کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 155916 / ڈاؤنلوڈ: 5068
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

تسامح و تساہل

جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے مطلقا تساہل و تسامح کی حمایت و طرف داری کرتے ہیں اور اس کو قرون وسطی کے رائج تہذیب سے مبارزہ کی نشانی اور قدیم یونان و روم کی طرف بازگشت نیز آزادی اور انسانی قدرو منزلت کا تقاضاجانتے ہیں۔ انہوں نے تمام کامیابیوں کو انسانی کارنامہ اور فکر بشر کا نتیجہ سمجھا ہے ، شناخت کے حوالے سے ، شکاکیت و نسبیت کے نظریہ سے وابستہ ہیں۔ وہ لوگ اعتبارات ، ضروریات اور افکار کے ایک خاص مجموعہ کی تائید نیز حاکمیت اور اس سے دفاع کو ایک غیر معقول بات تصور کرتے ہیں ۔

یہ نظریہ مذاہب آسمانی کی تعلیمات خصوصاً اسلام سے مختلف جہتوںمیں نہ صرف یہ کہ سازگار نہیں ہے بلکہ متضاد بھی ہے،ایک طرف تسامح و تساہل کے اصول (انسان اور اعتبارات و معرفتکے درمیان رابطہ ) دینی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے اور دینی تفکرمیں خداوند عالم کی ذات نقطۂ کمال ہے نہ کہ انسان کی ذات اور یہ اہمیت و منزلت یقینی معرفت کی حمایت سے مزین ہے اور دوسری طرف اسلام ہر دین کے ( حتی ادیان غیر الٰہی ) اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ تساہل و تسامح کو قبول نہیں کرتا بلکہ کفر و الحاد کے مقابلہ میں صلح و آشتی کو ناقابل تسلیم جانتاہے ۔(۱) خاص طور سے دوسرے الٰہی ادیان کے ماننے والوں کے سلسلہ میں اسلام، نرمی کا برتاؤ بھی معقول اندازہی میں کرتا ہے ،اور اسلامی معاشرہ میں نیزمسلمانوں کے درمیان دوسرے مذاہب کی تبلیغ قابل قبول نہیں ہے، ان لوگوں کو حکومت اسلامی کے قوانین کے خلاف کسی عمل کے انجام دینے اور علنی طور پر محرمات اسلام کے مرتکب ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ان قوانین کے حصار میں اسلام نہ فقط دوسرے ادیان کے ماننے والوں سے نرمی کے برتاؤ کی تاکید کرتا ہے بلکہ ان سے نیکی کی وصیت کرتا ہے اور قید و بند اور ظلم سے انسانوں کو رہائی دلانے کے لئے اپنی تلاش جاری رکھتاہے اور ان لوگوں کی فریاد رسی کرتا ہے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں انصاف چاہتے ہیں نیز یہ مسلمانوں کی علامتوں اور وظائف میں سے ہے کہ وہ مظلوموں کی فریاد رسی کریں۔

____________________

(۱)البتہ وہ فکر و اندیشہ جو ایک درونی اور غیر اختیاری فعل ہے ہماری بحث سے خارج ہے ، اور کسی ایمان و فکر سے وابستہ ہونا اور اس کا نشر کرنا یا بعض تفکرات کے لئے اختیار کا زمینہ فراہم کرنا یا اس کو باقی رکھنا یہ ہے کہ وہ امر اختیاری ہو۔

۶۱

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی واقعی شخصیت اور اس کی قابلیت اور توانائی کے سلسلہ میں دو کاملاً متفاوت نظریے موجود ہیں : ایک نظریہ انسان کو پوری طرح سے مستقل ، مختار او ر ہر طرح کی ذمہ داری سے عاری موجود جانتا ہے اور دوسرا نظریہ اس کو خدا سے وابستہ نیز خدا کی طرف اس کے محتاج ہونے کا قائل ہے اور پیغمبروں کی مدد سے خدا کی مخصوص ہدایت سے برخوردار اور خدوند عالم کے قوانین کے انجام دینے کا اس کو ذمہ دار مانتا ہے ۔

۲۔ انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والوں (نظریہ اول کے ماننے والوں) نے انسان کو ہر چیز کا معیار قرار دے کر کلیسا کی تعلیمات اور مسیحیت کے قدیمی دین کو خرافات تصور کیا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق فکری نمونہ تلاش کرنے کے لئے روم و قدیم یونان کے افکار کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔

۳۔ انسان محوری کا نظریہ رکھنے والے افرادقدیم یونان سے استفادہ کرتے ہوئے مسیحیت کی نفی کرنے لگے اور ''دین اور خدا کی نئی تفسیر ، دین اور تعلیمات مسیحیت کی نفی ، خدا کااقرار اور ہر خاص دین کی نفی ، دین میں شکوک اور آخر کار دین اور خداسے مکمل طور پر انکار کر دیا ہے''۔

۴۔ انسان محوری اور انسان مداری جو شروع میں ایک ادبی ، فلسفی تحریک تھی آہستہ آہستہ فکری ، سماجی تحریک میں تبدیل ہوگئی جو سبھی علمی ، ہنری ، فلسفی ، اخلاقی حتی دینی نظام اور قوانین پر حاوی ہوگئی اور کمیونیزم ، پریگماٹیزم ، لبرلیزم اورپروٹسٹنٹ(اصلاح پسند مسیحیت )کو وجود میں لانے کا سبب بن گئی ۔ اسی بنا پر آج انسان مدار حضرات، ملحد انسان مداراور موحد انسان مدار میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔

۵۔ ہیومنزم کے بنیادی خمیرکاعقل گرائی کی حد سے زیادہ تجربات پر اعتماد کرنا، نیز آزادی خواہی کے مسئلہ میں افراط سے کام لینا،تساہل و تسامح اور سکولریزم جیسے اجزاء تشکیل دیتے ہیں ۔

۶۔ ہیومنزم کے بنیادی اجزاء ،افراطی پہلوؤں کی وجہ سے میدان عمل میں ، فاشیزم اور نازیزم کے نظریات سے جا ملے ، جس کی وجہ سے یہ موضوع ، بشر دوستی اور مطلقا خواہشات انسانی کی اہمیت اور اس کی اصالت کے قائل ہونے نیز عقل کے خطا پذیر ہونے کا یہ طبیعی نتیجہ ہے ۔

۷۔ انسان کو خدا کی جگہ تسلیم کرنا ،مضبوط فکری تکیہ گاہ کا نہ ہونا ، حد سے زیادہ تجربہ اور انسانی عقل کو اہمیت دینا اور شناخت کی قدر و منزلت اور شناخت کی معرفت میں نسبیت کا قائل ہونا یہ ایسے سست ستون ہیں جن سے ہیومنزم دوچار ہے ۔

۶۲

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں:

۱۔ہیومنزم اور شخص پرستی کے درمیان نسبت کو بیان کریں ؟

۲۔ اسلام کی نظرمیں ایمان ، اعمال اور اعتبارات میں تساہل و تسامح کا کیا مقام ہے ؟ مثال کے ذریعہ واضح کریں ؟

۳۔ ''آتیتکم بالشریعة السهلة السّمحَة ''سے مراد کیا ہے اور سہولت اور سماحت کے درمیان کیا فرق ہے ؟

۴۔ ان آیات میں سے دو آیت جو خود ہمارے اور دوسرے الٰہی ادیان کے ماننے والوں سے مسلمانوں کے نرم برتاؤ کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں بیان کریں ؟

۵۔ حقیقی راہ سعادت کے حصول میں انسانی عقل کی ناتوانی پر ایک دلیل پیش کریں؟

۶۔ آزادی اوراستقلال ، تساہل ، بے توجہی اور نرمی کا برتاؤ ، مغربی عقل پرستی ، ہیومنزم اور دینی اصول میں عقل پر بھروسہ کرنے کے درمیان تفاوت کو بیان کریں ؟

۶۳

مزید مطالعہ کے لئے :

۔احمدی ، بابک ( ۱۳۷۷) معمای مدرنیتہ ، تہران : نشر مرکز ۔

۔احمدی ، بابک ؛ مدرنتیہ و اندیشہ انتقادی ، تہران : نشر مرکز۔

۔بلیسٹر ، آر ( بی تا ) ظہور و سقوط لیبرالیزم ؛ ترجمہ عباس مخبر ، تہران : نشر مرکز ( بی تا)

۔بیوراکہارٹ ، جیکب ، ( ۱۳۷۶) فرہنگ رنسانس در ایتالیا، ترجمہ محمد حسن لطفی ، تہران ، انتشارات طرح نو

۔ڈیوس ٹونی ( ۱۳۷۸) لیبرالیزم ترجمہ عباس مخبر ، تہران : چاپ مرکز

۔رجبی ، فاطمہ ( ۱۳۷۵) لیبرالیزم ، تہران : کتاب صبح ۔

۔رنڈال ، جان ہرمن ( ۱۳۷۶) سیر تکامل عقل نوین ، ترجمہ ابو القاسم پایندہ ، تہران ، انتشارات علمی و فرہنگی ، ایران ۔

۔سلیمان پناہ ، سید محمد ؛ ''دین و علوم تجربی ، کدامین وحدت ؟''مجلہ حوزہ و دانشگاہ شمارہ ۱۹، ص ۱۱، ۵۲.

۔صانع پور ، مریم ( ۱۳۷۸) نقدی بر مبانی معرفت شناسی ہیومنیسٹی تہران : اندیشہ معاصر.

