کامیابی کے اسرار جلد ۲

کامیابی کے اسرار21%

کامیابی کے اسرار مؤلف:
: عرفان حیدر
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126702 / ڈاؤنلوڈ: 5742
سائز سائز سائز
کامیابی کے اسرار

کامیابی کے اسرار جلد ۲

مؤلف:
ناشر: الماس پرنٹرز قم ایران
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

خدا وند کریم کا ارشاد ہے:بے شک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے ، اس پاکیزہ مقام پر جو صاحب اقتدار بادشاہ کی بارگاہ میں ہے۔

اس بناء پر جو لوگ بلندمعنوی مقامات  و مراتب تک پہنچنے کے خواہاں ہوں وہ خدا کی دی ہوئی پوری زندگی میں خدا اور اولیائے خداکے ساتھ ہی انس رکھیں اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریںکہ اس سے بہتر کوئی اور خزانہ نہیں ہے ۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ التَّقْویٰ أَفْضَلُ کَنْزٍ'' ( ۱ )

بیشک تقویٰ بہترین خزانہ ہے۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے اس خزانے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں اور اس کی حفاظت کریں ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''عَلَیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰهِ فِ الْغَیْبِ وَالشَّهٰادَةِ'' ( ۲ )

تم پرخلوت اور جلوت میں تقویٰ الٰہی کے ساتھ رہنا لازم ہے۔

''شریک ''کے برخلاف کچھ لوگوں نے لقمہ ٔ حرام سے پرہیز کیا،تنہائی اور آشکار دونوں صورتوں  میں تقویٰ کا خیال رکھاجس کے نتیجہ میں عالی معنوی مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۳۷۶، امالی مرحوم شیخ طوسی:ج۲ص۲۹۶

[۲]۔ بحار الانوار:ج۷ ۷ص۲۹۰، تحف العقول:۹۲

۱۰۱

اب ہم جو واقعہ بیان کر رہے ہیں ،وہ اسی کا ایک نمونہ ہے:

تبریز کے ایک بہت مالدار تاجر کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہورہاتھا۔اس نے بہت سے ڈاکٹروں اور حکیموںکی طرف رجوع کیا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ وہ نجف اشرف چلا گیا اور وہاں امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں توسل کیا اور استجارہ کے عمل میں مشغول ہو گیا۔گذشتہ زمانے میں اور اب بھی یہ رائج ہے کہ نجف کے صالح افراد ،یا مسافرین چالیس ہفتوں تک ہر بدھ کی رات مسجد سہلہ جاتے ہیںاور وہاں نماز اور مسجد کے اعمال انجام دینے کے بعد مسجد کوفہ چلے جاتے ہیںاور رات سے صبح تک  وہیں رہتے یہاں تک کہ وہ اسی مدت یا پھر آخری رات امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت سے مشرّف ہوتے۔اگرچہ ان میں سے بہت آنحضرت  کو اس وقت نہ پہچانتے اور پھر بعد میں متوجہ ہوتے۔

اب تک بہت سے افراد نے اس عمل کو انجام دیاہے اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔تبریز کے تاجر نے بھی بدھ کی چالیس راتوں تک یہ عمل انجام دیا اور آخری رات اس نے خواب اور بیداری کے عالم میں ایک شخص کو دیکھا جو اس سے فرما رہے ہیں کہ محمد علی جولایی دزفولی کے پاس جاؤ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی اور اس نے کسی اور کو نہ دیکھا۔

وہ کہتاہے:میں نے اب تک دزفول کا نام نہیں سنا تھامیں نجف آیا اور میں نے دزفول کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے مجھے اس کا پتہ بتا دیا ۔میں  اپنے نوکر کے ہمراہ اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جب میں شہر میں پہنچا تو میں نے اپنے نوکر سے کہا:ہمارے پاس جو سامان ہے تم لے کر جاؤ ،میں تمہیں بعد میں ڈھونڈ لوںگا۔

وہ چلا گیا اور میں محمد علی جولایی کو تلاش کرنے لگا۔لوگ اسے نہیں پہچانتے تھے  بالآخر ایک شخص ملا جو جولایی کو جانتا تھا ۔اس نے کہا:وہ کپڑے بُنتاہے اور فقراء میں سے ہے جو آپ کی حالت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔میں نے ان کا پتہ لیا اور ان کی دکان کی طرف چلا گیا اور آخر کار وہ مجھے مل ہی گیا:

۱۰۲

میں نے دیکھا کہ انہوں نے کرباس سے بنی شلوار قمیض پہن رکھیہے اور ایک چھوٹی تقریبا ڈیڑھ میٹر کی دکان میں کپڑے بننے میں مشغول ہیں۔جونہی انہوں نے مجھے دیکھا تو فوراً کہا: حاج محمد حسین تمہاری حاجت پوری ہو گئی ۔میری حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔میں ان سے اجازت لینے کے بعد ان کی دکان میں داخل ہواغروب کا وقت تھا انہوں نے اذان کہی اور نماز ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔نماز کی ادائیگی کے بعد میں نے ان سے کہا:میں مسافر ہوں اور آج رات آپ کا مہمان ہوں ۔انہوں نے قبول کر لیا۔

رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک کاسہ میرے سامنے رکھا ۔اگرچہ مجھے لذیذ غذائیںکھانے کی عادت تھی لیکن میں ان کے ساتھ کھانا کھانے لگا ۔پھر انہوں نے مجھے کھال کا ایک ٹکڑا دیا اور مجھ سے کہا :تم میرے مہمان ہو اس لئے تم اس پر سو جاؤاور خود زمین پر سو گئے ۔

صبح کے قریب وہ نیند سے بیدار ہوئے ،وضو کرنے کے بعد انہوں نے اذان کہی اور صبح کی نماز ادا کرنے میں مصروف ہو گئے اس کے بعد انہوں نے مختصر سی تعقیبات انجام دیں ۔اس کے بعد میں نے ان سے کہا:میرے یہاں آنے کے دو مقصد تھے ایک کو آپ نے بیان کر دیا اور دوسرا یہ ہے کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بلند مقام کس طرح سے حاصل ہوا کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف نے میرا کام آپ پر چھوڑ دیا  اور آپ کو کس طرح میرے نام اور ضمیر و باطن کا علم ہے؟

انہوں نے کہا:یہ کیسا سوال ہے؟تمہاری حاجت تھی جو پوری ہو گئی ۔

میں نے ان  سے کہا :جب تک میں یہ نہ سمجھ لوںمیں یہاں سے نہیں جاؤں گا اور چونکہ میں آپ کا مہمان ہوں لہذا مہمان کا احترام کرتے ہوئے آپ مجھے یہ ضرور بتائیں۔

۱۰۳

انہوں نے بات کاآغازکیا اور کہا:میں اس جگہ کام میں مصروف تھا میری دکان کے سامنے ایک ظالم شخص رہتا تھا اور ایک سپاہی اس کی حفاظت کرتا تھا ایک دن وہ سپاہی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا:تم اپنے لئے کھانے کا انتظام کہاں سے کرتے ہو؟

میں نے اس سے کہا:میں سال میں گندم کی ایک بوری خریدکر ا س کا آٹا پسوا لیتا ہوں جسے میں کھاتا ہوں اور نہ ہی تو میری کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ۔

اس نے کہا:میں  یہاں محافظ ہوں ۔مجھے اس ظالم کے اموال سے استفادہ کرنا پسند نہیں ہے ۔ اگر تم زحمت قبول کرو تو میرے لئے بھی جو کی ایک بوری خرید لو اور ہر دن دوروٹیاں مجھے بھی دے دو ۔ میں نے اس کی بات مان لی  اور وہ ہر دن آتا اور مجھ سے دوروٹیاں لے کر چلا جاتا ۔پھر ایک دن وہ نہ آیا میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے اور مسجد میں سو رہا ہے ۔میں نے سوچا کے اس کے لئے طبیب اور دوا لے جاؤں تواس نے کہا:اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں آج رات اس دنیا سے چلا جاؤں گا ۔جب آدھی رات ہوگی تو ایک شخص تمہاری دکان میں آئے گا اور تمہیں میری موت سے  باخبرکر دے گا۔تم ان کے ساتھ آنا اور وہ تم سے جو کچھ کہیں اسے انجام دو اور بقیہ آٹا بھی اب تمہاری ملکیت ہے۔

میں نے چاہا کہ رات اس شخص کے ساتھ گذاروں لیکن انہوں نے اجازت نہ دی اور کہا:تم چلے جاؤ میں نے بھی ان کی بات مان لی ۔آدھی رات کے وقت کسی نے میری دکان پر دستک دی اور فرمایا:محمد علی باہر آؤ ۔میں دکان سے باہر آیا اور ان کے ساتھ مسجد میں چلا گیا ۔میں نے دیکھا کہ وہ محافظ اب اس دنیامیں نہیں  ہے ۔اس کے پاس دو افراد بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس کے جسم کو نہر کی طرف لے چلو میں اس کا بدن نہر کے کنارے لے گیا ،ان دو افرادنے اسے غسل وکفن دیا اور اس پر نماز پڑھی ۔پھر اسے لا کر مسجد کے دروازے کی جگہ دفن کر دیا ۔

۱۰۴

میں دکان کی طرف واپس چلا گیا ۔کچھ راتوں کے بعد کچھ لوگوں نے میری دکان پر دستک دی ۔کسی نے کہا:باہر آؤ میں دکان سے باہر آیا ۔میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا کہ  آقا نے تمہں بلایا ہے تم میرے ساتھ چلو ۔میں ان کی بات مان کر ان کے ساتھ چلا گیا ۔وہ مہینے کی آخری راتیں تھیں ۔لیکن صحرا چاندنی راتوں کی طرح روشن اور زمین سبز و خرم تھی لیکن چاند کہیں دکھائی نہیں  دے رہا تھا ۔میں سوچنے لگا اور تعجب کرنے لگا ۔اچانک میں صحرائے نو(نو،دزفول کے شمال میں ایک شہر کا نام  ہے) میں پہنچ گیا۔

میں نے دو بزرگ شخصیتوں کو دیکھا کہ جو ایک ساتھ تشریف فرما ہیں  اور ایک شخص ان کے سامنے کھڑا تھا ۔اس مجمع میں ایک شخص سب سے اوپر اور سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ۔ان کو دیکھتے ہی مجھ میں ایک عجیب خوف وہراس  اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔

جو شخص میرے ساتھ تھا اسنے مجھ سے کہا:کچھ آگے آ جاؤ ۔میں کچھ آگے چلا گیا  تو جو شخص ان میں سب سے زیادہ صاحب جلال تھا ،انہوں نے ان میں سے ایک شخص سے فرمایا:اس سپاہی کا منصب اسے دے دو اور مجھ سے فرمایا:تم  نے میرے شیعہ کی جو خدمت کی اسی کی وجہ سے میں تمہیں  اس سپاہی کا عہدہ دینا چاہتا ہوں۔میںنے سوچا کہ شاید یہ مجھے اسی سپاہی کی  جگہ محافظ قرار دینا چاہتے ہیں ۔لیکن میں محافظ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا ۔میں نے ان سے کہا:میں کپڑے بنتا ہوں ،مجھے سپاہی اور محافظ بننے سے کیا مطلب؟

۱۰۵

ان میں سے ایک نے کہا:ہم سپاہی  کا عہدہ تمہیں دیتے ہیں  اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم سپاہی بنو،ہم نے اس کا عہدہ تمہیں دے دیا،اب تم جاؤ۔

میں واپس لوٹا اور دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ اب وہ صحرا بہت تاریک ہے  اور صحرا میں روشنی، سبزی اور خرمی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

اس رات کے بعد مجھے میرے آقا حضرت صاحب العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے احکامات ملتے ہیں ۔آنحضرت (عج) کے احکامات و دستورات میں سے ایک تمہاری حاجت کا پورا ہونا تھا۔( ۱ )

اس سپاہی نے حرام مال  سے پرہیز کرکے اپنے لئے یہ مقام خود بنایا ۔ان کا عباسی خلیفہ کے دربار کے قاضی''شریک ''سے مقائسہ کریں جس نے خود کو حرام مال کھانے کے نتیجے میں آلودہ کیا۔

ان دونوں میں سے کس کی راہ بہتر ہے؟امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی خدمت میں حاضر ہونا یا عباسی خلیفہ کی خدمت میں ؟!

