کامیابی کے اسرار ج 1 جلد ۱

کامیابی کے اسرار ج 115%

کامیابی کے اسرار ج 1 مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 259

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 259 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153263 / ڈاؤنلوڈ: 4713
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار ج 1

کامیابی کے اسرار ج ۱ جلد ۱

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

مختلف تخیلات و افکار کی وجہ سے عمو ماً نو جوان امور میں نظم وضبط اور پروگرام تشکیل دینے کی مکمل قدرت نہیں رکہتے ان کے سر پرست روزا نہ کے پروگرام کو منظم کرنے میں ان کی مدد کریں تا کہ عمر کے لحاظ سے رشد پانے کے ساتہ ساتہ انہیں امور میں نظم و ضبط بر قرار کرنے کی قدرت بہی حاصل ہو جائے ۔

جب جوانوں میں پینتیس سال کی عمر میں اندرونی تضاد اور جنسی و شہوانی خواہشات میں کمی آجاتی ہے تو ان کے لئے اس دور میں منظم پروگرام  اور نظم کی پیروری کرنا آسان ہو جا تاہے ۔

امام رضا علیہ السلام کا فرمان انسان کے نفسانی امور پر اس کے جسمانی حالات کی کیفیت و تاثیر کی تشریح کر تا ہے ۔

'' قال مو لانا الرضا صلٰوات اللّٰه علیه فی الرسالة الذهبیّة ثمّ یدخل فی الحالة الثالثة الیٰ ان تتکامل مدّة العمر ستین سنة فیکون فی سلطان المرّ ة السّوداء وهی سنّ الحکمة والموعظة وا لمعرفة والدرایة و انتظام الامور وصحّة النظر فی العواقب و صدق الرّأ یی ''(۱)

پہر انسان اپنی تیسری حالت ، یعنی پینتیس سال سے ساٹہ سال کی عمر تک ، میں سوداء انسان پر مسلط ہو تا ہے اور یہ حکمت و موعظہ ، معرفت و درایت کا دور ہو تا ہے ۔ اسی طرح یہ امور میں نظم وضبط اور انسان کی صحیح دور اندیشوں اور درست رائے کا وقت ہو تا ہے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ بحار الانوار :ج۶۲ ص ۷ ۱ ۳

۸۱

اس بناء پر انسان اپنی زندگی کے تیسرے مرحلہ میں داخل ہونے سے پہلے صحیح پروگرام اور نظم و ضبط کا زیادہ نیاز مند ہو تا ہے تا کہ اس دوران نفسانی تحرکات سے واقع ہونے والے انحرافی مسائل سے محفوظ رہا جا سکے اور جوانان و نو جوانان کی حیاتی مسائل کی طرف ہدایت و راہنمائی ہو ۔

حضرت امام رضا (ع) زندگی کے تیسرے حصے ، یعنی ساٹہ سال کی عمر تک کو انتظام امور کا دور قرار دیتے ہیں اور اس دور کو معارف و حکمت کے حصول کا زمان سمجہتے ہیں امام کے فرمان کی  رو سے اس وقت انسان کو اس طرح سے پیش آنا چا ہیئے کہ اپنے آئندہ کے کا موں کو صحیح طور پر پرکہ سکے اور اس کی رائے و عقیدہ بہی درست ہو ۔

۸۲

نظم و ضبط

وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

زندگی کے لمحات اور وقت کو ضائع نہ کرنے کے لئے ایک منظم پروگرام تر تیب دیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کا تعہد کریں اگر آپ کے اصل اعمال صحیح ہو اور

صحیح و مرتب  پروگرام کے مطابق عمل کریں تو آپ کی زندگی با بر کت و خوشگوار ہو گی ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' برکة العمر فی حسن العمل '' (۱)

زندگی کی برکت ، عمل کی اچہائی میں ہے ۔

عمل کی اچہائی صرف اصل عمل کے نیک ہو نے پر ہی نہیں ، بلکہ اس کی روش کے نیک ہونے پر بہی دلالت کر تی ہے ۔اسی وجہ سے ہمارے بزرگان ایک منظم ومرتب پروگرام کے پابند تہے ۔ لہذا وہ پر ثمر و با ارزش زندگی سے بہرہ مند ہوئے ۔ مثال کے طور پر ہم دنیائے تشیع کی معروف شخصیت مرحوم شیخ انصاری  کی زندگی کے کچہ حصے کو بیان کر تے ہیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۳ ص  ۲ ۶ ۲

