کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 123%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153280 / ڈاؤنلوڈ: 4716
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

مختلف تخیلات و افکار کی وجہ سے عمو ماً نو جوان امور میں نظم وضبط اور پروگرام تشکیل دینے کی مکمل قدرت نہیں رکہتے ان کے سر پرست روزا نہ کے پروگرام کو منظم کرنے میں ان کی مدد کریں تا کہ عمر کے لحاظ سے رشد پانے کے ساتہ ساتہ انہیں امور میں نظم و ضبط بر قرار کرنے کی قدرت بہی حاصل ہو جائے ۔

جب جوانوں میں پینتیس سال کی عمر میں اندرونی تضاد اور جنسی و شہوانی خواہشات میں کمی آجاتی ہے تو ان کے لئے اس دور میں منظم پروگرام  اور نظم کی پیروری کرنا آسان ہو جا تاہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان انسان کے نفسانی امور پر اس کے جسمانی حالات کی کیفیت و تاثیر کی تشریح کر تا ہے ۔

'' قال مو لانا الرضا صلٰوات اللّٰه علیه فی الرسالة الذهبیّة ثمّ یدخل فی الحالة الثالثة الیٰ ان تتکامل مدّة العمر ستین سنة فیکون فی سلطان المرّ ة السّوداء وهی سنّ الحکمة والموعظة وا لمعرفة والدرایة و انتظام الامور وصحّة النظر فی العواقب و صدق الرّأ یی ''(۱)

پہر انسان اپنی تیسری حالت ، یعنی پینتیس سال سے ساٹہ سال کی عمر تک ، میں سوداء انسان پر مسلط ہو تا ہے اور یہ حکمت و موعظہ ، معرفت و درایت کا دور ہو تا ہے ۔ اسی طرح یہ امور میں نظم وضبط اور انسان کی صحیح دور اندیشوں اور درست رائے کا وقت ہو تا ہے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار :ج۶۲ ص ۷ ۱ ۳

۸۱

اس بناء پر انسان اپنی زندگی کے تیسرے مرحلہ میں داخل ہونے سے پہلے صحیح پروگرام اور نظم و ضبط کا زیادہ نیاز مند ہو تا ہے تا کہ اس دوران نفسانی تحرکات سے واقع ہونے والے انحرافی مسائل سے محفوظ رہا جا سکے اور جوانان و نو جوانان کی حیاتی مسائل کی طرف ہدایت و راہنمائی ہو ۔

حضرت امام رضا (ع) زندگی کے تیسرے حصے ، یعنی ساٹہ سال کی عمر تک کو انتظام امور کا دور قرار دیتے ہیں اور اس دور کو معارف و حکمت کے حصول کا زمان سمجہتے ہیں امام کے فرمان کی  رو سے اس وقت انسان کو اس طرح سے پیش آنا چا ہیئے کہ اپنے آئندہ کے کا موں کو صحیح طور پر پرکہ سکے اور اس کی رائے و عقیدہ بہی درست ہو ۔

۸۲

نظم و ضبط

وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

زندگی کے لمحات اور وقت کو ضائع نہ کرنے کے لئے ایک منظم پروگرام تر تیب دیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تعہد کریں اگر آپ کے اصل اعمال صحیح ہو اور

صحیح و مرتب  پروگرام کے مطابق عمل کریں تو آپ کی زندگی با بر کت و خوشگوار ہو گی ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' برکة العمر فی حسن العمل '' (۱)

زندگی کی برکت ، عمل کی اچہائی میں ہے ۔

عمل کی اچہائی صرف اصل عمل کے نیک ہو نے پر ہی نہیں ، بلکہ اس کی روش کے نیک ہونے پر بہی دلالت کر تی ہے ۔اسی وجہ سے ہمارے بزرگان ایک منظم ومرتب پروگرام کے پابند تہے ۔ لہذا وہ پر ثمر و با ارزش زندگی سے بہرہ مند ہوئے ۔ مثال کے طور پر ہم دنیائے تشیع کی معروف شخصیت مرحوم شیخ انصاری  کی زندگی کے کچہ حصے کو بیان کر تے ہیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۳ ص  ۲ ۶ ۲