یہ بزرگان دین کی زندگی کا منشور رتھا ۔تاریخ تشیع کی عظیم شخصیات نے تقویٰ اختیار کیا اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کاآئین اپنی مذہبی ذمہ داری کے مطابق تشکیل دیا۔اسی وہ بلند مقامات تک پہنچ گئے۔

--------------

 [۱]۔ زندگی و شخصیت شیخ انصاری:۵۲

۱۰۶

 پرہیزگاری ، اولیائے خدا کی ہمت میں اضافہ کا باعث

ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اولیائے خدا نہ صرف خود تقویٰ و پرہیز گاری کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ وہ اپنے روحانی حالات کی حفاظت کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے  اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں تقویٰ ایجاد کریں۔وہ اپنے عمل اور رفتار و کردار سے اپنے ہمنشین اور معاشرے کے تمام افراد کو تقویٰ و پرہیز گاری کا درس دیتے ہیں ۔ان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ معاشرہ پرہیزگار رہے اور گناہوں سے دور رہے ۔

کیونکہ  معاشرے میں خاندان نبوت علیھم السلام کے تابناک انوار کا ظہور ایسے ہی متحقق ہو سکتا ہے لہذا تمام افراد پر لازم ہے کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے حصول کی کوشش کریں اور خود سے نفسانی خواہشات ،ہوا و ہوس اور شیطانی افکار کو دور کریں ۔

عظیم لوگ مقام و مرتبہ اور دنیاوی چیزوں کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتے ۔ان کا ہدف و مقصد اس سے کہیں زیادہ عظیم ہوتاہے بلکہ اگر انہیں مقام و مرتبہ اور تمام دنیاوی منصب بھی مل جائے تو وہ انہیں تقویٰ و پرہیز گاری جیسے اعلی ہدف کے لئے استفادہ کرتے ہیں نہ کہ وہ مقام و مرتبہ کے لئے  تقویٰ و پرہیز گاری چھوڑ دیں ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے تقویٰ کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ  نے فرمایا:

''.....أَنْ لاٰ یَفْقِدُکَ اللّٰهَ حَیْثُ أَمْرَکَ وَ لٰا یَرٰاکَ حَیْثُ نَهٰاکَ'' (۱)

تقویٰ یہ ہے کہ خداوند نے تمہیں جس چیز کا حکم دیا ہے تمہیں اس سے دور نہ پائے اور جس چیز سے منع کیا ہے، اس میں تمہیں ملوث نہ پائے۔ اس بیان کی رو سے اگر انسان میں کسی منصب کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن اس کے  باوجود اسے قبول کرے تو یہ تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ کس طرح ساز گار ہو سکتا ہے؟

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۰ص ۲۸۵

۱۰۷

  تقویٰ کو ترک کرنے کی  وجہ سے تبدیلی

کبھی روحانی حالات بعض مسائل کے درپیش آنے کی وجہ سے نابود ہو جاتے ہیں اور کبھی نابود نہیں ہوتے لیکن یہ دوسری حالت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اس کی وضاحت کے لئے ہم یوں کہتے ہیں :کبھی خداوند کریم گناہوں کو بخش دیتاہے اور اس کے اثرات کو ختم کر دیتا ہے اور کبھی خدا انہیں نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔لہذا  خدا کو پکارتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

پہلی صورت میں گناہ کسی دوسری حالت میں تبدیل ہونے کے بجائے بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں  اور دوسری صورت میں گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔تقویٰ کا بھی یہی حال ہے کیونکہ تقویٰ کبھی گناہوں کی وجہ سے ختم ہو جاتاہے اور کبھی شہوت اور کسی دوسری معصیت کے غلبہ کی وجہ سے فاسد ہو جاتاہے لیکن نابود نہیں ہوتا بلکہ یہ شیطانی حالات میں تبدیل ہو جاتاہے ۔

مولائے کائنات علی علیہ السلام  فرماتے ہیں:

''لاٰیُفْسِدُ التَّقْویٰ اِلاّٰ غَلَبَةُ الشَّهْوَةِ'' (۱)

تقویٰ کو شہوت کے غلبہ پانے کے علاوہ کوئی چیز فاسد نہیں کرتی۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ آنحضرت  نے یہ نہیں فرمایا کہ تقویٰ کو شہوت کے غالب آنے کے علاوہ کوئی چیز ختم نہیں کرتی بلکہ فرمایا:تقویٰ کو شہوت کے غلبہ کے علاوہ  کوئی چیز فاسد نہیں کرتی  اور یہ تعبیر تغیر و تبدل کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی۔

--------------

[۱] ۔ شرح غرر الحکم:ج۶ص۳۷۶

۱۰۸

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تقویٰ ایک خاص قسم کی حالت ہے جس کے روحانی ومعنوی پہلو ہیں اور یہ اسی صورت میں فاسد ہوتا ہے جب اس میں موجود معنویت ختم  ہو جائے۔

جب کوئی شخص اپنی روحانی حالت کھو بیٹھے تو اس کی روحانی حالت شیطانی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے  اس بناء پر با تقویٰ شخص پر شہوت کا غلبہ ہو جانے اور تقویٰ کے فاسد ہو جانے کی وجہ سے اس میں روحانی روپ میں ایک شیطانی حالت ایجاد ہوتی ہے ۔

اس بناء پر اگر کسی باتقویٰ شخص  پر کسی مقام و منصب کی شہوت غالب آ جائے تو یہ اس منصب تک پہنچنے والے عام شخص سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

رحمانی حالات کا شیطانی اور شیطانی حالات کا رحمانی حالات میں تبدیل ہونا مسلّم ہے۔جن کا تذکرہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات میں بھی  ہے۔

انسان جستجو ،تلاش،کوشش اور انجام دیئے جانے والے اعمال کی وجہ سے روحانی و معنوی توانائیاں کسب کرتا ہے ۔روحانی حالات اس میں نفوذ کرکے اس کے دل و جان میں راسخ ہو جاتے ہیں  اور اس میں مادّی حالات اور طبعی کیفیات کم ہو جاتی ہیں اور اس پر معنوی و روحانی حالات کا غلبہ ہو جاتاہے۔

جس انسان میں روحانی و معنوی حالات پیدا ہو جائیں اور اگر فرض کریں کہ اس میں کوئی تبدّل وتغیّر پیدا ہوجائے تو پھر وہ ایک عام اور طبیعی انسان نہیں رہے گا بلکہ بہت سے مقامات پر اس کے روحانی و رحمانی حالت  شیطانی حالات میں تبدیل ہو جائیں گے۔

۱۰۹

جس طرح سالہا سال سے انجام پانے والے بہت سے گناہوں اور خدا کی نافرمانی  کی وجہ سے اس میں شیطانی حالات راسخ ہو جاتے ہیں  اور وہ ارواح خبیثہ اور شیاطین کے ساتھ مل جاتاہے  لیکن توبہ کی وجہ سے نہ صرف وہ خدا کی طرف پلٹ آتاہے بلکہ اس کے حالات ،رحمانی حالات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

کیونکہ خداوند عالم کبھی توبہ کرنے کی وجہ سے گناہگاروں کے گنا ہ بخش دیتاہے اور کبھی نہ صرف یہ کہ ان کے گناہوںکو بخش دیتاہے بلکہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

خدا کے اسماء میں سے ایک ایسا اسم ہے جو گناہگاروں اور معنویت کے قافلے سے پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور وہ یہ  ہے:

''یٰامُبَدِّلَ السَّیِّأٰتِ بِالْحَسَنٰاتِ''

اے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والے ۔

گناہوں کا نیکیوں میں تبدیل ہو جانا اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اس کے آثار بھی تبدیل ہو جائیں۔

۱۱۰

 پرہیزگاری میں ثابت قدم رہنا

انسان کس طرح  تقویٰ کوکھو دیتاہے اور کس طرح حقیقی تقویٰ حاصل کر سکتاہے؟کیا صرف گناہوں سے دوری کے ذریعے ہی خود کو متقی سمجھ سکتے ہیں؟یا تقویٰ صرف سخت اور مشکل امتحانات میں قبول ہونے سے ہی حاصل ہو سکتاہے؟

یہ سوالات بعض لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

اس  سوال کا جواب مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے:

''عِنْدَ حُضُوْرِ الشَّهْوٰاتِ وَ اللَّذّٰاتِ یَتَبَیَّنُ وَرَعُ الْاَتْقِیٰاء'' (۱)

جب کوئی شہوت انگیز اور لذت بخش واقعہ پیش آئے ،تو متقی افراد کی پرہیزگاری واضح وروشن ہو جاتی ہے۔

اس صورت میں حقیقی تقویٰ اختیار کرنے والے دکھاوے اور خود نمائی سے بھی کام لیتے ہیں  اور اپنی توانائی پر کنٹرول کرتے ہیں  اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کو معنوی قوت کے ذریعے نیست و نابود کر سکتے ہیں ۔لیکن اگر وہ ان پر کنٹرول نہ کر سکتے ہوں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تقویٰ و پرہیزگاری میں ثابت قدم نہیں ہیں۔

--------------

[۱] شرح غرر الحکم: ۴ / ۳۲۶

۱۱۱

 نتیجہ ٔبحث

دل اسرار و رموز سے بھرپور ایک اہم مشین ہے  جسے خدا نے آپ کے وجود میں قرار دیاہے  تا کہ تقویٰ و پرہیز گاری کے ذریعے اس کی اصلاح کریں اور اس پر زنگ اور تاریکی آ جانے کی صورت میں بھی اس کی اصلاح کرکے اس سے استفادہ کریں۔

تقویٰ دکھائی نہ دینے والے دشمنوں کے ساتھ جنگ اور ان پر حملے کے لئے بہت طاقتور ہتھیار ہے ۔اسے خود میں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کریں۔

تقویٰ آپ کے دیرینہ دشمنوں یعنی شیاطین کے نفوذ سے بچنے کے لئے ایک مضبوط ڈھال کی مانند ہے۔یہ آپ کو ان سے بچاتا ہے۔ آپ کو  ان  کے حملوں اور مکاریوں سے آگاہ کرتا ہے اور آپ  کی حفاظت کرتا ہے۔

 تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے شیطانی و رحمانی افکار میں تشخیص دیں  اور تقویٰ کی وجہ سے خود کو زندگی کے سراب میں گرفتار نہ کریں بلکہ اس کے آب حیات سے سیراب ہوں۔

کوشش کریں کہ آپ پر ہوا و ہوس اور شہوت کو غلبہ نہ ہو ورنہ آپ کا تقویٰ و پرہیزگاری تباہ و برباد ہو جائے گا اور وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔

پیرایۂ  فقر  پادشاہی تقویٰ است          سرمایۂ طاعت تقویٰ الٰہی است

از سختی روز محشر و زدوزخ              فرمودہ خدا،نجات خواہی تقویٰ است

۱۱۲

 پانچواں باب

کام اور کوشش

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' مَنْ أَعْمَلَ اِجْتِهٰادَهُ بَلَغَ مُرٰادَهُ ''

جو کسی کام کے لئے  اپنی کوشش کرے ،وہ اپنے مقصد تک پہنچ جاتاہے۔

    کام و کوشش

    کس حد تک کوشش کریں؟

    اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

    مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

    حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

    آگاہانہ طور پر کام شروع کریں

    کام کے شرائط اور اس کے موانع کو مدنظر رکھیں

    کام اور کوشش کے موانع

    ۱۔ بے ارزش کاموں کی عادت

    ۲۔ تھکاوٹ اور بے حالی

    دو قلمی نسخوں کے لئے تلاش اور توسل

    غور و فکرسے کام کرنا

    نتیجۂ بحث

۱۱۳

کام و کوشش

اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنے کے لئے اور نیک اور اہم اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش کریں ور اس کی جستجو کرنے میں کوتاہی  نہ کریں۔

تاریخ کے صفحات کو اپنے ناموں سے روشن کرنے والی عظیم اور معروف شخصیات اپنے بلند اہداف کی راہ میں کبھی تھک کر نہیں بیٹھے ا ور انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہمیشہ جستجو اور کوشش کی  اور اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔

آپ بھی اپنے اہم اور الٰہی اہداف کے حصول کی کوشش کریں کیونکہ نیک اہداف تک پہنچنے کے لئے کام اور کوشش بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔متعدد آیات و روایات میں ان کا بارہا تذکرہ موجود ہے۔