۸۳

مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

مرحوم شیخ  کی سیرت  میں سے یہ تہا کہ ان کی ماں ایک عبادت گزار خاتون تہیں جنہوں نے مرتے دم تک نماز شب تر ک نہیں کی ، مرحوم شیخ اپنی ماں کے لئے تہجد کے لوازم  و سائل خود انجام دیتے تہے حتی کہ ضرورت کے وقت ان کے لئے وضو کا پانی بہی گرم کر تے ، کیو نکہ ان کی والدہ اپنی عمر کے آخری ایام میں نابینا ہو گئیں تہیں ، لہذا شیخ انصاری انہیں مصلاّ پر کہڑا کرنے کے بعد خود نوافل شب میں مشغول ہوجاتے ۔

مرحوم شیخ کی ایک یہ عادت تہی کہ وہ تدریس سے واپس آنے کے بعد سب سے پہلے اپنی ماں کے پاس جاتے اور ان کا دل جیتنے کے لئے ان سے گفتگو کرتے اور لوگوں کی طرز زندگی اور حکایات کے بارے میں پوچہتے ،مزاح کرتے اور اپنی والدہ کو ہنساتے اور پہر عبادت ومطالعہ کے کمرے میں چلے جاتے ایک دن شیخ نے اپنی ماں سے کہا : آپ کو یاد ہے کہ جب میں مقدمات میں مشغول تہا اور آپ مجہے گہر کے کاموں کے لئے بہیجتی تہیں اور میں درس و مباحثہ کے بعد انہیں انجام دیتا تہا آپ ناراض ہو کر کہتی تہیں کہ میرا فر زند نہیں ہے اور اب تمہارا بہی فرزند نہیں ہے ؟ ماں نے مزاح میں کہا ہاں ! اب بہی کیو نکہ تم اس وقت گہر کی ضروریات کو پو را نہیں کرتے تہے اور اب تم اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو لیکن تم وجو ہات شرعیہ میں صرف جوئی اور ا  حتیاط سے مجہے تحت تاثیر قرار دیتے ہو ۔

۸۴

ایک روز ان کی ماں نے شیخ پر اعتراض کیا اور کہا ! اطراف کے شیعہ تمہارے پاس اتنی زیادہ مقدار میں وجو ہات شرعیہ لاتے ہیں تم اپنے بہائی منصور سے کچہ رعایت کیوں نہیں کرتے اور اسے لازم مخارج کیوں نہیں دیتے ۔

مرحوم شیخ نے فوراً اس کمرے کی چابی ماں کو دی کہ جس میں وجوہات شرعیہ رکہی تہی ، اور کہا آپ جتنا مناسب سمجہتی ہیں اپنے فرزند کو دے دیں ، لیکن روز قیامت آپ خود اس کا جواب دیں ۔

کیو نکہ وہ ایک صالحہ و عابدہ خاتون تہی ، انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور کہا کہ میں کبہی بہی اپنے بیٹے کی چند دن کی  فلاح کے لئے قیامت میں اپنے کو گرفتار و مبتلا نہیں کر وا نا چاہتی ۔

شیخ کی والدہ ۹ ۷ ۱۲   قمری کو نجف اشرف میں اس دنیا سے کو چ کر گئیں ۔ ان کی موت نے شیخ کی زندگی پر بہت گہرا صدمہ واثر چہوڑا ، یہاں تک کہ ان کے بعض اصحاب نے اعتراض کیا شیخ نے ان کے جواب میں فرمایا : میں اپنی ماں کی موت پر نہیں روتا ، بلکہ اس لئے روتا ہوں کہ ان کی وجہ سے مجہ پر سے بہت سی بلائیں اورمصیبتیں رفع ہو جاتی تہی ۔ خدا ان کے وجود کی وجہ سے مجہ پر رحم فرما تا تہا ۔

مرحوم شیخ انصاری اپنے منشور اور آئین میں اس حد تک احتیاط کرتے کہ ان کے استاد مرحوم  صاحب جواہر انہیں کثرت احتیاط سے منع فرماتے ۔

صاحب جواہر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ ایک ایسی مجلس کا اہتمام و انعقاد کیا جائے کہ جس میں نجف اشرف کے تمام جید علما شرکت کریں مجلس منعقد کی گئی لیکن ان میں شیخ انصاری موجود نہیں تہے ۔