۸۳

مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

مرحوم شیخ  کی سیرت  میں سے یہ تہا کہ ان کی ماں ایک عبادت گزار خاتون تہیں جنہوں نے مرتے دم تک نماز شب تر ک نہیں کی ، مرحوم شیخ اپنی ماں کے لئے تہجد کے لوازم  و سائل خود انجام دیتے تہے حتی کہ ضرورت کے وقت ان کے لئے وضو کا پانی بہی گرم کر تے ، کیو نکہ ان کی والدہ اپنی عمر کے آخری ایام میں نابینا ہو گئیں تہیں ، لہذا شیخ انصاری انہیں مصلاّ پر کہڑا کرنے کے بعد خود نوافل شب میں مشغول ہوجاتے ۔

مرحوم شیخ کی ایک یہ عادت تہی کہ وہ تدریس سے واپس آنے کے بعد سب سے پہلے اپنی ماں کے پاس جاتے اور ان کا دل جیتنے کے لئے ان سے گفتگو کرتے اور لوگوں کی طرز زندگی اور حکایات کے بارے میں پوچہتے ،مزاح کرتے اور اپنی والدہ کو ہنساتے اور پہر عبادت ومطالعہ کے کمرے میں چلے جاتے ایک دن شیخ نے اپنی ماں سے کہا : آپ کو یاد ہے کہ جب میں مقدمات میں مشغول تہا اور آپ مجہے گہر کے کاموں کے لئے بہیجتی تہیں اور میں درس و مباحثہ کے بعد انہیں انجام دیتا تہا آپ ناراض ہو کر کہتی تہیں کہ میرا فر زند نہیں ہے اور اب تمہارا بہی فرزند نہیں ہے ؟ ماں نے مزاح میں کہا ہاں ! اب بہی کیو نکہ تم اس وقت گہر کی ضروریات کو پو را نہیں کرتے تہے اور اب تم اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو لیکن تم وجو ہات شرعیہ میں صرف جوئی اور ا  حتیاط سے مجہے تحت تاثیر قرار دیتے ہو ۔

۸۴

ایک روز ان کی ماں نے شیخ پر اعتراض کیا اور کہا ! اطراف کے شیعہ تمہارے پاس اتنی زیادہ مقدار میں وجو ہات شرعیہ لاتے ہیں تم اپنے بہائی منصور سے کچہ رعایت کیوں نہیں کرتے اور اسے لازم مخارج کیوں نہیں دیتے ۔

مرحوم شیخ نے فوراً اس کمرے کی چابی ماں کو دی کہ جس میں وجوہات شرعیہ رکہی تہی ، اور کہا آپ جتنا مناسب سمجہتی ہیں اپنے فرزند کو دے دیں ، لیکن روز قیامت آپ خود اس کا جواب دیں ۔

کیو نکہ وہ ایک صالحہ و عابدہ خاتون تہی ، انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور کہا کہ میں کبہی بہی اپنے بیٹے کی چند دن کی  فلاح کے لئے قیامت میں اپنے کو گرفتار و مبتلا نہیں کر وا نا چاہتی ۔

شیخ کی والدہ ۹ ۷ ۱۲   قمری کو نجف اشرف میں اس دنیا سے کو چ کر گئیں ۔ ان کی موت نے شیخ کی زندگی پر بہت گہرا صدمہ واثر چہوڑا ، یہاں تک کہ ان کے بعض اصحاب نے اعتراض کیا شیخ نے ان کے جواب میں فرمایا : میں اپنی ماں کی موت پر نہیں روتا ، بلکہ اس لئے روتا ہوں کہ ان کی وجہ سے مجہ پر سے بہت سی بلائیں اورمصیبتیں رفع ہو جاتی تہی ۔ خدا ان کے وجود کی وجہ سے مجہ پر رحم فرما تا تہا ۔

مرحوم شیخ انصاری اپنے منشور اور آئین میں اس حد تک احتیاط کرتے کہ ان کے استاد مرحوم  صاحب جواہر انہیں کثرت احتیاط سے منع فرماتے ۔

صاحب جواہر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ ایک ایسی مجلس کا اہتمام و انعقاد کیا جائے کہ جس میں نجف اشرف کے تمام جید علما شرکت کریں مجلس منعقد کی گئی لیکن ان میں شیخ انصاری موجود نہیں تہے ۔