 کس حد تک کوشش کریں؟

بعض لوگوں کی جستجو اور کوشش صرف اورصرف دنیاوی منافع اور خیالی اعتبارات میں ہی منحصر ہے  اور وہ کائنات کے حقائق سے مکمل طور پر غافل ہوتے ہیں۔وہ ہمیشہ رہنے والے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کا باعث بننے والے روحانی و معنوی امور سے غفلت برتتے ہیں ۔ان کا ہدف فقط تجارت اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتاہے۔ان کا زندگی میں حقیقی مقصد زیادہ سے ززیادہ دولت کا حصول ہوتاہے۔

۱۱۴

بہت سے لوگ اپنے ہدف سے مربوط آئین میں تمام مسائل پر بڑی دقت سے غور و فکر کرتے  ہیںاور جب انہیں اس میں کامیاب ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ اسے انجام دیتے ہیں ۔لیکن وہ عبادی امور میں بالکل توجہ نہیں کرتے جو کہ خدا کے نزدیک بہت اہم ہیں ۔حالانکہ خدا کے نزدیک کسی عمل کا قبول ہوجانا اس عمل کو باثمر بنا دیتاہے۔اسی لئے حضرت امام علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے  ہیں:

''کُوْنُوْا عَلٰی قُبُوْلِ الْعَمَلِ أَشَدَّ عِنٰایَةً مِنْکُمْ عَلَی الْعَمَلِ'' (۱)

خود عمل کی بنسبت ،عمل کے قبول ہونے کی طرف زیادہ توجہ کرو۔

خدا کی بارگاہ میں عمل کا قبول ہو جانا اہمیت رکھتا ہے نہ کہ اصل عمل۔پس اگر خدا کسی عمل کو قبول نہ کرے تو اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بناء پر ہمیں ایسی راہ میں کوشش کرنی چاہئے کہ جو خدا کی رضائیت کا سبب ہو  نیز ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی قبولیت کو بھی مدنظر رکھیں!

--------------

[۱] ۔ بحار الانوار:ج۷۱ص۱۷۳، خصال:۱۱۰

۱۱۵

 اپنے نفس کو کام اور کوشش کے لئے تیار کرنا

کام اور کوشش حقیقی رغبت کے ساتھ انجام پایا جانا چاہئے کیونکہ اگر یہ نفسانی مجبوری سے انجام پائے تو کبھی اس کے منفی اثرات بھی  ہوتے ہیںاور پھر فائدے کی بجائے اس کا نقصان زیادہ ہوتاہے۔

اس بناء پر مشکل امور میں جستجو اور کوشش  صرف انہی لوگوں  کے لئے مفید ہے جو نفسانی لحاظ سے اسے انجام دینے کے لئے تیار ہوں  اور جو افراد اس طرح نہ ہوں انہیں چاہئے کہ وہ پہلے اپنے اندر نفسانی آمادگی پیدا کریں۔

پس انہیں صرف اس بناء پر نیک کاموں میں  جستجو اور کوشش سے دستبردار نہیں ہو جانا چاہئے کہ   وہ ان کے میل و رغبت کے مطابق نہیں ہیں۔بلکہ ا نہیں نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی مخالفت کرنی چاہئے  یہاں تک کہ ان کا نفس ان کی عقل اور وجدان کے مطابق ہو جائے  اور اسے نیک اعمال انجام دینے کی طرف مائل کریں۔

جو انجام دی جانے والی جستجو اور کوشش کے ذریعے اپنے نفس کو عقل کے تابع کرتے ہیں اور ذوق و شوق اور دلچسپی سے مشکل امور کو انجام دیتے ہیںاور بہت اہم نتائج حاصل کرتے ہیں۔

اس رو سے دین کی نامور بزرگ شخصیات نے اپنے نیک اہداف اور اعلی مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ جستجو اور کوشش کی اور اپنے نفس کو اپنی عقل کے تابع قرار دیا ، وہ اسی بنا پر علم  و عمل کے بلند درجوں تک پہنچ پائے ہیں۔

انہوں  نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی الہامات اور ارشادات کی روشنی میں بہت سی مصیبتوں کو برداشت کرکے بلند علمی و معنوی مقام حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ کر ہر طوفان کا مقابلہ کیا  اور وہ کبھی بھی تھک ہار کرنہیں بیٹھے  اور اسی طرح جستجو اور کوشش کرتے رہے۔

۱۱۶

 مرحوم ملّا مہدی نراقی نے خود کوکیسے فعالیت کے لئے تیار کیا؟

اب ہم بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم ملّا مہدی نراقی کی زندگی کے کچھ پہلو بیان کرتے ہیں:

اس عظیم شخصیت کو درس و بحث کا اس قدر شوق تھا کہ یہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط بھی نہیں پڑھتے تھے کہ شاید اس میں کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ جو ان کی پریشانی کا باعث ہو  اور جس سے ان کا درس اور بحث ومباحثہ متاثر ہو۔ یہاں تک کہ ان کے والد کو قتل کر دیا گیا اور ان کے قتل کی خبر خط میں لکھ کر انہیں بھیج دی گئی ۔ انہیں خط ملا لیکن انہوں نے خط نہ پڑھا  اور خط کے مضمون سے آگاہ نہ ہوئے  اور اسی طرح درس و بحث میں مشغول رہے۔جب ان کے رشتہ دار ان کے آنے سے نامید ہو گئے تو انہوں نے ان کے استاد کو خط لکھ کر انہیں مرحوم نراقی  کے والد کے قتل کی خبر دی تا کہ وہ انہیں واپس ''نراق''بھیج دیں۔مرحوم ملا مہدی نراقی جب درس میں گئے تو انہوں نے اپنے استاد کو غمگین پایا اور ان سے پوچھا:آپ آج کیوں پریشان ہیں؟ اور آج آپ کیوں درس شروع نہیں کررہے ہیں؟ ان کے استاد نے کہا: تمہیں چاہئے کہ تم نراق چلے جاؤ کیونکہ تمہارے والد بیمار اور زخمی ہیں۔مرحوم نراقی نے کہا: خداوند کریم ان کی حفاظت فرمائے گا ۔ آپ  درس شروع کریں ۔ پھر ان کے استاد نے انہیں ان کے والد کی خبر دی اور انہوں نے مرحوم نراقی کو نراق جانے کا حکم دیا۔

مرحوم ملا نراقی  نراق چلے گے اور صرف تین دن وہاں رہے  اور پھر واپس نجف چلے گئے ۔ انہوں نے اس طرح اپنے نفس کو تحصیل علم کے لئے تیار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ علم و عمل کے بلند مقامات تک پہنچ پائے۔(۱)

کن وھم و ھراس برون از دل خویش      یاور چہ کنی؟ توخویش شو یاورخویش

مرغان کہ بہ شاخة ھا نلغزند از باد         ز آنست کہ تکیہ شان بود بر پرخویش

--------------

[۱]۔ فوائد الرضویہ:۶۶۹

۱۱۷

 حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش کریں

حقیقت تک پہنچنے اور حق کے حصول  کے لئے کوشش کرنی چاہئے  اور اس راہ کی مشکلات اور  تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے۔کیونکہ سعی و کوشش اور مشکلات میں صبر اور انہیں  برداشت کئے بغیر  حقیقت کو درک نہیں کر سکتے۔

مولائے کائنات حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یُدْرَکُ الْحَقُّ اِلاّٰ بِالْجِدِّ وَ الصَّبْرِ'' (۱)

جدیّت اور صبر کے بغیر حقیقت درک نہیں کر سکتے۔

اس بنا پر حقیقت کو درک کرنے کے لئے کوشش اور جدیّت کی ضرورت ہے  تا کہ ہماری تمام تر فعالیت اور کام خاندان نبوت علیھم السلام سے صادر ہونے والے دستورات کے مطابق ہو۔

اس بناء پر اگر آپ اپنے وجود کے گوہر سے استفادہ کرنا چاہیں اور اس چیز کو جاننا چاہیں جسے ہر کوئی درک کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر اس راہ میں کوشش کریں۔

حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اَلْعَمَلُ، اَلْعَمَلُ، ثُمَّ النِّهٰایَةُ، النِّهٰایَةُ'' (۲)

کام!کام !پھر نہایت! نہایت!

--------------

[۱]۔ بحار الانوار:ج۳۴ص۱۳۲،امالی مرحوم شیخ طوسی: ج۱ص۱۱۳

[۲]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:۱۷۶

۱۱۸

جس نے ابھی تک قدم نہ بڑھایاہو یا کسی دوسرے راستے کی طرف چل دیاہو تو وہ کس طرح حقیقت کو درک کر سکتاہے  اور کس طرح اپنی منزل  اور مقصد تک پہنچ سکتا ہے؟

ھر کہ چون سایہ گشت خانہ نشین                تابش ماہ و خور کجا یابد؟

و آن کہ پہلو تھی کند از کار              سرۂ سیم و زر کجا یابد؟

گر ھنر مند گوشہ گیر بود                گام دل از ھنر کجا یابد؟

و آنکہ در بحر ،غوطہ می نخورد            سلک درّ و گھر کجا یابد؟

اس بناء پردل کو دریاسے ملانے کی کوشش کریں کیونکہ نجات کی کشتی دریا میں ہی ہے ۔یقین  کریںکہ جو دریائے محبت میں نجات کی کشتی کا ناخدا ہو وہ کبھی بھی بلاؤں کے گرداب میں غرق نہیں ہو گا ۔

اب ہم جو واقعہ ذکر کر رہے ہیں ،وہ بھی انہی میں سے ایک ہے:

مرحوم ابو الحسن طالقانی (جو مرحوم مرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے ہیں)بیان کرتے ہیں:

میں کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا کی زیارت سے سامراء کی طرف آ رہا تھا ۔  ظہر کے وقت ہم نے''دجیل''نامی قریہ میں قیام کیا تا کہ کھانا کھانے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عصر کے وقت وہاں سے روانہ ہوں۔

وہاں ہماری ملاقات سامراء کے ایک طالب علم سے ہوئی جو کسی دوسرے  طالب علم  کے ساتھ تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کے لئے کچھ خریدنے آئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ جو شخص سامرا ء کے طالب علم کے ساتھ تھا وہ کچھ پڑھ رہاہے ۔میں نے غور سے سنا تو مجھے معلوم  ہو گیا کہ وہ عبرانی زبان میں توریت پڑھ رہا ہے ۔مجھے بہت تعجب ہوا ۔  میں نے سامراء میں رہنے والے طالب علم سے پوچھا  کہ یہ شیخ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی؟

۱۱۹

اس نے کہا:یہ شخص تازہ مسلمان ہوا ہے اور اس سے پہلے یہودی تھا ۔

میں نے کہا:بہت خوب؛پھر یقینا کوئی واقعہ ہو گا تم مجھے وہ واقعہ بتاؤ۔

تازہ مسلمان ہونے والے طالب علم نے کہا:یہ واقعہ بہت طولانی ہے جب ہم سامراء کی طرف روانہ ہوں گے تو میں وہ واقعہ راستے میں تفصیل سے آپ کے گوش گزار کروں گا۔

عصر کا وقت ہو گیا اور ہم سامراء کی طرف روانہ ہو گئے ۔میں نے اس سے کہا:اب آپ مجھے اپنا واقعہ بتائیں۔اس نے کہا:

میں مدینہ کے نزدیک خیبر کے یہودیوں میں سے تھا ۔خیبر کے اطراف میں کچھ قریہ موجود ہیں  کہ  جہاں رسول اکرم (ص) کے زمانے سے اب تک یہودی آباد ہیں ان میں سے ایک قریہ میں لائبریری کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔جس میں ایک بہت قدیم کمرہ تھا۔اسی کمرے میں توریت کا  ایک بہت قدیم نسخہ تھاجو کھال پر لکھا گیا تھا ۔اس کمرے کو ہمیشہ تالا لگا رہتا ۔پہلے والے لوگوں نے تاکیدکی تھی کہ کسی کو بھی اس کمرے کا تالا نہ کھولنے اور توریت کا مطالعہ کرنے کا حق نہیں ہے۔مشہور یہ تھاکہہ جو بھی اس توریت کو دیکھے گا اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے گا اور وہ پاگل ہو جائے گا اور خاص کر جوان اس کتاب کو نہ دیکھیں!