۔فولادوند ، عزت اللہ ؛ ''سیر انسان شناسی در فلسفہ غرب از یونان تاکنون '' مجلہ نگاہ حوزہ ، شمارہ ۵۳و ۵۴۔

۔ کیسیرر ، ارنسٹ(۱۳۷۰) فلسفہ روشنگری ؛ ترجمہ ید اللہ موقن ، تہران : نیلوفر ۔

۔لبرلیزم سے مربوط کتابیں ، روشنگری ( رنسانس ) و پسامدرنیزم ، ہیومنزم کی ترکیبات و انسان مداران کی تالیفات ۔

۔گیڈنز ، انتھونی (۱۳۷۷) فرہنگ علمی انتقادی فلسفہ ترجمہ غلام رضا وثیق ، تہران : فردوسی ایران ۔

۔نوذری ، حسین علی ( ۱۳۷۹) صورتبندی مدرنیتہ و پست مدرنیتہ ، تہران ، چاپخانہ علمی و فرہنگی ایران ۔

۔نہاد نمایندگی رہبری در دانشگاہھا ، بولتن اندیشہ شمارہ ۲ و ۳۔

۔واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) ''لیبرالیزم ''مجلہ معرفت ، شمارہ ۲۵ ص ۲۵۔۳۰، قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ویل ڈورانٹ ( ۱۳۷۱) تاریخ تمدن ، ترجمہ صفدر تقی زادہ و ابو طالب صارمی ، جلد پنجم ، تہران ، انتشارات و آموزشی انقلاب اسلامی ، ایران ۔

۶۴

ملحقات

ہیومنزم کے سلسلہ میں دانشمندوں کے مختلف نظریات، اس کے عناصر اوراجزاء میں اختلاف کی بناپر ہے جو ہیومنزم کے نتائج اور موضوعات کے درمیان موجود ہیں اور اس کے ماننے والوں کے نظریات میں نسبتاً زیادہ تنوع کی وجہ ان کی نظری،اجتماعی اورسماجی وضعیت نیز ہیومنزم کے سلسلہ میں دانشمندوں کی طرف سے متفاوت نظریات پیش ہوئے ہیں ۔

ایک طرف تو ایسے دانشمند ہیں جو اس نظریہ کو ایک ضد انسانی تحریک سمجھتے ہیں جو بشر کے لئے سوائے خسارے کے کوئی پیغام نہیں دیتی اور اس کے بارے میں ان کی تعبیرات یوں ہیں ''دھوکہ دینے والا مفہوم ، قوم کی برتری اور غیر قابل توجیہ فرد کی حکمرانی کی آواز ، سبعیت کی توجیہ اور تخفیف نیز ماڈرن دور کی آشکار انداز میں نابرابری ، شخصی آزادی خواہی اور فردی منافع کا متحقق ہونا ، نازیزم و فاشیزم کی بے ہودہ پیداواراور ان کا وجود ، محیط زیست کو ویران کرنے والی ضد انسانی عادتوں اور فطری قوتوں پر حملہ آور قوتوں کو پرورش دینا جو آخری کارانسان کی ویرانی پر ختم ہوتا ہے، خوفناک اور ویران کرنے والی قوت جو آرام و سکون کا برتاؤ نہیں کرتی ہیں ، خیالی اور جھوٹے دعوے ، امپریالیزم کے ہم رتبہ و ہم مرتبہ، اسٹالینزم کی ایک دوسری تعبیر اور مسیحیت کے بعد کے احوال کے لئے ایک خطرناک چیز ، آخری قرن میں ایک بناوٹی مفہوم جو ایک عظیم دستور کے عنوان سے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کے لائق ہے ،معاشرے کے بلند طبقے نیز قدرت و اقتدار کے مرکز کی تاویل و توجیہ ، شاہانہ فکر جو ایک خاص طبقہ کے منافع کی تاکید کرتی ہے اور جس کو اپنی آغوش میں لے کر اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے، ہر جرم کا نتیجہ ،متناقض معانی اورمختلف پیغامات سے پر ، ایسے سانحہ کا پیش خیمہ جس کا ہدف متحقق ہونے والا نہیں ہے ۔(۱)

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۲۷،۳۶،۴۵،۴۶،۵۴،۶۲،۶۴،۸۴،۹۴،۱۴۷،۱۷۸.احمدی ، بابک گذشتہ حوالہ، ص ۹۱، ۹۳، ۱۱۰، ۱۲۲۔

۶۵

دوسری طرف ہیومنزم کا دفاع کرنے والے ہیں جن کی کوشش انسان اور اس کی صلاحیت کو کمال بخشنا ہے ، نیزفکری اور اخلاقی آزادی کو تامین کرنا ،انسان کی زندگی کو عقلانی بنانا، انسان کی آزادی اور شرافت کی حمایت کرنا اور اس کی ترقی کی راہ ہموار کرنا اور کاملاً مبارزہ کرنے والا اور جہل و خرافات کے مقابلہ میں کامیاب ہونے والابتایا ہے ۔(۱)

اگرچہ ہیومنزم کے بعض منفی پہلوؤں کو انسان مداری کا دعویٰ کرنے والوں کی غلط برداشت سمجھنا چاہیئے '' لیکن یہ تحریک جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ کم از کم اس طرح کی ناپسندیدہ حوادث کے واقع ہونے کے لئے ایک مناسب ذریعہ تھی اور اس کا دعویٰ کرنے والوں کی کثیر تعداد اور ان کی بعض تاریخ ،منفی پہلو سے آمیختہ تھی ۔

عوامی عقل کو محور قرار دینا اورایسے دینی و اخلاقی اقدار کی مخالفت جو معاشرے کے افراد کو معنوی انحرافات ، دوسروں کے حقوق پر تجاوز اور فساد پر کنٹرول کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں ، جس کا نتیجہ ماڈرن اسباب و امکانات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر شایستہ افراد کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کرنا اور ناگوار حوادث کے جنم لینے کا سبب نیز ان حوادث کی عقلی توجیہ بھی کرناہے ۔

ہیومنزم کے نظریات میں اختلافات اور ہیومنزم کی تعریف میں مشکلات کا سبب اس کے ماننے والوں کے مختلف نظریات ہیں ،بعض افراد مدعی ہوئے ہیں کہ ان مختلف نظریات کے درمیان کوئی معقول وجہ ِاشتراک نہیں ہے اور ان نظریات کو ہیومنزم کے کسی ایک نمونہ یا سلسلہ سے نسبت نہیں دی جاسکتی ہے اسی بناء پر ہیومنزم کی تعریف کے مسئلہ کو ایک سخت مشکل سے روبرو ہونا پڑا اور وہ لوگ معتقد ہیں کہ ہمارے پاس ایک ہیومنزم نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیومنزم کے مختلف انواع کو مندرجہ ذیلعناوین سے یاد کرتے ہیں :

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ؛ گذشتہ حوالہ ، ص ۹۔

۶۶

۱۵ویں صدی میں اٹلی کے مختلف شہری ریاستوں کا مدنی و معاشرتی ہیومنزم،۱۶ویں صدی میں یورپ کے پروٹسٹل فرقہ کا ہیومنزم، ماڈرن آزاد و روشن خیال انقلاب کا فردی ہیومنزم ، یورپ کے سرمایہ دار طبقے کارومینٹک ہیومنزم،انقلابی ہیومنزم جس نے یورپ کو ہلاکر رکھ دیا،لیبرل ہیومنزم جو انقلابی ہیومنزم کو رام کرنے کے درپے تھا، نازیوں کاہیومنزم ، نازیوں کے مخالفین کا ہیومنزم ، ہیڈگر ، انسان مخالف ہیومنزم ، فوکواور آلٹوسر کی انسان گرائی کے خلاف ہیومنزم وغیرہ ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف ہیومنزم کے مشترکات کو ایک نظریہ میں سمویا جا سکتا ہے کہ جس میں ہر ایک ،ہیومنزم کے مختلف درجات کے حامل ہیں اور ہم نے اس تحقیق میں ہیومنزم کے مشترکات اور ان کے مختلف نتائج اور آثار کو مورد توجہ قرار دیا ہے ۔

۶۷

تیسری فصل :

خود فراموشی

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :

۱۔بے توجہی کے مفہوم کی اختصار کے ساتھ وضاحت کریں ؟

۲۔بے توجہی کے مسئلہ میں قرآن کریم کے نظریات کو بیان کریں ؟

۳۔بے توجہ انسان کی خصوصیات اور بے توجہی کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے کم از کم

پانچ موارد کی طرف اشارہ کریں ؟

۴۔فردی اور اجتماعی بے توجہی کے سد باب کے لئے دین اور اس کی تعلیمات کے کردار کو

بیان کریں ؟

۵۔بے توجہی کے علاج میں عملی طریقوں کی وضاحت کریں ؟

۶۸

دوسری فصل میں ہم نے بیان کیاہے کہ چودہویں صدی عیسوی کے دوسرے حصہ میں اٹلی اور اس کے بعدیورپ کے دوسرے ملکوں میں ادبی ، ہنری ، فلسفی اور سیاسی تحریک وجود میں آئی جو انسان کی قدر و منزلت کی مدعی تھی جب کہ قرون وسطی میں انسان جیسا چاہیئے تھا مورد توجہ قرار نہیں پاسکا اور اس دور میں بھی انسان ایک طرح سے بے توجہی کا شکار ہوا ہے ،ان لوگوں نے اس دور کے (نظام کلیسائی)موجودہ دینی نظام سے دوری اور روم وقدیم یونان کے صاحبان عقل کی طرف بازگشت کو ان حالات کے لئے راہ نجات مانا ہے اور اس طرح ہیومنزم ہر چیز کے لئے انسان کو معیار و محور قرار دینے کی وجہ سے ایک کلی فکر کے عنوان سے مشہور ہوا ہے۔

گذشتہ فصل میں ہیومنزم کی پیدائش ،اس کی ترکیبات و ضروریات،مقدار انطباق اور اس کی دینی اور اسلامی تعلیمات سے سازگاری کی کیفیت کے سلسلہ میں گفتگو کی تھی اور اس فصل میں ہمارا ارادہ ہیومنزم کی بنیادی چیزوں میں سے ایک یعنی بے توجہی کے مسئلہ کو بیان کرناہے جو بعد کی صدیوں میں بہت زیادہ مورد توجہ رہا ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو ہیومنسٹوں نے نا درست تصور کیا ہے اور بعض نے اس مسئلہ کو اس دور کے ہیومنزم کی غلط تحریک کی ایجاد بتایا ہے ۔

۶۹

مفہوم بے توجہی

ہماری دنیا کی ملموسات و محسوسات میں سے فقط انسان ہی کا وجود وہ ہے جو اپنی حقیقی شخصیت کو بدل سکتا ہے،چاہے توخود کو بلندی بخشے یا خود کو ذلت اور پستی میں تبدیل کر دے اس طرح فقط انسان کی ذات ہے جواپنی حقیقی شخصیت کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے یا اپنے سے غافل ہو کر خود کو فراموش کر دیتاہے اوراپنی حقیقی شخصیت یعنی اپنے ضمیر کو بیچ کر بیگانگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔(۱)

انسان شناسی کے مہم ترین مسائل میں سے ایک انسان کا خود سے بے توجہ ہوجانا ہے جو علوم انسانی کے مختلف موضوعات میں بھی مورد توجہ رہا ہے، یہ مفہوم جویورپ کی زبانوں میں Alienation سے یاد کیا جاتا ہے جامعہ شناسی ، نفسیات ، فلسفی اعتبارات (اخلاقی اور حقوقی ) حتی ماہرین نفسیات کے مفہوم سے سمجھا جاتا ہے اورزیادہ تر علوم انسانی کے مختلف شعبوں میں اسی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔ کبھی اس مفہوم کا دائرہ اتنا وسیع ہوجاتا ہے کہ'' ڈورکھیم''کہتا ہے: انسان کی بے نظمی Anomic معرفت نفس اور اس کے مثل، شخصیت کے دونوں پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے اور کبھی اس نکتہ کی تاکید ہوتی ہے کہ بے توجہی کے مفہوم کو ان مفاہیم سے ملانا نہیںچاہیئے ۔(۲)

