایک روایت میں ذکر ہواہے :

'' مثل المشتاق مثل الغریق ، لیس له همّة الاَّ خلاصه وقد نسی کلّ شیئیٍ دونه ''(۱)

مشتاق شخص کی مثال کسی ڈوبنے والے شخص کی مانند ہے کہ جو اپنی نجات کے علاوہ کچہ اور نہیں سوچتا اور اس کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کر دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحا ر الا نوار:ج ۷۰  ص۴ ۲

۷۲

۲ ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

انسان کی جتنی زیادہ امید ہو ، اتنی ہی ہمت بیشتر ہو جاتی ہے جس انسان میں امید ہو ، اس میں شوق بہی بڑہ جا تا ہے لہذا جو نو جوان اپنے روشن مستقبل کی امید رکہتے ہیں ، ان کی آرزو معنویت اور روحانیت سے سرشار ہے انہیں بہتر مستقبل و مقام کی آرزو ہو تی ہے لہذا وہ زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جن لوگوں کو نہ کوئی شوق ہو اور نہ امید وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مأیوس وناامید ہو تے ہیں اسی مایوسی کے عالم میں وہ اچہے مستقبل کی تلاش و کوشش کو چہوڑ دیتے ہیں حا لا نکہ ہرروشن فکر انسان کا اولین و ظیفہ جستجو اور کوشش کرنا ہے اور ہر شیعہ اس امر سے آگاہ ہے مایوس و ناامید غم واندوہ کے عالم میں صرف شب و روز گزار رہا ہو تا ہے ، اس کے غموں میں مزید اضافہ ہو تا چلا جا تا ہے ۔  لیکن وہ ان سے نجات کی نہ  تو کوشش کر تا ہے اور نہ ہی ما یوسی کے عالم میں اسے امید کی  کوئی  کرن دکہائی دیتی ہے وہ نہ تو اپنی مشکلات کی گرہوں کو کہول سکتے ہیں اور نہ دوسروں کی ۔

جی ہاں ، یہ ان افراد کی زندگی گا نتیجہ ہے کہ جو خدا کی رحمت سے نا امید اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی حیات بخش عنایات سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔

۷۳

۳ ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  :

خاندان وحی و رسالت علیہم السلام  سے منقول دعا ئیں اور مناجات و توسلات انسان کی تربیت کی بہترین روش اور زندگی کا بہترین شیوہ ہیں عظیم اہداف ، بلند حوصلہ و ہمت اور پختہ و راسخ ترین ارادہ اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب سے سیکہیں ۔

ان مقدس ہستیوں نے  ہمیں نہ صرف اپنے اقوا ل و فرامین بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بہی زندگی کا بہترین درس سکہا یا ۔ امام سجاد(ع) اپنی مناجات میں خدا کی در گاہ میں عرض کرتے ہیں :

'' اسألک من الهمم اعلا ها ''(۱)

پرور دگار میں تجہ سے عالی ترین ہمت کا طالب ہوں ۔

امام سجاد (ع) اپنی مناجات کے اس جملہ سے اپنے تمام پیرو کاروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن فرماتے ہیں اور بے ہمت انسانوں کو دعا و درخواست کے ذریعہ بلند ہمت کی امید دلا تے ہیں ۔

یہ گفتار تمام لوگوں کو بیدار کرتی ہے سب یہ جان لیں کہ عالی ہمت افراد کے کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے بلکہ مکتب تشیع کے تمام پیروکار خدا وند متعال سے بلند ہمت کی دعا کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱] ۔ بحار الانوار:ج ۹۴ص  ۵۵ ۱

۷۴

نتیجہ ٔبحث

پختہ ارادہ اور بلند ہمت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے ان کے ذریعہ آپ معنویت کے آسمان کی اوج پر پرواز کر سکتے ہیں خود میں یہ قدرت ایجاد کرو اور ضعف ، کاہلی و سستی سے پر ہیز کرو تاکہ آپ کی شرافت و عظمت میں اضافہ ہو قوةارادہ کا کمزور ہونا آپ کے توقف و ٹہہراؤ کا باعث ہے ، قوہ ارادة کو تقویت دینے سے آپ کامیابی کے نزدیک ہو سکتے ہیں امام صادق کے فرمان کی رو سے آپ مصمم ارادہ کے ذریعہ اپنے اندر پائی جانے والی بری عادات اور نا پسند ید ہ اخلاق کو ختم کر کے اچہے اور پسند یدہ اخلاق و عادات کو حاصل کر سکتے ہیں ہدف تک نہ پہنچنے میں نا کامی سے آپ کا ارادہ کمزور نہیں ہونا چاہئے  بلکہ ناکامی سے عبرت کا درس لیں اور اپنی قوہ ارادہ کو مزید مضبوط بنائیں ۔