اس کے بعد اس نے کہا:ہم دو بھائی تھے جو یہ سوچتے تھے کہ ہمیں اس قدیم توریت کی زیارت کرنی چاہئے ۔ہم اس شخص کے پاس گئے جس کے پاس اس کمرے کی چابی تھی اور ہم نے اس سے درخواست کی کہ وہ کمرے کا دروازہ کھول دے لیکن اس نے سختی سے منع کر دیا ۔کیونکہ  ہے ''الانسان حریص علی ما منع''یعنی انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے ،وہ اس کا زیادہ حریص ہو جاتاہے۔لہذا ہم میںاس کتاب کے مطالعہ کا اور زیادہ شوق پیدا ہوگیا۔ہم نے اسے اچھے خاصے پیسے دیئے تا کہ وہ ہمیں چھپ کر اس کمرے میں جانے دے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

غویٰ: گمراہ ہو گیا، غاوی: اس شخص کو کہتے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں ڈوبا ہوا ہو، شیطان ملعون اسی اعتبار سے خدا سے کہتا ہے : اغویتنی : مجھے تونے گمراہ کر دیا کہ خدا وند عالم نے اس سے پہلے اس پر لعنت بھیج کر فرمایا تھا:( ان علیک اللعنة الیٰ یوم الدین ) رحمت حق سے تیری دوری قیامت کے دن تک رہے یعنی تجھ پر اس وقت تک کے لئے لعنت ہے ، یہ رحمت خدا سے دوری اس نافرمانی اور سجدہ آدم سے انکار کی سزا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یضل به کثیراً و یهدی به کثیراً وما یضل به الا الفاسقین )

خدا وند عالم کثیر جماعت کو اس کے ذریعہ گمراہ اور اسی طرح بہت سارے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے: لیکن اس کے ذریعہ صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے ۔( ۱ )

۲۔ لأ زیّنن لھم: ان کی بری رفتار کو زینت دوں گا، چنانچہ خدا وند سبحان نے فرمایا:( زین لهم الشیطان اعمالهم ) شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظر میں زینت دیدی ہے۔( ۲ )

اور فرمایا:( زیّن لهم سوء اعمالهم ) ان کے برے اعمال ان کی نظروں میں خوبصورت ہو گئے۔( ۳ )

۳۔مخلصین : خالص اور پا ک وپاکیزہ لوگ ، جن لوگوں کو خدا نے اپنے لئے خاص کیا اور خالص کرلیا ہے بعد اس کے کہ انہوں نے اپنے کو خدا پر وقف کردیا ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے علاوہ کسی اور کی کوئی جگہ نہ ہو ۔

۴۔ ابتلیٰ: امتحان کیا، آزمایا، یعنی خیر وشر، خوشحالی اور بدحالی سے آزمایا۔

۵۔ بکلمات:یہاں پر کلمات سے مراد ایسے حوادث ہیں کہ خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کا اس کے ذریعہ امتحان لیا، جیسے : ان کا ستارہ پر ستوں اور بت پرستوں سے مورد آزمائش قرار پانا،آگ میں ڈالاجانا،اپنے ہاتھ سے اپنے فرزند ( اسماعیل ) کے گلے پر چھری پھیرناوغیرہ۔

۶۔ فأتمھن : انہیں احسن طریقے سے انجام دیا۔

۷۔ جاعلک: جعل عربی زبان میں ، ایجاد، خلق، حکم ، قانون گز اری، جاگزین کرنا اور قرار دینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ یہاں پر یہی آخری معنی مراد ہے ، یعنی میں نے تم کو امام قرار دیا۔

۸۔ اماماً: امام یعنی لوگوں کا رفتار و گفتار ( اقوال و افعال )میں مقتدا اور پیشوا۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۶(۲) انفال ۴۸، نحل ۲۴، عنکبوت ۳۷(۳) توبہ ۳۷

۲۲۱

۹۔ ظالمین: ظلم، کسی چیز کا اس کے مقام کے علاوہ قرار دینا اورحق سے تجاوز کرنا بھی ہے ۔ ظلم تین طرح کا ہے : پہلے ۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان ظلم کہ اس کا سب سے عظیم مصداق کفر اور شرک ہے ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں فرمایا ہے:( ان الشرک لظلم عظیم ) یقینا شرک عظیم ظلم ہے۔( ۱ )

او ر سورۂ انعام میں فرمایا: (...( فمن اظلم ممن کذب بآیات الله ) آیات خداوندی کی تکذیب کرنے والے سے زیادہ کون ظالم ہوگا۔( ۲ )

دوسرے : انسان وغیرہ کے درمیان ظلم ، جیساکہ سورۂ شوریٰ میں فرمایا:( انما السبیل علیٰ الذین یظلمون الناس ) غلبہ اور سزا ان لوگوں کیلئے ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔( ۳ )

تیسرے: انسان کا اپنے آپ پر ظلم کرنا، جیساکہ سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسه ) اور جو ایسا کرے گااس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ۔( ۴ )

سورۂ طلاق میں ارشاد ہوا:( ومن یتعدّ حدود الله فقد ظلم نفسه ) جو حدود الٰہی سے تجاوز کرے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔( ۵ )

ظلم خواہ ( ان تینوں قسموں میں سے )کسی نوعیت کا ہو، آخر کار اپنے اوپر ظلم ہے اور جو ظلم سے متصف ہو ، خواہ کسی بھی زمانے میں ظلم کیا ہو، گز شتہ یا حال میں اسے ظالم کہتے ہیں۔

۱۰۔ ہمّت بہ و ھمّ بھا یعنی اقدام کا اراد ہ کیا لیکن انجام نہیں دیا۔

۱۱۔ رای : دیکھا ، دیکھنا بھی دو طرح سے ہے :آنکھ سے دیکھنا ، یعنی نظر کرنا اور دل سے دیکھنا، یعنی بصیرت و ادراک ۔

۱۲۔ برہان: ایسی محکم دلیل اور آشکار حجت جو حق کو باطل سے جدا کر دے اور جو یوسف نے دیکھا ہے وہ ان تعریفوں سے مافوق ہے ۔

آیات کی تاویل

ابلیس نے پروردگار عالم سے کہا: اب جو تونے مجھ پر لعنت کی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے دور کر دیا ہے ، تو میں بھی دنیا میں لوگوں کی بری رفتار اور بد اعمالیوں کو ان کی نگاہوں میں زینت دوں گا ، جیساکہ سورۂ نحل

____________________

(۱) لقمان ۱۳(۲) شوریٰ ۴۲(۳)انعام ۱۵۷(۴) طلاق ۱(۵) بقرہ ۲۳۱

۲۲۲

میں ارشاد ہوتا ہے :

( تالله لقد ارسلناالیٰ اُمم من قبلک فزیّن لهم الشیطان اعمالهم )

خدا کی قسم ! ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف رسولوں کو بھیجا ؛ لیکن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں نیک جلوہ دیا۔( ۱ )

اور سورۂ انفال میں فرمایا:( واذ زین لهم الشیطان اعمالهم و قال لا غالب لکم الیوم ) ...)

جب شیطان نے ان ے اعمال کو نیک اور خوشنما جلوہ دیا اور کہا: آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔( ۲ )

اور سورۂ نحل میں فرمایا:

( یسجدون للشمس من دون الله و زیّن لهم الشیطان اعمالهم فصدهم عن السبیل ) ...)

وہ لوگ خدا کے بجائے سورج کا سجدہ کرتے تھے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروںمیں نیک جلوہ دیا اور انہیں راہِ راست سے روک دیا...( ۳ )

ہاں، شیطان نے کہا: میں تمام لوگوں کے کاموں کو ان کی نظروں میں خوشنما بنا کر پیش کروںگا، سوائے تیرے ان خاص بندوں کے جن کوتونے اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس کا جواب دیا: تو اپنے ان ماننے والوں کے علاوہ جوکہ ضلالت اور گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیںکسی پر تسلط نہیں رکھتا۔

خدا وند عالم اپنے مخلص بندوں کے حال کے بارے میں یوسف اور زلیخا کی داستان میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :( ولقد همّت به و همّ بها لولا أن رأیٔ برهان ربه )

اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیااور یوسف بھی اس کا ارادہ کر لیتے اگر اپنے رب کا برہان نہیں دیکھتے۔ اور یہ ماجراایک ایسے گھر میں پیش آیا کہ یوسف اور زلیخا کے علاوہ اس میں کوئی بھی نہیں تھا۔

زلیخا مصر کی ملکہ او ر یوسف کی مالک تھی، اس نے اس بات کو طے کر لیا کہ یوسف کو اپنے مقصد میں استعمال کرے، اگریوسف اپنے رب کی طرف سے برہان کا مشاہدہ نہ کرتے،تو یا اس کو قتل کر دیتے کہ یہ برا کام ہوتایا فحشاء اور برائی کا ارادہ کرتے جو کہ ان کے کنوارے پن اور جوان طبیعت کا تقاضا تھا اور اپنی جوان

____________________

(۱) نحل ۶۳(۲) انفال ۴۸(۳) نمل ۲۴

۲۲۳

مالکہ کے ساتھ جو خود بھی اسی طرح کے حالات سے دو چار تھی اور عیش و عشرت میں گز ار رہی تھی ایک ایسے گھر میں جس میں دوسرا کوئی نہ تھا اس سے لپٹ جاتے لیکن چونکہ اپنے رب کے برہان کو دیکھا ، لہٰذا عفت و پاکدامنی کا ثبوت دیا اور گناہ و برائی سے دور رہے یقینا وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیںخد انے اپنے لئے منتخب کیا تھا اور انہیں پاکیزہ بنایا تھا، لیکن جو برہان یوسف نے دیکھااور اس کے دیکھنے کی کیفیت اس کااجمالی خاکہ اس طرح ہے کہ انہوں نے دونوںکام کے آثار اپنے لئے بعینہ مشاہدہ کئے، اس کی تشریح آئندہ آئے گی۔

۲۲۴

۲۔ ۳: عمل کے آثار اور ان کا دائمی ہونا

عمل کے آثار اور ان کا دائمی اور جاوید ہونا اور بعض اعمال کی برکت ونحوست کا زمان و مکان پر اثر ڈالنا اور خدا کے جانشینوں کا گناہ سے محفوظ ہونا اس لئے ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

عصمت انبیا سے آشنائی کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے دنیا وآخرت میں زمان ومکان پر انسانی افعال کی برکت و نحوستکے سرایت کرنے کی کیفیت سے بحث کریں، لہٰذا خدا سے توفیق مانگ کر کہہ رہے ہیں : خداوند سبحان سورۂ بقرہ میں فرماتا ہے :

( شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منکم الشهر فلیصمه )

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا اوراس میں ہدایت کی نشانیاںہیں اور وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے لہٰذا جو اس ماہ میں مسافر نہ ہو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔( ۱ )

اور سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:

( انا انزلناه فی لیلة القدر٭وما ادرٰاک ما لیلة القدر٭ لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة والروح فیها بأِذن ربهم من کل امر٭ سلام هی حتیٰ مطلع الفجر ) ( ۲ )

ہم نے شب قدر میں قرآن نازل کیا ، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیاہے ؟ شب قدر ہزار ماہ سے بہتر

____________________

(۱) بقرہ ۱۸۵

(۲) سورہ قدر

۲۲۵

ہے ، فرشتے اور روح، خدا کی اجازت سے اس شب میں تمام امور کولے کر اترتے ہیں صبح تک یہ شب سلامتی سے بھری ہے۔

خدا وند عالم نے ماہ مبارک رمضان کی ایک شب میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن نازل کیا یہ شب اس وجہ سے شب قدر ہے کہ فرشتے اور روح ہمیشہ اسی رات ہمیشہ ہر سال خدا کی اجازت اور حکم سے نازل ہوتے ہیں، اس شب کی برکت ہر ماہِ رمضان کی تمام شبوں پر ہمیشہ کے لئے سرایت کر گئی۔

ہم انشاء اللہ نسخ کی بحث میں اس پر روشنی ڈالیں گے کہ جمعہ کا دن حضرت آدم کے وقت سے ہی بابرکت رہا ہے، اس وجہ سے کہ خدا وند عالم نے حضرت آدم پر اپنی برکتیں اس دن نازل کی ہیں اور نویں ذی الحجة مبارک ہے اور خدا کے بندوں کے لئے منیٰ میں گناہوں کی بخشش کا دن ہے ، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اسی دن آدم کی بخشش و مغفرت فرمائی ہے اور عرفات، منیٰ اور مشعر کی زمینیں نویں اور دسویں ذی الحجة کو تمام اولاد آدم کے لئے مبارک سر زمین قرار پائیں اور اس کے آثار ہر عصر و زمانہ میں باقی رہیں گے۔