یہ لفظ Alienation(۳) ایک عرصہ تک کبھی مثبت پہلو کے لئے اور زیادہ تر منفی اور مخالف پہلو

____________________

(۱)خود فراموشی کا مسئلہ انسان کی ثابت اور مشترک حقیقت کی فرع ہے اور جو لوگ بالکل انسانی فطرت کے منکرہیں وہ اپنے نظریہ اور مکتب فکرکے دائرے میں خود فراموشی کے مسئلہ کو منطقی انداز میں پیش نہیں کر سکتے ہیں ۔

(۲)اس کلمہ کے مختلف و متعدد استعمالات اور اس میں عقیدہ کثرت کی روشنی میں بعض مدعی ہیں کہ یہ مفہوم فاقد المعنی یامہمل ہوگیا ہے ۔

(۳)یہ کلمہ اور اس کے مشتقات انگریزی زبان میں مبادلہ ، جدائی ، دوری ،عقل کا فقدان ، ہزیان بکنا ،جن زدہ ہونا، خراب کرنا ،پراکندہ کرنا اور گمراہ کرنے کے معنی میں ہے اور فارسی میں اس کلمہ کے مقابلہ میں بہت سے مترادف کلمات قرار دیئے گئے ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

خود فراموشی ، ناچاہنا ،بے رغبتی ، خود سے بے توجہی ، بے توجہی کا درد ،خود سے غافل ہونا، سست ہونا،جن زدہ ہونا ، بیگانہ ہونا ، بیگانوں میں گرفتار ہونا ، دوسروں کو اپنی جگہ قرار دینا ، دوسروں کو اپنا سمجھنا اور خود کو غیر سمجھنا وغیرہ ؛ اس مقالہ میں رائج مترادف کلمہ ''خودکو بھول جانا '' انتخاب کیا گیاہے ، اگرچہ ہم ''دوسرے کو اپنا سمجھنا'' والے معنی ہی کو مقصود کے ادائگی میں دقیق سمجھتے ہیں ۔

۷۰

کے مفہوم سے وابستہ تھا۔(۱) کلمۂ حقیقی(۲) '' ہگل'''' فیور بیچ'' اور'' ہس ''(۳) کے ماننے والوں کی وجہ سے ایک سکولریزم مفہوم سمجھا گیاہے ۔ وہ چیزیںجو آج سماجی اور علمی محافل میں مشہور ہے اور یہاںپر جو مد نظر ہے وہ اس کا منفی پہلو ہے ،اس پہلو میں انسان کی ایک حقیقی اور واقعی شخصیت مد نظر ہوتی ہے کہ جس کے مخالف راہ میں حرکت اس کی حقیقی ذات سے فراموشی کا سبب بن جاتی ہے اور اس حقیقی شخصیت سے غفلت انسان کو پرائی قوتوں کے زیر اثر قرار دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے سے ماسواء کو اپنا سمجھتاہے اور اس کی اپنی ساری تلاش اپنے غیر کے لئے ہوتی ہے ۔خود سے بے توجہی ، مختلف گوشوں سے دانشمندوں کی توجہ کا مرکز ہوگئی ہے ۔ جس میں اختیار یا جبر ، فطری یا غیر فطری ، مختلف شکلیں ، ایجاد کرنے والے عناصر اور اس کے نتائج کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اس کے تمام گوشوں ، نظریات نیزاس کے دلائل کی تحقیق و تنقید کواس کتاب میں ذکر کرناممکن نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ، لہٰذا ان موارد میں ایک سرسری اشارہ کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے ۔

''خود فراموشی '' کے مسائل کو بنیادی طور پرادیان آسمانی کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہیئے ۔ اس لئے کہ یہ ادیان آسمانی ہی ہیں کہ جنھوں نے ہر مکتبہ فکر سے پہلے اس مسئلہ کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے نیز اس کے خطرے سے آگاہ کیا ہے اور اس کی علامتوں کو بیان کرتے ہوئے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کی عملی حکمت پیش کی ہے ۔اس کے باوجود انسانی و اجتماعی علوم کے مباحث میں فنی علمی طریقہ سے ''خود فراموشی ''کے مفہوم کی وضاحت اور تشریح کو ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعض

____________________

(۱)غنوصیوں نے میلاد مسیح سے پہلے قرن اول میں اور میلاد مسیح کے بعد قرن دوم میں نیز'' وون کاسٹل ''( ۱۔ ۱۱۳۷ .۱۰۸۸،م)نے اس کو نفس انسان کی گمراہی سے رہائی ، نیرنگی اور دوبارہ تولد کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ ہگل بھی مثبت و منفی خود فراموشی کا قائل ہے ، لیکن دوسرے مفکرین و ادیان الٰہی اور اس کے ماننے والے خود فراموشی کو منفی و غیر اخلاقی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو: بدوی ، عبد الحمن؛ موسوعة الفلسفة ، طہ فرج ، عبد القادر ؛ موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ۔

(۲) Pauer

(۳) Hess

۷۱

دانشمندوں خصوصاً ''ہگل، فیور بیچ اور مارکس ''کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) دین اور ''خود فراموشی''کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ان تینوں مفکروں کے درمیان وجہ اشتراک یہ ہے کہ یہ تینوں خود دین کو انسان کی خود فراموشی کی وجہ مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ : جب دین کو درمیان سے ہٹادیاجائے توانسان ایک دن اپنے آپ کو درک کرلے گا ۔ اور کم از کم جب تک دین انسان کی فکر پر حاوی ہے انسان ''خود فراموشی''کا شکار ہے ۔(۲) یہ بات ٹھیک ادیان آسمانی کے تفکر کا نقطہ مقابل ہے خصوصاً خود فراموشی کے مسئلہ میں اسلام و قرآن کے خلاف ہے،بہر حال حقیقی طور پر دینی نقطہ نظر سے ''خود فراموشی ''کا مسئلہ ایک مستقل شکل میں مسلمان مفکرین کے نزدیک مورد توجہ قرار نہیں پایا ہے لہٰذا صاحبان فکر کی جستجو کا طالب ہے ۔

____________________

(۱)مذکورہ تین مفکروں کے علاوہ تھامسہابز( Thomas Hobbes ۱۶۷۹۔۱۵۸۸)بینڈکٹ اسپیونزا ( Benedict Spinoza ۱۶۷۷۔۱۶۳۲)جان لاک ( John locke ۱۷۰۴۔۱۶۳۲)ژان ژاک روسو ( Jean Jacquess Rousseau ۱۷۷۸۔۱۷۱۲)میکس اسکلر( Max Scheler ۱۸۰۹۔۱۰۸۵)جوہان فشے ( Johann Fichte ۱۸۴۱۔۱۷۶۲)ولفگیگ گوئٹے ( Wolfgang Goethe ۱۸۳۲۔۱۷۴۹)ویلیم وون ہمبولٹ( Wilhelm Von Humboldt ۱۸۳۵۔۱۷۶۷)سورن کیرکیگارڈ ( soren kier kegaard ۱۸۵۵۔۱۸۱۳)پال ٹیلیچ ( Paul Tillich ۱۹۶۵۔۱۸۸۶)منجملہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود فراموشی کے مسئلہ کو بیان کیا ہے ۔ملاحظہ ہو : زورنٹال و ...، الموسوعة الفلسفیة ؛ ترجمہ سمیر کرم ، بدوی ، عبد الرحمٰن ، موسوعة الفلسفة ۔ زیادہ ، معن ، الموسوعة الفلسفیة العربیة ۔

(۲)گرچہ ہگل نے دو طرح کے دین کی طرف اشارہ کیا ہے : ایک وہ دین جو انسان کو ذلیل و خوار کرکے خداؤں کے حضور میں قربانی کرتا ہے جیسے یہودیت اور دوسرا دین وہ ہے جو انسان کوحیات اور عزت دیتا ہے ۔ پہلے قسم کا دین خود فراموشی کی وجہ سے ہے لیکن دوسرے قسم کے دین کی خصوصیات حقیقی ادیان پر منطبق نہیں ہے ، صرف ایک عرفانی نظریہ اور معارف دینی کے ذریعہ ان دونوں کوایک حد تک ایک دوسرے سے منطبق سمجھا جاسکتا ہے ،اگرچہ ہگل ،خدااور روح و عقل کے بارے میں ایک عمومی بحث کرتا ہے لیکن ہگل کا خدا، عام طور پر ان ادیان کے خدا سے جس کا مومنین یقین رکھتے ہیں بالکل الگ ہے اوروہ خدا کو عالی و متعالی ، عظیم ، خالق ماسوا، انسان پر مسلط اور انسانوں کے اعمال کے بارے میں سوال کرنے والا موجود نہیں سمجھتا ہے ۔

۷۲

قرآن کی روشنی میں ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کو اس ارادہ سے بیان کیا گیا ہے تاکہ ہم بھی ایک ایساقدم بڑھائیںجو اسلام کے نظریہ سے اس کی تحلیل و تحقیق کے لئے نقطۂ آغاز ہو،اس لئے ہم بعض قرآنی آیات کی روشنی میں ''خود فراموشی''کے مسئلہ پرایک سرسری نظرڈالیں گے ۔

قرآن اور خود فراموشی کا مسئلہ

بحث شروع کرنے سے پہلے اس نکتہ کی یادآوری ضروری ہے کہ ''خود فراموشی''کا مسئلہ بیان کرنا ، اس خاکہ سے کاملاً مربوط ہے جسے انسان کی شخصیت و حقیقت کے بارے میں مختلف مکاتب فکر نے پیش کیا ہے اورمختلف مکاتب میں اس خاکہ کی تحقیق و تحلیل اس کتاب کے امکان سے خارج ہے اسی لئے فقط اشارہ ہو رہا ہے کہ قرآن کی روشنی میں انسان کی حقیقت کو اس کی ابدی روح ترتیب دیتی ہے جو خدا کی طرف سے ہے اور اسی کی طرف واپس ہو جائے گی ،انسان کی حقیقت ''اسی سے '' اور ''اس کی طرف ''( إنّا لِلّٰهِ وَ نَّا لَیهِ رَاجعُونَ ) (۱) ہے ،اسلامی نکتہ نگاہ سے انسان کی صحیح و دقیق شناخت، خدا سے اس کے رابطہ کو مد نظر رکھے بغیر ممکن نہیں ہے ، انسان کا وجود خدا سے ملا ہوا ہے اس کو خدا سے جدا اور الگ کرنا گویااس کے حقیقی وجود کو پردۂ ابہام میں ڈال دینا ہے، اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے غیر الٰہی مکتب میں غفلت برتی گئی ہے یا اس سے انکار کیا گیا ہے دوسری طرف انسان کی حقیقی زندگی عالم آخرت میں ہے جسے انسان اس دنیا میں اپنی مخلصانہ تلاش اور ایمان کے ساتھ آمادہ کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی نگاہ میں ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کو اسی تناظر میں مورد توجہ قرار دینا چاہیئے ۔