۸۵

صاحب جواہر نے فرمایا کہ شیخ انصا ری کو بھی حاضر کریں تلاش کرنے کے بعد دیکھا گیا کہ شیخ انصاری حرم میں یا صحن مبارک میں روبہ قبلہ کھڑے ہو کر صاحب جواہر کی شفا یابی کے لئے دعا گو  تھے شیخ کی دعا کے بعد انہیں مجلس میں لے جا یا گیا ۔ صاحب جواہر نے شیخ کو اپنی بالین پر بیٹھا یا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر  ا پنے دل پر رکھا اور کہا :'' الآن طاب لیی الموت '' اب موت میرے لئے گوارا ہو گئی ہے اور حاضرین سے کہا کہ :'' هذا مرجعکم من بعدی '' یہ میرے بعد تمہارے مرجع ہیں ۔ اور شیخ سے فرمایا:'' قلل من احتیاطک ، فان الشریعة سهلة '' یعنی اپنی احتیاط کو کم کرو کیو نکہ اسلام آسان  دین ہے ۔

صاحب جواہر کا یہ عمل اس لئے تہا کہ شیخ کی شہرت اور زیادہ ہو جائے ور نہ مقام مرجعیت کے لئے یہ لازم نہیں کہ پہلے ولا مرجع کسی کو تعیین کرے حالانکہ صاحب جواہر نے انہیں کمتر احتیاط کرنے کی سفارش کی مگر مرحوم شیخ اپنی احتیاطات پر عمل کرتے چالیس میلین شیعوں کی طرف سے آنے والی وجوہات شرعیہ کے با وجود فقیرا نہ زندگی گزارتے حتی کہ اگر انہیں کوئی تخفہ یا ہدیہ کے عنوان سے کوئی مال دیتے تو وہ اس مال کو طلاب و ضرورت مندان میں تقسیم کر دیتے ۔ ان میں سے کچہ مال مشہد کے راستے ترکمانیوں کے ہاتہوں اسیر ہونے والے زواروں کی رہائی کے لئے بہیجتے ۔

مرحوم شیخ نے اپنے عبادی  پروگرام کو سن بلوغ سے آخر عمر تک بر قرار رکہا فرائض اور نوافل شب وروز ، ادعیہ اور تعقیبات کے علا وہ ہر روز ایک جزء قرآ ن ،نماز جعفر طیار ، زیارت جامعہ اور زیارت عاشورہ پڑہتے یہ شیعہ  مکتب کے ایک درخشان چہرے کے عملیپروگرام کا ایک حصہ تہا ۔

ہمارے مکتب کی تاریخ میں ایسے بہت سے نمونے ملیں گے بزرگان کی زندگی کے بارے میں پڑہ کر ان کی زندگی کے آئین  سے آشنائی حاصل کریں ۔

۸۶

نتیجۂ بحث

ہمارے مکتب کی بر جستہ و بزرگ شخصیات کی راہ و روش یہ تہی کہ وہ اپنی زندگی نظم و ضبط اور مرتب پروگرام کے تحت گزارتے تہے ۔ خاندان عصمت و طہارت  کے تمام پیروکارو شیدائی معنوی پیشرفت اور کائنات کے حقائق سے آشنائی کے لئے نظم وضبط قائم کریں اور ایک صحیح منشور کی پیروی کریں ۔

اسی لئے حضرت امیر المو منین نے اپنی وصیت میں ہمیں اور ہر اس شخص کو پیغام دیا کہ جو ان کی اور اپنی وصیت سے آگاہ ہونے والے ہر شخص کو پیغام دیا کہ تقویٰ و پر ہیز گاری اختیار کرو اور امور میں نظم رکہو ، لہذا ہمیں ایک منظم و مرتب پروگرام ترتیب دے کر اس پر عمل کرنا چاہیئے تا کہ سر گردا نی تضاد اور اندرونی تشویش سے نجات پاکر بہتر مستقبل کو حاصل کر سکیں ۔

آپ اپنے مستقبل کی فکر کریں روشن مستقبل کے حصول کے لئے منظم پروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں نیز کوشش کریں کہ اپنے آئین و منشور کے ذریعہ اہل بیت اطہار  کے جا ویدانی و حیات بخش مکتب کی تبلیغ و ترویج کریں ۔ اس صورت میں آپ کی زندگی کے لمحات صفا و معنویت کی اوج پر پہنچ جائیں گے اور روحی و معنوی راہ کے تکامل میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

از جہان عبرت انگیز                     این  در سخن بہ گوشت آویز

خواہی بکمال راہ یا بی               با صبغہ نظم ، عمل بیا میز

دنیا سے عبرت حاصل کرواور اس قیمتی بات کو اپنے ذہن میں بٹہا لو۔اگر کمال تک پہنچنا چاہو تو نظم و ضبط اور منظم پروگرام کے ذریعہ عمل انجام دو۔