اسی طرح خدا کے گھر میں حضرت ابراہیم کے قدموں کا نشان ،اس مٹی کے ٹیلہ پرجسے اپنے قدموں تلے رکھا تھا یعنی اس پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں، با برکت ہو گیااور خدا وند عالم نے ہمیں حکم دیا کہ ہمیشہ کے لئے اسے عبادت گاہ بنائیں( اس پر نماز پڑھیں) اور فرمایا:( اتخذوا من مقام ابراهیم مصلیٰ ) مقام ابراہیم کو اپنا مصلی(نماز کی جگہ ) بناؤ ۔

شومی اور نحوست کا دوسروں تک سرایت کرنابھی اسی طرح ہے جیسے حجر کے علاقہ میں قوم عاد کے گھروںکی حالت عذاب آنے کے بعدایسی ہی تھی اوررسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر وہان سے گزرتے ہوئے ہمیں اس امر کی اطلاع دی ہے، اس کا حدیث و سیرت کی کتابوں میں خلاصہ یوں ہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹ھ میں غزوہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں واقع حجر نامی سر زمین( جو کہ قوم ثمود کا شہر تھی اورمدینہ سے شام کے راستے میں تھی ) پر پہنچے تو اسے عبور کرنے سے پہلے پیادہ ہو گئے اور سپاہیوں نے وہاں کے کنویں سے پانی کھینچا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منادی نے آواز دی کہ اس کنویں کا پانی نہ پینا اور نماز کے لئے اس سے وضو نہ کرنا، لوگ جو کچھ اپنے پاس پانی جمع کئے ہوئے تھے سب کو زمین پر ڈال دیا اور کہا: اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !اس سے تو ہم نے خمیر کیا ہے( آٹا گوندھا ہے)فرمایا: اسے اپنے اونٹوں کو کھلا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سے وہ دوچار ہوئے تمہیں بھی ہونا پڑے۔

اور جب سامان لا ددیا اور حِجْرسے گز ر ے تو اپنا لباس چہرہ پر ڈال لیا اور اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھا دیا سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کیا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

۲۲۶

(لا تدخلوابیوت الذین ظلمواالاوانتم باکون )

ستمگروں کے گھروں میں داخل نہو مگر گریہ کی حالت میں ۔

ایک شخص اس انگوٹھی کو لے کر جو معذب لوگوں کے گھروں میں مقام حجر میں پا ئے تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ یا، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے منھ موڑ لیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تاکہ اسے نہ دیکھیں اور فرمایا: اسے پھینک دے، تو اس نے اسے دور پھینک دیا۔( ۱ )

اسی کے مانند واقعہ حضرت علی علیہ السلام کوبھی پیش آیا، نصر بن مزاحم وغیر ہ نے ذکر کیا ہے :

مخنف بن حضرت علی کے ہمراہ بابل سے گز ر رہے تھے تو حضرت علی نے فرمایا: بابل( ۲ ) میں ایک جگہ ہے جہاں پر عذاب نازل ہوا ہے اور زمین میں دھنس گئی ہے، اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھائو تاکہ نماز عصر اس کے باہر انجام دیں۔

وہ کہتا ہے : امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو تیزی سے آگے بڑھایا تو لوگوں نے بھی ان کی تاسی کرتے ہوئے اپنی سواریوں کو تیزی سے آگے بڑھایا اور جب آپ پل صراةسے گز ر گئے تو سواری سے اترے اور لوگوں کے ساتھ نماز عصر پڑھی ۔( ۳ )

ایک روایت میں مذکور ہے :

امیر المومین کے ہمراہ عصر کے وقت ہم پل صراة سے گز رے تو آپ نے فرمایا: یہ سر زمین وہ ہے جس پر عذاب نازل ہوا ہے اور کسی پیغمبر یا اس کے وصی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اس جگہ نماز پڑھے۔( ۴ )

ہاں! اس زمان و مکان کی برکت جسے خدا وند عالم نے اپنے مخلص بندوں میں سے کسی بندہ کے لئے مبارک قرار دیا ہے دیگر زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے جس طرح کہ نحوست اور بدبختی بھی سرایت کرتی ہے اور جس زمانے میں خدا اپنے بد بخت یا شقی بندہ پر غضب نازل کرتا ہے تو اس کی نحوست دوسرے زمان و مکان تک بھی سرایت کرتی ہے ۔

____________________

(۱) مغازی واقدی، ص ۱۰۰۶۔ ۱۰۰۸، اتک امتاع الاسماع ، ص ۴۵۴ تا ۴۵۶

(۲) بابل عراق میں کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک جگہ (شہر )ہے اور صراة نامی ندی پر بغداد سے قریب پل صراة ہے

(۳) وقعة صفین ، نصر بن مزاحم ص ۱۳۵(۴)بحار، ج۴۱ص ۱۶۸، علل الشرائع اور بصائر الدرجات کی نقل کے مطابق

۲۲۷

ہم عنقریب ''آثار عمل'' کی بحث میں کہ جس کا آئندہ ذکر ہوگا ،ملاحظہ کریں گے کہ انسان کی رفتار کے دنیا و آخرت میں دائمی آثار ہیں، یا ایندھن کی شکل میں کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، یادائمی نعمت کی شکل میں جو بہشت عدن میں ہے ،تمام ان آثار اوران کے سرایت کرنے کو اللہ کے مخلص بندے مشاہدہ اورادراک کرتے ہیں۔ اوریہ مشاہدہ انہیں نیک امور کی انجام دہی اور برائی سے بچنے میں زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے یہ سوجھ بوجھ وہی برہان الٰہی ہے کہ خدا وند عالم اپنے ان بندوںکو عطا کرتا ہے جنہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اورانہوں نے رضائے الٰہی کو اپنی نفسانی خواہشات پر مقدم رکھا ہے، اسی لئے خداکے نزدیک اسکے خالص بندے ہلاکت بار گناہ کا تصور نہیں کرتے، اس کی مثال بینا ( آنکھ والے) اور اندھے انسان کی سی ہے کہ دونوںایک ساتھ ناہموار زمین پر چلتے ہیں، واضح ہے کہ بینا انسان ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا اور اپنے نابینا ساتھی کو بھی اس سے آگاہ کرتا رہے گا تاکہ اس میں گرنے سے محفوظ رہے ۔

یا اس کی مثال اس پیاسے انسان کی ہے جس کے سامنے صاف و شفاف پانی چھلک رہا ہو اور اس کی جان اس پانی سے ایک گھونٹ پینے کے لئے لحظہ شماری کررہی ہوتا کہ پیاس کی شدت اوردل کی حرارت کو بجھا سکے۔ لیکن ایک ڈاکٹر ہے جو آلات کے ذریعہ پانی کی جانچ کرتا ہے اور اس میں مختلف قسم کے مہلک جراثیم کی خبر دیتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: اس پانی کو استعمال کرنے سے پہلے اس کا تصفیہ کرلو۔

خدا کے مخلص بندوں کی مثال اسی طرح ہے ۔ وہ لوگ برہان الٰہی کو دیکھتے ہیں نیز اعمال کی حقیقتوں اور ان کے نیک و بدکے انجام کو درک کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی بصیرت سے گناہ کی سنگینی اور اس کی پلیدگی کو درک کرتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ آخرت میں یہ گناہ مجسم آگ اور دائمی عذاب کی شکل میں ظاہرگا، ممکن نہیں ہے کہ اختیاری صورت میں ایسے بھیانک عمل کا اقدام کریں۔

اور جو شبہات عصمت انبیاء سے متعلق ذکر کئے گئے ہیں اور اسکے لئے متشابہ آیات سے استنادکرتے ہیں۔ وہ اس لئے ہے کہ بعض کی تاویل میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض کی نادرست روایات سے تفسیر کی ہے ، ہم بحث کو طوالت سے بچانے کی خاطر دونوں طرح کے چند نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں۔

۲۲۸

۴۔جھوٹی روایات جو اوریا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں

جھوٹی روایات جو اور یا کی بیوہ سے حضرت داؤد کے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیںاور خاتم الانبیاء کی طرف آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کے بارے میں جھوٹی روایات کی نسبت اور ان دونوںازدواج کی حکمت:

ہم پہلے'' اور یا ''کی بیوہ سے حضرت داؤد کی شادی اور زید کی مطلقہ سے حضرت خاتم الانبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادی ہوئی،کے بارے میں تحلیل و تجزیہ کریں گے۔

الف۔ حضرت داؤد کا ازدواج قرآن کریم میں خدا وند سبحان.سورۂ ص میں فرماتاہے:

( اصبر علیٰ ما یقولون و اذکر عبدنا داود ذا الأید انه اوّاب٭ انا سخرنا الجبال معه یسبحن بالعشی و الاشراق٭ و الطیر محشورة کل له أواب٭ و شددنا ملکه و آتینا ه الحکمة و فصل الخطاب٭ و هل أتٰاک نبؤ الخصم اذ تسوروا المحراب٭ اذ دخلوا علیٰ داود ففزع منهم قالوا لا تخف خصمان بغی بعضنا علیٰ بعض فاحکم بیننا بالحق ولا تشطط و اهدنا الیٰ سواء الصراط٭ ان هذا اخی له تسع و تسعون نعجة ولی نعجة واحدة فقال اکفلنیها و عزنی فی الخطاب٭ قال لقد ظلمک بسؤال نعجتک الیٰ نعاجه و ان کثیراً من الخلطاء لیبغی بعضهم علیٰ بعض الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و قلیل ما هم و ظن داود انما فتناه فاستغفر ربه و خرّ راکعاً و اناب٭ فغفرنا له ذلک و ان له عندنا لزلفیٰ و حسن مآب٭ یا داود انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق و لا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل الله ان الذین یضلون عن سبیل الله لهم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب )

آپ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریںاور ہمارے بندہ داؤد کو جو صاحب قدرت اور بہت توبہ کرنے والے تھے ،یاد کریں، ہم نے پہاڑوں کو ان کاتابع بنایا کہ صبح و شام ان کے ہمراہ تسبیح کرتے تھے پرندوں کو بھی ان کا تابع بنایا کہ سب کے سب ان کے پاس آتے تھے اور ان کی حکومت کو ثابت و پائدار بنایا اور انہیں حکمت عطا کی اور عادلانہ قضاوت بخشی، آیا شکوہ کرنے والوں کی داستان کہ جب محراب کی دیوار پھاند کر آگئے آپ تک پہنچی ہے؟ اس وقت جب داؤد کے پاس آئے اور وہ ان کے دیدار سے خوفزدہ ہوئے؛ انہوں نے کہا: نہ ڈرو ہم دو آدمی شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے اب تم ہمارے در میان عادلانہ فیصلہ کرو اور حق سے دور نہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یہ میرا بھائی ہے ،

۲۲۹

اس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی ہے وہ اصرار کرتا ہے کہ وہ ایک بھی میں اسے دیدوںاور بات کرنے میں مجھ پر غالب آ گیا ہے داؤد نے کہا: یقینا اس نے اپنے گوسفندوں (بھیڑوں)میں اضافہ کے لئے جو تم سے درخواست کی ہے اس نے تم پر ظلم کیا ہے اور بہت سارے شرکاء ایک دوسرے پرظلم کرتے ہیں مگروہ لوگ کہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور عمل صالح انجام دیا لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے داؤد نے یہ سمجھا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا تو انہوں نے خدا سے طلب مغفرت کی اور سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت شروع کر دی، تو ہم نے اس کی انہیں معافی دی، وہ میرے نزدیک بلند مرتبہ اور نیک انجام بندہ ہے اے دائود! ہم نے تم کو زمین پراپناجانشین بنایا؛ لہٰذا لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں ، بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روز حساب کو یکسر بھلا دیا ہے ۔( ۱ )

خلفاء کے مکتب کی روایات میں ان آیات کی تاویل

خلفاء مکتب کی روایات ان آیات کی تاویل میں جو حضرت دائودکے فیصلہ اور قضاوت کو بیان کرتی ہیں، بہت زیادہ ہیں، ذیل میں ہم صرف اس کے تین نمونے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