پختہ ارادے اور مردانہ ہمت سے آپ صرف اعلیٰ انسانی مقامات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ملائکہ کے در جات بہی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑہ کر وہ مقام و مرتبہ بہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب ملائکہ آپ کی خدمت کر کے فخر و مباہات محسو س کریں پس فرصت سے استفادہ کریں اور پختہ ارادے کے ذریعہ اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو حا صل کرنے کی کوشش کریں ۔

بہ زندگانی اگر عزم آہنین داری          بہ زیر  پا شودت کوہ چون زمین ہموار

اگر آپ زندگی میں پختہ عز م و ارادہ رکہتے ہوں توآپ کے پاؤں تلے پہاڑ بہی ہموار زمین کی مانند ہو جائے گا ۔

۷۵

پانچواں باب

نظم  و  ضبط

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّه ونظم امرکم ''

تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ  تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط کی رعایت کرو ۔

    نظم وضبط کی اہمیت

    نظم و ضبط آشفتگی کو ختم کر تا ہے

    نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

    نظم و ضبط : وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

    مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

    نتیجۂ بحث

۷۶

نظم  وضبط  کی  اہمیت

نظم و ضبط اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے آپ منظم پروگرام تشکیل دے کر اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار اور پر ثمر بنا سکتے ہیں۔ کو شش اور مصمم ارادے سے ایک صحیح اور منظمپروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں ، صحیحمنشور پر عمل انسان کو منظم ، متعہد اور انجام دیئے جا نے والی چیز کا معتقد بنا تا ہے کو شش کریں کہ زندگی کا ہر کام آپ کے منظم پروگرام کے مطابق ہوتا کہ اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں اور زندگی میں سر خرو ہوں۔ یہ وہ راستہ ہے کہ تاریخ کے عظیم ترین افراد نے جس کی پیروری کی اور اس کے پابند رہے آپ بہی ان کے راستے کو منتخب کریں اور کسی بہی لمحے خدا پسند ، منظم اور صحیح آئین کی تشکیل اور اس پر عمل پیرا ہو نے میں غفلت نہ کریں جس حد تک ممکن ہو ، کوشش کریں کہ آ پ کا آئین و منشور اور پروگرام خاندان وحی و عصمت  علیہم السلام کے حیات بخش مکتب کی ترویج کا باعث ہو س صورت میں آپ اپنے سر پر ان ہستیوں کاکریمانہ شفیقانہ ہاتہ محسوس کریں گے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے تمام فرزندوں ، اہل خانہ اور ہر اس شخص کو یہ وصیت فرمائی ، کہ جو ان کی اس وصیت سے مطلع ہو جائے ، انہوں نے فرمایا کہ کاموں میں نظم و ضبط کی رعایت کریں اور منظم پروگرام بنا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں ۔ '' قال امیر المو منین : عند وفاته للحسن و الحسین علیهما السلام ، اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّٰه ونظم امرکم ''(۱)

حضرت امیر المومنین نے اپنی وفات کے وقت امام حسن اور حسین  سے فرمایا کہ : آپ ، میرے تمام فرزندوں اور اہل و عیال اور ہر اس شخص کو کہ جس تک میرا یہ فرمان پہنچے یہ وصیت کر تا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط  رکہو    ۔یہ کا ئنات کے پہلے امام امیر المو منین علی  کا پیغام ہے کہ جس سے نظم و ضبط کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ نہج البلاغہ ، مکتو ب  ۷: ۴ ، بحا ر الا نوار:ج ۷۵ص  ۴ ۲

۷۷

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے

جب آپ اپنی زندگی کے امور اور کاموں میں نظم و ضبط رکہتے ہوں اور پختہ ارادے سے اس پر عمل کریں تو آپ بہت سے باطنی تضاد اور بے حاصلسو چ  و فکر سے نجات پاجائیں گے ۔