۸۷

چھٹاباب

وقت  سے  استفادہ  کرنا

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' تدارک فی آخر عمرک ما اضعته فی اوّله تسعد بمنقلبک ''

جس چیز کو ماضی میں نابود و تلف کردیا ہو اس کا مستقبل میں جبران کرو تا کہ روز قیامت سعادت مند ہو جاؤ ۔

    وقت سے استفادہ کرنا

    علامہ مجلسی کا وقت سے استفادہ کر نا

    وقت ضائع نہ کریں

    بیکاری کا نتیجہ

    وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی

    اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

    دوسروں کے ماضی سے سبق سیکہیں

    اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

    فرصت سے استفادہ کریں

    آخری سانس تک زندگی سے استفادہ کریں

    نتیجہ ٔ بحث

۸۸

وقت  سے  استفادہ  کرنا

انسان محدود زندگی کا مالک ہے اس کے بر عکس اسرار و علوم اور اطلاعات کی ایک دنیا ہے ۔ ہمارا محدود ذہن حیاتی مسائل ، ارزش مند موضوعات اور دیگر تمام امور کو کس طرح احاطہ کر سکتا ہے ؟ ہماری فکر محدود ہے اس محدود مدت میں ہمیں زندگی کے مہم امور کو اہمیت دینی چا ہئے اور بے ارزش مسائل کی طرف توجہ نہیں کرنا چا ہئے ۔

بے جا تفریحات ، بے ارزش کتب کا مطالعہ ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف پروگرامز بہت آسانی سے ذہن اور فکر کو مشغول کر تے ہیں اور اسے زندگی کے اہم امور کی جانب توجہ دینے سے روکتے ہیں عالی اہداف کے حصول کے لئے ایسے بے ارزش امور سے چشم پوشی کریں اور اپنے ذہن کو ان چیزوںمیں مشغول نہ کریں تا کہ مہم امور کو وقت دے سکیں ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' احذروا ضیاع الاعمار فیما لا یبقیٰ لکم فغائتها لا یعود ''(۱)

اپنی عمر کو ان چیزوں میں ضائع کرنے سے گریز کریں کہ جو آپ کے لئے باقی نہیں رہتیں کیو نکہ گزری ہوئی زندگی واپس نہیں آتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ص  ۲ ۸ ۲

۸۹

آپ ابہی سے یہ تعہد کریں کہ آ پ کا مستقبل ، ماضی کی بنسبت بہتر ہو اور

اگر آپ اپنے ماضی پر پشیمان ہوں تو کوئی ایسا کام نہ کریں کہ مستقبل میں بہی افسوس و پشیمانی کا سامناہو۔

 حضرت امیرالمومنین علی (ع) فرما تے ہیں :

'' بادر الفرصة قبل ان تکون غصة '' (۱)

فرصت سے استفادہ کریں اس سے پہلے کہ پشیمانی و افسوس ہو  ۔

جہاں پر بھی ضرر کا اندیشہ ہو ، وہاں سے واپس لوٹنے میں ہی آپ کے لئے فائدہ ہے پس آپ جہاں بھی ہوں ، سعی و کوشش کریں کہ آنے والا وقت ، گزرے ہوئے وقت سے بہتر ہو ،آپ وقت اور فرصت سے استفادہ کریں ، جب تک مہلت ہو اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور سے  استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ۳۱

۹۰

علامہ مجلسی کا وقت  سے استفادہ کر نا

تاریخ کے نامور معروف اور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اور خدا پسندانہ کردار کے ذریعہ وقت سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا اور اپنے نام کو نیک و جاویدان بنا یا ۔ آپ بہی شائستہ اعمال اورنیک کردار کے ذریعہ ااور زندگی کے لمحات سے استفادہ کرتے ہوئے دائمی نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں ۔

حضرت امیر المومنین (و)  فر ماتے ہیں :

'' الایّام صحائف آجالکم فخلّدوها احسن اعمالکم ''(۱)

ایام تمام اموات کے لئے صحائف کی طرح ہیں پس نیک اعمال کے ذریعہ انہیں جا ویدان بناؤ ۔