۱۔ وہب بن منبہّ کی روایت

طبری نے آیات کی تاویل میں وہب بن منبہ کی روایت ذکر کی ہے:

____________________

(۱) ص ۱۷۔ ۲۶

۲۳۰

جب بنی اسرائیل حضرت دائود کے پاس جمع ہوئے تو خدا وند عالم نے ان پر زبور نازل کی اور انہیں آہنگری کافن سکھایا اور لو ہے کو ان کے لئے نرم و ملائم بنا دیا، نیز پہاڑوں اور پرندوںکو حکم دیا کہ جب وہ تسبیح کریں تو تم بھی ان کے ساتھ تسبیح کرو ( منجملہ ان کے ذکر کیا ہے )کہ خدا وند عالم نے اپنی کسی مخلوق کو حضرت دائود کی طرح آواز نہیں دی ہے ( جو لحن داؤد کے نام سے مشہور ہے) وہ جب بھی زبور کی تلاوت کرتے تھے اس وقت کی یوں منظر کشی کی ہے کہ پرندے ان سے اس درجہ قریب ہو جاتے تھے کہ آپ ان کی گردن پکڑ لیتے تھے اور وہ ان کی آواز پر خاموشی اور اطمینان سے کان لگائے رہتے تھے وہ ( دائود) بہت بڑے مجاہد اور اور عبادت گز ار تھے اور بنی اسرائیل کے درمیان حا کم تھے اور خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ اور نبی تھے جو خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، انبیاء میں زیادہ زحمت کش اور کثرت سے گریہ کرنے والے تھے. اس کے بعد اس عورت کے فتنہ میں مبتلا ہو گئے، ان کی ایک مخصوص محراب تھی جس میں تنہا زبور کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھتے تھے اور اس کے نیچے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا چھوٹا سا باغ تھا او روہ عورت کہ داؤد جس کے چکر میں آ گئے اسی شخص کے پاس تھی۔

وہ جب اس دن اپنی محراب میں تشریف لے گئے ، کہا : آج رات تک میرے پاس کوئی نہیں آئے گا، کوئی چیز میری تنہائی میں خلل انداز نہ ہو ،پھر محراب میں داخل ہو ئے اور زبور کھول کر اس کی تلاوت میں مشغول ہو گئے محراب میں ایک کھڑکی یا روشن دان تھا جس سے مذکورہ باغیچہ دکھائی دیتا تھا جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور کی تلاوت کر رہے تھے تو ان کی سامنے ایک زریں کبوتر کھڑکی پر آکربیٹھ گیاآپ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور حیرت کی، پھر انہیں اپنی کہی ہوئی بات یاد آئی کہ کوئی چیز ان کی عبادت میں رکاوٹ اور مانع نہ بنے'' پھر اپنا سر نیچے جھکایا اور زبور پڑھنے لگے اور جو کبوتر حضرت داؤد کے امتحان اور آزمائش کے لئے آیا تھا ، کھڑکی سے اٹھ کر حضرت داؤد کے سامنے بیٹھ گیا، انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تووہ کچھ پیچھے ہٹ

گیا، اس کا پیچھا کیا تو کبوتر کھڑکی کی طرف اڑ گیاآپ اسے پکڑ نے کے لئے کھڑکی کی طرف گئے تو کبوتر باغیچہ کی طرف پرواز کر گیا آپ نے اس کا نگاہ سے پیچھا کیا کہ وہ کہاں بیٹھتا ہے تو اس عورت کو نہانے دھونے میں مشغول پایا ایسی عورت جو حسن و جمال ، خوبصورتی اور نازک اندامی میں بے مثال تھی، خدا اس کے حال سے زیادہ واقف ہے کہتے ہیں : جب اس عورت نے حضرت داؤد کو دیکھا تو اپنے بال پریشان کر دئے اور اس سے اپنا جسم چھپایا، پھر ان کا دل بے قابو ہو گیاتو اپنی زبور اور قیام گاہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایساہوا کہ اس عورت کی یاد دل سے محو نہیں ہوئی ،اس فتنہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عورت کے شوہر کو جنگ پربھیج دیا اور لشکر کے کمانڈر کو (اہل کتاب کے خیال کے مطابق )حکم دیا کہ اسے مہلکوں میں آگے رکھ کر اس کا کام تمام کر دے تاکہ اپنی مراد پا سکیں،

۲۳۱

ان کے پاس ۹۹ بیویاں تھیں اس عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس سے خواستگاری کی اور شادی کرلی ، خدا وند عالم نے جبکہ وہ محراب عبادت میں تھے، دو فرشتوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے ان کے پاس بھیجا تاکہ ہمسایہ کے ساتھ ان کے اس کرتوت کا ایک نمونہ دکھائے دائود نے جب ان دونوں کو محراب میں اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو خوفزدہ ہوئے اور کہا: کس چیز نے تم کو میرے سر پر سوار کیا ہے ؟ بولے، گھبرائو نہیں، ہم جھگڑنے اور تمہارے ساتھ بد سلوکی کرنے نہیں آئے ہیں ''ہم دو آدمی اس بات پر شاکی ہیں کہ ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ظلم کیا ہے '' '' ہم اس لئے آئے ہیں تاکہ ہمارے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ قضاوت کرو اور حق سے دو رنہ ہوجائو اور ہمیں راہِ راست کی ہدایت کرو یعنی ہمیں راہ حق پر چلائو اور غیر حق سے بچائو، جو فرشتہ اس عورت کے شوہر ' 'اور یا بن حنانیا'' کی طرف سے گفتگو کر رہا تھااس نے کہا: ''یہ میرا بھائی ہے '' یعنی میرا برادر دینی ہے '' اس کے پاس ۹۹ بھیڑ ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے ، لیکن یہ چاہتا ہے کہ اس ایک کوبھی میں اسے دیدوںیعنی اس کے حوالے کر دوں اور بات میں مجھ پر غالب آ گیا ہے اور مجھ سے بزور کہتا ہے کیونکہ مجھ سے قوی اور توانا ہے ، اس نے میری بھیڑ اپنی بھیڑوں کے ساتھ رکھ لی ہے اور مجھے خالی ہاتھ چھوڑ دیا ہے ، داؤد ناراض ہوئے اور خاموش شاکی( مدعی علیہ ) سے بولے: اگر یہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے ، تو کلہاڑی سے تمہاری ناک توڑ دوںگا، پھر اپنے آپ میں آئے اور خاموش ہو گئے اور سمجھے کہ اس سے مراد اس کام کا اظہار ہے جو ''اوریا'' کی بیوی کے سلسلے میں انجام دیا ہے پھر گریہ و زاری کے ساتھ سجدہ میں گر پڑے اور توبہ و انابت میں مشغول ہو گئے وہ اسی طرح سے چالیس روز روزہ کی حالت میں بھوکے ، پیاسے سجدہ میں پڑے رہے یہاں تک کہ ان کے آنسوئوں سے چہرے کے پاس سبزہ اُگ گیا اور چہرے اور گوشت پر سجدے کا نشان پڑ گیا خدا وند عالم نے انہیں معاف کیااور ان کی توبہ قبول کی۔

وہ لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ ا نہوں نے کہا: خدایا جو میں نے اس عورت کے حق میں جنایت انجام دی ہے تونے معاف کر دیا، لیکن اس مظلوم کے خون کا کیا ہوگا؟( اہل کتاب کے گمان کے مطابق) ان سے کہا گیا: اے دائود! جان لو کہ تمہارے رب نے اس کے خون کے بارے میں ظلم نہیں کیا ہے ، لیکن بہت جلد ہی اس کے بارے میں تم سے سوال کرے گا اور اس کی دیت دے گا اور اس کا بار تمہارے کاندھے سے اٹھا دے گا یعنی تمہیں سبکدوش کر دے گا، مصیبت ٹلنے کے بعد آپ نے اپنے گناہ کو داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پرظاہر کر لیااور جب بھی کھانا کھاتے یا پانی پیتے تھے اسے دیکھتے اور گریہ کرتے تھے

۲۳۲

اور جب لوگوں سے گفتگو کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے، اپنا ہاتھ کھول کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ ان کے گناہ کی علامت لوگ دیکھیں۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری کی روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیرمیں حسن بصری سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا :

داؤد نے اپنی زندگی کے ایام چار حصوں میں تقسیم کئے : ایک دن اپنی عورتوں سے مخصوص رکھا، ایک دن عبادت، ایک دن کو بنی اسرائیل کے درمیان قضاوت اورفیصلہ کے لئے اور ایک دن خودبنی اسرائیل کے لئے تاکہ وہ لوگ انہیں اور یہ ان لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں، وہ ان کو اور وہ لوگ انہیں رلائیں، ایک مرتبہ جب بنی اسرائیل کا دن آیا تو کہا : موعظہ کرو ، کہا: آیا کوئی دن انسان کے لئے ایسا گز رتا ہے جس میں وہ گناہ نہیں کرتا ہے ؟ داؤد نے اپنے اندر محسوس کیا کہ وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جب عبادت کا دن آیا دروازوں کو بند کر لیا اور یہ حکم دیا کہ کوئی میرے پاس نہ آئے ، پھر توریت پڑھنے میں مشغول ہو گئے ابھی قرائت کر ہی رہے تھے کہ ایک سنہرا کبوتر خوبصورت اوردیدہ زیب رنگوں کے ساتھ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اسے پکڑنا چاہا وہ اڑ کر کچھ دو رچلا گیا اور اتنا دور کہ ان کی دسترس سے باہر ہوگیا اور کچھ دور زمین پر بیٹھ گیاوہ اس درجہ کبوتر کے پیچھے پڑے کہ اوپر سے ان کی نظر ایک عورت پر پڑی جو غسل کرنے میں مشغول تھی اسکے جسم کی ساخت اور خوبصورتی نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ، جب اس عورت نے کوئی سایہ محسوس کیا تو اپنے جسم کو بالوں سے چھپا لیا تو ان کی حیرت اور استعجاب میں مزید اضافہ ہو گیا. اور انہوں نے اس کے شوہر کو اس سے پہلے ایک کمانڈربناکر اپنے بعض سپاہیوں کے ہمراہ محاذ جنگ پر بھیجا تھا اس کو خط لکھا کہ وہ ایسی ویسی جگہ روانہ ہو جائے اور وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی، اس نے حکم کی تعمیل کی اور وہ قتل ہو گیا تو انہوں نے ( داؤد ) اس سے شادی رچا لی۔( ۲ )

____________________

(۱) تفسیری طبری، ج۲۳، ص ۹۵۔ ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت.