اس سلسلہ میں دوسرا نکتہ جو قابل توجہ ہے وہ یہ کہ ''خود فراموشی'' کا نام دینے والوں نے انسان اور اس کی زندگی کو دنیاوی زندگی میں اور مادی و معنوی ضرورتوں کو بھی دنیاوی زندگی میں محصور کردیا ہے اور مسئلہ کے سبھی گوشوں پر اسی حیثیت سے نگاہ دوڑائی ہے ، مزید یہ کہ ان میں سے بعض دنیا پرستوں کے فلسفی اصولوں کو قبول کرکے ایک آشکار اختلاف میں گرفتار ہوگئے اور انسان کو دوسری غیر

____________________

(۱)سورۂ بقرہ ، ۱۵۶۔

۷۳

مادی اشیاء کی حد تک گرکر مسئلہ کو بالکل نادرست اور غلط بیان کیاہے ،ایسی حالت میں جو چیز غفلت کا شکار ہوئی ہے وہ انسان کا حقیقی وجود ہے اور حقیقت میں اس کی ''خود فراموشی'' کا مفہوم ہی مصداق اور ''خود فراموشی'' کا سبب بھی ہے ۔

قرآن مجید نے بارہا غفلت اور خود کو غیر خدا کے سپرد کرنے کے سلسلہ میں انسان کو ہوشیار کیا ہے اور بت پرستی ، شیطان اورخواہشات نفس کی پیروی نیز آباؤ واجداد کی چشم بستہ تقلیدکے بارے میں سرزنش کی ہے ۔ انسان پر غلبہ ٔشیطان کے سلسلہ میں بارہا قرآن مجید میں آگاہ کیا گیا ہے ،اور جن و انس، شیاطین کے وسوسہ سے انسان کے خطرہ ٔانحراف کی تاکید ہوئی ہے ۔(۱) اسلامی نظریہ اور انسانی معاشرہ میں بیان کئے گئے مفاہیم سے آشنائی قابل قبول اور لائق درک وفہم ہیں، جب کہ اگر ان پر ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کی روشنی میں توجہ دی جائے تومعلومات کے نئے دریچہ کھلیں گے، لیکن ''خود فراموشی'' خود فروشی اور ضرر جیسے مفاہیم جو بعض آیات میں ذکر ہوئے ہیں، ان کے علاوہ بھی مہم مفاہیم ہیں جن پر مزید توجہ کی ضرورت ہے اور انسان کو دقت کے لئے مجبور کرتے ہیں ،لیکن کیا ایسا ہوسکتاہے کہ انسان ''خود فراموشی'' کا شکار ہوجائے اور خود کو بھول جائے یا یہ کہ خود کو بیچ دے ؟ !کیا خود کو ضرر پہونچانا بھی ممکن ہے ؟ انسان ضرر اٹھاتاہے اور اس کا ضرر موجودہ امکانات کے کھو دینے کے معنی میں ہے ، لیکن خود کو نقصان پہونچانے کا کیا مفہوم ہوسکتا ہے اور کس طرح انسان اپنی ذات کے حوالے سے ضرر سے دوچار ہوتا ہے ؟ ! قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتا ہے کہ :

( وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰهَ فَأنسَاهُم أَنفُسَهُم )

اور ان جیسے نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھول بیٹھے تو خدا نے بھی ان کو انہیں کےنفسوں سے غافل کردیا ۔(۲)

____________________

(۱)یہ مفاہیم روایات میں بھی مذکور ہیں ، ان مفاہیم سے مزید آگاہی کے لئے نہج البلاغہ کی طرف رجوع کریں مطہری ، مرتضی ؛ سیری در نہج البلاغہ ، ص ۲۹۱۔ ۳۰۶۔

(۲)سورہ ٔ حشر ۱۹

۷۴

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے :( بِئسَمَا اشتَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم ) کتنی بری ہے وہ چیز جس کے مقابلہ میں ان لوگوں نے اپنے نفسوں کوبیچ دیا ۔(۱)

سورہ ٔ انعام کی ۱۲ویں اور ۲۰ویں آیت میں فرماتا ہے :

( الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم فَهُم لَا یُؤمِنُونَ ) جنہوں نے اپنے آپ کوخسارے میں ڈال دیا وہ لوگ تو ایمان نہیں لائیں گے ۔

اس طرح کی آیات میں بعض مفسرین نے کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح مذکورہ آیات کو انسان سے مربوط افعال ، خود فراموشی، خود فروشی اور خسارے میں تبدیل کردیا جائے تاکہ عرف میں رائج مفہوم کے مطابق ہوجائے ،لیکن اگر خود انسان کی حقیقت کو مد نظر رکھا جائے اور ''خود فراموشی'' کے زاویہ سے ان آیات کی طرف نظر کی جائے تو یہ تعبیریں اپنے ظاہر کی طرح معنی و مفہوم پیدا کرلیں گی ، بہت سے لوگوں نے دوسرے کو اپنا نفس سمجھتے ہوئے اپنی حقیقت کو فراموش کردیا یا خود کو غفلت میں ڈال دیا ہے اور اپنی حقیقت سے غفلت ، ترقی نہ دینا بلکہ اسے گرانا یعنی یہ اپنا نقصان ہے اور جو بھی اس عمل کو مثال کے طور پر کسی لالچ اور حیوانی خواہشات کے لئے انجام دیتا ہے اس نے خود کو بیچ دیا اور اپنے آپ کو حیوانوں سے مشابہ کرلیا ہے البتہ قرآن کی نظر میں مطلقاً خود فراموشی کی نفی کی گئی ہے لیکن خود فراموشی کی ملامت اس وجہ سے ہے کہ انسان خود کو تھوڑے سے دنیاوی فائدہ کے مقابلہ میں بیچ دیتاہے ۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''خود فراموشی'' کے مسئلہ میں قرآن کا نظریہ اور اس کے موجدوں (ہگل ، فیور بیچ اور مارکس)کی نظر میں بنیادی تفاوت ہے ۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ ان تینوں نظریات میں ''خود فراموشی'' کے اسباب میں سے ایک ،دین ہے اور دین کو انسان کی زندگی سے الگ کرنا ہی

____________________

(۱)سورہ ٔ بقرہ ۹۰

۷۵

اس مشکل کے لئے راہ نجات ہے ،لیکن قرآن کی روشنی میں مسئلہ بالکل اس قضیہ کے برخلاف ہے ۔ انسان جب تک خدا کی طرف حرکت نہ کرے اپنے آپ کونہیں پاسکتا ،نیز خود فراموشی میں گرفتار رہے گا۔ آئندہ ہم دوبارہ اس موضوع پرگفتگو کریں گے اور ایک دوسرے زاویہ سے اس مسئلہ پر غور کریں گے ۔

بہر حال قرآن کی روشنی میں خود فراموشی ایک روحی ، فکری ،اسباب و علل اور آثار و حوادث کا حامل ہے ۔بے توجہ انسان جو دوسروں کو اپنی ذات سمجھتا ہے وہ فطری طور پر دوسرے کے وجود کو اپنا وجود سمجھتا ہے اور یہ وجود جیسا بھی ہو ''خود فراموش'' انسان خود ہی اس کے لئے مناسب مفہوم مرتب کرلیتا ہے، اکثر جگہوں پر یہ دوسرا مفہوم ایک ایسا مفہوم ہے جو خود فراموش انسان کی فکر کے اعتبارسے مرتب ہے ۔(۱)

اس حصہ میں ہم خود فراموشی کے بعض نتائج پر گفتگو کریں گے :

خود فراموشی کے نتائج

غیرکو اصل قرار دینا

خود فراموش ، اپنے تمام یا بعض افعال میں دوسرے کو اصل قرار دیتا ہے۔(۲) اور آزمائشوں ، احساس درد ، مرض کی تشخیص ، مشکلات و راہ حل ، ضرورتوں اور کمالات میں دوسروں کو اپنی جگہ قرار دیتا ہے ۔ اور اپنے امور کو اسی کے اعتبار سے قیاس کرتا ہے اور اس کے لئے قضاوت و انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے ، قرآن مجید سود خور انسانوں کے سلسلہ میں کہتا ہے کہ :

____________________

(۱)قرآن مجیداور روایات میں جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے خود اپنے نفس سے رابطہ کے سلسلہ میں متعدد و مختلف مفاہیم بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر خود فراموشی ، خود سے غافل ہونا ، اپنے بارے میں کم علمی و جہالت ، خود فروشی اور خود کو نقصان پہونچانا وغیرہ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق و تحلیل اور ایک دوسرے سے ان کا فرق اور خود فراموشی سے ان کے روابط کو بیان کرنے کے لئے مزید وقت و تحقیقات کی ضرورت ہے ۔

(۲)کبھی انسان بالکل خود سے غافل ہوجاتا ہے اور کبھی اپنے بعض پہلوؤں اور افعال کے سلسلہ میں خود فراموش کا شکار ہوجاتا ہے اسی بنا پر کبھی مکمل اور کبھی اپنے بعض پہلوئوںمیں حقیقت کوغیروں کے حوالہ کردیتا ہے ۔

۷۶

( الَّذِینَ یَأکُلُونَ الرِّبا لَایقُومُونَ لاّ کَمَا یَقُومُ الّذِی یَتخَبَّطُهُ الشَیطَانُ مِنَ المَسِّ ذٰلِکَ بِأنَّهُم قَالُوا ِنَّمَا البَیعُ مِثلُ الرِّبَا... ) ۱)

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہ ہوسکیں گے (کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں)(۲) مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوںگے جس کو شیطان نے لپٹ کے(ضررپہونچا کر)مخبوط الحواس بنا دیا ہو(اس کی استقامت کو ختم کردیا ہو ) یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ لوگ اس بات کے قائل ہوگئے کہ جس طرح خرید و فروش ہے اسی طرح سودبھی ہے

آیت شریفہ کے مفاد میں تھوڑی سی فکر بھی پڑھنے والے کو اس نتیجہ پر پہونچاتی ہے کہ آیت میں سود اور سود کھانے والوں کو محور بنانے کی بنیاد پر اس بحث کی فطری انداز کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہا جائے : سود کھانے والوں کے لئے ایسے حالات پیدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سود کھانے والے یہ کہتے تھے کہ سود ،خرید و فروش کی طرح ہے اور اگر خرید و فروش میں کوئی حرج نہیں ہے توسود میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن جیسا کہ ملاحظہ ہواہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے : سود کھانے والوں نے کہاخرید و فروش ربا کی طرح ہے ، اس سخن کی توجیہ و توضیح میں بعض مفسروں نے کہا ہے : یہ جملہ معکوس سے تشبیہ اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی گفتگو کا تقاضا یہ تھا کہ ربا کو خرید و فروش سے تشبیہ دی جاتی ، مبالغہ کی وجہ سے قضیہ اس کے برعکس ہوگیااور خرید و فروش کی ربا سے تشبیہ ہوگئی ہے ۔(۳) بعض مفسرین معتقد