علامہ مجلسی ایک بے نظیر شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اس طرح عمل کیا اور اپنے نام کو جاویداں بنایا ۔انہوں نے اپنی گرانبہا زندگی سے بہت بہتر طریقے سے استفادہ کیا اور وقت و فرصت کو اعلیٰ طریقے سے استعمال میں لائے علامہ مجلسی حامی دین اسلام ، مجدد شرایع و سنن رسول اکرم(ص) اور اہل بیت  کے آثار کو زندہ کرنے والے ہیں انہوں  نے اپنے قلم سے اسلام و مسلمین کی خدمت کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۲ص  ۱۲۰

۹۱

مرحوم علامہ بحر العلوم سے نقل ہوا ہے کہ ان کی آرزو تہی کہ ان کی تمام تالیفات مجلسی کے دیوان عمل میں درج ہوں اور اس کے عو ض ان کی فارسی کتب میں سے ایک کتاب ان کے دیوان عمل میں درج کی جائے ۔  مرحوم علامہ مجلسی کی فارسی کتب کے فارسی زبان والوں کے دلوںپر بہت گہرے اثرات ہیں ۔

ایک دن صاحب جواہر نے جلسہ درس میں فرمایا کہ کل رات ایک خواب دیکہا کہ جیسے کسی بہت بڑی مجلس میں داخل ہوا ہوں کہ جس میں علماء کا گروہ جمع ہے ، دروا زے پر دربان کہڑاتہا ، اس کی اجازت سے مجلس میں وارد ہوا اور دیکہا کہ وہاں متاخرین و متقدمین علماء تشریف فرما ہیں اور  مجلس کی صدارت علامہ مجلسی فرما رہے ہیں میں نے تعجب کیا ور در بان سے ان کے تمام علماء پر مقدم ہونے کی علت دریافت کی ، اس نے کہا کیو نکہ آئمہ معصومین  کے نزدیک علامہ مجلسی باب العلماء کے نام سے معروف ہیں ۔

علامہ مجلسی کے شاگردوں کی تعداد ہزار افراد سے زیادہ تہی علامہ مجلسی سن۷ ۳ ۱۰ میں متولد ہوئے ستائیس رمضان سن  ۰ ۱۱۱   کی رات دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ ان کی قبر مبارک جامع مسجد اصفہان میں ان کے والد کی قبر کے نزدیک واقع ہے جو لوگوں کے لئے زیارت گاہ ہے ۔

جی ہاں ، علامہ مجلسی نے وقت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی زندگی نیک کردار ،بہترین کتب کی تالیف اور مکتب اہل بیت  کی ترویج میں بسر کی اور رہتی دنیاتک اپنے نام کو درخشاں اور زندہ و جاوید بناگئے ۔

۹۲

وقت ضائع نہ کریں

انسان حدود و قیود میں محدود و مقید ہے ان میں سے ایک قید زمان ہے ہمارے تمام بزرگان نے محدود زمان میں پیشرفت و تر قی کی اور اعلیٰ اہداف کو حاصل کیا  اگر ہم نے گزشتہ زندگی ، ان کے مطابق نہیں گزاری تو باقی ماندہ مہلت کو کافی جان کر اس کی اہمیت و ارزش کو سمجہیں ۔

فرصت غنیمت است حریفان در این چمن

فردا ست ہمچو گل ہمہ بر باد رفتہ چمن

ہم زندگی کے لمحات کو گزار رہے ہیں اور آہستہ آ ہستہ مہلت کو ہاتہ سے کہو رہے ہیں ۔ عقل مند اور ذہین وہ ہے کہ جو فراغت کو غنیمت شمار کر کے اس سے بہترین طریقے  سے استفادہ کرے ۔

 حضرت امیر المومنین  علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' لوصحّ العقل لا غتنم کلّ امرئٍ مهلة ''(۱)

اگر عقل سالم ہو تو ہر شخص موجود مہلت کو غنیمت شمار کر تا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۵ص  ۲ ۱ ۱

۹۳

ہمیں اس امر کی جانب متوجہ رہنا چاہیئے کہ وقت ہماری زندگی کا اہم ترین سر مایہ ہے عقل اس حقیقت کی شاہد ہے اسی وجہ سے ہر انسان کو مہلت اور فرصت کو غنیمت  سمجہ کر اس سے استفادہ کرنا چاہیئے ۔