۸۵

صاحب جواہر نے فرمایا کہ شیخ انصا ری کو بھی حاضر کریں تلاش کرنے کے بعد دیکھا گیا کہ شیخ انصاری حرم میں یا صحن مبارک میں روبہ قبلہ کھڑے ہو کر صاحب جواہر کی شفا یابی کے لئے دعا گو  تھے شیخ کی دعا کے بعد انہیں مجلس میں لے جا یا گیا ۔ صاحب جواہر نے شیخ کو اپنی بالین پر بیٹھا یا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر  ا پنے دل پر رکھا اور کہا :'' الآن طاب لیی الموت '' اب موت میرے لئے گوارا ہو گئی ہے اور حاضرین سے کہا کہ :'' هذا مرجعکم من بعدی '' یہ میرے بعد تمہارے مرجع ہیں ۔ اور شیخ سے فرمایا:'' قلل من احتیاطک ، فان الشریعة سهلة '' یعنی اپنی احتیاط کو کم کرو کیو نکہ اسلام آسان  دین ہے ۔

صاحب جواہر کا یہ عمل اس لئے تہا کہ شیخ کی شہرت اور زیادہ ہو جائے ور نہ مقام مرجعیت کے لئے یہ لازم نہیں کہ پہلے ولا مرجع کسی کو تعیین کرے حالانکہ صاحب جواہر نے انہیں کمتر احتیاط کرنے کی سفارش کی مگر مرحوم شیخ اپنی احتیاطات پر عمل کرتے چالیس میلین شیعوں کی طرف سے آنے والی وجوہات شرعیہ کے با وجود فقیرا نہ زندگی گزارتے حتی کہ اگر انہیں کوئی تخفہ یا ہدیہ کے عنوان سے کوئی مال دیتے تو وہ اس مال کو طلاب و ضرورت مندان میں تقسیم کر دیتے ۔ ان میں سے کچہ مال مشہد کے راستے ترکمانیوں کے ہاتہوں اسیر ہونے والے زواروں کی رہائی کے لئے بہیجتے ۔

مرحوم شیخ نے اپنے عبادی  پروگرام کو سن بلوغ سے آخر عمر تک بر قرار رکہا فرائض اور نوافل شب وروز ، ادعیہ اور تعقیبات کے علا وہ ہر روز ایک جزء قرآ ن ،نماز جعفر طیار ، زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ پڑہتے یہ شیعہ  مکتب کے ایک درخشان چہرے کے عملیپروگرام کا ایک حصہ تہا ۔

ہمارے مکتب کی تاریخ میں ایسے بہت سے نمونے ملیں گے بزرگان کی زندگی کے بارے میں پڑہ کر ان کی زندگی کے آئین  سے آشنائی حاصل کریں ۔

۸۶

نتیجۂ بحث

ہمارے مکتب کی بر جستہ و بزرگ شخصیات کی راہ و روش یہ تہی کہ وہ اپنی زندگی نظم و ضبط اور مرتب پروگرام کے تحت گزارتے تہے ۔ خاندان عصمت و طہارت  کے تمام پیروکارو شیدائی معنوی پیشرفت اور کائنات کے حقائق سے آشنائی کے لئے نظم وضبط قائم کریں اور ایک صحیح منشور کی پیروی کریں ۔

اسی لئے حضرت امیر المو منین نے اپنی وصیت میں ہمیں اور ہر اس شخص کو پیغام دیا کہ جو ان کی اور اپنی وصیت سے آگاہ ہونے والے ہر شخص کو پیغام دیا کہ تقویٰ و پر ہیز گاری اختیار کرو اور امور میں نظم رکہو ، لہذا ہمیں ایک منظم و مرتب پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کرنا چاہیئے تا کہ سر گردا نی تضاد اور اندرونی تشویش سے نجات پاکر بہتر مستقبل کو حاصل کر سکیں ۔

آپ اپنے مستقبل کی فکر کریں روشن مستقبل کے حصول کے لئے منظم پروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں نیز کوشش کریں کہ اپنے آئین و منشور کے ذریعہ اہل بیت اطہار  کے جا ویدانی و حیات بخش مکتب کی تبلیغ و ترویج کریں ۔ اس صورت میں آپ کی زندگی کے لمحات صفا و معنویت کی اوج پر پہنچ جائیں گے اور روحی و معنوی راہ کے تکامل میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