____________________

(۱)بقرہ ۲۷۵۔

(۲)(لَایقُومُونَ لاّ کَمَا یَقُومُ ...)جملہ کے مراد میں دو نظریے ہیں :جیسا کہ اس مقالہ میں ذکر ہوا ہے،پہلا نظریہ یہ ہے کہ آیت دنیا میں ربا خوار انسان کے رفتار وکردار کو بیان کررہی ہے اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آخرت میں رباخواروں کے رفتار وکردار کی نوعیت کو بیان کرنا مقصود ہے ،اکثر مفسرین نے دوسرے نظریہ کو انتخاب کیا ہے لیکن رشید رضا نے ''المنار''میں اور مرحوم علامہ طباطبائی نے ''تفسیر المیزان ''میں پہلے نظریہ کو انتخاب کیا ہے .ملاحظہ ہو: رشید رضا ؛ تفسیر المنار ، ج۳ ص ۹۴، علامہ طباطبائی ؛ المیزان ج۲ ص ۴۱۲۔۴۱۳۔

(۳) آیہ شریفہ کے ذیل میں شیعہ و سنی تفاسیر منجملہ روح المعانی و مجمع البیان کی طرف رجوع کریں ۔

۷۷

ہیں کہ چونکہ سود خور اپنے اعتدال کو کھو بیٹھا ہے لہٰذا اس کے لئے خرید و فروش اور ربا میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ ربا،خرید و فروش کی طرح ہے اسی طرح ممکن ہے یہ بھی کہے خرید و فروش ربا کی طرح ہے ۔ اس نے ان دو نوں کے درمیانمساوات برقرار کیا ہے۔(۱)

ان دو توجیہوں میں مناقشہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ توضیح و تبیین سے بہتر یہ ہے کہ خود سے بے توجہی اور دوسروں کو اصل قرار دینے کے اعتبار سے مطلب کی وضاحت کی جائے خود سے بے توجہ انسان جو دوسرے کو اصل قرار دیتا ہے دوسروں کے شان و احترام کے لئے بھی اصل کا قائل ہے اور سبھی فرعی مسائل اور گوشوں میں اصل دوسروں کو بناتاہے، سود خور انسان کی نگاہ میں سود خوری اصل ہے اور خرید و فروش بھی ربا کی طرح ہے جب کہ حقیقت میں وہ یہ سوچتا ہے کہ ربا میں نہ فقط کوئی حرج ہے بلکہ سود حاصل کرنے کا صحیح راستہ ربا خوری ہے نہ کہ خرید و فروش ہے، خرید و فروش کو بھی فائدہ حاصل کرنے میں ربا سے مشابہ ہو نے کی وجہ سے جائز سمجھا جاتا ہے ۔ سود خور انسان کو ایسا حیوان سمجھتا ہے جو جتنا زیادہ دنیا سے فائدہ اٹھائے اور بہرہ مند ہووہ کمال اور ہدف سے زیادہ نزدیک ہے اور سود خوری اس بہرہ مندی کا کامل مصداق ہے لہٰذا خرید و فروش کی بھی اسی طرح توجیہ ہوناچاہیئے!۔

روحی تعادل کا درہم برہم ہونا

اگر انسان اپنے آپ سے بے توجہ ہوجائے اور اپنے اختیار کی باگ ڈور دوسرے کے ہاتھ سپرد کردے تو وہ دو دلیلوں سے اپنے تعادل کو کھودے گا : پہلی دلیل یہ ہے کہ دوسرے کا طرز عمل چونکہ اس کے وجود کے مطابق نہیں ہے لہٰذا عدم تعادل سے دوچار ہوجائے گااور دوسری دلیل یہ ہے کہ دوسرا مختلف اور متعدد موجودات کا حامل ہے لہٰذااگر دوسرا موجودات کی کوئی خاص نوع ہو مثال کے طور پر انسانوں میں بہت سے مختلف افراد ہیں ،یہ مختلف موجودات یا متعدد افراد کم از کم مختلف و متضاد

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی ، المیزان ج۲ ص ۴۱۵

۷۸

خواہشات کے حامل ہیں جو اپنے آپ سے بے توجہ انسان کے تعادل کو درہم برہم کردیتے ہیں ۔ قرآن مجید مشرکین کو اپنے آپ سے بے توجہ مانتے ہوئے کہتا ہے :

( أ أَرباب مُتَفَرِّقُونَ خَیر أَمِ اللّٰهُ الوَاحِدُ القَهَّارُ )

کیا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتاو غلبہ پانے والا(۱)

مزیدیہ بھی فرماتا ہے:

( ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلاً فِیهِ شُرَکَآئُ مُتَشَاکِسُونَ وَ رَجُلاً سَلَماً لِّرَجُلٍ هَل یَستَوِیَانِ مَثَلاً... ) (۲)

خدا نے ایک مثل بیان کی ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (مالدار)جھگڑالو شریک ہیں اور ایک غلام ہے جوپورا ایک شخص کا ہے کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے ؟

( لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِیلِهِ ) (۳)

اور دوسرے راستوں(راہ توحید کے علاوہ جو کہ مستقیم راہ ہے) پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے تتر بتر کردیں گے ۔

سورۂ بقرہ کی ۲۷۵ ویں آیت بھی جیسا کہ ذکر ہو چکی ہے سود خور انسان کے اعمال کو اس مرگی زدہ انسان کی طرح بتاتی ہے جس میں تعادل نہیں ہوتا ہے اور اس کے اعمال میں عدم تعادل کو فکری استقامت اور روحی تعادل کے نہ ہونے کی وجہ بیان کیا ہے ۔(۴)

____________________

(۱)یوسف ، ۳۹

(۲)زمر، ۲۹

(۳)انعام ۱۵۳۔

(۴)رباخوار انسان کے رفتار و کردار کے متعادل نہ ہونے کے بارے میں اور اس کے تفکرات کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی ؛ المیزان ج۲ ص ۴۱۳و ۴۱۴۔

۷۹

ہدف و معیار کا نہ ہونا

گذشتہ بیانات کی روشنی میں ، خود فراموش انسان بے ہدفی سے دوچار ہوتا ہے، وہ خود معقول اور معین شکل میں کسی ہدف کو انتخاب نہیں کرتا ہے اور اپنی زندگی اور اعمال کے سلسلہ میں متردد ہوتاہے ۔ قرآن منافقین کے بارے میں جو خود فراموش لوگوں کا ایک گروہ ہے اس طرح بیان کرتا ہے :

( مُذَبذَبِینَ بَینَ ذَالِکَ لَا لَیٰ هٰولآئِ وَ لآ لیٰ هٰولآئِ وَ مَن یُضلِلِ اللّٰهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِیلاً ) (۱)

ان کے درمیان کچھ مردّد ہیں، نہ وہ مومنین میں سے ہیں اورنہ ہی وہ کافروں میں سے ہیں جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کی تم ہرگز کوئی سبیل نہیں کرسکتے۔(۲)

ایسے لوگ حضرت علی کے فرمان کے مطابق ''یَمِیلونَ معَ کُل رِیح' 'کے مصداق ہیں (جس سمت بھی ہوا چلتی ہے حرکت کرتے ہیں )اور دوسرے جزء کے بارے میں کہا گیا ہے کہ متعدد وپراکندہ ہیں ، ان کا کوئی معیار نہیں ہے بیگانوں کی کثرت بے معیاری اور بے ہدفی انسان کے لئے فراہم کرتی ہے ۔

حالات کی تبدیلی کے لئے آمادگی و قدرت کا نہ ہونا

خود فراموش انسان جو خود کوغیر سمجھتاہے وہ اپنی حقیقت سے غافل ہے یااپنی موجودہ حالت کو مطلوب سمجھتے ہوئے اپنی حالت میں کسی بھی تبدیلی کے لئے حاضر نہیں ہے ،اور اس کے مقابلہ میں مقاومت کرتا ہے یا اپنی اور مطلوب حالت سے غفلت کی بنا پر تبدیلی کی فکر میں نہیں ہے ۔

____________________

(۱)سورۂ نساء ۱۴۳۔ (۲)خداوند عالم کا انسان کوگمراہ کرنا اس کی خواہش کے بغیر جبری طور پر نہیں ہے بلکہ یہ انسان ہے جو اپنے غلط انتخاب کے ذریعہ ایسی راہ انتخاب کرتا ہے جس میں داخل ہونے سے ضلالت و گمراہی سے دچار ہوتا ہے اسی بنا پر دوسری آیات میں مذکور ہے کہ خداوند عالم ظالمین ( ۲۷ابراہیم ) فاسقین (۲۶بقرہ )، اسراف کرنے والے، بالکل واضح حقائق میں شک کرنے والوں ( ۳۴غافر) اور کافروں ( ۷۴غافر) کو گمراہ کرتا ہے ۔

۸۰

نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

مختلف تخیلات و افکار کی وجہ سے عمو ماً نو جوان امور میں نظم وضبط اور پروگرام تشکیل دینے کی مکمل قدرت نہیں رکہتے ان کے سر پرست روزا نہ کے پروگرام کو منظم کرنے میں ان کی مدد کریں تا کہ عمر کے لحاظ سے رشد پانے کے ساتہ ساتہ انہیں امور میں نظم و ضبط بر قرار کرنے کی قدرت بہی حاصل ہو جائے ۔

جب جوانوں میں پینتیس سال کی عمر میں اندرونی تضاد اور جنسی و شہوانی خواہشات میں کمی آجاتی ہے تو ان کے لئے اس دور میں منظم پروگرام  اور نظم کی پیروری کرنا آسان ہو جا تاہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان انسان کے نفسانی امور پر اس کے جسمانی حالات کی کیفیت و تاثیر کی تشریح کر تا ہے ۔

'' قال مو لانا الرضا صلٰوات اللّٰه علیه فی الرسالة الذهبیّة ثمّ یدخل فی الحالة الثالثة الیٰ ان تتکامل مدّة العمر ستین سنة فیکون فی سلطان المرّ ة السّوداء وهی سنّ الحکمة والموعظة وا لمعرفة والدرایة و انتظام الامور وصحّة النظر فی العواقب و صدق الرّأ یی ''(۱)