نظم و ضبط عدم تضاد اور افراد کی آراء و افکار میں اختلاف کی بہترین دلیل ہے ۔ حکومتوں یا اداروں کے منشور میں اختلاف حکومتی یا اداری نظام میں نظم و ضبط کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے جہاں بڑے یا چہوٹے اجتماع میں اختلاف ہو وہاں نظم وضبط نہیں ہو تا ہر جگہ نظم ہونا چاہئے کیو نکہ یہ اس جگہ پر قدرت تدبیر کے موجود ہونے کا پتہ دیتا ہے کائنات کے نظام میں موجود نظم ، اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا نظام ایک منظم تدبیر کے تحت چل رہا ہے ۔ اگر آپ نظام کائنات میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح کائنات کے چہوٹے چہوٹے ذرات میں نظم ہے ۔اسی طرح کہکشانوں میں نظم ہے انیسو یں صدی کے وسط میں انسان کو ذرات کے بارے میں تحقیقات سے کچہ معلومات حاصل ہوئی کہ ذ رات کے اندر بہی ایک نظم و قا نون کا رفرما ہے کہ جس میں تعطل نہیں ہو تا ، ایٹم میں مو جود الیکٹرون ہر سکینڈ میں تین کاٹر یلیون مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کر تا ہے کہ کوئی چیزبہی اس گردش کو نہیں روک سکتی ۔

لوہے کے ایک ذرّے میں موجود الیکٹرون بہی ہر سکینڈ میں تین کاٹریلیون مرتبہ اپنے مر کزکے گرد گردش کر تا ہے ۔

۷۸

جب لوہے کو اس قدر حرارت دیں کہ وہ گیس میں تبدیل ہو جائے تو پہر بہی الیکٹرون تین کاٹریلیون(۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کرے گا ۔

فقط ایک صورت میں ممکن ہے کہ اس دائمی حرکت کو مختل کیا جا سکتا ہے کہ جب ایٹم کو توڑ دیا جائے اس صورت میں الیکٹرون اپنے مرکز سے دور ہو جائے گا ۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ حرکت نہیں کر ے گا بلکہ اس صورت میں وہ ایک جدید مرکز و مدار کے گرد گردش شروع کرے گا ۔

جس قانون و نظام کے تحت الیکٹرون ، ایٹم کے گرد اتنی تیزی سے حرکت کر تاہے اسی طرح زمین ، سورج کے گرد اور سورج تمام ستاروں کے گرد اور یہ سب کہشاں اور کہشاں کسی دیگر چیز کے گرد گردش کر  تے ہیں کہ جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ وہ بہی گردش کرتے ہیں ۔

کائنات کا یہ عجیب نظم اس بات کی دلیل ہے کہ امر خلقت میں کسی قسم کی آشفتگی نہیں ہے کیو نکہ اگر اس میں تضاد و آ شفتگی ہو تی تو کائنات کا نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔

امام صادق (ع) مفضل سے فرماتے ہیں :

'' والتضاد لا یأتی بالنّظام '' (۱)

تضاد سے نظم و جود میں نہیں آتا  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحا را لا نوار:ج ۳ ص  ۳ ۶

۷۹

جس طرح خلقت کائنات میں نظم اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی تدبیر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح چہوٹے ، بڑے اجتماعات میں نظم ، ان میں عدم اختلاف کی دلیل ہے پس نہ صرف خلقت کے مسئلہ میں بلکہ جس مورد میں  بہی نظم کی ضرورت ہو وہاں کسی صاحب تدبیر شخص کی بہی ضرورت ہو تی ہے ، پس تضاد و اختلاف اس امر کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی تدبّر کے ذریعہ نظم قائم کرنے والا نہیں ہے ۔

اس بناء پر اختلاف و تضاد کو رفع کر نے کے لئے عملی پروگراموں  میں نظم بر قرار رکہیں اور فردی واجتماعی زندگی سے اختلافات کاقلع قمع کریں ۔

صرف اجتماعی و خانوادگی پروگراموں  میں ہی  نظم و ضبط افکار میں عدم تضاد کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ شخصی پروگراموں  میں بہی نظم وضبط کے وجود پر دلالت کر تا ہے کہ انسان کی زندگی میں تضاد و آشفتگی نہیں ہے اور یہ ایک منظم آئین کی پیرو ی کر رہا ہے ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی زندگی تضاد سیبہری پڑی ہے ۔ مختلف نفسانی افکار خواہشات اور عقلی  دستورات انسان میں تضاد ایجاد کر تے ہیں بہت سے موارد میں افکار میں آشفتگی اور مشوش ہونا انہی تضاد کی وجہ سے ہے ایسے تضاد کبہی باعث بنتے ہیں کہ انسان کام کو چہوڑ دے اور اپنی زندگی حوادث کے سپرد کر دے ۔

نظم و برنامہ ایسے تضاد و اضطرا بات کو ختم کر تا ہے اور افکار و تخیلات کی تشویش کو ایک صحیح منشور  کی راہ دکہاتا ہے وقت گزرنے کے ساتہ مضطرب فکر کو ایک صحیحآئین و منشور کا سایہ فراہم ہو جا تا ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259