(۲) تفسیر طبری ، ج ۲۳ ص ۹۶، طبع دار المعرفة ، بیروت ؛ سیوطی ، ج۵ ص ۱۴۸ ، یہ طبری کی عبارت ہے ۔

۲۳۳

۳۔یزید رقاشی کی انس بن مالک سے روایت

طبری اور سیوطی نے آیات کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ یزید رقاشی سے انہوں نے انس بن مالک سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے : یزید رقاشی کہتا ہے : میں نے انس بن مالک سے سنا کہ انہوں نے کہا:

میں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب داؤد نے اس عورت کو دیکھا تو بنی اسرائیل کو جنگ کے لئے روانہ کیا اور لشکر کے کمانڈر کو تاکید کر دی کہ: جب دشمن کے قریب پہنچ جانا تو فلاں ( اوریا) کو تابوت کے سامنے تلوار سے ما ر ڈالو، اس زمانے میں تابوت کو کامیابی کے لئے لیجایا جاتا تھا اور جو تابوت کے سامنے جاتا تھا واپس نہیں آتا تھا یا تو قتل ہو جاتا تھا یا دشمن اس سے فرار کر جاتا تھا آخر کار وہ مارا گیا اور حضرت دائود نے ا س عورت سے شادی کر لی۔

پھر دو فرشتے حضرت داؤد کے پاس آئے اور وہ چالیس دن تک سجدہ میں پڑے رہے حتی کہ ان کے آنسوئوںسے سبزہ اگ آیا اور زمین پرا ن کے چہرے کے نشان پڑ گئے، انہوںنے سجدہ میں کہا: میرے خدا! داؤد نے ایسی لغزش کی ہے کہ مشرق و مغرب کے فاصلہ سے بھی زیادہ دو ر ہے ،خدایا!اگر ضعیف و ناتوان داؤد پر رحم نہیں کرے گا اور اس کی خطا معاف نہیں کرے گا تو اسکے بعد لوگوں کی زبانوں پر اسکے گناہوں کا چرچا ہوگا جبرئیل چالیس د ن کے بعد آئے اورکہا : اے دائود! خد ا نے تمہیںمعاف کر دیا، داؤد نے کہا: میں جانتا ہو ں کہ خدا عادل ہے اور ذرہ برابر عدل سے منحرف نہیں ہوتا اگر فلاں ( اوریا) قیامت کے دن آکر کہے: اے میرے خدا! میرا خون داودکی گردن پر ہے، تو میں کیا کروں گا؟ جبرئیل نے کہا: میں نے تمہارے رب سے اس سلسلے میں سوال نہیں کیا ہے ، اگر چاہتے ہو تو ایسا کروں، کہا: ہاں ، سوال کرو، جبرئیل اوپر گئے اور داؤد سجدہ میں چلے گئے کچھ دیربعد نیچے آکر کہنے لگے: اے دائود! جس کے لئے تم نے مجھے بھیجا تھا میں نے خد اسے سوال کیا تو اس نے فرمایاداؤد سے کہو: خدا تم دو آدمیوں کو قیامت کے دن حاضر کرے گااور اس ( مظلوم) سے کہے گا جو تمہارا خون داؤد کی گردن پر ہے اسے میرے لئے معاف کر دو، وہ کہے گا: خدایا! میں نے معاف کیا ، پھر خدافرمائے گا: اس کے بدلے میں بہشت میں جو چاہتے ہو انتخاب کر لو اورجس چیز کی خواہش ہو وہ تمہارے لئے حاضرہے...۔( ۱ )

____________________

(۱)تفسیر طبری ج۲۳، ص ۹۶ طبع دار المعفة ، بیروت؛ سیوطی ، ج۵ ص ۳۰۰۔ ۳۰۱

۲۳۴

اللہ کے نبی دائود کے بارے میں تفاسیر میں منقول روایات اس طرح سے تھیںکہ جن کو ہم نے ملاحظہ کیا اب ہم اس کے اسناد کی چھان بین کریں گے۔

روایات کے اسناد کی چھان بین

۱۔وہب بن منبہ: اس کا باپ ایرانی تھا شاہ کسریٰ نے اسے یمن بھیجا تھا۔ اس کے بارے میں ابن سعد کی طبقات میں خلاصہ اس طرح ہے :

وہب نے کہا ہے میں نے آسمان سے نازل شدہ بانوے ۹۲ کتابیںپڑھی ہیں ؛ ان میں سے ۷۲ عدد کلیساؤں اور لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور بیس عدد ایسی ہیںکہ بہت کم لوگ جانتے ہیںو ہ ۱۱۰ھ میں فوت کر گیا ہے ۔

ڈاکٹرجواد علی فرماتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وہب کی اصل و اساس یہودی ہے ، وہ اپنے خیال خام میں یونانی ، سریانی ، حمیری اور پرانی کتابوں کو پڑھنا خوب جانتا تھااور کشف الظنون میں ''قصص الانبیائ'' نامی کتاب کواسی کی تالیف میں شمار کیا ہے ۔( ۱ )

۲۔ حسن بصری : ابو سعید، اس کا باپ زید بن ثابت کا غلام تھا وہ حضرت عمر کی خلافت کے آخری دو سال میں پیدا ہوا، بصرہ میں زندگی گز اری اور ۱۱۰ھ میں وفات کر گیا، فصاحت و بلاغت میں بلند مقام رکھتا تھا لوگوں اورخلافت کے نزدیک اس کی ایک حیثیت اور شان تھی اور بصرہ میں مکتب خلفاء کا پیشوا شمار ہوتا تھا۔( ۲ )

اس کے نظریات اور عقائد:

طبقات ابن سعد میں جو روایات اس کی سوانح حیات کے ذیل میں وارد ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قدریہ مذہب کا ماننے والا تھا اور اس کے بارے میں مناظرہ کیاکرتا تھا اس کے بعد اس عقیدہ سے پھر گیا تھا، وہ حجاج بن یوسف جیسے ظالموں کے خلاف قیام کو جائز نہیں سمجھتا تھا۔اس کی روایات کی اہمیت : میزان الاعتدال( ۳ ) میں اس کے بعض حالات زندگی کی شرح کچھ اس طرح ہے :

____________________

(۱) طبقات ابن سعد، طبع یورپ ، ج ۵ ص ۳۹۵ اور کشف الظنون، ص ۱۳۲۸؛ تاریخ العرب قبل الاسلام ( اسلام سے پہلے)، ڈاکٹر جواد علی، ج۱ ص ۴۴.

(۲) میں اس کی سوانح کی طرف مراجعہ کیا جائے وفیات الاعیان، ابن خلکان طبع اول، ج۱ ص ۳۵۴، طبقات ابن سعد، طبع یورپ ج ۷، ق۱، ص ۱۲۰ ملاحظہ ہو۔

(۳) ج۱ ص ۵۲۷، شمارۂ ترجمہ ۱۹۶۸

۲۳۵

حسن بصری بہت دھوکہ باز تھا، اس نے جو بھی حدیث دوسروںسے روایت کی ہے بے اعتبار اور ضعیف ہے ، کیونکہ ضرورت کے مطابق سند بنا لیتا تھا، بالخصوص ایسے لوگوں سے احادیث جیسے ابو ہریرہ اور اس جیسے لوگوں سے کہ یقینا اس نے ان سے کچھ نہیں سنا ہے محدثین نے ابوہریرہ سے اس کی روایات کو بے سند روایات کے زمرہ میں قرار دیاہے ،اورخد ابہتر جانتا ہے۔

یعنی :حسن نے جب بھی ( عن فلاں) کے ذریعہ کوئی روایت کی ہے وہ ضعیف ہے اس لئے کہ وہ یہ کہنے پر کہ '' میں نے فلاں سے سنا'' مجبور تھا، بالخصوص ایسے راوی جن سے اس نے کچھ نہیں سنا ہے جیسے اس کا ابو ہریرہ سے اور اس جیسے لوگوں سیبلا واسطہ روایت کرنا جبکہ حسن نے ان کو دیکھا نہیں ہے لیکن بلا واسطہ ان سے روایت کر تاہے ۔

ابن سعد کی طبقات میں اس کے بعض حالات زندگی علی بن زید کے توسط مذکور ہیں:

میں نے حسن بصری سے حدیث نقل کی اور اس نے اسی حدیث کودوسروں سے نقل کرتا تھا ، میں نے اس سے کہا اے ابو سعید کس نے تم سے یہ حدیث روایت کی ہے ؟ کہا: میں نہیں جانتا ، میں نے کہا: میں نے ہی اسے تم سے روایت کی ہے۔

اسی طرح ذکر کیا گیا ہے : اس سے کہا گیا: یہ جو تم لوگوں کو فتوے دیتے ہو اسکا مستند احادیث ہیں، یا پھرتمہارے ذاتی نظریات و خیالات کا نتیجہ ہیں؟ کہا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ جو فتوی بھی دوں اسے میں نے سنا ہی ہو بلکہ میری رائے اور نظر ( لوگوں کیلئے) خود ان کی رائے اور نظر سے ان کیلئے بہتر ہے ۔( ۱ )

مکتب اعتزال کا بانی واصل بن عطا (متوفی ۱۳۱ھ )اور ابن ابی العوجاء ایک مشہور زندیق حسن بصری کے مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔

ابن ابی العوجاء سے لوگوں نے کہا: اپنے استاد کامذہب چھوڑ کر ایسا راستہ اپنایا جو نہ کوئی اصل رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ! اس نے کہا: میرے استاد فریب خوردہ اور غیر معتدل تھے، کبھی قدر یہ کے طرفدار تھے تو کبھی جبریہ مسلک کے ، مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ کسی ثابت اور پائیدار عقیدہ پر باقی رہے ہوں گے۔

کوفہ کے والی نے ۱۵۵ھ میں ابن ابی العوجاء کو قتل کیا اور قتل ہونے سے پہلے اس نے کہا: مجھے قتل توکر رہے ہو، لیکن یہ بات جان لو کہ میں نے چار ہزار حدیثیں جعل کی ہیں حلال خدا کوحرام اور حرام خداکو

____________________

(۱) دونوں ہی روایت ابن سعد کی طبقات میں ہیں ، ج۸، ص ۱۲۰، طبع یورپ اور ج ۷ ، ص ۱۲۰ پر بھی مذکور ہے ۔

۲۳۶

حلال کرکے ایک دوسرے میں مشتبہ کر دیاہے،روزہ کو افطار اور افطارکو روزہ میں بدل ڈالا ہے ۔( ۱ )

۳۔ یزید بن ابان رقاشی:یہ بصرہ کا رہنے والا ایک قصہ گو اور زاہد ِ گریاں بیوقوف تھا ۔

مزّی کی تہذیب الکمال اور ابن حجر کی تہذیب التہذیب میں اس کے حالات زندگی کا خلاصہ اس طرح ہے :

الف۔ اس کے زہد کے بارے میں : وہ اپنے آپ کو بھوکا اور پیاسا رکھتا تھا، اس کا جسم ضعیف بدن نحیف اور رنگ نیلاہو گیا تھا روتا تھا اور اپنے اطراف و جوانب والوںکو رلاتا تھامثال کے طور پر کہتا تھا: آئو تشنگی کے دن ٹھنڈے پانی پر گریہ کریں وہ کہتا تھا: ٹھنڈے پانی پر ظہر کے وقت سلام ، راوی کہتا ہے : وہ ایسے کام کرتا تھا جنہیں نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے اور نہ ہی انجام دیا ہے ۔خدا وند سبحان فرماتا ہے :

( قل من حرم زینة الله التی اخرج لعباده و الطیبات من الرزق قل هی للذینآمنوا فی الحیاة الدنیا )

کہو: کس نے اللہ کی زینتوںاور پاکیزہ رزق کو جسے خدا نے اپنے بندوںکے لے خلق کیا ہے حرام کیا ہے ؟!

کہو: یہ سب دنیاوی زندگی میں مومنین کے لئے ہے( ۲ )

ب۔ اس کے نظریات: اس کا اعتقاد ضعیف اور مذہب قدری تھا۔( ۳ )

ج۔ اس کی روایات کی قیمت: ''شعبہ'' نامی ایک راوی کے بقول کہ اس نے کہا: چوری کرنا میرے نزدیک اس سے روایت کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔

اس کی روایات کے بارے میں کہاگیا ہے : اس کی روایات منکر اور مجہول ہیں، اس کی روایتیں متروک ہیںاور تحریر نہیں کی جاتیں ۔

ابو حاتم نے کہا: وہ ایک گریہ کرنے والا واعظ تھا، انس سے اس نے زیادہ روایت کی ہے ،اوریہ محل تامل و اشکال ہے، اس کی حدیث ضعیف ہے۔

تہذیب التہذیب میں مذکور ہے: ابن حبان کہتے ہیں: وہ خدا کے بندوں میں شب میں رونے والوں میں ایک اچھا بندہ تھا لیکن صحیح حدیث ضبط کرنے میں عبادت خدا کی وجہ سے غافل رہ گیا، وہ بھی اس طرح سے کہ حسن کی بات کو بر عکس کردیتا تھا اور اسے انس کے قول کی جگہ پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام سے قرار دے دیتا تھا،

____________________

(۱) وفیات الاعیان میں واصل بن عطا کے حالت زندگی اور ابن ابی العوجاء کے حالات کتاب ''ایک سو پچاس جعلی صحابی'' کی ج ۱،زندقہ و زنادقہ کی بحث میں اور ''الکنی و الالقاب'' میں ملاحظہ ہو۔(۲)اعراف۳۲(۳)طبقات ابن سعد چاپ یورپ ج۷ق۲ ص ۱۳

۲۳۷

اس کے قول سے روایت کرنا روا نہیں ہے مگر یہ کہ حیرت کا اظہار کرنا مقصود ہو، یزید بن ابان ۱۲۰ھ سے پہلے فوت ہواہے۔( ۱ )