از جہان عبرت انگیز                     این  در سخن بہ گوشت آویز

خواہی بکمال راہ یا بی               با صبغہ نظم ، عمل بیا میز

دنیا سے عبرت حاصل کرواور اس قیمتی بات کو اپنے ذہن میں بٹہا لو۔اگر کمال تک پہنچنا چاہو تو نظم و ضبط اور منظم پروگرام کے ذریعہ عمل انجام دو۔

۸۷

چھٹاباب

وقت  سے  استفادہ  کرنا

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' تدارک فی آخر عمرک ما اضعته فی اوّله تسعد بمنقلبک ''

جس چیز کو ماضی میں نابود و تلف کردیا ہو اس کا مستقبل میں جبران کرو تا کہ روز قیامت سعادت مند ہو جاؤ ۔

    وقت سے استفادہ کرنا

    علامہ مجلسی کا وقت سے استفادہ کر نا

    وقت ضائع نہ کریں

    بیکاری کا نتیجہ

    وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی

    اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

    دوسروں کے ماضی سے سبق سیکہیں

    اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

    فرصت سے استفادہ کریں

    آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

    نتیجہ ٔ بحث

۸۸

وقت  سے  استفادہ  کرنا

انسان محدود زندگی کا مالک ہے اس کے بر عکس اسرار و علوم اور اطلاعات کی ایک دنیا ہے ۔ ہمارا محدود ذہن حیاتی مسائل ، ارزش مند موضوعات اور دیگر تمام امور کو کس طرح احاطہ کر سکتا ہے ؟ ہماری فکر محدود ہے اس محدود مدت میں ہمیں زندگی کے مہم امور کو اہمیت دینی چا ہئے اور بے ارزش مسائل کی طرف توجہ نہیں کرنا چا ہئے ۔

بے جا تفریحات ، بے ارزش کتب کا مطالعہ ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف پروگرامز بہت آسانی سے ذہن اور فکر کو مشغول کر تے ہیں اور اسے زندگی کے اہم امور کی جانب توجہ دینے سے روکتے ہیں عالی اہداف کے حصول کے لئے ایسے بے ارزش امور سے چشم پوشی کریں اور اپنے ذہن کو ان چیزوںمیں مشغول نہ کریں تا کہ مہم امور کو وقت دے سکیں ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' احذروا ضیاع الاعمار فیما لا یبقیٰ لکم فغائتها لا یعود ''(۱)

اپنی عمر کو ان چیزوں میں ضائع کرنے سے گریز کریں کہ جو آپ کے لئے باقی نہیں رہتیں کیو نکہ گزری ہوئی زندگی واپس نہیں آتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ص  ۲ ۸ ۲

۸۹

آپ ابہی سے یہ تعہد کریں کہ آ پ کا مستقبل ، ماضی کی بنسبت بہتر ہو اور

اگر آپ اپنے ماضی پر پشیمان ہوں تو کوئی ایسا کام نہ کریں کہ مستقبل میں بہی افسوس و پشیمانی کا سامناہو۔

 حضرت امیرالمومنین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' بادر الفرصة قبل ان تکون غصة '' (۱)

فرصت سے استفادہ کریں اس سے پہلے کہ پشیمانی و افسوس ہو  ۔

جہاں پر بھی ضرر کا اندیشہ ہو ، وہاں سے واپس لوٹنے میں ہی آپ کے لئے فائدہ ہے پس آپ جہاں بھی ہوں ، سعی و کوشش کریں کہ آنے والا وقت ، گزرے ہوئے وقت سے بہتر ہو ،آپ وقت اور فرصت سے استفادہ کریں ، جب تک مہلت ہو اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور سے  استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۹۰

علامہ مجلسی کا وقت  سے استفادہ کر نا

تاریخ کے نامور معروف اور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اور خدا پسندانہ کردار کے ذریعہ وقت سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا اور اپنے نام کو نیک و جاویدان بنا یا ۔ آپ بہی شائستہ اعمال اورنیک کردار کے ذریعہ ااور زندگی کے لمحات سے استفادہ کرتے ہوئے دائمی نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں ۔

حضرت امیر المومنین (و)  فر ماتے ہیں :

'' الایّام صحائف آجالکم فخلّدوها احسن اعمالکم ''(۱)

ایام تمام اموات کے لئے صحائف کی طرح ہیں پس نیک اعمال کے ذریعہ انہیں جا ویدان بناؤ ۔