 آنچہ ندارد عوض ای ہوشیار        عمر عزیز است غنیمت شمار

جس چیز کا کوئی عوض نہیں ہے وہ انسان کی زندگی ہے لہذا اسے غنیمت شمار کرو ۔

جی ہاں ! اہلبیت اطہار  علیہم  السلام  نے وقت کی اہمیت و ارزش کے بارے میں بہت سے ارشادات وفرامین بیان فر مائے ہیں انہوں نے اپنے ارشادات میں ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اپنی زندگی کے لحظات کے بارے میں ہوشیار رہیں اور زندگی کے کسی لمحے کو بہی استفادہ کئے بغیر نہ گزاریں۔ نیز توجہ کریں کہ ہم  جس لمحے کو بہی گزار دیں تو اسی قدر ہماری زندگی کم ہو جاتی ہے ۔

حضرت امیر المومنین  علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' العمر تفنیته اللحظات ''(۱)

لحظات کا گزرنا عمر کو فانی بناتا ہے  ۔

ہمارے سانس لینے اور لمحات کے گزر نے سے ہماری زندگی بتدریج  کم  ہوتی جاتی ہے ۔

روز را رایگان زدست مدہ               نیست امید آن کہ باز رسد

کسی بہی دن کو رائیگاں نہ جانے دو ۔ کیو نکہ اس کے دوبارہ واپس آنے کی امید نہیں ہے ۔

جو اپنے دن رات، نیک اور پسندیدہ کاموں کو انجام دینے میں گزارتے ہیں اور وقت کو ضائع کرنے اور زندگی کو تلف کرنے سے گریز کر تے ہیں وہ اپنے صحیفہ اعمال میں درخشاںصفحات کا اضافہ کرتے ہیں اور ابدی و جاویداں  نتیجہ حاصل کر تے ہیں ۔

کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بہی ایسے افراد میں سے ہوں ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ شرح غرر الحکم :ج۱  ص۲ ۹

۹۴

بیکاری کا نتیجہ

بیکار شخص کا کوئی ہدف و مقصد نہیں ہوتا کہ جس کے حصول کی وہ کوشش و ہمت کرے ۔ لہذا وہ بیکار بیٹہا رہتا ہے وہ اپنا قیمتی وقت خیا لات ، توہمات یا بے فائدہ و حرام گفتگو میں گزار تا ہے اور اپنے دل کو شیاطین کی آماج گاہ قرار دیتا ہے ۔ با ایمان شخص کو کبہی بہی بیکار نہیں بیٹہنا چاہیئے تا کہ اس کا دل شیاطین کی جائیگاہ اور اس کا ذہن زشت اور پست افکار کا مرکز قرار نہ پائے ۔

حضرت امیر المو منین (ع) اپنے کلمات قصار میں فرماتے ہیں :

'' المومن مشغول وقته ''(۱)

مومن کا وقت ہمیشہ مشغول ہے  ۔  یعنی مومن ہمیشہ مصروف رہتا ہے ۔

کیو نکہ وہ یا ضروریات زندگی کو مہیا کرنے کے لئے مادی کا موں میں مشغول ہو تا ہے یا پہر خداوند کریم کی عبادت و ذکر سے اپنی آخرت کو آباد کر تا ہے ۔ اتنی مصروف زندگی کے باعث اسے ناشائستہ اور زشت اعمال کو ا نجام دینے کی فرصت نہیں ہو تی ۔ اکثر وبیشتر افراد بیکاری و فراغت کے وجہ سے برے کاموں کے مرتکب اور غلطیوں میں مبتلا ہو تے ہیں ۔

مخصوصاً جوانوں کو کبھی بیکار اور فارغ نہیں بیٹھنا چاییئے تا کہ ان کے لئے غلط کا موں کو انجام دینے کا ذریعہ و وسیلہ فراہم نہ ہو ۔روایات میں وارد ہو اہے :'' انّ اللّٰه یبغض الشباب الفارغ '' خداوند تعالی بے کار اور فارغ جوانی سے عداوت رکھتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۵ ۲ ۳

۹۵

 وقت تلف کرنا یا تدریجی خود کشی

ہم نے جو کچہ عرض کیا ، اس کی بناء پر اس مہم ترین نکتہ کی جانب توجہ کریں کہ وقت گزارنا اور ضروری برناموں میں آج کا کام کل پر چہوڑ نا اور ضروری کاموں کو انجام دینے میں تاخیر کرنا انسان کے لئے بہت سے محرومیوں کا باعث ہے ۔

یہ جان لیں کہ ہمارا گزرا ہوا کل اور آج ، ہمارے آنے والے کل کے لئے ثمر ہے ۔ ماضی اور حال ایک جڑ کی طرح ہمارے مستقبل کی زندگی کے درخت کو تشکیل دیتا ہے ۔