پہر انسان اپنی تیسری حالت ، یعنی پینتیس سال سے ساٹہ سال کی عمر تک ، میں سوداء انسان پر مسلط ہو تا ہے اور یہ حکمت و موعظہ ، معرفت و درایت کا دور ہو تا ہے ۔ اسی طرح یہ امور میں نظم وضبط اور انسان کی صحیح دور اندیشوں اور درست رائے کا وقت ہو تا ہے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار :ج۶۲ ص ۷ ۱ ۳

۸۱

اس بناء پر انسان اپنی زندگی کے تیسرے مرحلہ میں داخل ہونے سے پہلے صحیح پروگرام اور نظم و ضبط کا زیادہ نیاز مند ہو تا ہے تا کہ اس دوران نفسانی تحرکات سے واقع ہونے والے انحرافی مسائل سے محفوظ رہا جا سکے اور جوانان و نو جوانان کی حیاتی مسائل کی طرف ہدایت و راہنمائی ہو ۔

حضرت امام رضا (ع) زندگی کے تیسرے حصے ، یعنی ساٹہ سال کی عمر تک کو انتظام امور کا دور قرار دیتے ہیں اور اس دور کو معارف و حکمت کے حصول کا زمان سمجہتے ہیں امام کے فرمان کی  رو سے اس وقت انسان کو اس طرح سے پیش آنا چا ہیئے کہ اپنے آئندہ کے کا موں کو صحیح طور پر پرکہ سکے اور اس کی رائے و عقیدہ بہی درست ہو ۔

۸۲

نظم و ضبط

وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

زندگی کے لمحات اور وقت کو ضائع نہ کرنے کے لئے ایک منظم پروگرام تر تیب دیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تعہد کریں اگر آپ کے اصل اعمال صحیح ہو اور

صحیح و مرتب  پروگرام کے مطابق عمل کریں تو آپ کی زندگی با بر کت و خوشگوار ہو گی ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' برکة العمر فی حسن العمل '' (۱)

زندگی کی برکت ، عمل کی اچہائی میں ہے ۔

عمل کی اچہائی صرف اصل عمل کے نیک ہو نے پر ہی نہیں ، بلکہ اس کی روش کے نیک ہونے پر بہی دلالت کر تی ہے ۔اسی وجہ سے ہمارے بزرگان ایک منظم ومرتب پروگرام کے پابند تہے ۔ لہذا وہ پر ثمر و با ارزش زندگی سے بہرہ مند ہوئے ۔ مثال کے طور پر ہم دنیائے تشیع کی معروف شخصیت مرحوم شیخ انصاری  کی زندگی کے کچہ حصے کو بیان کر تے ہیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۳ ص  ۲ ۶ ۲

۸۳

مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

مرحوم شیخ  کی سیرت  میں سے یہ تہا کہ ان کی ماں ایک عبادت گزار خاتون تہیں جنہوں نے مرتے دم تک نماز شب تر ک نہیں کی ، مرحوم شیخ اپنی ماں کے لئے تہجد کے لوازم  و سائل خود انجام دیتے تہے حتی کہ ضرورت کے وقت ان کے لئے وضو کا پانی بہی گرم کر تے ، کیو نکہ ان کی والدہ اپنی عمر کے آخری ایام میں نابینا ہو گئیں تہیں ، لہذا شیخ انصاری انہیں مصلاّ پر کہڑا کرنے کے بعد خود نوافل شب میں مشغول ہوجاتے ۔

مرحوم شیخ کی ایک یہ عادت تہی کہ وہ تدریس سے واپس آنے کے بعد سب سے پہلے اپنی ماں کے پاس جاتے اور ان کا دل جیتنے کے لئے ان سے گفتگو کرتے اور لوگوں کی طرز زندگی اور حکایات کے بارے میں پوچہتے ،مزاح کرتے اور اپنی والدہ کو ہنساتے اور پہر عبادت ومطالعہ کے کمرے میں چلے جاتے ایک دن شیخ نے اپنی ماں سے کہا : آپ کو یاد ہے کہ جب میں مقدمات میں مشغول تہا اور آپ مجہے گہر کے کاموں کے لئے بہیجتی تہیں اور میں درس و مباحثہ کے بعد انہیں انجام دیتا تہا آپ ناراض ہو کر کہتی تہیں کہ میرا فر زند نہیں ہے اور اب تمہارا بہی فرزند نہیں ہے ؟ ماں نے مزاح میں کہا ہاں ! اب بہی کیو نکہ تم اس وقت گہر کی ضروریات کو پو را نہیں کرتے تہے اور اب تم اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو لیکن تم وجو ہات شرعیہ میں صرف جوئی اور ا  حتیاط سے مجہے تحت تاثیر قرار دیتے ہو ۔

۸۴

ایک روز ان کی ماں نے شیخ پر اعتراض کیا اور کہا ! اطراف کے شیعہ تمہارے پاس اتنی زیادہ مقدار میں وجو ہات شرعیہ لاتے ہیں تم اپنے بہائی منصور سے کچہ رعایت کیوں نہیں کرتے اور اسے لازم مخارج کیوں نہیں دیتے ۔

مرحوم شیخ نے فوراً اس کمرے کی چابی ماں کو دی کہ جس میں وجوہات شرعیہ رکہی تہی ، اور کہا آپ جتنا مناسب سمجہتی ہیں اپنے فرزند کو دے دیں ، لیکن روز قیامت آپ خود اس کا جواب دیں ۔

کیو نکہ وہ ایک صالحہ و عابدہ خاتون تہی ، انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور کہا کہ میں کبہی بہی اپنے بیٹے کی چند دن کی  فلاح کے لئے قیامت میں اپنے کو گرفتار و مبتلا نہیں کر وا نا چاہتی ۔

شیخ کی والدہ ۹ ۷ ۱۲   قمری کو نجف اشرف میں اس دنیا سے کو چ کر گئیں ۔ ان کی موت نے شیخ کی زندگی پر بہت گہرا صدمہ واثر چہوڑا ، یہاں تک کہ ان کے بعض اصحاب نے اعتراض کیا شیخ نے ان کے جواب میں فرمایا : میں اپنی ماں کی موت پر نہیں روتا ، بلکہ اس لئے روتا ہوں کہ ان کی وجہ سے مجہ پر سے بہت سی بلائیں اورمصیبتیں رفع ہو جاتی تہی ۔ خدا ان کے وجود کی وجہ سے مجہ پر رحم فرما تا تہا ۔

مرحوم شیخ انصاری اپنے منشور اور آئین میں اس حد تک احتیاط کرتے کہ ان کے استاد مرحوم  صاحب جواہر انہیں کثرت احتیاط سے منع فرماتے ۔

صاحب جواہر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ ایک ایسی مجلس کا اہتمام و انعقاد کیا جائے کہ جس میں نجف اشرف کے تمام جید علما شرکت کریں مجلس منعقد کی گئی لیکن ان میں شیخ انصاری موجود نہیں تہے ۔

۸۵

صاحب جواہر نے فرمایا کہ شیخ انصا ری کو بھی حاضر کریں تلاش کرنے کے بعد دیکھا گیا کہ شیخ انصاری حرم میں یا صحن مبارک میں روبہ قبلہ کھڑے ہو کر صاحب جواہر کی شفا یابی کے لئے دعا گو  تھے شیخ کی دعا کے بعد انہیں مجلس میں لے جا یا گیا ۔ صاحب جواہر نے شیخ کو اپنی بالین پر بیٹھا یا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر  ا پنے دل پر رکھا اور کہا :'' الآن طاب لیی الموت '' اب موت میرے لئے گوارا ہو گئی ہے اور حاضرین سے کہا کہ :'' هذا مرجعکم من بعدی '' یہ میرے بعد تمہارے مرجع ہیں ۔ اور شیخ سے فرمایا:'' قلل من احتیاطک ، فان الشریعة سهلة '' یعنی اپنی احتیاط کو کم کرو کیو نکہ اسلام آسان  دین ہے ۔

صاحب جواہر کا یہ عمل اس لئے تہا کہ شیخ کی شہرت اور زیادہ ہو جائے ور نہ مقام مرجعیت کے لئے یہ لازم نہیں کہ پہلے ولا مرجع کسی کو تعیین کرے حالانکہ صاحب جواہر نے انہیں کمتر احتیاط کرنے کی سفارش کی مگر مرحوم شیخ اپنی احتیاطات پر عمل کرتے چالیس میلین شیعوں کی طرف سے آنے والی وجوہات شرعیہ کے با وجود فقیرا نہ زندگی گزارتے حتی کہ اگر انہیں کوئی تخفہ یا ہدیہ کے عنوان سے کوئی مال دیتے تو وہ اس مال کو طلاب و ضرورت مندان میں تقسیم کر دیتے ۔ ان میں سے کچہ مال مشہد کے راستے ترکمانیوں کے ہاتہوں اسیر ہونے والے زواروں کی رہائی کے لئے بہیجتے ۔

مرحوم شیخ نے اپنے عبادی  پروگرام کو سن بلوغ سے آخر عمر تک بر قرار رکہا فرائض اور نوافل شب وروز ، ادعیہ اور تعقیبات کے علا وہ ہر روز ایک جزء قرآ ن ،نماز جعفر طیار ، زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ پڑہتے یہ شیعہ  مکتب کے ایک درخشان چہرے کے عملیپروگرام کا ایک حصہ تہا ۔

ہمارے مکتب کی تاریخ میں ایسے بہت سے نمونے ملیں گے بزرگان کی زندگی کے بارے میں پڑہ کر ان کی زندگی کے آئین  سے آشنائی حاصل کریں ۔

۸۶

نتیجۂ بحث

ہمارے مکتب کی بر جستہ و بزرگ شخصیات کی راہ و روش یہ تہی کہ وہ اپنی زندگی نظم و ضبط اور مرتب پروگرام کے تحت گزارتے تہے ۔ خاندان عصمت و طہارت  کے تمام پیروکارو شیدائی معنوی پیشرفت اور کائنات کے حقائق سے آشنائی کے لئے نظم وضبط قائم کریں اور ایک صحیح منشور کی پیروی کریں ۔

اسی لئے حضرت امیر المو منین نے اپنی وصیت میں ہمیں اور ہر اس شخص کو پیغام دیا کہ جو ان کی اور اپنی وصیت سے آگاہ ہونے والے ہر شخص کو پیغام دیا کہ تقویٰ و پر ہیز گاری اختیار کرو اور امور میں نظم رکہو ، لہذا ہمیں ایک منظم و مرتب پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کرنا چاہیئے تا کہ سر گردا نی تضاد اور اندرونی تشویش سے نجات پاکر بہتر مستقبل کو حاصل کر سکیں ۔

آپ اپنے مستقبل کی فکر کریں روشن مستقبل کے حصول کے لئے منظم پروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں نیز کوشش کریں کہ اپنے آئین و منشور کے ذریعہ اہل بیت اطہار  کے جا ویدانی و حیات بخش مکتب کی تبلیغ و ترویج کریں ۔ اس صورت میں آپ کی زندگی کے لمحات صفا و معنویت کی اوج پر پہنچ جائیں گے اور روحی و معنوی راہ کے تکامل میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