علامہ مجلسی ایک بے نظیر شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اس طرح عمل کیا اور اپنے نام کو جاویداں بنایا ۔انہوں نے اپنی گرانبہا زندگی سے بہت بہتر طریقے سے استفادہ کیا اور وقت و فرصت کو اعلیٰ طریقے سے استعمال میں لائے علامہ مجلسی حامی دین اسلام ، مجدد شرایع و سنن رسول اکرم(ص) اور اہل بیت  کے آثار کو زندہ کرنے والے ہیں انہوں  نے اپنے قلم سے اسلام و مسلمین کی خدمت کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ص  ۱۲۰

۹۱

مرحوم علامہ بحر العلوم سے نقل ہوا ہے کہ ان کی آرزو تہی کہ ان کی تمام تالیفات مجلسی کے دیوان عمل میں درج ہوں اور اس کے عو ض ان کی فارسی کتب میں سے ایک کتاب ان کے دیوان عمل میں درج کی جائے ۔  مرحوم علامہ مجلسی کی فارسی کتب کے فارسی زبان والوں کے دلوںپر بہت گہرے اثرات ہیں ۔

ایک دن صاحب جواہر نے جلسہ درس میں فرمایا کہ کل رات ایک خواب دیکہا کہ جیسے کسی بہت بڑی مجلس میں داخل ہوا ہوں کہ جس میں علماء کا گروہ جمع ہے ، دروا زے پر دربان کہڑاتہا ، اس کی اجازت سے مجلس میں وارد ہوا اور دیکہا کہ وہاں متاخرین و متقدمین علماء تشریف فرما ہیں اور  مجلس کی صدارت علامہ مجلسی فرما رہے ہیں میں نے تعجب کیا ور در بان سے ان کے تمام علماء پر مقدم ہونے کی علت دریافت کی ، اس نے کہا کیو نکہ آئمہ معصومین  کے نزدیک علامہ مجلسی باب العلماء کے نام سے معروف ہیں ۔

علامہ مجلسی کے شاگردوں کی تعداد ہزار افراد سے زیادہ تہی علامہ مجلسی سن۷ ۳ ۱۰ میں متولد ہوئے ستائیس رمضان سن  ۰ ۱۱۱   کی رات دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ ان کی قبر مبارک جامع مسجد اصفہان میں ان کے والد کی قبر کے نزدیک واقع ہے جو لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہے ۔

جی ہاں ، علامہ مجلسی نے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی نیک کردار ،بہترین کتب کی تالیف اور مکتب اہل بیت  کی ترویج میں بسر کی اور رہتی دنیاتک اپنے نام کو درخشاں اور زندہ و جاوید بناگئے ۔

۹۲

وقت ضائع نہ کریں

انسان حدود و قیود میں محدود و مقید ہے ان میں سے ایک قید زمان ہے ہمارے تمام بزرگان نے محدود زمان میں پیشرفت و تر قی کی اور اعلیٰ اہداف کو حاصل کیا  اگر ہم نے گزشتہ زندگی ، ان کے مطابق نہیں گزاری تو باقی ماندہ مہلت کو کافی جان کر اس کی اہمیت و ارزش کو سمجہیں ۔

فرصت غنیمت است حریفان در این چمن

فردا ست ہمچو گل ہمہ بر باد رفتہ چمن

ہم زندگی کے لمحات کو گزار رہے ہیں اور آہستہ آ ہستہ مہلت کو ہاتہ سے کہو رہے ہیں ۔ عقل مند اور ذہین وہ ہے کہ جو فراغت کو غنیمت شمار کر کے اس سے بہترین طریقے  سے استفادہ کرے ۔

 حضرت امیر المومنین  علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' لوصحّ العقل لا غتنم کلّ امرئٍ مهلة ''(۱)

اگر عقل سالم ہو تو ہر شخص موجود مہلت کو غنیمت شمار کر تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۲ ۱ ۱

۹۳

ہمیں اس امر کی جانب متوجہ رہنا چاہیئے کہ وقت ہماری زندگی کا اہم ترین سر مایہ ہے عقل اس حقیقت کی شاہد ہے اسی وجہ سے ہر انسان کو مہلت اور فرصت کو غنیمت  سمجہ کر اس سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔

 آنچہ ندارد عوض ای ہوشیار        عمر عزیز است غنیمت شمار

جس چیز کا کوئی عوض نہیں ہے وہ انسان کی زندگی ہے لہذا اسے غنیمت شمار کرو ۔

جی ہاں ! اہلبیت اطہار  علیہم  السلام  نے وقت کی اہمیت و ارزش کے بارے میں بہت سے ارشادات وفرامین بیان فر مائے ہیں انہوں نے اپنے ارشادات میں ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اپنی زندگی کے لحظات کے بارے میں ہوشیار رہیں اور زندگی کے کسی لمحے کو بہی استفادہ کئے بغیر نہ گزاریں۔ نیز توجہ کریں کہ ہم  جس لمحے کو بہی گزار دیں تو اسی قدر ہماری زندگی کم ہو جاتی ہے ۔

حضرت امیر المومنین  علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' العمر تفنیته اللحظات ''(۱)

لحظات کا گزرنا عمر کو فانی بناتا ہے  ۔

ہمارے سانس لینے اور لمحات کے گزر نے سے ہماری زندگی بتدریج  کم  ہوتی جاتی ہے ۔

روز را رایگان زدست مدہ               نیست امید آن کہ باز رسد

کسی بہی دن کو رائیگاں نہ جانے دو ۔ کیو نکہ اس کے دوبارہ واپس آنے کی امید نہیں ہے ۔

جو اپنے دن رات، نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے میں گزارتے ہیں اور وقت کو ضائع کرنے اور زندگی کو تلف کرنے سے گریز کر تے ہیں وہ اپنے صحیفہ اعمال میں درخشاںصفحات کا اضافہ کرتے ہیں اور ابدی و جاویداں  نتیجہ حاصل کر تے ہیں ۔

کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بہی ایسے افراد میں سے ہوں ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم :ج۱  ص۲ ۹

۹۴

بیکاری کا نتیجہ

بیکار شخص کا کوئی ہدف و مقصد نہیں ہوتا کہ جس کے حصول کی وہ کوشش و ہمت کرے ۔ لہذا وہ بیکار بیٹہا رہتا ہے وہ اپنا قیمتی وقت خیا لات ، توہمات یا بے فائدہ و حرام گفتگو میں گزار تا ہے اور اپنے دل کو شیاطین کی آماج گاہ قرار دیتا ہے ۔ با ایمان شخص کو کبہی بہی بیکار نہیں بیٹہنا چاہیئے تا کہ اس کا دل شیاطین کی جائیگاہ اور اس کا ذہن زشت اور پست افکار کا مرکز قرار نہ پائے ۔

حضرت امیر المو منین (ع) اپنے کلمات قصار میں فرماتے ہیں :

'' المومن مشغول وقته ''(۱)

مومن کا وقت ہمیشہ مشغول ہے  ۔  یعنی مومن ہمیشہ مصروف رہتا ہے ۔

کیو نکہ وہ یا ضروریات زندگی کو مہیا کرنے کے لئے مادی کا موں میں مشغول ہو تا ہے یا پہر خداوند کریم کی عبادت و ذکر سے اپنی آخرت کو آباد کر تا ہے ۔ اتنی مصروف زندگی کے باعث اسے ناشائستہ اور زشت اعمال کو ا نجام دینے کی فرصت نہیں ہو تی ۔ اکثر وبیشتر افراد بیکاری و فراغت کے وجہ سے برے کاموں کے مرتکب اور غلطیوں میں مبتلا ہو تے ہیں ۔

مخصوصاً جوانوں کو کبھی بیکار اور فارغ نہیں بیٹھنا چاییئے تا کہ ان کے لئے غلط کا موں کو انجام دینے کا ذریعہ و وسیلہ فراہم نہ ہو ۔روایات میں وارد ہو اہے :'' انّ اللّٰه یبغض الشباب الفارغ '' خداوند تعالی بے کار اور فارغ جوانی سے عداوت رکھتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۵ ۲ ۳

۹۵

 وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی

ہم نے جو کچہ عرض کیا ، اس کی بناء پر اس مہم ترین نکتہ کی جانب توجہ کریں کہ وقت گزارنا اور ضروری برناموں میں آج کا کام کل پر چہوڑ نا اور ضروری کاموں کو انجام دینے میں تاخیر کرنا انسان کے لئے بہت سے محرومیوں کا باعث ہے ۔