مکن در کار ہا زنہا ر تاخیر         کہ در تاخیر آفتہا ست جانسوز

بفرد ا افکنی امروز کارت        ز کند بہای طبع حیلت آموز

قیاس امروز گیر از کار فردا            کہ ہست امروز تو فردای دیروز

اپنے کاموں میں ایک دن کی بہی تاخیر نہ کرو کہ اس تاخیر میں زندگی کو بر باد کرنے والی آفات ہیں آپ اپنے آج کے کام کو کل پر نہ چہوڑیں بلکہ آ ج ہی انجام دیں کیو نکہ آپ کا آج گزرے ہوئے کل میں آنے والا کل تہا ، یعنی آپ نے گزشتہ کل بہی یہ ہی کہاتہا کہ آ پ آج وہ کام انجام دیںگے مگر آج بہی گزر گیا لہذا کبہی بہی اپنا آج کا کام کل پر نہ چہوڑو ۔

زندگی اور وقت کو تلف کرنے سے آپ نہ صرف اپنے ماضی سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے ہیں ، بلکہ اپنے مستقبل کو بہی بے ثمر بناتے ہیں ۔ در حقیقت اتلاف وقت کو تدریجی خود کشی سمجہیں ۔

۹۶

اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں

دنیا کے اتار ، چڑہاؤ اور سر د و گرم سے عبرت لینا بزرگ شخصیات کی صفات میں سے ہے وہ دوسروں کے حالات زندگی کی بررسی اور اپنے گزشتہ امور پر دقت سے بہت بڑا سبق لیتے ہیں اور اسی کی بناء پر وہ اپنے  مستقبل  کو بہتربناتے ہیں وہ اپنے اور دوسروں کے ماضی سے عبرت لے کر اپنے مستقبل  کو روشن و درخشاں  بناتے ہیں ۔

اپنے گزرے ہوئے وقت اور فراغت کے گزرے ہوئے لمحات سے عبرت لینا بقیہ زندگی کی قیمت و ارزش کو روشن کر تا ہے اور انسان کو متنبہ کر تا ہے کہ اپنے مستقبل کو بہی ماضی کی طرح تباہ نہ کرے اور اپنی باقی ماندہ زندگی سے ایسا نتیجہ حاصل کرے  کہ گزرے ہوئے وقت کا جبران  ہو  سکے۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرما تے ہیں :

'' لو اعتبرت بما اضعت من ماضی عمرک لحفظت مابقی '' (۱)

اگر اپنے ماضی سے عبرت لو گے کہ جسے تم نے ضائع کردیا تہا تو تم اپنی بقیہ زندگی کو محفوظ کر سکتے ہو ۔

اگر آپ نے ابہی تک اپنی زندگی کے بہت سے لحظات و لمحات سے مستفیض و مستفید ہوئے بغیر گزار دیئے ہوں تو اپنی بقیہ زندگی کی بیشتر اہمیت و ارزش کے قائل ہوں اور بے حا صل ماضی کا با برکت وروشن مستقبل کے ذریعہ جبران کریں ۔ اگر آپ نے گزشتہ زندگی کو رایگاں گزار دیا ہو تو اپنی بقیہ زندگی کی زیادہ قدر کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱] ۔ شرح غرر الحکم :ج۵ ص  ۵ ۱۱

۹۷

دوسروں کے ماضی سے سبق سیکھیں

ہم نے تجر بہ کی بحث میں عرض کیا کہ ہم نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے تجربات سے بہی سبق سیکہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں اور مکتب تشیع کی بزرگ شخصیات کے بارے میں بررسی کریں ۔ ان کی فعالیت و تجربات اور ان کی فردی و اجتماعی کو ششوں سے استفادہ کریں ۔

دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرنے کے فوائد میں سے ایک وقت سے فائدہ اور فراغت سے استفادہ کرنا ہے دوسرے جس راستے پر چلے ، دوسروں نے جو بر نامے انجام دینے اور انہوں نے جو نتیجہ حاصل کیا ، ہمیں ان سے تجر بہ لینا چاہیئے ۔ گزشتگان کی راہ و روش اور ان کے پسندیدہ کاموںکو بہتر اور جلد اپنائیں اور انہوں نے جس غلط راستے اور کا موں کا مشاہدہ کیا ، انہیں ترک کریں ۔ اپنی قیمتی زندگی کو غلط کا موں میں  تجربہ کر کے ضائع نہ کریں کہ جسے دوسروں نے انجام دیا ہو ۔