از جہان عبرت انگیز                     این  در سخن بہ گوشت آویز

خواہی بکمال راہ یا بی               با صبغہ نظم ، عمل بیا میز

دنیا سے عبرت حاصل کرواور اس قیمتی بات کو اپنے ذہن میں بٹہا لو۔اگر کمال تک پہنچنا چاہو تو نظم و ضبط اور منظم پروگرام کے ذریعہ عمل انجام دو۔

۸۷

چھٹاباب

وقت  سے  استفادہ  کرنا

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' تدارک فی آخر عمرک ما اضعته فی اوّله تسعد بمنقلبک ''

جس چیز کو ماضی میں نابود و تلف کردیا ہو اس کا مستقبل میں جبران کرو تا کہ روز قیامت سعادت مند ہو جاؤ ۔

    وقت سے استفادہ کرنا

    علامہ مجلسی کا وقت سے استفادہ کر نا

    وقت ضائع نہ کریں

    بیکاری کا نتیجہ

    وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی

    اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

    دوسروں کے ماضی سے سبق سیکہیں

    اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

    فرصت سے استفادہ کریں

    آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

    نتیجہ ٔ بحث

۸۸

وقت  سے  استفادہ  کرنا

انسان محدود زندگی کا مالک ہے اس کے بر عکس اسرار و علوم اور اطلاعات کی ایک دنیا ہے ۔ ہمارا محدود ذہن حیاتی مسائل ، ارزش مند موضوعات اور دیگر تمام امور کو کس طرح احاطہ کر سکتا ہے ؟ ہماری فکر محدود ہے اس محدود مدت میں ہمیں زندگی کے مہم امور کو اہمیت دینی چا ہئے اور بے ارزش مسائل کی طرف توجہ نہیں کرنا چا ہئے ۔

بے جا تفریحات ، بے ارزش کتب کا مطالعہ ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف پروگرامز بہت آسانی سے ذہن اور فکر کو مشغول کر تے ہیں اور اسے زندگی کے اہم امور کی جانب توجہ دینے سے روکتے ہیں عالی اہداف کے حصول کے لئے ایسے بے ارزش امور سے چشم پوشی کریں اور اپنے ذہن کو ان چیزوںمیں مشغول نہ کریں تا کہ مہم امور کو وقت دے سکیں ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' احذروا ضیاع الاعمار فیما لا یبقیٰ لکم فغائتها لا یعود ''(۱)

اپنی عمر کو ان چیزوں میں ضائع کرنے سے گریز کریں کہ جو آپ کے لئے باقی نہیں رہتیں کیو نکہ گزری ہوئی زندگی واپس نہیں آتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ص  ۲ ۸ ۲

۸۹

آپ ابہی سے یہ تعہد کریں کہ آ پ کا مستقبل ، ماضی کی بنسبت بہتر ہو اور

اگر آپ اپنے ماضی پر پشیمان ہوں تو کوئی ایسا کام نہ کریں کہ مستقبل میں بہی افسوس و پشیمانی کا سامناہو۔

 حضرت امیرالمومنین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' بادر الفرصة قبل ان تکون غصة '' (۱)

فرصت سے استفادہ کریں اس سے پہلے کہ پشیمانی و افسوس ہو  ۔

جہاں پر بھی ضرر کا اندیشہ ہو ، وہاں سے واپس لوٹنے میں ہی آپ کے لئے فائدہ ہے پس آپ جہاں بھی ہوں ، سعی و کوشش کریں کہ آنے والا وقت ، گزرے ہوئے وقت سے بہتر ہو ،آپ وقت اور فرصت سے استفادہ کریں ، جب تک مہلت ہو اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور سے  استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۹۰

علامہ مجلسی کا وقت  سے استفادہ کر نا

تاریخ کے نامور معروف اور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اور خدا پسندانہ کردار کے ذریعہ وقت سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا اور اپنے نام کو نیک و جاویدان بنا یا ۔ آپ بہی شائستہ اعمال اورنیک کردار کے ذریعہ ااور زندگی کے لمحات سے استفادہ کرتے ہوئے دائمی نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں ۔

حضرت امیر المومنین (و)  فر ماتے ہیں :

'' الایّام صحائف آجالکم فخلّدوها احسن اعمالکم ''(۱)

ایام تمام اموات کے لئے صحائف کی طرح ہیں پس نیک اعمال کے ذریعہ انہیں جا ویدان بناؤ ۔

علامہ مجلسی ایک بے نظیر شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اس طرح عمل کیا اور اپنے نام کو جاویداں بنایا ۔انہوں نے اپنی گرانبہا زندگی سے بہت بہتر طریقے سے استفادہ کیا اور وقت و فرصت کو اعلیٰ طریقے سے استعمال میں لائے علامہ مجلسی حامی دین اسلام ، مجدد شرایع و سنن رسول اکرم(ص) اور اہل بیت  کے آثار کو زندہ کرنے والے ہیں انہوں  نے اپنے قلم سے اسلام و مسلمین کی خدمت کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ص  ۱۲۰

۹۱

مرحوم علامہ بحر العلوم سے نقل ہوا ہے کہ ان کی آرزو تہی کہ ان کی تمام تالیفات مجلسی کے دیوان عمل میں درج ہوں اور اس کے عو ض ان کی فارسی کتب میں سے ایک کتاب ان کے دیوان عمل میں درج کی جائے ۔  مرحوم علامہ مجلسی کی فارسی کتب کے فارسی زبان والوں کے دلوںپر بہت گہرے اثرات ہیں ۔

ایک دن صاحب جواہر نے جلسہ درس میں فرمایا کہ کل رات ایک خواب دیکہا کہ جیسے کسی بہت بڑی مجلس میں داخل ہوا ہوں کہ جس میں علماء کا گروہ جمع ہے ، دروا زے پر دربان کہڑاتہا ، اس کی اجازت سے مجلس میں وارد ہوا اور دیکہا کہ وہاں متاخرین و متقدمین علماء تشریف فرما ہیں اور  مجلس کی صدارت علامہ مجلسی فرما رہے ہیں میں نے تعجب کیا ور در بان سے ان کے تمام علماء پر مقدم ہونے کی علت دریافت کی ، اس نے کہا کیو نکہ آئمہ معصومین  کے نزدیک علامہ مجلسی باب العلماء کے نام سے معروف ہیں ۔

علامہ مجلسی کے شاگردوں کی تعداد ہزار افراد سے زیادہ تہی علامہ مجلسی سن۷ ۳ ۱۰ میں متولد ہوئے ستائیس رمضان سن  ۰ ۱۱۱   کی رات دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ ان کی قبر مبارک جامع مسجد اصفہان میں ان کے والد کی قبر کے نزدیک واقع ہے جو لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہے ۔

جی ہاں ، علامہ مجلسی نے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی نیک کردار ،بہترین کتب کی تالیف اور مکتب اہل بیت  کی ترویج میں بسر کی اور رہتی دنیاتک اپنے نام کو درخشاں اور زندہ و جاوید بناگئے ۔

۹۲

وقت ضائع نہ کریں

انسان حدود و قیود میں محدود و مقید ہے ان میں سے ایک قید زمان ہے ہمارے تمام بزرگان نے محدود زمان میں پیشرفت و تر قی کی اور اعلیٰ اہداف کو حاصل کیا  اگر ہم نے گزشتہ زندگی ، ان کے مطابق نہیں گزاری تو باقی ماندہ مہلت کو کافی جان کر اس کی اہمیت و ارزش کو سمجہیں ۔

فرصت غنیمت است حریفان در این چمن

فردا ست ہمچو گل ہمہ بر باد رفتہ چمن

ہم زندگی کے لمحات کو گزار رہے ہیں اور آہستہ آ ہستہ مہلت کو ہاتہ سے کہو رہے ہیں ۔ عقل مند اور ذہین وہ ہے کہ جو فراغت کو غنیمت شمار کر کے اس سے بہترین طریقے  سے استفادہ کرے ۔

 حضرت امیر المومنین  علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' لوصحّ العقل لا غتنم کلّ امرئٍ مهلة ''(۱)

اگر عقل سالم ہو تو ہر شخص موجود مہلت کو غنیمت شمار کر تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۲ ۱ ۱

۹۳

ہمیں اس امر کی جانب متوجہ رہنا چاہیئے کہ وقت ہماری زندگی کا اہم ترین سر مایہ ہے عقل اس حقیقت کی شاہد ہے اسی وجہ سے ہر انسان کو مہلت اور فرصت کو غنیمت  سمجہ کر اس سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔

 آنچہ ندارد عوض ای ہوشیار        عمر عزیز است غنیمت شمار

جس چیز کا کوئی عوض نہیں ہے وہ انسان کی زندگی ہے لہذا اسے غنیمت شمار کرو ۔

جی ہاں ! اہلبیت اطہار  علیہم  السلام  نے وقت کی اہمیت و ارزش کے بارے میں بہت سے ارشادات وفرامین بیان فر مائے ہیں انہوں نے اپنے ارشادات میں ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اپنی زندگی کے لحظات کے بارے میں ہوشیار رہیں اور زندگی کے کسی لمحے کو بہی استفادہ کئے بغیر نہ گزاریں۔ نیز توجہ کریں کہ ہم  جس لمحے کو بہی گزار دیں تو اسی قدر ہماری زندگی کم ہو جاتی ہے ۔

حضرت امیر المومنین  علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' العمر تفنیته اللحظات ''(۱)

لحظات کا گزرنا عمر کو فانی بناتا ہے  ۔

ہمارے سانس لینے اور لمحات کے گزر نے سے ہماری زندگی بتدریج  کم  ہوتی جاتی ہے ۔

روز را رایگان زدست مدہ               نیست امید آن کہ باز رسد

کسی بہی دن کو رائیگاں نہ جانے دو ۔ کیو نکہ اس کے دوبارہ واپس آنے کی امید نہیں ہے ۔

جو اپنے دن رات، نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے میں گزارتے ہیں اور وقت کو ضائع کرنے اور زندگی کو تلف کرنے سے گریز کر تے ہیں وہ اپنے صحیفہ اعمال میں درخشاںصفحات کا اضافہ کرتے ہیں اور ابدی و جاویداں  نتیجہ حاصل کر تے ہیں ۔

کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بہی ایسے افراد میں سے ہوں ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم :ج۱  ص۲ ۹