یہ جان لیں کہ ہمارا گزرا ہوا کل اور آج ، ہمارے آنے والے کل کے لئے ثمر ہے ۔ ماضی اور حال ایک جڑ کی طرح ہمارے مستقبل کی زندگی کے درخت کو تشکیل دیتا ہے ۔

مکن در کار ہا زنہا ر تاخیر         کہ در تاخیر آفتہا ست جانسوز

بفرد ا افکنی امروز کارت        ز کند بہای طبع حیلت آموز

قیاس امروز گیر از کار فردا            کہ ہست امروز تو فردای دیروز

اپنے کاموں میں ایک دن کی بہی تاخیر نہ کرو کہ اس تاخیر میں زندگی کو بر باد کرنے والی آفات ہیں آپ اپنے آج کے کام کو کل پر نہ چہوڑیں بلکہ آ ج ہی انجام دیں کیو نکہ آپ کا آج گزرے ہوئے کل میں آنے والا کل تہا ، یعنی آپ نے گزشتہ کل بہی یہ ہی کہاتہا کہ آ پ آج وہ کام انجام دیںگے مگر آج بہی گزر گیا لہذا کبہی بہی اپنا آج کا کام کل پر نہ چہوڑو ۔

زندگی اور وقت کو تلف کرنے سے آپ نہ صرف اپنے ماضی سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے ہیں ، بلکہ اپنے مستقبل کو بہی بے ثمر بناتے ہیں ۔ در حقیقت اتلاف وقت کو تدریجی خود کشی سمجہیں ۔

۹۶

اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

دنیا کے اتار ، چڑہاؤ اور سر د و گرم سے عبرت لینا بزرگ شخصیات کی صفات میں سے ہے وہ دوسروں کے حالات زندگی کی بررسی اور اپنے گزشتہ امور پر دقت سے بہت بڑا سبق لیتے ہیں اور اسی کی بناء پر وہ اپنے  مستقبل  کو بہتربناتے ہیں وہ اپنے اور دوسروں کے ماضی سے عبرت لے کر اپنے مستقبل  کو روشن و درخشاں  بناتے ہیں ۔

اپنے گزرے ہوئے وقت اور فراغت کے گزرے ہوئے لمحات سے عبرت لینا بقیہ زندگی کی قیمت و ارزش کو روشن کر تا ہے اور انسان کو متنبہ کر تا ہے کہ اپنے مستقبل کو بہی ماضی کی طرح تباہ نہ کرے اور اپنی باقی ماندہ زندگی سے ایسا نتیجہ حاصل کرے  کہ گزرے ہوئے وقت کا جبران  ہو  سکے۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرما تے ہیں :

'' لو اعتبرت بما اضعت من ماضی عمرک لحفظت مابقی '' (۱)

اگر اپنے ماضی سے عبرت لو گے کہ جسے تم نے ضائع کردیا تہا تو تم اپنی بقیہ زندگی کو محفوظ کر سکتے ہو ۔

اگر آپ نے ابہی تک اپنی زندگی کے بہت سے لحظات و لمحات سے مستفیض و مستفید ہوئے بغیر گزار دیئے ہوں تو اپنی بقیہ زندگی کی بیشتر اہمیت و ارزش کے قائل ہوں اور بے حا صل ماضی کا با برکت وروشن مستقبل کے ذریعہ جبران کریں ۔ اگر آپ نے گزشتہ زندگی کو رایگاں گزار دیا ہو تو اپنی بقیہ زندگی کی زیادہ قدر کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم :ج۵ ص  ۵ ۱۱

۹۷

دوسروں کے ماضی سے سبق سیکھیں

ہم نے تجر بہ کی بحث میں عرض کیا کہ ہم نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے تجربات سے بہی سبق سیکہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں اور مکتب تشیع کی بزرگ شخصیات کے بارے میں بررسی کریں ۔ ان کی فعالیت و تجربات اور ان کی فردی و اجتماعی کو ششوں سے استفادہ کریں ۔

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کے فوائد میں سے ایک وقت سے فائدہ اور فراغت سے استفادہ کرنا ہے دوسرے جس راستے پر چلے ، دوسروں نے جو بر نامے انجام دینے اور انہوں نے جو نتیجہ حاصل کیا ، ہمیں ان سے تجر بہ لینا چاہیئے ۔ گزشتگان کی راہ و روش اور ان کے پسندیدہ کاموںکو بہتر اور جلد اپنائیں اور انہوں نے جس غلط راستے اور کا موں کا مشاہدہ کیا ، انہیں ترک کریں ۔ اپنی قیمتی زندگی کو غلط کا موں میں  تجربہ کر کے ضائع نہ کریں کہ جسے دوسروں نے انجام دیا ہو ۔