جس چیز کے بارے میں ہمیں مکمل آشنائی نہ ہو ، اس کے بارے میں تجربات سے اپنی زندگی   تلف نہ کریں بلکہ گذشتگان کے حالات زندگی اور ان کے بارے میں مطالعہ سے اس کام کے نتیجہ کو حاصل کریں ۔ دوسروں کے اشتباہات کو تکرار کر کے اپنی زندگی کی قیمتی گہڑیوں کو ضائع نہ کریں ۔ عظیم لوگ وہ ہیں کہ جو اپنی کوششوں سے تاریخ کو متحول کریں نہ کہ وہ جو دوسروں کی غلطیوں کو دہرا کر تاریخ کو دہرائیں

پس دوسروں کی غلط راہوں کے بارے میں آشنائی حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ جنہیں دوسروں نے انجام دیا ہے آپ اپنا قیمتی وقت ان غلط پروگراموں کو تکرار کرکے ضائع  نہ کریں ۔

۹۸

اپنا وقت دوسروں کے شخصی اہداف کے لئے ضائع نہ کریں

بہت سے لوگ اپنی  زندگی کے با ارزش لمحات کو مختلف کاموں اور فعالیت میں گزار تے ہیں سستی و کاہلی سے گریز کرتے ہیں اور کوشش و تلاش کے لئے ہاتہ پاؤں مارتے ہیں ۔ لیکن اپنی سر مایہ زندگی سے نہ تو کوئی سود حاصل ہو تا ہے اور نہ ہی ان کی زحمات کا کوئی ثمر و فائدہ ہو تا ہے ۔

اس بارے میں حضرت امیر المو منین (ع) فر ماتے ہیں :

'' یفنی عمره فی منفعتة غیره ''(۱)

اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں گنوا دیتے ہیں  ۔

دنیا کے اجتماع میں بہت سے کاریگر ، طالب  علم اور مادی ا مور میں کمی و پریشان حال افراد ایسے ہی افراد میں سے ہیں ۔

وہ بہت سی زحمات ، سختیاں اور تلخیاں برداشت کر تے ہیں مگر ان کی کوششوں کا کو ئی ماحصل نہیں ہو تا ۔ وہ دوسروں کے ہاتہوں استعمال ہوتے ہیں کائنات میں بہت سے ایسے مظلومین ہیں کہ جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم سے بہی آگاہ نہیں ہیں ۔

 حضرت امیر المو منین (ع) جو کہ مظلومین کے داد رس اور رنجیدہ لوگوں کی

پناہگار ہیں ، اپنے مختصر سے کلام میں تمام لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اپنی زندگی کو دوسروں کی منفعت میں ضائع نہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کلمات قصار: ۶۱ ۲

۹۹

فرصت سے استفادہ کریں

عالی اہداف تک پہنچنے والی تمام بزرگ شخصیات کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سے کامیابیاں حاصل کیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی سے استفادہ کیا اور وقت کو غنیمت سمجہا انہوں نے وقت کو تلف کرنے سے گریز کیا اور فرصت و فراغت سے بہترین طریقے سے استفادہ کیا ۔

تمام لوگوں کو فراغت کے لمحات میسر آتے ہیں ۔ لیکن انہیں غنیمت سمجہ کر ان سے عالی طور پر مستفید ہونا چاہئے ۔

لیکن  افسوس  سے  کہنا  پڑتا  ہے  کہ ہمارے معاشرے میں یہ  صورت  حال ہے کہ وقت کی اہمیت کے بارے میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور فرصت کے ایام ضائع ہو جاتے ہیں اگر ان کے ضائع ہونے کے بعد ان کی طر ف متوجہ ہوں اور اس پر پشیمان ہوں  تو پہر اس پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔

حضرت امیر المو منین علی (ع)  فرماتے ہیں :

'' الفرص خلس '' (۱) فرصت سے مراد کسی چیز کو جذب کرنا ہے ۔

یعنی میدان عمل میں فرصت کو سعا دت سے گزاریں ۔ فراغت بہت جلد گزر جا تی ہے لیکن فرصت کے ایام ضائع کرنے کے بعد پچہتا نے کا کیا فائدہ ہے ؟ ہماری زندگی کا ہر دن اور ہر لمحہ ہمارے لئے فرصت ہے کہ اسے غنیمت سمجہ کر اس سے استفادہ کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [۱]۔ شرح غرر الحکم:ج ۱ص  ۴۹

۱۰۰

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259