۹۴

بیکاری کا نتیجہ

بیکار شخص کا کوئی ہدف و مقصد نہیں ہوتا کہ جس کے حصول کی وہ کوشش و ہمت کرے ۔ لہذا وہ بیکار بیٹہا رہتا ہے وہ اپنا قیمتی وقت خیا لات ، توہمات یا بے فائدہ و حرام گفتگو میں گزار تا ہے اور اپنے دل کو شیاطین کی آماج گاہ قرار دیتا ہے ۔ با ایمان شخص کو کبہی بہی بیکار نہیں بیٹہنا چاہیئے تا کہ اس کا دل شیاطین کی جائیگاہ اور اس کا ذہن زشت اور پست افکار کا مرکز قرار نہ پائے ۔

حضرت امیر المو منین (ع) اپنے کلمات قصار میں فرماتے ہیں :

'' المومن مشغول وقته ''(۱)

مومن کا وقت ہمیشہ مشغول ہے  ۔  یعنی مومن ہمیشہ مصروف رہتا ہے ۔

کیو نکہ وہ یا ضروریات زندگی کو مہیا کرنے کے لئے مادی کا موں میں مشغول ہو تا ہے یا پہر خداوند کریم کی عبادت و ذکر سے اپنی آخرت کو آباد کر تا ہے ۔ اتنی مصروف زندگی کے باعث اسے ناشائستہ اور زشت اعمال کو ا نجام دینے کی فرصت نہیں ہو تی ۔ اکثر وبیشتر افراد بیکاری و فراغت کے وجہ سے برے کاموں کے مرتکب اور غلطیوں میں مبتلا ہو تے ہیں ۔

مخصوصاً جوانوں کو کبھی بیکار اور فارغ نہیں بیٹھنا چاییئے تا کہ ان کے لئے غلط کا موں کو انجام دینے کا ذریعہ و وسیلہ فراہم نہ ہو ۔روایات میں وارد ہو اہے :'' انّ اللّٰه یبغض الشباب الفارغ '' خداوند تعالی بے کار اور فارغ جوانی سے عداوت رکھتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۵ ۲ ۳

۹۵

 وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی

ہم نے جو کچہ عرض کیا ، اس کی بناء پر اس مہم ترین نکتہ کی جانب توجہ کریں کہ وقت گزارنا اور ضروری برناموں میں آج کا کام کل پر چہوڑ نا اور ضروری کاموں کو انجام دینے میں تاخیر کرنا انسان کے لئے بہت سے محرومیوں کا باعث ہے ۔

یہ جان لیں کہ ہمارا گزرا ہوا کل اور آج ، ہمارے آنے والے کل کے لئے ثمر ہے ۔ ماضی اور حال ایک جڑ کی طرح ہمارے مستقبل کی زندگی کے درخت کو تشکیل دیتا ہے ۔

مکن در کار ہا زنہا ر تاخیر         کہ در تاخیر آفتہا ست جانسوز

بفرد ا افکنی امروز کارت        ز کند بہای طبع حیلت آموز

قیاس امروز گیر از کار فردا            کہ ہست امروز تو فردای دیروز

اپنے کاموں میں ایک دن کی بہی تاخیر نہ کرو کہ اس تاخیر میں زندگی کو بر باد کرنے والی آفات ہیں آپ اپنے آج کے کام کو کل پر نہ چہوڑیں بلکہ آ ج ہی انجام دیں کیو نکہ آپ کا آج گزرے ہوئے کل میں آنے والا کل تہا ، یعنی آپ نے گزشتہ کل بہی یہ ہی کہاتہا کہ آ پ آج وہ کام انجام دیںگے مگر آج بہی گزر گیا لہذا کبہی بہی اپنا آج کا کام کل پر نہ چہوڑو ۔

زندگی اور وقت کو تلف کرنے سے آپ نہ صرف اپنے ماضی سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے ہیں ، بلکہ اپنے مستقبل کو بہی بے ثمر بناتے ہیں ۔ در حقیقت اتلاف وقت کو تدریجی خود کشی سمجہیں ۔

۹۶

اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

دنیا کے اتار ، چڑہاؤ اور سر د و گرم سے عبرت لینا بزرگ شخصیات کی صفات میں سے ہے وہ دوسروں کے حالات زندگی کی بررسی اور اپنے گزشتہ امور پر دقت سے بہت بڑا سبق لیتے ہیں اور اسی کی بناء پر وہ اپنے  مستقبل  کو بہتربناتے ہیں وہ اپنے اور دوسروں کے ماضی سے عبرت لے کر اپنے مستقبل  کو روشن و درخشاں  بناتے ہیں ۔

اپنے گزرے ہوئے وقت اور فراغت کے گزرے ہوئے لمحات سے عبرت لینا بقیہ زندگی کی قیمت و ارزش کو روشن کر تا ہے اور انسان کو متنبہ کر تا ہے کہ اپنے مستقبل کو بہی ماضی کی طرح تباہ نہ کرے اور اپنی باقی ماندہ زندگی سے ایسا نتیجہ حاصل کرے  کہ گزرے ہوئے وقت کا جبران  ہو  سکے۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرما تے ہیں :

'' لو اعتبرت بما اضعت من ماضی عمرک لحفظت مابقی '' (۱)

اگر اپنے ماضی سے عبرت لو گے کہ جسے تم نے ضائع کردیا تہا تو تم اپنی بقیہ زندگی کو محفوظ کر سکتے ہو ۔

اگر آپ نے ابہی تک اپنی زندگی کے بہت سے لحظات و لمحات سے مستفیض و مستفید ہوئے بغیر گزار دیئے ہوں تو اپنی بقیہ زندگی کی بیشتر اہمیت و ارزش کے قائل ہوں اور بے حا صل ماضی کا با برکت وروشن مستقبل کے ذریعہ جبران کریں ۔ اگر آپ نے گزشتہ زندگی کو رایگاں گزار دیا ہو تو اپنی بقیہ زندگی کی زیادہ قدر کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم :ج۵ ص  ۵ ۱۱

۹۷

دوسروں کے ماضی سے سبق سیکھیں

ہم نے تجر بہ کی بحث میں عرض کیا کہ ہم نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے تجربات سے بہی سبق سیکہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں اور مکتب تشیع کی بزرگ شخصیات کے بارے میں بررسی کریں ۔ ان کی فعالیت و تجربات اور ان کی فردی و اجتماعی کو ششوں سے استفادہ کریں ۔

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کے فوائد میں سے ایک وقت سے فائدہ اور فراغت سے استفادہ کرنا ہے دوسرے جس راستے پر چلے ، دوسروں نے جو بر نامے انجام دینے اور انہوں نے جو نتیجہ حاصل کیا ، ہمیں ان سے تجر بہ لینا چاہیئے ۔ گزشتگان کی راہ و روش اور ان کے پسندیدہ کاموںکو بہتر اور جلد اپنائیں اور انہوں نے جس غلط راستے اور کا موں کا مشاہدہ کیا ، انہیں ترک کریں ۔ اپنی قیمتی زندگی کو غلط کا موں میں  تجربہ کر کے ضائع نہ کریں کہ جسے دوسروں نے انجام دیا ہو ۔

جس چیز کے بارے میں ہمیں مکمل آشنائی نہ ہو ، اس کے بارے میں تجربات سے اپنی زندگی   تلف نہ کریں بلکہ گذشتگان کے حالات زندگی اور ان کے بارے میں مطالعہ سے اس کام کے نتیجہ کو حاصل کریں ۔ دوسروں کے اشتباہات کو تکرار کر کے اپنی زندگی کی قیمتی گہڑیوں کو ضائع نہ کریں ۔ عظیم لوگ وہ ہیں کہ جو اپنی کوششوں سے تاریخ کو متحول کریں نہ کہ وہ جو دوسروں کی غلطیوں کو دہرا کر تاریخ کو دہرائیں

پس دوسروں کی غلط راہوں کے بارے میں آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ جنہیں دوسروں نے انجام دیا ہے آپ اپنا قیمتی وقت ان غلط پروگراموں کو تکرار کرکے ضائع  نہ کریں ۔

۹۸

اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

بہت سے لوگ اپنی  زندگی کے با ارزش لمحات کو مختلف کاموں اور فعالیت میں گزار تے ہیں سستی و کاہلی سے گریز کرتے ہیں اور کوشش و تلاش کے لئے ہاتہ پاؤں مارتے ہیں ۔ لیکن اپنی سر مایہ زندگی سے نہ تو کوئی سود حاصل ہو تا ہے اور نہ ہی ان کی زحمات کا کوئی ثمر و فائدہ ہو تا ہے ۔

اس بارے میں حضرت امیر المو منین (ع) فر ماتے ہیں :

'' یفنی عمره فی منفعتة غیره ''(۱)

اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں گنوا دیتے ہیں  ۔

دنیا کے اجتماع میں بہت سے کاریگر ، طالب  علم اور مادی ا مور میں کمی و پریشان حال افراد ایسے ہی افراد میں سے ہیں ۔

وہ بہت سی زحمات ، سختیاں اور تلخیاں برداشت کر تے ہیں مگر ان کی کوششوں کا کو ئی ماحصل نہیں ہو تا ۔ وہ دوسروں کے ہاتہوں استعمال ہوتے ہیں کائنات میں بہت سے ایسے مظلومین ہیں کہ جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم سے بہی آگاہ نہیں ہیں ۔

 حضرت امیر المو منین (ع) جو کہ مظلومین کے داد رس اور رنجیدہ لوگوں کی

پناہگار ہیں ، اپنے مختصر سے کلام میں تمام لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں ضائع نہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۶۱ ۲

۹۹

فرصت سے استفادہ کریں

عالی اہداف تک پہنچنے والی تمام بزرگ شخصیات کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سے کامیابیاں حاصل کیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی سے استفادہ کیا اور وقت کو غنیمت سمجہا انہوں نے وقت کو تلف کرنے سے گریز کیا اور فرصت و فراغت سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا ۔

تمام لوگوں کو فراغت کے لمحات میسر آتے ہیں ۔ لیکن انہیں غنیمت سمجہ کر ان سے عالی طور پر مستفید ہونا چاہئے ۔

لیکن  افسوس  سے  کہنا  پڑتا  ہے  کہ ہمارے معاشرے میں یہ  صورت  حال ہے کہ وقت کی اہمیت کے بارے میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور فرصت کے ایام ضائع ہو جاتے ہیں اگر ان کے ضائع ہونے کے بعد ان کی طر ف متوجہ ہوں اور اس پر پشیمان ہوں  تو پہر اس پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' الفرص خلس '' (۱) فرصت سے مراد کسی چیز کو جذب کرنا ہے ۔

یعنی میدان عمل میں فرصت کو سعا دت سے گزاریں ۔ فراغت بہت جلد گزر جا تی ہے لیکن فرصت کے ایام ضائع کرنے کے بعد پچہتا نے کا کیا فائدہ ہے ؟ ہماری زندگی کا ہر دن اور ہر لمحہ ہمارے لئے فرصت ہے کہ اسے غنیمت سمجہ کر اس سے استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۱ص  ۴۹

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259