جس چیز کے بارے میں ہمیں مکمل آشنائی نہ ہو ، اس کے بارے میں تجربات سے اپنی زندگی   تلف نہ کریں بلکہ گذشتگان کے حالات زندگی اور ان کے بارے میں مطالعہ سے اس کام کے نتیجہ کو حاصل کریں ۔ دوسروں کے اشتباہات کو تکرار کر کے اپنی زندگی کی قیمتی گہڑیوں کو ضائع نہ کریں ۔ عظیم لوگ وہ ہیں کہ جو اپنی کوششوں سے تاریخ کو متحول کریں نہ کہ وہ جو دوسروں کی غلطیوں کو دہرا کر تاریخ کو دہرائیں

پس دوسروں کی غلط راہوں کے بارے میں آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ جنہیں دوسروں نے انجام دیا ہے آپ اپنا قیمتی وقت ان غلط پروگراموں کو تکرار کرکے ضائع  نہ کریں ۔

۹۸

اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

بہت سے لوگ اپنی  زندگی کے با ارزش لمحات کو مختلف کاموں اور فعالیت میں گزار تے ہیں سستی و کاہلی سے گریز کرتے ہیں اور کوشش و تلاش کے لئے ہاتہ پاؤں مارتے ہیں ۔ لیکن اپنی سر مایہ زندگی سے نہ تو کوئی سود حاصل ہو تا ہے اور نہ ہی ان کی زحمات کا کوئی ثمر و فائدہ ہو تا ہے ۔

اس بارے میں حضرت امیر المو منین (ع) فر ماتے ہیں :

'' یفنی عمره فی منفعتة غیره ''(۱)

اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں گنوا دیتے ہیں  ۔

دنیا کے اجتماع میں بہت سے کاریگر ، طالب  علم اور مادی ا مور میں کمی و پریشان حال افراد ایسے ہی افراد میں سے ہیں ۔

وہ بہت سی زحمات ، سختیاں اور تلخیاں برداشت کر تے ہیں مگر ان کی کوششوں کا کو ئی ماحصل نہیں ہو تا ۔ وہ دوسروں کے ہاتہوں استعمال ہوتے ہیں کائنات میں بہت سے ایسے مظلومین ہیں کہ جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم سے بہی آگاہ نہیں ہیں ۔

 حضرت امیر المو منین (ع) جو کہ مظلومین کے داد رس اور رنجیدہ لوگوں کی

پناہگار ہیں ، اپنے مختصر سے کلام میں تمام لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں ضائع نہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۶۱ ۲

۹۹

فرصت سے استفادہ کریں

عالی اہداف تک پہنچنے والی تمام بزرگ شخصیات کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سے کامیابیاں حاصل کیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی سے استفادہ کیا اور وقت کو غنیمت سمجہا انہوں نے وقت کو تلف کرنے سے گریز کیا اور فرصت و فراغت سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا ۔

تمام لوگوں کو فراغت کے لمحات میسر آتے ہیں ۔ لیکن انہیں غنیمت سمجہ کر ان سے عالی طور پر مستفید ہونا چاہئے ۔

لیکن  افسوس  سے  کہنا  پڑتا  ہے  کہ ہمارے معاشرے میں یہ  صورت  حال ہے کہ وقت کی اہمیت کے بارے میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور فرصت کے ایام ضائع ہو جاتے ہیں اگر ان کے ضائع ہونے کے بعد ان کی طر ف متوجہ ہوں اور اس پر پشیمان ہوں  تو پہر اس پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' الفرص خلس '' (۱) فرصت سے مراد کسی چیز کو جذب کرنا ہے ۔

یعنی میدان عمل میں فرصت کو سعا دت سے گزاریں ۔ فراغت بہت جلد گزر جا تی ہے لیکن فرصت کے ایام ضائع کرنے کے بعد پچہتا نے کا کیا فائدہ ہے ؟ ہماری زندگی کا ہر دن اور ہر لمحہ ہمارے لئے فرصت ہے کہ اسے غنیمت سمجہ کر اس سے استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۱ص  ۴۹

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259