روایات کے متن کی چھان بین

۱۔ وہب کی روایت: روایت کا خلاصہ: اللہ کے نبی داؤد نے کچھ ایام عبادت سے مخصوص کئے اورخلوت نشینی اختیار کی اورتوریت کی تلاوت میں مشغول ہو گئے ،اچانک ان کے سامنے ایک سنہرا کبوتر نمودار ہوا انہوں نے پکڑنا چاہا،لیکن اڑ کر کچھ پیچھے بیٹھ گیا داؤد اس کے چکر میں پڑ گئے اوریہاں تک کہ اس کا پیچھا کیا اسی اثنا میں اوریا ہمسایہ کی بیوی پر اچانک نگاہ پڑ گئی تو دیکھا کہ وہ نہا رہی ہے اس کے حسن و جمال سے حیرت زدہ ہو گئے ، جب عورت نے ان کے وجود کا احساس کیا تو خودکو اپنے بالوں کے اندر چھپا لیا اور یہ داؤد کی حیرت میں مزید اضافہ کا باعث ہوا،اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج کر قتل کرانے کا پلان بنایا اور اس سے شادی رچا لی پھر دو فرشتے ان کے پاس آئے اور اس کے بعد قرآن کریم کی بیان کردہ داستان ملاحظہ ہو۔

یہ راوی ایک بار کہتا ہے : ( وہب نے کہا) ، دوسری بار کہتا ہے :( اہل کتاب کے خیال کے مطابق) ان باتوں سے اس کی ذمہ داری سے خود کو دور کرتا ہے جب ہم توریت کے سموئیل کی دوسری کتاب گیارہویں اور بارہویں باب کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ داستان اس طرح ہے کہ : داؤد ''تشجیع''اوریا کی بیوی ''یتشبع''کو چھت سے دیکھتے ہیں اور اس کے حسن کو دیکھ کر لہلوٹ ہوجاتے ہیں اسے اپنے گھر بلاتے ہیں اور اس سے ہمبستری (مجامعت) کرتے ہیں اور یہ عورت ان سے زنا کے ذریعہ حاملہ ہو جاتی ہے وغیرہ...ملاحظہ کیجئے:

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب عصر کے وقت حضرت دائود اپنے بستر سے اٹھ کر بادشاہ کے گھر کی چھت پر ٹہل رہے تھے چھت کی پشت سے ایک عورت کو حمام میں دیکھا ، وہ عورت نہایت حسین و جمیل اور بلا کی خوبصورت تھی، پھر دائود نے فرستادہ کے ذریعہ اس عورت کے بارے میں سوال کیا لوگوں نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ الیعام کی بیٹی اور یا کی بیوی ہے ، دائود نے اس کے پاس افراد بھیجے وہ اس کو پکڑ کر ان کے پاس لے آئے اور دائود اس سے ہمبستر ہوئے اور وہ اپنی نجاست سے پاک ہوئی اور اپنے گھر لوٹ گئی اور دائود کے

____________________

(۱)تہذیب التہذیب ج۱۱ ص ۳۰۹۔۳۱۱

۲۳۸

فرستادہ کو مخبر بنایااور کہامیں حاملہ ہوںلہٰذادائودنے''یوآب''کے پاس کہدیا کہ ''اوریاحتی'' کو میرے پاس بھیج دو تو''یوآب'' نے اوریا کو دائود کے پاس بھیج دیا اور جب اوریا ان کے پاس پہنچا تو دائود نے ''یوآب''سے قوم اور جنگ کی سلامتی کے بارے میں سوال کیا، پھر دائود نے اوریا سے کہا: گھر جاکر پیر دھو ؤپھر ''اوریا'' بادشاہ کے گھر سے باہر گیا اس کے پیچھے بادشاہ کا دسترخوان روانہ کیا گیا لیکن اوریا اپنے گھر جانے کے بجائے بادشاہ کی دہلیز پر تمام بندوں کے ہمراہ سو رہا ،دائود کو خبر دی گئی کہ اوریا اپنے گھر نہیں گیا ہے تو دائود نے اوریا سے سوال کیا کہ کیا تم سفر سے واپس نہیں آئے ہو پھر اپنے گھر کیوں نہیں گئے ؟اوریا نے دائود سے عرض کی کہ تابوت، اسرائیل اور یہودا اپنے خیموں میں موجود ہیں اور میرے آقا ''یوآب'' اور میرے آقا کے غلام بیابانوں میں خیمہ نشین ہیں کیا میں ایسے میں اپنے گھر لوٹ جاتا اور کھانے پینے اور بیوی کے ساتھ سونے میں مشغول ہو جاتا! آپ کی حیات نیز آپ کی جان کی قسم ہے کہ یہ کام ہرگز نہیں کروں گا، دائود نے''اوریا'' سے کہا آج بھی تم یہیں رہو کل تمہیں بھیج دوں گا لہٰذا اوریا اس دن اور اسکے بعد ایک دن یروشلم میں رہا اور حضرت دائود نے اسکو دعوت دی، ان کے سامنے کھایا پیا اور مست ہوگیا پھر شام کے وقت باہر نکل گیا اور اپنے آقا کے غلاموں کے ساتھ سو گیا اور اپنے گھر نہیں گیا اور صبح تڑکے دائود نے ''یوآب'' کے نام خط لکھ کر اور یاکے ہاتھ روانہ کیا اس مکتوب میں یہ مضمون لکھا تھا کہ اوریا کو سخت جنگ کے محاذ پر آگے آگے رکھنا اور تم اس کے پیچھے پیچھے چلنا تاکہ وہ مارا جائے اور وہیں پر ہلاک ہو جائے اور جب یوآب شہر کو اپنے محاصرہ میں لیتا تھا تو اوریا کو ایسی جگہ پر رکھتا تھا جہاں اسے علم ہوتاتھا کہ یہاں پر بہادر اور شجاع لوگوںسے سامنا ہوگا، شہر کے لوگ باہر نکلے اور ''یوآب'' سے جنگ کی، جناب دائود کی قوم سے بعض سپاہی اس جگہ کام آ گئے اور یا حتی بھی مارا گیا پھر ''یوآب'' نے حضرت دائود کے فرستادہ کو جنگ کے تمام حالات سے باخبر کیا اور قاصد کو حکم دیا کہ بادشاہ کوجاکر جنگ کی تمام روداد نقل کرنا اور اگر وہ غصہ سے لال پیلے ہو کر تم سے کہیں کہ کیوں جنگ کے لئے شہر سے قریب گئے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ محاصرہ کے کنارہ سے تیر چلا دیں گے؟ کون ہے جس نے ابی ملک بن یربوشت کو قتل کر ڈالا؟ کیا کسی عورت نے چکی کے اوپری پاٹ کو حصار کے کنارے سے تو نہیں پھینک دیا کہ تاباص میں مر گیا پھر کیوں حصار سے قریب ہو گئے؟ اس وقت کہنا کہ تیرا غلام ''اوریا حتی'' بھی مر گیا ہے قاصد روانہ ہو ااور دائود کے پاس آ کر ''یوآب'' کے کہنے کے مطابق انہیں آگاہ کیا اور قاصد نے دائود سے کہا لوگ ہم پر غالبہوکرہمارے پیچھے صحرا کی طرف آ گئے، ہم نے ان پر دروازہ کے منھ تک حملہ کیا اور تیر اندازوں نے تیرے بندوں پر حصار پر سے تیر چلائے اور بادشاہ کے بعض بندے مر گئے اور تمہارا بندہ''اوریا حِتِّی'' بھی مر گیا ہے، دائود نے قاصد سے کہا: ''یوآب'' سے کہو کہ اس واقعہ سے پریشان نہ ہو اس لئے کہ تلوار بلا تفریق ان کو ، ان کو ہلاک کرتی ہے لہٰذا شہر کاڈٹ کر مقابلہ کرو اور اسے ویران کر دو پھر اسے تسلی دو ،جب اوریا کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر مر چکا ہے تو اپنے شوہر کے لئے سوگ منایا جب سوگ کے دن گز ر گئے تو دائود نے قاصد بھیج کر اسے اپنے گھر بلا لیااور وہ ان کی بیوی ہو گئی اور ان سے ایک بچہ ہوا لیکن جو کام دائود نے کیا وہ خدا کے نزدیک ناپسند قرار پایا۔

۲۳۹

بارہواں باب

خدا وند عالم نے ناتان کو دائود کے پاس بھیجا اس نے ان کے پاس آ کر کہا: کہ ایک شہر میں دو مرد تھے ایک امیر و دولتمند اور دوسرا فقیر و نادار ، دولتمند کے پاس بہت زیادہ بھیڑ اور گائیں تھیں اور فقیر کے پاس ایک مادہ بکری کے علاوہ کچھ نہیں تھا جس کو اس نے خرید کر پالا تھا وہ ان کے پاس اس کی اولاد کے ہمراہ بڑی ہوئی ان کی غذا سے کھاتی اور ان کے پیالے سے پیتی اور اس کی آغوش میں سوتی تھی وہ اس کے لئے لڑکی کی طرح تھی، ایک مسافر اس دولت مند کے پاس آیا اسے افسوس ہوا کہ اپنی گا یوں اور گوسفندوں میں سے ایک کو مسافر کے لئے ذبح کرے لہٰذا اس نے اس فقیر انسان کی بکری کو لے لیا اور مسافر کے لئے غذا کا انتظام کیا، پھر تو دائود کا غصہ اس پربھڑک چکا تھا ،ناتان سے کہا: حیات خدا وند کی قسم جس کسی نے ایسا کیا ہے وہ قتل کا حقدار ہے اور چونکہ اس نے ایسا کام کیا ہے اور کوئی رحم نہیں کیاہے لہٰذا اسے ایک کے عوض چار گنا و اپس کرنا چاہئے۔ ناتان نے دائود سے کہا وہ تم ہو اور اسرائیل کا خدا یہوہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور شائول کے ہاتھوں سے نجات دی اور تمہارے آقا کا گھر تمہیں دیا اور آقا کی عورتوں کو تمہاری آغوش کے حوالے کیا اور اسرایل و یہودا کے خاندان کو تمہیں بخشا اگر یہ کم ہوتا تو مزید اضافہ کرتا، پھر کیوںکلام خدا کو ذلیل کیا اور اس کی نظر میں برا کام انجام دیا اور ''اوریاحتی'' تلوار مار ی اور اس کی بیوی کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور اسے بنی عمون کی شمشیر سے قتل کر ڈالا، لہٰذا اب شمشیر تمہارے گھر سے دورنہیں ہوگی کیونکہ تم نے میری توہین کی ہے اور ''اوریا حتی'' کی بیوی کو اپنی بیوی بنا لیا ہے ۔

خدا وند عالم نے اس طرح کہا ہے: اب میں تم پر تمہارے گھر سے برائی عارض کروں گا اور تمہارے سامنے تمہاری عورتوں کو لے کر تمہارے پڑوسیوں کو دیدوں گا اور وہ آفتاب کی روشنی میں تمہاری عورتوں کے ساتھ سوئیںگے کیونکہ تم نے یہ کام خفیہ طور پر انجام دیا لیکن میں یہ کام تمام اسرائیل کے سامنے اورروز روشن میں انجام دوں گا ،دائود نے ناتان سے کہا: میں خداوند عالم کی قسم میں گناہ کا مرتکب ہوا ہوں ،ناتان نے دائود سے کہا :خداوند عالم نے تمہاراگناہ معاف کیا ، تم نہیں مروگے لیکن چونکہ یہ امر دشمنان خدا کے کفر بولنے کا باعث ہوا ہے لہٰذا تمہاراجو بچہ پیدا ہوگا وہ مر جائے گا، پھر ناتان اپنے گھر گیا اور خداوند نے دائود کے ذریعہ اور یاکی بیوی سے پیدا ہونے والے بچہ کو بیماری میں مبتلا کر دیا پھر دائود نے بچہ کے لئے خدا سے دعا کی اور روزہ رکھا اور پوری رات زمین پر سوئے رہے، ان کے گھر کے بزرگ اٹھے تاکہ زمین سے انہیں اٹھائیں لیکن قبول نہیں کیا اور ان کے ساتھ روٹی بھی نہ کھائی، ساتویں دن بچہ مر گیا اور دائود کے خدام خوفزدہ ہو گئے کہ کیسے دائود کو اس بچہ کے مرنے کی اطلاع دیں، اس لئے کہاکہ ابھی بچہ زندہ تھا اور ہم نے اس سے باتیں کی ہیں کیونکہ اگر یہ خبر دیں کہ بچہ مر گیا ہے تو کس درجہ رنجیدہ ہوں گے

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273